Makhdoom Mohiuddin: Yadon Mein Basa Aadmi by Mujtaba Husain|مخدوؔم محی الدین : یادوں میں بسا آدمی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Makhdoom Mohiuddin: Yadon Mein Basa Aadmi by Mujtaba Husain|مخدوؔم محی الدین : یادوں میں بسا آدمی

مخدوؔم محی الدین : یادوں میں بسا آدمی

مجتبیٰ حسین
Makhdoom Mohiuddin: Yadon Mein Basa Aadmi by
Mujtaba Husain|

Makhdoom Mohiuddin: Yadon Mein Basa Aadmi by Mujtaba Husain|


پچیس  چھبیس برس اُدھر کی بات ہے، مخدوؔم محی الدین’’ انڈر گراؤنڈ‘‘ تھے اور میں مڈل اسکول کا طالب علم تھا۔ ان دنوں بھی مجھے اتنی ہی انگریزی اور اردو آتی تھی جتنی کہ آج آتی ہے۔ لہذا میں اپنے تئیں  ’’انڈر گراؤنڈ ‘‘  کا آسان ترجمہ "زیر زمین‘‘  کر کے گھنٹوں حیران رہا کرتا تھا کہ مخدؔوم بھائی آخر زیر زمین رہ کیا کرتے ہیں۔ مجھے تو وہ ’’یکے از معد نیات“ قسم کی کوئی چیز لگتے تھے۔ بھلا ایک آدمی کو خواہ خواہ  ’’زیر زمین ‘‘ جا کر رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ترجمے کی یہ غلطی مجھ سے بچپن میں سرزد ہوئی تھی مگر جب بڑے ہوئے تو کہیں پڑھا کہ پاکستان کے ایک شاعر سے ترجمے کی یہ غلطی تو عین جوانی میں سرزد ہو گئی تھی جن دنوں بنے بھائی یعنی سجاد ظہیر پاکستان میں پارٹی کی سرگرمیوں کے سلسلے میں روپوش تھے ، تاجکستان کے مشہور شاعر مرزا ترسون زادہ پاکستان کے دورے پر آئے اور ایک پاکستانی شاعر سے فارسی میں پوچھا۔ ’’ سجاد ظہیر کجا است؟“

 

پاکستانی شاعر نے بڑی روانی کے ساتھ فارسی میں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ” سجاد ظہیر زیرزمین است " یہ سنتے ہی مرزا ترسون زادہ کی آنکھوں میں کم و بیش اتنی ہی روانی کے ساتھ آنسو آ گئے ۔ بولے ’’ یہ کب ہوا؟ ہمیں تو کچھ بھی پتہ نہ چلا، آخر انہیں کیا بیماری ہو گئی تھی ؟“ پاکستانی شاعر کو اچانک اپنی فارسی دانی کا احساس ہوا تو ہاتھوں اور بھنوو ؤں کے اشارے سے مابقی فاری بولتے ہوئے مرزا ترسون زادہ پر’’ زیر زمین‘‘  اور’’ روپوش ‘‘ ہونے کے نازک فرق کو واضح کیا۔ اسی طرح مخدوؔم بھی میرے لئے ایک عرصہ تک ’’ زیر زمین ‘‘  ہی رہے اور کسی نے میری غلط فہمی دور نہیں کی۔

 

پھر جب ہم نے شعور سنبھالنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ مخدوؔم بڑی تیزی سے ہمارے شعور کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ پھر حصہ بنتے بنتے وہ مکمل شعور ہی بن گئے۔ مخدوؔم سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ میرے ایک دوست مخدوؔم کے مجموعہ کلام "سرخ سویرا‘‘  کو رحل پر رکھ کر نہ صرف پڑھا کرتے تھے ، بلکہ مطالعہ کے دوران میں آگے اور پیچھے جھولتے بھی تھے۔ ہے کوئی شاعر جس کا کلام اس طرح پڑھا گیا ہو؟

 

 صاحبو، وہ بھی کیا دن تھے۔ ہر صبح بستر سے جاگتے ہی آسمان پر نظر جاتی تھی کہ کہیں "سرخ سویرا  ‘‘تو نہیں آ گیا۔ جی چاہتا اپنے ملک میں بھی ایک عدد’’ انقلاب روس“ لے آئیں۔ انقلاب کے انتظار میں سگریٹیں پی پی کر کئی راتیں گزاریں۔ ہمارا سوشلزم وہی تھا جو مخدوؔم اور فؔیؔض کی شاعری، کرشن چندر کے افسانوں، سجاد ظہیر اور سردار جعفری کی تحریروں کے وسیلے سے ہم تک پہنچا تھا۔ یہ خالصتاً اردو سوشلزم تھا مگر ہم حیدر آبادیوں کے لئے مخدوؔم صرف شاعر اور دانشور نہیں تھے بلکہ بہت کچھ تھے۔ مخدوؔم کی زیر زمین رہنے کی عادت کی وجہ سے ان کی شخصیت کے اطراف ایک عجیب سا سحر پیدا ہو گیا تھا۔ یار لوگوں نے ان کے بارے میں باتیں بھی کچھ ایسی پھیلا رکھی تھی کہ کبھی کبھی مخدوؔم ایک مافوق الفطرت شئے دکھائی دیتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ مخدوؔم بیک وقت چار مختلف مقامات پر موجود رہتے ہیں۔ اگر چار بجے ورنگل میں مزدوروں کے ایک خفیہ جلسہ سے خطاب کر رہے ہیں تو ٹھیک اسی وقت نلگنڈہ میں ایک زمین دار کی زمین کسانوں میں بانٹ رہے ہیں۔ اور پھر ٹھیک اس سمے  حیدرآباد کے ایک محلے میں اپنے ایک دوست کو اپنی تازہ نظم سنار ہے ہے۔ اور پھر اسی وقت ۔اب خیر جانے بھی دیجئے ، ایسی باتیں کہاں تک سنائی جائیں۔ مخدوؔم کے بارے میں اس قسم کے انکشافات کو سن کر ہمارے کمسن اور نو خیز خون کی جو حالت ہوتی ہوگی اس کا اندازہ آپ خود بھی لگا سکتے ہیں۔ خون رگوں میں ابلا پڑتا تھا جسے بعد میں مخدوؔم کے کلام کے ذریعہ ہیں ٹھنڈا کیا جاتا تھا۔ علاج بالمثل اس کو کہتے ہیں۔ اس وقت تک مخدوؔم کو نہیں دیکھا تھا حالانکہ ان کے ہر جگہ (Omni Present) ہونے کی اتنی ساری افواہیں سن رکھی تھیں ۔

 

 پھر یوں ہوا کہ مخدوؔم جب قید سے رہا ہوئے تو ہمیں اطلاع ملی کہ وہ شاہ آباد میں مزدوروں کے ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لئے آرہے ہیں۔ ان دنوں میں گلبرگہ انٹر میڈیٹ کالج میں پڑھتا تھا۔ جس شاعر کا کلام اپنے لئے وظیفہ تھا اور جس کی تصویر سدادل کے آئینے میں رکھی رہتی تھی ، اس کے شاہ آباد آنے کی اطلاع ملی تو رگوں میں خون کچھ اس زور سے ابلا کہ میں اور میرا وہ دوست جو’’ سرخ سویرا‘‘  کو رحل پر رکھ کر پڑھا کرتا تھا اسٹیشن کی طرف بھاگے۔ معلوم ہوا کہ شاہ آباد جانے والا مدراس میل ابھی جا چکا ہے۔ انکوئری سے پوچھا کہ شاہ آباد کا یہاں سے کتنا فاصلہ ہے؟

 

جواب ملا 25 کلو میٹر ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ آج عشق آتش نمرود میں کود پڑے گا اور 25 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرے گا ۔ اپنے جنون کی کہاں تک تشہیر کی جائے ، یہ ہماری زندگی کی پہلی اور آخری ’’ لانگ مارچ  ‘‘ تھی ۔ مگر شاہ آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ مخدوؔم آئے بھی اور چلے بھی گئے ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ماتھے پیٹ کر چپ ہور ہے۔ مگر مخد وؔم مافوق الفطرت شئے تو تھے ہی۔ انہیں غالباً کسی غیبی طاقت نے بتادیا تھا کہ گلبرگہ میں دور روحیں ان سے ملنے کے لئے بے تاب ہیں۔ لہذا پندرہ دن بعد مخدوؔم گلبرگہ چلے آئے ۔ مزدوروں کے کسی جلسے کو مخاطب کرنے ۔ جلسے کے بعد کالج کے نوجوانوں نے انہیں گھیر لیا۔ مجھے یاد ہے وہ پورے چاند کی رات تھی۔ ایسا روشن چاند ہم نے زندگی میں پھر کبھی نہیں دیکھا۔ گلبرگہ کے مومن پورہ میں ایک بزرگ کے مزار کے سامنے ایک چبوترے پر مخدوؔم ہم نوجوانوں کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ آدھی رات بیت چکی تھی اور مخدوؔم ہم سب کو اپنا کلام سنا رہے تھے " سوخ سویرا " تو ہمیں زبانی یاد تھا ہی لہذا ہم نے کہا" مخدوؔم بھائی اپنا کوئی غیر مطبوعہ کلام سنا یئے" نہس کر بولے " میں غیر مطبوعہ کلام نہیں کہتا ہمیشہ مطبوعہ کہتا ہوں۔“

 

پھر میں حیدرآباد آیا۔ مخدوؔم سے ان گنت ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر یوں ہوا کہ کئی برس بعد ایک دن میں پروفیسر حسن عسکری اور مخدوؔم حیدر آباد کے ویکا جی ہوٹل میں بیٹھے تھے ۔ مجھے مخدوؔم سے ملنے کا وہ پہلا اور اچھوتا اشتیاق یاد آیا۔ میں نے مخدوؔم سے کہا۔’’ مخدوؔم بھائی آپ کو یہ نہیں کہ کئی برس پہلے آپ سے ملنے کے لئے میں اور میرے ایک ساتھی نے گلبرگہ سے شاہ آباد تک پیدل سفر کیا تھا۔"

 

یہ سنتے ہی نہایت راز داری کے انداز میں بولے ’’ اچھا تو اب ملو۔ بتاؤ کیا کام تھا تمہیں مجھ سے؟ کوئی خاص بات تھی کیا ؟"

 

مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ میں نے کہا " مخدوؔم بھائی، اب تو مجھے یاد نہیں رہا کہ میں اس وقت آپ سے کیوں ملنا چاہتا تھا۔ زندگی کے سفر میں بہت باتیں ، بہت سی خواہشیں اور بہت سےکام یوں ہی اوجھل ہو جاتے ہیں ۔‘‘

 

 بولے ’’یاد کر کے بتانا۔ تمہارا حافظہ خاصا کمزور ہوتا جارہا ہے۔ اور ہاں آئندہ کبھی پیدل چلنے کی غلطی نہ کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر مخدوؔم نے زور دار قہقہ لگایا ( مجھے آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ مخدوؔم نے یہ قہقہہ مجھ پر لگایا تھا یا اپنے آپ پر۔ بعض قہقہوں کے مبدا کا سراغ لگانا بہت دشوار ہوتا ہے ) اپنی بات کو ختم کر کے مخدوؔم نے مجھ سے حسن عسکری سے زور دار مصافحے کئے ۔ ان کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی چبھتا ہوا فقرہ کہتے ، جووہ اکثر کہتے تھے اور مذاق کی کوئی بات کرتے ، جو وہ اکثر کرتے تھے تو مخاطب سے مصافحہ  ضرور کر لیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی مخدوؔم  روبرو ہوتے تو میں بائیں ہاتھ سے سگریٹ پیتا تھا اور دائیں ہاتھ کو مصافحے کے لئے محفوظ رکھتا تھا۔ ایک بار مجھے اور مخدوؔم کو ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لئےبمبئی  جانا پڑ گیا۔ حیدرآباد کے اسٹیشن پر میں پہنچا تو میرے ایک ہاتھ میں اٹیچی کیس تھا اور دوسرے میں ہولڈال۔ مخدوؔم نے مجھے دیکھتے ہی مصافحہ والا فقرہ کہہ دیا اور میں نے اٹیچی کیس کو نیچے رکھ کر ان سے مصافحہ کیا۔ پھر انہوں نے تابڑ توڑ کئی بار، با مصافحہ فقرے کہہ کر مجھ سے اٹیچی کیس کو نیچے رکھوایا۔ میں ان کے فقروں سے ایسا الرجک ہوا کہ ابھی وہ آدھا فقرہ ہی کہتے تھے کہ میں اٹیچی کیس کو نیچے رکھ دیتا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر بولے’’ بیٹا اب تو تم میرے ایسے فقروں پر بھی اٹیچی  کیس کو نیچے رکھنے لگے ہو جن پر میں مصافحہ نہیں کرتا ۔ تم خود ورزش کرنا چاہتے ہو تو کرو۔"

 

یہ کہہ کر مجھے اٹیچی کیس نیچے رکھنے کا حکم دیا۔ مصافحہ کیا اور بولئے " خبر دار جواب کبھی اٹیچی کیس نیچے ر کھا۔ ‘‘ اور اس کے بعد پھر مصافحے کی منزل آگئی۔

 

مخدوؔم کی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کے بے شمار واقعات مجھے یاد ہیں۔ اپنا مذاق آپ اڑانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک بار علی الصبح اور ینٹ ہوٹل میں پہنچ کر بیرے سے پوچھا’’نہار ی ہے؟"

 

بیرا بولا ’’ نہیں ہے۔“

مخدوؔم نے پوچھا’’  آملیٹ ہے؟"

بیرا بولا ’’  نہیں ہے۔“

مخدوؔم نے پوچھا " کھانے کے لئے کچھ ہے؟"

بیرا بولا " اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہے۔"

اس پر مخدوؔم بولے یہ ہوٹل ہے یا ہمارا گھر کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے ۔“

 

ان کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی نئی غزل کہتے تو اسے سنانے کے لئے دوڑ پڑتے تھے۔ اپنی اس عادت سے متعلق خود ہی ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے۔ ایک دن ان سے غزل ہو گئی تو فورا اور ینٹ ہوٹل چلے آئے کہ کوئی مائی کا لال مل جائے تو اسے غزل سنائیں۔ یہاں کوئی نہ ملا تو "صبا" کے دفتر چلے گئے ۔ وہاں بھی کوئی نہ ملا۔ تھک ہار کر چائینز بار میں چلے گئے ۔ بار کے بیرے قاسم کو بلا کر کہا ’’دو پیگ وہسکی لے آؤ ۔ ‘‘قاسم وہسکی لے آیا تو اس سے بولے ’’بیٹھو اور وہسکی پیو۔‘‘ قاسم شرما تا رہا مگر وہ مصر ر ہے۔ اس نے کھڑے کھڑے ہسکی پی لی۔ پھر بولے ’’دو پیگ وہسکی اور لے آؤ۔‘‘ دوسرے دور میں بھی انہوں نے قاسم کی وہسکی پلائی۔ پھر تیسرا دور چلا۔ اس کے بعد مخدوؔم نے قائم سے کہا:

 

اچھا قاسم، اب میرے سامنے بیٹھو، میں تمہیں اپنی تازہ غزل کے کچھ شعر سناناچاہتا ہوں۔ "

یہ سنتے ہی قاسم نے کہا " صاحب، آپ بہت پی چکے ہیں۔ آپ کی حالت غیر ہو رہی ہے۔ چلئے میں آپ کو گھر چھوڑ آؤں۔"

 

 مخدوؔم کہا کرتے تھے کہ اپنی ہوش مندی کے ہزار ثبوت پیش کرنے کے باوجود قاسم نے اس رات ان کی غزل نہیں سنی۔ یہ لطیفہ سنا کر خودہی ہنستےتھے اور مخاطب سے زور دار مصافحہ کرتےتھے۔

 

یہ لطیفہ بھی مخدوؔم ہی سنایا کرتے تھے جو ان کے دور رو پوشی سے متعلق ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار یہ اپنے ایک برہمن دوست کے گھر روپوش ہو گئے۔ ان کا برہمن دوست بھی پارٹی کا ممبر تھا۔ ان کے دوست نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ’’ مخدوؔم بھائی میرے والد بڑے قدامت پرست ہیں۔ اسی لئے ان پر کبھی یہ ظاہر نہ کرنا کہ آپ براہمن نہیں ہیں۔ اپنی برہمنیت کی لاج رکھنا۔“

 

 ایک دن ان کے دوست کے والد نے مخدوؔم سے کہا’’ بھئی تم لوگ کمیونسٹ پارٹی میں ہو، تمہارے دھرم کا کائی بھروسہ نہیں، کہیں تم گوشت تو نہیں کھاتے ؟“

 

مخدوم نے جھٹ سے کہا " لا حول ولا قوۃ یہ آپ نے کیسے سوچ لیا کہ میں گوشت کھاتا ہوں ۔ نعوذ باللہ یہ تو مجھ پر سرا سر تہمت ہے۔“

 

اس نان ویجیٹرین جملے کے بعد ان کی روپوشی کا کیا بنا اس کے بارے میں مخدوؔم کچھ نہیں کہتے تھے۔ وہ جہاں خوش مذاقی اور شگفتہ مزاجی کا پیکر تھے وہیں عقیدے کے معاملے میں بے حد سنجیدہ ہو جاتے تھے۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ ہنستے کھیلتے سیٹی بجاتے خوش خوش اور ینٹ ہوٹل آتے مگرٹیبل پر بحث کے بعد جب جانے لگتے تو مٹھّیاں بھنچی ہوتی تھیں۔ منہ سے کف نکل رہا ہوتا تھا اور آنکھوں سے شعلے برس رہے ہوتے تھے۔ اس اعتبار سے مخدوؔم بہت احتیاط سے برتنے کی چیز تھے۔ ذرا کوئی چوک گیا اور مخدوؔم کی مٹھّیا ں بھنچ  گئیں۔

 

 ان کے انتقال سے دو برس پہلے کی بات ہے۔ حیدرآباد میں ایک عظیم الشان مشاعرہ بر پا تھا۔ مخدوؔم ڈائس پر بیٹھے تھے اور ایک شاعرہ مائک پر کلام سنارہی تھیں۔ ڈائس کے نیچے ایک لحیم شحیم شخص نشہ میں دھت بیٹھا شاعرہ کو گھورے جار ہا تھا۔ پھر اس کے جی میں نہ جانے کیا آئی کہ اس نے اچانک شاعرہ کی طرف چھلانگ لگائی۔ مخدوؔم نے بھی چیتے کی سی پھرتی کے ساتھ اس شخص کی طرف چھلانگ لگائی۔ سیکنڈوں میں اس شخص کو ڈا ئس سے نیچے گرایا اور اس کے سینے پر سوار ہو گئے۔ میں کیسے بتاؤں کہ میں پچیس برس بعد مخدوؔم کے اندر چھپے ہوئے انقلابی کو پھر ایک بار سرگرم عمل دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی ۔ لوگوں نے مخدوؔم کی اس ادا کی داد بھی اسی طرح دی جس طرح ان کے کلام پر دیا کرتے تھے۔

 

وہ چھوٹوں کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ حیدرآباد کے کتنے ہی ادیبوں اور شاعروں کی ذہنی تربیت انہوں نے کی۔ سلیمان اریبؔ، عزیز قیسی ، اقبال متین، وحید اختر، جیلانی بانو، انور معظم، آمنہ ابوالحسن ، شاذ تمکنت، عائق شاہ، عوض سعید اور مغنی تبسم یہ سب مخدوؔم سے متاثر تھے۔ وہ میری بھی ہر قدم پر ہمت افزائی کرتے تھے۔ چنانچہ مجھے  ’’مسخر " کہہ کر پکارتے تھے۔ اب اس سے زیادہ کوئی میری ہمت افزائی کر کے دکھا دے۔ اردو کے مسخروں یعنی مزاح نگاروں کی پہلی کل ہند کانفرنس ہوئی تو اس کا افتتاح انہوں نے ہی فرمایا۔ میرے مضامین کے پہلے مجموعے کی رسم اجراء بھی انہوں نے ہی از راہ تمسخر انجام دی تھی۔

 

ادیبوں سے وہ الجھتے بھی تھے ۔ اس معاملہ میں وحید اختر پر ان کی بڑی نظر عنایت رہا کرتی تھی۔ کبھی کبھی دوستوں کو جان بوجھ کر چھیڑتے بھی تھے ۔ ایک رات سلیمان اریبؔ کے گھر پر حیدر آباد کے مشہور آرٹسٹ سعید بن محمد سے کہا " شاعری ، مصوری سے کہیں زیادہ طاقتور میڈیم ہے۔‘‘

 

سعید بن محمد نے برش بکف جواب دیا ’’ مصوری اور شاعری کا کیا تقابل ۔ شاعری میں تم جو چیز بیان نہیں کر سکتے ہم رنگوں اور فارم میں بیان کر دیتے ہیں۔ تم کہو تو میں ساری اردو شاعری کو پینٹ کر کے رکھ دوں۔"

مخدوؔم بولے ” ساری اردو شاعری تو بہت بڑی بات ہے، تم اس معمولی مصرعے کو ہی پینٹ کر کے دکھا دو ۔ ع

’’پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے"

 

سعید بن محمد بولے’’ یہ کونسی مشکل بات ہے، میں کینوس پر گلاب کی ایک پنکھڑی بنادوں گا ‘‘

بو لے’’پنکھڑی گلاب کی تو پینٹ ہو گئی مگر ’سی‘ کو کیسے پینٹ کرو گے ؟"

سعید بن محمد بولے " سی بھی بھلا کوئی پینٹ کرنے کی چیز ہے؟"

مخدوؔم بولے مصرعے کی جان تو 'سی' ہی ہے۔ سعید آج میں تمہیں جانے نہیں دوں گا جب تک تم 'سی' کو پینٹ نہیں کرو گے۔“

 

یہ سنتے ہی سعید بن محمد وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

 مجھے اس وقت مخدوؔم کا وہ مضمون یاد آ رہا ہے جو انہوں نے حیدرآباد کے اردواد بیوں اورشاعروں کے بارے میں بہ زبان انگریزی ’’السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا ‘‘میں لکھا تھا۔ مضمون کا چونکہ پہلے سے اعلان ہو چکا تھا اس لئے جس دن ویکلی کا شمارہ حیدر آباد پہنچا، اردوادیبوں اور شاعروں نے دھڑا دھڑ اس کی کا پیاں خرید لیں۔ نیوز پیپر اسٹال والا سخت حیران کہ اردو شاعروں کو آج کیا ہو گیا کہ انگریزی کا رسالہ خریدے چلے جارہے ہیں۔ میں عابد روڈ سے گزر رہا تھا کہ حیدر آباد کے ایک بزرگ شاعر و یکلی  کا شمارہ ہاتھ میں پکڑے میرے پاس آئے اور کہنے لگے

’’بھئی اس میں مخدوؔم کا مضمون کہاں ہے بتاؤ ؟"

 

میں نے مخدوؔم کا مضمون نکال کر دکھایا تو بولے ’’اچھا اب یہ بتاؤ کہ اس میں میرا نام کہاں ہے؟ ‘‘

پہلے تو میں بڑی دیر تک اپنا نام مضمون میں تلاش کرتا رہا۔ یہ نہ ملا تو شاعر موصوف کا نام تلاش کرنے لگا۔ حسب توقع یہ بھی وہاں موجود نہ تھا۔ مگر اس بیچ مجھے ایک شرارت سوجھی۔ میں نے سلیمان اریؔب کے نام کےنیچے ایک لکیر کھینچتے ہوئے شاعر موصوف سے کہا۔ " لیجے قبلہ، یہ رہا آپ کا نام ۔"

 

شاعر موصوف و یکلی کے شمارے کو سینے سے لگائے خوش خوش چلے گئے ۔ تھوڑی دور جانے کے بعد مخدوم؟ انہیں مل گئے تو انہوں نے بڑی احسان مندی کے ساتھ مضمون میں ان کا نام شامل رکھنے کا شکر یہ ادا کیا۔

مخدوؔم نے کہا " قبلہ، آپ کو کس نے بتایا کہ آپ کا نام مضمون میں شامل ہے۔؟"

 وہ بولے’’ ابھی مجتبٰی نے مجھے بتایا ہے ۔“  

 

مخدوؔم بو لے ’’مولانا مجتبٰی کو بھی اتنی ہی انگریزی آتی ہے جتنی کہ آپ کو آتی ہے۔ جائیے جائیے ۔ آپ کا نام میں نے نہیں لکھا ہے۔"

 

اس مضمون کے بعد حیدر آباد کے کئی نوجوان ادیبوں کو مخدوؔم سے شکایت ہو گئی۔ ایک دن اور ینٹ ہوٹل میں یہی مضمون زیر بحث تھا۔ مخدوؔم بو لے ’’بھئی ادیب اور شاعر کو اپنے نام اور شہرت سے بے نیاز رہنا چاہیے۔ اس کا نام یا کلام چھپے یا نہ چھپے اسے تو بے تعلق رہنا چاہیے۔"

 

اس کے بعد بحث ختم ہو گئی اور دوسرے مسائل زیر بحث آگئے ۔ مگر اسی بیچ مجھے پھر ایک شرارت سوجھی۔ میں نے بالکل ہی بے نیاز ہو کر کہا " مخدوؔم بھائی ، آپ کی ایک نظم دلّی کے ایک رسالے کے تازہ شمارے میں بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔"

 

پوچھا۔ ’’ کونسے رسالے میں؟"

میں نے کہا ’’مجھے نام تو یاد نہیں مگر عابد روڈ کے بس اسٹاپ والے بک اسٹال پر ابھی ابھی میں یہ رسالہ دیکھ کر آرہا ہوں۔“

 

مخدوؔم تھوڑی دیر تو انجان اور بے تعلق بنے رہے۔ پھر اچانک کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے جیسا کہ ان کی عادت تھی۔ پھر بولے " اچھا اب چلتے ہیں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ تیز تیز قدموں سے باہر نکل گئے ۔

میرے ساتھ کچھ احباب بھی بیٹھے تھے۔ میں نے کہا۔ "مخدوؔم بھائی یہاں سے سیدھے بک اسٹال پر جائیں گے ، چلو ہم بھی چلیں ۔“

 

ہم لوگ بک اسٹال پر پہنچے تو مخدوؔم سچ مچ وہاں موجود تھے اور رسالوں کو الٹ پلٹ کر دیکھےرہے تھے۔ جوں ہی ہم پر ان کی نظر پڑی ، انہوں نے فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولے ” کیوں بےمسخرے‘ ہم سے بد معاشی کرتا ہے۔"

 

میں نے کہا " مخدوؔم بھائی، میں تو صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ شاعر اپنے کلام سے کس حد تک بے نیاز رہ سکتا

مخدوؔم کو حیدر آباد سے بے پناہ پیار تھا جسے وہ ہمیشہ’’ وطن مالوف“ کہا کرتے تھے۔ حیدرآباد مخدوؔم کے اندر تھا اور مخدوؔم حیدرآباد کے اندر۔ حیدرآباد کی گلی گلی میں ان کے چرچے تھے۔ حیدر آبادیوں نے انہیں ٹوٹ کر چاہا بھی۔ ڈاکٹر راج بہا در گوڑ نے تو اپنے گھر کا نام ہی " چنبیلی کا منڈوا ‘‘ رکھ چھوڑا تھا جو مخدوؔم کی ایک مشہور نظم کا عنوان ہے۔ لوگ اپنے گھروں کے نام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر گوڑ نے اپنے گھر کا عنوان رکھا تھا۔ اگر چہ اپنے گھر میں معنویت پیدا کرنے کے لئے چنبیلی کی بیل بھی لگارکھی تھی مگر اب بھی ان کے گھر میں  ’’چنبیلی کا منڈوا ‘‘کم اور مخدوؔم کی نظم زیادہ نظر آتی ہے۔

 

وہ ڈسپلن کے بڑے پابند تھے۔ سارا دن پارٹی کا کام کرتے اور شام کو تھوڑا سا وقت دوستوں میں گزارتے تھے ۔ جہاں احساس ہوا کہ وقت ضائع ہورہا ہے، جھٹ سے اٹھ جاتے تھے اور محفل سے غائب ، وہ  دنیا سے گئے بھی اسی طرح یعنی ایک دن چٹ سے چلے گئے۔

 

 آخری مرتبہ جب وہ دہلی جارہے تھے تو مجھ سے روز نامہ’’ سیاست ‘‘کے دفتر پر ملے۔ میں نے پوچھا۔ " مخدوؔم بھائی واپسی کب ہو گی ؟“

 

بو لے ’’یہ دو چار دن میں آجاؤں گا ۔“

 

 وہ بات کے بڑے پکے تھے۔ لہذا حیدر آباد واپس آئے مگر کچھ اس شان کے ساتھ کہ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کے کندھوں پر سوار تھے۔ سیاسی کامرانیوں کے بعد مخدوؔم کا ڈاکٹر گوڑ کے کندھے پر سوار ہونایا مخدوم کے کندھے پر ڈاکٹر گوڑ کا سوار ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ مگر اس بار وہ ڈاکٹر گوڑ کے کندھے پر سوار ہوئے تو نیچے نہیں اترے، ہمیشہ کے لئے سب کے دلوں میں ایک زخم بن کر اتر گئے ۔ مخدوؔم کے جنازے میں ہزاروں لوگ دھاڑیں مار مار کر رور ہے تھے۔ ایسا جنازہ کسی شاعر اور وہ بھی اردو شاعر کو بھلا کہاں نصیب ہوگا ۔ اور یوں وہ پھر’’ زیر زمین ‘‘ چلے گئے ۔ مگر اس بار وہ  ’’ زیر زمین " جاتے ہوئے اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے گئے ۔ اپنا سب کچھ دنیا کو سونپ گئے ۔ اپنی شاعری ، اپنا عقیدہ ، اپنی باتیں، اپنے لطیفے، اپنی یادیں، غرض سب کچھ ۔

 

مخدوؔم کے بارے میں اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ مخدوؔم ایک انسان نہیں تھے جیتا جاگتا سانس لیتا ہوا شہر تھے ۔ اس شہر کی ہم نے برسوں سیر کی ، ہم سب اس شہر میں آباد تھے۔ اس شہر میں کتنی سڑکیں تھیں ، کتنی گلیاں تھیں، کتنے موڑ تھے اور یہ سب راستے انسانیت اور سچائی کی طرف جاتے تھے۔     


Post a Comment

0 Comments