ماحولیاتی آلودگی کے اسباب اور روک تھام
Environmental Pollution, Causes and Prevention
اللہ تعالٰی نے جب دنیا بنا یٔ
تو اسے ہر طرف سے پاک صاف و شفا
ف اور ہر طرح کی سہو لتو ں سے آراستہ کیا ۔اور اس دنیا کو جنت کی طرح حسین
بنا یا ۔ ۔خدا نےہر چیز کو پاک و صا ف پیدا کیا ۔خدا نے پانی کو ایک ایسی قدرتی
شفافیت بخشی کہ انسا ن اس صاف و شفاف پانی
میں اپنا عکس صاف طور سے دیکھ سکتا اور
اپنی انسانیت کا پتہ لگا سکتا ہے اعر خدا نے ہوا میں تر و تازگی بخشی ہے کہ
انسان اپنی ہزار ہا کاوشوں کے باجود ایسی ہوا، پیدا نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ نےیہ دنیا اور انسان کو پیدا فرما یا اور اس
حسین دنیا میں چھوڑا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایاکہ اس خوبصورت و
حسین دنیا میں عیش و آرام اور سکون سے رہو اور دنیا کی ہر چیز کی حفاظت کے ساتھ استعمال کرو اس کا تحفظ بھی کرو تا کہ
آئندہ اس چیزوں کی کبھی قلت نہ ہوا اور فرمایا اس دھرتی میں ہر چیز اگاؤ اور مزے سے کھاؤ۔
اسطرح خدا نے اپنے بندوں کو یہ حسین دنیا بخشی ۔جہاں دن میں
سورج اپنی تاب کے ساتھ چمکتا ہے تو رات چا ند اپنی چاندنی سے ساری دنیا کو منور
کرتا ہے اور تارے آسماں کو رونق دے کر پر وان چڑھا تے ہیں اور یہ تیز ہوا کی طرح
بہتے حسین سمندر جو اپنی موجوں کی کشش سے انسان کو اپنی جانب متوجہ کر تے ہیں اوریہ
تازہ ہوا جس کو انسان کی زندگی کیلئےاہم تسلیم کیا گیا ہے اوریہ ہر کو نے میں اپنی
سے دنیا کو سر سبز شاداب بناتے ہیں ۔یہ تمام قدرتی مناظر ہمارے ایسے ہیں جن کو کو
ئی بدل نہیں اور یہ تمام قدرتی مناظر ہما رےدلوں کو لھباتے ہیں اورساتھ ہی ہمیں یہ
بھی یقین دلاتے ہیں کہ ہم کو اور عرش سے لیکر فرش تک تمام مناظر کو پیدا کرنے والا
صرف ایک خدا ہے۔
اورخدا نے ہی یہ دنیا ہم
کو بطورِتحفہ دیا ہے اور یہ فر ما یا ہے کہ اس کی حفاظت ہے ۔اس دنیا کی
حفاظت کرو اور اس سے فائدہ حاصل کرو ۔لیکن حضرت انسان نے تحفہ میں ملی اس دنیا کو
قبول تو کر لیا انسان اس دنیاسے فائدہ تو حاصل کر نے لگا ہے لیکن انسان نے اس دنیا
کے قدرتی قوانین کو توڑڈالا اوروہ تمام وعدے بھول گیا جواس نے اس تحفہ (دنیا) کو
قبول کرتے وقت کئے تھے کہ اس دنیا کی حفاظت کرے گا ۔آج کا انسان اتنا مفاد پر ست
ہوگیا ہے کہ وہ خود اپنی حفاظت نہیں کر رہا ہے اپنی دنیا کی۔جی ہاں!
ہمارے اطراف واکناف
میں پائے جانے والے علاقوں کو ہم ہمارا ما حول کہتے ہیں اگر انسان ماحول کی حفاظت
نہیں کر یگا تو پھر وہ خود بھی نقصان ہی اٹھائے گا۔ آج کل انسان ہر طرح کا عیش
وآرام چاہتا ہے۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانےکیلئے وہ اس دنیا میں نت ئی سائنسی
و ٹکنا لو جی کی اشیاءکا استعمال کرتے ہوئے اپنی زندگی کو خو شحال بنارہا ہے لیکن
ساتھ ہی وہ یہ بھول رہا ہے کہ اس کو اس کے ماحول کا تحفظ بھی کر نا ہے وہ ان اشیاء
کو پیدا کر نے میں اپنے ماحول کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اپنے ماحول کو آلودہ کر
رہا ہے۔ماحول کی آلودگی کوئی ایک قسم کی نہیں ہے جسے وہ روک سکے ۔وہ ہر طرح سے
ماحول کو آلودہ کر رہا ہےجن میں اہم یہ ہیں ۔
(1)پانی
کی آلودگی
(2)ہوا
کی آلودگی
(3)جنگلات
کی آلودگی
ہوا ، پانی اور غذا انسان کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں ہیں
اور ہوا ،پانی اور غذا کا رشتہ ایکدو سرے
سے بہت قریبی طور سے جڑا ہوا ہے۔ہواانسان کے لئے بہت ضروری ہے مگر ہوا میں کئی قسم
کی گیس پا ئی جا تی ہیں ۔ جن میں انسان کیلئے سب سے اہم آکسیجن ہے۔آکسیجن کو انسان
کیلئے ’’زندگی کی سانس ‘‘ تسلیم کیا گیا ہے۔لیکن آج کل برھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے
ہر چیز میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔اور گا ڑیوں کی تعداد میں بھی دن
بدن اضافہ ہو تا جا رہاہےاوریہ سڑکوں پر ڈورتی تیزرفتار گا ڑیا ں ہوا کو بری طرح
آلودہ کر رہی ہیں اوریہ انسان اپنے آرام وآسائش نٗی نٗی چیزیں صنعتوں اور فیکڑیوں
کے ذریعہ ایجاد کر رہا ہےاور ان صنعتوں سے نکلنے والے نا کا رہ ااور بیکار مادوں
کو ندیوں اور تالابوں میں چھوڑ دیا جا تا ہے جس سے تالابوں اور ندیوں کا پانی
زہریلا اور نا کا رہ ہورہا ہے جس کے استعمال سے ہر ذی روح کو اپنی جان کا خطرہ
لاحق ہورہا ہے اور اس خراب پانی کے استعمال سے ہر طرح سے تباہی و برباد ہو رہی ہے۔
انسان کو اپنی غذا پیدا کر نے کے لئے پانی کی سخت
ضرورت ہوتی ہے جس سے انسان ہر طرح کی ممکنہ کوشش کرکے اپنے لئے غذا تیار
کرتا ہےلیکن جب پانی ہی آلودہ ہوتووہ اس آلودہ پانی کو زراعت کے لئے کس طرح استعما
ل کرے گا ۔ اگر پانی نہ ہوں تو
انسان غذا کس طرح پیدا کرے گا اور اگر وہ غذا پیدا نہ کرے تو کیا کھائے
گااور اگر انسان کو کھانے کیلئے غذا دستیاب نہ ہو تو اس کاحشر کیا ہوگا ؟یہ ہم
اوآپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہم خود انسان ہیں تو اب کیا ،کیا جائے اس آلودہ پانی کا علاج؟
جیسا کہ ہم اور آپ جا نتے ہیں کہ جنگلا ت خدا کی وہ عنایا ت ہیں جن کا کوئی بدل نہیں ۔لیکن
بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے انسان جنگلات کو تیزی
سے کا ٹ رہا ہے اور جنگلات کی زمین کو
اپنی رہا ئش ےکے لیے اور جنگلات سے حاصل لکڑی کو مکا نا ت کی تعمیر میں
استعمال کررہا ہے۔جنگلات انسان کی زندگی میں جو رول ادا کرتے وہ شاید ہی کو ئی اور
چیز ادا کرپائے کیو نکہ جنگلات ہمیں وہ چیز دیتے ہیں جو کوئی اور نہیں دے سکتا۔جی
ہاں آکسیجن جنگلا ت کی وہ سب سے اہم چیز ہے جو انسان کی زندگی کیلئے سب سے اہم ہے۔انسان
کو زندہ رہنے کیلئے آکسیجن اور پانی یہ دونوں ہی چیزیں اہم ہے اوریہ چیزیں ہمیں
صرف جنگلات سے حاصل ہو تی ہیں ۔آکسیجن کی زیادہ سے زیادہ مقدار صرف جنگلات سے حاصل
ہوتی ہے اور جنگلات ہوا کو آلودہ ہونے سے روکتے ہیں ۔ویسے بھی حضرت انسان نے تو ہو
ا کو آلودہ ہو نے سے رو کتے ہے۔ویسے بھی حضرت انسان نے تو ہوا کو آلودہ کرنے میں
کوئی کسر با قی نہیں چھوڑی اور ہر طرح سے ہوا کو آلودہ کورہا ہےاوراس میں پہلے ہی
آکسیجن کا تناسب کم ہے اوراگر اسی طرح آکسیجن کی مقدار میں کمی ہوتی رہی تو پھر ہر ذی روح جو زندہ رہنے کے کیلئے سانس
لیتا ہے وہ کیا کرے گا ؟
وہ
کہاں جا کر اوراس میں سانس لیگا تا کہ وہ زندہ رہ سکے ؟سونچئے ہم خود ہی روح ہیں
اور زندہ رہنے کیلئے سانس لیتے ہیں اب ہم اورآپ سب کہاں جاکر آکسیجن تلاش کر ینگے
کیونکہ ہم نےوہ چیز جو ہمیں آکسیجن فراہم کرتی ہے پہلے ہی فنابرباد کردی ہے۔ یعنی جنگلات۔جی ہاں!جنگلات کٹ چکے ہیں اب کیا کریں آکسیجن کہاں
سے لائیں مصنوعی آکسیجن کتنے دن رہیگی اگر وہ بھی ختم ہو جائے تو کیا کریں گے اور
ساتھ ہی ہم ہر طرح کے پودے اور جنگلات اگا نے کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان
کو پہلے ہی آلودہ کر چکے ہیں یعنی ہمارا پانی ندیوں اور تالابوں میں آلودہ حالت
میں موجود ہے اور اس آلودہ پانی سے زراعت نہیں ہورہی ہے۔جس سے غذا
میسر
نہیں ہے پینے کیلئے پانی بھی نہیں ہے اور جنگلات کے کٹنے سے آکسیجن بھی ختم اور
تازہ پانی کو قدرتی طریقے سے برسانے کے لئے جنگلات بھی نہیں ہیں ۔
اب مکمل طور پر یہ ہوا کہ جنگلات کٹ گئے اور اس سےآکسیجن کی
مقدار میں کمی ہوگی یعنی سانس لینا دشوار ،برسات ختم یعنی پانی کی قلت اور پینے کے
لئے پانی جس سےبہتر نہیں ،پیاس سے بد حا لی اور آلودہ پانی جس سے زراعت نا ممکن
اور غذا کا بحران ۔اب جنگل نہیں ،برسات اور ہوا نہیں اور غذا بھی نہیں ۔اب کیا کر
یں ۔ہم ذ ی روح ہیں
اور یہ تینوں بنیادی ضرورتیں ہیں ۔
تمام ذی روح مخلوقا ت کا خاتمہ ہو گیا۔کیا کریں ایسا تو
ہونا ہی تھاکہ کیونکہ ہوا نہیں ،پانی بھی بند ہو گئی ۔تو دیکھا آپ سب نے ہمارے موحول
کے نقصانات کے اثرات کس قدر دردناک اور جان لیوا ہیں جو ہماری ہستی کو خاک میں ملا
دیتے ہیں ۔اوراگر ہم اس ماحول کا تحفظ کریں اور اس موحول کو قدرتی قوانین کے تحت
اور صحیح طریقے کر اور اپنے ما حول کی حفاظت کریں
تو اپنی زندگی کو
بہتر بناسکتے ہیں اور اگر زندگی گذارنے سکتے ہیں اور اگر ہم اپنے ما حول کو بہتر
بنا نا چا ہتے ہیں تو سب کو ملکر یہ کر ناہو گا کہ
پانی
کی بوندبوند بچائیں اور
ہر
پودے کو اہمیت دے کر اگا ئیں
یعنی
ندیوں تا لا بوں اور سمندرمیں صنعتوں کےنا کا رہ مادوں ،فضلات اور گندہ کوڑاکر کٹ
کو پانی میں حل ہونے سے روکا جائے ۔پانی
کو زندگی کےلئے اہم تسلیم کر تے ہو ئے اس کی حفاظت کی جائےپھر پانی تروتازہ ہوگا جو ہماری صحت کیلئے فائدہ
مند ہوگا اوراگر ہم ہر پودے کو اہمیت دے تو یہ بڑا ہوکر ایک تناور درخت بنے گا اسی
طرح جنگلات میں اضافہ ہوگا جس سے انسان ہر قدم پر ترقی حاصل کرتا ہےاورجنگلات سے
برسات ہوتی ہے جس سے حاصل ہوتا ہے جو پینے کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے۔
انسان
اپنے ما حول کو آلودہ تو بہت جلد کر دیتا مگر اس کوصاف کر نے کیلئےایک بہت بڑا
عرصہ درکار ہ ہوتا ہے۔ انسان اپنے ما حول کو خراب کر تا رہاہےمگر وہ یہ سمجھ رہا
ہے کہ وہ جس درخت کی شاخ پر بیٹھا ہے اسے ہی کاٹ رہاہےجس سے وہ بری طرح گر جائے
گا۔اسی طرح ماحولکو آلودہ کرنے سے انسان
ہی کو تکلیفیں درپیش ہوتی ہیں ۔انسان چاہتا ہےکہ وہ قدم پر کامیابی حاصل کر ے۔یہاں
تک کہ انسان نے اپنی کوششوں سے زمین سے کا فی دور واقع چاند پر بھی فتح حاصل کر لی
اور اس کی سطح پر اپنا قدم رکھکر ثابت کر
دیا کہ اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے۔
چاند پر پہنچنے کے با وجود اس کی کوشش ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ اور کا میا بی حاصل کرنا چا ہتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ماحول کا تحفظ بھول گیا ہے۔انسان یہ نہیں سونچتا کہ اگر دنیا میں خود نہیں رہے گا تو پھر ترقی کس کام کی۔اس لئے اگر ہم تر قی چاہتے ہیں تو پہلے اپنے ماحول کو صاف ستھرا بنائیں ۔اس کی حفاظت کریں اس دنیا کو جو پہلے جنت کی طرح حسین تھی پھر اسی طرح سجائیں اورہم سب نے جو خداکے حضور میں گستا خی کی ہے کہ اس کی دنیا کے قوانین میں بگاڑ پیدا کر دیا اوراس کو ہر طرح سے اس آلودہ کر دیا ہےتو اب اپنےخدا کے حضور میں معافی مانگیں اور اس طرح کو ما حول صاف ستھرا کر نے کابیڑا اٹھالیں اور اللہ سے دعا کریں کہ اس میں وہ ہم سب کی مدد کرے اور ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ اپنے اس ما حول کو صاف شفاف کرنے کیلئے کندھے سے کندھا ملا کر اپنے ما حول کو بچائیں تا کہ ہم سب بھی اپنی زندگی کو محفوظ رکھ سکیں اور صحت مند زندگی گذار سکیں ۔اگر ہم سب ملکر کوشش کر ینگے تو یہ کام آسان ہو جائے گا کیو نکہ آغاز پہلے ہم ہی کو کر نا ہو گا اور انجام خدا کے ہا تھ ہے بقول کسی شاعر کے بھیگے ہو ئے پروں سے ہی پر واز کر کے دیکھ انجام اس کے ہا تھ ہے آغاز کرکے دیکھ ۔اور اب اللہ رب العزت سے بس یہی دعا ہے کہ ہم کو ہماری غلطیوں پر معاف کر دے ماحول کو پھر سے اتنی طا قت دے کہ ہم اپنے ماحول کو پھر سے سورج ، چاند اور تاروں سے سجائیں اور پھر سے جنگلات لہلہا ئیں ،پھر دریا روانی سے بہیں ،ما حول خوشگوار ہو جائے اور ہماری آنے والی نسلوں کیلئے یہ دنیا پھر سے ایک تحفہ بن سکے ۔
0 Comments