اچھے اخلاق اور اچھی فطرت کی تصویر بنیں
محمد شکر اللہ- پونہ
رمضان ہم سے رخصت ہو رہا
ہے۔ بڑے اہتمام سے ہم نے رمضان کے روزے رکھے، عبادت بھی کی، نمازیں بھی پڑھیں، مہینے
بھر ہم نے برائی کو اپنے سے دور رکھا اور اللہ کا نیک بندہ بننے کی ہر ممکن کوشش
بھی کی۔ اور ہم اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن کیا یہ صرف ایک مہینے کی ریاضت تھی؟
اس کے بعد زندگی پھر اسی پرانی ڈگر پر چلنے لگے گی؟ جیسا پہلے تھی؟ تو اس سے کیا
فائدہ؟
رمضان کے تیس روزوں کا
فلسفہ یہ کہتا ہے کہ بندہ اگر گیارہ مہینوں تک پرہیزگار بنا رہے، اس کی ذات سے کسی
کو تکلیف نہ پہنچے، اور حسن اخلاق کی جیتی جاگتی تصویر بن جائے، برائیوں سے توبہ
کرلے، ہر قسم کے تعصب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے کام آئے، تو یہی رمضان کا فلسفہ
اور پیغام ہے۔ ہر مذہب میں خوشیاں منانے کے الگ الگ طریقے ہیں، اسلام نے بھی رمضان
کے تیس روزے کے خاتمے پر مسلمانوں کو خوشی منانے کا ایک موقع فراہم کیا ہے عید کی شکل میں، وہ بھی ناچ گا کر نہیں، بلکہ
اللہ کے حضور دو رکعت شکرانے کی نماز ادا کرکے، انسانیت کو گلے لگا کر، نفرتوں کو
محبت میں بدل کر، دلوں میں بیٹھی میل کو دھو کر۔
یاد رہے کہ عید کے دن کوئی
بھوکا ننگا نہ سوئے، کوئی مانگنے والا خالی ہاتھ واپس نہ جائے، کوئی بیمار دکھی علاج
سے محروم نہ رہ جائے، کوئی بے بس و لاچار، رشتہ دار اور پڑوسی عید منانے سے نہ رہ
جائے، یہی تو عید کا فلسفہ ہے۔
صاحب نصاب حضرات اپنے مال
کا ڈھائی فیصد غریبوں میں بانٹ کر اور فطرے اور خیرات سے غریبوں کی مالی امداد
کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے یہ کوشش ہوتی ہے کی سارے انسان ایک برابر ہو جائیں، تاکہ
رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی ان دیکھی نہ کی جائے، غریب بھوکے نہ سونے پائیں، ان کی
عید سونی نہ جائے۔
عید کی خوشیوں میں سبھی
کو شریک کیا جائے تبھی معاشرے میں عید کی خوشیوں کا احساس ہوگا ورنہ عید کی آمد
محض ایک رسم بن کر رہ جائے گی۔
اسلام برابری کا درس دینے والا دین ہے۔ جو ایسے سماج
کو تشکیل دینا چاہتا ہے جس میں کوئی کسی کا محتاج نہ رہے۔ امن و سلامتی کا نام ہی
اسلام ہے۔ عید کے موقع پر ہم دعا کرتے ہیں کہ نفرت وہ خونی انتقام کا دروازہ بند
ہو، لوگ آپسی میل محبت و امن اور چین سے رہیں، اور ایک ایسے اچھے سماج کی تشکیل میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جس میں ہر کسی کو برابر حقوق حاصل ہو۔
0 Comments