Development of Nation in Pulling of the hand قوم کی ترقی! ٹانگ کے بجائے ہاتھ کھینچنے میں ہے

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Development of Nation in Pulling of the hand قوم کی ترقی! ٹانگ کے بجائے ہاتھ کھینچنے میں ہے

 

قوم کی ترقی!  ٹانگ کے بجائے ہاتھ کھینچنے میں ہے

از قلم      مہوش ممتاز بیگ

معاشرے سےقوم، قوم سے علاقہ اورعلاقے سے ملک وجود میں آتے ہیں- کیونکہ معاشرہ افراد کا ایسا گروہ ہے جو باہمی مشترکہ روابط کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں- اوراسی گروہ کو قوم کہا جاتا ہے جو آپس میں اقداروروایات کی بنیاد پرمشترک ہوں- قوم کے بعد ایسے گروہ کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ "امت" بھی ہے- اورعلاقہ زمین کاوہ ٹکڑا، وہ خطہ یارقبہ جہاں یہ قوم اورمعاشرہ آباد ہوں- یہی معاشرہ، قوم، علاقہ جب ملک کی فہرست میں آجائے تو پہلا فرض اس کی تعمیروترقی کا ہوتا ہے- کیونکہ جتنا قوم کا نام ہو، اس کا 

وقارہو، اتنا ہی مشکل اس کی شان کو برقراررکھنا ہوتا ہے-اوراسی تعمیروترقی میں قوم کے ہرفرد کا لہو شامل ہوتا ہے- اب یہاں معاشرے کا ملک وقوم ہونا بہت بڑی خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے- کیونکہ قوم ہونا ایک ایسی نعمت ہے، خدا کا ایک ایسا احسان ہے جس کا نعم البدل کچھ نہیں ہے- "قوم" لفظ اپنے اندر بہت سی خصوصیات کو سما بیٹھا ہے- وہ آرام، آسائش، سہولیات، فوائد، برتری، کامیابی ایک معاشرے کے نصیب میں ممکن نہیں جبکہ قوم انہی خوبیوں اورخصوصیات کا مالک ہے- تو یہاں ایک قوم کی اہمیت وافادیت سمجھ آتی ہے- اب یہ خصوصیات ایک خوبصورت قوم کی پہچان ہیں اوریہ خوبیاں تب تک برقرار رہتی ہیں جب تک کہ یہ قومی برائیوں کی دیمک سے بچی ہوئی ہیں- اب اگر یہاں قومی برائیوں پرروشنی ڈالنا شروع کروں توایک لمبی فہرست تیارہوجائے گی اوراگرانہیں برائیوں کی جڑ کوتحریرمیں لاؤں توکچھ یوں ہیں کہ، حسد ایک قومی مرض ہے، جہالت ترقی کی دشمن ہے، بغض وکینہ عداوت میں پہل ہے، انا شیطانی صفت ہے، انہی قومی برائیوں کی فہرست میں ایک ایسی برائی کا بھی ذکر ملتا ہے جسے کرنا ہم سب اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں اوراس سے انکار کرنے میں زرا دیرنہیں کرتے ہیں- اس کام کو بجا لانے کے بعد اس سے انکاری بلکل ایسے ہی ہے جیسا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے-اوروہ عظیم برائی ہے "لوگوں کی ٹانگیں کھینچنا" یہ بظاہرنظرآنے والی برائی تونہیں ہے لیکن اپنا اثرسانپ کے زہر سے بھی زیادہ دکھاتا ہے- اب یہاں اس برائی کا ذکر کیا جائے تو سب دودھ کے دھلے اور فرشتہ صفت انسان بن جاتے ہیں کہ ہم میں یہ برائی تو پائی ہی نہیں جاتی،ہمیں فرق ہی نہیں پڑتا کہ لوگ کیا کررہے ہیں، کیا نہیں، ہمیں اپنے کام سے ہی فرصت نہیں- لیکن درحقیقت میں یہی لوگ اس احسن کام کوسرانجام دینے کی ذمہ داری ادا کررہے ہوتے ہیں- سب سے زیادہ انہیں ہی فرق پڑتا ہے کہ کون اپنی زندگی میں کیا کررہا ہے؟ کیا نہیں؟ کیوں کررہا ہے؟ اورجب باقی لوگ ترقی کی راہ اختیار لیں توہم ٹانگیں کھینچ کراپنی دلی تسلی کوممکن بناتے ہیں- یہاں ہم نےخود توکام کرنا نہیں ہوتاہے پرجب کوئی دوسرا کام کرے گا تواس میں سوخامیاں، ہزارکیڑے اوربلاوجہ تنقید سےانہیں نوازتے ہیں- یہ صفت انہی لوگوں کی ہوتی ہے جن کے اپنے اندرقابلیت کی کمی ہوتی ہے- کیونکہ زندگی میں غلطیاں، کوتاہیاں محنت کارہی کرتا ہےورنہ نکموں کی تو ساری زندگی دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے، ان پرہنسنےاورتالیاں بجانے میں ہی گزرجاتی ہے- معاشرے میں اس موڑ پرجہاں کچھ لوگ اپنی زندگی کی منزل معین کرنے کے بعد اپنے سفرکا آغازکرتے ہیں وہیں ہم لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ یہاں ٹانگ کھینچنا ہوتاہے- سیاحت ہویاسیاست، کاروبارہویا نوکری، اپنے ہوں یا پرائے، ہمیں توبس ان کی ٹانگیں کھینچنی ہے- یہاں ہم نے دوسروں کو گرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگانا ہوتا ہے اس کے برعکس جب خود کو کسی کام کے لیے محنت کرنا پڑ جائے توہم غش میں پڑجاتے ہیں- کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم ایسا کرنے کی بجائے اپنے گریباں میں جھانکنے کی کوشش کرتے، اپنی قابلیت واہلیت کوبڑھانے اورزندگی کےہرمیدان میں اسے منوانے کی کوشش کرتے- بہ نسبت اس کے کہ ہم دوسروں کے حوصلہ پست کریں، ان کی ذرا سی غلطی کوبڑھا چڑھا کربتائیں، دن رات انہیں احساس دلائیں کہ وہ کتنا غلط کررہا ہے،اوراگرکوئی کسررہ جائے تو دوسروں کو انکے خلاف کرکے پوری کریں، اب یہاں ہماری اس بے وقوفی اورلاشعوری کی وجہ سے ہوتا کیا ہے کہ اگروہ انسان کمزور پڑجائے تو وہ ہمت ہارکرگھربیٹھ جائے گا اور ساری زندگی ناامیدی میں گزارے گا- اور اس ناامیدی کےقصوروارہم ہوں گے- اوراگروہ انسان باہمت ہوگا،اسکےارادے مضبوط ہوں گے، تووہ اپنی قوم،اپنے علاقہ کوچھوڑکرغیروں کے لیے باعث فخربن جائے گا، غیروں کی خدمت کرے گا،اورانہیں کواپنی کامیابی سے مستفید کرےگا- اب اگراپنےایسے چھپے ہوئے ہیروجن کوہم کامیاب ہونے سے پہلے ہی ناکامی کا راستہ دکھائیں تو نقصان کسی ایک فرد کا مقدر نہیں بلکہ پوری قوم کواسکی قیمت چکانی پڑتی ہے-ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی لوگ مایوسی کا شکارہوجائینگے، لوگوں میں احساسِ کمتری، احساسِ محرومی آجائےگی، جس سے پوری قوم کوبنیادی مسائل کے حل سے محرومی کا طمانچہ کھانا پڑے گا، قوم کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا، غیرترقی یافتہ قوم کا دھبہ اپنے ماتھے پہ سجانا پڑے گا- جو کہ کسی بھی ملک وقوم کا خواب ہرگزنہ ہوگا- اس طرح کے معاملات میں عقل و شعورکوحرکت میں لانے کی ضرورت ہے، اپنے فعل پرغوروفکرکرنے کی ضرورت ہے اوراپنی قوم کے نزدیک اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا، ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اب ہاتھ کھینچنا ہوگا تاکہ ہرفرد کامیاب ہواور قوم کواونچائی پرلانے اوراس کا نام روشن کرنے میں یہی کامیاب لوگ سب سے زیادہ اپنا حصہ ڈال کر قوم کو بھی کامیاب بنائیں- نوجوان نسل کی منزل کے لئے ان کے راہ کو ہموارکریں، اپنے بزرگ جو کہ قوم کے اثاثے ہوتے ہیں ان کی دیکھ بھال اوران سے تجربہ حاصل کریں، خواتین کوکم تریا کمزورجاننے کے بجائے ان کے حقوق کی حفاظت اورمعاشرے میں ان کے کردارکو سراہیں، ایک دوسرے کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے حوصلہ افزائی کریں، کندھے سے کندھا ملا کر قوم کی ترقی کے لیے جسمِ واحد کی مانند ہو کر کام کریں، متحد، مستحکم ہو کر قوم کی خدمت کاعزم کریں- وہ قوم کبھی ناکامی کے کنویں میں گرتی ہی نہیں جہاں کے افراد باشعور،قابل، تعلیم یافتہ اورمتحد ہوں-

 گا گا حفاظت اور معاشرے میں ان کے کردار کو سراہا اور ایک دوسرے کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی سے ملا کر قوم کی ترقی کے لیے کام کریں گے مستحکم ہو کر قوم کی خدمت کا عزم کریں گے کبھی ناکام نہیں ہونگے۔

Post a Comment

0 Comments