Money talks|پیسہ بو لتا ھے

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Money talks|پیسہ بو لتا ھے

پیسہ بو لتا ھے

Money talks

پیسہ بو لتا ھے


  کہتےہیں کہ پیسہ سب کا باپ ہے، بلکہ ما ئی با پ ہے اور جب یہ بولتا ہے تو ساری دنیا اس کی بات سننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی سکوں کی آواز میں دنیا کی سب سے زیادہ مسحور کن مو سیقی ہو تی ہے اور نو ٹو ں کے رنگوں سے زیادہ خو بصو رت دنیا کا کو ئی بھی رنگ نہیں ہو تا ۔ کہکشا ں اور قو سِ  قز ح کے رنگ بھی کر نسی نو ٹو ں کے دلکش اور حسین رنگوں سےآنکھو ں میں چمک چہروں پر دمک آجا تی ہے اور گھروں میں قہقہوں کی  کھٹک گو نجنےلگتی ہے۔

کسی پر ہجو م ہال میں ایک سکہ اچھال کر یا کسی سڑک پر ایک 100روپے کا نو ٹ ڈال کر دیکھٔے بے شمار کان اس آواز کی طرف اور لا تعداد آنکھیں اس نو ٹ کی طرف متو جہ ہو جا ئیں گی۔ یقیناً اس کمزوری کا فائدہ اٹھاکر کچھ چلا ک آدمی کسی بینک کے فرش پر یا کسی سڑک کے کنا رے چند چھوٹی نو ٹوں کا دانہ دال کر بہ آسا نی بڑا شکار کر لیتے ہیں۔ اس طرح چھوٹی نو ٹوں کو حا صل کر نے کے چکر میں کچھ لا لچی لو گ بڑے نو ٹوں سے ہا تھ  دھو بیٹھتےہیں۔


پیسہ رشتے تو ڑ تا بھی ہے اور نئے رشتے جوڑتا بھی ہے۔ یہ فقیر کو امیر اور امیر کو فقیر بلکہ حقیر بنا سکتا ہے ۔ کروڑوں کی قیمتوں کے فیصلے یہ منٹو ں میں کر دیتا ہے۔


سکو ں کی کھنکھنا ہٹ اور نئے کرارے نو ٹوں کی سرسراہٹ میں بڑاہی جادو ہو تا ہے ۔ اور جب یہ جادوسر پر چڑھ کر بو لتاہے تو ساری دنیا مہر بان ہو جا تی ہے۔ روٹھی ہوئی محبو بہ پل بھرمیں مان جا تی ہے۔مگر خوبصورت محبوب با ؤں سے محر وم ہم جیسے کئی بد نصیب شوہر بھی اس دنیا میں اب تک زندہ ہیں جواپنی پرانی بیویو ں کو پہلی تاریخ کے بعد صرف چند دنو ں تک اچھے لگتےہیں جیسے جیسے دن گذرتے ہیں ویسے ویسے گھر میں محبت سے میدان جنگ میں تبد یل ہو تا ہے۔ آخری تاریخو ں میں تو طلاق کی نوبت آجا تی ہے۔ طلا ق بھی ہو جاتی مگر بیچ بچاؤ کر نے پھر سے پہلی تاریخ آجاتی ہے۔


تاریخ               گواہ ہے کہ پیسہ قوموں کو خر ید تا اور بیچتا رہتا ہے۔ پیسے سے ہر چیز خر یدی جا سکتی ہے ۔ پیسہ ہو تو آج کل ماں باپ ، بہن بھائیوں سے زیادہ محبت کرنے والے آپ کے آگے ہاتھ باند ھ کر بلکہ ہاتھ جور کر کھڑ ے ہو نے والے ، آگے پیچھے چلنے والے، اشاروں پر نا چنے والے ، یہا ں تک کہ آپ کی بکواس پر زورو شور سے تالیاں بجا نے والے بھی جتنے چاہیں مل جا تے ہیں ۔ کرا ئے کے انسان ، کرا ئے کے مہمان ، کرائے کا سا مان، ہی نہیں کسی کی موت پر کرا ئے کے رونے والے بھی آپ کو مل جا ئیں گے جو آپ کے ہلکے  سے اشا رے پر زار  وقطا ررونے اور مسلا دھا ر آنسو بہا نے لگیں گے۔


مگر جب سے دو لت نے ہما ر ساتھ چھوڑا ہے ہم نے ا پنے قر یبی رشتہ داروں کو ہم سے منہ مو ڑ تے بلکہ ہمارے گھر کی گلی کا راستہ  چھو ڑ تے ہو ئے بھی دیکھا ہے ۔

پیسہ بو لتا ھے

ہما را قصو ر صر ف اتنا تھا کہ ہمارے پاس محبت کی بے شمار دو لت تو تھی ،خلو ص اور ہمد ردیو ں کی جا ئیداداور مر وت واخلاق کا اثاثہ تو تھا مگر ٹکسال میں ڈھلے ہو ئے سکے اور سر کا ری پر ٹنگ پر یس میں چھپےہو ئے دیدہ زیب اور پر فر یب رنگین کا غذ نہیں تھے ۔

  ہمیں وہ زمانہ بھی اچھی طر ح یا د ہے جب گھروں اور دیواروں کے بیچ دولت کی اتنی اونچی دیو ریں نہیں تھیں۔ اس وقت دو گھر وں کے درمیان مٹی سے بنی چھوٹی اور کمزوردیوار ہو ا کر تی تھی ۔


           مگروہ کمزور دیو ار بڑی ہی مضبو ط تھی ۔ اس دیو ر کی مٹی میں خلو ص اور محبت کی خوشبو بھی تھی اور ہمد ردیو ں کی مضبو طی بھی ۔ تب ہمارے قدان دیوارو ں سے اونچے تھے ۔ اپنے اپنے آنکھو ں میں کا م کاج کر تے ہوئے ہم اپنے دکھ درد بھی بانٹ لیا کرتے تھے۔ مگر جیسے ہی باہر کی دولت گھروں میں داخل ہوئی  گھر وں کے ہی نہیں دلوں کے بھی سارے دروازے بلکہ کھڑکیاں بھی بند ہو گئیں۔


ہمارے پڑوسی بھی جیسے غریب سے امیر ہوئے انہوں نے سب سے پہلے اپنے گھر کے پرانے احا طوں کو توڑ کر ان کی جگہ اونچی اور مضبو ط دیواریں کھڑی کر دیں ۔ اس طرح انہو ں نے اپنے چہروں مسکراہٹوں کے ساتھ سا تھ اپنے قہقہہوں کی آواز میں بھی اب وہ ہمیں حصہ دار بنانے تیار نہیں تھے ۔ شادی بیاہ کے موقع پر جب مہمانوں کی فہر ست بنتی تو کسی ووٹر سٹ سے اقیتو ں کے نا مو ں کی طرح ہمارانام حذف کردیا جا تا ۔ ہمیں تحفظات دنیا تو دور کی بات الٹا ہم پر نئی نئی تحد یدات عاید کر دی گئیں۔

مگر ہم اس حقیقت کو چھپا کر اپنے ان ہمدردو ںاور بہی خواہوں کی ’’ دریا دلی ‘‘ پر پا نی نہیں پھیر نا چاہتے جو ہنسی خو شی کے مو قعہ پر تو نہیں البتہ کسی کی فا تحہ سییوم‘ چہلم یا برسی کے مو قع پر مر حوم  کے حقیقی ایصال ثواب کی خاضر ہم جیسو ں کو خاص طور پر مد عو کرنا کبھی نہیں بھولتے۔


Post a Comment

0 Comments