توبۃ
النصوح کا تجزیاتی مطالعہ
سيد امتیاز احمد
ماهر ؔعلیگ
کسی
بھی فن پارے کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اگر چند باتیں ہمارے پیش نظر ہوں تو ہم
زیادہ اچھی طرح اور انصاف کے ساتھ اس کا جائزہ لے کر کسی فیصلہ تک پہنچ سکتے ہیں ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پیش نظر تخلیق ادب کی کسی صنف سے متعلق ہے۔ آیا اس صنف کا
مصنف خود موجد ہے یا اس کے سامنے اس صنف کے اچھے یا برے نمونے موجود تھے۔ دوسرے یہ
کہ تصنیف میں فنکار کا کون سا مقصد کارفرما ہے اور اس نے اپنے نقطہ نظر کی پیشکش
میں فن کی نزاکت ولطافت کی کس حد تک رعایت کی ہے ۔ تیسرے یہ بات کہ فنکار نے اپنے
فن پارے کے لئے مواد کہاں سے اخذ کیا ہے۔
مندرجہ
بالا اشاروں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم تو بۃ النصوح کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے
پہلے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ توبۃ النصوح
Fiction میں صنف ناول سے بہت زیادہ قریب ہے بلکہ
بیچ معنوں میں ہم اسے ناول کے علاوہ کسی اور نام سے موسوم بھی نہیں کر سکتے۔ اس
لئے اس قصہ میں ناول کے وہ تمام بنیادی اجزا موجود ہیں جن پر ایک ناول کی عمارت
کھڑی ہوتی ہے۔ یعنی کہانی پن، پلاٹ اور اس کی ترتیب و عظیم کردار نگاری اور
مکالمہ، ایک اہم موضوع اور مقصد اور اس کی پیش کش کا دلچسپ انداز حسن بیان وغیرہ ہی تمام اجزائے ترکیبی تو یہ النصوح میں
کسی نہ کسی حد تک سہی لیکن موجود ضرور ہیں ۔
بعض
نقادوں نے تو بۃ النصوح کو جو ناول قرار دینے سے انکار کیا ہے ان کے نزدیک بقول
وقار اعظم (۱)’’ اس میں فن کے وہ لوازم موجود ہیں جن کا مطالبہ جدید ناول سے کیا
جاتا ہے، یعنی پلاٹ اور اس کے مختلف فنی اجزاء ایک اہم موضوع اس اہم موضوع کو پیش
کرنے کیلئے ایک موزوں اور پرکشش آغاز ، الجھن، ارتقا ،منتہا، منطقی انجام ،بھر پور
زندگی سے بھر پور کردار، ایک واضح نقط نظر کی موجودگی مقصد اورفن کا باہمی توازن،
موضوع اور بیان میں مکمل مطابقت اور ہم آہنگی مصنف کی شخصیت کا گہرا پرتو اور اس
کی فکری اور جذباتی صلاحیتوں اور قوتوں کا پورا مشاہدہ اور احساس یا دوسرے لفظوں
میں خارجی عناصر اور داخلی کیفیتوں کی موزوں آمیزش نذیر احمد کے قصے میں سب کچھ
تلاش کیا جا تا ہے اور نہیں ملتا تو یہ کہنے میں ذرا بھی تکلف نہیں برتا جا تا کہ
یہ قصے ناول نہیں ہیں لیکن اگر انصاف سے توبۃ النصوح کا مطالعہ کیا جاۓ
تو اوپر جتنی صفات کی عدم موجودگی کا اظہار کیا گیا ہے اس میں ایک حد تک یہ سارے
لوازم موجود ہیں اور یہاں ہمیں کم و بیش وہ سارے خد و خال دکھائی دیتے ہیں۔ جن سے
ناول کے پیکر کی تخلیق تعمیر ہوتی ہے۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ناول میں فن
کی وہ پختگی اور لطافت ونزاکت نہیں ہے جس کو بعد کے آنے والے ناول نگاروں نے قائم
کیا اور اس کی وجہ محتاج بیان نہیں ۔ نذیراحمد وہ پہلے فنکار ہیں جنہوں نے اردو
میں ناول نگاری کی بنیاد ڈالی۔ وہ بالاتفاق سب کے نزدیک اردو ناول نگاری کے موجد ہیں
ان کے سامنے اردو میں ناول کا کوئی نمونہ موجود نہ تھا۔ان کی انہیں تصانیف نے سب
سے قبل قصہ اور کہانی کو داستان کی رومانی ، غیر فطری اور خیالی دنیا سے نکال کر
حقیقت کی دنیا میں قدم رکھنا سکھایا اور بعد میں آنے والے ناول نگاروں نے ان کی
جلائی ہوئی شمع سے روشنی حاصل کی ۔
کسی
بھی فن میں پختگی تدریجا ًآتی ہے۔ اس لئے کسی صنف کی ابتداء میں وہ تمام فنی
لوازمات کو تلاش کرنا جو ایک عہد کی مشق کا متقاضی ہوایسا ہی ہے جیسے ایام منفی
میں شباب کی کیفیتوں کی جستجو کرنا۔
دوسری ایک اہم بات جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ
ہے کہ اس ناول کی تخلیق میں مصنف کا مقصد
اپنے فن کا کمال دکھا کرعوام سے خراج تحسین وصول کرنا نہیں ہے، نہ اس کی یہ تصنیف
فقط تفریح طبع اور نشاط خاطر کا ایک ذریعہ ہے بلکہ اس کے سامنے ایک عظیم مقصد ہے
اور وہ ہے مذہبی اور معاشرتی اصلاح کا اہم کام۔ یہ وہ مقصد ہے جس سے مصنف کو گہری
اور جذباتی وابستگی ہے۔ اس نے پورے غورفکر کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ خیر اورحق کے
عالمگیر تصوّرات کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص معاشرے کے مسائل کو کہانی کے رگ و پے میں
سرایت کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے عوام کے ذوق کے باوجود قصّے کہانیوں کےاس قدیم
طرز کی اتباع نہیں کی ہے جس کے عوام و خواص دلدادہ تھے بلکہ اس نے اپنی تصنیف
کوعلمبردار اور معاشرتی زندگی کے مقاصد کا حامل بنایا۔ بیان میں شعریت اور رنگینی
جوداستان کی امتیازی خصوصیت تھی کے بجائے سادگی حسن کلام کا زیور بنایا ۔
ہر صنف ادب کی پیشکش میں کسی نہ کسی مقصد کی
کارفرمائی ضرور ہوتی ہے کوئی فنکار اپنےفن پارے کو شعوری یا غیرشعوری طور پراس سے
بچانہیں سکتا۔ چا ہے، مقصد کیسا ہی ہو اس کا تعلق فکر کے افکار ونظریات پر مبنی
ہے۔ لیکن ایک اعلی فنکار اورمعمولی لکھنے والے میں فرق ہے کہ آخرالذکرا پنے مقصد
کو اس طرح واضح کرتا ہے کہ اس کی تصنیف محض تبلیغ و پرو پیگنڈہ بن جاتی ہے لیکن ایک
اعلیٰ فنکار اپنا مقصد واقعات کے بیان کی
ترتیب سے حاصل کرلیتا ہے۔ بقول علی عباس حسینی ’’وہ پروپیگنڈہ اورتبلیغ نہیں کرتا وہ
خواہ مخواہ مصلح یا ناصح اورراوی بن کر اپنی رائے ہمارے اوپر وارد نہیں کرتاوہ نظر
کوبہت ہی آہستہ آہستہ باتوں میں لگا کر اپنے راستے پر لے آتا ہے اور ایک غیر محسوس
طور پر اس کے خیالات میں تبدیلی پیدا کردیتا ہے۔ ‘‘ (ناول کی تاریخ و تنقید )
ڈاکٹر سلام سند یلوی اس بارے میں یوں رقم طراز ہیں’’......... وہ ایک
معلم اخلاق کی طرح اخلاق کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ ایک داستان گوکی طرح زندگی کے
واقعات اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ اس کا فلسفہ ٔحیات رکھنے میں ہم دقّت محسوس نہیں
کرتے ۔“
ان
دونوں بیانات کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو باوجود اس کے کہ اس ناول میں معاشرے
کا ایک اہم اصلاحی مسئلہ کھل کر پیش کیا گیا
ہے لیکن ان کی پیش کش میں فنکار نے زندگی کا ایسا پس منظر استعمال کیا ہے جس کی
مدد سے دو قاری کی دیہی اور توجہ کو باقی رکھنے میں پوری طرح کامیاب ہے اور ناول کی
کامیابی کا سارا دارومدار ناول کی واپسی پر ہے جو تو بۃ النصوح کے اندر بدرجہ اتم
موجود ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ مصنف کو اپنے مقاصد کے ساتھ جو جذباتی لگاؤ ہے اسے وہ
ایک لمحہ کیلئے بھی فراموش کرنانہیں چاہتا بلکہ وہ اپنے قاری کو بھی اس سے غافل
رکھنا نہیں چاہتا اور یہی وجہ ہے کہ ناول میں مقصدیت اور احساس قلمی فنی نزاکت
ولطافت پر غالب ہیں۔
اب
ہم ناول کے اجزائے ترکیبی کو سامنے رکھ کر توبۃ النصوح کا جائزہ لیتے ہیں:
توبۃالنصوح
کا پلاٹ اور اس کا ماخذ:
ناول میں پلاٹ ایک ضروری اور لازمی شئے ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بغیر پلاٹ
کے کوئی ناول نہیں ہوتا۔ پلاٹ ،واقعے کے اس خاکے کو کہتے ہیں جو ناول نگار کے پیش نظر
شروع ہی سے رہتا ہے۔ قصّے اور واقعات کی ساری دلچسپیاں پلاٹ کی ترتیب پر موقوف ہے۔
توبۃ
النصوح کا پلاٹ ناول نگار کا خودساختہ نہیں بلکہ انگریزی سے ماخوذ ہے یہ ایک جدید
تحقیق ہے اور جس کی طرف آج تک ہمارے نقادوں کے ذہن کی رسائی نہیں ہو سکی تھی جب
مجھ تک پہلی بار یہ بات پہنچی تو مجھے اس کی صحت میں انتہائی تردد ہوا اور ایک
انوکھی بات معلوم ہوئی جو آج تک نہ سنی تھی۔ میں نے تلاش وجستجو کے بعد آزاد لائبریری
سے وہ رسالہ بر آمد کیا جس میں سب سے قبل یہ انکشاف کیا گیا تھا۔یہ رسالہ کراچی سے
شائع ہونے والا ماہنامہ ماہ نو ہے شمارہ بابت ماہ نومبر ۱۹۵۴ مضمون کے لکھنے والے
ڈاکٹر محمد صادق ہیں ۔ مضمون کا عنوان’’توبۃ النصوح اور اس کا ماخذ‘‘ ہے جس کے کچھ
اقتباسات یہاں نقل کرنا میرے خیال میں توبتہ النصوح کے تجزیہ کے سلسلہ میں بے موقع
نہ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں ’’تو بۃ النصوح تمام تر ایک انگریزی ناول سے ماخوذ ہے ۔
دونوں ناولوں میں صرف اتنافرق ہے کہ نذیراحمد کے افسانے میں نصوح کو دوران علالت میں
اصلاح کا خیال آتا ہے۔ انگریزی میں بچوں کی بددینی کا سبب ایک لامذہبی استاد ہے۔
بچوں کی بے راہ روی دیکھ کر باپ کو ان کی اصلاح کا خیال آتا ہے۔ باقی دونوں افسانے
بالکل ایک ہیں ۔ انگریزی ناول میں باپ پہلے اپنی بیوی سے تبادلہ خیال کرتا ہے اور
اس کی مدد چاہتا ہے۔ پھر یکے بعد دیگرے چھوٹے بچوں سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کرتا ہے
لیکن اس کا بڑا بیٹا اور بڑی بیٹی کسی طرح نہیں مانتے۔ بڑا بیٹا گھر سے بھاگ نکلتا
ہے اور فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے لیکن جلد ہی زخمی ہو کرگھر لایا جاتا ہے اور اپنی
آوارگی پر افسوس کرتے ہوئے مر جاتا ہے۔ اس کی بہن جو ماں سے لڑ کر اپنی چچی کے پاس
چلی جاتی ہے آہستہ آہستہ اچھے لوگوں کی خوبو حاصل کر لیتی ہے۔ اور اس کی ایک اچھے
گھر میں شادی ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ناول توبتہ النصوح میں نعیمہ کی شادی آغاز قصّے
سے پہلے ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘
اس کتاب کے مصنف کا نام Daniel
Defoe ڈینیل
ڈیفو ہے اور اس کی تصنیف کا نام The Family Instructor ہے جو تین حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصہ کا نام Relating
to Fathers and Children ہے دوسرے حصہ کا نام Master
and Servents ہے اور تیسرے حصہ کا نام To
husbands and wives ہے۔ توبتہ النصوح کا پلاٹ یعنی پہلے حصہ یعنی
Relating
to Fathers and Children سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب پہلی اور آخری دفعہ ۱۷۱۵ء میں طبع ہوئی اور اب
بالکل کمیاب ہے۔ ملک میں اس کا کوئی حصہ موجود نہیں ۔ ذیل کی معلومات اس کتاب
کی ایک ٹائپ شدہ کاپی سے حاصل کی گیا ہے جو برٹش میوزیم کی کاپی کی ہو بہونقل ہے ۔
اور جسے اس مضمون کی خاطر وہاں سے منگولیا گیا ہے۔ یہ ٹائپ شدہ نسخہ گورنمنٹ کالج
لاہور کے کتب خانے میں ہے۔
بعد میں مضمون نگار نے اس قصے کا خلاصہ پیش کیا
ہے جس میں زیادہ تر قصے کے مکالموں کا ترجمہ اس کتاب سے نقل کیا ہے۔ جس کا ذکر بھی
یہاں توبتہ النصوح کے پلاٹ کے سلسلہ میں غیر موزوں نہ تھا بلکہ ضروری تھالیکن
طوالت کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کیا جا تا۔ اس قصے میں وہ سب کچھ ہے جن پر توبۃ
النصوح کے پلاٹ کی بنیاد ہے ۔ یہاں تک کہ ماں اور بیٹی کی لڑائی باپ کا اپنے بڑے
لڑکے کو بلا نااس کا انکار کرنا اور والدین کو مجنوں اور بجلی کا خطاب دینا۔ ماں
کا غصہ میں بڑی لڑکی کی تمام گانے کی کتابیں اور دوسری فضول اور بازاری ناولوں کا
جلا دینا۔ چھوٹے لڑکے کا اصلاح پر جلد آ جانا ۔ اس کی اصلاح کا سبب پڑوس کی ایک شریف
عورت اور ان کے شریف بچے کا ہوتا۔ بڑے لڑکے کا بھاگ کر فوج میں داخل ہوتا۔ زخمی
ہونا اور گھر واپس آکر داعی اجل کو لبیک کہنا۔ بڑی لڑکی کا اپنی چچی کے گھر کے
ماحول سے متاثر ہو کر اصلاح پر آنا وغیرہ وغیرہ یہ تمام جزئیات انگریزی کے اس ناول
میں موجود ہیں ۔ اس میں مماثلت کی بناء پر جوڈیفو کے ناول اور توبتہ النصوح میں ہے
یہ صاف ظاہر ہے کہ توبۃ النصوح کا پلاٹ ڈیفو کے ناول سے ماخوذ ہے ۔ لیکن اس میں شک
نہیں کہ اپنے پلاٹ کی ترتیب اور تعمیر میں نذیر احمد نے آزادی سے کام لیا ہے اور
اپنے دلچسپ انداز بیان اور دلکش مکالمہ نگاری کے ذریعہ اس نقل کو اصل سے زیادہ
بہتر بنادیا ہے۔ کئی واقعات کونظرانداز کردیا گیا ہے اور چند نہایت اہم اور دلکش
اجزاء کا اضافہ کیا ہے ۔ کردار نگاری میں بھی نذیر احمد نے اپنے کرداروں کو اپنے
عہد کے ماحول و معاشرے کا زندہ نمونہ بنادیا ہے اور کئی کرداروں کا اضافہ کیا ہے جیسے
مرزا ظاہر دار بیگ اور فطرت کا کردار جواپنی نوعیت کے اعتبار سے ہمارے ادب میں
مستقل حیثیت رکھتا ہے۔
انگریزی کتاب کا آغاز افسانے کی صورت میں نہیں
ہوتا بلکہ مصنف اپنے زمانے کے حالات اور بددینی پر افسوس کرتا ہے۔ اس موضوع پر ایک
طویل بحث کے بعد ہمارا ایسے والدین سے تعارف کرایا جاتا ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو
مذہبی تعلیم نہیں دی اور جو صرف نام کو عیسائی ہیں مصنف یقین دلاتا ہے کہ یہ کوئی
فرضی اور افسانوی کردار نہیں ہیں بلکہ ہمارے معاصر ہیں اور وہ ان کی کہانی اس لئے
لکھ رہا ہے کہ ایسے غافل والدین نادم ہوں اور انہیں اپنے فرائض کا احساس ہو۔ بعدہ ٔاصل
قصہ مکالمہ کی صورت میں شروع ہوتا ہے۔
توبۃالنصوح
میں ہیضہ کی وبا کا پھیلنا نصوح کا اس میں مبتلا ہونا اور خواب دیکھنا۔ خواب اچھے
برے اعمال کی جزاوسزا کے منظر کا پورے طور پر مظاہرہ کرنا باپ سے گفتگو کرنا ان سے
انکی حالت زبوں کا سننا۔ خواب سے جو نکلنے پرنصوح کے دل میں خوف آخرت اور در بار
خدا میں اپنی ندامت کا پیدا ہونا ہی تمام مصنف نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے اور
خوب کیا ہے جس سے اس ناول کا پلاٹ انگریزی ناول کے پلاٹ سے اپنی ترتیب اور حسن تنظیم
میں کہیں آگے بڑھ گیا ہے۔ انگریزی کتاب میں اس خاتون اور اس کے بچوں کا ذکر جو توبۃ
النصوح کی حضرت بی کے مماثل میں نہایت اختصار سے کیا گیا ہے۔ نذیر احمد کے قصے میں
حضرت بی ایک مستقل کردار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہی حال فہمیدہ اور حمیدہ کی لڑائی
کا ہے۔انگریزی میں صرف یہ ہے کہ بڑی لڑکی مذہب کی توہین کرتی ہے اس کی ماں بے تاب
ہو کر اسے طمانچہ مارتی ہے اورلڑ کی غصہ کی حالت میں اپنے کمرے چلی جاتی ہے۔ نعیمہ
نے مارکھانے پر جو سارا گھر سر پر اٹھایا ہے وہ نذیراحمدہی کا حصہ ہے۔ اور بلاشبہ
اس کے کردار نے اس کی تمام حرکات وسکنات میں تو بۃ النصوح کے مصنف کے انتہائی فطری
اورسچی تصویر کشی کا کمال دکھایا ہے۔ جو بات انگریزی کے اس ناول کو عیب نہیں ہوسکی
ہے۔ اسی طرح کلیم کا ایک ایسی ریاست میں جانا جہاں اب علماء کا دور دورہ ہے نذیر
احمد کی اپنی اختراع ہے ۔ توبتہ النصوح میں مزاح کا بھی خاصہ عنصر ہے جو انگریزی
ناول میں مفقود ہے۔
’’ایک
انگریز مصنف کا قول ہے کہ مضمون اس کا ہے جو اسے بہترین اسلوب میں ادا کرے، جب
سرقہ اصل سے بڑھ جائے تو سرقہ نہیں رہتا۔ نذیر احمد نے اپنا پلاٹ ڈیفو سے لیا ہے۔
لیکن اس کا ناول ڈیفو کے قصے سے بدرجہا بہتر ہے جس طرح شیکسپیئر نے پیش یا افتادہ
کہانیاں لے کر انہیں اپنے ڈراموں میں کہیں کا کہیں پہنچادیا ہے۔ اسی طرح نذیر احمد
نے ڈیفو کے مدھم اور ادھورے نقوش میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔“
اس بات کی تحقیق کہ نذیراحمد کو یہ کتاب کس طرح
ملی، یہ نسخہ واقع میں صحیح ہے یا غلط یہ ایک الگ بحث ہے ۔جس کا جی چاہے مز یدتحقیق
کرے لیکن اتنی بات تعجب کی ضرور ہے کہ توبتہ النصوح کا پہلا مقدمہ جس انگریز افسر
نے لکھا ہے اور جس میں اس نے توبۃ النصوح کا جائزہ لے کر اپنی پسند کا اظہارکیا ہے
اس نے بھی کہیں اس بات کا ذکر نہیں کیا ہے۔
اب
ہم انگریزی نال سے قطع نظر توبۃ النصوح کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔
جہاں تک ناول کے پلاٹ کا تعلق ہے اوپر بہت ساری باتیں اس ضمن میں عرض کی جاچکی ہیں
اور جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ اگر چہ ناول کے پلاٹ کا مواد انگریزی سے ماخوذ ہے لیکن
پلاٹ کی تنظیم اور تعمیر میں مصنف نے اپنے خصوصی انداز فکر اور اسلوب کو سموکر اسے
قاری کیلئے زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور اثر انگیز بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایک اچھے
ناول کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے پلاٹ میں زندگی کی پر چھائیاں ضرور ہوں ۔
چاہے وہ کسی زمانے اور کسی طبقہ سے متعلق ہو۔ ناول نگار کیلئے ضروری ہے کہ وہ فرضی
واقعات کو بھی ادبی صداقت اور تجربات انسانی کے حدود میں بیان کرے اس لئے یہ ضروری
ہے کہ اس نے جس ماحول اور معاشرہ کو قصے کا موضوع بنایا ہے۔ اس سے پوری طرح واقف
ہو۔ توبتہ النصوح میں مصنف نے اپنے عہد کے جس متوسط گھرانے اور ان میں پیدا ہونے
والے مسائل کو پیش کیا ہے اس سے مصنف پوری طرح واقف نظر آتا ہے۔
گر
چہ قصہ صرف اتنا ہے کہ نصوح جس کی اب
تک کی زندگی دینی غفلت اور لا پرواہی میں گذری ہے ہیضہ کی وبا
میں مبتلا ہوتا ہے۔ زندگی کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ اس لئے کہ اس مرض میں شہر
کے سینکڑوں افراد اور خود نصوح کے والد، خالہ اور ایک ماما کا انتقال ہو چکا ہے۔
دوران نیند میں وہ ایک عبرت ناک خواب دیکھتا ہے کہ میں احکم الحاکمین کی بارگاہ
عدالت میں حاضر ہوں جہاں ہزاروں آدمی منتظر حکم حاکم خوف سے بحالت سکوت کھڑے ہیں۔
وہیں حوالات میں اسے اپنے باپ سے ملاقات ہوئی حالانکہ وہ دنیا می بظاہر متقی اور
پرہیز گار تھے باپ نے جب اپنا اعمال نامہ دکھایا تو خطاؤں اور گناہوں سے پر تھا۔
انہوں نے وہاں کی ساری کیفیت اور اپنا مجرم ہونا اپنی ظاہری عبادتوں کا نامقبول
ہونا کچھ اس طرح بیان کیا کہ نصوح پرخوف ودہشت کی حالت طاری ہوتی ہے وہ خواب سے
جاگتا ہے تو اس کے دل پر اپنی بدینی او غفلت اور خواب میں دیکھی ہوئی تمام باتوں
کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ اسی وقت اپنی سابقہ زندگی سے توبہ کر کے اپنی اور اپنے گھر
والوں کی اصلاح کا عہد کرتا ہے۔ صحت پانے کے بعد وہ اپنے اس ارادے کو پورا کرنے کی
سعی اور کوشش شروع کرتا ہے چھوٹے بیٹے علیم اور سلیم جو کم عمربھی ہیں اور طبعا ًنیک
بھی بہت جلد اصلاح پر آجاتے ہیں ۔ نعیمہ ماں سے لڑ کر خالہ کے گھر چلی جاتی ہے
جہاں وہ دیندار ماحول پاتی ہے اور اصلاح پر آجاتی ہے لیکن کلیم گھر سے فرار ہوجاتا
ہے اور برابر سے ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر میں وہ ایک ریاست میں فوج
میں بھرتی ہو جا تا ہے زخمی ہوکر گھر واپس آ تا ہے اور آخر میں اپنی زندگی پر
ندامت اور شرمندگی کے ساتھ والدین کے سامنے دنیا سے رخصت ہو جا تا ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے
کہ پورے واقعات کے اندر ایک ناگزیریت کا سلسلہ ہے۔ کہانی میں دلچسپی پیدا کر نےکیلئے
ایک اہم واقعہ اور دوسرے کم اہم واقعہ کا ایک تسلسل پیدا کیا گیا ہے۔ ہرواقعہ ایک
دوسرے واقعہ کے وجود میں آنے کا سبب بنتا ہے۔اور ہمیں اس میں ناگزیریت کا احساس
ہوتا ہے ۔ نصوح کے خواب دیکھنے سے قبل مصنف نے جو ماحول اور پس منظر پیش کیا ہے اس
منظر کے تحت نصوح کا خواب دیکھنا اور ذہن ودماغ میں ایک انقلاب کا پیدا ہونا میں
فطری اور ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ پھر اس نے خواب کی حالت میں جس عبرتناک منظر کا
اپنی آنکھوں سے مظاہر کیا (اور وہ بھی اس حالت میں جبکہ وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو
چکا تھا) اس سے اس کے اندرفکر آخرت اور خوف خدا کے شدید جذ بے کا پیدا ہونا، اپنی
سابقہ زندگی اور بے دینی پر ندامت کے آنسو بہانا اور آئندہ کیلئے ساری زندگی احکام
خداوندی پر چلنے کا عہد کرنا اولاد کی بددینی اور بے راہ روی کو دیکھ کر انتہائی
صدمہ اور رنج کالائق ہوتا اور خود کو ان کا ذمہ دار سمجھتے ہوۓ
ان کی اصلاح کی فکر کا پیدا ہونا یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو بالکل فطری اور حقیقت
سے قریب ہیں ۔ نصوح واقعات کی جس شدت سے گذرتا ہے اور اسے جن حالات اور کیفیات سے
دوچار ہونا پڑتا ہے کلیم چونکہ اس سے نا آشنا ہے اس لئے اسے نصوح کے اندر یک بیک یہ
تبدیلی ایک عجیب سی وحشت معلوم ہوئی۔ اس کے علاوہ چونکہ ابھی وہ جوان ہے اور اب تک
اس نے گھر کا جو ماحول دیکھا ہے اور جس ماحول میں اب تک اس کی زندگی گذری ہے وہ
لہو و لعب ، کھیل کو دلذت پرستی اور آخرت فراموشی کا ماحول رہا ہے اور پھر وہ نصوح
کی طرح کسی ایسے حادثے اور واقعے سے دو چار بھی نہیں ہوتا ہے جس سے اس کے دل پر
عبرت اور خوف خدا کا کوئی جذ بہ پیدا ہوا ہو اس لئے اسے اپنی مرغوبات اور بالوفات
سے یک لخت منہ موڑ نا اور نماز اور دوسرے دینی کاموں کی طرف مائل ہونا اپنے مر
رہنے سے زیادہ مشکل معلوم ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ باپ اسے یہی نصیحت کریں گے اور
پھر ایسا نہ ہو کہ ان کی نصیحتوں کا اس پراثر ہو جاۓ
اور اسے اپنا طریقہ زندگی جسے وہ محبوب رکھتا ہے بدلنا پڑے اس لئے باپ سے ملنے سے
بھی انکار کر دیتا ہے۔ کلیم کے ان تمام حرکات و سکنات میں مصنف نے اس کے اندرونی
جذبات و خیالات کی بالکل فطری اور حقیقی عکاسی کی ہے۔ یہاں ہمیں کلیم کے اس انکار
اور دین سے وحشت پرکوئی تعجب معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس کی زندگی کے پس منظر میں ہمیں
محسوس ہوتا ہے کہ ایساہی ہونا چاہئے تھا۔
علیم اور سلیم چونکہ کم عمر میں اور کم عمر ہونے
کی وجہ سے ان کے اندر اصلاح کا مادہ بھی ابھی تازہ ہے اس لئے ان پر نصوح کی گفتگو
کافوراً اثر ہو جا تا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ مصنف نے دونوں کی زندگی سے کچھ ایسے
واقعات کو وابستہ کیا ہے جسے حضرت بی اور ان کے بچوں سے تعلق اور علیم کا پادری کے
وعظ کا سننا اور اس کی دی ہوئی کتاب کا پڑھنا جس سے ان کے اندر نصوح کی گفتگو سے
قبل نیکی کے جذبے کا پیدا ہونا۔ اس پر نصوح کی اثر انگیز گفتگو اور وعظ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جس سے ان دونوں کا
فورا ًاصلاح پر جانا عین حقیقت کے مطابق اور منطقی ہے۔
فہمیدہ
ایک تو شروع ہی سے طبعاً شریف مزاج نیک دل اور سمجھ دار واقع ہوئی تھی پھر نصوح
شوہر ہی تو تھا اس کا اس طرح بیماری میں مبتلا ہونا اور اس کے اندر اس طرح کی تبدیلی
کا پیدا ہونا نصوح کی زبان سے خواب کا سارا حال سننا۔ اس پر حمیدہ کی معصومانہ اور
دل میں رقت پیدا کر دینے والی گفتگو ایسی باتیں نہیں تھیں جس سے فہمیدہ کادل اسقدر
متاثر نہ ہونا جیسا کہ مصنف نے دکھایا ہے۔ نعیمہ چونکہ شروع سے لاڈ اور پیار میں
پرورش پاتی تھی پھر طبعا ًنازک مزاج اور بد زبان بھی ہے اس لئے اس کے وہ سارے
اعمال اور سارا ہنگامہ جو اس نے بر پا کیا بالکل واقعے کے مطابق معلوم ہوتا ہے لیکن
چونکہ وہ کلیم کی طرح مرد نہیں ہے اور کلیم جن برائیوں کا خوگر ہے نعیمہ کوان کی
ہوا بھی نہیں گئی یہ جیسی بھی سہی لیکن گھر کی چہار دیواریوں میں رہنے والی ایک شریف
گھرانے کی لڑکی ہے اس لئے صالحہ کی باتیں اور اس کا اس طرح سمجھانا پھر خالہ کے
گھر کا ماحول اور دینداری کا چر چا ہی وہ باتیں ہیں جس نے بہت جلد اسے اصلاح کی
طرف مائل کر دیا۔
جن
لوگوں نے نذیر احمد کی کہانیوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ” حقیقت کی زندگی کا مصور
اور تر جمان ہو کر بھی اپنے آپ کو تخیل تصور اور شعریت کی ان قدروں سے جدا نہیں کر
سکا۔ جن کی مدد سے داستان نے ایک جہان نو بنانے کی روش کو اپنا شیوہ بنایا تھا۔‘‘
میرے خیال میں یہ اعتراض تو بۃ النصوح پرکسی طرح صادق نہیں آتا۔ یہاں ہمیں کوئی ایسا
جز نظرنہیں آتا جو داستان کی خصوصیت کہی جاسکتی ہے ۔ اگر داستان کی خصوصیات سامنے
رکھ کر اس ناول کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں اس میں داستان سے بالکل الگ ایک فضاملتی
ہے۔
کوئی
واقعہ غیر حقیقی اور ناموس نہیں کوئی کردار غیر فطری اور انسانی جذبات و کیفیات سے
عاری نہیں۔ تعجب ہے کہ بعضوں نے یہ اعتراض کی طرح کیا ہے کہ ’’مبالغہ کی حد تک غیرمنطقی
لگاؤ کے اعتبار سے ان کی ناولوں میں داستانی رنگ کی آمیزش ہے ۔ میرا موضوع اس وقت
مصنف کی دوسری ناولوں مثلاً مراۃ العرس ،بنات
النعش کا جائز ہ لینا نہیں ہے لیکن جہاں تک تو بۃ النصوح کا سوال ہے پوری ناول پڑھ جائے ۔ کہیں کوئی
واقعہ ایسا نہیں جس میں کوئی نہ کوئی Logical element نہ ہو،حد تو یہ ہے کہ نصوح کا خواب دیکھنا جس میں کسی منطقی لگاؤ
کی ضرورت نہ تھی اس لئے کہ خواب کی دنیا ایسی نہیں جس سے کوئی فرد نا آشنا ہو اور اسے اس کا
تجربہ نہ ہولیکن مصنف نے یہاں بھی خواب سے پہلے کا پس منظر اور نصوح کے دو خیالات
جو اپنی موت کا سوچ کر اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ دونوں کو ملا کر کچھ اس طرح کی
فضا تیار کی ہے کہ نصوح کا خواب دیکھناان لوگوں کیلئے بھی قابل تسلیم بن جا تا ہے
جو زندگی کے ہر واقعے میں ظاہری اسباب علل اور عقلی منطق کو تلاش کرتے ہیں۔ یہ سطریں
ملاحظہ ہوں۔ ’’استغنا سے ایک اطمینان جو دل کو پہنچا اور ادھر علالت کے اشتد ادکا
تکان تھاہی اوپر سے پہچی دوا جو بالخاصہ خواب آورتھی اور تیمارداروں کا ہجوم کم
ہوا۔ لیٹاتو نیند کی ایک جھیکی سی آ گئی۔ آنکھ کا بند ہونا تھا کہ نصوح ایک دوسری
دنیا میں تھا۔ جو خیالات ابھی تھوڑی دیر ہوئے اس کے پیش نظر تھے سب اس کے دماغ میں
بھرے ہوئے تھے اب متخیلہ نے ان کو اگلے پچھلے تھوڑے سے گڈ مڈ کر کے ایک نئے پیرائے
میں سامنے لاکھڑا کیا۔ حالانکہ یہ بات اگر مصنف بیان نہ بھی کرتا تو بھی سابقہ
واقعات ایسے نہ تھے جس سے نصوح کا خواب دیکھنا قرین از قیاس نہ معلوم ہوتا۔ پھر
آخر میں ناول نگار اپنے نظریہ کی بھی وضاحت کر دیتا ہے کہ خواب صرف کوئی خیالی اور
وہمی شئے نہیں ہے۔ اس کا دل مان گیا تھا کہ بی خواب میرے وہم و گمان کا بنایا ہوا
ہر گز نہیں ہے ہو نہ ہو یا ایک امر من جانب اللہ ہے خواب کیا ہے رویائے صادقہ اور
الہام الہی ہے۔‘‘
توبتہ
النصوح کے پلاٹ کی ترتیب ڈرامائی انداز پر کی گئی ہے اور پوری ناول مکالمہ کے ذریعہ
ہی آگے بڑھتی ہے ناول کے بعض حصے تو اسقدر ڈرامائی اور دلچسپ ہیں کہ اگر انہیں
ڈرامے کی شکل دی جائے تو میرے خیال میں ڈرامہ انتہائی کامیاب اور دلچسپ ہوگا۔ خاص
طور سے نصوح کا گھر سے نکل کر اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ کے یہاں جانے سے قید ہو
کر نصوح کے پاس آنے تک کے واقعات کے بیان میں تو مصنف نے کمال کر دیا ہے۔ یہ حصّہ
صرف اردوہی نہیں دنیا کی کسی بھی اچھی ناول کے مقابلہ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
اتنی
بات ضرور ہے کہ توبۃ النصوح کی تصنیف کے وقت مصنف ناول کے فن اور اس کی نزاکت
ولطافت سے بہت زیادہ آشنا نہیں جس سے بعد میں آنے والے ناول نگار آشنا ہوئے اور اس
کی وجہ ظاہر ہے کہ یہ اردو ناول نگاری کا آغاز تھا اور ناول نگار تجر بہ کے دور سے
گذر ہاتھا اور اس لئے توبۃ النصوح میں پلاٹ انتہائی سادہ اور غیر پیچیدہ ہے۔ یہاں
کوئی چونکا دینے والے واقعات اور غیر معمولی حادثات رونما نہیں ہوئے،نہ قصے میں
کوئی پیچیدگی اور الجھن پیدا ہوئی ہے بلکہ یہاں واقعات شروع سے آخر تک مصنف کے
مقاصد کے تابع ہوکر ایک خط مستقیم میں چلتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس منزل پر پہنچ
جاتے ہیں جو مصنف نے اپنے مقصد کیلئے متعین کر رکھی ہے۔
تو
بۃ النصوح میں کردارنگاری کا جہاں تک تعلق ہے اس میں ہمیں جیتے جاگتے چلتے پھرتے
اور اپنی زندگی کے بالکل جانے پہچانے فطری اور حقیقی انسانی کردار نظر آتے ہیں
ناول میں کردار نگاری کے دوطریقے استعمال کئے گئے ہیں ایک تو تجزیاتی یاتشریحی طریقہ
جس میں ناول نگار کرداروں کی تصویر کشی باہر سے کرتا ہے ان کے جذبات ، ارادوں ،
خواہشوں ، خیالات اور احساسات کی وضاحت کرتا ہے۔ ان کا تجزیہ کرتا ہے ان پرتبصرہ
کرتا ہے ۔ دوسرا طریقہ Indirect یا ڈرامائی ہے جس میں ناول
نگار فاصلے پر رہتا ہے اور کرداروں کو اس کی آزادی دیتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو
دوسرے کرداروں کی بات چیت کے درمیان یا اپنے عمل اور خود کلامی کے ذرایعہ سے اپنے
چال چلن پر روشنی ڈالیں ۔ اچھے ناول نگاران دونوں میں توازن قائم رکھنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ توبۃ النصوح میں کردار نگاری کے یہ دونوں طریقے استعمال کئے گئے ہیں۔
ناول میں جہاں کرداروں کے ظاہری خدوخال اور ظاہری گفتار وکردار کو دکھایا گیا ہے ،وہیں
ان کے اندرونی جذبات و خیالات کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔ بعض نقادوں نے جو یہ اعتراف
کیا ہے کہ اس ناول میں کردار مثالی ہیں نیکی اور بدی کے نمائندہ ہیں۔ ان میں کسی قسم
کا تغیر و تبدل ، ان پر حالات کا
کوئی اثر نہیں پڑتا یہ ساری باتیں سطحی ہیں جو سطحی طور سے کہہ دی گئی ہیں۔ میری
سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مثالی کردار سے ہمارا مفہوم کیا ہے۔ کیا مثالی کردار
ہماری حقیقی دنیا میں نظرنہیں آتے کیا ایسے نیک اور صالح افراد جنہوں نے اپنی قوت
ارادی سے کام لیکراپنی نفسانی خواہشات پر قابو پالیا اور انسانیت کے جامے میں فرشتہ
نظر آتے ہوں ہماری اس زندگی میں نہیں ملتے۔ وہ اصل انسانیت سے ماور اور کردار کہے
جا سکتے ہیں جن کے اندر انسانی خواہشات اور جذبات کا کوئی مادہ ہی موجود نہ ہو۔
انسان کے اندر خیر اور شر دونوں بارے پوشیدہ ہیں۔ کبھی اس کی زندگی میں دونوں کا
امتزاج نظر آتا ہے لیکن کبھی انسان اپنے خیر کے جذبے کو اتتا قوی کر دیتا ہے کہ شر
کے جذبات اس کے سامنے دب جاتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ پیداہی نہیں ہوتے اور یہی انسان
کا کمال ہے جس کی وجہ سے دوفرشتوں پر فوقیت رکھتا ہے جن کے اندر شر کا مادہ ہی نہیں
رکھا گیا۔ اسی طرح اگر انسان اپنے اندر خیر کے مادے کو بروئے کارلانے کی کوئی کوشش
نہ کرے تو مادہ شر خود بخو دابھرکر جذبات خیر پر غالب آجاتے ہیں اور رفتہ رفتہ خیر
کا مادہ اس طرح مفقود ہو جاتا ہے کہ انسان شرکا مجسمہ بن جاتا ہے اس کے علاوہ
انسان کو بعض اوقات اپنا مقصد اتناعزیز ہوتا ہے کہ وہ اس کے خاطر ایسے تمام جذبات
اور خواہشات کو دبالیتا ہے اور انہیں سراٹھانے بھی نہیں دیتا جو اس کے مقصد کے
حصول میں مانع ہوں اس لئے اگر ناول میں کوئی ایسا کردار پیش بھی کیا جائے جو مطلقاً
خیر اور شر کا نمائندہ ہو اور حالات اور حادثات کا کوئی اثر قبول نہ کرتا ہواسے بھی
ہم غیر فطری اور غیر انسانی کردار نہیں کہہ سکتے ۔ پھرتوبۃ النصوح میں تو اکثر
کردار ایسے ہیں جن کے اندر میں خیر اور شر دونوں ماڑے نظر آتے ہیں بکہ جن کرداروں
کو ہم خیر کے نمائندہ سے تعبیر کرتے ہیں ان میں اکثر وہ ہیں جن کی زندگی میں تبدیلی
کسی نہ کسی مادے اور واقعے سے متاثر ہوکر ہوتی ہے۔ نصوح گر چہ ایک مثالی کردار کی
حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے لیکن اس کی سابقہ زندگی کے حالات جو ناول ہی کا ایک
حصّہ ہیں ہمیں خبر دیتے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی انتہائی غفلت شعاری میں گذری تھی
۔ اور اس کے اندر بھی وہ تمام خصلتیں اور برائیاں موجود تھیں جن کا وافر حصہ ہمیں
کلیم کے کردار میں نظر آتا ہے۔ چنانچہ خواب دیکھنے سے قبل تک اس کی یہ حالت ہے کہ
موت کا یقین ہو جانے کے بعد بھی اسے اگر خیال آتا ہے دنیا ہی کا اور فکر پیدا ہوئی
ہے تو اس بات کی کہ میرے بعد میرے خانگی معاملات کا کیا ہوگا۔ وہ سوچتا ہے ۔’’...........
جس جس پہلو سے غور کرتا تھا اپنا مر نا اس کو بے وقت معلوم ہوتا تھا۔ بیوی کو دیکھ
کر اپنے جی میں سوچتاتھا کہ بھلا کوئی اس کی عمر بیوہ ہونے کی ہے نہ تو اس کے میکے
میں کوئی ہے جو اس کا تکفل ہونہ بیٹوں میں کوئی اس قابل ہے کہ گھر کو سنبھال لے اندر
خستہ ہے سو واجبی ہی واجبی ہے کب تک اکتفا کرے گا ........‘‘- پارسال گاؤں گیا تھا
ابھی تک پٹی داروں نے اس میں اچھی طرح تسلط نہ کر دیا اب جو چالیس پچاس بیگہہ سیر
کر کے نیل بولیا تھا وہ سب گیا گذرا ہوا گودام پر جوروپیہ لگا یا تھاوہ بھی ڈوبا۔
رہنے کے مکان میں کس تنگی سے بسر ہوتی ہے کوئی مہمان آنکلتا ہے تو شرمندہ ہونا پڑتا
ہے ۔ شمال رویہ دالان در دالان بنوانے کا ارادہ تھا۔دہرہ دون لکڑی کارو پیہ بھیج
چکا ہوں وہ نہیں آئی بزادے والوں کو اینٹے کی دادنی دی تھی وہ نہیں پٹی افسوس موت
نے مجھ کو مہلت نہ دی.........‘‘ یہ ہیں اس کے خیالات کہ موت کے وقت بھی اسے بھول
کر آخرت کی فکر پیدانہیں ہوئی اور اپنے انجام کا خیال نہیں آتا لیکن خواب کی ہیبت
اور منظر نے اس کے جذبات و خیالات کو بدل کر رکھ دیاوہ خواب سے چونکنے کے بعد بھی
خیالات کی دنیا میں ہے لیکن اس کے افکار و خیالات کی رو ایک دوسرے ہی سمت بہنے لگی
ہے۔ اب اسے اگر اپنے اہل وعیال کا خیال آرہا ہے تو اس لئے کہ ان کا آخرت میں کیا
ہوگا اور میں ان کے بارے میں خدا کو کیا جواب دوں گا۔ دنیا اور دنیاوی سامان کا خیال
آتا ہے تو اس طرح کے افسوس اس مال ومتاع میں پڑکر اس نے اپنی عمر عزیز کو ضائع کر
دیا اور اس کے بعد جب وہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرتا اور اپنے اعمال وافعال کا
جائزہ لیتا ہے تو اس کی سابقہ زندگی پوری ہمارے سامنے آجاتی ہے۔
جاری..................
0 Comments