Maulana Azad ka Tasawwor-e-Quamiyat مولانا آزاد کا تصور قومیت

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Maulana Azad ka Tasawwor-e-Quamiyat مولانا آزاد کا تصور قومیت

مولانا آزاد کا تصور قومیت

 سید فرید احمد نہری

 شعبۂ اردو، ملّیہ سینئر کالج بیڑ۴۳۱۱۲۲

نحمد و نصلی علی رسولہ الکریم ،اعوذباللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم

وَمَن یّبْتغ غِیرَالاِسلام دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنہُ ج  وَھُوَفیِ الْاٰخِرَۃ ِمِنَ الخٰسِرِیْن (آل عمران آیة ۵۸)

ترجمہ:جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا ۔

Maulana Abul Kalam Azad مولانا ابوالکلام آزاد
بلد الامین مکّہ معظمہ جیسے مقدس و محترم شہر میں جہاںا براھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے رب العالمین کے حکم سے تمام عالم انسانیت کو توحید کے مرکز بیت اللہ کی طرف پکارا تھا، ساز زندگی سے ہم کنار ہونے والا ایک بچہ محی الدین آگے چل کر امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے ہندوستان کے کروڑوں انسانوں کی دلوں کی دھڑکن بنا ۔ بے آب و گیاہ وادی اور درشت و شدید صحرائی موسم میں پہلی بار آنکھ کھولنے، ابتداًآب زم زم سے سیراب ہوتے رہنے اور بعد میں بنگال کی سر سبز ،بھینی بھینی راتیں اور کلکتہ جیسے شہر کی ہنگامہ خیزی اور رنگا رنگی کے درمیان عمر کی اگلی منزلیں طے کرنے والی یہ منفرد و ممتاز شخصیت ،فیاضی قدرت اورفیضان رحمانی کے بے مثال نمونہ تھی، جس کا خمیر مختلف اور متضاد عناصر سے اٹھا تھا۔جس میں پہاڑی ندی کی سی شور انگیزی اور آبشار کی سی صلابت بھی تھی اور میدانی دریا کا سا بظاہر پر سکون بہاؤ اور سبزۂ نودَمیدہ پر ڈیرہ جمائے ہوئے شبستان کاسانرم پھیلاؤبھی، عربی خُو کی گرمی و تندی اور رزمیت و مضبوطی بھی تھی اور عجمی مزاج کی نرمی و ملائمت اور بزمیت و گداختگی بھی، آزادی بھی تھی اور پابندی بھی۔

Asst. Pro. Sayed Fareed Ahmed Nahriسید فرید احمد نہری
۱۹۱۲ءمیں ملّت اسلامیہ کے لےے مولانا اسلام کے روشن پہلو کو ظاہر کیا۔ دین اسلام کی عظمت و افادیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں۔

ہمارے ملکی بھائی اپنے اندر صرف قومیت اور سیاست کی روح پیدا کرکے زندگی کی روح پیدا کرسکتے ہیں، اسی طرح اورقومیں بھی، لیکن مسلمانوں کی تو علحدہ قومیت نہیں جو کسی خاص نسل و خاندان یا زمین کی جغرافیائی تقسیم سے تعلق رکھتی ہو، ان کی ہر چیز مذہب یا بہ الفاظ مناسب تر، ان کا تمام کاروبارصرف خدا سے ہے،پس جب تک وہ اپنے اعمال کی بنیاد مذہب کو نہیں قرار دیں گے اس وقت تک نہ ان میں قومیت کی روح پیدا ہوگی اور نہ وہ اپنے بکھرے ہوئے شیرازے کو جمع کرسکیں گے،آج دنیا قوم و وطن کے نام سے اپنے لےے جو تاثیر رکھتی ہے، مسلمانوں کے لےے وہ صرف اسلام یا خدا کے لفظ میں ہے“۔(الہلال :کلکتہ:جلد ۱ شمارہ ۱۵،اکتوبر۲۳/۱۹۱۲ءص۶،۷)

الہلال“کے ۹۲ستمبر ۲۱۹۱ءکے شمارے میں مولانا آزاد نے ایک قاری کے سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا:

آپ پوچھتے ہیں کہ آج کل ہندؤو ں کے دو پولیٹکل گروہ موجود ہیں، ان میں سے آپ کس کے ساتھ ہیں؟ گزارش ہے کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں، بلکہ صرف خدا کے ساتھ ہیں، اسلام اس سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے کہ اس کے پیرؤوں کو اپنی پولیٹکل پالیسی قائم کرنے کے لیے ؤوں کی پیروی کرنی پڑے۔ مسلمانوں کے لےے اس سے بڑھ کر شرم انگیز سوال نہیں ہو سکتا کہ وہ دوسروں کی پولیٹکل تعلیمات کے آگے جھک کراپنا راستہ پیدا کریں۔ ان کو کسی جماعت میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں، وہ خود دنیا کو اپنی جماعت میں شامل کرنے والے اور اپنی راہ پر چلانے والے ہیں اور صدیوں تک چلا چکے ہیں۔ وہ خدا کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو ساری دنیا ان کے سامنے کھڑی ہو جائے گی۔(الہلال : جلد ۱ شمارہ۹ ستمبر ۲۹ /۱۹۱۲ء)

دنیا شاہد ہے کہ مختلف قسم کے تصورات قومی و ملّی دنیا میں آئے او رچلے گئے مگر نجارت و کامرانی کی منزل کا حصول تو صرف اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب افراد انسانی اپنی نجات کے لےے کوشاںرہیں۔وہ انقلاب زمانہ کی بات دیگر لوگوں تک پہنچادیں ۔جس طرح ابولکلام آزاد نے اپنی فکر الہلال اور البلاغ کے توسط سے پیش کرنے کی کوشش کی اس کے ذریعے مولانا حساس دلوں میں بیداری کی شمع جلائی۔

الہلال“ کے ذریعے مولانانے قرآنی تعلیمات کو پیش کیا ۔ قرآن کااصلی رتبہ و منصب ملّت اسلامیہ پر واضح کیا۔ مولانا نے سیاسی مسائل کو بھی سلجھانا چاہاا ور دوسری طرف اسلامی اصول ان کے پیش نظر رہے۔ مولانا آزاد ملّت کو سیدھی راہ پر منصبِ حقیقی کی طرف راغب کرتے رہے ۔ آزاد نے الہلال اور البلاغ کو ملّت کے جگانے کا ایک ایسا آلہ بتایا جو قرآن و حدیث س سنت کو سامنے رکھ کر ملّت کو خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شاندار ماضی کا احساس دلایا۔

عراق، مصر، شام اور ترکی کے سفر کے دوران مولانا کی ملاقات بعض مقتدر ہستیوں سے ہوئی جس نے ان کے دل میں اسلام کے رنگ روپ کو اور زیادہ واضح شکل دی، اور ان کے دل میں ملّت کی تڑپ اور اس کی بقاءاور بہبود ی کاخیال اور بڑھ گیا۔مولانا،مسلمانوں میںبے اصولی کے رجحان سے بہت فکر مند تھے۔ مولاناچاہتے تھے کہ مسلمانوں میں اسلامی اصولوں کی پیروی عام ہوجائے جس سے وہ اپنی حقیقت کو پہچان سکیں۔

جب اسلامی دنیا میں تصور جمہوریت کا غلغلہ ہونے لگتا ہے تو مولانا ’الہلال‘ ۲۰ جولائی ۱۹۱۲ءکے شمارے میں رقم طراز ہیں۔

یہ وہ سوالات ہیں، جو قدرتی طور پر اس موقع پر پیدا ہوتے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں کے اندر تمام اسلامی ممالک میں جمہوریت اور آزادی کی تحریکیں سر سبز ہوئیں ، ایران اور ترکی میں پارلیمنٹس قائم ہوگئیں اور باربار یہ ظاہر کیا گیا کہ اسلام خود اپنے جمہوریت اور مساوات کے اصول رکھتا ہے........“

اسلام کے ماننے والے بعض لوگ رائج نظریات کو عین دین سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ اسلام میں شورائیت ہے، جمہوریت کا موجودہ مغربی تصور نہیں۔ ”جمہور“ کے معنٰی تو صائب الرائے لوگوں کی اکثریت کے ہیں۔ سروں کو گننے کا سلسلہ نام نہاد مغربی جمہوریت کی دین ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں۔

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے


ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بعض اشخاص کمیونزم کے معاشی نظام کو بھی اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور اسلامی شوشلزم کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو اجتماعِ ضدّین کی ایک مثال ہے۔مولانا نے اپنی تحریروں میں دینی فکر و نظر کی بات بہ بانگ دہل کہنی شروع کی مگر جب جمہوریت کا راگ الاپا جانے لگا تو ان کو نام نہاد اکثریت کے ساتھ مفاہمت کرنے ہی میں اسلام اور مسلمانوں کا مفاد نظر آنے لگا۔ حالات کے ظاہری پہلو اور صورت حال کے جبر نے اسباب کی سطح پر انھیں یہ ماننے پر مجبور کیا کہ قومیت کے موجودہ نظام میں قومیت کے اندر قومیت کی بات کرنا امت مسلمہ کو سیاسی اور معاشی سطح پر خطرے میں ڈالنا ہے۔انھوں نے حالات کا جائزہ لے کر دیکھا کہ جس” اسلامی قومیت“ کی وہ بات کرتے رہے اسکے حصول کے لےے ہجرت اور علحدہ ”دارالاسلام“ کا قیام بحالت موجودہ ناممکنات میں سے ہے۔ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ اگر کوئی حقیقی”دارالاسلام“ بظاہر اور بفرض محال مل بھی جائے تو بر صغیر کے تمام مسلمانوں کی ہجرت اور نقل مکانی کی حیثیت ایک خواب سے زیادہ نہیں ہے۔ چنانچہ انھوں نے یہی مناسب اور محفوظ طریقہ سمجھا کہ علحدہ قومیت کے بجائے علحدہ شناخت یعنی  اسلامی شناخت کے ساتھ اسی جگہ ٹِکے رہنے میںامت مسلمہ کا بھلا ہے۔ امت مسلمہ کا حقیقی فرض منصبی تودعوت الی اللہ ، امر بالمعروف نہی عن المنکر ہے۔ یعنی اللہ کے بندوں کو اللہ کی ناراضی اور اس کے غضب سے بچانے کی کوشش میں لگے رہنا ہے لیکن مولانا آزاد نے غالباً یہ دیکھا کہ فی الوقت حالات اس کے لےے ساز گار نہیں ہیں، اس لئے اپنے ابتدائی” اسلامی قومیت“ کے نظرےے کے برخلاف بحالت موجودہ متحدہ قومیت پر اکتفا کرنے ہی میں بھلائی ہے۔

تقسیم ہند کے حالات لاکھوں انسانوں کی نقل مکانی کی کوشش میں قتل عام ، فساد فی الارض کی صورت حال نے ان کی فکر کے صحیح ہونے پر مہر لگادی۔پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن اب تک بھی یہاں سے نقل مکانی کرکے وہاں جانے والوں کو، حالانکہ وہ مسلمان ہی تھے، اور ان کی آئندہ نسلوں کو بھی، مقامی نہیں بلکہ ’مہاجر‘ ہی کہا جاتا ہے۔

مولانا آزاد ایک مخلص انسان تھے۔ انھوں نے جس وقت جس بات کواصولاًصحیح اور فائدہ مند سمجھا اسے بیان کیا اور اس پر کاربند بھی رہے۔ میں آخر میں مولانا ابوالکلام آزادی کی جامع مسجد ، دلّی کی یادگار تقریر جو اکتوبر ۷۴۹۱ءمیں کی گئی تھی۔ اس کا آخری حصہ پیش کروں گا۔

عزیزو! میرے پاس تمہارے لےے کوئی نسخہ نہیں ہے وہی پرانا نسخہ ہے جو برسوں پہلے کا ہے۔ وہ نسخہ جس کو کائنات انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا ، وہ نسخہ ہے قرآن کا یہ اعلان کہ  وَلا تھِنُوا وَلاَتحزَنُوا وَاَنْتُمُ الْلاَعْلوَنَ اِن کُنتُم مُّؤمِنینَ (آل عمران ۹۳۱)

دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔

اس طرح کہتے ہوئے انھوں نے گویا ” اسلامی شناخت“ کے اصرار پر قائم رہنے کی تاکید کی۔ افسوس مگر اس بات کا ہے کہ یہاں ہماری اسلامی شناخت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

وما علینا الاالبلاغ۔

 


SyedFareed Ahmed Nahri, 

Ass. Professor, Dept. of Urdu 

Milliya Arts Science Management Science College

 431122 (Maharashtra)

Post a Comment

0 Comments