Importance of Timeقدر و قیمت وقت

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Importance of Timeقدر و قیمت وقت

 

قدر و قیمت وقت

Importance of Time

اے شیخ کیا ڈھونڈے ہے شب قدر کا نشان

ہر شب ہے شب قدر اگر تو ہو قدردان

Importance of Time


صوفیائے کرام فرماتےہیں"الوقتُ سَیف قاَطع" حکما کا قول ہے کہ زمانہ سیّال ہے۔ اسی کس آن سکون نہیں۔ خدا ڈراتا ہے کہ تم کہیں رہو، موت تمہیں نہیں چھوڑے گی۔ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ ہر ایک کام کا وقت ہے مگر انسان موت کا وقت نہیں جانتا۔ انبیاءکرام بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وقت سے ہو شیار رہو۔ وقت کی خبر رکھو وقت کو برباد  نہ کر۔ وقت کو غیر مفید باتوں میں صرف نہ کرو۔ گھڑی گھڑی لحظہ لحظہ لحظہ کا تمہیں حساب دنیا پڑ ے گا۔

حکماءو علما و دانشمند بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وقت کی قدر کرو۔ اسے ضائع نہ ہونے دو۔ تاریخ بھی ہم کو یہی سبق دیتی ہے۔ صدیوں کا تجربہ بھی ہم کو یہی سکھاتا ہے کہ دنیا میں جس قدر کامران و کامیاب ہستیاں گزرچکی ہیں ۔ان کی کامیابی و ناموری کا راز صرف وقت  کی قدر اور اس کا صحیح استعمال تھا۔

وقت گزرتے ہوئے واقعات کا ایک دریا ہے۔ اس کا بہاؤ اور زبردست ہے۔ جونہی کوئی چیز اس کی زد میں آتی ہے۔ اس کی لہریں اُسے اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔ پھر اور کوئی شئے اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ لیکن وہ بھی اسی طرح بہہ جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے ہاتھ صدیاں ریت کے ذرّوں کی طرح گرتی ہیں۔

نگہدار فرصت کہ عالم و مے است

دَمے پیشِ عالِم بہ از عالمے است

یہ ایک مشہور مثا ہے کہ "اَلوَقتُ مِن ذَھَب" یعنی وقت بھی ایک سونا ہے۔ اور یہ تو صرف ان لوگوں کے لیے صحیح ہے جو موجودات کی قدر و قیمت محض قیاس تصور کے ذریعے ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ پاکیزہ خیالات و نظریات اور اچھے افکار کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں تو وقت کی قیمت بہت گراں ہے۔ ان کے نزدیک "وقت" کا مقام بہت بلند اور ارفع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "اَلوقتُ ھُوَالحَیَات" یعنی وقت ہی زندگی ہے۔ اے انسان ! ذرا سوچ تو سہی کہ اس دنیا میں تیری زندگی کیا ہے؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ تیری زندگی اس دنیا میں تو صرف پیدائش اور موت کےدرمیان کا تھوڑا سا غیر یقینی اور بے اندازہ وقفہ ہے۔ اے انسان ! تیری عقل اس بارے میں تیری کچھ بھی رہنمائی نہیں کرتی کہ تو"وقت: اور "سونے" کی حقیقت اور ان کے امتیازی فرق کو پہچان سکے۔ سونا تو آنے جانے والی چیز ہے۔ وہ تیرے ہاتھ سے نکل بھی جاتا ہے، اسے تو کھو بھی بیٹھتا ہے، یہ دوبارہ بھی حاصل ہو سکتا ہے اور پہلے سے کئی گناہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جو وقت کہ گزر چکا ہے اور جو زمانہ بھی کہ چلا گیا ہےوہ کسی صورت اور کسی قیمت پر بھی واپس نہیں آ سکتا۔ تو ذرا انصاف سے سوچ کہ کیا وقت سونے سے زیادہ مہنگا نہیں؟ کیاوقت الماس سے زیادہ مہنگا نہیں؟ کیا یہ ہر چیز سے زیادہ گراں نہیں؟ یاد رکھ کہ دُنیا کے تمام اغراض و جواہر وقت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وقت کے مقابلے میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ کیونکہ وقت ہی تو سونا اور جوہر نہیں ، بلکہ ای انمول زندگی ہے۔

نہ کر عمر کی اک بھی ضائع گھڑی

کہ ٹوٹی لڑی جب کہ چھوٹی کڑی

گنوائے گا عاقل نہ بے کار دِن

کہ انسان کی ہے زندگی چار دن

Importance of Time


کامیابی کسی تھوڑے سے وقت یا پے در پے کام کرنے پر ہی موقوف نہیں ہے۔بلکہ وقت کی مناسب تقسیم پر ہی منحصر ہے ۔ ہر کام اپنے وقت پر پورا ہو۔ کام میں بے جا تقدیم و تاخیر بھی غفلت کے مترادف ہے۔ اس لیے اہل عقل کے نزدیک قبل از وقت کوئی کام کرنا، یا بے جا تاخیر کرنامخدور و متروک ہے۔ ہر عمل اپنے وقت مقررہ اور مناسب انداز کے مطابق ہونا چاہئے۔"وَاللّٰہ یُقَدِّرُ اللّیل والنّھار: دن اور رات کا وقت اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے۔ اس لیے غافلین کو اللہ تعالیٰ نے زبردست زجرو توبیخ فرمائی ہے اور ان کی عاقبتِ بَداور خسارے کو پُر زور الفاظ میں ادا کیا ہے۔ ترجمہ آیت پاک۔ "ہم نے اس قسم کے بہت سے انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں۔ جن کے دل ایسے ہیں جن سے وہ بہیں سمجھتے۔ اُن کی آنکھیں ایسی ہیں جو نہیں دیکھ سکتیں۔اور ان کے کان ایسے ہیں جن سے وہ سن نہیں سکتے۔ وہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں ۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ یں اور لوگ غافل ہیں۔"حضرت فاروق اعظمؓ دُعا فرماتے تھے۔یا اللہ! اوقاتِ زندگی میں برکت دے اور انہیں صحیح مصرف پر لگانے کی توفیق عطا فرما۔"حضرت رسول کریم ؐ کی حدیث مبارک کا ترجمہ"کوئی دن ایسا نہیں جب وہ طلوع ہوتاا ہے مگر یہ کہ وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے انسان! میں ایک نو پید مخلوق ہوں۔ میں تیرے عمل پر شاہد ہوں مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہے تو کر لے۔میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔"نیز آنحصور سرورِ کائنات کا فرمان ہے۔"مومن کے لیے دو خوف ہیں، ایک" عاجل" جو گزر چکا ہے۔ معلوم نہیں خدا س کا کیا کرے گا؟ اور ایک "اجل" جو ابھی باقی ہے۔ معلوم نہیں اللہ اس میں کیا فیصلہ صادر فرامائے؟ تو انسان کو لازم ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لیے اور دنیا سے آخرت کے لیے، جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے قبل از موت کچھ نفع حاصل کر لینا چاہیے۔

وقت کی رفتار ہو محسوس یہ دشوار ہے

یہ زمیں چلتی ہے تیزی سے مگر ہلتی ہیں

پس اے عزیز! وقت کی قدر کر اور عم کو غنیمت شمار کر۔ خواب غفلت سے بیدار ہو اور ہوشیاری سے میدانِ عمل میں کود جا، عمل کر اور بے عمل نہ بن ، بے عملی قوتوں کو موت کی نیند سُلا دیتی ہے۔ وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔

نگہ دار فرصت کہ عالم دَمے ست

دَمے پیش عالم بہ ازعا لمے است

در زندگی بکوش ہمیں دم غنیمت است

زیرا کہ روزِ مرگ بکس آشکارا نیست

وقت کو رائیگا کوھنے والے کہہ دیا کرتے ہیں۔

ذکر خدا و کارِ جہاں، یاد رفتگاں

دو دن کے اس قیام میں کیا کرے کوئی

لیکن انہیں یاد رہے کہ وقت سے کام لینے والے اس تھوڑی سی زندگی میں مُوجد بن گئے۔ فلاسفر بن گئے بزرگانِ دین اور اولیا بن گئے۔ دین و دُنیاکے مالک بن  گئے۔ برخلاف اس کے جتنے ننگے ، بھوکے اور فاقہ کش تم دنیا میں دیکھ رہے ہو، یہ سب وہی لوگ ہیں، جنھوں نے بچپن میں اپنے وقت کو رائگاں کھویا ہے۔ اس کی ایک بنیادی ٹیڑھی اینٹ نے ان کی تمام زندگی کی عمارت کو ٹیڑھا کر دیا۔ بیکار کھویا ہوا ایک لمحہ عمر بھر کے ننّھے سے پودے کی کئی شاخوں کو کاٹ ڈالتا ہے۔

موت کیا ہے؟ جس کا بے حس و حرکت اور ٹھنڈا ہو جانا ۔ جو لوگ ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ کر، بے کار بیٹھ کر یا سو سو کر وقت گزارتے ہیں۔ ان مردوں اور مُردوں میں فرق ہی کیا ہے۔

ایک وقت میں ایک ہی کام کمکمل طور پر کرنا کئی نا مکمل کاموں کا خون کر دینے سے بہتر ہے۔

وقت ہمارے پاس اسی طرح آتا ہے جیسے کوئی دوست بھیس بدل کر آتا ہے اور چپ چاپ بیش قیمت تحفہ جات اپنے ساتھ لاتا ہے۔ لیکن اگر ہم ان سے فائدہ نہیں اُٹھا تے تو وہ چپکے سے مع اپنے تحائف کے واپس چلا جاتا ہے۔ اور پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ ہر صبح کو ہمارے لئے نئی نئی نعمتیں آتی ہیں۔ لیکن اگر ہم کل اور پرسوں کی چیزیں منظور نہیں کر سکتے تو ہم ان سے فائدہ اُٹھا نے روز بروز نا قابل ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی خوبیوںکو سمجھنے اور ان کو کام میں لانے کی طاقت جو ہم میں ہے، رفتہ رفتہ زائل ہو جاتی ہے۔ کھوئی ہوئی تندرستی ڈاکٹر اور دوا کی مد سے واپس آ سکتی ہے۔ لیکن کھویا ہوا وقت لاکھ کوشش کرنے پر بھی دو بارہ حاصل نہیں ہو سکتا ہے اور ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ بعد میں انسان کو یہ پرانا سبق حاصل ہوتا ہے۔ "پن چکی" اس پانی سے نہیں چل سکتی جو بہہ گیا ہو۔

من نمی گویم زیاں کُن یا بفکر سُود باش

اے زر فرصت بے خبر در ہرچہ باشی زُود باش

فضول کاموں سے ایک گھنٹہ روزانہ بچا کر معمولی آدمی بھی کسی سائینس کو پوری طرح اپنے قابوں میں کر سکتا ہے۔ دن میں ایک گھنٹہ ہر روز خرچ کرکے جاہل سے انسان بھی دس سال میں ایک درجے کا باخبر اور عالم و فاضل بن کستا ہے۔ ایک گھنٹے میں ایک معمولی لڑکا خوب اچھی طرح سمجھ کر ایک کتاب کے بڑے بیس صفحے اور اس حاسب سے سال بھر میں سات ہزار صفحے پڑھ سکتا ہے۔ غرض ایک گھنٹہ روزانہ کی بدولت ایک حیوانی زندگی کا ر آمد اور مسرت بھری انسانی زندگی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اور ایک گھنٹہ روزانہ کام کرکے ایک گمنام شخص ایک مشہور آدمی اور ایک ناکارہ آدمی قوم کا مُحسن بن سکتا ہے۔

درد ستبِ فقیر نیست نقد سے جُز وقت

آں نیز گراز دست دہدوا سے برو



ایک اور دھوکا ہے جو انسان کو وقت کے ضائع کرنے کی شرم اور افسوس سے بچاا رہتا ہے اور وہ لفظ کل ہے جس کے لیے کہا گیا ہے کہ انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے "جو کل کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں اتنی حماقتوں ، اتنی وعدہ خلافیوں، اتنی خشک اُمیدوں، اتنی غفلتوں، اتنی بے پروائیوں اور اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کے لیے جو اب دہ ہو ۔ کیونکہ اس کی آنے والی "کل" یعنی فردا نہیں آتی۔ اور وہ فردئے قیامت یا گزری ہوئی"کل" یعنی دیر و زبن جاتی ہے۔ اور پچھلی کل کو ہم کبھی واپس نہیں بلا سکتے۔ اور فردائےقیامت یا گزری ہوئی "کل" یعنی دیر و زبن جاتی ہے۔ اور پچھلی کل کو ہم کبھی واپس نہیں بلا سکتے اور فردائے قیامت نہایت دور ہوتی ہے۔ ان دونوں قسمکی کل کو ہم "آج" میں مستغرق نہیں کر سکتے ۔ وقت جب ایک دفعہ مرگیا تو اس کو پڑا رہنے دو۔ اب اس کے ساتھ اور کچھ نہیں کرنا ہے، سواءے اس کے کہ اس کی قبر پر آنسو بہاؤ۔ اور آج کی طرف لوٹ آؤ۔مگر لوگ اس کی طرف نہیں لوٹتے اور عملاً فردا کو کبھی امروز نہیں ہونے دیتے۔

ہر شبے گویم کہ فردا ترکِ ایں سودا کُنم

بازچُوں فرداشود امروز را فرد اکُنم

ایک ہندی شاعر کا بے نظیر مقولہ ہے۔

کل کرے سو اج کر،آج کرے سو اب

پل میں پرے ہوئےگی پھر کرے گا کب

وقت گزر جانے پر افسوس بے نتیجہ ہے۔ پھر پچتیائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ مُشتے کہ بعد از یاد آید ب کلّہ، خود باید زد۔ مود پر اتنا افسوس نہیں ہوتا، جتنا کہ وقت کے فوت پر۔ دوزخی یہی کہیں گے"اے خدا تو ہمیں ایک بار پھر دنیا میں بھیج دے۔

کیا تم کو زندگی سے محبت ہے؟ اگر ہے تو وقت کو برباد نہ کرو ۔ کیونکہ اسی کا نام زندگی ہے۔ اور ایکساعت کی بربادی سے جو نقصان ہوتا ہے بقائے دوام بھی اس کی تلافی نہیں کر سکتی۔ اور یہ کمی کبھی پوری نہیں ہوتی۔ سچ یہ ہے کہ وقت کو ضائع کرنا ایک طرح کی خود کشی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خود کشی ہمیشہ کے لیے زندگی سے محروم کر دیتی ہے اور تضیع اوقت ایک مھدود زمانے تک زندہ کو ُردہ بنا دیتی ہے۔ یہی منٹ۔ گھنٹے اور دن جو غفلت اور بے کاری میں گردجاتے ہیں۔ اگر انسان حساب کرے تو اُن کی مجموعی تعداد مہینوں بلکہ برسوں تک پہنچتی ہے۔ اگر کسی سے کہا جائے کہ تیری عمر سے دس پانچ سال کم کر دیئے گئے تو  یقیناً اس کو سخت صدمہ ہوگا۔ لیکن وہ معطل بیٹھا ہوا خود اپنی عمر عزیز کو برباد کر رہا ہے۔ مگر اس کے زوال و فنا پر کچھ افسوس نہیں کرتا اور دائمی سوز و گداز میں مبتلا رہتا ہے۔

عمر عزیز قابل سوز و گداز نیست

ایں رشتہ را مسوز کہ چندیں در از نیست

آنکہ مصرف میکند پیدا برائے سیم و زر

کاش نقدِ وقت را ہم مصرفے پیدا کُند

اگرچہ وقت کا بیکار کھونا عمر کا کم کرنا ہے۔ لیکن اگر یہی ایک نقصان ہوتا تو چنداں غم نہ تھا ۔کیونکہ دنیا میں سب کو عمرِ طویل نصیب نہیں ہوتی  لیکن بہت بڑا نقصان وہ کسارا جو بے کاری اور تصنیع اوقات سے ہوتا ہے۔ وہ ہے کہ بے کار آدمی کے خیالات نا پاک اور زبوں ہو جاتے ہیں اور طرح طرح کے عوارضِ جسمانی و رُحانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

 مرد بے کار یا شود دُزد یا شود بیمار

حرص و طمع، ظلم و ستم ، قمار بازی، حق تلفی و نا فرمانی زناکاری، و شراب خوری عموماً وہی اشخاص کرتے ہیں جو معط لو بے کار رہتے یں۔ انسان کچھ نہ کچھ کرنے کے واسطے بنیا گیا ہے۔ہر کسے راہبر کارے ساختند جب تک ان کی طبیعت اور دل و دماغ بیک اور مفید کام میں مشغول نہ ہوگا، اس کا میلان ضرور بدی اور معصیت کی طرف رہے گا۔ پس انسان اگر انسان بننا چاہتا ہے اور زندگی کو بآرام بسر کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو سب کاموں  سے مقدم کام اس کے واسطے یہ ہے کہ وہ اپنے وقت پر نگران رہے۔ ایک لمحہ بھر بھی فضول نہ کھوئے اور ہر کام کے لیےایک وقت اور ہر وقت کے لئے ایک کام مقرر کر دے۔ ورنہ جو شخص وقت کو برباد کرے گا، وقت اس کو برباد کر دے گا۔

ایک آپ غور کریں گے تو نوّے فیصد لوگ صحیح طور پر یہ نہیں جانتے کہ وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ کہاں اور کیوں صرف کرتے ہیں۔

فرینکلن نہایت محنتی، ان تھک کام کرنے والا، ازحد پابند اوقات اور ایک منٹ بھی ضائع نہ کرنے والا تھا۔ اپنے کھانے اور سونے کے لیے کم سے کم وقت جو دیا جا سکتا تھا، دیتا تھا۔ جب وہ بچ ہہی تھا توا یک مرتبہ اپنے والد کے زیادہ دیر تک کھان کھانے کے میز پر بیٹھے رہنے پر ایک پیالے پر کدا سے برکت مانگنے پر گھبرا کر اپنے والد سے یہ پوچھا" کیا آپ تمام پیسے ہی پر ایک دم ہمیشہ کے لیے برکت نیں مانگ سکتے؟ اس طرح بہت سا وقت چ جائے گا۔" اس نے اپنی سب سے اچھ تصانیف جہاز میں سفر کرتے ہوئے لکھی ہیں۔

موجودہ وقت خام مسالے کی مانند ہے جس سے آپ جو کچھ چاہیں بنا سکتے ہیں۔ گزشتہ زمانے کے متعلق افسوس مت کرو۔ یہ بے سود ہے۔ آئندہ زمانے کے خواب بھی مت دیکھو کہ یہ موہوم ہیں۔ وقت کو پیچھے سے مت پکڑو، ہاتھ نہ آئے گا۔ بلکہ آگے سے روک کر اس کو قابو میں لاؤ اور گزرے ہوئے سے تجربہ حاصل کرو اور سبق سیکھو۔ اس کے متعلق ایک مشہور انگریز شاعر کے خیالات کو ترجمہ درج ذیل ہے۔

زیر و بالا دیکھنا ہر گز تجھے شایاں نہیں

فکر ماضی اور مستقبل کا دے دل سے نکال

تجھ کو کیا لینا ہے ماضی اور استقبال سے

کام کو حال سے ہے کام کی ہے چیز حال

حال ہی خوشحال کر سکتا ہے گر ہے حالِ بَد

حال رکھ دل میں آسانی و دقت کا خیال

حال استقبال کا پہلا قدم ہے یا د رکھ

حال استقبال کو دم بھر میں لیتا ہے سنبھال

گزشتہ کواب و آئندہ خیاست

ہما ں دم راغنیمت داں کہ حالست

وقت دولت ہے ہمیں اس کے متعلق اسلاف کا سلوک کرنا واجب نہیں جس طرح ہم کوئی روپیہ یا اشرفی فضول نہیں پھینکتے۔ ایس طرح ہمیں وقت کا کوئی حصہ بھی بے سود نہ خرچ کرنا چاہئے۔کونکہ وقت کی بربادی نہ صرف دولت ہی کی بلکہ طاقت کی بھی بربادی ہے۔ سُستی نسلوں کو اس طرح کھا جاتی ہے، جس طرح لوہے کو زنگ۔ زندہ آدمی کے لیے بے کاری زندہ درگور ہونا ہے۔ ہمیشہ اپنے آ؛ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھو ورنہ تمہارا ضمیر آزاد ہو کر کسی ایسی خرابی کے گڑھے میں گرائے گا، جس سے تمہیں سنبھالنا دشوار ہو جائے گا اور تم نے کبھی اس گراوٹ کی خرابی کا اندازہ بھی نہ کیا ہوگا۔ کیونکہ مشغولیت ہی انسانی زندگی کی محافظ اور بے کاری برائی کی مترادف ہے۔ کیونکہ ہدی بڑی آسانی سے اس رُوح میں اُتر جاتی ہے جو شغل سے خالی ہو۔

نہ ہو کام کچھ اور دن ہو تمام

تو ڈوبا وہ دن اور اُجڑی وہ شام

نہ تو کل کے افسوس میں آج رو

کہ کل رونے بیٹھے گا پھر اج کو

داناؤں کے رجسٹروں میں "کل" کا لفظ کہیں نہیں ملتا۔ البتہ بیوقوفوں کی جنتریوں میں یہ بکثت مل سکتا ہے ۔ عقلمندی اس لفظ کو قبول نہیں کرتی اور نہ سوسائٹی اس کو منظور کرتی ہے۔ یہ تو محض بچوں کا بہلاوا ہے کہ فلاح کھلونا تم کو کل لے دیا جائے گا۔ یہ ایسے لوگوں کے استعمال میں آنے والی چیز ہے جو صبح سے شام تک خیالی پلاؤ پکاتے رہتے یں اور شام سے صبح تک خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ کامیابی کی شاہراہ پر بے شمار اپاہج سکتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنی تمام عمر "کل" کے تعاقب کرتے ہوئے کھو دی اور اپنی قبرا پنی اپنے ہاتھوں سے کھو دی ۔ ہم اسی دھوکے میں ہاتھ دھوئے بیٹھے رہے کہ "کل" ہمارے لیے اچھی اچھی نعمتیں اور فائدہ مند اشیا لائے گی۔ لیکن یہ محض دھوکے کی ٹٹی نکلی۔

وہ آدمی جو دونوں ہاتھ اپنی جیبوں میں ڈال کر قیمتی وقت ضائع کرتا ہے جب کہ دوسرے کام کر رہے ہوں تو وہ بہت جدل اپنے ہاتھ دوسروں کی جیب میں ڈالے گا۔

"کل" شیطان کا مقولہ ہے۔ تواریخ کے تمام اوراق "کل" کے شاندار شکاروں سے پُر ہیں۔ حیف ہے ان بد نصیب انسانوں پر جن کی تجاویز صرف اس "کل" کے لفظ نے پوری نہ ہونے دیں۔"کل"کا لفظ سست الوجود نالائقوں اور بدبختوں کی جائے پنا ہے۔ لندن افریقن اسوسی ایشن نے سیّاح لیڈر یارد کو افریقہ بھیجنے کی تجویز کی۔ اس سے دریافت کیا گیا کہ تم کب تک جانے کے لیے تیار ہو سکتے ہو؟ اُس نے جواب دیا "کل صبح تک"۔ پھر جان جورس سے پوچھا گیا کہ تم کب تک جہاز پر شامل ہو سکتے ہو؟ اُس نے جواب دیا"ابھی"۔ چنانچہ اسی کو بھیجا گیا۔ جو بعد میں ارل سینٹ وئیسنٹ بن گیا اور لیڈر یارد "کل" کی وجہ سے محروم رہ گیا    ؂

ماندم کہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر

یک لمحہ غافل بودم و صد سالہ راہم دُور شد

آج کرنے کے لائق فرض کو کل تک ملتوی کرنے میں جو طاقت برباد ہوتی ہے اسی طاقت سے اکثر وہ کام کیا بھی جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کام کو جو ملتوی ہوتا آیا ہے، سر انجامدینا مشکل اور نا خوشگوار ہوجاتا ہے۔جو کام وقت پر آسانی سے کیا جا سکتا ہے وہ ہفتوں اور مہینوں تک پڑا رہنےکے باعث وبالِ جان معلوم ہونے لگتا ہے۔اس کا وزن ہر روز بڑھتا جاتا ہے  اور غفلت ہر روز نا طاقتی بڑھاتی جاتی ہے۔ مثل ہے کہ وقت پر کام ایک ٹانکا سو ٹانکوں سے بچا لیتا ہے۔ خطوط کا جواب جس آسانی سے ان کے آتے ہی دیا جا سکتا ہے ویسا کبھی نہیں دیا جا سکتا۔ ملتوی کرنے کے معنی اکثر ترک کرنے کے ہوتے ہیں۔ اور کرنے کو ہوں کا مطلب نہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوءی سیارہ اپنی گردش میں ایک سیکنڈ کی بھی دیر کر دے تو بس قیامت آجائے۔ تمام نظام شمشی، اجزام فلکی اور دنیا کا کارخانہ اسی پابندیٔ وقت اور باقاعدگی پر قائم ہے۔زمین اپنے پچاس کروڑ میل کے دُوردراز سفر کو کس با قاعدگی کے ساتھ پورا کرتی ہے۔ اور اس میں مقررہ وقت سے ایک سیکند کے لاکھویں حصے کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی اور ہزارہا سال سے یہ اسی باقاعدگی سے اپنا کام کرتی چلی آئی ہے۔

نپولین اعظم اُس اعلیٰ موقع پر جو ہر لڑائی میں رُنما ہوتا ہے۔ بہت زور دیا کرتا تھا اور اسی سے فائدہ اٹھا کر میدان مار لیا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اہل آسٹریا کو میں نے اسی طرح فتح کیا ہے کہ اُنہیں پانچ منٹ کی قدر و قیمت معلوم نہ تھی۔ جن چھوٹی چھوٹی باتوں سے کود نپولین کو واٹر لو کے میدان میں شکست ہوئی، اُن میں سب سے نمایا بات یہ تھی کہ اس مہلک صبح کو نبولین اعظم اور اس کے جرنیل کروگی نے چند بیش قیمت لمحات ضائع کر دیئے تھے۔ بلو شرمیدانِ جنگ میں وقت پر پہنچ گیا اور کروگی وقت سے چنگ منٹ پیچھے پہنچا ۔ یہی چند لمحات کی دیر نپولین کو سینٹ ہلینا میں بھیجنے والی اور کروڑہا انسانوں کی قسمت میں دن رات کی تبدیلی پیدا کرنے والی ثابت ہوئی۔

الغرز وقت  وہ قیمتی سرمایہ ہے جو ہر شخصکو قدرت کی طرف سے یکساں عطاء ہوا ہے۔ جو لوگ اس سرمائے کو معقول طور سے اور مناسب موقع پر کام میں لاتے ہیں ۔ وہی جسمانی راحت اور رُحانی مسرّت حاصل کر تے ہیں۔ اسی دولت کے صحیح استعمال سے ایک وحشی مہذب بن جاتا ہے۔ اور ایک مہذب فرشتہ سیرت ۔ اسی کی برکت سے جاہل، عالم، مفلس، تونگر، نادان ، دانا و تجربہ کار بنتے ہیں۔ گویا وقت ہی ایک ایسی دولت ہے، جو شاہ و گدا، امیر و غریب ، طاقتور اور کمزور سب کو یکساںملتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments