بھیانک
آدمی
ابنِ صفی
Bhayanak Aadmi By Ibn-e-Safi
1
رُوشی اُسے
بہت دیر سے دیکھ رہی تھی۔وہ شام ہی ہوٹل میں داخل ہو اتھا اور سات بج رہے
تھے۔سمندر کی طرف سے آنے والی ہو ئیں کچھ بوجھل
سی ہو گئی تھیں۔
جب وہ ہوٹل میں داخل ہو اتھا تو ررو شی کی میز
کے علاوہ اور ساری میزیں خالی پڑی تھیں
لیکن اب ہو ٹل میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔
وہ ایک خو بصورت اور جامہ
زیب نو جوان تھا لیکن یہ کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی جس کی بناء پر روشی اُس کی طرف متوجہ ہو سکتی اسی ہو ٹل میں اس نے درجنوں خو بصورت آدمیوں کے ساتھ
سینکڑوں راتیں گزاری تھیں اور اس کی و ہ حس کبھی کی فنا ہو چکی تھی جو صنف
قوی کی طرف متوجہ ہو نے پر اُکستا تی ہے۔
روشی ایک اینگلو بر میز
عورت تھی......کبھی لڑکی بھی رہی
ہو گی لیکن یہ اَب پر انی بات ہو چکی
تھی۔ یہ اسی وقت کی بات ہے جب سنگا پور پر جا پا نیوں نے بمباری کی تھی
اور جد ھر جس کے سینگ سما ئے تھے
بھا گ نکلا تھا۔رو شی چودہ سال کی ایک لڑکی تھی
۔ اس کا باپ سنگا پور کا ایک بہت بڑا تا جر تھا لیکن بہت بڑے تاجر کی بیٹی ہو نے کا یہ مطلب تو
نہیں کہ
رو شی تین دن کے فا قے کے بعد
ایک کپ چائے کے عو ض لڑکی سے عورت
نہ بن جا تی۔ہو سکتا ہے کہ اس کے باپ کو
ایک کپ چائے بھی میسر نہ آئی ہو
کیو نکہ اس میں لڑکی سے عورت بننے کی صلاحیت تو تھی نہیں...... بہر حال روشی اس کے
انجام سے آج بھی نا وا قف تھی اور اب وہ
پچیس سال کی ایک پختہ کا رعورت تھی لیکن
گیارہ سال قبل کی روشی نہیں تھی ۔چائے کا وہ کپ اُسے آج بھی یا دتھا او ر وہ اب تک ایک نہیں درجنوں آدمیوں کو ایک ایک کپ چائے کے لئے محتاج
کر چکی تھی۔
اب اس کے پاس ایک عمدہ
سا آرام دہ فلیٹ تھا ۔دنیا کی ساری
آسا ئشیں میسر تھیں اور اسے یقین
تھا کہ اب وہ کبھی فاقے نہ کرے گی۔
یہ ہو ٹل کا روبار کے لئے یوں
مناسب تھا کہ بندرگاہ یہاں سے
قریب تھی
اور دن رات یہاں غیر ملکوں کاتا ربندھا رہتا تھا جن میں زیادہ
تر سفید نسل کے لوگ ہوتے تھے اور
یہ ہو ٹل
چلتا بھی انہیں کے دم سے تھا،ورنہ عام شہری ادھر کا رخ بھی نہیں کرتے تھے مگر رو شی اس بنا پر بھی
اس نو جوان میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی کہ وہ کو ئی جہاز
راں نہیں تھا ۔
بات دراصل یہ تھی کہ
وہ جب سے آیا تھا قدم قدم پر اس سے
حماقتیں سرزرد ہو رہی تھیں ۔جیسے ہی ویٹر
نے پیشانی تک ہا تھ لے جا کر اسے سلام کیا
(اس ہو ٹل کے سارے ویٹر آنے والے گا ہکوں کو سلام کرنا ضروری خیال کر تے تھے خواہ وہ نئے ہو یا پرانے ) اس نے
بھی با قا عدہ طور پر نہ صرف ویٹر کے
سلام کا جواب دیا بلکہ مؤ دبا نہ انداز میں کھڑے ہو کر اس سے مصافحہ
بھی کرنے لگا اور کافی دیر تک اس
کے بال بچوں کی خیرت پو چھتا رہا۔
پہلے اُس نے
چائے منگائی اور خا موش بیٹھا رہا ،حتی کہ چائے
ٹھنڈی ہو گئی ...پھر ایک گھونٹ لے
کر بُرا سامنہ بنا نے کےبعد اُس نے
چائے واپس کرکے کا فی کا آرڈر دیا۔
کا فی شاید ٹھنڈی
چائے سے زیادہ بد مزہ معلوم ہو ئی
تھی ۔اُس نے کچھ اس قسم کے کا منہ بنا یا جیسے ابکائی
روک رہا ہو...پھر اُس نے کافی بھی واپس کردی اور پے درپے ٹھنڈے پانی کا گلاس چڑھا گیا۔
اندھیرا پھیل گیا اور ہوٹل
میں برق قمقمے روشن ہو گئے لیکن
اُس نوجوان نے شاید وہاں سے
نہ اُٹھنے کی قسم کھا ئی تھی ۔رو شی کی دلچسپی بڑھتی رہی ۔وہ بھی
اپنی جگہ پر جم سی گئی تھی ۔
رات کے کھانے کا
وقت ہو نے سےقبل ہی میز پوش تبدیل کر دئے گئے
اور میزوں پر تر وتازہ پھولوں کے ہر گلدان کے سا تھ ہی
ایسے گلاس بھی رکھے گئے جن میں نیپکن اُڑ سے ہو ئے تھے۔
اُس بے وقوف نو
جوان نے
اپنی کرسی پیچھے کھسکا لی تھی اور
ایک ویٹر اس کی میز بھی درست کر رہا تھا
ویٹر کے ہٹتے ہی وہ ایک گلاب کا پھول گلدان
سے نکال کر سو نگھنے لگا ۔وہ
خیالات میں کھو یا ہوا سا معلوم ہو رہا تھا
اور اُس نے ایک با ربھی اپنے گردو پیش نظر
ڈا لنے کی زحمت نہیں گوارا کی
تھی۔شاید وہ وہاں خود کو تنہا محسوس کر
رہا تھا ۔
رو شی اُسے
دیکھتی رہی اورااب وہ
نہ جا نے کیوں اُس میں خا ص قسم کی
کشش محسوس کر نے لگی تھی۔ اُس نے کئی بار وہاں سے اُٹھنا بھی چا ہا لیکن کا میاب
نہ ہوئی۔
اتنے میں کھا نے کا
وقت ہو گیا اور اُس نو جوان نے کھا نے کا آرڈردیا ۔پھول ابھی تک اس کی چٹکی میں
دبا ہوا تھا جسے وہ کبھی سو نگھنے لگتا اور کبھی آنکھیں بند کر کے اس طرح اُس سے
گال سہلانے لگتا جیسے ضرور تاً ایسا کر
رہا ہو ۔
کھانا میز پر چن دیا گیا لیکن وہ بدستور بے حس و حرکت بیٹھا
رہا ۔وہ اب بھی کچھ سو چ رہا تھا اور ایسا
معلوم ہو رہا تھا جیسے ویٹر کے آنے اور
کھا نے کی موجو د گی کا اُسے علم ہی نہ
ہو۔رو شی اب بھی اسے دیکھ رہی تھی۔اچانک اُس نے دیکھا کہ وہ گلاب کا پھول شور بے
میں ڈبورہا ہے اور پھر وہ اُسے چبا
بھی گیا ۔دوسرے ہی لمحے
اس نے اتنا برا سا منہ بنا یا کہ روشی کو بے ساختہ ہنسی آگئی۔اُس کے منہ سے کچلے ہو ئے پھول کے ٹکڑے پھسل پھسل کر گر رہے تھے۔
’’بوائے ‘‘اس نے رود ینے کے سے انداز میں ویٹر کو آواز دی
اور کئی لوگ چو نک کر اُسے گھورنے لگے ۔ڈائننگ
ہال اب کافی آباد ہو چکا تھا۔ شاید پانچ میزیں خالی رہی ہو ں گی۔
’’سب چوپٹ‘‘اُس نے ویٹر سے
گلو کیر آواز میں کہا ’’سب لے جاؤ...بل لاؤ...‘‘
’’ بات کیا ہے جناب
؟‘‘ ویٹر نے ادب سے پوچھا ۔
’’ہائے کچھ نہیں،سب مقدر کی خرابی ...آج کسی چیز میں بھی
مزہ نہیں مل رہا ‘‘نوجوان نے مسکین صورت بنا کر کہا ’’بل لاؤ۔‘‘
ویٹر برتن سمیٹ کر وا پس چلا گیا لیکن اُسے وا پس آنے میں
دیر نہیں لگی۔نوجوان نے طشتری میں رکھے ہو
ئے پر چے پر نظر ڈالی اور اپنی
جیبیں ٹٹولنے لگا...پھر د یکھتے ہی
دیکھتے اس کی جیبوں سے نو ٹوں کی کئی گڈیاں نکل آئیں جنہیں وہ میز پرڈالتا ہو ا کھڑا ہو گیا اور اب وہ اپنی اندرونی
جیبیں ٹٹول رہا تھا ۔آخر اس نے ایک کھلی ہو ئی گڈی نکالی اور سو کا ایک نوٹ کھینچ کر طشتری میں رکھ دیا ۔
رو شی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور وہ نوجوان بڑی ہی لا
پرو ا ئی سے میز پر پڑی ہوئی نوٹوں کی گڈیوں کو کوٹ کی جیبوں میں ٹھو س رہا تھا
۔روشی نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور اس نے دیکھا کہ ڈائننگ ہال کے سارے لوگ اس احمق
کو بری طرح سے گھوررہے ہیں اور اُسے
وہاں کچھ برے لوگ بھی دکھا ئی دیئے جو
للچائی ہوئی نظر وں سے احمق کو دیکھ رہے
تھے۔
رو شی اپنی جگہ سےاٹھی اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس نوجوان
کی میز کے قریب پہنچ گئی ۔وہ جانتی تھی کہ
اُس کا کیا حشر ہونےوالا ہے۔ ڈائننگ ہال
کے بعد دوسرے ہی کمرے میں
بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر جوا ہو تا تھا۔وہ جا نتی تھی کہ ابھی دو تین دلال اُسے
گھیر کر اس کمرے میں لے جائیں گے اور وہ چند گھنٹوں کے اندر ہی کو ڑی
کوڑی کو محتاج ہو جائے گا ۔
’’کہو طو طے اچھے تو ہو۔‘‘ رو شی نے نوجوان کے شا نے پر ہاتھ رکھ کر اتنے بے تکلفا نہ انداز میں
کہا جیسے وہ نہ صرف اس سے واقف
ہو بلکہ دو نوں گہرے دوست بھی ہوں ۔
نوجوان چو نک کر
اُسے احمقوں کی طرح دیکھنے لگا۔اُس کے ہونٹ کھلے ہو ئے تھے اور آنکھیں حیرت سے
پھیل گئی تھیں۔
’’اب تم کہو گے کہ میں نے تمہیں پہچانا ہی نہیں‘‘رو شی
اٹھلا کر بولی اور کر سی کھینچ کر بیٹھ گئی ۔دوسرے طرف قمار کے دلال ایک
دوسرے کو دیکھ کر مسکرارہے تھے۔
’’آہا...کیا تمہیں بولنا نہیں آتا‘‘رو شی پھر بولی۔
’’مم...وو...ہپ‘‘نوجوان ہکلا کر رہ گیا۔
’’تم شاید پاگل ہو‘‘۔وہ میز پر کہنیاں ٹکا کر آگے
جھکتی ہوئی آہستہ سے بولی‘‘اس خطر ناک علاقے
میں اپنی امارت جتانے پھرنے کا یہی
مطلب ہو سکتا‘‘
’’خطر ناک علاقہ‘‘نوجوان آنکھیں پھا ڑ کر کر سی کی پشت سے
ٹک گیا۔
’’ہاںمیرے طو طے
...کیا تم یہاں پہلی بار آئے ہو؟‘‘
نوجوان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’کیوں آئے ہو؟‘‘
’’اس نے یہیں ملنےکا وعدہ کیا تھا‘‘نوجوان نے شرما کر کہا۔
’’کس نے ،کیا کوئی
لڑکی ہے؟‘‘
نوجوان نے پھر سر ہلا دیا لیکن اس با ر اُس نے شرم کے
مارے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں۔وہ کسی
ایسی کنواری لڑکی کی طرح لجا رہا تھا جس
کے سامنے اُس کی شادی کا تذکرہ چھیڑ دیا گیا ہو
۔روشی نےا س پر ترحم آمیز نظر ڈالی
‘‘اگر اُس نے یہاں ملنے کا وعدہ کیا
تھا تو وہ کوئی اچھی لڑکی نہیں ہو
سکتی‘‘
’’کیوں ...؟‘‘نوجوان
چو نک کر بولا۔
’’لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم اتنے رو پے کیوں
سا تھ لئے پھر رہے ہو ؟رو شی نے اس
کے سوال کو نظر انداز کر تے ہو ئے پو چھا۔
’’جب تک اتنی ہی
رقم میری جیب میں نہ ہو میں گھر سے
با ہر نہیں نکلتا‘‘۔
اچانک ایک دلال نے رو شی
کو اشارہ کیا ۔غا لباً اس اشارے کا یہی مطلب تھا کہ اسے قمار خانے میں لے
چلو ...لیکن رو شی نے اُس کی طرف سے منہ
پھیر لیا ’’تب تو پھر ہو سکتا ہے کہ یہ تمہاری زندگی کی آخر ی رات ہو‘‘۔روشی نے
نوجوان سے کہا۔
’’کیوں خواہ مخواہ ڈرارہی ہو۔‘‘نوجوان خو فزدہ سی آواز میں بولا ‘‘ میں یو نہی بڑا بد نصیب آدمی ہوں۔پیٹ بھر کھا نا نہیں
کھا سکتا ۔کوئی چیز ٹھنڈی معلوم ہو تی ہے
اور کوئی چیز کڑوی ۔بڑا تھر ڈ کلاس ہو ٹل ہے ۔میرے نانا کے گاؤں والی
سرائے میں یہاں سے بدر جہا بہتر
کھا نا ملتا ہے۔‘‘
روشی اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھ کر رہ گئی ۔کچھ دیر خامو
شی رہی ،پھر نوجوان اُٹھتا ہوا بولا ’’اچھا
اب میں جا ؤں گا۔‘‘
’’شاید تم اس شہر کے نہیں ہو ‘‘۔روشی نے تشویش آمیز لہجے میں کہا۔
’’کیا تم غیب کی
بھی باتیں بتا سکتی ہو؟‘‘نو جوان کے لہجے
میں حیرت تھی۔‘‘وہ پھر بیٹھ گیا۔
’’یہاں سے نکلنے کے بعد
تمہیں سڑک تک پہنچنے کے لئے ایک
ویرانہ طے کر نا پڑئے گا ۔‘‘رو شی نے کہا
’’ہو سکتا ہے کہ تم چیخ بھی نہ سکوں اور کئی انچ لمبا ،ٹھنڈا لوہا تمہارے جسم میں
اُتر جا ئے۔‘‘
’’میں سمجھا ‘‘
’’تم با ہر مار ڈالے جا ؤگے بد ھو ‘‘رو شی دانت پیس کر
بولی۔’’کیا تم نےاس علاقے کی ہو لناک وارداتوں
کے متعلقاخبارات میں بھی نہیں پڑا۔۔۔۔؟‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا‘‘نوجوان نے بے چین سے پہلو بدل کر کہا۔
’’وہ لڑکی کس وقت آئے گی؟‘‘
’’اوہ ،اَب تو آٹھ بج گئے ۔اُس نے سات بجے ملنے کا مجھ سے
وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’تم اُسے کب سے جا نتے ہو؟‘‘
’’کل سے...‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ہاں ،ہاں کل سے ۔کل وہ مجھے ریلوئے ویٹنگ روم میں ملی تھی۔‘‘
’’اور تم آج دوڑے چلےآئے ،واقعی بُدھو ہو۔‘‘
’’بات یہ ہے ...کک...کہ...‘‘
’’فضول باتیں نہ کرو ۔تمہا رے لئے دو نوں صورتیں خطر ناک ہیں لیکن ایک میں جان جا
نے کا خدشہ نہیں ،البتہ لُٹ ضرور جاؤ گے۔‘‘
’’تمہاری کو ئی بات میری
سمجھ نہیں آرہی ۔‘‘
’’باہر پھیلے ہو ئے اندھیرے پر ایک خطر ناک آدمی کی حکومت ہے اور وہ آدمی بعض اوقات تفریحاً بھی
کسی نہ کسی کو ضرور قتل کر دیتا ہے ۔مگر
تم توسونے کی چڑیا ہو اس لئے تمہیں جان و
مال دو نوں سے ہاتھ دھو نے پڑیں گے۔‘‘
’’کس مصیبت میں پھنس گیا‘‘عمران نے گلو کیر آواز میں کہا ۔’’ جب تک میں نہ کہوں ،خا موشی
سے یہیں بیٹھے رہو‘‘رو شی نے کہا...
’’لیکن تم نے یہاں بھی کسی خطر ے کا تذکرہ کیا تھا ۔‘‘
’’یہاں تم لُٹ جاؤ گے پیارے طوطے ‘‘روشی نے مسکرا کر پلکیں جھپکا
تے ہو ئے کہا ۔‘‘ادھر جوا ہو تا ہے اور جو ئے خانے کے دلال تمہاری تاک میں
ہیں...‘‘
’’واہ ...واہ...احمق نے ہنس کر کہا ۔’’یہ تو بڑی اچھی بات
ہے ،میں تو جواکھیلنا پسند کروں گا۔مجھے وہا ں لے چلو‘‘
’’واہ...میں سمجھی ،تم یہاں جوا کھیلنے آئے ہو ۔‘‘
’’نہیں ...یہ بات نہیں...اُف ،وہ ابھی تک نہیں آئی ۔ارے بھئی قسم لے لو، میں جوا کھیلنے
کی نیت سے نہین آیا تھا ،مگر اب کھیلوں گا
ضرور ایسے مواقع روز روز نہیں ملتے۔
’’یعنی تم حقیقتاً جواری نہیں ہو۔‘‘
’’نہیں ۔میں یہ بھی
نہیں جا نتا کہ جوا کھیلا کس طرح جا تا
ہے۔‘‘
’’تب پھر کیسے کھیلو گے؟‘‘
’’بس کسی طرح...صرف
ایک بار تجربے کے لئے کھیلنا چا
ہتا ہوں۔سچ کہتا ہوں ،ایسا مو قع کبھی نہیں ملے گا۔‘‘
’’کیسا موقع...؟‘‘
’’بات یہ ہے ،احمق
آگے جھک کر راز دار نہ انداز میں
بولا۔’’نہ یہاں ڈیڈی ہیں اور نہ ممی...‘‘
روشی بے اختیار ہنس پڑی لیکن اُس نوجوان کے چہرے پر حماقت
آمیز سنجیدگی دیکھ کر خود بھی سنجیدہ ہو گئی اور نہ جانے کیوں اس وقت وہ خود کو
بھی بے وقوف سمجھنے لگی تھی۔
’’ڈیڈی اور ممی ، مجھے کڑی پا بندیو ں میں رکھتے ہیں لیکن
میں دنیا دیکھنا چا ہتا ہوں،میں اب بڑا ہو گیا ہوں نا...ہے کہ
نہیں ؟دیکھ لو ،وہ اب تک نہیں آئی۔‘‘
’’ میں تمہیں جوانہ کھیلنے دوں گی...سمجھے؟‘‘
’’کیوں واہ ،اچھی رہی ۔تم کون ہو مجھے روکنے والی ،میں نے
آج سے پہلے کبھی تمہیں دیکھا تک نہیں‘‘
’’تم جوا نہیں کھیلو گے ‘‘رو شی اپنا اوپری ہونٹ بھینچ کر
بولی۔
’’دیکھتا ہوں،تم کیسے رو کتی ہو مجھے‘‘
اتنے میں قمار خانہ کا ایک دلال اپنی جگہ سے اُٹھ کر اُن کی
میز کی طرف بڑھا صورت ہی سے خطر ناک آدمی معلوم ہو رہا تھا۔چہرے پر گھنی مو نچھیں
تھیں اور خفیف سے کھلے ہو ئے ہو نٹوں سےاس کے دا نت دکھا ئی دیتے تھے آنکھوں سے
زندگی جھا نک رہی تھی ۔وہ ایک کر سی کھینچ کر روشی کے سا منے بیٹھ گیا ،کیا یہ
تمہارا دوست ہیں؟‘‘اس نے رو شی سے پو چھا ۔
’’ہاں ‘‘روشی کے لہجے میں تلخی تھی۔
’’کیا پہلی بار یہاں آئے ہیں؟‘‘
’’ہاں ...ہاں...‘‘روشی جھلا گئی۔
’’ناراض معلو م ہو تی
ہو‘‘وہ لگاٹ کے سے انداز میں بولا۔
’’جاؤ...اپنا دھندا دیکھو،یہ جواری نہیں ہے‘‘
’’میں جواضرور کھیلوں گا ‘‘احمق نے میز پر گھو نسہ مارکر
کہا ‘‘تم مجھے نہیں روک سکتیں...سمجھیں‘‘۔
’’اوہ ،یہ بات ہے‘‘دلال روشی کو گھورنے لگا۔اُس کی آنکھو ں
میں کینہ توزی کی جھلک تھی ،پھر وہ احمق کی طرف مڑ کر بولا ’’نہیں مسٹر ،آپ کو
کوئی نہیں روک سکتا۔آپ جیسے خوش قسمت لوگ یہا ں سے ہزاروں روپے بٹور کر لے جا تے
ہیں اور آپ کی یہ کشا دہ پیشانی۔آہاہا...فتح مندی اور نصیب وری کی نشانی ہے میرے سا تھ آیئے۔میں آپ کو یہاں کھیلنے کےگر بتاؤں گا۔جیت پر صرف پندرہ فیصد کمیشن بولئے
ٹھیک ہے نا‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے یار‘‘احمق اس کے ہاتھ مارتا ہوا
بولا‘‘اُٹھو...‘‘
روشی وہیں بیٹھی رہ گئی اور وہ دونو ں اُٹھ کر قمار خانے کی
طرف چلے گئے۔
2
روشی خواہ
مخواہ بور ہو رہی تھی۔اُسے تکلیف پہنچی تھی۔نہ جا نے کیوں...؟وہ جہاں تھی وہیں
بیٹھی رہی۔اُس کے ذہن میں آندھیا ں سی اُٹھ رہی تھیں۔بڑی عجیب سی بات تھی۔آج اُس سے پہلی ملاقات تھی اور وہ
بھی زبر دستی کی...لیکن اُس کے باو جود بھی وہ محسوس کر رہی تھی جیسے اُس احمق کے
رو یے کی بنا پر برسوں پرانی دو ستی ٹوٹ گئی ہو۔اُس نے اُس کا کہنا کیوں نہیں مانا۔
اس کی بات کیوں رد کردی ؟پھر اسے اپنی حماقت پر ہنسی آنے لگی۔وہ کون ہے،کہاں سے
آیا ہے اور کل کہاں کو ہو گا؟ایسے آدمی کے لئے اس قسم کا جذبہ رکھنا
حما قت نہیں تو اور کیا ہے۔اس سے پہلے ایک نہیں سینکڑو ں آدمیوں سے وہ
مل چکی تھی اور انہیں اچھی طرح لو ٹتے وقت بھی اُس کے دل میں رحم کا جذبہ نہیں بیدار ہوا تھا لیکن اس احمق نوجوان کو دوسروں
کے ہاتھوں لٹتے دیکھ کر نہ جانے کیوں اُس کی انسانیت جاگ اٹھی تھی۔اسے ایسا محسوس
ہو رہا تھا جیسے اُس کا کوئی نالائق لڑکا اُس کا
دل تو ڑگیا ہو۔
’’جہنم میں جائے ‘‘وہ آہستہ سے بڑبڑ ائی اور ویٹر کو بلا کر
ایک پیگ وہسکی کا آرڈر دیا۔پھر اس نے اس طرح اپنے سر کو جھٹکا دیا جیسے اُس احمق کے تصور سے پیچھا چھڑانا چا ہتی ہو۔اُس ے سوچا کہ وہ چکنے کے بعد
یہاں سے اُٹھ ہی جا ئے گی لیکن اُٹھ جانے
کا تہیہ کر لینے کے باوجود بھی وہیں بیٹھی رہی،سو چتی رہی... اُسی احمق نوجوا ن کے
متعلق گھنٹہ گز رگیا اور پھر وہ اسے دوبارہ دکھا ئی دیا۔
وہ قمار خانے کے دروازے میں کھڑا اپنے چہرے سے پسینہ پو نچھ رہا تھا۔دونو ں کی نظریں ملیں اور وہ تیر
کی طرح اُس میز کی طرف آیا’’تم ٹھیک کہتی
تھیں‘‘وہ ایک کرسی پر بیٹھ کر ہا نپتا ہو ابولا میں نے تین ہزار روپے کھو
دیئے‘‘
روشی اُسے گھورتی رہی پر دانت پیس کر بولی’’جاؤ ...چلے جاؤ
،ورنہ اُلٹا ہاتھ رسید کر دوں گی‘‘
’’نہیں... میں نہیں جا ؤ ں گا ۔تم نے کہا تھا کہ با ہر خطر ہ ہے‘‘۔
رو شی خا مومش ہو گئی۔وہ کچھ سوچ رہی تھی۔
’’بتاؤ میں کیا کروں ؟‘‘ احمق نے پھر کہا ۔’’جہنم میں جاؤ۔‘‘
’’میں بھی کتنا گد ھا
ہوں‘‘احمق خود سے بولا ۔’’بھلا یہ بے چاری کیا بتا ئے گی ‘‘احمق کرسی سے اُٹھ گیا ۔روشی بری طرح جھلا ئی ہوئی تھی۔اُس نے ذراہ برابر بھی پروانہ کی ۔وہ اسے باہر جاتے دیکھتی رہی حتی
کہ وہ صدر دروازے سے گزر گیا۔
اچانک اُس کے خیالات کی روپلٹی اور وہ پھر اس کے لئےبے چین
ہوگئی۔اس کے ذہن میں باہر کے اندھیرے کا
تصور رینگنے لگا اور وہ مضطربانہ انداز میں کھڑی ہوگئی۔وہ سوچ رہی تھی ،پھر اسی
احمق کے متعلق سو چ رہی تھی ۔اُس نے صرف تین ہزار گنوائے تھے لیکن اس کے بعد بھی
اُس کی جیبوں میں کافی رقم ہوگی۔ وہ بڑے نوٹوں کی کئی گڈیاں تھیں۔یقیناً تیس چالیس
ہزار ،ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ۔
اس نے بڑی تیزی سے اپنا وینٹی بیگ اُٹھایا اور ہوٹل سے نکل
گئی۔باہر اندھیر ے کی حکمرانی تھی۔کافی فاصلے پر اُسے ایک تاریک سایہ نظر آرہا
تھا۔متحرک سایہ...جواس احمق کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ سامنے چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے اور
بائیں طرف گھنی جھاڑیوں کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہو اتھا۔سڑک تک پہنچنے کے لئے اُن
ٹیلوں کے درمیان سے گز ر نا ضروری تھا
لیکن مو جودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ وقت اُس کے لئے مو زوں نہیں تھا ۔خود
پولیس اس علاقے کو خطر ناک قر اردےچکی تھی
۔ روشی دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔کیوں نہ اُ س نے اُس کو اُدھر جا
نے سے باز رکھا؟ اُس نےاُسے وہ را ستہ کیوں نہ بتادیا جو بندرگاہ کی طرف جا تا
تھا۔
اب وہ اس الجھن میں پڑ گئی تھی کہ اُسے کس طرح آواز دے ۔وہ
اُس کے نام سے بھی وا قف نہیں تھی۔
اچا نک اُسے تھو ڑے ہی فا صلے پر ایک دوسرا سایہ دکھا ئی دیا جو پہلے سا ئے
کے پیچھے تھا اور یک بیک کسی ٹیلے
کی اوٹ سے نمودار ہو ا تھا۔ پھر اُس نے اُسے اگلے سائے پر جھپٹتے دیکھا اور وہ بے ساختہ چیخ کو
کسی طرح نہ دبا نہ سکی جو اس
کے سنبھلنے سے پہلے ہی سنا ٹے میں دور تک لہراتی چلی گئی تھی۔
دو نوں سائے گتھے
ہو ئے زمین پر گرے ...پھر ایک فائر کی
آواز ہوا اور ایک سایہ اچھل کر جھا ڑیوں کی طرف بھا گا ۔روشی بد حواسی میں
سیدھی دو ڑٰ چلی گئی ۔اُس نے تاروں کی چھاؤں میں ایک آدمی کو زمین پر پڑا دیکھا ۔ دو سرا غائب ہو چکا تھا۔اُسے
یقین تھا کہ وہ اُس احمق آدمی کے علاوہ
اور کو ئی نہیں ہو سکتا۔
’’کیا ہوا ۔؟‘وہ بوکھلا ئے انداز میں اُس پر جھک پڑی۔
’’نیند آرہی ہے ‘‘احمق
نے بھرائی ہوئی آواز میں جوا ب دیا ۔
’’اٹھو۔‘‘ وہ اُسے جھجھو ڑنے لگی‘‘بھا گو۔۔۔۔۔۔پوری طاقت سے
ہوٹل کی طرف بھا گو‘‘۔احمق اُچھل کر کھڑا
ہ وگیا او ر پھر اُس
نے بڑی
پھرتی سے رو شی کو کندھے پر لاد کر ہوٹل کی طرف بھا گنا شروع کر دیا۔روشی’’
ارے ارے ‘‘ ہی کرتی رہ گئی ۔پھر تھوڑی دیر
بعد دو نوں ایک دوسرے کےسامنے کھڑے ہانپ رہے تھے اور وہ ہوٹل کے صدردروازے کے قریب
تھے۔فائر اور چیخ کی آواز سن کر یہاں پہلے
ہی سے بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی۔
’’کہیں چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘روشی نے پو چھا ۔
’’چوٹ آئی نہیں بلکہ ہوگئی ۔میں اس وقت کوڑی کوڑی کو محتاج
ہو ں‘‘احمق نے کہا۔
ہو ٹل کا مینجر انہیں اندر لا یا اور سیدھا اپنے کمرے میں لیتا
چلا گیا‘‘ آپ نے بڑی غلطی کی‘‘اُس نے احمق سے کہا۔
’’ارے جناب ۔میں شام کو ادھر ہی سے آیا تھا‘‘
’’کیا آپ نے سڑک کے کنا رے لگے ہوئے بوڑد پر نظر نہیں ڈالی تھی جس پر تحریر ہے کہ سات بجے کے بعد اس طرف جا نے والو ں کی
جان ومال کی حفاظت نہیں کی جا سکتی ۔یہ بورڈ محکمہ پولیس کی
طرف سے نصب کرایا گیاہے‘‘
’’میں نے نہیں دیکھا تھا‘‘
’’کتنی رقم گئی ؟‘‘مینجر نے متا سفا نہ لہجے میں پو چھا۔
’’سینتالیس ہزار...‘‘
’’میرے خدا‘‘ مینجر کی آنکھیں متحیرانہ انداز میں پھیل
گئیں۔
’’اورتین ہزار آپ کے قمار خانے میں ہار گیا۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے ‘‘۔مینجر نے مغموم آواز میں کہا ’’مگر جوا
تو مقدر کا کھیل ہے ہو سکتا ہے کل آپ چھ
ہزار کی جیت میں رہیں‘‘
’’اٹھوں یہاں سے ‘‘روشی احمق کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہو ئی بولی۔
وہ مینجر کے کمرے سے باہر نکل آئے۔ایک بار پھر لوگ اُن کے
گرد اکٹھا ہو نے لگے تھے لیکن روشی اُسے اُن کے نرغے سے صاف نکال لے گئی۔
وہ دوسری طرف کے دروازے پیدل بندرگاہ کی طرف جا رہے تھے۔
’’کیو ں طوطے ،‘‘ اب کیا خیال ہے ؟‘‘ روشی نےاس سے پو چھا ۔
’’اب خیال یہ ہے کہ میں اپنے رو پے وصول کئے بغیر یہاں سے واپس نہیں جاؤں
گا۔پچاس ہزار کی رقم تھوڑی نہیں ہو تی‘‘۔
’’لیکن تم اتنی رقم
لے کر آئے ہی کیوں تھے؟‘‘
’’مجھے پچاس
بھینسیں خرید نی تھیں۔‘‘
’’بھینسیں؟‘‘
’’ہااں بھینسیں ...اور میں ا ن بھینسوں کے بغیر وا پس نہیں جا
سکتا کیونکہ میرے ڈیدی ذرا غصہ ور قسم کے آدمی ہیں۔‘‘
’’کیاوہ بھنیسوں کی
تجا رت کرتے ہیں؟‘‘
’’نہیں ...اُنہیں بھنیسو ں سے عشق ہے ‘‘احمق نے سنجیدگی سے کہا اور روشی بے ساختہ ہنس پڑی۔ ہائیں تم مذاق
سمجھتی ہو کیا !‘‘احمق نے حیرت سے کہا۔’’یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش زیادہ سے زیادہ بھینسیں دیکھ
کر بے حدخوش ہو تے ہیں۔‘‘
’’وہ اور کیا کر تے
ہیں؟ یعنی ذریعہ معاش کیا ہے؟‘‘
’’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم ‘‘
’’تم پاگل تو نہیں ہو؟‘‘رو شی نے پو چھا۔
’’پتہ نہیں۔ ‘‘
’’اب تمہارے پاس کتنی رقم ہے؟‘‘
’’شاید ایک چو نی ...رقم کی فکر نہ کرو ۔میں ایک ایک پائی
وصول کر لوں گا۔‘‘
’’کس سے...؟‘‘
’’جس نے چھینی ہے،اُس سے‘‘
’’طوطے ،تم بالکل گدھے ہو‘‘رو شی ہنسنے لگی ‘‘یہ پتہ نہیں
زندہ کیسے ہو۔وہ آدمی ایسے شکاروں کو زندہ نہیں چھوڑتا۔‘‘
’’وہ آخر ہے کون؟‘‘
’’کوئی نہیں جا نتا
۔پو لیس والے !اس علاقے میں قدم
رکھتے ہوئے تھراتے ہیں۔وہ اب تک نہ جا نے کتنے افسروں کو
جان سے مار چکا ہے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے...مگر میں اپنے روپے وصول کر لوں گا۔‘‘
’’کس طرح بڈھے طوطے؟‘‘
’’کل سر شام ہی ان جھاڑیوںمیں
چھپ جاؤں گا‘‘
رو شی بے تحاشہ ہنسنے لگی‘‘ طوطے تم سچ مچ پاگل ہو‘‘اس نے
کہا ۔یہ بتاؤ تمہارا قیام کہاں ہے؟‘‘
’’ہوٹل بنرا سکا میں‘‘
’’لیکن اب تمہاری
حیبیں خالی ہو چکی ہیں۔وہاں کیسے رہو گئے؟‘‘
’’اس کی فکر نہیں ۔وہاں سے کسی خیراتی مسافر خانے میں چلا جاؤ
ں گا لیکن بھینسوں کے بغیر وا پسی نا ممکن ہے۔‘‘
روشی خا موشی ہو گئی۔بندرگاہ کے قریب پہنچ کر اُس نے ایک
ٹیکسی رکوائی ۔’’چلو بیٹھو‘‘۔
’’مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
’’تو اب تم چا ہتے ہو کہ تمہیں کھا نا بھی کھلاؤں‘‘روشی
اُسے ٹیکسی میں دھکیلتی ہوئی بولی ۔وہ دونوں بیٹھ گئے اور ٹیکسی چل پڑی۔
’’تم یہ نہ سمجھو کہ میں مفلس ہوں۔میں نے یہ کہا تھا کہ
میری جیب میں ایک چو نی ہے،لیکن ٹہرو میں
اُلّو نہیں ہوں۔پردیس میں اپنا سارا روپیہ ایک جگہ جمع نہیں رکھتا‘‘
احمق خاموش ہو کر اپنے جوتے کافیتہ کھو لنے لگا۔اس نے دونوں جوتے
اتار دیئے او ر انہیں اُلٹا کر کے
جھٹکنے لگا۔دوسرے لمحے میں اُس کے ہاتھ پر نو ٹوں کی گڈیاں تھیں۔’’ یہ
ڈھائی ہزار ہیں‘‘احمق نے بڑی سادگی سے کہا۔
’’اگر اب میں انہیں ہتھیالو ں تو؟‘‘روشی مسکراکر بولی۔
’’تم ہر گز ایسا
نہیں کر سکتیں ،میں تمہیں ڈرادوں گا۔‘‘
’’ڈرادوگے۔؟‘‘
’’ہا ں ۔۔۔۔ میر ے پاس ریوالور ہے ؟،اس آدمی پر بھی
فائر میں نے ہی کیا تھا‘‘
’’کیا تمہارے پاس
لائسنس ہے؟‘‘
’’میں لا ئسنس وغیرہ کی پرواہ نہیں کر تا ...یہ دیکھو میں
جھو ٹ نہیں کہہ رہا ‘‘احمق نے جیب سے
ریوالور نکال کر رو شی کی طرف بڑھا یا اور
رو شی بے تحا شہ ہنسنے لگی۔ریوالور کی چرخی میں پٹاخو ں کی ریل چڑھی ہو ئی تھی اور وہ ساڑھے چار رو
پے والا ٹوائے ریوا لور تھا۔
’’طوطے ۔‘‘اُس نے سنجیدگی سے کہا’’میری سمجھ میں نہیں آتا
کہ تم آدمیوں کے کس ریوڑ سے تعلق رکھتے ہو۔‘‘
’دیکھو ...تم بہت بڑھتی جا رہی ہو‘‘احمق غصے میں بولا...’’ابھی تک تم مجھے
طو طا کہتی رہی ہو اور میں کچھ
نہیں بولا لیکن اب جا نور کہہ رہی ہو۔‘‘
’’نہیں میں نے جا نور تو نہیں کہا ۔‘‘
’’پھر ریوڑ کا اور کیا مطلب ہو تا ہے ؟بھینسیں میرے ڈیڈی کی
ایک کمزوری ہے،میری نہیں‘‘
’’پھر بھی تم طو طے سے
مشا بہت رکھتے ہو۔‘‘
رو شی نے
چھیڑنے وا لے انداز میں کہا ۔’’ ہر گز
نہیں رکھتا ۔تم جھوٹی ہو ۔تم اسے
ثابت نہیں کر سکتیں کہ میں طو طے سے مشا
بہت رکھتا ہوں۔‘‘
’’پھر کبھی ثا بت
کر دوں گی۔ یہ بتا ؤ کہ
تم...‘‘لیکن جملہ پورا ہو نے سے
قبل ہی اُس کی آواز ایک بے سا ختہ قسم کی
چیخ میں تبدیل ہو گئی ۔برابر سے
گزرتی ہو ئی ایک کار سے فا ئر ہو اتھا۔
’’رو کو ...ڈرائیو...رو کو‘‘احمق چیخا۔
کا ر ایک جھٹکے کے
سا تھ رک گئی ۔ڈرا ئیور پہلے ہی خو
فزدہ ہو گیا تھا۔ دو سری کا ر فراٹے
بھرتی ہوئی اندھیر میں گم ہو گئی ۔اس کی عقبی سرخ رو شنی بھی غائب تھی۔احمق رو شی پر جھکا ہوا تھا۔
’’عورت ...اےعورت آر...لل...لڑکی ‘‘وہ اُسے جھنجھور رہا تھا ۔روشی کی آنکھیں کھلی ہو ئی تھیں
اور وہ اس طرح ہا نپ رہی تھی جیسے
گھو نسلے سے گرا ہوا چڑیا کا بچہ ہا نپتا ہے۔عمران کے جھنجھورنے
پر بھی اُس کی منہ سے آواز نکلی
’’ارے کچھ بولو بھی ۔کیا گولی لگی ہے
؟‘‘
رو شی نے نفی میں
سر ہلا دیا۔
اور یہ حقیقت تھی کہ وہ صرف سہم گئی تھی۔اُس نے قریب سے گزرتی ہو ئی کار کی
کھڑکی میں شعلے کی لپک دیکھ لی تھی اور پھر فا ئر کی آواز سنی
تھی۔گولی تو شاید ٹیکسی کی چھت پر سے پھسلتی ہوئی دوسری طرف کل گئی تھی۔
’’یہ کیا تھا صاحب ؟‘‘ ڈرا ئیو ر نے سہمی ہو ئی آواز میں پو چھا۔
’’پٹا خہ ...‘‘احمق سر ہلا کر بولا‘‘میرے ایک شریر
دوست نے مذاق کیا ہے۔چلو آگے بڑھاؤ
ہاں...لیکن اندر کی رو شنی بجھا دو ورنہ
وہ پھر مذاق کر ے گا۔‘‘پھر وہ رو شی کا شا نہ
تھپکتا ہو ابولا ’’گھر کا پتہ بتاؤ تا کہ
تمہیں وہاں پہنچا دوں۔‘‘
رو شی سنبھل کر بیٹھ گئی ۔اُس کی سا نسیں ابھی تک چڑھی
ہو ئی تھیں۔
’’کیا یہ وہی ہو سکتا ہے؟‘‘احمق نے آہستہ
سے پو چھا۔
’’پتہ نہیں‘‘رو شی
ہا نپتی ہو ئے بولی۔
’’تواب یہ
مستقل طور پر پیچھے
پڑگیا؟احمق نے بڑے بھولے پن سے پو چھا۔
’’وہ ...طوطے ،اب میری زندگی بھی خطرے میں ہے۔‘‘
’’ارے تمہاری
کیوں‘‘
’’وہ پا گل ہے جس
کے پیچھے پڑ جائے ہر حال میں مار ڈالتا
ہے۔ایسے کیس بھی ہو چکے ہیں کہ بعض لوگ اُس کے پہلے حملے سے بچ جا نے کے بعد دو سرے
حملے میں مار ے گئے ہیں۔‘‘
’’آخر وہ ہے کو ن
اور کیا چا ہتا ہے، رو پے تو چھین چکا ،اب کیا چا ہئے؟‘‘
’’میں نہیں جا نتی کہ وہ کون ہے اور کیا چا ہتاہے۔بہر حال
یہ سب کچھ تمہا ری حما قتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔‘‘
’’یعنی تم چا
ہتی ہو کہ میں چپ چاپ مر جا تا
؟‘‘احمق نے بڑی سادگی سے سوال کیا۔
’’نہیں طوطے ...تمہیں اس طرح اپنی امارت کا اظہار نہیں کر
نا چا ہیئے تھا۔‘‘
’’مجھے کیا معلوم
تھا کہ یہاں کے لوگ پچاس ہزار جیسی حقیر رقم
پر بھی نظر رکھ
سکتے ہیں۔‘‘
’’تم اسے حقیر رقم کہتے ہو‘‘رو شی نے حیرت
سے کہا ۔’’ارے میں نے اپنی سا ری
زندگی میں اتنی رقم یک مشت نہیں
دیکھی ۔طو طے ،تم آدمی ہو یا
ٹکسال ...؟‘‘
’’چھو ڑو،اس تذکرے کو...تم
کہہ رہی تھیں کہ تم خود کو خطرے
میں محسوس کر رہی ہو‘‘۔
’’ہاں ،یہ حقیقیت ہے‘‘
’’کہو تو میں یہ رات تمہا رے ہی ساتھ
گزاروں؟‘‘
’’اوہو طو طے ،ضرور
..ضرور .ایک بات میں نے ضرور مارک کی ہے ۔تم بالکل طوطے
ہو نے کے باوجود بھی لا پروا ہ اور نڈر ہو لیکن تمہا را یہ ریوالور ابھی
تک میری سمجھ میں نہیں آسکا ۔‘‘
’’اچھا تو پھر ،میں
تمہا رے ساتھ ہی چل رہا ہوں لیکن کیا تمہارے گھر پر کچھ کھا
نے کو مل سکےگا؟‘‘
’’دیکھو...یہ رہا میرا چھو ٹا سا فلیٹ ‘‘روشی نے کہا۔
وہ دونوں فلیٹ میں داخل ہو چکے تھے اور احمق اتنے
اطمینان سے ایک صوفے میں گر گیا
تھا جیسی وہ ہمیشہ سے یہیں رہتا
آیا ہو۔۔۔۔!
’’یہ مجھےاُس صورت میں اور زیا دہ اچھا
معلوم ہو گا ۔اگر کھانے کو کچھ
مل جائے۔‘‘احمق نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اس کے لئے تمہیں
میرا ہاتھ بٹا نا پڑے گا۔میں یہاں تنہا
رہتی ہوں۔۔۔۔‘‘
تقریباًایک گھنٹے کے بعد وہ کھا نے کی میز پر تھے اور احمق بڑبڑھ کر ہاتھ ماررہا تھا۔’’اب مزہ آرہا ہے‘‘وہ
منہ چلا تا ہو ابولا’’اس ہو ٹل کے کھا نے
بڑے واہیات ہو تے ہیں‘‘
’’طو طے ...کیا تم
حقیقتاٍایسے ہی ہو،جیسے نظر آتے ہو؟‘‘وہ
اُسےغور سے دیکھنے لگی۔
’’میں نہیں سمجھا ‘‘احمق نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’کچھ نہیں...میں نے ابھی
تک تمہارا نام تو پو چھا ہی نہیں۔‘‘
’’تو اب پوچھ لو...لیکن
مجھے اپنا نام قطعی پسند نہیں ہے۔‘‘
’’کیا نام ہے؟‘‘
’’علی عمران ‘‘
’’کیا کرتے ہو؟‘‘
’’خرچ
کر تا ہوں۔جب پیسے نہیں ہو تے تو صبر کرتا
ہوں‘‘
’’پیسے آتے کہاں سے
ہیں؟‘‘
’’آہ...‘‘عمران ٹھنڈی سانس لےکر بولا ‘‘۔یہ بڑا بے ڈھب سوال ہے۔اگر کسی انٹرویو میں پو چھ لیا جائے تو مجھے
نوکری سے مایوس ہو نا پڑے میں بچپن سے یہی سو چتا آیاہوں کہ پیسے کہا ں سے آتے ہیں لیکن
افسوس آج تک اس کا جواب نہیں پیدا کر سکا
۔بچپن سے سو چا کرتا تھا کہ شاید کلدار
روپے بسکٹ سے نکلتے ہیں‘‘
’’بہر حال تم اپنے
متعلق کچھ بتا نا نہیں چاہتے‘‘
’’اپنے متعلق میں نے سب کچھ بتاد یا ہے لیکن تم زیادہ تر ایسی ہی باتیں پو چھ رہی ہو جن کا تعلق مجھ سے نہیں بلکہ میرے ڈیڈی سے ہے۔‘‘
’’میں سمجھی ...یعنی تم خود کوئی کام نہیں کرتے‘‘۔
’’اُف فوہ...ٹھیک ہے،بالکل ٹھیک بعض اوقات ،میرا دماغ
بالکل غیر حاضر ہو جاتا ہے۔غا لباً مجھے تمہارے سوال کا جواب دینا
چا ہئے تھا ۔ہائے ،اچھا تمہارا کیا
نام ہے؟‘‘
’’روشی...‘‘
’’واقعی ،تم صورت ہی سے
رو شی معلوم ہو تی ہو‘‘
’’کیا مطلب...؟‘‘
’’پھر وہی
مشکل سوال۔جو کچھ میری زبان
سے نکلتا ہے،اُسے میں سمجھا
نہیں سکتا۔بس یو نہی ....پتہ نہیں کہ کیا بات ہے۔غالباً مجھے یہ کہنا چاہئے
تھا کہ تمہارا نام بھی تمہا ری طرح ...کیا
ہے..اچھا بتاؤ کیا کہیں
گے،بڑی مشکل ہے۔ابھی وہ لفظ ذہن میں
تھا لیکن غائب ہو گیا‘‘عمران
بے بسی سے اپنی پیشانی رگڑنے لگا۔
رو شی اُسے عجیب
نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔اُس کی سمجھ میں
نہیں آرہا تھا کہ اُسے کیا سمجھے۔نیم دیوانہ یا کوئی بہت بڑا مکا ر...مگر مکار سمجھنے کے
لئے کوئی
معقول دلیل اُس کے ذہن میں نہیں تھی۔اگر وہ مکار ہو تا تو اتنی بڑی رقم اس طرح کیسے
گنو ا بیٹھتا؟
کھا نے کے بعد وہ
میز سے ہٹ کر صو فے پر آبیٹھے۔
’’اب آہستہ آہستہ
ساری باتیں میر ی سمجھ میں آر ہی ہیں۔‘‘عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا’’وہ
لڑکی جو ویٹنگ روم میں ملی تھی
۔اُس بد معاش کی ایجنٹ رہی ہوگی...ہاں اور کیا...ورنہ وہ مجھے اس ہو ٹل میں کیوں
بلاتی ،مگر جو شی...اَر...کیا نام ہے تمہارا ...اوہ،روشی...روشی وہ لڑکی مجھے اچھی
لگتی تھی اور اب نہ جا نے کیوں،تم
اچھی لگنے لگی ہو۔مجھے بڑا افسوس ہے کہ میں نے
تمہارے کہنے پر عمل نہ
کیا...کیا تم اب میری مدد نہ کرو
گی ؟‘‘
روشی بڑے دللآویز
انداز میں مسکرا رہی تھی’’میں کس طرح مدد کر سکتی ہوں؟‘‘اُس نے پو چھا۔
’’دیکھو روشی ...روشی،واقعی یہ نام بہت اچھا ہے۔ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے زبان کی نوک مصری ڈلی سے جا لگی ہو۔روشی ...واہ...وا...ہاں تو رو
شی میں اپنی کھو ئی ہو ئی رقم
وا پس لینا چا ہتا ہوں‘‘
’’نا ممکن ہے
،تم بالکل بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو تم نے وہ رقم
بینک میں نہیں ڈالی تھی کہ وا پس
مل جا ئے
گی۔‘‘
’’کو شش کرے انسان
تو کیا ہو نہیں سکتا ۔آہا
...آہا کیا تم نے نپولین کی زندگی کے حا لات نہیں پڑھے؟‘‘
’’میرے طو طے ‘‘رو شی
ہنس کر بولی۔‘‘تم اتنی جلدی پالے سے باہر کیوں آگئے؟‘‘
’’میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں‘‘۔عمران کسی ضدی بچے کی طرح جھلا کر بولا۔
رو شی کی ہنسی
تیزہو گئی۔وہ بالکل اسی طرح ہنس رہی تھی جیسے کسی نا سمجھ بچےکو چڑارہی ہو۔
’’اچھا تو جا رہاہو‘‘عمران بگڑ کر اُٹھتا ہوا بولا۔
’’ٹھہرو...ٹھہرو...‘‘وہ یک بیک سنجیدہ ہو گئی’’چلو بتاؤ کیا کہہ
رہے تھے؟‘‘
’’نہیں بتاتا ‘‘عمران بیٹھتا ہو ابولا ‘‘میں کسی سے مشورہ لئے بغیر ہی نمٹ لوں گا۔‘‘
’’نہیں،مجھے بتاؤ کہ تم کیا کرنا چا ہتے ہو؟‘‘
’’کتنی بار حلق پھاڑوں کہ میں اُس سے اپنے رو پے وصول کر نا
چا ہتا ہوں‘‘
’’خالی خیالی ہے، بچپنا ...‘‘رو شی کچھ سو
چتی ہو ئی بولی ‘‘اس علا قے میں پو لیس
کی بھی دال نہیں گلتی ،آخر تھک ہار
کر اُسے وہاں خطرے کا بورڈ لگانا پڑا‘‘
’’کیا ہوٹل والے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے
؟‘‘عمران نے پو چھا۔
’’میں وثوق سے کچھ کہہ نہیں سکتی۔‘‘
’’پولیس نے انہیں بھی ٹٹو لا ہو گا‘‘۔
’’کیوں نہیں۔ عرصے
تک اُس ہو ٹل میں پولیس کاایک
دستہ ،دن اور رات متعین رہا ہے
لیکن اس کے باوجود بھی وہ خطر ناک آدمی کام کرہی
گزرتا تھا۔‘‘
’’روشی ...روشی ،تم
مجھے باز نہیں رکھ سکتیں ‘‘عمران
ڈائیلاگ بولنے لگا۔‘‘ میں اس کا قلع قمع کئے بغیر یہاں سے واپس نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’بکواس مت
کرو‘‘روشی جھنجھلا گئی پھر اس نے کہا۔جاؤ
اس کمرے میں سو جاؤ بستر صرف ایک ہے۔میں
یہاں صوفے پر ہی سو جاؤں گی‘‘
’’نہیں۔۔۔۔تم اپنے بستر پر جاؤ۔‘‘میں یہاں صوفے پر سو جاؤں
گا‘‘عمران نے کہا۔
اس پر دونوں میں بحث ہو نے لگی آخر کچھ دیر بعد عمران ہی کو خواب گاہ میں جا نا پڑا اور روشی
اسی کمرے میں ایک صوفے پر لیٹ گئی
۔ہلکی سردیوں کا زمانہ تھا۔ اس لئے اس نے
ایک ہلکا سا کمبل اپنے پیروں پر ڈال لیا
تھا۔وہ اب بھی عمران ہی کے متعلق سو چ رہی تھی لیکن اُس خطر ناک اور گمنام آدمی کا
خوف بھی اُس کے ذہن پر مسلط تھا۔
وہ آدمی کون تھا ؟اس کا جواب شاداب نگر کی پولیس کے پاس بھی نہیں تھا۔ اس نے اب تک در جنوں
وارداتیں کی تھیں لیکن پولیس اُس تک
پہنچنے میں ناکام رہی تھی۔اور پھر
سب سے عجیب بات تویہ کہ ایک
مخصوص علا قہ ہی اُس کی چیرہ
دستیوں کا شکار تھا ۔ شہر کے دوسرے حصوں کی طرف شاذ ونادرہی رخ کر تا تھا۔
رو شی اس کے متعلق
سو چتی اور اُو نگھتی رہی۔اُسے خوف تھا کہ کہیں وہ ادھر ہی کا رخ نہ کرلے ۔اسی لئے اس نے روشنی بھی گل نہیں کی تھی۔اس کے ذہن پر جب بھی
غنودگی طاری ہوتی اسے ایسا محسوس ہو تا
جیسے اس کے مکان کے پاس کسی نے
گولی چلائی ہو۔ وہ چونک کر آنکھیں کھول
دیتی۔
دیوار سے لگی ہوئی گھڑی
دو بجا رہی تھی۔ اچا نک وہ بوکھلا
کر اُٹھ بیٹھی۔نہ جانے کیوں اسے محسوس ہو
رہا تھا جیسے وہ خطرے میں ہو۔وہ چند لمحے خوفزدہ
نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتی رہی۔پھر صوفے سے اُٹھ کر پنجوں کے بل چلتی ہوئی اُس
کمرے کے دروازے پر آئی جہاں وہ احمق نوجوان سو رہاتھا۔
اس نے دروازے پر
ہاتھ مار کر ہلکا سا دھکا دیا۔دروازہ کھل گیا
لیکن ساتھ ہی اُس کی آنکھیں بھی
حیرت سے پھیل گئیں۔بستر خالی پڑاتھا اور
کمرے کا بلب رو شن تھا ۔اُس کے دل کی دھڑ کنیں تیز ہوگئیں اور حلق خشک ہو نے لگا۔اچانک ایک خیال بڑی
تیزی سے اس کے ذہن میں چکرا کر رہ گیا ۔کہیں یہ
بیوقوف نوجوان اسی خوفناک آدمی کا کوئی گُر گانہ رہاہو۔
وہ بے تحاشا پلنگ کے سر ہا نے رکھی ہوئی تجوری کی طرف لپکی ،اس کا ہینڈل
کھینچا تجوری مقفل تھی لیکن
وہ سوچنے لگی کہ تجوری کی کنجی تو تکئے کے
نیچے ہی رہتی ہے۔ایک بار پھراس کی سانسیں تیز ہوگئیں۔اُس
نے بستراُلٹ دیا ۔تجوری کی کنجی جوں کی
توں اپنی جگہ پر رکھی ہو ئی ملی
لیکن روشی کو اطمینان نہ ہوا۔وہ تجوری کھو لنے لگی ...مگر
پھر آہستہ آہستہ اس کا ذہنی انتشار کم ہو تا گیا ۔اس کی ساری قیمتی چیزیں اور نقد رقم محفوظ تھیں۔پھر آخر وہ کہاں گیا؟وہ تجوری بند
کر کے سیدھی کھڑی ہوگئی پچھلا دروازہ کھول
کر باہر نکلی اور تب اُسے احساس ہو اکہ وہ اسی دروازے سے نکل کر گیا ہوگا۔دروازہ مقفل نہیں
تھا۔ہینڈل گھماتے ہی کھل گیا تھا۔ دوسری طرف کی راہداری تاریک پڑی تھی۔وہ باہر نکلنے کی ہمت نہ کرسکی۔اُس نے دروازہ بند کرکے اندر سے مقفل کر دیا۔وہ پھر
اسی کمرے میں آگئی جہاں صوفے پر سو ئی تھی۔آخر وہ احمق اس طرح
کیوں چلا گیا ؟ وہ سو چتی رہی۔آخر اس طرح بھا گنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ اُسے
زبردستی تو لائی نہیں تھی۔وہ خود ہی آیا تھا...لیکن کیوں آیا تھا؟...مقصد کیا تھا ؟اچانک اسے
ایسا محسوس ہو ا جیسے کسی نے کمرے
کے بیرونی دروازے پر ہاتھ مار ا ہو۔وہ چونک کر مڑی مگر اتنی دیر میں شیشے کے ٹکڑے جھنجھناتے ہوئے فرش پر گر چکے تھے پھر ٹوٹے ہو ئے شیشے کی جگہ
سے ایک ہاتھ اندر دا خل ہوکر چٹخنی تلاش
کر نے لگا۔بڑا سا بھدا ہاتھ جو با لوں سے
ڈھکا ہو اتھا۔روشی کے حلق سے ایک دبی دبی سی چیخ نکلی لیکن دوسرے
ہی لمحے میں وہ ہاتھ غائب ہو گیا اور روشی
کو ایسا محسوس ہوا جیسے باہر
راہداری میں دو آدمی ایک دوسرے سے ہا تھا پائی پر اُتر آئے ہوں۔
روشی ،بیٹھی ہا نپتی رہی۔پھراس نے ایک کر یہہ سی آواز سنی
اور ساتھ ہی ایسا معلوم ہو ا جیسے کوئی
بہت وزنی چیز زمین پر گری ہو ۔پھر بھا گتے ہو ئے قدموں کی آوازیں...اور اب بالکل سناٹا
تھا قریب یا دور کہیں سے بھی کسی قسم کی آواز نہیں آرہی تھی۔
البتہ خود رو شی کے ذہن میں ایک نہ مٹنے والی’’جھائیں جھائیں‘‘گونج رہی
تھیِ حلق خشک تھا اور آنکھوں میں جلن سی
ہونے لگی تھی۔
وہ بے حس و حرکت
سمٹی سمٹائی صو فے پر بیٹھی رہی
۔اُس کی سمجھ میں نہیں رہا تھا کہ کیا
کرے۔تھوڑی دیر بعد اچا نک پر کسی نے
دروازہ تھپتھپا یا اور ایک بار پھر اُسے اپنی
روح جسم سے پرواز کرتی محسوس ہو ئی۔
’’میں ہوں ،دروازہ کھولو ‘‘ با ہر سے آواز آئی لیکن رو شی اپنے
کانوں پر یقین کر نے کے لئے تیار
نہیں تھی۔آواز اُسی نوجوان احمق کی
معلوم ہو ئی تھی۔
’’پھو سی پھو سی...اررروشی ...دروازہ کھو لو ،میں ہوں
عمران۔‘‘
روشی اُٹھ کر
دروازے کی طرف چھپٹی ،دوسرے لمحے میں عمران اس کے
سا منے کھڑا برے بُرے سے منہ بنا رہا تھا۔اس کے چہرے پر کئی جگہ ہلکی ہلکی
سی خرا شیں تھیں اور ہو نٹوں پر خون پھیلا
ہو ا تھا۔روشی نے مضطربانہ
انداز میں اُسے اندر کھینچ کر
دروازہ بند کر دیا‘‘یہ کیا ہوا...تم کہا
تھے؟‘‘
’’تین پیکٹ میں نے وصول
کر لئے ۔دو ابھی باقی ہیں...پھر
سہی ۔‘‘عمران نو ٹو ں کے بنڈل فرش پر
پھینکتا ہو ا بولا۔
’’کیا وہی
تھا؟‘‘روشی نے خو فزدہ آواز میں پو چھا۔
’’وہی تھا لیکن نکل گیا ...دو پیکٹ ابھی باقی ہیں‘‘۔
’’تم زخمی ہو گئے ہو۔چلو با تھ روم میں‘‘رو شی اس کا ہاتھ
پکڑ کر غسل خا نے کی طرف کھینچتی ہوئی بو لی۔
کچھ دیر بعد وہ
پھر صوفے پر بیٹھے ایک دوسرے کو گھو ررہے
تھے ‘‘تم با ہر کیوں چلے گئے تھے؟‘‘ روشی نے پو چھا۔
’’میں تمہاری حفاظت
کے لئے آیا تھا نا...میں جا نتا تھا
کہ وہ ضرور آئے گا۔وہ آدمی جو بیچ سڑک پر
فائر کر سکتا ہے،اسے مکا نوں کے اندر گھسنے میں
کب تامل ہو گا۔‘‘
’’کیا تم واقعی بیو قوف ہو؟‘‘رو شی نے حیرت سے پو چھا ۔
’’پتہ نہیں۔میں تو خود کو افلا طون کا دادا سمجھتا
ہوں۔مگر دوسرے کہتے ہیں کہ میں بے وقوف
ہوں۔کہنے دو،اپنا کیا بگڑتا ہے۔اگر میں
عقلمند ہوں تو اپنے لئے،احمق ہوں
تو اپنے لئے‘‘
’’تو اب وہ نا معلو
م آدمی میرا بھی دشمن ہو گیا ہے‘‘روشی
خشک ہو نٹوں پر زبا ن پھیر کر بولی۔
’’ضرور ہو جا ئے گا۔تم نے کیوں میری جان بچا نے
کی کوشش کی تھی؟‘‘
’’اوہ...مگر...میں کیا کروں؟ کیا تم ہر وقت میری حفاظت کرتے رہو گئے‘‘۔
’’دن کو وہ ادھر کا رخ بھی نہ کرے گا۔رات کی ذمے
داری میں لیتا ہوں۔‘‘
’’ مگر کب تک...؟‘‘
’’جب تک کہ میں
اُسے جا ن سے نہ ماردوں ‘‘عمرا ن بولا۔
’’تم...تم آخر ہو کیا
بَلا ؟‘‘
’’میں بِلا ہوں
...‘‘ عمران برا مان گیا۔
’’اوہ ڈیر ...تم سمجھے
نہیں‘‘
’’ڈیئر ...یعنی کہ تم مجھے ڈیر کہہ رہی ہو ‘‘عمران مسرت آمیز لہجے میں چیخا ۔
’’ہاں،کیوں ،کیا حرج ہے ۔کیا ہم گہرے دو ست نہیں ہیں؟‘‘رو
شی مسکراکر بولی۔
’’مجھے آج تک کسی عورت نے ڈیئر نہیں کہا‘‘۔عمران مغموم آواز میں بولا ۔
3
شا داب نگر کے محکمہ سر اغر سانی کے دفتر میں سب انسپکٹر جاوید کی خاصی دھاک بیٹھی ہو ئی
تھی۔وہ ایک ذہین اور نوجوان افسر تھا ۔تعلق تو اس کا محکمہ سراغررسانی
سےتھا لیکن اُس کے بے تکلف دو ست عمو ماً اُسے
تھا نے دار کہا کرتے تھے۔وجہ یہ تھی کہ وہ ذہن کے ساتھ ہی ساتھ ڈنڈے
کے ا ستعمال کو بھی کافی
اہمیت دیتا تھا۔اس کا
قول تھا کہ آج تک ڈنڈے سے زیادہ خوفناک سراغ رساں اور کوئی پیدادا ہی نہیں ہوا ۔اکثر وہ صرف شبہے کی بنا ء پر مجرموں کی ایسی مرمت کرتا کہ انہیں
چھٹی کا دودھ یا د آجا تا۔
وہ
کا فی لحیم شحیم آدمی تھا ۔ بہتر ے تواس
کی شکل ہی دیکھ کر اقرار جرم کر لیتے تھے،مگر وہ شاداب نگر کے اُ س
مجرم کی
جھلک بھی نہ دیکھ سکا تھا۔جس
نےبندرگاہ کے علاقے میں بسنے
والوں کی نیند یں حرام کر رکھی تھیں۔
اُس
وقت سب
انسپکٹر جاوید اپنے محکمے کے سپرنٹنڈ نٹ کے آفس میں
بیٹھا ہوا غا لباًًاس بات کا منتظر
تھا کہ سپر نٹنڈنٹ اپنا کام ختم کر
کے اُس کی طرف متو جہ ہو۔
سپر نٹنڈنٹ سر جھکائے کچھ لکھ رہا تھا۔تھو ڑی دیر
بعد قلم
رکھ کر اُس نے ایک طو یل انگڑا ئی لی اور جاوید کی طرف دیکھ کر
مسکرانے لگا ۔’’بھئی میں تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ تمہیں عمران صاحب کو
اسسٹ کر نا ہو گا ۔اس سے بڑی بے بسی اور
کیا ہو گی ہمیں سنیڑل والوں سے مدد طلب کر نی پڑی ہے‘‘۔
’’عمران صاحب !‘‘جاوید نے حیرت
سے کہا ’’وہی لی- یو کا وا لے
کیس کا شہرت ہا فتہ؟‘‘
’’وہی...وہی....‘‘سپرنٹنڈ نٹ
سر ہلا کر بولا ۔’’وہ حضرت یہاں پر سوں
تشریف لائےہیں اور ابھی تک اُ ن کی شکل نہیں
دکھا ئی دی۔یہ سینٹرل والے بڑے چا
لاک ہو تے ہیں ۔اس کا خیال رہے کہ
ڈپارٹمنٹ کی بد نامی نہ کرانا ۔یہاں تمہارے
علاوہ اور کسی پرمیری نظر نہیں پڑی‘‘۔
’’آپ مطمئن رہیئے،میں حتی الا مکان کو شش کروں گا۔‘‘
’خود سے کسی معا ملے میں پیش پیش
نہ رہنا ۔ جو کچھ وہ کہے وہی کرنا‘‘۔
’’ایسا ہی ہو گا...‘‘
فون کی گھنٹی بجی اورسپر نٹنڈنت
نے ر یسیوار اُٹھایا ۔’’ہیلو،...اوہ آپ ہیں...جی...جی.اچھا ٹھہریئے ۔ایک سکینڈ
‘‘سپر نٹنڈ نٹ نے پنسل اُ ٹھا کر اپنی ڈا
ئری میں کچھ لکھنا شروع کر دیا۔ریسیور بد
ستور اس کے مکان سے لگا رہا ۔کچھ دیر بعد
اُس نے کہا۔’’توآپ مل کب ر ہے ہیں...جی...اچھا ، اچھا بہت بہتر ‘‘ اس نے ریسیور دکھ
دیا اور کر سی کی پشت سے ٹک کر کچھ سو چنا۔
’’دیکھوجا وید وہ تھوڑی دیر بعد
بولا‘‘ عمران صا حب کا فون تھا ۔اُنہوں نے
کچھ جعلی نو ٹوں کے نمبر لکھوائے ہیں اور کہا ہے
ان نمبروں پر کڑی نظر رکھی جائے جس
کے پاس بھی ا ن میں کا کوئی نو ٹ
نظر آئے اُسے بے ذریغ گر فتار کر لیا جا ئے ۔ان نمبروں کو لکھ لو...مگراس کا
مقصد کیا ہے،یہ میں بھی نہیں جا نتا۔‘‘
’’وہ یہاں کب آ ئیں گے؟‘‘ جا وید
نے پو چھا ۔
’’ایک بج کرڈیڑمنٹ پر۔بھئی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ
کس قسم کا آدمی ہے ،ویسے سناجا تا ہے کہ آفیسر آن اسپیشل ڈیو ٹینر ہے اور اس نے
اپنا سیکشن با لکل الگ بنا یا ہے جو براہ
را ست ڈائر کٹر جنرل سے تعلق رکھتا ہے‘‘۔
’’میں نے سنا ہے کہ ڈ ائر کٹر
جنرل صاحب اُن کی والد ہیں‘‘۔
’’ٹھیک سنا ہے ...مگر یہ کیا
لغویت ہے ۔ایک بج کر ڈیڑھ منٹ...‘‘
4
عمران ریلوے
اسٹیشن پر ٹہل رہا تھا۔اُسے اپنے ماتحت ہُدہُد کی آمد کا انتظار تھا ۔ہُدہُد ہکلا کر
بولتا تھا اور دوران گفتگو بڑے بڑے
الفاظ ادا کرنے کا بے حد شا
ئق تھا ۔ٹرین آئی اور نکل بھی گئی لیکن ہُد ہُد
کا کہیں پتہ نہ تھا۔
عمران ،گیٹ کےپاس
آکر کھڑا ہو گیا ۔بھیڑ زیادہ تھی۔اس لئے ہُد ہُد کا فی
دیر بعد دستیاب ہو سکا۔
’’ادھرآؤ ‘‘عمران اس کا ہاتھ پکڑ کر و
یٹنگ روم کی طرف کھینچتا ہوا بولا ۔ہُد
ہُد اس کے ساتھ گھسٹتا ہوا چلا جا رہا تھا
۔
ویٹنگ روم میں پہنچ کر
اس نے کہا ’’مم...مم...میرے اوسان
...بج...بجا نہیں تھے ،لل لہٰذا اَب آداب
بجا لاتا ہوں‘‘ اُس نے نہایت اَدب سے جھک کر عمران کو فرشی سلام کیا ۔
’’جیتے رہو‘‘عمرا ن اس کے سر پر ہاتھ پھیر تا ہوا
بولا‘‘ کیا تم
اس شہر سے وقفیت رکھتے ہو؟‘‘
’’ جی ہاں یہ ...مم...میرے برا در نسبتی کا وطن مالوف ہے ۔‘‘’’ میرے پاس وقت کم ہے ورنہ تم سے برادرنسبتی اور وطن ما لوف کے معنیٰ پو چھتا ۔خیر تم یہاں
مچھلیوں کا شکار کھیلنے کے لئے آئے ہو‘‘۔
’’جی ...! ‘‘
ہُدہُد حیرت سے آنکھیں پھا ڑ کر بولا ‘‘ اس بات کا
...مم،...مطلب ...میرے ذہن نشین نن...نہیں ہوا‘‘
’’ تم یہاں بندرگاہ
کے علاقے میں مچھلیوں کا شکار
کھیلو گے۔قیام اے بی سی ہو ٹل میں ہوگا ۔بازار سے مچھلیوں کے
شکار کا سا مان خرید واور چپ چاپ وہیں چلے جاؤ ...اور شکار کھیلو‘‘
’’معااف کیجیئے گا یہ
مم میرے لئے نا ممکن ہے‘‘۔
’’ناممکن کیوں ہے ؟‘‘عمران اُسے گھو رنے لگا ۔
’’والد مرحوم کی وصیت ...فف...فر ماتے تھے۔شکار ماہی کا
بیکاراں است‘‘
’’مطلب کیا ہوا؟مجھے عر بی نہیں آتی‘‘۔
’’فف...فارسی ہے جناب ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مچھلی کا شکار کھیلنا بیکار آدمیوں کا کام ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے ،میں
تمہیں اسی وقت ملازمت سے بر طرف کئے دیتا
ہو ں تاکہ تم اطمینان سے مچھلی کا شکار کھیل سکو۔‘‘
’’اوہ...آپ کو...کک ...کس طرح سمجھاؤں ‘‘ہُد ہُد نے کہا اور
پھر سمجھا نے کے سلسلے میں کافی دیر تک
ہکلاتا رہا عمران بھی دراصل جلدی میں نہیں تھا ۔ور نہ وہ اس طر ح
وقت بر باد نہ کرتا ۔
’’چلو اَب جا ؤ ‘‘
وہ اُسے دروازے کی طرف دھکیلتا ہوا بولا۔یہ سر کاری کام ہے
اور کام ،ضرورت پڑنے پر بتا یا جا
ئے گا بھو لنا نہیں،بندرگاہ کے علاقے میں اے بی سی ہو ٹل
،تمہیں وہیں قیام کر نا ہوگا ۔شکار
کا گھاٹ وہاں سے دور نہیں ہے لیکن خبر دار ... شام کو سات بجے کے بعد اُ وہر
ہر گز نہ جا نا ‘‘۔
ہُد ہُد تھو ڑی دیر تک کھڑا سو چتا رہا پھر بولا ‘‘
اچھا ...جناب ،میں جارہا ہوں ۔لل ...لیکن
میں نہیں جا نتا کہ مچھلیوں کے شکار کے
لئے مجھے کیا ... خخ ...خر ید نا پڑے گا۔
عمران اُسے سا مان کی تفصیل بتا تا رہا ۔
5
عمرانٹھیک ایک
بج کر ڈیڑھ منٹ پر سپر نٹنڈنٹ
کے آفس میں داخل ہوا اور سپر نٹنڈنٹ اپنے سا منے ایک نو عمر آدمی کو کھڑا
دیکھ کر پلکیں جھپکا نے لگا ‘‘ تشر یف
ر کھئے ... تشریف رکھئے ‘‘اس نے تھو ڑی دیر بعد کہا۔
’’شکریہ ‘‘عمرا
ن بیٹھتا ہوا بولا ۔اس وقت اس کے
چہرے پر حما قت نہیں برس رہی تھی ۔وہ ایک
اچھی اور جا نب تو جہ شخصیت
کا مالک معلوم ہو رہا تھا ۔
’’بہت انتظار کر ا یا آپ نے
‘‘سپر نٹنڈنٹ نے اس کی طرف
سگریٹ کا ڈبہ بڑھا تے ہوئے کہا۔
’’شکریہ ۔میں سگریٹ کا عا دی
نہیں ہوں‘‘عمران نے کہا ‘‘ دیر سے ملا قات کی وجہ یہ ہےکہ میں مشغول تھا ۔اب تک
اپنے طور پر حا لا ت کا جا ئزہ لیتا رہا ہوں‘‘۔
’’میں پہلے ہی جا نتا تھا ‘‘سپر
نٹنڈ نٹ ہنسنے لگا ۔
’’نو ٹوں کے متعلق
کچھ معلوم ’’ہوا؟‘‘
’’ابھی تک تو کو ئی رپورٹ نہیں
ملی ،لیکن...‘‘
’’نو ٹو ں کے متعلق پو چھنا
چا ہتے ہیں آپ‘‘عمران مسکرا کر بولا ۔
’’ہاں ،اپنی معلو مات
کے لئے جا ننا چا ہو ں گا۔‘‘
’’اس آدمی کے پاس جعلی نو ٹوں کے
دو پیکٹ ہیں اور یہ میرے ذریعہ سے اس کے پاس پہنچے ہیں‘‘
’’آپ کے ذریعہ سے؟سپر
نٹنڈنٹ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔‘‘
’’جی ہاں ۔میں دیدہ ودا
نستہ کل رات کو اُس خطر ناک علاقے میں گیا
تھا اور میری جیبوں میں جعلی نو ٹوں کے
پیکٹ تھے۔‘‘
’’ارے تو کیا آ ج اخبار میں آپ ہی کے
متعلق خبر تھی؟‘‘
’’غا لباً ...‘‘
’’لیکن یہ ایک خطر ناک قدم
تھا۔‘‘
’’ہاں... بعض اوقا ت اس کے بغیر کام بھی
تو نہیں چلتا...مگر اُس سے ٹکرانے کے بعد اب میں نے اپنا خیال
بدل دیا ہے ۔وہ جعلی نوٹ بازار
میں نہیں آسکیں گے۔ وہ تو بس یو ں
ہی احتیا طاً میں نے آپ کو اطلا ع دے دی تھی ۔وہ بہت چا لاک
ہے اور اس قسم کے حربے اس پر کام
نہیں کر سکتے ‘‘۔
سپر نٹنڈنٹ خا موشی سے عمران
کی صورت دیکھ رہا تھا ۔
’’سوال یہ ہے کہ رات
کو وہ علا قہ خطر ناک کیوں ہو جا
تا ہے؟‘‘عمرا ن بڑبڑا یا ‘‘ظا ہر ہے کہ سرکا ری طور پر وہاں سڑک ہی پر خطرے سے ہو
شیار کر نے کے لئے بو رڈ لگا دیا ہے۔ اس لئے عام طور پر
وہ را ستہ آمد رفت کے لئے بند ہو گیا
ہے۔لیکن اس کے باو جود بھی
مجھ جیسے بھو لے بھٹکے آدمی پر حملہ کیا گیا ۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ساری رات وہاں اس کی حکو مت رہتی ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔قطعی یہی بات ہے اور
اسی لئے وہا ں خطرے کا بو رڈ لگا یا گیا ہے... لیکن
مقصد جنا ب !آخر اُس اُجا ڑ علا قے میں ہے کیا ؟ اگر کہا جا ئے کہ وہ
اُجا ڑ علا قہ لیٹروں کا اڈہ ہے
تو یہ سو چنا پڑے گا کہ اے۔بی سی
ہو ٹل پر کبھی حملہ کیوں نہیں ہو
تا۔وہاں ہزاروں رو پے کا
جوا ہو تا ہے ۔شبہ تو ہمیں
بھی ہے کہ اے ۔بی ۔سی وا لوں کا اُس سے کو ئی نہ کو ئی تعلق
ضرور ہے لیکن ہم ابھی تک ان کے
خلاف کوئی ثبوت نہیں فراہم کر سکے
ہیں۔‘‘
عمران کچھ نہ بو لا !اُس نے
جیب سے چیو نگم (chewing gum)کا پیکٹ نکا لا اور اُس کا کاغذ پھا ڑ کر ایک
پیس سپر نٹنڈنٹ کو بھی پیش کیا جو
بو کھلا ہٹ میں شکریئے کے ساتھ قبول کر لیا گیا لیکن پھر سپر نٹنڈنٹ کے چہرے پر ندا مت کی ہلکی کچل رہا تھا ۔تھوڑی دیر
بعد اس نے کہا ۔اس وا قعہ کا تذ
کرہ آپ ہی تک
محدود ہے تو بہتر ہے ۔‘‘
’’ظاہر ہے۔‘‘سپر نٹنڈنٹ بولا ۔اس نے چیو نگم کو عمرا ن کی نظر بچا کر
میز کی دراز میں
ڈال دیا تھا۔
’’آپ کا قیام کہاں ہے؟‘‘ سپر
نٹنڈنٹ نے پو چھا ۔
’’کسی ہو ٹل میں ٹھہرا ہوا
ہوں‘‘عمران نے جواب دیا۔
سُپر نٹنڈنٹ نے پھر کچھ اور پو چھنا
منا سب نہ سمجھا ۔چند لمحے خا مو
شی رہی
اس کے بعد سپر نٹنڈنٹ بو لا ‘‘۔ آپ
کو اسسٹ کر نے کے لئے میں نے
ایک آدمی
منتخب کر لیا ہے۔کہئے تو ابھی ملا دوں‘‘۔
’’نہیں فی الحال ضرورت نہیں ،آپ
مجھے نام اور پتہ لکھو ا دیجیئے پتہ ایسا ہو نا چا ہئے ۔جہاں سے ہر وقت
را بطہ قا ئم کیاجا سکے ویسے میری
کو شش یہی رہے گی
کہ آپ لو گوں کو زیادہ تکلیف
نہ دوں۔‘‘
آخری جملہ
شاید سپر نٹنڈنٹ کو گراں گزرا
تھا ۔اُس کے چہرے پر سر خی پھیل گئی لیکن
وہ کچھ بو لا نہیں ۔عمران تھو ڑی
دیر تک غیر ارادی طور پر
اپنی ٹا نگیں ہلا تا رہا ۔پھر مصا فحے کے لئے ہاتھ
بڑ ھا تا ہو ا بولا ‘‘اچھا
بہت بہت شکریہ۔
’’اوہ ...اچھا لیکن اگر
آج آپ شام کو کھا نا میرے سا تھ
کھا ئیں تو کیا ہرج
ہے۔‘‘
’’ضرور کھا ؤں گا ۔‘‘عمران مسکرا
کر بو لا ’’مگر آج نہیں ،ویسے مجھے
آپ کے تعاون کی اشد ضرورت ہو گی۔‘‘
’’ہماری طرف
سے آپ مطمئن رہیں۔‘‘
’’اچھا ‘اجا زت دیجیئے ‘‘۔ عمران
کمرے سے نکل گیا اور سپر نٹنڈنٹ بڑی دیر
تک خا مو ش بیٹھا اور سر ہلا تا رہا
...پھر اُس نے میز کی دراز کھول کر عمران
کی دی ہو ئی چیو نگم نکالی اور ادھراُدھر
دیکھ کر اُسے منہ میں ڈال لیا۔
6
سا ت بجے
عمران رو شی کے فلیٹ میں پہنچا ۔ وہ شاید اُسی کاانتظار کر رہی تھی۔عمران کو دیکھ
کراُس نے برا سا منہ بنا یا اور جھلائے ہو ئے لہجے میں بولی’’اب آ ئے ہو ،صبح
کے گئے ہو ئے۔میں نے لنچ پرتمہارا انتظار کیا ،شام کو کا فی دیرتک چا ئے لئے بیٹھی رہی۔‘‘
’’میں دوسری روڈ کی
ایک بلڈنگ میں تمہارا فلیٹ تلا ش کر رہا تھا۔‘‘عمران نے سر کھجا تے ہو ئے جواب
دیا۔
’’دن بھر کہاں غا ئب رہے؟‘‘
’’اُسی مردود کو تلاش کر تا رہا جس سے ابھی دو پیکٹ وصول کر
نے ہیں۔‘‘
’’اپنی زندگی خطرے میں نہ ڈالو ۔میں تمہیں کس طرح سمجھاؤ ں۔‘‘
’’میراخیال ہے کہ وہ اے ۔بی ۔سی ہو ٹل میں ضرور آتا ہو
گا ۔‘‘
’’بکواس نہیں بند کر و گے تم ۔‘‘روشی اُسے جھنجھوڑ تی ہو ئی بولی ۔‘‘تمل ہو ٹل سے اپنا سا ما ن کیوں نہیں لائے؟‘‘
’’ساما ن ...دیکھا جا ئے
گا ۔چلو کہیں ٹہلنے چلتی ہو۔‘‘
’’میں نے آ ج دروازے کے باہر قدم بھی نہیں نکالا ۔‘‘رو شی
نے کہا۔
’’کیوں...؟‘‘
’’خوف معلوم ہو تا ہے۔‘‘
عمران ہنسنے لگا پھر اُس نے کہا ۔’’وہ صرف رات کا شہزادہ
معلوم ہو تا ہے،دن کا نہیں۔‘‘
’’کچھ بھی ہو...مگر...‘‘رو شی کچھ کہتے کہتے رُ ک گئی ۔اُس
نے پلٹ کر خو فزدہ نظروں سے دروازے کے طرف دیکھا اور آہستہ سے بولی۔‘‘دروازہ مقفل
کردو۔‘‘
’’اوہ...بڑی ڈرپوک ہو تم ‘‘۔عمران پھر ہنسنے لگا۔
’’تم بند تو کردو...پھر میں تمہیں ایک خاص بات بتاؤں گی۔‘‘
عمران نے دروازہ بند کرکے چٹخنی چڑھا دی ۔رو شی نے اپنے
بلاؤز کے گر یبان میں ہا تھ ڈال کر ایک
لفا فہ نکالا اور عمران کی طرف بڑھاتی
ہو ئی بولی۔‘‘ آ ج تین بجے ایک لڑکا لا یا تھا ،پھر لفا فہ چاک کر نے
سے قبل ہی وہ بھا گ گیا۔‘‘
عمرا ن نے لفا فے سے خط نکال لیا۔انگریزی کے ٹا ئپ میں تحریر تھا۔
’’روشی۔۔۔۔۔!
’’تم مجھے نہ جا نتی ہو گی لیکن میں تم سے اچھی طرح وا قف
ہوں۔اگر تم اپنی خیریت چا ہتی ہو تو مجھے اُس آدمی کے متعلق سب کچھ بتا دو جو پچھلی رات تمہا رے ساتھ تھا۔یہ کون ہے؟کہاں سے آیا ہے؟کیوں آیا
ہے؟تم یہ سب کچھ مجھے فون پر بتا سکتی ہو۔
میرا فو ن نمبر سکس نا ٹ ہے۔ میں تمہیں معاف کر دو ں گا ۔ٹیرر۔‘‘
’’بہت خوب‘‘۔ عمرا
ن سر ہلا کر بو لا ۔‘‘فو ن پر گفتگو کرے گا۔‘‘
’’مگر سنو تو ...میں نے ساری ٹیلیفو ن ڈا ئر کٹری چھان ماری ہے
مگر مجھے یہ نمبر کہیں نہیں ملا۔‘‘
’’تمہا رے پاس ڈا
ئرکٹری ہے؟‘‘عمرا ن نے پو چھا۔
’’نہیں پڑوس میں ہے
اور فون بھی ہے۔‘‘
’’ذرا لاؤ تو ڈائر کٹری ۔‘‘عمران نے کہا۔
’’تم بھی سا تھ چلو۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔چلو‘‘۔
وہ دروازہ کھول کر با ہر نکلے ۔رو شی برابر والے فلیٹ میں
چلی گئی اور عمرا ن باہر اُس کا
انتظار کر تا رہا ۔شاید پانچ منٹ بعد رو
شی وا پس آگئی ۔وا پسی پر رو شی نے بہت احتیا ط سے دروازہ بند کیا ۔ڈائرکٹری میں
سکس نا ٹ کی تلاش شروع ہو گئی ۔یہ نمبر کہیں نہ ملا۔
’’مجھے تو یہ بکواس ہی معلوم ہو تی ہے‘‘روشی نے کہا۔‘‘ ہو
سکتا ہے کہ یہ خط کسی اور نے مجھے خو فزدہ
کر نے کے لئے بھیجا ہو۔‘‘
’’مگر ا ن وا قعات سے اور کون وا قف ہے۔؟‘‘
’’کیوں...کل جب تم پر حملہ
ہوا ہے تو ہو ٹل میں دورجنوں آدمی
موجود تھے اور ظاہر ہے کہ تم ہی مجھے اپنے کا ندھے سر اُٹھا کر ہو ٹل تک لے گئے تھے...
پھر تم میرے ہی پاس سے اُٹھ کر جوئے خا
نے میں بھی گئے تھے۔‘‘
عمران خا موش رہا۔وہ کچھ
سوچ رہا تھا ۔پھر چند لمحے بعد اُس نے کہا ۔’’ہم اس وقت کا کھا نا کسی شا ندار ہو ٹل میں کھا ئیں
گے۔‘‘
’’پھر وہی پا گل پن
،نہیں...ہم اس وقت کہیں نہ جا ئیں گے۔‘‘ رو شی نے سختی سے کہا۔
’’نہیں چلنا پڑے گا ۔‘‘عمران نے کہا ۔’’ ورنہ مجھے رات بھر نیند نہ آئے
گی۔‘‘
’’کیوں ...نیند کیوں نہ آئے گی؟‘‘
کچھ نہیں ’’عمران
سنجید گی سے بو لا ۔‘‘بس یہی سوچ کر کڑ ھتا رہوں گا کہ تم میری ہو کون جو
میرا کہنا مان لو گی۔‘‘
رو شی اُسے غور سے دیکھنے
لگی ۔‘‘کیا وا قعی تمہیں اس سے دُکھ پہنچے گا۔؟‘‘اس نے آہستہ سے کہا ۔
’’جب میری
کوئی خوا ہش نہیں پوری ہو تی تو میرا
دل چا ہتا ہے کہ خوب پھو ٹ پھوٹ کر
روؤں۔‘‘عمران نے بڑی معصومیت سے
کہا۔
روشی پھر اُسے غور سے دیکھنے لگی۔عمرا ن کے چہرے پر حما قت پھیل گئی تھی۔‘‘اچھا میں چلو ں گی
۔‘‘ رو شی ے آہستہ سے کہا
اور عمرا ن کی آنکھیں مسرور بچوں
کی آنکھوں کی طرح چمکنے لگیں۔
تھوڑی دیر بعد رو شی
تیار ہو کر نکلی اور عمران کو اس
طرح دیکھنے لگی جیسے اپنے حسن کی داد طلب کر رہی ہو۔عمرا ن نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔’’تم سے اچھا میک اَپ تو میں کر سکتا
ہوں۔‘‘
’’تم ...‘‘روشی نے کہا۔
’’ہاں کیوں نہیں...اچھا پھر سہی ۔اب ہمیں باہر چلنا چا
ہئے۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ مجھے چڑاتے ہو‘‘رو شی نے کہا۔
’’افسوس کہ تمہیں اردو نہیں آتی ،ورنہ میں۔
اُن کو آتا ہے پیا ر پر غصہ
ہم ہی کر بیٹھے غا
لؔب پیش دستی ایک دن
’’چلو بکواس مت کرو‘‘۔ وہ عمران کو دروازے کی طرف دھکیلتی ہو ئی بولی۔
رو شی اس وقت سچ مچ
بہت حسین نظر آرہی تھی۔عمران نے نیچے اُتر کر ایک ٹیکسی لی اور وہ وہائٹ ماربل کے لئے
روانہ ہو گئے۔یہ یہاں کا سب سے بڑا اور شاندار ہو ٹل تھا۔
’’روشی ،کیوں نہ میں اُسے
فون کروں‘‘عمران بولا۔
’’مگر ڈا ئر کٹری میں نمبر کہاں ملا ۔نہیں ڈیئر ، کسی نے
مذاق کیا ہے،مجھ سے ؟‘‘
’’میں ایسا نہیں سمجھتا ۔‘‘
’’تمہا ری سمجھ ہی کب اس قا بل ہے کہ
کچھ کچھ سمجھ سکو ،تمہا را نہ
سمجھنا ہی اچھا ہو تا ہے۔‘‘
’’میں کہتا ہوں تم سکس نا ٹ پر ڈائیل کرو۔اگر جواب نہ ملے تو اپنے کان اُکھا ڑ لینا
...ارے نہیں ،میرے کان۔‘‘
’’مگر میں کہو ں گی کیا۔؟‘‘
’’سنو ...راستے میں کسی
پبلک بو تھ سے فون کر یں گے۔تم کہنا
کہ وہ ایک پا گل رئیس زادہ ہے۔ کہیں باہر سے آیا ہے لیکن آج ایک مشکل میں پھنس گیا تھا ۔رشوت دے کر بڑی دشوا ریوں سے جان چھڑا ئی ۔اُس کے
پاس غلطی سے کچھ جعلی نو
ٹ آگئے ہیں۔جنہیں استعمال کر تا ہوا آج پکڑ ا گیا تھا۔‘‘
’’جعلی نو ٹ...‘‘رو شی
نے گھبرا کرکہا۔
’’ہاں رو شی ،یہ
درست ہے ‘‘ عمران نے درد ناک لہجے میں
کہا ’’آج میں بال بال
بچا۔ور نہ جیل میں ہو تا ۔میرے نو ٹوں میں کچھ جعلی
نو ٹ مل گئے ہیں۔میں نہیں جا نتا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں‘‘
’’کہیں وہ انہی پیکٹوں سے تعلق ر کھتے ہوں،جو تم
نے اُس سے پچھلی رات چھپنے تھے۔‘‘
’’پتہ نہیں‘‘عمران
ما یو سہ انداز میں سر ہلا کر بولا ‘‘ مجھ سے حما
قت یہ ہو ئی کہ میں نےاُن نو ٹوں کو دو سرے نو ٹوں میں ملا دیا ہے۔‘‘
’’تم مجھے سچ کیوں نہیں بتا تے کہ تم کون ہو ‘‘رو شی بھنا کر
بو لی۔
’’میں نےسب کچھ
بتا دیا ۔روشی‘‘
’’یعنی تم وا
قعی احمق ہو۔‘‘
’’تم بات بات پر میری
تو ہین کر تی ہو۔‘‘عمران بگڑ گیا ۔
’’ارے نہیں...نہیں‘‘روشی
اس کے سر پر ہا تھ پھیرتی ہو ئی بولی ۔‘‘ اچھا
جعلی نو ٹوں کا کیا مطلب ہے؟‘‘
’’میں تو کہتا ہوں کہ
یہ اُسی لڑکی
کی حرکت ہے جو مجھے
ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم ملی تھی
۔اُس نے اصلی نو ٹو ں کے پیکٹ غائب کر کے جعلی
نو ٹ رکھ دیئے اور پھر
مجھے اے ۔بی ۔سی ہو ٹل
آنے کی دعوت دی۔میرا دعوٰی ہے کہ وہ اُسی نا معلو م آدمی کی ایجنٹ تھی اور اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ پچھلی رات
میں نے جو پیکٹ چھینے ہیں وہ دراصل میں نے
چھینے نہیں بلکہ وہ خود ہی میرے حو الے
کر گیا ہے،جا نتی ہو اس کاکیا مطلب
ہوا...یعنی جو پیکٹ اب بھی اُس کے پاس
ہیں وہ اصلی نو ٹوں کے ہیں ...یعنی وہ پھر مجھ
سے اصلی ہی نوٹ لے گیا ہے اور
جعلی میرے سر پر پٹخ گیا۔‘‘
’’اچھا وہ نوٹ جو تم جوئے میں ہار گئے تھے ؟ ‘‘روشی نے پوچھا۔
’’ اُن کے بارے میں بھی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، ہو سکتا ہے کہ
جعلی ہوں یا اُن میں بھی ایک آدھ پیکٹ اصلی نوٹوں کا چلا گیا ہو ۔ اب تو اصلی اور نقلی
مل جل کر رہ گئے ہیں۔ میری ہمت نہیں پڑتی کہ اُن میں سے کسی نوٹ کو ہاتھ لگاؤں۔"
’’مگر اس لڑکی نے تمہارے نوٹ کس طرح اُڑائے ہوں گے؟"
’’اوہو ...‘‘ عمران کی آواز پھر درد ناک ہوگئی ” میں بڑاہی بدنصیب
آدمی ہوں بلکہ مجھے یقین آگیا ہے کہ احمق بھی ہوں ۔تم ٹھیک کہتی ہو ۔ ہاں، تو کل صبح
سردی زیادہ تھی نا ...میں نے السٹر پہن رکھا تھا۔ اور پندرہ بیسں پیکٹ اُس کی جیبوں
میں ٹھونس رکھے تھے ۔"
’’تم احمق سے بھی کچھ زیادہ معلوم ہوتے ہو۔‘‘ روشی جھلا کر بولی۔
’’ نہیں... سنو تو۔ میں نے اپنی دانست میں بڑی عقلمندی کی تھی
۔ ایک بار کا ذکر ہے۔ میرے چچا سفر کر رہے تھے۔ اُن کے پاس پندرہ ہزار روپے تھے جو
انہوں نے سوٹ کیس میں رکھ چھوڑے تھے۔ سوٹ کیس راستے میں کہیں غائب ہو گیا۔ تب سے میرا
یہ حال ہے کہ ہمیشہ سفر میں ساری رقم اپنے پاس رکھتا ہوں۔ پہلے بھی ایسا دھوکہ نہیں
کھایا یہ پہلی چوٹ ہے ۔‘‘
’’لیکن آخر اس لڑکی نے تم پر کس طرح ہا تھ صاف کیا تھا۔‘‘
’’یہ مت پو چھا
۔میں بالکل اُلّو ہوں۔‘‘
’ارے اُس نے مجھے
اُلّو بنا یاتھا ۔کہنے لگی کہ تمہا ری
شکل میرے دوست سے بہت ملتی ہے جو
پچھلے سال ایک حا ثے کا شکار ہو کر مر گیا
اور میں اُسے بہت چا ہتی تھی۔بس پندرہ منٹ میں بے تکلف ہو گئی۔میں کچھ مضمحل
سا تھا ۔کہنے لگی۔کیا تم بیما ر ہو۔ نہیں سر میں درد ہو رہا ہے... بو لی
لاؤ چمپی کر نے کر دوں ۔چمپی سمجھتی ہو؟‘‘
’’نہیں، میں نہیں جائی"۔ روشی نے کہا۔
’’ہٹو... میرے بال بگاڑ رہے ہو ۔ روشی نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
’’ہاں تو وہ چمپی کرتی رہی اور میںویٹنگ روم کی آرام کرسی پر سوگیا ...پھر شاید آدھے گھنٹے
کے بعد آنکھ کھلی۔ وہ برا برہے چمپی کئے جارہی
تھی... سچ کہتا ہوں، وہ اُس وقت مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا
کہ وہ اسی طرح ساری زندگی چمپی کئے جائے...
ہائے... پھر وہ اے۔ بی ۔سی ہوٹل میں ملنے کا وعدہ کر کے مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو
گئی ۔‘‘ عمران کی آواز تھرا گئی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دواب رو دے گا ۔
’’ ہا ئیں بدھو ،تم اس کے لئے رور ہے ہو جس نے تمہیں لوٹ لیا۔‘‘
روشی ہنس پڑی۔
’’ ہا ئیں۔ میں رورہا ہوں‘‘ عمران اپنے دونوں گالوں پر تھپڑ
مارتا ہوا بولا ‘‘نہیں میں غصے میں ہوں ۔ جہاں بھی ملی اُس کا گلا گھونٹ دوں گا۔۔۔۔‘‘
’’بس کرو میرے شیر، بس کرو ۔‘‘ روشی اس کا شانہ تھپکتی ہوئی
بولی۔
’’اب تم میرا مذاق اُڑا رہی ہو۔‘‘ عمران بگڑ گیا۔
’’ نہیں، مجھے تم سے ہمدردی ہے لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ اگر
جوئے میں بھی تم جعلی نوٹ ہارے ہو تو اب میرا وہاں سے گزر نہیں ہوگا۔ کچھ تعجب نہیں
کہ مجھے اس کے لئے بھگتنا بھی پڑے۔‘‘
’’ نہیں، تم پرواہ نہ کرو ۔تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر
سکتا۔ میں لاکھوں روپے خرچ کروں گا۔"
روشی کچھ نہ بولی۔ وہ
کچھ سوچ رہی تھی۔
’’میرا خیال ہے کہ یہاں ایک ٹیلیفون ہوتھ ہے‘‘ عمران نے کہا
اور ڈرائیور سے بولا۔ ’’گاڑی روک دو۔"
ٹیکسی رُک گئی ۔ روشی اور عمران نیچے اتر گئے ۔ بوتھ خالی تھا۔
روشی نے ایک بار پھر عمران سے پوچھا کہ اُسے کیا کہنا ہے۔ عمران نے اس سلسلے میں کچھ
دیر قبل کہے ہوئے جملے دہرائے ۔ روشی نے فون میں سکے گرائے اور نمبر ڈائیل کرنے لگی...
اور پھر عمران نے اس کے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھے۔
وہ ایک ہی سانس میں
وہ سب کچھ دہرا گئی جو عمران نے بتایا تھا۔ پھر خاموش ہو کر شاید دوسری طرف سے بولنےو
الے کی بات سننے لگی ۔ ’’دیکھئے‘‘ اُس نے تھوڑی دیر بعد ماؤتھ پیس میں کہا ’’مجھے جو کچھ بھی معلوم تھا، میں نے بتا
دیا،اس سے زیادہ میں کچھ بھی نہیں جانتی، ویسے
مجھے اس کے متعلق تشویش ہے کہ اس کی اصلیت کیا ہے۔ بظا ہر بے وقوف اور پا گل معلوم
ہوتا ہے ۔‘‘
’’آیا کہاں سے ہے؟ ‘‘دوسری طرف سے آواز آئی ۔
’’ وہ کہتا ہے کہ دلاور پور سے آیا ہوں۔"
’’کیا وہ اس وقت بھی تمہارے پاس موجود ہے ؟"
’’نہیں ،باہر ٹیکسی میں ہے۔ میں ایک پبلک بوتھ سے بول رہی ہوں۔
اس سے بہا نہ کر کے آئی ہوں کہ ایک سہیلی
تک ایک پیغام پہنچانا ہے۔‘‘
’’کل رات سے قبل بھی اُس سے کبھی ملاقات ہوئی تھی ؟‘‘
’’نہیں، کبھی نہیں‘‘ روشی نے جواب دیا۔
" کیا اُسے میرا خط دکھایا تھا؟“
’’ نہیں کیا دکھا دوں؟‘‘ روشی نے پوچھا لیکن اس کا کوئی جواب
نہیں ملا۔ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا تھا۔روشی نے ریسیور رکھ دیا۔ عمران نے فورا ہی انکوائری کے
نمبر ڈائل کئے۔
"ہیلو۔ انکوائری۔ ابھی پلک بوتھ نمبر چھیالیس سے کسی کے
نمبر ڈائیل کئے گئے تھے۔ میں اس کا پتہ چاہتاہوں ۔"
’’آپ کون ہیں؟“
’’میں ڈی۔ایس۔ پی سٹی ہوں ۔‘‘ عمران نے کہا۔
’’اوہ... شاید آپ کو غلط نہیں ہوئی ہے‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔‘‘
چھیالیسویں بوتھ سے تقریبا آدھے گھنٹے سے کوئی کال نہیں ہوئی۔‘‘
’’اچھا ...شکریہ‘‘ عمران نے ریسیور رکھ دیا اور دونوں بوتھ سے
باہر نکل آئے ۔
" تم ڈی۔ ایس پسی سٹی ہو'‘ روشی ہنسنے لگی۔
’’اگر یہ نہ کہتا تو وہ ہرگز کچھ نہ بتاتا ‘‘عمران نے کہا۔
’’لیکن اُس نے بتایا کیا ؟"
’’یہی کہ چھیالیس نمبر بوتھ سے پچھلے آدھے گھنٹے سے کوئی کال
نہیں ہوئی مگر روٹی تم نے کمال کر دیا۔ جو کچھ میں کہتاوہی تم نے بھی کہا ۔‘‘
"تم کیا جانو کہ اُس نے کیا کہا تھا ۔"
’’تمہارے جوابات سے میں نے سوالوں کی نوعیت معلوم کر لی تھی
‘‘
’’تو تم صرف عورتوں کے معاملے میں بیوقوف معلوم ہوتے ہو ۔‘‘
" تم خود بیوقوف " عمران بگڑ کر بولا۔
’’ چلو... چلو‘‘ وہ اُسے ٹیکسی کی طرف دھکیلتی ہوئی بولی۔
’’نہیں... تم بار بار مجھے بے وقوف کہہ کر چڑارہی ہو‘‘۔
عمران نے بکواس کو طول
نہیں دیا دہ بہت کچھ سوچنا چاہتا تھا۔
’’اُس کی آواز بھی عجیب تھی‘‘ روشی نے کہا ’’ایسا معلوم ہور ہا تھا جیسے کوئی بھوکا
بھیڑ یا غرار ہا ہو... مگر یہ کیسے ممکن ہے۔ایکسچنج کواس کی اطلاع تک نہ ہوئی ؟"
’’اُدنھ، ماروگولی ، ہمیں کرنا ہی کیا ہے‘‘ عمران نے گردن جھٹک
کر کہا " مجھے تو اب اس لڑکی کی تلاش ہے جس نے میرے نوٹوں میں گھپلا کیا تھا۔"
’’نہیں عمران‘‘ روشی سنجیدگی سے بولی‘‘ یہ عجیب وغریب اطلاع
پولیس کے لئے کافی دلچسپ ثابت ہوگی۔"
’’کون سی اطلاع ...؟"
’’یہی کہ سکس ناٹ کو رِنگ کیا جاتا ہے، با قاعدہ کال ہوتی ہےاور
ٹیلیفون ایکسچنج کواس کی خبر تک نہیں ہوتی ‘‘۔
’’اے روشی ، خبر دار...
خبر دار کسی سے اس کا تذکرہ مت کرنا، کیا تم سچ مچ اپنی گردن تڑوانا چاہتی ہو۔ اگر پولیس تک یہ بات
گئی تو سمجھ لو کہ ہم دونوں ہی ختم کر دئے جائیں گے۔ وہ کوئی معمولی چور یا اُچکا نہیں
معلوم ہوتا... ہاں ! میں نے سینکڑوں جاسوسی ناول پڑھے ہیں۔ ایک ناول میں پڑھا تھا کہ
وہ آدمی ہر جگہ موجود رہتا تھا۔ جہاں نام لو، وہیں دھرا ہوا ہے۔ خدا کی پناؤ
" عمران اپنا منہ پیٹنے لگا اور روشی بننے لگی اور کافی دیر تک ہنستی رہی... پھر
اچانک چونک کر سیدھی بیٹھ گئی۔ وہ حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔
’’تم ہوش میں ہو یا نہیں ‘‘اس نے عمران کی طرف جھک کر آہستہ
سے کہا " ہم شہر میں نہیں ہیں"۔
عمران آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کار حقیقتاً
ایک تاریک سڑک پر دوڑ رہی تھی اور دونوں طرف دور تک کھیتوں اور میدانوں کے سلسلے بکھرے
ہوئے تھے۔
’’پیارے ڈرائیور گاڑی روک دو ۔‘‘ عمران نے ڈرائیور سے کہا لیکن دوسرے
ہی لمحے میں اُسے اپنی پشت پر شیشہ ٹوٹنے کا چھنا کا سنائی دیا اور ساتھ ہی کوئی ٹھنڈی
سی چیز اس کی گردن سے چپک گئی۔
’’خبر دار چُپ چاپ بیٹھے رہو ‘‘۔ اُس نے اپنے کان کے قریب ہی
کسی کو کہتے سنا " تمہاری گردن میں سوراخ ہو جائے گا اور لڑکی تم دوسری طرف کھسک
جاؤ۔"
ٹیکسی پرانے ماڈل کی تھی اور اس کی اسٹپنی اُوپر کی طرف سے کھلتی تھی۔ غالباً شروع سے یہ آدمی
چھپارہا تھا۔ جنگل میں پہنچ کر اُس نے اسٹپنی کھولی اور کار کا پچھلا شیشہ توڑ کر ریوالور
عمران کی گردن پر رکھ دیا۔ روشی خوفزدہ نظروں سے اُس چوڑے چکے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی
جس میں ریوالور دبا ہوا تھا۔
عمران نے جنبش تک نہ
کی وہ کسی بُت کی طرح بے حس و حرکت نظر آر ہا تھا، حتیٰ کہ اُس کی پلکیں تک نہیں جھپک
رہی تھیں۔ کار بد ستور فراٹے بھرتی رہی۔ روشی پر غشی سی طاری ہورہی تھی، اُسے
ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے کار کارخ تحت الثریٰ کی طرف ہو۔ اُس کی آنکھیں بند ہوتی
جارہی تھیں۔
اچانک اُس نے ایک چیخ سنی۔ بالکل اپنے کان کے قریب اور بوکھلا
کر آنکھیں کھول دیں۔ عمران کار کے عقبیٰ شیشے کے ٹوٹنے سے پیدا ہو جانے والے خلا سے اندھیرے میں
گھور رہا تھا اور ریوالور اُس کے ہاتھ میں تھا۔
’’ڈرائیور‘‘ گاڑی روکو۔ ‘‘عمران نے ریوالور کا رخ اُس کی طرف
کر کے کہا۔ ڈرائیور نے پلٹ کر دیکھا تک نہیں ‘‘۔ میں تم سے کہہ رہا ہوں اُس نے اس بار
ریوالور کا دستہ ڈرائیور کے سر پر رسید کردیا۔ ڈرائیور ایک گندی سی گالی دے کر پلٹا
لیکن ریوالور کا رخ اپنی طرف دیکھ کر دم بخودرہ گیا۔ ’’گاڑی روک دو پیار ے‘‘ عمران
اُسے پکار کر بولا ‘‘تمہارے ساتھی کی ریڑھ کی بڑی ضرور ٹوٹ گئی ہوگی کیونکہ کار کی
رفتار بہت تیز تھی‘‘۔
کاررُک گئی۔
" شاباش‘‘ ۔ عمران
آہستہ سے بولا۔’’ اب تمہیں بھیرویں سناؤ یا دُرگت... یا جو کچھ بھی اُسے کہتے ہوں،
دھرپُت کہتے ہیں شاید... لیکن پڑھے لکھے لوگ عمومااًٍ اور دپد کہتے ہیں"۔ ڈرائیور کچھ نہ بولا ۔ وہ اپنے خشک
ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔
’’روشی ۔ اس کے گلے سےٹا ئی کھول لو‘‘ عمران نے کہا۔
تھوڑی دیر بعد کار شہر کی طرف واپس جارہی تھی۔ روشی اور عمران
ابھی سیٹ پر تھے۔ عمران کار ڈرائیو کر رہاتھا۔ پچھلی سیٹ پر ڈرائیور بے بس پڑا ہوا تھا۔ اُس کے دونوں
ہاتھ پُشت پر اُسی کی ٹائی سے باندھ دئے گئے
تھے اور پیروں کو جکڑنے کے لئے عمران نے اپنی پیٹی استعمال
کی تھی اور اُس کے منہ میں دو عدد ر و مال حلق تک ٹھونس دئے گئے تھے۔ سیٹ کے نیچے ایک
لاش تھی جس کا چہرہ بھرتا ہو گیا تھا۔ روشی اس طرح خاموش تھی جیسے اس کی اپنی زندگی بھی خطرے میں
ہو ۔ وہ کافی دیر سے کچھ بولنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ابھی تک اسے کامیابی نصیب نہیں
ہوئی تھی۔ آخر کب تک، کار میں پڑی ہوئی لاش اسے پاگلوں کی طرح چیخنے پر مجبور کر رہی تھی ۔‘‘ میرا خیال ہے کہ
اب تم سید ھے کوتوالی چلو‘‘ روشی نے کہا۔
’’ارے باپ رے ‘‘عمران خوفزدہ آواز میں بڑبڑایا۔
’’ نہیں تمہیں چلنا پڑے گا۔ کچھ نہیں کوئی خاص بات نہیں ہم جو
کچھ بھی بیان دیں گے ، وہ غلط نہیں ہو گا۔ تم نے اپنی جان بچانے کے لئے اُسے نیچے گرایا
تھا۔‘‘
’’وہ تو سب ٹھیک ہے مگر پولیس کا چکر... نہیں یہ میرے بس کا
روگ نہیں ۔"
’’ پھر لاش کا کیا ہوگا؟ تم نے اُسے وہاں سے اُٹھایا ہی کیوں؟
ڈرائیور کو بھی یہیں چھوڑ آئے ہوتے ۔ کار ہم شہر کے باہر چھوڑ کر پیدل چلے جاتے۔
’’ اسی وقت کیوں نہیں دیا تھا یہ شورہ ‘‘عمران غصیلی آواز میں
بولا ۔ اَب کیا ہو سکتا ہے۔ اَب تو ہم شہر
میں داخل ہو گئےہیں۔‘‘
روشی کے ہاتھ پیر ڈھیلے
ہو گئے ، اس نے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’اب بھی غنیمت ہے... پھرو ہیں
وا پس چلو۔‘‘
’’تم مجھ سے زیادہ احمق معلوم ہوتی ہو۔ اس بارا گر دس پانچ سے
ملاقات ہوگئی تو میر امر بہ بن جائے گا اور تمہاری جیلی ‘‘۔
’’پھر کیا کرو گے؟"
’’دیکھو... ایک بات سوجھ رہی ہے۔... مگر تمہیں نہ بتاؤں گا،
ورنہ تم پھر کوئی ایسا مشورہ دوگی کہ مجھے اپنی عقل پر رونا آجائے گا۔
روشی خاموش ہوگئی ، اس لئے نہیں کہ لاجواب ہو گئی تھی، بلکہ
اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور حلق میں کانٹے پڑے جارہے تھے ۔ عمران کار کو شہر
کے ایک ایسے حصے میں لایا جہاں کرائے پر دیئے جانے والے بہت سے گیراج تھے۔ اُس نے ایک
جگہ کار روک دی اور اُتر کر ایک گیراج حاصل کرنے کے لئے گفت و شنید کرنے لگا۔ اس نے
منیجر کو بتایا کہ وہ ایک سیاح ہے، کاروینشن ہوٹل میں قیام ہے چونکہ وہاں کاروں کے
لئے کوئی انتظام نہیں ، اس لئے وہ یہاں ایک گیراج کرائے پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بات
غیر معمولی نہیں تھی ، اس لئے اُسے گیراج حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہوئی۔ اُس نے ایک
ہفتے کا پیشگی کرایہ ادا کر کے گیراج کی کنجی اور رسید حاصل کی اور کار کو گیراج میں
مقفل کر کے روشی کے ساتھ ٹہلتا ہوا دوسری سڑک پر آ گیا۔
’’لیکن اس کا انجام کیا ہوگا ؟‘‘ روشی بڑ بڑائی۔
" صبح تک وہ ڈرائیور بھی مر جائے گا‘‘ عمران نے بڑی سادگی
سے کہا۔
" تم با اکل گدھے
ہو‘‘ روشی جھلا گئی۔
’’ نہیں ، اب میں اتنا گدھا بھی نہیں ہوں۔ میں نے اپنا صیح
نام اور پتہ نہیں لکھوایا ۔"
’’اس خیال میں نہ رہنا ۔ " روشی نے تلخ لہجے میں کہا۔ " پولیس
شکاری کتوں کی طرح پیچھا کرتی ہے۔"
’’ فکر نہ کرو ۔ ایک ہفتے تک تو وہ گیراج کھلتا نہیں کیونکہ
میں نے ایک ہفتے کا پیشگی کرایہ ادا کیا ہے اور پھر ایک ہفتے میں ، میں نہ جانے کہاں
ہوں گا۔ ہو سکتا مر ہی جاؤں، ہو سکتا ہے کہ اُس نا معلوم آدمی کی موت آجائے ، بہر حال
وہ اپنے دو ساتھیوں سے تو محروم ہو ہی چکا ہے۔“
روشی کچھ نہ بولی۔ اس کا سر چکرا رہا تھا۔ عمران نے ایک گزرتی
ہوئی ٹیکسی رکوائی ۔ روشی کے لئے دروازہ کھولا اور پھر خود بھی اندر بیٹھتا ہوا ڈرائیور
سے بولا ’’وہائٹ ماربل‘‘ روشی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
’’ ہاں ۔‘‘ عمران سر ہلا کر بولا ’’وہیں کھانا کھا ئیں گے، کافی
پئیں گے اور تم دو ایک پیک پی لینا۔ طبیعت سنبھل جائے گی۔ ویسے اگر چیونگم پسند کرو
توا بھی دوں اور ہاں، ہم دو ایک راؤ نڈ رمبا
بھی ناچیں گے۔"
" کیا تم بچ بچ پاگل ہو‘‘ روشی آہستہ سے بولی۔
’’ہا ئیں!کبھی احمق ،کبھی پاگل ، اب میں اپنا گلا گھونٹ لوں
گا ۔ "
روشی خاموش ہوگئی ۔ وہ اس سلسلے میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی۔
روشی کادل چاہ رہا تھا کہ پاگلوں کی طرح چیختی ہوئی گھر کی طرف بھاگ جائے۔ عمران اُسے ایک
کیبن میں بٹھا کر باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ باتھ روم کا تو صرف بہانہ تھا۔ وہ در اصل اُس کیبن میں جانا چاہتا تھا جہاں گاہکوں کے
استعمال کرنے کا فون تھا۔
اُس نے وہ نمبر ڈائل کئے جن پر انسپکٹر جاوید سے ہر وقت رابطہ
قائم کیا جاسکتا تھا۔
’’ہیلوکون...؟ انسپکٹر جاوید سے ملنا ہے۔ اوہ آپ ہی ہیں۔ سنئے
میں علی عمران بول رہا ہوں... ہاں ،دیکھئے۔ امیر گنج کے گیراج نمبر تیرہ میں، جو مقفل ہے آپ کو نیلے رنگ
کی ایک کار ملے گی۔ اس میں دو شکار ہیں۔ ایک مر چکا ہے اور دوسرا شاید آپ کو زندہ ملے۔
گیراج کی کنجی میرے پاس ہے۔ آپ تلاشی کا وارنٹ لے کر جائیے اور بے دریغ تالا توڑ دیجئے
... ہاں، ہاں ۔ یہ اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دونوں اُسی کے آدمی ہیں اور سنئے کافی رازداری کی ضرورت ہے۔ اس واقعے کو راز ہی رہنا
چاہیئے۔ مکمل واقعات آپ کو کل صبح معلوم ہوں گے۔ اچھا شب بخیر ‘‘- عمران ریسیور رکھ
کر روشی کے پاس واپس آ گیا۔
روشی کی حالت ابتر تھی۔ عمران نے کھانے سے قبل اُسے شیری پلوائی،
نتیجہ کسی حد تک اچھاہی نکلا ۔ روشی کے چہرے پر تازگی کے آثار نظر آنے لگے تھے لیکن
پھر بھی کھانا اس کے حلق سے نہیں اُتر رہا تھا اور وہ عمران کو حیرت سے دیکھ رہی تھی
جو کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑا تھا جیسے کئی دن سے بھوکا ہوا اور اس کے چہرے پر وہی پرانی
حماقت طاری ہوگئی تھی‘‘ تم بہت خاموش ہو‘‘ ۔ عمران نے سر اُٹھائے بغیر روشی سے کہا۔
" کچھ نہیں ۔ کوئی خاص بات نہیں ‘]۔ روشی نے بے دلی سے
کہا۔
" تم عورت ہو یا... ذرا مجھے بتاؤ۔ کیا میں اُن کے ہاتھوں
مارڈالا جاتا ...وہ ہمیں لے جا کر ہماری
چٹنی بناڈالتے۔"
’’میں اس موضوع پر گفتگو نہیں کرنا چاہتی ‘‘۔ روشی نے اپنی پیشانی
رگڑتے ہوئے کہا۔
’’ میں خود نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خود چھیڑتی ہو اور پھر ایسا
لگتا ہے جیسے کھا جاؤ گی۔"
" عمران ڈئیر ، سوچو تو اب کیا ہوگا ۔"
’’دوسرا بھی مر جائے گا۔ اور دو چار دن بعد لاشوں کی بد
بوپھیلے گی تو گیراج کا تالا توڑ دیا جائے
گا۔ اور پھر پکڑا وہ جائے گا جس کی وہ کار
ہوگی... ہاہا۔۔۔۔‘‘
’’ اور جو تم انہیں اپنی شکل دکھا آئے ہو۔‘‘ روشی بھنا کر بولی۔
’’گیراج والوں کو ؟ ‘‘عمران نے پوچھا اور روشی نے اثبات میں
سر ہلا دیا۔ عمران نے کہا۔" مگر وہ لوگ تمہاری مشکل نہیں دیکھ سکے تھے ۔ تم محفوظ
ر ہو گی‘‘۔
’’ میں تمہارے لئے کہہ رہی ہوں‘‘ روشی جھپٹ پڑی۔
’’ میری فکر نہ کرو، میں پٹھان ہوں۔ جب تک اس نا معلوم آدمی
کا صفایا نہ کرلوں گا۔ اس شہر سے نہیں جاؤں گا۔ ویسے اب میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا
۔"
" کیوں ؟‘‘ روشی کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار
ہوئی ۔ " تم میرے ساتھ ر مبانا چوگی‘‘
عمران ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔
’’ہوں، اچھا‘‘ روشی اٹھتی ہوئی بولی، "چلو لیکن یہ یادر
کھنا، تم مجھے آج بہت پریشان کر رہے ہو۔"
وہ دونوں دیگر یئیشن ہال میں داخل ہوئے ۔ درجنوں جوڑے رقص کر رہے تھے
۔ تھوڑی دیر بعد عمران اور روشی بھی ان کی بھیٹر میں گم ہو گئے۔
7
دوسرے دن عمران محکمہ سراغ رسانی کے سپر نٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھا
ہوا تھا۔ جس وقت وہ یہاں داخل ہوا تھا اور اس کے چہرے پر گھنی ڈاڑھی تھی چہرے پر کچھ
اس قم کا تقدس تھا کہ وہ کوئی نیک دل پادری معلوم ہوتا تھا آنکھوں پر تار یک شیشوں
کی عینک تھی ۔ داڑھی اب بھی موجود تھی لیکن چشمہ اُتار دیا گیا تھا۔
سپر نٹنڈنت و ہ ر پورٹ
پڑھ رہا تھا۔ جو عمران نے پچھلی رات کے واقعات کے متعلق مرتب کی تھی۔
’’ مگر جناب ‘‘سپر نٹنڈنٹ نے تھوڑی دیر بعد کہا‘‘ وہ کار چوری
کی ہے۔ اُس کی چوری کی رپورٹ ایک ہفتہ قبل کو توالی میں درج کرائی گئی تھی۔"
’’ ٹھیک ہے‘‘ عمران سر بلاکر بولا’[ اس قسم کی مہموں میں ایسی
ہی کاریں استعمال کی جاتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہاں آئے دن کاریں چرائی جاتی ہوں گی
۔"
’’آپ کا خیال درست ہے لیکن وہ کہیں نہ کہیں مل جاتی ہیں لیکن
ایسی کار کے ساتھ کسی آدمی کا بھی پکڑا جانا پہلا واقعہ ہے ‘‘
’’ڈرائیور سے آپ نے کیا معلوم کیا ؟ عمران نے پوچھا۔
’’کچھ بھی نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ کل شام ہی کو اُس کی خدمات حاصل
کی گئی تھیں۔ وہ در اصل ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے اور اُسے صرف تین گھنٹے کام کرنے کی اُجرت
تین سو روپے پیشگی دے دی گئی تھی۔"
’’آہم... تو اس کا یہ
مطلب ہے کہ جس سے کچھ معلوم ہونے کی توقع کی جاسکتی تھی، وہ ختم ہی ہو گیا۔"
’’خیر... لیکن ،یہ تو معلوم ہی کیا جاسکتا ہے کہ مرنے والا کون
تھا، کہاں رہتا تھا؟ کن حلقوں سے اُس کا تعلق تھا ؟ ‘‘
’’جاوید اس کے لئے کام کر رہا ہے اور مجھے توقع ہے کہ وہ کامیاب
ہوگا ۔"
’’ٹھیک... اچھا، کیا آپ اس بات سے واقف ہیں ...مگر نہیں ، خیر
ہاں تو میں ابھی کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ عمران خاموش ہو کر اپنی پیشانی پر انگلی مارنے
لگا۔ وہ در اصل سپر نٹنڈنٹ سے فون نمبر سکس ناٹ کے متعلق گفتگو کرنے جارہاتھا لیکن
پھر کچھ سوچ
کر رک گیا۔
’’کیا آپ کوئی خاص بات کہنے والے تھے ؟‘‘ سپر نٹنڈنٹ نے عمران
سے پوچھا۔
’’وہ بھی بھول گیا‘‘ عمران نے سنجیدگی
سے کہا ...پھر اس کے چہرے پر نہ جانے کہاں کا غم ٹوٹ پڑا اور وہ ٹھنڈی سانس لے کر دردناک
لہجے میں بولا‘‘ ۔ میں نہیں جانتا یہ کوئی مرض ہے یا ذہنی کمزوری، اچانک اس طرح ذہنی
رو بہکتی ہے کہ میں وقتی طور پر سب کچھ بھول جاتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ تھوڑی دیر بعد
وہ بات یاد ہی آجائے جو میں آپ سے کہنا چاہتا تھا۔"
سپر نٹنڈنٹ اُسے ٹٹو لنے والی نظروں سے دیکھنے لگا
لیکن عمران کے چہرے سے اُس کی دلی کیفیت کا اندازہ کر لینا آسان کام نہیں تھا۔ پھر
اسی تھیسں کے متعلق دونوں میں کافی دیر تک مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہیں۔ سُپر نٹنڈنٹ
نے اُسے بتایا کہ اے ۔ بی سی ہوٹل کے آدمی جعلی نوٹوں سمیت پکڑے گئے ہیں۔ عمران نے
نوٹوں کے نمبر طلب کئے سپر نٹنڈنٹ نے دراز سے لسٹ نکال کر اس کی طرف بڑھادی۔
" نہیں " ۔ عمران سر ہلا
کر بولا’’ اس میں صرف وہی نمبر ہیں جو میں ہوٹل میں ہارا تھا۔ ایک بھی ایسا نمبر نظر
نہیں آتا جو اُس آدمی والے پیکٹوں سے تعلق رکھتا ہو۔"
" تب تو ہمیں یہ تسلیم کر نا
پڑے گا کہ اے۔ بی ۔سی والوں کا اُس سے کوئی تعلق نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ ہوشیار ہو
گیا تھا تو اُسے اے بی سی والوں کو بھی نوٹوں کے استعمال سے روک دینا چاہئے تھا۔"
’’نہیں، اس کے بارے میں کچھ کہا ہی
نہیں جاسکتا ۔‘‘ عمران نے کہا " ہوسکتا ہے کہ تعلق ظاہر نہ کرنے ہی کے لئے اس
نے دیدہ و دانستہ اُن آدمیوں کو پولیس کے چنگل میں دے دیا ہو۔“
’’جی ہاں ، یہ بھی ممکن ہے ‘‘سپر
نٹنڈنٹ سر ہلانے لگا۔
’’فی الحال ہمیں اے۔ بی۔ سی والوں
کو نظر انداز کر دینا چاہئے‘‘
’’ لیکن اب آپ کریں گے کیا؟ سپر نٹنڈنٹ
نے پوچھا۔
’’ یہ بتانا بھی بہت مشکل ہے۔ میں
پہلے سے کوئی طریق کار متعین نہیں کرتا۔ بس وقت پر جو سوجھ جائے۔ پھیلی رات کے واقعات
کا رد عمل کیا ہوتا ہے، اب اس کا منتظر ہوں۔“
پھر عمران زیادہ دیر تک وہاں نہیں بیٹھا کیونکہ ایک
نیا خیال اس کے ذہن میں سرا بھار رہا تھا۔ وہ وہاں سے نکل کر ایک طرف چلنے لگا لیکن
ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی اندازہ کرتا جارہا تھا کہ کہیں کوئی اس کا تعاقب تو نہیں کر
رہا۔ اُس نے آج بھی سپر نٹنڈنٹ سے روشی کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ وہ اُسے پس منظر ہی
میں رکھنا چاہتا تھا۔ کچھ دور چل کر وہ ایک پبلک ٹیلیفوں ہوتھ کے سامنے رک گیا۔ اس
نے مڑ کر دیکھا دور دور تک کسی کا پتہ نہیں تھا۔ سڑک زیادہ چلتی ہوئی نہیں تھی۔ کبھی
کبھار ایک آدھ کار گزر جاتی تھی یا کوئی راہ گیر چلتا ہوا نظر آ جاتا تھا۔
عمران بوتھ کا دروازہ کھول کر اندر
چلا گیا اور پھر اُسے اندر سے بولٹ کرنے کے بعد آلے میں سکہ گرادیا۔ دوسرے لمحے میں وہ سکس ناٹ کو ڈائیل
کر رہا تھا۔
’’ہیلو۔‘‘ دوسری طرف سے ایک بھاری
آواز آئی۔
’’ میں روشی بول رہی ہوں‘‘ عمران
نے ماؤتھ میں میں کہا اگر اس وقت روشی وہاں موجود ہوتی تو اسے عمران کی آوازسن کرغش
ضرور آ جاتا۔
"روشی...!"
’’ہاں، میں بہت پریشان ہوں"۔
’’کیوں...؟‘‘
’’اس نے پچھلی رات ایک آدمی کو مار
ڈالا ہے، وہ ہماری کار کی اسپٹنی میں چھپ گیا تھا۔ پھر ایک جگہ اُس نے پچھلا شیشہ توڑ کر ہمیں
ریوالور دکھایا۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ اُس نے اُسے کس طرح نیچے گرا دیا۔ عمران نے پورا
واقع دہراتے ہوئے کہا‘‘ میں نے اُس سے کہا کہ پولیس کو اطلاع کر دے مگر اُس نے انکار
کر دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ بہر حال، میں نے گھبرا ہٹ میں پولیس کوفون کر دیا کہ فلاں نمبر کے گیراج
میں ایک لاش ہے لیکن میں نے یہ نہیں بتایا کہ میں کون ہوں۔"
’’اُسے علم ہے کہ تم نے پولیس کو
فون کیا ہے ؟"
’’نہیں میں نے اُسے نہیں بتایا۔ میں
بہت پریشان ہوں۔ وہ کوئی خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔ کون ہے؟ یہ میں نہیں جاتی۔"
" تم اس وقت کہاں سے بول رہی
ہو؟“
’’یہ نہیں بتاؤ گی۔ مجھے تم سے بھی
خوف معلوم ہوتا ہے۔“
’’ دوسری طرف سے ہلکے سے قہقہے کی
آواز آئی اور بولنے والے نے کہا " تم پبلک بوتھ نمبر چوبیس سے بول رہی ہو
۔"
عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
" میں جارہی ہوں‘‘ اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’ نہیں ٹھہرو۔ اس میں تمہاری بہتری
ہے۔ ورنہ، جانتی ہو کیا ہو گا۔ اگر پولیس کے ہتھے چڑھ گئیں تو میرا تم سے کوئی جھگڑا
نہیں، بلکہ تم کئی بار نا دانستہ طور پر میرے کام بھی آچکی ہو۔ میں تمہیں اس جنجال
سے بچانا چاہتا ہوں ... ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ تم بوتھ کے باہرٹھہرو آدھے گھنٹے
کے اندر ہی اندر میرا ایک آدمی وہاں پہنچ جائے گا ؟ "
’’ کیوں؟ نہیں ،نہیں‘‘ عمران نے احتجاجا
ًکہا۔ " میں بالکل بے قصور ہوں، میں کیا کروں ، وہ خواہ مخواہ میرے گلے پڑ گیا
ہے۔"
’’ڈرو نہیں روشی ‘‘۔ بولنے والے نے
اسے چمکار کر کہا۔ " میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں تمہاری بہتری ہے
۔‘‘
عمران نے فوراًٍہی جواب نہیں دیا۔
’’ہیلو۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’ہیلو‘‘ عمران کی کپکپا ئی ہوئی سی آواز میں بولا۔ ’’ اچھا میں انتظار کروں
گی مجھے یقین ہے کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے۔‘‘
’’بہت ڈرگئی ہو ؟ " قہقہے کے
ساتھ کہا گیا ۔ ’’ارے اگر میں تمہیں مارنا چاہا تو اب تک زندہ ہوتیں۔ اچھا ،تم وہیں
انتظار کرو۔"
سلسلہ میں منقطع کر دیا گیا۔
8
عمران بوتھ سے نکل آیا۔ اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ
تھی اور داڑھی میں یہ مسکراہٹ نہ جانے کیوں خطر ناک معلوم ہورہی تھی۔ آدھے گھنٹے تک
اُسے انتظار کرنا تھا ۔ وہ ٹہلتا ہو اسڑک کی
دوسری طرف چلا گیا۔ اُدھر چند سایہ دار درخت تھے ۔ روشی کا انتظام اُس نے پچھلی بھی
رات کو کر لیا تھا۔ وہ اُس وقت ایک غیر معروف سے ہوٹل کے ایک کمرے میں مقیم تھی اور
عمران نے پچھلی رات اُسی کے فلیٹ میں تنہا گزاری تھی۔
وہ درختوں کے نیچے ٹہلتا رہا۔ بار بار اس کی نظر
کلائی کی گھٹری کی طرف اُٹھ جاتی تھی۔ میں منٹ گزر گئے۔ اب وہ پھر بوتھ کی طرف جارہا
تھا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے محسوس کیا کہ ایک کار قریب ہی اُس کی پشت پر
آرُ کی ہے۔ اچانک عمران پر کھانسیوں کا دورہ پڑا وہ پیٹ دبائے ہوئے جھک کر کھانسنے
لگا۔ پھر سیدھا کھڑا ہو کر بوتھ کی طرف مکالہراتا ہو غصیلی آواز میں بولا۔ " سالی کبھی تو باہر نکلو گی"۔
" کیا بات ہے جناب ؟‘‘ کسی نے
پشت سے کہا۔
عمران چونک کر مڑا ۔ اس سے تین چارفٹ کے فاصلے پر
ایک وجہیہ جو ان کھڑا تھا اور سڑک پر ایک خالی کار موجود تھی۔
’’ کبا بتاؤں جناب‘‘ عمران اس طرح بولا جیسے کھانسیوں کے
دورے کے نتیجے میں اُس کی سانسیں اُلجھ رہی ہوں وہ چند لمحے ہانپتا رہا۔ پھر بولا ایک
گھنٹے سے اندر گھسی ہوئی ہے۔ مجھے بھی ایک
ضروری فون کرنا ہے۔ کئی بار دستک دے چکا ہوں
، ہر بار یہی کہہ دیتی ہے، ایک منٹ ٹھہریئے ، ایک منٹ کی ایسی تیسی ایک گھنٹہ ہو گیا‘‘’’ میں
دیکھتا ہوں‘‘ نو وارد آگے بڑھتا ہوا بولا اُس نے ہینڈل گھما کر درواز کھولا لیکن پھر
اُسے مڑنا نصیب نہیں ہوا عمران کا ہاتھ اُس کی گردن دبوچ چکا تھا۔ اُس نے اُسے بوتھ
کے اندر دھکا دے دیا اور خود بھی طوفان کی طرح اس پر جاپڑا۔
بوتھ کا دروازہ خود کار تھا اس لئے
اُسے بند کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی وہ دونوں کے داخل ہوتے ہی خود بخود بند ہو گیا
تھا۔ تھپڑ وں گھونسوں اور اتوں کا طوفان۔ ہاتھوں کے ساتھ ہی ساتھ عمران کی زبان بھی
چل رہی تھی۔
’’ میں روشی، تمہاری ٹھکائی کر رہا
ہوں، میری جان اپنے بلڈانگ سے کہہ دینا کہ میرے بقیہ نوٹ مجھے واپس کر دے، ور نہ ایک
دن اُسے بھی کسی چوہے دان میں بند کر کے ماروں گا اور دو سالی روشی ، وہ بھی مجھے جل
دے گئی کل رات سے غائب ہے اور بیٹا ،کل رات سے میں نے تمہارے ایک ساتھی کی کمر توڑ
دی ہے۔"
عمران اُس پر اچانک اس طرح ٹوٹ پڑا
تھا کہ اسے کچھ سوچنےسمجھنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ پھر ایسی صورت میں چپ چاپ پیٹے رہنے کے
علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس نے ہاتھ پیر ڈال دیئے عمران نے اُسے کالر
سے پکڑ کر اُٹھا لیا لیکن اُس کے پیر زمین پر نکتے ہی نہیں تھے ‘‘دیکھو بیٹا...
اپنے بُلڈاگ سے کہہ دینا کہ آج رات کو میرے بقیہ نوٹ واپس مل جانے چاہئیں۔ وہ جعلی
ہیں، میں ابھی انہیں بازار میں نہیں لانا چاہتا تھا... مگر اس کتے کی وجہ سے میرا کھیل
جڑ گیا۔ آخر وہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والا ہوتا کون ہے۔ اُس سے کہو آج
رات مجھے نوٹ واپس ملنے چاہئیں۔ میں روشی ہی کے فلیٹ میں ہوں دو مجھ سے خائف ہو کر
کہیں چھپ گئی ہے۔ آج رات کو... میں روشی کے فلیٹ ہی میں ملوں گا اور یہ بھی کہہ دینا
اس چڑی مار سے کہ اے۔ بی ۔ سی ہوٹل میں ایک پولیس افسر مچھلیوں کے شکار کے بہانے ٹھہر
ا ہوا ہے۔ ہوشیار رہنا‘‘ ۔
پھر اُس نے اُسے کھینچ کر بوتھ سے
باہر نکالا۔ سڑک ویران پڑی تھی۔ نو دارد اگر چاہتا تو کھلی جگہ میں اس سے اچھی طرح
نمٹ سکتا تھا ... مگر حقیقت تو یہ تھی کہ اب اس میں جدو جہد کی سکت ہی نہیں رہ گئی
تھی۔ عمران نے اسے اسٹیئرنگ کے سامنے بیٹھا دیا ۔"جاؤ اب دفع ہو جاؤ"۔ عمران
نے کہا " ور نہ ہو سکتا ہے کہ مجھے پھر تم پر پیار آنے لگے۔ اپنے بلڈاگ تک میرا
پیغام ضرور پہنچا دینا نہیں تو پھر جانتے ہو مجھے ۔ جہاں بھی اندھیرے اُجالے مل گئے
تمہارا آملیٹ بنا کر رکھ دوں گا۔"
9
ہُد ہُد کو عمران نے بالکل اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی۔
وہ سچ مچ تھوڑا سا بے وقوف تھا لیکن عمران کے اشارے پر بالکل مشین کی طرح کام کرتا
تھا۔ کاہل اور سست ہونے کے باوجود بھی کام کے وقت اس میں کافی پھر تیلا پن آجاتا تھا...
مگر اس کام سے وہ بری طرح بیزار تھا جو آج کل اُسے سونپا گیا تھا۔ وہ اس کام کو بھی
کسی حد تک برداشت کر سکتا تھا... مگر کم از کم اے ۔ بی۔سی ہوٹل میں قیام کرنے کے لئے
تیار نہیں تھا لیکن عمران سے خوف بھی معلوم ہوتا تھا اور وہ بے چارہ ابھی تک اس بات
سے واقف نہیں تھا کہ اسے حقیقتاً کیا کرنا ہے۔ ویسے محکمہ اُسے مچھلی کا شکار کرنے کی تنخواہ
تو دیتا نہیں تھا۔
کل دو ہوٹل میں داخل ہوا تھا اور آج اُسے عمران کی
ہدایت کے مطابق شکار کھیلنے کے لئے صبح سے شام تک سمندر کے کنارے بیٹھنا تھا لیکن وہ
اے بی سی کی فضا اور ماحول سے سخت بیزار تھا اُسے وہاں ہر وقت برے آدمی اور بری عورتیں
نظر آتی تھیں۔ اس وقت دو ناشتے کی میز پر بیٹھا جلدی جلدی حلق میں چائے اُنڈیل رہا
تھا۔ وہ جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ بات یہ تھی کہ اسے کاؤنٹر کے قریب
وہی عورت نظر آگئی تھی جس نے پچھلی رات اسے بہت پریشان کیا تھا۔ رات وہ نشے میں تھی
اور ہُد ہُد کے سر ہو گئی تھی کہ وہ اسے فلم ’’دیو اس ‘‘کا گانا، بالم آئے بسو مورے
من میں‘‘ سنائے ہد ہد کی بوکھلاہٹ دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس تفریح میں دلچسپی لینے
لگے تھے ۔ پتہ نہیں کس طرح ہُد ہُد نے جلدی جلدی ناشتہ ختم کیا اور کمرے سے شکار کا
سامان لے کر گھاٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہاں آنے کے مقصد سے تو واقف ہی تھاد و اچھی
طرح جانتا تھا کہ عمران کو اس علاقے سے کیوں دلچسپی ہو سکتی ہے، مگر وہ یہ نہیں جانتا
تھا کہ خوداُ سے کیا کرنا ہے، البتہ وہ اپنی آنکھیں ضرور کھلی رکھنا چاہتا تھا۔
اس حصے میں سمندر پر سکون تھا ادھر
لانچوں اور کشتیوں کی آمد ورفت بھی نہیں رہتی تھی۔ اُسے اپنے علاوہ دو، تین اور بھی نظر آئے جو پانی میں ڈور
ڈالے بیٹھے اُونگھ رہے تھے۔ وہ ایک بجے تک جھک مارتا رہا لیکن ایک مچھلی بھی اس کے
کانٹے میں نہ نگی... لیکن شاید وہ اس سے بے خبر تھا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر ایک آدمی
کھڑا خو داسی کو شکار کرنے کی تاک میں ہے۔
وہ آدمی چند لمحے کھڑا سگریٹ کے کش
لیتا رہا ۔ پھر آہستہ آہستہ ہُد ہُد کی طرف
بڑھا۔
" آج کل شکار مشکل ہی سے ملتا ہے۔‘‘ اُس نے
ہُد ہُد سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
ہُد ہُد چونک کر اسے گھورنے لگا۔ یہ ایک دُبلا پتلا اور دراز
قد آدم تھا ،عمر تیسں اور چالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ اس کے شانے سے ایک کیمرہ لٹک رہا تھا۔‘‘ جج... جی ہاں’’ ہُد ہُد اپنے چہرے پر
خوش اخلاقی کے آثار پیدا کرتا ہوا بولا۔
’’آپ اس شوق کو کیسا سمجھتے ہیں‘‘
۔ نو دارو نے پوچھا۔
"مم... معاف فرمائیے گا۔ مم... میں سمجھا نہیں‘‘۔
’’ اوہ... میرے اس سوال کو کسی اور
روشنی میں نہ لیجئے گا۔ میرا تعلق دراصل ایک با تصویر ماہنامے سے ہے اور میرا کام یہ
ہے کہ میں مختلف قسم کی ہابیز (Hobbies) کے متعلق معلومات اور تصاویر فراہم کروں‘‘۔
’’ یہ مم، میری ہابی، نہیں بلکہ ...پپ
پیشہ ہے۔’‘ ہُد ہُد مسکرا کر بولا۔
’’ میں یقین نہیں کر سکتا جناب
" نووارد بھی بننے لگا۔ " ہمارے یہاں کے پیشہ ور سمندر میں جال ڈالتے ہیں۔
ان کالباس اتنا شاندار نہیں ہوتا اور وہ تنکوں کی ہیٹ نہیں لگاتے ‘‘ہُد ہُد بھی خواہ مخواہ ہنسنے لگا اور نو وارد نے کہا ۔ " میں آپ کا شکر گزار
ہوں گا اگر آپ مجھے شکار کھیلتے ہوئے دو تین پوز دے دیں۔‘‘
’’ یہاں اکیلا ...مم ...میں... تت
تو نہیں ہو۔"
’’درست لیکن میں انہیں اس قابل نہیں
سمجھتا کہ ان کی تصویر کسی ایسے ماہنامے میں شائع ہو جو امریکہ ،انگلینڈ، فرانس، جرمنی
اور ہالینڈ جیسے ممالک میں جاتا ہو ۔‘‘
ہُد ہُد گدھے کی طرح پھول گیا اور
اُس نے اپنے تین پوز دیئے لیکن اس شوق سے متعلق اظہار خیال کرتے وقت وہ بری طرح ہکلانے
لگا۔ ظاہر ہے کہ اُسے مچھلیوں کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ ہر مچھلی لذیذ نہیں
ہوتی اور خواہ وہ کسی قسم سے تعلق رکھتی ہو اس میں کانٹے ضرور ہوں گے۔
’’میں زبانی ...ن، نہیں... بب ، بتا
سکتا‘‘ اس نے آخر کار تنگ آکر کہا " لکھ لک ...کر...و... دے سکتا ہوں۔"
’’ ہوتا ہے، ہوتا ہے،‘‘ نو وارد سر
ہلا کر بولا‘‘ بعض لوگ صرف لکھ سکتے ہیں، بول نہیں سکتے ، اچھا، کوئی بات نہیں ، مجھے
اس کے بارے میں جتنا بھی علم ہے خود ہی لکھ لوں گا۔ ویسے آپ مجھے اپنا نام اور پتہ
لکھوادیجئے ۔"
ہُد ہُد نے اطمینان کی سانس لی۔ ظاہر ہے کہ اُس نے
نام اور پتہ غلط ہی لکھوایا تھا۔ نو وار در خصت ہو گیا لیکن اس نوارد کی گھات میں بھی
کوئی تھا جیسے ہی وہ ر تیلے حصے کو پار کر کے بندرگاہ کی طرف جانے والی سڑک پر پہنچا،
ایک آدمی تو دے کی اَوٹ سے نکل کر اس کا تعاقب کرنے لگا۔ یہ آدمی عمران کے علاوہ اور
کوئی نہیں تھا۔
10
روشی اپنے اقامتی ہوٹل میں پچھلی رات سے عمران کا انتظار کر رہی تھی ۔ اسے وہ ہوٹل
میں ٹھہرا کر جلد ہی واپس آنے کا وعدہ کر کے
رخصت ہو گیا تھا۔ وہ ہوٹل میں ٹھہر کر جلد
ہی واپس آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گیا تھا۔ روشی اس کے لئے بے حد متفکر تھی لیکن اتنی
ہمت بھی نہیں رکھتی تھی کہ اس کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ۔ اُسے پولیس کا خوف بھی تھا
اور وہ بھیانک آدمی تو تھا ہی اس کی تلاش میں سارا دن گزر گیا لیکن عمران نہیں آیا۔
اس وقت شام کے چار بج رہے تھے اور روشی قطعی نا امید ہو چکی تھی اُسے یقین تھا کہ عمران
کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا یا پھر اس بھیا نک آدمی
نے...
وہ اس خیال ہی سے کانپ اٹھی۔ اس کے
تصور میں عمران کی لاش تھی۔ وہ پلنگ پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا
تھا کہ کیا کرے۔ اچانک کسی نے دروازہ پر دستک دی اور روشی اُچھل پڑی لیکن پھر اُس نے
سوچا ممکن ہے، ویٹر ہو کیونکہ یہ چائے کا وقت تھا ۔" آجاؤ"۔ اس نے بے دلی
سے کہا۔
دروازہ کھلا، عمران سامنے کھڑا مسکرارہا
تھا۔ " تم ‘‘روشی بے تحاشہ اچھل کر اُس کی طرف لپکی " تم کہاں تھے؟ میں تمہیں
مار ڈالوں گی‘‘۔
’’ ہا ئیں ‘‘۔ عمران اس طرح بو کھلا
کر پیچھے ہٹ گیا جیسے اُسے سچ مچ روشی کی طرف
سے قاتلانہ حملے کا خدشہ ہو۔ روشی ہنسنے لگی۔ مگر اُسے جھنجھوڑ کر بولی " تم بڑے
سور ہو... بتاؤ کہ کہاں تھے؟“
’’چچی فرزانہ کا مکان تلاش کر رہا
تھا‘‘ عمران سنجیدگی سے بولا۔
" کیوں ... یہ کون ہیں؟"
’’میں نہیں جانتا ‘‘۔ عمران ٹھنڈی
سانس لے کر بولا " مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک ایسے آدمی سے واقف ہیں جس کا بایاں
کان آدھا کٹا ہوا ہے۔“
’’کرنے لگے بے تکُی بکواس تم مجھے
اس طرح چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟‘‘
" کیا تم مرنا چاہتی ہو۔؟"
’’ہاں، میں مرنا چاہتی ہوں ‘‘۔ روشی
جھلا گئی۔
’’ اچھا تو اردو کے عشقیہ ناول پڑھنا
شروع کر دو۔ تم بہت جلد بور ہوکر مر جاؤ گی
۔‘‘
’’ عمران ...میں تمہیں گولی مار دوں
گی۔‘‘
’’ چلو بیٹھ جاؤ ‘‘عمران اُسے ایک
آرام کرسی میں دھکیلتا ہوا بولا ۔
’’ ہم دونوں کی زندگی کا انحصار صرف
اُس نا معلوم آدمی کی موت پر ہے ۔"
روشی اُسے خاموشی سے دیکھتی رہی پھر
بولی‘‘ ۔ تم آخر ہو کیابَلا ؟ مجھے بتاؤ ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی ۔‘‘
’’میں تم سے
پو چھتا ہوں کہ کیا کل رات فون پر تم نے
پو لیس کو اطلاع دی تھی؟‘‘
’’کس بات کی اطلاع ؟رو شی چو نک
پڑی۔
’’یہی کہ گیراج نمبر
تیرہ میں ایک لاش ہے ۔‘‘
’’ہر گز نہیں ۔بھلا
میں کیوں اطلاع دینے لگی ۔‘‘
’’پتہ نہیں ...پھر وہ کون عورت ہے
۔تم نے شام کا کوئی اخبا ر دیکھا
؟‘‘۔
’’نہیں میں نے نہیں دیکھا مجھے پو ری بات بتاؤ ،الجھن میں نہ ڈالو ۔
’’پولیس نے گیراج
کا تا لا تو ڑ کر لاش دریافت کر لی ہے ڈرائیور زندہ ہی نکلا ۔صرف
بے ہوش ہو گیا تھا ۔اخبا ر کی خبر ہے
کہ پچھلی
رات کو کسی نا معلوم عو رت نے جو لہجے سے
اینگلوانڈین معلوم ہو تی تھی فون
پر اس کی اطلاع پو لیس کو دی تھی۔‘‘
’’میں قسم کھا نے
کے لئے تیار ہو ں۔‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ تم ایسی حرکت نہیں کر سکتیں ۔کہنے کا مطلب صرف یہ
ہے کہ تم میری اجازت کے بغیر اس ہو ٹل سے باہر قدم نہ نکالنا خواہ مجھ سے ایک ہفتے بعد ہی ملا قات کیوں نہ ہو۔‘‘
’’میں وعدہ نہیں کر سکتی۔‘‘
’’کیوں...؟‘‘
’’میں تمہا رے ساتھ ہی
رہوں گی ۔تم مجھے تنہا نہیں چھو ڑ
سکتے۔‘‘
’’یعنی تم چا ہتی ہو کہ ہم دونوں کی گردنیں سا تھ
ہی کٹیں ۔‘‘
نہ جا نے کیوں ،مجھےتمہا ری مو
جود گی میں کسی سے بھی خوف نہیں محسوس ہو تا ۔‘‘
’’ اچھا صرف آج رات اور یہاں ٹھہرجاؤ۔‘‘
’’آخر کیوں ؟تم کیا کر
تے پھر رہے ہو ؟ مجھے بتاؤ۔‘‘
’’نہیں روشی ،تم بہت اچھی ہو ،تم آج رات
یہیں قیام کرو گی ۔اچھا بتاؤ ،کبھی تمہیں اے۔بی۔سی ہو ٹل میں کو ئی
ایسا آدمی بھی نظر آیا ہے
جس کا با یاں کان آدھا کٹا ہوا ہو؟‘‘
رو شی پلکیں جھپکا نے لگی ۔شاید وہ کچھ یاد کر نے کے لئے ذہن پر
زور دے رہی تھی’’کیوں؟تم یہ کیوں
پو چھ رہے ہو ؟‘‘اُس نے آہستہ سے پو چھا
۔’’نہیں میں نے وہاں کوئی ایسا آدمی نہیں
دیکھا لیکن میں ایسے آدمی کو جا نتی ضرور
ہوں۔‘‘
’’اے۔بی ۔سی سے تعلق ہے اس کا ؟‘‘عمران نے پو چھا۔۔
’’نہیں۔وہ اس حیثیت کا آدمی نہیں
ہے کہ اس کا گزاراے۔بی۔سی جیسی مہنگی جگہوں میں ہو سکے ۔وہ ماہی گیروں کی ایک کشتی پر ملازم ہے۔‘‘
’’تمہیں یقین ہے کہ اس کا بایا ں
کان کٹا ہوا ہے ۔‘‘
’’ہاں...لیکن تم ...‘‘
’’شش... ٹھہرو ... مجھے بتاؤ کہ اس
وقت کہاں ملے گا ۔ ؟‘‘
’’ میں بھلا کیسے بتا سکتی ہوں۔ مجھے
اس کا گھر نہیں معلوم ۔"
’’ تو اُس کشتی ہی کا پتہ ،نشان بتاؤ جس پر وہ کام کرتا ہے۔"
’’ہر شفیلڈ فشریز!‘‘ عمران نے ایک
طویل سانس لے کر آہستہ سے دہرایا۔ پھر اُٹھتا ہوا بولا‘‘ اچھاٹاٹا کل صبح ملاقات ہوگی۔"
’’ٹھہر و، مجھے بتاؤ کہ تم کس چکر
میں ہو؟"
’’میں اپنے بقیہ نوٹ واپس لینا چاہتا
ہوں۔"
" کچھ بھی ہو ۔ روشی اُسے گھورتی
ہوئی بولی۔ " اب تم مجھے اتنے احمق نہیں معلوم ہوتے ، جتنے اس شام اے۔ بی ۔ سی
میں معلوم ہوئے تھے ۔ "
’’پھر احمق کہا... تم خود احمق‘‘
عمران اُسے گھونسہ دکھاتا ہوا ۔ کمرے سے نکل گیا۔
11
روشی کا فلیٹ آج رات بہت زیادہ روشن نظر آرہا تھا۔ عمران نے چند مزید بلبوں کا اضافہ کیا تھا اور وہ فلیٹ میں تنہا تھا۔ اگر اس کے محکمے کے کسی اور آدمی کو اُس کی ان حرکات کا علم ہو جاتا تو وہ اُسے قطعی دیوانہ اور خبطی تصّور کر لیتا۔
آج دن بھر وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتا رہا تھا۔ مجرموں
میں سے ایک کا ہاتھ آجانا اور پھر اُسے صرف معمولی سی مرمت کر کے واپس کر دینا اصولاً
ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران اُسے با قاعدہ طور پر گرفتار
کر کے اُسے اُس کے دوسرے ساتھیوں کی نشاندہی پر مجبور کر دیتا ...پھر اُس نے اُسے نہ
صرف ہُد ہُد کے وجود سے آگاہ کردیا ، بلکہ
اپنے متعلق بھی بتا دیا کہ وہ روشی کے فلیٹ ہی میں رات بسر کرے گا اور اَب اس طرح چراغاں
کئے بیٹھا تھا جیسے کسی خاص تقریب کے انتظامات میں مشغول ہو ۔
کلاک نے بارہ بجائے اور اُس نے دروازوں کی طرف دیکھا
جو کھلے ہوئے تھے لیکن اُسے کلاک کی ٹک ٹک ‘‘کے علاو ہ اور کوئی آواز نہ سنائی دی۔
دروازے تو کیا آج اُس نے کھڑکیاں تک کھلی رکھیں تھیں، حالانکہ آج سردی شباب پر تھی
۔
اچانک اُسے راہداری میں قدموں کی
آواز سنائی دی جو رفتہ رفتہ نزدیک ہوتی جارہی تھی۔ پھر کسی نےگنگنا کر کہا " روشی
ڈارلنگ ۔"
دوسرے ہی لمحے میں ایک نوعمر آدمی دروازے میں کھڑا
احمقوں کی طرح پلکیں جھپکا رہا تھا۔ فرمائیے۔ عمران بڑے دلآویز انداز میں مسکرایا
۔
’’اوہ... معاف کیجئے گا ‘‘اُس نے
شرمائے ہوئے لہجے میں کہا’’ یہاں پہلے روشی رہتی تھی ۔ "
’’اب بھی رہتی ہے۔ تشریف لائیے ‘‘عمران
بولا۔
نوجوان کمرے میں آ گیا۔’’ روشی کہاں ہے ؟‘‘ اس نےپو
چھا۔
’’ وہ آج کل اپنی خالہ کے یہاں مرغیوں
کی دیکھ بھال کا طریقہ سیکھ رہی ہے ۔"
’’آپ کون ہیں ؟"
" میں ایک شریف آدمی ہوں۔"
’’روشی ،‘‘ نو جوان نے روشی کو آواز
دی۔
’’میں کہہ رہا ہوں نا کہ وہ اس وقت
یہاں نہیں ہے ۔ ‘‘عمران بولا۔
’’ارے ، وہ بڑی شریر ہے ۔ ‘‘نوجوان
ہنس کر بولا۔ " میری آواز سن کر چھپ گئی ہے۔ خیر، میں ڈھونڈ ے لیتا ہوں۔"
نوجوان بڑی بے تکلفی سے روشی کی خواب گاہ میں داخل
ہو گیا عمران اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ نوجوان نے دو، تین منٹ کے اندر ہی اندر
فلیٹ کی تلاشی لے ڈالی۔ پھر دوسری طرف تاریک راہداری میں ٹا رچ کی روشی ڈالنے لگا۔
’’ بس کرو میرے لعل " عمران
اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا’’ ابھی تمہارے منہ سے دودھ کی بو آتی ہے۔"
’’مطلب؟‘‘ نو جوان جھلا کر مڑا۔
’’مطلب بھی بتا دوں گا۔ آؤ میرے ساتھ‘‘
عمران نے کہا اور پھر اُسے بیٹھنے کے کمرے میں واپس لایا۔ نوجوان اُسے قہر آلود نظروں سے گھور رہا تھا۔ " تشریف رکھئے
جناب‘‘ عمران نے غیر متوقع طور پر خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔
’’ ابھی تم نے کیا کہا تھا‘‘۔ نوجوان
نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
" میں نے عرض کیا تھا کہ آپ
تلاشی لے چکے اور اَب آپ کو اطمینان ہو گیا
کہ میرے ساتھ دوسرے آدمی نہیں ہیں۔ اب تشریف لے جائیے اور اپنے بُلڈاگ سے کہہ دیجئے
کہ میرے نوٹ مجھے واپس کر دے۔ میں بہت برا آدمی ہوں، اپنے ساتھ بھیٹر بھاڑ نہیں رکھتا۔
تنہا کام کرتا ہوں، میں اس وقت اس فلیٹ میں تنہا ہوں لیکن میرا دعویٰ ہے کہ تمہارا
بلڈاگ میر ابال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ دیکھو... میں نے سارے دروازے کھول رکھے ہیں
اور سارے بلب روشن ہیں۔ لیکن ہاہا...کچھ نہیں‘‘۔
’’میں نہیں سمجھا کہ آپ کیا کہہ رہے
ہیں؟"
’’جاؤ یار بھیجانہ چاٹو ۔ اُسے میرا
پیغام پہنچا دو، جس نے تمہیں بھیجا ہے۔ چلواب کھسکو بھی ورنہ میرا ہاتھ تم پربھی اُٹھ
جائے گا۔ آج ہی میں تمہارے ایک ساتھی کی اچھی خاصی مرمت کر چکا ہوں۔“
’’میں تمہیں دیکھ لوں گا ‘‘نو جوان
اٹھتا ہوا بولا اور آندھی کی طرح کمرے سے نکل گیا لیکن عمران اس طرح کھڑا تھا جیسے
اُسے ابھی کسی اور کا بھی انتظار ہو ۔ اُس نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور ایک
پیش منتخب کر کے اُسے آہستہ آہستہ کچلنے لگا۔
سیکنڈ ، منٹوں اور منٹ گھنٹوں میں
تبدیل ہوتے چلے گئے لیکن قریب یا دور کی قسم کی بھی آواز نہ سنائی دی اور پھر عمران خود کو سچ مچ احمق سمجھنے لگا اسے
توقع تھی کہ اب وہ نا معلوم آدمی ضرور با لضرور آئے گا لیکن دو بج ر ہے تھے اور کائنات
پرسنّا ٹے کی حکمرانی تھی۔ اُس نے سوچا کہ اب اس حماقت کا خا
تمہ ہی کر دے۔ ممکن ہے وی نو جوان روشی کا کوئی گا ہک رہا ہو۔ عمران دروازے اور کھڑکیاں
بند کرنے کے لئے اٹھا۔
ابھی وہ دروازے کے قریب بھی نہیں پہنچتا تھا کہ راہداری میں قدموں کی آوازیں گو نجنے لگیں۔
کوئی بہت تیزی سے اُسی طرف آرہاتھا۔ عمران
بڑی پھرتی سے تین چار قدم پیچھے سے آیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی ۔ روشی دروازے
میں کھڑی بری طرح ہا نپ رہی تھی۔ اس کے چہرے پرپر پیشانی آثار نہیں تھے۔
’’تم نے میرا کہنا نہیں مانا ‘‘۔
عمران آنکھیں نکال کر بولا ۔
’’بس تم اسی طرح بکو اس کیا کرو ‘‘روشی
ایک صوفے میں گرتی ہوئی بولی... پھر اپنا وینٹی بیگ کھول کر دو پیکٹ نکالے اور انہیں عمران کی طرف اچھالتے
ہوئے کہا۔’’کہ اپنے بقیہ دو پیکٹ بھی سنبھالو‘‘۔
عمران نے پیکٹوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر حیرت
سے روشی کی طرف دیکھنے لگا۔
’’کچھ در قبل میرا ہارٹ فیل ہوتے
ہوتے بچا ہے۔ روشی نے کہا۔ " کیوں تمہیں یہ پیکٹ کہاں سے ملے ؟ ‘‘
’’بتاتی ہوں‘‘ز رادم لینے دو روشی
نے کہا اور اُٹھ کر الماری سے وہسکی کی بوتل نکالی ۔ بڑے گلا س میں چھا نگل خالص وہسکی
لے کر اس کی چسکیاں لینے لگی... پھر اس نے
رومال سے ہونٹ خشک کرتے ہوئے کہا۔ " مجھے نیند آ رہی تھی۔ ٹھیک ایک بجے کسی نے
دروازے پر دستک دی۔ میں سمجھی شاید تم ہو
۔ میں نے اُٹھ کر دروازہ کھول دیا لیکن وہ تم نہیں تھے ایک دوسرا آدمی تھا۔ اُس نے
مجھے یہ دونوں پیکٹ دیئے اور ایک لفافہ، جس پر میرا نام لکھا ہوا تھا اور پھر اس نے
مجھے کچھ پوچھنے کی مہلت ہی نہیں دی، چپ چاپ واپس چلا گیا۔’’ روشی نے وینٹی بیگ سے
و ہ لفافہ بھی نکال کر عمران کی طرف بڑھایا۔
عمران نے لفافے سے خط نکال کر میز پر پھیلاتے ہوئے
ایک طویل سانس لی۔ تحریر تھا۔
’’روشی... تمہارے دوست کے بقیہ دونوں
پیکٹ روانہ کر رہا ہوں ۔ لیکن تم انہیں کھول کر دیکھوگی نہیں ۔ ہوٹل کے باہر ایک نیلی
کار موجود ہے۔ چپ چاپ اُس میں بیٹھ جاؤ، وہ تمہیں تمہارے فلیٹ تک پہنچادے گی۔ تم دونوں
خواہ کہیں چھپو میری نظروں سے نہیں چھپ سکتے ۔ مجھے تم دونوں سے کوئی خاص پُر خاش نہیں
ہے، ورنہ تم اب تک زندہ نہ ہوتے۔ تمہارا دوست ایک معمولی سا مجرم ہے جعلی نوٹوں کا
دھندا کرتا ہے اور بس ... اس سے کہو کہ چپ چاپ اس شہر سے چلا جائے ،ور نہ تم تو عرصے
سے مجھے جانتی ہو، میں اور کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ یہاں سے اسی وقت چلی جاؤ ۔‘‘
عمران نے خط ختم کر کے روشی سے کہا۔
"تم نیلی کار میں بیٹھ گئیں ۔"
’’ کیا کرتی؟ میں نے سوچا کہ جب اُس
نے میری جائے رہائش کا پتہ لگایا تو مجھے کسی قسم کا نقصان پہنچانے میں اُسے کیا عار
ہو سکتا ہے۔"
’’ٹھیک ہے تم نے قلمندی سے کام لیا
۔"
’ ’مگر... روشی عمران کو گھورتی ہوئی
بولی ۔" کیا اُس نے تمہارے متعلق سچ لکھا ہے۔"
’’جھک مارتا ہے۔ اب میں اُس سے اپنی
توہین کا بدلہ لوں گا۔
’’دیکھو طوطے، میں نے تمہارے بارے
میں بہت کچھ سوچا ہے اور ہاں۔ تم نے یہ جاناں کس خوشی میں کر رکھا ہے۔؟"
" میں بہت زیادہ روشتی چاہتا ہوں اگر تم نے میرے بارے میں غلط ہی سوچا ہوگا۔ اچھا
اب تم مجھے یہاں بھی نہیں دیکھوگی ۔"
’’تو تم واقعی اس شہر سے جار ہے ہو‘‘
۔
’’میں کسی کے حکم کا پابند نہیں ہوں۔
اور بھلا میں اس مسخرے سے ڈر کر بھاگوں گا؟"
" خدا کے لئے مجھے بتاؤ کہ تم
کون ہو؟"
’’ایک معمولی سا مجرم کیا تمہیں اس
کی بات پر یقین نہیں آیا ‘‘
’’نہیں، مجھے اس کی بات پر یقین نہیں
آیا۔ ایک معمولی سا مجرم اُس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔ یہاں کے اچھے اچھے دل گردے
والے اس کے تصور سے بھی کانپتے ہیں۔ تم میرےپیشے سے واقف ہی ہو۔ ہر قسم کے آدمیوں سے میرا سابقہ
پڑتا ہے۔"
’’میں ایک شریف آدمی ہوں۔ممی اور ڈیڈی بچپن ہی سے مجھے اس کا یقین دلاتے رہے ہیں۔‘‘
عمران نے مغموم لہجے میں کہا " ویسے میں کبھی سچ مچ حماقتیں کر بیٹھتا ہوں۔ جیسے
آج...‘‘
عمران نے اپنا ٹیلیفون بوتھ والا
کارنامہ دُہرایا اور روشی بے تحاشا ہنسنے لگی۔ اُس نے کہا تم جھوٹے ہو۔ تم نے میری آواز کی
نقل کیسے اُتاری ہوگی؟ مجھے تو یقین نہیں آتا‘‘۔
’’اس طرح ...اس میں مشکل ہی کیا ہے‘‘
عمران نے ہو بہو روشی کے لہجے اور آواز کی نقل اُتاری۔
روشی چند لمحے اُسے حیرت سے دیکھتی
رہی پھر بولی " مگر اس حرکت کا مقصد کیا تھا؟"
" تفریح... وہ کیا کہوں، مگر
نتیجہ دیکھو کہ اُس نے خود ہی پیکٹ واپس کر دیے ۔ "
’’تمہاری عقل خبط ہو گئی ہے ۔‘‘ روشی
نے کہا " مجھے اس میں بھی کوئی چال معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’ ہو سکتا ہے، بہر حال اتنا میں
جانتا ہوں کہ اُس کے آدمی ہر وقت میرے پیچھے لگے رہتے ہیں، ورنہ اُسے تمہارا پتہ کیسے معلوم ہوتا ۔"
’’یہ میں بھی سوچ رہی تھی‘‘۔
’’یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آج
شام تم سے ملا تھا میرے ہی ذریعے وہ تم تک پہنچا ہوگا۔"
’’ مگر عمران ، دو آدمی جو ان پیکٹوں
کو لایا تھا۔ جانتے ہو وہ کون تھا؟ مجھے حیرت ہے وہ دہی کان کٹا ماہی گیر تھا جس کے
بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے ۔"
عمران سنبھل کر بیٹھ گیا’’ کیاوہ
تمہیں پہنچانتا ہے ؟ ‘‘اس نے پوچھا۔
’’یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتی
‘‘،نہیں مجھے پہلے کبھی اس سے گفتگو بھی کرنے کا اتفاق نہیں ہوا"۔
عمران کی پیشانی پر شکنیں اُبھر آئیں۔ دو کچھ سوچ
رہاتھا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے ایک طویل انگڑائی لے کر کہا ’’ جاؤ۔ اب سو جاؤ۔ مجھے
بھی نیند آرہی ہےاگر تم اب بھی مجھے بور کروگی تو میں اس وقت یہاں سے چلا جاؤں گا
۔"
روشی چپ چاپ اٹھی اور اپنی خواب گاہ
میں چلی گئی ۔ عمران درواز ے اور کھڑکیاں بند کرنے کے بعد تھوڑی دیر تک چیو تم سےشغل
کر تا رہا۔ پھر نونوں کے پیکٹ کھول ڈالے۔ اُسے توقع تھی کہ ان پیکٹوں میں کچھ نہ کچھ
ضرور ہوگا۔ کیونکہ روشی کو اُس کے خط میں پیکٹوں کو نہ کھولنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اس کا خیال صحیح نکلا ۔ ایک پیکٹ میں نوٹوں کے درمیان ایک تہہ کیا ہوا کاغذ کا ٹکڑا
نظر آیا۔ یہ بھی ایک خط تھا لیکن اس میں عمران کو مخاطب کیا گیا تھا۔
’’دوست... بڑے جیالے معلوم ہوتے ہو،
ساتھ ہی شاطر بھی مگر جعلی نوٹوں کا دھندا چھچھورا پن ہے اگر ترقی کی خواہش ہو تو کل
رات کو گیارہ بجے اس ویرانے میں ملو جہاں میں نے تم پر پہلا حملہ کیا تھا۔ اے ۔ بی
۔سی ہوٹل والے شکاری کے متعلق اطلاع فراہم کرنے کا شکریہ اس نے صرف مچھلیوں کے شکار
کے لئے وہاں قیام کیا ہے لیکن وہ مچھلیوں کے شکار کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا... تو
تم کل رات کو ضر ورمل رہے ہو۔ میں انتظار کروں گا ۔"
عمران نے خط کو پرزے پرزے کر کے آتش دان میں ڈال
دیا اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ وہ اُٹھا اور دبے پاؤں روشی
کے فلیٹ سے نکل گیا۔
12
دوسری رات جب آسمان تاریکیاں بکھیر رہا تھا۔ عمران اُس ویرانے میں پہنچ گیا جہاں اُسے بلایا گیا تھا۔ تین یا چار فرلانگ کے فاصلے پر ہی اے۔ بی۔ سی ہوٹل کی روشن کھڑکیاں نظر آرہی تھیں۔ عمران انہیں ٹیلوں کے درمیان کھڑا تھا جہاں اس پر کچھ دنوں پیشتر حملہ کیا گیا تھا۔ اُسے زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑا۔
’’تم آگئے ‘‘؟ اُسے اپنی پشت پر تیز
قسم کی سرگوشی سنائی دی۔
عمران چونک کر مڑا ۔ تھوڑے ہی فاصلے
پر اُسے ایک سایہ نظر آیا ‘‘‘ہاں، میں آگیا‘‘ عمران نے اُسی انداز میں سرگوشی کی اور
میں تم سے ذرہ برابر بھی خائف نہیں ہوں"۔
’’مجھے ایسے ہی آدمی کی ضرورت تھی‘‘
سائے نے جواب دیا۔’’ میں تمہیں چھ ماہ کے اندرہی اندر لکھ پتی بنادوں گا‘‘۔
’’ میں لکھ پتی نہیں بننا چاہتا۔
میں صرف اس لئے آیا ہوں...‘‘
’’ختم کرو۔ میں کچھ نہیں سنوں گا۔
جوانی کا خون گرم ہوتا ہے۔ تم ابھی بچے ہو۔ بڑھاپے میں پیسوں کی قدر معلوم ہوتی ہے۔"
"تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ عمران
نے پوچھا۔
"میرے ساتھ چلو‘‘۔
’’چلو... مگر کبھی مجھے شادی پر مجبور
نہ کرنا ۔ میں اس کے علاوہ ہرقسم کی غلطی کر سکتا ہوں۔"
سایہ ہنس پڑا ...پھر اس نے کہا " آج روشی دن
بھر تمہیں تلاش کرتی رہی ہے ۔"
’’وہ مجھے سچ مچ کوئی احمق نواب زادہ سمجھتی ہے ۔"
’’آؤ... وقت کم ہے، سائے نے عمران
کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔
" کیا گود میں آؤں؟ ‘‘ عمران
نے کہا اور ایک طرف ہٹ گیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی
کھوپڑی سے بے شمار ستارے نکل کر فضا میں منتشر ہو گئے ہوں۔ کسی نے پُشت سے اُس کے سر
پر کوئی ٹھوس اور وزنی چیز دے ماری تھی۔ و ہ لڑ کھڑاتا ہوا تاریک سائے کی طرف بڑھا
لیکن اس تک پہنچنے سے قبل ہی ڈھیر ہو گیا۔
13
بے ہوشی کے بعد ہوش کسی طرح آتا ہے؟ کم از کم یہ کسی بے ہوش ہونے والے کی سمجھ میں آنے کی چیز نہیں ہے۔ بہر حال، عمران کو نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ کس طرح ہوش میں آیا لیکن آنکھ کھلنے پر شعور کی بیداری میں دیر نہیں لگی۔
وہ ایک کشادہ اور سجے سجائے کمرے میں تھا لیکن تنہا نہیں تھا۔ اُس کے علاوہ
کمرے میں پانچ آدمی اور بھی تھے۔ ان کے جسموں پر لمبے لمبے سیاہ چسٹر تھے اور چہرے
سیاہ نقابوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اُن میں سے ایک آدمی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا۔
"ہاں بھئی کیا دیکھا؟ ‘‘ان میں
سے ایک نے اُس سے پوچھا۔ آواز سے عمران نے اُسے پہچان لیا۔ یہ وہی تھا جس سے کچھ دیر
قبل ٹیلوں کے درمیان اُس نے گفتگو کی تھی۔
’’جی ہاں، آپ کا خیال درست ہے۔‘‘
دوسرے آدمی نے کتاب پر نظر جماتے ہوئے کہا ’’علی عمران۔ ایم۔ ایس۔ سی۔ ڈی۔ ایس سی لندن
آفیسر آن ایشل ڈیو ٹیتر ، فرام انٹیلی جنس بیورو ۔"
" کیوں دوست ‘کیا خیال ہے؟‘‘ گمنام آدمی عمران
کی طرف مڑ کر بولا ۔
’’ایم ۔ ایس ۔سی۔ ڈی۔ ایس۔ سی نہیں
بلکہ ایم۔ ایسی۔سی ۔ پی ایچ۔ ڈی‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
"شٹ آپ‘‘ گمنام آدمی نے گرج
کر کہا۔
’’واقعی میں بڑا بیوقوف ہوں ، روشی
ٹھیک کہتی تھی ۔‘‘ عمران اس طرح بڑبڑایا ۔ جیسے خود سے مخاطب ہو۔
’’تم ہمارے متعلق کیا جانتے ہو ؟
" گمنام آدمی نے پوچھا۔
’’یہی کہ تم سب پردہ نشین خواتین
ہو اور مجھے خواہ مخواہ ڈرا رہی ہو ۔“
’’تم یہاں سے زندہ نہیں جاسکتے
" گمنام آدمی کی آواز میں غراہٹ تھی ۔
’’فکر نہ کرو۔ مرنے کے بعد چلا جاؤں
گا۔ عمران نے اپر واہی سے کہا۔
گمنام آدمی کی خوفناک آنکھیں چند لمحے نقاب سے عمران
کو گھورتی رہیں... پھر اس نے کہا۔ تمہیں بتا ناہی پڑے گا کہ تمہارے کتنے آدمی کہاں
کہاں کام کر رہے ہیں ؟ "
’’کیا تم لوگ سچ مچ سنجیدہ ہو ؟ ‘‘عمران اپنے چہرے پر حیرت کے آثار پیدا
کر کے بولا۔
’’کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس وقت
اُن کی خاموشی بھی بڑی ڈراؤنی لگ رہی تھی ۔ عمران پھر بولا ۔ ‘‘‘تمہیں یقیناً غلط
فہمی ہوئی ہے ۔"
’’بکو اس۔ ہمارے فائل بہت احتیاط
سے مرتب کئے جاتے ہیں ‘‘ گمنام آدمی نے کہا۔
"تب پھر میں بھی غلط ہو گیا ہوں گا۔ ‘‘عمران نے مایوسی
سے سر ہلا کر کہا "...’’ کمال ہے میں یعنی واہ کیا بات کہی ہے۔ گویا اپ اپنے لئے
کہیں بھی جگہ نہیں ہے، یارو یہ کیا ظلم ہے کہ تم لوگ مجھے محکمہ سراغ رسانی سے منسلک
کر رہے ہو ۔"
’’ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘
گمنام آدمی غصے کے لہجے میں بولا۔ "تمہیں صبح تک مہلت دی جاتی ہے۔ اپنے آدمیوں
کے پتے اور نشان بتا دو۔ ورنہ...‘‘
’’ میرا خیال ہے ۔‘‘ ایک نقاب پوش
نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا " جلتے لو ہے والی تدبیر کیسی رہے گی۔ ‘‘
’’وقت نہیں ہے ‘‘۔ گمنام غرایا۔
" صبح دیکھیں گے ۔ "
دو سب کمرے سے نکل گئے اور دروازہ
باہر سے مقفل کر دیا گیا۔
عمران نے ایک طویل انگڑائی لی اور
سر کا وہ حصہ ٹول کر جہاں چوٹ لگی تھی ، برے برے سے منہ بنانے لگا۔ اسے توقع نہیں تھی
کہ اس کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کیا جائے گا۔ وہ تو یہی سمجھے ہوئے تھا کہ اُس نے مجرموں
کو اپنے جال میں پھانس لیا ہے۔
اُس نے بے وجہ اُن لوگوں کو ہُد ہُد
کا پتہ نہیں بتایا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک اسکیم تھی اور وہ اُس میں کامیاب بھی ہو
گیا تھا۔ اُس نے اُس آدمی کا تعاقب کر کے جس نے سمندر کے کنارے ہُد ہُد کے فوٹو لئے
تھے کم از کم مجرموں کے ایک اڈے کا پر تو لگا ہی لیا تھا اور و ہیں اُس نے اس آدمی
کو بھی دیکھا تھا جس کا بایاں کان آدھا غا ئب تھا۔
عمران تھوڑی دیر تک بے حس و حرکت آرام کرسی میں پڑا
رہا۔ اُس کا ذہن بڑی تیزی سے حالات کا جائزہ لیتا رہا۔
آدھا گھنٹہ گزر گیا ۔ شاید پوری عمارت
پر سناٹے کی حکمرانی تھی۔ کہیں سے بھی کسی
قسم کی آواز نہیں آرہی تھی ۔ عمران اُٹھ کر کھڑکیوں اور دروازوں کا جائزہ لینے لگا...
لیکن چند ہی لمحوں میں اُس پر واضح ہو گیا کہ وہ باہر نہیں نکل سکتا۔ یہ سارے دروازے
ایسے تھے جو باہر سے مقفل کئے جاسکتے تھے ۔ اُس کے ذہن میں ایک دوسرا انتہائی اہم سوال
یہی تھا۔ عمارت اُس وقت خالی ہے یا کچھ اور لوگ بھی موجود ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں
حالات غیر یقینی تھے۔ عمارت میں اُس کا تنہا ہونا نا ممکنات میں سے تھا لیکن اگر اُس
کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی تھے تو عمارت پر قبرستان کی سی خاموشی کیوں مسلط تھی ؟ انہوں
نے اپنی دانست میں ایک خطرناک دشمن کو پکڑ لیا تھا۔ لہٰذا اس کی طرف سے غافل ہو کر
سور ہنا قرین قیاس نہیں ۔ عمران اچھی طرح جانتا تھا کہ صبح اُسے ناشتے کی میز پر خوش
آمدید کہنے کے لئے مہمان نہیں بنایا جائے گا۔ یہاں ایسی آؤ بھگت ہوگی کہ شکریہ تک ادا
کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ وہ اُٹھ کر ٹہلنے لگا... پھر اچانک اس نے دروازہ پیٹ کر
چیخنا شروع کر دیا۔
باہر قدموں کی آہٹ ہوئی اور کسی عورت
نے سریلی آواز میں ڈانٹ کر کہا ۔" کیوں شور مچارہے ہو؟"
’’میں باہر جانا چاہتا ہوں۔‘‘ عمران
نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ‘‘بکو اس مت کرو۔"
’’شٹ اَپ ۔ عمران بہت زور سے گرجا۔’’
میں تجھ جیسی کُتیا کی بچی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ کسی مرد
کو بھیج دے ۔"
’’تم، کتے کے پلّے خاموشی سے بیٹھے رہو ۔ ورنہ گولی مار دی جائے گی
۔‘‘
اس بار عمران نے اُسے بڑی گندی لگالیاں دیں۔ جواب
میں وہ بھی برس پڑی اور عمران نے اس سے اندازہ لگا لیا کہ دہ عورت عمارت میں تنہا ہے،
ور نہ وہ اس کی مرمت کے لئے کسی مرد کو ضر ور بلاتی۔
عورت تھوڑی دیر تک اسے برا بھلا کہتی
رہی ہے ...پھر خاموش ہوگئی ۔ عمران اس کے قدموں کی آواز سن رہا تھا ۔ اس نے انداز ولگا
لیا کہ وہ قریب ہی کسی کمرے میں گئی ہے۔ "
عمران سوچ رہا تھا کہ اگر ایسے حالات
میں بھی دو ہاتھ پر ہاتھ رکھےبیٹھا ر ہا تو آئندہ نسلیں اُسے سچ مچ احمق اعظم کے نام سے یاد کریں گی۔ وہ ایک بار پھر کمرے
کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک اُس کی نظررسی کے ایک لچھے پر پڑی اس نے جھپٹ کر اُسے اُٹھالیا۔
رسی کی موٹائی آدھا انچ سے زیادہ نہیں تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا۔ جیسے وہ پانی میں
بھگو کر خشک کی گئی ہو۔ دو چند لمحے اُسے دیکھتا رہا اور پھر اس کے ہونٹوں پر ایک شیطانی
مسکراہٹ رقص کرنے لگی ۔
14
عمران کے منہ سے گالیاں سن پر اس عورت کا موڈ بہت زیادہ خراب ہو گیا تھا۔ وہ کافی حسین تھی اور عمر بھی بیسں یا بائیسں سے زیادہ نہ رہی ہوگی۔ ممکن ہے اس کے ساتھی اُس کی ناز برداریاں بھی کرتے رہے ہوں۔ بہر حال وہ ایسی نہیں معلوم ہوتی تھی کہ کسی کی تلخ کلامی برداشت کر سکتی۔ اور یہ حقیقت تھی کہ وہ اس وقت اس عمارت میں تنہا تھی۔ عمران کو مجبوس کرنے والوں کو شاید یقین واثق تھا کہ وہ یہاں سے نکل نہ سکے گا۔ ورنہ وہ ایسی غلطی نہ کرتے۔ وہ عورت غصے میں ہانپتی ہوئی مسہری پر گری اُسے شاید اپنے ساتھیوں پر بھی غصہ آرہا تھا۔ وہ سو جانا چاہتی تھی مگر نیند کا کوسوں پتہ نہیں تھا۔ میں منٹ گزر گئے وہ کروٹیں بدلتی رہی۔
اچا نک اُس نے ایک چیخ سنی، جو قیدی ہی کے کمرے سے بلند ہوئی تھی اور پھر
کچھ اس قسم کی آواز میں آنے لگیں جیسے کوئی کسی کا گلا گھونٹ رہا ہو۔ وہ بے تحاشہ اچھل
کر کھڑی ہوگئی اور غیر ارادی طور پر قیدی کے کمرے کی طرف دوڑ نے لگی لیکن اب سناٹا
تھا۔
" کیا ہے ۔ کیوں شور مچارکھا
ہے ؟ ‘‘اس نے کمرے کے سامنے پہنچ کر کہا لیکن اندر سے کوئی جواب نہ ملا۔ ایک دروازے
کی جھری پر اُس کی نظر پڑی اور اُس نے اندازہ کر لیا کہ اندر کا بلب روشن ہے۔ دوسرے
ہی لمحے اس کی ایک آنکھ جھری سے جالگی لیکن پھر وہ اس طرح ایک جھٹکے کے ساتھ پیچھے
ہٹ گئی جیسے الیکٹرک شاک لگا ہو۔ اُس نے کمرے کے اندر جو کچھ بھی دیکھا وہ اُس کے رونگٹے
کھڑے کر دینے کے لئے کافی تھا۔ چھت سے ایک لاش لٹک رہی تھی۔ اُس کے پیر زمین سے تقریبا ًتین فٹ اُونچائی
پر جھول رہے تھے اور گردن میں رسی کا پھندا ...چہرہ دوسری طرف تھا۔ صاف ظاہر ہوتا تھا
کہ قیدی نے ایک کرسی پر کھڑے ہو کر پھندا اپنی گردن میں ڈالا اور پھر اسے مار کر کرسی ایک طرف گرادی زیادہ السٹر
اور سیا ہ پتلون میں دولاش بڑی ڈراؤنی معلوم
ہو رہی تھی۔
وہ ایک بار پھر جھری سے اندر جھانکنے
لگی۔ اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کیو نکہ اس نے قیدی کی دلیرانہ حرکتوں کے متعلق اپنے
ساتھیوں سے بہت کچھ سنا تھا۔ خواب و خیال میں بھی اسے توقع نہیں تھی کہ ایسا بےجگر
آدمی اس طرح خود کشی کر لے گا ۔ حالانکہ وہ کچھ دیر پہلے اس کی توہین کر چکا تھا لیکن
پھر بھی وہ اس کے انجام پر متاسف ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
وہ کوئی کمزور دل کی عورت نہیں تھی
۔ کمزور دل کی عورت ایسے خطرناک مجرموں کے ساتھ رہ ہی کیسے سکتی تھی۔
وہ چند لمحے کھڑی کچھ سوچتی رہی پھر دروازہ کھول کر
کمرے میں داخل ہوگئی ۔ لاش کی پشت دروازے کی طرف تھی۔ عورت آگے بڑھی تا کہ اُس کا چہر ہ دیکھ سکے لیکن قبل اس کے کہ وہ اُس کے قریب پہنچتی
لاش رسّی کے پھندے سے نکل کر دھم سے فرش پر آرہی۔ عورت گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی لیکن
عمران نے اُسے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا۔ دوسرے لمحے میں اُس کی صراحی دار گردن
عمران کی گرفت میں تھی۔
’’وہ یہاں کب واپس آئیں گے ؟ ‘‘عمران نے گرفت مضبوط کرتے
ہوئے پو چھا۔
عورت تھوک نگل کر رہ گئی۔ اُس کی آنکھیں حیرت اور
خوف سے پھٹی ہوئی تھیں اور وبُری طرح کانپ رہی تھی۔
’’ بتاؤ ورنہ گلا گھونٹ دوں گا ۔‘‘
عمران کے چہرے پر سفا کی نظر آنے لگی۔
’’ ساڑے ...ساڑھے تین بجے
۔"
’’جھوٹ بک رہی ہو۔ خدا سے ڈرو دور
نہ زبان سڑ جائے گی ۔‘‘ عمران نے احمقانہ انداز میں کہا اور اس کی گردن چھوڑ دی۔ عورت
اُسی جگہ کھڑی ہانپتی رہی۔ " تم نے کچھ دیر پہلے مجھے برا بھلا کہا تھا۔ اب کہو
تو تمہارے کان اور ناک کاٹ لوں۔"
عورت کچھ نہ بولی۔ عمران بکتا رہا۔
" تم صورت سے شریف معلوم ہوتی ہو۔ ورنہ میں ابھی تمہیں گلا گھونٹ کر مار ڈالتا۔
کیا تم ان میں سے کسی کی بیوی ہو؟ ‘‘
عورت نے نفی میں سرہلادیا اور عمران
گرج کر بولا " پھرتم کیا بلا ہو۔؟ زبان سے بولو ورنہ اسی رسی میں تمہاری لاش لٹکی نظر آئے گی ۔‘‘
’’میں اُن کے کسی جرم میں شریک نہیں
ہوں ‘‘۔ عورت نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
" تم آخر ہو کون؟"
’’میں جو کچھ ہوں یہی ہوں اور اس
زندگی سے تنگ آگئی ہوں اُنہوں نے مجھے کہیں کا نہ رکھا لیکن اب میں ہر حال میں ان کے
پنجے سے نکلنا چاہتی ہوں۔“
’’شاباش ...اچھا میں تمہیں بچالوں
گا۔ لیکن جو کچھ میں کہوں اس پر عمل کرو۔۔۔۔ "
" میں تیار ہوں۔"
’’باہر نکلنے کا درواز و مقفل ہو
گا ؟ " عمران نے پوچھا۔
’’نہیں ، مقفل نہیں ہے ۔ "
’’تو پھر اُن کی آمد پر دروازہ کون
کھولے گا ؟ کیا تم جاگتی رہو گی؟"
’’ نہیں وہ خود کھول لیں گے اور اس کی ترکیب اُن
کے علاوہ اور کسی کو معلوم نہیں ۔ "
’’ کیا یہ عمارت بر شفیلڈ فشریز والوں
کی ہے؟‘‘ عمران نے پوچھا اور عورت نے اثبات میں سر ہلایا ۔’’ یہ عمارت جمیس اسٹریٹ میں ہے نا ۔‘‘ عمران نے پوچھا اور اس کا جواب
اثبات ہی میں ملا۔
عمران مطمئن ہو گیا کہ یہ وہی عمارت ہے جس کا سراغ
اُسے فوٹو گرافر کا تعاقب کرنے پر ملا تھا۔ وہ چند لمحے کچھ سوچتا رہا... پھر بولا۔’’
تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتیں اپنے کمرے میں جاؤ۔“
وہ چپ چاپ کمرے سے نکل کر اپنے کمرے
میں چلی گئی ۔ عمران اس کے پیچھے تھا۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی عمران نے دروازہ
باہر سے بند کر دیا۔ چپ چاپ پڑی رہنا اور نہ گردن صاف، مجھے عورتوں پر بھی رحم نہیں
آتا ۔‘‘ عمران غرایا۔ ‘‘اندر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ عمران آگے بڑھ گیا۔
وہ بڑی تیزی سے عمارت کا جائزہ لیتا
پھر رہا تھا۔ باہر کے سارے دروازے آزمائے لیکن انہیں کھولنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
ایک کمرے میں اُسے اسلحے کا ذخیر ہ نظر آیا۔ دروازہ مقفل نہیں تھا۔ شاید یہاں سے جاتے
وقت انہوں نے کچھ اسلحہ لیا تھا اور کمرے کو مقفل کرنا بھول گئے تھے۔ عمران نے ایک
ٹامی گن اُٹھا کر اسے لوڈ کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا ۔ ٹامی گن اس کے ہاتھ میں تھی
لیکن اگر کوئی دوسرا اُسے اس حال میں دیکھتا تو قطعی مخبوط الحواس سمجھتا ۔ ہونا یہ
چاہئے تھا کہ عمران نون پر پولیس سے رابطہ قائم کر کے عمارت کا محاصرہ کر لیتا۔ یہاں
فون موجود تھا۔ عمران چاہتا تو اُسے استعمال کر سکتا تھا۔ مگر اُس نے ایسا نہیں کیا۔
وہ کسی شکاری کتے کی طرح عمارت کا گوشہ گوشہ سونگھتا پھر رہاتھا۔ اُسے مجرموں کی واپسی
کی بھی پرواہ نہیں تھی وہ اُن کے جرائم سے واقف ہو چکا تھا۔ اور اے بی سی ہوٹل کے قریب
والے ویرانے پر اس بھیا نک آدمی کی حکمرانی کا مقصد بھی اُس کے ذہن میں صاف ہو چکا
تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ پھر اسی کمرے کے سامنے پہنچ گیا۔
جہاں اُسے قید کیا گیا تھا۔ اس نے عورت کے کمرے کی طرف نظر ڈالی جس کا دروازہ بدستور
بند تھا اندر روشنی ضرور تھی لیکن کسی قسم کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی ۔ عمران نے
اُس بطخ کی طرف دیکھا جو اس کے بائیں ہاتھ میں لٹک رہی تھی یہ اسے اسی عمارت کے ایک
ڈربے میں ملی تھی ۔ وہ کمرے میں داخل ہو گیا ۔ نامی کن میز پر رکھ دی۔ رہی ابھی تک
چھت میں لگے ہوئے کڑے سے لٹک رہی تھی۔
چند ہی لمحوں بعد عمران بطخ کو ذبح کر رہا تھا کچھ خون فرش پر پھیل گیا اور کچھ
اُس نے بڑی احتیاط سے ایک گلاس میں اکٹھا کرلیا۔
15
ٹھیک تین بجے عمارت کا صدر دروازہ کھلا
اور دس آدمی اندر داخل ہوئے ۔ ان میں سے صرف ایک کا چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا اور
بقیہ نو آدمی بے نقاب تھے ۔ ان کے چہروں سے تھکن ظاہر ہورہی تھی لیکن قیدی کے کمرے
کے سامنے روشنی دیکھ کر ان کے چہروں سے اضمحلال کے آثار غائب ہو گئے ، کھلے ہوئے دروازے
سے روشنی باہر برآمدے میں رینگ آئی تھی۔
نقاب پوش سرغنہ بے تحاشہ بھاگتا ہوا
کمرے میں جا گھسا اور پھر اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔ کمرہ خالی تھا، چھت سے
ایک خون آلود رسی لٹکی ہوئی تھی اور فرش پر بھی خون نظر آرہا تھا۔ پھر خون کے چھوٹے
چھوٹے دھبے اس جگہ سے دروازے تک چلے گئے تھے۔ وہ دروازے کی طرف جھپٹا۔ اُس کے بقیہ
نو ساتھی ساکت وصامت دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔ خون کے لا تعداد چھوٹے چھوٹے دھبے دروازے
کے باہر برآمدے میں بھی تھے۔ وہ سب انہیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔
اب دھبوں کا رخ اسلحے کے کمرے کی
طرف ہو گیا تھا۔ اُن میں سے ایک نے جیب سے ٹارچ نکال لی کیونکہ یہ راہداری تاریک تھی۔
انہیں اسلحہ خانے کا دروازہ بھی کھلا ہوا ملا۔ خون کے دھبوں کی قطار دروازے میں مُڑ
کر اسلحہ خانے کے اندر تک چلی گئی تھی۔ وہ سب بے تحاشہ اندر چلے گئے اور کسی کے منہ
سے نکلا ۔‘‘ ارے بطخ ...یہ کیا؟"
وہ مڑنے بھی نہ پائے تھے کہ دروازو باہر سے بند ہو
گیا اور اندھیرے میں عمران کا قہقہ گونج رہا تھا۔ لیکن عمران کو اس کی خبر نہیں تھی
کہ یہی اندھیرا جس نے اُس سے فائدہ اٹھایا ہے، خود اُسی کے لئے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ ان کا سرغنہ باہر ہی رہ گیا ہے۔ اس نے للکار کر کہا " کیوں
دوستو۔۔۔۔ اب کیا خیال ہے؟"
وہ سب اندر سے دروازہ پیٹنے اور شور
مچانے لگے۔ عمران نے پھر قہقہ لگایا لیکن یہ قہقہ اچانک اس طرح رک گیا جیسے کسی سائیکل
کے پہیوں میں پورے بریک لگ گئے ہوں ۔ کسی نے پشت سے اُس پر حملہ کر دیا تھا۔ ٹا می گن اُس کے ہاتھ سے نکل کر اندھیرے میں کہیں دور
جا گری۔
حملہ آور اُن کا سرغنہ تھا جو اسلحہ
خانے میں بند کر دیئے گئے تھے۔ جب وہ خون کے دھبوں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے
تو وہ قیدی والے کمرے کے سامنے رک کر کچھ سوچنے لگا تھا وہ سب اسلحہ خانے تک پہنچ گئے
اور وہ وہیں کھڑا تشویش آمیز نظروں سے چاروں طرف دیکھتا رہا۔
اور اب شاید تقدیر عمران پر قہقہے
لگارہی تھی۔ حملہ بڑا شدید تھا عمران کو بالکل یہی محسوس ہوا جیسے کوئی سینکڑوں من
وزنی چنان اس پر آگری ہو خود اُس کا جسم بھی کافی جاندار تھا۔ لیکن اُس حملے نے اُس
کے دانت کھٹے کر دئے ۔ نقاب پوش اُس سے لپٹ پڑا تھا عمران نے اُس کی گرفت سے نکلنا
چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ اُس نے اُسے کچھ اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ عمران کا دم گھٹنے
لگا تھا اسلحہ خانے کے اندر ابھی تک شور جاری تھا۔
" خاموش رہو۔‘‘ اُن کے سرغنہ
نے انہیں ڈانٹا لیکن اُس کی آواز اتنی پرسکون
تھی ، جیسے اُس نے کسی آرام کرسی پر کاہلوں
کی طرح پڑے پڑے سرزنش کی ہو۔ دوسری طرف اُس نے عمران کوز مین سے اُکھاڑ دیا تھا اور
بتدریج سے اوپراُ ٹھاتا چلا جارہاتھا۔ عمران نے اُس کی ٹانگوں میں ٹانگیں پھنسانی چاہیں
لیکن کامیاب نہ ہوا۔ وہ اسے اوپر اُٹھا تا چلا جار ہا تھا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اس وقت
عمران کے حو اس جواب دئے گئے تھے اور حملہ آور پرگو یا کسی تم کا جنون طاری ہو گیا
تھا۔ اُسے بھی شاید اس بات کا ہوش نہیں رہ گیا تھا کہ اب اس کی گردن بہ آسانی عمران
کی گرفت میں آسکتی ہے۔ وہ تو اس چکر میں تھا کہ عمران کو اُٹھا کر کسی دیوار پر دے
مارے اور اس کی ہڈیاں سرمہ ہو جائیں۔
اس قسم کے خطر ناک مجرم اگر کسی خاص موقعے پر اس
طرح اپنی عقل نہ گنوا بیٹھیں تو قانون بے چارہ عجائب خانے کی الماریوں کی زینت بن کر
رہ جائے ۔
اچانک عمران کے ہاتھ اُس کی گردن
سے ٹکرائے اور ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارامل گیا۔
اُس نے بری طرح اُس کی گردن دبوچ لی اور پھر دونوں
ساتھ زمین پر آر ہے ۔ عمران کے ہاتھوں سے اُس کی گردن نکل چکی تھی لیکن اُس نے گرتے
گرتے اپنی کہنی اُس کی ناک پر جمادی اور بائیں ہاتھ سے اس زور کا گھونسہ اس کی پیشانی
پر رسید کیا کہ نقاب پوش کے منہ سے ایک بے ساختہ قسم کی کراہ نکل گئی۔ عمران اس موقع
کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ اس پر لد پڑا اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے ۔ نقاب
پوش چت گرا تھا اور عمران اس کے سینے پر سوار تھا۔ ساتھ ہی وہ اپنا سار از ور اس کے
ہاتھوں کو زمین سے لگائے رکھنے پر صرف کر رہا تھا اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی
ہو گیا تھا... مگر یہ پوزیشن بھی خطرے سے خالی نہیں تھی۔ عمران اس کی قوت کا اندازہ
تو کر ہی چکا تھا۔ لہٰذا اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اگر اُسے ذرا سا بھی موقع مل گیا تو
وہ اُسے گیند کی طرح اُچھال دے گا۔ اُس نے بوکھلاہٹ میں اپنا سر نقاب پوش کے چہرے پر
دے مارا... چوٹ ناک پر پڑی اور نقاب پوش بلبلا اُٹھا۔
پھر تو عمران کے سرنے رُکنے کا نام
ہی نہ لیا۔ نقاب پوش کی چیخیں کر یہہ اور ڈراؤنی
تھیں۔ اپس کے ساتھیوں نے پھر شور مچانا شروع کر دیا لیکن اس کی آواز آہستہ آہستہ دبتی
ہوئی ہلکی ہلکی سسکیوں میں تبدیل ہوتی گئی
16
وہ ساحل سے پچاس ساٹھ میل کے فاصلے سے گزرنے والے
غیر ملکی جہازوں سےا تر اہوا نا جائز مال پار
کر تے اور پھر ساحل کی طرف لوٹ آتے۔ بحری پولیس کو کانوں کان خبر بھی
نہ ہوتی کیونکہ مال نچلے حصوں میں ہوتا اور اوپری عرشوں مچھلیوں کے ڈھیر کے ڈھیر دکھائی
دیتے تھے۔
یہ اخبار کی رپورٹ تھی لیکن حقیقت
تو یہ تھی کہ بحری پولیس کا عملہ ہر شفیلڈ
والوں سے اللہ واسطے کی عقید ت رکھتا تھا۔ اس لئے اُ ن کی کڑی نگرانی کا سوال ہی نہیں
پیدا ہوتا تھا۔ خبر میں یہ بھی تھی کہ اے بی سی ہوٹل کے سامنے والےویرا نے پراُس بھیا نک آدمی کی حکومت کیوں تھی۔ اس کی حقیقت یہ تھی کہ اسمگل
کیا ہوا مال اُسی راستے سے خفیہ گوداموں تک پہنچایا جاتا تھا۔ لہذاراستہ صاف رکھنے کے لئے اس بھیا نک آدمی نے (جس کا بایاں
کان آدھا کٹا ہوا تھا) وہاں کشت و خون کا بازار گرم کرر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس کو وہاں خطرے
کا بور ڈ نصب کرنا پڑا۔ خبر میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی تھی کہ اے بی سی ہوٹل
والوں کا اُس گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
روشی بڑی دیر تک اخبار پر نظر جمائے
رہی... پھر اچانک کسی کی آہٹ پر چونک کر دروازے کی طرف مڑی۔ عمران ، سا منے
کھڑامسکرارہا تھا۔ روشی بوکھلا کر کھڑی ہوگئی۔ اُس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں
اور آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔
’’پچاس بھینسوں کا سودا ہو گیا ہے‘‘عمران نے کہا۔
روشی کچھ نہ بو لی۔ اُس کی آنکھوں
سے دو قطرے ٹپک کر اسکرٹ میں جذب ہو گئے اخبار پڑھنے سے قبل وہ ایک بیو قوف عورت کی طرح عمران کے متعلق بہت کچھ سوچتی رہی اور اُس
نے ان دو دنوں میں عمران کو تلاش کرنے کے سلسلے میں شہر کا کوناکو نا چھا ن ما را
تھا۔
’’تم رور ہی ہو ۔ کمال ہے بھئی ؟
‘‘عمران اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا ۔
’’جائیے ، جائیے... روشی ہاتھ اُٹھا
کر بولی۔ اب مجھ میں بے وقوف بننے کے سکت نہیں رہی۔"
’’روشی ۔ ایمان داری سے کہتا ۔ عمران
یک بیک سنجیدہ ہو گیا " کیا میں تم سے زبر دستی ملا تھا۔"
’’لیکن اب آپ یہاں کیوں آئے ہیں ؟‘‘
’’تمہارا شکر یہ ادا کرنے اور ساتھ
ہی ایک بات اور بھی ہے، تم نے ایک بار کہا تھا کہ تم اپنے موجودہ طرز حیات سے بیزار
ہو،لہٰذا میں تمہیں ایک مشورہ دینے
آیا ہوں۔‘‘
’’مشورہ ...میں جانتی ہوں‘‘۔ روشی
خشک لہجے میں بولی۔ آپ ہی کہیں گے کہ اب باعزت طور پر زندگی بسر کرو لیکن میں اس
مشورے کا احسان اپنے سر پر نہیں لینا چاہتی۔
ذلیل سے ذلیل آدمی بھی اکثر یہ ضرور سوچتا ہے کہ اُسے باعزت طور پر زندگی بسر کر نی چاہئے ۔‘‘
’’میں تمہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ ‘‘عمران نے کہا
" میرے سیکشن کو ایک عورت کی بھی ضروریت ہے تنخواہ معقول لے گی۔
رو شی کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ دو چند لمحے عمران کے چہرے
پر نظر جمائے رہی پھر بولی ۔‘‘میں تیار ہوں۔"
’’ہا ہا ... عمران نے ااحمقا نہ انداز میں قہقہہ لگایا ‘‘۔ اب میں اپنے ساتھ ایک
ہزار بھینسیں لے جاسکتا ہوں ‘‘روشی کے ہو
نٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔’’ تم
سچ مچ بہت اُداس نظر آ رہی ہو ‘‘۔ عمران نے
کہا۔ ’’نہیں تو... نہیں‘‘ وہ زبر دستی ہنس پڑی ۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر اس نے کہا
’’ایک بات ہے"۔
’’ایک نہیں دس با تیں کچھ کہو بھی
تو ..."
’’ میں تمہارا ادب نہیں کروں گی۔
‘‘میں تمہیں با س نہیں سمجھوں گی۔"
’’طوطے کہو گی، مجھے آں!‘‘ عمران
دیدے پھرا کر بولا
روشی ہنسنے لگی... مگر اس ہنسی میں شرمندگی کی جھلک بھی
تھی۔ آخر تم نے سراغ رسانی کا کون ساطر یقہ اختیا ر کیا تھا۔یہ بات اب تک میری سمجھ
میں نہ آسکی ۔"
17
یہ سراغ رسانی نہیں تھی جوشی ...آر... روشی اسے عرف عام میں بنڈل بازی کہتے ہیں اور میں اسی طرح اپنا کام نکالتا ہوں۔ سراغرسانی کا فن جسے کہتے ہیں وہ بہت اونچی چیز ہے لیکن یہ کیس ایسا تھا کہ جس میں فن سراغ رسانی جھک مار جاتا اور حقیقت یہ ہے کہ میں اس کیس میں بری طرح اُلو بنا ہوں ۔“
’’کیوں...؟‘‘
’’میں سمجھ
رہا تھا کہ میں انہیں اُلّو بنا رہا ہوں لیکن
جب میں اُن کے پھندے میں پھنس گیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اُلّوؤں کا قبلہ و
کعبہ ہوں۔ ٹھہرو میں خود ہی بتائے دیتا ہوں۔ میں در اصل اُن پر یہ
ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں بھی انہیں کی طرح ایک بدمعاش ہوں اور جعلی نوٹوں کا کاروبار
میرا خاص مشغلہ ہے۔ مجھے توقع تھی کہ میں اس طرح اُن میں گھل مل سکوں گا۔ میری توقع
پوری ہوگئی۔ ان کے سرغنہ نے مجھے اسی ویرانے میں بلایا۔ جہاں پہلی بار مجھ پر حملہ
ہوا تھا۔"
’’ لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ طریقہ اختیار
کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی... ؟ جبکہ تم اُن کے سرغنہ سے پہلے ہی واقف تھے۔ تم نے مجھ
سے کان کٹے آدمی کے متعلق پوچھ گچھ کی تھی یا نہیں ؟‘‘۔
’’ کی تھی ...لیکن اس وقت تک نہیں
جانتا تھا کہ سر غنہ وہی ہے اور پھر محض جاننے سے کیا ہوتا ہے اُس کے خلاف ثبوت فراہم
کیے بغیر اس پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا تھا اور ثبوت کی فراہمی کے لئے اُس سے بہتر
اور کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا تھا جو میں نے اختیار کرنا چاہا تھا۔ ہاں تو جب وہاں پہنچا
تو انہوں نے اندھیرے میں میرا پارسل بیر نگ کر دیا۔ سر کی وہ چوٹ ابھی تک دُکھ رہی
ہے... پھر وہ مجھے اپنے ٹھکانے پر لے گئے اور وہاں مجھے معلوم ہوا کہ وہ میری شخصیت
سے اچھی طرح واقف ہیں۔"
پھر عمران نے اپنی خودکشی تک کے واقعات دہراتے
ہوئے کہا’’ میں نے رسی کمرے میں باندھی تھی اور اسے اس کے اندر سے اس طرح گردن کی سیدھ
میں لے گیا تھا کہ دور سے پھندا گردن ہی میں معلوم ہو. ہاہا...پھر وہ پھنس ہی گئی
۔
’’ ہاں، بس ، عورتوں ہی کو بے وقوف
بنانا جانتے ہو۔‘‘ روشی منھ بنا کر بولی۔
’’میں خود ہی بیوقوف ہوں روشی یقین
کرو ...یہ تو اکثر ایک خاص قسم کا موٹا مجھ پر طاری ہوتا ہے۔ جب میں دوسرو ےبے وقوف
نہیں نظر آتا ..."پھر اُس نے بطخ کے خون والا لطیفہ دہرایا اور روشی بے تحاشہ
بننے لگی لیکن عمران برا سا منہ بنا کر ’’یہاں بھی میں اُلّو بن گیا اس کے سارے ساتھیوں
کو تو میں نے اس طرح بند کر دیا تھا لیکن وہ خود باہر ہی رہ گیا تھا ۔پھر حقیقت تو یہ ہے روشی کہ میں عمران ہوں یا نہیں ، وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔‘‘
" کیا مطلب...؟"
’’میں عمران کا بھوت ہوں اور اگر
میں بھوت نہیں ہوں تو اس پر یقین آنے میں عرصہ لگے گا کہ میں واقعی زندہ ہوں۔ اُف فوہ
!کمبخت پتہ نہیں کتنے ہارس پاور کا ہے ہارس
پاور نہیں بلکہ، یلیفنٹ پاور کہنا چاہئے، مجھے تو قطعی اُمید نہیں تھی کہ اس کے ہاتھوں زندہ بچوں گا۔ یہ کہو کہ میرے اوسان خطا نہیں
ہوئے ورنہ وہ مجھے فٹ بال کی طرح اچھال دیتا ‘‘عمران خا موش ہو کر چیونگم چبانے لگا۔
’’اب مجھے یقین آگیا کہ تم واقعی
بے وقوف ہو ۔“
’’ہوں نا... ہاہا ‘‘عمران نے قہقہہ
لگایا۔
’’ قطعی... دنیا کا کوئی عقلمند آدمی
تنہا اُن سے نمٹنے کی کوشش نہ کرتا۔ تمہارے پاس بہت وقت تھا۔ کمرے سے نکلنے کے بعد تم پولیس کی مدد حاصل کر سکتے تھے ۔“
’’ہاں ،ہے تو یہی بات لیکن اُس صورت
میں اُن کی پر چھائیاں بھی نصیب نہ ہوتیں۔ وہ کوئی معمولی گروہ نہیں تھا روشی ۔تم خود
سوچو... پولیس کی بھیڑ بھاڑ ۔ خدا کی پناہ ..سارا کھیل چوپٹ ہو جاتا۔ اُف فوہ... خیر
لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا ۔ کہ اس سلسلے میں ڈیڈی مجھ سے یقیناً جواب طلب کریں گے
اور پھر شاید مجھے استعفیٰ ہی دینا پڑے۔
’’تو پھر مجھے کیوں ساتھ لے جارہے
ہو ؟ ‘‘روشی نے کہا۔
’’ پروانہ کرو۔ جاسوسی ناولیں چھاپنے
کا دھندہ کریں گے۔ تم انہیں ٹھیلے پر سجا کر
پھیری لگایا کرنا اور میں ایجنٹوں کو لکھا کروں گا کہ ہم ایک کتاب کے آرڈر پر بھی آپ
کو پچاس فی صد کمیشن دیں گے اور کتاب کا سر ورق ہم ایک ماہ پہلے آپ کی خدمت میں روانہ کردیا کریں گے۔ آپ کا دل چاہے
تو آپ صرف سر ورق ایک روپیہ میں فروخت کر کے کتاب کسی ردی فروش کے گلے لگا سکتے ہیں
وغیر وغیرہ....ہپ‘‘ ۔
0 Comments