اردو کے اُن ادیب و شعراء کا مختصر تعارف جنہوں نے خودکشی کی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
شکیب جلالی (1933-1966)
یکم اکتوبر 1934ء کو اتر
پردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے شعور کی
آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ لیکن
والدہ کی حادثاتی موت نے سید حسن رضوی کے ذہن پر کچھ ایسا اثر ڈالا کہ وہ شکیب
جلالی بن گئے۔ انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی
ایسی جو لو دیتی تھی جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔ شکیب جلالی نے محض 32 سال کی عمر
میں سرگودھا اسٹیشن کے پاس ایک ریل کے سامنے کود کر خودکشی کر لی اور اس طرح شعلوں
سے لہلہاتے ہوئے ایک شاعر کا خاتمہ ہو گیا۔ موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا:
تونے کہا نہ تھا کہ میں
کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ
مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
ان کا ایک اور شعر:
موت نے آج خود کشی کر لی
زیست پر کیا بنی خدا جانے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شبیر شاہد (1949-1974)
شبیر شاہد سدہارتھ ناول
سے متاثر، 1974ء کی ایک صبح دریائے راوی کی طرف گئے اور آج تک واپس نہیں آئے۔ ان
کا ایک شعر:
فرطِ حیرت سے بھرا گھر
دیکھتا رہ جائے گا
ہم چلے جائیں گے دروازہ
کھلا رہ جائے گا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سارا شگفتہ (1954-1984)
سارہ شگفتہ 31 اکتوبر
1954 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی تھیں۔ ان
کی شاعری کی مرغوب صنف نثری نظم تھی جو ان کے ایک الگ اسلوب سے مرصع تھی۔ غریب اور
ان پڑھ خاندانی پس منظر کے باوجود وہ پڑھنا چاہتی تھی مگر میٹرک بھی پاس نہ کر
سکیں۔ان کی سوتیلی ماں، کم عمر کی شادی اور پھر مزید تین شادیوں(ان کے دو شوہر
شاعر تھے) نے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔انہیں دماغی امراض کے ہسپتال بھیجا
گیا جہاں انہوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ 4 جون 1984 کو انہوں نے کراچی میں
ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی۔ سارہ شگفتہ کی ایک نظم:
موت کی تلاشی مت لو
بادلوں میں ہی میری تو
بارش مر گئی
ابھی ابھی بہت خوش لباس
تھا وہ
میری خطا کر بیٹھا
کوئی جائے تو چلی جاؤں
کوئی آئے تو رُخصت ہو
جاؤں
میرے ہاتھوں میں کوئی دل
مر گیا ہے
موت کی تلاشی مت لو
انسان سے پہلے موت زندہ
تھی
ٹوٹنے والے زمین پر رہ
گئے
میں پیڑ سے گرا سایہ ہوں
آواز سے پہلے گھٹ نہیں
سکتی
میری آنکھوں میں کوئی دل
مر گیا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آنس معین (1959-1986)
آنس معین 29 نومبر 1960
کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔اُن کا رحجان صوفی
ازم کی طرف زیادہ تھا۔ کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ خودکشی کر سکتے ہیں۔اُن کی
خودکشی سےمتعلق کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اُن کے ایک صوفی دوست نے
کہا، موت کے بعد زندگی اتنی خوبصورت ہے کہ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو دنیا کی
آدھی آبادی خودکشی کر لے۔ دوسری یہ کہ وہ اپنی کولیگ سے شادی کرنا چاہتے تھے مگر
خاندان والوں نے اس رشتے سے منع کر دیا۔ تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس بنک
میں وہ کام کرتے تھے وہاں ایک فراڈ ہوا اور انچارج کے طور پر وہ خود کو اس کا ذمہ
دار سمجھ رہے تھے۔ان تمام حالات نے انہیں خودکشی پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے 5
فروری 1985 کو ملتان میں ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کر لی۔ ان کا ایک شعر:
نہ تھی زمیں میں وسعت مری
نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور
سفر تمام ہوا
--
آنِسؔ مُعین کا آخری خَط
زندگی سے زیادہ عزیز امّی
اور پیارے ابّو جان!
خُدا آپ کو ہمیشہ سلامت
اور خُوش رَکھّے۔
میری اِس حرکت کی سوائے
اِس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ مَیں زندگی کی یکسانیت سے اُکتا گیا ہوں۔ کتابِ زِیست
کا جو صفحہ بھی اُلٹتا ہوں اُس پر وہی تحریر نظر آتی ہے جو پچھلے صفحے پر پڑھ چُکا
ہوتا ہوں۔ اِسی لیے مَیں نے ڈھیر سارے اَوراق چھوڑ کر وہ تحریر پڑھنے کا فیصلہ کیا
ہے جو آخری صفحے پر لکھّی ہوئی ہے۔
مُجھے نہ تو گھر والوں سے
کوئی شکایت ہے نہ دَفتر یا باہر والوں سے۔ بلکہ لوگوں نے تو مُجھ سے اِتنی محبّت
کی ہے کہ مَیں اس کا مُستحق بھی نہیں تھا۔
لوگوں نے میرے ساتھ اگر
کوئی زیادتی کی بھی ہے یا کِسی نے میرا کُچھ دینا بھی ہے تو مَیں وہ مُعاف کرتا
ہوں۔ خُدا میری بھی زیادتیوں اور گُناہوں کو مُعاف فرمائے۔
اور آخِر مِیں ایک خاص
بات وہ یہ کہ وقتِ آخِر میرے پاس راہِ خُدا مِیں دینے کو کُچھ نہیں ہے۔ سَو مَیں
اپنی آنکھیں Eye Bank کو Donate کرتا ہوں۔ مِیرے بَعد یہ
آنکھیں کِسی مُستحق شخص کے لگا دی جائیں تو مِیری رُوح کو حقیقی سکُون حاصِل ہو
سکنے کی اُمّید ہے۔
مَرنے کے بَعد مُجھے آپ
کی دُعاوں کی پہلے سے زیادہ ضرورت رہے گی۔ البتہ غیر ضروری رَسُومات پر پیسہ خَرچ
کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مَیں نے کُچھ رُوپے آمنہ کے پاس اِسی لیے رَکھوا دیے ہیں
کہ اِس موقعہ پر کام آ سکیں۔
آپ کا نالائق بیٹا
آنِسؔ مُعین
ثروت حسین (1949-1996)
ثروت حسین 9 نومبر 1949
کو کراچی میں پیدا ہوئے۔دوران تعلیم انہیں ایک ساتھی طالبہ سے محبت ہوگئی(جو بعد
میں بہت بڑی شاعرہ ہوئیں)۔ بےروزگار ثروت نے نوکری کے لیے جدوجہد کی تو انہیں
کراچی کے ایک کالج میں اردو کے لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ساتھی بطور شاعرہ شہرت
پاتی گئی اور اُس نے ثروت کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ بعد میں ثروت کا تبادلہ
لاڑکانہ کے قریبی قصبے میں ہوگیا اور وہ اپنے پیاروں سے دور ہو گیا ۔1988 میں اس
کا تبادلہ حیدر آباد ہوا مگر تب تک وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر علاج کرا رہا
تھا۔ 1993 میں ثروت نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کی کوشش کی مگر بچا لیا گیا۔ اس
حادثے میں اس کی دونوں ٹانگیں چلی گئی اور وہ لنگڑا ہو گیا ۔9 ستمبر 1996 کو اس نے
کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔ ان کا ایک شعر:
موت کے درندے میں اک کشش
تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں
خودکشی کے بارے میں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
احسن فارقلیط
احسن فارقلیط نے ملتان
اسٹیشن میں اسی مقام پر 80 کی دہائی میں ٹرین کے سامنے آ کر موت کو گلے لگا لیا
جہاں آنس معین نے ایسا کیا تھا۔ 37 سے 38 برس کی عمر رکھنے والے احسن فارقلیط
پتوکی میں ایک مذھبی سکالر کے بیٹے تھے۔ عربی فاضل بھی کیا اور ملتان ایم بی بی
ایس کرنے آئے تھے۔ پھر دو سال بعد ایم بی بی ایس چھوڑ کر سنگ میل اخبار سے وابستہ
پو گئے۔ ملتان پریس کلب کیلئے سٹیج ڈرامے لکھے۔ کئی ڈراموں میں سٹیج پر پرفارم بھی
کیا۔ امتیاز تاج، سلیم ناصر، سہیل اصغر ، استاد فقیر حسین امرتسری، اور منظور
سندھو اس دور میں پریس کلب ملتان سے وابستہ تھے۔ اردو اکادمی میں اپنی نثری نظمیں
بھی تنقید کیلئے پڑھیں افسانے، انشائیے اور کالم بھی لکھتے رہے۔
مجید امجد اکادمی کے ہفتہ
وار تنقیدی اجلاس میں بیدل حیدری کی صدارت میں ظہیر کمال نے ایک افسانہ تنقید
کیلئے پیش کیا جس کا ہیرو خودکشی کی طرف مائل تھ ۔ افسانے کے بعد ممتاز رفیق نے
خودکشی کی مخالفت مین دلائل دئیے اور اسے زندگی سے فرار اور بزدلی قرار دیا۔ اس
بات کی احسن فارقلیط نے سختی سے مخالفت کی اور کہا کہ اگر یہ اتنا ہی بزدلی کا کام
ھے تو فاضل نقاد اپنی ایک پور ہی کاٹ کر دکھا دیں۔ اس کے بعد احسن فارقلیط نے کسی
عربی دانشور کا قول یا شعر کا ترجمہ سنایا کہ
"زندگی
بوجھ بن جائے تو باقی ماندہ سانسیں عزرائیل کے منہ پر دے مارو"
اجلاس کے بعد دوستوں کے
ساتھ بیٹھ کر چائے پی اور گفتگو بھی کرتے رہے۔ ممتاز رفیق بتاتے ہیں کہ اس اجلاس
میں احسن کافی اجلے کپڑے پہنے پوئے تھے اور جوتے بھی خوب چمکائے ہوئے تھے یہاں
چائے پینے کے بعد انہیں مجبور کرتے رہے کہ اسٹیشن چلیں وہاں ایک خبر بنانی ہے کوئی
دوست تیار نہ ہوا تو اکیلے ہی اسٹیشن چلے گئے۔ وہاں ٹافیوں کا پیکٹ خرید کر بچوں
میں ٹافیاں تقسیم کرتے رہے اور جانے والے لوگوں کو ہاتھ ہلاتے رہے۔ ٹرین کے
ڈرائیور سے گپ شپ بھی کرتے رہے جیسے ہی ٹرین کا ٹائم ہوا تو ڈرائیور سے ہاتھ ملا
کر اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہے پلیٹ فارم کے ختم ہوتے ھی جونہی ڈہلان آئی تو ایک دم
ٹرین کے آگے چھلانگ لگا دی اور دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔
ان کی جیب سے ایک خط بھی
برامد ہوا جس میں زندگی پر بحث کی گئی تھی یہ خط منو بھائی نے امروز میں اپنے کالم
گریبان میں شائع کیا۔ اصغر ندیم سید بھی امروز کے اپنے کالم "محفلیں"
میں احسن فارقلیط کے روز و شب اور اس کے خیالات لکھتے رہتے تھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شمس آغا (1922-1945)
شمس آغا ایک باصلاحیت
مختصر کہانی نویس اور ناول نگار تھے۔ 1922 میں پیداہوئے۔ بہت ہی حساس تھے۔ والدین
میں علیحدگی ہوئی تو ماں اور بہن بھائیوں کی جدائی نے اُن کی بے چینی میں اضافہ کر
دیا۔3 دسمبر 1945 کو غائب ہوئے اور کبھی گھر نہیں لوٹے۔ ایک قریبی دوست اور رشتے
وزیر آغا کویقین تھا کہ شمش نے خودکشی کر لی ہے۔ وزیر نے پہلے بھی ایک موقعے پر
شمش کی جان بچائی تھی، جب شمش نے بہت زیادہ ٹرینکولائزر لے لیں۔
شمش نے غائب ہونے سے پہلے
9 مختصر کہانیاں اور ایک نامکمل ناول لکھا۔ غائب ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے
نامکمل ناول کا مسودہ مولانا صلاح الدین احمد کے حوالے کر دیا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خودکشی کے موضوع پر چند
نامور شعراء کے اشعار
ـــــــــــــــــــــــــــــ
خودکشی ہی حلال کردیجے
زندگی تو حرام ہو گئی ہے
حسن جاوید
ــــــــــــــــ
خودکشی تک حرام ہے یعنی
یہ بھی ممکن نہیں کہ مر
جاؤ
انور شعور
ــــــــــــــــ
کب کہا تو ساتھ میرے
خودکشی کر
ڈوبتا ہوں اور تو منظر
کشی کر
فیاض اسود
ــــــــــــــــ
اس کو مذہب کہو یا سیاست
کہو
خودکشی کا ہنر تم سکھا تو
چلے
کیفی اعظمی
ــــــــــــــــ
کوئی خودکشی کی طرف چل
دیا
اداسی کی محنت ٹھکانے لگی
عادل منصوری
ــــــــــــــــ
خودکشی کرنے پہ آمادہ و
مجبور ہیں اب
زندگی! یہ ہیں ترے عشق
میں مرتے ہوئے لوگ
طارق قمر
ــــــــــــــــ
میں خودکشی کے جرم کا
کرتا ہوں اعتراف
اپنے بدن کی قبر میں کب
سے گڑا ہوں میں
قتیل شفائی
ــــــــــــــــ
کی تھی حرام خودکشی میرے
خدا نے کیوں
بے وجہ زندگی کا سفر
کاٹنا پڑا
کشور ناہید
ــــــــــــــــ
یہی ہے زندگی تو زندگی سے
خودکشی اچھی
کہ انساں عالم انسانیت پر
بار ہو جائے
جگرؔ مرادآبادی
ــــــــــــــــ
خودکشی ہی راس آئی دیکھ
بد نصیبوں کو!
خود سے بھی گریزاں ہیں
بھاگ کر زمانے سے
مجروح سلطانپوری
0 Comments