گُلشنِ اُمید کی بہار
مولا نا محمد حسین آزاؔد
Muammad Husain Aazad
انسان
کی طبیعت کو خدا نے انواع و اقسام کی کیفیتیں عطا کی ہیں۔ مگر زمین جس قدر تخم امید
کو پرورش کرتی ہے اس کثرت سے کسی کیفیت کو سر سبز نہیں کرتی اور کیفیتیں خاص خاص وقت
پر اپنا اثر کر اٹھتی ہی یا بمقتضائے سن خاص خاص عمروں میں ان کے اثر ظاہر ہوتے ہیں
۔ مگر امید کا یہ حال ہے کہ جس وقت سے اس بات کی تمیز ہونے لگی کہ حالت موجودہ ہماری
کچھ خوش حال یا بد حال بھی ہو سکتی ہے اسی وقت سے اس کی تاثیر شروع ہو جاتی ہے۔ اُمید
ایک رفیق ہمدم ہے کہ ہر حال اور ہر زمانے میں ہمارے دم کے ساتھ رہتا ہے، دم بدم دلوں
کو بڑھاتا اور سینے کو پھیلاتا ہے۔ خیالات کو وسعت دیتا ہے اور نئی نئی کامیابیوں کی ترغیبیں دیتا ہے۔ غرض ہمیشہ کسی
نہ کسی خوش حالی کا باغ پیش نظر رکھتا ہے کہ یا اس سے کوئی کلفت رفع ہو یا کچھ فرحت
زیادہ ہو، خدا کی نعمتیں اور ساری خوش نصیبی کی دولتیں حاصل ہو جائیں۔ پھر کبھی یہ
جادونگار مصور ایک نہ ایک ایسی تصویر سامنے کھینچ دیتا ہے جسے دیکھ کر یہی خیال آتا
ہے کہ بس یہ بات ہو جائے گی تو ساری ہوسیں پوری ہو جائیں گی اور پھر سب آرزوؤں سے جی
سیر ہو جائے گا، اس میں بھی شک نہیں کہ امید کا ہونا ہر حالت میں ضرور ہے وہ ضروری
شے ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر حالت میں بھی ہم اس کو ضرورت سے بے نیاز نہیں کر سکتی۔
کیونکہ حقیقت میں یہ مشغلے زندگی کے بہلاوے ہیں۔ اگر ان کا سہارا ہمارا دل بڑھا تا
ر ہے تو ایک دم گزارنا مشکل ہو جائے اور زندگی و بال معلوم ہونے لگے ؎
ایک
دم کبھی ہم کو جینا ہجر میں تھا نا گوار
پر
امید وِصل پر برسوں گوارا ہو گیا
اس میں بھی شک نہیں کہ امید دھو کے بہت دیتی ہے اور
ان باتوں کی توقع پیدا کر دیتی ہے جو انسان کو حاصل نہیں ہو سکتیں، مگر وہ
دھو کے اصلی نعمتوں کے سوامز ہ دیتے ہیں اور موہوم و عدے قسمت کی لکھی ہوئی دولتوں
سے گراں بہا اور خوشنما معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاملہ میں نا کام بھی ہوتی ہے تو
اسے نا کامی نہیں کہتی بلکہ قسمت کی دیر کہہ کر ایک اس سے بھی اعلیٰ یقین سامنے حاضر
کر دیتی ہے۔ میں ایک رات انہیں خیالات میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ انسان کے دل
میں یہ شوق کہاں سے پیدا ہو جاتا ہے جس سے اپنے تئیں آپ دھو کے دیتا ہے اور زمانہ آئندہ
پر رنگ آمیزیاں چڑھا کر خود اپنے لیے اُمید وبیم اور نفع و نقصان کے سامان تیار کر
لیتا ہے۔ یکا یک آنکھ لگ گئی دیکھتا ہوں کہ میں ایک باغ نو بہار میں ہوں جس کی وسعت
کی انتہا نہیں۔ امید کے پھیلاؤ کا کیا ٹھکانہ ہے۔ آس پاس سے لے کر جہاں تک نظر کام
کرتی ہے تمام عالم رنگیں و شاداب ہے۔ ہر چمن رنگ وروپ کی دھوپ سے چمکتا خوشبو سے مہکتا،
ہوا سے لہکتا نظر آتا ہے۔ زمین فصل بہار کی
طرح گلہائے گوناگوں سے بوقلموں ہو رہی ہے اور رنگا رنگ کے جانور درختوں پر چہچہے بھر رہے ہیں یہ سماں بہار کا دیکھ کر دل پر عالم
طاری ہوا کہ سرتا پا محو ہو گیا۔ جب ذرا ہوش آیا تو ان چمن ہائے دل کشا کو نظر غور
سے دیکھنے لگا اور ایسا معلوم ہوا کہ اگر آگے چلوں تو شگفتگی اور تفریح کا لطف زیادہ
ہو پھر دیکھتا کہ تھوڑی دور آگے رنگیلے چمکیلے پھول کھلے ہیں۔ آب زلال کے چشمے دھوپ
کی چمک سے جھلمل جھلمل کر رہے ہیں ۔ اونچے اونچے درخت جھنڈ کے جھنڈ چھائے ہوئے ہیں
جو جانور دھیمی آواز سے بولتے سنائی دیتے تھے۔ یہاں خوب زور سے چہکار رہے تھے ۔ چاروں
طرف ہرے ہرے درخت لہلہاتے ہیں اور پھول اپنی مہک سے خوشبو پھیلاتے ہیں مگر یہاں سے
جو نظر اٹھائی تو اور ہی طلسمات نظر آیا یعنی دیکھا کہ سامنے جو درخت جھوم رہے ہیں
ان کے تیار میوے زمین کو چوم رہے ہیں۔ اس لطف نے اور آگے بڑھنے کوللچایا۔ چنانچہ قدم
اٹھایا مگر جوں جوں آگے بڑھتا گیا زیادہ حیران ہوتا گیا۔ کیوں کہ جو ہریالی سامنے سے
لہلہاتی دکھائی دیتی تھی پاس پہنچ کر اس کی رنگت پھیکی گئی اور میوے تو گرہی چکے تھے۔ بلبلیں جو چہچہے
بھر رہی تھیں وہ آگے آگے اڑتی چلی جاتی تھیں۔ اگر چہ میں بہت پھرتی سے پہنچا تھا۔ اور
جو بہار یں تھیں ہر قدم پر سامنے ہی تھیں مگر تو بھی ہاتھ نہ آسکیں، گویا میرے شوق
آرزو کوڈ ہکا تی تھیں کہ جوں جوں میں آگے بڑھتا
تھاوہ اور بھی آگے بڑھتی جاتی تھیں۔
اگر
چہ بار بار خوش اور دم بدم غمگین ہوتے ہوتے میں دق ہو گیا مگر دل کے کان میں کوئی
یہی کہے جاتا تھا کہ چلتے چلو، جو نعمتیں ڈہکا رہی ہیں، کبھی نہ کبھی ہاتھ میں آئیں گی ۔ آخر چلتے چلتے ایک
جمگھٹا نظر آیا جس میں زن و مرد، خورد و کلاں بہت سے آدمی اچھلتے چلے جاتے ہیں، ایسا
معلوم ہوتا تھا کہ سب کسی مجلس یا میلے میں جاتے ہیں یا کسی نشاط عام کے جشن میں شامل
ہوتے ہیں کیوں کہ ہر ایک کے منہ پر یقین کا رنگ چمک رہا تھا اور ایک ایک آنکھ سرمہ
شوق سے روشن نظر آتی تھی ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ ہر ایک کی خوشی کچھ خاص
قسم کی ہے کہ وہ اس کے دل میں ہے۔ سب ملے جلے ساتھ ہی چلے جاتے تھے ۔ مگر نہ کوئی اپنا
ارادہ دوسرے کو بتانا چاہتا تھانہ اپنے فکر کا راز دوسرے کو جتانا گوارا کرتا تھا۔
بہت لوگوں کی گرمی رفتار سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر کوئی آرزومند شوق کی پیاس سے
تڑپتا ہو تو انہیں اس کے بجھانے کی بھی فرصت نہیں۔ اس واسطے ان کے روکنے کو جی نہ چاہا
اور تھوڑی دیر تک غور سے دیکھتا گیا۔ آخر ایک بڈ ھا نظر آیا کہ باوجود بڑھاپے کے انہیں
میں شامل تھا۔ ہاتھ پاؤں بہت مارتا تھا مگر کچھ ہو نہ سکتا تھا۔ میں نے خیال کیا کہ
بوڑھے کو اب کیا ہوس ہوگی اسے شاید کچھ جواب دینے کی فرصت ہو ۔ چنانچہ اسے سلام کیا
بوڑھے نے تیوری بدل کر منہ پھیر لیا اور کہا ’صاحب دِق نہ کیجئے ، آپ جانتے بھی ہیں؟
جس وقت کی کہ ہم عمروں سے آرزو کر رہے تھے وہ وقت آن پہنچا ہے۔ اب ایک عہد آیا ہے کہ
تمام عالم فارغ البالی سے مالا مال ہو جائے گا۔ افلاس زدہ اور طالب روزگار بے چارے
ٹیکس اور محصول کے مارے آئے دن کی جاں کنی سے خلاص ہو جا ئیں گے۔ بلکہ فلک کے سیمرغ جواہل عالم کے کاروبار
میں رات دن سرگرداں ہیں وہ بھی باز وڈال کر آرام سے بیٹھ جائیں گے۔ میں نے بوڑھے کو
اس کی خشکی دماغ کے حوالے کیا اور وہیں ٹھہر گیا۔ اتنے میں ایک شخص سامنے آیا جس کی
ملائمت شکل اور آہنگی رفتار سے معلوم ہوا کہ شاید کچھ اخلاق سے پیش آئے۔ مگر جب میں
اس کی طرف بڑھا تو اس نے جھک کر ایک سلام کیا اور کہا ’’ اگر آپ کی خدمت کی فرصت ہوتی
تو میں بہت خوش ہوتا، مگر اب اس خوشی کا ہوش نہیں کیونکہ بیس برس سے میں ایک عہدے کی
امیدواری کر رہا تھا۔ اب وہ خالی ہوا چاہتا ہے۔
میں
نے اسے بھی چھوڑا اور ایک اور کو جالیا وہ گھبرایا ہوا جاتا تھا کہ چچا کی میراث پر
قبضہ کرلے کیوں کہ اس کی بیماری کی خبر سننے میں آئی تھی۔ اس کے پیچھے ایک اور شخص
دیکھا کہ ہے تحاشا بھاگا چلا آتا تھا۔ اس نے ایک غوطہ خوری کی کل ایجاد کی تھی۔ اس
کے دریائے منافع میں غوطہ مارا چاہتا تھا۔ یعنی اگر کچھ اور نہ ہو تو ایجاد کا انعام
ہی ہاتھ آ جائے۔
ایک
شخص کو دیکھا کہ تھوڑی دور چلتا ہے اور ٹھہر جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ طول بلد اور عرض بلد کے
خیالات پھیلا رہا ہے اور سر کا ر عالم سے انعام کا امیدوار ہے۔
جب جابجا سے ٹکریں کھا ئیں تو یہ سوچا کہ اوروں سے دریافت کرنا بے حاصل ہے۔ اب جو اپنی آنکھ کہے وہ ٹھیک ہے ۔ آگے بڑھو اور آپ دیکھو، کہ اتنے میں ایک نو جوان شوقین بے پروا سا نظر آیا اور آزادی کے عالم میں مسکراتا چلا جاتا ہے۔ اسے دیکھ کر دل میں کہا کہ بھلا ایک دفعہ تو اسے بھی ٹٹولنا چاہیے چنانچہ معمولی سوال کا سبق اسے بھی سنایا۔ وہ ہنسا اور کہا ، صاحب جہاں آپ کھڑے ہیں یہ ملکہ امید کا باغ ہے۔ وہ ملکہ آرزو کی بیٹی ہے۔ ذرا سامنے دیکھو بہت سی پریاں خوشنما اور نفیس نفیس چیزیں لیے کھڑی ہیں۔ جن لوگوں کو تم نے زور وشور مچاتے دیکھا یہ انہی کے اشاروں پر للچائے ہوئے دوڑے جاتے ہیں۔ آنکھ اٹھا کر دیکھو تو فی الحقیقت سامنے ایک ایوان عالی شان ہے اور اس کے صدر میں ایک پری جس کا گلزار جوانی عین بہار پر ہے، سر تخت جلوہ گر ہے۔ مسکراہٹ اس کے زیرلب پارہ کی طرح لوٹتی ہے۔ لعل و جواہر ، تاج مرصع موتیوں کے ہار، خلعت زرنگار کشتیوں میں چنے ہوئے آگے دھرے ہیں۔ قسمت اور نصیب جہاں کی نعمتیں سجائے اس کے دائیں بائیں دست بستہ حاضر ہیں اور بہار زندگی کے پھولوں کا فرش سامنے بچھا ہے۔ عیش مدام اور فرحت دوام سے چہرہ روشن ہے۔ اس کے لبوں کی مسکراہٹ اور آنکھ کی لگاوٹ عام سے خاص تک برابر سب کی حق شناسی کر رہی ہے۔ اس سے ہر شخص یہی سمجھ رہا ہے کہ ملکہ میری ہی طرف متوجہ ہے ۔ اور اسی بھروسہ پر ایک فخر اور ناز سے پھولا نہیں سماتا۔ رستے کے دونوں طرف کہیں کہیں ایک آدھ جھونپڑی نظر آتی تھی وہ دیکھنے میں پست اور بے حقیقت تھی مگر ہرے درختوں نے سایہ کر رکھا تھا۔ دیواریں لپی ہوئیں، دروازے پر روشن حرفوں میں لکھا تھا ” قناعت کا آرام گھر ‘‘ بعضے تھکے ماندے ان میں چلے آتے اور پاؤں پھیلا کر بیٹھ جاتے۔ راستے والے دیکھ دیکھ کر شور مچاتے کہ بھاگ گئےاور ہمت کے میدان ہار گئے۔
0 Comments