Chatanon Mein Fire By Ibn-e-Safi|چٹا نوں میں فا ئر-ابنِ صفی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Chatanon Mein Fire By Ibn-e-Safi|چٹا نوں میں فا ئر-ابنِ صفی

 

چٹا نوں میں فا ئر

ابنِ صفی

Chatanon Mein Fire By Ibn-e-Safi

Chatanon Mein Fire By Ibn-e-Safi


1

کر نلضر غام بے  چینی سے  کمرے میں ٹہل رہا تھا ۔

یہ ایک اُدھیڑ عمر  کا  قو ی  الحبثہ اور پُر ر عب چہرے والا آ دمی تھا  ۔مو نچھیں گھنی اور نیچے  کی طرف  ڈ ھلکی ہو ئی  تھیں ۔ بار بار اپنے  شا نوں  کو اس طرح   جنبش دیتا  تھا  جیسے   اُسے  خدشہ ہو کہ اس کا     کو ٹ  شا نوں  سے ڈ ھلک  کر نیچے آ جا ئے گا۔یہ اُ س کی بہت پرانی عادت  تھی۔وہ کم از کم ہر دو منٹ کے بعد  اپنے شا نوں کو  اس طرح ضرور جنبش  دیتا  تھا ۔اُس نے  دیوار پر  لگے  ہو ئے  کلاک پر تشویش  آمیز نظریں  ڈالیں اور پھر کھڑ کی  کے پا س کھڑا ہو  گیا ۔

تیسرے ہفتے  کا چا ند دور کی   پہا ڑیوں کے پیچھے سے اُ بھر رہا تھا ۔ موسم بھی خو شگوار  تھا  اور منظر  بھی  انتہا  ئی د لکش ۔ مگر کر نل ضر غام کا  اضطراب ۔۔۔۔وہ ان دو نوں  میں کسی  سے بھی  لطف اندوز نہیں ہو سکتا  تھا ۔

اچا نک  وہ کسی   کی آ ہٹ پر چونک کر مڑا ۔دَروازے میں  اُس کی  جوان العمر لڑکی صو فیہ کھڑی تھی۔

’’ اُوہ ڈیڈی دس بج گئے لیکن‘‘

’’ہاں  آں !‘‘ضر غام کچھ سو چتا ہو ا بولا ۔’’شا ئد  گاڑی لیٹ ہے ۔‘‘

وہ پھر کھڑکی  سے با ہر  دیکھنے لگا ۔صو فیہ آگے  بڑھی  اور اُس  نے اُس  کے شا نے  پر ہا تھ  رکھ  دیا  لیکن کر نل ضر غام  بد ستور با ہر ہی دیکھتا رہا 

’’آپ اتنے  پر یشا ن کیوں ہیں ۔‘‘صو فیہ  آ ہستہ سے  بولی ۔

’’اُف فوہ!‘‘ کر نل  ضر غام مڑ کر بولا  ۔’’میں کہتا ہو ں کہ آخر تمہاری  نظروں  میں ان وا قعا ت  کی کو ئی اہمیت  کیوں نہیں ۔‘‘

’’میں  نے یہ  کبھی نہیں  کہا ۔‘‘صو فیہ بو لی ۔’’میرا مطلب صرف یہ ہے کہ بہت زیا دہ تشو یش  کر کے  ذ ہن کو  تھکا نے سے کیا فا ئدہ۔‘‘

’’اب میں اسے  کیا کروں کہ ہر لحظہ میری اُ لجھنوں  میں اضا فہ  ہی ہو تا  جا تا ہے ۔‘‘

’’کیا کو ئی نئی بات ۔‘‘ صو فیہ  کے لہجے میں تحیر تھا ۔

’’کیا تم نے کیپٹن فیاض کا  تار نہیں  پڑھا  ۔‘‘

’’ پڑھا  ہے ۔اور میں اس وقت اُسی کے متعلق  گفتگو کر نے  آئی ہو ں۔‘‘

’’ہوں ۔توتم  بھی اُس کی وجہ سے اُ لجھن میں مبتلا ہو گئی ہو ۔‘‘

’’جی ہاں ! آخر اس کا کیا مطلب  ہے ۔اُنھوں نے  لکھا  ہے ۔ ایک  ایسا آ دمی بھیج رہا ہو ں جس  سے آپ لوگ اگر  تنگ  نہ آ گئے تو کافی فا ئدہ اٹھا  سیکں گے ۔میں  کہتی ہوں ایسا آدمی  ہی کیوں ،جس  سے ہم تنگ آ جائیں  ۔اور پھر   وہ سر کاری  آدمی بھی نہیں ہے۔

’’بس  یہی چیز۔۔۔۔مجھے  بھی اُ لجھن میں ڈالے ہو ئے ہے ۔‘‘ کر نل  نے کلاک کی طرف دیکھتے  ہو ئے کہا  ۔’’ آخر وہ کس قسم کا آدمی ہے  ۔ہم  تنگ کیوں آجا ئیں گے۔‘‘

’’اُ نھوں نے  اپنے   محکمے  ہی کا  کو ئی  آدمی کیوں نہیں بھیجا  ۔‘‘صوفیہ  نے کہا ۔

’’بھیجنا  چا ہتا تو بھیج ہی سکتا تھا ۔لیکن  فیاض بڑا با  اصول  آدمی ہے ۔ایک  پر ائیوٹ معا ملے کے لیے  اُس نے  سر کا ری آدمی بھیجنا منا سب نہ سمجھا  ہو گا۔‘‘

  2

 

کر نلضر غام  کے دونوں   بھتیجے انوؔر اور عارفؔ ریلوے  اسٹیشن پر  ٹرین کی آمد  کے منتظر تھے۔محکمہ  سرا غر سا نی کے سپر نٹنڈنٹ کیپٹن فیاض نے اُن کے چچا کی د رخواست پر ایک آدمی بھیجا تھا  جسے وہ  لینے کے لیے  اسٹیشن آ ئے تھے ۔گاڑی ایک گھنٹہ لیٹ تھی۔

اُن دونوں  نے بھی   کیپٹن  فیاض کا تار دیکھا تھا  اور آ نے  والے کے متعلق  سوچ رہے تھے۔

یہ دونوں جوان اسما رٹ‘ خوش  شکل اور تعلیم یا فتہ تھے۔انور ‘ عارف   سے صرف دو سال بڑا تھا اس لیے  ان دو نوں  میں دوستوں کی سی بے تکلفی تھی  اور عارف  انور کو اس  کے نا م  ہی سے مخا طب  کر تا تھا۔

’کیپٹن  فیاض  کا تار کتنا عجیب  تھا ۔‘‘عارف نے کہا  ۔’’آخر وہ کس قسم کا آدمی ہو گا۔‘‘

’’اونہہ ! چھوڑو ! ہو گا کو ئی چڑچڑا بددما غ۔‘‘ انور بولا ۔’’کر نل    صا حب خواہ مخواہ خود بور ہو تے ہے اور دوسروں کو بھی   بور کر تے ہیں ۔‘‘

’’یہ تمہاری  زیا دتی ہے۔‘‘عارف نے کہا ۔’’ ان حالا ت  میں تم  بھی وہی کر تے جو  وہ کر رہے ہیں۔‘‘

’’اَرے چھو ڑو ۔۔۔۔ کہاں  کے حالات اور کیسے  حالات  یہ سب ان کا  وہم ہے ۔میں  تو اکثر سو چتا ہو ں ۔ ان جیسے و ہمی آدمی کو ایک  پو ری بٹا لین کی کما نڈ کیسے  سو  نپ  دی گئی تھی ۔کوئی تک  بھی ہے ۔۔۔۔اگر گھر میں بلّیاں رو ئیں گی  تو خا ندان  پر کوئی نہ کوئی حما قت ضرور آئے گی ۔ اُلّو کی آواز سن کر  دَم نکل  جا ئے  گا ۔اگر  کھا نا   کھا تے  وقت  کسی نے پلیٹ میں چھری اور کا ٹنے کو  کر اس کرکے رکھ دیا  تو بد   شگو نی ۔صبح  ہی صبح اگر کوئی  کا نا آدمی دکھا ئی  دے  گیا  تو مصیبت ۔‘‘

’’اس معا ملے  میں تو مجھے  اُن سے ہمدردی  ہے ۔‘‘عارف  نے کہا ۔

’’مجھے تاؤ  آتا ہے ۔‘‘ انور  بھنّا کر بولا ۔

’’پر انے آدمیوں  کو معاف کر نا ہی  پڑتا ہے ۔‘‘

’’یہ  پرا نے آدمی ہیں ۔‘‘انور نے جھنجھلا  کر کہا ۔’’ مجھے  تو اُن کی کسی بات میں پرا نا  پن  نہیں  نظر آتا۔سوا ئے  ضعیف  الا  عتقادی کے ۔‘‘

’’یہی  سہی ۔بہر حال  وہ پچھلے دور کی  ورا ثت ہے ۔‘‘

تیز قسم کی گھنٹی  کی آواز سے وہ چو نک پڑے ۔یہ ٹرین کی آمد کا اشا رہ تھا ۔یہ ایک چھوٹا سا پہا ڑی اسٹیشن تھا ۔یہاں مسا فروں کو ہو شیار کر نے  کے لیے  گھنٹی  بجا ئی  جا تی  تھی۔پو رے  پلیٹ فارم پر آٹھ  یا دس آدمی نظر آرہے تھے ۔اتنے میں ٹرین  آہستہ آہستہ رینگتی ہو ئی آکر پلیٹ فارم  سے لگ  گئی ۔انور  اور عارف گیٹ  پر کھڑے  رہے ۔

پوری ٹرین سے صرف تین  آدمی اُترے ۔دو بوڑھے  دیہا تی اور ایک نو جوان آدمی  ‘جس  کے جسم  پر خا کی گارڈین  کا سوٹ تھا ۔  با ئیں شا نے  سے غلاف   میں لپٹی ہو ئی بندوق لٹک رہی  تھی  اور دا ہنے  ہا تھ میں ایک بڑا سا سوٹ کیس تھا ۔

غا لباًیہ وہی آدمی ہو سکتا تھا  جس  کے لیے  انور اور عارف یہاں  آئے تھے ۔وہ  دونوں  اس  کی طرف بڑھے ۔

’’کیا آپ کو  کیپٹن  فیاض  نے بھیجا  ہے ؟‘‘ انور سے اُس سے پو چھا ۔

’’اگر میں خود ہی نہ آنا چا ہتا تو اُس کے فر شتے  بھی نہیں  بھیج سکتے  تھے۔‘‘مسا فر نے  مسکرا کر کہا ۔

’’جی ہاں ! ٹھیک ہے ‘ ٹھیک  ہے ۔‘‘انور جلدی سے بولا ۔

’’کیا ٹھیک  ہے ۔‘‘ مسا فر پلکیں جھپکانے لگا

انور بو کھلا  گیا ۔’’یہی آپ جو کہہ رہے  ہیں ۔‘‘

’’اوہ !‘‘ مسا فر نے اس طرح کہا  جیسے وہ پہلے  کچھ  اورسمجھا ہو۔

عارف اور انور نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

’’آپ کو لینے کے لیے  آئے ہیں ۔‘‘عارف نے کہا۔

’’تو لے چلئے نا۔‘‘ مسا فر نے سوٹ کیس پلیٹ فارم پر رکھ کر اُس پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

انور نے قلی کو  آوازدی ۔

’’کیا ؟‘‘ مسا فر نے حیرت سے کہا ۔’’یہ ایک قلی مجھے  سوٹ کیس سمیت کیسے  اُٹھا سکے گا۔‘‘

’’جی نہیں ۔‘‘انور نے شرارت آمیز انداز  میں کہا ۔’’آپ ذرا  کھڑے ہو  جا  یئے ۔‘‘

مسا فر کھڑا ہو  گیا ۔ انور نے قلی  کو سو ٹ کیس  ا ٹھا نے کا اشا رہ کر تے ہو ئے مسا فر  کا ہا تھ پکڑ کر کہا ۔’’یوں  چلئے ۔‘‘

’’لاحول ولا قوۃ ۔‘‘مسا فر گردن جھٹک کر بولا  ۔’’میں کچھ اور سمجھا تھا ۔‘‘

انور نے عارف کو مخا  طب کر کے کہا ۔’’غا لباً اب تار کا  مضمون تمہاری سمجھ میں آگیا  ہو گا۔‘‘

عارف ہنسنے لگا ۔لیکن مسا فر اتنی بے تعلقی اور سنجیدگی سے  چلتا رہا  جیسے اُسے اُس بات سے کوئی  سروکار ہی  نہ ہو۔وہ باہر  آکر کا ر میں بیٹھ گئے ۔پچھلی  سیٹ پرا نور مسافر کے ساتھ  اور عارف  کا ر ڈرا ئیو کر رہا  تھا ۔

انور نے عارف کومخا طب کرکے کہا ۔’’کیا کرنل  صاحب اور کیپٹن  فیاض          میں کوئی مذاق کا رشتہ بھی ہے ۔‘‘

عارف نے قہقہہ لگایا  ۔وہ دونوں سوچ رہے تھے  کہ اس احمق مسا فر  کے ساتھ وقت اچھا  گز ر ے گا۔

جناب کا اسم  شریف ۔‘‘اچانک انور مسافر سے مخا طب ہوا ۔

’’کلیر شریف ۔‘‘ مسافر  نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ۔

دونوں ہنس پڑے۔

’’ہائیں !اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ۔‘‘مسافر  بولا ۔

’’میں نے آپ کا نام پو چھا  تھا ۔‘‘ انور نے کہا ۔

’’علی عمران ۔۔۔۔ایم ۔ایس۔سی ۔پی ۔ایچ ۔ڈی‘‘۔

’’ایم ۔ایس۔سی،پی ۔ایچ۔ڈی بھی  ۔‘عارف ہنس پڑا۔

’’آپ  ہنسے کیوں ۔‘‘ عمران نے پو چھا ۔

’’اوہ ۔میں دوسری بات  پر ہنساتھا ۔‘‘عارف جلدی سے بولا ۔

’’اچھا تو اب مجھے تیسری بات پر ہنسنے کی اجازت دیجیے ۔‘‘عمران نے کہا اور احمقوں کی  طرح              ہنسنے لگا۔

وہ دونوں اور زور سے ہنسے۔عمرا ن نےان  سے بھی تیز قہقہہ  لگایا اور تھوڑی  دیر بعد انور اور عارف نے محسوس کیا  جیسے وہ خود بھی احمق  ہو گئے ہوں۔

تھوڑی دیر کے لیے  خاموشی  ہو گئی ۔عمران  نےان دونوں کے نام نہیں پوچھے۔

انور سوچ رہا تھا کہ  خاصی تفریح رہے گی ۔کرنل صاحب کی جھلاّہٹ قابل دید ہو گی ۔یہ احمق اُن کا  نا طقہ  بند کر دے گا اور وہ پا گلوں کی طرح سر پیٹتے پھر یں  گے۔

انور ٹھیک ہی سوچ رہا تھا ۔کر نل تھا بھی جھلّے مزاج کا آدمی ۔اگر اُسے کوئی بات دوبار ہ دُہرانی  پڑتی تھی تو اس کا پارہ چڑھ جاتا تھا ۔چہ جا ئیکہ عمران  جیسے آدمی کا سا تھ ۔

آدھے گھنٹےمیں کار نے کرنل کی کوٹھی تک کی مسافت طے کر لی۔ کرنل اب بھی بے چینی سے اُسی کمرے میں ٹہل رہا تھا اور صوفیہ بھی وہیں موجود تھی۔

کرنل نے عمران کو اُوپر سے نیچے تک تنقیدی نظروں سے دیکھا۔ پھر مسکرا کر بولا۔

’’کیپٹن فیاض تو اچھے ہیں۔‘‘

’’اوجی تو بہ کیجئے۔ نہایت نامعقول آدمی ہے۔ ‘‘ عمران نے صوفے پر  بیٹھتے ہوئے کہا۔ اُس نے کاندھے سے بندوق اتار کر صوفے کے ہتھے سے ٹِکا دی۔

’’کیوں نا معقول کیوں ؟‘‘ کرنل نے حیرت سے کہا ۔

’’بس یو نہی  !‘‘عمران سنجیدگی سے بولا  ۔’’میرا خیال ہے کہ نا معقو لیت کی کوئی وجہ نہیں  ہوتی ۔‘‘

’’خوب !‘‘ کرنل اُسے گھورنے لگا ۔’’ آپ کی  تعریف۔‘‘

’’اجی ہی ہی ہی ۔اَب اپنے منہ سے اپنی تعریف  کیا کروں ۔‘‘عمران  شرما  کر بولا۔

انور کسی طرح ضبط نہ  کر سکا ۔اُسے  ہنسی آگئی اور اس کے پھوٹتے  ہی عارف بھی ہنسنے لگا۔

’’یہ کیا بد تمیز  ی ہے ۔‘‘ کرنل اُن کی طرف  مڑا ۔

دونوں یک بیک  خاموش ہوکر  بغلیں جھا نکنے لگے۔۔۔۔صوفیہ عجیب نظروں سے عمرا ن  کو دیکھ  رہی تھی۔

’’میں نے آپ کا نام پو چھا تھا ۔‘‘کر نل نے کھنکار کر عمران  سے کہا  ۔

’’کب پو  چھا تھا ؟‘‘ عمران چو نک  کر بولا ۔

’’ابھی ‘‘۔ کر نل کے منہ سے بے سا ختہ   نکلا  اور وہ دونوں بھا ئی اپنے  منہ میں رُومال ٹھو نستے  ہو ئے باہر  نکل  گئے۔

’’ان لو نڈوں کی شا مت آگئی ہے ۔‘‘کرنل نے غصّیلی آواز میں کہا اور وہ بھی تیزی سے کمرے سے نکل گیا ۔ایسا معلوم ہو رہا تھا  جیسے  وہ اُن دونوں کو دوڑا کر مارےگا۔

عمران  احمقوں کی طرح  بیٹھا رہا ۔بالکل ایسے ہی  بے تعلقا نہ انداز میں ‘جیسے اُس نے کچھ دیکھا  ہو نہ سنا ہو ۔صوفیہ کمرے ہی میں  رہ گئی تھی اور اس کی آ نکھوں میں شرارت آمیز چمک لہرانے لگی تھی۔

’’آپ نے اپنا نا م نہیں بتا یا ۔‘‘ صوفیہ  بولی ۔

اس پر عمران نے اپنا  نا م ڈگریوں سمیت دُہرایا ۔صوفیہ کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا  تھا جیسے  اُسے اُس پر یقین نہ آیا ہو۔

’’کیا آپ کو اپنے یہاں آنے  کا مقصد معلوم ہے۔‘‘صوفیہ نے پو چھا ۔

’’مقصد !‘‘ عمران چونک کر بولا ۔’’جی ہاں !مقصد مجھے معلوم ہے ۔اسی لیے میں  اپنی ایر گن سا تھ لا یا  ہوں ۔‘‘

’’ ایر گن !‘‘ صوفیہ نے حیرت سے دو ہرایا ۔

’’جی ہاں !‘‘عمران نے سنجیدگی سے کہا ۔میں  ہاتھ سے مکھیاں نہیں مارتا۔‘‘

کرنل جو پشت کے دروازے  میں کھڑا  اُن کی گفتگو سن رہا تھا جھلّا کر آگے بڑھا ۔

’’میں نہیں  سمجھ سکتا کہ فیاض نے یہ بے ہودگی کیوں کی ۔‘‘ اُس نے  سخت لہجے میں کہا ۔

’’د یکھئے !ہے نا ۔۔۔۔معقول آدمی ۔میں نے تو پہلے ہی کہا تھا  ۔‘‘عمران چہک کر بولا ۔

’’آپ کل پہلی گاڑی سے واپس جا ئیں گے ۔‘‘کرنل نے کہا ۔

’’نہیں !‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا  ۔’’ میں ایک  ہفتے کا پرو گرام بنا کر آیا ہوں ۔‘‘

’’جی نہیں شکریہ ۔‘‘ کرنل بیزاری سے بولا ۔’’میں آدھا  معا وضہ د ے کر آپ کو رخصت کر نے پر تیا ر ہوں ۔آدھا معاوضہ کتنا ہوگا ۔‘‘

’’یہ تو مکھیوں کی تعداد پر منحصر ہے ۔‘‘عمران سے سر ہلا  کر کہا ۔’’  ویسے میں ایک  آنے  میں ڈیڑھ درجن مکھیاں مارتا ہوں ۔اور‘‘

’’بس !بس !‘‘ کرنل  ہاتھ اٹھا کر بولا  ۔’’ میرے پاس فضو لیت کا  وقت نہیں ہے ۔‘‘

’’ڈیڈی ۔۔۔۔پلیز !‘‘صوفیہ نے جلدی سے کہا ۔’’ کیا آپ کو تار کا مضمون یا د نہیں۔‘‘

’’ہوں !تم ٹھیک کہتی ہو ۔‘‘کر نل بولا اور اب اس کی نظریں عمران  کے چہرے سے ہٹ کر اُس کی بندوق پر جم  گئیں ۔

اُس نے آگے بڑھ کر بندوق اُٹھالی اور پھر اُسے  غلاف سے نکا لتے  ہی  بری طرح بپھر گیا۔

’’کیا  بے ہودگی ہے۔‘‘ وہ حلق کے بل  چیخا ۔’’یہ تو سچ مچ ایر گن ہے ۔‘‘

عمران کے اطمینان میں ذرّہ برابر  بھی فرق  نہیں آیا ۔

اُس نے سر ہلا کر کہا ۔’’میں کبھی جھوٹ نہیں بو لتا۔‘‘

کرنل  کا پارہ اتنا  چڑھا  کہ اُس کی لڑکی  اُسے ڈھکیلتی ہوئی کمرے سے باہر نکا ل لے گئی ۔کرنل صوفیہ  کے علاوہ اور کسی کو خا طر میں نہیں لاتاتھا۔ اگر اُس کی بجائے  کسی دوسرے  نے یہ حرکت کی ہوتی تو وہ اُس کا گلا  گھو نٹ دیتا۔۔۔۔اُن کے جاتے ہی عمران اِس طرح مسکرانے لگا جیسے وہ بڑا خو شگوار رہا ہو۔

تھو ڑی  دیر بعد صو فیہ واپس آئی اور اُس نے  اُس سے دوسرے کمرے میں چلنے کو کہا ۔

عمران  خا موشی سے اُٹھ کر اُس کے ساتھ  ہو لیا ۔صوفیہ نے بھی  اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کی ۔شائد  وہ کمرہ پہلے ہی سے عمران  کے لیے تیار رکھا  گیا تھا ۔

 

3

کلاکنےایک بجا یا  اور  عمران  بستر سے اُٹھ گیا ۔دروازہ کھول کر  با ہر  نکلا ۔چاروں طرف سنا ٹا  تھا۔لیکن کو ٹھی  کے کسی کمرے کی بھی رو شنی   نہیں  بجھا ئی  گئی تھی۔

بر آمد  میں رُک کر اُس نے  آہٹ لی ۔پھر  تیر کی طرح اُس کمرے کی  طرف بڑھا ، جہاں  کرنل  کے خا ندان  والے  اکٹھا  تھے۔صوفیہ کے علاوہ ہر ایک  کے آگے ایک ایک رائفل   ر کھی  ہو ئی تھی ۔انور اور عارف شدت سے بور  نظر آ رہے تھے۔

صوفیہ کی آ نکھیں  نیند کی وجہ سے  سر خ  تھیں  اور کر نل اس طرح  صوفے  پر  اکڑا بیٹھا  تھا  جیسے  وہ کو ئی بت  ہو ۔اس کی پلکیں تک نہیں  جھپک رہی تھیں ۔عمران  کو دیکھ کر اُس کے جسم  میں حرکت  پیدا  ہوئی۔

’’کیا  بات ہے ! کیوں آئے ہو !‘‘ اس نے  گرج کر پو چھا ۔

’’ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے ۔‘‘عمران نے پو چھا

’’کیا ؟‘‘کرنل  کے لہجے کی سختی  دور نہیں ہوئی ۔

’’اگر آپ  چند نا معلوم آدمیوں سے خا ئف ہیں تو پو لیس کو اس کی اطلا ع کیوں  نہیں دیتے۔‘‘

’’میں جا نتا  ہوں کہ پولیس کچھ نہیں کر  سکتی ۔‘‘

’’کیا وہ لوگ سچ مچ آپ کے لیے  نا  معلوم ہیں ۔‘‘

’’ہاں ۔۔۔۔‘‘

’’بات سمجھ میں نہیں  آئی۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’سیدھی سی بات ہے ۔اگر آپ انھیں جا نتے ہی نہیں تو اُن سے  خا ئف  ہو نے کی  کیا  وجہ ہو سکتی  ہے ؟‘‘

کرنل جواب دینے  کے بجا ئے  عمران  کو گھوررہا تھا ۔

’’بیٹھ جاؤ ۔‘‘ اُس نے تھو ڑی دیر بعد کہا  ۔عمران  بیٹھ گیا ۔

’’میں انھیں جا نتا ہوں ۔‘‘کرنل بولا ۔

’’تب پھرپو لیس ظا ہر سی بات ہے ۔‘‘

’’کیا تم مجھے احمق سمجھتے ہو ۔‘‘ کر نل بگڑ کر بولا ۔

’’جی ہاں  ۔‘‘ عمران نے سنجید گی  سے سر ہلا  دیا ۔

’’کیا ؟‘‘کرنل  اُ چھل کر کھڑا ہو گیا ۔

’’بیٹھ جا یئے !‘‘ عمران  لا پر واہی  سے ہاتھ  اُ ٹھا کر  بولا ۔’’میں  نے یہ بات اس لیے  کہی  تھی کہ  آپ  لوگ کسی وقت بھی  اُن  کی گولیوں کا نشا نہ بن  سکتے ہیں ۔‘‘

’’کیوں ؟‘‘

 ’’وہ کسی  وقت بھی  اس عمارت میں داخل ہو سکتے  ہیں ۔‘‘

’’نہیں  داخل ہو سکتے  ۔باہر کئی  پہاڑی پہرہ دے  رہے ہیں ۔‘‘

’’پھر اس طرح را ئفلیں سا منے  رکھ کر بیٹھنے  کیا  مطلب ۔‘‘ عمران  سر ہلا کر بولا ۔۔۔۔’’نہیں  کرنل صا حب  اگرآپ علی  عمران  ایم  ۔ایس ۔سی ،پی ۔ ایچ۔ڈی سے کوئی کام لینا  چا ہتے  ہیں تو آپ کو اسے سارے  حالات  سے آ گاہ کر نا  پڑے گا   ۔میں یہاں  آپ کے  با ڈی  گارڈ  کے فرا ئض انجا م  دینے  کے لیے  نہیں آیا۔‘‘

’’ڈیڈی بتا دیجیے  نا ۔ٹھیک  ہی تو ہے ۔‘‘صوفیہ بو لی ۔

’’کیا تم اس آدمی کو قابل اعتماد  سمجھتی ہو ‘‘

’اُ ن کی ابھی عمر ہی کیا ہے ۔‘‘عمران نے صوفیہ  کی طرف  اشا رہ کر کےکہا ۔’’ ساٹھ ساٹھ  سا ل کی  بو ڑھیاں بھی مجھ پر اعتماد کر تی ہیں ۔‘‘

صوفیہ بو کھلا  کر عمران  کو گھورنے  لگی ۔اُس  کی سمجھ  میں کچھ نہیں  آیا ۔

انور اور عارف ہنسنے لگے ۔

’’ دانت بند کرو ۔‘‘ کرنل نے انھیں  ڈا نٹا اور وہ دونوں برا سا منہ بنا کر خا موش ہو گئے۔

’’آپ مجھے ان آدمیوں کے متعلق کچھ بتا یئے ‘‘عمران نے کہا ۔

کرنل کچھ دیر خا موش رہا ۔پھر بڑبڑا یا  ۔’’میں نہیں جا نتا کہ کیا  بتاؤں۔‘‘

’’کیا آپ نے اِس دوران  میں ان  میں سے کسی کو دیکھا  ہے ؟‘‘

’’نہیں ۔‘‘

’’پھر شائد میں پا گل  ہو گیا  ہوں ۔‘‘عمران نے کہا ۔

کرنل اُسے  گھورنے  لگا۔وہ کچھ دیر چپ رہا   پھر بولا۔

’’میں اُن لوگوں  کے نشان سے وا قف ہوں ۔اس نشان کا میری کو ٹھی میں پا یا جا نا  اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میں خطرے  میں ہوں ۔‘‘

’’اُوہ ! عمران نے سیٹی بجا نے والے انداز میں  اپنے ہو نٹ سکو ڑے ‘پھر آہستہ سے پو چھا  ۔’’ وہ نشان آپ کو کب ملا ؟‘‘

’’آج سے چاردن  قبل۔‘‘

’’خوب !کیا  میں اُسے د یکھ  سکتا ہوں۔‘‘

’’بھئی ‘یہ تمہا رے بس کا  روگ نہیں معلوم ہو تا ۔‘‘کرنل  اُ کتا کر بولا ۔’’ کل صبح تم واپس جاؤ۔‘‘

’’ہو سکتا ہے کہ  میں بھی  روگی ہو جا ؤں ۔آپ مجھے دکھا یئے نا۔‘‘

کرنل  چپ چاپ بیٹھا رہا ۔پھر اُس نے  بیزاری کے اظہار میں  برا سا منہ بنا یا  اور اُٹھ کر ایک میز کی دراز کھولی  ۔عمران اُسے تو جہ  اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔

کرنل نے دراز سے کوئی چیز نکا لی اور پھر اپنے  صوفے پر واپس آگیا ۔عمران نے اس کی طرف ہا تھ بڑھا  دیا  ۔انور اور  عارف نے معنی  خیز نظروں  سے ایک    دوسرے  کی طرف اس انداز سے دیکھا  جیسے وہ عمرا ن سے کسی حماقت آمیز جملے  کی تو قع ر کھتے ہوں ۔

کرنل نےوہ چیز  چھوٹی    گول میز پر رکھ دی ۔۔۔۔یہ ایک تین انچ  لمبا  لکڑی کا بندر تھا ۔عمران  اُسے میز  سے اُٹھا کر  اُ لٹنے  پلٹنے لگا ۔وہ اُسے  تھوڑی دیر تک دیکھتا رہا پھر اُسی میز پر رکھ کر کرنل  کو گھورنے لگا۔

’’کیا میں کچھ پو چھ سکتا ہوں ۔‘‘عمران بولا ۔

’’پو چھو ۔۔۔۔بور مت کرو۔‘‘

’’خیر‘میں نے احتیا  طاًیہ خیال ظاہر کیا تھا ۔‘‘ عمران نے لا پر واہی سے کہا ۔’’ کیا کبھی آپ کا تعلق  منشیات  کی نا جا ئزتجا رت سے بھی رہا ہے ۔‘‘

کرنل بے سا ختہ اُچھل  پڑا۔پھر وہ عمران کواس طرح گھورنے لگا جیسے اُس نے  ڈنک ما ردیا  ہو۔وہ بے صبری سے لڑکوں کی طرف مڑکر بولا ۔جاؤ۔تم لوگ آرام کرو۔‘‘

اُس کے بھتیجوں کے چہرے کھل اُٹھے لیکن صوفیہ کے انداز سے ایسا  معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ نہیں  جا نا چا ہتی۔

’’تم بھی جاؤ۔‘‘کرنل بے صبری سے ہاتھ ملتا ہو ابولا ۔

’’یہ کیا ضروری ہے ؟‘‘صوفیہ نے کہا

’’جاؤ۔‘‘ کرنل  چیخا ۔وہ تینوں کمرے سے نکل گئے ۔

’’ہاں ‘کیا کہا تھا تم نے ۔‘‘کر نل نے عمران  سے کہا

عمران  نے پھر  اپنا  جملہ دُہرایا ۔

’’توکیا  تم اُس کے متعلق کچھ جا نتے ہو ۔‘‘کرنل نے لکڑی  کے بند ر کی طرف اشارہ کیا ۔

’’بہت کچھ ۔‘‘عمران نے لا پرواہی سے کہا ۔

’’تم کیسے جا نتے  ہوں ؟‘‘

’’یہ بتا نا  بہت مشکل ہے ۔‘‘ عمران مسکرا  کر بولا ۔’’ لیکن  آپ نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘

’’نہیں ‘ میرا تعلق منشیات کی تجا رت سے کبھی  نہیں رہا ۔‘‘

’’تب پھر !‘ ‘ عمران  کچھ سو چتا ہو ا بولا ۔’’آپ اُن لو گوں کے متعلق  کچھ جا نتے  ہیں ۔ورنہ یہ نشان  اِس    کو ٹھی  میں کیوں آیا ۔‘‘

’’خدا  کی قسم ۔‘‘ کرنل مضطربا نہ انداز میں اپنے  ہا تھ ملتا ہو بولا ۔’’تم  بہت کام  کے آدمی معلوم ہو تے ہو۔‘‘

’’لیکن میں کل صبح واپس جا رہا ہوں ۔‘‘

’’ہر گز نہیں ۔۔۔۔ ہر گز نہیں۔‘‘

’’اگر میں   کل واپس نہ گیا  تو اُس مرغی کو کون دیکھے گا جسے میں انڈوں پر بٹھا  آیا ہوں ۔‘‘

’’اچھے لڑکے ! مذاق نہیں  ۔میں بہت پر یشان  ہوں ۔‘‘

’’آپ لیؔ یو کا  سے خا ئف ہیں ۔‘‘عمران  سر ہلا کر بولا ۔

اِس بار کرنل اُسی طرح اُچھلا  جیسے  عمران نے ڈنک ماردیا ہو۔

’’تم کون ہو؟‘‘ کرنل نے خوفزدہ آواز میں کہا۔

’’ علی عمران ۔ایم ۔ایس۔سی ، پی ۔ایچ ۔ڈی ۔‘‘

’’کیا تمہیں سچ مچ کیپٹن نے بھیجا ہے ۔‘‘

’’اور میں کل  صبح واپس چلا جا ؤں گا۔‘‘

’’نا ممکن ۔۔۔۔نا ممکن  ۔میں تمہیں  کسی  قیمت پر نہیں  چھوڑ  سکتا۔لیکن تم لی  یو ؔکا کے متعلق کیسے جا نتے ہو ۔‘‘

’’یہ میں  نہیں بتا سکتا ۔ عمران  نے کہا ۔’’ لیکن لی یوؔکا کے متعلق میں آپ کو بہت کچھ  بتا سکتا ہوں ۔وہ ایک جا پانی ہے۔اس کےنام  سے منشیات کی نا جا ئز تجا رت ہو تی ہے  ۔ لیکن اُسے آج تک کسی نے دیکھا نہیں۔‘‘

’’با لکل ٹھیکلڑکے تم خطر ناک معلوم ہو تے ہو؟‘‘

’’میں دنیا  کا  احمق ترین  آدمی ہوں۔‘‘

’’بکواس ہے ۔۔۔۔ !لیکن تم کیسے  جا نتے  ہو ۔‘‘ کر نل بڑبڑا یا ۔’’  مگرکہیں تم اُسی کے آدمی نہ ہو ۔‘‘

کرنل کی آواز حلق میں پھنس گئی۔

’’بہتر ہے ۔میں کل صبح‘‘

’’نہیں نہیں ‘‘کرنل ہا تھ اُٹھا کر چیخا۔

’’اچھا  یہ بتایئے کہ یہ نشان آپ کے پاس کیوں آیا۔‘‘عمران نے پو چھا ۔

’’میں نہیں  جا نتا ۔‘‘کرنل  بولا ۔

’’شائد آپ اس احمق ترین آدمی کا  امتحان لینا چا ہتے ہیں ۔‘‘عمران نے سنجیدگی سے کہا ۔’’خیر تو  سنئے  ! لی یوؔکا دوسو سال پرانا  نام ہے۔‘‘

’’لڑکے !تم نے یہ ساری معلومات کہاں  سے بہم پہنچائی ہیں ۔‘‘کر نل  اسے تعریفی نظروں سے دیکھتا ہو ابولا ۔’’یہ بات لی یو ؔکا کے گروہ والوں کے علاوہ اور کوئی نہیں جا نتا۔‘‘

’’تو میں سمجھ لوں کہ آپ کا تعلق اس کے گروہ سے  رہ چکا  ہے ۔‘‘عمران نے کہا۔

’’ہر گز  نہیں ۔۔۔۔ تم غلط سمجھے۔‘‘

’’پھر یہ نشان آپ کے پاس کیسے  پہنچا ۔آخر وہ لوگ آپ سے کس  چیز کا مطا لبہ  کر رہے ہیں ۔‘‘

’’اُوہ !تم یہ بھی  جا نتے ہو ۔‘‘کرنل چیخ کر بولا  اور پھر اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا ۔عمران  کے ہو نٹوں پر شرارت آمیز مسکرا ہٹ تھی۔

’’لڑکے !‘‘ دفعتاً کرنل ٹہلتے ٹہلتے رک گیا ۔’’تمہیں ثا بت کرنا پڑے گا کہ تم وہی آدمی ہوجسے کیپٹن فیاض نے  بھیجا ہے ۔‘‘

’’آپ بہت پر یشان ہیں ۔‘‘عمران ہنس کر بولا ۔’’میرے پا س فیا ض کا خط موجود ہے ۔لیکن  ابھی سے اتنا کیوں پر یشان ہیں۔یہ تو  پہلی وار ننگ ہے۔بند ر کے بعد سانپ آئے گا۔اگر اِس دوران میں بھی اُن کا مطا لبہ  پورا نہ کیا  تو پھر وہ مرغ بھیجیں گے اوراس کے دوسرے ہی دن  آپ  کا صفایا  ہو جا ئے گا۔آخر وہ کون سا مطا لبہ ہے۔‘‘

’’کرنل کچھ نہ بولا ۔اس کا منہ حیرت  سے کھلا  ہو اتھا  اورآ نکھیں عمران کے چہرے پر تھیں ۔

’’لیکن ۔‘‘وہ آخر کار اپنے ہو نٹوں  پر زبان  پھیر کر بولا ۔’’ اتنا  کچھ  جا ننے  کے بعد تم اب تک کیسے زندہ ہو۔‘‘

’’محض کو کا کولا کی وجہ سے۔‘‘

سنجیدگی !سنجیدگی ۔‘‘کرنل نے بے صبری سے ہاتھ اٹھا یا ۔’’مجھے فیا ض کا خط دکھا ؤ۔‘‘

عمران نے جیب سے خط نکال کر کرنل کی طرف بڑھا دیا۔

کرنل  کا فی دیر تک اس پر  نظریں  جما ئے رہا ۔پھر عمران  کو واپس کرتا  ہو ابولا ۔’’ میں نہیں سمجھ سکتا کہ تم کس قسم کے آدمی ہو ۔‘‘

’’میں ہر قسم کا آدمی ہوں ۔فی الحال آپ میرے متعلق کچھ نہ سو چئے ۔‘‘عمران  نے کہا ۔۔۔۔ ’’ جتنی جلدی آپ مجھے اپنے بار ے میں بتا ئیں گے ‘اتنا ہی اچھا ہو گا۔‘‘

کرنل کے چہرے سے ہچکچا ہٹ ظاہر ہو رہی تھی ۔وہ کچھ نہ بولا ۔

’’اچھا ٹھر یئے  ۔‘‘عمران  نے کچھ دیر بعد کہا ۔’’ لی یوؔکا کے آدمی   صرف ایک ہی صورت میں اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں ۔وہ ایک ایسا گروہ ہے جو منشیات کی نا جا ئز تجا رت کر تا  ہے ۔لی یو ؔکا  کون ہے ‘یہ کسی کو معلوم نہیں لیکن تجا رت کا سارا نفع اُسی کو پہنچتا ہے ۔کبھی کبھی اُس کے بعض ایجنٹ بے ایمانی پر بھی  آمادہ ہو جاتے  ہیں ۔وہ لی یو ؔکا  کے مطا لبات نہیں ادا کرتے ۔اس صورت میں انھیں اسی قسم  کی وارننگ ملتی ہیں ۔پہلی  دھمکی بندر۔دوسری دھمکی سانپ اور تیسری دھمکی مرغ ۔اگر وہ آخر ی دھمکی کے بعد بھی مطا لبات  ادا نہیں کرتے تو  اُن کا خا تمہ  کر دیا جا تا ہے ۔‘‘

’’کیا تم یہ سمجھتے ہوکہ میں لی یوؔکا کا ایجنٹ ہوں ۔‘‘کرنل کھنکار کر بولا۔

’’ایسی صورت میں اور کیا سمجھ سکتا ہوں۔‘‘

’’پھر۔‘‘

میرا خیال ہےکہ میرے پاس لی یوؔکا  کا سراغ ہے ۔‘‘کرنل بڑبڑایا ۔

’’سراغ۔وہ کس طرح ۔‘‘

’’کچھ ایسے کا غذات  ہیں جو کسی طرح لی یوؔکا کے لیے  مخدوش ثابت ہو سکتے ہیں۔

’’مخدوش ہو نا  اور چیز ہے ۔۔۔۔لیکن سراغ ۔‘‘عمران  نفی میں سر ہلا کر رہ گیا ۔

’’یہ میرا اپناخیال ہے ۔‘‘

’’آخر آپ نے کس بنا ء پر  یہ رائے قائم کی ۔‘‘عمران نے پو چھا ۔

’’یہ بتا نا  مشکل ہے  ۔ویسے میں ان کا غذات میں سے کچھ کو بالکل ہی نہیں سمجھ سکا ۔‘‘

’’لیکن آپ کو وہ کا غذات  ملے کہا  ں سے ‘‘۔

’’بہت ہی حیرت انگیز طر یقے پر ۔‘‘کرنل سگار سلگاتا ہو ا بولا ۔ ’’پچھلی جنگ عظیم کے دوران  میں ہانگ  کا نگ میں تھا ۔وہیں یہ کا غذات  میرے ہاتھ لگے اور یہ حقیقت ہےکہ جس سے  مجھے  کا غذات  ملے‘وہ مجھے  غلط سمجھا تھا ۔ہو ایہ کہ ایک رات ہا نگ کانگ کے ایک ہو ٹل  میں کھا نا  کھا  رہا تھا  کہ ایک دُبلا  پتلا چینی آکر میرے سامنے بیٹھ گیا ۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت زیادہ خو فزدہ ہے ۔اُس کا پوراجسم کا نپ رہا تھا  ۔اس نے جیب سے ایک بڑا سا لفا فہ  نکال کر میز کے نیچے سے میرے گھٹنوں پر رکھ دیا  اور آہستہ سے بولا ۔’’میں خطرے میں ہوں ۔اسے  بی فور ٹین  تک پہنچا دینا۔پھر قبل اس کے کہ میں  کچھ کہتا وہ تیزی سے باہر نکل گیا ۔بات حیرت انگیز تھی ۔میں نے چپ چاپ لفا فہ جیب میں ڈال لیا ۔میں نے  سوچا  ممکن  ہے وہ چینی  ملڑی سیکرٹ سروس کا  آدمی رہا ہو  اور کچھ اہم کا غذات میری وساطت  سے کسی  ایسے  سیکشن میں پہنچا نا  چا ہتا ہو جس  کا نام  بی فورٹین ہو ۔ میں اس وقت اپنی  پوری وردی میں تھا ۔ہو ٹل سے اپنی  قیا مگاہ پر واپس آنے کے بعد  میں نے لفافہ  جیب سے نکالا ۔وہ سیل کیا ہو ا تھا ۔میں نے اُسے اسی حالت میں رکھ دیا ۔دوسرے  دن میں  نے ’’ بی ۔فورٹین ‘‘ کے متعلق پو چھ  گچھ  شروع کی لیکن  ملڑی کی سیکرٹ سروس میں  اس  نام کا کوئی ادارہ نہیں تھا ۔پورے ہا نگ کانگ میں بی ۔فورٹین  کا سراغ نہ مل سکا ۔۔۔۔آخر میں نے تنگ آکر اُس لفا فے کو کھول ڈالا۔‘‘

’’تو کیا اس میں لی یو ؔکا  کے متعلق رپورٹ تھی ۔‘‘عمران نے پوچھا۔

’’ نہیں !وہ تو کچھ تجارتی  قسم کے کا غذات ہیں لیکن  تجارت کی نوعیت  صاف  ظاہر ہو جاتی ہے ۔لی یوؔکا کا نام  اُن میں کئی جگہ دُہرا یا گیا ۔کئی کا غذات چینی اور جا پانی زبا نوں میں بھی ہیں جنھیں میں سمجھ نہیں سکا۔‘‘

’’پھر آپ کو لی یوکا کی ہسٹری  کس طرح معلوم ہو ئی ‘‘

’’اُوہ ۔۔۔۔وہ پھر میں نے ہا نگ کانگ میں  لی یو ؔکا کے متعلق چھا ن بین کی تھی  ۔مجھے  سب کچھ معلوم ہوگیا لیکن یہ نہ  معلوم  ہو سکا کہ لی یو کا کا کون ہے اور کہا ں ہے ۔اُس کے  ایجنٹ آئے  دن گر فتار ہو تے رہتے ہیں لیکن ان میں  سے آج تک کو ئی لی یوکا کا پتہ نہ بتا سکا ۔ویسے یہ نام دو سو سال سے زندہ ہے ۔‘‘

عمران  تھوڑی دیر تک کچھ سو چتا  رہا پھر بولا۔’’یہ لوگ  کب  سے آپ  کے پیچھے  لگے ہیں ۔‘‘

’’آج کی بات نہیں  ہے  ۔‘‘کرنل بجھا ہو اسگار   لگار کر بولا ۔’’کاغذات ملنے کے چھ ماہ بعد ہی سے وہ میرے پیچھے لگ گئے تھے لیکن میں  نے انھیں کا غذات واپس نہیں کئے ۔کئی بار وہ چوری چھپے میری قیام  گا ہوں میں بھی داخل ہوئے لیکن انھیں کاغذات ہوا بھی  نہ لگ سکی ۔اب انھوں نے اپنا  آخری حربہ استعمال کیا ہے ‘یعنی موت  کے نشان بھیجنے  شروع گئے ہیں ،جس کا یہ مطلب  ہے کہ  اب وہ مجھے  زندہ نہ  چھو ڑیں گے۔‘‘

’’اچھا ‘وہ  چینی بھی کبھی دکھا ئی  دیا تھا جس سے کا غذات  آپ کوملےتھے۔‘‘

’’کبھی  نہیں ۔۔۔۔وہ کبھی نہیں دکھا ئی پڑا۔‘‘

کچھ دیر تک خا موشی رہی‘پھر عمران بڑبڑ انے لگا۔

’’آپ اُسی وقت تک زندہ ہیں ‘جب تک کا غذات آپ کے قبضے میں ہیں۔‘‘

’’بالکل ٹھیک ہے ۔‘‘کرنل چونک  کر بولا ۔تم واقعی بہت ذہین ہو ۔یہی وجہ ہے کہ میں اُن  کا غذات کو واپس کر نا نہیں چا ہتا ‘ورنہ  مجھے  ان سے ذرّہ برابر بھی دلچسپی  نہیں ۔بس یہ  سمجھ لوکہ  میں نے  ایک سانپ کا سر پکڑ رکھا  ہے ‘اگر چھوڑتا ہوں تووہ پلٹ کر یقیناً ڈس لے گا۔‘‘

’’کیا میں اُن کا غذات  کو دیکھ سکتا ہوں ۔‘‘

’’ہر گز نہیں !تم مجھ سے سا نپ کی گرفت ڈھیلی کر نے کو کہہ  رہے ہو۔‘‘

عمران ہنسنے لگا ۔۔۔۔پھر اُس  نے کہا ۔’’آپ  نے کیپٹن  فیاض کو کیوں درمیان میں ڈالا ۔‘‘

’’اُس کے فر شتوں کو بھی  اصل واقعات کی اطلاع نہیں ۔وہ توصرف یہ جا نتا ہے کہ مجھے  کچھ آدمیوں کی طرف سے خطرہ ہے لیکن میں کسی وجہ سے براہ راست پو لیس کو اِس معا ملے میں دخل دینے  کی دعوت  نہیں  دے سکتا ۔‘‘

’’تو آپ مجھے  بھی  یہ ساری باتیں نہ بتاتے ۔‘‘عمران  نے کہا ۔

’’بالکل یہی بات ہے ۔۔۔۔لیکن تمہارے اندر شیطان کی روح معلوم ہو تی  ہے ۔‘‘

’’عمران  کی !‘‘عمران سنجیدگی  سے سر ہلا کر بولا ۔’’بہر حال  آپ نے مجھے  بحیثیت باڈی گارڈ طلب  فرمایاہے۔‘‘

’’میں کسی کو بھی  نہ طلب کرتا ۔یہ سب  کچھ  صوفیہ نے کیا  ہے ۔اُسے حالات کا  علم ہے ۔‘‘

’’خیر مار یئے گولی ۔‘‘عمران بے پر وائی سے شانوں کو جنبش   دیتا ہو ابولا ۔’’میں صبح کی چائے  کے ساتھ بتا شے  اور لیمن ڈراپس استعمال  کر تا ہوں۔‘‘

 

4

دوسریصبحصوفیہ کی حیرت کی کوئی  انتہا نہ رہی جب   اس نے  یہ دیکھا کہ کرنل اُس خبطی آدمی کی ضرورت سے زیادہ خا طر  ومدارت کر رہا ہے ۔

انور اور عارف  اپنے کمروں  میں ہی نا شتہ کر تے تھے ۔وجہ یہ تھی کہ کرنل کو وٹا منز کا خبط تھا۔اس کے ساتھ انھیں بھی نا شتے میں کچی تر کاریاں اور بھیگے ہوئے چنے زہر مار کر نے پڑے تھے۔اس لیے انھوں نے  دیر سے  سوکر اٹھنا شروع کر دیا تھا  ۔آج کل تو ایک اچھا خا صا بہا نہ  ہا تھ آگیا  تھا کہ  وہ کا فی رات گئے  تک را ئفلیں لَے کر ٹہلا  کرتے تھے۔

            آج ناشتے  کی میز پر صرف صوفیہ ، عمران  اور کرنل تھے اور عمران کرنل سے  بھی  کچھ زیادہ ’’وٹامن زدہ‘‘نظر آرہا  تھا ۔کرنل تو بھیگے  ہوئے چنے ہی چبا رہا تھا  مگر عمران  نے یہ حرکت کی کہ  چنوں کو چھیل چھیل کر چھلکے الگ  اور دانے الگ رکھتا گیا۔صوفیہ اُسے حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔جب چھلکو ں کی مقدار زیادہ ہو گئی  تو عمران  نے اُنھیں  چبا نا  شروع کر دیا ۔

صوفیہ کو ہنسی آگئی ۔کرنل  نے شائد ادھر  دھیان نہیں دیا تھا ۔صوفیہ کے ہنسنے  پر وہ چونکا اور پھر اس کے ہو نٹوں پر خفیف سی  مسکرا ہٹ پھیل گئی ۔

عمران  احمقوں کی طرح ان دونوں کو باری باری سے دیکھنے  لگا لیکن چھلکوں سے اس کا  شغل  اب بھی  جاری تھا۔

’’شائد آپ کچھ غلط کھا رہے ہیں ‘‘۔صوفیہ نے اپنی ہنسی  ضبط کرتے ہو ئے کہا۔

’’ہائیں !‘‘ عمران  آنکھیں  پھا ڑ کر بولا ۔’’غلط کھا رہا  ہوں ۔‘‘

پھر و ہ گبھرا کر اس طرح اپنے  دونوں  کان جھا ڑ نے لگا جیسے  وہ اب تک سارے  نوالے  کانوں ہی میں  رکھتا رہا ہو۔صوفیہ کی ہنسی تیز ہو گئی ۔

’’میرا مطلب یہ ہے کہ  آپ چھلکے  کھا  رہے ہیں ۔‘‘اس نے کہا ۔

’’اُوہ ۔۔۔۔اچھا اچھا ۔‘‘عمران  ہنس کر سر ہلا نے لگا۔پھر اس نے سنجیدگی  سے کہا ۔۔۔۔’’ میری صحت روز بروز خراب  ہو تی جا رہی ہے ۔اس لیے میں غذا کا صرف وہ حصہ استعمال  کر تا ہوں  جس میں  صرف وٹا من پا ئے جا تے  ہیں ۔یہ چھلکے  وٹامن سے لبر یز ہیں ۔میں صرف چھلکے  کھا تا ہوں ۔آلو کا چھلکا پیا ز کا چھلکا  ۔گیہوں کی بھوسی وغیرہ وغیرہ ۔‘‘

’’تم شیطان  ہو ۔‘‘کرنل  ہنسنے لگا ۔’’میرا مذاق اڑا رہے ہو۔‘‘

عمران  اپنا منہ پیٹنے لگا ۔’’ اُرے تو بہ  تو بہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔‘‘

کرنل بد ستور ہنستا رہا ۔

صوفیہ حیرت میں پڑ گئی ۔اگر یہ حرکت کسی اور سے سر زد  ہو ئی ہو تی تو کرنل  شائد جھلّا ہٹ میں رائفل  تک  نکال لیتا۔کبھی وہ عمران  کو گھورتی تھی اور کبھی  کرنل کو  جو بار بار اچھی طشتریوں  کی طرف عمران  کی تو جہ مبذول کراتا  جا رہا  تھا ۔’’کیا وہ دونوں  گد ھے  ابھی تک سورہے ہیں ‘‘؟ دفعتاًکرنل  نے صوفیہ  سے پو چھا ’’میں تنگ آگیا  ہوں ،ان سے ،میری بات سمجھ میں نہیں  آتا کہ ان  کا مستقبل کیا  ہوگا۔‘‘

صوفیہ کچھ نہ بولی  ۔کرنل  بڑبڑاتا رہا ۔نا شتے  سے فارغ ہو کر عمران  با ہر آگیا ۔

پہا ڑیوں میں دھوپ پھیلی  ہوئی تھی ۔عمران  کسی  سوچ میں ڈوبا ہوا  دور  کی پہا ڑیوں ک طرف  دیکھ رہا تھا ۔سونا  گری کی شاداب پہا ڑیاں گر میوں میں کا فی آباد ہو جا تی  ہیں ۔نزدیک ودور کے درمیانی علاقوں  کی تپش سے گھبرا ئے ہوئے  ذی حیثیت لوگ عموماً یہیں پنا ہ لیتے  ہیں ۔ہو ٹل آباد ہو جاتے  ہیں اور مقامی  لو گوں  کے چھوٹے چھوٹے مکا نات بھی رشک ارم بن جا تے ہیں ۔وہ عمو ماً گر میوں میں انھیں کرا ئے  پر اٹھا  دیتے  ہیں  اور  خود چھو ٹی چھوٹی جھو نپڑیاں بنا کر رہتے  ہیں ۔اپنے  کرایہ داروں کی خدمت بھی انجام دیتے  ہیں ‘جس  کے صلے  میں  انہیں اچھی  خاصی آمدنی ہو جا تی  ہے اور پھر سردیوں  کا زمانہ اسی کما ئی  کے بَل بوتے  پر تھو ڑی  بہت  آسا ئش کے سا تھ گزارتے ہیں ۔

کرنل  ضر غام کی مستقل سکونت یہیں  کی تھی اور اس کا شمار یہاں کے سر بر آوردہ لوگوں  میں ہوتا تھا ۔صوفیہ اس کی  اکلوتی  لڑکی تھی ۔انور اور عارف اس کے بھتیجے تھے   جو گر میاں  عمو ماً اسی کے ساتھ  گز ارا کرتے  تھے ۔

عمران  نے ایک انگڑائی لی اور سامنے سے نظریں ہٹا کر  اِدھر اُدھر  دیکھنے  لگا ۔شہتوتوں کی میٹھی میٹھی بو چا روں  کی طرف   پھیلی  ہو ئی تھی ۔عمران  جہاں  کھڑا تھا  اُسے  پا ئیں   باغ تو نہیں  کہا  جا سکتا  تھا لیکن  با غ ہی ۔آڑو،خوبانی،سیب  اور شہتوت کے درخت عمارت کے چاروں  طرف پھیلے ہو ئے  تھے۔زمین  پر گرے ہوئے شہتوت نہ جانے  کب سے  سڑرہے تھے  اور ان کی میٹھی  بوذہن  پر گراں گز رتی تھی۔

عمران  اندر جانے کےلیے  مڑا ہی تھا کہ  سا منے  سے صو فیہ  آ تی دکھا ئی  دی ۔انداز سے معلوم  ہو رہا تھا  کہ وہ عمران ہی  کے پاس آرہی ہے ۔عمران  رک گیا ۔

’’کیا  آپ پرا ئیوٹ سرا غرساں  ہیں ۔‘‘صو فیہ نے آتے  ہیں سوال کیا ۔

’’سرا غر  ساں ۔‘‘عمران نے حیرت زدہ  لہجے میں دُہرا یا ۔’’ نہیں تو۔۔۔۔ہما رے ملک میں پرا ئیوٹ سرا غرساں قسم  کی کو ئی چیز نہیں  پا ئی جاتی ۔‘‘

’’پھر  آپ کیا ہیں ؟‘‘

’’میں !‘‘عمران  نے سنجیدگی سے کہا ۔’میں کیا کہوں ؟مرزا غالؔب نے میرے لیے ایک شعر  کہا تھا :

حیراں ہوں دِل  کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

میں حقیقتاًکرا یہ  کا ایک نوحہ گر ہوں ۔صاحب مقدر ت لوگ  دل  یا جگر کو   پٹوانے کےلیے مجھے  کرائے  پر حاصل کرتے  ہیں اور پھر میں انھیں حیران ہونے  کابھی وہ  نہیں دیتا کیا کہتا ہیں اسے ۔موقع موقع۔‘‘

            صوفیہ نے نیچے  سے او پر تک  اسے گھور کر دیکھا ۔عمران  کے  چہرے پر برسنے  والی  حماقت  کچھ زیادہ ہو گئی ۔

            ’’آپ  دوسروں  کو اُلّو کیوں سمجھتے  ہیں ؟‘‘ صوفیہ بھنّا کر بولی۔

            ’’مجھے  یاد نہیں  پڑتا کہ  میں نے  کبھی  کسی اُلّو کو بھی  اُلّو سمجھا ہو۔‘‘

            ’’آج  آپ واپس جا رہے  تھے۔‘‘

            ’’ چہ چہ  ۔مجھے  افسوس ہے ۔کرنل صاحب نے تسلی کے لیے  میری خدمات حاصل کرلی ہیں ۔میری سا ئڈ بز نس  تسلّی اور دلا سا دینا  بھی ہے ۔‘‘

            صو فیہ  کچھ دیر  خا موش رہی پھر اس نے کہا  ’’تو اس کا مطلب ہے کہ  آپ نے سارے  معا ملات  سمجھ  لئے  ہیں ‘‘

            ’’میں  اکثر کچھ سمجھے بو جھنے  بغیر بھی تسلیاں دیتا رہتا ہوں۔‘‘عمران  نے مغموم لہجے میں کہا ۔’’ایک بار کا ذ کر  ہے کہ ایک آدمی  نے میری خدمات حاصل کیں ۔میں رات بھر  اُسے  تسلیاں  دیتا رہتا رہا لیکن جب صبح ہو ئی تو میں نے د یکھا  کہ اس  کی کھو پڑی  میں دو سوراخ  ہیں اور وہ نہ دِل کو رو سکتا  ہے اور نہ جگر کو پیٹ سکتا ہے ۔‘‘

            ’’میں نہیں  سمجھی۔‘‘

            ’’ان سو راخوں سے بعد کو ریو الور کی گو لیاں  بر آمد ہو ئی  تھیں ۔معجزہ تھا  جناب  معجزہ ۔سچ مچ  یہ معجزوں کا ز ما نہ ہے ۔پرسوں ہی میں  نے پڑ ھا  ہے کہ ایران میں ایک ہا تھی  نے مرغی  کے انڈے دیئے ہیں ۔‘‘

            ’’آپ بڑے اذیت پسند معلوم ہوتے ہیں ‘‘صوفیہ منہ بگاڑ کر بولی۔

            ’’آپ کی  کو ٹھی  بڑی شا ندار ہے ۔‘‘عمران  نے مو ضوع بدل  دیا ۔

            ’’میں پو چھتی ہوں ۔آپ ڈیڈی کےلیے کیا   کر سکیں گے ؟‘‘ صو فیہ جھنجھلا گئی ۔

            ’’دلا  سہ نہ  دے سکوں گا۔‘‘

            صو فیہ  کچھ کہنے ہی وا لی تھی  کہ بر آمد  ے کی طرف سے کرنل کی آواز آئی ۔

            ’’ارے تم  یہاں  ہو۔‘‘

            پھر وہ  قریب  آکر بولا  ۔’’گیا رہ بجے ٹرین  آتی  ہے ۔اور وہ دونوں گدھے کہاں ہیں۔۔۔۔تم لوگ اسٹیشن  چلے جا ؤ۔ میں نہ جا سکو ں گا ۔‘‘

            ’’کیا  یہ واپس نہیں جا ئیں  گے ۔‘‘صوفیہ نے عمران  کی طرف دیکھ  کر کہا ۔

            ’’نہیں ۔‘‘کرنل نے کہا ۔’’جلدی کرو ‘ساڑھے  نو بج گئے  ہیں ۔‘‘

            صوفیہ چند لمحے  کھڑی عمرا ن کو گھو  رتی ہی  رہی پھر اند ر چلی گئی ۔

            ’’کیا  آپ  کےیہاں  مہمان  آرہے ہیں۔‘‘عمران  نے کرنل کی سے پو چھا ۔

            ’’ہاں ‘ میرے دوست ہیں ۔‘‘ کرنل  بولا ۔’’ کرنل  ڈکسن ۔یہ ایک  انگریز ہے ۔مِس ڈکسن اُس کی لڑکی  اور مسڑ بار توش ۔‘‘

            ’’بار توش ۔‘‘عمران  بولا ۔’’ کیا  زیکو سلو یکیہ کا با شندہ ہے ۔‘‘

            ’’ہاں ۔۔۔۔ کیوں ؟تم  کیسے جا نتے  ہو ؟‘‘

            ’’اس قسم کے نام  صرف اُدھر  ہی پا ئے جا تے  ہیں ۔‘‘

            ’’بارتوش  ڈکسن کا دوست  ہے ۔میں  نے اُسے  پہلے  کبھی  نہیں دیکھا ۔سنا ہے کہ وہ مصور بھی ہے۔‘‘

            ’’کیا وہ کچھ دن ٹھہر یں گے۔‘‘

            ’’ہاں  ‘شائد  گرمیاں  یہیں  گزا ریں ۔‘‘

            ’’کیا آپ ان لو گوں سے لی یوؔکا  والے  معا ملے  کا  تذکرہ کر یں گے۔‘‘

            ’’ہر گز  نہیں ۔‘‘کرنل نے کہا  ۔’’لیکن  تمہیں  اس کا خیال  کیسے  پیدا ہوا؟‘‘

            ’’یو نہی ۔۔۔۔ البتہ  میں ایک خاص بات سوچ رہا  ہوں۔‘‘

            ’’کیا؟‘‘

            ’’ فرض کیجیے ،وہ صو فیہ  کو پکڑلیں ۔پھر آپ سے کا غذات  کا مطا لبہ  کریں  اُس کی  صورت میں آپ کیا کریں  گے ۔‘‘عمران نے سر ہلا کر کہا ۔’’ کیا  آپ  اپنی  لڑکی  یا  بھتیجوں  کی موت  برداشت  کر سکیں گے۔‘‘

            ’’میرے خدا !‘‘کرنل  نے آنکھیں بند کر  ایک ستون سے ٹیک لگا لی ۔

            عمران خا موش کھڑا رہا ۔پھر کرنل  آنکھیں  کھول کر مردہ سی  آواز میں بولا۔’’تم ٹھیک کہتے ہو ۔میں  کیا کروں ۔میں نے  اس کے متعلق کبھی  نہیں سو چا۔‘‘

            ’’صو فیہ کو اسٹیشن نہ بھیجئے ۔‘‘

            ’’اب میں انور اور عارف  کو بھی  نہیں  بھیج سکتا۔‘‘

            ’’ٹھیک  ہے !آپ خود کیوں نہیں   جا تے ۔‘‘

            ’’میں ان  لوگوں کو تنہا بھی  نہیں چھوڑ سکتا ۔‘‘

            ’’اس کی فکر نہ کیجیے  ۔میں  مو جود  ر ہوں گا ۔‘‘

            ’’تم !‘‘کرنل نے اُسے  اِس طرح  د یکھا   جیسے  وہ بالکل خالی  الذہن ہو۔‘‘تم۔۔۔۔کیا تم کسی خطرے  کا مقا بلہ کر سکو گے ۔‘‘

’’ہا ہا ۔۔۔۔ کیوں نہیں ۔کیا آپ نے  میری  ہو ائی  بندوق نہیں دیکھی ۔‘‘

             ’’سنجیدگی  ۔میرے لڑکے   سنجیدگی ۔‘‘کرنل بے صبری  سے ہا تھ  اٹھا کر بولا ۔

            ’’کیا کیپٹن فیاض کو بھی  احمق  سمجھتے ہیں ۔‘‘

            ’’آں۔۔۔۔نہیں۔‘‘

            ’’تب پھر آپ  بے کھٹکے  جا سکتے  ہیں ۔میری ہوائی بندوق ایک چڑے سے لے  ہرن تک  کا شکا ر  کر سکتی ہے ۔‘‘

            ’’تم میری ریوا لور اپنے پاس رکھو ۔‘‘

            ’’ار ے تو بہ تو بہ !‘‘عمران  اپنا منہ  پیٹنے لگا ۔’’ اگر وہ سچ مچ چل  ہی گیا تو کیا  ہو گا۔‘‘

            کرنل چند لمحے عمران  کو گھو رتا رہا  ۔پھر بولا ۔’’اچھا  میں نہیں رو کے دیتا ہوں۔‘‘

            ’’ٹھر یئے  ۔۔۔۔ایک بات اور سنئے ۔‘‘عمران  نے کہا  اور پھر آہستہ آہستہ کہتا  رہا ۔کر نل  کے چہرے کی  رنگت کبھی پیلی پڑ جاتی اور کبھی  وہ پھر اپنی اصلی  حا لت  پرآجا تا تھا۔

            ’’مگر!‘‘ وہ تھوڑی دیر بعد اپنے خشک ہو نٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔۔۔۔’’میں نہیں  سمجھ  سکتا۔‘‘

            ’’آپ  سب کچھ  سمجھ  سکتے  ہیں  ۔اب جا یئے ۔‘‘

            ’’اُوہ  ۔۔۔۔مگر۔۔۔۔‘‘`

            ’’نہیں کرنل میں ٹھیک  کہہ رہا  ہوں۔‘‘

            ’’تم نے  مجھے  اُ لجھن  میں ڈال دیا ہے ۔‘‘

            ’’کچھ  نہیں ۔۔۔۔بس  اب جا یئے۔‘‘

            کرنل  اندر چلا گیا ۔عمران وہیں کھڑا کچھ دیر تک اپنے ہاتھ ملتا  رہا ۔پھر اس کی ہو نٹوں پر پھیکی  سی مسکرا ہٹ پھیل گئی ۔

            انور اور عارف دونوں کواس کا بڑا افسوس تھا کہ کر نل نے انھیں  اسٹیشن  جانے  سے روک دیا ۔انھیں  اس سے پہلے  کرنل ڈکسن  یا اس کی لڑکی  سے ملنے  کا  اتفا ق نہیں ہو ا تھا  ۔صوفیہ  بھی اسٹیشن  جا نا  چا ہتی  تھی ۔اسے بڑی کو فت ہو ئی ۔

’’آپ نہیں  گئے کرنل  صا حب کے ساتھ ۔‘‘عارف  نے عمران  سے پو چھا ۔

’’نہیں  ۔‘‘عمران نے لا پرواہی سے کہا اور چیو نگم چو سنے لگا ۔

’’میں  نے سنا ہے کہ کرنل صاحب آپ  سے بہت زیادہ خوش ہے ۔‘‘

’’ہاں  ۔آں ۔میں  انھیں رات بھر لطیفے  سنا  تا رہا ۔‘‘

’’لیکن ہم لو گ کیوں  ہٹا دیئے  گئے  تھے ۔‘‘

’’لطیفے بچوں کے سننے کے لا ئق نہیں  تھے۔‘‘

’’کیا کہا بچے!‘‘عارف جھلّا  گیا ۔

’’ہاں بچےّ ۔‘‘عمران  مسکرا کر  بولا ۔’’کرنل صاحب مجھے  اپنی جوانی  کے معا شقوں کاحال بتا رہے تھے۔‘‘

’’کیا  بکواس ہے ۔‘‘

’’ہاں ‘بکواس تو تھی  ہی ۔ عمران نے سنجید گی سے کہا ۔’’اُن کی جوانی کے زمانے  میں فو جیوں  پر عاشق ہو نے کا رواج نہیں تھا ۔ اس وقت کی لڑکیاں  صرف عا شقوں سے عشق کر تی  تھیں۔‘‘

’’سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کس قسم  کے آدمی  ہیں۔‘‘

’’ہائیں ‘تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ  قصور میر ا ہے ۔‘‘عمران  نے حیرت سے کہا ۔’’کرنل صاحب  خود ہی  سنا رہے تھے۔‘‘

’’عارف ہنسنے لگا ۔پھر اس نے تھوڑی دیر بعد  پو چھا ۔

’’و ہ بند ر کیسا تھا ؟‘‘

’’اچھا  تھا ۔‘‘

’’خدا سمجھے ۔‘‘عارف نے بھنّا  کر کہا  اور وہاں سے  چلا گیا ۔

پھر عمران ٹہلتا ہوا اس کمرے  میں آیا جہاں  انور  اور صوفیہ  شطرنج  کھیل رہے تھے۔وہ چپ کھڑا ہو کر دیکھنے لگا ۔اچانک انور نے صوفیہ  کو شہ  دی ۔صو فیہ  شہ  بچنے  ہی  جا رہی تھے کہ عمران  بول پڑا۔

’’اونہہ اوں!یہاں  ر کھئے۔‘‘

’’کیا  صوفیہ جھلاّ کر بولی ۔’’آپ کو  شطرنج  آتی ہے بھی  ہے یا یو نہی بادشاہ ایک سے زیادہ نہیں  چل  سکتا۔‘‘

’’تب وہ بادشاہ ہوا یا  کیچوا ۔بادشاہ تو مر ضی کا ما لک ہوتا ہے ۔یہ کھیل ہی غلط ہے ۔گھوڑے  کی چھلا نگ ڈھا ئی گھر کی ۔فیل  تر چھا  سپا ٹا بھرتا ہے  چاہے جتنی  دور چلا جائے ۔رُخ ایک سرے سے دوسرے  سرے  تک  سیدھا  دوڑتا ہے اور فرزین جدھر چاہے چلے‘ کوئی  روک ٹوک نہیں ۔گویا  بادشاہ گھوڑے سے بھی  بد تر ہے ۔کیوں نہ اُسے  گدھا کہا  جائے  جو اس طرح ایک ایک  خا نے میں رینگتا پھر تا ہے۔‘‘

’’یار تم واقعی بقراط ہو ۔‘‘انور مسکر کر بولا ۔

’’چلو  ۔۔۔۔چال  چلو !‘‘صوفیہ   نے جھلا ّ کر انور سے کہا ۔

صوفیہ  سوچ سمجھ کر  نہیں  کھیلتی تھی اس لیے  اُسے  جلدی  ہی مات ہو گئی ۔

انور اُسے  چڑھا نے کے لیے  ہنسنے  لگا تھا ۔صو فیہ  اس کی اس  حرکت  کی طرف دھیا ن  دیئے  بغیر عمران  سے مخا طب ہو گئی ۔

’’آپ نے ڈیڈی  کو تنہا کیوں جا نے دیا ؟‘‘

’’میں نہتّا ہو کر  کہیں نہیں  جانا  چا ہتا ۔‘‘عمران  نے کہا ۔۔

’’کیا مطلب ؟‘‘

’’میں اُن  سے کہہ رہا تھا کہ میں  اپنی  ہو ائی بندوق ساتھ لے چلوں گا لیکن وہ اس پر   تیار نہیں  ہو ئے ۔‘‘

’’کیا  آپ واقعی بندوق سے مکھیا ں مارتے ہیں ۔‘‘ انور نے شوخ مسکرا ہٹ کے ساتھ پو چھا ۔

’’جنا ب !‘‘ عمران  سینے  پر ہا تھ رکھ  کر تھو ڑا سا جھکا ‘ پھر سیدھا  کھڑا ہو کر بولا  ۔’’مجھے  وکٹو ریہ کر اس   ملتے ملتے رہ گیا  ۔اتفاق سے ایک دن ڈاکڑ کی ناک پر بیٹھی  ہو ئی  مکھی کا نشا نہ  لیتے  وقت  ذراسی  چوک  ہو گئی  ۔قصویر میرا  نہیں  مکھی  ہی کا تھا کہ وہ  وہاں سے  اُڑ کر  آنکھ پر جا  بیٹھی  ۔بہر حال اس حادثے  کے بعد میری  ساری  پچھلی  خدمات پر سوڈا واٹر پھیر دیا گیا ۔‘‘

’’سوڈا واٹر ۔‘‘انور نے قہقہہ  لگایا ۔صوفیہ بھی ہنسنے  لگی۔

’’جی ہاں ۔اس زمانے  میں خا لص پا نی نہیں ملتا تھا ۔ورنہ میں یہ  کہتا کہ میرے  سا بقہ کا رناموں  پر پانی  پھیر  دیا  گیا ۔بہر حال  میرا  دعویٰ ہے  کہ میرا نشا نہ بہت صاف ہے ۔‘‘عمران بولا ۔

’’تو پھر دکھا یئے نا ۔‘‘انور نے کہا

’’ابھی  لیجیے ۔‘‘عمرا  ن اپنے  کمرے  سے ایر گن  نکا ل لایا  ۔پھر اُس میں  چھرّہ لگا کر بولا ۔’’جس مکھی کو کہئے۔‘‘

’’سا منے  والی دیوار پر کئی  مکھیاں نظر آرہی ہیں۔انور نے ایک طرف اشارہ کیا ۔

’’جتنے  فاصلے  سے کہئے ‘‘۔عمران بولا ۔

’’آخری سرے پر  چلے جا یئے ۔‘‘

’’بہت خوب  ! ‘‘عمران  آگے بڑھ گیا ۔فاصلہ  اٹھارہ  فٹ ضرور رہا ہو گا ۔

عمرا ن نے  نشا نہ  لے کر  ٹر یگر دبا دیا ۔۔۔۔مکھی  دیوار سے چپک کر رہ گئی ۔صوفیہ  دیکھنے  کے لئے  دوڑی ۔پھر اس نے  انور کی طرف  مڑ کر تحیر آمیز لہجے میں  کہا ۔

’’سچ مچ کما ل ہے ۔ڈیڈی کا نشا نہ بہت اچھا ہے ۔لیکن  شائد وہ بھی ‘‘

’’اُوہ  ‘کون  سی بڑی بات ہے ۔‘‘انور  شیخی  میں آگیا ۔’’میں خود لگا سکتا ہوں۔‘‘

اُس نے عمران  کے ہاتھ سے بندوق لے لی  ۔تھوڑی دیر بعد صوفیہ  بھی اس شغل  میں  شامل ہو گئی ۔دیوا روں کا پلا سڑ بر باد ہو رہا  تھا ۔اورا ُن پر  گو یا مکھیا ں مارنے  کا بھوت سوار ہوگیا  تھا ۔پھر عارف بھی  آکر شریک ہو گیا  ۔کا فی دیر تک یہ کھیل  جا ری رہا لیکن  کا میا بی  کسی کو بھی نہیں ہوئی ۔اچانک  صو فیہ بڑبڑائی ۔

’’لا حول ولا قوۃ۔۔۔۔کیا حماقت  ہے ۔ دیواریں  برباد ہو گئیں ۔‘‘

پھر وہ سب جھینپی  ہوئی ہنسی  ہنسنے لگے ۔لیکن عمران  کی حما قت آمیز سنجیدگی میں ذرّہ برابر بھی فرق نہ آیا۔

’’واقعی دیواریں بر باد  ہو گئیں ۔‘‘عارف بولا ۔’’کرنل صاحب  ہمیں  زندہ دفن  کر دیں گے۔‘‘

’’سب آپ کی بدولت  ۔‘‘انور نے  عمران کی طرف اشا رہ کر کے  کہا۔

’’میری بدولت کیوں ۔میں  نے تو صرف ایک ہی مکھی پر  نشا نہ  لگا یا تھا ۔‘‘

’’لیکن کل را ت تم  نے منشیات کی نا  جا ئز تجارت کے متعلق کیا بات کہی تھی ۔‘‘انور نے ہنستے ہوئے  پو چھا ۔

’’مجھے یا د نہیں۔‘‘عمران  نے حیرت سے کہا ۔

            ’’پھرکرنل صا حب نے ہمیں ہٹا کیوں دیا تھا ۔‘‘

            ’’ان  سے پو چھ  لیجیے  گا۔‘‘عمران نے عارف کی طرف اشارہ کیا  اور  عارف ہنسنے لگا۔

            ’’وہ بندر کیسا تھا ؟‘‘انور نے عارف سے پو چھا ۔

’’اچھا خا صہ  تھا ۔آرٹ کا ایک  بہترین  نمونہ ۔‘‘

’’گھا س  کھا  گئے   ہو شا ئد  ۔‘‘انور جھلا گیا ۔

’’ممکن  ہے  لنچ میں گھا س  ہی ملے  ۔‘‘ عمران  نے  مسکین  صورت بنا کر   کہا ۔’’ نا شتے   میں تو چنے  کے  چھلک  کھا ئے  تھے۔

تینوں بے تحا شہ  ہنسنے  لگے    ۔لیکن  صوفیہ  جلد  سنجیدہ ہو گئی  اور اُس نے  غصیلی  آواز میں   کہا۔’’ آپ ڈیڈی کا  مذاق اڑانے  کی کو شش کر رہے تھے ۔پتہ  نہیں  وہ کیوں  خا موش رہ گئے۔‘‘

’’ممکن   ہے انہیں  خیال  آگیا  ہو کہ   میرے  پاس  ہو ائ بندوق  موجود  ہے ۔۔۔۔‘‘عمرا ن  نے سنجیدگی سے کہا ۔’’اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا مذاق اُڑانے  کی کوشش  ہر گز نہیں  کررہا  تھا ۔میں  بھی  وٹامن  پر جان  چھڑکتا  ہوں۔وٹا منز  کو خطرے  میں  دیکھ کرمجھے  پوری  قوم خطرے  میں نظر آنے   لگتی ہے۔‘‘

’’کیا بات تھی  ۔‘‘انور نے صوفیہ سے پوچھا ۔

’’کچھ نہیں ۔‘‘ صوفیہ  نے بات  ٹالنی  چاہی ۔

لیکن انور  پیچھے  پڑ گیا  ۔جب  صو فیہ  نے محسوس کیا  کہ جان  چھڑانی  مشکل  ہی ہے تو اُس نے ساری  بات دُہرا دی ۔اس پر پھر قہقہہ پڑا۔

’’یار کمال  کے آدمی ہو ۔‘‘انور ہنستا ہوا بولا ۔

’’پہلی بار آپ  کے منہ سے سن رہا ہو  ں۔ورنہ میرے  ڈیڈی تو مجھے  بالکل  بدّھو سمجھتے  ہیں۔‘‘

’’تو پھر  آپ کے  ڈیڈی  ہی‘‘

’’اَررر ۔‘‘عمرا ن ہاتھ اٹھا کر بولا ۔’’ ایسا  نہ کہیے ۔وہ بہت  بڑے آدمی ہیںڈائر کڑ جنرل  آف انٹیلی  جنس  بیو ریو ‘‘۔

’’کیا !‘‘  انور حیرت  سے آنکھیں  پھاڑ کربولا۔’’ یعنی  رحمان صاحب ۔‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ عمران  نے لا پر واہی  سے کہا ۔

’’ارے  تو آپ وہی عمران  ہی جس نے لندن  میں امریکی  غنڈے مکلا رنس  کا  گروہ  توڑا تھا۔‘‘

’’پتہ نہیں آپ کیا  کہہ رہے  ہیں۔‘‘عمرا ن نے حیرت  کا اظہار  کیا ۔

’’نہیں نہیں !آپ وہی  ہیں ۔‘‘ انور  کے چہرے  پر ہوا ئیاں اڑنے  لگی تھیں۔وہ صوفیہ کی طرف مڑ  کر ندا مت  آمیز  لہجے  میں بولا ۔’’ہم  ابھی تک ایک بڑے خطر ناک  آدمی  کا مذاق اُڑاتے رہے  ہیں۔‘‘

صوفیہ  پھٹی پھٹی آ نکھوں  سے عمرا ن  کی  طرف دیکھنے  لگی  اور عمرا ن  نے ایک حما قت  آمیز قہقہہ لگا کر کہا ۔’’آپ لو گ نہ جانے کیا ہانک  رہے ہیں۔‘‘

’’نہیں  صوفی  ۔‘‘ انور بولا ۔میں ٹھیک  کہہ رہا  ہوں۔میرا ایک دوست راؔشد  آکسفورڈ میں  ان کے ساتھ تھا ۔اُس نے  مجھے مکلا رنس کا وا قعہ بتا یا  تھا ۔وہ مکلا رنس  جس  کا وہاں کی  پو لیس   بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔  عمران صاحب  سے  ٹکرا نے کے بعد اپنے   گروہ سمیت  فنا  ہو گیا۔‘‘           

’’خوب ہوائی  چھوڑی ہے کس  نے ۔‘‘عمران  نے  مسکرا  کر کہا ۔

’’مکلا رنس  کے  سر  کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔‘‘انور بولا ۔

’’اَرے توبہ توبہ ۔‘‘عمران  اپنا منہ پیٹنے لگا ۔’’ اگر میں  نے اُسے مارا ہو تو میری قبر  میں  بجڑ گھسے نہیں بگھوبھگّو  ہائیں  نہیں غلطکیا کہتے  ہیں  اس چھو ٹے  سے جا نور  کو جو قبروں  میں گھستا   ہے ۔‘‘

’’بجُّو ‘‘۔عارف بولا۔

’’خدا  جیتا ر کھے ۔بجُّو ۔بجُّو ۔‘‘

’’عمران صا حب  ! میں  معا فی چا ہتا  ہوں۔‘‘انور  نے کہا ۔

’’اَرے آپ کوکسی  نے  بہکایا  ہے ۔‘‘

’’نہیں جناب  مجھے  یقین  ہے ۔‘‘

صوفیہ  اِس دَوران  میں کچھ نہیں  بولی ۔وہ برابر  عمران  کو گھورے جا رہی  تھی ۔آخر اُس نے تھوک  نگل کر  کہا ۔’’ مجھے  کچھ  کچھ یاد  پڑتا  ہے کہ  ایک بار کیپٹن  فیاض نے آپ کا تذکرہ کیا تھا ۔‘‘

’’کیا  ہو گا ۔مجھے  وہ آدمی  سخت نا پسند ہے ۔اُس نے   پچھلے  سال مجھ سے  سا ڑھے  پانچ  رو پئے اُدھار لئے تھے ‘آج تک وا پس نہیں  کئے۔‘‘

 

5

پونے بارہ  بجے کرنل ڈکسن  ‘اُس کی لڑکی  اور مسڑ  با ر توش کرنل  کی کو  ٹھی میں دا خل  ہو ئے لیکن  کرنل ان کے ساتھ نہیں  تھا ۔

کرنل  ڈکسن ادھیڑ عمر کا  ایک دُبلا  پتلا ن آدمی  تھا  ۔آنکھیں   نیلی مگر  دھند لی  تھیں ۔مو نچھوں کا  نچلا  حصہ  تمبا کو  نوشی کی  کثرت سے  برا ؤن رنگ ہو گیا  تھا  ۔اس کی لڑکی  جوا ن  اور کافی حسین تھی ۔ہنستے وقت اس کے  گا لوں میں  خفیف  سے گڑھےپڑ جاتے    تھے ۔۔۔۔ بارتوش اچھے  تن  دتوش کا آدمی تھا ۔اگر  اُسے بارتوش کی بجا ئے  صرف  تن  دتوش  کہا جاتا  تو غیر  منا سب  نہ  ہو تا ۔اس کے چہرے پر بڑے آر ٹسٹک قسم کی  داڑھی  تھی چہرے کی رنگت  میں پھیکا پن   تھا مگر  اس کی آ نکھیں بڑی  جا ند ار تھیں۔اگر وہ اتنی  جاندار نہ ہوتیں تو چہرے کی  رنگت   کی بنا  ءپر کم ازکم پہلی نظر میں  تو اسے  ورم   جگر  کا مریض ضرور سمجھا  جا سکتا تھا ۔

’’ہیلو بے بی ۔‘‘کرنل  ڈکسن  نے صوفیہ  کا شانہ  تھپتھپاتے ہوئے  کہاا چھی  تو ہو ۔مجھے  خیال  تھاکہ   تم لوگ  اسٹیشن    ضرور آؤ گے۔‘‘

قبل اس کے  کہ صوفیہ  اس سے کچھ  کہتی  ‘ڈکسن  کی لڑکی  اس سے  لپٹ گئی۔

پھر  تعارف شروع ہوا  ۔جب  عمران کی  باری  آئی تو  صوفیہ  کچھ جھجھکی ۔

عمران  آگے بڑھ  کر خود  بولا ۔’’میں کرنل ضر غام  کا  سکر یڑی ہوں۔‘‘

پھر وہ  بڑے بے تکے پن سے ہنسنے  لگا ۔کرنل  ڈکسن  نے لا پروائی  کے انداز میں  اپنے  شانے  سکوڑے  اور دوسری  طرف  دیکھنے  لگا۔

’’ضر غی  کہاں ہے ؟‘‘ کرنل  ڈکسن نے چاروں طرف  دیکھتے ہوئے کہا ۔

’’کیا وہ  آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟‘‘ صوفیہ چونک کر بولی۔

’’میرے  ساتھ !‘‘ کرنل  ڈکسن  نے حیرت  سے کہا ۔’’نہیں تو۔‘‘

’’کیا  وہ آپ کو اسٹیشن  پرن  نہیں ملے ۔‘‘صوفیہ  کے چہرے  پر  ہو ا ئیاں اُ ڑنے  لگیں۔

’’اُوہ  !نہیںبالکل نہیں۔‘‘

صوفیہ  نے عمران  کی طرف دیکھا اوراُس نے اپنی با ئیں آنکھ دبا دی۔لیکن صوفیہ  کے اضطراب  میں کمی نہیں واقع ہوئی  ۔اس نے     بہت جلدی  اس سے  تنہائی  میں ملنے  کا موقع نکال لیا ۔

’’ڈیڈی  کہاں  گئے۔‘‘

’’فکر مت کیجیے ۔میں کرنل  کا ذمہ  دار ہوں اور  سنئے  ‘موجود  ہ حالات کا علم  مہمانوں  کو نہیں  ہو نا  چا ہیے ۔اُن  دونوں  کو بھی  منع کر دیجیے گا۔‘‘

 

6

شام ہوگئی  لیکن  کرنل ضر غام  واپس نہ آیا  ۔صوفیہ  کی سمجھ  میں  نہیں آرہا  تھا کہ  کیا کرے۔ڈکسن باربار  ضر غام  کے  متعلق  پو چھتا  تھا ۔ایک  آدھ  بار اُس نے یہ  بھی  کہا  کہ شائد اب ’’ضرغی‘‘اپنے   دوستوں  سے گھبرانے  لگا ہے۔اگر  یہ بات  تھی  تو اُس   نے صاف صاف   کیوں نہیں  لکھ دیا۔

صوفیہ اس بو کھلا ہٹ میں یہ بھی  بھول گئی  کہ عمران  نے اُسے   کچھ  ہدا یت  دی تھیں  ، جن میں  سے ایک  یہ تھی  کہ  انور  اور عارف  موجودہ حالت کے متعلق  مہما نوں  سے کوئی  گفتگو  نہ کریں  ۔صوفیہ  ‘انور  اور عارف   سے اس  کا تذکرہ  کر نا بھول گئی۔

اور پھر  جس وقت عارف  سے حماقت   سر زد ہوئی ‘وہاں  موجود نہیں  تھی۔وہ با روچی خانے میں  باور چیوں کا ہاتھ بٹا رہی تھی اور عمران  با تیں  بنا رہا تھا ۔

ڈکسن  وغیرہ  بیرونی  بر آمد میں تھے۔انور با رتوش سے را فیل  کی تصو یروں کے متعلق  گفتگو کر رہا تھا ۔عارف  ڈکسن  کی لڑکی  مارؔتھا   کو اپنے    البم  دکھا  رہا تھا  اورڈکسن  دور۔۔۔۔ کی پہا ڑ یوں کی   چو ٹیوں میں  شفق کے  رنگین  لہریئے  دیکھ رہا تھا  ۔اچانک  اُس نے مُڑ کر   عارف سے کہا  ۔’’مجھے  ضرغی سے ایسی اُمید نہیں تھی‘‘۔

عارف اس وقت موج میں  تھا ۔اُس میں نہ جا نے کیوں ان  لوگوں کے لیے  اپنا ئیت کا احساس  بڑی شدت  سے پیدا  ہو گیا تھا  ۔ہو سکتا  ہے کہ  اس کی وجہ کرنل  کی شوخ اورخوبصورت لڑکی مارتھا ہی ہو ۔

’’کرنل صاحب  !یہ  ایک  بڑا گہرا راز ہے ‘‘۔ عارف  نے البم  بند  کرتے  ہوئے ۔

’’راز ‘‘ کرنل ڈکسن بڑبڑ ا  کر  اُسے گھو رنے  لگا۔

’’جی ہاں وہ تقر یباً پندرہ  بیس دن سے  سخت پر یشان  تھے۔اِس دَوران  میں  ہم لوگ  رات بھر  جا گتے  رہے  ہیں ۔انھیں  کسی کا خوف تھا ۔وہ کہتے  تھے کہ  میں  کسی وقت  بھی  کسی حا دثے  کا شکار  ہو سکتا  ہوں  اور نہ جانے  کیوں  وہ اسے  راز ہی  رکھنا  چا ہتے  تھے‘‘۔

’’بڑی  عجیب  بات  ہے ۔تم لوگ  اس پر بھی  اتنے  اطمینان سے بیٹھے  ہو ۔‘‘ کرنل  اُچھل  کر  کھڑا  ہو تا  ہو ا بولا ۔بارتوش اور انور  اُسے  گھو رنے  لگے ۔انور  نے شائد  اُن کی گفتگو  سن لی  تھی اِسی لیے  وہ عارف کو کھا  جانے  والی نظروں سے گھو ررہا تھا ۔حا لانکہ  اُسے بھی اس بات کو مہمانوں  سے  چھپانے کی تا کید  نہیں  کی گئی تھی لیکن  اُسے کم ازکم  اس کا احساس تھا کہ خود  کرنل  ضرغام  ہی اِسے  راز رکھنا  چا ہتا  تھا ۔

’’صوفیہ کہاں  ہے ؟‘‘کرنل  ڈکسن  نے عارف سے پو چھا ۔

’’شائد کچن  میں ‘‘۔

کرنل ڈکسن  نے کچن               کی راہ لی ۔ بقیہ لوگ  وہیں  بیٹھے  رہے ۔

صوفیہ فرا ئنگ پین  میں  کچھ تل رہی تھی اور عمران  اُس کے قریب خا موش  کھڑا تھا ۔

’’صوفی  !‘‘ کرنل  ڈکسن نے کہا ۔‘‘ یہ کیا معا  ملہ ہے ؟‘‘

’’اُوہ آپ !‘‘صوفیہ  چونک پڑی  ۔’’ یہاں  تو بہت گرمی ہے ۔میں ابھی  آتی ہوں۔‘‘

’’پروانہ کرو ۔یہ بتاؤ کہ ضر غی  کا کیا معا ملہ ہے ۔‘‘

عمران  نے اُ لّو ؤں  کی  طرح  اپنے دیدے  پھر  ائے ۔

’’مجھے خود تشویش ہے  کہ ڈیڈی  کہاں چلے گئے ۔‘‘ صو فیہ  نے کہا

’’جھو ٹ  مت بولو ۔ابھی مجھے عارف نے  بتا یا  ہے ۔‘‘

’’اُوہ۔۔۔۔ وہ ۔‘‘ صوفیہ  تھوک  نگل کر رہ گئی  پھر اُس نے  عمران  کی طرف  دیکھا  ۔

’’بات  یہ ہے کہ  کرنل صا حب  !وہ  ساری  باتیں  مضحکہ خیز  ہیں ۔‘‘عمران نے کہا ۔

’’ایسی صورت  میں  جب  ضر غام  اس طرح غائب  ہو گیا ہے ۔‘‘کرنل نے سوال کیا ۔

’’وہ اکثر یہی کر بیٹھے ہیں ۔کئی کئی دن  گھر سے غائب رہتے ہیں ۔کوئی خاص بات نہیں ۔‘‘عمران  بولا۔

’’میں مطمئن  نہیں ہوا ۔‘‘

’’آہ کنفیوشس نے بھی  ایک بار  یہی  کہا تھا ۔‘‘

کرنل  نے اُسے  غصیلی نظروں سے دیکھا ۔اور صوفیہ سے بولا ۔’’جلدی آنا۔میں بر آمد ے میں  تمہا را انتظار  کروں گا ۔‘‘

ڈکسن  چلا گیا ۔

’’بڑی مصیبت  ہے ۔‘‘صوفیہ  بڑبڑا ئی  ۔’’میں کیا کروں ۔‘‘

’’یہ مصیبت  تم نے  خود ہی مول لی ہے ۔عارف کو منع کیوں  نہیں  کیا تھا ۔‘‘عمران بولا۔

’’اُنھیں  اُ لجھنوں میں بھو ل گئی  تھی۔‘‘

’’میں  نے تمہیں اطمینان  دلا یا تھا  ۔پھر کیسی  اُ لجھن ۔یہاں  تک  بتا دیا  کہ  کرنل  کو میں نے ہی ایک محفوظ مقام  پر بھجو ایا ہے۔‘‘

’’لیکن  یہ اُلجھن کیا کم تھی  کہ مہمانوں  کو کیا  بتا وں گی ۔‘‘

’’کیا  مہمان اس اطلا ع کے بغیر  مر جاتے ۔تمہا رے  دونوں  کزن مجھے سخت نا پسند ہیں۔سمجھیں ‘‘۔

’’اب میں کیا  کروں ۔عارف  اُ لّو ہے ۔‘‘

’’خیر ۔۔۔۔‘‘عمران  کچھ  سو چنے لگا ۔پھر   اس نے کہا ۔’’جلدی کرو ۔میں نہیں  چا ہتا کہ اب  میرے  متعلق  مہمانوں  سے کچھ کہا جا ئے ۔‘‘

وہ دونوں بر آمد ے میں آئے ۔یہاں   انور اُردو میں عارف  کی  خاصی  مرمت  کر  چکا تھا  اور اب  وہ خاموش بیٹھا  تھا ۔

’’مجھے  پورے  وا قعات بتاؤ۔‘‘ کرنل  صوفیہ  سے کہا ۔

’’پورے وا قعات  کا علم کرنل کے علاوہ اور کسی کو نہیں  ۔‘‘عمران بولا۔

’’کس بات کا خوف تھا  اُسے ۔‘‘ڈکسن  نے پو چھا  ۔

’’ وہ لکڑی کے ایک بندر سے  بری طرح خا ئف تھے۔‘‘عمران بولا۔

’’کیا  بکواس ہے ۔‘‘ ڈکسن   نے کہا ۔

’’د یکھئے  ! میں بتا تی ہوں ۔‘‘صوفیہ  نے کہا ۔’’مجھے حا لات  کا زیادہ علم نہیں ۔ڈیڈی  کو ایک  دن  ڈاک سے ایک پارسل ملا جسے کسی نا   معلوم آدمی  نے بھیجا  تھا ۔پارسل  سے لکڑی  کاایک چھو ٹا  سا بندر  بر آمد  ہوا اور اُسی وقت  سے  ڈیڈی پر یشان  نظر آنے  لگے ۔اُس رات انھوں نے  ٹہل کر صبح  کی  اور وہ پوری  طرح مسلح تھے۔دوسرے  دن  انھوں نے آٹھ  پہا ڑی  ملا زم رکھے جورات بھر  را ئفلیں لیے  عمارت  کے  گرد پہرہ  دیا کرتے  تھے ۔ڈیڈی نے ہمیں صرف اتنا  ہی بتا یا کہ وہ   کسی قسم کا خطرہ محسوس کر رہےہیں۔‘‘

’’اوراُس بندر کا کیا مطلب تھا ۔‘‘ بارتوش  نے پو چھا  جواب  تک خا موشی سے اُن کی  گفتگو سن  رہا تھا ۔

’’ڈیڈی  نے اس  کے متعلق  ہمیں کچھ نہیں بتایا ۔اگر ہم زیادہ اِصرار     کرتے تو و ہ خفا ہو جا یا کرتےتھے۔‘‘

’’لیکن تم نے  ہم سےیہ  بات کیوں چھپانی چاہی تھی۔‘‘ ڈکسن   نے  پو چھا۔

’’ڈیڈی کا حکم ۔انھوں نے  کہا تھا کہ اس بات کے پھیلنے پر خطرہ  اور زیادہ  بڑ ھ جائے گا ۔‘‘

’’عجیب بات ہے ۔‘‘ڈکسن  کچھ  سو چتا ہوا بڑبڑایا  ۔’’ کیا میں اِن حالات میں اِس چھت کے نیچے  چین سے رہ سکوں گا۔‘‘

’’میرا خیال ہے  کہ خطرہ  صرف  کرنل کے لیے تھا ۔‘‘عمران بولا۔

’’تم احمق ہو ۔‘‘ڈکسن  جھنجھلا  گیا ۔۔۔۔ ’’میں خطرے کی بات نہیں کررہا ضر غام  کے لیے  فکر مند ہوں۔‘‘

’’کنفیو شس نے  کہا  ہے ‘‘

’’جب  تک میں  یہاں  مقیم  ہوں تم    کنفیو شس کا نام نہ  لینا ۔۔۔۔سمجھے؟کرنل بگڑ گیا۔

’’اچھا ۔‘‘عمران نے کسی  سعا دت مند بچے کی طرح سر ہلا کر کہا اور جیب سے چیو نگم کا  پیکٹ نکال کر اس کا کا غذ  پھا ڑنے لگامارتھا  ہنس پڑی۔

 

7

 پو لیس ہیڈ کو ا ر ٹر  کے ایک کمرے میں انسپکڑ خالد میز پر  بیٹھا  اپنی ڈاک کھول  رہا تھا ۔یہ ایک تنو مند اور جواں سال آدمی تھا ۔پہلے فوج میں تھا اور جنگ  ختم ہو نے کے بعد محکمہ سرا غرسا نی میں لے  لیا گیا تھا ۔آدمی ذہین تھا  اِس لیے  اُسے اس محکمے میں  دشوار ی نہیں  پیش آئی تھی۔

کار گرد کی بنا ء پر وہ   ہر دلعزیز  بھی تھا  ۔اس کے  خدو خال تیھکے  ضرور تھے لیکن  ایسا معلوم  ہو تا تھا  جیسے  اُس کے چہرے  کا دل سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔چہر ے کی بنا وٹ سخت دل آدمیوں کی سی تھی مگر  عادات  وا طوار سے سخت  گیری  نہیں ظا ہر  ہو تے تھی ۔

اپنی ڈاک  دیکھنے کے  بعد  اس نے  کرسی  کی  پشت  سے ٹیک لگا ئی  ہی  تھی  کہ میز پر رکھے  ہوئے  فون  کا  بز ر بول  اٹھا ۔

’’یس۔‘‘ اُس نے ریسیورا اٹھا کر  ما ؤتھ  پیس  میں  کہا ۔’’اوہ اچھا ۔میں ابھی  حا ضر ہوا ۔‘‘

وہ اپنے  کمرے سے نکل کر محکمے کے ڈی ۔ایس  کے کمرے  کی طرف روا نہ ہو گیا ۔اُس نے  دروازے  کی چق  ہٹائی۔

’’آجاؤ ۔‘‘ ڈی ۔ایس نے کہا ۔پھر اُس نے  کرسی کی طرف   اشارہ کیا ۔

انسپکڑ خالد بیٹھ گیا۔

’’میں  نے ایک  پرا ئیو ٹ    کام  کے لیے  تمہیں  بلا یا ہے ۔‘‘

’’فر ما یئے ۔‘‘

’’فیڈ رل  ڈ یپا رٹمنٹ  کے کیپٹن فیا ض کی  ایک نجی  خط میرے پاس  آیا ہے ۔‘‘

’’کیپٹن فیاض ‘‘۔خالد کچھ سو چتا ہوا  بولا ۔’’ جی ہاں  ! شائد  میں  انھیں  جا نتا  ہوں ۔‘‘

’’اُن کا ا یک آدمی یہاں   آیا  ہوا ہے اور  وہ چا ہتے ہیں کہ  اسے  جس قسم کی  مدد کی  ضرورت ہو دی جائے۔اس کا نام  علی عمران  ہے  اور وہ  کرنل  ضر غام  کے یہاں  مقیم  ہے ۔‘‘

’’کس سلسلے  میں آیا  ہے ۔‘‘

’’یہ بھی  اُسی آدمی  سے معلوم ہو سکے  گا اور  یہ رہا  اُس کا  فو ٹو۔‘‘ ڈی ۔ایس نے میز  کی دراز سے ایک تصویر نکال کر خالد کی طرف  بڑ ھائی ۔

’’بہت  اچھا ‘‘۔ خالد  تصویر پر نظر  جما ئے ہوئے  بولا ۔’’ میں خیال  رکھوں گا ۔‘‘

’’اچھا دو سری بات  !‘‘ڈی ۔ایس نے اپنے پا ئپ میں تمباکو  بھر تے ہوئے کہا ۔۔۔۔’’شفٹن کے کیس میں کیا  ہو رہا ہے ۔‘‘

’’یہ ایک مستقل  درد سر ہے  ‘‘۔ خالد نے ایک طویل  سانس لے کر کہا ۔’’ میرا خیال  ہے کہ  اس  میں جلدی کا میا بی  نہیں  ہوگی ۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ہم یہ   بھی  جانتے  کہ شفٹن  کوئی  ایک فرد ہے یا  جماعت  اور اِس کی  شفٹن کی طرف  سے جتنے لوگوں کو بھی دھمکی  کے  خطوط موصول ہو ئے ہیں وہ  ابھی  تک  تو زندہ  ہیں اور نہ  اُن میں  سے ابھی تک کسی نے یہ اطلا ع دی کہ ان  سے کوئی  رقم  وصول کرلی گئی ہے  ۔۔۔۔  میں سوچتا  ہوں ‘ ممکن  ہے کوئی شریر طبیعت  آدمی خواہ مخواہ  سنسنی پھیلا نے  کے لیے  ایسا کر رہا ہو ۔قریب  قریب شہر  کے  ہر بڑے آدمی کو  اس قسم کے خطوط ملے ہیں  اور ان میں کسی  بہت  بڑی  رقم   کا مطا لبہ  کیا گیا  ہے ۔‘‘

’’کوئی  ایسا   بھی ہے جس نے اس  قسم کی  شکایت  نہ کی ہو  ۔۔۔۔ ‘‘ڈی ۔ایس  نے مسکرا کر پو چھا۔

’’میرا خیال  ہےکہ شاید ہی کوئی  بچا  ہو۔‘‘خالد  نے کہا ۔

’’ذہن  پر زور دو۔‘‘

’’ہو سکتا ہے کہ  کوئی   رہ ہی گیا  ہو۔‘‘

’’کرنل ضرغام ۔‘‘ڈی ۔ایس نے مسکرا کر کہا ۔’’اس کی طرف  سے ابھی تک  اس قسم کی کوئی اطلاع  نہیں ملی  حا لانکہ  وہ  بہت مالدار آدمی ہے۔‘‘

’’اُ وہ۔۔۔۔!‘‘

’’ اور اب سمجھنے کی کوشش  کرو۔‘‘ ڈی ۔ایس  نے کہا ۔’’ کرنل  ضر غام  اس قسم کی کوئی اطلاع  نہیں  دیتا  اور فیڈ رل  ڈیپا  ر ٹمنٹ کا سپر نٹنڈنٹ ایک ایسے آدمی کے لیے  ہم  سے  امداد کا  طالب  ہے جو  کرنل ضر غام  ہی  کے  یہاں مقیم   ہے۔ کیا سمجھے !"

’’تب  تو ضرور کوئی خاص بات ہے ۔‘‘

’’ بہت ہی خاص  ۔ ڈی۔‘‘ ایس نے منہ سے پائپ نکال کر کہا۔ " میرا خیال ہے کہ تم خود ہی اُس آدمی سے کیا نام ہے عمران سے ملو۔"

’’میں ضرور ملوں گا۔ مگر معلوم نہیں وہ کون اور کس قسم کا آدمی ہے۔"

’’بہر حال۔۔۔۔ یہ تو ملنے ہی پر معلوم ہو سکے گا۔‘‘ ڈی۔ ایس نے کہا اور اپنے میز پر رکھے ہوئے کاغذات کی طرف متوجہ ہو گیا۔

 

8

رات کے کھانے پر میز کی فضا بڑی سوگوارسی رہی ۔ انھوں نے بڑی خاموشی سے کھانا ختم کیا اور پھر کافی پینے کے   لیے بیرونی برآمدے میں جابیٹھے۔

’صوفی ۔ ‘‘ کرنل ڈکسن بولا۔ " میں کہتا ہوں کہ پولیس کو اس کی اطلاع ضرور دینی چاہیے۔“

’’میری بھی یہی رائے ہے۔ ’’با رتوش نے کہا۔ وہ بہت کم بولتا تھا۔

’’میں کیا کروں ۔ ‘‘صوفیہ نے ا’کتائے ہوئے لہجے  میں کہا۔ ” ڈیڈی اس معاملے کو عام نہیں کرنا چاہتے۔ پولیس کے تو وہ سرے ہی سے خلاف ہیں۔ انھوں نے ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ اگر میں کبھی اچانک غائب ہو جاؤں تو تم لوگ فکرمند نہ ہونا۔ میں خطرہ دور ہوتے ہی واپس آجاؤں گا۔ لیکن پولیس کو اس کی اطلاع ہر گز نہ ہو۔"

عمران نے صوفیہ کی طرف تعریفی نظروں سے دیکھا۔

دفعتاً انھوں نے پھاٹک پر قدموں کی آواز سنی۔ آنے والا ادھر ہی آرہا تھا۔ وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑنے لگے۔ باغ کے آخری سرے پر کافی اندھیرا تھا۔ برآمدے میں لگے ہوئے بلبوں کی روشنی وہاں تک نہیں پہنچتی تھی۔ پھر آنے والے کی ٹانگیں دکھائی دینے لگیں کیونکہ اس نے راستہ دیکھنے کے لیے ایک چھوٹی سی ٹارچ روشن کر رکھی تھی ۔ آنے والا روشنی میں آگیا۔ وہ اُن سب کے لیے اجنبی ہی تھا۔ ایک تنو مند آدمی جس نے کتھی سرج کا سوٹ پہن رکھا تھا۔

’’معاف کیجیے گا۔‘‘ اُس نے برآمدے کے قریب آکر کہا۔ " شاید میں مخل ہوا؟ کیا کرنل صاحب تشریف رکھتے ہیں۔‘‘

’’جی نہیں ۔‘‘ صوفیہ جلدی سے بولی۔ " وہ باہر گئے ہیں۔"

" کب تک تشریف لائیں گے۔"

کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہو سکتا ہے کل آجا ئیں۔ ہو سکتا ہے ایک ہفتے کے بعد۔ "

’’اُوہیہ تو  برا ہوا ۔‘‘ اجنبی نے کہا اور اچٹتی  نظر حاضرین  پر ڈالی۔ عمران کو دیکھ کر ایک لحظہ اُس پر نظر جمائے رہا پھر بولا ۔ " کہاں گئے ہیں ۔"

’’افسوس کہ و ہ اپنا پروگرام کسی کو نہیں بتاتے ۔ ‘‘صوفیہ نے کہا ۔ " آپ اپنا کارڈ چھوڑ جائیے۔ آتے ہی ان سے تذکرہ کر دیا جائے گا۔"

’’بہت جلدی کا کام تھا۔‘‘ اجنبی  نے افسوس ظاہر کیا۔

’’آپ وہ  کام مجھ سے کہہ  سکتے ہیں۔ ’’عمران بولا ۔ " میں کرنل کا پرائیوٹ سکر یڑی ہوں ۔"

’’اُوہ!‘‘ اجنبی نے حیرت کا اظہار کیا پھر سنبھل کر بولا ۔ "جب تو ٹھیک ہے۔ کیا آپ الگ تھوڑی سی تکلیف کریں گے ۔‘‘

’’بس اتناہی سا کام تھا۔ ‘‘ عمران نے احمقوں کی طرح کہا ۔’’  لیکن میں الگ تھوڑی ہی تکلیف کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔وہ  تکلیف کس قسم کی ہوگی ۔ گلا تو نہ گھٹوانا ہوگا ۔"

’’اُ و ہ ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے ذرا الگ چلیں گے۔"

’’میں الگ ہی چلتا ہوں ۔ آج تک کسی سے ٹانگ باندھ کر نہیں چلا ۔"

" اَرے صاحب ! کہنے کا مطلب یہ کہ ذرا میرے ساتھ آئیے۔"

’’اُوہ  تو پہلے کیوں نہیں کہا۔ " عمران اٹھتا ہوا بولا ۔’’ چلئے چلئے "

وہ دونوں اُٹھ کر باغ کے پھاٹک پر آگئے۔

 " آپ علی عمران ہیں۔‘‘ اجنبی نے پوچھا۔

’’میں کرنل کا سکریٹری ہوں۔"

’’وہ تو ٹھیک ہے۔ دیکھئے میرا تعلق محکمہ سراغرسانی سے ہے اور خالدؔ نام ۔ہمیں فیڈرل ڈیپارٹمنٹ کے کیپٹن فیاض کی طرف سے ہدایت ملی ہے کہ ہم آپ کی ہر طرح مدد کریں ۔ ‘‘

’’اُوہ فیاض ! ہاہا۔ بڑا گریٹ آدمی ہے اور یاروں کا یار ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ اتنی سی بات کے لیے اپنےمحکمے کے آدمیوں کو خط لکھ دے گا۔ واہ بھئی۔"

’’ بات کیا ہے ۔ ‘‘انسپکٹر خالد نے پوچھا۔

’’بات یہ ہے مسٹر خالد کہ مجھے بیٹر  کھانے اور بیٹر لڑانے دونوں کا شوق ہے اور آپ کے یہاں بیٹروں کے

شکار کی پا بندی ہے۔فیاض نے  کہا تھا  کہ میں  تمہیں  اجا  زت  دلو ا دوں گا ۔‘‘۔

خالد چند لمحے حیرت سے عمران کو دیکھتا رہا پھر بولا  ۔ " آپ نے یہ کیوں کہا تھا کہ آپ کرنل کے سکریٹری ہیں۔"

’’پھر کیا کہتا ۔۔۔۔ ! اُوہ‘ شائد آپ کو اس کے کہنے پر دوسری حیثیت سے اعتراض ہے۔ بالکل ٹھیک مسٹر خالد ۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں یہاں آیا تھا مہمان ہی کی حیثیت سے لیکن بعد کونوکری مل گئی۔ ۔۔۔کرنل نے مجھے پسند کیا ہے۔ میں اُن کے لیے دن بھر ایر گن سے مکھیاں مارتا رہتا ہوں۔"

’’ آپ مجھے ٹال رہے ہیں۔‘‘ خالد ہنس کر بولا۔ پھر اس نے سنجیدگی سے کہا ۔  ’’کچھ بھی ہو' آپ بہت گہرے آدمی  معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا مجھے یقین ہے کہ آپ کیپٹن فیاض کے خاص آدمیوں میں سے ہیں ۔ اچھا چلئے ! امیں آپ سے صرف  ایک سوال کروں گا۔"

’’ضرور کیجے۔"

’’کیا کرنل نے بر اہ ر است فیڈرل ڈیپارٹمنٹ سے مددطلب کی تھی ۔"

عمران چونک کر اُسے گھورنے لگا۔ ’’مدد! میں نہیں سمجھا۔ اُس نے کہا۔

’’دیکھئے جناب۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’ہوسکتا ہے کہ آ پ اس محکمے  میں بہت دنوں سے ہوں  لیکن میں ا بھی با لکل اناڑی  ہوں۔ یقیناً آپ مجھ سے سینئری  ہی ہوں گے۔ اس لیے  میں آپ  کے مقابلے کا اہل  نہیں  ہو سکتا ۔ لہٰذا اب  کھل کر  با ت کیجیے تو   شکر  گزار ہوں گا ۔‘‘

’’اچھا ‘  میں کھل کر بات کروں گا لیکن پہلے مجھے بات کی نوعیت سمجھنے دیجیے ۔ آپ کے ذہن میں کرنل کےمتعلق  کیا ہے۔"

’’کچھ نہیں! لیکن ایک بات ! ‘‘خالد کچھ سوچتا ہوا بولا۔’’ ٹھہر یئے ! میں بتاتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ آپ سونا گری میں نو و ارد ہیں۔ ہم لوگ پچھلے ایک ماہ سے ایک پر اسرار آدمی یا گروہ شفٹن نامی کی تلاش میں ہیں ، جس نے یہاں کے دولت  مند  لوگوں کو دھمکی کے خطوط لکھے ہیں۔ اُن سے بڑی بڑی رقموں کا مطالبہ کیا ہے۔ دھمکی کے مطابق عدم ادائیگی کی صورت میں اُنھیں قتل کر دیا جائے گا۔۔۔۔ ہاں تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے اس کی رپورٹ کی ہےمگر ہمیں کرنل ضر غام کی طرف سے اس قسم کی کوئی شکایت نہیں مو صول ہوئی۔“

’’تو آپ زبردستی شکایت موصول کرانا چاہتے ہیں ۔‘‘ عمران ہنس پڑا۔

’’اُو ہ ۔۔۔۔دیکھئے۔ آپ سمجھے نہیں۔ بات یہ ہے کہ آخر کرنل کو کیوں چھوڑا گیا اور اگر اسی طرح کی کوئی دھمکی اسے بھی ملی ہے تو اس نے اس کی رپورٹ کیوں نہیں کی ۔“

’’ واقعی آپ بہت گہرے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘ عمران نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ " اچھا چلئے !فرض کیجیے کہ کرنل کو بھی دھمکی کا خط ملا۔ تو کیا یہ ضروری ہے کہ وہ آپ کے محکمے کو اِس کی اطلاع دے۔ ممکن ہے وہ اُسے مذاق سمجھا ہو اور مذاق نہ بھی سمجھا ہوتو کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں اپنے قوت بازو کے علاوہ اور کسی پر بھر و سہ  نہیں ہوتا۔“

’’ میں صرف اتنا معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کرنل کو بھی اس قسم کا کوئی خط ملا ہے یا نہیں ۔‘‘

’’  میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ ‘‘ عمران بولا ۔ " مجھے اس کا علم ہی نہیں ۔"

’’اُوہ ۔۔۔۔آپ کچھ نہ  بتا ئیں  گے خیر اس تکلیف کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے کرنل کی واپسی بی کا منتظر رہناپڑے گا۔‘‘

’’ویسے ہم پھر بھی ملتے رہیں گے ۔ ‘‘ عمران نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’ اُو ہ ضرور ضرور۔ " خالد نے کہا اور مصافحہ کر کے رخصت ہو گیا۔

عمران پھر برآمدے میں لوٹ آیا۔ یہاں سب لوگ بے چینی سے اس کے منتظر تھے ۔

’’کون تھا ؟ " صوفیہ نے پوچھا۔

’’محکمہ سراغرسانی کا انسپکٹر خالد۔ "

’’کیا بات تھی ۔‘‘ صوفیہ نے مضطربانہ لہجے میں پوچھا۔

 اس پر عمران نے پوری بات دُہر ادی۔ وہ سب حیرت سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ اُس نے صوفیہ سے پوچھا۔’’کیا کرنل کو شفٹن کی طرف سے بھی کوئی خط ملا ہے۔"

’’نہیں ۔‘‘

’’یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ آخر انھوں نے اپنے عزیز از جان سکریٹری سے اس کا تذکرہ کیوں نہیں کیا ۔‘‘

’’ تم نے دوسرے معاملے کا تذکرہ نہیں کیا ۔ ‘‘  کرنل ڈکسن نے پوچھا۔

’’ہر گز نہیں ۔ بھلا کس طرح کر سکتا تھا۔"

’’تم واقعی کریک معلوم ہوتے ہو ۔ “

 "جی ہاں۔۔۔۔  کنفیوشس ۔۔۔۔ اَرے نہیں۔ میرا اپنا قول ہے کہ اچھا ملازم وہی ہے جو مالک کے حکم سے نہ ایک انچ اِدھر نہ ایک انچ اُدھر۔  

’’جہنم میں جاؤ ۔  ‘‘کرنل غر ا کر بولا اور وہاں سے اُٹھ گیا۔

 

9

 

انسپکٹر خالد سونا گری کے جیفریز ہوٹل کے رقص گاہ میں کھڑا ناچتے ہوئے جوڑوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے سکشن کا ڈی۔ ایس بھی تھا۔

 دیکھئے! وہ  رہا۔ ‘‘  خالد نے عمران کی طرف اشارہ کر کے کہا جو ڈکسن کی لڑکی مارتھا کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ آج صوفیہ اپنے مہمانوں سمیت یہاں آئی تھی لیکن اس نے رقص میں حصہ نہیں لیا تھا۔

’’ اچھا۔‘‘ ڈی۔ ایس نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’’ یہ تو ابھی لونڈ ا ہی معلوم ہوتا ہے۔ خیر‘ میں نے کیپٹن فیاض سے اس کی حیثیت کے متعلق پوچھا ہے ۔ اُوہ‘ وہ اُدھر ضرغام کی لڑکی صوفیہ ۔ اُس کےسا تھ داڑھی والاکون ہے ۔“

’’ کوئی مہمان ہے۔ بارتوش  ۔۔۔۔زیکو سلوا کیا کا باشدہ ۔ اور وہ کرنل ڈکسن ہے۔ اس کی لڑکی مار تھا عمران کے ساتھ ناچ رہی ہے۔‘‘

’’اِس پر گہری نظر رکھو ‘‘ ۔ ڈی۔ ایس نے کہا۔ "اچھا اب میں جاؤں گا۔“

ڈی۔ ایس چلا گیا۔

عمران بڑی موج میں تھا۔ مار تھا د وہی تین دنوں میں اُس سے کافی بے تکلف ہوگئی تھی۔وہ تھی  ہی کچھ اس قسم کی لڑکی۔ عارف اور انور  سے بھی وہ کچھ اس طرح گھل مل گئی تھی جیسے پرانی جان پہچان ہو۔ یکا یک وہ عارف کی کسی بات پر ہنسنے  لگی ۔  ویٹراُن کے لیے کافی کی ٹرے لارہا تھا۔ اس میں ایک گلاس آرنج اسکو ئیش کا بھی تھا۔ یہ صوفیہ نے اپنے لئے  منگوایا تھا۔ ویڑابھی دور ہی تھا کہ اُس کے قریب سے گزرتا ہوا ایک آدمی اس سے ٹکرا گیا۔ ویٹر لڑ کھڑا یا ضرور مگر سنبھل گیا اور اس نے  ٹرے  بھی سنبھال لی۔

عمران سا  منے ہی دیکھ رہاتھا۔ اس کے ہونٹ ذرا ساکھلے  اور پھر  برا بر ہو گئے۔وہ  اس آدمی  کو  دیکھ ر ہاتھا  جو ویٹر سے ٹکرانے کے بعد اس سے معافی مانگ کر آگے بڑھ گیا تھا۔

 جیسے ہی و یٹر نے ٹر ے میز پر رکھی ،عمر ان اس طرح دوسری طرف مڑا کہ اس کا ہاتھ آرینج اسکو ئیش کے گلاس سے لگا اور گلاس اُلٹ گیا۔

’’اُ وہو  ۔  کیا مصیبت ہے۔ ’’عمران بوکھلا کر بولا اور گلاس سیدھا کرنے لگا۔

’’ تم شائد کبھی شریف آدمیوں کے ساتھ نہیں رہے ۔‘‘ کرنل ڈکسن جھنجھلا گیا لیکن بارتوش اُسے عجیب نظروں سے گھور رہا تھا۔

’’میں ا  بھی دوسر الاتا ہوں ۔‘‘ عمران نے صوفیہ کی طرف دیکھ کرکہا اور گلاس اُ ٹھاکر کھڑا ہوگیا  ۔ صوفیہ کچھ  نہ  بولی ۔اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نظر آرہے تھے۔

 عمران نے کاؤنٹر پر پانچ کر دوسرا گلاس طلب کیا۔ اتنی دیر میں ویٹر میز صاف کر چکا تھا۔۔ ۔۔عمران گلاس لےکر واپس آگیا۔

 صوفیہ کی شلوار اور مارتھا کے اسکرٹ پر آرینج  اسکوئیش کے دھبّے پڑ گئے تھے اس لیے وہ دونوں بڑی شدت سے اور بور نظر آرہی تھیں ۔ ایسی صورت میں وہاں زیادہ دیر تک ٹھہر نا قریب قریب ناممکن تھا۔ لیکن اب سوال یہ تھا کہ وہ اُٹھیں کس طرح۔ظاہر ہے کہ اسکرٹ اور شلوار کے دھبّے کافی بڑے تھے اور دور سے صاف نظر آتے تھے۔

’’ تم جیسے بد حواس آدمیوں کا انجام میں نے ہمیشہ برادیکھا۔‘‘ کرنل عمران سے کہہ رہا تھا۔

’’ہاں ۔‘‘ عمران سر ہلا کر بولا " مجھے اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔ ایک بار میں نے سنکھیا کے دھوکے میں لیمن ڈراپ کھا لیا تھا۔"

مار تھا جھلاہٹ کے باوجود مسکر اپڑی۔

’’پھر کیا ہوا تھا؟‘‘  عارف نے پوچھا۔

’’بچہ ہوا تھا!... اور مجھے انکل کہتا تھا۔  ‘‘ عمران نے اُردو میں کہا۔ ” تم بہت  چہکتے ہو لیکن  مارتھا تم پر ہرگز  عاشق  نہیں ہو سکتی ۔"

تھوڑی دیر بعد وہ سب واپسی کے لیے اُٹھے ۔

صوفیہ کی شلوار کا دھبّہ تو لمبے  فراک کے نیچے چھپ گیا تھالیکن مارتھا کے سفید اسکرٹ  کا دھبہّ  بڑا بد نما  معلوم  ہو رہا تھا ۔

عمران کی وجہ سے   جو بے لطفی ہو گئی تھی اس کا احساس ہر ایک کو تھالیکن صلواتیں بنانے کے علاوہ اور اس کا کوئی کرہی کیا  سکتا تھا۔

اسٹیشن ویگن کرنل ضر نام کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوگئی ۔ رات کافی خوشگوارتھی اور مارتھا انور کے قریب ہی اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس لیے انور نے گاڑی کی رفتار ہلکی ہی رکھی تھی۔

اچانک ایک سنسان  سڑک پر انھیں   تین باوردی  پولیس والے نظر آئے جو ہاتھ  اٹھائے گاڑی کور کوانے کا اشارہ  کر رہے تھے۔

انور نے رفتار کم کردی۔ اسٹیشن ویگن اُن کے قریب پہنچ کر رُک گئی ۔ ان میں ایک سب انسپکڑ تھا اور دو کانسٹبل۔

 سب انسپکٹر آگے بڑھ کر اُن کے قریب پہنچتا ہوا بولا ۔’’ اندر کی بتّی جلاؤ "

’’کیوں ؟‘‘عمران نے  پوچھا ۔

’’ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس گاڑی میں ایک بے حوش لڑکی ہے۔‘‘

’’ہاہا۔ عمران نے قہقہ لگایا ۔ " بے شک ۔ بے شک ہے ۔"

 انور نے اندر کا بلب روشن کر دیا اور سب انسپکٹر چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ایک ایک کی طرف دیکھنے لگا۔ عمران بڑی دلچسپی  سے اُس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔

 " کہاں ہے ؟‘‘ سب انسپکٹر گر جا۔

’’کیا میں بے  ہوش نہیں ہوں ۔‘‘عمران  ناک پر  انگلی رکھ کر لچکتا ہوا بولا ۔’’ میں بے ہوش  ہوں ۔تبھی  تو مردانہ لباس پہنتی  ہوں اَے  ہٹو بھی۔‘‘

صوفیہ، انور اور عارف بے تحاشہ بننے لگے۔

" کیا بے ہودگی ہے۔ سب انسپکٹر جھلا گیا۔

لیکن کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس قسم کی اطلاع کہاں سے آئی ہے ۔ عمران نے پوچھا۔

 کچھ نہیں ! جاؤ۔ وہ دوسری گاڑی میں ہوگی ۔ سب انسپکٹر گاڑی کے پاس سے ہٹ گیا۔ گاڑی چل پڑی۔

ابھی  زیا دہ رات نہیں  گزری تھی  اس لیے  گھر  پہنچ کروہ سب کے سب کسی نہ کسی تفریح میں  مشغول  ہوگئے ۔انور اور بارتوش بلیر ڈکھیل رہے تھے ۔کرنل اور عارف  برج کھیلنے کے لیے صوفیہ اور مارتھا  کا انتظار  کر ر ہے تھے،جو لباس   تبدیل  کرنے   کرنے کےلیے  اپنے کمروںمیں  چلی  گئی تھیں۔

تھوڑی دیربعد عمران نے ما رتھا کے دروازے پر  دستک  دی۔

’’کون ہے ؟‘‘ اندر سے آوازآ  ئی ۔

’’عمران  د ی گریٹ فول‘‘۔

’’کیا بات ہے ! ‘‘ مارتھانے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔ وہ اپنا اسکرٹ تبدیل کر چکی تھی۔

’’مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہارا اسکرٹ خراب ہو گیا ۔"

" کوئی بات نہیں ۔"

’’اوہ نہیں! لاؤ اسکرٹ مجھے دو۔ ورنہ وہ دھبّہ مستقل ہو جائے گا۔"

" اَرے نہیں‘ تم اس کی فکر نہ کرو ۔"

’’لاؤ۔۔۔۔تو ورنہ مجھے اور زیادہ افسوس ہوگا ۔ ‘‘عمران نے کہا۔

تھوڑی ردّو  قدح کے بعد مار تھا نے اپنا اِسکرٹ عمران کے حوالے کر دیا۔ اب وہ صوفیہ کے کمرے میں پہنچا۔ اس کے ایک ہاتھ میں مارتھا کا اِسکرٹ تھا اور دوسرے ہاتھ میں دودھ کی بوتل ۔

’’یہ کیا؟ ‘‘ صوفیہ نے حیرت سے پوچھا۔

’’دھبّہ چھڑانے جارہا ہوں۔ لاؤ تم بھی شلوار دے دو۔"

" کیا بے  تکی بات ہے۔ عمران صاحب سچ مچ آپ بعض اوقات بہت بور کرتے ہیں۔"

’’نہیں لاؤ۔ پانی نہیں لگے گا۔ دودھ سے صاف کروں گا ۔"

’’میں کچھ نہیں جانتی۔ ‘‘صوفیہ بھنّا  گئی۔

عمران نے شلوار اٹھالی جوا بھی کرسی کے ہتھّے ہی پر پڑی ہوئی تھی۔

صوفیہ اُکتائے ہوئے انداز میں اس کی حرکتیں دیکھتی رہی۔ اُس نے ایک بڑے پیالے میں دودھ اُلٹ کر دھبّوں کو مسلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد دھبّے  صاف ہو گئے۔ صوفیہ کی بڑے بالوں والی ایرانی بلّی بار بار پیالے پر جھپٹ رہی تھی۔ عمران اُسے ہٹاتا جاتا تھا۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکا تو وہ بلّی  دودھ پر ٹوٹ پڑی۔ اس بار عمران نے اُسے نہیں رُوکا۔

’’کیا پانی سے نہیں دھو سکتے تھے۔ آخر آپ کو اپنی بے وقوفی ظاہر کرنے کا اتنا شوق کیوں ہے ۔"

’’ہا ئیں !  تو کیا مجھ سے کوئی بے وقوفی سرزد ہوئی ہے۔ عمران نے حیرت کا اظہار کیا۔

صوفیہ کچھ نہ بولی۔ اُس نے بلی کی طرف دیکھا جو دُودھ پیتے پیتے ایک طرف لڑھک گئی تھی ۔

’’ہا ئیں ! یہ اسے کیا ہو گیا ۔‘‘وہ اُ ٹھتی ہو ئی  بولی ۔

’’کچھ نہیں ۔ ‘‘ عمران نے بلی کی ٹانگ پکڑ کر اُسے ہاتھ میں لٹکا لیا۔

’’کیا ہوا ! اِسے"۔ صوفیہ چیخ کر بولی۔

’’کچھ نہیں صرف بے ہوش ہو گئی ہے۔ اللہ نے چاہا تو صبح سے پہلے ہوش میں نہیں آئے گی ۔ "

’’آخر آپ کر کیا ر ہے ہیں۔  ‘‘ صوفیہ کا لہجہ جارحانہ تھا۔

وہ نقلی  پولیس والے ایک بے ہوش لڑکی ہماری گاڑی میں ضرور پاتے۔ مگر میں اُسے اس طرح نہ لٹکا  سکتا۔"

" کیا؟ صوفیہ آنکھیں پھاڑ کر بولی ۔ ’’تو یہ دھبّے ۔۔۔۔ !"

ظاہر ہے وہ امرت دھارا کے دھبے نہیں تھے ۔"

"لیکن اس کا مطلب ۔"

" تمہارا ۔۔۔۔اغواء! لیکن میں نے اُن کی نہیں چلنے دی ۔‘‘

" تو آپ نے جان بوجھ کر گلاس پر ہاتھ مارا تھا۔"

’’ہاں !‘‘  عمران سر ہلا کر بولا ۔" کبھی کبھی ایسی حماقت بھی سرزد ہو جاتی ہے۔"

" آپ کو کیسے معلوم ہوا تھا۔"

عمران نے ایک نا معلوم آدمی کے ویٹر سے ٹکرانے کی داستان دُہراتے ہوئے کہا۔ " میری بائیں آنکھ ہمیشہ کھلی رہتی ہے ۔میں نے اُسے گلاس میں کچھ ڈالتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘

صوفیہ خوفزدہ نظر آنے لگی ۔ عمران نے کہا۔

’’اوہ ۔۔۔۔ ڈرو نہیں ۔ لیکن تمہیں ہر حال میں میرا پابند رہنا پڑے گا ۔‘‘

صوفیہ کچھ نہ بولی۔ وہ اس احمق ترین آدمی کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔

’’ اور ہاں  ۔۔۔۔ دیکھو۔ اس واقعے کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا ۔ ‘‘عمران نے بے ہوش بلی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔’’عارف  اور انور سے بھی نہیں۔‘‘

’’نہیں کروں گی ۔ عمران صاحب ۔ آپ واقعی گریٹ ہیں۔"

’’کاش میرے پاپا بھی یہی سمجھتے ۔ ‘‘ عمران نے مغموم لجے میں کہا۔ اُس کے چہرے پر حماقت برس رہی تھی۔

 

10

 

مہمانوں کی وجہ سے عارف اور انور کو ایک ہی کمرے میں رہنا پڑتا تھا۔ یہ کمرہ صوفیہ کے کمرے سے ملا ہوا تھا اور درمیان میں صرف ایک دروازہ حائل تھا۔

عمران نے عارف کے سامنے ایک تجویز پیش کی۔ اسے یقین تھا کہ عارف فوراً تیار ہو جائے گا۔ تجویز یہ تھی کہ عارف عمران کے کمرے میں چلا جائے اور عمران عارف کی جگہ انور کے ساتھ رہنا شروع کر دے۔ عارف اس تجویز پر کھل اُٹھا کیو نکہ عمران   کا کمرہ مارتھا کے کمرے کے برابر تھا۔ انور کو اس تبدیلی پر بڑی حیرت ہوئی اور ساتھ ہی افسوس بھی ۔ وہ سوچ رہاتھا کہ کاش عمران نے اپنی جگہ اُسے بھیجا ہوتا ۔

’’آخر آپ نے وہ کمرہ کیوں چھوڑ دیا ۔‘‘  انور نے اُس سے پوچھا۔

’’ارے بھئ ۔۔۔۔ کیا بتاؤں ۔ بڑے ڈراؤنے خواب آنے لگے تھے ۔‘‘  عمران نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ڈراؤنے خواب ۔ ‘‘انور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ہنسنے لگا۔

’’لیکن آپ نے عارف کو وہاں بھیج کر اچھا نہیں کیا۔ ‘‘ انور تھوڑی دیر بعد بولا۔

’’اچھا تو تم چلے جاؤ۔"

مم میرا یہ مطلب نہیں ۔ ‘‘ انور ہکلایا۔

" پھر کیا مطلب ہے۔"

’’عارف کوئی کام سوچ سمجھ کر نہیں کرتا ۔"

’’ہا ئیں! تو کیا میں نے اُسے وہاں کوئی کام کرنے کے لیے بھیجا ہے۔"

’’ اُوہ ۔ آپ سمجھتے ہی نہیں یا پھر بن رہے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ کہیں وہ اُس پر ڈورے نہ ڈالے۔“

’’ او ہ سمجھا ۔‘‘  عمران نے سنجیدگی سے سر ہلا کر کہا۔ " مگر ڈورے ڈالنے میں کیا نقصان ہے۔ فکر کی بات تو اس وقت تھی جب وہ رسیاں ڈالتا ۔‘‘

’’ڈورے ڈالنا محاورہ ہے عمران صاحب ۔ ‘‘  انور جھلاہٹ میں اپنی ران پیٹ کر بولا۔

’’میں نہیں سمجھا۔ ‘‘ عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔

’’اف فوہ! میرا مطلب ہے کہ کہیں وہ اُسے پھانس نہ لے۔“

’’ لا حول ولا قوۃ۔۔۔۔  تو پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔ ‘‘ عمران نے اٹھتے ہوئے کہا۔

" کہاں چلے ؟"

’’ذرا مار تھا کو ہوشیار کر دوں۔“

’’کمال کرتے ہیں آپ بھی ‘‘ انور بھی کھڑا ہو گیا " عجیب بات ہے"۔

’’پھر تم کیا چاہتے ہو؟"

" کچھ بھی نہیں ۔ انور اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔

’’یار تم اپنے دماغ کا علاج کراؤ۔‘‘ عمران بیٹھتار ہوا ناراضگی سے بولا ” جب کچھ بھی نہیں تھا تو تم نے میرا اتنا وقت کیوں برباد کر ایا ؟‘‘

’’چلئے سو جائیے ۔‘‘ انور پلنگ پر گرتا ہوا بولا۔ ’’آپ سے خدا سمجھے ۔“

’’ نہیں بلکہ تم سے خدا سمجھے۔ اور پھر مجھے اُردو میں سمجھائیے۔ تمہاری باتیں تو میرے پلّے ہی نہیں پڑتیں۔“

انور نے سر تک چادر گھسیٹ لی۔

عمران بدستور آرام کرسی پر پڑا رہا۔ انور نے سونے کی کوشش شروع کر دی تھی لیکن ایسے میں نیند کہاں ۔ اسے یہ سوچ  سوچ کر کوفت ہو رہی تھی کہ عارف مارتھا کو لطیفے سنا نا کر ہنسارہا ہوگا۔ مارتھا خود بھی بڑی باتونی تھی اور بکواس کرنے والے اُسے پسند تھے۔ انوؔر میں سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ جس لڑکی کے متعلق زیادہ سوچتا تھا اُس سے کھل کر بات نہیں کر سکتا  تھا۔ آج کل مارتھا ہر وقت اس کے ذہن پر چھائی رہتی تھی اس لیے وہ اس سے گفتگو کرتے وقت ہکلات ا ضرور تھا ۔ اُس نے  عمران کی طرف کروٹ بدلتے وقت  چادر  چہرے سے ہٹادی۔

’’آخر کرنل صاحب کہاں گئے؟‘‘اس نے عمران سے پو چھا ۔

’’آہا ۔۔۔۔بہت دیر میں چو نکے ۔‘‘عمران نے مسکرا کر کہا ۔’’میرا خیال ہے کہ انھیں کوئی حادثہ پیش آگیا۔‘‘

’’کیا ؟‘‘انور اُچھل کر بیٹھ گیا  ۔

’’اوہو  !فکر نہ کرو  ۔وہ حادثہ ایسا نہیں  ہو سکتا کہ تمہیں پر یشان ہو نا پڑے۔‘‘

’’دیکھئے عمران صاحب  !اب یہ معا ملہ نا قابل  بر داشت ہو تا جا رہا ہے میں کل صبح کسی  کی  پراہ  کئے بغیر  کرنل صا حب  کی گمشد کی رپورٹ درج کرا دوں گا ۔‘‘

عمران  کچھ نہ بولا ۔وہ کسی گہری  سوچ میں تھا ۔انور  بڑبڑاتا رہا۔۔۔۔’’کرنل صاحب بوڑھے  ہوئے  ‘مجھے تو اب اُن کے صیح  الد ماغ  ہونے  میں بھی شبہ  ہے ۔‘‘

’ہاں ! اچھا تو وہ رپورٹ کیا ہو گی ؟‘‘ عمران نے پو چھا ۔

’’یہی کہ کرنل صاحب  کسی نا معلوم  آدمی  یا گروہ سے خائف تھے اور اچانک  غائب ہوگئے ۔‘‘

’’ہوں  ۔اور  رپورٹ کرنے میں تاخیر  کی وجہ کیا بتا ؤ گے۔‘‘

’’یہ بھی بڑی  بات  نہیں ۔کہہ دوں گا  کہ کرنل صاحب کے خوف کیو جہ سے حیص بیض  میں تا خیر  ہوئی ۔وہ پو لیس  کو رپورٹ دینے کے خلاف تھے۔‘‘

’’ٹھیک ہے ۔‘‘ عمران نے کہا ۔تھو ڑی دیر تک کچھ   سو چتا  رہا  پھر بولا ۔’’ضرور رپورٹ کردو۔‘‘

انور متحیر انہ نظروں سے اُسے دیکھنے  لگا۔

’’لیکن ۔‘‘عمران نے کہا ۔

’’تم میرے متعلق ہر گز کچھ نہ کہو گے ۔سمجھے۔میں صرف  کرنل  کا پرا ئیوٹ سکر یڑی  کردو۔‘‘

’’کیا آپ اس وقت سنجیدہ  ہیں۔‘‘

 ’’میں غیر سنجیدہ  کب  رہتا  ہو ں۔‘‘

’’آخر  اب آپ رپورٹ کے حق میں کیوں  ہو گئے۔‘‘

’’ضرورت  ۔حالات ہمیشہ بدلتے رہتے  ہیں۔‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کیا  کرنا چاہتے  ہیں۔‘‘

’’ہا۔‘‘عمرا ن  ٹھنڈی  سا نس لے کر بولا ۔’’ میں ایک چھوٹا  سا بنگلہ  بنوا نا چا ہتا ہوں۔ایک خو بصورت  سی بیوی چا ہتا ہوں اور ڈیڑھ درجن  بچے۔‘‘

انور  پھر جھلا کر لیٹ گیا اور اُس نے چادر  کھینچ لی۔

 

                                          

11

عمران                 نے سنجیدہ صورت بارتوش کو حیرت  سے دیکھا  جوز مین پر  دوز انو بیٹھا   ایک  ننھے سے خود  رو  پودے  پر  جھکا  ہوا  شائد  اُسے  سو نگھ رہا تھا ۔

پھر  شائد بارتوش نےبھی  اُسے دیکھ  لیا ۔ اس نے  سید ھے کھڑاے ہوکر  اپنے کپڑے  جھا ڑے اور مسکرا کر بولا ۔’’مجھے جڑی  بو ٹیوں کا خبط ہے ۔‘‘

’’اچھا !‘‘  عمران  نے حیرت  ظاہر کی ۔تب  تو اُس بوٹی  سے ضرور   واقف  ہوں گے جسے  کھا کر  آدمی کتوں  کی طرح بھو نگنے لگتا  ہے ‘‘۔

بارتوش مسکرا پڑا ۔پھر اس نے کہا  ۔’’میرا خیال ہے کہ میں نے  کسی ایسی  بوٹی کے متعلق آج تک  نہیں سنا۔‘‘

’’نہ سنا ہو گا۔لیکن  میں نے   سنا ہے ۔مجھے  بھی جڑی  بو ٹیوں سے عشق  ہے ۔‘‘

’’اُوہو ۔‘‘بارتوش نے  حیرت کا اظہار کیا ۔’’اگر یہ بات  ہے تو آپ ضرورمیری  مدد کریں  گے۔‘‘

’’مدد۔‘‘عمران  نے اُسے ٹٹولنے والی  نظروں سےدیکھا۔

’’ہاں!ایک بوٹی  ہی کی تلاش  مجھے  سونا گری  لائی ہے ۔‘‘با رتوش  بولا ۔’’اگر وہ مل  جائے ۔‘‘

عمران نے پہلی   بار اس کے چہرے سے سنجید گی رخصت  ہو تے دیکھی ۔اس کی   سپاٹ  آنکھوں  میں بلکی سی چمک آگئی تھی اور  ایک پل  کے لیے  ایسا معلوم  ہوا جیسے  وہ کسی بچے  کا چہرہ ہو ۔

’’اگر  وہ بوٹی مل جائے ۔‘‘بارتوش  نے گا ل صاف کر کہا ۔’’میں نے  سنا ہے  کہ وہ  یہاں کسی  مقام  پر  بکثرت  ملتی  ہے۔‘‘

’’لیکن  اس کی  خاصیت کیا ہے ۔‘‘عمران  نے پو چھا۔

’’ابھی  نہیں ۔ابھی نہیں ۔پھر بتا ؤں گا ۔‘‘

’’خوب ۔‘‘عمران کچھ سوچنے  لگاس پھر اُس نے کہا ۔’’ کیا سونا بنتا  ہے اُس سے۔‘‘

’’اُوہ ۔۔۔۔ تم سمجھ گئے ۔‘‘بارتوش  نے قہقہہ لگایا ۔

’’بوٹی کی پہچان کیا ہے ۔‘‘عمران نے پو چھا ۔

’’پورے  پودے  میں صرف  تین پتیاں ہو تی ہیں ۔گول گول سی۔‘‘

’’ہم ضرور تلا ش  کریں  گے۔‘‘عمران  نے سر ہلا کر کہا ۔

وہ کرنل  کی کو ٹھی سے  زیادہ فاصلے  پر نہیں  تھے۔ بارتوش نے ایک  فر لانگ  لمبے  نشیب کی اطراف اشارہ  کرکے کہا ۔’’ہمیں وہاں سے  اپنی  تلاش  شروع  کرنی   چاہیے ۔لمبی  پتیوں والی کانٹے دار جھا ڑیاں وہاں بکثرت معلوم  ہو تی ہیں۔

’’مگر ابھی تو  گول  پتیوں کی بات تھی۔‘‘عمران بولا۔

’’اُوہٹھیک  ہے ۔وہ بوٹی  دراصل  ایسی  ہی  جھا ڑیوں  کے قریب اُگتی ہے ۔‘‘بارتوش نے کہا۔

وہ نشیب  میں اُترنے  لگے۔’’انور  صاحب  کہاں  ہیں ؟‘‘ بارتوش نے پو چھا ۔

’’میں نہیں جا نتا ۔‘‘

’’میں جا نتا ہوں ۔‘‘ بارتوش  مسکرا کر بولا ’’وہ کرنل ضر غام کی گمشد  گی  کی رپورٹ  کرنے  گئے ہیں۔‘‘

’’کیا ؟‘‘ عمران چلتے چلتے  رک گیا ۔

’’ہاں ۔انہوں نے مجھ سے یہی کہا تھا ۔‘‘

’’بیڑا غرق  ہو گیا ۔‘‘عمران  اپنی پیشانی  پر ہا تھ مار  کر   بولا۔

’’آخر اس میں حرج  ہی کیا ہے ؟ میں  نہیں   سمجھ سکتا ۔‘‘

’’آپ  کبھی نہیں  سمجھ سکتے  ،مسٹر بار توش ‘‘ عمران  زمین  پر اکڑوں  بیٹھتا ہوا  بو لا ۔ پھر اس نے  دونوں  ہا تھوں  سے اپنا  سر پکڑ لیا  کسی  ایسی  بیوہ  عورت کی  طرح جس  کی بیمہ پا لیسی  ضبط  کر لی گئی ہو۔

’’آپ بہت پر یشان  نظر آرہے  ہیں ۔بارتوش بولا ۔

’’رنگ میں  بھنگ  ہو گیا ۔پیا رے بارتوش۔‘‘

’’کیا ہوا ؟‘‘

’’کچھ نہیں  ۔‘‘عمران   گلو گیر  آواز  میں بولا ’’اب یہ شادی  ہر گز نہیں  ہو سکے  گی۔‘‘

’’کیسی  شادی؟‘‘

’’کر نل ضر غام  کی شا دی ۔‘‘

’’صاف صاف  بتا  یئے  ‘‘بارتوش اسے گھو رنے لگا ۔

’’وہ اپنی لڑکی  سے چھپا کر شادی  کر رہے ہیں ۔‘‘

’’اوہ ،تب تو وا قعی....‘‘ بارتوش کچھ  کہتے کہتے  رک گیا ۔وہ چند لمحے کچھ سو چتا رہا  پھر  ہنس کر بولا ’’میرا خیال تھا کہ کرنل کا فی معمر ہو گا۔بڑھا پے کی شادی  بڑی لطف چیزہے ۔مجھے دیکھیئے ۔میں  آج  تک شادی ہی  نہیں کی۔‘‘

’’یہ بہت اچھی بات ہے۔‘‘ عمران سَر ہلا کر بولا۔’’ ہم شاید کسی بوٹی کی تلاش میں نیچے جارہے تھے ۔"

’’اوہ  ۔۔۔۔ہاں ‘‘بارتوش نے کہا اور پھر وہ نشیب میں اترنے لگے۔

نیچے پہنچ کر انھوں نے بوٹیوں کی تلاش شروع کر دی۔ عمران بڑے انہماک کا اظہار کر رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے خود ہی بار توش کو اس کام کے لیے  ۔۔۔۔اپنے ساتھ لایا ہو۔ وہ کوٹھی سے کافی دور نکل آئے تھے اور کچھ اس قسم کی چٹانیں درمیان میں حائل ہوگئی تھیں کہ کوٹھی بھی نظر نہیں آرہی تھی۔

’’مسٹر بار توش۔‘‘ عمران یک بیک بولا۔’’ ابھی تک تو ہمیں ایک بھی خرگوش نہیں دکھائی دیا۔ میرا خیال ہے کہ اس طرف خرگوش پائے ہی نہیں جاتے ۔“

’’خرگوش۔‘‘ با رتوش نے حیرت سے کہا۔

’’بے کار ہے۔ واپس چلئے  ۔" عمران بولا ۔ " مجھے پہلے ہی سوچنا چا ہیے تھا ۔ یہاں خرگوش بالکل نہیں ہیں ۔"

’’ہم بوٹی کی تلاش میں آئے تھے ۔ "بارتوش نے کہا۔

’’اوه ۔لاحول ولا قوۃ۔ میں ابھی تک خرگوش تلاش کرتا رہا۔‘‘ عمران نے برا سا منہ بنایا۔

لیکن وہ حقیقتاً اپنے گردو پیش سے ہے خبر نہیں تھا۔ اُس نے دائیں ہاتھ والی چٹان کے پیچھے سے دو تین سر اُبھرتے ہوئے دیکھ لیے تھے۔

بار توش کی نظر خود رو پودوں میں بھٹک رہی تھی۔

اچانک پانچ چھ آدمیوں نے چٹانوں کی اُوٹ سے نکل کر انھیں اپنے نرغے میں لے لیا۔ انھوں نے اپنے چہرے نقابوں میں چھپارکھے تھے اور ان میں دو ایسے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں ریوالور تھے۔

’’ یہ کیا ہے؟‘‘  بارتوش نے بوکھلا کر عمران سے پوچھا۔

’’پتہ  نہیں۔ ‘‘عمران نے لاپر واہی سے اپنے شانوں کو جنبش دی۔

’’ کیا چاہتے ہو تم لوگ ؟‘‘ د فتعاً بار توش چیخ کر ان لوگوں کی طرف جھپٹا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں ایک آدمی نے اس کی پیشانی پر مکا رسید کر دیا اور بار توش تیو را کر اس طرح گرا کہ پھر نہ اٹھ سکا۔ شاید وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔

’’چلو باندھ لو اِسے۔‘‘ ایک نے عمران کی طرف اشارہ کر کے اپنے ساتھیوں سے کہا۔

’’ایک منٹ ۔ " عمران نے ہاتھ اٹھا کر کہا  ‘چند لمحے انھیں گھورتا رہا پھر بولا ۔ " میں جھوٹ بول رہا تھا۔ یہاں خرگوش پائے جاتے ہیں۔"

 " کیا بکواس ہے۔ ‘‘ اس نے پھر اپنے ساتھیوں کو للکارتے ہوئے کہا۔ " پکڑوا ِسے"۔

’’بس ایک منٹ ۔‘‘ عمران نے لجاجت سے کہا۔ " میں ذراوقت دیکھ لوں۔ مجھے ڈائری لکھنی پڑتی ہے۔" ا

اُس نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا اور مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا ۔ " مجھے افسوس ہے ۔ گھڑی بند ہوگئی۔ آپ لوگ پھر کبھی ملے گا۔"

تین آدمی اُس پر ٹوٹ پڑے۔ عمران اُچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ وہ تینوں اپنے ہی زور میں ایک دوسرے سے ٹکرا کر رہ گئے۔ پھر ایک نے سنبھل کر عمران پر دوبارہ جست لگائی۔

’’ ارے۔ ارے۔ یہ کیا مذاق ہے۔‘‘ عمران نے کہتے ہوئے جھک کر اُس کے سینے پر ٹکر ماری اور وہ چاروں خانےچت گرا ۔

’’خبر دار گولی مار دوں گا۔ ‘‘ عمران نے جیب سے فاؤنٹین پن نکال کر بقیہ دو آدمیوں کو دھمکی دی جو اس کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ ان میں سے ایک کو ہنسی آگئی۔

’’ہاتھ اُٹھاؤ اپنے ۔‘‘ ریوالور والا گر جا۔

عمران نے چپ چاپ اپنے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھادئیے ۔

 اُس کی طرف بڑھتے ہوئے آدمیوں میں سے ایک نے اپنی جیب سے ریشم کی ڈور کا لچّھا نکالا اور جیسے ہی اس نے عمران کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔ عمران نے فاؤنٹین پن اس کے داہنے بازو پر رکھ دیا۔

وہ یکلخت چیخ کر نہ صرف پیچھے ہٹ گیا بلکہ اُچھل کر اُن دونوں کی طرف بھاگا جن کے پاس ریوالور تھے اور پھر اس نے ریوالور چھین کر بے تحاشہ عمران پر فائر کر دیا۔

 پھر انھوں نے عمران کی چیخ سنی ۔ وہ ز مین پر لیٹ کر نشیب میں لڑھک رہا تھا۔

’’یہ کیا کیا تو نے ۔‘‘  وہ آدمی چیخا جس کے ہاتھ سے ریوالور چھینا گیا تھا۔ پھر وہ فائر کرنے والے کو ایک طرفڈھکیل  کر تیزی سے آگے بڑھا۔

 چٹان کے سرے پر آ کر اس نے نیچے دیکھا۔ اسے عمران کی ٹانگیں دکھائی دیں۔ بقیہ جسم ایک بڑے سے پھر کی اُوٹ میں تھا۔ وہ تیزی سے نیچے اترنے لگا۔

پھر جیسے ہی وہ پتھر پر ہاتھ ٹیک کر عمران کی ’’ لاش ‘‘پر جھکا ، لاش نے دونوں ہاتھوں سے اُس کی گردن پکڑلی۔

 حملہ آور نے بڑا از ور مارا مگر اس کی گردن عمران کی گرفت سے نہ نکل سکی۔ اب عمران اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اوپر دوسرے حملہ  آور بھی چٹان کے سرے پر آگئے تھے۔

 " خبر دار... چھوڑ دو... ور نہ گولی ماردوں گا۔  ‘‘اوپر سے کسی نے چیخ کر کہا۔

عمران کے شکار پر قریب قریب غشی سی طاری ہو چکی تھی ۔ لہذا اس نے یہی مناسب سمجھا کہ اَب اُسے اپنی ڈھال ہی بنالے۔

’’ مار دو گولی۔ " عمران نے کہا۔ " مگر یہ شرط ہے کہ گولی اس کا سینہ چھیدتی ہوئی میرے کلیجے کے پار ہو جائے۔ یا پھر اپنے دونوں ریوالور یہاں میرے پاس پھینک دوور نہ میں اس کو جنت کی طرف روانہ کر دوں گا ۔“

اس کی گرفت میں جکڑے ہوئے نقاب پوش کے ہاتھ پیر ڈھیلے ہو گئے تھے۔ اُوپر سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔

عمران نے پھر ہانک لگائی ۔’’ تو میں ختم کرتا ہوں قصہ ۔‘‘

’’ٹھہرو! اُوپر سے آواز آئی۔

’’کتنی دیر ٹھہروں۔ میں نے ایساو اہیات بزنس آج تک نہیں کیا ۔ بھئی اس ہاتھ دے۔ اُس سے ہاتھ لے ۔"

’’ مار دو گولی۔ پر واہ نہ کرو۔ ‘‘ کسی دوسرے نے کہا۔

 اچانک ایک فائر ہوا اور وہ سب بوکھلا گئے ۔ کیونکہ سامنے والی چٹانوں سے کسی نے وہ فائر اُن پر کیا تھا۔ پھر دوسرا فائر ہوا۔

انھوں نے ایک بڑے پتھر کی آڑ لے لی اور سامنے والی چٹانوں پر فائر کرنے لگے۔ عمران نے بے ہوش آدمی کو تو و ہیں چھوڑا اور خود ایک دوسرے پتھر کی اُوٹ میں ہو گیا جو دونوں طرف کے مورچوں کی زد سے باہر تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر  دوسری طرف سے فائر کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ کیا کوٹھی تک اس ہنگامےکی خبر پہنچ گئی۔ پھر اُسے بار توش کا خیال آیا جسے وہ  اُوپر ہی چھوڑ  آیا تھا ۔

کافی دیر تک دونوں طرف سے گولیاں چلتی رہیں۔ عمران بدستور پھر کی اُوٹ میں چھپارہا۔ اگر وہ ذ رابھی سراُبھارتا تو کسی طرف کی گولی اُس کے سر کے خچے  ضرور اُڑ ادیتی۔ اُس کے ہاتھ میں اب بھی فاؤنٹین پن دبا ہوا تھا لیکن اس میں نب کے بجائے ایک چھوٹا ساچا قو تھا۔ عمران نے جیب سے اُس کا ڈھکن نکال کر اس پرفٹ کیا اور اُسے پھر جیب میں ڈال لیا۔

اچانک فائر کی آواز یں بند ہو گئیں۔ شائد تین چارمنٹ تک سنّاٹا  رہا۔ پھر سامنے سے ایک فائر ہوا لیکن نقاب پوشوں کی طرف سے اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے دو تین فائر اور ہوئے مگر نقاب پوشوں کی طرف سے خاموشی ہی رہی۔

عمران رینگتا ہوا پتھر کی اُوٹ سے نکالا اور پھر اس طرف بڑھا جہاں اس نے بے ہوش نقاب پوش کو چھوڑا تھا۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ وہ اب وہاں نہیں تھا۔

اُس نے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنی۔ وہ تیزی سے مڑا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس کے ہونٹوں پر مسکرا ہٹ  پھیل گئی کیو نکہ  آنے والا انسپکڑ خالد  تھا۔

" کہیں چوٹ تو نہیں آئی ۔ " خالد نے آتے ہی پوچھا۔ پھر وہ اوپر کی طرف دیکھنے لگا۔

’’آئی تو ہے"۔ عمران نے بسور کر کہا۔

" کہاں؟"

جواب میں عمران نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ یہاں! مقابلہ چند پردہ نشین خواتین سے تھا۔"

خالد ہنستا ہوا اُوپر چڑھنے لگا۔ عمران اُس کے پیچھے تھا۔

 اُو پر انھیں بے ہوش بار توش کے علاوہ اور کوئی نہ دکھائی دیا۔ قریب ہی ریوالور کے بہت سے خالی کارتوس پڑے ہوئے تھے۔

خالد کسی سوچ میں پڑ گیا۔

" تم یہاں پہنچے کس طرح ؟ " عمران نے پوچھا۔

آپ کی تلاش میں کوٹھی کی طرف گیا تھا۔ وہاں معلوم ہوا کہ آپ اِدھر آئے ہیں یہاں آیا تو یہ معاملہ درپیش تھا۔مجبور اًمجھے بھی گولیاں چلانی پڑیں۔

’’ شکریہ !‘‘ عمران سنجیدگی سے بولا ۔ ’’ لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔"

" کیا  ۔۔۔۔؟ خالد اُسے گھورنے لگا۔

’’کوٹھی یہاں سے بہت زیادہ فاصلہ پر نہیں ہے۔ کیا وہاں تک فائروں کی آوازیں نہ پہنچی ہوں گی۔"

"ضرور پہنچی ہوں گی۔"

’’لیکن پھر بھی کوئی اِدھر نہ آیا۔ حیرت کی بات ہے یا نہیں۔"

’’ہے تو ۔‘‘ خالد بولا اور ا ُسے استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

لیکن پھر بھی کوئی ادھر نہ آیا۔ حیرت کی بات ہے یا نہیں۔" ہے تو ۔ خالد بولا اور ا سے استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

با رتوش نے دو تین بار جنبش کی اور پھر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ چاروں طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ کر اس نے آنکھیں ملنی شروع کر دیں پھر اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔

’’وہ ...وہ ...وہ لوگ۔‘‘ وہ عمران  طرف دیکھ کر ہکلایا

’’وہ لوگ ساری بوٹیاں کھود لے گئے ۔ " عمران نے مغموم لہجے میں کہا  ‘پھر اُٹھتا  ہوا بولا ۔۔۔۔" اب ہمیں واپس چا ہیے ۔"

وہ کوٹھی کی طرف چل پڑے۔ بار توش سہارے کے لیے عمران کے کاندھے پر ہاتھ رکھے لنگڑاتا ہوا چل رہا تھا۔

 

12

 

کوٹھی کے قریب پہنچ کر عمران اپنے نتھنے سکوڑنے لگا‘ ایسے سونگھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر وہ  اچانک چلتے چلتے رُک کر خالد کی طرف مڑا۔

’’کیا آپ بھی کسی قسم کی بُو محسوس کر رہے ہیں۔ ‘‘اس نے پوچھا۔

’’ہاں محسوس تو کر رہا ہوں۔ کچھ میٹھی میٹھی سی بُو۔ غالبًا یہ سڑے ہوئے شہتوتوں کی بُوہے۔"

’’ہر گز نہیں ۔‘‘ وہ کوٹھی کی طرف دوڑتا ہواچیخا۔ پھر پچھلے دروازے میں داخل ہوتے ہی دوبارہ اُچھل کر باہر آگیا۔ اتنے میں خالد اور بار توش بھی اس کے قریب پہنچ گئے۔

 " کیابات ہے؟ ‘‘خالد نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

’’ اندر کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔‘‘  عمران آہستہ سے بولا۔ " نہیں‘ ابھی مت جاؤ۔ سنتھلک گیس بھری ہوئی ہے۔ یہ میٹھی میٹھی بُو اُسی کی ہے۔"

سنتھلک گیس ۔ " خالد بڑبڑایا ۔ " یہ ہے کیا بلا ۔"

’’ذہن کو وقتی طور پر معطل کر دینے والی گیس۔ میرا خیال ہے کہ اندر کوئی بھی ہوش میں نہ ہوگا ۔‘‘ عمران بولا ۔

دفعتاً انھوں نے ایک چیخ سنی اور ساتھ ہی کرنل ڈکسن عمارت کے عقبی دروازے سے اُچھل کر نیچے آ رہا۔ وہ بڑے کرب کے عالم میں اپنے ہاتھ پیر پٹخ رہا تھا۔ چہر ہ سرخ ہو گیا تھا۔ آنکھوں اور ناک سے پانی بہہ رہا تھا۔

خالد نے اُس سے کچھ پوچھنا چاہا لیکن عمران جلدی سے ہاتھ اُٹھا کر بولا۔’’ اس کا وقت نہیں ۔ ہمیں اندر والوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے ، ورنہ ممکن ہے اُن میں سے کوئی مر ہی جائے ۔‘‘ پھر اس نے بار توش کو وہیں ٹھہر نے کو کہا اور خالد کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے بے تحاشہ دوڑنے لگا۔ وہ دونوں چکر کاٹ کر کوٹھی کے بیرونی برآمدے میں آئے۔ یہاں بُو اور زیادہ تھی۔ عمران نے اپنی ناک دبائی اور تیر کی طرح اندر گھستا چلا گیا ۔ خالد نے بھی اس کی تقلید کی۔ لیکن تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد اس کا دَم گھٹنے لگا اور وہ پلٹنے کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ اُس نے عمران کو دیکھا جو کسی کو پیٹھ پر لادے ہوئے واپس آرہا تھا۔ خالد ایک طرف ہٹ گیا اور پھر وہ بھی اُسی کے ساتھ باہر ہی چلا آیا۔ عمران نے بے ہوش عارف کو باہر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔’’ یار ہمت کرو۔ ان سب کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ کیا تم دس پانچ منٹ سائنس نہیں روک سکتے ۔"

 پھر کسی نہ کسی طرح انھوں نے ایک ایک کر کے ان سب کو کوٹھی سے نکالا ۔۔۔۔مگر صوفیہ ان میں نہیں تھی۔ عمران نے پوری کوٹھی کا چکر لگا ڈالا۔ لیکن صوفیہ کہیں نہ ملی۔

اُنھیں ہوش میں لانے اور کوٹھی کی فضا صاف ہونے میں قریب قریب دو گھنٹے لگے۔

 ان میں سے کسی نے بھی کوئی ڈھنگ کی بات نہ بتائی۔ کسی کو اس کا احساس بھی نہ ہو سکا تھا کہ وہ سب کیوں اور کس طرح ہوا۔

’’عمران صاحب !‘‘  خالد بڑے غصے میں بولا ۔’’ پانی سر سے اُونچا ہو چکا ہے۔ اب آپ کو بتانا ہی پڑے گا ۔ یہ واقعہ ایسا پیچیدہ بھی نہیں ہے کہ میں کچھ سمجھ ہی نہ سکوں آخر کرنل کی صاحبزادی کہاں غائب ہو گئیں ۔ ‘‘

’’اگر تم سمجھ گئے ہوتو مجھے ہی بتا دو ۔ میں تو کچھ نہیں جانتا۔‘‘  عمران نے خلاف توقع بڑے خشک لہجے میں کہا۔

’’ یا تو یہ خود صاحبزادی ہی کی حرکت ہے یا پھر کسی اور کی، جو اِس طرح انھیں اُٹھا لے گیا۔‘‘ خالد بولا۔

 "اُسے شفٹن  لے گیا ہے۔ ‘‘عمران نے کہا۔

’’ تو آخر اب تک وقت پر باد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ خالد جھنجھلا گیا۔

’’وقت کی بربادی سے تمہاری کیا مراد ہے ‘‘؟عمران نے خشک لہجے میں پوچھا۔

 جب میں نے شفٹن کے متعلق پوچھا تھا تو آپ نے لاعلمی ظاہر کی تھی۔ پھر آپ نے اس سلسلہ میں اس کا نام کیوں لیا؟‘‘

’’تو پھر کیا شہنشاہ باؤ ڈانی کا نام لیتا۔“

’’دیکھئے آپ ایسی صورت میں بھی معاملات کو اُلجھانے سے باز نہیں آرہے ہیں ۔‘ خالد جھنجھلا کر بولا۔

’’یار میں ہوں کون ۔ عمران گردن جھنک کر بولا ۔ " تم سرکاری آدمی ہو ۔ اس سلسلے میں ہم لوگوں کے بیانات نوٹ کرو۔ کچھ تسلی دلاسے کو راہ دو ۔ مجھ پر چند پردہ نشین خواتین نے حملہ کیا تھا۔ اس کا حال پُر ملال بھی لکھو وغیرہ وغیرہ۔"

’’ میں آپ کو اپنے ساتھ آفس لے چلنا چاہتا ہوں۔ خالد بولا۔

’’دیکھو دوست ‘میں وقت برباد کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ "

مجھے کسی سخت اقدام پر مجبورنہ کیجئے ۔ خالد کا لہجہ کچھ تیز ہوگیا۔

’’ اچھا ... یہ بات ہے ۔‘‘ عمران طنز یہ انداز میں بولا۔ کیا کرلیں گے جناب؟ کیا اس کوٹھی کے کسی فرد نے آپ سے مد طلب کی ہے۔ آپ ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے والے ہوتے ہی کون ہیں ۔ ‘‘

دوسرے لوگ صوفوں پر خاموش پڑے ان کی گفتگوسن رہے تھے۔ کسی میں بھی اتنی سکت نہیں رہ گئی تھی کہ اظہار خیال   کے لیے زبان ہلا سکتا۔ ان کی حالت بالکل غیر متعلق تماشائیوں کی ہی تھی۔ انسپکٹر خالد نے ان پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور عمران سے بولا۔ " عمران صاحب امجھے محض کیپٹن فیاض کا خیال ہے...ورنہ۔‘‘

اچانک بارتوش نے مداخلت کی۔ اُس نے انگریزی میں کیا۔ ’’لڑکی کے لیے تم لوگ کیا کر رہے ہو۔ یقینا ًیہ اُنھیں بد معاشوں کی حرکت معلوم ہوتی ہے۔"

’’ہاں مائی ڈیر  مسٹر خالد۔‘‘  عمران سر ہلا کر ہوا ۔ فی الحالہ ہمیں یہ دیکھنا چا ہے کہ صوفیہ کہاں گئی ۔"

خالد کچھ نہ بولا ۔ عمران کمرے سے بر آمد  میں آگیا۔ خالد نے بھی اُس کی تقلید کی۔

’’کسی غیر آبا دجگہ پر مکان تغیر کرانا بہت برا ہے۔ ‘‘بار توش نے کہا جو دروازے میں کھڑا چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔

اچا نک عمران بر آمدے سے اتر کر ایک طرف پلٹے گا۔ پھر دہ خودرو گلاب کی جھاڑیوں کے پاس رُک کر جھکا ۔ یہ ایک سیاہ رنگ کا زنانہ سینڈل تھا جس نے اس کی تو جہ ا پنی طرف مبذول کرائی تھی۔

خالد اور بارتوش بھی اس کے قریب پہنچ گئے۔

’’اوہ ...یہ  تو لڑ کی ہی کا معلوم ہوتا ہے۔"

 عمران کچھ نہ بولا۔ اُس کی نظر سینڈل سے ہٹ کر کسی دوسری چیز پر جم گئی۔ پھر وہ دفعتاًخالد کی طرف مڑا۔

’’تم تو سونا گری کے   چپےّ چپےّ سے  واقف ہو گئے۔ ‘‘اس نے خالد سے پوچھا۔

’’نہ صرف سونا گری بلکہ مضافات پر بھی میری نظر ہے۔‘‘ خالد نے کہا لیکن اس کا لہجہ خوشگوار نہیں تھا۔

’’کیا یہاں کوئی ایسا علاقہ بھی ہے جہاں کی مٹی سرخ رنگ کی ہو۔"

 خالد سوچ میں پڑ گیا کچھ دیر بعد اس نے کہا ’’ آپ کیوں پوچھ ر ہے ہیں۔"

عمران نے زمین سے سرخ چکنی مٹی کا ایک کھڑا اٹھایا جس میں خفیف سی نمی   بھی موجود تھی۔

 "میرا خیال ہے ۔‘‘ اُس نے کہا۔ ’’یہ مٹی کسی جوتے کے سول اور ایڑی کی درمیانی جگہ میں چپکی ہوئی تھی اور یہاں کم از کم دو دو میل کے گھیرے میں‘  میں نے کہیں نرم زمین نہیں دیکھی۔ اسے دیکھو اس میں ابھی نمی  بھی باقی ہے۔"

خالد نے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر اُلٹتے پلٹتے ہوئے کہا۔ " پلٹن پڑاؤ کے علاقے میں ایک جگہ ایسی نرم زمین ملتی ہے۔ وہاں در اصل ایک چھوٹی سی ندی بھی ہے۔ اُس کے کنارے کی زمین... اُس کی مٹی میں ہمیشہ نمی موجود رہتی ہے۔"

 " کیاو ہ کوئی ...غیر آباد جگہ ہے۔"

’’غیر آباد نہیں کہہ سکتے۔ کم آباد ضرور ہے۔ وہاں زیادہ تر اونچے طبقے کے لوگ آباد ہیں۔"

" کیا تم مجھے اپنی موٹر سائیکل پر وہاں لے چلو گے۔"

’’ہو سکتا ہے۔‘‘  خالد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

اچھا تو ٹھہرو ۔ عمران نے کہا اور کوٹھی کے اندر چلا آیا۔ اُس نے انور کو مخاطب کیا جو ایک صوفے پر پڑا افیونیوں کی طرح اُونگھ رہا تھا۔

’’سنو !میں  صوفیہ کی تلاش میں جا رہا  ہو ں ۔ تم  اگر اپنی  جگہ  سے ہل  نہ  سکو تو پو لیس کو فون  پر اس  واقعے  کی  اطلا ع دے دینا ۔لیکن آخر یہ  نوکر کہا مر گئے۔‘‘

’’باہر  ہیں ۔‘‘انور نے   کمزور  آواز  میں کہا ۔’’صبح ہی وہ شہر گئے تھے۔ ابھی تک وا پس نہیں آئے۔‘‘

کرنل ضر غام  کا یہ اصول  تھا کہ  وہ  ہفتے  میں ایک دن  اپنے  نو کروں  کو آدھے دن کی چھٹی  دیتا تھا ۔آج صوفیہ  نے اُنھیں  صبح ہی  چھٹی  دے دی  تھی ۔

عمران  چند  لمحے کھڑا  سو  چتا رہا  ۔پھر اس کمرے  میں چلا آ یا جہاں  اُس کا سا مان  رکھا ہو ا تھا ۔اُس نے  جلدی  سے سوٹ کیس  سے کچھ  چیز یں  نکا لیں  اور انھیں  جیبوں  میں  ٹھو نستا ہوا با ہر نکل گیا ۔

13

آسمان  میں  صبح ہی سے  سفید بادل تیر  رہےتھے اور اس وقت  سو رج کی ایک  کرن  بھی   بادلوں  کے کسی  رخنے سے نہیں جھا نک رہی تھی ۔موسم کا فی خو شگو ار تھا ۔

انسپکٹر  خالد کی مو ٹر سا ئیکل  پلٹن  روڈ کی طرف جا رہی تھی ۔عمران  کیر یر پر بیٹھا  اُونگھ  رہا تھا  اور اس  کے چہرے پر گہرے  تفکر  کے آثار تھے ۔خدوخال کی حماقت  انگیز ی  غائب  ہو چکی تھی۔۔۔۔ پلٹن پڑاؤ کے قریب پہنچتے پہنچتے  تر یح  شروع ہو گیا ۔خالد نے موٹر سا ئیکل  کی رفتار کم کردی  ’’ آخر ہم وہاں  جا کر انہیں  ڈھو نڈیں  گے کس طرح ؟‘‘ خالد  نے عمران  سے کہا ۔

’’آخاہ  !یہ  ایک سی  ۔آئی ۔ڈی انسپکڑ مجھ  سے پو چھا رہا ہے ۔‘‘

’’عمران  صاحب ۔اس مو قع پر مجھے  آپ  سے سنجیدگی  کی امید ہے ۔‘‘

’’آہا ...کسی نہ کسی  نے ضرورکہا  ہو گا کہ  دنیا اُمید  پر قائم ہے ۔ویسے  اس علاقے  میں کوئی  ایسا ہو ٹل بھی ہے  جس  میں  نچلے طبقے  کے لوگ  بیٹھتے  ہوں۔اگر ایسا کوئی  ہو ٹل  ہو تو مجھے وہاں  لے چلو۔‘‘

انسپکٹر خالد نے مو ٹر سائیکل  ایک  پتلی  سی سڑک  پر موڑدی   لیکن  دفعتاً عمران  نے اُسے  رُکنے  کو کہا ۔

خالد نے بڑی  عجلت میں  مو ٹر سائیکل روکی  کیو نکہ عمران  کے لہجے میں اُسے گھبراہٹ کی جھلک محسوس ہو ئی تھی ۔یہ ایک بڑی پر فضا  جگہ تھی۔سڑک کے دونوں طرف مسلح زمین تھی اور وہاں  پھلوں کے با   غات نظر آرہے تھے۔پلٹن پڑاؤ کے اس حصے   شمار تفریح گا ہوں میں  ہو تا  تھا ۔

خالد نے موٹر سائیکل  روک  کر اپنے  پیر سڑک پر    ٹکا دیئے تھے۔یکایک اُس نے مشین بھی بند کردی اور پھر یہ بھی  بھول  گیا  کہ  موٹر سائیکل عمران نے ر کوائی  تھی۔ اُس نے   دا ہنی  طرف  ایک باغ میں ایک لڑکی دیکھ لی تھی  جو اُسے متو جہ کرنے کے لیے رُومال ہلا رہی تھی ۔ خالد   موٹر سائیکل  سے اتر  تا ہوا  بولا۔’’ عمران  صاحب  ذرا ٹھہر یئے ۔‘‘

’’کیا وہ تمہاری شنا سا ہے ؟‘‘  عمران  نے مسکرا کر پو چھا ۔

’’جی ہاں ۔‘‘ خالد ہنستا ہو ا بولا۔

’’بہت اچھا  ۔تم جا سکتے ہو۔ مگر  مو ٹر سائیکل یہاں تنہا رہ جا ئے گی۔‘‘ عمران نے کہا اور بائیں   طرف کے با غات  میں  نظر  دو ڑاتا ہو ابولا ۔’’ میں ادھر جاؤں گا ۔اُدھر میری ممد  وحہ ممدوحہ شائد  میں غلط کہہ رہا ہوں۔کیا کہتے ہیں اُسے جس   سے  محبت  کی جاتی  ہے ۔‘‘

’’محبوبہ!‘‘

’’محبوبہ محبو بہاُدھر  میری محبوبہ اچھا تو میں چلا ۔‘‘ عمران کیر یر  سے اتر تا ہو ا بولا ۔

با ئیں طرف کے ایک باغ میں  اسے چند   ایسی شکلیں دکھا ئی  دی تھیں جنھوں نے اچانک  اُس کے ذہن میں اُس رات  کی  یا د  تازہ کردی تھی جب صوفیہ کو آرینج  اسکو  ئیش  میں  کو ئی نشہ  آوار  دوای گئی تھی ۔ان میں سے ایک کوتو  اس نے  بخوبی پہچان  لیا ۔یہ وہی  تھا  جس کی ٹکر ہو ٹل  کے ویٹر سے ہوئی تھی ۔دو آدمیوں  کے متعلق  اُسے  شبہ  تھا ۔وہ یقین   کے ساتھ  نہیں   کہہ  سکتا  تھا کہ  یہ دونوں   اس سب  انسپکٹر  کے ساتھی   تھے  یا نہیں ‘جس  نے سنسان  سڑک پر  اُن کی کار رُکوا کر کسی  بے ہوش لڑکی  کا مطا لبہ کیا تھا۔

عمران  اُنھیں  دیکھتا رہا ۔ وہ چار تھے ۔ان کے  سا تھ کوئی عورت نہیں تھی۔

عمران باغ کے رکھو الے  سے خو با  نیوں  اور سیبوں کی پیداوار کے  متعلق  گفتگو کرنے لگا۔

 

14

صوفیہ  آنکھیں پھا ڑ پھاڑ کرچا روں طرف   دیکھ رہی  تھی لیکن  اُس کی  سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں  ہے ۔ کمرہ اعلیٰ  پیمانے   پر آرا ستہ تھا  اور وہ ایک آرام  دہ بستر پر پڑی تھی ۔اُس نے اُٹھنا چا ہا  مگر  اُٹھ  نہ سکی ۔اُسے محسوس ہو رہا تھا جیسے  اُس کے جسم  میں جان ہی نہ رہ گئی ہو ۔ذہن  کام  نہیں  کر رہا تھا ۔اس پر دو بارہ غنو دگی KR طاری ہو گئی  اور پھر    دو سری بار جب  اُس کی آنکھ  کھلی  تو دیوار  سے لگا  ہوا کلاک آٹھ بجارہا  تھا اور سر ہانے  رکھا ہوا ٹیبل لیمپ رو شن تھا ۔

اس مر تبہ وہ پہلی ہی کو شش میں اُ ٹھ بیٹھی ۔تھو ڑی دیر   سر پکڑ  ے  بیٹھی رہی  ۔پھر کھڑی  ہو  گئی ۔لیکن  سر اس  شدت  سے  چکرایا  کہ اُسے  سنبھلنے  کے لیے  میز  کا  کونا   پکڑنا پڑا ۔

سا منے  کا   دروازہ کھلا  ہوا تھا ۔وہ باہر جانے کا  ارادہ کر ہی رہی تھی  کہ ایک آدمی  کمرے میں  داخل  ہوا ۔

’’آپ کو کرنل  صا حب نے یاد فر ما رہے ہیں۔‘‘اُس نے  بڑے  ادب سے  کہا ۔

’’کیا ؟ڈیڈی۔‘‘  صوفیہ نے متحیرا نہ  لہجے میں  پو چھا ۔

’’جی ہاں ۔‘‘

نقا ہت  کے باو جود  بھی  صوفیہ  کی رفتار کافی  تیزتھی  اور اس  آدمی  کے انداز سے   ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے  وہ محض اسی کی  وجہ  سے  جلدی جلدی   قدم  اُٹھا  رہا  ہو ۔

وہ کئی  را ہداری  سے گذرتے  ہو ئے  ایک بڑے سے کمرے  میں آئے  اور پھر  وہاں   صوفیہ نے  جو کچھ بھی  دیکھا  وہ اُسے  نیم جاں کر دینے   کے لیے  کا فی   تھا ۔

اُس نے کرنل ضر غام کو دیکھا  جو ایک کر سی  میں بند ھا ہو ا تھا اوراس کے گرد  چار  آدمی کھڑے  اُسے  قہر آلود   نظروں سے  گھو رہے تھے۔

’’تم ۔‘‘  دفعتاً کرنل چیخ پڑا ۔ساتھ  ہی اُس نے  اُ ٹھنے  کی کو شش  کی لیکن  ہل بھی نہ  سکا ۔بندش بہت  مضبو ط تھی

وہ دونوں  خا موشی  سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے  رہے ۔

اچا نک  ایک بھا ری جبڑوں والا آ دمی بولا ۔’’کر نل  تو لی ۔ لوکا ؔ  سے ٹکرانے  کی کو شش کر رہے تھے ۔ لی یو کاؔ  جسے آج  تک  کسی  نے بھی  نہیں  دیکھا ۔‘‘

 

کرنل کچھ نہ بولا ۔ اُس کی آنکھیں  صوفیہ کے چہرے  سے ہٹ کو نیچے   جھک گئی تھیں۔بھا  ری جبڑوں والا آدمی  پھر بولا ۔’’ اگر تم   نے کا غذات   واپس نہ کیے  تو تمہاری  آنکھوں  کے سامنے  اس لڑکی کی  بو ٹیاں  کا ٹی جا ئیں گی ۔ایک ایک  بو ٹی  ۔کیا ۔ تم  اُس کے  تڑ پنے کا منظر   دیکھ سکو گے ۔

’’نہیں  ۔‘‘ کرنل  بے ساختہ  چیخ پڑا ۔اُس  کے چہرے پر  پسینے  کی بوند  یں پھو ٹ آئی تھیں۔

صوفیہ کھڑی کا نپتی رہی ۔اُس کا  سر دوبارہ  چکرا نے  لگا ۔ایسا معلوم ہو رہا تھا  جیسے  کمرے  کی روشنی  پر غبار  کی  تہیں  چڑھتی  چلی جا رہی  ہوں  اور اُس آدمی نے  جو اس کے ساتھ آیا  آگے بڑھ کر اُسے  سنبھا ل  لیا ۔۔۔۔ وہ پھر بے ہوش ہو چکی تھی۔

’’اُسے آرام کرسی  میں ڈال دو ۔‘‘ بھا ری جبڑوں والے نے کہا ۔پھر وہ کر نل سے بولا  ۔’’اگر تمہیں  اب بھی ہوش نہ  آئے تو اسے  بد بختی  ہی سمجھنا  چا ہیے۔‘‘

کرنل   اُسے چندلمحہ  گھور تا  رہا پھر  اپنا    اُ  وپر ی ہو نٹ  بھینچ  کربولا ۔’’ اُڑا دواس کی  بوٹیاں میں    کرنل ضر غام  ہوں ‘سمجھے ۔تمہیں کا غذات  کا سا یہ  تک نصیب نہ ہو گا ۔‘‘

بھا  ری جبڑوں والے نے  قہقہہ لگا یا ۔

’’کرنل تم لی ۔یوؔکا  کی قو توں  سےوا قف  ہونے کے باوجود  بچوں  کی سی باتیں  کر رہےہو ۔‘‘ اُس نےکہا  ’’لی  ۔یوؔکا  کی  قوت نے تمہیں  کہاں  سے کھود کر نکالا ہے ۔ورنہ  تم ایسی جگہ   چھپے  ہوئے تھے  جہاں فر شتے بھی پر نہیں  مار سکتے تھے ۔وہ لی ۔یو ؔکا   ہی کی قوت  تھی  جودن دہا ڑے   تمہاری لڑکی کو یہاں  اُٹھا لائی ۔میں  کہتا ہو  ں کہ آخر وہ کا غذات تمہا رے کس کا م   کے ہیں ۔ یقین   جا نو تم ان  سے کوئی فا ئد  ہ نہیں اُٹھا سکتے  ۔ویسے عقلمند ضرور ہو کہ تم نے  ابھی تک  وہ کا غذات پو لیس کے حوالے نہیں کیے ۔مجھے  بتاؤ کہ آخر تم  چاہتے  کیا ہو ۔‘‘

 ’’میں  تمہا رے  کسی سوال کا جواب  نہیں دینا چا ہتا۔ تمہا را جو دِل چاہے  کرلو ۔‘‘ کرنل  غرایا ۔

’’ اچھا ۔‘‘ بھاری جبڑے والے   نے ا پنے  ایک آدمی  کو   اشارہ کر تے ہو ئے کہا ۔۔۔۔’’اس لڑکی  کے پیر کا انگو ٹھا کاٹ دو۔‘‘

اس آدمی نے  میز پر سے ایک چمکدار کلہاڑی  اُٹھائی  اور بے حوش صوفیہ  کی طرف  بڑھا۔

’’ٹھہرو ۔‘‘ اچانک  ایک گر  جدارآواز سنا ئی دی  ۔’’ لی ۔یوؔکا آگیا۔‘‘

 سا تھ ہی ایک زورادار  دھما کہ بھی  ہو ا اور   سا منے  وا لی دیوار پر  آنکھوں  کو خیرہ  کر دینے  والی   چمک   دکھا ئی   سی اور   سارا کمرہ  دھوئیں  سے  بھر  گیا ۔ سفید  رنگ کا گہرا دھواں  جس میں   ایک با لشت  کے فا صلے  کی چیز  بھی  نہیں نظر  آرہی تھی ۔

د ھڑ  ا دھڑا  فر نیچر  اُ لٹنے لگا ۔ کر نل ضر غام  کی بھی  کر سی اُلٹ گئی ۔ لیکن  اسے  اتنا ہوش  تھا کہ  اُس نے اپنا  سر  فرش  سے نہ  لگنے  دیا ۔ کمرے  کے  دوسرے   لوگ نیند سے  چو نکے   ہوئے  کتو ں  کی طرح  چور مچا ررہے  تھے ۔ اچا نک   کرنل کر سی    چھو ڑکے   کھڑا ہو گیا ۔کوئی  اُس کا  ہا تھ پکڑ ے ہوئے اُسے ایک طرف کھینچ رہا تھا ۔کرنل  دھو ئیں  کی گھٹن  کی وجہ سے     کچھ  اس درجہ بدحواس ہو رہا تھا کہ وہ اس  نا معلوم  آدمی کے ساتھ   کھنچتا  چلا گیا ۔

 اور پھر تھو ڑی  ہی دیر بعد  اُس نے خود کو تا زہ محسوس کیا ۔اُس کے سر  پر کھلا  ہواتا روں  بھر ا آسمان  تھا ۔  اُس نے  اند ھیر میں اُس  آدمی کو پہچا ننے  کی کو شش کی ،جواُس کا ہاتھ  پکڑے ہوئے  تیزی   سے نشیب  میں اتر  رہا  تھا ۔ اُس نے  اپنے  کا ندھے پر  کسی کو لاد  رکھا تھا اس کے با و جو د   اُس کے  قدم  تیزی  سے اُ ٹھ  رہے تھے۔

’’تم کون ہو ۔‘‘ کرنل  بے بھرائی آواز میں پو چھا ۔

’’علی ۔ عمران  ایم ۔ایس ۔ سی ، پی ۔ ایچ ۔ڈی  ۔‘‘جواب ملا ۔

’’ عمران ۔‘‘

’’شش۔چپ چاپ  چلے  آیئے۔‘‘

وہ جلد  ہی چٹا نوں   میں ایک  محفو ظ   جگہ پر  پہنچ  گئے یہ  چٹانیں  کچھ ایسے قسم کی  تھیں  کہ ان میں گھنٹوں  تلاش  کرنے   والوں  کو  چکر  دیئے  جا سکتے  تھے۔

 عمران   نے بے ہوش  صو فیہ  کو کا ندھے  سے اُ تار  کرایک   پتھر پر  لٹا دیا ۔

’’عجیب آدمی  ہو۔  ارے  وہ عمارت   یہاں سے ز یادہ   دور نہیں   ہے ۔‘‘ کرنل گھبرا ئے  ہو ئے لہجہ میں  بو لا ۔

’’اِسی لیے  تو میں رُک گیا ہو ں ۔   لگے   ہاتھ  یہ تما شہ  بھی دیکھ لو ں ۔ کیا  یہاں   سے کوئی    فا ئر اسٹیشن  نز دیک  ہے ۔‘‘

’’کیا  وہاں  آگ لگ گئی ہے ۔‘‘کرنل  نے پو چھا ۔

’’ اجی نہیں ۔خواہ مخواہ  با ت کا  بتنگڑ  نبے گا ۔وہ تو صرف   دھو ئیں  کا ایک معمو لی  سا بم تھا ۔ذرا دیکھئے   گا  دھو ئیں  کا بادل ۔‘‘

 کرنل  نے عما رت   کی طرف   نظر ڈا لی ۔اُس کے با لا ئی  حصے  پر دھو ئیں  کا  کثیف  سا با دل تھا   منڈ  لا  رہا تھا ۔

’’کیا و ہ  بم تم نے  ‘‘

’’ارے تو بہ  لا حول ولا ۔ ‘‘ عمران  پنا منہ  پیٹتا ہوا بولا ۔’’ میں تو  ٹوتھ  یپسٹ  کا ٹیوب  سمجھا تھا ۔مگر  مجھے ان بے  چاروں   پر  ترس آتاہے ۔ کیو نکہ  عمارت کی  باہر  نکلنے  کے سا رے   را ستے  بند ہیں ۔مجھے   پچھلی  رات خواب   میں  بشارت  ہو ئی تھی  کہ قیا مت  کے قر یب   ایسا ضرور ہو گا  وغیرہ وغیرہ ۔‘

’’عمران !خدا کی قسم  تم ہیرے ہو ۔‘‘کر نل   دبے   جوش کے ساتھ بو لا ۔

’’اَررر ایسا نہ کہیے  ! ورنہ  کسٹم  وا لے   ڈیو ٹی  و صول  کر لیں  گے۔‘‘عمران  نے کہا ۔’’ لیکن آپ یہاں  کیسے  آپھنسے ۔‘‘

’’میں ایسی جگہ  چھپا تھا   عمران  کے پر ندہ  بھی پر نہیں ما ر سکتا تھا ۔لیکن  انھوں نے  مجھے   ایک طاعون زدہ  چو ہے کی طرح با ہر  نکال  لیا ۔‘‘

’’گیس !‘‘  عمران  نے پوچھا ۔

’’ہاں ! میں ایک  غار  میں تھا ۔ انھو ں نے  با ہر سے گیس    ڈال کر    مجھے  نکلنے پر مجبور کر   دیا لیکن  صوفیہ یہاں  کیسے  پہنچی ۔‘‘

 ٹھہر یئے ۔‘‘عمران  ہاتھ اٹھاکر بولا۔ اور  شائد دُور کی آواز سننے لگا۔ پھر اُس نے جلدی سے کہا۔ ’’ اس کے متعلق کبھی بتاؤں گا۔ اٹھئے گاڑیاں آگئی ہیں۔"

اُس نے پھر صوفیہ کو اٹھانا چاہا لیکن کرنل نے روک دیا۔ وہ اُسے گود میں اٹھا کر پیچھے چلنے لگا ۔ اُترائی بہت مخد وش  تھی   لیکن پھر بھی وہ سنبھل سنبھل کر نیچے اترتے  رہے۔ پھر انہیں پتلی سی بل کھاتی ہوئی سڑک نظر آئی۔ مطلع ابر آلود نہ ہونے کی  بنا ء پر  تا روں  کی چھاؤں میں سڑک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک نیچے سے سرخ رنگ کی روشنی کی ایک شعاع آکر چٹانوں میں پھیل گئی ۔ کرنل کے منہ سے عجیب سے آواز نکلی۔

’’اوہ۔۔۔۔ فکر نہ کیجیے۔ پولیس ہے۔‘‘

پھر جلدی پانچ چھ آدمی ان کی مدد کے لیے اُوپر چڑھ آئے ۔ اِن میں انسپکٹر خالد بھی تھا۔

’’اُس عمارت میں تو آگ لگ گئی ہے۔‘‘ اس نے عمران سے کہا۔

’’ان لوگوں کو بھجوانے کا انتظام کرو ۔‘‘ عمران بولا ۔ ’’اور تم میرے ساتھ آؤ۔ صرف دس آدمی کافی ہوں گے۔"

پھر اس نے کرنل سے کہا۔ " آپ بہت کمزور ہو گئے ہیں اس لیے اس وقت کوئی بیان نہ دیجیے گا۔“

’’کیا مطلب !‘ ‘خالد بھنا کر بولا۔

’’کچھ نہیں پیارے۔ تم میرے ساتھ آؤ۔ آدمیوں کو بھی   بلاؤ۔‘‘

’’ سب وہیں موجود ہیں۔ ‘‘خالد بولا۔

کرنل اور صوفیہ نیچے پہنچائے جاچکے تھے ۔ عمران خالد کے ساتھ پھر اُسی عمارت کی طرف بڑھا جس کی کھڑکیوں سے  گہر ادُ ھواں نکل کر فضا میں بل کھا رہا تھا۔ عمارت کے گردکانی بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی ۔ خالد کے آدمی جلد ہی آملے اور عمران انھیں ساتھ لے کر اندر گھستا چلا گیا۔ باہر کے سارے دروازے اُس نے پہلے ہی بند کر دیئے تھے اس لیے عمارت کے لوگ باہر نہیں نکل سکتے تھے اور باہر والوں کی ابھی تک ہمت نہیں پڑی تھی کہ عمارت میں قدم رکھ سکتے۔

 عمارت میں کچھ کمرے ایسے بھی تھے جہاں ابھی تک دُھواں گہرا نہیں ہوا تھا۔ ایسے ہی کمروں میں سے ایک میں انھیں پانچوں آدمی مل گئے ۔ وہ سب پینے میں نہائے ہوئے بری طرح ہانپ رہے تھے۔

’’کیا بات ہے؟  ‘‘عمران نے پہنچتے ہی للکارا۔

’’اُسے دیکھ کر ان سب کی حالت اور زیادہ ابتر ہوگئی۔

’’بولتے کیوں نہیں ۔‘‘ عمران پھر گر جا۔ ان میں سے کوئی کچھ نہ بولا۔ عمران نے خالد سے کہا۔

’’یہ شفٹن کے آدمی ہیں۔ دھوئیں کے بم بنا رہے تھے ۔ ایک بم پھٹ گیا ۔ "

’’بکواس ہے! ‘‘ بھاری جبڑوں والے نے چیخ کر کہا۔

’’ خیر‘  پر واہ  نہیں ۔ "خالد گردن جھٹک کر بولا ۔" میں تمہیں جس بے جا کے الزام میں حراست میں لیتا ہوں۔"

’’یہ بھی ایک فضول بات ہوگی ۔‘‘ بھاری جبڑوں والا مسکرا کر بولا ۔ " ہم نے کسی کو بھی جبس بے جا میں  نہیں رکھا۔"

’’ہاں ! خالد صاحب ! ‘‘ عمران حماقت آمیز انداز میں دیدے پھرا کر بولا ۔ " اس سے کام نہیں چلے گا ۔ جبس بے جاکا ثبو ت تو شائد یہاں سے اڑ چکا ہے۔ نہیں نہیں‘  یہ  لوگ بم بنارہے تھے ۔"

’’ ہتھکڑیاں لگادو۔‘‘ خالد نے اپنے آدمیوں کی طرف مڑ کر کہا۔

 

"دیکھو مصیبت میں پھنس جاؤ گے تم لوگ ۔ بھاری جبڑوں والا جھلا کر بولا ۔

’’ فکر نہ کرو ۔‘‘ خالد نے جیب سے ریوالور نکالتے ہوئے کہا۔ چپ چاپ ہتھکڑیاں لگوالو ۔ ور نہ انجام بہت برا ہو گا۔ میں ذرا فوجی قسم کا آدمی ہوں ۔"

ان سب کے ہتھکڑیاں لگ گئیں۔ جب وہ پولیس کی گاڑی میں بٹھائے جاچکے تو خالد نے عمران سے کہا۔ " اب بتائیے کیا چارج لگایا جائے ان کے خلاف۔ "

’’بم سازی قرب و جوار کے لوگوں نے دھما کہ ضرور سنا ہوگا۔ دس بارہ سیر گندھک اور دو ایک جار تیزاب کے  عمارت سے   برآمد کر لو ۔ سمجھے ۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔"

’’ اور وہ شفٹن  والا معاملہ۔‘‘ خالد نے پوچھا۔

’’ فی الحال تمہارے فرشتے بھی اس کے لیے ثبوت نہیں مہیا کر سکتے ۔ اچھا میں چلا کم از کم ان کی ضمانت تو ہونے  ہی نہ دینا ۔‘‘

15

 

دوسری صبح کرنل ضر نام کی کوٹھی کے کمپاؤنڈ میں محکمہ سراغرسانی کے ڈی۔ ایس کی کار کھڑی دکھائی دی اور اندردہ کرنل کا بیان لے رہا تھا۔ عمران نے رات ہی کرنل کو اچھی طرح پکّا کر لیا تھا اور اس وقت کرنل نے وہی سب کچھ دُ ہرا دیا تھا جو اُسے  عمران نے بتایا تھا۔ اُس نے ڈی۔ ایس کو بتایا کہ اُسے بھی پر اسرار شفٹن کا خط موصول ہوا تھا اور وہ محض اُسی کے خوف سے روپوش ہو گیا تھا۔ پھر اُس نے ڈی۔ ایس کی جرح کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ وہ اِس سے قبل بھی ایک بار شفٹن کا شکار ہوچکا ہے اور اُس موقع پر اُسے پچاس ہزار روپیوں سے ہاتھ دھونے پڑے تھے لیکن اُسے آج تک یہ نہ معلوم ہو سکا کہ شفٹن کسی تنہا  فرد کا نام ہے یا کسی گروہ کا۔

بہر حال کرنل نے اسے لی۔ یوکا اور اُس کے معاملات کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ پچھلی رات کے واقعات کے متعلق اُس نے بیان دیا کہ شفٹن کے آدمی اُس پر اور اُس کی لڑکی پر تشدد کر کے ایک لاکھ کا مطالبہ کر رہے تھے کہ اچانک عمارت میں دھما  کہ ہوا ۔ شفٹن  کے آدمی بدحواس ہو گئے ۔ اس طرح انہیں نکل آنے کا موقع مل گیا اور چونکہ اس کا سکریٹری عمران پہلے ہی صو فیہ کی تلاش  میں  اُدھر  کے چکّر کاٹ  رہا تھا  اس لیے  اُس نے  فو راً ہی  اس کی مدد کی ۔

پتہ  نہیں  ڈی ۔ایس  اِس  بیان سے مطمئن  بھی ہوا یا   نہیں ۔بہر حال  پھر وہ زیادہ  دیر تک   وہاں  نہیں  ٹھہرا۔

 صوفیہ  ابھی تک  خو فزدہ   تھی۔  اُس نے   عمران  سے پو چھا ۔

’’عمران صاحب  اب کیا ہو گا ؟

’’ اب گا نا ‘ نا چنا  سبھی کچھ  ہو گا ۔تم بالکل  فکر نہ کرو  ۔‘‘ عمران نے کہا ۔

’’کیا آپ  نے   سچ مچ  بم پھینکا تھا ‘‘’’ ارے توبہ  توبہ ‘‘ عمران  اپنا منہ  پیٹ کر بو لا ’’ ایسی  با تیں زبان سے   نہ  نکا لئے  ورنہ  میری ممی  مجھے گھر سے نکال دیں گی‘‘۔

صوفیہ  پھر کچھ بولنے  والی تھی کہ  کرنل  نے اپنے  کمرے سے  عمران  کو آواز دی ۔

عمران صوفیہ  کو وہیں چھو ڑ کر  کرنل  کے کمرے میں چلا گیا ۔کرنل   تنہا  تھا ۔ اس نے عمران  کے داخل ہو تے ہی   کمرے  کا دَرواز ہ بند کر دیا ۔

’’اُدھر  دیکھو !‘‘ کرنل نے   میز کی  طرف اشارہ کیا  جس  پر ایک بڑا سا خنجر پڑا ہو ا............تھا ۔

’’غا لباً لی ۔ یوکا   کی طرف سے دھمکی  ۔‘‘ عمران مسکرا کر بولا ۔

’’خدا کی قسم  تم بڑے  ذہین ہو ۔‘‘ کرنل نے اُس  کے  شانے  پر ہاتھ  رکھ کر  کا نپتی ہوئی  آواز میں کہا ۔’’ہاں ‘لی یو کا  کی طرف  سے ایک کھلا  ہو ا خط ۔اور  وہ خنجر اس کمرے  میں ۔مجھے حیرت  ہے کہ   انھیں  کون لا یا ۔‘‘

عمران  نے آگے بڑھ کر  خط  میزے   سے اُٹھا لیا ۔ خط  کے مضمون  کے نیچے  ’’لی یو کا ‘‘تحر یر تھا ۔ عمران  بلند  آواز  میں خط  پڑ ھنے لگا ۔

’’ کر نل ضر غام ‘ تمہیں  صرف ایک  مو قع  اور دیا  جا تا ہے اب بھی سوچ  لو۔ ورنہ تمہارا ایک بھتیجا  کل شام  تک   قتل کر دیا جا ئے گا خواہ  تم  اُسے کہیں  چھپا   دو۔اس پر  بھی    اگر تمہیں  ہو  ش نہ آیا  تو  پھر   اپنی لڑ کی کی لا ش دیکھو  گے ۔ اگر تم  کا غذات  وا پس کر نے پر  تیا ر ہو تو آج  شام کو  پا  نچ   بجے ایک  گیس  بھرا ہو ا غبا رہ  اپنی  کو ٹھی  کی کمپا  و نڈ سے اُ ڑا دینا ۔‘‘

خط  ختم  کرکے  عمران کرنل  کی طرف   دیکھنے لگا ۔

’’کرنل ڈکسن  مجھ  سے صیح وا قعہ  سننا  چا ہتا  ہے ۔‘‘ کرنل  نے  کہا ۔’’اُسے شفٹن  وا لی دا ستان پر یقین نہیں آیا ۔سمجھ  میں نہیں آتا کہ  شفٹن  کون ہے  اور کہاں  سے آٹپکا ۔‘‘

’’ شفٹن ۔‘‘ عمران  مسکرا کر بولا ۔’’ کچھ بھی  نہیں ہے ۔اسے لی یو کا  کی محض  ایک معمولی   سی چال  کہہ لیجیے ۔اُس نے   یہ  حرکت صرف  اس لیے  کی ہے کہ آپ پو لیس کی مدد نہ حا صل کر سکیں  ۔ذرا اس طرح سو چئے  کہ شہر کے سارے  سر برآور  دہ لوگ  پو لیس سے کسی شفٹن  کی شکا یت کرتے  ہیں ۔ اچانک  آپ پولیس  کی مدد طلب   کرتے   ہیں  اور لی یو ؔکا  کی دا ستان  سنا تے  ہیں ۔ نتیجہ  ظا ہر  ہے ۔ پو لیس  شفٹن اور لی ۔یو کا  دونوں بکواس سمجھے گی ۔اُس  سے  آپ مدد کے بجا ئے   یہی  جواب  پا ئیں  گے کہ شہر  کے کسی  شر یر آدمی  نے لو گوں  کو پر یشان  کر نے کے لیے   یہ سارا  ڈھو نگ  رچایا ہے ۔کیوں ۔کیا میں غلط کہہ رہا  ہوں۔

’’تم ٹھیک کہ رہے ہو ۔ ‘‘کرنل کچھ سوچتا ہوا بولا ۔"مگر اب میری عقل جواب دے رہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈکسن سے کیا کہوں ۔ ہم دونوں سالہا سال تک ہم نوالہ و ہم پیالہ ر ہے ہیں ۔ ہمارے درمیان میں کبھی کوئی   راز۔۔۔۔راز نہیں رہا۔"

’’میر اخیال ہے کہ اب آپ سب کچھ اُسے  بتا  دیجیے  اور ہم سب   ایک  جگہ  بیٹھ کر  آپس میں  مشو رہ کریں ۔گھر  بھر  کو اکٹھا کر  لیجیے ۔‘‘

’’ میں سوچتا ہوں کہ کیوں نہ  وہ کاغذات پولیس کے حوالے کردوں ۔‘‘  کرنل اپنی پیشا نی  رگڑتا ہوا بولا ۔

’’اس صورت میں آپ لی ۔ یوکا کے انتقام سے نہ بچ سکیں گے ۔"

’’یہی سوچ کر تو رہ جاتا ہوں ۔ کرنل نے بتایا ۔ " لیکن عمران بیٹے!مجھے یقین ہے کہ کاغذات واپس کر دینے کے بعد بھی میں نہ بیچ سکوں گا۔

’’نہ صرف آپ ۔ ‘‘عمران کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ " بلکہ وہ لوگ بھی خطرے میں پڑ جائیں گے جو اس وقت آپ کا ساتھ دے رہے ہیں ۔‘‘

" پھر میں کیا کروں۔"

تو بس اب خاموشی اختیار کیجیے۔ میں نوکروں کے علاوہ سارے افراد کو یکجا کر کے اُن سے مشورہ طلب کروں گا۔ ویسے اس دوران میں اگر آپ چاہیں تو فلمی گیت گا سکتے ہیں. ..کیا بول تھے اُس کے... ہاں ... دِل لے کے چلے تو نہیں جاؤ گے ہو راجہ جی ... ہو راجہ جی ۔“

" کیا بے ہودگی ہے۔ کرنل نے جھلا کر کہا  ‘پھر یک بیک ہنسنے لگا۔

 

16

اُسی دن پانچ بجے شام کو سرخ رنگ کا ایک گیس بھر اغبارہ کرنل کی کوٹھی کی کمپاؤنڈ سے فضا میں بلند ہورہا تھا۔ کمپاؤنڈ میں کبھی لوگ موجود تھے ۔ اور عمران تالیاں بجا بجا کر بچوں کی طرح ہنس رہا تھا۔

کرنل کے مہمانوں نے اس کی اس حرکت کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا کیونکہ اُن سب کے چہرے اُترے ہوئے تھے۔ کرنل نے آج دوپہر کو ان سب کے سامنے لی۔ یوکا کی داستان دُہرادی تھی ۔ ان پر سب نے یہی رائے دی تھی کہ اُس خطرناک آدمی کے کاغذات واپس کر دیئے جائیں۔ کرنل ڈکسن پہلے بھی لی۔ یو کا کا نام سن چکا تھا یوروپ والوں کے لیے یہ نام نیا نہیں تھا کیونکہ لی ۔ یوکا کی تجارت براعظم یوروپ میں عام تھی اور یہ تجارت سو فیصدی غیر قانونی تھی۔ مگر پھر بھی آج تک کو ئی  لی۔ یوکا پر ہاتھ نہیں ڈال سکا تھا۔ کرنل ڈکسن اور بارتوش، لی۔ یو کا کا نام سنتے ہی سفید پڑ گئے تھے۔

رات کے کھانے کے وقت سے پہلے ہی لی۔ یوکا کی طرف سے جواب آ گیا۔۔۔۔ بالکل اُسی پر اسرار طریقے پر جیسے صبح   والا پیغام موصول ہوا تھا۔ عارف نے ایک دروازے کی چوکھٹ میں ایک خنجر پیوست دیکھا جس کی نوک کاغذ کے ایک ٹکڑے کو چھیدتی ہوئی چوکھٹ میں گھس گئی تھی۔

 کاغذ کا یہ ٹکڑا در اصل لی۔ یو کا کا خط تھا جس میں کرنل کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ دوسرے دن ٹھیک نو بجے اُن کاغذات کو  دیو گڑھی والی مشہور سیا ہ چٹان کے کسی رخنے میں خو درکھ دے  یا کسی سے رکھوا دے۔ لی۔ یوکا کی طرف سے یہ بھی   لکھا گیاکہ اگر کرنل کوکسی قسم کا خوف محسوس ہو تو وہ اپنے ساتھ جتنے آدمی بھی لانا چاہے لاسکتا ہے۔ البتہ فریب دہی کی صورت میں اُسے کسی طرح معاف نہ کیا جاسکے گا۔

کھانے کی میز پر اِس خط کے سلسلے میں گرما گرم بحث چھڑ گئی۔

ایک تجویز جو میرے ذہن میں ہے۔ "با رتوش نے کرنل ضرغام سے کہا۔ " لیکن بچوں کے سامنے  اس کا تذکرہ کرنا ضروری نہیں سمجھتا ۔ "

’’مسٹر با رتوش ۔ ‘‘عمران بولا ۔  ’’آپ مجھے تو بچہ نہیں  سمجھتے ؟‘‘

’’ تم شیطان کے بھی دادا ہو۔ "بارتوش بے ساختہ مسکر ا پڑا ۔

’’شکر یہ‘ میرے پوتے مجھے ہر حال میں یا در رکھتے ہیں۔‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔

کرنل ڈکسن اسے گھورنے لگا‘ وہ اب بھی عمران کو کرنل ضر نام کا پرائیویٹ سکریٹری سمجھتا تھا۔ لہٰذا اُسے ایک  چھو ٹے آدمی کا بار توش جیسے معزز مہمان سے بے تکلف ہونا بہت گراں گزرا لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔

 کھانے کے بعد صوفیہ ، مارتھا، انور اور عارف اُٹھ گئے۔

کر نل ضر غام بڑی بے چینی سے بار توش کے مشورے کا انتظار کر رہا تھا۔

’’میں ایک آرٹسٹ ہوں ۔ "بارتوش نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔’’ بظاہر مجھ سے اس قسم کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی کہ میں کسی ایسے الجھے ہوئے معاملے میں کوئی مشورہ دے سکوں گا ۔“

’’مسٹر بار توش ۔‘‘ کرنل ضرغام بے صبری سے ہاتھ اٹھا کر بولا ۔’’ تکلفّات کسی دوسرے موقع کے لیے اٹھا رکھیے۔‘‘

 با رتوش چند لمحے سوچتا رہا پھر اُس نے کہا۔’’ لیؔ یو کا کانام میں نے بہت سنا ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اس قسم کی مہموں میں خود بھی حصہ لیتا ہے اس کے متعلق اب تک میں نے جو روایات سنی ہیں اگر وہ سچی ہیں تو پھر لی ؔیوکا کو اس وقت سونا گری ہی میں موجود ہونا چاہیے۔“

’’اچھا ۔‘‘عمران اپنے دیدے پھرانے لگا۔

’’اگر وہ یہیں ہے تو ہمیں اس موقع سے ضرور فائد ہ اٹھانا چاہیے ۔ ‘‘ بارتوش نے کہا۔

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ۔‘‘ کرنل بولا ۔

’’ اگر ہم لی ؔیوکا کو پکڑ لیں تو یہ انسانیت کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی ۔"

کر نل حقارت آمیز انداز میں ہنس پڑا لیکن اس ہنسی میں جھلّا ہت کا عنصر زیادہ تھا اس نے کہا ۔’’ آپ ل یوؔکا   کو پکڑیں گے ۔ اس لؔی یو کا کو جس کی تحریریں میری میز پر پائی جاتی ہیں۔ یعنی وہ جس وقت چاہے ہم سب کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔"

’’ٹٹ ۔ ٹٹ !‘‘بارتوش نے بر اسامہ بنا کر کہا۔ " آپ یہ سمجھتے ہیں کہ لی یؔوکا یا اس کا کوئی آدی مافوق الفطرت قوتوں کا مالک ہے۔ نہیں ڈیر کرنل ۔ میرا دعوٰی ہے کہ اس گھر کا  کوئی فرد‘ لی یوؔ کا سے ملا ہوا ہے۔‘‘ پھر اُس نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے میز پر گھونہ مارتے ہوئے کہا۔ " میرا دعویٰ ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں۔"

کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ کرنل ضر غام سانس روکے ہوئے بار توش کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’’ میں مسٹر بار توش سے متفق ہوں۔ عمران کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد پھر سکوت ہو گیا۔

آخر کر نل ضر غام گلا صاف کر کے بولا ۔’’ وہ کون ہو سکتا ہے۔"

 

" کوئی بھی ہو ۔ "بارتوش نے لاپروائی سے اپنے شانوں کو جنبش دی ۔’’ جب واسطہ لی ؔیو کا سے ہو تو کسی پر بھی اعتماد نہ کرنا چاہیے۔ ‘‘

’’آپ سے غلطی ہوئی تھی کرنل صاحب ۔‘‘ عمران نے کرنل ضرغام سے کہا ۔’’ آپ کو مسٹر بار توش سے پہلے ہی تبادلۂ خیال کرنا چاہیے تھا۔ لیؔ یوکا کے متعلق ان کی معلومات بہت وسیع معلوم ہوتی ہیں ۔ ‘‘

’’قطعی وسیع ہیں‘ میں لی ؔیوکا کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں، ایک زمانے میں میری زندگی انتہائی ارذَل طبقے میں گزری ہے‘ جہاں چور، بدمعاش اور ناجائز تجارت کرنے والے عام تھے۔ زندگی کے اس دور میں مجھے لیؔ یو کا کے متعلق بہت کچھ سنے کا اتفاق ہوا تھا۔ کرنل کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ لیؔ یو کا ان کا غذات کو اپنے آدمیوں کے ذریعے حاصل کرے گا... ہرگز نہیں! وہ خود انہیں اس جگہ سے اٹھائے گا جہاں رکھ دیئے جائیں گے ۔ لیؔ یو کا کا کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے مگر ان کاغذات میں ہے کیا ؟"

جہاں تک میرا خیال ہے ان میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے لی یو کا کی شخصیت پر روشنی پڑ سکے‘‘ کرنل ضر غام نےکہا ۔

’’واہ۔‘‘ عمران گردن جھٹک کر بولا ۔ " جب آپ چینی اور جاپانی زبانوں سے واقف ہی نہیں تو یہ بات اتنے وثوق کے ساتھ کیسے کہ رہے ہیں؟"

’’چینی اور جاپانی زبانیں۔ "بار توش کسی سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے کہا۔’’ کیا آپ مجھے وہ کاغذات دکھا سکتے ہیں؟“

’’ ہر گز نہیں ۔‘‘ کرنل نے نفی میں سر ہلا کر کہا۔’’ یہ ناممکن ہے۔ میں انہیں ایک پیکٹ میں رکھ کر سیل کرنے کے بعد لی ؔیو کا کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا دوں گا ۔“

’’آپ انسانیت پر ظلم کریں گے ۔‘‘ بارتوش پر جوش لہجے میں بولا۔’’ بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ خود کو پولیس کی حفاظت میں دے کر کاغذات اس کے حوالے کر دیں۔

’’مسٹر بارتوش میں بچہ نہیں ہوں ۔‘‘ کرنل نے تلخ لہجے میں کہا ۔" کا غذات عرصۂ دراز سے میرے پاس محفوظ ہیں۔اگر مجھے پولیس کی مدد حاصل کرنی ہوتی تو کبھی کا کر چکا ہوتا ۔ "

’’پھر آخر انہیں اتنے  دنوں روکے رکھنے کا کیا مقصد تھا ؟"

’’مقصد صاف ہے۔ ‘‘کرنل ڈکس پہلی بار بولا۔ ’’ ضر غام محض اسی بنا پر ابھی تک زندہ ہے کہ وہ کا غذات ابھی تک اس کے قبضے میں ہیں۔ اگر لی  یؔو کا کا ہاتھ ان پر پڑ گیا ہوتا۔ تو ضر غام ہم میں نہ بیٹھا ہوتا۔"

’’ٹھیک ہے۔‘‘ بارتوش نے کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا۔

’’لیکن تمہاری اسکیم کیا تھی ۔ کرنل ضر غام نے بے صبری سے کہا۔

’’ٹھہرو میں بتاتا ہوں۔‘‘ بارتوش نے کہا چند لمحے خاموش رہا پھر بولا ۔’’ لی یؔو کا بتائی ہوئی جگہ پر تنہا آئے گا۔ مجھے یقین ہے اگر وہاں کچھ لوگ پہلے ہی سے چھپا دیے جائیں تو "

’’تجویز معقول ہے۔‘‘ عمران سر ہلا کر بولا  ۔ ’’لیکنا بھی آپ کہہ چکے ہیں کہ خیر ہٹائیے اسے مگر بلی کی گردن میں گھنٹی باند ھے گا کون ۔ کرنل صاحب پولیس کو اس معاملہ میں ڈالنا نہیں چاہتے اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ دوبلّی چپ چاپ گلے میں گھنٹی بندھوا ہی لے۔  "

’’تم مجھے دو جگہ دکھاؤ۔ پھر میں بتاؤں گا کہ بلّی  کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔‘‘ بارتوش نے اکڑ کر کہا۔

تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر وہ سر گوشیوں کے سے انداز میں مشورہ کرنے لگے۔ آخر یہ طے پایا کہ وہ لوگ اسی وقت چل کر دیو گڑھی کی سیاہ چٹان کا جائزہ لیں۔ کرنل  ضر غام ہچکچا رہا تھالیکن عمران کی سرگرمی دیکھ کراسے بھی ہاں میں ہاں ملانی پڑی۔ اب عمران کی حماقتوں پر بھی اعتماد کرنے لگا تھا۔

رات تاریک تھی۔ کرنل ضر  غام، کرنل  ڈکسن ، بارتوش اور عمران دشوار گزار راستوں پر چکراتے ہوئے دیو گڑھی کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی ٹار چیں تھیں۔ جنہیں وہ اکثر روشن کر لیتے۔ ڈکسن ، ضر غام  بارتوش مسلح تھے۔ لیکن عمران کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کیونکہ بظاہر تو اس کے ہاتھ میں ایر گن نظر آرہی تھی اور ایر گن ایسی کوئی چیز نہیں جس کی موجودگی میں کسی آدمی کو مسلح کہا جاسکے۔

سیاہ چٹان کے قریب پہنچ کر وہ رک گئے ۔ یہ ایک بہت بڑی چٹان تھی۔ اندھیرے میں وہ بہت زیادہ مہیب نظر آری تھی۔ لیکن اس کی بناوٹ کچھ اس قسم کی تھی کہ وہ دور سے کسی بہت بڑے اژد ہے کا پھیلا ہوا منہ معلوم ہوتی تھی۔

 تقریبا آدھے گھنٹے تک بار توش اس کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا۔ ” بہت آسان ہے۔ بہت آسان ہے۔ ذرا ان غاروں کی طرف دیکھو۔ ان میں ہزاروں آدمی بیک وقت چھپ سکتے ہیں۔ ہمیں ضرور اس صورت حال سےفائدہ اٹھانا چاہیے۔"

’’ لی یوکا کے لیے صرف ایک آدمی کافی ہوگا ۔‘‘ عمران نے کہا۔

’’میں آج تک سمجھ ہی نہیں سکا کہ تم کس قسم کے آدمی ہو۔‘‘ بار توش جھنجھلا گیا۔

’’کیا میں نے کسی قسم سے ہٹ کر کوئی بات کہی ہے ۔‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔

’’فضول با تیں نہ کرو ۔ ‘‘کرنل ڈکسن نے کہا ۔

’’اچھا تو آپ ہزاروں آدمی کہاں سے مہیا کریں گے ...جب کہ کرنل ضر غام پولیس کوبھی درمیان میں نہیں لا نا  چا ہتے ۔‘‘

پولیس کو درمیان میں لانا پڑے گا۔ "با رتوش بولا ۔

’’  ہر گز  نہیں ۔ ‘‘کرنل ضر نام نے سختی سے کہا۔’’ پولیس مجھے یا میرے گھر والوں کولی ؔیوکا کے انتقام سے نہ بچا سکے گی۔"

’’ تب تو پھر کچھ بھی نہیں ہوسکتا ۔ "بارتوش مایوسی سے بولا۔

’’ میں یہی چاہتا ہوں کہ کچھ نہ ہو ۔ " کر تل ضر غام نے کہا۔

 تھوڑی دیر تک خاموشی رہی  ‘پھر یک بیک عمران نے قہقہ لگا کر کہا۔ " تم سب پاگل ہو گئے۔ میں تم سب کو گدھا  سمجھتا  ہوں ۔ ‘‘ پھر اس نے ایک طرف اندھیرے میں چھلانگ لگا دی۔ اس کے قہقہے  کی آواز سناٹے  میں گونجتی ہوئی آہستہ آہستہ  دور جارہی تھی۔

’’ کیا یہ  سچ مچ پاگل ہے۔ ‘‘کرنل ڈکسن بولا ۔ ’’یا پھر خودہی لیؔ یو کا تھا۔‘‘

کسی نے جواب نہ دیا۔ ان کی ٹارچوں کی روشنیاں دور دور تک اندھیرے کے سینے میں پیوست ہورہی تھیں لیکن نہیں عمران کی پر چھائیاں بھی نہ دکھائی دیں۔

 

17

دوسری صبح مہمان اور گھر والے بڑی بے چینی سے کرنل ضرغام کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ لی یوؔ کا کے کاغذات کا پیکٹ لے کر تنہا دیو گڑھی کی طرف گیا تھا۔ سب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس کا تنہا جانا ٹھیک نہیں مگر کر نل کسی کو بھی اپنے ہمراہ لے جانے پر رضامند نہیں ہوا تھا۔ عمران تو رات ہی سے غائب تھا۔ انہوں نے اُسے بڑی دیر تک چٹانوں اور غاروں میں تلاش کیا تھا اور پھر تھک ہار کر واپس آگئے تھے۔

صوفیہ کو عمران کی اس حرکت پر حیرت تھی مگر اس نے کسی سے کچھ کہا نہیں۔ تقریباً دس بجے کرنل ضرغام واپس آگیا۔ اس کے چہرے سے تھکن ظاہر ہورہی تھی۔ اس نے کرسی پر گر کر اپنا جسم پھیلاتے ہوئے ایک طویل انگڑائی لی۔

’’ کیا رہا ؟‘‘کرنل ڈکسن نے پوچھا۔

’’ کچھ نہیں، وہاں بالکل سناٹا تھا۔ میں پیکٹ ایک محفوظ مقام پر رکھ کر واپس آگیا ۔‘‘ ضرغام نے کہا۔ تھوڑی دیر خاموش رہا پھر کہنے لگا۔’’ وہاں سے صحیح سلامت واپس آجانے کا مطلب یہ ہے کہ اب کی ؔیوکا مجھے یا میرے خاندان والوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘

 

دو ابھی کچھ اور کہتا لیکن اچانک ان نے عمران کا قہقہہ سنا‘ وہ کاندھے پر ایر گن لٹکائے ہاتھ جھلاتا ہوا کمرے میں داخل  ہور ہا تھا۔ اس کے چہرے پر اس وقت معمولی سے زیادہ حماقت برس رہی تھی۔

 ’’واہ کرنل صاحب۔‘‘ اس نے پھر قہقہ لگایا۔ ’’ خوب بے وقوف بنایالی ؔیوکا کو نعوذ باللہ نہیں غالباً سبحان اللہ کہنا   چا ہیے ۔وا قعی  آپ  بہت ذہین ہیں۔

’’کیا بات ہے ۔‘‘ کرنل  ضر غام  جھنجھلا  کر بولا ۔

’’ یہی پیکٹ رکھا تھاتا آپ نے۔ عمران جیب سے ایک براؤن رنگ کا پیکٹ نکال کر دکھاتا ہوا بولا۔

" کیا  یہ کیا کیا تم نے ۔ ‘‘ کرنل اُچھل پڑا۔

 عمران نے پیکٹ پھاڑ کر اُس کے کاغذات فرش پر ڈالتے ہوئے کہا۔’’ لی ؔیو کا سے مذاق کر تے ہوئے  آپ کو شرم آنی  چاہیے تھی۔ اس کے باوجود بھی اس نے آپ کو زندہ رہنے دیا۔"

فرش پر بہت سے سارے کاغذ بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے کرنل بوکھلائے ہوئے انداز میں  بڑبڑا تا ہوا کاغذات پر جھک پڑ  امگر دوچند لمحے بعد بدحواسی سے بولا ۔’’ میں نے کاغذات رکھے تھے مگر تم نے اُسے وہاں سے اُٹھا یا ہی کیوں ؟"

’’اس لیے کہ میں ہی لی یؔو کا ہوں۔ ‘‘عمران نے گرج کر کہا۔

’’تت تم !‘‘کرنل ہکلا  کر رہ گیا۔ بقیہ لوگ بھی منہ کھولے ہوئے عمران کو گھور رہے تھے اور اب عمران کے چہرے پر حماقت کے بجائے سفا کی برس رہی تھی۔

’’نہیں۔  نہیں "صوفیہ خوف زدہ آواز میں چینی ۔

 عمران نے کاندھے سے ایرگن اتاری اور اسے بار توش کی طرف تا نتا ہوا بولا۔

"مسٹر بارتوش پچھلی رات تم مجھے پکڑنے کی اسکیمیں بنا رہے تھے۔ اب بتاؤ  ۔تمہیں تو میں سب سے پہلے ختم کردوں گا۔

’’یہ کیا بد تمیزی ہے ۔‘‘ بارتوش ضر نام کی طرف دیکھ کر غّرایا۔’’ میں اسے نہیں برداشت کر سکتا ۔‘‘ پھر وہ کرنل ڈکسن سے بولا ۔” میں کسی ہوٹل میں قیام کرنا زیادہ پسند کروں گا۔ یہ بدتمیز سکریٹری شروع ہی سے ہمارا مضحکہ اڑاتا رہا ہے۔"

’’ضر غام۔‘‘ ڈکسن نے کہا۔’’ ایسے بے ہودہ سکریزی سے کہو کہ وہ مسٹر بارتوش سے معافی مانگ لے ۔‘‘

’’مسٹر بارتوش - " عمران چبھتے ہوئے لہجے میں بولا ۔" میں معافی چاہتا ہوں لیکن تم اصلی کا غذات کا پیکٹ ہضم  نہیں کر سکو گے۔ بہتر یہی ہے کہ اُسے میرے حوالے کر دو ۔"

" کیا مطلب !‘ کرنل ضرغام ایک بار پھر اُچھل پڑا۔

بارتوش کا ہاتھ بڑی تیزی سے جیب کی طرف گیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں عمران کی اور  ایر گن چل گئی۔ بارتوش   چیخ مار کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بازو سے خون کا فوارہ نکل رہا تھا۔

 پھر یک بہ اس نے عمران پر چھلانگ لگائی۔ عمران بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ بارتوش اپنے ہی زور میں سامنے والی دیوار سے جا ٹکر ایا۔ عمران اس کے کولھے پر  ایر گن  کا کند ا  رسید کرتا ہوا بولا۔

" کنفیوشس نے کہا تھا۔"

بار توش پھر پلٹا  لیکن اس بار اُس کا رُخ دروازے کی طرف تھا۔

’’یہ کیا بے ہودگی ہے۔ ‘‘کرنل ضر غام حلق پھاڑ کر چیخا ۔ ٹھیک اسی وقت انسپکٹر خالد کمرے میں داخل ہوا اور اس نے بھا گتے  ہوئے بار توش کی کمر پکڑ لی۔ حالانکہ بار توش کے بازو کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی لیکن پھر بھی اس کا جھٹکا اتناز و ر دار تھا کہ خالد اُچھل  کر دور جا گرا۔اس بار عمران نے رائفل کا کند ا اس کے سر پرر سید کرتے ہوئے کہا۔

’’کنفیوشس اس کے علاوہ اور کیا کہتا۔ ‘‘

بار توش چکرا کر گر پڑا۔ عمران اُسے گریبان سے پکڑ کر اٹھا تا ہوا بولا۔

’’ذرالیؔ یوکا کی شکل دیکھنا۔ وہ لیؔ یو کا جس نے دو سو سال سے دنیا کوچکّر میں ڈال رکھا تھا۔"

’’ کیا تم پاگل ہو گئے ہو ۔ کرنل ڈکسن چیخ کر بولا ۔

عمران نے اس کی طرف دھیان دیے بغیر انسپکٹر خالد سے کہا۔ " اس کے پاس سے اصلی کا نفذات کا پیکٹ برآمد کرو۔ "

اس دوران میں باور دی اور مسلح کانسٹیبلوں کے غول کے غول عمارت کے اندر اور باہر اکٹھا ہوتے جارہے تھے ۔

عمران نے لیؔ یو کا یا بارتوش کو ایک آرام کرسی میں ڈال دیا، اس کے کپڑوں کی تلاشی لینے پر واقعی اس کے پاس سے برا ان رنگ کا سیل کیا ہوا پیکٹ برآمد ہوا۔ خالد نے اُسے اپنے قبضے میں کر لیا۔

 بار توش پرغشی طاری ہوتی جارہی تھی۔ پھر یک بیک اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔

’’آہا کرنل ۔‘‘ عمران مسکرا کر بولا ۔’’ کل رات اس نے کیا کہا تھالی ؔیو کا کاغذات خود حاصل کر لے گا اِس نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ حاصل کر لیے اس نے ۔ اس کے علاوہ دنیا کا کوئی فرد لی  یوؔ کا نہیں ہوسکتا۔ پچھلی رات اس نے اس قسم کی باتیں کرنل کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کی تھیں۔ کیوں کرنل آپ نے اسی کے سامنے کاغذات کا پیکٹ بنایا تھا۔“

’’یہ سبھی موجود تھے ۔  ‘‘کرنل ضر غام خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔

" مجھے اس پر اسی دن شبہ ہو گیا تھا جب یہ مجھے جڑی بوٹیوں کی تلاش کے بہانے چٹانوں میں لے گیا تھا اور واپسی پر میں نے صوفیہ کو غائب پایا تھا۔ بہر حال کل رات ہی کو اس نے کاغذات اپنے قبضے میں کر لیے تھے اور ان کی جگہ سادے کاغذات کا پیکٹ رکھ دیا تھا۔ کیوں کرنل ڈکسن یہ تمہارا دوست کب بنا؟“

 " آج سے تین سال قبل، جب یہ لندن میں مقیم تھا۔‘‘

شفٹن کو لے جاؤ انسپکٹر۔‘‘ عمران نے خالد سے کہا۔ شفٹن یا لی یوؔ کا  تم نے آج ایک بہت بڑے مجرم کو گرفتار کرلیا ہے۔ وہ مجرم جو دو سو سال سے ساری دنیا کو انگلیوں پر نچاتا رہا ہے ۔“

’’دو سو سال والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ " خالد نے کہا

’’ تم اُسے فی الحال لے جاؤ ۔ دو گھنٹے بعد مجھ سے ملنا  ر پورٹ تیار ملے گی ۔‘‘ عمران بولا ۔’’ بہر حال لی ؔیو کا کو تم نے گرفتار کیا ہے۔ علی عمران ایم سی ،پی ایچ۔ ڈی کا نام کہیں نہ آنا  چاہیے۔"

 

18

 

وہ شام کم از کم کرنل ضر غام کے لیے خوشگوار تھی حالانکہ کرنل ڈکسن کو بھی اب بار توش کے پردے میں لی ؔیوکا کے وجود کا یقین آ گیا تھا۔ مگر پھر بھی اس کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی ۔ پتہ نہیں اسے اس اچانک حادثہ کا صدمہ تھا یا  یہ اس بات کی شرمندگی تھی کہ وہ  ضر غام کے دشمن کو اس کا مہمان بنا کر لایا تھا ۔

 چائے کی میز پر صوفیہ کے قہقہے  بڑے جاندار معلوم ور ہے تھے۔ اس دوران میں شاید پہلی باروہ اس طرح دل کھول کر قہقہے لگارہی تھی اور عمران کے چہرے پر وہی پرانی حماقت طاری ہوگئی تھی۔

’’یہ دوسو سال والی بات میں بھی نہیں سمجھ سکا ۔‘‘ کرنل ضرغام نے عمران کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’دوسوسال تو بہت کم ہیں، جوطریقہ لی یؔو کانے اختیار کیا تھا  اس کے تحت اس کا نام ہزاروں سال تک زندہ  رہتا ۔  عمران سر ہلا  کر بولا ۔‘‘لیؔ یوکا صرف ایک نام ہے، جسے نسلاً بعد نسبل مختلف افراد اختیار کرتے ہیں۔ یہ طریقہ  بڑ اعجیب ہے۔ کسی لی یو ؔکا نے بھی پنی اولاد کو اپنا وا رث  نہیں بنایا۔ یہ دراصل  لی ؔیوکا کا ذاتی انتخاب ہوتا تھا۔ وہ اپنے گرو ہ ہی کے موزوں آدمی کو اپنی  وراثت سونپ کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور یہ انتخاب وہ اس وقت کرتا ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ وہ بہت جلد مر جائے گا اور پھر دوسرالی ؔیو کا بالکل اُسی کے نقشِ پر چلنا شروع کر دیتا   ہے ۔ میراخیال ہے کہ بارتوش کو میں نے دوسرے لی یؔو کا کے انتخاب کا موقع ہی نہیں دیا ، اس لیے ہمیں فی الحال یہی سوچنا چاہیے کہ دنیالی یؔوکا کے وجود سے پاک ہوگئی ۔"

’’لیکن شاید ہم اس کے گروہ کے انتقام سے نہ بچ سکیں ۔  ‘‘کرنل ڈکسن بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔

’’ہر گز نہیں ۔‘‘ عمران نے مسکرا کر کہا۔’’ اب لی یوؔکا کے گروہ کا ہر آدمی کم از کم کروڑ پتی تو ضرور ہی ہو جائے گا بس یہ سمجھو کہ گروہ ٹوٹ گیا۔ لی ؔیو کا کی موجودگی میں ان پر دہشت سوار رہتی تھی اور وہ اس کے غلاموں سے بھی بدتر تھے۔ دہشت کی وجہ صرف یہ تھی کہ لی ؔیوکا کا  و جو د تاریکی میں ہوتا تھا اور اب میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ پچھلے پچیس سال سے اس کا گروہ بغاوت پر آمادہ رہا ہے۔ اس کی طرف سے آپ لوگ مطمئن رہیں ۔ کوئی لیؔ یو کا کے نام پر آپ کی طرف انگلی بھی نہ اٹھا سکے گا۔ ‘‘

’’ لیکن تمہیں یقین کیسے آگیا تھا کہ بارتوش ہی لی یو کا ہے؟‘‘ کرنل ضرغام نے پوچھا۔

’’ مجھے اس پر اسی دن شبہ ہو گیا تھا جب وہ مجھے جڑی بوٹیوں کی تلاش میں لے گیا تھا۔ اس کے بعد سے میں مستقل طور پر اس کی ٹوہ میں لگار ہا اور پچھلی رات کو میں نے خود اُسے چوکھٹ میں خنجر پیوست کرتے دیکھا تھا۔“

’’او ہ کرنل کی آنکھیں پھیل گئیں ۔

’’مگر عمران صاحب، یہ آپ نے اپنی کامیابی کا سہرا اسپکٹر خالد کے سرکیوں ڈال دیا ؟ ‘‘ صوفیہ نے پوچھا۔

’’یہ ایک لمبی  داستان ہے ۔ ‘‘عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔’’  میں نہیں چاہتا کہ میرا نام اس سلسلے میں مشہور ہو۔  "

"آخر کیوں؟"

’’ہاہا میری ممی  ٹھیٹھ  مشرقی قسم کی خاتون ہیں اور ڈیڈی سو فیصدی انگریز ۔ وہ  تو بعض اوقات واک آؤٹ کر جاتے ہیں مگرممی  گاڈمے انکریز ہر ٹرائب (God may increase her tribe) یعنی خدا ان کے بال بچوں کو آبادرکھے۔ کبھی بھی جوتیاں سنبھال لیتی ہیں اور پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خطِ استوا سے کتنے فاصلے پر ر  ہوں، یقین کیجیے کہ بعض اوقات ایسی حالت میں مجھے بیس  کا پہاڑ ہ بھی یاد نہیں آتا ۔‘‘

’’ لڑ کے تم بڑے خطر ناک ہو۔ ‘‘کرنل ضر عام مسکرا کر بولا ۔ " مگر آخر یہ تمہاری  ایر گن کیا بلا ہے جس نے بار توش کا ایک باز و تو ڑ دیا ۔"

’’کیا عرض کروں ۔‘‘ عمران مغموم لہجے میں بولا ۔ " میں اس کم بخت سے عاجز آ گیا ہوں۔ اس میں سے کبھی کبھی پوائنٹ ٹوٹو بور کی گولیاں نکل پڑتی ہیں ہے نا حماقت ۔"

 

19

 

تین دن بعد اخبارات میں انسپکٹر خالد کی طرف سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں کرنل ضر نام تک چند پر اسرار کاغذات پہنچنے کے حالات سے لے کر موجودہ گرفتاری تک کے واقعات بیان کیے گئے ، آخر میں اُن کا غذات کی نوعیت پر بحث کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر کر نل ضر غام چینی اور جاپانی سے نابلد نہ ہوتا یا اگر وہ کاغذات کسی ایسے آدمی تک لے جائے گئے ہوتے جس کے لیے یہ دونوں زبانیں اجنبی نہ ہو تیں تو لی ؔیو کا کی شخصیت کافی حد تک روشنی میں آگئی ہوتی۔ ان کا غذات میں ایک چینی سراغرساں کی رپورٹ بھی شامل تھی جو چینی محکمٔہ سراغرسانی کے ہیڈ کوارٹر کے لیے لکھی گئی تھی ۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ موجودہ لی ؔیوکا ، جاپانی نہیں بلکہ زیکو سلواکیہ کا ایک باشندہ ہے۔ انسپکٹر خالد کے بیان کے مطابق اس چینی کی شخصیت مشتبہ تھی جس سے یہ کاغذات کرنل ضرغام کو ملے تھے۔ اس کے متعلق وثوق سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ خودہی سراغرساں تھا جس نے یہ رپورٹ لکھی تھی یا پھر وہ لی ؔیوکا کا کوئی آدمی تھا جس نے یہ کاغذات اس سراغرساں سے حاصل کر کےلی ؔیو کا تک پہنچانے چاہے تھے ۔

 انسپکٹر خالد کی رپورٹ میں کسی جگہ بھی عمران کا حوالہ نہیں تھا لیکن رپورٹ خود عمران ہی نے تیار کی تھی۔

 لی ؔیو کا بارتوش نے ہوش میں آنے کے بعد نہ صرف اقرارِ جرم کر لیا بلکہ یہ بات بھی صاف کر دی کہ اب اس کے بعد اس سلسلے کا کوئی دوسرالی یو ؔکا نہ ہوگا۔

 اس کے سر کی چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی اور وہ اپنے متعلق کچھ بتانے سے پہلے ہی مر گیا۔

Khaufnaak Imarat Novel by Ibn-e-Safi

Post a Comment

0 Comments