اردو نظم نگاری
صدیقی ثمینہ بیگم
انچارج پرنسپل و صدر شعبہ اردو
ڈاکٹر بدرالدین سینیئر کالج،جالنہ ،مہاراشٹر
نظم
عربی زبان کا لفظ ہے لغوی معنی سلک اورلڑی کے ہیں اور اصطلاح میں شعری کلام کی ووقسم
ہے جس میں کسی ایک موضوع یامضمون پرمسلسل اظہار خیال کیا جا تا ہے۔ نظم شاعری کی
وہ شکل ہے جس میں کوئی واقعہ کوئی خیال تسلسل کے ساتھ پیش کیا جا تا ہے کیونکہ
معنی ہی پرونے اور یکجا کرنے کے ہیں ۔ اس طرح نظم غزل کے بالکل برعکس ہوئی کیونکہ
غزل کی خصوصیت یہ ہے کہ عام طور پر اس کا
ہر شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے اور اپنے الگ معنی دیتا ہے اسے ریزہ خیالی
کا نام دے کر صنف غزل پر شدید اعتراضات کیے گئے، پیش گوئی کہ غزل نے تسلسل بیان کی
صفت نہ اپنائی تو یہ اپنی موت آپ مرجائے گی مگر دنیا نے دیکھا کہ غزل اپنی تمام
خصوصیت کے ساتھ زندہ رہی۔ البتہ ۱۸۵۷ ء کے انقلاب کے بعد مغرب کے زیر اثر نظم کی
طرف زیادہ توجہ ہوئی کیونکہ بے شمار ایسے تجربات تھے جو تسلسل بیان کا تقاضا کرتے
تھے۔
اردو
میں نظم پہلے بھی موجود تھی مگر اسے پابند نظم کہنا چاہیے۔یہ نظم غزل سے زیادہ
مختلف نہیں تھی۔ کیونکہ اس میں بحر اور قافیے کی پابندی لازم تھی۔ قصیدہ، مرثیہ
اور مثنوی نظم ہی کی مختلف قسمیں ہیں۔ ان میں قافیہ اور بحر دونوں ہوتے ہیں لیکن
تسلسل بیان کی شرط لازمی ہے۔ غزل کی تو ایک شکل مقرر ہے۔ اسی شکل کی ہیئت بھی کہا جاتا
ہے۔ غزل کی ہیئت یہ ہے کہ تمام مصروں کا وزن یکساں ہوتا ہے۔ پہلا شعر جو مطلع
کہلاتا ہے اس کے دونوں مصروں میں قافیہ ہوتا ہے۔ اگر ردیف کا اہتمام کیا گیا ہے تو
ردیف بھی ہوتی ہے۔ آخر شعر جس میں شاعر کا تخلص بھی ہوتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ عام
طور پر غزل کا ہر شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے اور اپنے الگ معنی دیتا ہے اس کے بر
خلاف نظم کی کوئی مقرر شکل یا مقرر ہیئت نہں ہوتی۔ نظم کے لیے یہ بہر حال ضروری ہے
کہ خیال یا معنی کے اورتبار سے اس میں تسلس ہو اور ایک شعر دوسرے سے پیوست ہوتا
چلا جائے۔اس لیے اوپر عرض کیا گیا کہ قصیدہ، مثنوی ، مرثیہ واسوخت ، شہر آشوب سب
نظم ہی کے دائرے آتے ہیں۔ لیکن یہاں جس نظم کا ذکر ہے اس میں قصیدہ، مرثیہ،
مثنوی، واسوخت اور شہر آشوب داخل نہیں کیونکہ اب ان کا زیادہ رواج بھی نہیں رہا
بلکہ یہ ایک الگ صنف کی حیثیت سے ابھری اور عہد حاضر میں اس نے ایسی ترقی کی کہ
غزل کے مقابلے میں اگر کسی صنف کو رکھا جا سکتا ہے تو وہ نظم ہی ہے اردو کے
تقریباً سبھی شاعروں نے نظمیں لکھیں لیکن جن شاعروں نے نظم گوئی کو بطور کاص
اپنایا اور اسے فروغ دیا ان میں نظیر اکبر آبادیؔ، محمد حسین آزادؔ،مولانا الطاف
حسین حالیؔ، شبلی نعمانیؔ،ڈاکٹر سر محمد اقبال، اکبر الہ آبادیؔ، چکبست، جوش ملیح
آبای، فیضؔ،ن۔م راشدؔ، میراجیؔ، اختر الایمانؔ، سردار جعفریؔ، مخدومؔ،مجازؔ قابل
ذکر ہیں۔
جس
طرح نظم کے موضوعات لا محدود ہیں اسی طرح اس کی شکلیں بھی بے شمار ہیں۔ مسمط کی
ساری شکلیں یعنی، مثلث، مربع، مخمس،مسدس،مسبع، مثمن، متسع، معشر سب اس میں شامل
ہیں بلکہ بعض جگہ غزل اور مثنوی کا فارم بھی اختیار کیا گیا۔ ترکیب بند اور ترجیع
بند بھی اس میں شامل ہیں۔ نظم معریٰ اور آزاد نظم مغربی اثر سے اردو میں رواج
پانے والی ہیتیں ہیں۔ گیت بھی نظم کی ایک شکل ہے ۔ اردو میں اس کا رواج ہندی شاعری
کا رہن منت ہے۔
آیئے
اب نمونے کے طور پر یہ دیکھیں کہ نظم نے کون کون سی شکلیں اختیار کی ہیں۔
غزل:
غزل
کا فارم نظم سے قطعی مختلف ہے لیکن نظم نے اس کا اکثر استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور
پر اقبالؔ کا ترانہ"سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" ایک نظم ہے لیکن
شاعر نے غزل کا فارم اختیار کیا ہے۔
مثنوی:
عربی
زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی دو، دو والا، اور اصطلاح میں متفق الوزن اشعار کے
مجموعے پر مشتمل و طویل نظم ہے جس کے ہر شعر کا قافیہ جدا جدا اور ہر مصرعے ہم
قافیہ ہوتے ہیں، جس میں کسی مضمون کو مسلسل اور کسی واقعہ یا قسہ کو اس طرح بیان
کیا جاتا ہے کہ اس میں زندگی اور معاشرت کے تمام تر پہلو آجاتے ہیں، مثنوی کے
اشعار کی تعداد مھدود نہیں ہوتی۔"
اقبالؔ
کی نظم، "والدہ مرحومہ کی یاد میں"مثنوی کی شکل میں لکھی گئی ہے۔
ترکیب
بند:
"اس
میں غزل کا انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ نظم کا ہر بند غزل کی شکل میں ہوتا ہے لیکن
ہر بند کا آخری شعر دوسرے قافیے میں ہوتا ہے۔
ترجیع
بند:
یہ
ترکیب بند کی طرح ہی ہوتا ہے۔ فرق صرف اتناہے کہ ترکیب بند میں ٹیپ کا شعر ہر بند
الگ ہوتا ہے جبکہ ترجیع بند میں ٹیپ کا ایک ہی شعر ہر بند کے آخر میں دہرا جاتا
ہے۔
مستزاد:
مستزاد
وہ شکل ہے جس میں ہر مصرعے کے بعد ایک چھوٹا سا ٹکرا بڑھا دیا جاتا ہے۔
قطعہ:
قطعے
میں غزل کی شکل اختیار کی جاتی ہے لیکن غزل کے برخلاف اس کےمعنی میں تسلسل پایا
جاتا ہے۔
مسمط:
یہ
ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں پرونا۔اس طرح یہ بھی ایک نظم ہوئی۔ اس کی مختلف
قسمیں ہیں جو بند کے اشعار کی تعداد کو نظر میں رکھتے ہوئے مقرر کی گئی ہیں، وہ
قسم یہ ہیں۔
مثلث:تین
مصروں کا بند، مربع: چار مصروں کا بند، مخمس: پانچ مصروں کا بند، مسدس: چھ مصروں
کا بند، مسبع: سات مصروں کا بند، مثمن: آٹھ مژروں کا بند مقسع: نو مصروں کا بند،
معشر: دس مصروں کا بند۔
نظم کی جدید ہیتیں:
عالمی ادب کے اثر سے ماری شاعری میں بعض نئی ہئیتوں کا
اجافہ ہوا ہے جن کی تفصیل یہاں پیش کی جاتی ہے۔
سانیٹ:
نطم کی یہ ایک شکل مغرب میں مقبول ہے مصروںکی تعداد چودہ
ہوتی ہے۔ اس کے وزر اور قوافی کا ایک مخصوص نظام ہے خاص طور پر وزن کا نظام ہماری
شاعری کے مزاج سے میل نہیں کھاتا۔ اس لیے ہمارے شعرا نے مختلف وزن استعمال کیے۔
بہر حال سانیٹ اردو نظم کا حصہ نہیں بن پائی۔
نطم معریٰ:
نظم معریٰ کی ایک قسم ہے جسے انگریزی میں بلینک ورس کہتے
یں۔ اس میں قافیے کی پابندی نہیں وہتی اس لیے شاعر کو آزادی ہوتی ہے۔ انگریزی میں
اس کے لیے ایک کاص وزن مقرر ہے مگر اردو میں اس کی پابندی ممکن نہین تھی اس لیے
مختلف اوزان اختیار کیے گئے۔نظم معریٰ کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو
یہ ترے پیار کی خوشبو سے مہکتی ہوئی رات
اپنے سینے میں چھپائے ترے دل کی دھڑکن
آج پھر تیری اداسے مرےپاس آئی ہے
کتنے لمحے کہ غم زیست کے طوفانوں میں
زندگانی کی جلائے ہوئے باغی مشعل
تو مرا عز جواں بن کے مرے ساتھ رہی
(جاں نثار اختر، مہکتی ہوئی رات)
آزاد نظم:
انگریزی ادب میں شاعری کی جو ہیئت "فری ورس"
کہلاتی ہے ہمارے شاعروں نے اسے اپنایا اور آزاد نظم نام رکھا۔ یہ در اصل فرانس کی
ایک شعری ہیئت ہے۔ اردو میں داخل ہو کر یہ بہت مقبول ہوئی۔ ہماری جدیدشاعری کا ایک
بہت بڑا حصہ اسی شعری ہیئت میں ہے۔ یہ ہیئت وزن اور پابندی باقری رکھی ہے۔ ہم نے
وزن کے معاملے میں یہ رویہ اپنایا کہ کسی ایک رکن مثلا ً فاعلن کو لے لیا اور نظم
کے تمام مصرعے برابر رکھنے کے بجائے کم زیادہ کر دیے۔مثلاًمخدوم کی نظم "
چارہ گر،میں میں فاعلن کی تکرار ہے اور یہ ارکان ہر مصرعے میں کم زیادہ ہوتے رہتے
ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے۔
اک چنبیلی کے منڈوے تلے
میکدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دو بندن
پیار کی آگ میں جل گئے۔
نثری نظم:
نثری نظم ہماری شاعری میں ایک نئی چیز ہے جو مغرب کے راستے
داخل ہوئی لیکن اردو شاعری میں کوئی مقام نہیں پا سکی۔ اس میں نہ وزن ہوتا ہے نا
قافیہ۔ بس ایک شعری تجربہ ہوتا ہے جو جذبات کی پوری شدت کے ساتھ پیش کر دیا جاتا
ہے۔
ترائیلے:
اس شعری ہیئت کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو کوئی فرق
نہیں پڑتا کیوں کہ اردو شاعری میں مقبول نہیں ہو سکی۔ یہ آٹھ مصرعوں پر مشتمل
چھوٹی سی نظم ہوتی ہے۔ اس کا اصل نام ٹرایولٹ ہے۔ اور فرانسیسی شاعری میں اس کا
رواج رہا ہے۔اب فرانسیسی شاعر بھی اسے ترک کر چکے ہیں۔
ہائی کو:
اس شعری ہئیت کا وطن جاپان ہے۔ وہاں سے یہ مغرب پہنچی اور
وہیں سے ہمارے شاعروں نے اسے اختیار کیا۔" ہائی کو " میں صرف تین مصرعے
ہوتے ہیں اور وہ بھی قافیے کی قید سے آزاد ۔تینوں مصروں کا وزن بھی الگ ہوتا ہے۔
جاپانی شاعروں نے اس کے لیے جس طرح کا وزن مقرر کیا تھا وہ اردو تو کیا انگریزی
شاعری میں بھی نہیں برتا جا سکا۔
1 Comments
پورا مضمون سنبل نگار کی کتاب *اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ* کے باب "نظم نگاری کا فن" صفحہ 216 تا 219 کی نقل ہے۔ سنبل نگار کی کتاب ریختہ پر آن لائن مطالعہ کے لئے دستیاب ہے۔
ReplyDelete