خو
فنا ک عمارت
ابنِ
صفی
Khaufnaak Imarat Novel by Ibn-e-Safi
سوٹ پہن چکنے کے بعد عمران آیئنے کے سا منے لچک لچک کرٹائی با
ند ھنے کی کوشش کرر ہا تھا ۔’’اونہہ۔پھر
وہی۔چھوٹی بڑی ۔میں کہتا ہوں ۔ٹائیا ں غلط آنے لگی ہیں ۔‘‘وہ بڑ بڑا تا ز ہا۔’’اور
پھر۔ٹائی۔لا حول ولاقوۃ۔نہیں باندھتا۔‘‘
یہ
کہہ کر اس نے جھٹکا جو مارا تو ریشمی ٹائی کی گرہ پھسلتی ہوئی نہ صرف گر دن سے
جالگی بلکہ اتنی تنگ ہو گئی کہ چہرہ سرخ
ہوگیا اور آنکھیں اُبل پڑیں ۔
’’یخ…یخ…خیں ۔‘‘ اُس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلنے لگیں
اوروہ پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کرکے چیخا
۔’’ارے مرا …بچاؤ!سلیمان!‘‘ایک نو کر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا ۔پہلے
تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں کیو نکہ عمران سیدھا کھڑا دونوں ہا تھوں سے اپنی رانیں
پیٹ رہا تھا۔
’’کیا ہوا سر کا
ر !‘‘وہ گھبرا ئی ہوئی آواز میں بو لا۔
’’سرکارکے بچے مر رہا
ہوں‘‘۔
’’اَرے …لیکن …مگر…‘‘۔
’’لیکن …اگر …مگر ‘‘۔عمران دانت پیس کر ناچتا ہوا بولا ۔’’َاَبے
ڈھیلی کر۔‘‘
’’کیا ڈھیلی کروں
۔‘‘نو کر نے تحیر آمیز لہجے میں کہا ۔
’’اپنے با وا کے کفن
کی ڈروی …جلدی کر…اَرے مرا‘‘۔
’’تو ٹھیک سے بتاتے
کیوں نہیں ؟‘‘نو کر بھی جھنجھلا گیا ۔
اچھا بے تو کیا میں
غلط بتا رہا ہوں ۔میں یعنی علی عمران ایم ۔ایس ۔سی۔پی ۔ایچ ۔ڈی کیا غلط بتا رہاہوں
۔ابے کمبخت اِسے اُردو میں استعارہ اور
انگر یز ی میں میٹا فرکہتے ہیں ۔اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو با قا عدہ بحث کر۔مرنے
سے پہلے یہ بھی سہی۔‘‘
نوکر نے غور سے دیکھا تو اس کی نظر ٹائی پر پڑی جس کی گر ہ گردن
میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی اور رگیں اُبھری ہوئی سی معلوم ہو رہی تھیں اور آج یہ
اس کے لیے کو ئی نئی بات نہ تھی۔ دن میں
کئی با ر اسےاس قسم کی حما قتوں کا سا
منا کر نا پڑتا تھا ۔
اُس نے عمران کے گلے سے ٹائی کھو لی ۔
’’اگر
میں غلط کہہ رہا تھا تو یہ بات تیری سمجھ میں کیسے آ ئی ۔‘‘ عمران گرج کر بو لا۔
’’غلطی
ہوئی صاحب ‘‘۔
’’پھر
وہی کہتا ہے ۔کس سے غلطی ہوئی ؟‘‘
’’مجھ
سے‘‘۔
’’ثابت
کرو کہ تم سے غلطی ہوئی ‘‘۔عمران ایک صوفے میں گر کر اُسے گھورتا ہوا بولا۔
نوکر
سر کھجا نے لگا ۔
’’جوئیں
ہے کیا تمہارے سر میں ‘‘۔عمران نےڈانٹ کر پو چھا ۔
’’نہیں
تو ‘‘۔
’’تو پھر کیوں کھجارہے تھے ‘‘۔
’’یو
نہی‘‘۔
’’جا
ہل ۔گنوار …خواہ مخواہ بے تکی حرکتیں کر کے اپنی اِنرجی بر باد کر تے
ہو۔‘‘
نوکر
خاموش رہا۔
’یونگ
کی سائیکا لو جی پڑھی ہے تم نے ؟‘‘عمران نے پوچھا۔
نوکر
نے نفی میں سر ہلادیا۔
’’یونگ
کی ہّجے جا نتے ہو‘‘۔
’’نہیں
صاحب ‘‘۔نوکر اُکتا کر بو لا۔
اچھا یاد کرو ۔جے ۔یو ۔این ۔جی یونگ۔ بہت سے جاہل اِسے جنگ
پڑھتے ہیں اور کچھ جونگ ۔جنھیں قا بلیت کا ہیضہ ہو جا تا ہے وہ ژونگ پڑھنے اور
لکھنے لگتے ہیں ۔فرانسیسی میں جے ’’ژ‘‘کی آواز دیتا ہے مگر یونگ فرانسیسی نہیں تھا‘‘۔
’’شام
کو مرغ کھا ئیے گایا تیتر ‘‘۔نوکر نے پوچھا۔
’’آدھا تیتر آدھا بٹیر
۔‘‘عمران جھلا کر بو لا ۔’’ہاں تو میں ابھی کیا کہہ رہا تھا۔‘‘وہ خاموش ہوکر سو
چنے لگا ۔
’’آپ کہہ رہے تھے کہ مسالحہ اتنا بھونا جا ئے کہ
سرخ ہو جا ئے‘‘۔نوکر نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ہاں
!اور ہمیشہ نرم آنچ پر بھو نو ‘‘۔عمران بولا ۔’’کفگیر کو اس بُری طرح دیگچی میں
نہ ہلاؤ کہ کھنک پیدا ہواورپڑوسیوں کی رال ٹپکنے لگے ۔ویسا کیا تم مجھے بتا سکتے
ہو کہ میں کہاں جا نے کی تیاری کر رہا تھا‘‘۔
’’آپ‘‘۔نوکر
کچھ سوچتا ہوا بولا ۔’’آپ میرے لیے ایک شلوار اور قمیص کا کپڑا خر ید نے جا رہے
تھے ۔بیس ہزار کا لٹّھا اور قمیص کے لیے بو سکی۔‘‘
’’گڈ۔تم
بہت قا بل اور نمک حلال نوکر ہو ۔ تم اگر مجھے
یا د نہ دلاتے رہو تو میں سب کچھ بھو ل جا ؤں ‘‘۔
’’میں
ٹائی با ند ھ دوں سرکار !‘‘ نوکر بڑے پیار
سے بو لا۔
’’باندھ دو‘‘۔
نوکر
ٹائی با ند ھتے وقت بڑبڑا تا جا ر ہا تھا ۔’’بیس ہزار کا لٹّھا اور بو سکی۔کہیے تو لکھ کر دے دوں۔‘‘
’’بہت
زیادہ اچھا رہے گا‘‘۔عمران نے کہا
ٹائی
باند ھ چکنے کے بعد نو کر نے کا غذ کے ایک ٹکڑے پر پنسل سے گھسیٹ کر اُس کی طرف
بڑھادیا۔
’’یوں
نہیں ‘‘۔عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے سنجیدگی سے بو لا ۔’’اِسے یہاں پن کر
دو‘‘۔
نوکر
نے ایک پن کی مدد سے کاغذ اس کے سینے پر لگا دیا۔
’’اب
یاد رہے گا۔‘‘عمران نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
راہد
اری طے کر کے وہ ڈرائنگ روم میں پہنچا ۔
یہاں تین لڑکیاں بیٹھی تھیں ۔
’’واہ
عمران بھائی ‘‘۔ان میں سے ایک بولی۔’’خوب انتظار کرایا ۔کپڑے پہننے میں اتنی دیر
لگا تے ہیں ‘‘۔
اُوہ
‘تو کیاآپ میراانتظار کر رہی تھیں ‘‘۔
’’کیوں
؟کیا آپ نے ایک گھنٹہ قبل پکچر چلنے کا وعدہ نہیں کیا تھا‘‘۔
’’پکچر
چلنے کا ۔مجھے تو یاد نہیں ۔میں تو سلیمان کےلیے ….......‘‘ عمران اپنے سینےکی طرف اشارہ کر کے بو لا ۔
’’یہ
کیا ؟‘‘وہ لڑکی قریب آکر آگے کی طرف جھکتی ہوئی بولی ۔’’بیس ہزار کا لٹّھا اور
بو سکی ۔یہ کیا ہے ۔اس کا مطلب ؟‘‘
پھر
وہ بے تحاشہ ہنسنے لگی ۔عمران کی بہن ثریّانے بھی اُٹھ کر دیکھا لیکن تیسری بیٹھی
رہی۔وہ شائد ثریا کی کوئی نئی سہیلی تھی۔
’’یہ
کیا ہے ؟‘‘ثریّا نے پو چھا۔
’’سلیمان
کے شلوار اور قمیص کا کپڑا لینے جارہا ہوں‘‘۔
لیکن
ہم سے کیوں وعدہ کیا تھا ۔‘‘وہ بگڑکر بولی۔
’’بڑی
مصیبت ہے۔‘‘ عمران گردن جھٹک کر بولا ۔’’تمہیں سچا سمجھوں یا سلیمان کو۔‘‘
اُسی
کمینے کو سچا سمجھٔے ۔میں کون ہوتی ہوں‘‘۔ثریا نے کہا ۔پھر اپنی سہیلیوں کی طرف
مڑکر بولی ۔’’اکیلے ہی چلتے ہیں ‘‘۔
’’آپ
ساتھ بھی گئے تو شرمندگی ہی ہوگی ۔کر بیٹھیں گے کوئی حماقت !‘‘۔
’’ذرادیکھئے
آپ لوگ !‘‘عمران رونی صورت بنا کر درد بھری آواز میں بولا ۔’’یہ میری چھوٹی بہن
ہے۔مجھے احمق سمجھتی ہے ۔ثریا میں بہت جلد مر جاؤں گا ۔ کسی وقت جب بھی ٹائی غلط
بندھ گئی اور بیچارے سلیمان کو کچھ نہ کہو ۔وہ میرا محسن ہے ۔اُس نے ابھی ابھی
میری جا ن بچائی ہے‘‘۔
’’کیا
ہوا تھا ؟‘‘ثریا کی سہیلی جمیلہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں پو چھا ۔
’’ٹائی
غلط بندھ گئی تھی‘‘۔عمران انتہائی سنجیدگی سے بو لا ۔
جمیلہ
ہنسنے لگی ۔لیکن ثریا جلی کٹی بیٹھی رہی ۔اسکی نئی سہیلی متحیرانہ انداز میں اُس
سنجیدہ ترین احمق کو گھور رہی تھی ۔
’’تم
کہتی ہوتو میں پکچر چلنے کے تیار ہوں ‘‘۔عمران نے کہاں ۔’’لیکن واپسی پر مجھے یا د
دلا دینا کہ میرے سینے پر ایک کاغذ پن کیا ہو اہے ‘‘۔
’’میں
تو ہر گز نہ جا ؤں گی ‘‘۔ثریا نےکہا ۔
’’نہیں
!عمران بھائی کے بغیر مزہ نہ آئے گا ‘‘۔جمیلہ نے کہا ۔
’’جیو
!‘‘ عمران خوش ہو کر بولا ۔‘‘میرا دِل چاہتا ہے کہ تمہیں ثریا سے بدل لو ں۔کاش تم
میری بہن ہوتیں ۔یہ نک چڑھی ثریا مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی ‘‘۔
’’آپ
خود نک چڑھے ۔ آپ مجھے کب اچھے لگتے ہیں ‘‘۔ثریا بگڑ کر بو لی ۔
’’دیکھ
رہی ہو ۔یہ میری چھوٹی بہن ہے‘‘۔
’’میں
بتاؤں ‘‘۔جمیلہ سنجیدگی سے بو لی ۔’’آپ یہ کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیجیے ۔میں
یاد دلادوں گی ‘‘۔
عمران
نے کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیا ۔ثریا کچھ کھنچی کھنچی سی نظر آنے لگی تھی ۔وہ
جیسے ہی باہر نکلے ایک موٹر سائیکل پورٹیکومیں آکررُکی جس پر ایک باو قار اور
بھاری بھر کم آدمی بیٹھا ہوا تھا۔
’’ہیلو
!سو پر فیاض ‘‘۔عمران دونوں ہاتھ بڑھا کر
چیخا ۔
’’عمران
۔مائی لیڈ ۔تم شائد کہیں جا رہے ہو ‘‘۔موٹر سائیکل سوار بولا ۔پھر لڑکیوں کی طرف
دیکھ کر کہنے لگا ۔’’اُوہ معاف کیجیے گا لیکن یہ کام ضروری ہے ۔عمران جلدی کرو‘‘۔
عمران اُچھل کر کیر یر پر بیٹھ گیا اور موٹر سائیکل
فراٹے بھرتی ہوئی پھاٹک سے گز رگئی۔
’’دیکھا
تم نے ‘‘۔ثریا اپنا نچلا ہونٹ چبا کر بو لی۔
’’یہ
کون تھا؟‘‘ جمیلہ نے پو چھا ۔
’’محکمہ
سر اغرسانی کا سپر نٹنڈنٹ فیاض ۔مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اُسے
بھائی جان جیسے خبطی آدمی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔یہ اکثر انھیں اپنےساتھ لے جا
یا کر تا ہے ‘‘۔
’’عمران بھائی دلچسپ آدمی ہیں ‘‘۔جمیلہ نے کہا ۔’’بھئی کم
ازکم مجھے تو ان کی موجودگی میں بڑا لطف آتا ہے‘‘۔
’’ایک
پاگل دوسرے پاگل کو عقلمندہی سمجھتا ہے‘‘۔ثریا منہ بگاڑ کر بو لی۔
’’مگر
مجھے یہ پاگل تو نہیں معلوم ہو تے ‘‘۔ ثریا کی نئی سہیلی نے کہا ۔
اور
اُس نے قریب قریب ٹھیک ہی بات کہی تھی ۔عمران صورت سے خبطی نہیں معلوم ہو تا تھا۔خاصا خوشر واور دلکش نو جوان تھا۔عمر ستا ئیس اٹھائیسں
کے لگ بھگ رہی ہو گی۔خوش سلیقہ اور صفائی پسند بھی تھا۔تندرستی اچھی اور جسم ورزشی
تھا۔
مقامی یو نیورسٹی سے ایم ۔ایس۔سی کی ڈگری لے کر انگلینڈچلا
گیا تھا اور وہاں سے سائنس میں ڈاکڑیٹ لے
کر واپس آیا تھا۔اس کا با پ رحمان محکمہ سر اغرسا نی میں ڈائرکٹر جنرل تھا ۔انگلینڈ
سے وا پسی پر اس کے باپ نے کو شش کی تھی کہ اُسے کو ئی اچھا سا عہدہ دلادے لیکن
عمران نے پرواہ نہ کی ۔
کبھی وہ کہتا کہ میں سا ئنسی آلات کی تجارت کر وں گا ۔کبھی
کہتا کہ اپنی ذاتی انسٹی ٹیوٹ قائم کر کے سا ئنس کی خدمت کروں گا ۔بہر حال کبھی
کچھ اورکبھی کچھ ۔گھر بھر اُس نے نا لاں تھا اور انگلینڈ سے واپسی کے بعد تووہ
اچھا خاصا احمق ہو گیا تھا ۔اتنا احمق کہ گھر کے نو کر تک اُسے دن رات اُلّو بنا
یا کر تے تھے۔اسے اچھی طرح لو ٹتے ۔اس کی جیب سے دس دس روپے کے نوٹ غائب کر دیتے
اور اُسے پتہ تک نہ چلتا۔
باپ تو اس کی صورت د یکھنے کا بھی روادارنہیں تھا ۔صرف ماں
ایسی تھی جس کی بدو لت وہ اس کو ٹھی میں مقیم تھا ورنہ کبھی کا نکال دیا گیا ہو تا
۔ا کلو تا لڑکا ہو نے کے با وجود بھی رحما ن صاحب اس سے عاجز آگئے تھے ۔
’’پاگل وہ اسی وقت نہیں معلوم ہو تے جب خاموش ہوں‘‘۔ثریا بو
لی ۔’’دو چا ر گھنٹے بھی اگر ان حضرت کے ساتھ رہنا پڑے تو پتہ چلے‘‘۔
کیا کا نٹے روڑتے ہیں ؟‘‘جمیلہ نے مسکراکر کہا۔
’’اگر اُن میں اسی طرح دلچسپی لیتی رہیں تو کسی دن معلوم ہو
جا ئے گا ـــــ‘‘ثریا منہ سکوڑ کر بو لی۔
2
کیپٹن فیاض کی مو ٹر سا ئیکل
فراٹے بھر ر ہی تھی اور عمران کیر یر پر بیٹھا بڑ بڑا تا جا ر ہا تھا ۔’’شلوار
کا لٹھا …بو سکی کی قمیص …شلوار کا بو سکا … لٹھی …لٹھی…کیا تھا ۔لا حول ولا قو ۃ بھو ل گیا …روکو…یار …روکو…شائد‘‘۔
فیاض نے مو ٹر سا ئیکل روک دی ۔
’’بھول گیا ‘‘۔عمران بولا ۔
’’کیا بھول گئے ؟‘‘
’’کچھ غلطی ہو گئی‘‘۔
’’کیاغلطی ہوگئی ‘‘۔فیاض جھنجھلا کر بو لا ۔’’یا ر کم از کم
مجھے تو اُلّو نہ بنا یا کر و‘‘۔
’’شائد میں غلط بیٹھا ہو ا ہو ں ‘‘۔عمران کیر یر سے اُتر تا
ہو ابولا ۔
’’جلدی ہے یا ر ‘‘۔فیاض نے گردن جھٹک کر کہا ۔
عمران اس کی پیٹھ ملائے ہوئے دوسری طرف منہ کر کے بیٹھ گیا
۔
’’مجھے بھی تماشہ بناؤ گے ۔سیدھے بیٹھونا ‘‘۔فیا ض جھنجھلا
کر بولا ۔
’’تو کیامیں سر کے بَل بیٹھا ہواہوں‘‘۔
’’مان جاؤ پیارے ‘‘۔فیاض خوشامدانہ لہجے میں بو لا ۔’’لوگ
ہنسیں گے ہم پر‘‘۔
’’یہ تو بڑی اچھی با ت ہے ‘‘۔
منہ کے بل گرو گے سڑک پر‘‘۔
’’اگر تقدیر میں یہی ہے توبند ہ بے بس وناچا ر ‘‘۔عمران نے
دردیشانہ اندازمیں کہا ۔
’’خدا سمجھے تم سے ‘‘۔فیاض نے دانت پیس کرمو ٹر سا ئیکل
اسٹارٹ کر دی۔اس کا منہ پچھّم کی طرف تھا اور عمران پو رب کی طرف ۔اور عمران اس
طرح آگے کی طرف جھکا ہوا بیٹھا تھا جیسے وہ خود ہی موٹر سائیکل ڈرائیو کر رہا ہو
۔راہگیر انھیں دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
’’دیکھا ۔یا د آگیا ‘‘۔عمران چہک کر بولا ۔’’شلوار کا لٹھا
اور قمیص کی بو سکی ۔میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کو ئی غلطی ہو گئی ہے‘‘۔
’’عمران تم مجھے احمق کیو ں سمجھتے ہو ‘‘۔فیاض نے جھنجھلا
کر کہا ۔’’کم ازکم میرے سامنے تو اس خبطی پن سے با ز آجا یا کر و‘‘۔
’’تم خود ہو گئے خبطی ‘‘۔عمران بُراما ن کر بو لا ۔
’’آخر اس ڈھونگ سے
کیا فا ئدہ‘‘۔
’’ڈھو نگ !اَرے
کمال کر دیا ۔اُف فوہ ۔اس لفظ ’’ڈھو نگ
‘‘پر مجھے وہ با ت یا د آئی جسے اب سے
ایک سال پہلے یا د آنا چا ہیے تھا ‘‘۔
فیا ض کچھ نہ بو لا۔مو ٹر سائیکل ہو اسے باتیں کر تی رہی۔
’’ہا ئیں !‘‘ عمران تھو ڑی دیر بعد بو لا ۔’’یہ مو ٹر
سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھا گ رہی ہے۔اَر ےاس کا ہینڈل کیا ہوا؟‘‘پھر اس نے بے
تحاشہ چیخناشروع کر دیا ۔’’ہٹو بچو !ہٹوبچو۔میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا ‘‘۔
فیا ض نے مو ٹر سا ئیکل روک دی اورجھینپے ہوئے اند از میں
راہگیروں کی طرف دیکھنے لگا ۔
’’شکر ہے خدا کا کہ خو دبخود رُک گئی ‘‘۔عمران اتر تا ہوا
بڑبڑایا پھر جلدی سے بولا ۔۔۔۔۔’’لا حول والا قو ۃاس کا ہینڈل پیچھے ہے۔اب مو ٹر
سائیکل بھی اُلٹی بننے لگیں ‘‘۔
’’کیا مطلب ہے تمہا را
۔کیوں تنگ کر رہےہو ؟‘‘ فیا ض نے بے بسی سے کہا ۔
’’تنگ تم کررہے ہو یا
میں ، اُلٹی مو ٹر سائیکل پر لئے پھرتے ہو ا گر کوئی ایکسیڈ نٹ ہو جائے تو‘‘۔
’’چلوبیٹھو ‘‘۔فیا ض اُسے کھینچتا ہو ابو لا ۔
مو ٹر سائیکل پھر چل
پڑی۔
’’اب تو ٹھیک چل رہی ہے ‘‘۔عمران بڑبڑا یا ۔
مو ٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جا رہی تھی اور
عمران نےابھی تک فیا ض سے یہ بھی پو چھنے کی زحمت نہیں گوارا کی تھی کہ وہ اُسے
کہا ں لے جا رہا ہے۔
آج پھر مجھے تمہا ری مدد کی ضرورت محسوس ہو ئی ہے‘‘۔فیاض
بولا ۔
’’لیکن میں آج با لکل مفلس ہوں ‘‘۔عمران نے کہا ۔
’’اچھا !تو کیا تم سے کچھ اُدھا ر ما نگنے جا ر ہا تھا ؟‘‘
’’پتہ نہیں ۔میں یہ یہی سمجھ رہا تھا ۔اَرے با پ ۔پھر بھول
گیا …لٹھ مارکا …پا ئجامہ …اور قمیص…لا حول ولاقوۃ …بو سکا …پلیز شٹ اَپ …عمران …یوفول‘‘۔
’’عمران !‘‘کیپٹن فیاض نے اُسے مخاطب کیا ۔
’’اوں۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔‘‘
’’تم آخر دوسروں کو بے و قو ف کیو ں سمجھتے ہو‘‘۔
’’کیونکہ …ہار …اَرے باپ یہ جھٹکے …یا ر ذرا چکنی زمین
پر چلاؤ‘‘۔
’’میں کہتا ہوں کہ اب
یہ ساری حماقتیں ختم کر کے کو ئی ڈھنگ کاکام کرو ‘‘۔
’’ڈھنگ …لویار…اِس ڈھنگ پربھی کوئی بات یا د آنے کی کو شش کر رہی ہے‘‘۔
’’جہنم میں جا ؤ ‘‘۔فیاض نےجھلّا کر کہا ۔
’’اچھا ‘‘۔عمران نے بڑی سعا دت مندی سے گر دن ہلائی۔
موٹر سائیکل ایک کا فی طویل وعر یض عمارت کے سامنے رُک گئی
جس کے پھاٹک پر تین چار با وردی کا نسٹبل نظر آرہے تھے۔
’’اب اترو بھی ‘‘۔فیا
ض نےکہا ۔
’’میں سمجھا شائد اب تم
مجھے ہینڈل پر بٹھاؤگے ‘‘۔عمران اتر تا ہوا بولا ۔
وہ اس وقت ایک دیہی علاقے میں کھڑے ہوئے تھے جو شہر سے زیا
دہ دور‘نہ تھا ۔یہاں بس یہی ایک عما رت اتنی بڑی تھی ورنہ یہ بستی معمولی قسم کے
کچے یا پکے مکا نو ں پر مشتمل تھی ۔اس عمارت کی بناوٹ طرز قدیم سے تعلق رکھتی تھی ۔چاروں طرف سرخ رنگ کی
لکھوری اینٹوں کی کافی بلند د یو اریں تھیں اور سامنے ایک بہت بڑا پھا نک تھا جو
غالبًا صدر دروازے کے طورپر استعما ل کیا
جا تا رہا ہو گا۔
کیپٹن فیاض ، عمران کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت میں دا خل ہو
گیا ۔اب بھی عمران نے اُس سے یہ نہ پو چھا کہ وہ اُسے کہاں اور کس مقصد کے تحت
لایا ہے ۔
دونوں ایک طویل دالان سے گز رتے ہوئے ایک کمرے میں آئے ۔اچانک
عمران نے اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ لیے اور منہ پھیرکرکھڑا ہو گیا ۔اُس نے
ایک لا ش دیکھ لی تھی جو فرش پر اُوندھی
پڑی تھی اور اس کے گرد خون پھیلا ہوا تھا۔
’’اِنّا لِلّہ و اِنّا الیه راجعون ‘‘۔وکپکپاتی ہو
ئی آواز میں بڑبڑا رہا تھا ۔’’خدا اس کے
متعلقین کو جوارِر حمت میں جگہ دے اور اُسے صبر کی تو فیق عطا فر ما ئے‘‘۔
’’میں تمہیں دعائے خیر کر نے کے لئے نہیں لا یا ‘‘۔فیا ض
جھنجھلا کر بو لا۔
’’تجہیز و تکفین کے لیے چندہ وہا ں بھی ما
نگ سکتے تھے ۔اتنی دور کیو ں گھسیٹ لا
ئے‘‘۔
’’یا ر عمران !خدا کے لیے بو رنہ کرو ۔میں تمہیں اپنا ایک
بہترین دوست سمجھتا ہو ں ‘‘۔فیا ض نے کہا۔
میں بھی یہی سمجھتا ہو ں ۔ مگر پیا ر ے پا نچ روپے سے زیادہ نہ دے سکوں گا ۔ابھی مجھے لٹھی کا بو سکا خرید نا ہے …کیا …لٹھی …لو یا ر پھر بھول گیا ۔کیا مصیبت ہے‘‘۔
فیا ض چند لمحےکھڑا اُ سے گھورتا ر ہا پھر بو لا ۔
’’عما رت پچھلے پا نچ
بر سو ں سے بند ر ہی ہے۔کیا
ایسی حالت میں یہاں ایک لا ش کی مو جود گی حیرت انگیز نہیں ہے‘‘۔
’’با لکل نہیں ‘‘۔عمران سر ہلا کر بو لا ۔’’اگر یہ لا ش کسی
امردو کے درخت پر پا ئی جا تی تو میں اُسے عجو بہ تسلیم کر لیتا ‘‘۔
’یار تھوڑی دیر کے لیے سنجیدہ ہو جا ؤ‘‘۔
میں شروع ہی سے رنجیدہ ہو ں ‘‘۔عمران نے ٹھنڈی سانس لے
کرکہا۔
رنجیدہ نہیں سنجیدہ ہوں ‘‘۔فیاض پھر جھنجھلاگیا۔
عمران خا مو شی سے لا ش کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ وہ آہستہ سے
بڑبڑایا ۔’’تین زخم‘‘۔
فیا ض اُسے موڈ میں آتے دیکھ کر کچھ مسرور سا نظر آنے لگا۔
’’پہلے پو ری با ت سن لو ‘‘۔فیاض نے اُسے مخا طب کیا ۔
’’ٹھہرو ‘‘۔عمران لا ش پر جھکتا ہو ا بولا ۔وہ تھوڑی دیر تک
زخموں کو غور ےسے دیکھتا رہا پھر سراٹھا کر بو لا ۔’’پو ری با ت سنا نے سے پہلے یہ بتاؤکہ
اس لاش کے متعلق تم کیا بتا سکتے ہو ‘‘۔
’’آج با رہ بجے دن کویہ دیکھی گئی ہے‘‘۔فیاض نے کہا ۔
’’اور کچھ !‘‘عمران
اُسے سوالیہ نظروں سے دیکھ ر ہا تھا ۔
’’اور کیا !‘‘ فیا ض بو لا ۔
’’مگر …شیخ چلّی دوئم …یعنی علی عمران ایم ۔ایس ۔سی ۔پی ۔ایچ ۔ڈی کا خیال کچھ اور
ہے‘‘۔
’’کیا؟‘‘
’’سن کر مجھ اُلّو صحیح احمق بٹادو سمجھنے لگو گے ‘‘۔
’’اَرے یار کچھ بتا ؤ تو سہی ‘‘۔
’’اچھا سنو !‘قاتل
نے پہلا وار کیا ۔ پھر پہلے زخم سے پا نچ انچ کا فا صلہ نا پ کر دو سرا وار
کیا ۔ اس کے بعد پا نچ کی نا پ پر تیسرا ۔اور
اس با ت کا خاص خیا ل رکھا کہ زخم با لکل سید ھ میں ر ہیں ۔نہ ایک سوت ا ِدھر اور
نہ ایک سوت اُدھر ‘‘۔
’’کیا
بکتے ہو ‘‘۔فیا ض بڑبڑا یا ۔
’’نا پ کر دیکھ لو مری جا ن ۔ اگر غلط نکلے تو میراسر قلم
کر دینا ۔آں …شائدمیں غلط بو ل گیا
…میرے قلم پر سر رکھ دینا …‘‘ عمران نے کہا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ۔ اس
نے ایک طرف پڑا ہوا ایک تنکا اٹھا یا اور اور جھک کر زخموں کے در میا نی فا صلے
نا پنے لگا ۔ فیا ض اُسے حیرت سے دیکھ رہا
تھا ۔
’’لو‘‘۔عمران اُسے تنکا پکڑا تا ہو ابو لا ۔’’اگر یہ تنکاپا
نچ انچ کا نہ نکلے تو کسی کی ڈا ڑھی تلا ش کرنا ‘‘۔
’’مگر اس کا مطلب ‘‘۔ فیا ض کچھ سو چتا ہو ا بو لا ۔
’’اس کا مطلب یہ کہ قا تل و مقتول درا صل عا شق و معشوق تھے‘‘۔
’’عمران پیا رے !ذرا سنجید گی سے‘‘۔
’’یہ تنکا بتا تا ہے کہ یہی با ت ہے ‘‘۔عمران نے کہا ۔’’اور
اُردو کے پرانے شعرا ء کا بھی یہی خیال
ہے ۔کسی کا بھی دیو ان اٹھا کر دیکھ لو ۔ دو چار شعرا ء اس کی قسم کے ضرور مل جا
ئیں گی جن سے میرے خیال کی تا ئید ہو جا ئے گی ۔چلو ایک شعر سن ہی لو :
موچ آئے نہ کلائی میں کہیں
سخت
جاں ہم بھی بہت ہیں پیا رے
’’مت بکو اس کرو ۔ اگر میری مدد نہیں کر نا چا ہتے تو صاف
صاف کہہ دو ‘‘۔ فیاض بگڑ کر بو لا ۔
’’فاصلہ تم نے نا پ لیا ۔ اب تم ہی بتا ؤ کہ کیا با ت ہو
سکتی ہے ‘‘۔عمران نے کہا
فیا ض نے کچھ نہ بولا ۔
’’ذرا سو چو ‘‘۔عمران پھر بو لا ۔’’ ایک عا شق ہی اُردو شاعری کے مطا بق اپنے محبو ب کو اس با ت کی اجازت دےسکتا ہے کہ
وہ جس طرح چا ہے اُسے قتل کرے ۔قیمہ بنا کر رکھ دے یا نا پ نا پ کر سلیقہ سے زخم
لگا ئے ۔یہ زخم بد حواسی کا نتیجہ بھی نہیں
۔لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتا تی کہ مرنے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدو جہد
کر نی پڑی ہو ۔بس ایسا معلو م ہو تا ہے
جیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا ہو کہ جو مزاجِ یا ر میں آئے‘‘۔
فیاض تھوڑی دیر خامو ش رہ کر بو لا ۔’’یہ عما رت تقر یباً
پا نچ سال سے خالی رہی ہے۔ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کےلیے اسے کھولا جا تا ہے‘‘۔
’’کیوں۔۔۔۔۔؟‘‘
’’یہاں دراصل ایک قبر
ہے ۔جس کےمتعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے ۔چنا چہ ہر جمعرات کو ایک
شخص اسے کھو ل کر قبر کی جا روب کشی کرتا ہے‘‘۔
’’چڑھا وے وغیرہ
بھی چڑھتے ہوں گے؟‘‘ عمران نے پو چھا ۔
’’نہیں ایسی کو ئی با ت نہیں ۔جن لو گوں کا یہ مکا ن ہےوہ
شہر میں رہتے ہیں اور اُن میرے قریبی تعلقات ہیں ۔انھوں نے یہاں ایک آدمی اسی لیے
رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کو قبر کی دیکھ بھال کر لیا کرے ۔یہاں معتقدین کی
بھیڑ نہیں ہو تی ۔بہر حال آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لا ش دیکھی ‘‘۔
’’تا لا بند تھا ‘‘۔عمران نے پو چھا ۔
’’ہاں !اوروہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے
لیے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں اس قسم کےنشانا ت نہیں مل سکے جن کی بنا ء پر کہا
جا سکتا ہے کہ کو ئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو‘‘۔
تو پھر یہ لاش آسما ن سےٹپکی ہوگی ‘‘۔عمران نے سنجید گی سے
کہا ۔’’بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید سے مدد طلب کرو جس کی قبر …‘‘
’’پھر بہکنے لگے ‘‘۔ فیا ض بولا ۔
’’اس عمارت کے ما لک کو ن ہیں اور کیسے ہیں ؟‘‘ عمران نے پو
چھا ۔
’’وہی میرے پڑوس والے جج صاحب ۔‘‘ فیا ض بو لا ۔
’’ہائے وہی جج صا حب ۔ ‘‘ عمران اپنے سینے پر ہا تھ ما کر
ہونٹ چا ٹنے لگا ۔
’’ہا وہی ۔یار سنجیدگی سے ۔ خدا کے لیے۔‘‘
’’تب میں تمہا ری کو ئی مدد نہیں کر سکتا ‘‘۔ عمران ما یو
سانہ اندا ز میں سر ہلا کر بولا ۔ ’’کیو نکہ تم نے میری مدد نہیں کی‘‘۔
’’میں نے‘‘۔فیاض نے حیرت سے کہا ۔ ’’ میں نہیں سمجھا ‘‘۔
’’خودغرض ہو نا ۔بھلا تم میرے کا م کیو ں آنے لگے ‘‘۔
’’اَرے بتا ؤنا ۔ میں واقعی نہیں سمجھا ‘‘۔
’’کب سے کہہ رہا ہو ں کہ اپنے پڑوسی جج صاحب کی لڑکی سے
میری شا دی کرا دو ‘‘۔
’’بکو مت ۔ ہر وقت ےتکی با تیں ‘‘۔
’’میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں ‘‘۔عمران نے کہا ۔
’’اگر سنجید گی سے کہہ رہے ہو تو شا ئد تم ا ند ھے ہو‘‘۔
’’کیو ں ؟‘‘
’’اس لڑکی کی ایک آنکھ نہیں ہے ‘‘۔
’’اِسی لیے تو اس سے شادی کر نا چا ہتا ہو ں ۔وہ مجھے اور
میرے کتو ں کو ایک نظر سے دیکھے گی ‘‘۔
’’یا ر خدا کے لیے سنجیدہ ہو جا ؤ‘‘۔
’’پہلے تم و عدہ کرو ‘‘۔عمران بو لا ۔
’’اچھا بابا میں ان سے کہو ں گا ‘‘۔
’’بہت بہت شکریہ مجھے سچ مچ اس لڑکی سے کچھ ہو گیا ہے۔ کیا
کہتے ہیں اُسے لو ریا ں بھول گیا ۔ حالا نکہ ابھی کچھ دیر پہلے اسی کا تذکرہ
تھا‘‘۔
’’چلو چھو ڑو۔۔۔۔۔کا م کی با تیں کرو ‘‘۔
’’نہیں ‘اُسے یا د ہی آجا نے دو ۔ ورنہ مجھ پر ہسڑیا کا
دوراہ پڑ جا ئے گا ‘‘۔
’’عشق ‘‘۔فیاض منہ بنا کر بولا ۔
’’جیٗو ! شا با ش ‘‘۔ عمران نے اس کے پیٹھ ٹھو نکتے ہو ئے
کہا ۔’’خدا تمہا ری ما دہ کو سلا مت رکھے
۔ اچھا اب یہ بتا ؤ کہ لا ش کی شنا خت ہو
گئی یا نہیں ۔
’’نہیں ۔ نہ تو وہ اس علا قے کا با شندہ ہے اور نہ جج صاحب
کے خا ندان وا لے اس سےوا قف ہیں ‘‘۔
’’یعنی کسی نے اُسے پہچا نا نہیں ‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
’’اس کے پا س کو ئی
ایسی چیز ملی یا نہیں جس سے اس کی شخصیت پر رو شنی پڑسکے ‘‘۔
’’کو ئی نہیں ۔ مگر ٹھہرو ‘‘۔ فیا ض ایک طرف بڑھتا ہو ا
بولا ۔ واپسی پر اُس کے ہا تھ میں چمڑے کا ایک تھیلا تھا ۔ ’’ یہ تھیلا ہمیں لا ش
کے قر یب پڑا ہو ا ملا تھا ‘‘۔
عمران تھیلا اُس کے ہا تھ سےلے کر اندر کی چیزوں کا جا ئزہ
لینے لگا ۔۔۔۔۔’’ کسی بڑھئی کےاوزار ‘‘۔ اس نے کہا ۔ ’’اگر یہ مقتول ہی کے ہیں تو ویسے اس شخص کی ظاہری حا لت اچھی نہیں ۔ لیکن
پھر بھی یہ بڑھئی نہیں معلوم ہو تا ‘‘۔
’’کیو ں ؟‘‘
’’اس کے ہا تھ بڑے ملائم ہیں ۔ہتھلیوں میں کھر دُورا پن
نہیں ہے۔یہ ہا تھ تو کسی مصور یا رنگ سازہی کے ہو سکتے ہیں‘‘۔عمران بو لا ۔
’’ابھی تک تم نے کو ئی کا م کی با ت نہیں بتا ئی ‘‘۔فیا ض
نے کہا ۔
’’ایک احمق آدمی سے اس سے زیا دہ تو قع رکھنا عقلمندی نہیں
‘‘۔عمران ہنس کر بو لا ۔
’’اس کے زخموں نے مجھے اُلجھن میں ڈال دیا ہے‘‘۔فیا ض نے کہا
’’اگر تم نے میرے زخموں پر مر ہم رکھا تو میں ان زخموں کو
بھی دیکھ لو ں گا‘‘۔
’’کیا مطلب !‘‘
’’جج صا حب کی لڑکی ‘‘۔ عمران اس طرح بولا جیسے اُسے کچھ یا
د آگیا ہو ‘‘۔ اس مکان کی ایک کنجی جج صاحب کے پا س ضروررہتی ہو گی ‘‘۔
’’ہاں ۔۔۔۔۔ایک ان کے پا س بھی ہے‘‘۔
’’ہےیاتھی‘‘۔
یہ تو میں نے نہیں
پو چھا ‘‘۔
’’خیر پھر پو چھ لینا ۔ اب اس لاش کو اُٹھو اؤ ۔ پوسٹ ما
رٹم کے سلسلے میں زخمو ں کی گہر ائیوں کا خاص خیا ل رکھاجا ئے ‘‘۔
’’اگرزخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسرے کے برابرہو ئیں تو یہ
سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حر کت ہے‘‘۔
’’کیوں فضول بکواس کر
رہے ہو ‘‘۔
’’جوکہہ رہا ہو ں اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہو تو علی
عمران ایم ۔ایس ۔پی ۔ ایچ ۔ڈ ی کی خدما ت
حاصل کر نا ورنہ کو ئی ضرو رت نہیں ‘‘۔
’’تمہاری ہدا یت پر عمل کیا جا ئے گا ۔ اور کچھ ‘‘۔
’’اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چا ہتا ہو ں ‘‘۔ عمرا ن
نے کہا ۔
پوری عمارت کے چکر
لگا لینے کے بعد وہ پھر اُسی کمرمیں لوٹ آئے۔
’’ہاں بھئی ، جج صا حب سے ذرا یہ بھی پو چھ لینا کہ انھو ں
نے صرف اسی کمرے کی ہئیت بد لنے کی کو شش کیوں کر ڈالی ہے۔ جبکہ پو ری عما رت اُسی
پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے ۔ کہیں بھی دیواروں میں پلا سڑ نہیں د کھا ئی دیتا
لیکن یہاں ہے‘‘۔
’’پوچھ لو ں گا ‘‘۔
’’اور کنجی کے متعلق بھی پو چھ لینا …اور…ہا …اگر وہ محبوبۂ ایک چشم مل جا ئے تو اُس سے کہنا کہ
ترے تیر نیم کش کو کوئی میرے دل سے پو چھے
۔ شا ئد غالب کی محبوبہ بھی ایک ہی آنکھ رکھتی تھی کیو نکہ تیر نیم کش اکلوتی ہی
آنکھ کا ہو سکتاہے‘‘۔
’’تو اس وقت اور کچھ نہیں بتا ؤ گے ‘‘۔ فیا ض نے کہا ۔
’’یا ر بڑے احسان فروش ہو…فروش…شائد پھر بھول گیا ۔ کو نسا لفظ ہے ؟‘‘
’’فرا موش ‘‘۔
’’جیٔو ! ہا ں تم بڑے احسا ن فرا مو ش ہو ۔ اتنی
دیر سے بکواس کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتا یا ہی نہیں ‘‘۔
3
دوسرےدن کیپٹن فیا ض نے عمران کو اپنے گھر پر مد عو کیا ۔ حا لا نکہ کئی با ر کے تجر با ت نے یہ با ت ثا بت کر دی تھی کہ عمران وہ نہیں ہے جو ظا ہرکر تا ہے ۔نہ وہ خبطی ہے
اورنہ احمق۔پھر بھی فیا ض نے اُسے مو ڈ میں لا نے کے لیے جج صاحب کی کا نی لڑکی کو
بھی مدعوں کر لیاتھا ۔حا لا نکہ وہ عمران کی اس افتا د طبع کو بھی مذاق ہی سمجھتا
تھا لیکن پھر بھی اس نے سو چا تھوڑی سی
تفریح ہی رہے گی ۔فیا ض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیا ض نے اُسے اُس کے اس ’’عشق‘‘کی دا ستان سنا ئی تو
ہنستے ہنستے اُس کا برا حال ہو گیا ۔
فیاض اِس وقت اپنے ڈرا ئنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظار
کر رہا تھا ۔ اس کی بیوی اورجج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی مو جو د تھیں ۔
’’ابھی تک نہیں آئے
عمران صاحب ‘‘۔فیا ض کی بیوی نے کلا ئی
پر بند ھی ہو ئی گھڑی کی طرف د یکھتے ہو
ئے کہا ۔
’’کیا وقت ہے؟‘‘فیا ض نے پو چھا ۔
’’سا ڑھے سات‘‘۔
’’بس دو منٹ بعد وہ اسی کمرے میں ہو گا ‘‘۔ فیاض مسکرا کر
بو لا ۔
’’کیوں !یہ کیسے‘‘۔
’’اس کی ہر با ت عجیب ہو تی ہے۔وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کر
تا ہے اُس نے سات بجکر بتیس منٹ پر آنے کا
وعدہ کیا تھا ۔ لہٰذا میرا خیا ل ہے کہ وہ اس وقت ہما رے بنگلے کے قر یب ہی کہیں
کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہو گا ‘‘۔
’’عجیب آدمی معلوم ہو تے ہیں‘‘۔را بعہ نے کہا۔
’’عجیب تر ین کہیے ۔ انگلینڈسے سا ئنس میں ڈا کڑ یٹ لے کر
آیا ہے ۔لیکن اس کی حرکا ت‘وہ آپ ا بھی دیکھ ہی لیں گی۔ اس صدی کا سب عجیب آدمی ۔ لیجیے شا ئد وہی
ہے‘‘۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
فیا ض اُٹھ کر آگے بڑھا ۔دوسرے لمحے میں عمران ڈرائنگ روم
داخل ہو رہا تھا ۔ عو رتوں کو دیکھ کر وہ
قدرے جھکا اور پھر فیا ض سے مصافحہ کر نے لگا ۔
غا لباًمجھے سب سے پہلے یہ کہنا چا ہیے کہ آج کل کا مو سم
بڑا خو شگوار رہا ‘‘۔عمران بیٹھتا ہو ا بو لا ۔
فیا ض کی بیوی ہنسنے
لگی اور رابعہ نے جلدی سے تا ر یک شیشوں وا لی عینک لگا لی۔
’’آپ سےملئے ۔آپ مِس رابعہ ہیں ‘ہمارے پڑوسی جج صاحب کی
صاحبزادی اور آپ مسڑعلی عمران ‘میرے محکمے کے ڈائر کڑ جنرل رحما ن صاحب کے
صاحبزادے ‘‘۔
’’بڑی خوشی ہوئی‘‘۔ عمران مسکرا کر بولا ۔ پھر فیاض سے کہنے
لگا ۔’’تم ہمیشہ گفتگو میں غیر ضروری الفاظ ٹھو نستے رہے ہو جو بہت گراں گزرتے ہیں
۔رحمان صاحب کے صاحبزادے دونوں صا حبوں کا
ٹکراؤ برا لگتا ہے۔اس کے بجائے رحمان صاحب کے صاحب زادے یا صرف رحمان زادے کہہ
سکتے تھے‘‘۔
’’میں لڑیری آدمی نہیں ہوں ‘‘۔فیاض مسکرا کر بولا ۔
دونوں خواتین بھی مسکرا رہی تھیں ۔ پھر را بعہ نے جھک کر
فیاض کی بیوی سے کچھ کہا اوروہ دونوں ڈرائنگ روم سے اُٹھ کر چلی گئیں۔
’’بہت اچھا ہوا ‘‘۔عمران برا سا منہ بنا کر بو لا۔’’تو کیا
تم نے اُسے بھی مدعو کیا تھا ‘‘۔
’’ہا ں !بھئی کیوں نہ کرتا ۔ میں نے سوچا کہ اسی بہانے سے
تمہارے ملا قات بھی ہو جا ئے گی ‘‘۔
’’مگر مجھے بڑی کو فت ہورہی ہے ‘‘۔عمران نے کہا ۔
’’کیوں ؟‘‘
’’آخر اُس نے دھوپ کا چشمہ کیوں لگا لیا ہے‘‘۔
’’اپنا نقص چھپانے کے لیے ‘‘۔
’’سنو میا ں !دوآنکھوں والیاں مجھے بہتیر ی مل جا ئیں گی
۔یہاں تو معاملہ صرف اس ایک آنکھ کاہے۔ ہائے کیا چیز ہے ۔ کسی طرح اس کا چشمہ اتراؤورنہ میں کھا نا کھا ئے بغیر وا پس جا ؤں گا‘‘۔
’’بکو مت‘‘۔
’’میں چلا‘‘عمرا ن اٹھتا ہوا بولا۔
’’عجیب آدمی ہو ۔بیٹھو‘‘۔فیاض نے اُسے دوبا رہ بٹھا دیا ۔
’’چشمہ اترواؤ۔ میں اس کا قا ئل نہیں کہ محبوب سا منے ہوا
ور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو‘‘۔
’’ذرا آہستہ بولو ‘‘۔ فیاض نے کہا ۔
’’میں تو ابھی خوداُس سے کہو ں گا‘‘۔
’’کیا کہوگے ‘‘۔فیاض بو کھلا کر بولا ۔
’’یہی جو تم سے کہہ رہا ہو ں ‘‘۔
’’یا ر خدا کے لیے …‘‘
’’کیا برائی ہے اس میں ‘‘۔
’’میں نےسخت غلطی کی‘‘۔ فیاض بڑبڑا یا ۔
’’واہ غلطی تم کرو اور بھگتوں میں ۔ نہیں فیا ض صا حب ۔ میں
اُس سے کہو گا کہ براہ کرم چشمہ اتار دیجیے ۔ مجھے آپ سے مر مّت ہوگئی ہے…مرمّت …مرمّت …شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔ بولو بھئی …کیا ہونا چا ہیے
‘‘۔
’’محبت !‘‘فیا ض برا سا منہ بنا کر بولا ۔
’’جیؤ…محبت ہو گئی ہے ۔تو وہ اس پر کیا کہے گی !‘‘
’’چنٹا ماردے گی‘‘۔ فیا ض
جھنجھلا کر بولا۔
’’فکر نہ کرو ۔ میں چا نٹے کو چانٹے پر روک لینے کے آرٹ سے
بخوبی واقف ہوں۔۔۔۔۔طریقہ وہی ہوتا ہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا‘‘۔
’’یار خدا کے لیے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا ‘‘۔
’’عقلمندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی ہوئی تو ہین ہے ۔
اب بُلا ؤنہ اُسے ۔ دِل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کر سکتا
۔وہ کیا ہوتا ہے جدا ئی میں …بولونا یار ۔ کون سا لفظ ہے‘‘۔
’’میں نہیں جا نتا ‘‘۔ فیاض جھنجھلا کر بولا ۔
’’خیر ہوتا ہوگا کچھ ۔ ڈکشنری میں دیکھ لوں گا ۔ ویسے میرا
دل دھڑک رہاہے ۔ہاتھ کا نپ رہے ہیں لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے۔میں
اسے نہیں بر دا شت کر سکتا‘‘۔
چند لمحہ خا موشی رہی۔ عمران میز پر رکھے ہوئے گلدان کو اس
طرح گھورہاتھا جیسے اُس نے اُسے کو ئی سخت با ت کہہ دی ہو۔
’’آج کچھ نئی با تیں معلوم ہوئی ہیں ‘‘۔فیاض نے کہا ۔
’’ضرور معلوم ہوئی ہوں گی ‘‘۔عمران احمقوں کی طرح سرہلاکر
بولا ۔
’’مگر نہیں !پہلےمیں
تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں ۔ تمہارا خیال درست نکلا
۔۔۔۔۔زخموں کی گہرا ئیاں بالکل
برابر ہیں ۔
کن زخموں کی بات
کررہےہو‘‘۔عمران نے کہا۔
’’کیا تم کل والی لاش
بھول گئے‘‘۔ فیاض نے کہا ۔
’’لاش …اَر …ہاں یاد آگیا ۔اُوہ وہ تین زخم۔ برابر نکلے…ہا…‘‘
’’اب کیا کہتے ہو
؟‘‘فیا ض نے پوچھا ۔
’’سنگ و آہن بے
نیازِ غم نہیں ۔ دیکھ ہر دیوار ودرسے سرنہ مار ‘‘۔عمران نے گنگنا کرتان ماری اور
میز پر طبلہ بجانے لگا ۔
’’تم سنجیدنہیں
ہوسکتے ‘‘۔فیاض اُکتا کر بے دلی سے بولا ۔
’’اُس کا چشمہ
اتروادینے کا وعدہ کر وتو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں ‘‘۔
’’کوشش کروں گا بابا
۔ میں نے اُسے نا حق مدعو کیا‘‘۔
’’دوسری بات یہ کہ
کھا نے میں کتنی دیر ہے‘‘۔
’’شائد آدھ گھنٹہ …ایک نوکر بیمار ہو گیا ہے ‘‘۔
’’خیر !ہاں جج صاحب
سے کیا با تیں ہوئیں؟‘‘
’’وہی بتانے جارہا تھا۔کنجی ان کے پاس موجود ہے اور دو سری بات یہ کہ وہ عمارت
انھیں اپنے خاندانی تر کے میں نہیں ملی تھی‘‘۔
’’پھر ؟‘‘ عمران توجہ
اور دلچسپی سے سن رہا تھا ۔
’’وہ دراصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اُس دوست نے بھی اُسے خریدا تھا ۔اُن کی دوستی بہت
پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انھیں ایک دو
سرے سے جدا کردیا ۔آج سے پا نچ سا ل قبل
اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملا جو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا۔اُس نے لکھا تھا کہ اُس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد
وہ زندہ نہ رہ سکے ۔ لہٰذا مرنے سے پہلے اُن سے کو ئی بہت اہم بات کہنا چا ہتا ہے
۔تقریباً پندرہ سال بعد جج صا حب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا لہٰذا ان
کا وہاں پہچنا ضروری تھا ۔بہر حال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے۔ان کے دوست کا انتقال ہو
چکا تھا ۔معلوم ہوا کہ وہ وہا ں تنہا ہی رہتا تھا۔ ہا ں تو جج صاحب کو بعد میں
معلوم ہواکہ مرنے وا لے نے وہ عمارت قا نو نی طور پر جج صاحب کی طرف منتقل کردی تھی لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا
کہ وہ اُن سے کیا کہنا چا ہتا تھا ‘‘۔فیاض تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا ۔’’ہاں ۔۔۔۔۔اوراُس کمرےکے پلا سڑ کے
متعلق پو چھا تھا ۔جج صاحب نےاس سے لا علمی ظاہر کی۔ البتہ انھوں نے یہ بھی بتا یا
کہ ان کی دوست کی موت اُسی کمرے میں واقع ہو ئی تھی‘‘۔
’’قتل‘‘۔عمران نے پو
چھا ۔
’’نہیں ۔ قدرتی موت ۔
گاؤں والوں کے بیان کے مطابق وہ عر صہ سے بیمار تھا ‘‘۔
’’اُس نے اس عمارت کو
کس سے خریدا تھا ‘‘۔ عمران نے پو چھا ۔
’’آخر اُس سے کیا بحث
۔ تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑگئے ہو‘‘۔
’’محبو بۂ یک
چشم کے وا لد بز رگوار سے یہ بھی پو چھو‘‘۔
’’ذرا آہستہ ۔ عجیب
آد می ہو ‘اگر اُس نے سن لیا تو‘‘۔
’’سننےدو ۔ ابھی میں
اُس سے اپنے دل کی حالت بیان کرو ں گا‘‘۔
’’یار عمران خدا کے
لیے …کیسے آدمی ہو تم ‘‘۔
’’فضول با تیں مت کرو
‘‘۔عمران بو لا ۔’’ذرا جج صاحب سے وہ کنجی ما نگ لاؤ‘‘۔
’’اُوہ کیا ابھی‘‘۔
’’ابھی اور اس وقت
‘‘۔
فیاض اٹھ کر چلا گیا
۔ اُس کے جا تے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔
’’کہاں گئے ؟‘‘فیاض
کی بیوی نے پوچھا ۔
’’شراب پینے‘‘۔عمران
نے بڑی سنجید گی سے کہا ۔
’’کیا؟‘‘فیا ض کی
بیوی منہ پھا ڑکر بولی ۔ پھر ہنسنے لگی۔
’’کھانا کھانے سے
پہلے ہمیشہ تھوڑی سی پیتے ہیں ‘‘۔عمرا ن نے کہا۔
’’آپ کوغلط فہمی ہوئی
ہے۔ وہ ایک ٹانک ہے ‘‘۔
’’ٹانک کی خالی بو تل
میں شراب رکھنا مشکل تو نہیں ‘‘۔
’’لڑوانا چا ہتے ہیں
آپ ‘‘۔ فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔
’’کیا آپ کی آنکھوں
میں کچھ تکلیف ہے‘‘۔ عمران نے رابعہ کو مخا طب کیا ۔
’’جی…جی…جی نہیں ‘‘۔ رابعہ
نروس نظر آنے لگی۔
’’کچھ نہیں ‘‘۔فیاض کی بیوی جلدی سے بو لی ۔’’عا دت ہے ۔ تیز رو شنی بر دا شت
نہیں ہوتی ۔ اِسی لیے یہ چشمہ…‘‘
’’اُوہ …اچھا… ‘‘عمران بڑبڑایا ۔’’میں ابھی کیا سوچ رہا تھا ‘‘۔
’’آپ غا لباً یہ سوچ
رہے تھے کہ فیا ض کی بیوی بڑی پھو ہڑ ہے ۔ ابھی تک کھا نا بھی نہیں تیا ر ہو سکا ‘‘۔
’’نہیں‘یہ با ت نہیں ہے ۔ میرے سا تھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی
بھول جا تا ہو ں ۔سو چتے سو چتے بھول جا تاہوں کہ کیا سو چ رہا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ میں ابھی یہ بھو ل جا ؤ ں کہ آپ
کون ہیں اور میں کہاں ہوں ۔ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں ‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے‘‘۔ فیا ض کی بیوی مسکرائی۔
’’مطلب یہ کہ اگر مجھ
سے کو ئی حما قت سرزد ہوتو بلا تکلف ٹوک دیجیے گا ‘‘۔
ابھی یہ گفتگو ہو رہی
تھی کہ فیاض وا پس آگیا۔
’’کھانے میں کتنی دیر
ہے ‘‘۔اس نے اپنی بیوی سے پو چھا ۔
’’بس ذرا سی‘‘۔
فیاض نے کنجی کا کو ئی تذکرہ نہیں کیا عمران کےانداز سے بھی
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہوکہ اُس نے فیاض کو کہا بھیجا تھا ۔
تھوڑی دیر بعد کھا نا آگیا ۔
کھانا ختم ہو جا نے کے بعد بھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہا ں بیٹھنا چا ہتی تھی
لیکن فیاض کی بیوی اُسے کسی بہانے سے اٹھا لے گئی ۔ شائد فیاض نے اسے اشارہ کر دیا تھا ۔ اُن کے جاتے ہی فیاض نے عمرا ن کو
کنجی پکڑادی اور عمران تھوڑی دیر تک اُس کا جا ئزہ لیتے رہنے کے بعد بولا۔
’’ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے۔اس کے سوراخ کے اندر موم کے
کچھ زرّات ہیں۔ موم کا سانچہ ۔ سمجھتے ہونا‘‘۔
4
رات تاریک تھی اور آسما ن میں سیا ہ با دلوں کے مرغو لے چکراتے
پھر رہےتھے ۔ کیپٹن فیاض کی مو ٹر سا ئیکل اندھیر ے کا سینہ چیرتی ہوئی چکنی سڑک
پر پھسلتی جا رہی تھی۔کیر یر پر عمران بیٹھا الوؤں کی طرح دیدے پھرارہا تھا۔اس کے
ہو نٹ بھنچے ہو ئے تھےاور نتھنے پھڑک رہے تھے ۔دفعتاًوہ فیاض کا شا نہ تھپتھپاکر
بولا ۔
’’یہ تو طے شدہ بات ہے کہ کسی نے والدِ یک چشم کی کنجی کی
نقل تیار کروائی ہے ‘‘۔
’’ہوں …لیکن آخر کیوں؟‘‘
’’پو چھ کر بتاؤں گا‘‘۔
’’کس سے؟‘‘
’’بیکراں نیلے آسمان سے۔ تاروں بھری رات سے ۔ہولے ہولے چلنے
والی ٹھنڈی اداؤں۔ لا حول …ہواؤں سے‘‘۔
فیاض کچھ نہ بولا ۔ عمران بڑبڑا رہا تھا ۔’’لیکن شہید میاں کی قبر کی جا روب
کشی کرنے والے کی کنجی ۔ اس کا حاصل کرنا نسبتاًآسان رہا ہوگا ۔بہر حال ہمیں اس عمارت
کی تا ر یخ معلوم کرنی ہے ۔شائد ہم اس کے نواح میں پہنچ گئے ہیں ۔ موٹر سا ئیکل
روک دو‘‘۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔
’’انجن بن کردو‘‘۔
فیاض نے انجن بن کر دیا ۔ عمران نے اُس کے ہا تھ سے موٹر
سائیکل لے کر ایک جگہ جھاڑیوں میں چھپا دی۔
’’آخر کر نا کیا چا
ہتے ہو ‘‘۔فیاض نے پو چھا ۔
’’میں پو چھتا ہو ں تم مجھے کیوں ساتھ لئے پھرتے ہو‘‘۔
عمران بولا۔
’’وہ قتل…اس عمارت میں ہوا تھا ‘‘۔
’’قتل نہیں حادثہ کہو ‘‘۔
’’حادثہ …کیا مطلب ؟‘‘ فیا ض حیرت سے بولا۔
مطلب کےلیے دیکھو
غیا ث اللغات صفحہ ایک سو بارہ ۔ویسے ایک سو بار ہ پر بیگم پارہ یاد آرہی ہے ۔بیگم
پارہ کے ساتھ امرت دھا ر ا ضروری ہے ۔ ورنہ ڈیوڈ کی طرح چند یا صاف ‘‘۔
فیاض جھنجھلا کر خاموش ہوگیا۔
دونوں آہستہ آہستہ اس عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے ۔انھوں نے پہلے
پوری عمارت کا چکر لگایا ‘پھر صدر دروازے کے قریب پہنچ کر رُک گئے۔
’’اوہ !‘‘عمران آہستہ سے بڑ بڑایا …’’تالا بند نہیں ہے‘‘۔
’’کیسے دیکھ لیا تم نے ۔ مجھے تو نہیں سجھا ئی دیتا‘‘۔ فیاض
نے کہا۔
’’تم اُلّو نہیں ہو ‘‘۔عمران بولا ۔’’چلو اِدھر ےسے ہٹ
آؤ‘‘۔
دونوں وہاں سے ہٹ
کر مکان کی پشت پر آئے۔ عمران اوپر کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ دیوار کافی اونچی تھی۔
اُس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور دیوار پر روشنی ڈالنے لگا۔
’’میرا بوجھ سنبھال
سکوگے ‘‘۔اُس نے فیاض سے پوچھا ۔
’’میں نہیں سمجھا‘‘۔
’’تمہیں سمجھا نے کے لیے تو با قاعدہ بلیک بورڈ اور چاک
اسٹک چا ہیے ۔ مطلب یہ کہ میں اُوپر جا نا چا ہتا ہوں ‘‘۔
’’کیوں ؟ کیا
یہ سمجھتے ہو کہ کوئی اندر موجود ہے‘‘۔ فیاض نے کہا۔
’’نہیں ۔یو نہی جھک ما رنے کا ارادہ ہے ۔ چلو بیٹھ جا ؤ
۔میں تمہارے کاندھے پر کھڑا ہوکر …‘‘
’’پھر بھی دیوار بہت اونچی ہے‘‘۔
’’یا ر فضول بحث نہ کرو ‘‘۔ عمران اُکتا کر بو لا ۔’’ورنہ
میں واپس جا رہا ہوں‘‘۔
طوعاً وکر ہاًفیاض دیوار کی جڑمیں بیٹھ گیا۔
’’اَماں جوتے تواتار لو ‘‘۔ فیاض نے کہا ۔
’’لے کر بھا گنا مت ‘‘۔عمران نے کہا اور جوتے اتار کر اُس
کے کا ندھو ں پر کھڑا ہو گیا۔
’’چلو اب
اٹھو‘‘۔
فیاض آہستہ آہستہ اُٹھ
رہا تھا۔ عمران کا ہا تھ رو شندان تک پہنچ گیا اور دوسرے ہی لمحے وہ بندروں
کی طرح دیوار پر چڑھ رہاتھا ۔فیاض منہ پھا ڑے حیرت سے اُسے گھوررہا تھا۔وہ سو چ
رہا تھا کہ عمران آدمی ہے یا شیطان ۔ کیا یہ وہی احمق ہے جو بعض اوقات کسی کیچوے
کی طرح با لکل بے ضررمعلوم ہو تا ہے۔
جن روشندانوں کی مدد سےعمران اُوپر پہنچا تھا انھیں کے
ذریعہ دوسری طرف اتر گیا ۔چند لمحے وہ دیوار سے لگا کھڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اس
طرف بڑھنے لگا جد ھر کئی قدموں کی آہٹیں مل رہی تھیں۔
اور پھر اُسےیہ معلوم کر لینے میں کوئی دشواری نہ ہو ئی کہ
وہ نا معلوم آدمی اسی کمرے میں تھے جس میں
اُس نے لاش دیکھی تھی ۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا لیکن دروازوں سے موم بتّی کی ہلکی
زرد روشنی چھن رہی تھی ۔اس کے علاوہ والا ن با لکل تا ریک تھا ۔
عمران دیوار سے چپکاہو ا آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھنے
لگا ۔ لیکن اچانک اُس کی نظر شہید مرد کی قبر کی طرف اٹھ گئی جس کا تعویذاُوپر اٹھ
رہا تھا۔تعویذ اور فرش کے در میا نی خلا ءمیں ہلکی سی رو شنی تھی ۔ اور اس خلاء سے دو
خوفناک آنکھیں اندھیر ے میں گھو ر رہی تھیں۔
عمرا ن سہم کر رک گیا ۔وہ آنکھیں پھاڑے قبر کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اچانک قبر سے
ایک چیخ بلند ہوئی ۔ چیخ تھی یا کسی ایسی بندریا کی آواز جس کی گردن کسی کتے نے
دبو چ لی ہو۔
عمران جھپٹ کر برابر والے کمرے گھس گیا ۔ وہ جا نتا تھا کہ
اس کی چیخ کا رِدّعمل دو سرےکمروں والوں پر کیا ہو گا ۔وہ در وازے میں کھڑا قبرکی
طرف دیکھا رہا تھا ۔تعویذ ابھی تک اٹھا
ہوا تھا اور خوفنا ک آنکھیں اب بھی چنگا ریا ں بر سا رہی تھی۔ دوسری چیخ کے ساتھ
ہی برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک چیخ پھر سنائی دی جو پہلی سے مختلف تھی ۔ غالباًیہ انھیں نا معلوم آدمیوں
میں سے کسی کی چیخ تھی۔
’’بھ …بھوت ‘‘۔کوئی کپکپاتی ہوئی سی آواز میں بولا اورپھر ایسا
معلوم ہوا جیسے کئی آدمی صدر دروازے کی طرف بھاگ رہے ہوں۔
تھوڑی دیر بعد سنّاٹا چھا گیا ۔ قبر کا تعویذ برابر
ہوگیاتھا ۔
عمران زمین پر لیٹ کر سینے کےبل رینگتا ہوا صدر دروازےکی
طرف بڑھا ۔کبھی کبھی وہ پلٹ کر قبر کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا ۔لیکن پھر تعویذ نہیں
اُٹھا ۔
صدر دروازہ با ہر سے بند ہو چکا تھا ۔ عمران اچھی طرح
اطمینان کر لینے کے بعد پھر لو ٹ پڑا۔
لاش والے کمرے کا دروازہ کھلا ہواتھا۔ لیکن اب وہاں اندھیرے
کی حکومت تھی ۔عمران نے آہستہ آہستہ دروازہ بند کرکے ٹارچ نکالی لیکن روشنی ہوتے
ہی حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’انا لله و انا الیه را جعون‘‘۔ وہ آہستہ سے بڑبڑا ۔’’خدا
تمہا ری بھی مغفرت کرے‘‘۔
ٹھیک اسی جگہ جہاں وہ اس سے قبل بھی ایک لاش دیکھ
چکاتھا‘دوسری پڑی ہوئی دکھائی دی۔اس کی پشت پر بھی تین زخم تھے جن سے خون بہہ بہہ
کر فرش پر پھیل رہا تھا۔عمران نے جھک کراُسے دیکھا ۔یہ ایک خوش وضع اور کافی خو
بصورت جوان تھا اور لبا س سے کسی اونچی سو سائٹی کافر د معلوم ہوتا تھا۔
’’آج اُن کی کل اپنی با ری ہے‘‘۔ عمران درویشانہ انداز میں
بڑبڑاتا ہوا سیدھا ہو گیا ۔ اس کے ہاتھ میں کا غذکا ایک ٹکڑا تھا جواُس نے مرنے
والے کی مٹھی سے بد قت تمام نکالا تھا۔
وہ چند لمحے اُسے ٹارچ کی روشنی میں دیکھتا رہا ۔ پھر
معنی خیز انداز میں سر ہلا کر کوٹ کر اندرونی جیب میں رکھ لیا۔
کمرے کے بقیہ حصوں کی حالت بعینہ وہی تھی جو اُس نے پچھلی
مرتبہ دیکھی تھی ۔ کوئی خاص فرق نظر نہیں آرہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ پچھلی دیوار سے نیچے اتررہاتھا۔آخری
روشندان پر پیر رکھ کر اُس نے چھلانگ لگا دی۔
’’تمہاری یہ خصوصیت بھی آج ہی معلوم ہوئی‘‘۔فیاض آہستہ سے
بولا ۔وہ حیرت سے عمران کی طرف دیکھ رہا
تھا۔
’’کیا اندر کسی بندریا
سے ملاقات ہوگئی تھی ‘‘۔ فیاض نے مسکراتے ہوئے پھر کہا ۔
’’آواز پہنچی یہا ں تک ‘‘۔ عمران نے پوچھا۔
’’ہاں !لیکن میں نے ان اطراف میں بندر نہیں دیکھے ‘‘۔
’’اس کے علاوہ کوئی دوسری آواز؟‘‘
’’ہاں !شائد تم
ڈر کر چیخے تھے ‘‘۔ فیاض بولا۔
’’لاش اِسی وقت چا ہیے یا صبح ؟‘‘عمران پو چھا ۔
’’لاش !‘‘فیاض اُچھل پڑا ۔ ’’کیا بکتے ہو !کیسی لاش !‘‘
’’کسی شاعر نے دو غز لہ
عرض کردیا ہے‘‘۔
’’اے دنیا کے
عقلمند ترین احمق ‘صاف صاف کہو ‘‘۔ فیاض جھنجھلا کر بولا ۔
’’ایک دوسری لاش…تین زخم ۔ زخموں کا فاصلہ پا نچ انچ ۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ان کی
گہرائی بھی یکساں نکلے گی‘‘۔
’’یاربے وقوف مت بناؤ ‘‘۔ فیاض عا جزی سے بولا۔
’’جج صا حب والی کنجی موجو د ہے ۔عقلمند بن جاؤ ‘‘۔ عمران
نے خشک لہجے میں کہا ۔
’’لیکن یہ ہو ا کس طرح؟‘‘
اسی طرح جیسے شعر ہوتے ہیں لیکن یہ شعر مجھے بھرتی کا معلوم ہوتا ہے ۔ جیسے میر کا یہ شعر
میر کے دین ومذہب کو کیا پو چھتے ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا!
۔۔۔۔۔بھلا بتاؤ دیر میں کیوں بیٹھا‘ جلدی کیوں نہیں بیٹھ
گیا‘‘۔
’’دیر نہیں دَیر ہے …یعنی بت خانہ‘‘۔فیاض نے کہا پھر ہڑبڑا کر بولا۔۔۔۔۔’’لاحول ولاقوۃ۔میں بھی
اسی لغویت میں پڑگیا ۔ وہ لاش عمارت کےکس حصے میں ہے‘‘۔
’’اُسی کمرے میں اور ٹھیک اسی جگہ جہاں پہلی لاش ملی تھی‘‘۔
’’لیکن وہ آوازیں کیسی تھیں ؟‘‘فیاض نے پوچھا۔
’’وہ نہ پوچھو تو بہتر ہے۔میں نے اتنا مضحکہ خیز منظر آج تک
نہیں دیکھا‘‘۔
’’یعنی‘‘۔
’’پہلے ایک گدھا دکھائی دیا جس پر ایک بندریا سوار تھی پھر
ایک دوسرا سایہ نظر آیا جو یقیناً کسی آدمی کا تھا۔ اندھیرے میں بھی گدھے اور آدمی
میں فرق کیا جا سکتا ہے کیوں تمہارا کیا خیال ہے‘‘۔
’’مجھے افسوس ہے کہ تم ہر وقت غیر سنجیدہ رہتے ہو‘‘۔
’’یار فیاض!سچ کہنا! اگر تم ایک آدمی کو کسی بندریا کا منہ
چومتے دیکھو تو تمہیں غصہ آئے گا یا ہنسی‘‘۔
’’فضول وقت بر باد کر رہے ہو تم‘‘۔
’’اچھا چلو ‘‘۔ عمران اس کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔
وہ دونوں صدردروازے کی طرف آئے۔
’’کیوں پر یشان کر رہے ہو ‘‘۔ فیاض نے کہا۔
’’کنجی نکالو ‘‘۔ درواز ہ کھول کر دونوں لاش والے کمرے میں
آئے ۔ عمران نے ٹارچ روشن کی لیکن وہ دوسرے ہی لمحےمیں اس طرح سے سر سہلا رہا تھا جیسے دماغ پر دفتعاًگرمی چڑھ کر گئی ہو۔
لاش غائب تھی۔
’’یہ کیا مذاق ہے؟‘‘فیاض بھنّا کر پلٹ پڑا۔
’’ہوں ۔ بعض عقلمند شاعر بھرتی کے شعر اپنی غزلوں سے نکال
بھی دیا کرتے ہیں ‘‘۔
’’یار عمران میں باز آیا تمہاری مدد سے ؟‘‘
’’مگر مری جان تو یہ
دیکھو ’نقش فریاد ی ہے کس کی شوخی
تحریر کا ‘لاش غائب کرنے والے نے ابھی خون
کے تازہ دھبّوں کا کوئی انتظام نہیں کیا۔:
قاتل ہماری لاش کو تشہیر دے ضرور
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفاکرے
فیاض جُھک کر فرش پر پھیلے ہوئے خون کو دیکھنے ۔’’لیکن لاش کیا ہوئی‘‘۔وہ
گھبرائے ہوئے لہجہ میں بولا۔
’’فرشتے اٹھا لے گئے ۔ مرنے والا بہشتی تھا ۔ مگر لاحول ولا ۔ بہشتی سقے کو بھی کہتے ہیں …کیا کہیں گے …سر چکرا رہا ہے…دَور ہ پڑجا ئے گا‘‘۔
’’جنّتی کہیں گے ۔ عمران تم سے خدا سمجھے‘‘۔
’’جیؤ۔ ہاں تو مرنے والا جنتی تھا ۔ اور کیاکہہ رہا تھا میں…‘‘
’’تم یہیں رُکے
کیوں نہیں رہے تھے ‘‘۔فیاض بگڑ کر بولا ۔’’مجھے آوازدے لی ہوتی‘‘۔
’’سنو یار !بندر یا توکیا میں نے آج تک کسی مکھی کا بھی
بوسہ نہیں لیا ۔۔۔۔۔‘‘عمران مایوسی سے بولا۔
’’کیا معا ملہ ہے ‘تم کوکئی بار بند ریا کا حوالہ دے چکے
ہو‘‘۔
’’جو کچھ ابھی تک
بتا یا ہے بالکل صحیح تھا۔ اس آدمی نے گدھے پر سے بندریا اتاری ۔ اُسے کمرے میں لے
گیا ۔ پھر بندریا دوبارہ چیخی اوروہ آدمی ایک بار …اُس کے بعد سنا ٹا چھا گیا ۔ پھر لاش دکھا ئی دی۔گدھا اور
بند ریا غائب تھے‘‘۔
’’ سچ کہہ رہے ہو ‘‘۔ فیاض بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
’’مجھے جھوٹا سمجھنے والےپر قہر خداوند ی کیوں نہیں ٹوٹتا‘‘۔
فیاض تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھرتھوک نگل کربولا۔
’’تت…تو…پھر صبح ہی پر رکھو‘‘۔
عمران کی نظریں پھر قبر کی طرف اٹھ گئیں ۔ قبر کا تعویذ
اٹھاہوا تھااور وہی خوفناک آنکھیں اندھیرے میں گھوررہی تھیں ۔ عمران نے ٹارچ
بجھادی اور فیاض کو دیوار کی اُوٹ میں ڈھکیل لے گیا۔نہ جا نے کیوں وہ چا ہتا تھا
کہ فیاض کی نظر اس پر نہ پڑے۔
’’کک …کیا ‘‘فیاض کا نپ کر بولا۔
’’بندریا ‘‘۔ عمران نے کہا ۔ وہ کچھ اور ابھی کہنے جا رہا تھا کہ وہی چیخ ایک بار پھر سنا ٹے میں لہر ا گئی۔
’’ارَے …باپ‘‘۔ فیاض کسی خو فزدہ بچے کی طرح بولا۔
’’آنکھیں بند کرلو‘‘۔عمران نے سنجیدگی سے کہا ۔’’ایسی چیزوں
پر نظرپڑنے سے ہارٹ فیل بھی ہوجا یا کرتا ہے۔ریو ا لو ر لا ئے ہو‘‘۔
’’نہیں ۔ نہیں ۔ تم بتایا کب تھا‘‘۔
’’خیر کوئی بات نہیں ۔ اچھا ٹھہرو ‘‘۔ عمران آہستہ آہستہ
دَروازے کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
قبر کا تعویذ برابر ہو چکا تھا اور سنا ٹا پہلے سے بھی کچھ زیادہ گہرا معلوم ہو نے
لگاتھا۔
’’تیار ہو جا ؤ‘‘۔ عمران لوٹ کر بولا۔
’’کِک …کس لیے‘‘۔
’’بندریا گدھے پر سوار ہے‘‘۔
’’پھر ‘‘۔فیاض اپنے ہو نٹوں پر زبان پھیر تا ہو ا بولا۔
’’تم بندریا کو گو د میں اُٹھا لینا اور گدھے پر سوار ہو جا
ؤں گا‘‘۔
’’یار …ڈراؤمت…یہ بھوت خا نہ ہے‘‘۔
’’اچھا تو تم ہی گدھے پر سوار ہو جا نا ۔ ایک ہی بات ہے‘‘۔
فیاض کے دِل کی دھڑکن وہ صاف سن ر ہا تھا۔
’’چلو ! نکل چلو‘‘۔ چپ چاپ
عمران اس کا ہا تھ پکڑ کر گھسیٹتا ہو ا بولا۔
’’مگر…؟‘‘
’’چلو ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے‘‘۔ عمران گھگھیا ئی ہوئی آواز میں بولا ۔
’’مگر وہ…‘‘
’’ارے کھسکوبھی‘‘۔ عمران نے اسے دَروازے کی طرف دھکّا دیا۔
فیاض چل نہیں بلکہ
گھسٹ رہا تھا ۔ کسی طرح وہ با ہر نکلے ۔ دروازہ بند کرکے قفل لگایا اور پھر عمران
اُسے راستہ بھر یہی سمجھا تا رہا کہ ایسے مو قعے پر پلٹ کر د یکھنا بخار کو دعو ت دینا ہو تا ہے۔
5
ایکبج گیا تھا۔فیاض
عمران کو اس کی کوٹھی کے قریب اتا ر کر چلا گیا۔
پا ئیں باغ کا پھا
ٹک بند ہو چکا تھا۔ عمران پھاٹک ہلانے لگا۔ اُنگھتے ہوئے چو کیدار نے ہا نک لگائی۔ٍ
’’پیارے چو کیدار …میں ہوں ےتمہارا خا دم ۔ علی عمران ایم۔ سی پی ۔ ایچ ۔ڈی
لندن‘‘۔
’’کون چھوٹے سرکار ‘‘۔چوکیدار پھا ٹک کے قریب آکر بولا
۔’’حضور مشکل ہے‘‘۔
’’دنیاکا ہربڑا آدمی کہہ گیا ہے کہ وہ مشکل ہی نہیں جوآسان
نہ ہو جا ئے‘‘۔
’’بڑے سرکار کا حکم ہے کہ پھا ٹک نہ کھولا جا ئے ۔اب بتا
یئے‘‘۔
’’بڑے سرکار تک کنفیو شِس کا پیغام پہنچادو‘‘۔
’’جی سرکار ‘‘۔ چوکیدار بوکھلا کربولا۔
’’اُن سے کہہ دو ہ کنفیوشِس نے کہا ہے کہ تاریک رات میں بھٹکنے والے ایمانداروں کے
لیے اپنے دروازے کھول دو‘‘۔
’’مگربڑے سرکار نے کہا ہے…‘‘
’’ہا …بڑے سرکار ۔ انھیں چین میں پیدا ہو نا تھا ۔ خیر تم ان تک کنفیو
شِس کا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا‘‘۔
’’میں کیا بتاؤں‘‘۔ چوکیدار کپکپاتی ہوئی آواز میں
بولا۔’’اب آپ کہاں جا ئیں گے؟‘‘
’’فقیر یہ سہانی رات کسی قبر ستان میں بسر کرے گا‘‘۔
’’میں آپ کے لیے کیا
کرو ں‘‘۔
’’دعا ئے مغفرت …اچھا ٹاٹا‘‘۔عمران چل پڑا۔
اور پھر آدھ گھنٹے کے بعد وہ ٹپ ٹاپ نا ئٹ کلب میں داخل
ہورہاتھا۔لیکن دروازے میں قدم رکھتے ہیں محکمہ سرا غرسانی کے ایک ڈپٹی ڈائر کڑ سے
مڈبھیڑ ہوگئی جو اس کے باپ کا کلاس فیلو بھی رہ چکا تھا۔
’’اُوہو !صاحبزادے تو اب ادھر بھی دکھا ئی دینے لگے ہو‘‘۔
’’جی ہاں ۔ اکثر فلش کھیلنے کےلیے چلا آتا ہو ں ‘‘۔عمران نے
سر جھکا کر بڑی سعادت مندی سے کہا ۔
’’فلش !تو کیااب فلش بھی…‘‘
’’جی ہاں ۔ کبھی کبھی نشے میں دل چا ہتے ہے‘‘۔
’’اُوہ …تو شراب بھی پینے
لگے ہو‘‘۔
’’وہ کیا عرض کروں ۔ قسم لے لیجیے جوکبھی تنہاپی ہو ۔ اکثر شرابی طوا ئفیں بھی مل جا تی
ہیں جو پلائے بغیر ما نتی ہی نہیں ‘‘۔
’’لاحول وولا قوۃ ۔ توتم آج کل رحمان صاحب کا نام اچھال رہے
ہو ‘‘۔
’’اب آپ ہی فرمایئے
‘‘۔ عمرا ن مایوسی سے بولا۔’’جب کوئی شریف لڑکی نہ ملے تو کیا کیا جائے۔ ویسے قسم
لے لیجیے جب کوئی مل جاتی ہے تو میں طوائفوں پر لعنت بھیج کر خدا کا شکر ادا کر تا
ہوں ‘‘۔
وہ تھوڑی دیر تک عمران کو گھورتا رہا پھر بولا۔
’’شائد رحمان صاحب کو اس کی اطلاع نہیں …خیر…‘‘
’’اگر اُن سے ملاقات ہوتو کنفیوشس کا یہ قول دُہرادیجیے گا
کہ جب کسی ایماندار کو اپنی ہی چھت کے
نیچے پناہ نہیں ملتی تو وہ تاریک گلیوں میں بھونکنے والے کتّوں سے سازباز کر
لیتاہے‘‘۔
ڈپٹی ڈا ئر کڑ اُسےگھورتا ہو ا چلا گیا ۔
عمران نے سیٹی بجا نے والے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر ہال کا
جا ئز ہ لیا ۔اس کی نظریں ایک میز پر رُک گئیں جہاں ایک خو بصورت عورت اپنے سا
منےپورٹ کی بوتل رکھے سگر یٹ پی رہی تھی ۔
گلاس آدھے سے زیادہ خا لی تھا۔
عمران اُس کے قریب پہنچ کر رُک گیا۔
’’کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں …لیڈی جہا نگیر ‘‘۔
وہ قدر ے جھک کر بولا۔
’’اوہ تم!‘‘لیڈی جہا نگیر اپنی داہنی بھوں اٹھا کر بو لی
۔’’نہیں …ہر گز نہیں‘‘۔
’’کوئی بات نہیں ‘‘۔ عمران معصومیت سے مسکراکر بولا ۔
’’کنفیوشس نے کہا تھا‘‘۔
’’مجھے کنفیوشِس سے کوئی د لچسپی
نہیں ‘‘۔وہ جھنجھلا کر بولی۔
’’تو ڈی ۔ ایچ لار نس ہی کا ایک جملہ سن لیجیے ‘‘۔
’’میں کچھ نہیں سننا چا ہتی ۔ تم یہاں سے ہٹ جاؤ ‘‘۔ لیڈی
جہا نگیر گلاس اُٹھا تی ہوئی بولی۔
’’اُوہ ۔ اس کا تو خیال کیجیے کہ آپ میری منگیتر بھی رہ چکی
ہیں ‘‘۔
’’شٹ اَپ‘‘۔
’’آپ کی مر ضی ۔ میں تو آپ کو صرف یہ بتا نا چا ہتا تھا کہ
آج صبح ہی سے موسم بہت خو شگوار تھا‘‘۔
وہ مسکرا پڑی۔
’’بیٹھ جاؤ ‘‘۔اُس نے کہا اور ایک ہی سا نس میں گلاس خا لی کر گئی۔
وہ تھوڑی دیر اپنی نشیلی آنکھیں عمران کے چہرے پر جما ئے
رہی پھر سگر یٹ کا ایک طویل کش لے کر آگے جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی ۔’’میں اب بھی
تمہا ری ہوں‘‘۔
’’مگر …سر جہا نگیر ‘‘۔عمران ما یو سی سے بو لا ۔
’’دفن کرو اُسے ‘‘۔
’’ہا ئیں …تو کیا مر گئے‘‘۔عمران گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
لیڈی جہا نگیر ہنس پڑی۔
’’تمہاری حما قتیں بڑی پیاری ہو تی ہیں ‘‘۔ وہ اپنی با ئیں
آنکھ دبا کر بو لی اور عمران نے شرما کر سر جھکا لیا۔
’’تم آج کل کیا کر رہے ہو ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے تھوڑی دیر بعد پو چھا ۔
’’صبر !‘‘عمران نے طویل سا نس لے کر کہا۔
’’تم زندگی کے کسی حصے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو سکتے ‘‘۔
لیڈی جہا نگیر مسکرا کر بولی۔
’’اُوہ …آپ بھی یہی سمجھتی ہیں ‘‘۔عمران کی آواز حد درجہ درد نا ک
ہو گئی ۔
’’آخر مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے تھے کہ تم نےشادی سے
انکار کر دیا تھا‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے کہا
۔
’’میں نے کب انکار کیا تھا‘‘۔ عمران مسمسی صورت بنا کر بولا
۔’’میں نے توآپ کی وا لد صاحب کو صرف دو تین اشعار سنائے تھے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ انھیں شعر و شا عری
سے د لچسپی نہیں ورنہ میں نثر ہی میں گفتگوکرتا‘‘۔
’’والد صاحب کی رائے ہے کہ تم پر لے سرے کے احمق اور بد تمیز ہو‘‘۔لیڈی جہا نگیر نے کہا ۔
’’اور چو نکہ سر جہا نگیر اُن کے ہم عمر ہیں لہٰذا…‘‘
’’شٹ اَپ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر بھنا کر بولی۔
’’بہر حال میں یو نہی تڑپ تڑپ کر مر جا ؤ ں گا‘‘۔ عمران کی
آواز پھر درد ناک ہو گئی۔
لیڈی جہا نگیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’کیا واقعی تمہیں افسوس ہے‘‘۔اُس نے آہستہ سے پو چھا ۔
’’یہ تم پو چھ رہی ہو ؟ اوروہ بھی اسی طرح جیسے تمہیں میرے
بیان پر شبہ ہو‘‘۔عمران کی آنکھوں میں نہ
صرف آنسو چھلک آئے بہنے بھی لگے۔
’’ارررر…نو نو ما ئی ڈیر…عمران ڈارلنگ …کیسے ہو تم ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے اس کی طرف اپنا رومال بڑھا
د یا۔
’’میں اِسی غم میں مر جا ؤں گا‘‘۔عمران آنسو خشک کرتا ہوا بو لا۔
’’نہیں ۔ تمہیں شا دی کر لینی چا ہیے ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے
کہا ۔’’اور میں …میں تو ہمیشہ تمہا ری ہی رہو ں گی‘‘۔وہ
دوسرا گلاس لبر یز کر رہی تھی۔
’’سب یہی کہتے ہیں ۔ کئی جگہ سے رشتے بھی آچکے ہیں۔کئی دن
ہوئے جسٹس فاروقی کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا۔ گھر والوں نے انکار کر دیا ۔ لیکن مجھے
وہ رشتہ کچھ کچھ پسند ہے‘‘۔
’’پسند ہے‘‘۔لیڈی جہا نگیر حیرت سے بو لی ۔’’تم نے اُن کی
لڑکی کو دیکھا ہے‘‘۔
’’ہاں۔ وہی نا جو ریٹا ہیو رتھ اسٹا ئل کے با ل بنا تی ہے
اور عمو ماًتا ریک چشمہ لگائے رہتی ہے‘‘۔
’’جا نتے ہو ! وہ تا ریک چشمہ کیوں لگا تی ہے ؟‘‘لیڈی جہا
نگیر نے پو چھا۔
’’نہیں ۔لیکن اچھی لگتی ہے‘‘۔
لیڈی جہا نگیر نے قہقہہ لگایا ۔
’’وہ اس لیے تا ریک چشمہ لگاتی ہے کہ اس کی ایک آنکھ غا ئب
ہے‘‘۔
’’ہا ئیں …‘‘عمران اُچھل پڑا۔
’’اور غا لباً اسی بناء پر تمہا رے گھر والوں نے رشتہ منظور نہیں کیا۔
’’تم اُسے جا نتی ہو‘‘۔عمران نے پو چھا ۔
’’اچھی طرح سے اور آج کل میں اُسے ایک خو بصورت آدمی کے سا
تھ د یکھتی ہوں ۔ غا لباًوہ بھی تمہا ری ہی طرح احمق ہو گا‘‘۔
’’کون ہے وہ‘میں اس کی گردن تو ڑ دوں گا ‘‘۔ عمران بھپرکر
بولا۔پھر اچا نک چونک کر خود ہی بڑبڑا نے لگا۔’’لا حول ولا قو ۃ…بھلا مجھ سے کیا مطلب؟‘‘
’’بڑی حیرت انگیز
با ت ہےکہ ا نتہا ئی خو بصورت نو جو ان
ایک کا نی لڑکی سے کورٹ کرے‘‘۔
’’واقعی وہ دنیا کا آٹھوا ں عجو بہ ہو گا‘‘ ۔ عمران نے کہا۔
’’کیا میں اسے جا نتا ہوں ‘‘۔
’’پتہ نہیں !کم از کم میں تو نہیں جا نتی اور جسے میں نہ جا
نتی ہو ں وہ اس شہر کے کسی ا علیٰ خا ندان کا فرد
نہیں ہو سکتا‘‘۔
’’کب سے د یکھ رہی ہو اُسے‘‘۔
’’یہی کوئی پندرہ بیس دن سے ‘‘۔
’’کیا وہ یہاں بھی آتے ہیں ‘‘۔
’’نہیں …میں نے ابھی انھیں کیفے کا سینو میں اکثر دیکھا ہے‘‘۔
’’مرزا غا لب نے ٹھیک ہی کہا ہے:
نا لہ سر ما یۂ یک عالم و عا لم کف خا ک
آسماں
بیضہ قمری نظرآتا ہےمجھے
’’مطلب کیا ہو ئے ؟‘‘ لیڈی جہا نگیر نے پو چھا۔
’’پتہ نہیں‘‘۔ عمران نے بڑی معصومیت سے کہا اور پُر خیا ل
انداز میں میز پر طبلہ بجا نے لگا۔
’’صبح تک با رش ضرور
ہو گی ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر انگڑا ئی لےکر بو لی۔
’’سر جہا نگیر آج کل نظر نہیں آتے ‘‘۔ عمران نے کہا ۔
’’ایک ماہ کے لیے با ہر گئے ہو ئے ہیں ‘‘۔
’’گڈ!‘‘ عمران مسکرا کر بو لا۔
’’کیوں ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر اسے معنی خیز نظروں سے د یکھنے لگی۔
’’کچھ نہیں ! کنفیو ش نے
کہا ہے…‘‘
’’مت بو ر کرو ‘‘۔لیڈہ جہا نگیر چڑھ کر بولی۔
’’ویسے ہی…بو ئی دےدے …کیا تمہا را رات بھر کا پرو گرام ہے‘‘۔
’’نہیں ایسا تو نہیں …کیوں ‘‘۔
’’میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر رو نا چا ہتا ہوں‘‘۔
تم با لکل گدھے ہو ۔ بلکہ گدھے سے بھی بد تر‘‘۔
’’میں بھی یہی محسوس کر تا ہو ں ۔ کیا تم مجھے اپنی چھت کے
نیچے رونے کا مو قع دوگی؟کنفیو شس نے کہا …‘‘
’’ عمران …پلیز…شٹ اَپ ‘‘۔
’’لیڈی جہا نگر ‘ میں
ایک لنڈروے مرغ کی طرح اُداس ہوں ‘‘۔
؎’’چلو اٹھو ! لیکن اپنے کنفیو شس کو یہیں چھوڑچلو۔ بو ریت
مجھے برداشت نہیں ہوتی‘‘۔
تقر یباً آدھے گھنٹے بعد عمران لیڈی جہا نگیر کی خواب گاہ میں کھڑا اُسے آنکھیں پھا ڑپھا ڑ
کر دیکھ رہا تھا ۔ لیڈی جہا نگیر جس کے جسم پر صرف شب خوابی کا لبا دہ تھا ،
انگڑائی لے کر مسکرانے لگی۔
’’کیا سوچ رہے ہو ‘‘۔ اُس نے بھرّائی ہوئی آواز میں پو چھا
۔
’’میں یہ سوچ رہا تھا کہ آخر کسی مثلث کے تینوں زاویوں کا
مجموعہ دوزاویہ قائمہ کے برا بر کیوں ہو
تا ہے‘‘۔
’’پھر بکواس شروع کر دی تم نے ‘‘۔لیڈی جہا نگیر کی نشیلی
آنکھوں سے جھلاّ ہٹ جھا نکنے لگی۔
’’ما ئی ڈیر لیڈی جہا نگیر ‘ اگر میں یہ ثا بت کر دوں کہ
زوایہ قا ئمہ کوئی چیز ہی نہیں ہے تو د نیا کا بہت بڑا آدمی ہو سکتا ہوں‘‘۔
’’جہنم میں جا سکتے ہو‘‘۔ لیڈی جہا نگیر بُرا سا منہ بنا کر
بڑبڑا ئی ۔
’’جہنم !کیاتمہیں جہنم پر یقین ہے‘‘۔
’’عمران‘میں تمہیں د ھکّے دے کر نکا ل دوں گی‘‘۔
’’لیڈی جہا نگیر ! مجھے نیند آرہی ہے‘‘۔
’’سر جہا نگیر کی خواب گاہ میں ان کا سلیپنگ سوٹ ہو گا ‘
پہن لو‘‘۔
’’شکر یہ! خواب گاہ کد ھر ہے‘‘۔
’’سا منے والا کمرہ
!‘‘لیڈی جہا نگیر نے کہا اور بے چینی سے ٹہلنے لگی۔
عمران نے سر جہا نگیر کی خواب گاہ میں گھس کر اندر سے دروازہ بند کر لیا۔لیڈی جہا
نگیرٹہلتی رہی۔ دس منٹ گز ر گئے ۔ آخر وہ جھنجھلا کر سر جہا نگیر کی خواب گاہ کے
دروازے پر آئی۔ دھکّا دیا لیکن اندر سے چٹخنی چڑھا دی گئی تھی۔
’’کیا کرنے لگے عمران؟‘‘ اُس نے دروازہ تھپتھپا نا شروع کر دیا ۔ لیکن جواب ندار د۔
پھر اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے عمران خر اٹے لے رہا ہو ۔اُس نے دروازے سے کان
لگادیے ۔ حقیقتاً وہ خراٹوں ہی کی آواز تھی۔
پھر دوسرے لمحے میں وہ ایک کر سی پر کھڑی ہو کردَروازے کے
اُوپری شیشوں سے کمرے کے اندر جھا نک رہی تھی۔ اُس نے دیکھا کہ عمران کپڑے جو توں
سمیت سر جہا نگیر کے پلنگ پر خراٹے لے رہا ہے اور اس نے بجلی بھی نہیں بجھا ئی تھی۔ اپنے ہو نٹوں کو دا
ئرے کی شکل میں سکوڑے عمران کو کسی بھو کی بلّی کی طرح گھو ر تی رہی۔پھر اس نے ہا
تھ ما ر کر دروازے کا ایک شیشہ توڑدیا ۔نوکر شا ئد شا گرد پیشہ میں سو ئے ہو ئے تھے ۔ ورنہ شیشے کے چھنا کے ان میں
سے ایک کو تو ضرور ہی جگا د یتے ۔ و یسے
یہ اور با ت ہےکہ عمران کی نیند پر ان کا ذرہ برابر بھی اثرنہ پڑا ہوا۔
لیڈی جہا نگیر نے اندر ہا تھ ڈال کر چٹخی نیچے گرادی ۔ نشے
میں تو تھی۔ جسم کا پورا زور دروازے پر دے رکھا تھا ۔ چٹخنی کر تے ہی دو نوں پٹ
کھل گئے اوروہ کرسی سمیت خواب گاہ میں جا گری۔
عمران نے غنو دگی
میں کراہ کرکر وٹ بد لی اور بڑبڑا
نے لگا ۔’’ہاں ہاں بسنتھلک گیس کی بو کچھ میٹھی میٹھی سی ہو تی ہے‘‘۔
پتہ نہیں وہ جا گ رہاتھا یا خواب میں بڑبڑا رہا تھا ۔
لیڈی جہا نگیر فرش پر بیٹھی ا پنی پر یشا نی پر ہا تھ پھیر کر بسو ررہی تھی ۔دو تین منٹ بعد وہ اُٹھی
اور عمران پر ٹوٹ پڑی ۔
’’سور کمینے …یہ تمہا رے با پ کا گھر ہے؟ اُٹھو …نکلو یہا ں سے ‘‘۔ وہ
اُسے بری طرح جھنجھو ڑرہی تھی ۔ عمران بو کھلا کر اُٹھ بیٹھا۔
’’ہا ئیں …کیا …سب بھا گ گئے‘‘۔
’’دور ہو جا ؤ یہا ں سے ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے اس کا کا لر
پکڑکر جھٹکا ما را۔
’’ہاں ۔ہاں سب ٹھیک ہے‘‘۔ عمران اپنا گر یبا ن چھڑا کر پھر
لیٹ گیا۔
اس بار لیڈی جہا نگیر نے با لوں سے پکڑ کر اُسے اٹھایا ۔
’’ہا ئیں ‘کیا ابھی نہیں گیا ‘‘۔ عمران جھلاّکر اٹھ بیٹھا ۔
سا منے ہی قد آدم آئینہ رکھا ہو ا تھا ۔
’’اُوہ !تو آپ ہیں ‘‘۔وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بو لا۔
پھر اس طرح مُکّا بنا کر اٹھا جیسے اس پر حملہ کرے گا ۔اس طرح آہستہ آہستہ آئینے
کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن سے مقا بلہ کر نے کے لیے پھو نک پھو نک کر
قدم رکھ رہا ہو ۔ پھر اچا نک سا منے سے ہٹ
کر ایک کنا رے چلنے لگا۔آیئنے کے قریب
پہنچ کر دیوار سے الگ کر کھڑا ہو گیا …لیڈی جہا نگیر کی طرف د یکھ کر اس طرح ہو نٹوں پر ا نگلی رکھ لی جیسے وہ
آیئنے کے قریب نہیں بلکہ کسی دَروازے سے لگا کھڑاہوا اور اس با ت کا منتظر ہو کہ
جیسے ہی د شمن دَرواز ے میں قدم ر کھے گا وہ اس پر حملہ کر بیٹھے گا۔ لیڈی جہا
نگیر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حرکت د یکھ رہی تھی لیکن اس سے قبل
کہ وہ کچھ کہتی عمران پینترہ بدل کر آیئنے پر ایک گھو نسہ رسید ہی کر دیا ۔ہا تھ
میں چوٹ جو لگی تو ا یسا معلوم ہوا جیسے وہ یک بیک ہوش میں آگیا ہو۔
’’لا حول و لا قوۃ‘‘۔وہ آنکھیں مل کر بولا اور کھسیا نی ہنسی ہنسنے لگا۔۔۔۔پھر لیڈی
جہا نگیر کو بھی ہنسی آگئی ۔لیکن وہ جلدہی
سنجیدہ ہو گئی۔
’’تم یہا ں کیوں آئے تھے ؟‘‘
’’اُوہ ،میں شا ئدبھول
گیا ۔شائد اُداس تھا ۔لیڈی جہا نگیر تم بہت اچھی ہو ۔ میں رو نا چا ہتا ہوں‘‘۔
’’اپنے باپ کی قبر پر رونا ۔ نکل جا ؤ یہا ں سے‘‘۔
’’لیڈی جہا نگیر …کنفیوشس!‘‘
’’شٹ اَپ ‘‘۔لیڈی جہا نگیر اتنی زور سے چیخی کہ اُس کی آواز
بھرّا گئی۔
’’بہت بہتر ‘‘۔عمران سعادت مندانہ انداز میں سر ہلا کر
بولا۔گویا لیڈی جہا نگیر نے بہت سنجیدگی سے اور نر می سے اُسے نصیحت کی تھی۔
’’عمران خدا کے لیے !‘‘ لیڈی جہا نگیر بے بسی سے بو لی۔
’’خدا !‘‘کیا میں اُس کے ادنیٰ غلا موں کے لیے بھی اپنی جا
ن قربان کر سکتا ہو ں…جو مزاج یا ر میں آئے‘‘۔
’’تم چا ہتے کیا ہو ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے پو چھا ۔
’’دو چیزوں میں سے ایک‘‘۔
’’کیا ۔۔۔۔؟‘‘
’’موت یا صرف دو گھنٹے کی نیند‘‘۔
’’میں تمہیں اتنا گدھا نہیں سمجھتی تھی‘‘۔
’’مجھ سے پو چھتیں تو میں پہلے ہی بتا دیتا کہ با لکل گد ھا
ہوں ‘‘۔
’’جہنم میں جا ؤ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر اورنہ جا نے کیا کیا بکتی
ہو ئی سر جہا نگیر کی خواب گاہ سے چلی گئی
۔ عمران نے اُٹھ کر اندر سے دروازہ بند کیا ۔ جو تے ا تا ر تے اور کپڑے سمیت بستر میں گھس گیا ۔
6
یہسو چنا قطعی غلط ہو
گا کہ عمران کےقدم یو نہی بلا مقصد ٹپ ٹا پ کلب نائٹ کی طرف اُٹھ گئے تھے ۔اُسے پہلے سے اطلاع تھی
کہ سر جہا نگیر آج کل شہر میں مقیم نہیں ہے اور وہ یہ بھی جا
نتا تھا
کہ ایسے موا قع پر لیڈی جہا
نگیر اپنی راتیں کہاں گزارتی ہے ۔یہ
بھی حقیقت تھی کہ لیڈی
جہا نگیر کسی ز ما نے میں اُس کی منگیتررہ چکی تھی اورخود عمران ہی کی حماقتوں کے نتیجے
میں یہ شادی نہ ہو سکی۔
سر جہا نگیر کی عمر تقر یباً ساٹھ سال ضررور ہی ہوگی۔لیکن
قویٰ کی مظبو طی کی بنا ءپروہ بہت زیادہ بوڑھا نہیں معلوم ہو تا تھا۔
عمران دم سا دھے لیٹا رہا ۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا۔اُس نے کلا
ئی پر بندھی ہوئی گھڑی د یکھی اور پھر ا ٹھ کر خواب گاہ کی رو شنی بند کردی ۔
پنجوں کے بَل چلتا ہوا وہ سر جہا نگیر کی لا ئبر یر ی میں داخل ہو گیا۔
یہاں اند ھیرا تھا
۔ عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر
روشن کی۔یہ ایک کافی طویل و عریض
کمرہ تھا ۔ چاروں طرف بڑی بڑی الماریاں
تھیں اور درمیان میں تین لمبی لمبی میزیں ، بہر حال یہ ایک ذاتی اور نجی لا ئبر
یری سے زیادہ ایک پبلک ر یڈ نگ روم معلوم ہو رہا تھا۔
مشرقی سر پر ایک لکھنے کی بھی میز تھی ۔ عمران سیدھا اُسی طرف گیا ۔جیب سےوہ پر چہ نکالا جو اُسے
اُس خوفناک عما رت میں پُراسرار طریقے پر
مرنے والے کےپاس سے ملا تھا۔ وہ اُسے بغور دیکھتا رہا ۔پھر میز پر رکھے ہوئے کا
غذات اُلٹنے پلٹنے لگا۔
تھو ڑی دیر بعد وہ
حیرت سے آ نکھیں پھاڑے ایک را ئٹنگ پیڈ کے
لیڑ ہیڈ کی طرف د یکھ رہا تھا ۔اُس کےہاتھ میں دبے ہو ئے کا غذکے سرنامے اور اُس
میں کوئی فرق نہیں تھا۔ دونوں پر یکساں قسم کے نشانات تھے اوریہ نشانات سر جہا
نگیر کے آبا و ا جداد کےاُن کارناموں کی یا دگار تھےجو انھوں نے مغلیہ دَور حکومت
میں سر ا نجام دیے تھے ۔ سر جہا نگیر ان نشا نات کو اب تک استعمال کر رہاتھا۔اُس
کے کا غذات پر اس کے نام کے بجائے عمو ماً یہی نشا نات چھپے ہوتے تھے۔
عمران نے میز کے کا غذات کو پہلی سی تر تیب میں رکھ
دیا اور چُپ چاپ لا ئبر یری سے نکل آیا ۔
لیڈی جہا نگیر کے بیان کے مطابق سر جہا نگیر ایک ماہ سے غا ئب تھا…توپھر؟
عمران کا ذ ہن چو کڑیاں
بھرنے لگا ۔آخران معاملات سے سر جہا نگیر کا کیا تعلق؟خوان گاہ میں واپس
آنے سے پہلے اس نے ایک با ر پھر اُس کمرے میں جھا نکا جہاں لیڈی جہا نگیر سورہی تھی اورمسکراتا ہوا اس
کمرے میں چلا آیا جہاں اُسے خود سونا تھا۔
صبح نو بجے لیڈی جہا نگیر اُسے بری طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑکر
جگا رہی تھی۔
’’ول ڈن ! ول ڈن ‘‘۔ عمران ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا اور پھر مسہری پر ا کڑوں بیٹھ کر اس طرح تالی بجا نے لگا جیسے کسی کھیل کے میدا ن میں بیٹھا
ہوا کھلا ڑیوں کو داددےرہا ہو۔
’’یہ کیا بے ہو دگی ہے ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر جھنجھلاکربولی۔
’’اُوہ !ساری!‘‘وہ چونک کر لیڈی جہا نگیر کو متحیرانہ نظروں سے دیکھتا ہو بولا۔’’ہیلو !
لیڈی جہا نگیر۔ فرما یئے ! صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی ‘‘۔
’’تمہارادماغ تو نہیں خراب ہو گیا ‘‘۔لیڈی جہا نگیر نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ہو سکتاہے ‘‘۔ عمران نے برا سا منہ بنا کر کہا اور اپنے
نوکروں کے نام لےلے کر ا نھیں پکا رنے لگا۔
لیڈی جہا نگیر اُسے چند
لمحے گھو رتی رہی پھر بولی۔
’’براہِ کرم اب تم یہاں سےچلے جاؤ تو بہتر ہےورنہ…‘‘
’’ہائیں …!تم مجھے میرے گھر سے نکا لنےوالی کون ہو‘‘۔عمران اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔
’’یہ تمہارے باپ کا
گھر ہے؟‘‘ لیڈی جہا نگیر کی آواز بلند ہوگئی۔
عمران چاروں طرف حیرت سے د یکھنے لگا۔پھر اس طرح اُچھلا
جیسے اچانک سر پر کو ئی چیز گری ہو‘‘۔
’’اَرے !میں کہا ہوں۔یہ کمرہ تو میرا نہیں معلوم ہو تا‘‘۔
’’اب جا ؤو رنہ مجھے نو کروں کو بُلا نا پڑےگا‘‘۔
’’نو کروں کو بُلا کر کیا کر وگی ۔ میرے لا ئق کو ئی خدمت ۔
ویسے تم غصے میں بڑی حسین لگتی ہو‘‘۔
’’شٹ اَپ‘‘۔
’’اچھا ‘کچھ نہیں کہوں گا ‘‘۔عمران بسور کر بولا۔ اور پھر
مسہری پر بیٹھ گیا ۔
لیڈی جہا نگیر اُسے کھا جا نے وا لی نظروں سے گھو رتی رہی
اُس کی سا نس پھول رہی تھی اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔عمران نے جو تے پہنے ۔ کھونٹی
سے کو ٹ اتا رااورپھر بڑے اطمینان سے سر
جہا نگیر کی سنگار میز پر جم گیا اور پھر وہ
اپنے بال درست کرتے وقت اسی طرح گنگنا رہا تھا جیسے سچ مچ ا پنے ہی کمرے میں بیٹھا ہو۔ لیڈی جہا نگیر دانت پیس رہی تھی لیکن ساتھ
ہی بے بسی کی ساری علا مات بھی اس کے چہرے پر اُمنڈآئی تھیں۔
’’ٹاٹا ‘‘۔عمران
دروازے کے قریب پہنچ کر مڑ ااور
احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا با ہر نکل گیا۔ اُس کا ذہن اس وقت با لکل صاف ہو
گیا تھا ۔ پچھلی رات کی معلومات ہی اُس کی تشفی کے لیے کافی تھیں ۔سر جہا نگیر کے
لیڑ پیڈ کا پُرا سر ار طور پر مرے ہوئے آدمی کے ہا تھ میں پا یا جا نا اس با ت پر دلا لت کرتا تھا کہ
اس معا ملے میں سر جہا نگیر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرورتھا اور شائد سر جہا نگیر شہر ہی میں مو جود تھا ۔ہو سکتا ہے کہ لیڈی جہا
نگیر اس سے لا علم رہی ہو۔
اب عمران کو اُس خوشر وآدمی کی فکر تھی جسے اِن دِنوں جج صا
حب کی لڑکی کے ساتھ دیکھا جا رہا تھا۔
’’دیکھ لیا جا ئے گا ‘‘۔ وہ آہستہ سے بڑ بڑایا ۔
اُس کا اردہ تو نہیں تھا کہ گھر کی طرف جا ئے مگر جانا ہی پڑا ۔ گھر گئے بغیر مو ٹر سا ئیکل کس طرح
ملتی ۔ اسے یہ بھی تو معلوم کر نا تھا کہ وہ خو فناک عما رت دراصل تھی کس کی ۔ اگر
اُس کا ما لک گا ؤں والوں کے لیے اجنبی
تھا تو ظا ہر ہےکہ اس نےوہ عمارت خود بنوا ئی ہو گی کیو نکہ طرزِ
تعمیر بہت پرا نا تھا لہٰذا ایسی
صورت میں یہی سوچا جا سکتا تھا کہ اُس نے
بھی اُسےکسی سے خرید اہی ہو گا۔
گھر پہنچ کر عمران کی شامت نے اُسے پھر للکار ا۔ بڑی بی
شائد پہلے ہی سے بھری بیٹھی تھیں۔ عمران کی صورت د یکھتے ہی آگ بگولہ ہو گئیں۔
’’کہا ں تھا رے…کمینے…سور‘‘۔
’’اُوہو! اماں بی! گڈما رننگ…ڈیر سٹ‘‘۔
’’ما رننگ کے بچے میں پو چھتی ہوں …رات کہاں تھا ‘‘۔
’’وہ اماں بی۔ کیا بتاؤں ۔ وہ حضرت مو لا نا…بلکہ مر شدی و مو لا ئی سیّد نا جگر مراد آبادی ہیں نا…لاحول وقوۃ …مطلب یہ ہےکہ مو لوی تفضّل حسین قبلہ کی خدمت میں رات حاضر
ہو اتھا۔اللہ اللہ کیا بزرگ ہیں…‘‘
اور پھر ثریا کو آتے
د یکھ کر عمران نے جلد سے جلد وہاں کھسک جا نا چا ہا۔ بڑی بی بڑ بڑائے جا
رہی تھیں۔
’’اماں بی ! آپ خواہ مخواہ اپنی طبیعت خرا ب کر رہی ہیں ۔
دماغ میں خشکی بڑھ جا ئے گی۔ ثریا نے آتے
ہی کہا۔’’اور یہ…بھا ئی جا ن ۔ ان کو تو خدا کے حوالے کیجیے‘‘۔
عمران کچھ نہ
بولا ۔ اما ں بی کو بڑبڑا تے چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا تھا۔
’’شرم نہیں آتی ‘باپ کی پگڑی اُچھا لتے پھر رہے ہیں ‘‘۔
ثریا نے امّاں بی کے کسی مصرعے پر گر ہ لگائی ۔
’’ہائیں ‘توکیا ابّا جان نے پگڑی با ندھنی شروع کردی
ہے‘‘۔عمران پُر مسرت لہجے میں چیخا ۔
’’اماں بی اختلا ج کی مر یض تھیں اعصاب بھی کمزور تھے لہٰذا اُنھیں غصہ آگیا ایسی
حالت میں ہمیشہ اُن کا ہا تھ جو تی کی طرف
جا تا تھا ۔عمران زمین پر بیٹھ گیا اور پھر
تڑاتڑ کی آواز کے علاوہ اورکچھ نہ سن سکا ۔اماں بی جب اُسے جی بھر
کےپیٹ چکیں توانھیں نے رو نا شروع کر دیا ۔ثریا انہیں دوسرے کمرے میں گھسیٹ
کر لے گئی ۔عمران کی چچا زاد بہنوں نے اُسے گھر لیا تھا۔ کوئی اس کے کوٹ سے گرد جھاڑ رہی تھی اور کو
ئی ٹا ئی کی گرہ درست کر رہی تھی۔ ایک نے سر پر
چمپی شروع کردی ۔
عمران نےجیب سے سگر یٹ نکال کر سُلگائی اور اس طرح کھڑا
رہاجیسے وہ بالکل تنہا ہو۔دوچار کش لےکر اُس نے اپنے کمرہ کی راہ لی اوراس کی چچا
زاد بہنیں زرینہ ، ممتاز اور صوفیہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں ۔کمرےمیں
آکر عمران نے فلٹ ہیٹ ایک طرف اُچھا ل دی ۔ کوٹ مسہری پر پھینکا اور ایک آرام کرسی
پر گر کر اُو نگھنے لگا۔
رات والا کا غذ اب
بھی اس کے ہاتھ میں دبا ہوا تھا ۔اس پر
کچھ ہند سے لکھے ہوئے تھے ۔ کچھ پیمائش تھیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑھئی
نے کوئی چیز گڑھنے سے پہلے ا س کےمختلف
حصوں کے تنا سب کا اندازہ لگایا ہو۔ بظا ہر اس کا غذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں
تھی لیکن اس کا تعلق ایک نا معلوم
آدمی کی لا ش سے تھا ۔ ایسا آدمی کی لاش سے جس کا قتل بڑے پرا سرا ر حالا ت میں ہو
ا تھا اور اُن حالات میں یہ دوسرا قتل تھا ۔
عمران کو اِس سلسلے میں پو لیس یا محکمئہ سرا غر سا نی کی
مغشولیات کا کو ئی علم نہیں تھا۔اس نے فیا ض سےیہ
بھی معلوم کرنے کی زحمت گوار ا
نہیں کی تھی کہ پو لیس نے اُن حادثوں کے متعلق کیا رائے قائم کی ہے۔
عمران نے کا غذکا ٹکڑا اپنے سوٹ کیس میں ڈال دیا ۔اور دوسرا سوٹ پہن کر
دو با رہ با ہر جا نے کےلیے تیار ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی مو ٹر سائیکل اسی قبضے کی طرف جا رہی
تھی ۔ جہا ں وہ خوفناک عمارت واقع تھی۔قصبےمیں پہنچ کر اس بات کا پتہ لگانے میں
دشواری نہ ہو ئی کہ وہ عمارت پہلے کس کی ملکیت
تھی۔ عمران اُس خا ندان کے ایک ذمہ دارآدمی سےملا جس نے یہ عمارت جج صا حب
کے دوست کے ہا تھ فروخت کی تھی۔
’’اب سے آٹھ سال
پہلے کی بات ہے‘‘۔ اُس نے بتایا ۔’’ایا ز
صا حب نےوہ عمارت ہم سے خرید ی تھی۔ اس کے
بعد مر نے سے پہلے وہ اس شہر کے کسی جج
صاحب کے نام قانو نی طور پر منتقل کر گئے‘‘۔
’’ایاز صا حب کون تھے
‘پہلے کہا ں رہتے تھے ‘‘۔عمران نے
سوال کیا۔
’’ہمیں کچھ نہیں معلوم ۔ عمارت خر ید نے کے بعد تین سال تک
زندہ رہے لیکن کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکا کہ وہ کون تھے اور پہلے کہا ں رہتے تھے۔اُن کےسا تھ ایک نو کر تھا ۔ جواب بھی
عمارت کےسا منے کےایک حصے میں مقیم ہے‘‘۔
’’یعنی قبر کا وہ مجا ور‘‘۔عمران نے کہا اور بو ڑھے آدمی نے
اثبات میں سر ہلا دیا ۔ وہ تھوڑی د یر تک کچھ سو چتا رہا پھر بولا ۔’’وہ قبر بھی ایاز صاحب ہی نے
دریا فت کی تھی۔ ہمارے خا ندان والوں کو تو اس کا علم نہیں تھا کہ وہا ں
پہلے کبھی کو ئی قبر بھی تھی۔ہم نے اپنے
بزرگوں سے بھی اِس بار ےمیں نہیں سنا‘‘۔
’’اُوہ ‘‘۔عمران اُسے گھورتا ہوا بولا ۔’’بھلا قبر کس طرح
دریا فت کی تھی‘‘۔
’’انھوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ اِس جگہ کو ئی شہید مر د دفن ہیں ۔ دوسرے ہی د ن قبر
بنا نی شروع کر دی‘‘۔
’’خود ہی بنا نی شروع کر دی ‘‘۔عمران حیرت سے پو چھا۔
’’جی ہاں ۔ وہ اپنا سا را کام خودہی کر تے تھے۔ کا فی دو لت مند بھی تھے لیکن انھیں کنجوس نہیں کہا جا سکتا کیو نکہ دِل کھول کر خیرات کر تے تھے‘‘۔
’’جس کمرے میں لاش ملی تھی اُس کی دیواروں پر پلاسڑ ہے لیکن
دو سرے کمروں میں نہیں ۔ اِس کی کیا و جہ ہے‘‘۔
’’پلاسڑ بھی ایاز صا حب ہی نے کیا تھا‘‘۔
’’خودہی‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’اس پر یہا ں قصبے میں تو بڑی چہ میگو ئیاں ہو ئی ہوں گی‘‘۔
’’قطعی نہیں جناب ۔اب بھی یہاں لو گوں کایہی خیال ہےکہ ایا
ز صا حب کو ئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور میرا خیال ہے کہ اُن کا نوکر بھی بز رگی سے
خا لی نہیں ‘‘۔
’’کبھی ایسے لوگ
بھی ایاز صا حب سے ملنے کےلیے آتے تھے جو یہاں والوں کےلئے اجنبی رہے ہوں‘‘۔
’’جی نہیں ۔ مجھےتو یاد نہیں ۔میراخیال ہےکہ اُن سے کبھی کو
ئی ملنے کےلیے نہیں آیا‘‘۔
’’اچھا بہت بہت شکریہ ‘‘۔عمران بو ڑھے سے مصا فحہ کرکے اپنی
مو ٹر سا ئیکل کی طرف بڑھ گیا ۔
اب وہ اسی عمارت کی
طرف جا رہا تھا اور اس کے ذہن میں بیک وقت
کئی سوال تھے ۔ا یاز نے وہ قبر خود ہی بنا ئی تھی اور کمرے میں پلا سڑ بھی خود ہی
کیا تھا۔کیا وہ ایک ا چھا معمار بھی تھا ؟
قبر وہاں پہلے نہیں تھی۔ وہ ایاز ہی کی در
یا فت تھی اور اس کا نو کر آج بھی قبر سے چمٹا ہو ا ہے۔ آخر کیوں ؟اسی کمرے میں
پلاسڑ کر نے کی کیا ضرورت تھی؟
عمران عمارت کے قریب پہنچ گیا ۔ بیرونی بیٹھک جس میں قبر کا مجاور رہتا تھا
کھلی ہو ئی تھی اور خود بھی مو جو د تھا۔ عمران نےاس پر ایک اُچٹتی
سی نظر ڈالی۔ یہ متو سط عمر کا ایک
قوی ہیکل آدمی تھا ۔ چہرے پر گھنی دا ڑھی اور آنکھیں سرخ تھیں ۔شا ئد وہ ہمیشہ ا یسی ہی رہتی تھیں۔
عمران نے دو تین بار جلد ی جلدی پلکیں جھپکائیں اور
پھر اُس کے چہرے پراُسی پرانے احمق پن کے سارے آثار اُبھرآئے۔
’’کیا با ت ہے‘‘۔اُسے دیکھتے ہی نو کر نے للکارا۔
’’مجھے آپ کی دعا سے نو کری مل گئی ہے‘‘۔ عمران سعادت
مندانہ لہجہ میں بولا۔‘‘سوچا کچھ آپ کی
خدمت کر تا چلوں ‘‘۔
’’بھاگ جاؤ ‘‘۔قبر کا مجا ور سُرخ سُرخ آنکھیں نکا لنے لگا ۔
’’اب اتنا نہ
تڑپا یئے ‘‘۔عمران ہاتھ جوڑکر بولا
۔’’بس آخری درخواست کروں گا‘‘۔
’’کون ہو تم ؟ کیا چا ہتے ہو ؟‘‘ مجاور یک بیک نرم پڑگیا۔
’’لڑکا !بس ایک لڑکا ۔ بغیر بچے کے گھر سونا ہے۔یا حضرت !
تیس سال سے بچے کی آرزو ہے‘‘۔
’’تیس سال ! تمہاری عمر کیا ہے ؟ ‘‘مجاور اُسے گھو رنے لگا۔
’’پچیس سال‘‘۔
’’بھاگو! مجھے لو نڈا
بنا تے ہو ۔ ابھی بھسم کردوں گا‘‘۔
’’آپ غلط سمجھے یا حضرت ! میں اپنے باپ کےلیے کہہ رہا تھا ۔وہ دو سری شادی
کرنے والے ہیں ‘‘۔
’’جا تے ہو! یا!‘‘ مجا ور اُٹھتا ہوا بولا۔
’’سرکار!‘‘عمران ہا تھ جوڑ کر سعادت مندا نہ لہجے میں بولا۔
’’پو لیس آپ کو بےحد پر یشا ن کر نے والی ہے‘‘۔
’’بھا گ جاؤ ! پو
لیس والے گدھے ہیں ۔وہ فقیر کا کیا بگاڑ لیں گے‘‘۔
’’فقیر کے زیر سایہ دوخون ہو ئےہیں ‘‘۔
’’ہوئے ہوں گے ۔ پو لیس جج صاحب کی لڑکی سے کیوں نہیں پو
چھتی۔وہ ایک مسٹنڈے کو لےکر یہا ں کیوں آئی تھی‘‘۔
’’یا حضرت ! پو لیس واقعی گدھی ہے ۔آپ ہی کچھ رہنما ئی فر
ما یئے‘‘۔
’’تم خفیہ پو لیس
میں ہو‘‘۔
’’نہیں سر کار ۔ میں ایک اخبا ر کانامہ نگار ہوں ۔ کو ئی
نئی خبر مل جا ئے تو پیٹ بھر ے گا۔
’’ہاں ۔اچھا بیٹھ جاؤ ۔ میں اسے بر داشت نہیں کر سکتا کہ یہ
مکان جہا ں ایک بزرگ کا مزار ہے‘بد کا ری کا اڈہ بنے۔پو لیس کو چاہیے کہ اس کی روک
تھام کرے‘‘۔
’’یا حضرت !میں بالکل نہیں سمجھا‘‘۔ عمران ما یو سی سے
بولا۔
’’میں سمجھا تا ہوں ‘‘۔مجاور اپنی سُرخ سُرخ آنکھیں پھا ڑ
کر بولا۔’’چودہ تار یخ کو جج صا حب کی لو نڈیااپنے ایک یا ر کولے کر یہاں آئی تھی
اور گھنٹوں اندر رہی‘‘۔
’’آپ نے اعتراض
نہیں کیا ۔ میں ہوتا تو دو نوں کے سر پھا ڑ دیتا۔توبہ تو بہ اتنے بڑے بزرگ کے مزار پر‘‘۔عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
’’بس خون کے گھو
نٹ پی کررہ گیا ۔کیا کروں ۔میرے مرشد یہ مکان اُن لو گوں کودے گئے ہیں ‘ورنہ بتا تا‘‘۔
’’آپ کے مرشد؟‘‘
’’ہاں ! حضرت ایا ؔز رحمتہ اللہ علیہ ۔وہ میرے پیر تھے۔اس
مکان کا یہ کمرہ مجھے دے گئے ہیں تاکہ
مزار شریف کی دیکھ بھال کر تا ر ہوں‘‘۔
’’ایا ز صاحب کا مزار شریف کہاں ہے؟‘‘
’’قبرستان میں ۔اُن کی
تو و صیت تھی کہ میری قبر برابر کر دی جا ئے کو ئی
نشان نہ رکھا جا ئے‘‘۔
’’تو جج صاحب کی لڑکی کو آپ پہچا نتے ہیں ‘‘۔
’’ہاں پہچانتا ہوں ۔وہ کانی ہے‘‘۔
’’ہائے !‘‘عمران
نےسینے پر ہاتھ مارا ۔ اور مجاور اُسے گھو رنے لگا۔
’’ا چھا حضرت ! چودہ کی رات کو وہ یہا ں آئی تھی اور سولہ
کی صبح کو لاش پا ئی گئی‘‘۔
’’ایک نہیں ‘ابھی ہزاروں ملیں گی ‘‘۔مجاور کو جلال آگیا
۔’’مزار شریف کی حر متی ہو ئی ہے‘‘۔
’’مگر سرکار !ممکن ہےکہ وہ اس کا بھا ئی رہا ہو‘‘۔
’’ہر گز نہیں ۔جج صا حب کے کوئی لڑکا نہیں ہے‘‘۔
’’تب تو پھر معاملہ …ہپ‘‘۔عمران اپنا دا ہنا گال کھجانے لگا۔
عمران وہاں سے بھی چل پڑا ۔ وہ قصبے کے اندر واپس جا رہا
تھا ۔دو تین گھنٹہ تک وہ مختلف لوگوں سے پو چھ گچھ کرتا رہا اور پھر شہر کی طرف
روا نہ ہو گیا ۔
7
کیپٹنفیا ض کا م میں مشغول
تھا کہ اس کے پاس عمران کا پیغام پہنچا ۔اُس نے اُسے اُس کےآفس کے
قریب ہی ایک ریستوران میں بُلوابھیجا تھا۔
فیاض نے وہا ں پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔عمران ایک خالی میز
پر طبلہ بجا رہا تھا ۔ فیاض کو دیکھ
کر احمقوں کی طرح مسکرایا۔
’’کوئی نئی بات ‘‘۔فیاض نے اس کے قریب بیٹھتے ہو ئے پو چھا۔
’’میر تقی میرؔ غا لب ؔتخلص کرتے تھے‘‘۔
’یہ اطلاع تم بذ ریعہ ڈاک بھی دے سکتے تھے‘‘۔فیاض چڑھ کر
بولا۔
’’چودہ تا ریخ کی رات کو وہ محبو بۂ یک چشم کہا ں تھی؟‘‘
’’تم آخر اس کے پیچھے کیوں پڑ گئےہو‘‘۔
’’پتہ لگا کر بتاؤ ۔ اگر وہ کہے کہ اُس نے ا پنی وہ رات کسی
خالہ کے ساتھ بسر کی ہے تو تمہارا فرض
ہےکہ اس خالہ سے اس بات کی تحقیق کر کے ہمدرد دواخانہ کو فوراًمطلع کر وورنہ خط و کتابت صیغہ رازّمیں نہ ر کھی جا ئے گی‘‘۔
’’عمران میں بہت مشغول ہوں ‘‘۔
’’میں بھی دیکھ رہا ہو ۔ کیا آج کل تمہا رے آ فس میں مکھیوں
کی کثرت ہو گئی ہے۔ اکثرت سے یہ مراد نہیں کہ مکھیاں ڈنڈ پیلتی ہیں ‘‘۔
’’میں جا رہا ہو ں ‘‘۔ فیاض جھنجھلا کر اُٹھتا ہو ابولا۔
’’ارے کیا تمہاری ناک پر مکھیا ں نہیں بیٹھتیں ‘‘۔ عمران نے
اس کا ہا تھ پکڑ کر بٹھا تے ہو ئے کہا۔
فیاض اُسے گھورتا ہو ا بیٹھ گیا۔وہ سچ مچ جھنجھلا گیا تھا۔
’’تم آئے کیوں تھے؟‘‘اُس نے پو چھا ۔
’’اُوہ ! یہ تو مجھے
یا د نہیں رہا ۔ میرا خیال ہے شا ئد میں تم سے چا ول کے بھا ؤ پو چھنے آیا
تھا ۔مگر تم کہوگے کہ میں کوئی نا چنے
والی تو ہو ں نہیں کہ بھاؤ بتاؤں ۔ ویسے تمہیں یہ اطلاع دے سکتا ہوں کہ …ان لاشوں کے سلسلے میں کہیں محبوبۂ یک چشم کا قدم ضرور ہے۔ میں کوئی غلط لفظ تو نہیں
بولا۔ہاں‘‘۔
’’اُس کا قدم کس طرح ‘‘۔ فیاض یک بیک چو نک پڑا۔
’’انسا ئیکلو پیڈ یا میں یہی لکھا ہے‘‘۔عمران سر ہلا کر
بولا۔ ’’بس یہ معلوم کروکہ اُس نے چودہ کی رات کہاں بسر کی‘‘۔
’’کیاتم سنجیدہ ہو؟‘‘
’’اُف فوہ!بے وقوف آدمی ہمیشہ سنجیدہ ر ہتے ہیں ‘‘۔
’’ا چھا میں معلوم کرو ں گا‘‘۔
’’خدا تمہاری مادہ کو سلامت ر کھے ۔ دوسری با ت یہ کہ مجھے
جج صاحب کے دوست ایازؔکے مکمل حا لات درکا
ر ہیں وہ کون تھا۔ کہاں پیدا ہو ا تھا ۔کس خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ا س کےدو سرے
ا عزہ کہا ں ر ہتے ہیں ۔ سب مرگئے یا ابھی
کچھ زندہ ہیں ‘‘۔
’’تو ایسا کرو! آج شام کی چا ئے میرے گھر پر پیو‘‘۔فیاض
بولا۔
’’اوراس وقت کی چائے ‘‘۔ عمران نے بڑے بھولے پن سے پو چھا۔
فیاض نے ہنس کرو یڑکو
چا ئے کا آرڈردیا۔عمران اُلوؤں کی طرح دیدے پھر ا رہا تھا ۔وہ کچھ دیر
بعدبولا۔
’’کیا تم مجھے جج صا حب سے ملاؤ گے‘‘۔
’’میں تمہاری موجود گی میں ہی اُن سے اس کے متعلق گفتگوکروں
گا‘‘۔
چائے آگئی تھی۔ فیاض کچھ سوچ رہا تھا ۔ کبھی کبھی وہ عمران
کی طرف بھی دیکھ لیتا جو اپنے سا منے والی دیوار پر لگےہوئے
آئینے میں دیکھ دیکھ کر منہ بنا رہا تھا ۔فیاض نے چا ئے بنا کر پیا لی اُس کے آگے
کھسکادی۔
’’یار فیاض !وہ شہید مرد کی قبر والا مجاور بڑا گر یٹ آدمی معلو م ہوتا ہے‘‘۔ عمران بولا۔
’’کیوں ؟‘‘
’’اُس نےایک بڑی گر یٹ بات کہی‘‘۔
’’کیا‘‘۔
’’یہی کہ پولیس والے گد ھے ہیں ‘‘۔
’’یہ کیوں کہا تھااُس نے ؟‘‘فیاض چونک کر بولا۔
’’پتہ نہیں ‘لیکن اس نے بات بڑے پتے کی کہی تھی‘‘۔
’’تم خوامخواہ گالیاں د ینے پر تلے ہو ئے ہو‘‘۔
’’نہیں پیارے !اچھا تم یہ بتاؤوہاں قبر کس نے بنا ئی تھی
اور اُس ایک کمرے کے پلاسڑ کے متعلق تمہا
راکیا خیا ل ہے‘‘۔
’’میں فضولیات میں سر
نہیں کھپاتا‘‘۔فیاض چڑھ کر بولا۔’’اس معاملے سے اُن کا کیا تعلق؟‘‘
’’تب تو کسی اجنبی
کی لا ش کا وہا ں پایا جانابھی کوئی ا ہمیت نہیں رکھتا‘‘۔ عمران نے کہا۔
’’آخر تم کہنا کیا چا ہتے ہو ؟‘‘فیا ض جھنجھلا کر بولا۔
’’یہی کہ نیک بچے
صبح اُٹھ کراپنے بڑوں کو سلام کرتے ہیں۔ پھر منہ ہا تھ دھوکر نا شتہ کر تے ہیں ۔پھر اسکول چلے جاتے
ہیں اور اسکول میں کتاب کھول کر الف سے اُلّو۔ب سے بندر۔پے سے پتنگ…‘‘
’’عمران خدا کےلیے ‘‘۔ فیاض ہا تھ اٹھا کر بولا۔
’’اور خدا کے لیے ‘‘۔فیاض ہاتھ اٹھا کر بولا۔
’’اور خدا کو ہر وقت یا درکھتےہیں ‘‘۔
’’بکے جاؤ‘‘۔
’’چلو خا موش ہو گیا ۔ ایک خا مو شی ہزا ر ٹلا ئیں با لتی
ہے…ہائیں کیا ٹلائیں …لا حول ولا قو ۃ…میں نے ابھی کیا کہا تھا ؟‘‘
’’اپنا سر‘‘۔
’’ہاں شکریہ ۔میرا
سر بڑا مضبوط ہے۔ایک بارتو اتنا مضبوط ہو گیا تھا کہ میں اسے بیگن کا بھر تہ کہا
کرتا تھا‘‘۔
’’چائے ختم کرکے د فع ہو جاؤ ‘‘۔فیاض بولا۔’’مجھے ابھی بہت
کام ہے شام کو گھر ضرور آنا‘‘۔
8
اُسیشام کو عمران اور فیا
ض جج صاحب کے ڈرا ئنگ روم میں بیٹھے اُن
کا انتظار کررہےتھے۔اُن کی لڑکی بھی موجود تھی اوراُ س نے اُس وقت بھی سیا ہ رنگ
کی عینک لگارکھی تھی۔عمران باربار اس کی طرف
دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھر رہا تھا۔فیاض کبھی کبھی را بعہ کی نظر بچا کر اُسے
گھورنے لگتا۔
’’تھوڑی دیر بعد جج صاحب آگئے اوررا بعہ اُٹھ کر چلی گئی۔
’’بڑی تکلیف ہوئی آپ کو ‘‘۔ فیاض بولا۔
’’کوئی بات نہیں …فرمایئے!‘‘
’’بات یہ ہےکہ میں
ایا زؔ کے متعلق مز ید معلومات
چاہتاہوں‘‘۔
’’میرا خیال ہے کہ میں آپ کو سب کچھ بتا چکا ہوں‘‘۔
’’میں اُس کے خا ندانی حا لات معلوم کرنا چا ہتا ہوں تاکہ
اس کے اعزہ سے مل سکوں‘‘۔
’’افسوس کہ میں اس کی بابت کچھ نہ بتا سکوں گا‘‘۔جج صاحب نے
کہا۔’’بات آپ کو عجیب معلوم ہو گی لیکن یہ حقیقت ہےکہ میں اُس کے متعلق کچھ بھی
نہیں جا نتا حالانکہ ہم گہرے دوست تھے‘‘۔
’’کیا آپ یہ بھی نہ بتا سکیں گے کہ وہ کہا ں کا با شندہ
تھا‘‘۔
’’افسوس ‘میں یہ بھی نہیں جا نتا‘‘۔
’’بڑی عجیب بات ہے !اچھا
پہلی ملاقات کہا ہو ئی تھی؟‘‘
’’انگلینڈمیں‘‘۔
’’فیاض بے اختیار چونک پڑا ۔ لیکن عمران بالکل ٹھس بیٹھا
رہا۔اُس کی حالت میں ذرّہ برابر بھی کوئی
تبدیلی نہ ہو ئی۔
’’کب کی بات ہے؟‘‘فیاض نے پو چھا۔
’’تیس سال پہلےکی اور یہ ملاقات بڑے عجیب حالات میں ہوئی تھی۔یہ
اُس وقت کی بات ہے جب میں آکسفورڈمیں قانون پڑھ رہا تھا۔ایک بار میں ایک ہنگا
مے پھنس گیا جس کی و جہ سو فیصدی غلط فہمی
تھی۔ اب سے تیس سال پہلے کا لندن نفرت انگیز تھا۔انتہائی نفرت انگیز ۔اسی سے انداز
ہ لگایئے کہ وہاں کے ایک ہوٹل پر ایک ایسا
سائن بورڈتھاجس پر تحریر تھا:
ہندوستانیوں اور
کتّوں کا دا خلہ ممنوع ہے‘‘۔میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی ہے یا نہیں ۔بہر حال ا یسےماحول میں اگر
کسی ہندوستانی اورکسی انگریز کے درمیان میں کو ئی
غلط فہمی پیدا ہو جا ئے تو انجام
ظاہر ہی ہے ۔وہ ایک ریستوران تھا جہاں ایک انگریز سے میرا جھگڑا ہو گیا۔علاقہ
ایسٹ انڈیا کا تھاجہاں زیادہ تر جنگلی رہتے تھے۔آج بھی جنگلی ہی رہتے ہیں
۔انتہائی غیر مذہب لوگ جو جا نوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں…اُوہ میں خواہ مخواہ بات کو طوالت دے رہاہوں۔مطلب یہ کہ
جھگڑا بڑ ھ گیا۔سّچی بات تو یہ ہےکہ میں خود ہی کسی طرح جان بچا کر نکل جانا چا
ہتا تھا۔اچانک ایک آدمی بھیڑکو چیرتاہوا میرے پاس پہنچ گیا۔وہ ایاز تھا۔اُسی دن
میں نے اُسے پہلے پہل دیکھااور اس
رُوپ میں دیکھا کہ آج تک متحیر ہوں۔وہ
مجمع جو مجھے مار ڈالنے پر تل گیا تھا
ایاز کی شکل دیکھتے ہی تتر بتر ہوگیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے بھیڑوں کے گلے میں کوئی
بھیڑ یا گھس آیاہو۔بعد کو معلوم ہواکہ ایاز اس علاقے کےبااثر ترین لوگوں میں سے
تھا۔ ایسا کیوں تھا۔یہ مجھےآج تک نہ معلوم ہو سکا۔ہمارے تعلقات بڑھے اور بڑھتے گئے
لیکن میں اس کے متعلق کبھی کچھ نہ جان سکا۔ وہ ہندو ستانی ہی تھا لیکن مجھے یہ تک
نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کس صوبہ یا شہر کا با شند ہ تھا‘‘۔
جج صاحب نے خاموش ہوکر ان کی طرف سگا ر کیس بڑھایا ۔ عمران
خاموش بیٹھا چھت کی طرف گھو رہاتھا ۔ایسامعلوم ہو رہا تھا جیسے فیاض زبردستی کسی
بے وقوف کو پکڑ لا یا ہو۔بے وقوف ہی نہیں بلکہ ایسا آدمی جوان کی گفتگو ہی سمجھنے
کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔فیاض نے کئی با ر اُسے کنکھیوں سے دیکھا بھی لیکن وہ خاموش
ہی رہا۔
’’شکریہ!‘‘ فیاض نے سگار لیتے ہوئے کہا اور پھر عمران کی
طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔’’جی!یہ نہیں پیتے‘‘۔
اس پر بھی عمران نے چھت سے نظر یں نہ ہٹا ئیں ۔ ایسا معلوم
ہورہا تھاجیسے وہ خود کو تنہا محسوس کر رہا ہو۔جج صاحب نےبھی عجیب نظروں سے اس کی
طرف دیکھا لیکن کچھ بولے نہیں۔
ا چانک عمران نے ٹھنڈی سا نس لےکر ’’اللہ‘‘کہا اور سید ھا
ہوکر بیٹھ گیا۔ وہ منہ چلاتا ہو ااُن دونوں کی طرف احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔
اس پر بھی فیاض کو خوشی ہوئی کہ جج صاحب نے عمران کے متعلق کچھ نہیں پو چھا
۔فیاض کوئی دوسرا سوال سوچ رہاتھااور عمران ساتھ ہی ساتھ یہ دُعا بھی کر رہاتھا کہ
عمران کی زبان بند ہی رہےتو بہتر ہے۔مگر شا ئد عمران بشرہ شنا سٍ۱ ی
کا بھی ما ہر تھا کیو نکہ دو سرے ہی لمحہ
میں اُس نے بکنا شروع کردیا۔’’ہاں صاحب ‘
اچھے لوگ بہت کم زندگی لے کر آتے ہیں ۔ ایاز ؔصاحب تو ولی اللہ تھے۔ چرخ کج رفتار
رونا ہنجار کب کسی کو…غالب کا شعرہے…‘‘
لیکن قبل اس کے کہ
عمران شعر سناتا فیاض بول پڑا ۔’’جی ہاں‘ قصبے
والوں میں کچھ اسی قسم کی افواہ
ہے‘‘۔
’’بھئی یہ بات تو کسی طرح میرے حلق سے نہیں اُتر تی ۔ سنا میں نے
بھی ہے۔۔۔۔۔‘‘جج صاحب بو لے ۔’’اُس کی موت
کے بعد میں قصبے کے کچھ معزّز لوگوں
سے۔۔۔۔۔بھی ملا تھا۔ انہوں نے بھی یہی خیال ظاہر کیا تھاکہ و ہ کوئی پہنچا ہو ا
آدمی تھا لیکن میں نہیں سمجھتا۔اُس کی شخصیت پُر اسرار ضرور تھی مگر ان معنوں میں نہیں‘‘۔
’’اُس کے نوکر کے متعلق آپ کا خیال کیا ہے جو قبر کی مجاوری
کرتا ہے‘‘۔فیاض نے پو چھا۔
’’وہ بھی ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ‘‘۔عمران تڑ سے بولا۔اورجج
صاحب اُسےپھر گھورنے لگے ۔ لیکن اس بار
بھی انھوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں پو چھا۔
’’کیا وصیت نامے میں یہ بات ظاہر کر دی گئی ہے کہ قبر کا
مجا ور عمارت کے بیرو نی کمرے پر قا بض رہے گا‘‘۔فیاض نے جج صاحب سے پو چھا۔
’’جی ہاں ۔ قطعی‘‘۔جج صاحب نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔بہتر ہو گا اگر ہم دو سری با تیں کریں
۔ اُس عمارت سے میرا بس اتنا ہی تعلق ہےکہ میں قانو نی طور پر اس کا ما لک ہوں اس
کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ میرے گھر کے کسی فرد نے آج تک اس میں قیا م نہیں کیا‘‘۔
’’کوئی کبھی اُدھر گیا بھی نہ ہو گا‘‘۔فیاض نے کہا۔
’’بھئی کیوں نہیں ۔شروع میں توسبھی کو اُس کے دیکھنے کا
اشتیاق تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک حیرت انگیز
طریقے پر ہماری ملکیت میں آئی تھی‘‘۔
’’ایاز صاحب کے جنا زے پر نور کی با رش ہو ئی تھی‘‘۔ عمران
نے پھر ٹکڑا لگایا۔
’’مجھے پتہ نہیں ‘‘۔صاحب
بیزاری سے بو لے۔’’میں اُس
وقت وہاں پہنچا تھا جب وہ دفن کیا جا چکا
تھا‘‘۔
’’میرا خیال ہے کہ وہ عمارت آسیب زدہ ہے‘‘۔فیاض نےکہا۔
’’ہو سکتا ہے ۔کاش وہ میری ملکیت نہ ہوتی ۔کیا آپ لوگ مجھے
اجا زت دیں گے‘‘۔
’’معاف کیجیے گا ‘‘۔فیاض اُٹھتا ہو ا بولا ۔’’آپ کو بہت
تکلیف دی مگر معاملہ ہی ایسا ہے‘‘۔
فیاض اور عمران با ہر نکلے۔فیاض اُس پر جھلاّیا ہو ا تھا ۔
با ہر آتے ہی برس پڑا ۔’’تم ہر جگہ اپنے
گدھے پن کا ثبوت دینے لگتے ہو‘‘۔
’’اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمہیں گو لی ما ردوں ‘‘۔عمران
بولا۔
’’کیوں ؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’تم نے یہ کیو ں نہیں پو چھا کہ محبو بۂ یک چشم چودہ تار
یخ کی رات کہا ں تھی‘‘۔
’’کیوں بور کر تے ہو ۔ میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
’’خیر مجھے کیا۔میں خود ہی پو چھ لو ں گا ‘‘۔ عمران نے کہا
۔’’سر جہا نگیر کو جا نتے ہو‘‘۔
’’ہاں کیوں ؟‘‘
’’وہ میرا ر قیب ہے‘‘۔
’’ہوگا ۔تو میں کیا کروں ‘‘۔
’’کسی طرح پتہ لگاؤ کہ وہ آج کل کہا ہے‘‘۔
’’میرا وقت برباد نہ کرو ‘‘۔ فیاض جھنجھلا گیا۔
’’تب پھر تم بھی وہیں جاؤ جہاں شیطان قیامت کے دن جا ئے گا‘‘۔عمران نے کہا اور
لمبےلمبے ڈگ بھرتا ہوا جج صاحب کے گیراج کی طرف چلا گیاجہاں سے رابعہ با ہر جا نے
کے لیے کار نکال رہی تھی۔
’’مِس سلیم ‘‘۔عمران کھنکار کر بولا۔’’شائد ہمارا تعارف
پہلے بھی ہو چکا ہے‘‘۔
’’اُوہ …جی ہاں…جی ہاں …‘‘را بعہ جلدی سے بولی۔
’’کیاآپ مجھے لفٹ دینا پسندکریں گی‘‘۔
’’شوق سے آیئے‘‘۔
رابعہ خود ڈرائیوکر رہی تھی۔۔۔۔۔عمران شکریہ ادا کرکے اُس
کے برابر بیٹھ گیا۔
’’کہاں اُتر یئے گا؟‘‘را بعہ نے پو چھا۔
’’سچ پو چھئے تو میں اترنا ہی نہ چا ہو ں گا‘‘۔
را بعہ صرف مسکراکر رہ گئی ۔ اس وقت اس نے ایک مصنوعی آنکھ لگا رکھی تھی اس لیے آنکھوں پر عینک نہیں
تھیں ۔
فیاض کی بیوی نے اُسے عمران کے متعلق بہت کچھ بتایا تھا ۔
اِس لیے وہ اُسے احمق سمجھنے کے لیے تیا ر نہیں تھی۔
’’کیا آپ کچھ نا راض ہیں ‘‘۔عمران نےتھوڑی دیر بعد پو چھا۔
’’جی !‘‘رابعہ چونک پڑی ۔’’نہیں تو‘‘ وہ ہنسنے لگی۔
’’میں نے کہا شا ئد۔مجھ سے لوگ عمو ماًنا را ض ہی رہا کر تے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میں انھیں خواہ مخواہ غصّہ دلا دیتا ہوں‘‘۔
’’پتہ نہیں۔مجھے توآپ نے ابھی تک غصّہ نہیں دلایا‘‘۔
’’تب تو یہ میری خوش قسمتی ہے‘‘۔عمران نے کہا ۔’’ویسے اگر
میں کو شش کرو ں تو آپ کو غصّہ دلاسکتا ہوں‘‘۔
رابعہ پھر ہنسنے لگی ۔’’کیجیے کو شش‘‘۔اُس نے کہا۔
’’اچھا تو آپ شائد یہ سمجھتی ہیں کہ یہ نا ممکن ہے‘‘۔عمران
نے احمقوں کی طرح ہنس کر کہا۔
’’میں تو یہی سمجھتی ہوں ۔مجھے کبھی غصہ نہیں آتا‘‘۔
’’اچھا تو سنبھلئے ‘‘۔عمران نے اس طرح کہا جیسے ایک شمشیر
زن کسی دو سرے شمشیرزن کو للکارتا ہوا کسی گھٹیا فلم میں
دیکھا جا سکتا ہے۔
’’رابعہ کچھ نہ بولی۔ وہ کچھ بور ہونے لگی تھی۔
’’آپ چودہ تار یخ کی رات کو کہاں تھیں ؟‘‘عمران نے اچا نک
پو چھا۔
’’جی‘‘۔رابعہ بے اختیار چونک پڑی۔
’’اُوہ ! اسٹیر نگ سنبھالئے ۔کہیں ایکسیڈنٹ نہ ہو جائے
‘‘۔عمران بولا۔۔۔۔۔’’دیکھئےمیں نے آپ کو غصہ
دلا دیا نا۔پھر اُس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اپنی ران پیٹنے لگا۔
رابعہ کی سانس پھو لنے لگی تھی اور اُس کے ہا تھ اسٹیرنگ پر
کا نپ رہے تھے۔
’’د یکھئے !‘‘اُس نے ہا نپتےہو ئے کہا۔’’مجھے جلدی واپس
جانا ہوگا۔ آپ کہاں اتر یں گے‘‘۔
’’آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا‘‘۔عمران پر سکون لہجے
میں بولا۔
’’آ پ سے مطلب !آپ کو ن ہوتے ہیں پو چھنےوالے؟‘‘
’’دیکھا …آگیا ناغصّہ ۔ویسے یہ بات بہت اہم ہے۔اگر پو لیس کے کانوں
تک جا پہنچی تو ز حمت ہو گی۔۔۔۔۔ممکن ہے
کوئی ایسی کا روائی کر سکوں جس کی بناء پر پو لیس یہ سوال ہی نہ اُٹھائے‘‘۔
رابعہ کچھ نہ بولی ۔وہ اپنے خشک ہو نٹوں پر زبان پھیر رہی
تھی۔
’’میں یہ بھی پو چھوں گا کہ آپ کہا ں تھیں ‘‘۔عمران نے پھر
کہا۔’’کیو نکہ مجھے معلوم ہے ۔ مجھے آپ صرف اتنا بتا د یجیے کہ آپ کے سا تھ کون
تھا‘‘۔
’’مجھے پیاس لگ رہی ہے‘‘۔رابعہ بھّرائی ہوئی آواز میں بو
لی۔
’’اُوہو !توروکئے۔کیفے نبراسکا نزدیک ہی ہے‘‘
کچھ آگے چل کر رابعہ نے کا ر کھڑی کردی اور وہ دونوں اتر کر
فٹ پا تھ سے گز رتے ہوئے کیفے نبراسکامیں چلے گئے۔
عمران نے ایک خالی گوشہ منتخب کیا اور وہ بیٹھ گئے۔چائے سے
پہلے عمران نےایک گلا س ٹھنڈےپانی کے لیے
کہا۔
’’مجھے یقین ہے کہ
وا پسی میں کنجی اُسی کے پاس رہ گئی ہوگی‘‘۔عمران نے کہا۔
’’کس کے پاس‘‘۔رابعہ پھر چونک پڑی۔
’’فکر نہ کیجیے ۔
مجھے یقین ہے کہ اس نےآپ کو اپنا صحیح نام
اور پتہ ہر گز نہ بتایا ہوگا اور کنجی واپس کر دینے کے بعد اب تک ملا بھی نہ ہوگا‘‘۔
رابعہ بالکل نڈھال ہوگئی اُس نے مردہ سی آواز میں کہا۔’’پھر
اب آپ کیا پو چھنا چا ہتے ہیں‘‘۔
’’آپ اُس سے کب اورکن حالات میں ملی تھیں ‘‘۔
’’اب سے دو ماہ پیشتر‘‘۔
’’کہا ملا تھا؟‘‘
’’ایک تقریب میں ۔مجھے یاد نہیں کہ کس نے تعارف کرایا
تھا‘‘۔
تقریب کہاں تھی؟‘‘
’’شائد سر جہا نگیر کی سا لگرہ کا مو قع تھا‘‘۔
’’اُوہ …!‘‘عمران کچھ سو چنے لگا ۔پھر اس نے آہستہ سے کہا ۔’’کنجی آپ کو
اُس نے کب وا پس کی تھی‘‘۔
’’پندرہ کی شام کو‘‘۔
’’اورسولہ کی صبح کو لاش پا ئی گئی ‘‘۔عمران نے کہا۔
رابعہ بُری طرح کا نپنے لگی ۔ وہ چائے کی پیا لی میز پر رکھ
کر کرسی کی پُشت سے ٹِک گئی۔اس کی حا لت باز کے پنجے میں پھنسی ہوئی کسی ننھّی
منّی چڑیا سے مشا بہ تھی۔
’’پندرہ کے دن بھر کنجی اُ س کے پاس رہی۔ اُس نےاُس کی نقل تیار کرا کے کنجی آپ کو واپس کردی ۔اس کے
بعد پھر وہ آپ سے نہیں ملا۔ غلط کہہ رہا ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔وہ آہستہ سے بو لی ۔’’مجھ سے کہا کرتا تھا کہ
وہ ایک سیّا ح ہے جیفر یر ہوٹل میں قیام پذیر ہے لیکن پر سوں میں وہاں گئی تھی‘‘۔
وہ خاموش ہو گئی اس پر عمرا ن نے سر ہلا کر کہا۔’’اور آپ کو
وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی آدمی
وہاں کبھی ٹھہراہی نہیں ‘‘۔
’’جی ہاں ‘‘۔را بعہ سر جھکا کر بولی۔
’’آپ سے اس کی دو ستی کا مقصد محض اتنا تھا کہ وہ کسی طرح
آپ سے اُس عمارت کی کنجی حا صل کرلے‘‘۔
’’میں گھر جا نا چا ہتی ہوں۔میری طبیعت ٹھیک نہیں‘‘۔
’’دو منٹ ‘‘۔عمران نے ہاتھ ہلا کر کہا۔’’آپ کی زیادہ تر ملا
قا تیں کہا ں ہو تی تھیں‘‘۔
’’ٹپ ٹا پ نا ئٹ
کلب میں ‘‘۔
’’لیڈی جہا نگیر سے اُس کے تعلقات کیسے تھے؟‘‘
’’لیڈی جہا نگیر …‘‘رابعہ چڑھ کربولی۔’’آخر اِن معاملات میں آپ اُن کا نام کیوں لے
رہے ہیں‘‘۔
’’کیا آپ میرے سوال کا جواب نہ دیں گی‘‘ عمران ےنے بڑی شرافت سے پو
چھا۔
’’نہیں ! میرا خیال ہے کہ میں نےاُن دونوں کو کبھی نہیں
ملتے د یکھا‘‘۔
’’شکریہ ! اب میں اُس کا نا م نہیں پو چھو ں گا۔ ظاہر ہے کہ اُس
نے نام بھی صحیح نہ بتایا ہو گا۔ لیکن اگر آپ اُس کا حلیہ بتا سکیں تو
مشکور ہوں گا‘‘۔
رابعہ کو بتا ناہی پڑا ۔ لیکن وہ بہت زیادہ مغموم تھی اور
ساتھ ہی ساتھ خا ئف بھی۔
9
عمرانفٹ پا تھ پر تنہا
کھڑا تھا ۔ را بعہ کی کا ر جا چکی تھی۔اُس نے جیب سے ایک چیو نگم نکالا اور منہ
میں ڈال کر دا نتوں سے اُسے کچلنے لگا۔غور و فکر کے عا لم میں چیو نگم اس کا بہتر
ر فیق ثا بت ہو تا تھا۔جاسوسی نا دلوں کے
سراغرسا نوں کی طرح نہ اسے سگار سے د لچسپی تھی اورنہ پا ئپ سے ‘شراب بھی
نہیں پیتا تھا۔
اُس کے ذ ہن میں اُس وقت
کئی سوال تھے اور وہ فٹ پاتھ کے کنارے
پر اس طرح سے کھڑا ہوا تھا جیسے سڑک پار کر نے کا ارادہ رکھتا ہو۔مگر
یہ حقیقت تھی کہ اُس کے ذہن میں اس قسم کا کوئی خیال نہیں تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ان معاملات سے سر جہا نگیر کا کیا
تعلق ہو سکتا ہے۔دوسری لاش کے قریب سے اُسے کاغذ کا جو ٹکڑا ملاتھا وہ سر جہا نگیر
ہی کے را ئیٹنگ پیڈ کا تھا‘‘رابعہ سے اُس پُرا سرار نو جوان کی ملا قات بھی سر جہا
نگیر ہی کے یہاں ہوئی تھی اور لیڈی جہا نگیر نےجس خو بصورت نو جوان کا تذکرہ کیا
تھا وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا لیکن لیڈی جہا نگیر بھی اُس سے واقف
نہیں تھی۔لیڈی جہا نگیر کی یہ بات بھی سچ تھی کہ اگر وہ شہر کے کسی ذی حیثیت خا
ندان کا فر د ہوتا تو لیڈی جہا نگیر اُس سے ضرور واقف ہو تی۔فرض کیا اگر لیڈی جہا
نگیر بھی کسی قسم کی سا زش میں شریک تھی تو اُس نے اس کا تذ کرہ عمران سے کیوں کیا۔ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی دوسری زندگی
سے واقف نہ رہی ہو لیکن پھر بھی سوال پیدا ہو تا ہے کہ اُس نے تذ کرہ کیا ہی
کیوں؟وہ کوئی ایسی اہم بات نہ تھی۔سیکڑوں
نو جوا ن لڑکیوں کے چکر میں رہے ہوں گے چا ہے وہ پانی بھرنے کے مشکیزے سے بھی بدتر
کیوں نہ ہو ں ۔پھر ایک اور سوال اُس کےذہن میں اُبھرا ۔ آخر اس مجا ور نے پو لیس
کو را بعہ کے متعلق کیوں نہیں بنایا تھا۔ قبر
اور لاش کے متعلق تواس نے سوچنا ہی چھوڑدیا تھا ۔ فکر اس بات کی تھی کہ وہ
لوگ کون ہیں اور اس مکان میں کیوں د لچسپی لے رہے ہیں ۔اگر وہ سر جہا نگیر ہے تو
اُس کا اِس عما رت سے کیا تعلق؟سر جہا
نگیر سے وہ ا چھی طرح واقف تھا لیکن یوں بھی نہیں
کہ اُس پر کسی قسم کا شبہہ کر سکتا ۔سر جہا نگیر شہر کے معّز ز ترین لو گوں
میں سے تھا ۔نہ صرف معّزز بلکہ نیک نام بھی۔
تھوڑی دیر بعد عمران سڑک پار کرنے کا ارادہ کرہی رہا
تھا کہ ایک کا ر رُکتی ہوئی اُس کی راہ میں حا ئل ہوگئی ۔یہ رابعہ کی کار تھی۔
’’خدا کا شکر ہے کہ آپ مِل گئے ‘‘۔اُس نے کھڑکی سے سر نکا ل کر کہا۔
’’میں جا نتا تھا کہ
آپ کوپھر میری ضرورت محسوس ہو گی‘‘۔عمران نے کہا
اور کار کا دَروازہ کھول کر را بعہ کے
برابر بیٹھ گیا ۔ کار پھر چل پڑی۔
’’خدا کے لیے مجھے
بچا ئیے ‘‘را بعہ نے کا نپتی ہوئی آواز میں کہا ۔’’میں ڈوب ر ہی ہوں‘‘۔
’’کیا آپ مجھے تنکا
سمجھتی ہیں ‘‘۔عمران نے قہقہہ لگا یا۔
’’خدا کے لیے کچھ
کیجیے ۔ا گر ڈ یڈی کو اس کا عالم ہو گیا تو…؟‘‘
’’نہیں ہو نے پائے گا‘‘۔عمران نے سنجیدگی سے کہا ۔’’آپ لو گ
مردوں کے دوش بدوش جھک مارنے میدان میں نکلی ہیں ۔مجھے خوشی ہے ۔لیکن آپ نہیں جا
نتیں کہ مرد ہر میدان میں آپ کو اُلّوبنا تا ہے۔و یسے معاف کیجیے گا مجھے نہیں
معلوم کہ اُلّو کہ مادہ کو کیا کہتے ہیں‘‘۔
رابعہ کچھ نہ بولی
اور عمران کہتا ر ہا ۔ خیر بھول جا یئے اس بات کو ۔ میں کو شش کروں گا کہ اس ڈرا
مے میں آپ کا نام نہ آنے پا ئے۔اب تو آپ
مطمٔن ہیں نا۔ گاڑی رو کئے ۔ اچھا …ٹاٹا…‘‘
’’اَرے ‘‘۔رابعہ کے
منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اُس نے پو رے بریک لگاد یئے۔
’’کیا ہوا ‘‘۔عمران
گھبرا کر چا روں طرف دیکھنے لگا۔
’’وہی ہے‘‘۔ را بعہ
بڑ بڑا ئی ۔’’اُتر یئے ۔میں اُسے بتا تی ہوں‘‘۔
’’کون ہے ۔کیا بات ہے
؟‘‘
’’وہی جس نے مجھے اِس مصیبت میں پھنسایا ہے‘‘۔
’’کہاں ہے ؟‘‘
’’وہ …اُس بار میں ابھی ابھی گیا ہے ۔وہی تھا ۔چمڑے کی جیکٹ اور
کتھئی پتلون میں ‘‘۔
’’اچھا تو آ پ جا
یئے۔میں دیکھ لو گا ‘‘۔
’’نہیں میں بھی…‘‘
’’جاؤ‘‘۔عمران آنکھیں
نکال کر بولا ۔را بعہ سہم گئی۔ا س وقت احمق عمران کی آنکھیں اُسے بڑی خوفناک معلوم
ہو ئیں ۔اُس نے چپ چاپ کار موڑ لی۔
عمران بار میں گھسا
۔بتا ئے ہو ئے آ دمی کو تلاش کرنے میں دیر نہیں لگی ۔وہ ایک میز پر تنہا بیٹھا
تھا۔وہ گٹھلیے جسم کا ایک خوشر و جوان تھا ۔ پیشا نی کشا دہ اور چوٹ کےنشا نات
سے داغدار تھی۔شائد وہ سر کو دا ئیں جا نب تھوڑا سا جھکائے ر کھنے کا عادی تھا۔عمران اس کے قر یب ہی ایک میز پر بیٹھ گیا۔
ایسا معلوم ہورہا تھا
جیسے اُسے کسی کا انتظار ہو ۔کچھ مضطرب سا بھی
تھا ۔عمران نے پھر ایک چیو نگم نکال کر منہ میں ڈال لیا۔اس کا انداز غلط
نہیں تھا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی
اور چمڑے کی جیکٹ والے کے
پاس آکر بیٹھ گیا اور پھر عمران اس کے
چہرے سے اضطراب کے آثار غائب ہو تے
دیکھے‘‘۔
’’سب چو پٹ ہو رہا ہے
‘‘۔چمڑے کی جیکٹ والا بولا۔
’’اُس بڈھے کو خبط ہو
گیا ہے‘‘۔دوسرے آدمی نے کہا
عمران اُن کی گفتگو
صاف سن سکتا تھا ۔ جیکٹ والا چند لمحے پر خیا ل انداز میں اپنی ٹھوڑی کھجلاتا رہا پھر بولا۔’’مجھے یقین ہے کہ اس کا خیال غلط
نہیں ہے۔وہ سب کچھ وہیں ہے لیکن ہمارے سا تھی بودے ہیں‘‘۔
’’آوازیں سنتے ہی اُن
کی روح فنا ہو جاتی ہے‘‘۔
’’لیکن بھئی …آخر وہ آوازیں ہیں کیسی؟‘‘
’’کیسی ہی کیوں نہ ہو
ں ۔ہمیں ان کی پر واہ نہ ہونی چا ہیے‘‘۔
’’اور وہ دونوں کس
طرح مرے؟‘‘
’’یہ چیز ‘‘۔ جیکٹ
والا کچھ سو چتا ہو ا بولا ۔’’ابھی تک میر ی بھی سمجھ میں نہیں آسکی۔مرَتا وہی ہے
جو کام شروع کرتاہے ۔یہ ہم شروع ہی سے دیکھتے آئے ہیں‘‘۔
’’پھر ایسی صورت میں
ہمیں کیا کرنا چا ہیے ‘‘۔دوسرے آدمی نے کہا
’’ہمیں آج یہ معا ملہ
طے ہی کردینا ہے‘‘۔جیکٹ والا بولا ۔’’یہ بھی بڑی اچھی بات ہے کہ وہاں پو لیس کا
پہرہ نہیں ‘‘۔
لیکن اُس رات کو
ہمارے علاوہ اور کوئی بھی وہاں تھا۔مجھے تو اُ س آدمی پر شبہ ہےجو با ہر والے کمرے میں رہتا ہے‘‘۔
’’اچھا اُٹھو ۔ ہمیں
وقت نہ بر باد کر نا چا ہیے ‘‘۔
’’کچھ پی تو لیں
۔میں بہت تھک گیا ہو ں ۔ کیا پیو گے ۔و
ہسکی یا کچھ اور‘‘
پھر وہ دونوں پیتے
رہے اور عمران اُٹھ کر قر یب ہی کےایک
پبلک ٹیلیفون بو تھ میں چلا گیا ۔ دوسرے لمحے
میں وہ فیاض کے نجی فون نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
’’ہیلو !سوپر …ہاں میں ہی ہو ں۔ خیر ت کہا ں ‘زکام ہوگیا ہے…پو چھنا یہ ہے کہ کیا میں جو شاندہ پی لوں …اَرےتواس میں ناراض ہو نے کی کیا بات ہے …دیگر احوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اند ر اندر اُس عمارت کے گرد مسلح پہرہ لگ
جانا چا ہیے…بس بس آگے مت پوچھو ۔ اگر اس کے خلاف
ہوا توآئندہ شرلاک ہو مز ڈا کڑ واٹسن کی
مدد نہیں کرے گا‘‘۔
ٹیلیفون بوتھ سے واپس
آکر عمران نے پھر اپنی جگہ سنبھال لی۔ جیکٹ والا آدمی دو سرے آدمی سے کہہ رہا تھا
۔
’’بو ڑھا ! پاگل نہیں ہے اس کے انداز ے غلط نہیں
ہوتے‘‘۔
’’اُو نہہ ہو
گا‘‘۔دوسری میز پر خالی گلاس پٹختا ہوا بولا ۔ صحیح ہو یاغلط ۔سب جہنم میں جا ئے
لیکن تم اپنی کہو۔ اگر اس لڑکی سے پھر ملاقات ہو گئی تو کیا کروں گے‘‘۔
’’اُوہ !‘‘جیکٹ والا
ہنسنے لگا ۔’’کہہ دوں گا معاف کیجیے گا
میں نےآپ کو پہچا نا نہیں‘‘۔
’’ٹھیک !لیکن اگر وہ
پو لیس تک پہنچ گئی تو‘‘۔
’’وہ ہر گز ایسا نہیں
کر سکتی ۔بیان دیتے وقت اُسے اس کا اظہار بھی کرنا پڑے گا کہ وہ ایک رات میرے سا
تھ اس مکان میں بسر کر چکی ہے اور پھر میرا خیا ل ہے کہ شائد اس کا ذہن کنجی تک پہنچ ہی نہ سکے‘‘۔
عمرا ن کافی
کاآرڈردےکر دوسرے چیو نگم سے شغل کر نے لگا ۔اُس کا چہرے سے ایسا معلوم ہو رہا تھا
جیسے وہ بار کےما حول سے قطعی بے تعلق ہو لیکن
یہ حقیقت تھی کہ ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اس کی یا د دا شت ہضم کرتی جا رہی تھی۔
’’تو کیا آج بو ڑھا
آئے گا‘‘۔دوسرے آدمی نے کہا۔
’’ہاں !آج شائد فیصلہ
ہو جائے ‘‘۔ جیکٹ والے نے کہا۔
دونوں اُٹھ گئے
۔عمران نے اپنے حلق میں بچی کھچی کا فی انڈیل
لی ۔بل وہ پہلے ہی ادا کر چکا
تھا۔دونوں با ہر نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو گئے اور پھر انھوں نے ایک ٹیکسی رکوائی۔کچھ دیر
بعد اُن کی ٹیکسی کے پیچھے ایک دوسری ٹیکسی بھی جا رہی تھی۔جس کی پچھلی سیٹ پر عمران اکڑوں بیٹھا ہو ااپنا سر
کھجا رہا تھا ۔حماقت ا نگیز حر کتیں اس سے اکثر تنہائی میں بھی سرزد ہو جا تی تھیں۔
مار کھیم لین میں
پہنچ کر اگلی ٹیکسی رُک گئی ۔وہ دو نوں اُ تر ےاور ایک گلی میں گھس گئے۔یہاں عمران
ذرا سا چوک گیا۔اُس نے انھیں گلی میں گھستے
ضرور دیکھا تھا لیکن جتنی دیر میں
وہ ٹیکسی کا کرایہ چکاتا ‘انھیں کھو
چکاتھا۔
گلی سنسان پڑی تھی
۔آگے بڑھا تو دا ہنے ہا تھ کو ایک دوسری
گلی دکھا ئی دی ۔اب اُس دوسری گلی کو طے کر تے
وقت اسے احساس ہو ا کہ وہا ں تو
گلیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔لہٰذا سر مارنا فضول سمجھ کر وہ پھر سڑک پر آگیا ۔وہ
اُس گلی کےسر ے سےتھوڑے ہی فاصلے پررُک کر
ایک بک اسٹال کے شو کیس میں لگی ہوئی کتا بوں کے رنگا رنگ گرد پو ش دیکھنے لگا
۔شا ئد پا نچ ہی منٹ بعد ایک ٹیکسی ٹھیک اسی گلی کے دہا نے پر رُکی اور ایک معمر
آدمی اتر کر کرا یہ چکانے لگا۔اس کے چہرے پر بھو رے رنگ کی داڑھی تھی لیکن عمران اس کی پیشانی کی بناوٹ
دیکھ کر چو نکا۔آنکھیں بھی جانی پہچانی معلوم ہو رہی تھیں ۔
جیسے ہی وہ گلی میں
گھسا عمران نے بھی ا پنے قدم بڑھائے ۔کئی گلیوں سے گزرنے کے بعد بو ڑھا دَروازے پر
رُک کر دستک د ینے لگا۔عمران کافی فا صلے
پر تھا اور تا ر یکی ہو نے کی وجہ سے دیکھ لیے جانے کا بھی خدشہ نہیں تھا۔وہ ایک
دیوار سے چپک کر کھڑا ہو گیا۔ادھر وہ دروازہ کھلا
اور بو ڑھا کچھ بڑبڑاتا ہو ا اندر
چلاگیا۔دروازے پھر بند ہو گیا۔عمارت دو منزلہ تھی۔عمران سر کھجا کر رہ گیا لیکن وہ
آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔اندر داخل ہونے کے امکانات پر غور کر تا ہو
ادروازے تک پہنچ گیااور پھر اس نے کچھ سوچے سمجھےبغیر دروازے سے کان لگا کر آہٹ
لینی شروع کردی ۔لیکن شائد اس کا ستارہ
گردش میں آگیا تھا ۔ دوسرے ہی لمحے میں دروازے کے دونوں پٹ کھلے اور دو آدمی اس کے سا منے کھڑے تھے ۔اندر کی
مدھم رو شنی میں ان کے چہرے تو نہ دکھا ئی د یئے لیکن وہ کافی مضبوط ہاتھ پیر کے
معلوم ہو تے تھے۔
’’کون ہے؟‘‘اُن میں
سے ایک نے تحکمانہ لہجے میں پو چھا۔
’’مجھے دیر تو نہیں
ہوئی ‘‘۔عمران تڑ سے بولا۔
دوسری طرف سے فوراً
ہی جواب نہیں ملا ۔غا لباًیہ سکوت ہچکچا ہٹ کا ایک و قفہ تھا۔
’’تم کون ہو ؟‘‘دوسری
طرف سے سوال پھر دُہر ا یا گیا۔
’’تین سوتیرہ
؟‘‘عمران نے احمقوں کی طرح بک دیا ۔لیکن دوسرے لمحے کا اُسے دھیان نہیں تھا ۔اچا
نک اُسے گر یبان سے پکڑکر اندر کھینچ لیا گیا ۔ عمران نے مزاحمت نہیں کی۔
’’اب بتاؤ تم کون
ہے؟‘‘ایک نے اسے دھکّا دے کر کہا۔
’’اندر لے
چلو‘‘۔دوسرا بولا۔
دونوں اُسے دھکّے دیتے ہوئے کمرے میں لے آئے جہاں سات آدمی ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہوئے
تھے اور وہ بو ڑھا جس کا تعا قب کر تا ہو اعمران یہاں تک پہنچا تھا شا
ئد سر گروہ کی حیثیت ر کھتا تھا کیو نکہ وہ میز کے آخر ی سر ے پر تھا۔
وہ سب عمران کو تحیر آمیز نظروں سے دیکھنے لگے ۔لیکن عمران دو نوں آد میوں کے
در میان کھڑا ہو ا چمڑے کی جیکٹ والے کو گھور رہا تھا۔
’’آہا‘‘ ۔یکایک عمران نے قہقہہ لگایا اور پھر اکر اُس سے کہنے لگا۔’’میں تمہیں
کبھی نہیں معاف کروں گا ۔تم نے میری محبوبہ کی زندگی بر با د کردی‘‘۔
’’کون ہو تم ۔ میں
نہیں پہچا نتا ‘‘۔اُس نے تحیر آمیز لہجے میں کہا۔
’’لیکن میں تمہیں اچھی طرح پہچا نتا ہوں ۔تم نے میری محبوبہ پر ڈورے ڈالے ‘میں کچھ نہیں بولا۔تم نے ایک رات اس کے
سا تھ بسر کی میں پھر بھی خاموش رہا لیکن میں اسے کسی طرح نہیں بردا شت کر سکتا کہ تم اُس سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دو ‘‘۔
’’تم یہاں کیوں آئے ہو‘‘۔دفتعاًبوڑھے نے سوال کیا اور اُن دونوں کو گھورنے لگا
جو عمران کو لائے تھے۔انھوں نے سب کچھ
بتادیا ۔اس کے دَوران میں عمران برابراپنے مخاطب کو گھورتا رہا ۔ایسا معلوم ہورہا تھاجیسے دوسرے لو گوں سے اسے وا
قعی کوئی سرو کار نہ ہو۔
پھر اچا نک کسی کا
گھو نسہ عمران کے جبڑے پر پڑا اور وہ لڑ
کھڑا تا ہو ا کئی قدم پیچھے کھسک گیا۔اُس نے جھک کر اپنی فلٹ ہیٹ اٹھائی اور
اُسے اس طرح جھاڑنے لگا جیسے وہ اتفا قاً اُس کے سرسے گر گئی ہو۔وہ اب
بھی جیکٹ والے کو گھورے جا رہا تھا۔
’’میں کسی عشقیہ ناول
کے سعادت مندر قیب کی طرح تمہارے حق میں
دستبردار ہو سکتا ہوں ‘‘۔عمران نے اس سے کہا۔
’’بکواس بند
کرو‘‘۔بوڑھا چیخا ۔’’میں تمہیں اچھی طرح
جا نتا ہوں ۔کیا اس رات کو تم ہی وہا ں تھے‘‘۔
عمران نےاس کی طرف
دیکھنے کی بھی ز حمت گوارانہ کی۔
’’یہ زندہ بچ کر نہ جا نے پائے ‘‘۔بو ڑھا اُچھل کر
کھڑا ہو تا ہوا بولا۔
’’مگر شرط یہ
ہے‘‘۔عمرا ن مسکرا کر بولا۔’’میت کی بے حرمتی نہ ہونے پائے‘‘۔
اس کے حماقت آمیز اطمینان میں ذرّہ برابر فرق نہیں ہونے پایا تھا۔ تین چار
آدمی اس کی طرف لپکے لیکن عمران دوسرے ہی لمحے
میں ڈپٹ کربولا ۔’’ہینڈزاَپ ۔۔۔۔۔‘‘ساتھ ہی اس کا ہاتھ جیب سے نکلا ۔اس طرح جھپٹنے
والے ۔پہلے تو ٹھٹکے لیکن پھر انھوں نے بے تحا شہ ہنسنا شروع کر دیا ۔عمران کے
ہاتھ میں ریوالور کی بجائے ربر کی ایک گڑیا تھی۔پھر بو ڑھے کی گر جدار آواز نےانھیں خاموش کردیا اوروہ پھر
عمران کی طرف بڑھے ۔جیسے ہی اُس کے قریب پہنچے
عمران نے گڑیا کا پیٹ دبا دیا ۔ اس
کا منہ کھلا اور پیلے رنگ کا گہرا غبار اس
میں سے نکل کر تین چار فٹ کے دا ئرے میں پھیل گیا۔وہ چاروں طرف بے تحا شہ کھا نستے
ہوئے وہیں ڈ ھیر ہو گئے۔
’’جائے نہ
پائے‘‘۔بوڑھا پھر چیخا۔
دوسرے لمحے میں عمران
نے کوئی وزنی چیز الکڑک لیمپ پر کھینچ ماری ۔ایک زور دار آواز کےساتھ بلب پھٹا اور کمرے میں اندھیرا ہو گیا۔
عمران اپنی ناک پر
رُومال رکھے ہوئے دیوار کے سہارے میز کے سر ے کی طرف کھسک رہاتھا۔کمرے میں اچھا
خاصا ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔شا ئد وہ سب اندھیرے میں ایک دوسرے پر گھونسے بازی کر
نے لگے تھے ۔عمران کا ہاتھ آہستہ سے میز کے سرے
پر رینگ گیا اور نا کامی نہیں ہوئی۔جس چیز پر شروع ہی سے اُس کی نظر رہی
تھی‘اس کے ہا تھ آچکی تھی۔یہ بوڑھے کا چرمی ہینڈ بیگ تھا۔
واپسی میں کسی نے
کمرے کے دروازہ پر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کو
شش کی لیکن اپنے سا منے کے دو تین دا نتوں کو روتاہوا ڈھیر ہو گیا ۔عمران جلد سے جلد کمرے سےنکل جانا چا ہتا تھا کہ کیو نکہ
اس کے حلق میں بھی جلن ہونے لگی تھی۔ گڑیا کے منہ سے نکلا ہوا غبار اب پورے کمرے
میں پھیل گیا تھا۔
کھا نسیوں اور گا
لیوں کا شور پیچھے چھوڑتا ہوا وہ بیرونی دَروازے تک پہنچ گیا ۔گلی میں نکلتے ہی وہ قریب ہی کی ایک دوسری گلی میں گھس گیا۔فی الحال سڑک پر
نکلنا خطر ناک تھا۔وہ کافی دیر تک پیچ در
پیچ گلیو ں میں چکراتا ہوا ایک دوسری سڑک
پر آگیا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھا ہوا اس طرح اپنے ہونٹ ر گڑ رہا تھا
جیسے سچ مچ اپنی محبوبہ سے ملنے کے بعد لپ
اسٹک کے دھبّے چھڑا رہاہو۔
10
دوسریصبح کیپٹن فیاض کے لیے ایک نئی دردسری لے کر آئی ۔حالات ا یسے تھے کہ براہِ راست اُسے ہی اس
معاملے میں بھی اُلجھنا پڑا۔ورنہ پہلے تو معاملہ سول پو لیس کے ہاتھ میں جاتا۔بات یہ تھی کہ اس خوفنا ک
عمارت سے تقریباًایک یاڈ یڑھ فرلانگ کے
فا صلہ پر ایک نوجوان کی لا ش پائی گئی جس کے جسم پر کتھئی پتلون اور چمڑے کی جیکٹ
تھی۔کیپٹن فیاض نے عمران کی ہدا یت کے
مطابق پچھلی رات کو پھر نگرانی کے لیے کا
نسٹیبلون کا ایک دستہ تعینات کر ا دیا تھا۔اُن کی رپورٹ تھی کہ رات کو کوئی عمارت
کے قریب بھی نہیں آیااورنہ انھوں نے قرب وجوار میں کسی قسم کی
کوئی آواز ہی سنی تھی لیکن پھر بھی عمارت سے تھوڑے فا صلہ پر صبح کو ایک لاش پائی گئی۔
جب کیپٹن فیاض کو لاش کی ا طلاع ملی تو اُس نے
سوچنا شروع کردیا کہ عمران نے عمارت کےگرد
مسلح پہرہ بٹھانے کی تجویز کیوں پیش کی تھی؟
اُس نے وہاں پہنچ کر
لاش کا معائنہ کیا ۔کسی نے مقتول کی دا ہنی کنپٹی پر گو لی ماری تھی۔کا نسٹیبلوں نےبتایا کہ انھوں نے پچھلی رات فائر کی آواز بھی نہیں
سُنی تھی۔
کیپٹن فیاض وہاں سے
بو کھلایا ہو اعمران کی طرف چل دیا۔اس کی طبیعت بُری طرح جھلاّ ئی ہوئی تھی ۔وہ سوچ رہا تھا کہ اگر عمران نے ڈھنگ کی کوئی
بات بتانے کے بجائے میرؔو غالبؔ کے اُوٹ پٹا نگ شعر سنانا شروع کر دیئے تو کیا ہو
گا۔بعض اوقات اُس کی بے تکی باتوں پر اس کا دِل چا ہتا تھا کہ اُسے گولی ماردے
۔مگر پھر اس کی شہرت کا کیا ہوتا۔اُس کی ساری شہرت عمران ہی کے دم سے تھی۔وہ اس
کےلیے ا ب تک کئی پیچیدہ مسائل سلجھا چکا تھا۔بہرحال کام
عمران کرتا تھا اور اخبارات میں فیاض کا چھپتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اسے عمران کا سب کچھ برداشت کرنا پڑتاتھا۔
عمران اُسے گھر پر ہی
مل گیا لیکن عجیب حا لت میں ۔وہ اپنے
نوکر سلیمان کے سر کنگھا کر رہاتھا اور ساتھ ہی ساتھ کسی دوراندیش ماں کے سے انداز
میں اُسے نصیحتیں بھی کئے جا رہا تھا جیسے ہی فیاض کمرے میں داخل ہوا عمران نے
سلیمان کی پیٹھ پر گھو نسہ مار کرکہا ۔اَبے تو نے بتا یا نہیں کہ صبح ہوگئی ‘‘۔
سلیمان ہنستا ہوا بھا
گ گیا۔
’’عمران تم آدمی کب
بنو گے‘‘۔فیاض ایک صوفے میں گر تا ہوا بولا۔
’’آدمی بننے میں مجھے
کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔البتہ میں تھا نیدار بننا ضرور پسند کروں گا‘‘۔
’’میری طرف سے جہنم
جانا پسند کرو۔لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے پچھلی رات
اس عمارت پر پہرہ کیوں لگوایا تھا‘‘۔
’’مجھے کچھ بھی یاد
نہیں‘‘۔عمران ما یو سی سے سرہلاکر
بولا۔’’کیا وا قعی میں نےکو ئی ایسی حرکت
کی تھی‘‘۔
’’عمران !‘‘فیاض نے
بگڑ کر کہا۔’’اگر میں آئندہ تم سےکوئی مددلوں
تو مجھ پر ہزار بار لعنت‘‘۔
’’ہزار کم ہے
‘‘۔عمران سنجیدگی سے بولا۔’’کچھ اور بڑ ھو تو میں غور کرنے کی کو شش کرو ں گا‘‘۔
فیاض کی قوت برداشت
جواب دے گئی وہ گرج کر بولا ۔’’جا نتے ہو
۔آج صبح وہاں سےایک فر لا نگ کے فا صلے پر ایک لا ش اور ملی ہے‘‘۔
’’ارے تو بہ !‘‘عمران
اپنا منہ پیٹنے لگا۔
کیپٹن فیاض کہتا
رہا۔’’تم مجھے اند ھیرے میں ر کھ کر نہ جا
نے کیا کر نا چا ہتے ہو ۔حالات اگر کچھ اور
بگڑے تو مجھےہی سنبھا لنے پڑ یں گے
لیکن کتنی پر یشا نی ہو گی۔اس نے اُس کی دا ہنی کنپٹی پر گو لی ما ری ہے ۔میں نہیں سمجھ سکتا
کہ یہ حرکت کس کی ہے‘‘۔
’’اُن کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے۔‘‘عمران
بڑبڑایا پھر سنجید گی سے پو چھا
۔۔۔۔’’پہرہ تھا وہاں‘‘۔
’’تھا ۔میں نے رات ہی
یہ کام کر لیا تھا‘‘۔
’’پہرے والوں کی رپو
رٹ‘‘۔
’’کچھ بھی نہیں
۔انھوں نے فا ئر کی آواز
بھی نہیں سنی‘‘۔
’میں یہ نہیں پو چھ
رہا ہوں ۔کیا کل بھی کسی نے عمارت میں دا
خل ہونےکی کوشش کی تھی‘‘۔
’’نہیں لیکن میں اس
لاش کی با ت کر رہا تھا‘‘۔
’’ کیے جاؤ ۔میں
تمہیں رو کتا نہیں ۔لیکن میرے سوالات کے جوابات بھی دیئے جاؤ۔قبر کے مجاور کی کیا خبر ہے ۔وہ ا ب بھی و ہیں موجود ہے یا غا ئب ہو گیا‘‘۔
’’عمران خدا کے لیے
تنگ مت کرو‘‘۔
’’اچھا تو علی عمران ایم ۔ایس ۔سی۔ایچ ۔ڈی کوئی گفتگو نہیں کر
نا چا ہتا‘‘۔
’’تم آخر اس خبطی کے
پیچھے کیوں پڑ گئے ہو‘‘۔
’’خیر جانے دو ۔اب
مجھے اس لاش کے متعلق کچھ اور بتاؤ‘‘۔
’’کیا بتاؤں ۔ بتا تو چکا ۔صورت سے بڑا آدمی نہیں
معلوم ہو تا۔خو بصورت اور جوان ‘جسم پرچمڑے کا
جیکٹ اور کتھئی رنگ کا پتلون ‘‘
’’کیا ؟‘‘عمران چو نک پڑا ۔چند لمحے
اپنے ہو نٹ سیٹی بجانے والے انداز
میں سکو ڑے فیاض کی طرف د یکھتا رہا پھر
ایک ٹھنڈی سا نس لے کر کہا۔
بے خطر کُو دپڑا آتش نمرود میں عشق
نہ کوئی بندہ رہا اور
نہ کو ئی بندہ نواز
’’کیا بکواس
ہے؟‘‘فیاض جھنجھلا کر بولا’’اول تو تمہیں اشعار ٹھیک یاد نہیں ۔پھر اس کا مو قع کب تھا…عمران میرا بس چلے تو تمہیں گو لی ماروں‘‘۔
’’کیوں شعر میں کیا
غلط ہے؟‘‘
’’مجھے شاعری سے
دلچسپی نہیں لیکن مجھے دو نوں مصرعے بے ربط معلوم ہو تے ہیں…لا حول ولا قوۃ…میں بھی انہیں لغویات میں الجھ گیا خدا کے لیے
کام کی باتیں کرو۔تم نہ جا نے کیا
کر رہے ہو ‘‘۔فیاض نےجھنجھلا کر کہا۔
’’میں آج رات کو کام کی بات کرو ں گا اورتم بھی میرے سا تھ ہو گےلیکن ایک
سکینڈ کےلیے بھی وہاں سے پہرہ
نہ ہٹایا جائے ۔تمہارے ایک آدمی کو ہر وقت
مجاور کے کمرے میں موجود رہنا چا ہیے ۔بس اب جاؤ ۔میں چائے پی چکا ہوں ورنہ
تمہاری کا فی مدارات کر تا۔وہاں ‘محبوبۂ یک چشم کو میرا پیغام پہنچا دینا
کہ رقیب رُو سیاہ کا صفایا ہو گیا۔باقی سب
خیریت ہے‘‘۔
’’ عمران میں
اتنی آسا نی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔تمہیں ابھی اور اسی وقت سب کچھ بتا
نا پڑے گا‘‘۔
’’اچھا تو سنو!لیڈی
جہانگیر بیوہ ہونے والی ہے ۔اس کے بعدتو کو شش کرو گے کہ میری شادی اس کےساتھ
ہوجائے …کیا سمجھے؟‘‘
’’عمران !‘‘فیاض یک
بیک مار بیٹھنے کی حد تک سنجیدہ ہوگیا’’یس باس ‘‘۔ بکواس بند کرو۔اب میں تمہاری
زندگی تلخ کردوں گا۔‘‘
’’بھلا وہ کس طرح سو
پر فیاض‘‘۔
’’نہایت آسا نی سے ‘‘۔فیاض سگر یٹ
سلگا کر بولا ۔’’تمہارے گھر والوں کو شبہ ہے کہ تم اپنا وقت آوار گی اور عیاشی میں گزارتے ہو لیکن کسی کے
پاس اس کا ٹھوس ثبوت نہیں ۔میں ثبوت مہیا
کر دوں گا۔ایک ایسی عورت کا انتظام کر لینا میرے لیے
مشکل نہ ہوگا ۔جو براہِ راست تمہاری امّاں بی کے پاس پہنچ کر اپنے لٹنے کی دا ستان بیان کردے‘‘۔
’’اُوہ !‘‘
عمران نے تشویس آمیز انداز میں اپنے ہو نٹ سکوڑ لیے پھر آہستہ سے بولا۔’’امّا بی کی جو تیاں آل پروف ہیں ۔خیر سو پر فیاض
یہ بھی کرکے دیکھ لو ۔تم مجھے ایک صا بر شاکر فر زندپا ؤگے ۔لو…چیو نگم سے شوق کرو‘‘۔
’’اس گھر میں ٹھکانہ نہیں ہوگا تمہارا‘‘۔فیاض بولا۔
’’تمہارا گھر تو
موجود ہی ہے‘‘۔
’’تو تم نہیں بتاؤ گے‘‘۔
’’ظا ہر ہے‘‘۔
’’اچھا تو اب تم ان
معا ملات میں دخل نہیں دوگے ۔میں خود ہی
دیکھ لو ں گا‘‘۔فیاض اٹھتا ہو اخشک لہجے
میں بولا ۔’’اور اگر تم اس کے بعد بھی اپنی
ٹانگ اڑائے رہتے ہوتو میں تمہیں قا نونی گرفت میں لے لو ں گا‘‘۔
’’یہ گرفت ٹا نگوں
میں ہو گی یا گردن میں ‘‘۔عمران نے سنجیدگی سے پو چھا۔چند لمحے فیاض کو
گھورتا رہا پھر بولا۔’’ٹھہرو‘‘۔
فیاض رُک کر اسے بے بسی سے دیکھنے لگا۔
’’عمران نے الماری
کھول کر وہی چرمی ہینڈ بیگ نکا لا جیسے وہ کچھ نا معلوم ا فراد کے در میان سے
پچھلی رات کو اڑالا یاتھا۔اس نے ہینڈ بیگ کھول کر
چند کا غذات نکالے اور فیاض کی طرف بڑھا دیئے ۔فیاض نے جیسے ہی ایک کا غذ کی تہہ کھولی بے اختیار
اُچھل پڑا ۔اب وہ بڑی تیزی سے دوسرے کا
غذت پر بھی نظریں دوڑارہا تھا۔
’’یہ تمہیں کہاں ملے
‘‘۔فیاض تقر یباً ہا نپتا ہوا بولا ۔شدت جوش سے اس کے ہاتھ کا نپ رہے تھے۔
’’ایک ردّی فروش کی
دُکان پر …بڑی دشواریوں سے ملے ہیں ۔دو آنے سیر کے حساب
سے‘‘۔
’’عمران !خدا کے لیے …فیاض تھوک نگل کر بولا۔
’’کیا کر سکتا ہے بے
چارہ عمران ‘‘۔عمران نے خشک لہجہ میں کہا۔وہ
اپنی ٹانگ اڑائے گا تو تم اسے قا نو نی گر فت میں لے لو گے‘‘۔
’’پیارے عمران خدا
کےلیے سنجید ہ ہو جاؤ‘‘۔
’’اتنا سنجیدہ ہوں کہ تم مجھے بی ۔پی کی ٹا فیاں کِھلا
سکتےہو‘‘۔
’’یہ کا غذات تمہیں
کہا ں ملے؟‘‘
’’سڑ ک پر پڑے ملے
تھے اور اب میں نے انھیں قا نون کے ہا تھوں میں پہنچا دیا ۔اب قا نون کا کا م ہے کہ وہ ایسے
ہا تھ تلاش کرے جن میں ہتھکڑیاں لگا سکے۔عمران نے اپنی ٹا نگ ہٹالی‘‘۔
فیاض بے بسی سے اُس
کی طرف دیکھتا رہا۔
’’لیکن اسے سن لو‘‘۔عمران قہقہہ لگا کر کربولا۔’’قا نون کے فر شتے بھی ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے‘‘۔
’’اچھا تو یہی بتا دو
کہ ان معا ملات سے اِن کا غذات کا کیا تعلق
ہے ‘‘۔فیاض نے پو چھا۔
’’یہ تمہیں معلوم ہو
نا چا ہیے ۔‘‘عمران دفتعاً سنجیدہ ہو گیا۔’’اتنا میں جا نتا ہوں کہ یہ کاغذات فا رن سےتعلق رکھتے ہیں۔ لیکن
ان کا ان بد معا شوں پاس ہونا کیا
معنی ر کھتا ہے‘‘۔
’’کن بدمعا شوں کے پا
س سے ‘‘۔فیاض چو نک کر بولا۔
’’وہی!جو اس عمارت
میں …‘‘
’’میرے خدا …‘‘فیاض مضطربا نہ انداز میں بڑبڑایا ۔’’لیکن یہ تمہارے ہا تھ کس طرح
لگے‘‘۔
’’عمران نے پچھلی رات
کے واقعات دہر ا دیئے ۔اس دَوران میں فیاض بے
چینی سے ٹہلتا رہا۔کبھی کبھی وہ رُک کر عمران کو گھورنے لگتا۔عمران اپنی بات ختم کر چکا تو اُس نے کہا ۔’’افسوس !تم نے بہت بُرا کیا ۔تم نےکل ہی اطلا ع کیوں نہیں دی ‘‘۔
’’تو اب دے رہا ہوں
اطلاع ۔اس مکان کا پتہ بھی
بتا دیا ۔جو کچھ بن پڑے کر لو ‘‘۔عمران بولا
’’اب کیا وہاں خاک
پھا نکنے جا ؤ ں گا‘‘۔
’’ہاں ہاں ! کیا ہر ج
ہے‘‘۔
’’جانتے ہویہ کا غذات
کیسے ہیں ‘‘۔فیاض نے کہا۔
’’اچھےخاصے ہیں ردّی
کے بھاؤ بک سکتے ہیں‘‘۔
’’اچھا تو میں چلا ‘‘۔ فیاض کا غذات سمیٹ کر
چرمی ہینڈ بیگ میں رکھتا ہو ابو لا۔
’’کیا انھیں اسی طرح لے جاؤ گے ‘‘۔ عمران نے کہا ۔’’نہیں ‘ایسا نہ کرو کہ مجھے تمہارے قا تلوں
کا بھی پتہ لگا نا پڑے‘‘۔
’’کیوں ؟‘‘
’’فون کر کے پو
لیس کی گا ڑی منگوا ؤ ‘‘۔عمران نے ہنس کر
بولا ۔’’کل رات سے وہ لوگ میری تلاش میں
ہیں ۔میں رات بھر گھر سے با ہر ہی رہا تھا ۔میرا خیال ہے کہ اِس وقت مکان کی
نگرانی ضرور ہو رہی ہوگی ۔خیر اب تم مجھے
بتا سکتے ہوکہ کا غذات کیسے ہیں‘‘۔
فیاض پھر بیٹھ گیا۔وہ
اپنی پیشانی سے پسینہ پو نچھ رہا تھا ۔تھو
ڑی دیر بعد اس نے کہا ۔
’’سا ت سال پہلے ان غذات پر ڈاکہ پڑا تھا۔لیکن اِن میں سب نہیں ہیں ، فارن آفس کا ایک ذمہ دار آفیسر اُنھیں
لےکر سفر کر رہا تھا ۔یہ نہیں بتا سکتا کہ و
ہ کہاں اور کس مقصد سے جا رہا تھا۔کیو نکہ یہ حکومت کا راز ہے۔آفیسر ختم کر
دیا گیا۔اُس کی لاش مل گئی تھی لیکن اس کے ہاتھ
سیکرٹ سروس کا بھی ایک آدمی تھا۔
اُس کے متعلق آج تک نہ معلوم ہو
سکا ۔شائد وہ بھی مار ڈالا گیا ہو۔ لیکن اس کی لاش نہیں ملی ‘‘۔
’’آہا ۔تب تو یہ کوئی
بہت بڑا کھیل ہے ‘‘۔عمران کچھ سو چتا ہو ا
بولا ۔’’لیکن میں اسے جلدی ہی ختم کرنے کی
کو شش کروں گا۔‘‘
’’تم اب کیا کرو گے‘‘۔
’’ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا‘‘۔ عمران نے کہا ۔’’لو سنو!
اِن کا غذات کوابھی اپنے پاس ہی دبائے رہواور ہینڈ بیگ میرے پاس
رہنے دو۔ مگر نہیں اسے بھی لیجاؤ۔میرے ذہن
میں کئی تدبیریں ہیں اور ہاں …اُس عمارت کے گرددن
رات پہرہ رہنا چا ہیے ‘‘۔
’’آخر کیوں ؟‘‘
’’وہاں میں تمہارا
مقبرہ بناؤں گا‘‘۔ عمران جھنجھلا کر بولا۔
فیاض اُٹھ کر پو لیس
کی کار منگوانے کےلیے فون کرنے لگا۔
11
اُسیرات کو عمر ان بو
کھلایا ہو افیاض کے گھر پہنچا ۔ فیاض سونے
کی تیا ری کر رہا تھا ۔ایسے مو قع پرا گر عمران کے بجا ئے کو ئی اورہو
تا تو وہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ۔مگر
عمران کا معا ملہ ہی اور کچھ اورتھا ۔ اُس کی بدولت آج اُس کے ہاتھ ایسے کا غذات لگے تھے جن کی
تلاش میں عرصہ سے محکمہ سرا غر
سانی سر ما ررہا تھا ۔فیاض نے اُسے اپنے
سو نے کمرے میں بلوایا۔
’’میں صرف ایک بات پو
چھنے کے لیے آیا ہوں‘‘۔عمران نے کہا۔
’’کیا بات ہے ‘کہو‘‘۔
’’عمران ٹھنڈی
سانس لے کر بولا ۔’’کیا تم کبھی کبھی میری
قبر پر آیا کرو گے‘‘۔
فیاض کا دل چا
ہا کہ اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر سچ مچ
اُس کی قبر تک جانے کا مو قع مہیا کرے
لیکن وہ کچھ کہنے کے بجا ئے عمران کو
گھورتا رہا۔
’’آہ تم خا موش ہو
‘‘۔عمران کسی ناکام عا شق کی طرح بولا ۔’’میں سمجھا ! تمہیں شا ئد کسی اور سے پر یم ہو گیا ہے ‘‘۔
’’عمران کے بچے !‘‘
’’رحمان کے بچے
‘‘۔عمران نے جلدی سے تصحیح کی ۔
’’تم کیوں میری زندگی
تلخ کئے ہو ئے ہو‘‘۔
’’اوہو ۔۔۔۔کیا
تمہاری ما دہ دوسرے کمرے میں سوتی ہے ‘‘۔عمران چا روںطرف دیکھتا ہو ابولا۔
’’بکواس مت کرو ۔اس
وقت کیوں آئے ہو؟‘‘
’’ایک عشقیہ خط دکھا
نے کے لیے ‘‘۔عمران جیب سے لفا فہ نکا لتا
ہو ابولا ۔’’اُس کا شوہر نہیں ہے صرف باپ
ہے ‘‘۔
فیاض نے اُس کے ہاتھ
سے لفا فہ لے کر جھّلا ہٹ میں پھا ڑنا چا
ہا۔
’’ہاں ہاں ‘‘۔ عمران
نے اس کا ہا تھ پکڑتے ہو ئے کہا۔’’اَرے پہلے پڑھو تو میری جان ۔مزہ نہ آئے تو
محصول ڈاک بذمہ خر ید ار ‘‘۔
فیاض نے طو عاًو کرہا
خط نکا لا اور پھر جیسے ہی اُس کی نظریں اُس پر پڑیں ‘بیزاری کی ساری علا متیں
چہرے سے غا ئب ہو گیئں اوران کی جگہ
استعجاب نےلے لی ۔خط ٹائپ کیا ہو اتھا۔
’’عمران ‘اگر وہ
چرمی ہینڈ بیگ یا اس کے اندر کی کوئی چیز پو لیس
تک پہنچی تو تمہاری شامت آجائے گی
۔اُسے واپس کردو ۔بہتری اسی میں ہے ورنہ کہیں کسی جگہ سے موت سےملا قات ضرور ہو گی
۔آج رات گیا رہ بجے ریس کورس کے قریب ملو۔ہینڈ
بیگ تمہارے سا تھ ہو نا چا ہیے ۔اکیلے ہی
آنا۔ورنہ اگر تم پا نچ ہزار آدمی بھی سا
تھ لاؤ گےتب بھی گولی تمہارے ہی سینے پر
پڑے گی‘‘۔
فیاض خط پڑھ کر چکنے
بعد عمران کی طرف دیکھنے لگا۔
’’لاؤ ۔اُسے واپس کر
آؤں ‘‘۔عمران نے کہا۔
’’پاگل ہو ئے ہو‘‘۔
’’ہاں !‘‘
’’تم ڈرگئے ‘‘۔فیاض ہنسنے
لگا۔
’’ہا رٹ فیل ہو تے ہو
تے بچا ہے‘‘۔عمران ناک کےبل بولا۔
’’ریوالورہے تمہارے
پاس‘‘۔
’’ریوالور !‘‘عمران
نے اپنے کا نوں میں انگلیاں ٹھو نستے ہوئے کہا ۔’’اَرے باپ رے باپ‘‘۔
’’اگر نہیں ہےتو میں
تمہارے لیے لا ئسنس حاصل کر لو ں گا‘‘۔
’’بس کرم کرو
‘‘۔عمران برا سا منہ بنا کر بولا ۔’’اُس میں آواز بھی ہو تی ہے اور دھواں بھی
نکلتا ہے۔میرا دل بہت کمزور ہے ۔لا ؤ ہینڈ بیگ وا پس کردو‘‘۔
’’کیا بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو‘‘۔
اچھا تو نہیں دو گے
‘‘۔عمران آنکھیں نکال کر بو لا ۔
’’فضول مت بکو ‘مجھے
نیند آرہی ہے‘‘۔
’’اَرے اُو …فیاض صاحب !ابھی میری شادی بھی نہیں ہوئی اور میں با پ بنے
بغیر مرنا پسند نہیں کروں گا‘‘۔
’’ہینڈ بیگ تمہارے
والد کے آفس میں بھیج دیا گیاہے‘‘۔
’’تب اُنھیں اپنے
جوان بیٹے کی لاش پر آنسو بہا نے پڑیں گے
۔کنفو شس نے کہا…‘‘
’’جا ؤ یا ر خدا
کےلیے سو نے دو‘‘۔
’’گیا رہ بجنے میں
صرف پچاس منٹ رہ گئے ہیں ‘‘۔عمران گھڑی کی طرف دیکھتا ہو ابولا۔
’’اچھا چلو تم
بھی یہیں سو جاؤ‘‘۔فیا ض نے بے بسی
سے کہا ۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر عمران نےکہا ’’کیا اُس عما رت کے گرد
اَب بھی پہرہ ہے‘‘۔
’’ہاں ۔کچھ اور آدمی بڑھا د یئے گئے ہیں ۔لیکن آخر تم
یہ سب کیوں کر رہے ہو۔آفیسر مجھ اس کا سبب پو چھتے ہیں
اور میں ٹا لتا رہتا ہو نں‘‘۔
’’اچھا تو اُٹھو !یہ کھیل اسی وقت ختم کر
دیں ۔تیس منٹ میں ہم وہاں پہنچیں گے ‘ باقی بچے
بیس منٹ !گیا رہ سوا گیارہ تک سب
کچھ ہو جانا چا ہیے‘‘۔
’’کیا ہو جا نا چا ہیے‘‘۔
’’سا ڑھے گیا رہ بجے بتا ؤں گا ۔اُٹھو ۔میں اس وقت
عا لم تصور میں تمہا را عہدہ بڑھتا
ہو ا دیکھ رہا ہوں ‘‘۔
’’آخر کیوں !کوئی خاص
بات ‘‘۔
علی عمران ایم ۔ایسی
۔سی ۔پی ۔ایچ ۔ڈی کبھی کوئی عام بات نہیں کر تا
سمجھے ۔ناؤ گٹ اَپ ‘‘۔
فیاض نے طوعاً و کر ہاً
لبا س تبد یل کیا ۔
تھوڑی دیر بعد اُ ن
کی مو ٹر سا ئیکل بڑی تیزرفتار ی سے اُس د یہی علاقے کی طرف جا رہی تھی جہاں وہ
عمارت تھی۔عمارت کے قریب پہنچ کر عمران نے فیاض سے کہا۔
’’تمہیں صرف اتنا کر
نا ہے کہ تم اس وقت تک قبر
کے مجا ور کو باتوں میں ا لجھا ئے
رکھو جب تک میں وا پس نہ آجا ؤں ۔سمجھے
۔اُس کے کمرے میں جاؤ۔ایک سکینڈ کے لیے
بھی اس کا سا تھ نہ چھوڑنا۔
12
عمارتکے گرد مسلح پہرہ تھا ۔ دستے کے انچارج نے فیاض کو پہچان کر سلیوٹ کیا۔فیاض
نے اس سے چند سر کا ری قسم کی رسمی با تیں کی اور سیدھا مجا ور
کے حجرے کی طرف چلا گیا جس کے
دروازے کھلے ہوئے تھے اور اندر مجا ور غا
لباً مراقبے میں بیٹھا تھا ۔فیاض کی آہٹ
پر اُس نے آنکھیں کھول دیں جوا نگاروں کی طرح دہک رہی تھیں ۔
’’کیا ہے !‘‘اُس نے
جھلا ئے ہو ئے لہجے میں پو چھا ۔
’’کچھ نہیں میں د
یکھنے آیا تھا ۔سب ٹھیک ٹھا ک ہےیا نہیں
‘‘۔فیاض بولا۔
’’میری سمجھ میں نہیں
آتا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔ان ہی
گدھو ں کی طرح پو لیس بھی دیوانی ہو گئی
ہے‘‘۔
’’کن گد ھوں کی
طرح‘‘۔
’’وہی جو سمجھتے ہیں
کہ شہید مرد کی قبر میں خزانہ ہے‘‘۔
’’کچھ بھی ہو ‘‘۔فیاض
نےکہا ۔’’ہم نہیں چا ہتے کہ یہاں روزانہ
لا شیں بر آمد ہو تی ر ہیں ۔اگر
ضرورت سمجھی گئی تو قبر کھدوائی جا ئےگی ‘‘۔
’’بھسم ہو جا ؤ گے
‘‘۔مجاور گرج کر بولا۔’’خون تھو کو گے …مرو گے‘‘
’’کیا سچ مچ اس میں خزانہ ہے‘‘۔
اس پر مجاور گر جنے بر سنے لگا ۔فیاض با ربار گھڑی کی طرف د یکھتا
جا رہا تھا ۔عمران کو گئے ہو ئے پندرہ منٹ
ہو چکے تھے۔وہ مجاور کو باتوں میں اُ لجھا ئے رہا ۔اچانک ایک عجیب قسم کی آواز سنا ئی دی ۔مجا ور اُ چھل کر مڑا
۔اس کی پشت کی طرف کی دیوا ر میں ایک بڑا سا خلا ء نظر آرہا تھا۔فیاض بو کھلا کر
کھڑا ہو گیا ۔وہ سو چ رہا تھا کہ یک بیک دیوار کو کیا ہو گیا۔وہ اس سے پہلے بھی
کئی بار اس کمرے میں آچکا تھا لیکن اُسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا تھاکہ یہاں
کوئی چوردروازہ بھی ہو سکتا ہے ۔دفعتاًاور مجاور چیخ مار کر
اس دروازے میں گھستا چلا گیا ۔ فیاض بری طرح بو کھلا گیا تھا ۔اُس نے جیب سے ٹارچ
نکا لی اور پھر وہ بھی اُسی دَروازے میں
دا خل ہو گیا ۔یہاں چا روں طرف اند ھیرا تھا ۔شا ئد وہ کسی تہہ خا نے میں چل رہا
تھا ۔کچھ دور چلنے کے بعد سیڑ ھیاں نظر آئیں ۔یہاں قبر ستان کی سی خا موشی تھی۔فیاض سیڑھیوں پر چڑنے لگا اور جب وہ اُوپر
پہنچا تو اس نے خو د کو شہید مر دکی قبرسے برآمد ہوتے پایا
جس کا تعویذ کسی صندوق کے ڈ ھکن کی طرح سیدھا اٹھا
ہو اتھا۔
ٹارچ کی روشنی کا دائرہ صحن میں چاروں طرف گردش کرتا رہا۔ پھر فیاض نے مجاورکو
وارداتوں والےکمرے سے نکلتے دیکھا۔
’’تم لوگوں نے مجھے برباد کردیا۔‘‘ وہ فیا ض کو دیکھ کر چیخا۔ ’’آؤ اپنے
کرتوت دیکھو‘‘ ۔وہ پھر کمرے میں گھس گیا۔ فیاض تیزی سے اس کی طرف جھپٹا۔
’’ٹارچ کی روشنی دیوار پر پڑی جہاں کا بہت سارا
پلا سڑ اُد ھڑاہو اتھا اور اسی جگہ چا نچ
پا نچ انچ کے فا صلے پر تین
بڑی چھریاں نصب تھیں ۔فیاض آگے بڑھا ۔اُدھڑے ہوئے پلاسڑ کے پیچھے ایک بڑا سا خا نہ تھا اور ان چھریوں کے دوسرے
سرے اسی میں غائب ہو گئے تھے ۔ان چھریوں کے علاوہ اس خا نے میں اور کچھ نہیں تھا۔
’’مجاور قہر آلود
نظروں سے فیاض کو گھو ررہا تھا ۔
’’یہ سب کیا ہے ‘‘۔فیاض
نے مجا ور کو گھورتے ہو ئے کہا ۔
مجاورنے اس طرح
کھنکار کر گلا صا ف کیا جیسے کچھ کہنا چا ہتا ہو
لیکن خلاف تو قع اس نے فیاض کے سینے پر ایک زور دارٹکر ماری اور اچھل کر
بھا گا ۔فیاض چا روں خا نے چت گرا۔
سنبھلنے سے پہلے اُس کا دا ہنا ہاتھ ہولسڑ سے ریوا لور نکال چکا تھا…مگر بیکار۔مجاور نے قبر میں چھلا نگ لگا دی تھی۔
فیاض اُٹھ کر قبر کی
طرف دوڑا لیکن مجا ور کے کمرے میں پہنچ کربھی اُس کا نشان نہ ملا ۔فیاض عمارت کے باہر نکل آیا ۔ڈیوٹی کا نسٹیبل بد ستور اپنی جگہوں پر مو جود تھے
۔انھوں نے بھی کسی بھا گتے ہوئے آدمی کے
متعلق لا علمی ظاہر کی ۔ان کا خیال تھا کہ عمارت سے کوئی باہر نکلا ہی نہیں ۔
اچا نک اُسے عمران کا
خیال آیا ۔آخر وہ کہاں گیا تھا۔کہیں یہ
اُسی کی حرکت نہ ہو ۔اس خفیہ خا نے میں کیا چیز تھی۔اب سارے معا ملات فیاض کے ذ ہن
میں صاف ہو گئے تھے ۔لاش کا
راز ‘تین زخم ۔جن جا در میانی فا صلہ پا نچ پا
نچ انچ تھاٰ…دفعتاًاس کے شا
نے پر کسی نے ہاتھ ر کھ دیا ۔ فیاض چو نک کر مُڑا ۔عمران کھڑا بُری
طرح منہ بسور رہا تھا۔
’’تو یہ تم
تھے‘‘۔فیاض نے اُسے نیچے اُوپر تک گھو رتا ہو ابولا ۔
’’میں تھا نہیں بلکہ ہوں ۔تو قع ہے کہ ابھی دو چار دن زندہ رہوں
گا‘‘۔
’’وہاں سے کیا نکا
لا تم نے‘‘۔
’’چوٹ ہو گئی پیا رے
فر ہاد ‘‘۔عمران بھرّائی ہوئی آواز میں بولا ۔’’وہ مجھ سے پہلے ہی ہاتھ صاف کر گئے ۔میں نے تو بعد میں ذرا اس خفیہ خانے کے میکنزم پر غور کرنا چا ہا
تھا کہ ایک کھٹکے کو ہا تھ لگا تے
ہی قبر تڑخ گئی‘‘۔
’’لیکن وہاں تھا
کیا؟‘‘
’’وہ بقیہ کا غذات جو ا س چرمی ہینڈ بیگ میں نہیں تھے۔‘‘
’’کیا ! اَرے اُو احمق ‘ پہلے ہی کیوں نہیں بتا یا تھا ‘‘ فیاض ا پنی پیشا نی پر ہا تھ مار کر بولا۔’’لیکن وہ اندر گھسے کس طرح ؟‘‘
’’آؤ دکھا ؤں
‘‘۔عمران ایک طرف بڑھتا ہو ابولا ۔وہ فیاض
کو عمارت کے مغر بی گو شے
کی سمت لایا۔یہاں دیوار سے ملی ہو ئی قدِآدم جھا ڑیاں تھیں
۔عمران نے جھا ڑیاں ہٹا کر ٹا رچ
روشن کی اور فیاض کا منہ حیرت سے کھلا
کا کھلا رہ گیا ۔دیوار میں اتنی بڑی
نقب تھی کہ ایک آدمی بیٹھ کر با
ٓ سا نی
اُس سے گز ر سکتا تھا۔
’’یہ تو بہت بُرا ہو
ا‘‘۔فیاض بڑ بڑایا ۔
’’اور وہ پہنچا ہو ا فقیر کہاں ہے
؟‘‘ عمران نے پو چھا۔
’’وہ بھی نکل گیا ۔لیکن تم کس طرح اندر پہنچے‘‘۔
’’اسی را ستے سے ۔آج ہی مجھے ان جھا ڑیوں کا خیال آیا تھا‘‘۔
’’اب کیا کرو گے ‘‘۔فیاض نے
بے بسی سے کہا۔
’’ بقیہ کا غذات بھی
وا پس کر دوں گا ۔بھلا آ دھے
کا غذات کس کام کے ۔جس کے پا س بھی
رہیں پو رے رہیں ۔اس کے بعد میں باقی زندگی گزارنے
کےلیے قبر اپنے نام الاٹ کر الوں گا‘‘۔
13
عمرانکے کمرے میں فون کی گھنٹی بڑی دیر سے بج رہی
تھی۔وہ قر یب ہی بیٹھا ہو اکو
ئی کتاب
پڑھ رہا تھا ۔اُس نے گھنٹی کی طرف
دھیان تک نہ دیا ۔پھر آخر جب
گھنٹی بجتی ہی چلی گئی تو کتا ب
میز پر پٹخ کر ا پنے نوکر سلیماکو پکا
رنے لگا ۔
’’جی سر کار ۔‘‘
سلیمان کمرے میں داخل ہو کر بولا ۔
’’ابے یہ دیکھ ،کون
اُ لّو کا پٹھا گھنٹی بجا رہا ہے ۔‘‘
’’ سر کا ر فون ۔‘‘
’’فون ‘‘۔ عمران چو
نک کر فون کی طرف دیکھتا ہو ابولا ۔‘‘ اُسے اُ ٹھا کر سڑک پر پھینک دے۔‘‘
سلیمان نے ریسیوراٹھا
کر اس کی طرف بڑھا دیا ۔
’’ہیلو !‘‘ عمران ماؤ
تھ پیس میں بو لا ۔’’ہاں …ہاں عمران نہیں تو
کیا کُتّا بھو نک رہا ہے ‘‘۔
’’تم کل رات ر یس
کورس کے قر یب کیوں نہیں ملے‘‘۔ دوسری طرف سے آواز آئی ۔
’’بھا گ جاؤ گد
ھے ‘‘۔ عمران نے ما ؤ تھ پیس پررکھے بغیر سلیمان سے کہا ۔
’’کیاکہا ‘‘۔دو سری
طرف سے غرا ہٹ سنا ئی دی ۔
’’اُوہ !و ہ تو
میں نے سلیمان سے کہا تھا …میر ا نو کر ہے …ہاں تو آپ بتا سکتے
ہیں کہ میں پچھلی رات کو ریس کو رس کیوں نہیں گیا ‘‘
’’میں تم سے پو چھا
رہا ہو ں‘‘۔
’’تو سنو میرے دو ست !‘‘ عمران نے کہا
۔’’ میں نے اتنی محنت مفت میں نہیں
کی …ہینڈ بیگ کی قیمت دس ہزار رو پے
لگ چکی ہے ۔اگر تم کچھ بڑھو تو میں
سودا کر نے کو تیار ہوں ‘‘۔
’’شا مت آ گئی ہے
تمہا ری ‘‘۔
’’ہاں ! ملی تھی !
مجھے پسندآئی ‘‘۔عمران نے آنکھ مار کر کہا
۔
’’آج را ت اور انتظار
کیا جا ئے گا ۔اس کے بعد کل کسی وقت
تمہاری لاش شہر کے کسی گڑ میں بہہ رہی ہو
گی‘‘۔
’’اَرے باپ !تم نے
اچھا کیا بتادیا ۔اب میں کفن سا تھ لیے
بغیر گھر سے با ہر نہ نکلو ں گا ‘‘۔
’’میں پھر سمجھا تا ہوں ‘‘۔دوسری طرف سے آوا ز آئی ۔
’’سمجھ گیا ‘‘۔عمران
نےبڑی سعادت مندی سے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا ۔
اُس نے پھر کتا ب اٹھالی اوراس طرح مشغول ہو گیا جیسے
کوئی بات ہی نہ ہو ۔ تھوڑی د یر بعد گھنٹی پھر بجی ۔عمران نے ریسیورا ُٹھا
لیا اور جھلّا ئی ہو ئی آواز میں بولا
۔’’اب یہ ٹیلیفون کسی یتیم خا نےکو پر یز
نٹ کر دوں گا ۔سمجھے۔ میں بہت ہی مقبول آدمی
ہوں …کیا میں نے مقبول
کہا تھا ۔مقبول نہیں مشغول آدمی ہوں ‘‘۔
’’تم نے
ابھی کسی رقم کی بات کی
تھی‘‘۔دوسری طرف سے آواز آئی ۔
’’قلم نہیں فا ؤنٹیں
پن‘‘۔عمران نے کہا۔
’’وقت مت بربادکرو
‘‘۔دوسری طرف سے جھلاّ ئی ہو ئی آواز آئی
۔’’ہم بھی اس کی قیمت دس ہزار لگا تے ہیں ‘‘۔
’’و یری گڈ ‘‘۔ عمران
بولا ۔چلو تو یہ طے رہا ۔بیگ تمہیں مل جا ئے گا‘‘۔
’’آج رات کو ‘‘۔
’’کیا تم مجھے اچھی
طرح جا نتے ہو ‘‘۔عمران نے پو چھا ۔
’’اُسی طرح جیسے پہلی انگلی دوسری انگلی کو جا نتی ہے‘‘۔
’’گڈ‘‘۔عمران چٹکی بجا کر بولا ۔’’تو تم یہ بھی جا نتے
ہو گے کہ میں ازالی احمق
ہوں‘‘۔
’’تم؟‘‘
’’ہاں میں ۔ریس کورس
بڑی سنسان جگہ ہے ۔اگر بیگ لے کر تم نے
مجھے ٹھا
ئیں کر دیا تو میں کس سے فر یاد کروں
گا۔‘‘
’’ایسا نہیں ہو
گا۔‘‘دوسری طرف سے آواز آئی ۔
’’میں بتاؤں ۔تم اپنے
کسی آدمی کو رو پے دے کر ٹپ ٹاپ نائٹ کلب بھیج دو ۔میں مدھو
بالا کی جوانی کی قسم کھا کر کہتا ہو کہ بیگ وا پس کر دوں گا
۔‘‘
’’اگر کو ئی شرارت ہو ئی تو۔‘‘
’’مجھے مر غا بنا
دینا۔‘‘
’’اچھا ! لیکن یہ
یادر ہے کہ تم وہاں بھی ریوالور کی نال پر رہوگے۔‘‘
’’فکر نہ کرو
۔میں نے آج تک ریوالور کی شکل ہی نہیں د
یکھی ۔‘‘
عمران نے ریسیور
اسٹینڈ پر رکھ دیا اور جیب میں چیو نگرم کا
پیکٹ تلا ش کر نے لگا۔
14
ٹھیک آٹھ بجے عمران اپنے بغل
میں ایک چرمی ہینڈ بیگ دبائے ہوئے
ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں پہنچ گیا
۔قریب قریب ساری میزیں بھری ہو ئی تھیں ۔عمران نے بار کے قریب کھڑے ہو کر مجمع کا جا ئزہ لیا
۔آخر اس کی نظریں ایک میز پر رُک
گئیں ۔جہاں لیڈی جہا نگیر ایک نو
جوان کے سا تھ بیٹھی زردر نگ کی شراب
پی رہی تھی۔عمران آہستہ آہستہ چلتا ہو
امیز کے قریب پہنچ گیا ۔
’’آہا…مائی لیڈی ‘‘۔وہ قدرے
جھک کر بولا ۔
لیڈی جہا نگیر نےدا ہنی بھوں چڑھا کر اُسے تیکھی
نظروں سے دیکھا اور پھر مسکرا نے لگی۔
’’ہل…لو …عمران …‘‘ وہ اپنا دا ہنا ہا تھ
بڑھا کر بو لی ۔’’تمہارے سا تھ وقت بڑا اچھا کٹتا ہے۔یہ ہیں مِس نسیم
۔خان بہادر ظفرتسنیم کی صا حبزادی اور یہ علی عمران …‘‘
’’ایم۔ایس۔سی ۔پی
۔ایچ ۔ڈی ‘‘ عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔
’’بڑی خوشی ہو ئی آپ
سے مل کر ‘‘۔ تسنیم بولی ۔لہجہ بے وقوف
بنانے کا سا تھا۔‘‘
’’مجھے افسوس ہو ا۔‘‘
’’کیوں!‘‘لیڈی جہا
نگیر نے حیرت زدہ آواز میں کہا ۔
’’میں سمجھتا تھا کہ
شا ئد ان کا نام گلفام ہو گا۔‘‘
’’کیا بے ہو د گی ہے
۔‘‘لیڈی جہا نگیر جھنجھلا گئی ۔
سچ کہتا ہو ں ۔مجھے
کچھ ایسا ہی محسوس ہو ا تھا ۔ تسنیم ان کے
لیے قطعی موزوں نہیں ۔یہ تو کسی ایسی لڑکی
کا نام ہو سکتا ہے جو تپِ دق میں مبتلا ہو ۔تسنیم بس ’’م‘‘ کی طرح کمر جھکی ہو ئی
۔‘‘
’’تم شائد نشے میں ہو
۔‘‘لیڈی جہا نگیر نے بات بنا ئی ۔’’لو اور پیو۔‘‘
’’فا لودہ ہے
۔‘‘عمران نے پو چھا ۔
’’ڈیر تسنیم ۔‘‘لیڈی
جہا نگیر جلدی سے بولی ۔’’تم ان کی باتوں
کا برا مت ماننا۔بہت پُر مذاق آدمی ہیں …عمران …بیٹھو نا۔‘‘
’’بُرا ما نے کی کیا بات ہے ۔‘‘عمران ٹھنڈی سا نس لے کر بولا
۔’’میں اُ نھیں زندگی بھر گلفا م کے نام سے یا د رکھوں گا۔‘‘
تسنیم بری طرح جھینپ
رہی تھی اور شا ئد اب اسے اپنے رو یے پر
افسوس بھی تھا۔
’’اچھا ۔میں چلی ۔ ‘‘تسنیم اُٹھتی
ہو ئی بولی ۔
’’میں خود چلا
۔‘‘عمران نے اُ ٹھنے کا ارادہ ظا ہر کر تے ہو ئےکہا ۔
’’ما ئی ڈیرس !تم دو
نوں بیٹھو !‘‘ لیڈی جہا نگیر دونوں کے ہا
تھ پکڑ کر جھو متی ہو ئی بولی ۔
’’نہیں ! مجھے ایک
ضروری کا م یاد آ گیا ہے ۔تسنیم نے آہستہ
سے اپنا ہا تھ چھڑاتے ہو ئے کہا اور وہاں
سے چلی گئی۔
’’آئی ایم
ساری!‘‘عمران نے کہا اوراس کی نظریں قریب ہی کی ایک میز کی طرف اُٹھ گئیں جہاں ایک
جا نی پہچانی شکل کا آ د می اُسے گھو ررہاتھا ۔عمران نے ہینڈ بیگ میز پر سے اُٹھا
کر بغل میں دبا لیا ۔پھر دفتعاً سا منے
بیٹھا ہو اآدمی اُسے آنکھ ما رکر
مسکرا نے لگا۔جواب میں عمران نے باری با ری سے دو نوں آنکھیں ما ر دیں ۔لیڈی جہا نگیر اپنے گلاس کی طرف دیکھ
رہی تھی اور شا ئد اس کے ذہن میں کوئی
اتنہا ئی رُومان انگیز جملہ کلبلا
رہا تھا۔
’’میں ابھی آیا ۔‘‘عمران نے لیڈی جہا نگیر سے کہا اور اس
آدمی کی میز پر چلا گیا۔
’’لا ئے ہو ۔‘‘ اُس
نے آ ہستہ سے کہا
’’یہ کیا رہا ۔‘‘عمران نے ہینڈ بیگ کی طرف
اشارہ کیا ۔پھر بولا ۔’’تم لا ئے
ہو۔‘‘
’’ہاں آں ۔‘‘اُس آدمی
نے اپنے لا ئے ہوئے ہینڈ بیگ پر ہا
تھ رکھتے
ہو ئے کہا ۔
’’تو ٹھیک ہے ۔‘‘عمران
نے کہا ۔’’اُسے سنبھا لو اور چپ چاپ کھسک جاؤ۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘وہ اُسے
گھورتا ہو ا بولا۔
’’کپتان فیاض کو مجھ پر شبہ ہو گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ
اُس نے کچھ آدمی میری نگرانی کے لیے مقر کر دیئے ہوں۔‘‘
’’کوئی چال۔‘‘
’’ہر گز نہیں ۔آ ج کل
مجھے رو پیوں کی سخت ضرورت ہے ۔‘‘
’’اگر کوئی چال ہوئی
تو تم بچو گے نہیں ۔‘‘آدمی ہینڈ بیگ لے کر
کھڑا ہو گیا۔
’’یاررو پئے میں نے
اپنا مقبرہ تعمیر کرا نےکے لیے نہیں حا صل کئے ۔‘‘ عمران نے آہستہ سے کہا پھر وہ آدمی کو باہر جاتے دیکھتا
رہا ۔اُس نے ہو نٹوں پر شرارت آمیز
مسکرا ہٹ تھی ۔وہ اس آدمی کا دیا ہوا ہینڈ
بیگ سنبھا لتا ہوا پھر لیڈی جہا نگیر کے پاس آ
بیٹھا۔
15
وہآدمی ہینڈ بیگ لئے
ہوئے جیسے ہی با ہر نکلا
کلب کی کمپا ؤ نڈ کے پار ک میں سے دو آدمی اُس کی طرف بڑھے ۔
’’کیا رہا ۔‘‘ ایک نے پو چھا۔
’’مل گیا ۔‘‘بیگ وا لے نے کہا ۔
’’کا غذات ہیں
بھی یا نہیں ۔‘‘
’’میں نے کھول کر
نہیں دیکھا ۔‘‘
’’گدھے ہو ۔‘‘
’’وہاں کیسے کھول کر
دیکھتا۔‘‘
’’لاؤ …اِدھر لاؤ۔‘‘اُس نے
ہینڈ بیگ اپنے ہا تھ میں لیتے ہو ئے
کہا ۔پھر وہ چو نک کر بولا ۔’’ اُوہ!یہ
اتنا وزنی کیوں ہے ؟‘‘
اس نے بیگ کو کھو لنا چا ہا ۔لیکن
اس میں قفل لگا ہوا تھا ۔
’’چلے یہاں سے
۔‘‘تیسرا بولا ۔’’ یہاں کھو لنے کی ضرورت نہیں ۔‘‘
’’کمپا ؤنڈ کے باہر
پہنچ کر وہ ایک کار میں بیٹھ گئے ۔اُن میں سے ایک
کار ڈرائیو کر نے لگا۔
شہر کی سڑکوں سے گز رکر کا رایک ویران
را ستے پر چل پڑی
۔آبادی سے نکل آ نے کے بعد انھوں نے
کار کے اندر روشنی کردی۔
ان میں سے ایک جو کا نی معمر تھا اپنے
دو نوں سا تھیوں سے زیادہ طا قتور معلوم ہو
تا تھا ایک پتلے سے تار کی مدد سے
ہینڈ بیگ کا قفل کھو لنے لگا اور پھر جیسے
ہی ہینڈ بیگ کا قفل فلیپ اٹھا یا گیا پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے
دو نوں آدمی بے سا ختہ اُ چھل پڑے ۔کوئی چیز بیگ سے اُ چھل کر ڈرا
ئیور کی کھو پڑی سے ٹکرائی اور کار سڑک کے
کنا رے کے ایک درخت سے ٹکراتے بچی
۔رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ورنہ کار کے
لڑ جا نے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں
رہ گیا تھا ۔ تین بڑے بڑے مینڈک کا ر میں اُ چھل رہے تھے۔
بوڑھے آدمی
کے حلق سے ایک مو ٹی سی گالی نکلی
اور دوسرا ہنسنے لگا۔
’’شٹ اَپ
‘‘بوڑھا حلق کے بل چیخا ۔’’تم گدھے ہو ! تمہا ری ہی بدو لت …‘‘
’’جناب میں کیا کرتا
۔ میں اُسے وہاں کیسے کھو ل سکتا تھا ۔اس
کا بھی تو خیال تھا کہ کہیں پو لیس نہ لگی ہو ۔‘‘
’’بکواس مت کرو ۔میں
پہلے ہی اطمینان کر چکا تھا ۔وہاں پو لیس کا کوئی آدمی نہیں تھا ۔ کیا
تم مجھے معمو لی آد می سمجھتے ہو۔اب اس لو نڈ ے کی موت آ گئی ہے …اے …تم گا ڑی روک دو
۔‘‘ کار رُک گئی ۔
بو ڑھا تھوڑی دیر تک کچھ سو چتا رہا
پھر بولا ۔’’ کلب میں اُس کے سا تھ اور کون تھا ۔‘‘
’’ایک خو بصورت سی
عورت ۔دونوں شراب پی رہے تھے۔‘‘
’’ غلط ہے ۔
عمران شراب نہیں پیتا۔‘‘
’’پی رہا تھا جناب۔‘‘
بو ڑھا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا ۔
’’چلو ! وا پس چلو
!وہ کچھ دیر بعد بولا ۔’’میں اسے وہیں کلب
ہی میں مار ڈا لو ں گا۔‘‘
کار پھر شہر کی طرف
مڑی۔
’’میرا خیال ہےکہ وہ
اب تک مر چکا ہو گا۔‘‘بو ڑھے کے قریب
بیٹھے ہو ئے آدمی نےکہا ۔
’’نہیں ‘ وہ تمہاری
طرح احمق نہیں ہے ۔‘‘ بوڑھا جھنجھلا کر
بولا ۔’’اُس نے ہمیں دھو کہ دیا ہے تو
خود بھی غا فل نہ ہو گا۔‘‘
تب تو کلب ہی سے چلا
گیا ہو گا ۔‘‘
بحث مت کرو۔‘‘بوڑھے
نے گر ج کر کہا ۔’’میں اُسے ڈھو نڈ کر مار دوں گا خوا ہ وہ اپنے گھر ہی میں کیوں نہ ہو ۔‘‘
16
عمران چند لمحے بیٹھا رہا
‘ پھر اُٹھ کر تیزی سے وہ بھی با ہر نکلا اور اُس نے کمپا ؤنڈ کے با ہر ایک کار کے اسٹارٹ ہو نے کی آواز سنی ۔ پھر وہ
اندر واپس آ گیا۔
’’کہاں بھا گتے پھر
رہے ہو ۔‘‘ لیڈی جہا نگیر نے پو چھا ۔اُس کی آ نکھیں نشے سے بو جھل ہو رہی تھیں ۔
’’ذرا کھا نا ہضم کر
رہا ہو ں۔‘‘عمران نے اپنی کلا ئی پر بند ھی گھڑی کی طرف دیکھتےہو ئے کہا
۔
لیڈی جہا نگیر آ نکھیں بند کر ہنسنے لگی۔
عمرن کی نظریں بد
ستور گھڑی پر جمی رہیں ۔وہ پھر اُٹھا ۔اب وہ ٹیلیفون بو تھ کی طرف جا رہا تھا ۔اُس نے ریسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کئے اور ما
ؤتھ پیس میں بولا ۔’’ہیلو سو پر فیاض …میں عمران بول رہا ہوں …بس اب روانہ ہو جاؤ۔‘‘
ریسیور ر کھ کر وہ پھر ہال میں چلا آیا ۔لیکن وہ اس بار
لیڈی جہا نگیر کے پا س نہیں بیٹھا ۔ چند لمحے کھڑا اِدھر اُدھر دیکھتا رہا ۔ پھر
ایک ایسی میز پر جا بیٹھا جہاں تین آدمی پہلے ہی سے بیٹھے ہو ئے تھے اور یہ تینوں اس کے شنا سا تھے ۔اِس لیے اُ نھوں نے
بُرا نہیں مانا ۔
شا ئد پندرہ منٹ تک
عمران اُن کےسا تھ قہقہے لگا تا رہا ۔لیکن
اس دوران باربار اُس کی نظریں دا خلے کے
دروازے کی طر ف اُٹھ کر جا تی تھیں ۔
اچانک اُسے دَروازے
میں بو ڑھا دکھا ئی دیا جس سے اُس نے چند روز قبل کا غذات والا ہینڈ بیگ
چھینا تھا ۔عمران اور زیادہ انہماک سے
گفتگو کرنے لگا لیکن تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنے دا ہنے شا نے میں کسی چیز کی
چبھن محسوس کی ۔اُس نے کنکھیوں سے دا ہنی
طرف دیکھا ۔بوڑھا اُس سے لگا ہو
اتھا اور اس کا با یاں ہا تھ کو ٹ کی
جیب میں تھا اور اسی جیب میں ر کھی ہو ئی کو ئی سخت چیز عمران کے شا نے میں چبھ
رہی تھی ۔عمران کو یہ سمجھنے میں
دشواری نہ ہوئی کہ وہ ریو الور کی نال ہی ہو سکتی ہے۔
’’عمران صاحب
!‘‘بوڑھا خوش اخلاقی سے بولا ۔’’کیا آپ چند منٹ کے لیے با ہر تشریف لے چلیں گے۔‘‘
’’اخاہ ! چچا جان!
‘‘عمران چہک کر بولا ۔’’ضرور ضرور ! مگر مجھے آپ سے شکا یت ہے اِس لیے آپ کو
بھی کو ئی شکا یت نہ ہو نی چا
ہیے۔‘‘
’’آپ چلئے تو !‘‘
بوڑھے نے مسکرا کر کہا ۔’’مجھےاُس گدھے کی حرکت پر افسوس ہے ۔‘‘
عمران کھڑا ہو
گیا لیکن اب ریوالور کی نا ل اس کے پہلو
میں چبھ رہی تھی ۔وہ دونوں باہر آئے ۔ پھر
جیسے ہی وہ پارک میں پہنچے بو ڑھے کے دو نوں سا تھی بھی پہنچ گئے ۔
’’کاغذات کہاں ہے
؟‘‘ بو ڑھے نے عمران کا کا لر پکڑ کر جھنجھوڑ تے ہو ئے کہا ۔
پا رک میں سنا
ٹا تھا
۔دفعتاً عمران نے بو ڑھے کا با یاں ہاتھ پکڑ کر
ٹھو ڑی کے نیچے ایک زور دار گھو نسہ رسید
کیا ۔بوڑھے کا ریو الور عمران کے ہاتھ میں تھا
اور بوڑھا لڑ کھڑا کر گرنے ہی وا
لا تھا کہ اُس کےسا تھیوں نے اُ سے سنبھا ل لیا ۔
’’میں کہتا ہوں وہ دس
ہزار کہاں ہیں ۔’’عمران نے چیخ کر کہا ۔
اچانک مہندی کی با ڑھ
کے پیچھے سے آٹھ دس آدمی اُ چھل کر ان
تینوں پر آپڑے اور پھر ایک خطر ناک جد و جہد کا آغاز ہو گیا ۔وہ تینوں بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے۔
’’سوپر فیاض ۔‘‘عمران نے چیخ کر کہا
۔’’داڑھی والا۔‘‘
لیکن داڑھی والا
اُچھل کر بھا گا ۔وہ مہندی کی با ڑھ پھلا نگنے ہی والا تھا کہ عمران
کے ریوالور سے شعلہ نکلا ۔
گولی ٹانگ میں لگی اور بو ڑھا مہندی کی با ڑھ میں پھنس کر رہ
گیا ۔
’’اَرے باپ رے باپ ۔‘‘ عمرا ن ریوالور پھینک کر اپنا منہ پیٹنے لگا۔
وہ دونوں پکڑے جا چکے تھے۔فیاض زخمی بوڑھے کی طرف جھپٹا جو اَب بھی بھا گ
نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا ۔فیاض نے ٹا نگ پکڑ کر
اُسے مہندی کی با ڑھ سے گھسیٹ لیا۔
’’یہ کون؟‘‘فیاض نے
اُس کے چہرے پر ٹارچ کی رو شنی ڈالی ۔فا
ئر کی آواز سن کر پارک میں بہت سے لوگ اکٹھا ہو گئے تھے ۔
بوڑھا بے ہوش نہیں ہو
اتھا ۔وہ کسی زخمی سا نپ کی طرح بل کھا
رہا تھا ۔ عمران نے جھک کر اُس کی مصنوعی دا ڑھی نوچ لی۔
’’ہائیں !‘‘فیاض
تقریباً چیخ پڑا ۔’’ ۔۔۔۔سر جہا نگیر‘‘۔
سر جہا نگیر نے
پھر اُٹھ کر بھاگنے
کی کو شش کی لیکن عمران کی ٹھو کر
نے اُسے با ز رکھا۔
’’ہاں ‘ سر جہا نگیر
!‘‘ عمران بڑبڑایا ۔’’ ایک غیر ملک کا جا سوس ۔قوم فروش ۔
غدّار۔‘‘
17
دوسرےدن کیپٹن فیاض
عمران کے کمرے میں بیٹھا اُسے تحیر آمیز نظروں سے گھوررہا
تھا اور عمران بڑی سنجیدگی سے کہہ رہا تھا ۔’’مجھے خو شی
ہے کہ ایک بہت بڑا غدار او روطن
فروش میرے ہا تھوں اپنے انجام کو پہنچا ۔بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ سر جہا نگیر جیسا معززا ور نیک آدمی
بھی کسی
غیر ملک کا جا سوس ہو سکتا ہے ۔‘‘
’’مگر وہ قبر کا مجاو ر و کون تھا ؟‘‘ فیا ض نے بے
صبری پو چھا ۔
’’میں بتاتا ہوں لیکن
در میا ن میں ٹو کنا مت ۔وہ بے چارا اکیلے ہی یہ مر حلہ طے کر نا
چا ہتا تھا لیکن میں نے اُس
کا کھیل
بگاڑد یا ۔ پچھلی رات وہ مجھے ملا
تھا ۔اُس نے پوری داستان دہرا ئی اور شائد
ہمیشہ کے لیے رو پوش ہو گیا ہو ۔اُسے بڑی ز بر دست شکست
ہو ئی ہے اوراب وہ کسی کو منہ نہیں دکھا نا چا ہتا۔‘‘
’’مگر وہ ہے کون؟‘‘
’’ایاؔز ۔ چو نکو
نہیں ‘میں بتا تا ہوں ۔ یہی ایاؔز وہ
آدمی تھا جو فا رن آ فس کے سکر یڑی کے
ساتھ کا غذات سمیت سفر کر رہا تھا ۔آ دھے
کا غذات اُس کےپاس تھے اور آدھے سکر یڑی
کے پاس ۔اُن پر ڈاکہ پڑا۔ سکر یڑی ما رڈالا گیا اور ایاؔز کسی طرح بچ نکلا
۔مجرموں کے ہاتھ صرف آدھے کا غذات
لگے ۔ایاؔز فارن کی سیکرٹ سروس کا آدمی
تھا ۔وہ بچ تو گیا لیکن اُس نے آفس کو رپورٹ نہیں دی ۔وہ دراصل
اپنے زمانے کا ایک ما نا ہو ا آدمی
تھا ۔اس لیے اس شکست نے اُسے مجبور کردیا کہ وہ مجرموں سے آدھے کا
غذات وصول کئے بغیر آفس میں نہ پیش ہو ۔وہ
جا نتا تھا کہ آدھے کا غذات
مجرموں کےکسی کا م کےنہیں۔وہ بقیہ آدھے کا غذات کے لیے اُسے ضرور تلاش کر
یں گے ۔کچھ دنوں کے بعد اس نے مجرموں کا
پتہ لگا لیا لیکن اُس کے سر غنہ کا سرا غ نہ مل سکا ۔وہ حقیقتاًسر غنہ ہی کو پکڑنا چا ہتا تھا ۔دن گزرتے گئے لیکن ایاز کو
کا میا بی نہ ہوئی ۔پھر اس نے ایک نیا جال بچھا یا ۔اُ س نے وہ عمارت خریدی اور اس
میں اپنے ایک وفادار نوکر کے ساتھ پُرا سر
ار طور پر زندگی بسر کر نے لگا۔اس دوران
میں اُس نے اپنی اسکیم کو عملی جا مہ پہنانے کے لیے
ایک قبر در یا فت کی اور وہ سارا
میکنزم تر تیب دیا ۔ اچانک اُسی زمانے میں
اُس کا نوکر بیمار ہو کر مر گیا ۔ایاز کو
ایک دوسری تدبیر سو جھ گئی۔ اس نے نو
کر پر اپنا میک اَپ کرکے اُسے دفن کر دیا اور خود اس کے بھیس میں رہنے لگا ۔ا س کا رروائی سے پہلے اُس نے
وہ عمارت قا نو نی طور پر جج صا حب کے نام
پر منتقل کردی اور صرف ایک کمرہ اپنے
لئے ر ہنے دیا ۔۔۔۔اس کے بعد ہی اس نے مجرموں کو اس عمارت کی طرف متو جہ
کرنا شروع کیا۔کچھ ایسے طریقے اختیار کئے کہ مجرموں کو یقین ہو گیا کہ مرنے والا
سیکرٹ سروس ہی کاآ دمی تھا اور
بقیہ کا غذات وہ اسی عمارت میں کہیں چھپا کر رکھ گیا ہے۔ابھی حال ہیں میں اُن لو
گوں کی رسا ئی اس کمرے تک ہو ئی جہاں ہم
نے لا شیں پا ئی تھیں۔ریوالور والے خفیہ خانے
میں مچ مچ کا غذات تھے ۔اس کا اشارہ بھی انھیں ایاز ہی کی طرف سے ملا تھا ۔جیسے ہی کو ئی آد می خفیہ خانے والی
دیوار کے قر یب پہنچتا تھا ، ایاز قبر کے تعو یذ کے نیچے سے ڈرا ؤ نی آوا زیں
نکا لنے لگتا اور دیوار کے قریب پہنچا ہوا آد می سہم کر دیو ار سے چپک جا تا ۔اُدھر ایاز قبر کے اندر سے میکنزم کوحر کت میں لا تا
اور دیوار سے تین چھریاں نکل کر اُس کی پشت
میں پیو ست ہو جا تیں ۔یہ سب اُس نے محض
سر غنہ کو پکڑنے کے لیے کیا تھا لیکن سر
غنہ میرے ہا تھ لگا ۔اب ایا ز شا ئد زندگی
بھر اپنے متعلق کسی کو کوئی اطلاع نہ دے اور کیپٹن فیاض …میں نے اُس سے وعدہ کیا ہے کہ اس کا نام کیس کے دوران میں کہیں نہ آپا ئے گا سمجھے اور
تمہیں میرے وعدے کا پاس کرنا پڑے گا اور تم اپنی رپو رٹ اس
طرح مر تب کرو کہ اس میں کہیں محبو بہ یک
چشم کا نام بھی نہ آئے ۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے ۔‘‘فیاض جلدی سے بولا ۔’’وہ دس ہزارروپے کہاں ہیں جو تم نے سر جہا نگیر سے
وصول کئے تھے ۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘عمران
اپنے دیدے پھرا کر بولا ۔’’آدھا آدھا با
نٹ لیں ۔کیوں ؟‘‘
’’بکواس ہے ‘اُسے
میں سر کا ری تحویل میں دے دوں گا ۔‘‘فیاض نے کہا ۔
’’ہر گز نہیں
۔‘‘عمران نے جھپٹ کر وہ چرمی بیگ اُٹھا لیا جو اسے پچھلی رات سر جہا نگیر کےایک آدمی سے ملا تھا ۔
فیاض نے اُس سے ہینڈ
بیگ چھین لیا اور پھر اُسے کھو لنے لگا۔
’’خبر دار …ہو شیا ر…‘‘ عمران نے چو کیدار وں کی طرح ہا نک لگا ئی لیکن فیاض ہینڈ بیگ کھول چکا تھا اور جو اس نے ’’اَرے باپ ‘‘ کہہ
کر چھلا نگ لگا ئی ہے تو ایک صو فے
پر جاکر پنا ہ لی ۔ہینڈ بیگ سے ایک
سیا رہ رنگ کا سا نپ نکل کر فرش پر رینگ رہا تھا ۔
’’اَرے خدا تجھے غارت
کرے ‘ عمران کے بچے…کمینے ۔‘‘فیاض صوفے پر کھڑے ہو کر دہا ڑا ۔سا نپ پھن کا ڑھ کر صوفے کی طر
ف لپکا ۔فیاض نے چیخ کر دوسری کرسی پر
چھلا نگ لگائی ۔کرسی اُلٹ گئی اور وہ منہ کے بل فرش پر گرا۔اس بارا گر عمران نے
پھرتی سے اپنے جو تی کی ایڑی سا نپ کے سر
پر نہ رکھ دی ہو تی تو اُس نے فیاض کو ڈس ہی لیا تھا ۔سا نپ کا بقیہ جسم عمران کی
پنڈلی سے لپٹ گیا اور اُسے محسوس ہو نے لگا جیسے
پنڈلی کی ہڈی ہی ٹوٹ جا ئے گی۔اُوپر
سے فیاض اُس پر گھو نسوں اور تھّپڑوں کی با رش کر رہا تھا ۔ بڑی
مشکل سےاُس نے دونوں سے اپنا پیچھا
چھڑایا۔
’’تم با لکل پا گل
ہو …دیوانے …و حشی ۔‘‘فیاض ہا نپتا ہو ا بولا ۔
’’میں کیا کروں جانِ
من ۔خیر ‘اب تم اسے سرکاری تحویل میں دے
دو ۔اگر کہیں میں رات کو ذرا سا
بھی چوک گیا ہو تا تو اس نے مجھے اللہ
میاں کی تحویل میں پہنچا دیا تھا۔‘‘
’’کیا یہ سر جہا نگیر …؟‘‘
’’ہاں !ہم دونوں میں مینڈ کوں
اور سا نپ کا تبا دلہ
ہو اتھا ۔‘‘ عمران نے کہا اور مغموم انداز میں چیو نگم چبانے
لگا اوراُس کے چہرے پر وہی پرانی
حما قت طا ری ہو گئی۔
0 Comments