Makhdoom Mohiuddin Inquilab ka Mughni

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Makhdoom Mohiuddin Inquilab ka Mughni

مخدوم محی الدین: انقلاب کا مغنّی

Makhdoom Mohiuddin Inquilab ka Mughni

سید فرید احمد نہری : شعبہ اردو،ملیہ سینئر کالج بیڑ


Syed Fareed Ahmed Nahri

ہر انقلابی شخص رومانی ہوتا ہے لیکن ہر رومانی انقلابی نہیں ہوتا۔ یعنی حال سے غیر مطمئن اور مستقبل کے بارے میں خوش آئند تصورات رکھنے والا ہر انقلابی شخص رومانی ہوتا ہے، چاہے ہر رومانی انقلابی نہ ہو۔ انقلاب کے مغنّی ابو سعید محمد مخدوم محی الدین الخُدری ایک رومانی شخص تھے، مگر ایسے رومانی جنھوں نے نہ صرف انقلاب کے لےے اپنی سی جدوجہد کی بلکہ آخر دم تک کرتے رہے مخدوم محی الدین ہمارے دور کی ایک اہم شخصیت ہے۔ انھوں نے اپنے نظرےے اور اپنے افکار کی عملی صورت کے حصول کے لےے اپنی زندگی کھپادی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کوئی تبدیلی و تغیر برپا ہونے والا ہوتا ہے تو زمام کارنوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اور ان میں سے بھی وہ نوجوان جو ایک متعینہ اور واضح مقصد کی خاطر اور پانے نصب العین کے حصول کے راستے میں اپنی آرزوؤں تمناوؤں اور اپنے عیش و آرام حتّیٰ کے خود اپنے کو قربان کردینے کا جذبہ رکھتے ہوں مخدوم کہتے ہیں۔

کم بخت اجل تھی یہ جوانی کی قباَ میں

ٹکڑے ہیں کسی دل کے بھی نقسِ کف پا میں

کسی نظریے سے وابستگی کا مطلب اس نظرےے سے متعلق مخلص ہونا ہے ۔ اخلاص کے بغیر قربانی کا کوئی تصور نہیں۔دوہرا طرز عمل ہو تو ایثار و قربانی اور اخلاص کی ضد ہے۔ یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ مخدوم محی الدین اپنے اصول و نظریات سے مخلص تھے اور اسی اخلاص نے انھیں انقلاب کا مغنّی بنا یا تھا۔

نظم ” مشرق “ کا آخری شعر

اس زمینِ مَوت پروردہ کو ڈھایا جائے گا

اک نئی دنیا نیا آدم بنایا جائے گا

مخدوم کو ئی قوال نہ تھے کہ دوسروں کو تو وجد میں لائیں اور خود دُھرپَد الاپتے بیٹھیں،نہ وہ محض تخیلی دنیا کے شاعر تھے کہ جس کاکوئی سرا عملی دنیا سے نہیں ملتا۔ مخدوم نے دبے کچلے پسے غریب، مفلس، درماندہ اور استحصال کا شکار انسانوں کی بات ہی نہ کی بلکہ ان کو اس صورت حال سے نکالنے کی جدو جہد میں خود ان کے ساتھی بن کر  بے زرو مال اور بے عیش و آرام جیتے رہے۔

ان کی صاحبزادی ذکیہ کہتی ہیں:

چچا باوا کو صرف ان کی گھریلو زندگی کے آئینے میں دیکھنا ان کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہوگا ان پر ہم بھائی بہن ہی کا نہیں بلکہ لاکھوں محنت کشوں کا بھی حق تھا

ذکیہ مزید کہتی ہیں:

اتنے بڑے شاعر اور لیڈر ہوتے ہوئے بھی ان کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ گھر کا سودا لانے میں بھی تکلف نہ ہوتا ۔ جلانے کی لکڑی تک اٹھا لاتے اور پھر نصرت و ظفر کو ڈانٹتے کہ انھیں گھر کے کام کاج میں عار کیوں ہوتا ہے؟

شاذ تمکنت رقم طراز ہیں:

مخدوم کی گھریلو زندگی سیدھی سادی قانع، مطمئن اور آسودہ تھی ۔آسودہ ان معنوں میں کہ وہ لمحۂ نقد کو خوشی کی ٹکسال میں بھنانے کے فن سے واقف تھے۔ وہ زندگی سے آخر وقت تک کہیں شاکی نہیں رہے۔ ان کی نجی پریشانیاں کچھ کم نہ تھیں ،لیکن وہ ان سے رنجیدہ نہیں تھے، بلکہ خوش اس بات پر رہتے تھے کہ خِلقی طور پر انہیں خوش رہنے کی توفیق عطا ہوئی تھی۔

مخدوم محی الدین: حیات اور کارنامے صفحہ ۲۲،۳۲

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ ایام ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان اد لتے بدلتے رہتے ہیں یعنی انقلاب انسانی زندگی کی شناخت ہے۔ مخدوم بھی مکمل تبدیلی یعنی انقلاب کے خواہاں تھے۔

مخدوم کے خاندان کا شجرہ ٔنسب مشہور صحابی حضرت ابوسعید الخدریؓ سے ملتا ہے۔ حیدرآباد کا یہ خاندان مذہبی فکر کا حامل تھا، مگر جہاں بھی شدت آجاتی ہے ، وہاں باغی کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ جبر نے بغاوت کو راہ دی اور مخدوم اشتراکی فکر سے متاثر ہوئے۔ وہ اشتراکی فکر اور نطریات کے راسخ العقیدہ ترجمان شاعر تھے۔مخدوم کی شاعری ان کی زندگی کے رومانی پہلو اور ان کی اشتراکی فکر سے ان کی والہانہ وابستگی کی آئینہ دار ہے۔ وہ ولی کی تعریف کرتے ہیں ، ان کی شوق انگیز اور عاشق مزاجانہ رومان پر ورشاعری کی وجہ سے اور اقبال کی شاعری کو صور اسرافیل سے تعبیر کرتے ہیں، ان کی انقلابی فکر کی وجہ سے حالانکہ اقبال اشتراکی شاعر نہ تھے۔

راج بہادر گوڑ مخدوم کے بارے میں کہتے ہیں:

"مخدوم کے پاس آرزو ہے،مگر غم آرزو نہیں ۔حال کی نا آسودگی سے وہ تڑپ جاتے ہیں ، لیکن ایک لمحہ کے لےے قنوطیت کا شکار نہیں ہوئے، کیوں کہ وہ مستقبل سے مایوس نہیں۔وہ امید سے خوشی اور جد و جہد سے اعتماد حاصل کرتے ہیں۔

مخدوم محی الدین کی شخصیت کے دو الگ الگ پہلو تھے۔ ان دونوں پہلوؤں کا توازن اور امتزاج ان کی شخصیت اور شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔

راج بہادر گوڑ کہتے ہیں:

مخدوم شاعر انقلاب ہے مگر وہ رومانی شاعری سے بھی دامن نہیں بچاتا بلکہ اس نے زندگی کی ان دونوں حقیقتوں کو اس طرح یکجا کردیا ہے کہ انسانیت کے لےے بے پایاں محبت کو انقلاب کے مورچوں پر ڈٹ جانے کا حوصلہ ملتا ہے۔ مخدوم شیشے کے محل میں رہنے والا شاعر نہیں وہ انقلاب اور اس کے آدرش کی حمایت میں بڑی بے باکی سے لکھتا ہے اسی لےے اس کی شاعری اتنی پر اثر ہے کہ لاکھوں کے دل کی آواز بن گئی۔

مخدوم کا فطری میلانِ طبع رومان پرور تھا۔ چونکہ عشق میں بے خطر کود پڑنے کا جذبہ ہوتا ہے، اسی طرح انقلاب کے تصورات میں بھی یہ عنصر نمایاں حد تک کارگر محسوس ہوتا ہے، اس لےے مخدوم کے پاس عشق اور انقلاب ایک دوسرے میں سموئے ہوئے ملتے ہیں۔

مخدوم نے سرخ انقلاب کے تعلق سے بہت سے خواب دیکھے تھے جن کا انہوں نے زندگی بھر انتظار کیا۔ اسے ہم مخدوم کی زبانی سنتے ہیں۔

ابھی دماغ پہ قحبائے سیم و زر ہے سوار

ابھی رکی ہی نہیں تیشہ زن کے خون کی دھار

٭٭٭

شمیم عدل سے مہکیں یہ کوچۂ و بازار

گذر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے


جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں مخدوم کی ابتدائی شاعری کا مطالعہ ہمیں رومان پر و فطرت کے مالک مخدوم سے متعارف کراتا ہے۔ عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت ان کی شاعری میں ایک سرمستی اور فطری جذبہ انقلاب نمودار ہونا ضروری تھا۔

جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں مخدوم کی ابتدائی شاعری کا مطالعہ ہمیں رومان پر و فطرت کے مالک مخدوم سے متعارف کراتا ہے۔ عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت ان کی شاعری میں ایک سرمستی اور فطری جذبہ انقلاب نمودار ہونا ضروری تھا۔

نظم ”جنگ“ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

نکلے دہانِ توپ سے بربادیوں کے راگ

باغِ جہاں میں پھیل گئی دوزخوں کی آگ

اب دلہنوں سے چھین لیا جائے گا سہاگ

اب اپنے آنسوؤں سے بجھائیں وہ دل کی آگ

خود اپنی زندگی پہ پشیماں ہے زندگی

قربان گاہِ موت پہ رقصاں ہے زندگی

 نظم ”زلف چلیپا“ کے اشعار پر بھی نظر ڈال لیجئے:

کتنی ماؤوں کی سہانی گودیاں ویراں ہیں آج

فرقِ گیتی پر نظر آتا ہے پھر کانٹوں کا تاج

زرگری کا رقص ہے سود و زیاں کا رقص

ہر گلی کوچے میں مرگِ ناگہاں کا رقص ہے


فسطائیت اور سامراجیت سے پرے،مخدوم محی الدین ایک نئے اور بہتر نظام کو قائم کرنے کی بات کرتے ہیںسامراجی قوتوں اور سوشلسٹ قوتوں کے درمیان تصادم کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ یقین بھی رکھتے ہیں کہ شوشلسٹ قوتوں کی فتح ہوگی، اس طرح دنیا میں امن قائم ہوگا اور اخوت و محبت کے جذبات قائم ہوں گے۔

سرِ پُر نِخوت ِ ارباب زماں توڑوںگا

شورِ نالہ سے درِ ارض و سماں توڑوں گا

ظلم پرور،روشِ اہل جہاں توڑوں گا

عشرت آباد امارت کا مکاں توڑوں گا

توڑ ڈالوں گا میں زنجیر اسیرانِ قفس

دہر کو پنجۂ عسرت سے چھڑانے دے مجھے

(باغی)

مخدوم محی الدین اپنے شعر ی رویوں کے پس پردہ اپنے انقلابی مشن کو برتتے اور کمیونزم کی دہائی دیتے ہوئے سرخ انقلاب کی بات کرتے ہیں۔

لو سرخ سویرا آتا ہے

آزدی کا آزادی کا

گلنار ترانہ گاتا ہے

آزادی کا آزادی کا

دیکھو پرچم لہراتا ہے

آزدی کا آزادی کا

یہ جنگ ہے جنگ آزادی کا

آزادی کے پرچم کے تلے


یہ بحثیں بارہاہوچکی ہیں کہ فن کو پروپیگنڈے کے لےے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں بات یہ ہے کہ اگر فنی خوبیوں کے ساتھ کسی نظرےے یا ازم کی بات ہو تو یقینا قابل تحسین ہے۔

مخدوم کے کلامِ انقلاب میں فن اور نظریہ کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ’ چاند تاروں کا بن‘میں موضوع کی تلخی کے باوجود اسلوب میں نغمگی و غنائیت پائی جاتی ہے۔ اس میں بیرونی سامراج کو دیس نکالا کرنے اور مقامی حکومتوں سے چھٹکارا پانے کا تصور حاوی ہے۔ اور یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ مطوبہ انقلاب نہیں آیا مگر شاعر نے ہمت نہیں ہاری۔ یہ نظم اپنی موسیقیت، غیر معمولی اثر انگیزی اور شاعر کے رجائی لہجے کی غمّازہے۔

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن

رات بھر جھلملاتی رہی شمع ِصبح وطن

رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن

تشنگی تھی مگر

تشنگی میں بھی سرشار تھے

ملکی و بین الاقوامی حالات کی دگر گوں کیفیات کی تاریکی میں مخدوم کی آواز روشنی کی ایک لکیر بن کر ابھرتی ہے۔ اس شعاعِ امید نے بہت سے دلوں میں اجالا کیا مخدوم کے خیالات اور ان کا بے پناہ خلوص دکن کے اکثر نوجوانوں کے فکر و عمل پر بھی پڑا۔

مخدوم نے حرکت و عمل کا پیغام دیا تھا اس کا مصداق ان کا یہ شعر:

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

جب ملک کو آزادی کرانے کی تحریکیں مختلف سطحوں پر برپا تھیں غلامی کا احساس اور آزادی کا جذبہ ہر محب وطن کے دل میں پیدا ہو چکا تھا وطن کوآزاد کرانے کا جذبہ مخدوم کی اس آواز کے ساتھ ظاہر ہوا جو آواز جو عزم و خود اعتمادی کے عنصر کو لےے ہوئے تھی۔

وہ ہندی نوجواں یعنی علمبردارِ آزادی

وطن کا پاسباں وہ تیغِ جوہردارِ آزادی

وہ ٹھوکر جس سے گیتی لرزہ بر اندام رہتی ہے

وہ دھارا جس کے سینے پر عمل کی ناؤ بہتی ہے

چھپی خاموش آہیں شور محشر بن کے نکلی ہیں

بدل دی نوجوانِ ہند نے تقدیر زنداں کی

مجاہد کی نظر سے کٹ گئی زنجیر زنداں کی

(آزادی وطن )

مخدوم کی انقلابی شاعری ایک نئی دنیا کی بشارت کا نغمہ سناتی ہے۔ ان کے مطابق زندگی کی نعمتیں کسی ایک طبقے کا حق نہیں بلکہ سب کا حق ہیں۔ مخدوم نوجونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ایسا جہان جس کا اچھوتا نظام ہو

ایسا جہان جس کا اخوت پیام ہو

ایسا جہان جس کی نئی صبح و شام ہو

ایسے جہاں نو کا تو پروردگار بن

                                                                        (جہانِ نو)

سرمایہ داری، فاشزم ایک دوسرے سے نبردآزما ہوئے تو آخر میں ساری دنیا جنگ کی لپیٹ میں آگئی۔مخدوم نے اس وقت ”جنگ،موت کا گیت ،روح مغفور،زلف چلیپااور سپاہی“ جیسی نظمیں لکھیں۔ انھوں نے سرمایہ داری اور جنگ کی تباہ کاریوں کے خلاف احتجاج کیا اور انقلاب کو انسانیت کے لےے ضروری امر بتایا۔

اے جانِ نغمہ! جہاں سوگوار کب سے ہے

ترے لےے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے

ہجوم ِ شوق سرِ رہگزار کب سے ہے

گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

                                                                                    (انقلاب)

یہ امرواقعہ ہے کہ تاریکی کے بعد اجالا یقینی ہے۔ مخدوم کو بھی یقین ہے کہ رات کی تاریکی دور ہوگی صبح کا اجالا نمودار ہوگا۔

رات کے ماتھے پہ افسردہ ستاروں کا ہجوم

صرف خورشید درخشاں کے نکلے تک ہے

مخدوم استحصالی روےے کے خلاف ذہن سازی کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

دیکھے:

نغمے شرر فشاں ہوں اٹھا آتشیں رباب

مضرابِ بے خودی سے بجا ساز انقلاب

معمارِ عہد نو ہو ترا دستِ پرُ شباب

باطل کی گردنوں پہ چمک ذوالفقار بن

                                                                                                (جہانِ نو)

مخدوم کہتے ہیں:

ہم نے روایت کی دیواریں توڑدی تھیں اور ادب کو زندگی کا رفیق بنا چکے تھے ادب میں ہمارا نقطہ نظر ہی بدلا ہوا تھا۔ اسی طرح نئی نسل کا اس ادب سے متاثر ہونا ضروری تھا۔

مزید کہتے ہیں:

شروع سے میں ترقی پسندی کے انسپریشن کے تحت شعر کہہ رہا ہوں۔ اس دور میں جب کہ سامراج کے خلاف آزادی کی جدو جہد، طبقاتی جدوجہد، ہماری نجی زندگی، عشق، عشق کی محرومیاں سب کچھ شامل ہیں۔ ترقی پسندی کے مفہوم میں آفاقیت آگئی تھی جنگ اور امن کو موضوع بنایا ، غزل سے بندھے ٹکے الفاظ نکال کر اس کو نئی تلمیحات اور استعارے دےے ، نیا جمال و جلال دیا۔

بقول پروفیسر امیر عارفی:

مخدوم کی زندگی جس نشیب و فراز سے گزری ہے ہند و پاک کا اگر کوئی دوسرا شاعر اس طرح کی زندگی بسر کرتا تو وہ یا تو سیاسی زندگی ترک کردیتا یا پھر شاعری ،لیکن مخدوم ایک ایسا البیلا شاعر ہے جس نے دونوں کے ساتھ پورا پورا انصا ف کیا۔

سفر جاری ہے............ انقلاب کے مغنّی مخدوم محی الدین کے یہ پر عزم رِجائیت والے الفاظ کو زادِ سفر کے طور پر ساتھ لے جایے۔

رات تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے

صبح کا کچھ اجالا، اجالا بھی ہے

ہمد مو!

ہاتھ میں ہاتھ دو

سوئے منزل چلو

منزلیں پیار کی

 منزلیں دار کی

 کوئے دلدار کی منزلیں

 دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اُٹھائے چلو


SyedFareed Ahmed Nahri, 

Ass. Professor, Dept. of Urdu 

Milliya Arts Science Management Science College

 431122 (Maharashtra)


Post a Comment

0 Comments