Allam Iqbal Ka Khandan| علامہ اقبالؔ کا خاندان

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Allam Iqbal Ka Khandan| علامہ اقبالؔ کا خاندان

 علامہ اقبالؔ کا خاندان

صدیقی ثمینہ بیگم
انچارج پرنسپل  و  صدر شعبہ اردو
ڈاکٹر بدرالدین سنیئر کالج،جالنہ ،مہاراشٹر


علامہ اقبالؔ کے آبا واجداد کشمیر کے سپرد برہمن تھے ۔ ایک مسلمان بزرگ سے عقیدت کی بناپراٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے شروع میں مسلمان ہوئے ۔ کچھ دنوں بعد کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ چلے آئے لیکن قدیم آبائی وطن سے اقبالؔ کا ذہنی رشتہ کسی نہ کسی طور پر عمر بھر قائم رہا۔نوعمری اور شعور کو پہنچنے کے بعد بھی اقبالؔ نے اپنے برہمن زادہ ہونے پر فخر کیا۔ بعض نے غالبا ًاس خیال سے کہ اقبالؔ جیسے بچے مسلمان کو برہمن نژادکہنا مناسب نہیں معلوم ہو تا ۔یہ دعوی کیا ہے کے اقبالؔ کو بر ہمن نژاد اور سپر د و خیال کر نا درست نہیں ، و دراصل’’میر‘‘ تھے اور کشمیر کے’’میر ‘‘مغل نسل سے ہیں لیکن جیسا کہ وحیدالدین فقیر نے مدلل تر دید کر دی ہے ، یہ دعوی بے بنیاد ہے خوداقبالؔ نے مختلف دستاویزات میں اپنی قومیت سپر د کشمیری پنڈت ظاہر کی ہے ۔اگرایسانہ ہوتا تو آخر علامہ ا قبال برہمن’’زادگی‘ پرفخروناز کر نے کے ساتھ یہ کیوں کہتے کہ

بت پرستی کو مرے پیش نظر لاتی ہے

یاد ایام گذشتہ مجھے شرما تی ہے

ہے جو پیشانی پہ اسلام کا ٹیکا اقبالؔ

کوئی پنڈت مجھے کہتا ہے تو شرم آتی ہے

اقبالؔ کے یہاں’برہمن زادہ‘اور’’برہمن پسرے‘ کے الفاظ لغوی معنوں میں نہیں بطور علامت یا استعارہ استعمال ہوۓ ہیں ۔ برہمن ہندستان میں ابتداہی سے علم وفکر کے نباض اور وارث خیال کئے گئے ہیں ۔ کشمیری برہمن فلسفہ وحکمت کےلئے خاص طعر پر شہرت رکھتے تھے، چنانچہ اقبالؔؔ نے اسی فکری رشتے کو بنیاد بنا کر اپنے آبا و اجداد پر فخر کیا ہے، ورنہ بہ اعتبار لغت جیسا کہ اوپر کے دو اشعار سے ظاہر ہے وہ اپے آپ کو پنڈت کہلوانا پسند نہ کرتے تھے۔ البتہ علامتی انداز میں خود کو برہمن زد کہنے میں انہوں نے کبھی تکلف نہیں کیا بلکہ اسے اپنے لئے اعزاز جانا ہے۔



لفظ’’ برہمن زاد ‘‘فلسفہ و حکمت کی علامت ہی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اقبالؔ نے اس پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ اقبالؔ کے دادا شیخ محمد رفیق کے دو بیٹے تھے شیخ نورمحمد اور شیخ غلام قادر ۔ شیخ نور محمد کی شادی امام بی بی نامی خاتون سے ہوئی اور ان سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے پیدا ہوئے ۔ بڑے بیٹے کا نام شیخ عطامحمد اور چھوٹے کا نام شیخ محمد اقبالؔ رکھا گیا منجھلہ بیٹا پیدائش ہی کے وقت فوت ہو گیا ۔ چھوٹے بیٹے آگے چل کر ڈاکٹر علامہ اقبالؔ بنے اور حکیم الامت‘‘اور’ شاعرمشرق‘‘ سے ہوئے ۔ شیخ عطامحد ایم ۔ای ۔ایسں میں اور سیر تھے ۔انھوں نے اپنے بیٹیوں کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی شیخ محمد اقبالؔ کو بھی اعلی تعلیم دلوائی ۔انگلستان بھیجا اور تمام اخراجات خوش دلی سے برداشت کئے ۔


 شیخ عطامحمد نے اکیاسی سال کی عمر میں علامہ کے انتقال سے دوسال بعد دسمبر ۱۹۴۰ میں وفات پائی ۔ شیخ عطامحمد کے تین بیٹوں( شیخ عطا محمد، شیخ امتیاز، اور شیخ مختار احمد) میں شیخ اعجاز احمد نے علامہ کی قلمی تحریریں محفوظ رکھیں۔


علامہ اقبالؔ کے والد شیخ نور محمد اور جنہیں عرف عام میں میاں جی کہا جا تا تھا،رسمی تعلیم سے بہرہ مند نہ تھے لیکن اپنے شوق و ذہانت سے اتنی استعداد بہم پہنچالی تھی کہ اردو فارسی کی کتا بیں آسانی سے پڑھ لیتے تھے ۔ اہل علم کی صحبت میں رہتے تھے اور اپنے مذہبی شغف واخلاقی پاکیزگی کے سب قابل احترام سمجھے جاتے تھے۔ تصوف سے ان کولگاؤ تھا اور تلاوت قرآن کے ساتھ وظائف بھی ان کے معمولات زندگی میں شامل تھے ۔اپنے بیٹوں کی بھی انھوں نے اس نج بر تربیت کی اور ایک دن اقبالؔ کونصیحت کی کہ جب تم قرآن پڑھوتو یہ سمجھو کہ قر آن تم ہی پر اترا ہے یعنی اللہ تعالی خودتم سے ہم کلام ہے ۔ اقبالؔ کا کوئی مجموعہ کلام چھپتاتو دیکھ کر خوش ہوتے اور ان کے اردو فارسی کلام کا ذوق وشوق سے مطالعہ کرتے ۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ اقبالؔ کے عروج واعز از کا سارا زمانہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اواقبالؔ کی وفات سے صرف آٹھ سال قبل ۱۹۳۰ ء میں انتقال کیا ۔ اقبالؔ کی والدہ کا اصل نام امام بی بی تھاالبتہ’بی ، جی‘‘ کے نام سے مشہو تھیں ۔ اگر چہ پڑھی لکھی خاتون  نہ تھیں لیکن اپنی سلیقہ مندی اور پاکیزگی اخلاق کے سبب ،سب کی نظر میں محترم تھیں ۔ انھوں نے اقبالؔ کی تربیت جس شفقت ومحنت سے کی تھی اس کا اقبالؔ کے دل پر بہت گہرا اثر تھا ۔ چنانچہ ۱۹۱۴ ء میں جب بی بی کا انتقال ہو تو کچھ دنوں بعد اقبالؔ نے ’’والد ہ مرحومہ کے عنوان سے معر کہ نظم کہی۔ اس نظم کو اقبالؔ نے ایسا فلسفیا نہ رخ دیا کہ ماں کی محبت اور ماں کی جدائی کاغم ،انفرادی نوعیت کے نہ ر ہے بلکہ اجتماعی حیثیت سے بنی نوع انسان کی محبت کا استعارا بن گئے ۔ علامہ کے دادا شیخ محمد رفیق نے ۱۸۲۱ء میں سیالکوٹ کے موجود ہ محلہ’’اقبالؔ بازار ‘‘میں ایک مکان خرید لیا تھا۔ یہی گھر بعد کواقبالؔ منزل سے موسوم ہوا اورشیخ محمد اقبالؔ اسی میں پیدا ہوئے ۔اقبالؔ کا سال پیدئش مختلف کتابوں میں مخلف ملتا ہے اور یہ اختلاف آج کا نہیں ہے ایک مدت سے چلا آ رہا ہے منشی محمد دین فوق علامہ کے احباب خاص میں تھے اور انھوں نے اقبالؔ کی زندگی ہی میں اپنے ایک مضمون میں اقبالؔ کا سال پید آش   ۱۸۷۷ رکھا ہے ۔کلیات اقبالؔ مطبو عہ حیدرآبادکن۱۹۲۴ ء کے مرتب نے بھی ۱۸۷۵ء ہی بتایا ہے ۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے ۱۸۷۲ لکھا ہے۔


مولا نا عبدالمجید سالک اور محم طاہر فاروقی نے ۱۸۷۳ءمطابق ۱۲۸۹ ھ بتا یا ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے مطابق اقبالؔ کا سال پیدائش ۱۸۷۲ ء ہے ۔ یہ چندسنین ان کتب و مقالات سے بطور مثال دیئے گئے ہیں جو یا تو علامہ کی زندگی ہی میں شائع ہو ئے یا جن کے مصنفین کو ذاتی طور پر بھی علامہ اقبالؔ سے قرب حاصل رہا ہے لیکن آج یہ سب غلط ثابت ہو چکے ہیں ۔ علامہ کی صیح تاریخ پیدائس ۹ نومبر ۱۸۷۷ءمطابق ۳/ ذی القعدہ ۱۲۹۴ھ ہے ۔


 اس کے علاوہ جتنی تاریخیں اورسنین مختلف کتابوں میں نظر آتے ہیں انھیں غلط سمجھنا چا ہئے ۔اس لئے کہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ ء کی تاریخ سارے اختلافات کے تحقیقی جائزے اور خاندانی وسرکاری دستاویزات کی چھان بین کے بعدمتعین کی گئی ہے ۔ اس تحقیق اور چھان بین میں وحیدالد ین فقیر اورسید عبدالواحد کی تحریر میں خصوصیت سے قابل ذکر ہے ۔ خود علامہ اقبالؔ نے میونخ یو نیورٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے ساتھ جوسوانحی خاکہ دیا تھا اس میں اپنی تاریخ پیدائش ۳ ذی القعدہ  ۱۲۹۴۰ھ لکھی تھی ۔ اقبالؔ کی بہن نے والدہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ وہ جمعہ کے دن علی الصباح پیدا ہوۓ ۔ چو نکے ۳ ذی القعدہ ۱۲۹۴۵ ھ کو جمعہ تھا اور یہ ۹ نومبر ۱۸۷۷ ء کے عین مطابق ہے ۔اس لئے یہی صیح تاریخ پیدائش ہے چنانچہ اس تاریخ کو درست مان کر ۹ نومبر ۱۹۷۷ ء کو اقبالؔ صد سالہ یوم پیدائش قومی سطح پر منایا گیا اوراس کو حکومت کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی کی طرف سے بھی مصدق تسلیم کی گیا۔

Post a Comment

0 Comments