اردو نظم کی روایات
صدیقی ثمینہ بیگمانچارج پرنسپل و صدر شعبہ اردوڈاکٹر بدرالدین
سینیٹر کالج،جالنہ ،مہاراشٹر
اردو نظم نگاری کی تاریخ وہی ہے جو اردو شاعری کی ہے۔ دکنی
شاعری میں بہترین اخلاقی اور صوفیانہ نظمیں لکھی گئی۔ قلی قطب شاہؔ کی نظمیں خاص
طور سے قابل ذک ہے جو اپنے ہندوستانی عناصر اور جعش اظہار کی وجہ سے اردو شاعری کا
قیمتی سرمایہ ہے۔ شمالی ہند میں نظم نگاری کے نمونے افضل جھنجھانویؔ اور جعفر
زنٹلیؔ کی شاعری میں ملتے ہے۔ افضلؔ نے بارہ ماسہ لکھا جس میں جذبات نگاری کی
بہترین مثالیں ملتی ہے۔ جعفرؔ زٹلی نے زندگی کی پریشان حالی اور دہلی کی تباہی کی
تصویر بڑے اچھے انداز مین پیش کی ہے۔ اس کے بعد فائزؔ دہلوی، حاتمؔ، آبرؔ شاکرؔ،
ناجیؔ اور میرؔ و سودا کا نام آتا ہے۔ ان تمام شعرا نے مخمس، شہر آشوب، مثنوی
اور ہجو کی شکل میں جو شعری سرمایہ چھوڑا ہے اس میں مساءل حیات سے آگہی کا اھساس
ہوتا ہے کہ یہ تمام شعراء نظم کے فنی آداب سے آشنا تھے، انہوں نے بڑی حد تک اپنی
نظموں میں وحدت تعصب اور تعمیری حسن کو ملحوظ رکھا۔
اردو نظم کے سرمایہ
میں سب سے زیادہ اضافہ نظیر اکبر آبادیؔ نے کیا، ان کی نظموں میں بڑا تنوع اور
وسعت ہے، نظیرؔ نے ہر طبقے کے انسان اور اسکی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنی شاعری
کا موضوع بنایا ، ان کے یہاں صحیح معنوں میں ہندوستانی تہذیب کی روح جلوہ گر نظر
آتی ہے۔ آزادؔ حالیؔ، شبلیؔ نے اردو نظم کو نیا پیرہن عطا کیا۔آزادؔ اور حالیؔ
نے انجمن پنجاب لاہور کی بنیاد رکھ کر اردو نظم نگاری کی تحریک کی شکل دیاور اردو
نظم انسان کے معاملات اور وسائل کا مظہر بن گئی۔شبلیؔ نے اپنی نظموں میں مسجد
کانپور شہادت المیہ اور ترکوں پر توڑے جانے والے مظالم کو اپنا موضوع بنا کر اردو
نظم کو نئی سمت دی۔ چکبستؔ اور سرور جہاں آبادیؔ نے اردو نظم میں حب الوطنی کے
چراغ روشن کیے۔ اکبر الہ آبادیؔ نے اپنی طنز و مزاح آمیز شاعری سے مغربی تہذیب پر نشتر چلائے۔
اقبالؔ نے اپنی نظموں کے ذریعے سوئی قوم کو جگانے کی کوشش
کی اور اپنی گرانقدر نظموں کے ذڑیعے اردو شاعری کو وزن اور وقار عطا کیا۔ جوشؔ نے
اپنی رومانی اور انقلابی نظموں سے اردو شاعری کو نئیجہت سے آشنا کیا۔ ان شعراء کے
علاوہ نظم طبا طبائیؔ، شوق قدوئیؔ، صفی لکھنویؔ اور ظفر علی خان وغیرہ نے اردو نظم
کے کارواں کو آگے بڑھایا۔ ترقی پسند شعرا نے بھی اپنے مخصوص فلسفے کی ترجمانی کے
لئے اردو نظم کا سہارا لیا۔ یہ صحیح ہے کہ زیادہ تر ترقی پسند شعرا جوش میں نظم
نگاری کے فنی آداب کو ملحوظ نہیں رکھسکے پھر بھی ان شعرء کی کاوشوں سے نظم نگاری
میں تنوع اور بقلمونی پیدا ہوئی۔ ار ہر
طرح کے موضوعات کو پیش کیا جانے لگا۔فیضؔ، فراقؔ،مجروحؔ، جمیل مظہریؔ، اختر
الایمانؔ، احسان دانشؔ اور خلیل الرحمن اعظمی کا نام اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ
پیش کیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۶۰ ء کے بعد کی دہاءی میں تجدید پسندی کی تحریک نے اردو نظم
کو ایک نیا موڑ دیا، اس تحریک سے وابستہ شعراء نے نظم کو اپنے اندرونی احساسات اور
کوائف کا ترجمان بنایا، انہوں نے علامت نگاری اور انوکھی تشبیہات و اوتعارات کے
ذریعہ اردو نظم کو نیا رنگ و آہنگ دینا چاہا،یہ اور بات ہے کہ ان شعرا کی کوششوں
سے اردو نظم کا رشتہ عام قاری سے کٹ گیا، اور اپنی تہہدار معنویت کی وجہ سے وہ
نقادوں اور دانشوروں کے دائرے تک سمٹ کر رہ گئی۔ ان جدید نظم نگاروں میں یوسف
ظفرؔ، مجید امجدؔ، کمار پاشیؔ،بلراجؔ، عمیق حنفیؔ اور وزیر آغاؔ کے نام خصوصیت کے
ساتھ قابل ذکر ہے۔ اردو نظم کا سفر ابھی جاری ہے۔ نظم گو شعراء، طرح طرح کے فنی
تجربے کر رہے ہے، یہ صحیح ہے کہ تجربے کے نام پر بہت سی ایسی نظمیںلکھی جا رہی ہے
جو نظم کے فنی معیار پر کسی طرح پوری نہیںاترتی لیکن بہت سے شعراء نے اپنے تجربے
میں اردو زبان کےمخصوس مزاج کو پیش نظر رکھ اور فن کے سرے کو ہاتھ سے جانے نہں دیا
ان شعراء کی نظمیں یقیناً اردو شاعری کا قیمتی سرمایہ ثابت ہونگی۔
0 Comments