Dr. Mukhtar Ahmad Ansari by Rasheed Ahmad Siddiqui|ڈاکٹر مختار احمد انصاری-رشید احمد صدیقی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Dr. Mukhtar Ahmad Ansari by Rasheed Ahmad Siddiqui|ڈاکٹر مختار احمد انصاری-رشید احمد صدیقی

ڈاکٹر مختار احمد انصاری

رشید احمد صدیقی

 Dr. Mukhtar Ahmad Ansari by Rasheed Ahmad Siddiqui

Dr. Mukhtar Ahmad Ansari by Rasheed Ahmad Siddiqui


سرخاک شہیدے بر گہائے لالہ می پاشم

ڈاکٹر انصاری موجود تھے اور کسی کے مرنے کی خبر سننے میں آتی تھی تو سوال فوراً زبان پر آتا تھا ڈاکٹر انصاری کو بھی دکھایا تھا ؟ اب جب کہ ڈاکٹر انصاری کی رحلت کی خبر آئی تو تھوڑی دیر تک عقل و حواس معطل رہے، سوچنے لگا آخر ڈاکٹر انصاری کیوں کر جاں بحق ہوئے اور یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ وہ خود اپنے لئے اس موت کا سدباب نہ کر سکے جس کو ان کی نتھری، چمکیلی ، گہری اور مریض اور تندرست دونوں کو تسکین دینے والی آنکھیں ہمیشہ روک دیتی تھیں ٹال دیتی تھیں اور بھگا دیتی تھیں ۔

 

میں ہمیشہ مریض رہا اور ڈاکٹر انصاری سے اپنی تکلیف رجوع کرتا رہا میں جانتا تھا کہ میرا مرض معمولی مرض نہیں ہے اور اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔ ایسی حالت میں جب ذہن کی فضا ایسی مٹیا لی ،  نمناک اور غلیظ ہو جاتی جس کو میں اس طرح چھوسکتا تھا جیسے گلی سڑی پھپھوندی کو اس وقت میں ان کے مطب کا رخ کرتا انتظار میں اکثر زیادہ وقت صرف ہوتا اور میں ان کے انتظار کے کمرہ میں بیٹھا، فتحپوری کی دوکانوں، گزرنے والوں کی تگ و دو، گاڑیوں اور پھیری والوں کے شور د شغب دیکھتا اور سوچتا کہ یہ چہل پہل  ، یہ لہر بہر، یہ مشغولیت، یہ خلفشار زندگی ہے جس سے میں ہمیشہ کے لئے علیحدہ کر دیا جاؤں گا، زندگی ہی وہ کل ہے جو اپنے جزو سے مستغنی ہے تو مجھ پر ہراس، مایوسی اور اکثر بغاوت کا جذ بہ طاری ہو جاتا اور میں زیادہ بیتابی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کامنتظر ہو جاتا۔

اتنے میں ڈاکٹر صاحب کی آمد کی خبر آتی، وہ اپنے مضبوط اور ہموار قدموں سے زینہ پر چڑھتے اور کسی ہمراہی سے گفتگو کرتے ہوئے سنائی دیتے ، دیکھتے ہی مسکراتے اور اس طور پر کہ گھنی پلکوں کے نیچے سے ان کی آنکھیں بھی مسکرانے لگتیں، کہتے بھئی  تم کہاں ، بڑے عرصہ تک غائب رہے، میں کہتا ڈاکٹر صاحب بڑی تکلیف ہے، پریشان ہوں کچھ کرتے دہرتے نہیں بنتا۔ بولتے گھبراؤ نہیں ابھی دیکھتا ہوں، پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ باتیں اس لب ولہجہ سے اور اس طرح ہنس ہنس کر اعتماد اور اعتقاد، دل آسائی اور دربائی کے ساتھ ، دوستی اور بزرگی کی شان سے کہتے کہ مجھے خود محسوس ہونے لگتا کہ میں ناحق پریشان ہوا، اس سے پہلے کیوں نہیں آیا۔ خواہ خواہ اتنے دنوں مصیبت و مایوسی میں کیوں مبتلا رہا۔

 

 ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کوئی نہ کوئی ضرور ہوتا اس سے بات کرتے جاتے ، اندازِ گفتگو سے محسوس ہوتا کہ وہ دوسرے سے بات اس لئے کر رہے ہیں کہ مجھے تقویت پہونچے اور مجھ سے گفتگو کرتے تو اوروں کو محسوس ہوتا کہ وہ دوسروں میں بھی اعتماد اور امید کی روح بیدار کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ صرف مریض یا ان کے اعزا نہ ہوتے بلکہ مختلف اقسام کے لوگ ہوتے ، مقاصد کی نوعیت بھی جدا گانہ ہوتی  ، لیکن ڈاکٹر انصاری کی بات میں وہ جادو تھا کہ ہر شخص یہی سمجھتا کہ گوڈاکٹر انصاری مخاطب دوسروں سے ہیں لیکن کہہ وہی رہے ہیں جو ہماری تقویت یا دلچسپی کاموجب ہو۔

 

 ڈاکٹر انصاری اپنے معائنہ کے کمرہ میں لے جاتے ، مجھے اس قسم کے معائنہ خانوں اور آپریشن روم وغیرہ میں جانے کا اکثر اتفاق ہوا ہے لیکن جس امید اور اعتماد کے ساتھ میں نے اپنے آپ کو ڈاکٹر انصاری اور ڈاکٹر بھاٹیا (لکھنو) کے حوالہ کیا ہے وہ مجھے کہیں اور نصیب نہ ہوا۔ ڈاکٹر انصاری اس طرح دیکھتے ،  ٹٹولتے گویا وہ خود اپنے زخم یا در د کوٹٹول رہے ہیں۔ ان کی انگلیاں، خوبصورت ، سڈو ل، گداز پاکیزه ، خوش رنگ اور ایسی معتدل حرارت کی ہو تیں اور ان کو وہ اس نرمی اور نزاکت کے ساتھ کام میں لاتے کہ مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ کسی دوسرے کی انگلیاں میرے جسم کو چھورہی ہیں۔ آہ ان کی گھنی ابرو ئیں اور لمبی پلکوں والی، گہری، روشن اور ہنستی ہوئی آنکھیں اور شیر وشہد سی نگاہیں جو جسم و جان میں اس طور پر نفوذ کر تیں جیسے کوئی اچھا خیال یا اچھا کام قلب کو بالیدۂ، جذبات کو رنگین اور خیالات کو بلند کر دیتا ہے۔ وہ مریض کا معائنہ ایسے کرتے جیسے وہ ان کا جان چھڑ کنے والا بھائی ، چہیتا بیٹا یا جاں نثار دوست ہے۔ ان کی پیشانی ایک روشن فضا تھی جس میں مریض کو امید اور برآنے والی امید کے نقوش نظر آتے تھے۔

 

 معائنہ کرتے وقت ایسا معلوم ہوتا گویا ڈاکٹر انصاری کو آج تمام دن کوئی اور کام کرنا نہیں ہے اور اسی مریض پر تمام وقت اور توجہ صرف کر دیں گے۔ معائنہ ختم کرنے کے بعد میز پر لیٹے ہوئے مریض کو خود سہارا دے کر اٹھاتے ۔ کچھ دیر تک اسے میز پر پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھا ر ہنے دیتے اور خود اس کے پاس کھڑے ہو کر اس طور پر باتیں کرتے جیسے اپنے کسی گہرے بے تکلف دوست سے خوش گپّی کر رہے ہوں۔ اس کے بعد سہارا دے کر میز سے اتارتے ، کپڑے پہنانے میں مد د دیتے ،  نسخہ لکھتے ، استعمال کی ترکیب بتاتے اور رخصت کر دیتے۔

 

ڈاکٹر انصاری سے رخصت ہو کر میں اپنے آپ کو بالکل تندرست بجھنے لگتا۔ اگر مرض کی کچھ تکلیف بھی ہوتی تو سمجھتا کہ دوا استعمال کرنے کے بعد ہی جاتی رہی گی ۔ چنانچہ میں مطب سے اترتے ہی فتحپوری اور چاندنی چوک کی چہل پہل اور ہما ہمی میں گم ہو جاتا ۔ پھل والوں کے ہاں سے پھل خریدتا اور کسی ہوٹل میں جا کر کھانا کھاتا اور مدتوں پر ہیز کرتے کرتے کھانے پینے کا جو لطف کھو چکا ہوتا اس کو بد پر ہیزی سے از سر نو حاصل کرتا۔ دل کا اندوہ چھٹ جاتا اور زندگی خوشگوار اور خوش آیند معلوم ہونے لگتی ۔

 

میں نے ایک بار ڈاکٹر انصاری کو سرجری کرتے بھی دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی ماہر مصور کے ہاتھ میں مو قلم ہے یا کوئی مرصع ساز کسی نازک زیور یا مشین پر کام کر رہا ہے۔ نشتر ان کی انگلیوں میں اس طور پر کام کرتا جیسے بہزاد اپنے قلم سے خطوط کھینچ رہا ہے۔ نزاکت اور صلابت دونوں کا امتزاج ، ایسا امتزاج جو قوس قزح کے رنگوں میں پایا جاتا ہے، چہرہ پر سنجیدگی ، آنکھوں میں گہرائی ، انگلیوں میں صفائی اور تیزی۔ آپریشن میں آلودگی کا ہونا لازمی ہے لیکن ڈاکٹر انصاری کو آپریشن کرتے دیکھئے تو معلوم ہوتا جیسے مشین کا ماہر مختلف ٹکڑوں کو جو اسکریو  سے جڑے ہوں، خوبی پھرتی اور اعتماد کے ساتھ علیحدہ کر رہا ہے یا جوڑ رہا ہے اور انگلیاں بس برائے نام آلودہ ہیں۔

 

مد تیں گزریں میری طفولیت اور الہلالؔ کے شباب کا زمانہ تھا۔ الہلال کے جتنے پر چے آتے تھے ہم لوگ اس کو شوق اور عقیدت سے پڑھتے تھے۔ عبارت سمجھتے تو فخر کرتے اور جہاں نہیں سمجھتے تھے وہاں یہ خیال کرتے تھے کہ کوئی بڑی بلند یا گہری بات کہی ہے جو ہماری سمجھ سے باہر ہے اس لئے اس کا احترام اور زیادہ کرتے تھے ۔ پچھلی بار گھر گیا۔ بچپن کے زمانے کی الماری گرد وغبار سے اٹی پڑی تھی۔ ایک کاغذ پر اتفاقیہ نظر جاپڑی۔ دیکھا تو اس وفد کی تصویر تھی جو ڈاکٹر انصاری مرحوم کی سرکردگی میں جنگ بلقان میں زخموں کی مرہم پٹی کے لئے گیا تھا۔ یہ تصویر اس زمانہ میں الہلال میں شائع ہوئی تھی نیچے لکھا ہوا تھا۔

 

’’اے وہ لو گو کہ زخمیوں کے ملک میں جا رہے ہو جب وہاں پہنچنا تو خدارا ان کے زخموں پر سختی نہ کرنا کیوں کہ وہ زخم ان کے نہیں ہیں بلکہ اسلام کے ہیں۔“

 

 آہ وہ زمانہ یاد آ گیا جب ابوالکلام، محمد علی، ڈاکٹر انصاری کو ہم سب خدا جانے کیا سمجھتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ اسلام پر تیرہ سو برس نہیں گزرے ہیں۔ بڑے ہو کر ہم بھی ہندوستان سے باہر جا کر مسلمان مجاہد کی طرح لڑیں گے زخمی ہوں گے شہادت پائیں گے غازی کہلائیں گے ۔ دنیا دیکھے گی کہ اسلام اور اسلامیوں سے بڑھ کر کوئی نعمت اور منزلت نہیں ہے ۔ آج جب کہ یہ سطور لکھ رہا ہوں ماضی کا غبار زندگی کی شاہراہ سے ہٹ گیا ہے اور تصور کی کرنیں طفولیت کے اس افق پر پڑ رہی ہیں جہاں ہم رہ رہ کر تلملا اٹھتے تھے کہ کیوں بچپن کا زمانہ نہیں ختم   ہوتا اور ہم ترکوں کی مدد کے لئے، اسلام کا نام روشن کرنے لئے ، زخمی ہونے کے لیے سپاہیوں کی صف میں کھڑے ہونے کے لئے کیوں نہیں بلائے جاتے ۔ لیکن اب کیا حال ہے، ہم بدل گئے زمانہ بدل گیا، دنیا بدل گئی رنج و راحت ، عزت و ذلت کا تصور بدل گیا۔ زندگی کی جدو جہد وہی ہے لیکن جدو جہد کا لطف باقی نہیں رہا تصورات میں نہ رنگینی باقی رہی نہ حرارت ،  عزائم میں نہ استواری ہے اور نہ برکت ! مانا کہ موجودہ عہد کے مسائل اور مطالبات کچھ اور ہی ہیں فرائض اور ذمہ داریاں بھی بدلی ہوئی ہیں لیکن خدارا کوئی یہ بتائیے یہ کیسے مسائل ہیں یہ کیسے فرائض ہیں جن سے دماغ میں روشنی نہیں پیدا ہوتی ۔ دلوں میں ولولے نہیں پیدا ہوتے ہاتھوں میں قوت نہیں پیدا ہوتی اور زندگی سے حرارت مفقود ہو چکی ہے۔

 

ظاہر ہے میں پرانے وقت کا ہوں راگنی بے وقت کی ہے، زمانہ ترقی کر چکا ہے، زندگی اور زندگی کے تارو پود نئ ے اسلوب سے مرتب ہورہے ہیں ہر چیز کی قدرو قیمت گھٹ رہی ہے۔ جس چیز کو ہم متاع یوسفی سمجھتے تھے وہ متاع کا سد سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی اور جسے دیکھ کر ہم  خجل اور سراسیمہ ہوتے ہیں وہی حاصلِ حیات ہے۔ زمانہ اور زندگی کی رفتار ہی نہیں اس کا رخ بھی بدل گیا ہے لیکن زندگی کی برگزیدہ حقائق کا انکشاف کیوں کہئے۔ سائنس کے کرشموں کو انسانیت کا معجزہ کیوں بتایا جاتا ہے۔ آرٹ اور آزادی کی قربان گاہ پر کن سعادتوں کی بھینٹ چڑہائی جارہی ہے۔ افراد کی شادی وغمی  کیا ہو گی ، ان کی پروا کیوں نہیں کی جاتی ۔ جماعت کے ریگ زار سے افراد کی اُمید اور امنگ کے نخلستان کیوں فنا کئے جارہے ہیں۔ زمانے کے بدلنے سے زندگی کی سیّات حسنات میں کیوں کر تبدیل ہو جاتے ہیں۔

 

ڈاکٹر انصاری ہندو مسلمانوں کے نفاق وافتراق کو دور کرنے کی فکر میں تمام عمر کوشاں رہے۔ وہ نفاق و افتراق کو ہندؤں اور مسلمانوں کا مرض سمجھتے تھے اور ایک بچے طبیب اور ڈاکٹر کی مانند مریض سے ہمدردی کرنے اور مرض کے ازالہ میں پوری توجہ اور دلسوزی اور قابلیت صرف کرتے رہے۔ انھوں نے ہندو یا مسلم اختلاف کو ہندو مسلم کی حیثیت سے نہ بھی پر کھا اور نہ اس کی چارہ سازی کی انھوں نے اس مرض کے ازالہ کی ایک حقیقی طبیب کی حیثیت سے کوشش کی ۔ ڈاکٹر انصاری کے لئے اس کے علاوہ اور چارہ کار ہی نہ تھا۔ وہ جب کرتے جیسا کچھ کرتے اور جتنا کر سکتے سب ڈاکٹر کی حیثیت سے کرتے اور ایسا ہی انہوں نے کیا۔

 

ڈاکٹر انصاری کی وفات سے کتنے لڑکے لڑکیاں یتیم ،بیوائیں لاوارث اور نوجوان بے دست و پا ہو گئے ۔ رفقا جی چھوڑ بیٹھے۔ وہ معلوم نہیں کن کن مواقع پر کیسے کیسے لوگوں کی مدد کر چکے تھے اس بڑے پہئے  کی گردش سے کتنی چھوٹی چھوٹی اور مختلف متفرق مشینیں گردش کر رہی تھیں۔ وہ محتاجوں ہی کے مددگار نہ تھے بلکہ ان لوگوں کی آن بان اور وضعداری کے بھی کفیل تھے جن کو’’  آسیاے گردشِ ایام‘‘ برابر پیستی جاتی تھی۔ ایسوں کی دستگیری معمولی کام نہ تھا۔ دولت ، اثر ، اقتدار کا کتنا بڑا حصہ ان پر صرف ہوتا ہوگا۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے ہر قسم کی مدد انتہائے کشادہ جبینی اور دریادلی کے ساتھ دوسروں کی کی ہوگی۔ اور شاید کوئی ایسا نہ ہو جس سے اسی نوعیت کی مدد ڈاکٹر انصاری نے حاصل کی ہو۔

 

انہوں نے خوب کمایا، خوب صرف کیا، ان پر ایسے ایسے مواقع بھی آئے جب ان کے پاس کھانے اور خرچ کرنے کو کچھ نہ تھا۔ لیکن ان کی زندگی میں کسی ایسے کو، جس سے کفیل ڈاکٹر انصاری تھے کبھی کسی ایسے موقع سے دو چار نہیں ہونا پڑا۔ جب اس کو کھانے اور خرچ کرنے کی سختی جھیلنی پڑی ہو ایسے لوگوں کی تعداد کم نہ تھی ۔ ڈاکٹر انصاری کے رفقاء میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس نے ڈاکٹر انصاری کی اتنی مدد کی ہو جتنی ڈاکٹر انصاری نے اس کی کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ جن پر مرحوم کے احسانات تھے وہ کیا کرتے ہیں۔ ڈر صرف اسی سے ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان     اکثر  و بیشتر  صرف یہ  کرتے  ہیں  کہ مدد لینے  میں  تو حق و  نا حق کی بھی  تمیز  اٹھا د یتے ہیں لیکن  مدد دیتے وقت اُس حا لت کو یکسر  فرا موش  کر جاتے ہیں جب  خود ہم کو  مدد ما نگنے  کی ضرورت  ہوئی تھی اور ہماری  مدد کی گئی تھی۔

 

ڈاکڑ  انصاری جا معہ ملیہ  کے قیام و تر قی میں جو کچھ کرتے رہے  اور ان کی  جوا مید یں  اور ولولے  اس سے  وا بستہ تھے اس کا انداز  میں   کر سکتا ہوں ۔غا لباً  چند ہی لوگ  ایسے  ہوں گے  جو مجھ  سے زیادہ  اس کااحساس کر سکتے ہوں۔ابھی ابھی  رمضان  کی ایک شام کو ذا  کر  صا حب کے ہمراہ جامعہ کی نئی  عمارت   دیکھنے’’اوکھلے‘‘گیا ہواتھا۔او کھلے کے صاف  سادے ورق پر ایک  نقش ابھر رہا تھا ۔بد یع  اور بلند ،عما رت کا نقشہ  اوراس  کا پیکر  بھی  نا مکمل تھا۔ تصویر تصویر میں منتقل  ہو رہا تھا۔ مستقبل کا افق دھیرے دھیرے ان  تمام  گہرا ئیوں اور  پہنا  ئیوں کے ساتھ بے نقاب ہو رہا  تھا جن میں  مومن کا عزم پرور ش  پاتا ہے ، با لیدہ ہوتا ہے  اور آفاق پر چھا جاتا ہے۔

 

عمارت کے سامنے کچھ  فا صلے   پر ایک طرف ڈاکڑ انصا ری  آسودہ ٔ   خاک  تھے اور مدفن کے  بہشتی جھروں کے سے اپنے حسنات کی  فر  دوس  تعمیر ہوتے د یکھ رہے  تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔دیر ہورہی  تھی ہم سب  وا پس  آگئے۔


Post a Comment

0 Comments