Do Farlang lambi Sadak by Krishna Chandraدو فرلانک لمبی سڑک۔ کرشن چندر

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Do Farlang lambi Sadak by Krishna Chandraدو فرلانک لمبی سڑک۔ کرشن چندر

 

 دوفرلانگ لمبی سڑک

Do Farlang Lambi Sadak By Krishna Chandra

 

کچہریوں سے لے کر لا کالج تک بس یہی کوئی دوفرلانگ لمبی سڑک ہوگی،ہر روز مجھے اسی سڑک پر سے گزرنا ہوتا ہے،کبھی پیدل، کبھی سائیکل پر، سڑک کے دورویہ شیشم کے سوکھے سوکھے اداس سے درخت کھڑے ہیں۔ان میں نہ حُسن ہے نہ چھائوں،سخت کھردرے تنے اور ٹہنیوں پر گدھوں کے جھنڈ، سڑک صاف سیدھی اور سخت ہے۔ متواتر نو سال سے میں اس پر چل رہا ہوں،نہ اس میں کبھی کوئی گڑھا دیکھا ہے نہ شگاف،سخت سخت پتھروں کو کوٹ کوٹ کر یہ سڑک تیار کی گئی ہے اور اب اس پر کول تار بھی بچھی ہے جس کی عجیب سی بو گرمیوں میں طبیعت کو پریشان کردیتی ہے۔

سڑکیں تو میں نے بہت دیکھی بھالی ہیں لمبی لمبی، چوڑی چوڑی سڑکیں برادے سے ڈھنپی ہوئی سڑکیں ،سڑکیں جن پر سرخ بجری بچھی ہوئی تھی، سڑکیں جن کے گرد سرو و شمشاد کے درخت کھڑے تھے،سڑکیں.....مگر نام گنانے سے كیا فائده اسی طرح تو ان گنت سڑكیں دیكھی ہوں گی لیکن جتنی اچھی طرح میں اس سڑک کو جانتا ہوں کسی اپنے گہرے دوست کو بھی اتنی اچھی طرح نہیں جانتا۔متواتر نوسال سے اسے جانتا ہوں اور ہر صبح اپنے گھر سے جو کچہریوں سے قریب ہی ہے اٹھ کر دفتر جاتا ہوں جو لا کالج کے پاس واقع ہے۔بس یہی دوفرلانگ کی سڑک،ہر صبح اور ہر شام کچہریوں سے لے کر لاکالج کے آخری دروازے تک، کبھی سائیکل پر کبھی پیدل۔

KRISHNA CHANDRA کرشن چندر


اس کا رنگ کبھی نہیں بدلتا،اس کی ہیئت میں تبدیلی نہیں آتی۔اس کی صورت میں روکھا پن بدستور موجود ہے۔جیسے کہہ رہی ہو مجھے کسی کی کیا پرواہ ہے اور یہ ہے بھی سچ اسے کسی کی پرواکیوں ہو؟سینکڑوں ہزاروں انسان،گھوڑے گاڑیاں ،موٹریں اس پر سے ہر روز گزر جاتی ہیں اور پیچھے کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔اس کی ہلکی نیلی اور سانولی سطح اسی طرح سخت اور سنگلاخ ہے جیسے پہلے روز تھی۔جب ایک یوریشین ٹھیکیدار نے اسے بنایا تھا۔

یہ کیا سوچتی ہے؟ یاشاید یہ سوچتی ہی نہیں،میرے سامنے ہی ان نو سالوں میں اس نے کیا کیا واقعات،حادثے دیکھے۔ہر روز ہر لمحہ کیا نئے تماشے نہیں دیکھتی،لیکن کسی نے اسے مسکراتے نہیں دیکھا،نہ روتے ہی اس کی پتھریلی چھاتی میں کبھی ایک درز بھی پیدا نہیں ہوئی۔

’’ہائے بابو! اندھے محتاج غریب فقیر پر ترس کر جائو ارے باباارے بابوخدا کے لئے ایک پیسہ دیتے جائو ارے بابا،ارے کوئی بھگوان کا پیارا نہیں، صاحب جی میرے ننھے ننھے بچے بلک رہے ہیںارے کوئی تو ترس کھائو ان یتمیوں پر‘‘۔

بیسیوں گداگر اسی سڑک کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں ۔کوئی اندھا ہے تو کوئی لنجا،کسی کی ٹانگ پر ایک خطرناک زخم ہے تو کوئی غریب عورت دو تین چھوٹے چھوٹےبچےگودمیں لئےحسرت بھری نگاہوں سے راہ گیروں کی طرف دیکھتی جاتی ہے۔کوئی پیسہ دے دیتا ہے۔ کوئی تیوری چڑھائے گزر جاتا ہے کوئی گالیاں دے رہا ہے،حرام زادے مسٹنڈے،کام نہیں کرتے،بھیک مانگتے ہیں۔

کام،بےکاری، بھیک۔

دو لڑکے سائیکل پر سوار ہنستے ہوئے جارہے ہیں ایک بوڑھا امیر آدمی اپنی شاندار فٹن میں بیٹھا سڑک پربیٹھی بھکارن کی طرف دیکھ رہا ہے،اور اپنی انگلیوں سے موچھوں کو تائو دے رہا ہے۔ایک سست مضمحل کتا فٹن کے پہیوں تلے آگیا ہے۔اس کی پسلی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔لہو بہہ رہا ہے،اس کی آنکھوں کی افسردگی ، بےچارگی اس کی ہلکی ہلکی دردناک ٹیائوں ٹیائوں کسی کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔بوڑھا آدمی اب گدیلوں پر جھکا ہوا اس عورت کی طرف دیکھ رہا ہے جو ایک خوش نما سیاہ رنگ کی ساڑی زیب تن کئے اپنے نوکر کے ساتھ مسکراتی ہوئی باتیں کرتی جارہی ہے۔اس کی سیاہ ساڑی کا نقرئی حاشیہ بوڑھے کی حریص آنکھوں میں چاند کی کرن کی طرح چمک رہا ہے۔

پھر کبھی سڑک سنسان ہوتی ہے۔صرف ایک جگہ شیشم کے درخت کی چھدری چھائوں میں ایک ٹانگے والا گھوڑے کو سستا رہا ہے۔گدھ دھوپ میں ٹہنیوں پر بیٹھے اونگھ رہے ہیں ۔پولس کا سپاہی آتا ہے ۔ایک زور کی سیٹی،او تانگے والے یہاں کھڑا کیا کررہا ہے۔کیا نام ہے تیرا ،کردوں چالان؟ہجور،ہجور کا بچہ!چل تھانے ، ہجور؟ یہ تھوڑا ہے اچھا جاتجھے معاف کیا۔

تانگے والا تانگے کو سرپٹ دوڑائے جارہا ہے ۔راستے میں ایک گورا آرہا ہے۔سر پر تیڑھی ٹوپی ہاتھ میں بید کی چھڑی،رخساروں پر پسینہ،لبوں پر کسی ڈانس کا سُر۔

’’کھڑا کردو کنٹونمنٹ۔‘‘

’’آٹھ آنے صاحب‘‘۔

’’ویل۔چھ آنے‘‘۔

’’نہیں صاحب‘‘۔

’’کیا بکتا ہے،ٹم.........‘‘۔

تانگے والے كو مارتے مارتے بید كی چھڑی ٹوٹ جاتی ہے پھر تانگے والے کا چمڑے کا ہنٹر کام آتا ہے۔لوگ اکٹھے ہورہے ہیں،پولس کا سپاہی بھی پہنچ گیا ہے۔حرام زادے، صاب بہادرسے معافی مانگو،تانگے والا اپنی میلی پگڑے کے گوشے سے آنسو پونچھ رہا ہے لوگ منتشر ہوجاتے ہیں۔

اب سڑک پھر سنسان ہے۔

شام کے دھندلکے میں بجلی کے قمقمے روشن ہوگئے ۔میں نے دیکھا کہ کچہریوں کے قریب چند مزدور،بال بکھرے،میلے لباس پہنے باتیں کررہے ہیں۔

’’بھیا بھرتی ہوگیا؟‘‘

’’ہاں‘‘۔

’’تنخواہ تو اچھی ملتی ہوگی‘‘۔

’’ہاں‘‘۔

’’بڑھئو کے لئے کمالائے گا۔پہلی بیوی تو ایک ہی پھٹی ساڑی میں رہتی تھی‘‘۔

’’سنا ہے جنگ سروع ہونے والی ہے‘‘۔

’’کب سروع ہوگی؟‘‘

’’کب؟اس کا تو پتہ نہیں،مگر ہم گریب ہی تو مارے جائیں گے‘‘۔

’’کون جانے گریب مارے جائیں گے کہ امیر‘‘۔

’’ننھا کیسا ہے؟‘‘۔

’’بخار نہیں ٹلتا،کیا کریں،ادھر جیب میں پیسے نہیں ہیں ادھر حکیم سے دوا‘‘۔

’’بھرتی ہوجائو‘‘۔

’’سونچ رہے ہیں‘‘۔

’’رام رام‘‘۔

’’رام رام‘‘۔

پھٹی ہوئی دھوتیاں ننگے پائوں، تھکے ہوئے قدم،یہ کیسے لوگ ہیں۔یہ نہ تو آزادی چاہتے ہیں نہ حریت۔یہ کیسی عجیب باتیں ہیں، پیٹ، بھوک، بیماری، پیسے قمقموں کی زرد، زرد روشنی سڑک پر پڑ رہی ہے۔

دوعورتیں،ایک بوڑھی ایک جوان،اپلوں کے ٹوکرے اٹھائے ، خچروں کی طرح ہانپتی ہوئی گزر رہیں جوان عورت کی چال تیز ہے۔

’’بیٹی ذرا ٹھہر ،میں تھک گئی.....میرے الله‘‘۔

’’اماں،ابھی گھر جاكر روٹی پكانی هے، تو تو باولی هوئی هے‘‘۔

’’اچھا بیٹی،اچھا بیٹی‘‘۔

بوڑھی عورت جوان عورت کے پیچھے بھاگتی ہوئی جارہی ہے۔بوجھ کے مارے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں،اس کے پائوں ڈگمگا رہے ہیں۔

وہ صدیوں سے اسی سڑک پر چل رہی ہے ،اپلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے،کوئی اس کا بوجھ ہلکا نہیں کرتا،کوئی اسے ایک لمحہ سستانے نہیں دیتا،وہ بھاگی ہوئی جارہی ہے اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔اس کے پائوں ڈگمگارہے ہیں اس کی جھریوں میں غم ہے ، بھوک، فکر، غلامی اور صدیوں کی غلامی!

تین چار نوخیز لڑکیاں،بھڑکیلی ساڑیاں پہنے،بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوئے جارہی ہیں۔

’’بہن،آج شملہ پہاڑی کی سیر کریں‘‘۔

’’بہن آج لارنس گارڈن چلیں‘‘۔

’’بہن آج انارکلی‘‘۔

’’ریگل؟‘‘

’’شٹ اپ یو فول‘‘۔

آج سڑک پر سرخ ملوان بچھا ہے۔آرپار جھنڈیاں لگی ہوئی ہیں ،جابجا پولس کے سپاہی کھڑے ہیں کسی بڑے آدمی کی آمد ہے۔جبھی تو اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے لڑکے نیلی پگڑیاں باندھے سڑک پر دورویہ قطاروں میں کھڑے ہیں۔ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی جھنڈیا ں ہیں۔ان کے لبوں پر پپٹریاں جم گئی ہیںان کے چہرے دھوپ کی حدت سے تمتما اٹھے ہیں۔اسی طرح کھڑے کھڑے وہ ڈیڑھ گھنٹہ سے بڑے آدمی کا انتظار کررہے ہیں۔جب وہ پہلے پہلے یہاں سڑک پر کھڑے ہوئے تھے تو ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔اب سب چپ ہیں۔چند لڑکے ایک درخت کی چھائوں میں بیٹھ گئے تھے۔اب استاد انھیں کان سے پکڑ کر اٹھا رہے ہیں۔شفیع کی پگڑی کھل گئی تھی ،استاد اسے گھور کر کہہ رہا ہے۔او شفی!پگڑی ٹھیک کر،پیارے لال کی شلوار اس کے پائوں میں اٹک گئی ہے اور ازار بند جوتیوں تک لٹک رہا ہے۔

’’تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے پیارے لال‘‘۔

’’ماسٹر جی پانی‘‘۔

پانی کہاں سے لائوں ،یہ بھی تم نے اپنا گھر سمجھ رکھا ہے۔دو تین منٹ اور انتظار کرو،بس ابھی چھٹی ہوا چاہتی ہے۔

دومنٹ،تین منٹ،آدھ گھنٹہ‘‘۔

ماسٹر جی پانی۔

ماسٹر جی پانی۔

ماسٹر جی بڑی پیاس لگی ہے۔

لیکن استاد اب اس طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے وہ ادھر ادھر دوڑتے پھر رہے ہیں۔لڑکو ہوشیا رہوجائو۔دیکھو جھنڈا اس طرح ہلانا،ابے تیری جھنڈی کہاں ہے؟قطار سے باہر ہوجا،بدمعاش کہیں کا......سواری آرهی هے۔

موٹر سائیكلوں كی پھٹ پھٹ ،بینڈ کا شور، پتلی اور چھوٹی جھنڈیاں بےدلی سے ہلتی ہوئی،سوکھے ہوئے گلوں سے پژمردہ نعرے۔

بڑا آدمی سڑک سے گزر گیا،لڑکوں کی جان میں جان آگئی ہے اب وہ اچھل اچھل کر جھنڈیاں توڑ رہے ہیں،شور مچارہے ہیں۔

خوانچے والوں کی صدائیں،ریوڑیاں،گرم گرم چنے، حلوہ پوری،نان، کباب۔

ایک خوانچے والا ایک طرے والے بابو سے جھگڑ رہا ہے۔مگر آپ نے میرا خوانچہ الٹ دیا۔میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔میرا تین روپے کا نقصان ہوگیا میں غریب آدمی ہوں، میرا نقصان پوراکردیجئے تو میں جانے دوں گا۔

صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں بھنگی سڑک پر جھاڑو دے رہا ہے۔اس کے منہ اور ناک پر کپڑا بندھا ہے۔جیسے بیلوں کے منھ پر جب وہ کولہو چلاتے ہیں وہ گرد و غبار میں اٹا ہوا ہے اور جھاڑو دئے جارہا ہے۔

میونسپلٹی کا پانی والا چھکڑا آہستہ آہستہ سڑک پر چھڑکائو کررہا ہے۔ چھکڑے کے آگے جتے ہوئے دوبیلوں کی گردنوں پر زخم پیدا ہوگئے ہیں۔چھکرے والا سردی میں ٹھٹھرتا ہوا کوئی گیت گانے کی کوشش کررہا ہے۔بیلوں کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ابھی سڑک کا کتنا حصہ باقی ہے۔

سڑک کے کنارے ایک بوڑھا گداگر مراپڑا ہے۔اس کے میلے دانت ہونٹوں کے اندر دھنس گئے ہیں ۔اس کی کھلی ہوئی بےنور آنکھیں آسمان کی طرف تک رہی ہیں۔

خدا کے لئے مجھ غریب پر ترس کرجائو رے بابا۔

کوئی کسی پر ترس نہیں کرتا ۔سڑک خاموش اور سنسان ہے۔یہ سب کچھ

دیکھتی ہے،سنتی ہے،مگر ٹس سے مس نہیں ہوتی۔انسان کے دل کی طرح بےرحم، بےحس اور وحشی ہے۔

انتہائی غیظ و غضب کی حالت میں اکثر میں سوچتا ہوں کہ اگر اسے ڈائنامیٹ لگا کر اڑا دیا جائے تو پھر کیا ہو۔ایک طرف بلند دھماکے کے ساتھ اس کے ٹکڑے فضا میں پرواز کرتے نظر آئیں گے۔اس وقت مجھے کتنی مسرت حاصل ہوگی،اس کا اندازہ نہیں کرسکتا۔کبھی کبھی اس کی سطح پر چلتے چلتے میں پاگل سا ہوجاتا ہوں ۔چاہتا ہوں کہ اسی دم کپڑے پھاڑ کر ننگا سڑک پر ناچنے لگوں اور چلا چلا کر کہوں ’’میں انسان نہیں ہوں، میں پاگل ہوں ،مجھے انسانوں سے نفرت ہے،مجھے پاگل خانے کی غلامی بخش دو۔میں ان سڑکوں کی آزادی نہیں چاہتا۔

سڑک خاموش ہے اور سنسان ۔بلند ٹہنیوں پر گدھ بیٹھے اونگھ رہے ہیں یہ دو فرلانگ لمبی سڑک!

**********

 

Post a Comment

0 Comments