Huzur (SA) ke Taif ke safar ka quissa|حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے سفر کا قصہ

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Huzur (SA) ke Taif ke safar ka quissa|حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے سفر کا قصہ

پہلا باب
دین کی خاطر سختیوں کا برداشت کرنا اور تکالیف ومشقت کا جھیلنا

 

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ نہم نے دین کے پھیلانے میں جس قدر تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی ہیں ان کا برداشت کرنا تو درکنار اس کا ارادہ کرنا بھی ہم جیسے نالائقوں سے دشوار ہے۔ تاریخ کی کتابیں ان واقعات سے بھری ہوئی ہیں مگر ان پرعمل کرنا تو علیحدہ رہاہم  ان کے معلوم کرنے کی بھی تکلیف نہیں کرتے ۔ اس باب میں چند قصوں کو نمونہ کے طور پر ذکر کرنا ہے۔ ان میں سے پہلے خود حضورؐ کے ایک قصہ سے ابتدا کرتا ہوں کہ حضور ﷺکا ذکر برکت کا ذریعہ ہے۔

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے سفر کا قصہ

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے سفر کا قصہ

نبوت مل جانے کے بعد نوبرس تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ  و سلم مکہ مکرمہ میں بلیغ فرماتے رہے اور قوم کی ہدایت اور اصلاح کی کوشش فرماتے رہے لیکن تھوڑی سی جماعت کے سوا جو مسلمان ہوگئی تھی اور تھوڑے سے ایسے لوگوں کے علاوہ جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے آپ کی مددکرتے تھے۔ اکثر کفار مکہ آپ کو اور آپکے صحابہؓ  کو ہر طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے مذاق اڑاتے تھے اور جو ہوسکتا تھا اس سے در گذر نہ کرتے تھے ۔حضورﷺ کے چچا ابوطالب بھی ان ہی نیک دل لوگوں میں تھے جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے حضور ﷺکی ہرقسم کی مددفرماتے تھے۔ دسویں سال میں جب ابوطالب کا بھی انتقال ہوگیا تو کافروں کوا وربھی ہرطرح کھلے مہار اسلام سے روکنے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا موقع ملا ۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے طائف تشریف لے گئے کہ وہاں قبیلہ ثقیف کی بڑی جماعت ہے، اگر وہ قبیلہ مسلمان ہو جائے تو مسلمانوں کو ان تکلیفوں سے نجات ملے اور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑجائے۔ وہاں پہنچ کر قبیلہ کے تین سرداروں سے جو بڑے درجے کے سمجھے جاتے تھے گفتگو فرمائی اور اللہ کے دین کی طرف بلایا اور اللہ کے رسول کی یعنی اپنی مدد کی طرف متوجہ کیا۔ مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ دین کی بات کو قبول کرتے یا کم سے کم عرب کی مشہور مہمان نوازی کے لحاظ سے ایک نو وار د مہمان کی خاطر مدارات کرتے صاف جواب دے دیا اور نہایت بے رخی اور بداخلاقی سے پیش آئے۔ ان لوگوں نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ آپ یہاں قیام فرمائیں جن لوگوں کو سردار سمجھ کربات کی تھی کہ وہ شریف ہوں گے اور مہذب گفتگو کریں گے اُن میں سے ایک شخص بولا کہ او ہو آپ ہی کو اللہ نے نبی بناکر بھیجا ہے! دوسرا بولا کہ اللہ کو تمہارے سواکوئی اور ملتا ہی نہیں تھا جس کو رسول بناکر بھیجتے، تیسرے نے کہا میں تجھ سے بات کرنا نہیں چاہتا، اس لیے کہ اگر تو واقعی نبی ہے جیسا کہ دعوی ٰہے تو تیری بات سے انکار کر دینا مصیبت سےخالی نہیں ۔ اور اگر جھوٹ ہے تو میں ایسے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا۔ اس کے بعد ان لوگوں سے نا امید ہو کر حضورﷺ نے اور لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا کہ آپ تو ہمت اور استقلال کے پہاڑ تھے۔ مگر کسی نے بھی قبول نہ کیا۔ بلکہ بجائے قبول کرنے کے حضور ﷺسے کہا کہ ہمارے شہر سے فورا ًنکل جاؤ اور جہاں تمہاری چاہت کی جگہ ہو وہاں چلے جاؤ۔ حضور  ﷺ جب ان سے بالکل مایوس ہو کر واپس ہونے لگے تو ان لوگوں نے شہر کے لوگوں کو پیچھے لگا دیا کہ آپ کا مذاق اڑائیں ، تالیاں پیٹیں، پتھر ماریں، حتیٰ کہ آپ ﷺ کے دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہوگئے ،حضور ﷺ اسی حالت میں واپس ہوئے ۔جب راستے میں ایک جگہ ان شریروں سے اطمینان ہوا تو حضور  ﷺنے یہ دعا مانگی۔

ترجمہ:

اے اللہ تجھی سے شکایت کرتا ہوں میں اپنی کمزوری اور بے کسی کی اور لوگوں میں ذلت ورسوائی کی۔ اے الرحم الراحمین تو ہی ضعفا کارب ہے ۔ اور تو ہی میرا پر ور دگار ہے. تو مجھے کس کے حوالہ کرتا ہے کسی اجنبی بیگانہ کے جو مجھے دیکھ کر ترش رو ہوتا ہے ، اور منہ پڑھاتا ہے یاکہ کسی دشمن کے جس کو تو نے مجھ پر قابو دیدیا۔ اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ہے تیری حفاظت مجھے کافی ہے میں تیرے چہرہ کے اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیر میں روشن ہوگئیں اورجس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام درست ہوجاتے ہیں اس بات سے پناہ  مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصہ ہویا تو مجھ سے ناراض ہو، تیری ناراضگی کا اس وقت تک دور کرنا ضروری ہے جب تک تو راضی نہ ہو ،نہ تیرے سوا کوئی طاقت ہے نہ قوت ۔

مالک الملک کی شان قہاری کو اس پر جوش آنا ہی تھا کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر سلام کیا اورعرض کیا کہ اللہ تعالی نے آپ کی قوم کی وہ گفتگو جو آپ سےہوئی سنی اور ان کے جوابات سنے ۔ اور ایک فرشتہ کوجس کے متعلق پہاڑوں کی خدمت ہے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو حکم دیں، اسکے بعد اس فرشتہ نے سلام کیا اورعرض کیا کہ جوارشاد ہو میں ہی تعمیل کروں ، اگر ارشاد ہو تو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں جس سے یہ سب درمیان میں کچل جائیں یا اور جوسزا آپ تجویز فرمائیں۔


Post a Comment

0 Comments