Jungal ki Aag By Ibn-e Safi|جنگل کی آگ-ابن صفی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Jungal ki Aag By Ibn-e Safi|جنگل کی آگ-ابن صفی


جنگل کی آگ
-ابن صفی

Jungal ki Aag By Ibn-e Safi

1

جنگل کی آگ-ابن صفی


ٹیلی فون  کی گھنٹی بج رہی تھی ۔ فر یدی نے ہا تھ بڑھا کر ریسیو  ر ا ٹھا لیا ۔

’’ہیلو ‘‘

’’ فریدی….میں عر فانی بول رہا ہو   بو ڑھا عرفانی ۔ مَیں خطر ے میں ہو ں !‘‘

’’کیا با ت ہے ؟‘‘ فریدی نے پو چھا ۔

لیکن جواب ندارد ۔ سلسلہ منقطع نہیں ہوا تھا۔ فریدی نے ریسیو رکان سے لگا ئے رکھا ۔

 ’’ ہیلو    ہیلوعر فانی صاحب ۔ فر یدی بول رہا ہے !‘‘ فر یدی نے دوبارہ کہا ۔

لیکن پھر بھی کو ئی جواب نہ ملا اور پھر فر یدی نے ایک ہلکی سی آواز سنی ۔ اسی کے ساتھ ہی کسی کے چیخنے کی آواز آئی ۔

’’ فا ئر ۔‘‘ فر یدی آہستہ سے بڑ بڑایا اور اُس نے ریسیو رکھ دیا ۔

’’ حمید !‘‘

اس نے حمید کو آواز دی جو برابر ہی کے کمرے میں اپنی پالتو چو ہیا اختر شیرا نی کی کوئی نظم سنا رہا تھا۔

’’ فر مایئے!‘‘ اس نے اس دخل اندازی پر بُرا سا منہ بنا کر کہا ۔

’’اٹھو ۔ ہمیں جلدی ہے !‘‘ فریدی نے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر کہا ۔

’’ عر فانی صاحب خطر ے میں ہیں !‘‘

’’ہو ں گے !‘‘ حمید نے بے پر وائی سے کہا ۔

’’ اٹھو !‘‘ فریدی نے اس کا بازو پکڑ کر جھنجھو ڑ ڈالا۔

فریدی چو نکہ صورت سے پر یشان نظر آرہا تھا اس لئے حمید نے زیادہ پھیلنا منا سب نہ سمجھا ۔ فر یدی کو اتنی جلدی تھی کہ اس نے اُسے سلیپنگ سو ٹ بھی نہ اتار نے دیا۔

کیڈی پھا ٹک سے نکل کر ایک طرف کو ہولی ۔

’’کو ئی خطرناک مہم ؟‘‘ حمید نے پوچھا ۔

’’یقیناً خطرناک ہی ہو سکتی ہے ۔ عر فانی صاحب خطرے میں ہیں!‘‘

’’کو ن عرفانی صاحب ؟‘‘

’’ ایک طرح سے تم انہیں میرا اُستا د بھی سمجھ سکتے ہو !‘‘

’’ آپ نے پہلے کبھی اس قسم کے کسی آدمی کا تذکرہ نہیں کیا !‘‘ حمید نے کہا ۔

’’اوہو تم نے محکمے کے آدمیو ں میں کبھی اُن کا تذکرہ ضرو ر سنا ہو گا ۔ ہمارے پیش روؤ ں میں وہ کافی مشہور تھے!‘‘

اوہ سمجھا ۔ وہی بو ڑھا تو نہیں جسے نیلے رنگ کا خبط ہے !‘‘

 ’’ ٹھیک سمجھے !‘‘

’’ لیکن وہ آپ کے اُستا د کس طرح ہوئے ؟‘‘

’’ شرو ع میں انہو ں نے اکثر میری رہنمائی کی ہے ۔ والد مر حوم کے دو ستو ں میں سے ہیں ۔ پہلی عالمیگر جنگ کے دور ان میں وہ ملٹری سیکرٹ سرو س سے متعلق تھے ۔ ریٹائر ہو نے کے بعد سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے ہیں لیکن میں سو چتا ہوں ‘ ایسا شخص سمجھ میں نہیں آتا کیا معا ملہ ہے ۔ انہو ں نے فون پر مجھ سے اتنا ہی کہا کہ میں خطرے میں ہوں ۔ میں نے خطر ے کی نو وعیت پو چھنی چاہی لیکن جواب نہیں ملا فو ن ڈِس کنکٹ نہیں کیا گیا تھا پھر میں نے فائر کی آواز سنی اور ایک ہلکی سی چیخ ‘‘

’’ کیا وہ گھر پر اکیلے ہی ہیں ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’ قر یب قریب !‘‘ فریدی نے پُر تشو یش لہجے میں لہا ۔’’ ایک نو کر ہے ۔ وہ اتنا بہرہ ہے کہ جب تک اُس کے کان میں منہ لگا کر چیخا نہ جائے نہیں سن سکتا !‘‘

’’ عر فانی صاحب مال دار آدمی ہیں ؟‘‘

’’ہا ں ۔ کافی !‘‘ فریدی پھر خاموش ہو گیا ۔

ساڑھے گیا رہ بج چکے تھے ۔ سڑکیں سنسان ہوتی جارہی تھیں ۔ رات کُہر آلو د ہو نے کی وجہ سے تاریکی کچھ اور بڑھ گئی تھی ۔ 

کیڈی کیلاش بُر ج کو پار کر کے شہر کے ایک ایسے حصے میں داخل ہو رہی تھی جہا ں گھنی آبادی نہیں تھی ۔ خال خال ایک آدھ عمارتیں نظر آجاتی تھیں جن کی کھڑ کیو ں میں لپٹی ہو ئی د ھندلی رو شنی ادھو رے خو ابو ں کی یا د کی طرح او نگھ رہی تھی ۔

فر یدی نے ایک عمارت کے سامنے کیڈی رو ک  دی ۔ وہ دونو ں نیچے اُتر ے ۔ پا ئیں باغ میں اندھیراتھا۔

عمارت کی کسی کھڑکی کی میں بھی روشنی نہیں تھی ۔

’’ گاڑی سے ٹا رچ نکال لو !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

حمید واپس چلا گیا ۔ اتنے میں فریدی بر آمد ے تک پہنچ گیا تھا ۔ اُسے کہیں بھی کسی قسم کی آواز نہ سنائی دی ۔ وہ چند لمحے ساکت وصامت کھڑا رہا۔

حمید ٹا رچ لے کر واپس آگیا ۔

بر آمد ے میں چار دروازے تھے اُن میں سے ایک کے دونو ں پَٹ کھلے ہو ئے تھے ۔ ٹارچ کی روشنی ایک طو یل راہ داری میں پڑی اور جیسے ہی وہ اندر داخل ہو ئے انہیں خرّ اٹو ں کی آواز سنائی دی ۔ روشنی کا  دائر ہ آواز کی سمت گھو م گیا ۔ بائیں طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ اند ر ایک ضعیف العمر آدمی کے خرّ اٹے گو نج رہے تھے۔

’’نو کر ۔‘‘ فریدی آہستہ سے بو لا ۔

اور وہ پھر آگے بڑھ گئے ۔ اس کے کمرے کے علا وہ انہیں ہر کمرے میں انتشا ر اور بد نظمی نظر آئی ۔ صندوق کھلے ہو ئے ، ساما ن بکھرا ہوا حتی ٰ  کہ فرش پر بچھی ہوئی قا لین تک اُلٹی پڑی تھی ۔ فر یدی ہر کمرے کا بلب  روشن کر تا جا رہا تھا۔

آخری کمرے میں حمید کو ٹیلی فون کے علا وہ ہر چیز نیلے رنگ کی نظر آئی ۔ نیلے پر دے ، نیلا فر نیچر ، دروازوں پر نہ صرف نیلا پینٹ تھا بلکہ ان کے شیشے بھی نیلے ہی رنگ کے تھے ۔ دیوارو ں پر نیلے رنگ کا پا لش تھا ۔ اس نیلگو ں طو فان میں وہ اس چیز کو نظر انداز ہی  کر گئے جس پر ان کی نظر پہلے ہی پڑنی چا ہئے تھی ۔ کر سی کے پھٹے ہو ئے گدّوں  یا بکھری ہو ئی چیز وں کی اس کے سامنے کو ئی اہمیت نہیں تھی ۔ یہ تازہ خون کا ایک بہت بڑا دھبہ تھا جو لکھنے کی بڑی میز کے نیچے فرش پر نظر آرہا تھا ۔

دونو ں ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا لیکن کچھ بو لے نہیں ۔ پھر  فر یدی کی  نظر یں  فون کے ریسیو ر پر جم گئیں جو میز کے سامنے والے کنا رے پر جھول گیا تھا ۔

’’اسے تو پ کی گرج بھی نہیں جگا سکتی !‘‘ فر یدی نے کہا اور جُھک کر خون کے دھبے کو دیکھنے لگا۔

تھو ڑی دیر بعد وہ پھر سیدھا کھڑا ہو گیا ۔ اُس کے چہرے پر گہری تشویش کے آثار تھے اور آنکھیں مضطر بانہ انداز میں گر دو پیش کا جا ئز ہ لے رہی تھیں۔

’’ عر فانی صاحب کی زندگی میں تو یہ نا ممکن تھا !‘‘ وہ آہستہ سے بڑ بڑایا ۔‘‘ دس آدمی گھر کی حالت اس طر ح نہیں بگا ڑ سکتے تھے !‘‘

’’ تو کیا حمید کچھ کہتے کہتے رُک گیا ۔

’’ آخر لا ش کیا ہو گئی ؟‘‘ فر یدی پُر تشو یش لہجے میں بو لا ۔

’’ لاش !‘‘ حمید چو نک کر بو لا ۔

’’ یہ خون !‘‘ فر یدی نے جواب کے دھبے کی طرف اشارہ کیا اور یہ ریسیور جو میز سے لٹکا ہوا ہے ، عر فانی صاحب مجھے فون کر رہے تھے ۔ فا ئر کی آواز چیخ ایسی صورت میں اس کے علا وہ اور کیا کہا جا سکتا ہے ۔ پھر حملہ آوروں نے گھر کا سامان اُلٹ پلٹ ڈالا ۔ کر سیو ں کے گدّے تک پھا ڑ ڈالے گئے ۔

حمید کچھ نہ بولا ۔ اس کی نظر یں کھلی ہو ئی تجو ری پر جمی ہو ئی تھیں۔

’’لیکن !‘‘ حمید بو لا ۔’’ حملہ آور نے اِ نہیں نظر انداز کر دیا !‘‘ اِس نے تجو ری کے سامنے فرش پر بکھر ے ہو ئے نو ٹو ں کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کے قریب کچھ زیورات بھی تھے جن میں قیمتی پتھر جگمگا رہے تھے۔

’’ ہم اِسے ڈاکہ نہیں کہہ سکتے !‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’ دوسرے کمرو ں میں بھی بہتیر ا قیمتی سامان ہوا دیکھتے آئے ہیں!‘‘

حمید کچھ نہ بولا ۔ صا ف ظاہر تھا کہ حملہ آوررں کو کسی خاص چیز کی تلاش تھی ۔ ایسی چیز جسے کر سی کے گدّوں میں بھی چھپا یا جا سکتا تھا۔

’’نو کر کو جگا نا چا ہئے !‘‘ حمید نے کہا ۔

فر یدی کچھ سو چتا ہو ا اس طرف مڑا ۔ چند لمحے اس کی آنکھو ں میں دیکھتا رہا پھر آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھا ۔

دونو ں نو کر کے کمرے میں آئے ۔ وہ اب بھی اُسی طرح  خرّاٹے لے رہا تھا ۔ فر یدی نے بلب روشن کر دیا

حمید اُسے جھنجھو ڑرہا تھا ۔

’’کیا ہوا ۔ کیا بات ہے ؟‘‘ بو ڑھا ہڑ بڑا  کر اُٹھ بیٹھا ۔’’آپ کو ن ہیں ؟‘‘

پھر انہیں اُسے سب کچھ سمجھا نے میں بڑی دُشواری پیش آئی ۔ چیختے چیختے حمید کا گلا بیٹھ گیا ۔ وہ اُسے اس کمرے میں لے آئے جہا ں انہو ں نے خون دیکھا تھا ۔

بو ڑھے کی گھگھّی بند ھ گئی ۔

’’صاحب کک کہا ں ہیں ؟‘‘ اس نے ہکلا کر پو چھا ۔

فر یدی نے اُسے اپنے فون والا واقعہ بتایا ۔

’’تو یہ صاحب کا  خون !‘‘ بو ڑھا کر ب نا ک انداز میں چیخا اور پھر ایسا معلوم ہوا جیسے وہ چکر اکر گر پڑے گا ۔ حمید نے آگے بڑھ کر اُسے اسنبھال لیا ۔

تقر یباً پندرہ بیس منٹ تک اُس کی حالت غیر رہی ، کبھی وہ چپ چاپ آنسو بہا تا اور کبھی چیخنے لگتا ۔ بڑی مشکلو ں سے 

فر یدی اُسے گفتگو کر نے پر آمادہ کر سکا ۔ اس نے بتا یا کہ آج کوئی ملا قاتی بھی نہیں آیا تھا اور وہ حسب معمول کامو ں سے فر اغت پا نے کے بعد نَو بجے سو نے کے لئے چلا گیا تھا ۔

فر یدی نے دو چار سو لا ت اور کیے اور جوابات سے اُس نے اندازہ لگا لیا کہ نو کر عر فانی کے ذاتی معاملات میں دخیل نہیں تھا ۔

’’بہتر تو یہی ہے کہ اس کو اس کے کمرے میں پہنچا دو !‘‘ فر یدی نے حمید سے کہا ۔

حمید کے جانے کے بعد وہ پھر کمرے کا جائز ہ لینے لگا ۔ اس نے دروازوں کے پر دے ہٹا ئے ۔ دیواروں کو دیکھتا رہا  اور پھر اُسی میز کے قریب پلٹ آیا  جس کے نیچے خون کا دھبہ تھا۔

حمید کی واپسی پر اُس نے آہستہ سے کہا ۔

’’فا ئر کر نے کے فو راً بعد ہی کمرے کی روشنی گُل کر دی گئی تھی !‘‘ حمید کچھ نہیں بولا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس کی سمجھ ہی میں نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے ۔ یہ واقعہ اُس پر اچانک نا زل ہوا تھا ورنہ وہ اس وقت آرام سے اپنے بستر پر خرّاٹے لے رہا ہوتا ۔

اور حملہ آوروں کو اپنے شکار سے زیادہ اس چیز کی تلاش کی فکر تھی جس کے لئے انہو ں نے گھر میں اَبتری پھیلا ئی ہے ۔

’’یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟‘‘ حمید نے یو نہی کچھ سو چے سمجھے بغیر زبان ہلادی ۔

’’کیو نکہ اُن کے اسی رجحا ن نے عرفانی صاحب کو فرار ہونے میں مدددی!‘‘

’’کیا مطلب ؟‘‘ حمید چونک پڑا ۔’’ ابھی تو آپ کسی لاش کا تذکرہ کر رہے تھے !‘‘

’’پہلا خیال غلط تھا !‘‘ فریدی چارو ں طرف متجسا نہ نظر وں سے دیکھتا ہو ا بو لا ۔

’’مگر ہو سکتا ہے کہ حملہ آورلاش بھی اپنے ہمرا ہ لے گئے ہو ں !‘‘  حمید نے کہا ۔

’’نہیں کچھ نشانات اس بات کی تر دید کر تے ہیں!‘‘  فر یدی بولا ۔

’’مثلاً اِدھر آؤ اس دروازے کا پر دہ ہٹا ؤ!‘‘

حمید پر دہ ہٹا کر کھڑا ہو گیا اور واقعی وہ نشان کسی اندھے آدمی کے لئے بھی واضح تھا ۔ دروازے کے ایک ہَٹ پر فرش سے تقریباً ڈیڑھ فٹ اونچائی پر خون کا ایک بڑا سا دھبہ تھا جس سے پتلی پتلی کئی لکیر یں نیچے تک بہہ آئی تھیں۔

’’گولی شا ید پشت پر لگی تھی !‘‘ فریدی بڑبڑا یا ۔’’ وہ میز کے نیچے سے گھسٹتے ہوئے یہا ں تک آئے ۔ کچھ دیر دروازے سے ٹیک لگا ئے ہو ئے بیٹھے رہے پھر !‘‘

فریدی دروازے کی چٹخنی کی طرف دیکھنے لگا جو گری ہو ئی تھی ۔

’’ہو سکتا ہے کہ وہ پھر اسی دروازے سے نکل گئے ہو ں ۔ ذرا ٹارچ مجھے اٹھا دینا ۔ اوہو یہ پھر آگیا !‘‘

فریدی کی نظر یں بہر ے نو کر پر جم گئیں جو دروازے میں کھڑا انہیں سہمی ہو ئی نظر وں سے دیکھ رہا تھا۔

حمید آگے بڑھ کر اس کے کان  میں چیخنے لگا ۔ بد قّت تمام وہ اُسے سمجھا پا یا کہ اس کا ما لک مرانہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ نکل گیا ہو اور اُسے اپنے کمرے میں اُس وقت تک خاموش بیٹھنا چا ہئے جب تک کہ پو لیس نہ آجائے۔

فریدی دروازہ کھول کر دوسری طرف نکل گیا تھا ۔ نو کر کو واپس بھیج کر حمید نے بھی اُس کی تقلید کی۔

فر یدی کی ٹارچ کی روشنی کمرے کے فر ش پر پڑ رہی تھی ۔

’’بلا شبہ وہ اس کمرے سے گز رے تھے ۔ یہ رہا خون !‘‘

روشنی کا دائر ہ دُور تک فرش پر رینگتا ہوا چلا گیا ۔ اور پھر وہ سامنے والی دیو ار پر رُک گیا ۔ فر ش سے تقریباً چار یا پا نچ فیٹ کی بلند ی پر ایک اور بڑا سا دھبہ تھا ۔

’’یہ دروازہ !‘‘ فریدی نے دھکا دے کر دروازہ کھول دیا ۔ دوسرے لمحے میں وہ دونو ں پا ئیں باغ کے داہنے بازو میں تھے ۔ روشنی کا دائرہ بڑی تیزی سے تاریکی میں اِدھر اُدھر گردش کر رہا تھا ۔

پا ئیں باغ کی حالت اَبتر تھی ۔ ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے بہت عر صے سے اُس کی خبر نہیں لی گئی ۔ کیا ریو ں میں خشک پَو دے کھڑے تھے اور منہد ی کی با ڑ ھیں بڑی بے تر تیبی سے اَدھر اُدھر پھیل گئی تھیں جہا ں صرف خود رَو جھا ڑیا ں سر سبز دکھا ئی دے رہی تھیں ورنہ ہر طر ف خزاں کا راج تھا ۔

’’زمین سخت ہے !‘‘ فر یدی بڑ بڑا یا ۔ وہ جھکا ہو ا قد مو ں کے نشا نا ت تلا ش کر رہا تھا ۔

’’وہ کیا ؟‘‘ دفعتہّ حمید چیخا ۔

ما لتی  کی خو درَو جھا ڑ یا ں عجیب انداز میں ہل رہی تھیں ۔ فر یدی سید ھا کھڑا ہو گیا ۔ اب رو شنی کا دائر ہ ہلتی ہو ئی جھا ڑیو ں پر پڑ رہا تھا ۔ دفعتہ ّ جھا ڑ یو ں سے کسی آدمی کا ایک پَیر با ہر نکل آیا اور جھا ڑیا ں بد ستو ر ہلتی رہیں ۔

فر یدی جھا ڑیو ں کے قر یب پہنچ چکا تھا اور پھر انہو ں نے ایک عبر تنا ک منظر دیکھا ۔ بو ڑھا عر فا نی جھا ڑ یو ں کو اپنی مٹھیو ں میں جکڑ ے ہو ئے بے چینی اور کر ب میں ہا تھ پیر پٹخ رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہو ئی تھیں اور چہر ہ ہر قسم کے تا ثرات سے عاری تھا ۔

’’عر فانی صا حب !‘‘ فر یدی بے احتیا ر اُس پر جھُک پڑا ۔

 عر فانی کی آنکھیں کچھ اور کشا دہ ہو گئیں ۔

’’میں فر یدی ہو ں عر فانی صاحب !‘‘ فر ید ی پھر چیخا ۔

دفعتہّ ایسا معلو م ہو ا جیسے عر فانی ہو ش میں آگیا ہو ۔ اس کے چہرے پر نر ما ہٹ دو ڑ گئی اور آنکھیں خوا بنا ک انداز میں بو جھل ہو گئیں ۔

’’دیر ہو گئی !‘‘ عر فانی آہستہ آہستہ بڑ بڑا رہا تھا ۔ ’’فف ری دی دیر ہو گئی نن اُف نیشنل بینک نن نیشنل بینک !‘‘

پھر اس کا سارا جسم تھر تھرانے لگا اور گر دن ایک جھٹکے کے ساتھ دوسری طرف گھو م گئی ۔

’’عر فانی صاحب !‘‘فر یدی نے اُسے جھنجھو ڑا ۔’’ عر فانی صاحب !‘‘

لیکن عر فانی ہمیشہ کے لئے خامو ش ہو چکا تھا ۔ شاید پندرہ یا بیس منٹ تک وہ ہیں بُت بنے کھڑ ے رہے ۔

’’پو لیس کے آنے تک لاش یہیں پڑی رہے گی !‘‘ با لآ خر فر یدی بو لا ۔

’’ کیا معا ملہ ہے ؟‘‘ حمید نے آہستہ سے کہا ۔ ’’ نیشنل بینک آخر اس کا کیا مطلب ہے ؟‘‘

’’اس پر پھر غور کریں گے !‘‘ فریدی نے دوبا رہ کمرے کی طرف جا تے ہو ئے کہا ۔

حمید بھی اُس کے پیچھے تھا لیکن اب اُسے نیند نہیں ستا رہی تھی ۔

وار دات والے کمرے میں پہنچ کر فر یدی چند لمحے خا مو ش کھڑا رہا پھر بو لا ۔

’’انہیں کسی چیز کی تلا ش تھی اور وہ چیز دولت نہیں ہو سکتی ورنہ وہ ان نو ٹو ں اور زیورات کو ضرور لے جا تے

’’کیا چیز ہو سکتی ہے ؟‘‘ حمید بڑ بڑا یا ۔ فر یدی کچھ نہ بو لا ۔ وہ پھر کمرے کی چیز و ں کو الٹنے پلٹنے لگا تھا ۔ دفعتہّ اس کے منہ سے ہلکی سی آواز نکلی ۔ حمید چونک کر اُس کی طرف دیکھنے لگا ۔

’’سنو !‘‘ فریدی نے اُسے مخاطب کیا ۔ ’’ذرادیکھو ں تو ۔ کیا عر فانی صاحب کی قمیص کی جیب محفوظ ہے !‘‘

’’کیا مطلب ؟‘‘ حمید حیرت سے بو لا ۔

’’چلو جلدی کر و !‘‘

’’میں کچھ سمجھا ہی نہیں ۔ جیب محفوظ ہو نے سے آپ کا کیا مطلب ہے ؟‘‘

’’اوہ ۔ دیکھو  قمیص میں جیب مو جو د ہے یا نہیں ؟‘‘ وہ حمید کی طرف ٹارچ بڑھا تا ہوا بو لا ۔

حمید چلا گیا ۔ فر یدی بڑی میز کی درازیں کھو ل کھو ل کر دیکھ رہا تھا ۔ کبھی کبھی بو ڑھے نو کر کے رو نے کی آواز عمارت میں گو نج اٹھتی تھی ۔

تھو ڑی دیر بعد حمید واپس آگیا ۔

’’شا ید انہو ں نے عر فانی صاحب کو بھی پا لیا تھا !‘‘ حمید نے کہا ۔

’’کیو ں ؟‘‘

’’اُن کی ساری جیبیں الٹی ہو ئی ہیں ۔ انہیں اچھی طر ح دیکھا گیا ہے !‘‘

’’میں نے تمہیں قمیص کی جیب دیکھنے کو بھیجا تھا !‘‘ فر یدی نے تیز لہجے میں کہا ۔

’’قمیص کی جیب اپنی جگہ ہر ہے !‘‘ حمید جھنجھلا کر بو لا ۔

’’تب تو !‘‘ فر یدی حمید کت لہجے کو نظر انداز کر کے بو لا ۔ ’’یہ ٹکڑا کسی قمیص کی جیب ہی معلو م ہو تا ہے اور یہ وز یٹنگ کا رڈ !‘‘

فر یدی میز پر رکھے ہو ئے کپڑے کے ٹکڑے اور  ملا قاتی کا رڈ کی طرف اشارہ کر رہا تھا ۔ ’’ یہ دونو ں فر ش پر ملے ہیں ۔ ملا قاتی کا رڈ کپڑ ے کے نیچے تھا !‘‘

’’تو اس یہ مطلب ہے کہ خا صی جدو جہد بھی ہو ئی ہے !‘‘حمید کچھ سو چتا ہو ا بو لا ۔

’’یقیناً۔ اس کا رڈ پر ہا تھ کی مضبو ط گر فت کے نشا نات ہیں !‘‘ فریدی نے کہا ۔

’’اور یہ کا رڈ کسی جو زف پیڑ کا ہے جو سو لہ کنگس لین میں رہتا ہے !‘‘

’’سراغ !‘‘ دفعتہّ حمید کا چہرہ چمک اُٹھا ۔

’’اب تم کو تو الی فون کر سکتے ہو  !‘‘ فریدی بڑ بڑایا ۔

حمید ٹیلی فو ن کی طرف بڑھا ۔

’’نہیں !‘‘ فر یدی ہاتھ اٹھا کر بو لا ۔ ’’اِسے یو نہی رہنے دو ۔ تھو ڑے ہی فا صلے پر ایک دوسر ی عمارت ہے وہا ں فون ضرور ہو گا !‘‘

حمید کے چہر ے پر ہچکچا ہٹ کے آثا ر نظر آرہے تھے ۔

’’اوہ سمجھا ۔ تم شب خوابی کے لبا س  میں کسی شر یف آدمی کا درواز ہ نہیں کھٹ کھٹا نا چا ہتے !‘‘ فر یدی مسکرا کر بو لا ۔ ’’خیر تم یہا ں ٹھہر و میں جا تا ہو ں !‘‘

حمید ، فریدی کے قد مو ں کی آواز  سنتا رہا ۔

2

          دوسریصبح کے اخبا رات نے عر فانی کے پُرا سرا ر کے متعلق بڑی مو ٹی مو ٹی سر خیا ں  جما ئی تھیں لیکن ایک با ت حمید کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ آخر لاش کی دریا فت کے سلسلے میں اُس کا اور فر یدی کا نا م کیو ں نہیں لیا گیا تھا ۔ اس کے بر عکس خبر کے مطا بق لا ش عر فانی کے نو کر نے دیکھی تھی اور اُسی نے پو لیس کو بھی مطلع کیا تھا ۔ کچھ بھی ہو یہ چیز کم از کم اُس کے لئے پر یشان کُن تھی ۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ فریدی اس کیس کو با عدہ طور پر اپنے ہا تھ میں لے چکا ہے ۔

اُس نے جھنجھلا ہٹ میں اپنے منہ پر دو وہ چار تھّپٹر لگا ئے اور اٹھ کر غسل خانے کی طر ف چلا گیا ۔

آج اتوار تھا اور اُس نے پر و گرام بنا یا تھا کہ اپنے گر انڈ یل احمق دوست قاسم کے ساتھ مچھلیو ں کا شکا ر کھیلنے جا ئے گا ۔ حا لا نکہ فریدی نے ابھی تک اُسے کسی کا م میں نہیں گھسیٹا تھا پھر بھی اُسے اپنے مو ڈ کی عا فیت خطر ے میں نظر آنے لگی تھی ۔ آج کل اُس کا مو ڈ بڑا اچھا اور وہ دن رات نئی نئی شرا رتو ں کی ایجا د کے چکر میں رہتا تھا ۔ اس نے بڑی تیز ی سے شیو کیا ۔ کپڑے تبدیل کئے اور نا شتے کی پَر وا کئے بغیر گھر سے نکل گیا ۔ وہ جا نتا تھا کہ نا شتے کی میز پر فریدی کو ئی کام ضرور اُس کے سپر ددکر دے گا ۔

اس کی مو ٹر سائیکل بڑی تیز ی سے قاسم کی اِقا مت گا ہ خان وَلا کی طرف جا رہی تھی ۔ قاسم کا باپ خان بہا در عا صم شہر کے بہت بڑے سر ما یہ دارو ں میں سے تھا اور قاسم اس کا اکلو تا لڑکا تھا ۔ خان ولا میں صرف قاسم اور اُس کی بیو ی رہتے تھے اور ان کی ازدوا جی زندگی بڑی تلخ گز ر رہی تھی اور اس کی تلخی کی بنیا د پہلے ہی دن سے پڑی تھی ۔ وہ بھی قاسم کی حما یت کی نبا پر ۔ وہ اپنے دوستو ں میں گر انڈیل احمق کے نا م سے مشہو ر تھا ۔ لو گو ں کا خیا ل تھا اس کے جسم کی نشو و نما کے سلسلے میں بے چار ی عقل غذا بنتی رہی تھی اور آخر میں جسم ہی جسم رہ گیا عقل صاف ہو گئی ۔

بہر حال قاسم شادی ہو جا نے کے بعد بھی اکثر اپنا سر پیٹ پیٹ کر کہا کر تا تھا کہ میں اب بھی کنوارا ہو ں۔ یہ مسئلہ اس کے دوستو ں کے لئے خا صی دلچسپی کا مو ضو ع تھا ۔

قاسم نے حمید کو دیکھ کر ایک گھَن گر ج قسم کا قہقہہ لگا یا ۔ وہ صبح کا اخبا ر دیکھ رہا ۔ اس نے اُسے ایک طرف رکھتے ہو ئے کہا ۔

’’اِتنے سو یر ے ! ابھی تو مچھلیاں نا شتے سے بھی فا رغ نہ ہو ئی ہو ں گی !‘‘

’’لیکن میں نے ابھی نا شتہ نہیں کیا !‘‘

’’بڑی ْخو شی ہو ئی !‘‘ قاسم ہنس کر بو لا ۔ ’’تو پھر میرے ساتھ نا شتہ کرو !‘‘

قاسم کسی نو کر کا کا م لے کر چیخنے کگا ۔

’’ارے تم کو گد ھو ں کی طر ح چیختے ہو ئے شرم بھی نہیں آتی !‘‘

’’پھر کیا کرو ں ۔ اب اُٹھے کون ؟‘‘

’’گھنٹی کیو ں نہیں رکھتے ؟‘‘

’’گھنٹی !‘‘ قاسم جھینپ کر بولا ۔

حمید ہنسنے لگا ۔ قاسم اپنے عادات واطوار کے لحا ظ سے عجیب ہی نہیں بلکہ عجیب تر ین تھا ۔

نو کر چلا گیا ۔

’’کیا صُلح ہو گئی بیو ی سے ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’اس تذکرے کو نہ چھیڑ و حمید بھا ئی !‘‘ قاسم غمگین آواز میں بو لا پھر اخبا ر حمید کے سامنے رکھ کر ہنسنے لگا ۔ حمید نے اُسے گھو ر کر دیکھا ۔

’’مجھے سرا غر سانی سے دلچسپی ہو چلی ہے !‘‘قاسم نے کہا ۔ ’’اس قتل کے متعلق تمہا را کیا خیا ل ہے ؟‘‘

’’اچھا تو آپ بھی مجھے بو ر کر یں گے !‘‘حمید آنکھیں نکا ل کر بو لا ۔

’’ابے اِسی وجہ سے تو میں گھر سے بھا گا ہو ں !‘‘

’’نہیں اللّہ قسم حمید بھا ئی ۔ اگر تم تھو ڑی سی مدد کر و تو میں سرا غر سا ں بن سکتا ہو ں !‘‘

’’شٹ اَپ !‘‘

’’اچھا سنو ۔ میں نے کیا رائے قا ئم کی ہے !‘‘

’’بکو !‘‘ حمید بے زاری سے بو لا ۔ اس کی چمک اُٹھی تھی۔

’’اخبا ر والو ں نے لکھا ہے کہ قا تلو ں کو کسی تلاش تھی !‘‘ قاسم مفکرانہ انداز میں اپنے گول گول دیدے پھرا کر بولا ۔’’انہو ں نے کر سیو ں کے گدے تک پھا ڑ ڈالے ۔ کیا چیز ہو سکتی ہے ؟‘‘

وہ سوالیہ نظر و ں سے حمید کی طرف دیکھنے لگا ۔

’’نا شتے میں کتنی دیر لگے گی !‘‘

’’کا ش میں پو چھ سکتا !‘‘ قاسم گہری سا نس لے کر بو لا ۔ ’’چھو ڑ و حمید بھا ئی اس تذکرے کو ۔ ہا ں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ عر فانی کے پا س کو ئی ہیرا تھا۔ بہت بڑا شا ید مر غی کے انڈے کے برا بر !‘‘

’’ہو سکتا ہے کہ وہ تر بوز کے برا بر رہا ہو !‘‘ حمید جھنجھلا کر بو لا ۔ ’’لیکن میں نے ابھی تک نا شتہ نہیں کیا ۔ اب میں جا رہا ہو ں !‘‘

’’ارے نہیں ہی ہی ہی ! ‘‘ پہلے تو قاسم ہنسا پھر یک بیک اُسے غصہ آگیا ۔ اس نے بھر ا ئی آواز میں کہا ۔’’یہ  بیو ی سا لی اس قا بل ہے کہ اسے بر ف کے پا نی میں غرق کر دیا جا ئے ۔ ارے بھو ک کے مارے میری جا نب بھی نکلی جا رہی ہے ۔ ہر معا ملے میں ٹا نگ اَڑاتی ہے ۔ اب وہ با ورجی سے اُلجھ رہی ہو گی آؤ چلو !‘‘

وہ دونو ں کھا نے کے کمرے میں آئے ۔ میز خا لی پڑی تھی ۔ قاسم اُسے دونو ں ہا تھو ں سے پیٹتا ہو ا چیخنے لگا

’’ کہا ں مر گئے سب ۔ ابھی تک نا شتہ   !‘‘

دفعتہّ ایک نو کر دو ڑ تا ہوا کمر ے میں آیا ۔

’’ابے اوبتا شے کی اولا د ۔ نا شتہ ؟‘‘ قاسم حلق پھاڑ کر چیخا ۔

’’وہ بیگم صاحب !‘‘ نو کر ہکلا یا ۔

’’بیگم صاحب کو فرا ئی پا ن میں ڈالو ۔ میں کہتا ہو ں نا شتہ !‘‘

’’سر کا ر ۔ وہ خو ر حلو ہ تیا ر کر رہی ہیں !‘‘

’’ہا ئیں ۔خو د تیا ر کر رہی ہیں !‘‘ قاسم آنکھیں پھا ڑ کر بو لا ۔ ’’ابے میں حلو ہ کب سے کھا نے کگا ہو ں !‘‘

’’میرے لئے تیا ر کر رہی ہو ں گی !‘‘ حمید مسکرا کر بو لا اور قا سم اُسے قہر آلود نظر وں سے گھو ر کر رہ گیا ۔

’’اَبے تو جو کچھ تیا ر ہو وہی لا ؤ !‘‘ قاسم گر جا ۔

نو کر چلا گیا ۔

’’اِسی لئے تو وہ تم سے گھبراتی ہے !‘‘حمید نے کہا ۔

’’وہ کیا اُس کا باپ بھی مجھ سے گھبراتا ہے !‘‘قاسم اکڑ کر بولا۔’’ میں نے تو چا ہا تھا کہ وہ اپنے باپ کے پا س چلی جا ئے لیکن وہ اسے بھی نہیں منظور کر تی !‘‘

دفعتہّ قاسم کی آواز گلو گیر ہو گئی ۔ ’’حمید بھا ئی ۔ میں کنواراہی مر جا ؤ ں گا !‘‘

’’شہا دت کا درجہ ملے گا تمہیں !‘‘ حمید بے پر وائی سے بولا ۔

’’میں ہر گز کنوارا نہیں مر سکتا !‘‘ قاسم پھر بپھر گیا ۔ ’’میں ایک آدھ کا خخ خون !‘‘

وہ اچانک خاموش ہو گیا کیو نکہ اُس کی بیوی کمرے میں دا خل ہو رہی تھی ۔ اس کے پیچھے نا شتے کی ٹرالی تھی ۔ وہ حمید کو دیکھ کر بڑے دلآویز انداز میں مسکرائی ۔ وہ حقیقاً ایک پیا ری سی گڑیا تھی ۔  دہلی پتلی نا زک اندا م اور کا فی خو بصورت بھی ۔ قاسم اور اُس کا جو ڑ دراصل پہا ڑ اور گلہر ی کا پیو ند تھا ۔

’’معا ف کیجئے گا آپ لو گو ں کو انتظا ر کر نا پڑا !‘‘ اس نے کہا ۔

’’کو ئی بات نہیں ۔ ظاہر ہے کہ آئیٹم بڑھ گئے ہو ں گے !‘‘ حمید مسکرا کر بو لا ۔ ’’قاسم آپ کی بڑی تعر یف کر رہے تھے !‘‘

’’اگر ایسا ہے تو مجھے خود کشی کر لینی چا ہئے !‘‘ قاسم کی بیو ی نے سنجید گی سے کہا ۔

’’کیا ؟‘‘ قاسم اس طرح اُچھلا جیسے بچھّو نے ڈنک ما ر دیا ہو ۔

’’میں نے آپ سے تو کہا نہیں !‘‘

آئی ایم ساری !‘‘ قاسم مسمسی صورت بنا کر رہ گیا ۔

میز پر نا شتہ چُن دیا گیا ۔ قاسم کے سامنے بکرے کی ایک ران اور ایک پو را مر غ تھا ۔ حمید کو اس پر حیرت نہ ہو ئی کیو نکہ وہ اس کی خو راک سے بخو بی واقف تھا ۔

’’آپ کے لئے تو پھر دردسری کا سامان مہیّا ہو گیا !‘‘ قاسم کی بیو ی نے حمید سے کہا ۔

’’میں نہیں سمجھا !‘‘

’’کیا آپ نے آج کا اخبا ر نہیں دیکھا ؟‘‘

’’اوہ ۔ مجھے اُس قتل سے کو ئی سر و کا ر نہیں ۔ محکمے میں اکیلے ہم ہی تو نہیں ہیں !‘‘

’’ہا ں تو حمید بھائی !‘‘ قاسم بکرے کی رَان اُد ھیڑ تا ہو ا بو لا ۔ ’’میں یہ کہہ رہا تھا کہ قاتلو ں کو اُسی ہیرے کی تلاش تھی اور وہ اُسے لے گئے ۔ دو چار قتل ابھی اور ہو ں گے !‘‘

’’کیا آج کل تم منشی تیر تھ رام کے تر جمے پڑھ رہے ہو ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’ہا ئیں تمہیں کیسے معلو م ہو ا ؟‘‘ قاسم آنکھیں پھا ڑ کر بو لا ۔ ’’اللّہ قسم سو فی صد سرا غر سا ں ہو ۔ کیا نا م تھا اُس کا اَما ں وہی ہملاک شو مز تم تو اُس سے بھی آگے بڑھ گئے !‘‘

’’شرلا ک ہو مز !‘‘ قاسم کی بیو ی نے تصحیح کی ۔

’’ہملاک شو مز !‘‘ وہ گو شت اُدھیڑتے اُدھیڑ تے رُک کر اپنی بیو ی کو گھو رنے لگا ۔

’’آپ سمجھائے !‘‘ اس کی بیو ی نے حمید سے کہا ۔

’’میں کو ئی بچہ ہو ں !‘‘ قاسم دہا ڑنے لگا ۔’’ مجھے کو ن سمجھا ئے گا ؟‘‘

’’ آپ کی یاد داشت اس قاسم نہیں ہے کہ اس پر بھر وسہ کیا جا ئے !‘‘ بیو ی نے اُسے چِڑایا ۔

’’کیا؟‘‘ قاسم حلق پھا ڑ کر چیخا ۔ ’’ابے اوشکو را کل سے ہما را نا شتہ الگ لگے گا !‘‘

’’جلدی کر ویار ورنہ پھر شکار !‘‘

’’شکار ؟‘‘ قاسم کی بیوی نے حمید کی بات کا ٹ دی ۔

’’جی ہا ں ۔ ہم لوگ آج مچھلیو ں کا شکار کھیلیں گے !‘‘

’’میں بھی چلو ں گی !‘‘

’’ضرو ر ضرور !‘‘ قاسم بُرا سامنہ بنا کر بو لا ۔ ’’آپ کے بغیر بھلا خاک شکار ہو گا !‘‘

’’میں آپ سے با ت نہیں کر رہی ہو ں !‘‘

’’کیا حرج ہے ! ضرور چلئے !‘‘ حمید نے کہا ۔

’’میں نہیں جا تا!‘‘ قاسم جھنجھلا کر بو لا ۔

’’تو پھر پر و گرام کیو ں بنا یا تھا !‘‘ حمید بھی بگڑگیا ۔

’’کیا و گرام بنا یا تھا !‘‘ قاسم اُسے گھو ر کر بولا ۔’’یہی کہ ایک بوریت بھی ساتھ لے چلیں گے ؟‘‘

’’میں بوریت ہو ں ؟‘‘ قا سم کی بیو ی نے اُسے للکارا ۔

’’جی ہا ں ۔ آپ بو ریت ہیں !‘‘

’’آپ کو شرم آنی چا ہئے !‘‘ اُس کی بیو ی کا لہجہ کچھ اور تیز ہو گیا ۔

’’نہیں آنی چا ہئے آپ بو ریت ہیں !‘‘

’’میں ابھی چچا جا ن کو فون کرتی ہو ں !‘‘ قاسم کی بیو ی نے روہا نسی آواز میں کہا۔

اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے قاسم کی روح فنا ہو گئی ہو ۔ قاسم کی بیو ی اُس کے با  پ کو چچا جان کہتی تھی اور قاسم دنیا میں اپنے باپ کے علا وہ اور کسی سے نہیں ڈرتا تھا ۔

قاسم ہو نٹو ں پر زبان پھیر کر رہ گیا ۔ وہ نا شتہ کر چکے تھے اور نو کر بر تن اٹھا کر ٹرالی میں رکھ رہا تھا ۔

’’آپ کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑیں گے !‘‘ اس کی بیو ی بڑ بڑائی ۔

قاسم کچھ نہ بو لا ۔ وہ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا اور حمید کو اُس کی بگڑ ی ہو ئی حالت پر ہنسی آرہی تھی ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے قاسم کو ئی مشین ہو اور اچانک اُس کا کو ئی پُر زہ ٹو ٹ گیا ہو ۔

’’آپ اپنے الفاظ واپس لیجئے !‘‘ قاسم کی بیوی اُسے گھو ر کر بو لی ۔

’’حمید بھائی !‘‘ قاسم نے بھرائی ہو ئی آواز میں کہا ۔ ’’تم ذرا دوسرے کمرے میں چلے جا ؤ!‘‘

’’کیو ں خیریت !‘‘ حمید نے شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔

’’مم میں اپنے الفا ظ واپس لو ںِ گا !‘‘

’’نہیں ۔ حمید بھا ئی کے سامنے !‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتی ہو ئی بو لی ۔ ’’آپ نے اِ ن کے سامنے میری تو ہین کی ہے !‘‘

’’میں واپس لے لو ں گا !‘‘ قاسم غرّ ایا ۔ ’’ابھی نہیں مجھے جلدی ہے !‘‘

’’نہیں ابھی ۔ ورنہ میں چچا جان !‘‘

’’کر دو فون !‘‘ قاسم حلق پھا ڑ کر چیخا ۔’’ میں کسی سے نہیں ڈرتا !‘‘

’’اچھی بات  ہے !‘‘ وہ اُسے دھکا تی ہو ئی بو لی اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔

قاسم بد حو اسی میں طرح طرح کے منہ بنا کر اُسے جا تے دیکھتا رہا۔

’’لے چلو نا ۔ آخر کیا حرج ہے !‘‘ حمید اُس کے کا ندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا ۔

’’یا رحمید بھا ئی ۔ مجھے تو موت بھی نہیں آتی ہے !‘‘قاسم نے بے بسی سے کہا ۔

’’اوقاسم ۔ لڈھک ۔ خدا تجھے سچ مچ غارت کرے ارے تم اس قسم کی باتیں کر تے ہو !‘‘

’’کیو ں ؟‘‘ قاسم کو پھر غصہ آگیا ۔

’’اتنے لحیم شحیم اور طاقتو ر آدمی ہو کر عورتو ں کی طرح خود کو کو ستے ہو !‘‘

’’عورتو ں کی طرح ؟‘‘ قاسم جھینپ کر بولا ۔

’’چلو جلدی کرو ۔ ساری تفریح بر باد ہو گئی!‘‘

’’ہا ں اور کیا !‘‘ قاسم جلدی سے بالا پھر آہستہ سے کہنے لگا ۔’’ابا جان سے ضرور شکایت کردےگی !‘‘

’’تو کیا ہوگا؟‘‘

’’گڑ بڑ ہوگی۔ بڑی گڑ بڑی ہوگی حمید بھائی!’’

قاسم بوکھلائے ہوئے انداز میں ہنسنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد قاسم گیراج سے اپنی کار نکال رہا تھا پھر جب کار کمپاؤنڈ سے باہر جانے لگی تو قاسم کی بیوی نے نہایت اطمینان سے پچھلی نشست کا دروازہ کھولاا ور اندر بیٹھ گئی۔ قاسم اور حمید اگلی سیٹ پر تھے۔

’’میں نہیں جاؤں گا!۔‘‘ قاسم کار روک کر مچل گیا ور حمید نے قہقہہ لگایا۔

’’جا نا پڑے  گا !‘‘ بیو ی بولی ۔’’اور بوریت ساتھ جائے گی !‘‘

’’ارے میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہو بابا !‘‘ قاسم نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا ۔

’’تو اس کا یہ مطلب ہے کہ میں بوریت نہیں ہو ں !‘‘ اس کی بیوی نے سنجید گی سے پو چھا ۔

’’نہیں ۔ نہیں ۔نہیں !‘‘

’’تو پھر مجھے لے چلنے میں کیا قبا حت ہے  ؟‘‘

’’ارے مار ڈالو !‘‘ قاسم اپنی ٹائی سے اپنا گلا گھو نٹنے لگا ۔ حمید نے بدقّت تمام اُس کے ہاتھو ں سے ٹائی کے دونو ں سرے چھڑائے۔

ہاتھو ں سے ٹائی کے دونو ں سرے چھڑائے ۔

’’تو آپ نہیں لے جانا چا ہتے مجھے ؟‘‘

’’نہیں ہر گز نہیں !‘‘

’’میں خوب سجھتی ہو ں !‘‘ وہ چڑ کر بو لی ۔’’ مچھلی کے شکار کا بہانہ ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتی ہو ں کہ یہ شکار سی شو ر بید نگ کلب کے گھا ٹ کے قریب کھیلا جا ئے گا ۔‘‘

’’آپ کو غلط فہمی ہو ئی ہے !‘‘ حمید نے صفائی پیش کی ۔

’’معاف کیجئے گا حمید بھائی ۔ آپ ہی اَنہیں بر باد کر رہے ہیں !‘‘ وہ بُرا سامنہ بنا کر بو لی ۔

’’اے ۔اے ۔اغ اللّہ قسم !‘‘ قاسم ہکلا یا ۔’’حمید بھائی تو مجھ سے کہتے ہیں کہ نماز پڑھا کرو !‘‘

’’میں اِنہیں آپ سے زیادہ جانتی ہو ں !‘‘

’’ہا ئیں کیا مطلب ؟‘‘ قاسم حمید کو گھو رتاتھا اور کبھی حمید کو ۔ با لآ خر اُس نے کہا ۔

’’کیو ں حمید بھائی میں کیا سن رہا ہو ں !‘‘

حمید کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے ۔ قاسم کی ذہنی رَو کو بہکتے دیر نہیں لگتی تھی ۔ وہ اپنی بیو ی کے اِس جملے کو نہ جانے کیا سمجھ بیٹھا ہو ۔

’’بو لتے کیو ں نہیں !‘‘ قاسم حلق پھا ڑ کر چیخا ۔’’یہ تمہیں کس طرح جانتی ہے ؟‘‘

’’اپنی زبان سنبھالئے !‘‘ قاسم کی بیوی بھی چیخی ۔

قاسم کار سے اُتر گیا ۔

’’تم ہوش میں ہو یا نہیں ؟‘‘ حمید نے کہا ۔

’’ہو ش کی ایسی کی تیسی ۔ تم بتاؤ مجھے یہ تمہیں کس طر ح جا نتی ہے ؟‘‘

’’ میں کیا بتاؤ ں ۔ اُنہیں سے پو چھ لو !‘‘ حمید کو ہنسی آرہی تھی ۔

’’ٹھیک ہے !‘‘ وہ اپنی بیو ی کی طر ف مڑا ۔ ’’ تم کس طر ح جا نتی ہو اِنہیں؟‘‘

’’دما غ ٹھیک ہے یا نہیں !‘‘ اس کی بیو ی گر ج کر بو لی ۔’’آپ کیا سمجھتے ہیں ؟‘‘

’’میں تو کچھ نہیں سمجھتا ۔ تم بتاؤ کیسے جا نتی ہو ؟‘‘

’’چھو ڑویار !‘‘ حمید نے پھر دخل انداز ی کی ۔’’مچھلیاں !‘‘

’’مچھلیا ں گئیں جہنم میں ۔ میں بڑا خراب آدمی ہو ں !‘‘

’’اچھا تو پھر ؟‘‘ حمید سنجیدہ بن کر بولا ۔

’’تو پھر ؟‘‘ قاسم اُسے گھو رنے لگا ۔’’اگر مجھے ثبو ت مل گیا تو تمہیں زندہ دفن کردو ں گا !‘‘

’’کیا بک رہے ہیں آپ اپنی زبان سنبھا لئے !‘‘ قاسم کی بیوی چیخ پڑی اور پھر وہ نہ جانے کیا کیا بڑ بڑاتی کار سے اُتر کر چلی گئی ۔ حمید کو اب بُر ی  طر ح غصہ آگیا تھا لیکن قاسم پر قابو پا نا آسان نہیں تھا ۔ وہ اب بھی نیچے کھڑا حمید کو قہر آلو د نظر و ں سے گھو ر رہا تھا ۔

دفعتہّ  حمید کو اُس کی دُکھتی ہو ئی رَک یاد آگئی ۔

’’تم با لکل عو رتو ں کی طر ح شکّی ہو ۔ لا حو ل والا قو ۃ !‘‘ حمید بُرا سا منہ بنا کر بولا ۔

’’عو رتو ں کی طر ح ؟‘‘ قاسم بَل کھا کر رہ گیا ۔

’’عو رتو ں سے بھی بد تر ۔ تمہیں شرم آنی چا ہئے ۔ ٹھیک ہے تم اِسی قابل ہو کہ وہ تم سے نفر ت کرے ۔ تم نے اس وقت سچ مچ اُس کی تو ہین کی ہے !‘‘

قاسم اُسے احمقو ں کی طر ح دیکھتا رہا پھر ایک جھینپی جھینپی سی مسکرا ہٹ اُس کے ہو نٹو ں پر نمو دار ہو ئی ۔ ایسا معلو م ہو ر ہا تھا جیسے وہ کو ئی بہا نہ تر ا شنا چا  ہتا ہو اور حیققتاً یہی ہو ا بھی ہے !

’’تو پھر بتا ؤ !‘‘ وہ ہنستا ہوا بو لا ۔ ’’ کس طرح پیچھا چھڑا تا ، ساری تفر یح بر باد ہو کر رہ جا تی !‘‘

’’نہیں جاؤ معا فی ما نگو ۔ اُس سے !‘‘

’’معا فی ہر گز نہیں ۔ قیامت تک نہیں !‘‘

’’اگر اُس نے تمہا رے با پ سے شکایت کر دی تو ؟‘‘

’’یار تم کیو ںمیر ی تفریح بر باد کر نا چا ہتے ہو ؟‘‘ قاسم بڑا بڑا تا ہو ا کار میں بیٹھ گیا ۔

’’آج پتہ نہیں کس کا منہ دیکھا تھا ۔ ٹھیک یاد آیا ۔ بیگم پارا کی تصو یر تھی ‘‘

3

 

سی شو ر سو ئمنگ کا گھا ٹ صرف ممبر و ں کے لئے تھا اور یہ دو نو ں اُس کے با قا عدہ ممبر تھے ۔ آج چو نکہ اتوار تھا اس لئے یہا ں خا صی بھیڑ تھی اور خا ص  طو ر سے غیر ملکی لو گ زیادہ نظر آرہے تھے ۔

قاسم گھا ٹ پر پہنچتے ہی ہاتھ سے نکل گیا ۔

اِس بھیڑ میں شا ید قاسم کا سب سے زیادہ قد آور جسم تھا ۔ اس لئے سب کی نظر یں اُس کی طرف اُٹھ رہی تھیں ۔ حمید کو بڑا لطف آرہا تھا لیکن اس کی یہ تفر یح زیادہ دیر تک بر قرار نہ رہ سکی کیو نکہ اچانک اس بھیڑ میں اُسے ایک ایسا چہرہ دکھائی دیا جس سے بھا گ کر وہ یہا ں آیا تھا ۔ حمید اُس کی نظروں سے بچنے کی کو شش کر نے لگا ۔ وہ سوچھ رہا تھا آخر فریدی کا یہا ں کیا کام ؟ کیو نکہ وہ اس قسم کی تفریحا ت میں کو ئی دلچسپی نہیں لیتا تھا حالا نکہ وہ ایک ما ہر تیراک تھا لیکن غسل کے لئے کبھی غسل خانے سے باہر قدم نہیں نکالتا تھا۔ اُسے اپنے جسم کی نما ئش سے دلچسپی نہیں تھی پھر آخر وہ یہا ں کیو ں آیا تھا ؟

حمید بچتا رہا لیکن آخر کا ر فرید ی کی نظر اُ س پر پڑہی گئی اور خلا فِ تو قع حمید نے اُس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ کے آثار کے بجا ئے مسکراہٹ دیکھی ۔ ایک معنی خیز مسکرا ہٹ پھر فریدی نے اُسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا ۔

’’مجھے تو قع نہیں تھی کہ تم یہا ں مل جاؤ گے !‘‘ فر یدی مسکراکر بولا ۔

’’چلئے میں بھول جاؤں گا کہ آپ مجھے یہا ں ملے تھے !‘‘ ْحمید نے اُسے آنکھ مار کر کہا ۔

’’ابے تو کیا میں ‘‘

’’صفائی پیش کر نے کی ضرورت نہیں !‘‘حمید نے اُس کی بات کا ٹ دی ۔’’آپ بھی آخر آدمی ہی ہیں لیکن یو چھپ چھپ کر میرے خیال سے اس کی ضرورت نہیں !‘‘

’’سنو ! فر زند میں یہا ں لڑکیا ں دیکھنے کے لئے نہیں آیا ۔ میں گو شت خور ضرور ہو ں مگر آدم خور نہیں ۔ بکو اس بند کرو اور کام کی باتیں کرو ۔ اُس بھوری مو نچھ والے انگریز کو دیکھ رہے ہو نا اور وہ عورت جس نے پٹیّو ں دار سو ئمنگ ڈریس پہن رکھا ہے !‘‘

’’ٹھہر ئیے !‘‘ حمید ہاتھ اٹھا کر بو لا ۔’’ وہ جوزف پیڑ تو نہیں ہے ؟‘‘

’تم ٹھیک سمجھے اور وہ عورت اُس کی بیو ی ہے !‘‘

’’وہ تو سب ٹھیک ہے !‘‘ حمید بُرا سامنہ بنا کر بولا ۔’’ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں بھو کا پیا سا گھر سے کیو ں بھا گا تھا ؟‘‘

’’اچھی طرح !‘‘ فریدی کے ہو نٹو ں پر خفیف سی مسکراہٹ نمو دار ہو ئی ۔’’ لیکن یہ تمہا ری بد قسمتی ہے کہ کام تمہارا پیچھا نہیں چھو ڑتا اگرتم اس وقت جہنم کا بھی رُح کرتے تو میں تمہیں وہیں ملتا !‘‘

’’مجھے یقین ہے اور میں جان بو جھ کر اُدھر کا رخ نہ کرتا !‘‘

’’خیر چھو ڑو ۔ تمہیں کم ازکم دو گھنٹے تک ان دونو ں کو یہا ں رو کنا ہے !‘‘ فریدی جیب سے سگار کیس نکا لتا ہو ا بو لا ۔

’’کیو ں ؟‘‘

’’میں ان کے مکا ن کی بے ضا بطہ تلاش لینا چا ہتا ہو ں !‘‘

’کیا آپ کا خیال ہے کی وہ کل رات کو عر فانی کے مکان میں تنہا تھا ؟‘‘

’’نہیں وہ کئی تھے لیکن تم نے یہ سوال کیو ں کیا ؟‘‘

’’غا لباًآپ اُسی چیز کے لئے تلاش لینا چا ہتے ہیں جو وہ عر فانی کے مکا ن سے لے گئے ۔ اگر وہ کئی تھے تو یہ ضرور ی نہیں کہ وہ چیز جو زف ہی کے مکان پر مل جا ئے !‘‘

’’اِسے مجھ پر چھو ڑ و ۔ اچھا تو میں چلا ۔ خیال رکھنا ۔ دو گھنٹو ں سے قبل وہ سو لہ کنگس لین میں داخل نہ ہو نے پا ئیں !‘‘

فریدی نے  سگا ر سلگا یا چند لمحے زمین پر نظر یں جما ئے کچھ سو چھتا رہا پھر دفعتہّ واپس جا نے کے لئے مڑگیا ۔ حمید کے لئے یہ مسئلہ تشو یش نا ک تھا۔ وہ کس طرح انہیں رو کے رکھتا ۔ اس نے قاسم  کو تلاش کر نا شرو ع کر دیا جو اس دور ان میں کہیں چلا گیا تھا ۔ حمید نے سو چا ممکن  ہے ہوہ کلب کی عمارت کے اندر چلا گیا ہو ۔ وہ وہیں ٹھہر کر اس کا انتظار کر نے لگا ۔ اس کی نظر یں جو زف پیڑ اور اس کی بیو ی کے تعا قب میں تھیں ۔ جو زف پیڑ پینتا لیس سال کا ایک دُبلا پتلا آدمی تھا لیکن چال ڈھا ل سے کمزور جسم والا نہیں معلو م ہو تا تھا  اور اس کی بیو ی ؟ اس کے لئے اتنا ہی کہنا کا فی ہو گا کہ محض اُسی کی و جہ سے حمید نے اتنے ٹھنڈے دل سے اُن دونو ں پر نگا ہ رکھنے کا وعدہ کر لیا تھا  ورنہ وہ آج کسی سر کاری کا م کے مو ڈ میں با لکل نہیں تھا ۔

تھو ڑی دیر بعد قاسم کلب کی عمارت سے نکلتا ہو ا دکھائی دیا ۔ اُس نے پیر ا کی کا لباس پہن لیا تھا حلا نکہ اُسے تیر نا با لکل نہیں آتا تھا اور ورنہ اُس نے کبھی پانی میں قدم رکھنے کی ہمت ہی کی تھی ۔ ویسے وہ اِس کلب کا با قا عدہ ممبر تھا اور یہا ں کے سا رے ممبر اُس سے بخو بی واقف تھے  اور وہ بھی سب کو جا نتا تھا ۔ کلب کے دوسرے ممبر و ں کے متعلق حمید کی معلوما ت واجی ہی سی تھیں ۔ بہیترو ں کو وہ با لکل ہی نہیں جا نتا تھا ۔

’’قاسم !‘‘ حمید جو زف پیڑ کی بیو ی کی طرح اشارہ کر کے بولا ۔’’ وہ کو ن ہے ؟ کیا تم اسے جا نتے ہو ؟‘‘

’’کیو ں نہیں ۔ اُس کا نام پمیلیا ہے اور میں اُسے پیار سے پمّو کہتا ہو ں !‘‘

’’پمّو کہتے ہو ؟‘‘ حمید نے حیرت سے کہا ۔’’ کیا وہ تم سے نے تکلف ہے ؟‘‘

’’نہیں تو ۔ آج تک گفتگو بھی نہیں ہو ئی ۔ یو نہی بس دل ہی دل میں پمو کہتا ہو ں !‘‘

’’ہو ں ، اور وہ اُس کے ساتھ بھو ری مو نچھو ں والا کو ن ہے ؟‘‘

’’ وہ اُس کا شوہر جو زف ہے ۔ کاش میں بھی شوہر ہو تا !‘‘

’’کسی فیل زادی کے !‘‘

قاسم نے کو ئی جواب نہیں دیا ۔ وہ بڑی تو جہ اور لگا وٹ سے پمیلیا کی طر ف دیکھ رہا تھا ۔ پمیلیا اور جو زف ریت پر چٹا ئی کی چھتری کے نیچے بیھٹے ہو ئے تھے ۔پمیلیا کا فی حسین تھی اور تیرا کی کے لبا س میں تو وہ با لکل چینی کی گُڑ یا معلوم ہو رہی تھی ۔ جو زف کی تو جہ اُس کی طر ف نہیں تھی ۔ وہ پانی میں چمچما تی ہو ئی کِر نو ں کی طرف دیکھ رہا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ پمیلیا قاسم کے پہا ڑ جیسے جسم کو گھو ررہی تھی ۔ اکیلی وہی نہیں گھا ٹ کی در جنو ں کی نگا ہو ں کا مر کز قاسم ہی تھا ۔

حمید اپنے پا ئپ میں تمبا کو  بھر تا ہوا سو چ رہا تھا کہ کاش قاسم بے وقو ف اور ڈرپو ک نہ ہو تا ۔ کاش اُس میں عو رتو ں سے گفتگو کر نے کی صلا حیت ہو تی ۔ عورتو ں کے معا ملے میں تو وہ ضرو رت سے زیا دہ ڈر پو ک واقع ہوا تھا اور کبھی کسی عو رت سے گفتگو کر نے میں پہل نہیں کر سکتا تھا اور نئی جا ن پہچان والی عو رتو ں سے گفتگو کر تے وقت تو اس بُری طر ح اُس کی سا نس پھو لنے لگتی تھی جیسے وہ کسی پہا ڑی پر چڑھ رہا ہو ۔ الفاظ زبان سے ادا ہو نے کے بجا ئے حلق سے نکلنے لگتے تھے اور اُسے بار با ر تھو ک نگلتا پڑتا تھا ۔

حمید  یہ سو چ ہی رہا تھا کہ اُسے دفعتہّ ایک وعجیب وضع کا انگر یز دکھائی دیا ۔ اس نے اپنے سر پر بنا رس کے پنڈ تو ں کی سی زردرنگ کی پگڑ ی با ندھ رکھی تھی لیکن بقیہ لباس انگر یز و ں ہی کا سا تھا ۔ اس نے ما تھے پر تلک بھی لگا رکھا تھا اور چہرے پر ویسی ہی معصومیت تھی جیسی گو تم بدھ کے مجسمو ں میں پا ئی جا تی ہے ۔ وہ بڑے شا ہا نہ انداز میں آہستہ آہستہ چلتا ہو ا اُسی چھتری کی طرف جا رہا تھا جس کے نیچے جوزف اور پمیلیا  بیٹھے ہو ئے تھے ۔

’’قاسم اُسے دیکھ کر بے تحا شہ ہنسنے لگا پھر بو لا ۔ ’’پنڈتو ں کی نفل کر تا ہے سا لا ۔ مگر حمید بھا ئی بڑا خو ش قسمت ہے ایسی حسین حسین لو نڈیو ں کے ہاتھ اس کے ہا تھو ں میں آتے ہیں کہ بس !‘‘قاسم اپنے ہو نٹ چا ٹنے لگا ۔

’’وہ کس طر ح ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بنا تا ہے !‘‘

’’کیا تم نے اُسے یہا ں اکثر دیکھا ہے ؟‘‘

’’کبھی کبھی دکھا ئی دیتا ہے !‘‘ قاسم بو لا ۔’’وہ دیکھو ں لڑ کیو ں کے پَر ے کے پَر ے اُس کے پیچھے لگے ۔

ہا ئے ہا ئے ۔ اللّہ قسم کیا مقدر ہے اور اپنی قسمت تو شا ید مسو ر کی دال سے لکھی گئی ہے ۔ آج میں بھی اِس سا لے کو اپنا ہا تھ دکھا ؤں گا !‘‘

پنڈت نما انگریز جو زف کی چھتری کے نیچے پہنچ کر رُک گیا ۔ اُس کی بیو ی نے اُسے دیکھ کر عجیب طر ح کی آواز نکا لی ۔ جو زف بھی کھڑا ہو گیا تھا ۔ حمید محسو س کر رہا تھا کہ اُس کے اس رو یے کا محرک احترام کا جذبہ نہیں بلکہ خوف تھا ۔

پنڈت نما انگریز نے اُس کی بیو ی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کچھ بڑا بڑا نا شروع کیا ۔ اُس کی نظر یں ہتھیلی پر جمی ہو ئی تھیں اور ہو نٹ آہستہ آہستہ ہل رہے تھے ۔ ساتھ ہی جو زف کے چہرے پر خوف کے آثار اور زیادہ گہرے ہو تے جا رہے تھے۔

دوسری لڑکیا ں اُس انگریز جو تشی کے گر دا کٹھا ہو نے لگیں۔ حمید نے دیکھا کہ جو زف بڑی تیزی سے اپنا سامان سمیٹ رہا ہے ۔

’’دیکھ رہے ہو حمید بھا ئی !‘‘

’’قاسم !‘‘ حمید بو کھلا ئے ہو ئے لہجے میں بو لا ۔’’کیا یہ اپنی کار پر آئے ہیں ؟‘‘

’’ہا ں !‘‘

’’کار پہچانتے ہو ؟‘‘

’’ہا ں کیو ں نہیں ۔ سر خ رنگ کی اسپو رٹس کار ہے !‘‘

’’چلو مجھے اس کی کار دِکھا ئی !‘‘ حمید قاسم کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا بو لا ۔

دونو ں تیزی سے اُس شیڈکی  طرف بڑھے جس کے نیچے کا ریں کھڑی کی جا تی تھیں ۔

’’کیا معا ملہ ہے ؟‘‘ قاسم نے بو کھلا ئے ہو ئے لہجے میں کہا ۔

’’بس مجھے دور سے تم اُس کی کار دِکھائی کر واپس چلے جا نا ، جہا ں تھے !‘‘

شیڈ کے نیچے ایک سر خ رنگ کی اسپو رٹس کار کے علا وہ دوسری نہیں تھی ۔

’’وہی سر خ رنگ والی ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’ہا ں ۔ لیکن کیا با ت ہے ؟‘‘

’’کچھ نہیں ۔بس اب تم واپس جا ؤ !‘‘

’’نہیں جا تا !‘‘قاسم پھیل گیا ۔

حمید تیزی سے کار کی طر ف بڑھا ۔ آس پاس قاسم کے علا وہ اور کو ئی مو جو د نہیں تھا پھر بھی اُس نے احتیا طاً چارو ں طرف نظریں دوڑ ا ئیں اور پھر کا ر کے انجن پر جُھک پڑا ۔

قاسم آنکھیں پھا ڑ ے اُسے گھو ر رہا تھا ۔

حمید کی واپسی پر وہ تھو ک نگل کر بو لا ۔’’ کیو ں بیڑا غرق کر دیا تم نے ؟‘‘

’’بکو مت ۔ آؤ چلیں !‘‘ حمید نے اُس کی کمرمیں ہاتھ ڈالتے ہو ئے کہا ۔

’’آخر اس کا کیا مطلب ہے ؟‘‘

’’اُس عورت سے تمہا را تعارف کراؤں گا !‘‘

’’نہیں کچھ گڑ بڑ ہے !‘‘

’’ہو گی ۔ تمہیں اِس سے کیا سروکار ۔ اس معا ملے میں زبان بند رکھنا !‘‘

’’واہ ۔ یہ اچھی رہی !‘‘ قاسم چلتے چلتے رُک گیا ۔ چند لمحے حمید کو گھو رتا پھر بو لا ۔ ’’تم نے اُس کی کار میں کچھ گھُٹا لا کیا ہے !‘‘

’’تم جا نتے ہو میں کو ن ہو ں ؟‘‘حمید نے آنکھیں نکال کر کہا ۔

’’خوب جانتا ہو ں ۔ ہا ں اب ذرا بتا نا تو کہ تم میری بیوی کو کِس طر ح پہچانتے ہو ؟‘‘

’’میں نہیں بلکہ وہ مجھے اچھی طر ح جا نتی ہے !‘‘

’’یہی سہی !‘‘

’’تو اُسی سے پو چھنا !‘‘

’’پانی سَر اونچا ہو چکا ہے !‘‘ قاسم مٹّھیا ں بھینچ کر بو لا ۔’’ میں پملیا سے اِسی طرح تعارف حاصل کرو ں گا کہ اُسے تمہاری حرکت بتا دوں !‘‘

’’اس سو پہلے ہی تم جیل میں ہو گے !‘‘ حمید یک بیک سنجید ہ ہو گیا ۔’’ اور تمہارا باپ تمہاری ضما نت بھی نہ دے سکے گا !‘‘

’’کیو ں ؟‘‘

’’بس یو نہی ۔ یقین نہ ہو تو اس کا ارادہ کر کے دیکھ لو ۔ اسی جگہ ہتھکڑیا ں لگ جا ئیں گی ۔ کٹسم کا تھا نہ دور نہیں ہے !‘‘

حمید آگے بڑھ گیا ۔ قاسم چند لمحے اُسے گھو رتا رہا پھر وہ بھی اُس کے پیچھے چل پڑا۔ دونوں گھاٹ کی طرح جا رہے تھے ۔

یہا ں انگریز جو تشی اب بھی لڑکیو ں کے نر غے میں تھے ۔ جو ز ف اور اُس کی بیو ی کپڑے پہن چکے تھے اور اب وہ مو ٹر  والے سا ئبان کی طر ف جانے ہی والے تھے ۔ حمید نے کن اَنکھو ں سے قاسم کی طر ف دیکھا جو بہت زیادہ بے چین نظر آرہا تھا ۔ ایسا معلو م ہو رہا تھا جیسے وہ جو زف سے بتا ئے بغیر نہ رہے گا ۔ اگر حمید اُسے معا ملے کی نو عیت سمجھا دیتا تو شاید اس بے چارے اس قسم کی جذباتی الجھن میں نہ مبتلا ہو نا پڑتا۔

حمید نے سو چا کہ کسی طر ح اُس کی تو جہ جو زف اور اس کی بیو ی کی طر ح سے ہٹا نی چا ہئے ۔

’’قاسم ؟‘‘

’’ہو ں !‘‘ قاسم ہو نٹ سکو ڑ کر غرّایا ۔

’’تو کیا تم سچ مچ سرا غر سال بننا چا ہتے ہو ؟‘‘

’’نہیں !‘‘ اس کی غرّا ہٹ میں کو ئی رتبد یلی نہیں ہو ئی تھی۔

’’جیل جا ؤ گے !‘‘

’’سنو حمید بھائی مجھے میرے ضمیر کی آواز پریشان کع رہی ہے ۔وہ بے چا رے کا را سٹا رٹ نہ ہو گی !‘‘

’’اب تم اس واقعے کو بھو ل جا ؤ ۔ دیکھو ں ۔ وہ لڑکی ، جس کے بال آخرو ٹ کی انگت کے ہیں وہ تمہیں کس بُری طرح گھو ر رہی ہے !‘‘

’’ہا ئیں ۔ کہا ں ؟‘‘ قاسم بے سا ختہ مُڑا ۔ اوہ مگر آخروٹ کی رنگت کہا ں ہے ؟ منقّٰی کی رنگت ۔ نہیں یہ بھی نہیں ۔ مگر آنکھیں تو چِلغو زہ جیسی ہیں ۔ ہا ئے اُس نے تو منہ پھیر لیا حمید بھائی !‘‘

’’پھر دیکھے گی ۔ذرا میری طرف دیکھو !‘‘ حمید اُس کی آنکھیں ہوا بو لا ۔’’ ایسے مواقع پر اپنی آنکھیں تھو ڑی نشیلی بنا لیا کرو !‘‘

’’اس سے کیا ہو گا ؟‘‘ قاسم نے بڑے راز دار نہ لہجے میں پو چھا ۔

’یہ نہ پو چھو ۔ لڑکیا ں اِسی پر تو جان دیتی ہیں !‘‘

’’مگر مجھ سے تو بنتا نہیں !‘‘ قاسم بے بسی سے بو لا ۔ چند لمحے کچھ سا چتا رہا پھر ییک بیک اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں اور وہ جھیپنی جھیپنی سی ہنسی کو ساتھ کہنے لگا ۔’’ اگر دو تین پیگ رَم پی لُو ں تو کیسی رہے گی ؟‘‘

’’بس مزا ہی آجا ئے گا !‘‘ حمید اُس کی پیٹھ ٹھو کتا ہو ا بو لا ۔’’ تم واقعی بڑے عقل مند ہو ۔ مجھے اِس وقت اُن لو گو ں پر غصہ آرہا ہے جو تمہیں بے وقوف کہتے ہیں!‘‘

’’میرا تو دل چا ہتا ہے کہ سالو ں کے سَر تو ڑدوں !‘‘ قاسم دانت کچکچا کر بو لا ۔

’’اچھا تو جا ؤ ۔ مگر زیادہ نہ پینا پھر بھی تمہیں عشق کر نے کے لئے کئی با لکل نئے گُر بتاؤ ں گا !‘‘

’’تم نہ پیو گے ؟‘‘ قاسم نے کہا اور منہ چلا نے لگا ۔

’’نہیں ۔ میں ڈیو ٹی پر ہو ں !‘‘

’’ہا ئیں اتوار کو بھی ڈیو ٹی ؟‘‘

’’جا ؤ بھی یار ورنہ وہ چلی جا ئے گی ۔ میں نے اُسے تمہارے لئے منتخب کر لیا ہے !‘‘

قاسم احمقو ں کی طرح ہنستا ہوا کلب کی عمارت کی طر ح چلا گیا ۔

اب حمید ، جو زف اور اُس کی بیوی کی طرح متو جہ ہوا ۔ دونو ں سا ئبان کے نیچے مو جود تھے اور جو زف کار کے انجن پر جھکا ہوا تھا ۔ حمید نے اطمینان کا سانس لیا لیکن وہ پانچ چھ منٹ سے زیادہ مطمئن نہیں رہ سکا کیو نکہ اب جو زف انجن بند کر کے سڑک کی طر ح تنہا جا رہا تھا اور اس کی بیوی پھر گھا ٹ کی طرف واپس آرہی تھی ۔

’’ٹیکسی !‘‘ حمید نے سو چا ۔’’ یقیناً وہ ٹیکسی کرے گا ۔ اگر ٹیکسی مل گئی تو ‘‘

اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرے ۔آخر اچانک اُسے یہا ں سے رُخصت ہو جانے کا خیال کیسے پیدا ہو ا ۔کیا وہ جو تشی ؟ کیا اُس نے اُسے کو ئی بُری خبر سنا ئی تھی ؟ وہ جو تشی کو ن ہے ؟

دوسرے لمحے میں حمید بڑی تیزی سے کلب کی عمارت کی طر ف جا رہا تھا ۔ اندر داخل ہو کر اُس نے قاسم کی طرف بھی نہیں دیکھا جو ایک کیبن سے سَر نکا لے طر ح طر ح کے منہ بنا کر اُسے اپنی طرف متو جہ کر نے کی کو شش کر رہا تھا ۔ وہ سیدھا ٹیلی فون آپر یڑ کے کمرے میں چلا گیا ۔

ٹیلی فون ڈائر کٹری میں اُسے جو زف پیڑ کا فون نمبر تلا ش کر نے میں دشواری نہیں ہو ئی کیو نکہ کنگس لین کو ئی چھو ٹی جگہ نہیں تھی ۔ اُس نے بڑی تیزی سے نمبر ڈائل کئے اور ریسیور کان سے لگا لیا ۔

’’ہیلو !‘‘ دوسری طرف سے آداز آئی ۔ لہجہ انگر یز وں کا سا تھا ۔

’’کون بول رہا ہے ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’جو زف پیڑ !‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی ۔

’’میں ڈاکڑ زیٹو بو ل رہا ہو ں سمجھے !‘‘ حمید نے اندھیر ے میں تیر چلا یا ۔

’’اوہ اچھا حمید  کیا با ت ہے !‘‘ اس بار بو لنے والا اُردو میں بولا ۔

’’گڑ بڑ۔ میں نے بہت کو شش کی لیکن وہ چل پڑا تنہا !‘‘

’’کو ئی ببات نہیں آنے دو ۔ میں بھی اب جا رہا ہو ں ۔ تمہا ری سعادت مندی کا شکر یہ ۔ مگر یہ طریقہ جو تم نے اس وقت اختیا ر کیا ہےہے مخدو ش بھی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ میں یہا ں مو جود نہ ہو تا !‘‘

حمید نے بُرا سامنہ بنا یا اور ریسیو ر رکھ کر باہر نکل گیا س  کے پر سے ایک بو جھ سااُتر گیا تھا اور اب اُسے زندگی پہلے ہی طر ح حسین نظر آنے لگی تھی۔

ہال میں پہنچ کر وہ قاسم کو تلاش کر نے لگا ۔

’’آؤ آؤ میری جان حمید بھائی !‘‘ قاسم ایک کیبن سے منہ نکال کر بو لا ۔اس کی آنکھیں خطر ناک حد تک نشیلی ہو گئی تھیں۔ حمید نے اندازہ لگا لیا کہ وہ کئی پیگ چڑھا گیا ہے اور وہ یہ بھی جا نتا تھا کہ قاسم اِس معا ملے میں بالکل انا ڑی ہے ۔

’’کیو ں ؟‘‘ قاسم انگلی نچا کر جھو متا ہوا بو لا۔’’ ہو گا  ئیں نا نا شیلی !‘‘

’’بالکل بالکل !‘‘ حمید نے اُس کا شا نہ تھکتے ہو ئے کہا ۔’’ لیکن تم خا مو ش رہو گے ۔ عشق صرف آنکھو ں سے کیا جا تا ہے ۔ ہو نٹ بند ۔ آنکھیں ہی سب کچھ کہہ دیتی ہیں !‘‘

’’تو پھر میں او ٹھو ں !‘‘ قاسم ہچکو لے لیتا ہوا بولا ۔’’ لیکن ما ئیں کا سے اوٹھو ں میرا سر ہا ئیں میرا سر !‘‘

قاسم گھبرا ئے ہو ئے انداز میں اپنا سَر ٹٹو لنےلگا ۔ حمید سوچ رہا تھا کہ کہیں اب وہ عذاب جان نہ بن جا ئے۔  اس نے اُسے اِس حال کو محض اس لئے پہنچایا تھا کہ کہیں وہ سچ مچ مسز جو زف سے جان پہچان نہ پیدا کر لے ۔قاسم کے ذہن میں بیٹھی ہو ئی کسی بات کا نکال دینا بڑا مشکل کا م تھا ۔ اِس لئے حمید نے اُسے اس راہ پر لگا دیا تھا لیکن اب وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اُسے خر مستیو ں سے کس طرح رو کے گا ۔

’’میرا سار غمید بھا ئی !‘‘ قاسم نے ہا نک لگا ئی ۔

4

حمید  نے اپنی دانست میں بڑا تیر مارا تھا مگر اب اُس کے ہاتھ پَیر پھو ل رہے تھے ۔ نشے کی حالت میں ایک پہاڑ جیسے آدمی کا سنبھا لنا آسان کا م نہیں تھا اور پھر معاملہ قاسم کا تھا جس کا ذہنی تو ازن کبھی کبھی پئے بغیر ہی بگڑ جا تا تھا ۔

بہر حا ل اب اُس نے بڑی شدومد سے اٹھنےکا  تقا ضا شرو ع کردیا تھا اور حمید سو چ رہا تھا کہ کہیں یہ گھا ٹ پر پہنچ کر  اُودھم نہ مچا ئے ۔ جب اُس نے اس طرح شور مچا نا شروع کر دیا کہ کا ؤ نڑ کلر ک کو شکا یت کر نی پڑی تو مجبو راً حمید اٹھا ۔اُس کی آج کی شرارت خود اُسی کے لئے و با لِ جا ن ہو گئی تھی ۔

قاسم نے با ہر نکل کر حمید کو لپِٹا کر رو نا شرو ع کر دیا ۔

’’تم نے بہت بو را کیا غمید بھا ئی کار میں گھٹا لا کر دیا ہا ئے پُمّو میری جا ن ۔‘‘

بہتیر ے ل وگ چو نک کر انہیں گھو رنے لگے ۔

’’قاسم ! یہ کیا بے ہو د گی ہے ؟‘‘ حمید اُس کی گر فت سے نکلنے کی کو شش کرتا ہوا بو لا ۔

’’مجھے رو لینے دو ہا ئے پمُّو میری جان !‘‘

کسی نہ کسی طرح حمید حود کو چھڑا کر الگ ہٹ گیا ۔ قاسم پھر لڑ کھڑا تا ہوا اُس کی طر ف بڑھا ۔

’’غمید بھا ئی میرے پیا رے بھائی پمو ڈار لنگ کے بھا ئی کار میں گڑ بڑ بھا ئی میری آنکھیں بھی نا شیلی آخر وٹ !‘‘

بہت سے لو گ اُن کے گر دا کٹھا ہو گئے ۔ ان میں عو رتیں بھی تھیں ۔ حمید سو چ رہا تھا کہ کاش زمین ہی پھٹ جا تی ۔

’’پمّو آآ!‘‘ قاسم نے ٹا رزن کی طر ح منہ پر ہاتھ رکھ کر نعر ہ لگا یا پھر چیخ چیخ کر کہنے لگا ۔’’ لیڈ یز اینڈ جنٹلمین !آدمی کو جنت سےکس نے نکلوایا حمید بھا ئی نے !‘‘

اس نے رُک کر اپنے گر دکھڑے ہو ئے لو گو ں پر اُچٹتی سی  نظر ڈالی اور منہ دَبا کر ہنسنے لگا ۔

’’ارے یہ تو قاسم ہے !‘‘ کسی نے مجمع سے کہا  ۔’’ خا ن  بہا در عا صم کا  لڑ کا !‘‘

’’ہا ں ہے تو پھر !‘‘ قاسم سینہ تان کر کھڑا ہو گیا ۔ چند لمحے خا مو ش رہا پھر حقارت سے ہنس کر بو لا ۔’’ مستو ں پے اُنگلیا ں نہ اُٹھا ؤ بہا ں میں اور اَے پیا رے بھا ئیو ں حمید و بھا ئیو  پموُّ ڈار لنگ کا بیڑ ہ غرق ہو گیا کار میں گھٹا لا ہو گیا ۔ آخر وٹ  کی طرح سخت ہیں کسی کے گا ل رس گلے ّ اللہ قسم مجھے رَس گلے بہت پسند ہیں میری بیو ی حمید بھا ئی کو اچھی طر ح پہچانتی ہے کہا ں ہو پیا رے بھا ئی !‘‘

            وہ آنکھیں بند کر کے حمید کو خلا میں ٹٹو لنے لگا ۔ ساتھ وہ بڑ بڑا تا بھی جا رہا تھا ۔ ’’ پیا رے حمید بھا ئی تم شوق سے میری بیو ی کو پہچا نو مگر تم نے   پُّمو کا بیڑا کیو ں غرق کر دیا ؟‘‘

            حمید نے سو چا کہ اب یہا ں ٹھہر نا ٹھیک نہیں۔وہ یہ جا نتا تھا کہ قا سم نشہ اُتر نے کے بعد اُس کی جا ن کو آجا ئے گا ۔

            سڑک پر  اُسے کا فی دُور پیدل چلنا پڑا  ۔ یہ بھی اتفاق ہی تھا کہ ایک خالی ٹ ٹیکسی مل گئی ورنہ اس طرف  تو عمو ماً واپسی ہی کی ٹیکسیا ں آتی تھیں ۔

            سب سے پہلے وہ خا ن والا گیا کیو نکہ وہا ں اُس کی مو ٹر سا ئیکل تھی ۔ بہر حال وہا ں سے گھر کی طرف واپسی میں وہ سوچ رہا تھا کہ اُس نے انگریز جا تشی کو نظر انداز کر کے عقل مندی کا ثبوت نہیں دیا ۔ اس کی ظا ہر ی حالت ہی ایسی تھی کہ عام آدمی بھی اُس کی شخصیت میں دلچسپی لے سکتے تھے۔

            حمید کو یقین تھا کہ جوزف اُس جو تشی ہی کے کسی جملے پر بو کھلا کر وہا ں سے بھا گا تھا ۔ جو تشی کی شخصیت اس کی نظرو ں میں پُرا سرار ہو تی جا رہی تھی لیکن اُس نے اُس نے اُسے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ حتٰی کہ سی شو ر بید نگ کلب میں بھی نہیں ۔ قاسم کے بیان سے معلوم ہو تا  تھا کہ وہ اکثر وہا ں آتا رہتا تھا قاسم !حمید کی جھنجھلا ہٹ بڑھ گئی ۔ یہ سب کچھ اُسی کی بد ولت ہوا تھا ۔

            اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ فریدی سے اُس جو تشی کا تذکرہ کر ے یا نہیں ۔ حا لا ت ایسے تھے جن کی بنا پر فریدی اُ س سے پو چھ سکتا تھا کہ اُس نے جو تشی کا تعا قب کیوں نہیں کیا ۔ فر یدی گھر پر مو جو د نہیں تھا ۔ اس نے سو چا چلو غنیمت ہے ۔ ابھی وہ کپڑے بھی نہیں اُتا ر پا یا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔ اس نے جھنجھلا کر اُس نا معقو ل ایجاد کی طرف دیکھا لیکن ریسیو ر تو ہر حال میں اُٹھا نا  ہی تھا ۔ ہو سکتا تھا کہ دوسری طرف فریدی ہی ہو ۔

            ’’کیا فریدی صاحب ہیں ؟‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

            ’’نہیں !‘‘ حمید گردن چھٹک کر بو لا۔

            ’’میں انوار بول رہا ہو ں !‘‘

’’بو لے جا ؤ ۔ میں منع نہیں کر تا !‘‘

’’کیا حمید ہو ؟‘‘

’’تمہیں اس سے کیا غرض !‘‘

’’فر یدی صاحب کہا ں ہیں ؟‘‘

’’کو ٹ کی جیب میں تو نہیں ہیں ۔ ہوسکتا ہے میز پر ہو ں یا پھر بھو لے سے تمباکو کی تھیلی میں چلے گئے ہو ں!‘‘

’’تم سیدھی طرح بات کیو ں نہیں کر تے ۔ بے ہو دے !‘‘

’’اچھا جی !‘‘ حمید سرخ ہو کر بو لا ۔’’ یہ تم بول رہے ہو ہڈیا  ں دُکھتی ہو ں گی !‘‘

’’میں  پوچھ رہا ہو ں فریدی صاحب کہا ں ہیں ؟‘‘

’’اَبے کیا میں فر یدی صاحب کی دُم میں بند ھا رہتا ہو ں !‘‘

’’ہو ش میں ہو یا نہیں ؟‘‘

’’میں بھلا کیو ں ہو ش میں رہنے لگا ۔ ایک عو رت کی کما ئی کھا تا ہو ں نا !‘‘

دوسر ی طر ف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا ۔ حمید نے بھی ریسیو ررکھ دیا ۔

حمید کو اپنے آخر ی جملے پر بڑی خوشی ہو رہی تھی ۔ رشید ہ کے سلسلے میں انوار پر چوٹ کر کے وپ ہمیشہ خو ش ہو تا تھا ۔ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ حمید کو اُن دونو  ں کے تعلقات پر رشک آتا تھا ۔ اشید ہ تو سچ مچ خود اس کے خوابو ں کی تعبیر تھی جسے حالات نے انوار کے حصے میں لا ڈالا تھا۔

حمید کپڑے اُتار کر غسل خانے کی طرف جا رہا تھا کہ فون کی گھنٹی پھر بجی ۔

اور اس بار کال ریسیو کر تے  وقت وہ بُری طرح دانت پیس رہا تھا لیکن اب کی دوسری طرف سے نسوانی آواز آئی تھی ۔ حمید نے دانت پیسنا بند کر کے سامنے والی دیوار کو آنکھ ماری

’’ہیلو !کیا حمید صاحب بول رہے ہیں ؟‘‘

’’فر ما ئیے آپ کون ؟‘‘حمید کے لہجے میں شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں ۔

’’رشیدہ !‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی ۔

’’اوہ !‘‘ حمید طو یل سانس لے کر بولا ۔’’ تو اب تم بور کرو گی !‘‘

’’تمہیں بہت دنوں سے نہیں دیکھا ۔ سخت بے چین ہو ں !‘‘

حمید بُرا سامنہ بنا کر رہ گیا ۔ وہ اچھی طرح سمجھ رہا تھا کی انوار اپنے اخبار کے لئے کو ئی ایسی خبر چا ہتا ہے جو کسی دوسرے اخبار میں نہ ہو ۔

’’اوہ تم خاموش کیو ں ہو گئے ؟‘‘ رشیدہ نے پھر پو چھا ۔

’’میں یہ سوچ رہا تھا کہ امر یکہ نے ایک ایسا ٹیلی فون ایجاد کیاہے جس پر بو لنے والو ں کی شکل بھی دکھائی دیا کرے ۔ لہٰذا قبل اس کے کہ وہ نا مرادایجاد ہمارے یہاں تک پہنچے میں مر جا نا چا ہتا ہو ں !‘‘

’’اوہ ہو !تو کیا واقعی بور ہو رہے ہو ؟‘‘ رشید نے پو چھا ۔

’’نہیں تو اَب میں یہ سو چ رہا ہو ں کہ تمہاری سا لگر ہ پر تمہیں کا تحفہ دوں !‘‘

’’شکر یہ ۔ تمہیں میرا اتنا خیال ہے ؟‘‘

’’ہاں رشیدہ !‘‘ حمید اس طرح بولا  جیسے اُسے کچھ یاد آگیا ہو ۔’’ میں خود تمہیں فون کرتا ۔ تمہیں یاد ہے وہ کو ن سا سانپ تھا جسے فریدی صاحب نے بیرن آئی لینڈ میں رائفل کا نشا نہ بنا یا تھا !‘‘

’’جا را کا کام !‘‘

’’جا را کا کا ٹھیک ۔ شکر یہ !‘‘ حمید بولا ۔

’’کیوں کیا بات ہے ؟‘‘

’’کچھ نہیں کو ئی خاص بات نہیں !‘‘

’’ضروکچھ چھپا رہے ہو !‘‘

’’بتا تو دوں مگر پھر سو چتا ہو ں کہ تم پیٹ کی ہلکی ہو ۔ انوار کو ضرور بتا دوگی ۔ مگر نہیں میں نہیں بتاؤں گا ۔ انور کسی نئی خبر کے چکر میں ہے ۔ اُس نے ابھی ابھی مجھے فون کیا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ تم دونو ں کی سازش ہو !‘‘

’’حمید ڈیئر پلیز !‘‘

’’نہیں مجبوری ہے ۔ میں کچھ نہیں نتا سکتا !‘‘

’’تم بڑے سنگ دل آدمی ہو !‘‘

’’جو دل چاہے کہو ۔ میں فریدی صاحب کی اجازت کے بغیر نہیں بتا سکتا !‘‘

’’تو اُن سے پو چھ لو نا ؟‘‘

’’اچھا ۔ میں اُن سے پو چھ کر تمہیں مطلع کردوں گا ۔ بر سبیل تذکرہ ۔ کیا تم کسی ایسے انگر یز جا تشی سے واقف ہو جو بنا رس کے پنڈتو ں کی سی پگڑی با ندھتا ہو زردپگڑی!‘‘

’’بلاشبہ واقف ہو ں ۔ شاید تمہارا اشارہ جیر الڈشاستری کی طرح ہے !‘‘

’’اوہ ہو جیر الڈستری !‘‘ حمید بڑا بڑا یا ۔’’تو یہ وہی حضرت تھے !‘‘

’’کیا کہا ۔ میں نہیں سمجھی !‘‘

’’اچھا رشیدہ میں بہت مشغول ہوں !‘‘ حمید نے کہا اور ٹیلی فون کا سلسلہ منقطع کر دیا ۔

حمید سوچ میں پڑگیا کہ اگر وہ حقیقناً جیر ا لڈشاستری ہی تھا اُس پر کسی قسم کا شبہ کر نا کہاں تک درست ہو گا ۔

حمید نے اب تک صرف اس کا نام ہی سنا تھا ۔ شہر کے تعلیم یا فتہ طبقو ں میں شا ید ہی کو ئی ایسا رہا ہو جس نے اس مشرق پر ست انگریز کے متعلق کچھ نہ سنا ہو ۔ وہ سنسکرت کا بہت بڑا عالم اور جو تش کا ما ہر تھا۔ ہنددو فلسفے پر اُس کی گہری نظر تھی ۔

سنسکرت اور ہندو فلسفے میں ریسرچ کر نے والے طلبا اُس سے مدد لیا کر تے تھے ۔

            اُس پر شبہ کر تے ہو ئے ہچکچا ہٹ کی وجہ اور بھی تھی اور وہ وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظیم اُس کے گہر ے دوستو ں میں سے تھے ۔ حمید بڑی لجھن میں پڑ گیا تھا مگر واقعات آخر جو زف اچانک وہاں سے کیو ں بھا گا ۔ ظاہری حا لات تو ایسے نہیں تھے جن کی بنا پر اُس کی وہا ں سے اچانک روانگی کو قرین قیاس سمجھا جا سکتا۔ وہ اور اُس کی بیوی تو بڑے اطمینان سے مو سم کا لطف اٹھا رہے تھے اور اُس وقت تک شاید انہوں نے پانی میں ایک غوطہ بھی نہیں لگا یا تھا۔

            ٹیلی فو ن کی گھنٹی پھر بجی ۔ اس بار بھی رشید ہ ہی تھی ۔

’’تم نے جیر الڈ کے متعلق کیو ں پو چھا تھا ؟‘‘ وہ پو چھ رہی تھی ۔حمید چند لمحے ما ؤتھ پیس کو گو ر تا رہا پھر مسکرا کر بو لا ۔’’تم بڑی ذہین ہو رشیدہ ۔تم مجھ سے پو ری بات پو چھ کر ہی رہو گی ۔ خیر سنو لیکن انوار سے ہر گز نہ بتا نا !‘‘

            ’’میں وعدہ کر تی ہو ں !‘‘

حمید پھر مسکرا یا ۔ وہ اچھی طرح جا نتا تھا کی انوار اور رشیدہ کو مختلف زخصیتیں سمجھنا حمایت ہے اور یہ بھی ممکن تھا کہ  اس وقت بھی فون پر گفتگو کر نے والا انوار ہی رہا ہو کیو نکہ وہ آواز بد لنے پر پو ری طرح قادر تھا ۔

’’اچھا رشیدہ !‘‘ حمید لمبی سا نس لے کر بو لا ۔’’ مجھے تم پر اعتما د ہے ۔ یہ تو تم جا نتی ہو کہ عر فا نی کے قاتلو ں کو کسی چیز کی تلاش تھی لیکن وہ انہیں نہیں مل سکی ۔ حقیقتاً وہ ہمارے قبضے میں ہے !‘‘

’’کیا چیز ہے ؟‘‘ رشیدہ کے لہجے میں اشتیاق تھا ۔

’’جار ا کا کا سا نپ کی شکل کا ایک پیتل کا سانپ ، جس کے پھن پر جیر الڈ شا ستری کا فو ٹو نصب ہے !‘‘

’’مذاق نہ کر و !‘‘

’’تم میرا وقت بر باد کر رہی ہو رشیدہ !‘‘ حمید بگڑ کر بولا اور فو ن کا سلسلہ منقطع کر دیا ۔

و ہ ریسیور رکھ کر ہٹا ہی تھا کہ پھر گھنٹی بجی ۔ اس بار مُکّا تان کر وہ ٹیلی فون کی طرف جھپٹا ۔

’’کیو ں خوا ہ مخوا بھیجا چا ٹ رہی ہو !‘‘ حمید ما ؤتھ پیس میں حلق پھا ڑ کر چیخا ۔

’’کیا بکو اس ہے ؟‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی لیکن یہ کسی مرد کی تھی ۔

’’اوہ ۔معاف کیجئے گا !‘‘ حمید بو کھلا کر بو لا ۔’’آپ کیا چا ہتے ہیں ؟‘‘ اس نے پو چھا ۔

’’سو لہ کنگس لین میں فو رًا پہنچو ۔میں فر ید ی بو ل رہا ہو ں !‘‘

حمید ’’ہیلو ہیلو ‘‘ ہی کر تا رہ گیا لیکن دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا ۔

حمید کی جھلا ہٹ شبا ب پر بھی مگر وہ کر ہی کیا سکتا تھا ۔ کنگس لین تک پہنچنے میں پندرہ منٹ صَر ف ہو ئے اور یہ پندرہ منٹ کس طرح گز رے حمید کو اس کی خبر نہیں کیو نکہ اس کا ذہین اُس کی کھو پڑی سے ایک فُٹ کی بلندی پر پر واز کر رہا تھا ۔ سو لہ نمبر کی عمارت کے سا منے اُس نے مو ٹر سا ئیکل رو ک دی ۔ فر ید ی اندر مو جو د تھا ۔

اس نے بڑی سر د مہری سے اُس کا استقبا ل کیا پھر وہ دو نو ں ایک کمرے میں دا خل ہو رہے تھے ۔

            حمید کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی حا لا نکہ زمین پر پڑے ہو ئے آدمی کی دو نو ں آنکھیں کھلی ہو ئی تھیں لیکن پہلی ہی نظر میں حمید کو ایسا ہو گیا تھا کہ وہ  لاش ہے۔

            یہ جو زف پیڑ کی لا ش تھی ۔ اس کے ہو نٹ سکڑ گئے تھے اور آنکھیں چھت کی طر ف گھو ر رہی تھیں ۔ چہرے پر خوف وہر اس کے آثار منجمد ہو کر رہ گئے تھے۔

            ’’یہ کیسے ہو ا ؟‘‘ دفعتہً حمید نے فر ید ی کی طرف مڑ کر تیز قسم کی سر گو شی کی ۔

            ’’تمہا را فو ن ملتے ہی مَیں یہا ں سے چلا گیا تھا اور پھر شا ید دو یا تین منٹ بعد  انہو ں نے عما رت میں ایک خو فنا ک چیخ سنی اور جب و ہ یہا ں آئے تو انہو ں نے ا س کو اِسی حالت میں پا یا ۔

            ’’مو ت کا سبب؟‘‘

            ’’نا معلوم ! جسم پر کو ئی زخم نہیں ہے ۔ البتہ گر د ن پر ایسے نشا نا ت ملے ہیں جنہیں میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا ۔ البتہ یہ دیکھو !‘‘

            فر ید ی نے فر ش کی طر ف اشارہ کیا جہا ں بھو رے رنگ کے بے شما ر با ل بکھرے ہو ئے تھے ۔ فر ید ی نے ایک با ل چٹکی میں لے کر حمید کے چہرے کے سا منے کر دیا ۔ یہ با ل تقریباً چھ یا ساتھ انچ لمبا رہا ہو گا ۔

            ’’کو ئی عو رت ؟‘‘ حمید ہو نٹو ں پر زبان پھیر کر با لا ۔

            ’’اگر یہ بال کسی عو رت کے ہیں تو وہ یقیناً ریچھ کی اولا د ہو گی !‘‘

            ’’پھر ؟‘‘

            ’’کسی عو رت یا مرد کے بال اتنے سخت نہیں ہو سکتے اور پھر دوسری بات یہ کہ کیا با ت پو ری عمارت میں اپنا سر کھجا تی پھری ہے ؟‘‘

            ’’میں نہیں سمجھا !‘‘

            ’’اس قسم کے با ل کئی جگہ ملے ہیں لیکن اس کمرے میں سب سے زیا دہ ہیں !‘‘

            ’’پھر آپ نے کیا سکجھا ہے ؟‘‘

            ’’کچھ نہیں ابھی میں کچھ نہیں سمجھ سکا !‘‘

            ’’اُس کی بیو ی واپس آئی ؟‘‘

            ’’ہا ں ۔ وہ اوپری منزل پر ہے اور اُس نے ابھی تک کو ئی با ت نہیں بتا ئی ۔ مٰیرا خیا ل ہے کہ و ہ اُن معا ملا ت سے لا علم ہے !‘‘

            ’’کن معاملا ت سے ؟‘‘

            ’’کیا تمہیں نہیں معلو م کہ میں نے یہا ں کی تلا شی کیوں لی تھی ؟‘‘

            ’’میں غیب داں تو نہیں !‘‘ حمید جھنجھلا گیا ۔

            ’’احمق ضرو ر ہو ۔ کیا تمہیں کسی قیص کی وہ جیب  یا د نہیں جو ہمیں عرفا نی صاحب کے یہا ں ملی تھی !‘‘

            ’’اوہ تو کیا !‘‘

            ’’مجھے وہ قبص یہا ں مل گئی ہے جس کی جیب ہے غا ئب ہے غا لباً جدو جہد کے دور ان میں عر فا نی صاحب کا ہا تھ جیب پر پڑ گیا تھا ۔ جو زف بے وقو ف تھا جو اُس نےب اس قمیص کو ضا ئع نہیں کر دیا !‘‘ فر یدی چند لمحے خا مو ش رہا پھر یکا یک چو نک کر بو لا ۔’’ و ہ یک بیک وہا ں سے بھا گا کیو ں تھا ؟‘‘

            حمید نے مختصر اًجیر الڈ شا ستری والا واقعہ دہر ایا ۔ اس دور ان میں فر ید یکی نظر یں لا ش پر جمی رہی تھیں اور اُس کی پیشا نی پر با ر بار سَلو ٹیں پڑ جا تی تھیں۔

            ’’جیر الڈ کے متعلق آپ کیسی رائے رکھتے ہیں ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

            ’’و ہ ہمیشہ سے میرے لئے پُر ا سر ار رہا ہے مگر اِتنا نہیں کہ میں اُسے کسی قسم کے جر ا ئم سے متعلق سمجھو ں!‘‘

            ’’و ہ ہے کیا بلا ؟‘‘

            ’’اُسے مشرق علو م خصوصاً سنسکرت اور فلسفے سے عشق ہے ۔ انگلستا ن کے ایک معز ز گھر ا نے سے تعلق رکھتا ہے ۔ محض اکتسا ب علم کے شو ق میں اُس نے اپنا خا ندانی اعزازا پنے چھو ٹے بھا ئی کو سانپ کر مشرق کی راہ لی ورنہ وہ اِس وقت لا رڈ آدتھر جیر الڈ ہو تا !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

            ’’اوہو ۔ تو کیا وہ لا رڈ نکسن جیر الڈ کا بھا ئی ہے ؟‘‘ حمید نے حیرت سے کہا ۔

            ’’قطعی ۔ چلو اب ہمیں ایک بار پھر جو زف کی بیو ی سے ملنا پڑے گا !‘‘

            اوپری منزل پر پہنچ  کر وہ اُس کمرے میں داخل ہو ئے جہا ں پمیلیا  تکیو ں میں سر ڈالے پڑی تھی ۔ اُن کی آہٹ پر چو نک کر اُس نے سرا ٹھا یا ۔ اس کے چہرے پر غم کے بجا ئے خوف کے آثار تھے ۔ آنکھیں سر خ ضروع تھیں لیکن یہ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ رو نے ہی کی وجہ سے سر خ ہو گئی ہیں ۔

            ’’مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں پھر تکلیف دے رہا ہو ں !‘‘ فریدی نے نر  م لہجے میں کہا ۔

            ’’کہئے ۔ میں اس وقت ہو ش میں نہیں ہو ں!‘‘

            ’’بیدنگ کلب میں جیر الڈ سے کیا با تیں ہو ئیں تھیں ؟‘‘

            ’’آپ کو کیسے معلو م ہو ا ؟‘‘ پمیلیا یک بیک اُٹھ کر بیٹھ گئی پھر وہ خو د بخو د بڑا بڑا نے لگی ۔’’انہو ں نے با لکل ٹھیک کہا تھا ۔وہی ہو ا وہی ہو ا !‘‘

            پمیلیا  چند لمحے اپنی ویران آنکھیں پُر  خیال انداز میں فر یدی کے داہنے شا نے پر جما ئے رہی پھر بو لی ۔

’’انہو ں نے کہا تھا کہ آج تم دو نو ں کو گھر سے نہ نکلنا چا ہئے تھا ۔آج کا دن تمہا رے لئے انتہا ئی خطر نا ک ہے !‘‘

            اس سے اُس کا مطلب تھا ؟‘‘

            اوہ مطلب !کیا اب بھی مطلب پو چھنے کی ضرو رت با قی رہ جا تی ہے ؟‘‘ پملیا نے اپنا چہر ہ دونو ں ہا تھو ں سے چھپا لیا ۔

            ’’جو زف پچھلی رات کو کہا ں تھا ؟‘‘

            ’’پچھلی رات میں نہیں جا نتی ۔ شا ید وہ ہا ئی سر کل نا ئٹ کلب میں تھا ۔ تین بجے واپس آیا تھا !‘‘

            ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ اُس نے پچھلی رات کو ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا ؟‘‘

            ’’کیا ؟‘‘ پمیلیا اُچھل کر کھڑی ہو گئی ۔ اُس کی آنکھیں خو ف اور حیرت سے پھیل گئی تھیں ۔ یک بیک وہ چیخ پڑی ۔’’تم جھو ٹے ہو جو ٹی مہا تما بد ھ کا سچا پیر و تھا یہ بکو اس ہے نکل جا ؤ یہا ں سے !‘‘ پھر وہ گلو ں کی طرح حلق پھا ڑ پھا ڑ کر چیخنے لگی ۔ یہ و حثیو ں کی زمین ہے یہ جنگلیو ں کی بستی ہے ۔یہ غلط ہے مہا تما بد ھ یہا ں نہیں پیدا ہو ئے تھے !‘‘

5

دوسری صبح سر جنٹ حمید اور انسپکڑ فر ید ی جیر ا لڈ شا ستری کی قیا م گا ہ کی طر ف جا رہے تھے ۔ فر ید ی نے اتنی سختی سے دا نت جما رکھے تھے کہ اُس کے جبڑ وں کے مسلس اُبھر آئے تھے اور اُس کی آنکھیں سا منے سڑک پر گھو ر رہی تھیں ۔ حمید نے اُسے کَن انکھیو ں سے دیکھا اور نتھنے پھُلا کر شُو ں شُو ں کر نے لگا پھر اچا نک کر بو لا ۔

            ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سا رے انگر یز بُد ھست کیو ں ہو ئے جا رہے ہیں ؟‘‘

            ’’ہو ں !‘‘ فر ید ی بڑبڑا یا ۔’’کل تم نے قاسم کے سا تھ شرارت کی تھی !‘‘

            ’’آپ کو کیسے معلوم ہو ا ؟‘‘

            ’’اُس نے آج صبح فو ن پر تمہا ری شکا یت کی تھی !‘‘

            حمید ہنسنے لگا اور پھر اُسے قاسم والا واقعہ دہر انا بھی پڑا ۔

            ’’تمہیں سینکڑ و ں با ر سمجھا جا چکا ہو ں کہ دوسرو ں کو ایسے معا ملا ت میں شر یک نہ کیا کرو !‘‘ فر یدی بو لا ۔

            ’’مجبو ری تھی !‘‘ حمید پا ئپ میں تمبا کو بھر تا ہو ا بو لا ۔

            کیڈ ی تیز رفتاری سے راستہ طے کر رہی تھی ۔ تھو ڑی دیر تک خا مو شی رہی پھر فر یدی بڑ بڑا نے لگا ۔

            ’’عر فا نی کا پُر ا سر ار قتل کسی چیز کی تلا ش مر نے والے نے نیشنل بنک کا نا م لیا تھا  ۔ کیا و ہ چیز قاتلو ں کو نہیں مل سکی کہیں عر فانی نے اُسے نیشنل بنک میں نہ رکھا ہو!‘‘

            ’’میرا خیال ہے !‘‘ حمید بو لا ۔’’جو زف کی مو ت عر فانی کی مو ت سے بھی زیا دہ پُرا سرار ہے ۔ آخر وہ با ل کیسے تھے ؟‘‘

            ’’پتہ نہیں لیکن یہ تو صاف ہے کہ جو زف محض راز داری کے لئے ما را گیا ۔ سا زیشو ں کو یقین تھا کی وہ ضرور پکڑا جا ئے گا ؟‘‘

            ’’ہو سکتا ہے کہ انہیں اس بات کی اطلا ع ہو گئی ہو کہ آپ اُس کے مکا ن کی تلاشی لے رہے ہیں؟‘‘

            ’’ہو ں ۔ یہ تو بعد کی با تیں ہیں۔ آخر وہ کیا چیز تھی جس کے لئے اتنا ہنگا مہ ہو ا ۔ قاتل اُسے تلا ش کر نے میں اتنے منہمک ہو گئے تھے کہ وہ عر فانی کو با لکل ہی بھو ل گئے ۔ حتٰی کہ اُن کو خبر نہ ہو ئی کہ ان کا شکا ر رینگتا ہو ا کمرے سے با ہر نکل گیا !‘‘

            ’’جو زف کی مو ت !‘‘حمید بڑبڑا یا ۔

            ’’ہو نہہ ۔ اُسے فی الحال بھو ل جا ؤ ۔ مجھے یقین ہے کہ اُس کے لئے نہ صرف ڈرا ؤنا بلکہ حیرت انگیز بھی تھا اور اُس کی مو ت اتنی جلدی واقع ہو ئی کہ خو ف و تحّیر کے آثار مر نے سے قبل اُس کے چہرے سے رفع نہ ہو سکے اور اپنے نشا نا ت مر نے کے بعد بھی چھو ڑ گئے ۔ اسے بھی لکھ لو ۔ پو سٹ ما رٹم کی پو رٹ عام نظر یے سے مختلف ہو گئی!‘‘

            ’’یعنی ؟‘‘ حمید ، فر یدی کو گھور کر بولا ۔

            ’’عام نظریہ یہ ہے کہ جو زف کو گلا گھونٹ کر مارا گیا لیکن پوسٹ مارٹم کی رپورٹ دَم گھٹ کر مر نے کی کہانی نہ سنا ئے گی!‘‘

            ’’کیا آپ نے اس قسم کی کو ئی ہدایت دی ہے ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

            ’’نہیں ۔ وہ پو رٹ قطعی درست ہو گی ۔ ابھی تک میں معا ملا ت کی نو عیت کو نہیں سمجھ سکا ۔ اس لئے طر یق کا ر متعین کر نے کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا !‘‘

            ’’آخر ر پو رٹ میں ہو گا کیا ؟‘‘

            ’’مو ت کی اجہ دَم گھنٹے کے بجا ئے حرکت قلب کا اچا نک بند ہو جا نا ظا ہر کر ے گی !‘‘

            ’’اور یہ رپو رٹ سچی ہو گی !‘‘ حمید بڑ بڑا یا ۔’’لیکن و ہ نشا نا ت جو اس کی گر دن پر پا ئے گئے ہیں؟‘‘

            ’’ہا ں نشا نا ت بھی تھے لیکن مو ت خو ف کی شدت سے واقع ہو ئی !‘‘

            تھو ڑی دیر تک خا مو شی رہی پھر فر یدی نے پو چھا ۔

            ’’اس کی بیو ی کے متعلق رتمہا را کیا خیال ہے ؟‘‘

            ’’ہے ہے ۔ چا ند کا ٹکڑا ہے ظالم !‘‘

            ’’ہو ں !‘‘ فر ید ینے ہو نٹ بھینچ لئے۔

            ’’آپ نے تو دیکھا تھا اُسے !‘‘حمید لہک کر بو لا ۔

            ’’ابے تو کیا میں اس کے حسن کے با رے میں پو چھ رہا ہو ں !‘‘ فر ید ی جھنجھلا گیا ۔

            ’’آپ پو چھیں یا نہ پو چھیں  ۔ مجھے سچی با ت کہنے سے کو ئی رو ک نہیں سکتا !‘‘ حمید بھی اُسی لہجے میں بو لا ۔چند لمحے خامو ش رہا پھر لہنے لگا ۔’’مجھے اُس بد نصیب عو رت سے ہمدردی ہے !‘‘

            ’’مجھے تو اسی میں شبہ ہے کی جو زف حقیقتاً اُس کا شو ہر تھا !‘‘ فر یدی نے آہستہ سے کہا ۔

            ’’رہا ہو یا نہ رہا ہو لیکن میں یہ بات پو رے اعتماد کے ساتھ کہہ سلتا ہو ں کہ وہ جو زف کے جرم سے واقف نہیں تھی !‘‘

            ’’کس بنا پر کہہ رہے ہو ؟‘‘

            ’’اس بنا پر کہ وہ اب تک زندہ ہے !‘‘

            ’’میرا خیال ہے کہ وہ دوسرے لو گ بھی زندہ ہی ہو ں گے جو ، جو زف کے ساتھے تھے !‘‘ فر یدی خشک لہجے میں بو لا ۔

            حمید نے چند لمحے خا مو ش رہ کر کہا ۔’’جو زف کی مو ت اس لئے واقع ہو ئی کہ کہیں پو لیس اُس سے کچھ معلوم نہ کر لے۔ یہی چیز پمیلیا کے لئے بھی ہو سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہم دوسرے لو گو ں کا پتہ نہیں لگا سکے !‘‘

            ’’پمیلیا سے پو لیس کچھ معلو م کر سکے گی ۔ اسی لئے و ہ اب تک زندہ ہے !‘‘ فر یدی  نےکہا ۔’’جو زف بے وقوف اور لا پر وا آدمی تھا ۔ اگر وہ ایسا نہ ہو تا تو اُس قمیص کو ضا ئع کر دیتا ۔ وہ ذہنی طو ر پر حقیقتاً ایسا ہی رہا ہو گا کہ پو لیس کو اُس سے کا فی مدد ملتی !‘‘

            ’’با تو ں میں آپ سے کو ئی نہئں جیت سکتا !‘‘ حمید نے اُکتا کر با ت ختم کر نے کے لئے کہا ۔

            ’’ویسے تم کُشتی میں مجھ سے جیت سکتے ہو !‘‘ فر ید ی مسکرا کر بو لا ۔

            ’’اوہ !خو ب یا د آیا !‘‘ حمید نے کہا ۔’’آپ فر ی اسٹا ئل کُشتی کے دا ؤں پیچ سے تو واقف ہی ہو ں گے ؟‘‘

            ’’ہا ں ۔ کیو ں ؟‘‘

            ’’عنقریب فر ی اسٹا ئل کا ایک دَنگل شرو ع ہو نے والا ہے ۔ مغربی مما لک کے پہلو ان بھی آرہے ہیں !‘‘

            ’’پھر ؟‘‘

            ’’میں قاسم کو کسی  سے لڑانے کا ارادہ رکھتا ہو ں ۔ ظا ہر  ہے کہ وہ اِس میدان میں ایک غیر معروف آدمی ہے ۔اس لئے کا فی پیسے پیدا کر لو ں گا !‘‘

            ’’اچھا ۔ یہ پیشہ کب سے اختیا ر کیا ہے ؟‘‘

            ’’کیا حرج ہے اِس میں ، کچھ احمق ریئسو ں سے کچھ رو پے وصول کر لو ں!‘‘

            ’’کس طرح وصول کرو گے ؟‘‘

            ’’قاسم کی جو ڑ پر شرط بدَ کر !‘‘

            ’’خیا ل بُرا نہیں لیکن مجھ سے کیا چا ہتے ہو ؟‘‘

            ’’آپ قاسم کو فر ی اسٹا ئل کے طر یقے بتا یئے !‘‘

            فر ید ی کچھ نہ بو لا ۔ وہ جیر الڈ کی قیا م گا ہ بَر کلے ہا ؤ ز کے قر یب پہنچ گئے تھے ۔ فر یدی نے کیڈی لا ک کو کمپا ؤنڈ کے اندر لے جا نے کے بجا ئے پھا ٹک ہی پر روک دیا اور وہ دونو ں اُتر کر اندر چلے گئے ۔ بر آمد ے میں کو ئی نہیں تھا ۔

فریدی نے آگے بڑھ کر گھنٹی بجا ئی ۔

            تھو ڑی دیر بعد اندر قدمو ں کی آواز سنا ئی دی ۔ دروازہ ذرا سا کھلا اور ایک دُبلا پتلا انگریز جس کے گا لو ں کی ہڈیا ں اُبھری ہو ئی تھیں سر نکال کر بر آمد ے میں دیکھنے لگا ۔

            فر یدی نے اپنا ملا قاتی کا رڈ نکا ل کر اُس کی طر ف بڑ ھا یا جسے وہ لے کر کچھ بڑ بڑا تا ہو ا اندر چلا گیا ۔

            ’’اس کے نو کر بھی انگریز ہی ہیں !‘‘ حمید  نے کہا ۔

            قبل اس کہ فر ید ی کچھ کہتا ،دروازہ پھر کھلا اور وہ دُبلا پتلا قبر رسید ہ انگر یز بر آمدے میں نکل آیا ۔ اس نے فرید ی کا کا رڈ اُسے واپس کر دیا ۔

            ’’کیو ں ؟‘‘ فریدی نے اُسے تیز نظرو ں سے گھو رتے ہو ئے کہا ۔

            ’’میں خا دم نہیں ہو ں !‘‘ اس نے نتھنے پھُلا کر منمنا تے ہو ئے کہا ۔’’ میں اُس کا پرا ئیو یٹ سکر یڑی ہو ں ۔

سمجھے تم ؟‘‘

            ’’سمجھا میں لیکن میرا ملا قاتی کا رڈ اس تک کو ن پہنچا ئے گا ؟‘‘ فر ید ینے مسکرا کر کہا ۔

            ’’میں ہی پہنچاؤں گا لیکن میں خا دم نہیں ہو ں !‘‘

            ’’نہیں پیا رے تم تو را جہ اِندر ہو !‘‘ حمید بو لا ۔

            ’’کیا ؟‘‘ انگریز نے پھر نتھنے پھُلا ئے۔

            ’’کچھ نہیں !‘‘ فر یدی جلدی سے بو لا ۔’’تو پھر میرا وز ینٹگ کا رڈ ا ندر پہنچا دو !‘‘

            ’’تم اپنی قسمت کا حال دریافت کر نے آئے ہو نا ؟‘‘ انگر یز نے بُرا سا منہ بنا کر پو چھا ۔

       ’’ہاں ہا ں !‘‘

            ’’تو میں بتا ئے دیتا ہو ں ۔ تمہا ری پو ری قو م کی قسمت کا حال ۔ تم ہمیشہ مغرب کے غلا م رہو گے ۔ تم جو ہا تھ  کی لا یعنی لکیر و ں میں یقین رکھتے ہو ۔سمجھے تم !‘‘

            ’’سمجھا میں !‘‘ فرید ی مسکرا کر بو لا ۔’’ کیا یہا ں تمہا رے اور جیر الڈ کے علا وہ اور کو ئی نہیں رہتا ؟‘‘

            ’’ایک بو ڑھی خا دمہ بھی ہے اور مجھے اُس ہی کی بدولت بعض اوقات خا دم کے فرا ئض انجا م دینے پڑتے ہیں ۔وہ کُتیا کا فر زند نِر وان کی تلا ش میں ہے اس لئے زیا دہ اخراجات نہیں بڑ ھا تا ۔ کبھی کبھی مجھے جھو ٹے بر تن بھی صاف کر نے پڑتے ہیں !‘‘

            ’’تو پھر تم یہا ں کیو ں پڑے ہو ئے ہو ؟‘‘ فر ید ی نے حیرت سے پو چھا ۔

            ’’میں مجبو ر ہو ں وہ ولدالحرام میرا با پ ہے ۔ میرا نا م لیمی ہے لیمبر ٹ آرتھر !‘‘

            ’’اوہ ہو !لیمی ڈیئر تم سے مل کر بڑی خو شی ہو ئی !‘‘ حمید مصافحہ کے لئے ہا تھ بڑھا تا ہو ا بو لا ۔’’کیا تم بھی شا ستری ہو ؟‘‘

            ’’مجھے غصہ نہ دلا ؤ !‘‘ لیمی خلا میں مکّا لہر ا کر چیخا ۔’’مجھے مشرق کی ہر چیز سے نفرت ہے !‘‘

            ’’تب تو ہم گہرے دوست ثابت ہو ں گے !‘‘ حمید نےاس کا شا نہ تھپ کر کہا ۔’’مجھے مغرب کی یلا یلیا ں بہت پسند ہیں !‘‘

            ’’اوہ مسڑ آرتھر ۔ برا ہِ کر م میرا کا رڈ پہنچا دو !‘‘ فر یدی جلدی سے بو لا ۔

            لیمی نے کا رڈلے لیا اور اُس کے چلے جانے کے بعد فر یدی نے حمید سے کہا ۔

            ’’واقعی تم بڑے سوّ رہو !‘‘

            ’’نہیں آپ میر ے بز رگ ہیں !‘‘ حمید سعادت مندانہ میں شر ما کر بو لا ۔’’ مجھے چھو ٹا سُوّر کہا کیجئے !‘‘

            فر یدی مسکرا کر خا موش ہو گیا ۔ اندونی راہداری میں پھر قدمو ں کی آواز سنائی دے رہی تھی  لیکن اس بار ایک ایسا آدمی اندر سے نکلا کہ یہ دونوں چو نک پڑے ۔ آنے والا بھی تھو ڑا سا ٹھٹکا لیکن پھر خفیف سی مسکراہٹ کے سا تھ بولا ۔’’ہیلو آفیسر ز ۔ اِدھر کہاں ؟‘‘

            ’’اوہو مسڑ بر نا رڈ!‘‘ فریدی نے ہنس کر کہا ۔’’ذرا میری ہتھیلی میں آج کل ایک نئی لکیر پیدا ہو گئی ہے !‘‘

            ’’کہیں وہ مو ت کی نہ ہو !‘‘ بر نا رڈ نے تشو یش نا ک لہجے میں کہا ۔

            ’’نہیں مسڑ بر نا رڈ !ابھی میں کیسے مر سکتا ہو ں ۔ ابھی اس شہر میں بہتیر ے ایسے مجرم با قی ہیں جن کے خلاف پو لیس واضح قسم کے ثبو ت نہیں فر ا ہم کر سکی ہے !‘‘

            ’’خو ب !‘‘ بر نا رڈ مسکرا کر بو لا ۔’’ اگر یہ چو ٹ مجھ پر ہے تو میں شا ید پو لیس کو قیا مت تک اپنی بے گنا ہی کا یقین نہ دلا سکو ں گا !‘‘

            ’’نہیں مسڑ بر نا رڈ ۔ میں نے تم پر چو ٹ نہیں کی ۔ تم تو بڑے معز ز آدمی ہو !‘‘

            ’’مجھ سے بھی زیا دہ معز ز !‘‘ حمید اپنے سینے پر ہا تھ ما ر کر بو لا ۔

            ’’چیز یو !‘‘ بر نا رڈ ہنستا اور ہا تھ پلا تا ہوا چلا گیا ۔

            ’’یہ یہا ں کیسے تھا ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

            ’’ممکن ہے یہ بھی بُد ھسٹ ہو گیا  ہو !‘‘ فر یدی  ہنس کر بو لا  ۔’’ اوہ ۔ مسڑ لیمی تشریف لا رہے ہیں !‘‘

            لیمی نے دروازے سے سر نکال کر کہا ۔’’ اور پھر تیز ی سے واپسی کے لئے مڑگیا ۔حمید اور فر یدی اس کے پیچھے چل رہے تھے ۔ایک کمرے کے سا منے وہ رُک گیا اور زچہرے پر بیزاری کے اثرات پیدا کر کے بو لا ۔

’’یہا ں بیٹھو !‘‘

            وہ دونو ں کمرے کے اندر چلے گئے ۔یہ غا لباً ڈرا ئنگ رو م تھا لیکن یہا ں فر نیچر نہیں تھا ۔ انہیں قا لینو ں کے فر ش پر بیٹھنا پڑا جہا ں دو چار گا ؤ تکتے بھی پڑے ہو ئے تھے ۔ دیوار وں پر مہا تما بد ھ ، تلسی داس ، کبیر داس ، میرا ، گا ندھی جی وغیرہ کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں ۔ ایک طرف بخو ر دان میں خو شبو یا ت سُلگ رہی تھیں ۔ بہر حال ما حول کچھ رعجیب سا تھا ۔

            تھو ڑی دیر بعد جیر الڈ کمرے میں داخل ہوا ۔ اس کے جسم پر سفید سو ٹ تھا اور سر پر وہی بنا رسی وضع کی پہلی پگڑی تھی اور ما تھے پر تلک بھی مو جود تھا ۔ جیر الڈ کا چہر ے عجیب تھا ۔ حمید کا نپ اُٹھا اس کے چہرے کے خدوخال اور آنکھو ں میں ہم آہنگی نہیں تھی ۔ اس کی آنکھیں چہرے سے با لکل ہی بے تعلق نظر آتی تھیں ۔ خدوخال میں تیکھے پن کے بجا ئے نر ما ہٹ تھی لیکن آنکھیں اُن میں تو کچھ نہیں تھا ۔ خا لی خالی سی ویران آنکھیں جن میں چمک نہیں تھی لیکن پھر بھی یہ گمان ہو تا تھا کہ وہ شیشے کی ہیں اور ان کے آرپار دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایک لخطے کے لئے وہ آنکھیں ان کے چہروں پر رُکیں اور پھر ہٹ کر ردان پر جم گئیں ۔

            حمید سا چنے لگا کہ کیا یہ اندھا ہے ۔ جیر الڈ کے ہو نٹو ں پر مسکرا ہٹ نمو دار ہو ئی لیکن اُس کی آنکھیں بد ستور بخو ردان پر جمی رہیں۔

            فر یدی او ر حمید کھڑے ہو گئے ۔

            ’’او ہو تشریف رکھئے !‘‘ جیر الڈ بڑی صاف شفاف اُردو میں بو لا ۔’’ آرام سے جو تے اُتار کر تشریف رکھئے مجھے اپنے مشرقی بھا ئیو ں سے مل کر بڑی خو شی ہو تی ہے !‘‘

            ’’مجھے افسوس ہے کہ میں ایک بہت ہی اہم معاملے میں آپ کو تھو ڑی سی تکلیف دینے کے لئے حا ضر ہوا ہو ں !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

            ’’اوہو ضرور ضرور میں نے آپ کے کا رڈ میں آپ کا عہدہ دیکھا ہے !‘‘

            وہ تینو ں گا ؤ تکتے سے لگ کر بیٹھ گئے ۔ حمید کی آنکھیں بد ستو ر جیرالڈ کے چہرے پر جمی ہو ئی تھیں جو اُن دو نو ں میں سے کسی کی بھی طرف نہیں دیکھ رہا تھا ۔ اب اُس کی نظر یں بخو ردان سے ہٹ کر میرا کی تصویر جم گئیں تھیں۔

            ’’کل ایک آدمی کی مو ت بڑے پُرا سرار طر یقے پر واقع ہو گئی ۔ پو لیس اس کے لئے پر یشان ہے !‘‘ فر یدی بو لا ۔

            ’’پُرا سرار طر یقہ پر !‘‘ جیر الڈ آہستہ سے بو لا ۔’’اگر مجھے اُس کی پیدا ئش کا صحیح وقت ،دن اور تا ریخ معلو م ہو جا ئیں تو میں اُس پُر اسرار طر یقے ڈال سکو ں گا !‘‘

            ’’میرا خیا ل ہے کہ آپ اُسے جا نتے ہیں !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

            ’’میں جا نتا ں ہو ں ؟‘‘ جیر الڈنے سو ا لیہ انداز میں دہرایا ۔اب اُس کی نظریں میرا کی تصویر سے ہٹ کر پھر بخو ردان پر جم گئی تھیں۔

            ’’جی ہا ں۔جو زف پیڑ جسے آپ نے کل اُس کے مستقبل کے متعلق کچھ بتانا تھا !‘‘

            ’’ٹھہر ئیے !‘‘جیر الڈبے صبری سے ہا تھ اٹھا کر بو لا ۔’’مجھے کہنے دیئجے میں سمجھ گیا ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک عجیب و غریب ہا تھ تھا ۔کل میں نے ایک نو جوان جو ڑے کے ہا تھ دیکھے تھے اور انہیں بتا یا تھا کہ آج کا دن اُن کے لئے خطر ناک ہے اور میں آپ کو بتا دو ں کہ مرد کے ہا تھ کی ایک لکیر بتا تی تھی کہ و ہ کسی عجیب و غریب درندے کا شکا ر ہو گا اور ستا رے کہہ رہے تھے وہ منحوس دن یہی ہے !‘‘

            ’’اور اُس کی بیو ی وہیں رہ گئی تھی !‘‘ فر یدی بو لا ۔

            ’’میں نے دو نو ں سے کہا تھا کہ وہ گھر چلے جا ئیں !‘‘

            ’’کیا ستا رو ں نے یہ نہیں بتا یا تھا کہ اُس کی مو ت گھر ہی پر واقع ہو گی ؟‘‘

            ’’جنا بِ من ! وہ کہیں نہیں بچ سکتا تھا ۔ مقدرات اَٹل ہو تے ہیں !‘‘ جیر الڈ نے مسکرا کر کہا ۔

            حمید کی نظریں اب بھی جیر الڈ کے چہرے پر تھیں اور اُس نے اس کے چہرے پر اب تک کسی قسم کا جذبا تی تغّیر نہیں محسوس کیا تھا ۔حتٰی کہ مسکرا تے وقت بھی اُس کی آنکھیں پہلے ہی کی طرح سپا ٹ رہی تھیں۔

            ’’اور دوسری بات !‘‘ جیر الڈ تھو ڑی دیر بعد بو لا ۔’’وہ آدمی خود بھی قاتل تھا ۔اس کے ہا تھ کی ایک لکیر یہ بھی بتا تی تھی !‘‘

            ’’مجھے اِسی کا تو افسوس ہے !‘‘ فر یدی نے چبھتے ہو ئے لہجے میں کہا ۔’’جب مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ قاتل ہے تو وہ خود قاتل کر دیا گیا !‘‘

            ’’کیا ثبو ت مہیّا ہو گیاتھا ؟‘‘ جیر الڈ نے پو چھا ۔

            ’’قطعی ۔ اُسے منٹ کی بھی تھی مہلت نہ ملتی !‘‘

            ’’عجیب با ت ہے آج کل کشت وخون کا رُجحان بڑھتا جا رہا ہے !‘‘ جیر الڈ بولا ۔’’دنیا تبا ہی کی طر ف جا رہی ہت ۔ پچھتّر فی صد ہا تھو ں میں مجھے اذیت پسند انہ رجحانا ت کی لکیر یں نظر آتی ہیں ۔ مہا تما بد ھ کی تعلیمات عام کر نے کی اَشد ضرو رت ہے !‘‘

            ’’مجھے خو شی ہے کہ انگریزوں میں بُد ھ اِزم بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے !‘‘ فر یدی نے سر ہلا کر کہا ۔’’کیا یہ بر نا رڈ بھی بُد ھ اِزم سے متا ثر ہے ؟‘‘

            ’’وہ آہستہ آہستہ را ہِ راست پر آرہا ہے ۔کیا آپ اُسے جا نتے ہیں ؟‘‘

            ’’جی ہا ں !اچھی طرح !‘‘

            ’’وہ اب ایک اچھا آدمی بننے کی کو شش کر رہا ہے !‘‘ جیر الڈ نے کہا ۔’’حالا نکہ اُس کے ہا تھ میں بھی ایسی لکیر یں ہیں جو اُس کو قاتل ثابت کر تی ہیں !‘‘

            ’’مگر افسوس ہے کہ پو لیس ہا تھ کی لکیروں والے علم سے بے بہر ہ ہے !‘‘فر یدی مسکرا کر بو لا ۔’’لیکن بر نا رڈ جلد ہی اپنی راہ تلاش کر لے گا وہ راہ جو پھا نسی کے تختے تک جا تی ہے !‘‘

            ’’اس کے ہا تھ میں اس قسم کی کو ئی لکیر نہیں !‘‘جیر الڈ بو لا ۔

            ’’میں نے عرض کیا نا کہ پو لیس اس علم سے بے بہر ہ ہے !‘‘ فر یدی مسکرا کر کہا ۔’’ویسے کیا میں پو چھ سکتا ہو ں کی آپ جو زف کو کب سے جا نتے تھے ؟‘‘

            ’’یہ آپ کیو ں پو چھنا چا ہتے ہیں ؟‘‘ جیر الڈ نے ہنس کر کہا ۔’’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ہی و ہدرندہ تھا؟‘‘

            ’’معاف کیجئے گا ۔ میں آپ کی بہت قدر کر تا ہو ں !‘‘

            ’’شکر یہ جا زف کو  میں زیا دہ نہیں جا نتا تھا لیکن مجھے اس کا علم ہے کہ وہ بھی بُد ھست تھا !‘‘

            ’’اور اس کے با وجود بھی اس نے عر فا نی کے قتل میں حصہ لیا !‘‘ فر یدی کا لہجہ طنز یہ تھا ۔

            ’’عر فا نی وہ تو شا ید ابھی حا ل ہی کا واقعہ ہے !‘‘

            ’’جی ہا ں  ۔ غا لباً آپ نے اخبار ات میں پڑھا ہو گا ۔ کیا آپ کا علم یہ بتا سکتا ہے کہ عر فا نی کے قا تلو ں کو کس چیز کی تلا ش تھی ؟‘‘

            ’’افسو س کہ یہ با ت میرے علم کے احا طے سے با ہر ہے !‘‘ جیر الڈ نے کہا ۔’’لیکن میں آپ کا ہا تھ دیکھ کر یہ ضرور بتا سکتا ہو ں کہ آپ اس کیس میں کا میا ب ہو ں گے یا نہیں !‘‘

            ’’شکر یہ ۔ مجھے اس سے دلچسپی نہیں !‘‘ فر ید خشک لہجے میں بولا ۔’’میں خود ہی اپنے ہا تھ کی لکیر یں بنا تا اور بگا ڑتا رہتا ہو ں ۔ میرا ہاتھ میری قوتِ ارادی کا پا بند ہے !‘‘

            ’’تب تو آپ واقعی با کمال آدمی معلوم ہو تے ہیں جیر الڈ سنجید گی سے بولا ۔’’اصل حقیقت تو یہی ہے کہ لکیروں کا بننا بگڑنا آدمی کے خیالات پر مخصر ہے۔ با حو صلہ آدمیو ں کے ہا تھو ں میں ما یوس کی لکیر یں نہیں ہو تیں !‘‘

            ’’اچھا ،اب اجا زت چا ہو ں گا !‘‘ فر یدی اُٹھتا ہو ا بو لا’’تکلیف دہی کی معا فی چا ہتا ہو ں !‘‘

            ’’اوہ کو ئی با ت نہیں !‘‘ جیر الڈ اُٹھ کر گر م جو شی سے ہا تھ ملا تا ہو ا بولا ۔’’ پھر بھی ملتے رہئے گا !‘‘

            ’’آپ کی شخصیت اتنی پُر کشش ہے کی ملنا ہی پڑے گا !‘‘ فر ید ینے مسکرا کر کہا لیکن حمید اس زہر یلی مسکراہٹ سے اچھی طرح واقف تھا ۔

6

 

            سر جنٹحمید آفس میں زیا دہ تر عشقیہ نا ول پڑھا کر تھا ۔اُس کی میز فریدی کی میز کے سا منے ہی تھی اس وقت بھی وہ اُردو کے ایک چَٹ پٹے مسا لے دار بلکہ خستہ کر ارے عشقیہ نا ول میں مگن تھا اور فر ید ی ایک ایسے چھو ٹے سے پیکٹ کو اُد ھیڑ نے میں مشغول تھا جوا بھی ابھی رجسڑ ڈیو سٹ سے اُس کے نام آیا تھا ۔

            دفعتہً حمید نے اُس نا ول کو بیچ سے پھا ڑ دیا ۔ جھرّا ٹا جو ہوا تو فر ید ی چو نک کر اُسے دیکھنے لگا ۔

            ’’کیا بے ہو دگی ہے !‘‘ فر ید ی جھنجھلا کر بو لا ۔

            ’’بے ہو دگی میری نہیں بلکہ اُن پیسو ں کی ہے جو اِس نا ول کے لئے میری جیب سے نکلے تھے !‘‘

            ’’میں نے تمہیں ہزار  با ر منع کر دیا کہ آفس میں نا ول نہ پڑھا کرو !‘‘

            ’’مجبو ر اً پڑ ھنا پڑتا ہے !‘‘ حمید بسور کر بولا ۔’’فقط خون گرم رکھنے کا بہا نہ ۔ خدا کی قسم اِن نا ولو  ن کو پڑھ کر خون گرم ہو تا ہے ۔غصہ آتا ہے اور مر نے ما رنے کو دل چا ہنے لگتا ہے ۔اب اِسی نا ول کا آخر ی منظر ملا حظہ فر ما یئے ۔سو رج پہاڑی کے پیچھے چھپ گیا ۔ دھند پھیل گئی ۔دو ھند لے سا ئے ایک دوسرے سے ملے ہو ئے پہا ڑ پر چڑھ رہے تھے ۔ وہ دور ہو تے گئے اور سر جنٹ حمید اُلو کا پٹھا  چیختا ہی رہ گیا کہ اَبے میرے سا ڑھے تین رو پے تو دیتے جا ؤ !‘‘

            فر یدی جھلاّ ہٹ کے با وجو د بھی مسکرا ہڑا اور حمید بکتا رہا ۔’’کیا میں سا ڑھے تین رو پے اِس لئے خرچ کر نا ہو ں کہ ہیر و اور ہیروئن پہا ڑی پر چڑھ جا ئیں ۔اس نا ول میں ہر وئین کا باپ دھو کے سے ہیرو کی ما ں سے شا دی کر لیتا ہے ۔ جب یہ راز کھلتا ہے تو اُس کا دل ٹوٹ کر برابر ہو جا تا اور وہ ما رے غم کے ایک اور شادی کر لیتا ہے لیکن اتفاق سے وہ بھی ہیروکی ما ں نکلتی ہے ۔ اب یہاں سے سسپنس شروع ہو تا ہے آخر ہیرو کی اصلی ما ں کو ن تھی ۔ ہیرو دونو ں کو اِما ں کہتا تھا اور آخر میں جب یہ راز کھلتا ہے ساری دنیا انگشت بد ندا ں رہ جا تی ہے ،اُن میں سے ایک دراصل !‘‘

            ’’بکو اس بند کرو !‘‘

            ’’دل کا بخا ر انکا ل لینے دیجئے ورنہ مجھے برا نکا ئیٹس ہو جا ئے گا !‘‘

            ’’خا مو ش رہو !‘‘ فر ید ی دا نت پیس کر بو لا ۔وہ پیکٹ کھو ل چکا تھا  اور اس میں سے بر آمد ہو نے والے کا غذ کے دو ٹکڑے اُس کے سا منے پھیلے ہو ئے تھے اور وہ تحیر آمیز نظروں سے اُن کی طرف دیکھ رہا تھا ۔

            ’’کیا اس پیکٹ سے کو ئی غم زدہ بکری بر آمد ہو ئی ہے !‘‘حمید نے دانت پر جما کر کہا ۔

            ’’نہیں ما نو گے تو میں دھکّے دے کر با ہر نکا ل دو ں گا !‘‘ فر یدی نے کا غذات پیکٹ سمیت جیب میں رکھتے ہو ئے کہا ۔

            پھر حمید نے اُسے مضطر با نہ انداز میں ٹہلتے دیکھا ۔ کئی با ر رُک کر اُس نے فو ن کر نے کے لئے ریسیو ر بھی اُٹھا یا لیکن پھر رکھ دیا ۔

            ’’کیا با ت ہے ؟‘‘ حمید نے سنجید گی سے پو چھا ۔

            ’’گھر چلیں گے !‘‘ فر ید ی نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہو ئے کہا ۔ ابھی تین ہی بجے تھے اور آفس ختم ہو نے کا وقت سا ڑھے چا ر تھا مگر یہ بات حمید کے لئے غیر معمو لی نہ تھی کیو نکہ فر ید ی آفس میں بہت ہی کم بیٹھتا تھا ۔

            ’’نہیں گھر نہیں !‘‘ فر یدی بر آمد ے میں پہنچ کر بو لا ۔

            ’’نیشنل بنک ،وقت بہت کم ہے ۔ہمیں تیز چلنا پڑے گا !‘‘

            نیشنل بنک کے نا م پر حمید چو نکا لیکن وہ سو چ رہا تھا کہ نیشنل بنک جا نے کی ضرو رت کیو ں پیش آئی جبکہ فر یدی پہلے ہی وہا ں تحقیقات کر چکا تھا ۔نہ صرف تحقیقات کر چکا تھا بلکہ ما یوس بھی ہو چکا تھا ۔

            مر نے سے قبل عر فا نی نے نیشنل بنک کا نا م لیا تھا اس لئے خیا ل پیدا ہو اتھا کہ ممکن ہے عر فا نی و ہ پُرا سرار چیز جس کی قاتلو ں کو تلا ش تھی نیشنل اُس نے کو ئی چیز سیف کسٹڈی میں نہیں رکھو ائی تھی

            فر یدی  کی کیڈی لا ک سڑک پر فرّا ٹے بھر رہی تھی اور اس وقت سچ مچ اُس کا دل چا ہ رہا تھا کہ ٹر یفک پو لیس کے ایک آدھ کا نسٹیبل کو جا ن ہی سے ما ر ڈالے ۔چو را ہو ں سے گز رتے وقت جب کا نسٹیبل ہا تھ دے کر ایک طر ف کے ٹر یفک رُکو ا دتیے تو فر ید یکا کلیجہ خو ن ہو جا تا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں بنک بند نہ ہو جا ئے ۔

            ’’کیا مصیبت!‘‘دفعتہً حمید بڑ بڑا یا ۔’’کہیں ایکسیڈ نٹ نہ فر ما دیجئے گا ۔ آخراب یک بیک نیشنل بنک کی کیو ں  سو جھی ، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عر فا نی چند ہزارو پو ں کے لئے قتل کر دیا گیا ہے اور قتل کو درا صل وصیت نا مے کی تلا ش تھی ؟‘‘

            ’’نہیں !جس چیز کی تلا ش تھی وہ نیشنل بنک ہی میں ہے !‘‘

            ’’کیا الہام ہو ا ہے ؟‘‘ حمید بھنّا کر بو لا ۔

            ’’مت بور کرو !‘‘ فر ید ی نے بے زاری سے کہا ۔’’عر فانی صاحب مر نے کے بعد بھی اپنی زندگی کا ثبوت دے رہے ہیں !‘‘

            ’’ہا ئیں ! تو کیا وہ بہرا م کی تلاش تھی !‘‘ حمید اُچھل کر بولا ۔

            ’’بکو اس بند کرو۔یہ دیکھو !‘‘ فر یدی نے جیب ٹٹول کر ایک کا غذ نکالا اور حمید کی طر ف بڑ ھا دیا ۔

            کا غذ پر تحر یر تھا ۔

            ’’فر یدی ! اگر مجھے کو ئی حا دثہ پیش آجا ئے تو اُسے نیشنل بنک کی سیف سے نکال لینا ۔کنجی اور کسٹڈی کی ریسدروانہ کر رہا ہو ں ۔ اگر میری گم شدگی کی خبر سنو تو کم از کم ایک ہفتے تک انتظار کرو ۔ اگر میری طرف سے کو ئی اطلاع ملے تو اُسے وہیں رہنے دینا ۔ اگر ہفتے کے بعد بھی میرے متعلق کچھ نہ سنو تو پھر تمہیں اختیا ر ہے ۔ اُسے ضرور با لضر ور نکال لینا لیکن راز داری شرط ہے۔ کسی کو کا نو ں کا ن خبر نہ ہو ورنہ میری ہی طرح تمہیں بھی وصیت کر نی پڑے گی !‘‘

نیچے عرفانی کا نا م تحر یر تھا اور اُس کے نیچے تا ریخ تحر یر تھی ۔

’’یہ تا ریخ اُسی دن کی ہے جس رات عر فانی کو حا دثہ پیش آیا !‘‘ فر یدی بو لا ۔

’’یعنی اُسے پہلے ہی سے خطر ے کا احساس تھا !‘‘ حمید نے تحیّر آمیز لہجے میں کہا ۔

’’اگر نہ ہو تا تو مجھے یہ سب کچھ بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں تھی !‘‘

’’اچھا دوسری بات !‘‘ حمید فر یدی کو کا غذ واپس کرتا ہوا بولا ۔’’یہ خط بتا تا ہے کہ وہ چیز سیف کسٹڈی

میں ہے اور آپ کی پچھلی تحقیقات کا ما حصل یہ تھا کہ عر فانی نے نیشنل بنک کی سیف کسٹڈی میں کو ئی چیز رکھو ائی ہی نہیں تھی !‘‘

’’ٹھیک ہے فر زند !اسی لئے تو کہا تھا کہ عرفانی صاحب مر نے کے بعد بھی اپنی زندگی کا ثبوت دے رہے

ہیں ۔ نیشنل بنک کی محفوظ تجو ری انسپکڑ احمد کمال فر یدی  کے نام سے کرائے پر لی گئی تھی !‘‘

            ’’یہ کیسے معلوم ہو ا آپ کو ؟‘‘

            ’’تم ڈیو ٹ ہو کیا ؟‘‘فریدی بگڑ کر بولا ۔’’کیا رسید پر تجو ری حاصل کر نے والے کا نا م نہیں لکھا جا تا !‘‘

            ’’رسید پر آپ کا نام ہے ؟‘‘ حمید نے احمقوں کی طرح پو چھا ۔

            ’’ہا ں ۔ہاں ۔ہا ں !‘‘ فر ید جھنجھلا گیا ۔’’اب یہ بھی پو چھو کی نا م کے ہجےّ کیا ہیں !‘‘

            ’’اب دیکھئے ۔تجوری سے خونی ہیرابر آمد ہو تا ہے یا لنگڑ ا جا سوس !‘‘ حمید مضحکہ اڑانے والے انداز میں بو لا ۔’’فو ما نچو کی بندر یا نکلتی ہے یا پی ۔کے چیو ٹینگم!‘‘

            ’’یا تمہارا جنا زہ !‘‘

            ’’ہا ئے ہا ئے آپ تو کسی نَو عر وس بیو ہ کی طرح کلکلا رہے ہیں !‘‘ حمید سینے پر ہا تھ ما ر کر بولا ۔

            فریدی دا نت پیس کر رہ گیا اور حمید نے بھی اسی میں عا فیت سمجھی کہ اب خاموش ہی رہے کیو نکہ ابھی ابھی کیڈی ایک خّچر گا ڑی سے ٹکراتے بچی تھی ۔بنک بند ہو نے میں صر ف آدھ گھنٹہ رہ گیا تھا اور اس وقت سیف کسٹڈی کا معا ملہ کھٹا لے ہی میں پڑجا تا اگر فر ید ینے منیجر کو اپنے کا م کی سر کا ری اہمیت نہ سمجھا نی شروع کر دی ہو تی ۔

            رسید پر پڑے ہو ئے نمبر والی تجو ری کھو لی گئی ۔ایک بڑا سا لفا فہ بر آمد ہو ا جس پر فر ید ی کا نا م تحریر تھا ۔ حمید نے اُسے ہاتھ پر رکھ کر اُس کے وزن کا اندازہ لگا یا اور ما یوسا نہ انداز میں ہو نٹ سکو ڑ کر فریدی کی طرف بڑھا دیا ۔

            واپسی پر منیجر بو لا ۔’’میرا خیال ہے کہ مسڑ عر فانی کے اکاؤنٹ کے متعلق تفتیش کر نے کے لئے آپ ہی تشریف لا ئے تھے !‘‘

            ’’جی ہا ں !‘‘فر ید ینے کہا ۔

            ’’تو براہ کر م یہ بتا یئے کہ یہ چر خہ کب تک چلتا رہےگا !‘‘

            ’’کیو ں ؟‘‘

            ’’میں عا جز آگیا ہو ں لیکن پو چھنے والے صرف یہی پو چھتے ہیں کہ عر فا نی نے سیف کسٹڈی میں تو کو ئی چیز نہیں رکھوائی تھی !‘‘

            ’’کیا میرے علا وہ بھی کسی  نے پو چھا تھا !‘‘ فر یدی نے پو چھا ۔

            ’’پتہ نہیں کتنے آئے اور مغزز چا ٹ کر چلے گئے !‘‘

            ’’اوہ !‘‘ فر ید ی سگا ر کیس نکالتا ہو ا بولا ۔’’کیا پو لیس والے تھے ؟‘‘

            ’’جی نہیں ۔عر فانی کے بھا ئی ، بھیجتے ، بھا نجے ،داماد ، نواسے اور نہ جا نے کیا کیا اِلا بلا میرا اردلی تو اتنا پر یشان ہو گیا ہے کہ اب میرے پا س آنے والے ہر آدمی سے پو چھا بیٹھتا ہے کہ وہ عر فانی کا کو ئی رشتے دار تو نہیں !‘‘

            ’’اوہ !‘‘ فر ید یسر ہلا کر بولا ۔’’اچھا اب یہ کیجئے ۔اگر اس قسم کا کو ئی آدمی آئے تو اُسے روک کر مجھے فو ن کر دیجئے گا !‘‘

            ’’آخر معا ملہ کیا ہے ؟عر فا نی کے اکا ؤنٹ کت متعلق کو ئی کچھ نہیں پو چھا!‘‘

            ’’آپ نے اخبارات میں تو عر فانی کے متعلق پڑھا ہی ہو گا !‘‘فر یدی بو لا ۔’’دراصل ان کے قاتلو ں کو  چند نا درونایاب ہیروں کی تلاش تھی لیکن وہ انہیں نہیں مل سکے ۔ اب غالباً وہی لو گ مختلف بنکو ں میں پتہ لگا تے پھر رہے ہیں ۔ اُن کی دانست میں عر فانی نے اُن ہیروں کو کسی بنک ہی میں رکھ چھو ڑا تھا !‘‘

            ’’اوہ یہ بات ہے ۔ میں آپ کو ضرور اطلا ع دوں گا ۔ آپ کا فون نمبر ؟‘‘

            حمید نے فو ن کے نمبر لکھو ادیئے ۔

            واپسی پر حمید کی بو کھلا ہٹیں قاتل دید تھیں ۔

            ’’ارے تو کھو لئے نا اس لفا فے کو !‘‘ اس نے کہا ۔

            ’’گھر پہنچ کر !‘‘ فر یدی بڑ بڑا یا ۔

            ’’سوال یہ پیدا ہو تا ہے !‘‘ حمید مضطر با نہ انداز میں بڑ بڑا یا ۔’’اگر عر فانی خود کو خطر میں سمجھ رہا تھا تو اُس نے پہلے ہی آپ کو یا پو لیس کو اطلا ع کیو ں نہیں دی اور وہ یہ لفا فہ  آپ تک اپنی زندگی میں بھی پہنچا سکتا تھا !‘‘

            ’’اُن کے خط کو دو بارہ پڑھو ۔ ان کے اس طر یق کار سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ انہو ں نے اپنے اس راز میں مجھے بو جہ مجبو راً شریک کیا ہے ۔ اگر وہ اس نا گز یر خطر ے میں نہ پڑتے تو مجھے اس کی کا نوں کا خبر بھی نہ ہو تی ۔

صاف لکھا ہے کہ نیشنل بنک سے وہ چیز اسی وقت نکلو ائی جا سکتی ہے جب انہیں کو ئی حادثہ پیش آجائے ورنہ نہیں !‘‘

            ’’ارے تو وہ کیا چیز ہے ؟ کھو لئے لفا فہ ورنہ میرا دَم اُلٹ جا ئے گا !‘‘

            ’’بے صبری نہیں ۔اس میں ہیرے نہیں ہیں !‘‘

            ’’کچھ بھی ہو لیکن اس سے دو خون وا بستہ ہیں !‘‘ حمید کچھ سا چتا ہو ا بو لا ۔’’ایک با ت سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ عجیب و غریب درندہ جو زف کے مکان میں کس طرح داخل ہو ا ۔ ظاہر ہے کہ کنگس لین کا فی گنجا ن آبادی ہے اور اُس کی پشت پر بھی عما رتوں کا سلسلہ ہے ۔ تعجب ہے کہ کسی نے اُسے دیکھا نہیں !‘‘

            ’’اوہ ۔کیا نہیں وہ بن ما نس یا د نہیں جو لا طینی بو لتا تھا !‘‘

            ’’تو آپ کا یہ مطلب ہے کہ کو ئی آدمی کسی درندے کی کھال پہن کر جو زف کے سامنے پہنچا تھا جسے دیکھ کر وہ خوف کے مارے مَر گیا ؟‘‘

            ’’میں تو یہی سمجھتا ہو ں !‘‘

            ’’اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو پھر آپ کی نظر وں میں جیر الڈ سَو فی صد مشتبہ ہو گا کیو نکہ اُسی نے جو زف کو گھر بھیجا تھا ؟‘‘

            ’’ہو سکتا ہے تمہا را خیال صحیح ہو !‘‘

            ’’اگر یہ ہو سلتا ہے تب تو میرا بیڑہ با قا عدہ طو ر پر غرق ہو گیا ۔ دو بارہ اُس خو فنا ک آدمی کو قریب سے دیکھنے کی اہمیت نہ کر سکو ں گا !‘‘

            ’’کیو ں ۔کیا خاص با ت ہے اُس میں ؟‘‘ فر یدی لا پر وائی سے بو لا ۔

            ’’اُس کی آنکھیں خدا کی پنا ہ ۔اس کا چہرہ دنیا کا آٹھواں عجو بہ ہے۔ آنکھو ں ہی کی بناوٹ پر دوسرے خدو خال کی نر می یا تندی کا دار ومدار ہو تا ہے مگر وہا ں دو نو ں میں بے ربطی ہے ۔ آنکھیں خو فنا ک اور چہرے کے دوسرے خدو خا ل معصومیت کے حامل ہیں !‘‘

            ’’ہا ں ہے تو کچھ ایسا ہی !‘‘ فر یدی بڑبڑا یا ۔

            گھر پہنچ کر فر یدی نے جیب سے لفا فہ نکا لا ۔ سیل تو ڑی اور لفا فہ کھول کر اُس کے اندر کی اشیا میز پر اُلٹ دیں ۔یہ تعلیمی تاش کے دو پتے تھے اور ایک چر می جلدی کی پا کٹ ڈائری ۔

            ’’ہات تیرے کی !‘‘ حمید اپنا سر پیٹ کر چیخا ۔’’یہ کس جا سو سی نا ول کا پلا ٹ ہے ۔اُن کم بختو ں نے اب چڑ یا کی تکّی ،اینٹ کی بیگم اور چڑی کا غلا م چھو ڑ کر تعلیمی تاش استعمال کر نے شروع کر دیئے !‘‘

            فر یدی نے دھیان تک نہ دیا ۔وہ بڑی تیزی سے ڈائری کے اوراق اُلٹ رہا تھا لیکن وہ سب کے سب سا دہ تھے ۔کسی صفحے پر بھی کو ئی تحریر نہیں تھی ۔

            حمید تعلیمی تاش کے پتّو ں کو اُلٹنے پلٹنے لگا ۔ ان کے ایک طرف حروف تھے اور دوسری تصویریں۔

تصویریں میں سے ایک پر دو مختلف فو جو ں کی لڑائی کا منظر تھا اور دوسرے پتّے کی پُشت پر صرف ایک نَو خیز لڑکے کی تصویر تھی جس کے ہاتھ میں تعلیمی تا شو ں کا پیکٹ تھا ۔

            حرف ایک ہی تھا اور یہ حرف تھا ’’ل‘‘

            فر یدی نے ڈائری رکھ کر پتّے حمید سے لے لئے وہ بھی چند لمحو ں تک انہیں الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا پھر عجیب نظر وں سے حمید کی طرف دیکھنے لگا ۔

            ’’میں سوچتا ہو ں ۔ کیا عر فا نی مجھ سے زیادہ مسخر ہ تھا !‘‘حمید نے کہا ۔

            ’’عر فا نی بہت ذہین آدمی تھے !‘‘

            ’’تو پھر اس حرکت سے کیا نتیجہ اخذ کر و ں؟‘‘ حمید دو بارہ سر پیٹ کر بو لا ۔

            ’’کیا تمہیں نتیجہ اخذ کر نے کی تکلیف نہ دوں گا !‘‘

            حمید پر اُس کے لہجے کی خشکی کا کو ئی اثر نہ ہوا ۔ تعلیمی تاش کے پتّو ں کو دیکھتے ہی اس کی سنجید گی رخصت ہو گئی تھی اور وہ اس بری طرح مضحکہ اڑانے کے مو ڈ میں آگیا تھا کہ اگر اس وقت اس کا با پ بھی ہو تا تو وہ  اُسے چٹکیو ں میں اُڑاد یتا ۔

            ’’دو نو ں پتّو ں پر لا م ہیں !‘‘ وہ نہا یت مفکر انہ انداز میں بڑبڑایا ۔ایک پر لڑے کی تصو یر ہے اور دوسرے پر لڑائی کی ۔ فر یدی صاحب معمہ حل ہو گیا ۔آپ نے اُردو کی ابتدائی کتاب تو پڑھی ہی ہو گی ۔بس اس کا پہلا تصویری سبق یاد کیجئے ۔اب دیکھئے ان پتّو ں کی طرف لام سے لڑکا اور لام سے لڑائی ۔یعنی یہی لڑکے مٹا تے ہیں جوانی کو جواں ہو کر ۔اُف فو ہ ۔زندگی کا فلسفہ حل ہو گیا ؟عر فانی صاحب ۔میں تمہا ری عظیم روح کو سلام کر تا ہو ں۔کیا بات پیدا کر دی ہے تم نے ۔ یعنی لڑکے جوان ہو کر فوج میں بھرتی ہو جا تے ہیں!‘‘

            ’’بکَے جا ؤ فر زند !‘‘ فر یدی مسکراکر بو لا ۔’’تمہا ری بکو اس بھی کبھی کبھی کا ر آمد ثابت ہو تی ہے !‘‘

            ’’لام سے لتا منگیشتر بھی ہو سکتا ہے لیکن میں فی الحال لام سے لگ گئی چو ٹ کر یجوا میں ہا ئے راما کو تر جیح دوں گا ۔ ہما رے سا منے دو لام ہیں۔اس لئے ایک شعر سنئے دونوں لا مو ں کی تشریح ہو جا ئے گی‘‘

                                                مس زُلف دکھا تی ہیں کہ اِس لام کو دیکھو

                                                ہم رِیش دکھا تے ہیں کہ اسلام کو دیکھو

            ’’اور یہ سا دی ڈائری ؟‘‘فر یدی نے ڈائری کی طرف اشارہ کیا ۔

            ’’بطور نمونہ آئی ہے ۔ اگر آپ سول ایجنسی لیں گے تو چا لیس فی صد کمیشن ملے گا اور دوسری بات یہ کہ مجھے کچھ کچھ یاد آرہا ہے کہ ابھی ہم نے شام کی چا ئے نہیں پی!‘‘

            ’’چا ئے تو دَم کے ساتھ ہے !‘‘ فر یدی مسکرا کر بولا ۔ ’’یہ تو بتا ؤ بچو ں کے اس کھیل کے پیچھے دو خون ہو گئے !‘‘

            ’’بہرا م کی خا لہ سے پو چھ کر جواب دوں گا ۔ ورنہ پھر اس سلسلے میں فیر وز پو ر کے ایک دوسرے منشی جی سے خط وکتابت کیجئے جوا بھی زندہ ہیں ۔ میں ایک مو ڈرن سرا غر ساں اتنی اونچی با تیں سمجھنے سے قاصر ہو ں !‘‘

            تھو ڑی دیر کے لئے خاموش ہو گئی ۔ فر یدی نے ڈائر ی اور تاش کے دونو ں پتّے تجوری میں رکھ دیئے ۔

            چا ئے پر حمید نے پھر وہی تذکرہ چھیڑ دیا ۔

            ’’فی الحال عر فانی کو کھو ل جا ؤ!‘‘ فر یدی بولا ۔’’اگر ہم اس کیس کو جو زف کی موت سے شروع کریں تو زیادہ بہتر ہو گا !‘‘

            ’’کیو ں ۔عر فانی کو کیوں بھو ل جا ؤں ؟‘‘

            ’’اس لئےکہ ابھی تک ہم قتل کی وجہ نہیں معلوم کر سکے لیکن جو زف کے قتل کی وجہ ظاہر ہے۔اُسے صرف اس لئے ختم کر دیا گیا کی کہیں وہ پو لیس کے ہتّھے نہ چڑھ چا ئے!‘‘

            ’’اچھا چلئے یہی سہی ۔تو کیا آپ جیرالڈ کے خلاف کو ئی کا رروائی کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟‘‘

            ’’میں فی الحال صرف اپنے خلاف ایک کا رروائی کرنا چا ہتا ہو ں !‘‘ فریدی نے کہا ۔

            ’’وہ کیا ؟‘‘ حمید نے پُراشتیا ق لہجے میں پو چھا ۔

            ’’یہی کہ تمہیں جان سے ما ردوں!‘‘

            ’’میری خطا جہا ں پناہ؟‘‘

            ’’تمہیں اُس دن قاسم کا چکر چھو ڑ کر جیرالڈ کا تعا قب کر نا چا ہئے تھا !‘‘

            ’’میں جا نتا تھا کہ آپ کسی نہ کسی موقع پر یہ ضرور اٹھا ئیں گے !‘‘ حمید سنجید گی سے بو لا ۔’’لیکن آپ یہ نہ سمجھئے کہ اُس پُراسرا ر درندے کا رول جیر الڈ ہی نے ادا کیا ہو گا !‘‘

            ’’میں یہ نہیں سمجھتا !‘‘ فر ید کچھ سا چتا ہو ا بولا ۔’’اور فی الحال اُسے چھیڑ نا ٹھیک بھی نہیں ۔تم پمیلیاپر نظر رکھو !‘‘

            ’’شکر یہ ۔ میں جیتے جی اُسے کو ئی تکلیف نہ ہو نے دوں گا مگر خدارا کچھ تو بتا یئے ۔یہ تاش کے پتّے ،سا دی ڈائری آخر ہے بلا ؟‘‘

            فر یدی جواب دینے کے بجا ئے حمید کی آنکھو ں میں دیکھتا رہا ۔آخر حمید کو الجھن ہو نے لگی اور جھنجھلا کر بولا ۔دیکھئے ۔ میں اتنا گا ؤدی نہیں ہو ں جتنا آپ سمجھتے ہیں ۔کیا میں یہ نہیں سوچ سکتا کہ اس ڈائری پر پیاز کے عرق سے کچھ لکھا گیا ہو گا جو آگ دکھا تے ہی واضح ہو جا ئے گا !‘‘

            ’’بچو ں کی سی با تیں نہ کرو !‘‘ فر ید ی مسکرا کر بولا ۔’’عر فا نی جیسے ذہین آدمی سے اس کی تو قع رکھتے ہو !‘‘

            ’’آخر آپ چا ہتے کیا ہیں ؟‘‘حمید نے اپنے دا ہنے گا ل پر تپھڑ ما ر کر کہا ۔

            ’’کچھ نہیں ۔میں صرف یہ کہنا چا ہتا ہو ں کہ ہو سکتا ہے ڈائری سا دی ہی ہو لیکن یہ نا ممکن ہے کہ عر فانی صاحب نے کسی سیدھے سادے طریقے پر اس میں کو ئی خفیہ تحر یر چھو ڑی ہو ۔ پیاز کا عرق ،نمک کا پانی یا سنگترے کے چھلکے کا عر ق تو بچوں کے کھیل ہیں !‘‘

            وہ چا ئے ختم کر چکے تھے اور حمید نے بات بھی جہاں کی تہاں ختم کر دی تھی ۔وہ اس سلسلے میں زیا دہ سر مغزنی نہیں کر نا چا ہتا تھا کیو نکہ اب اس کا سا را جو ش ٹھنڈا پڑ چکا تھا ۔اگر نیشنل بنک کی تجو ری خالی بھی ملتی تو اُسے اتنی کو فت نہ ہو تی جتنی تعلیمی تاش کے پتّو ں اور سادی ڈائری سے ہو ئی تھی ۔ وہ اس چیز کو نہ جا نے کیا سمجھے بیٹھا تھا جس کے لئے اتنا ہنگا مہ ہو اتھا ۔

            فر ید ی اٹھ ہی رہا تھاط کہ فون کی گھنٹی بجی۔

            ’’ذرا د یکھنا تو !‘‘فر ید ینے حمید سے کہا ۔

            حمید نے ہا تھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا ۔

            ’’آپ کا فون ہے !‘‘ وہ ما ؤ تھ پیش پر ہا تھ رکھ کر بولا ۔’’آئی جی !‘‘

            ’’فر یدی نے اس کے ہا تھ سے ریسیور لے لیا ۔

            ’’ہیلو جی ہا ں ۔ میں ہی بول رہا ہو ں تسلیمات میں نہیں سمجھا اوہ لیکن کیو ں ایسا کیو ں ہو ا؟جی ہا ں میں اُس سے ملا تھا جو زف کے سلسلے میں لیکن عجیب بات ہے مجھے شبہ ہے  ٹھیک ہے میں نے وہا ں دو آدمی مقر ر کیے ہیں   اوہ بہت بہتر بہتر مجھے کو ئی اعتراض نہیں جی بڑی مہر با نی تسلیمات !‘‘

            فر یدی کا چہرہ غصے سے سر خ ہو رہا تھا ۔ اس نے ریسیو ر رکھ دیا ۔

            ’’کیا بات ہے ؟‘‘ حمید اُسے غور سے دیکھنے لگا ۔

            ’’میرا مخصوص اجازت نا مہ منسوخ کر دیا گیا !‘‘

            ’’کیو ں ؟‘‘

            ’’غالباً جیرالڈ نے شکا یت کی ہے !‘‘

            ’’اوہ ۔لیکن ہما ری ملا قات تو بڑے شر یفا نہ طو ر پر ہو ئی تھی !‘‘

            ’’فر یدی کچھ نہیں بولا ۔تھو ڑی دیر تک خامو شی وہی پھر اس نے کہا ۔

            ’’اجا زت نا مہ منسو خ ہو جا نے کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم اس کیس میں دخل اندازی نہ کریں اور اگر جیرالڈ مجرم ہے تو میرے علا وہ اور کو ئی اُس پر ہا تھ نہ ڈال سکے گا !‘‘

            ’’میں تو کہتا ہو ں ما ریئے گو لی ۔آپ بھگتیں گے یا ر لو گ !‘‘

            ’’اگر عر فانی صاحب قتل نہ ہو ئے ہو تے تو شا ید میں خود ہی الگ رہتا لیکن ایسی صورت میں نا ممکن ہے !‘‘

            ’’فر ض کیجئے یہ کیس کسی اور کو سو نپ دیا جا ئے !‘‘

            ’’اس سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا ۔ میری راہ کو ن روک سکے گا ۔کیا پو رے محکمے میں کو ئی ایسا ہے ۔ اگر ہے تو بتا ؤ؟‘‘

            حمید نے ایک با ر فر یدی کو گھو رتی ہوئی نظروں سے دیکھا اور پا ئپ میں تمبا کو بھر نے لگا ۔

            ’’چلو اٹھو !‘‘فر ید ی تھو ڑی دیر بعد بولا ۔

            ’’کہا ں ؟‘‘

            ’’عر فانی صاحب کے گھر !‘‘

            ’’وہا ں کیا  کریں گے ؟‘‘

            ’’اوہ اُن کا بھتیجاوہا ں آگیا ہے !‘‘

            ’’آنے دیجئے ۔وہ بھی کو ئی نہ کو ئی تحفہ ہما رے لئے کسی بنک میں محفوظ کر جا ئے گا ۔ ،مثلاً انڈوں کے چھلکے اور پھر ہم سر جو ڑ کر یہ ثابت کر یں گے یہ کسی جر من نسل کی فا ختہ کے انڈے ہیں !‘‘

            ’’اُٹھو !‘‘ فر یدی اُس کا کا ن پکڑ کر اٹھا تا ہو ا بولا ۔’’مجھے زیادہ غصہ نہ دلا ؤ!‘‘

            فر یدی ایک با ر پھر عر فا نی کے گھر کی تلا شی لینا چا ہتا تھا ۔ اُسے تو قع تو نہ تھی کہ وہ اس طرح کسی خاص راستے پر چل سکے گا لیکن پھر بھی اس نے یہی منا سب سمجھا کہ اس کے امکانا ت بھی نہ چھو ڑے جا ئیں ۔ممکن ہے کہ اس کے قتل پر کچھ رو شنی پڑنے کے اسبا ب پیدا ہی ہو جا ئیں ۔

            فر ید ی سے عر فا نی کے بھیجتے کی کچھ یو نہی رسمی سی جا ن پہچان تھی ۔ وہ جلا ل آباد کی ایک پرائیویٹ فر م کا اسسٹنٹ منیجر تھا اور عر فا نی کی موت کی خبر سن کر کچھ دنوں کے لئے یہیں آگیا تھا ۔ چا نکہ صرف وہی اکیلا اس کے وارثوں میں سے تھا اس لئے اس کے قیام کی مدت طویل بھی ہو سکتی تھی ۔وجہ یہ تھی کہ عر فانی کا تھو ڑا تھو ڑا اکاؤنٹ شہر کے بہتیر ے بنکو ں میں تھا ۔ عر فانی کی ایک بہت بڑی کمزوری تھی ۔ اس نے محض اس لئے بہت سے بنکوں میں حساب کھول لیا تھا تاکہ دو سروں پر اس کی امارت کا رُعب پڑے ۔وہ کسی کو چیک دیتے وقت آٹھ دس چیک بکیں اپنے سا منے رکھ کر اس سے بڑے پُر و قا ر انداز میں پو چھا کر تا تھا کہ اُسے کس کو چیک چا ہئے ۔بہر حال عر فانی کی یہ کمزوری اب اس کے بھیجتے کے لئے سو ہا ن روح ہو گئی تھی ۔ اگر وہ کو ئی وصیت نا مہ بھی چھو ڑ جا تا تو اُسے کو ئی دشواری نہ پیش آتی لٰہذا فر یدی نے جب اُس سے ایک نجی کا رروائی کے لئے در خواست کی تو اس نے کو ئی اعتراض نہ کیا ۔غالباً وہ سوچ کر خوش ہی ہوا ہو گا کہ شہر کا کم از کم ایک معز آدمی تو اُسے جا نتا ہی ہے جو عر فانی کا تر کہ حاصل کر نے میں اُسے مدد دے سکے گا ۔

            فر یدی نے سب سے پہلے عر فانی کی لا ئبری کا رُخ کیا ۔ لکھنے کی میز پر جتنے بھی کا غذات مو جو د تھے انہیں دیکھتا رہا ۔ بہتیری کتا بیں اُلٹیں پلٹیں لیکن کو ئی ایسی چیز نہ مل سکی جس سے عر فانی کے قتل پر رو شنی پڑے کئی گھنٹے گز رگئے ۔ عر فا نی کا بھتیجا  بھی اُلتا گیا اور آخر اُسے معذرت کر کے اُن کا ساتھ چھو ڑ دینا پڑا ۔گھر فر یدی کا دیکھا ہو ا تھا اس لئے اُسے اُس کی رہنما ئی کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔دوسرے کمروں کو دیکھتے بھا لتے ہو ئے وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں پہنچے جسے عر فا نی نے فو ٹو گرافی کا ڈراک روم بنا رکا تھا ۔ فر یدی نے ٹا رچ کی روشنی میں سو ئچ تلاش کر کے بجلی جلا دی ۔ نیلے رنگ کا بلب روشن ہو گیا ۔ ساتھ ہی فر یدی کے منہ سے تحّیر آمیز آواز نکلی ۔حمید اُسے گھو رنے لگا ۔

            ’’حمید ڈئیر !‘‘ فر یدی مضطر با نہ انداز میں  بو لا ۔’’ یہ فو ٹو گرا فی کا ڈارک روم ہے ۔ آخر یہا ں نیلے بلب کا کیا کا م ۔یہا ں تو سر خ بلب ہو نا چا ہئے !‘‘

            ’’خدا محفو ظ رکھے سرا غر سا نی سے !‘‘ حمید بڑ بڑا یا ۔’’کل صبح آپ پو چھیں گے ہا ئیں یہ آج سو رج ٹیڑھا کیو ں نکل رہا ہے !‘‘

            فر یدی نے اس کی بکو اس کا کو ئی جواب نہ دیا ۔وہ بڑے انہما ک سے کمرے کا جا ئز ہ لے رہا تھا ۔آخر اُسے میز پر ایک سر خ بلب بھی مل گیا ۔

            ’’نیلا بلب !‘‘ وہ اس طرح بڑ بڑایا جیسے کچھ یا د کر نے کی کو شش کر رہا ہو ۔

            حمید کو الجھن ہو نے لگی ۔ آخر اس مسئلے پر اتنے غور و خو ض کی کیا ضرورت ہے ۔ ہو گی کو ئی با ت ، بھلا نیلے یا سر خ رنگ کے بلب سے عر فا نی کے قتل کا کیا تعلق ہو سکتا تھا اور پھر عر فا نی کو تو نیلے رنگ کا جنو ن تھا ۔ اُس کے رہا ئش کے کمرے کی ہر چیز نیلی تھی حتیٰ کہ شب خوابی کا لباس بھی نیلا ہوا کر تا تھا ۔ اگر اس کے ڈارک روم میں نیلے رنگ کا بلب نظر آجا ئے تو اس کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے ۔

            اس نے فر ید ی کی طرف  دیکھا جو اپنے ہو نٹ اس طر ح سکو ڑے ہو ئے تھا جیسے سیٹی بجا نے کا ارادہ رکھتا ہو ۔دفعتہً خفیف سی مسکرا ہٹ اس کے چہرے پر نمو دار ہو ئی اور وہ کہنے لگا ۔

            ’’حمید اَب ہمیں اس مکان میں ایک ایسی عینک تلا ش کر نی چا ہئے جس کے شیشے زردنگ کے ہو ں!‘‘

            ’’اور اگر نہ ملے !‘‘ حمید بُرا سا منہ بنا کر بولا ۔’’تو با زار سے خرید کر یہا ں رکھ دینی چا ہئے تا کہ عر فا نی کی روح کو سکون مل سکے ۔بے چا رہ جو سا ری زندگی عینک کو تر ستا رہا !‘‘

            فر یدی ڈارک روم میں رکھی ہو ئی چیزوں کو اُلٹے پلٹنے لگا ۔حمید چپ چا پ کھڑا اُسے عجیب نظر وں سے گھو ر رہا تھا ۔ فر یدی کی با تیں اکثر بڑی بے ربط ہو ا کر تی تھیں او ر ان کی چو لیں ملا نے کے سلسلے میں حمید کو با قا عدہ طو ر پر اختلا ج ہو نے لگتا تھا ۔ اُسے ایسا محسوس ہو تا جیسے اُس کا بھیجا کھو پڑی سے نکل آیا ہو ۔اس وقت وہ بڑے ضبط و تحمل سے کا م لے رہا تھا ورنہ خود اُس کی زبا ن سے اتنی بے ربط با تیں نکلتیں کہ فر یدی بو کھلا جا تا ۔

            فر یدی نے میز کی دراز کھو لی ۔

            ’’گڈ ۔‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑا یا ۔’’عینک تو ہے ۔خوب ۔زردرنگ!‘‘

            و ہ حمیدکی طر ف مڑا اور عینک اس کے چہرے کے قریب لے جا تا ہو ا بولا ۔’’یہ رہی زردرنگ کی عینک اب ہم کسی قابل ہو سکیں گے !‘‘

            ’’ہمیشہ جو تیا ں چٹخا تے رہیں گے !‘‘ حمید جل کر بولا ۔’’اگر آپ اتنا وقت بر با د کر نے کے بجا ئے مجھ سے کہتے تو میں آپ کو ایک درجن ایسی عینکیں خر ید دیتا !‘‘

            ’’ہُم ۔شٹ اَپ ۔آؤ چلیں !‘‘ وہ عینک جیب میں ڈالتا ہو ا بولا ۔

            ’’ارے ارے یہ کیا ؟عینک چرا ئیں گے آپ ؟‘‘

            ’’اوہ !‘‘ فر یدی چو نک کر بولا ۔’’ٹھیک ہے اس کی ضرورت نہیں!‘‘

            اس نے عینک جیب سے نکال کر پھر میز کی دراز میں ڈال دی اور وہ دونو ں کمرے سے با ہر نکل آئے ۔

            با زار میں پہنچ کر فر یدی نے کیڈی سا نس لے کر بو لا ۔

            ’’یا خدا !‘‘ حمید ٹھنڈی سا نس لے کر بولا ۔

            فر یدی اُسے لئے ہو ئے دُکا ن کے اندر آیا اور یہا ں اُس نے زردشیشوں والی دو عینکیں طلب کیں۔

’’بس آپ ہی شوق فر ما ئے قبلہ !‘‘ حمید بڑبڑا یا ۔’’خدا وہ دن نہ لا ئے کہ آپ کو سلیما نی سُر مے کی تلا ش ہو  ،اُس سے پہلے ہی مر جا نے کی تمنّا کر وں گا !‘‘

            زرد شیشے کی عینک کاا ستعمال عام نہیں ۔اس لئے وہ انہیں اس دکان میں تیا ر نہ مل سکی ۔ فر ید ی کو جلدی تھی اس لئے اس نے با قا عدہ مہم شروع کر دی ۔ کبھی اس دکا ن میں اور کبھی اس دکان میں لیکن اُسے ما یو سی ہی کا منہ دیکھنا پڑا ۔

            ’’ہم اب تک خوا ہ مخوا ہ وقت بر با د کر تے رہے !‘‘ فر یدی بڑ بڑا یا ۔’’کھلو نو ں کی دُکا ن پر ضرور مل جا ئے گی ۔بچو ں کے لئے کئی رنگو ں  کی عینکیں بنتی ہیں !‘‘

            ’’آخر آپ چا ہتے کیا ہیں ؟‘‘ حمید بھنا کر بولا ۔

            ’’ایک ایسی عینک جس کے شیشے زردہو ں !‘‘فر یدی نے سنجیدگی سے کہا ۔

            ’’آخر کیو ں ؟‘‘

            ’’بعد کو بتا ؤں گا !‘‘

            ’’بہت بہتر !‘‘ حمید اپنا اوپری ہو نٹ بھینچ کر بولا ۔’’ اور اگر میں اس دور ان میں مر جا ؤں تو راز میرے با پ کو بتا دیجئے گا !‘‘

            ’’حمید بکو نہیں آؤ!‘‘

            وہ سڑک پا ر کر کے فٹ پا ٹھ پر چڑھ ہی رہے تھے کہ کسی نے پیچھے سے حمید کو آواز دی ۔وہ دونو ں مڑے۔قاسم اپنی کا ر روک کر بو کھلا ئے ہو ئے انداز میں اُتر رہا تھا ۔ وہ دونو ں رُک گئے ۔فریدی نا گواری کے سا تھ کچھ بڑبڑا رہا تھا ۔

قا سم آیا اور احمقو ں کی طر ح منہ کھو ل کر ان کے قریب کھڑا ہو گیا ۔وہ کبھی حمید کو دیکھتا تھا اور کبھی فر یدی کو ۔

’’کیا با ت ہے ؟‘‘ حمید جھنجھلا کر بولا ۔

’’میں تم سے خوش نہیں ہو ں حمید بھا ئی !‘‘ قاسم تھو ک نگل کر بو لا ۔’’لیکن میں اس وقت پرا نے جھگڑے نہیں چھیڑوں گا کیو نکہ میں نے  ایک بھو ت دیکھا ہے !‘‘

’’بھو ت !‘‘ فر یدی مسکرا کر بولا ۔’’بر ف کا تو نہیں تھا ؟‘‘

’’نہیں فر یدی صاحب میں مذاق نہیں کر رہا ہو ں ۔میں نے انگریز جو تشی کے یہا ں عر فا نی کا بھو ت دیکھا ہے !‘‘

’’کیا ؟‘‘ فر یدی اُسے گھو ر کر رہ گیا پھر جلدی سے اس کا شا نہ تھپ تھپا کر بولا ۔’’میر ے سا تھ آؤ!‘‘

’’وہ قریب کے ایک ریستو ر ان میں چلے گئے ۔

’’ہا ں کیا با ت تھی ؟‘‘ فر یدی نے اطمینا ن سے بیٹھ جا نے کے بعد قاسم کی آنکھو ں میں دیکھتے ہو ئے کہا ۔

’’جو تشی کے یہا ں عر فا نی !‘‘

’’ٹھہر و کیا جیر الڈ سے تمہا ری جا ن پہچان ہے ؟‘‘

’’نہیں تو !‘‘

’’پھر تم وہا ں کیسے گئے تھے !‘‘

’’اوہ وہ !‘‘قاسم شر ما کر بو لا ۔’’یہی ذرا قسمت کا حال وال!‘‘

’’خیر ہا ں عر فا نی کی کیا با ت تھی ؟‘‘

’’واپسی پر میں نے ایک کمرے میں عر فا نی کی شکل کا ایک آدمی دیکھا تھا جو آرام کر سی پر لیٹا  سگا ر پی رہا تھا !‘‘

’’عر فا نی کو تم کیسے جا نتے ہو ؟‘‘

’’اوہ ۔ میں نے اخبار میں تصویر دیکھ کر !‘‘

’’تب پھر تمہیں دھو کا ہی ہو ا ہو گا ۔ صرف تصویر دیکھ کر !‘‘

’’مجھے یقین واشق ہے !‘‘

’’واشق نہیں واثق بھو ندو !‘‘ حمید بیچ میں بو ل پڑا ۔

’’واشق !‘‘ قاسم اُسے گھو ر کر غرایا ۔’’میرے والد صاحب یہی بو لتے ہیں !‘‘

’’کیا تمہا رے والد صاحب با با ئے اُردو ہیں ؟‘‘ حمید نے کہا ۔

’’تم خود ہو گے با با ئے اُردو ذراز با ن سنبھا ل کر ہا ں !‘‘ قاسم ڈپٹ کر بو لا ۔

’’بے کا ر با تیں نہیں ۔حمید خا موش بیٹھو !‘‘ فر یدی نے کہا پھر قاسم سے بو لا ۔’’تمہیں دھو کا ہوا ہو گا !‘‘

’’ہو ا ہو گا سا لا کچھ !‘‘ قاسم کا مو ڈ بگڑ گیا تھا ۔’’اپنی ایسی کی تیسی میں گیا عر فا نی اور اس کا بھو ت ۔ ہا ں حمید صاحب تم نے اس دن مجھے شراب کیو ں پلا ئی تھی ؟‘‘

            ’’کیا میں نے اپنے ہا تھ سے پلا ئی تھی ؟‘‘

            ’’کہا  تو تھا تم نے تم نے بہکا یا تھا مجھے !‘‘

            ’’میر ے کہنے سے تم زہر پی لو گے ؟‘‘ حمید مسکرا کر بولا ۔

            ’’ذرا کہہ کر تو دیکھو کیسی گَت بنا تا ہو ں !‘‘

            ’’اُوہہو نہہ چھو ڑو بھئ یہ جھگڑے !‘‘ فر یدی کا فی کے لئے آرڈر دے کر بو لا ۔’’ہا ں جیر الڈ نے کیا بتا یا تھا تمہا را ہا تھ دیکھ کر ؟‘‘

            قاسم نے جواب دینے کے بجا ئے شر ما  کر سر جھکا لیا کچھ دیر نا خن سے دا نت کُر ید تا ر ہا پھر کن انکھیو ں سے دروازے کی طر ح دیکھتا ہو ا آہستہ سے بو لا ۔’’ اس نے بتا یا ہے بیو ی یہی رہے گی !‘‘

            ’’تب تو تمہیں ضرور پی لینا چا ہئے !‘‘ حمید نے کہا ۔

            ’’تم چپ رہو حمید بھا ئی ۔اللہ قسم تمہا ری طر ف سے دل میں میل آگیا ہے ۔ اگر پلا ئی ہی تھی تو وہا ں  چھو ڑ کر چلے کیو ں آئے تھے اگر میں بھی شرارت کرو ں تو ؟‘‘

            ’’بھلا تم کیا شرارت کرو گے ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

            ’’میں کسی اخبار ی رپو ر ٹر سے سکتا ہو ں کہ تم نے اس دن جو زف کی کا ر میں گھٹا لا کر دیا تھا اور اُسی دن وہ مر گیا !‘‘

            ’’لیکن تم ایسا ہر گز نہیں کر و گے !‘‘ فر ید یاُسے گھو ر کر بولا ۔

            ’’نہیں کر وں گا ۔ میں نے تو مثا ل کے طو ر پر کہا ہے لیکن آپ حمید بھا ئی کو سمجھا دیجئے ۔ میری پیٹھ کی کھا ل اُد ھڑ گئی ہے !‘‘

            ’’کیو ں ؟‘‘ فر یدی نے حیرت سے کہا ۔

            ’’والد صاحب نے بند ھو ا کر ہیٹر سے خبر لی تھی !‘‘

            ’’چہ چہ !‘‘ فر یدی مسکر ا کر بولا ۔’’ حمید تم بڑے سوّ ر ہو ۔خبر دار اب جو کبھی قاسم کو پر یشان کیا !‘‘

            ’’بیو ی کے سا منے ؟‘‘حمید نے پو چھا ۔

            ’’بس زیا دہ جا ن نہ جلا ؤ ۔اگر بیو ی کے سا منے پیٹا ہو تا تو میں تمہیں زندہ نہ چھو ڑتا ۔ ویسے ہی وہ سا لی میری کچھ حقیقت نہیں سمجھتی !‘‘

            ’’واقعی نہ سمجھتی ہو گی اور نہ اُس وقت تک سمجھے گی جب تک کہ تم کو ئی بڑا کا ر نا مہ انجام نہ دو !‘‘ حمید بو لا ۔

            ’’کیسا کا ر نا مہ ؟‘‘ قاسم نے پو چھا ۔

            ’’ایسا جس تمہا ری شہرت ہو !‘‘ حمید نے پا ئپ میں تمبا کو بھر تے ہو ئے کہا ۔’’مثلا ً عنقر یب فر ی اسٹا ئل کا دنگل شروع ہو نے والا ہے ۔ تم کسی نا می پہلو ان کو للکا ر دو !‘‘

            ’’مجھے دا ؤں بیچ  نہیں آتے !‘‘

            ’’فر ی اسٹا ئل میں زیا دہ دا ؤں پیچ نہیں ہو تے !‘‘

            ’’مجھے کچھ بھی نہیں آتا !‘‘

            ’’اگر سکھا دیا جا ئے تو ؟‘‘

            ’’میں لڑ سکتا ہو ں !‘‘

            ’’ٹھیک تو فر یدی صاحب تمہیں سکھا دیں گے !‘‘

            ’’کیوں ؟ آپ سکھا دیں گے ؟‘‘ قاسم چہک کر بولا ۔

            ’’ہا ں کسی وقت اطمینان سے آنا !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

            ’’ویسے میں دھو بی پا ٹ بڑی اچھی ما رتا ہو ں !‘‘ قاسم بولا ۔

            ’’ہو ں خیر ۔ دیکھا جا ئے گا لیکن کیا تمہیں یقین ہے کہ اس آدمی اور عر فا نی میں کو ئی مشا بہت تھی ؟‘‘

            ’’مشا بہت کیا ۔ وہ ہو بہو عر فانی تھا ۔ مجھے یقین ہے میں وہاں سے نکل کر سیدھا آپ کے یہا ں گیا تھا مگر آپ نہیں ملے تھے !‘‘

            ’’تم نے کس وقت دیکھا تھا ؟‘‘

            ’’تقریباً چا ر بجے !‘‘

            ’’کسی اور سے تو اس کا تذکرہ  مت کر نا !‘‘

            ’’نہیں کسی سے نہیں !‘‘

            ’’اچھا تو اب کسی سے اس کا تذکرہ مت کر نا !‘‘

            حمید کو الجھن ہو نے لگی تھی وہ زردرنگ کی عینک کے متعلق سو چ رہا تھا اور قاسم کی اس کہا نی کی اُس کی نظروں میں کو ئی وقعت نہیں تھی ۔

7

        فر یدی  اور حمید آفس پہنچے ہی تھے کہ فر یدی کو سپر نٹنڈ نٹ کا پیغا م ملا جو اپنے آفس میں اُس کا منتظر تھا ۔

            ’’سو پر کو شا ید آپ سے پھر عشق ہو گیا ہے !‘‘ حمید ہنس کر بو لا ۔

            سپر نٹنڈ نٹ بڑی خوش اخلاق سے فر یدی کا استقبال کیا ۔

            ’’فر یدی صاحب !‘‘ اس نے کہا ۔’’ مجھے افسوس ہے کہ عر فا نی والا  کیس آپ کو نہ مل سکا حالا نکہ میں نے بہت کوشش کی !‘‘

            ’’میں آپ کا  شکر گزار ہو ں اور پھر اکیلے میں ہی تو نہیں ہو ں اور بےی ہیں ۔ میں دراصل اس وجہ سے دلچسپی لے رہا تھا عر فا نی سے میرے خاص قسم کے تعلقات تھے !‘‘

            ’’آپ جیرالڈ سے خواہ مخواہ جا بھڑ ے !‘‘ سپر نٹنڈ نٹ نے متا سفا نہ لہجے میں کہا ۔

            ’’نہیں سو پر ۔ میں تو صر ف جو زف کے سلسلے میں اُس سے ملا تھا اور ہماری گفتگو دا ئرہ اخلاق ہی میں رہی تھی !‘‘

            ’’اُسے شا ید کسی طر ح علم ہو گیا تھا کہ آپ کے کچھ آدمی اس کے مکان کی انگر انی کر رہے تھے !‘‘

            ’’ہو گیا !‘‘ فر یدی لا پر وائی سے بو لا ۔’’ میں اب اس میں دلچسپی لے رہا ہو ں !‘‘

            ’’کیس مسڑ آصف اور مسڑ سنگھ کے سپر د کر دیا گیا ہے !‘‘

            فر یدی کچھ نہ بولا ۔ تھو ڑی دیر تک  خا مو شی رہی پھر سپر نٹنڈنٹ نے کہا ۔

            ’’پتہ نہیں کیا چیز تھی جسے قا تل تلا ش کر رہے تھے ۔ معلوم نہیں وہ انہیں ملی یا نہیں ؟‘‘

            ’’مل ہی گئی ہو گی !‘‘

            سپر نٹنڈ نٹ تیز نظر وں سے فر یدی کی طرف دیکھنے لگا پھر ذرا سا مسکرا کر بولا ۔’’ کیا آپ اس سلسلے میں کچھ چھپا رہے ہیں؟‘‘

            ’’آپ کا خیا ل درست ہے !‘‘ فر یدی نے سنجیدگی سے جوا ب دیا ۔

            ’’یعنی ؟‘‘

            ’’میں یہ چھپا رہا ہو ں کہ قا تلو ں کو وہ چیز نہیں ملی !‘‘

            ’’آپ کو کیسے علم ہو ا ؟‘‘

            ’’اس طر ح کہ کچھ لو گ ان بنکو ں کی خا ک چھا نتے پھر رہے ہیں جن میں عر فا نی کا اکا ؤنٹ تھا ۔ وہ خود کو عر فا نی کا رشتہ دار ظاہر کر کے یہ با ت معلو م کر نا چا ہتے ہیں کہ عر فا نی نے کو ئی چیز سیف کسٹڈ ی میں تع نہیں رکھو ائی تھی !‘‘

            ’’ممکن ہے وہ اس کے رشتے دار ہی ہو ں !‘‘

            ’’جی نہیں ۔ا ن کا صر ف ایک بھیجتا ہے اور وہ بے چا رہ ابھی تک خا مو ش ہی بیٹھا ہو ا ہے !‘‘

            ’’ہو ں !‘‘ سپر نٹنڈنٹ کی طو یل ’ہو ں ‘ خا مو شی میں بدل گئی پھر اس نے کچھ دیر بعد کہا ۔’’آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں ؟‘‘

            ’’جو زف کی مو ت کے بعد سے معا ملہ سنگین ہو گیا ہے !‘‘

            سپر نٹنڈ نٹ کچھ سو چتا ہو ا بولا ۔ ’’وہ قا تلوں کا شر یک کا ر تھا ۔آخر ایک انگر یز کا عر فا نی سے کیا تعلق ؟‘‘

            ’’ٹھیک ہے !‘‘ فر یدی خشک لہجے میں بو لا ۔’’بہتیر ی با تیں قا تل غور ہیں ۔مثال کے طو ر پر  ایک یہی کہ بر نا رڈ جیسے بد نا م آدمی کا جیر الڈ کے یہا ں کیا کا م ہو سکتا ہے !‘‘

            ’’کیا بر نا رڈ وہ اینگلو انڈین ؟‘‘

            ’’جی ہا ں وہی ۔جیر الڈ کے بیا ن کے مطا بق وہ بھی آج بد ھ اِذم سے بہت متا ثر نظر آرہا ہے !‘‘

            ’’مسڑ فر یدی ۔سچی با ت تو یہ ہے کہ میں بھی !‘‘ سپر نٹنڈنٹ کچھ کہتے کہتے رُک گیا ۔

            فر ید ینے پہلے تو اُسے سوا لیہ نظر وں سے دیکھا پھر یک بیک ا س طر ح بے تعلق نظر آنے لگا جیسے اُسے اُس کی ادھو ری با ت سے کو ئی دلچسپی نہ ہو ۔

            ’’بہر حال میں نے آپ کو اس لئے تکلیف دی تھی کہ آپ آصف وغیرہ کی مدد کر تے رہیں !‘‘

            ’’بھلا یہ کیو نکر ممکن ہے جب کہ میں با ضا بطہ طو ر پر بے تعلق کر دیا گیا ہو ں !‘‘

            ’’بھئی اب کیا کیا جا ئے ۔اوپر کے یہی احکا م ہیں !‘‘

            ’’جی ہا ں ۔اِسی لئے کہہ رہا ہو ں کہ جب او پر والو ں کو مجھ پر اعتماد نہیں رہا تو میں کیو ں خوا مخوا ہ دخل دو ں !‘‘

            ’’میں خود بھی جیرالڈ کی طر ف سے مطمئن نہیں ہو ں !‘‘ سپر نٹنڈنٹ آہستہ سے بو لا ۔

            فر یدی کچھ نہ بولا ۔کچھ دیر سکو ت رہا پھر فر یدی نے کہا ۔’’مجھے دو ما ہ کی رخصت چا ہئے!‘‘

            ’’اوہ ۔تو اس کا مطلب یہ ہے کہ !‘‘

            ’’نہیں میں اس کیس میں دلچسپی لینے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔مجھے آرام کی ضرورت ہے !‘‘

            ’’لیکن چھٹی لینے سے تو افسران با لا یہی سمجھیں گے !‘‘

            ’’سمجھا کر یں ۔مجھے آرام کی سخت ضرورت ہے اگر چھٹی نہ ملی تو میں استعفٰی دےدو ں گا !‘‘

            ’’اوہواستعفٰی !‘‘ سپر نٹنڈنٹ ہنسنے لگا ۔’’تب تو کو ئی خا ص با ت ہے !‘‘

            ’’نہیں ۔قطعی نہیں !‘‘ فر یدی خشک لہجے میں بولا ۔’’میرے مخصوص اجازت نا مے کی منسو خی میری سب سے بڑی تو ہین ہے ۔ میرے جذبا ت شد ت سے مجرو ح ہو ئے ہیں!‘‘

            ’’اوہ !‘‘ سپر نٹنڈنٹ اُسے اس طرح دیکھنے لگا جیسے اس کی با ت کے وزن کا اندازہ لگا رہا ہو ۔فر یدی کا چہرہ پتھر کی طر ح بے جا ن تھا ۔

            ’’آپ !‘‘ سپر نٹنڈ نٹ تھو ڑے تا مّل کے بعد بو لا ۔’’در خواست لکھئے میں کو شش کرو ں گا !‘‘

            فر ید ی کے استعفٰی کا معا ملہ ہی ایسا تھا ۔ اس کے محکمے کے لو گ تو دل سے چا ہتے تھے کہ وہ کسی طر ح محکمے سے الگ ہو جا ئے ۔اس کی مو جو د گی میں افسران با لا تک احسا س کمتر ی میں مبتلا رہتے تھے اور اس کے ہم رُتبہ لو گو ں کا تو  یہ عا لم تھا کہ وہ اُسے اپنی تر قی کی راہ میں ایک بہت بڑی رُکاوٹ سمجھتے تھے ۔

            فر یدی اچھی طر ح جا نتا تھا کی اُسے رخصت نہ مل سکے گی اور ایسی صورت میں خاص طو ر پر ا س میں رُکا وٹیں ڈالی جا ئیں گی جب کہ اس نے سبکدوش ہو جا نے کی دھمکی دی ہو ۔

            فر یدی اپنے کمرے میں واپس آگیا ۔ یہا ں سر جنٹ حمید ایک نئی ٹا ئپسٹ لڑکی کو ٹا فیا ں کھلا رہا تھا ۔فر یدی کو دیکھتے ہی اُسی نے کہنا شر وع کر دیا ۔’’ہا ں ندیکھئے اس کی تین کا پیا ں نکا ل لیجئے ۔ فا ئل نمبر تین میں نیچے سے چو تھا ڈرافٹ ۔بس جا یئے !‘‘

            لڑکی خودہی فر یدی کو دیکھ کر سراسیمہ ہو گئی تھی ۔ حمید کا اشارہ پا تے ہی کھسک گئی ۔فر یدی کو دیکھتے ہی آفس کی سبھی لڑ کیا ں حواس با ختہ ہو جا تی تھیں اور اس کے سا منے زبان کھولنے کی اہمیت نہیں کر سکتی تھیں ۔اُس نے آج تک کسی ٹا ئپسٹ لڑ کی کو برا ہِ راست کو ئی کام نہیں دیا تھا اور ورنہ وہ اُن سے کبھی گفتگو کر تا تھا ۔اگر انہیں اس کا کو ئی ڈرا فٹ ٹا ئپ کر نے میں دشواری ہو تی تھی تو وہ حمید کی وسا طت سے کا م بنا لیا کر تی تھیں۔

            ’’حمید ۔دو ما ہ کی چھٹی کی در خواست لکھو !‘‘فر یدی نے آفس میں دا خل ہو تے ہی کہا ۔

            ’’اُف فوہ ۔آخر آپ چا ہتے کیا ہیں ۔ابھی پر سو ں ہی تو اُس سے جا ن پہچان ہو ئی ہے !‘‘

            ’’بکو نہیں ۔میں نے سینکڑوں بار سمجھا یا کہ آفس کی لڑکیوں سے فلرٹ نہ کیا کرو !‘‘

            ’’تو پھر آپ ہی مجھے کو ئی ایسی لڑکی تلا ش کر دیجئے جس سے میں فلر ٹ کر سکو ں!‘‘

            ’’اے تو اِس کی ضرورت ہی کیا ہے !‘‘فر یدی جھنجھلا کر بولا ۔

            ’’خو ب رہی ۔گو یا یو نہی بے کار بیٹھے مکھی ما را کر یں!‘‘

            ’’میں کہتا ہو ں در خواست لکھّو!‘‘

            ’’لکھتا ہو ں !‘‘حمید پیڈ اُٹھا کر سا منے رکھتا ہو ا بولا ۔’’بو لئے کیا لکھ دوں!‘‘

            ’’دو ما ہ کی رخصت کی در خواست !‘‘

            ’’ارے تو لکھو ں کیا ؟‘‘ حمید پیشانی پر ہا تھ ما ر کر بولا ۔’’لکھ دوں کہ کسی عز یز کو بیمار ڈال کر ما ر ڈالنا چا ہتا ہو ں یا میں خود ہی بیمار ہو کر مر جا نا چا ہتا ہو ں!‘‘

            ’’جو دل چا ہے لکھ دو ۔ظاہر ہے کہ منظورتو ہو گی نہیں!‘‘

            ’’ہا ئیں !‘‘ حمید آنکھیں پھا ڑکع بولا ۔’’پھر کا غذخراب کر نے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

            ’’کیو نکہ اس کے بعد پھر کا غذ خرا ب کر یں گے استعفٰی کے لئے !‘‘

            ’’اوہ ۔تو یہ بات ہے !‘‘ حمید ٹھنڈی سا نس لیتے ہو ئے سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔کچھ دیر یو نہی بیٹھا رہا پھر ایک اور ٹھنڈی سا نس لے کر بولا ۔’’میں آج رات کا گا ڑی سے اللہ میا ں کے یہاں جا رہا ہوں!‘‘

            ’’تم میرا بھی وقت بر باد کر رہے ہو!‘‘

            ’’نہیں میں رخصت کی در خواست دے کر ملک الموت کو دعوت دے رہا ہو ں!‘‘ حمید بڑبڑاتا رہا اور اُس کا قلم کا غذ پر چلتا رہا ۔

            ’’میں اچھی طرح جا نتا ہو ں کہ آپ رخصت کی درخواست محض اس لئے دے رہے ہیں کہ کھلونوں کی دکا نوں پر زردرنگ کی عینک تلاش کر سکیں ۔میں شرط لگا نے کو تیار ہو ں کہ آپ اُن کے سا تھ جھنجھنے اور غبار ے ضرور خرید یں گے !‘‘

            درخواست لکھ کر اس نے فر یدی کی طرف بڑھا دی ۔

            ’’ہم دونوں کی طبیعت اس وقت ٹھیک نہیں ہے !‘‘ فر یدی آہستہ سے بولا ۔’’اس لئے ہم گھر واپس جا ئیں گے !‘‘

            حمید گھبرا کر اپنی نبض ٹٹو لنے لگا ۔

            ’’اور ہم میں سے مرے گا کون پہلے ؟‘‘ اس نے بڑی معصومیت سے پو چھا ۔

            فر یدی اپنی میز پر بیٹھ کر درخواست لکھنے میں مشغول ہو گیا تھا ۔جب لکھ چکا تو اس نے حمید کی طرح دیکھ کر مسکرا تے ہو ئے کہا ۔’’عینکیں بن کر آگئی ہو گی !‘‘

            ’’اُس قسم کی تو نہیں ہیں جیسی ہنڑ  والی لگا تی تھی ؟‘‘

            فر یدی اُس کی بات کا جواب دیئے بغیر سپر نٹنڈنٹ کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔

            دو گھنٹے بعد وہ دونو ں گھر میں تھے ۔

            حمید اپنے کمرے میں اوندھا پڑا شیلی کی ایک نظم انگریز ہ لَے میں گنگنا ریا تھا اور سر ہا نے کی گول میز پر اُس کی پا لتو چو ہیا پچھلی ٹا نگو ں پر پھُدک رہی تھی ۔

            اچا نک فر ید ی کمرے میں دا خل ہو ا ۔وہ اپنی اوپری منزل والی تجربہ گا ہ سے آیا تھا ۔ حمید نے سر اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا ۔فر یدی کا چہرہ سر خ تھا اور اس کی آنکھوں میں وہی پر انی وحشیا نہ چمک نی چمک تھی جو اُس کی کا میا بی پر دلا لت کر تی تھی ۔

            ’’اُٹھو فر زند !‘‘ وہ مخصوص فا تحا نہ انداز میں مسکرا کر بولا ۔’’ورنہ تمہیں افسوس ہو گا !‘‘

            ’’کو ئی خاص با ت ؟‘‘

            ’’وہی زردعینک !‘‘

            ’’اوہ !‘‘

آؤ اُٹھو !‘‘

فر ید اُسے تجر یز گاہ میں لے آیا پھر وہ مخصوص حصے میں آئے جہا ں فر یدی نے فلمیں دھو نے کے لئےڈارک روم بنا رکھا تھا ۔ڈراک روم میں نیلے رنگ کی روشنی پھیلی ہو ئی تھی ۔

’’آپ کے ڈراک روم میں بھی نیلا بلب !‘‘ حمید بڑبڑایا ۔

فر یدی نے میز پر سے دوسری زردعینک اُٹھا کر حمید کی آنکھو ں پر لگا دی ۔

’’اوہ وا!‘‘ حمید بچو ں کی طر ح تا لیا ں بجا کر بو لا ۔’’اے سبحان اللہ فر یدی صاحب ۔ارے یہ روشنی تو سبزی ہو گئی ۔ کمال ہے !‘‘

’’بکو مت فر زند ۔ابھی تمہاری آنکھیں نکل پڑیں گی !‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’اِدھر دیکھو ۔یہ کیا ہے ؟‘‘

’’وہی نا مر ادڈائری !‘‘

’’اب دیکھو !‘‘

دفعتہً حمید کے منہ سے حیرت کی چیخ نکل گئی ۔ڈائری کے پہلے ہی صفحہ پر تحریر نظر آرہی تھی ۔ کتھئی رنگ کی تحریر ۔حروف کے کنا روں پر پیلا رنگ جھلکیا ں ما ر رہا تھا ۔حمید نے چشمہ اُتا ر دیا ۔ اب وہی صفحہ با لکل سپا ٹ پڑا تھا ۔تحر یر کیا کو ئی پلکا سا نقش بھی نہیں نظر آرہا تھا ۔کا غذ کی سطح نیلی رو شنی کی وجہ سے نیلی دکھا ئی دے رہی تھی ۔حمید نے پھر چشمہ لگا لیا ۔کا غذ کی سطح نیلی رنگت سبزی میں تبدیل ہو گئی اور کتھئی رنگ کی تحر یر ۔ حمید کا دما غ چکرا گیا فر ید ی صفحا ت اُلٹتا رہا ۔تحریر قریب قریب ڈائری کے آدھے صفحات میں پھیلی ہو ئی تھی ۔

’’اب بتا ؤ !‘‘ فر ید یڈائری بند کر کے بولا ۔’’کیامیں پا گل تھا بولو ؟‘‘

’’لیکن جناب ۔لیکن آپ ہر معاملے کی شر وعات پا گل پن ہی سے کر تے ہیں ۔ اگر پہلے ہی بتا دیا ہو تا تو کیو ں ؟‘‘

’’پہلے مجھے بھی یقین نہیں تھا ۔بچپن کی ایک بھو لی بسری یا د کے سہا رے یہ سب کچھ کر تا چلا گیا !‘‘

’’بھو لی بسری یا د سے کیا مطلب ؟‘‘

’’اِسے پڑھو ۔خود ہی معلوم ہو جا ئے گا !‘‘ فر یدی نے ڈائری اُس کی طرف بڑھا دی ۔

حمید پڑھنے لگا ۔

   ’’کمال میاں ! تمہیں تاش کے پتّے اور سا دی ڈائری دیکھ کر حیرت تو ضرور ہو گی لیکن مجھے یقین ہے کہ تم اس کی تہہ تک ضرو ر پہنچ جا ؤ گے ۔خفیہ تحر یر کا یہ طریقہ میں نے اور تمہا رے والد مر حوم نے ایجاد کیا تھا ۔تم اس وقت بہت چھو ٹے تھے لیکن مجھے تو قع ہے کہ تمہا رے واکد نے تم سے اس کا تذکرہ ضرور کیا ہو گا ۔ تعلیمی تاش کے یہ پتّے پُرا سرار ہیں ۔ میں ان کی وجہ سے بڑی مصیبت میں پڑگیا ہو ں ۔کچھ لوگ انہیں حاصل کر نا چا ہتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جا نتے کہ میرے  پاس کیا ہے ۔ان تا شو ں سے در اصل اُن کا کو ئی راز وابستہ ہے ۔اس دور ان میں کئی بار مجھ پر حملے بھی ہو چکے ہیں لیکن میں بچتا ہی رہا ۔آج نہ جا نے کیو ں مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ میری زندگی کا آخری دن ہے لہٰذا میں اس طریقے سے ان چیزوں کو تم تک پہنچا نے کی کو شش کر رہا ہو ں ۔میری داستان طو یل ہے اور میری سمجھ  میں نہیں آتا کہ  اسے کہا ں سے شروع کروں۔ بہر حال تمہیں یاد ہو گا ۔ دو تین ما ہ قبل کی با ت ہے پو لیس کو ایک عجیب وغریب کیس سے واسط پڑا تھا ۔ با ت یو ں تھی کہ وا کر اسڑ یٹ میں ایک آدمی پیدل جا رہا تھا ۔اچانک ایک کا ر اُس کے قریب سے گزری اور کار سے اُس پر کسی نے گولی چلا دی ۔پیدل چلنے والا سڑک کے کنا رے گر گیا ۔را ہگیر سمجھے کہ اُسے گولی ہے ۔ جب کا روا کر ا سڑ ک پر مڑ گئی تو گر نے والا اٹھ بیٹھا ۔اس

کے گر د بھیڑ لگ گئی ۔ لو گو ں نے پو چھا گچھ شروع کی لیکن وہ سر ے ہی اس با ت ک منکر تھا کہ اُس پر گو لی چلا ئی گئی تھی ۔اس نے گر نے کا  سبب ایک قسم کا دور ہ بتا یا جس کا وہ عر صے سے شکا ر تھا ۔ ہر کَس ونا کس نے گو لی چلنے کی آواز سنی تھی اور کا ر کی کھڑکی کے آگے دھوا ں بھی لہرا تا دیکھا تھا ۔ ڈیو ٹی کا نسٹیبل بھی گواہ تھا لیکن گر نے والا فا ئر والے خیال کا مضحکہ اڑا تا رہا ۔اس نے یہ بات کسی طر ح تسلیم نہ کی کہ اس پر گو لی چلا ئی گئی تھی ۔ اتفاق سے میں بھی جا ئے واردات پر مو جود تھا ۔ مجھے بڑی حیرت ہو ئی ۔بہر حال میں نے اُس آدمی کو نظر پر چڑھا لیا ۔میں نے نہ صرف اُس کی جا ئے قیام کا پتہ لگا لیا بلکہ اس سے جا ن پہچان بھی پیدا کر لی ۔ وہ ہر طرح سے ایک پُرا سرار آدمی تھا ۔اس کے متعلق اُس کے پڑوسیوں کو بھی کچھ نہیں معلوم تھا ۔ حتٰی کہ وہ یہ بھی نہیں جا نتے تھے کہ اُس کا ذریعہ معا ش کیا تھا ۔رفتہ رفتہ مجھے اُس کے بعض حالات کا علم ہو تا گیا ۔ وہ ایک ریٹا ئر ڈفو جی آفیسر تھا اور اس نے دوسری جنگ عظیم میں بہتیر ے نما یا ں کا رنا مے انجام دیئے تھے اور پھر میں نے اُس کے ملنے جلنے والوں میں کئی مشتبہ آدمی دیکھے ۔ایسے آدمی جن کے متعلق شبہ کیا رہا ہے کہ وہ دشمنوں کے ہا تھ اہم تر ین فو جی راز بیچا کر تے تھے ۔ پو لیس کا خیا ل بھی یہی تھا لیکن اب لو گو ں کے خلا ف وہ ٹھو س قسم کے ثبوت نہیں حاصل کر پا ئی تھی ۔بہر حال یہ دیکھ کر میرا ذوق تجس پو ری طر ح بیدار ہو گیا ۔ اُس پُراسرار آدمی سے میری گہری دو ستی ہو گئی تھی اور میں نے اُس سے اپنے با رے میں بھی سب کچھ صحیح صحیح بتا دیا لیکن اُس کو اس با ت کی ہو ا بھی نہ لگنے دی کہ میں نے اُس سے کیوں راہ ورسم پیدا کی ہے ۔

            دا ستان طویل ہے ۔میں اسے مختصر کر نے کی کو شش کر رہاہو ں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کو شش میں کو ئی ضروری تفصیل رہ جا ئے ۔ میں نے تمہیں اُس کا نا م تو بتا یا ہی نہیں ۔ اس کا نام شیکھر تھا اور وہ زینت محل کی نچلی منزل کے تیسرے فلیٹ میں تنہا رہتا تھا ۔ایک رات میں اُس سے ملنے کے لئے گیا ۔ فلیٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔میں بے دھڑک اندر چلا گیا ۔اچانک وہ مجھے فر ش پر او ند ھا پڑا ہو ا دکھا ئی دیا ۔ اس کی پیٹھ سے خو ن اُبل رہا تھا اور اس کی آنکھیں کھلی ہو ئی تھیں ۔ہو نٹ ہل رہے تھے ۔ اُس نے نحیف آواز میں مجھ سے کہا کہ اُسے اٹھا کر پلنگ پر ڈال دوں ۔ اس نے نہ تومجھے پو لیس کو مطلع کر نے اور نہ طبی امداد ہی کے لئے تیار ہو ا اس نے اٹک اٹک کر مجھے ایک طو یل داستان سنا ئی ۔وہ ایک خطر ناک گر وہ سے تعلق رکھتا تھا اور اُسی کے بیان کے مطا بق اُس گروہ کے رزائم بہت ہی بھیا نک تھے لیکن اس نے اُن عزائم کا تذکرہ نہیں کیا ۔دل تو چا ہتا ہے کہ میں اُس کی داستان اُسی کے الفاظ میں لکھو ں اور اُسی تر تیب کت ساتھ ، لیکن خود میری زندگی کی گھڑیاں گھنٹی نظر آرہی ہیں ۔ بہر حال اُص نے جو کچھ بتا یا اُس ما حصل یہ ہے کہ وہ گر وہ بہت بڑا اور انتہائی طا قتو ر ہے ۔ گر وہ کے لو گو ں کی آپس میں دشمنا ں بھی ہو جا تی ہیں ۔ و ہ ایک دو سرے کو ما ر بھی ڈالتے ہیں لیکن اُن میں سے کو ئی بھی تنظیم سے غداری نہیں کر تا ۔کبھی کسی نے پو لیس کو اطلا ع نہیں دی ۔ اس نے بتا یا کہ وہ بھی اسی قسم کے ایک حادثے سے دو چار ہو ا ہے لیکن وہ بڑا کبیدہ خا طر تھا اُس نے راز داری کی قسم کھا ئی تھی لیکن وہ یہ بھی نہیں چا ہتا تھا کی وہ گر وہ دنیا  پر تبا ہی لا ئے ۔ ا س نے مجھ سے تعلیمی تاش کا پیکٹ اٹھا نے کو کہا جو سا منے ہی میز پر پڑا ہو ا تھا پھر اس نے سا رے پتّوں میں سے دو پتّے نکال کر مجھے دیئے اور کہا کہ انہیں پتّو ں کے ذریعے میری رسا ئی اُس گر وہ تک ہو سکتی ہے ۔اُن پتّوں میں سب کچھ ہے ۔ اُس کی ہدا یت تھی کہ میں انہیں سمجھنے کی کو شش کروں ۔ ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کی ایک آدمی آگیا اور شیکھر اُسے دیکھتے ہی جو ش میں بھر گیا ۔اس کے منہ سے عجیب طرح کی آواز یں نکلنے لگیں پھر اس نے چیخ کر مجھ سے چلے جا نے کو کہا اور کہا کہ میں اُس چیز کو حفا ظت سے رکھو ں ، ایک دن انصاف ہو جا ئے گا ۔ میں چلا آیا ۔دوسرے دن کے اخبارات میں زنیت محل سے بر آمد  ہو نے والی ایک لاش کی خبر تھی ۔ اُسی دن سے مجھ پر حملے ہو نے شروع ہو گئے ۔انہیں اُس چیز کی لاش ہے جو اُس مر تے ہو ئے آدمی نے مجھے دی تھی ۔ خدا  کر ے یہ دونو ں چیزیں تم تک بحفا ظت پہنچ جا ئیں ۔میں تو کچھ بھی نہیں سمجھ سکا !‘‘

حمید نے ڈائری بند کر دی اور تھو ڑی دیر کے لئے کمرے میں سنا ٹا چھا گیا ۔

’کئی با تیں رہ گئیں !‘‘ با لآ خر فر یدی بولا ۔’’ نہ تو اُن مشتبہ آدمیو ں کے نام ہیں جو  شیکھر سے ملتے رہتے تھے اور نہ اُس شخص کے متعلق وضاحت ہے جو آخر وقت میں شیکھر  کے فلیٹ میں آیا تھا !‘‘

’’شیکھر کی لاش پندرہ دن قبل ملی تھی شا ید !‘‘ حمید نے کہا ۔

’’ہا ں لیکن اُس کے فلیٹ سے کو ئی ایسی چیز نہیں بر آمد ہو ئی تھی جو پُراسرار ہو تی !‘‘

’’آخر یہ کس قسم کا گر وہ ہے اور وہ خو فنا ک عزائم کیا ہیں ؟‘‘

فر یدی کچھ نہیں بولا ۔ اُس کی آنکھیں خلا میں گھو ر رہی تھیں۔

8

انو ر اور رشیدہ کیفے کا سینو میں شام کی چا ئے پی رہے تھے ۔انسپکڑ آصف بھی تھا اور آج وہ کچھ بجھا بجھا سا نظر آرہا تھا غا لباً اس کی وجہ وہ نا کا می تھی جو دن بھر کی دوڑ دھوپ کے با وجود بھی اُس کے حصے میں آئی تھی ۔

’’مجھے یقین ہے !‘‘ آصف گلا صاف کر کے بولا ۔’’ فر یدی کو ئی خاص با ت جا نتا ہے جس کا تذکرہ اُس نے سر کا ری رپو رٹ میں نہیں کیا !‘‘

’’کر تے بھی کیا !‘‘ انو ر کیک کا ایک بڑا نگلتا ہوا بولا ۔’’ سر کا ری رپو رٹیں تو ردّی کے بھا ؤ بکا کر تی ہیں !‘‘

’’انو ر ۔ تمہا ری مدد کے بغیر میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتا !‘‘

’’ما ئی ڈیئر ا و لڈ آصف !‘‘ انور آہستہ سے بولا ۔’’ وہ ٹھیک ہے لیکن میں اپنا قر ض کس طر ح ادا کروں !‘‘

’’پھر اَڑے تم ؟‘‘

’’میں سچ کہہ رہا ہو ں ۔اس ما ہ میں تین سو کا  مقر وض ہو گیا ہو ں !‘‘

’’میں بھی آج کل تنگ دست ہو رہا ہو  ں !‘‘ آصف بڑ بڑایا ۔

’’پھر بھلا بتا ؤ میں تمہاری مدد کس طر ح کر سکتا ہو ں ۔اگر تمہا ری مدد کر تا ہو ا کام آگیا تو میرے قر ض خوا ہ روزِ قیا مت مجھے خون اور پیپ کی کا ک ٹیل پلوا دیں گے !‘‘

’’تو تم صاف انکار کر تے ہو ؟‘‘

’’نہیں پیا رے ۔ میں تو دل و جا ن سے تمہا ری خدمت کے لئے حا ضر ہو ں ۔ مگر میرا قر ض ؟‘‘

’’رشید ہ تم سمجھا ؤ !‘‘ آصف گھگھیا یا ۔

’’بھلا میری کو ن سنے گا !‘‘ رشیدہ بو لی ۔

’’خدا سنے گا تمہا ری ۔تم کچھ سنا ؤ بھی تو !‘‘ انو ر نے سنجید گی سے کہا ۔

’’اچھا سنو !‘‘ آصف نے انو ر کو گھو ر تے ہو ئے کہا ۔’’اگر مدد نہیں کر سکتے تو یہی کرو کہ فر یدی کے لئے اس کیس میں کو ئی کا م نہ کر نا !‘‘

’’مگر میں نے تو سنا ہے کہ یہ کیس انہیں نہیں دیا گیا !‘‘

’’یہی نہیں !‘‘ آصف ہنس کر بولا ۔’’مخصوص اجا زت نا مہ بھی کینسل کر دیا  گیا ہے !‘‘

’’تب پھر ؟‘‘

’’نہیں ،وہ اپنی ٹا نگ ضرورا ڑائے گا !‘‘

’’تو پھر آصف صاحب مجھ میں تو اتنا دم نہیں کہ میں اُن کی ٹا نگ ہٹا دو ں !‘‘

’’تم اُس کے لئے کا م نہیں کر و گے !‘‘

’’لیکن انہو ں نے اگر میرا قرض ادا کر دیا تو میں مجبور ہو جا ؤں گا !‘‘

’’قر ض !‘‘ آصف اُسے گھو ر کر رہ گیا ۔

’’صر ف تین سو ہیں زیا دہ نہیں !‘‘

’’تو تم با ز نہیں آؤ گے ۔اچھا دیکھ لو ں گا کبھی مجھ سے بھی کا م پڑے گا !‘‘

’’یا ر آصف ۔بو ر مت کر و ۔میں ویسے ہی پر یشان ہو ں!‘‘

پھر انور نے رشیدہ کو اشا رہ کیا کہ وہ اُٹھ کر چلی جا ئے ۔ رشیدہ چند لمحے اِدھر اُدھر دیکھتی رہی پھر اُٹھ کر چلی گئی ۔انو ر چا ئے ختم کر چکا تھا ۔ وہ ایک سگریٹ سلگا کر کر سی کی پُشت سے ٹِک گیا ۔آصف اُسے ٹٹو لنے والی نظر وں سے دیکھ  رہا تھا ۔

’’تم جو زف کی بیو ی سے ملے تھے ؟‘‘ انو ر نے آصف سے پو چھا ۔

’’ملا تھا اُس عو رت سے کچھ معلوم کر لینا انتہا ئی دُشوار ہے !‘‘

’’اگر میں اُس سے کچھ معلو م  کر لو ں تو تم مجھے کتنا معا وضہ دو گے !‘‘

’’مگر میں اُس سے کچھ نہیں معلوم کر نا چا ہتے !‘‘ آصف جلدی سے بو ل پڑا ۔

’’پھر تم مجھ سے کس قسم کی مدد چا ہتے ہو ؟‘‘

’’با ت یہ ہے کہ ‘‘ آصف قدر ے ہچکچا ہٹ کے سا تھ بو لا ۔’’فر یدی سے تمہا رے تعلقات اچھے ہیں ۔تم اُس سے کسی طر ح وہ با ت معلو م کر لو جو اُس نے سر کا ری رپو رٹ میں نہیں لکھی!‘‘

’’مجھے معلو م ہے وہ با ت !‘‘ انو ر نے سنجید گی سے کہا ۔

’’کیا ؟‘‘ آصف ہمہ تن اشتیاق بن گیا ۔

’’سر کا ری رپو رٹ میں اُنہو ں نے یہ نہیں لکھا کہ وہ تما م عمر کنوارے رہنے کی قسم کھا چکے ہیں!‘‘

’’انو ر ۔ بچپنا مت کرو ۔ میں آج بہت پر یشان ہو ں !‘‘

’’اگر تم واقعی پر یشان ہو تقو میں تمہیں مشورہ دو ں گا مگر میں بغیر معا ضہ لئے کبھی کو ئی مشو رہ نہیں دیتا آصف صاحب مجھے افسوس ہے !‘‘ انو ر نے کہا اور کچھ سو چنے لگا ۔

’’اوہ یہ رشیدہ کہا ں چلی گئی ؟‘‘ دفعتہً وہ چو نک کر بولا ۔’’مسڑ آصف ایک منٹ میں ذرا دیکھ لو ں رشیدہ کہا ں چلی گئی !‘‘

انو ر کے جا نے کے بعد آصف او نگھتا رہا ۔ اس دور ان میں بیر ابل رکھ کر چلا گیا  اور آصف کو خبر تک نہ ہو ئی ۔تھو ڑی دیر بعد وہ چو نکا ۔ گھڑی پر نظر ڈالی ۔ انو ر کو گئے ہو ئے پندرہ بیس منٹ ہو چکے تھے ۔پہلے  تو آصف نے اُسے کو ئی اہمیت نہ دی لیکن پھر پُری طر ح چو نکا او ر سا تھ ہی نظر بِل پر پڑ گئی جو سا ڑھے گیا رہ رو پے کا تھا ۔پھر یہ حقیقت اُس پر روشن ہو گئی کہ بِل کی  رقم اُسی کو ادا کر نی پڑے گی ۔ انور اور رشیدہ چکمہ دے کر نکل گئے حا لا نکہ خو د انور ہی نے آصف کو چا ئے کی دعوت دی تھی ۔

آصف نے طو عاً وکر ہاً بل کے د ا م چکا ئے اور ایک مفلو ج آدمی کی طرح بدن ڈھیلا چھو ڑ کر کر سی کے ایک طر ف چھُک گیا ۔ اُسے آج کے منحوس دن پر غصہ آرہا تھا کیو نکہ آج صبح ہی سے اُسے برا بر ہر جگہ چو ٹ ہو رہی تھی اور انور نے تو تا بو ت میں آخری کیل بھی ٹھو نک دی ۔

اب وہ تنہا بیٹھ کر مکھیا ں تو ما ر نہیں سکتا تھا کیو نکہ کیفے کا سینو ایک صاف ستھری جگہ تھی لٰہذا آصف کو چھا تی پر صبر کی سِل رکھنی ہی پڑی ۔

9

            انور کی مو ٹر سا ئیکل کی رفتار کنگس لین میں دا خل ہو تے ہی کم ہو گئی ۔سو لہ نمبر کی کو ٹھی کے سا منے وہ رُک گیا ۔ چند لمحو ں کے بعد وہ بر آمد ےمیں لگی ہو ئی گھنٹی بجا رہا تھا ۔ در وازہ خود پمیلیا نے کھو لا ۔انو ر اُسے پہچا نتا نہیں تھا ۔اس نے اپنا کا رڈ نکا ل کر اُس کی طر ف بڑھا تے ہو ئے کہا ۔’’مجھے مسز پیٹر  سے ملنا ہے !‘‘

            ’’اوہ !‘‘ پمیلیا کا رڈ کی طر ف دیکھ کر بو لی ۔’’کر ا ئم رپو رٹر !‘‘

            پھر وہ خا لی خا لی نظر وں سے اُس نے آہستہ سے پو چھا ۔

            ’’کیا چا ہتے ہو ؟‘‘  اس نے آہستہ سے پو چھا ۔

’’تمہیں اس سے کیا سرو کا ر !‘‘ انو  ر خشک لہجے میں بولا۔

پمیلیا اس وقت خا نگی لباس میں تھی اور انور یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مکان کی ما لکہ خود ہی گھنٹی کے جواب میں دروازے تک آئی ہو گی ۔بہر حال وہ اُسے خا دمہ نہیں تو پیمیلیا کی سکر یڑی ضرور سمجھا تھا ۔

’’میں ہی مسز پیٹر  ہو ں !‘‘ پمیلیا  آہستہ سے بڑبڑائی ۔

’’اوہ معا ف کیجئے گا !‘‘ انور مصا فحہ کے لئے ہا تھ بڑ ھا یا بڑ ھا تا ہو ا بولا ۔’’مسڑ جو زف بڑے اچھے آدمی تھے ۔میں ان کی سو انح حیا ت شا ئع  کر نا چا ہتا ہو ں !‘‘

’’مگر ان پر بھی تو ایک قتل کا لزام تھا !‘‘ پمیلیا نے مر دہ سی آواز میں کہا ۔

’’مجھے اس کہا نی پر یقین نہیں !‘‘ انو ر نے کہا ۔’’ یہا ں کی پو لیس نا کا رہ اور کا م چو ر ہے ۔ سو میں پچھتّر کیس ایسے ہو تے ہیں جن میں وہ یا تو دھو کا کھا تی  ہے یا اپنی آسانی کے لئے جا ن بو جھ کر فر ضی کہا نیا ں گھڑ لیتی ہے ۔ مجھے پیٹر سے ہمدردی ہے کیو نکہ وہ پیرا دوست تھا !‘‘

’’لیکن ہم کبھی نہیں ملے ؟‘‘ پمیلیا حیرت سے بو لی ۔

’’یہ ایک افسوس نا ک  اتفاق ہے ۔ میں نے اُس کے لئے بہتیر ی بد ھ تعلیما ت کا تر جمہ کیا تھا !‘‘

’’اوہ اندر آجا یئے !‘‘ پمیلیا کی آواز بڑی رسیلی تھی ۔

انور اندر چلا گیا ۔وہ نشست کے کمرے میں آئے ۔

’’میں یہ بھی سمجھتا ہو ں !‘‘ انو ر کہہ رہا تھا ۔’’پیٹر قتل کیا گیا ہے اور ا میں کسی آدمی کا ہا تھ ہے ۔درندے کی داستان بھی فر ضی ہی معلوم ہو تی ہے !‘‘

’’مگر مسڑ انو ر ، وہ با ل میں نے بھی دیکھے تھے !‘‘

’’اُن کی کو ئی اہمیت نہیں ۔ پو لیس کو غلط را ستے پر ڈالنے کے لئے ایسے نشا نا ت بڑی آسانی سے مہیا کئے جا سکتے ہیں !‘‘

پمیلیا کچھ نہ بو لی ۔

’’مسڑ پیٹر اگر آپ میری تھو ڑی بہت مدد کر یں تو قا تل کا سرا غ مل سکتا ہے اور آپ کو کر نا چا ہئے ۔پیٹر آپ سے بہت محبت کر تا تھا ۔اکثر کہا کر تا تھا بد ھ ازم تر کِ دنیا کی تعلیم دیتا ہے لیکن میں پمیلیا کے علا وہ سب کچھ تر ک کر سکتا ہو ں !‘‘

’’اوہ !‘‘ پمیلیا کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں ۔

’’آپ خود کو سنبھا لئے ۔ ہمیں پیٹر کے قا تل سے انتقال لینا ہے !‘‘ انور بولا ۔’’میں اِسی لئے آیا ہو ں کہ آپ کو با ہر لے جا ؤں ۔اگر آپ سو گ میں رہیں تو یہ پیٹر کی روح سے دشمنی ہو گی ہمیں اس کے قاتل کو ڈھو نڈنا ہے !‘‘

’’مگر مسڑ آر !‘‘ وہ اُس کے ملا قاتی کا رڈ کی طر ف دیکھ کر بولی ۔’’مسڑ انور میں کسی پر اعتما د نہیں کر سکتی ۔

میں اس دیس میں آکر لُٹ گئی تبا ہ ہو گئی !‘‘

            ’’ٹھیک ہے !‘‘ انور نے کہا ۔’’اتنی جلدی کسی پر بھی اعتماد نہ کر نا چا ہئے لیکن میں آپ کو اپنی اور پیٹر کی ایک یا د گا ر تصویر دکھا ؤں !‘‘ انور نے اپنی جیب سے ایک لفا فہ نکالا  اور  اُس میں سے ایک تصویر بکال  کر پمیلیا کی طر ف بڑ ھا دی ۔

            اس میں جوزف پیٹر اور انور ایک ہی میز پر بیٹھے چا ئے پی رہے تھے ۔ پیٹر انور کی طرف پیسڑ یو ں کی پلیٹ بڑھا رہا تھا ۔ اُس کے ہو نٹو ں پر بے تکلفا نہ انداز کی مسکرا ہٹ تھی ۔ انور نے اس تصویر پر بڑی محنت کی تھی ۔ اسے اُس نے ایک فو ٹو  گر ا فر کی دُکا ن سے حا صل کیا تھا ۔ حقیقاً تصویر میں پیٹر کے ساتھ انو ر کے بجا ئے کو ئی اور تھا ۔انو ر نے بڑے فنکا را نہ انداز میں اُس  کی تصویر الگ کر کے اپنی فِٹ کی تھی ۔بہر حال یہ سب کچھ اتنے سلیقے سے کیا گیا تھا کہ کو ئی بڑے سے بڑا ما ہر  بھی اسے کیمر ہ ٹِر ک نہیں کہہ سکتا تھا ۔

            ’’یہ کب کی تصویر ہے ؟‘‘ پمیلیا نے تھو ڑی دیر بعد پو چھا ۔

            ’’اوہ یہ ہماری آخری ملا قات ہے !‘‘ انور مغمول لہجے میں بولا ۔’’ پیٹر میرے دفتر اآیا تھا اور اسٹاف فو ٹو گرافر نے وہیں ہما ری تصویر لی تھی ۔افسوس وہ کا م نہ ہو سکا ۔ہم دونو ں نے  کرا ئسٹ اور مہا تما بد ھ کی ملتی جلتی تعلیما ت کا ذخیرہ اکٹھا  کر نے کا پر و گرا م بنا یا تھا !‘‘

            ’’اوہ !‘‘ پمیلیا کی آنکھو ں میں اُلجھن کے آثار تھے ۔

10

        اُسی رات کو انسپکٹر فر ید ی اور سر جنٹ حمید نے انو ر اور پمیلیا کو آر لکچنو  میں رَمبا نا چتے دیکھا ۔

            ’’ہا ئیں !‘‘ حمید آنکھیں نکا ل کر سر کھجا تا ہو ا بولا ۔’’اس کا کیا مطلب؟‘‘

            ’’اس کا یہ مطلب ہے کہ انور واقعی بڑا ذہین ہے ۔ وہ بھی اُسی نتیجے پر پہنچا ہے جس پر میں پہنچا تھا !‘‘

            ’’آپ دو نو ں غلط ہیں !‘‘ حمید نے کچھ سو چتے ہو ئے کہا ۔’’ لیکن ٹھہر یئے ۔میں ابھی اُس کی سا ری ذہا نت خا ک میں ملا دیتا ہو ں ۔کیا آپ نے اُسے شریک کر لیا ہے ؟‘‘

            ’’ابھی تک تو نہیں ۔جب ضرورت سمجھو ں گا دیکھا جا ئے گا ۔ظاہر ہے اب ہم محکمے کے آدمیو ں سے کو ئی مدد نہ لے سکیں گے !‘‘

            ’’شکر یہ ۔ میں ابھی آیا !‘‘

            حمید کو یا د آگیا تھا کہ اُس  نے  رشیدہ کو کیفے ڈی سا ئیپر یس میں دیکھا  تھا  جو آر لکچنو  سے زیا دہ دور نہیں تھا ۔

            وہ فر یدی  کو وہیں چھو ڑ کر اُس کی تلا ش میں نکل گیا پھر اُسے رشیدہ کو آر لکچنو تک لا نے میں دشواری نہیں ہو ئی ۔اس نے دو بارہ ٹکٹ خریدے اور رشیدہ سمیت رِنگ ہا ؤ ز میں داخل ہو گیا ۔ رقص شبا ب پر تھا ۔ حمید نے انور اور پمیلیا کی طرف اشا رہ کیا ۔ رشیدہ اپنا نچلا ہو نٹ چبا نے لگی ۔

            ’’اُف فو ہ !‘‘ وہ بڑ بڑائی ۔’’آخر یہ انور مجھ پر ہی یہ کیو  ں ظاہر کر تا ہے کہ اُسے عو رتو ں سے نفرت ہے !‘‘

            ’’اب تم ہی سمجھو !‘‘ حمید لا پر واہی سے بولا ۔’’اس کے بر خلا ف میں تم سے اتنی !‘‘

            ’’آپ اپنی با ت تو رہنے ہی دیجئے !‘‘ رشیدہ چڑ کر بو لی ۔

            ’’کا ش تم میرے دل کے درد کو سمجھ سکتیں !‘‘ حمید ٹھنڈی سا نس بھر کر بولا ۔

            ’’زیا دہ رو ما نی بننے کی کو شش نہ کرو !‘‘ رشیدہ کی نظر یں بد ستو ر انور اور اُس کی ہم رقص پر جمی رہیں ۔

            ’’کیا میں تم سے رقص کی در خواست کر سکتا ہو ں ؟‘‘ حمید نے آہستہ سے کہا ۔

            ’’لیکن وہ ہے کو ن ؟‘‘ رشیدہ حمید کی طر ف مڑی ۔

            ’’پتہ نہیں تم نے میری با ت کا جواب نہیں دیا ؟‘‘

            ’’میں رقص کے مو ڈ  میں نہیں ہو ں !‘‘

            ’’رشو ڈ یئر !‘‘

            ’’اے دیکھو تم مجھے اس طرح مخا لف نہ کیا کر و !‘‘

            ’’آچ اچھا !‘‘ حمید نےدفعتہً اس کا ہا تھ پکڑ کر کھینچ لیا اور وہ دونوں رقص کر نے وا لو ں کی بھیڑ میں آگئے ۔رشیدہ جھنجھلا  کر حمید کے شا نے پر چٹکیا ں لے رہی تھی ۔

            ’’رشو ۔تم چا ندنی ہو !‘‘ حمید آہستہ سے اُس کے کا ن میں بولا ۔

            ’’میں تمہیں یہیں گر ا ما روں گی !‘‘

            وہ انو ر اور اس  کی ہم  رقص کے قریب سے گز ر رہے تھے ۔

            ’’دوسروں پر ڈا لنے سے پہلے ہی آدمی لُٹ جا  تا ہے !‘‘ حمید اتنے زور سے بو لا کہ مو سیقی کے شو ر کے با وجو د بھی انو ر نے سن لیا ۔ وہ مڑ مڑ کرا نہیں گھو ر رہا  تھا ۔

            ’’ یہ رقا بت کا معا ملہ تو نہیں ؟‘‘ رشیدہ بو لی ۔

            ’’لا حو ل میں تو اُسے جا نتا بھی نہیں !‘‘ حمید نے کہا ۔’’لیکن ذرا انو ر کو دیکھو ۔تمہیں دیکھ لینے کے با وجو د بھی اس طر ح نظر اندا ز کر رہا ہے جیسے تمہیں جا نتا  ہی نہیں !‘‘

            ’’تو اس سے کیا ہو ا !‘‘

            حمید چا رو ں طر ف دیکھنے لگا ۔ اب انو ر اور اُس کی ہم رقص نظر نہیں آرہے تھے ۔ گا لباً وہ آگے بھیڑ میں تھے ۔

            ’’کا ش       !‘‘

            ’’میں اب کچھ نہیں سنو ں گی !‘‘ رشیدہ جھنجھلا کر بولی ۔’’ مجھے اُلّو نہ بنا ؤ!‘‘

            ’’اوہو ۔ اتنی حسین عورت اُلّو کیسے بن سکتی ہے ۔ ویسے میں تم پر اُلو کا میک اَپ ضرور کر سکتا ہو ں !‘‘

            ’’ہا ں بس تم ایسی ہی با تیں کیا کرو !‘‘ رشیدہ مسکرا کر بو لی ۔’’ رو ما نی  بننے کی کو شش کر تے ہو تو گد ھے نظر آنے لگتے ہو !‘‘

            ’’مگر مجھے اپنا گد ھا پن ہی اچھا لگتا ہے ۔ گد ھے بھی پسند ہیں کیو نکہ نہ تو وہ شعر کہتے ہیں اور نہ وقت بے وقت بو ر کر تے ہیں ۔گد ھا تو بڑی عظیم تخلیق ہے رشو ڈئیر ۔اگر تم کسی گد ھے سے شا دی کر لو تو !‘‘

            ’’بکو نہیں !‘‘ رشیدہ بگڑ گئی ۔

            ’’گد ھے بڑے سعا دت مند شو ہر ثا بت ہو سکتے ہیں ۔ بلکہ میں تو بعض اوقات یہ سو چنے لگتا ہو ں کہ گد ھے کو شو ہر ہی کیو ں نہیں کہا جا تا !‘‘

            ’’حمید مجھے جانے دو !‘‘ رشیدہ نے اپنا ہا تھ چھڑا نا چا ہا  مگر حمید کی گر فت مضبو ط ہو گئی ۔

            ’’کیو ں ۔اپنا مذاق اُڑاؤ گی ۔میں تو بہت ہی بے حیا قسم کا آدمی ہو ں ۔اگر تم مجھے ما ر بھی بیٹھو  گی تو جا نتی ہو کیا ہو گا !‘‘

            ’’کیا ہو گا ؟‘‘

            ’’لو گ مجھے تمہا را شو ہر سمجھیں گے ۔گد ھے چو ں بھی نہیں کر یں گے !‘‘

            رشیدہ کچھ نہ بو لی ۔وہ چپ چا پ حمید کے سا تھ رینگتی اور تھر کتی رہی ۔ اُس کے پیر غلط پڑ رہے تھے لہٰذا اسے رینگنا اور تھر کنا ہی کہا جا سکتا تھا ۔

            ’’رشو ڈئیر !‘‘ حمید نے پھر چھیڑا ۔’’یقیناً تمہیں دُکھ ہوا ہو گا ۔ مجھے افسو س ہے !‘‘

            ’’کیا بک رہے ہو تم ۔مجھے کیو ں ہو گا افسو س ۔کیا میں انو ر کی بیو ی ہو ں !‘‘

            ’’مگر وہ مم !‘‘

            ’’بس زبا ن بند ۔ہم صرف دوست ہیں !‘‘

            ’’افسو س اے حو رو ش وپری تمثا ل والے عشو ہ گر و آگیا بیتا ل میں تم سے مم !‘‘

            دفعتہً کچھ دو ر پر بھیڑ میں ایک تیز قسم کی نسوا نی چیخ سنا ئی دی ۔ رقا صوں نے ایک دوسرے کے ہا تھ چھو ڑ دیئے ۔وہ سب ایک طر ف جھپٹ رہے تھے ۔

            حمید بھی رشیدہ کو وہیں چھو ڑ کر اُس طرف لپکا ۔ کئی طر ح کی ملی جلی آواز یں میں گو نج رہی تھیں ۔

            اس نے دیکھا پمیلیا فر ش پر پڑی مچھلی کی طر ح تڑپ رہی تھی اور انو ر آنکھیں پھا ڑ ے اُسے گھو  ر رہا تھا ۔

سب کی تو جہ کا مر کز پمیلیا بنی ہو ئی تھی ۔ انو ر کی طر ف کو ئی بھی نہیں دیکھ رہا تھا ۔

            کسی نے انو ر کے شا نے پر پیچھے سے ہا تھ رکھ دیا ۔انور مڑا اور حمید نے اُسے بھیڑ سے نکلتے دیکھا حمید اُس ہا تھ کو پہچا نتا تھا وہ فر یدی کے علا وہ او ر کسی کا نہیں تھا ۔

            کچھ عورتو ں نے پمیلیا کو فر ش سے اٹھا نا چا ہا لیکن انہیں ایسا محسو س ہو اجیسے وہ کئی من وزنی لو ہا اٹھا نے کی کو شش کر رہی ہو ۔اچانک پمیلیا نے اپنے ہا تھ پیر تا ن دیئے اور اس کی ہڈیو ں کی کڑ کڑاہٹ سینکڑوں آدمیوں نے سنیں ۔بس ایسا معلوم ہو ا جیسے اُس کا جو ڑ الگ ہو گیا ہو ۔ دو سرے لمحے میں فر ش پر ایک لا ش نظر آرہی تھی ۔حمید نے کچھ دیر پہلے بھی وہ چہرہ دیکھاتھا لیکن اب وہ  اُسے پہچا ن نہیں سکتا تھا ۔نا ک ٹیڑھی ہو گئی تھی ۔ اُو پر کا ہو نٹ مڑ کر ناک سے جا ملا تھا اور دا نت بڑے خو فنا ک معلو م ہو رہے تھے ۔ وہ کسی انسان کی لا ش نہیں معلوم ہو تی تھی ۔

            ’’کو ئی کمرے سے با ہر نہیں جا ئے گا !‘‘ دفعتہً ایک گر ج دار آواز سنا ئی دی ۔’’پو لیس !‘‘

            ادھر اُدھر ہا ل کے دروازے بند ہو گئے ۔ہر ایک اپنی جگہ پر جم گیا تھا ۔حمید نے فر یدی کو دیکھا ۔وہ آر کسڑا کے قر یب کھڑا مجمعے کو گھو ر رہا تھا ۔

            پو لیس کی آمد میں دیر نہیں لگی ۔اتفا ق سے کو تو الی انچا رج انسپکڑ جگد یش ہی ڈیو ٹی پر تھا ۔فر یدی نے اُسی کو فو ن  کیا تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کی مر نے والی جو زف پیٹر کی بیو ی پمیلیا تھی ۔ انسپکڑ جگد یش آصف کو اطلا ع دے کر یہا ں آیا تھا ۔اُسے معلو م تھا کہ جو زف پیٹر اور عر فا نی والا کیس اُسی کے سپر د کیا گیا ہے ۔

            فر یدی نے خاص طو رپر حمید کی تو جہ ایک چیز کی طرف مبذول کرا ئی ۔بھو رے رنگ کے بڑے بڑے با ل لا ش کے گر دبکھر ے ہو ئے تھے ، پھر وہ دو نو ں لا ش کے پا س سے ہٹ آئے ۔انہو ں نے یہ بھی دیکھنے کی زحمت گوا را نہ کی کہ کو توالی انچا رج کیا کر رہا ہے  ۔ کو توالی انچا رج کو ا ب دراصل انسپکڑ آصف رتھا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ شا ید فر ید ی اپنے آفیسروں سے لڑ گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ی کیس اُسے نہیں سو نپا گیا ۔ورنہ اس قسم کے پیچیدہ کیسو ں کے لئے محکمے میں فر ید ی کے علا وہ اور کو ن تھا ۔

            رشیدہ بھی اُن دونو ں کے پا س ہی آکر کھڑی ہو گئی تھی ۔

            ’’انو ر کہا ں ہے ؟‘‘ اس نے آہستہ سے پو چھا ۔

’’گھر گیا !‘‘ فر ید ی نے جواب دیا ۔’’ کسی سے اس کا تذکرہ آنے پا ئے کہ انو ر اُس کے سا تھ نا چ رہا تھا !‘‘

            رشیدہ کچھ نہ بولی ۔مجمع با ہر نکلنے کے لئے بے چین تھا لیکن اُسے رُکنا ہی پڑا ۔نچا رج آصف کے آنے سے پہلے دروازہ نہیں کھلوا نا چا ہتا تھا ۔

            ’’اور وہ با ل !‘‘ حمید آہستہ سے بڑ بڑا یا ۔

            ’’کیا تم نے کو ئی در ندہ دیکھا تھا ؟‘‘ فر یدی  کے ہو نٹو ں پر مسکرا ہٹ تھی ۔

            ’’نہیں تو غالباً کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا !‘‘

            ’’بس اس سے یہ ثا بت ہو ا کہ اس با ر وہ درندہ کھا لمیں نہیں تھا بلکہ صرف تھو ڑے سے با ل اپنے ہمرا ہ لا با تھا ۔کیا سمجھے ؟‘‘

            ’’غا لباً آصف اور سنگھ کا انتظار ہے !‘‘ حمید چا رو ں طرف دیکھتا ہو ا بولا ۔

            ’’پتہ نہیں !‘‘ فر یدی نے لا پر وائی سے اپنے شا نو ں کو جنبش دی ۔

            انسپکڑ آصف آگیا تھا ۔وہ سیدھا لا ش کی طرف گیا ۔دو ہی تین منٹ بعد اس کا رُخ فر یدی اور حمید کی طرف تھا ۔

            ’’تم یہا ں کیسے ؟‘‘ آصف نے پو چھا ۔

            ’’اوہ ۔تو اب کیا میری بھی نگرا نی ہو نے کگی ہے؟‘‘

            ’’میرا یہ مطلب نہیں ہے !‘‘ آصف گڑ بڑا کر بولا ۔’’کیا تم پہلے سے یہا ں مو جو د تھے ؟‘‘

            ’’ظا ہر ہے ۔ اگر مو جو د نہ ہو تا تو جگد یش کو فو ن کیسے کرتا اور تمہیں کیو نکر اطلا ع لیکن خدا را مجھ سے یہ نہ پو چھنا کہ میں یہا ں کیو ں آیا تھا !‘‘

            ’’فر ض کر و سگر میں پو چھو ں تو ؟‘‘

            ’’تب مجبو ری ہے !‘‘ فر یدی اپنے شا نو ں کو جنبش دے کر بولا ۔’’مجھے صاف صاف بتا دینا پڑے گا کہ میں یہا ں اپنے محکمے کے بعض آفیسر وں کی عقلو ں کے کفن کے لئے چند ہ اکٹھا کر نے آیا تھا !‘‘

            ’’تم آئی ۔جی صاحب پر چو ٹ کر رہے ہو !‘‘

            ’’تمہا را ظرفِ ہے جسے چا ہو سمجھ لو !‘‘

            آصف کچھ نہ بو لا ۔وہ چند لمحے لا ش کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا ۔’’ اس کا ہم رقص کو ن تھا ؟‘‘

            ’’میں پھر تمہیں اپنا مشغلہ یا د دلا ؤں گا !‘‘ فر یدی خفیف سا مسکرا دیا ۔

            ’’تم جا نتے ہو کہ اس قسم کی معلو ما ت کو چھپا نا جر م ہے !‘‘

            ’’اوہ ایسا ہے !‘‘ فر یدی  نے حیرت کا اظہار کر تے ہو ئے کہا ۔

            ’’اچھا اب میں ضرور قا نو ں کا مطا لعہ کرو ں گا !آؤ حمید چلیں ہمیں اسی وقت سے یہ نیک کا م شروع کر دینا چا ہئے !‘‘

            ’’دروازے بند ہیں !‘‘ آصف بھنّا کر بولا ۔’’اور میری اجازت کے بغیرنہیں کھل سکتے !‘‘

            ’’میں دروازے سے استد عا کرو ں گا کہ وہ تم سے اجا زت طلب کر یں !‘‘

            ’’لو نڈے ہو ؟‘‘ آصف اُسے قہر آلو د نظر وں سے گھو ر تا ہو ا بولا ۔’’خیر دیکھ لو ں گا !‘‘

            ’’مجھے تمہا رے بڑھا پے پر رحم آتا ہے !‘‘ فر یدی کی ہنسی بڑی ز ہر یلی تھی ۔

            آصف نہ جا نے کیا کیا بکتا ہو ا وہا ں سے چلا گیا پھر وہ دونو ں اُسے لا ش پر جھکا ہو ا دیکھ رہے تھے ۔

            ’’ہم لو گ بُرے پھنسے ۔مجھے دروازے نہیں بند کرا نے چا ہئے تھے !‘‘ فر یدی بو لا ۔’’اب پتہ نہیں کب تک یہ حضرت جھک ما رتے رہیں !‘‘

            دفعتہً آصف پھر تیر کی طر ح اُن کی طر ف آیا ۔اس با ر وہ رشیدہ کو گھو ر رہا تھا ۔

            ’’تم یہا ں کیسے ہو ؟‘‘ اس نے سوال کیا ۔

            ’’شکر یہ ۔ میں با لکل ٹھیک ہو ں !‘‘ رشیدہ نے سنجیدگی سے کہا اور حمید کو ہنسی آگئی ۔

            ’’یہ کیا بد تمیز ی !‘‘ آصف ،حمید کی طرف گھو م پڑا ۔

            ’’آصف صاحب ۔ذرا ہو ش میں ۔ میں ما ر تا پہلے  ہو ں ۔اُس کے بعد چا ہے زند گی بھر سہلا تا رہا ہو ں ۔آپ اپنی انسپکڑ ی کا رعت مجھ پر نہ جھا ڑ یئے گا ۔ اگر ہم خود ہی اپنی تر قیو ں کو نہ ٹھکر اتے رہتے تو اس وقت اس وقت تم مجھے سیلو ٹ کر تے اب زبان سے کچھ نہ نکلے ورنہ خدا کی قسم یہیں پٹخ کر ما ر وں گا اور ملا زمت پر تو اب ہم خود ہی لعنت بھیجنے والے ہیں !‘‘

            ’’ارے ارے خا موش خاموش !‘‘ فر یدی طرف گھسیٹ لے گیا ۔

            ’’آصف اُن دو نوں کو گھو رتا رہا پھر وہ جھینپ مٹا نے کے لئے رشیدہ سے با تیں کر نے لگا ۔

            ’’میں ما رو ں گا !‘‘ حمید محل رہا تھا ۔

            ’’کیا گد ھا پن ہے ۔چین سے رہو ۔تمہیں اُس کی تو ہین  نہ کر نی  چا ہئے تھی ۔ بو ڑھا آدمی ہے !‘‘

            ’’آپ ہمیشہ مجھے ہی دبا تے رہتے ہیں ۔ کیا لغو یت ہے ۔ کیا میں اُس کے با پ کا نو کر ہو ں !‘‘

            ’’اوہ جا نے دو بھئی کسی طر ح دروازے کھلنے چا ہئیں ورنہ یہ اُلو     زندگی تلخ کر دے گا !‘‘

            شا ید آصف کی سمجھی ہی نہیں آرہا تھا کہ اُسے کیا کر نا چا ہئے ۔اس نے پمیلیا  کے ہم رقص کے متعلق لو گو ں سے پو چھ گچھ کی لیکن کسی نے کو ئی تسلّی بخش جواب نی دیا ۔آخر تھک ہا  ر کر اُسے دروازے کھلوا نے ہی پڑے ۔

11

        دوسرے دن کے اخبا ر ات میں پھر خیز سر خیا ل نظر آئیں ۔پمیلیا کی پُر اسرا ر مو ت پر کئی زا و یو ں  سے رو شنی ڈالی گئی تھی ۔اُن پُرا سرار  با لو ں کا تذکرہ بھی تھا جو اُس کے شو ہر کی لا ش کے قریب پا ئے گئے تھے ۔ یہ خیا ل تو سبھی نے ظا ہر کیا تھا کہ اُس کی موت بھی حرکت قلب ہی کے بند ہو جانے پر واقع ہو ئی تھی لیکن دو پہر کو پو سٹ  ما رٹم کی رپو رٹ نے ایک دوسری ہی کہا نی سنا ئی ۔

            اُس کے مطا بق پمیلیا کسی خطر نا ک قسم کے زہرکا  شکا ر ہو ئی  تھی ۔پو سٹ ما رٹم کے دور ان میں اُس کی با یئں ران پر ایک ایسا نشان پا یا گیا تھا جو کا نٹا یا سو ئی چبھنے کا نتیجہ ہو سکتا تھا ۔ انجکشن کے خیا ل کی تر دید تھی ۔ ڈاکڑ وں کی را ئے تھی کہ وہ کا نٹا یا سو ئی نجا ئے خود زہر یلی تھی معد زہر کے اثرات نہیں پا ئے گئے یہ اس با ت کی کھلی ہو ئی دلیل  کی زہر کسی خارجی طر یقے پر اُ س کے نظا م ِ عصبی پر اثرا ندا ز ہو ا ۔

            انسپکڑ آصف اور انسپکڑ سنگھ کو چکر آنے لگے تھے ۔

            اُسی شا م کو محکمہ سرا غر سا نی کے ڈی ۔ جی نے فر یدی اور حمید کو اپنی کو ٹھی پر آنے کی دعو ت دی ۔ پو رے محکمہ میں یہی ایک آفسیر تھا جسے اُن دو نو ں سے ضد نہیں تھی ، اور صرف یہی ایک ایسا آفیسر تھا جس کا فر یدی صحیح معنو ں میں احترام کر تا تھا ۔

            ’’آصف نے تم دو نوں کی شکا یت کی ہے !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی مسکرا کر بولا ۔

            فر یدی اس سا رے واقعات دہر اتا ہو ا بولا ۔ ’’اب آپ خود ہی سو چ سکتے ہیں کہ زیا دتی کس کی ہے ۔ وہ حضرت خوا ہ مخوا ہ حمید کے منہ لگا کر تے ہیں ۔ حمید میرا اسسٹنٹ ہے اس لئے کسی دوسرے کو اس سے سرو کا ر نہ رکھناچا ہئے ،میرا ا س سے کیا بر تا ؤ ہے ۔یہ میرا نجی معا ملہ ہے ۔میں اُسے اپنے بھا ئی کی طرح عز یز رکھتا ہو ں !‘‘

            ’’میر ے خیا ل سے با ت کچھ اور ہے ۔آصف کا خیال ہے کہ تم اُن وار دا توں کے متعلق کو ئی خا ص با ت جا نتے ہو جسے چھپا رہے ہو !‘‘

            ’’اُس کا خیال درست ہے !‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’ایک نہیں در جنو ں با تیں جا نتا ہو ں اور یہ با ت صر ف آپ کی اطلاع کے لئے عر ض کر تا ہو ں کہ میں نجی طور پر اس کیس سے دست بر دار نہیں ہو ا کیو نکہ عر فا نی سے میرے قر یبی تعلقا ت تھے اور میں اس سا زش کے سر غنہ کی کھو پڑی تو ڑے بغیر نہ رہو ں گا !‘‘

            ’’لیکن سنو !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی مشفقا نہ انداز میں بولا ۔’’فی الحال نہ جانے کیو ں آئی ۔جی صاحب تم سے خوش نہیں ہیں !‘‘

            ’’میں جا نتا ہو ں اُنہیں انگریز وں سے عشق ہے !‘‘ فر یدی نے تنّفر سے ہو نٹ سکو ڑ کر کہا ۔’’میرا مخصوص اجازت نا مہ منسو خ کر دیا گیا ۔ یہ میری کھلی ہو ئی تو ہین ہے لیکن اس کے با وجو د بھی کو ئی مجھے مجبو ر نہ سمجھے ۔مجھے خدا کے بعد اپنے با زو ؤں پر بھر وسہ ہے !‘‘

            ’’کیا تم اُس عو رت کے ہم رقص سے واقف ہو ؟‘‘

            ’’جی ہا ں ، لیکن وہ میرا آدمی تھا ۔ میں شروع ہی سے یہ سمجھتا تھا کہ پمیلیا بہت کچھ جا نتی ہے لیکن اُس کے سا تھیو ں کو اُس پر اعتما د تھا اسی لئے وہ ابتک بچی رہی ،لیکن جب انہو ں نے دیکھا کہ میں اپنا جا ل اُس کے گر د مضبو ط کر نے کی کو شش کر رہا ہو ں تو انہو ں نے اُسے بھی ٹھکا نے لگا دیا ۔

            ’’ہم رقص کون تھا ؟‘‘

            ’’کرا ئم رپو رٹر انو  ر !‘‘

            ’’اوہ !‘‘

            ’’لیکن یہ اطلا ع صرف آپ کے لئے ہے ۔ میں نے آپ سے کبھی کو ئی با ت نہیں چھپا ئی !‘‘

            ’’تم مطمئن رہو !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی سگا ر کا ڈبا اُس کی طرف بڑھا تا ہو ا بو لا ۔’’لو پیو ۔تکلیف کی ضرورت نہیں ۔میں جا نتا ہو ں کی تم بے تحا شا سگا ر پیتے ہو !‘‘

            فر یدی نے سگا ر لے لیا ۔

            ’’تم !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی حمید کی طرف دیکھ کر بولا ۔

            ’’میں نہیں پیتا !‘‘ حمید نے شر ما کر کہا ۔

            ’’میں نے سنا ہے تم بہت شیطان ہو !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی ہنسنے لگا اور حمید کسی کنوا ری لڑکی کی طرح سچ مچ اور زیا دہ شر ما گیا ۔

            ’’میں آپ سے کیا عرض کر وں کہ یہ کتنا عظیم آدمی ہے !‘‘ فر یدی بولا ۔

            ’’میں جا نتا ہوں لیکن تم دونو ں کو نصیحت کر و ں گا کہ جو کا م کر و احتیا ط سے کر و ۔ اس وقت حالا ت تمہا رے نا موافق ہیں !‘‘

            ’’ہم پورا پو را خیال رکھیں گے !‘‘

            ’’اور حالات سے مجھے با خبر رکھنا !‘‘

            ’میں نے ہر مو قع پر یہی کیا  ہے !‘‘

            ’’اور ہا ں کسی دن بچے تمہا رے عجا ئبا ت کا ذخیر دیکھنا چا ہتے ہیں !‘‘

            ’’ضر ور بڑے شوق سے جب دل چا ہے ۔مجھے صر ف ایک گھنٹہ قبل اطلا ع کرا دیجئے گا !‘‘

            ’’تم کہو گت آج میں نے فر ما ئشو ں کے ڈھیر لگا دیئے ۔میرے بڑے لڑکے کو تو جا نتے ہی ہو گے ؟‘‘

            ’’جی ہا ں وہ جو تا ر جا م میں اسسٹنٹ کمشنر ہیں !‘‘

            ’’ہا ں۔اُسے بلڈ ہا ؤ نڈ کا ایک جو ڑ ا چا ہئے ۔مجھ سے کہا تھا کہ تم سے سفا رش کر وں !‘‘

            ’’اوہو ۔ اس میں سفا رش کی کیا با ت ۔میرے پا س وقت چا ر جو ڑے ہیں ۔جو پسند ہو لے لیں !‘‘

            ’’کل کتنے کتّے ہیں تمہا رے پا س !‘‘

            ’’چھپا لیس !‘‘

            ’’اوہ اور سانپ ؟ آخر سا نپو ں سے تمہیں کیو ں اتنی دلچسپی ہے ؟‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی نے پو چھا ۔

            ’’میں خود بھی نہیں جا نتا لیکن سا نپ مجھے بہت پیا رے لگتے ہیں !‘‘

            ’’تمہا رے شوق انتہا ئی عجیب و غریب ہیں لیکن خطر نا ک بھی ہیں ۔تم شا دی کیو ں نہیں کر تے ؟‘‘

            ’’ابھی دل نہیں چا ہتا !‘‘ فر یدی نے بات ٹا لنے کی کو شش کی ۔

            ’’کو ئی ٹر یجڈی ؟‘‘ ڈی ۔ آئی ۔جی مسکرا یا ۔

            ’’نہیں صاحب ۔مجھے کبھی ادنیٰ قسم کا جا نو ر بننے سے دلچسپی نہیں رہی ۔میں جنسیت کو ایک سیدھا سادا مسئلہ سمجھتا ہو ں جسے آدمی جیسے سمجھ دار جا نور کے لئے اتنا پیچیدہ ہو نا چا ہئے کہ وہ شا عری کر نے لگے !‘‘

            ’’بڑے خشک آدمی ہو !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی ہنسنے لگا ۔

            کچھ دیر خا مو شی رہی پھر فر یدی بولا ۔’’ میں یہ بھی جا نتا ہو ں کہ پمیلیا کی موت کا ذمے دار کو ن ہے ۔ مگر میں ابھی اس کے پیچھے لگنا نہیں چا ہتا ۔ورنہ وہ اس کا بھی خا تمہ کر دیں گے !‘‘

            ’’کو ن ہے ؟‘‘

            ’’بر نا رڈ یہا ں کے مشہو ر لو گو ں میں سے ہے لیکن ہما رے پا س ابھی تک اُس کے خلا ف کو ئی واضح ثبو ت نہیں ہے !‘‘

12

        رات تا ریک اور کہر آلو د تھی ۔ فر یدی اور حمید دن بھر کی تھکن کے بعد آرام کر نے جا ہی رہے تھے کہ انور آگیا ۔شا ید وہ آج دن بھر بھٹکتا ہی رہا تھا کیو نکہ اُس کے چہرے پر کسل مندی کے آثار تھے ۔

            ’’آپ نے ٹھیک کہا تھا !‘‘ وہ فر ید ی کو مخا طب کر کے بولا ۔’’آصف سچ مچ میرے پیچھے لگ گیاہے !‘‘

            ’’لیکن یہ نہ سمجھو کہ اُسے تم پر شبہ ہے !‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’اُس کے فر شیو ں کو بھی اس کا علم نہیں ہے کہ تم ہی پچھلی رات کو پمیلیا کے ہم رقص تھے !‘‘

            ’’پھر وہ کیو ں آج سارا دن میرا تعا قب کر تا رہا ؟‘‘

            ’’اوہ ۔سیدھی سی با ت ہے ۔ اُسے یقین ہے کہ میں اس کیس سے دست بر دار نہیں ہو ا اور تم میرے لئے کا م کر رہے ہو ۔لہٰذا وہ تمہا ری نگرانی کر کے جرم کے متعلق میرے نکتہ نظر کو معلوم کر نا چا ہتا ہے !‘‘

            انور پنس کر بولا ۔’’لیکن وہ بھی کیا یا د کرے گا ۔آج میں نے اُسے اتنا دوڑ ایا ہے کی کل شا ید وہ میری طرف رُخ کر نے کی بھی ہمت نہ کر سکے !‘‘

            ’’خیر اُس کا م کا کیا رہا ؟‘‘ فر یدی سگا سگا تا ہوا بولا ۔

            ’’بر نا رڈ کے چھ ملا قا تیو ں کے نام اور  پتے میں نے نو ٹ کئے ہیں !‘‘ انو ر نے جیب سے ڈائری نکا لتے ہو ئے کہا پھر حمید سے بولا ۔’’لکھ لو !‘‘

            حمید نے جیب سے اپنی ڈائری نکا ل کر پتے نو ٹ کئے ۔کچھ دیر خا مو شی رہی پھر فر یدی بولا ۔’’اس میں ایک نا م قا بل غور ہے ۔لیمبر ٹ آرتھر ۔اسے تم نے کہا ں دیکھا تھا ؟‘‘

            ’’بر نا رڈ کے کمرے میں دا خل ہو تے دیکھا تھا ۔ وہ اپنی بغل میں ایک بڑا سا پیکٹ دبا ئے ہو ئے تھا !‘‘

            ’’ہو ں اور آصف تم سے کتنے فا صلے پر تھا ؟‘‘

            ’’آصف اُس وقت مجھے کھو چکا تھا !‘‘ انور ہنس کر بولا ۔’’میں اُسے ڈاج دینے میں کا میا ب ہو گیا تھا !‘‘

            پھر کچھ دیر کے لئے خا مو شی ہو گئی ۔

            ’’لیکن انو ر سگر یٹ سلکا کر بولا ۔’’آصف اُس وقت مو جو د تھا جب میں نے ایک عجیب وغریب منظر دیکھا تھا کیا آپ یقین کر یں گے کی میں نے جو ڑف پیٹر اور پمیلیا کو زندہ دیکھا ہو گا !‘‘

            ’’ہا ں ہا ں یا ر !‘‘ حمید جما ہی لے کر بولا ۔’’نیند آرہی ہے اس لئے یقین کر لیں گے !‘‘

            ’’اندہ دیکھا ؟‘‘ فر یدی کے لہجے میں حیرت تھی ۔

            ’میں نے اُن دونوں کو ایک کا ر میں سوار ہو تے دیکھا تھا اور کا ر کی روانگی کے بعد میں نے آصف کی بد حواسی بھی دیکھی تھی ۔وہ کا فی دور تک اُس کے پیچھے دو ڑ تا چلا گیا تھا ۔میں بھی پیدل ہی تھا اور وہ جگہ ایسی تھی کہ دور دور تک ٹریفک کاپتہ نہیں تھا !‘‘

            ’’کہا ں دیکھا تھا ؟‘‘

            پو لو گر اؤ کے قریب !‘‘

            ’’اوہ !‘‘ فر یدی کی پیشا نی پر سَلو ٹیں اُبھر آئیں اور پھر وہ آہستہ سے بولا ۔’’قاسم نے بھی عر فانی کا بھو ت دیکھا تھا !‘‘ 

            ’’انو ر یہ غپ تو نہیں ہے !‘‘ حمید نے اُسے گھو ر کر پو چھا ۔

            ’’آصف سے تصدیق ہو جا ئے گی !‘‘ انو ر بُرا سا منہ بنا کر بولا ۔

            ’’مجر م جا گ رہے ہیں !‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’کم از کم وہ میری اور میرے سا تھیو ں کی نقل وحرکت سے تو ہر وقت با خبر رہتے ہیں !‘‘

            ’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا !‘‘

            ’’قاسم حمید  کا دوست ہے اس لئے اُس نے عر فا نی کا بھو ت دیکھا ۔تم میرے لئے کا م کر رہے ہو اس لئے تمہیں بھی دو مُر دے نظر آئے ۔وہی کھیل جو پر انا بھی ہے اور گند ہ بھی ۔پمیلیا کی لا ش کے قریب ویسے ہی با ل پا ئے گئے تھے جیسے اس کے شو ہر کی لاش کے قریب ملے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ درندہ رنگ ہا ؤ ز کے کثیر مجمع میں داخل ہو ا ہو تا تو سینکڑوں کی نظریں اُس پر پڑ تیں ،لیکن با لو ں کی مو جو د گی اُسی درندے کی کہا نی سنا تی ہے ۔وہی پرا نا اور گند ہ کھیل بھو ت پر یت ۔مجرم چا لیں ضرور چل رہے ہیں مگر ان چا لوں میں کچا پن ہے ، ان با لو ں کی اہمیت اُسی وقت ختم ہو جا تی ہے جب پو سٹ ما رٹم کی رپو رٹ زہر کا افسا نہ سنا تی ہے !‘‘

            ’’لیکن یہ تو دیکھئے کہ قاسم نے عرفانی کا بھو ت جیرالڈ کے یہا ں دیکھا تھا !‘‘ حمید نے کہا ۔’’اگر آپ کی با ت ما ن بھی لی جا ئے تو یہ سو چنا پڑتا ہے کہ کیا جیرالڈ احمق ہے۔اگر اس نے دید ہ دانستہ اپنے یہا ں قاسم کو عر فا نی کا بھو ت دکھا یا تھا اس کا مطلب یہ ہو ا کہ وہ خو د پو لیس کو اپنے پیچھے لگا نا چا ہتے ہے !‘‘

            فریدی جواب میں کچھ کہنے ہی جا رہا تھ اکہ دفعتہً کمپاؤنڈ میں کتے بھونکنے لگے۔ بیک وقت چھیا لیس کتّوں کا شور تھا۔

            ’’کیا ان کم بختوں کو فنجک ہوئی ہے۔!‘‘ فرید بڑ بڑایا۔

            پھرا نہوں نے نوکروں کو بھی چیخیں سنیں۔ وہ جھپٹکر بر آمدے میں آئے۔ ایک نوکر کرسی میں اٹک کر فش پر ڈھیع ہو گیا تھا اور بقکہ اندر کی طرف بھاگ رہے تھے۔ ابھی باہر کی روشنی گل نہں کی گئی تھی اس لئے کمپاؤنڈ میں اندھیرا نہٰں تھا۔ انہوں نے پھاٹک کے قریب ایک طوریل القامت اور خوفناک بن مانس دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی لکڑی تھی اور وہ اسی لکڑی سے رکھوالی کرنے والے السیشین کتوں پر جھپٹ جھپٹ کر حملے کر رہا تھا۔

            ’’حمید........ رائفل!‘‘ فریدی چیخا۔ حمید بھاگتا ہوا اندر چلا گیا۔ چاروں السیشین بن مانس نے قلابازی کھائی پھر اٹھا لیکن دوسرے فائر نے اُسے ٹھنڈا کر دیا۔

وہ تینوں گم صُم بر آمدے میں کھرے رہے پھر آگے بڑھے۔ السیشین بڑے جوش و خروش کے ساتھ مفدہ بن مانس کو جھنجھوڑ رہے تھے۔فریدی نے انھیں الگ کیا۔

            بن مانس کا قد کسی انتہائی لمبے آدمی کے اد سے کم نہیں تھا۔اس لئے حمید کو توقع تھی کہ بھورے رنگ کے الوں والی کھال کے نیچے سے کوئی آدمی ہی بر آمد ہوگا۔

            لیکن اُسے نہ صرف مایوسی ہوئی بلکہ حیرت بھی وہئی جب کہ وہ سوفی صد بن مانس ہی ثابت ہوا۔ لیکن ایک عجی عجیب و غریب بن مانس جس کے بال بھورے تھے اور قد ایسا کہ شاید اس سے قبل اتنا طوریل القامت بن مانس دنیا کے کسے حصے میں نہ دیکھا گیو ہا۔

            ’’درندہ!‘‘ فریدی بڑ بڑایا۔ ’’اس کےبال ویسے ہی ہیں جیسے اُن دونوں لاشوں کے قریب ملے تھے۔ حمید! سارے کُتے کمپاؤنڈ میں آزاد چھوڑ دو اور انور! اب تم اس وقت واپس نہیں جاؤ گے۔‘‘

13

          پچھلی  رات کے واقعے پر فر یدی نے کو ئی تبصر ہ نہیں کیا لیکن سر جنٹ حمید کے ذہن میں کئی گتھیا ں تھیں ۔اُس درندے کو دیکھنے سے قبل اُس کا خیال تھا کہ مجرم معا ملا مت کو پُر ا سرار بنا نے کے لئے اپنے شکارو ں کے بھو تو ں کی نما ئش کر رہے ہیں اور اس کا سلسلہ انہو ں نے جو زف کی موت کے بعد ہی سے شروع کر دیا تھا۔اُس کی لا ش کے قر یب با لو ں کی مو جو د گی کسی درندے ہی کی طرف اشارہ کر تی تھی لیکن اُس درندے کو کسی نے دیکھا نہیں تھا ۔اس پر فر یدی نے خیال ظاہر کیا تھا کہ شا ید اس کا قاتل کسی درندے کی کھا ل میں آیا ہو۔ با ت قابل قبول تھی پھر پمیلیا بھرے مجمعے میں ختم ہو گئی ۔اُس کی لا ش کے قر یب بھی ویسے ہی بال پا ئے گئے لیکن درندہ دکھا ئی نہ دیا ۔اس سے فر ید ی کے  قائم کر دہ نظر یے کو تقویت پہنچی تھی ۔یعنی اُس درندے کی آڑ میں کو ئی آدمی ہی کا م کر رہا تھا مگر پچھلی رات جب انہو ں نے اُس در ندے کو دیکھا تو اُس نظریے کا قریب قر یب خا تمہ ہی ہو گیا اور اس با ت میں بھی کو ئی وزن نہ رہ گیا کہ وہ درندہ کو ئی مافو ق الفطر ت ہستی تھا ۔اگر یہ با ت ہو تی تو وہ معمولی جا نداروں کی طرح را ئفل کی گو لی سے ختم نہ ہو جا تا ۔اب تو یہ بھی سو چنا پڑ رہا تھا کہ اس معا ملے میں کسی کا ہا تھ ہے بھی یا نہیں ۔

            اول تو اس سا ئز کا بن ما نس ہی آج تک دریا فت نہیں ہو ا تھا ۔دو سری با ت یہ کہ وہ اس بھرے پُرے شہر میں آیا کہا سے ۔اگر وہ کسی کا پا لتو تھا تب بھی اُس کی شہرت کم از کم ان کے کا نو ں تک ضرور پہنچی ہو تی کیو نکہ یہ بن ما نس ایک وعجو بہ تھا ۔ ظا ہر ہے کہ اس کے پا لنے وا لے نے اسے صندوق میں بند کر کے تو رکھا نہ ہو گا ۔

            نا شتے کی میز پر مکمل خا مو شی تھی ۔ فر یدی ،حمید اور انو ر اپنے اپنے خیا لا ت میں اُلجھے ہو ئے تھے ۔دفعتہ ً انو ر بو لا ۔’’آپ اس کی لا ش کو کیا کر یں گے ؟‘‘

            ’’مشتہر کر وں گا !‘‘ فر یدی آہستہ سے بولا ۔’’کیا تم چا ر گھنٹو ں کے اندر اندر اپنے اخبار کا دو ورق والا  مخصوص ضمیمہ چھا پنے کا انتظام کر سکو گے ؟‘‘

            ’’ضرو ر یہ تو بڑا اچھا خیال ہے ۔خصوصاً میں اپنی رپو رٹ سے بڑے اچھے پیسے بنا سکو گا لیکن کیا آپ یہ ظا ہر کر یں گے کہ آپ نے اس کا شکا ر اپنے گھر ہی پر کیا ہے ؟‘‘

            ’’نہیں لڑ کا ل جنگل میں !‘‘ فر یدی  بولا ۔

            دفعتہً حمید چو نک کر فر یدی کو گھو رنے لگا ۔اُس کا ذہن بڑی تیزی سے کا م کر رہا تھا ۔

            ’’کیا کہا آپ نے ؟‘‘ حمید اُچھل کر کھڑ ا ہو گیا ۔

            ’’صبر فر زند صبر !‘‘ فر یدی مسکرا کر ہا تھ اٹھا تا ہو ا بولا ۔

            حمید بیٹھ گیا لیکن وہ شد ت جذبا ت سے پھٹا پڑ رہا تھا ۔انور نے حیرت سے اُس کی طر ف دیکھا لیکن فر یدی نے اُسے با تو ں میں اُلجھا دیا ۔’’ہا ں دیکھو رپو رٹ میں اس در ندے کے با لو ں کا تذکرہ کر ہ ضرور آئے اور اُن با لو ں سے متعلق بھی کو ئی کا نٹے کی با ت ہو جو اُن دو نو ں لا شو ں کے قریب پا ئے گئے تھے !‘‘

            انو ر نا شتہ چھو ڑ کر لکھنے کی میز پر جا بیٹھا ۔فر ید ینے حمید سے کہا ۔

            ’’حمید تم ذرا کیمرے وہ وغیرہ ٹھیک کر و ۔ اخبا ر میں تصویر یں بھی ہو ں گی مختلف زاریو ں سے !‘‘

            سا رے مرا حل طے ہو جا نے کے بعد انو ر چلا گیا ۔

            ’’اب بتا یئے !‘‘ حمید ،فر یدی کو جھنجھو ڑتا ہو ا بو لا ۔ ’’آپ نے مجھے اتنے دنو ں تک تا ریکی میں کیو ں رکھا ؟‘‘

            ’’اب اتنا گا ؤدی بھی نہیں ہو ں لیکن یہ بتا یئے لڑ کا ل جنگل کا نا م اچا نک آپ کے منہ سے نکلا تھا یا آپ پہلے ہی سو چ چکے تھے !‘‘

            ’’نا م تو اچا نک ہی نکلا تھا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ کسی جنگل کا نا م لو ں ۔اچا نک یہ نا م ذہن میں گو نجا اور ساتھ ہی تعلیمی تا ش کے وہ پتّے بھی یا د آگئے ۔لڑ کے کی تصویر اور لڑا ئی کو جنگ کر دو ۔لڑ کا کے سا تھ وہ لا م ملا لو کا رڈ کا حر وف ہے ۔ اس طرح لڑ کا ل بنتا ہے اور جنگ کے سا تھ لا م ملا نے سے جنگل عر فا نی کے سا تھ اگر کو ئی ایسا واقعہ پیش آتا تو وہ بھی اس معا ملے کی تہہ تک پہنچ جا تے ۔ ظاہر ہے کہ بن ما نس جنگلو ں ہی میں رہتے ہیں ۔ گھنے جنگلو ں میں اُستوا ئی خطو ں کے جنگل کہہ لو لیکن ہم خطِ استو ا پر نہیں رہتے لہٰذا قدرتی با ت ہے کہ ہما را ذہن گھنا جنگل ضرور ڈھو نڈ ے گا اور اس علا قے میں صرف ایک ہی گھنا جنگل ہے جو دس میل کے رقبے میں پھیلا ہو ا ہے اور یہ ہے لڑکا ل جنگل ،لیکن اس بے چا رے جنگل میں معمولی بندر بھی شا ید ہی ہو ں !‘‘

            ’’تو پھر اگر اُس گر وہ کا تعلق لڑکا ل جنگل سے ہے تو اس  خبر پر اُس کے افراد بُری طر ح چو نکیں گے !‘‘

            ’’یقیناً !‘‘ فر ید ی کچھ سو چتا ہو ا بولا ۔’’لیکن اب ہمیں ہر وقت ہو شیا ر رہنا پڑے گا ۔اوہ آج ابھی تک اخبار بھی نہیں دیکھا ۔ذرا سر خیا ل پڑ ھ جا ؤ!‘‘

            حمید نے میز پر سے اخبار اٹھا یا اور بلند آواز سے پڑھنے لگا ۔ایک جگہ وہ رُکا اور اُس کی نظر یں تیزی سے پو ری خبر پر دو ڑتی چلی گئیں۔

            ’’کیا با ت ہے۔رُک کیو ں گئے ؟‘‘ فر ید ی آہستہ سے بولا ۔وہ آنکھیں بند کئے آرام کر سی پر نیم دراز تھا ۔

            ’’سنئے !‘‘حمید جلدی جلدی پڑھنے لگا ۔’’مسڑ اور مسز جو زف پیٹر کے بھو ت انگریز ی سفا رت خا نے میں ۔

۱۴\ستمبر گیا رہ بجے شب کو انگریز ی سفا رت خانے میں بھگڈ مچ گئی ۔انگلستا ن کے سفیر کل گیا رہ بجے شب کو ایک اہم استا ویز ترتیب دے رہے تھے کی اچا نک اُنکے کمرے میں اُن کے دوایسے شنا سا داخل ہو ئے جن کی موت حال ہی میں واقع ہو ئی تھی ۔ یہ پُر اسرار طر یقے پر مر نے والے مسڑ اور مسز جو زف پیٹر تھے ۔وہ دونو ں حسبِ دستو ر قدیم اپنے مخصوص بے تکلفا نہ انداز میں ہزایکسی لنسی کی طر ف بڑھے اور ہزا یکسی لنسی اپنے ہو ش  وحو اس پر قا بو نہ رکھ سکے ۔ جب اُنہیں ہو ش آیا تو معلو م ہوا کہ وہ دستا ویز اور کئی دوسرے اہم کا غدات  جو حکو مت بر طا نیہ کے بعض اہم را زوں سے تعلق رکھتے تھے غائب ہو گئے ۔اس حیرت  انگیز واقعے کی بنا پر سفا رت خا نے میں سنسنی پھیل گئی ہے ۔ پو لیس کو اطلا ع دے دی گئی ہے لیکن سفا رت خا نہ نجی طور پر بھی کچھ کر رہا ہے !‘‘

            حمید خبر پڑھ چکا تھا اور کمرے میں قبر ستان کی سی خا مو شی تھی ۔

            ’’تو پھر اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بھو ت خاص طور پر ہمیں دکھا نے کے لئے نہیں بنا ئے گئے تھے !‘‘ حمید تھو ڑی دیر بعد بو لا ۔

            فریدی خا موشی سے چھت کی طر ف دیکھتا رہا ۔

14

          شام  ہو تے ہو تے فر یدی کی کمپا ؤنڈ میں خاصی بھیڑ ہو گئی ۔اسٹا ر کا ضمیمہ شا ئع ہو کر ہا تھو ں ہا تھ فر وخت ہو چکا تھا ۔

            محکمہ پو لیس اور سرا غر سا نی کے قریب قریب سا رے ہی حکا م وہا ں جمع تھے ۔ فر یدی اُنہیں ایک دلچسپ فر ضی داستان سنا رہا تھا کہ کس طر ح اُس نے پچھلی شام کو لڑ کا ل جنگل میں وہ عجیب وغر یب درندہ شکا ر کیا تھا ۔سر جنٹ حمید اپنے آفس کی ٹا ئپسٹ لڑ کیو ں میں گھر کر رہ گیا تھا ۔وہ اُن کے نر غے سے کبھی کا نکل گیا ہو تا مگر حقیقت تو یہ تھی کہ وہ خود ہی اُ ن میں گھرا رہنا چا ہتا تھا ۔آفس کی لڑ کیو ں میں اُس کے لئے کو ئی خاص دلکشی نہ تھی ۔مگر وہ لڑکی ۔شا ید وہو اُن میں سے کسی کی دوست تھی ۔وہ نسلا ً اینگلو انڈ ین لیکن اُس کے اندازخا لص مشرقی تھے ۔ کئی باروہ سر جنٹ حمید کی گھو ر تی ہو ئی نگا ہو ں کے مقا بلے میں لجا ئی بھی تھی ۔

            آخر ایک لڑ کی نے دو نو ں کا تعا رف کرا یا ۔نتیجہ یہ ہو ا کہ حمید وقت کی نز ا کت کا لحا ظ کئے بغیر انہیں آرلکچنو میں چا ئے پلا نے پر راضی ہو گیا ۔فر ید یکی نظر وں سے بچ کر نکل جا نا اس وقت نا ممکن نہیں تھا ۔آرلکچنو میں وہ کا فی دیر تک بیٹھے ۔نئی لڑ کی رواز ،حمید کو بڑی شا ندار نظر آئی ۔وہ بے وقوف ہو نے کی حد تک سیدھی تھی ۔ دو سری لڑ کیا ں بو ر ہو ر ہی تھیں کیو نکہ سر جنٹ حمید کی شخصیت ان کے لئے نئی نہ تھی ۔وہ اُسے اچھی طر ح جا نتی تھیں یا دوسرے الفاظ میں اُس کی رَگ رَگ سے واقف تھیں ۔حمید کی نہ ختم ہو نے والی دلچسپ با توں نے رواز کو الجھا لیا تھا ۔دوسری لڑکیا ں اب اٹھنا چا ہتی تھیں یہی ہو ا کہ تھو ڑی دیر بعد رواز انتہا رہ گئی ۔

            ’’مجھے اینگو انڈ ین بڑے اچھے لگتے ہیں !‘‘ حمید بولا ۔

            ’’کا ش میں صرف انڈ ین ہو تی ۔مجھے دو غلا پن اچھا نہیں لگتا ۔نہ ہمیں انگر یز پسند کر تے ہیں اور نہ دیسی !‘‘

            ’’نہیں پسند کر تے تو جہنم میں جو ئیں ۔میں تو اپنی با ت کر رہا تھا !‘‘

            ’’آپ بھی دل سے نہیں پسند کر تے !‘‘ روز ا اِٹھلا ئی اور حمید کو اپنا خیال بدل دینا پڑا ۔کیو نکہ وہ اُن لڑ کیو ں کی مو جو د گی میں جتنی بے وقوف نظر آئی تھی اب اُس کے عکس ہو تی جا رہی تھی ۔

            ’’صرف دل ہی نہیں بلکہ جگر ، گر دے اور پھیپھڑ ے سے بھی پسند کر تا ہو ں ۔حمید بولا ۔وہ ہنسنے لگی ۔

            ’’آپ بڑے اچھے دوست ثابت ہو سکتے ہیں !‘‘ وہ بڑے پیا ر سے بو لی ۔

            ’’اوہ ۔آپ کا لہجہ !‘‘ حمید خواب نا ک آواز میں بولا ۔’’آپ کا لہجہ میری روح کو اُن دھند لا ہٹو ں میں گھسیٹ لے جا تا ہے جہا ں پُراسرار رنگو ں کے لہر یئے تلملایا کر تے ہیں !‘‘

            ’’آہمیں کچھ نہیں کہنا چا ہتا ۔خدا کرے آپ آنکھو ں کی زبا ن سمجھنے لگیں !‘‘

            ’’آپ اظہار ِ ،محبت تو کر یں گے ؟‘‘ روزا اُکھڑ گئی ۔

            ’’نہیں !‘‘حمید سنجید گی سے ہلا کر بولا ۔’’میں اپنے باپ سے پو چھے بغیر اظہارِ محبت نہ کر وں گا ۔ میں نے اُن سے وعدہ کیا تھا !‘‘

            رواز ہھر ہنس دی ۔وہ یو نہی با ر با ر اپنے خو بصورت دا نتو ں کی نما ئش کر رہی تھی ۔

            ’’میرا دل چا ہتا ہے !‘‘ حمید تھو ڑی دیر بعد بولا ۔’’کہ میں اس رات کا کچھ حصہ کسی ویرانے میں بسر کر وں !‘‘

            ’’اوہو تو آؤ چلیں ۔اس وقت منٹو پا رک با لکل ویران ہو گا !‘‘ رواز نے ہنس کر کہا اور حمید کے جسم پر چیو نٹیا ں سی رینگنے لگیں ۔

            دو نو ں اُٹھ گئے ۔کلو ک روم میں پہنچ کر رواز نے حمید سے کہا ۔’’ذرا ٹھہر ئیے ۔میں گھر پر فون کر نا تو بھو ل ہی گئی ۔وہ پھر واپس چلی گئی ۔ حمید کلو ک روم میں اُس کا انتظار کر تا رہا ۔وہ خود کو دنیا کا بہت بڑا آدمی تصور کر نے لگا ۔ اتنی جلدی لڑ کیا ں اُس پر اعتماد کر لیتی ہیں ۔ اُس کے علا وہ اور شا ید ہی کو ئی ایسا ہو روز اواپس آگئی ۔با ہر نکل کر انہو ں نے ایک ٹیکسی لی اور منٹو پا رک کی طر ف روانہ ہو گئے ۔

            ’’با ت یہ ہے !‘‘ روزا بو لی ۔’’میں زیا دہ رات گئے تک بغیر اطلاع گھر سے با ہر نہیں رہ سکتی !‘‘

            ’’یہی شر یفو ں کی پہچا ن ہے !‘‘حمید نے سنجید گی سے کہا ۔

            ’’میرے ڈیڈی بہت سخت آدمی ہیں ۔اُن کی تا کید ہے کہ میں کسی انگریز سے کبھی دوستی نہ کروں ۔دیسیوں کے سا تھ مجھے دیکھ کت خوش ہو تے ہیں !‘‘

            ’’تمہا رے ڈیڈی کیا کر تے ہیں ؟‘‘

            ’’جیمز اینڈ مو ر گن کے منیجر ہیں !‘‘

            ’’نام کیا ہے ؟‘‘

            ’’مکلا رنس بر نا رڈ ۔عمو ماً لو گ انہیں مِکی بر نا رڈ کہتے ہیں !‘‘

            حمید نے ایک طویل سا نس لی ، لیکن اب ہو ہی کیا سکتا تھا ۔ٹیکسی منٹو پا رک کی طرف چل پڑی تھی اور نئے نئے شبہا ت اُس کے ذہن میں سر اُٹھا رنے لگے تھے ۔ رواز نے اُسی بع نا رڈ کا حوالہ دیا تھا  جو پو لیس کی نظروں سے عر صہ سے کھٹک رہا تھا ۔حمید سو چنے لگا کہ کیا وہ خطر ے میں ہے ۔کیا رواز نے منٹو پا رک کی تجو یز کسی خاص مقصد کے تحت پیش کی تھی اور پھر وپ اُسے کلو ک روم میں چھو ڑ کر فون بھی کر نے گئی تھی لیکن حمید کے ذہن نے پھر سنبھا لا لیا ۔اگر وہ کسی قسم کی سا زش کر رہی تھی تو اُس نے اپنے با پ کا نا م کیو ں بتا دیا ۔ ظاہر ہے کی بر نارڈ بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ پو لیس اُس کی طرف سے اچھے خیا لا ت نہیں رکھتی ۔نہیں فی الحال کسی سا زش کا امکان نہیں ۔دفعتہً پھر ایک دوسرا سوال اُس کے ذہن میں اُبھرا وہ تنہا ہے ۔ اگر چند نا معلو م آدمیو ں نے اُسے ٹھکا نے لگا دیا تو پو لیس کو کیا پتہ چل سکے گا ۔مجر مو ں کے نا م پر دۂ راز ہی میں رہیں گے ۔

            ’’کیا سو چنے لگے ؟‘‘ روزا اُسے ٹہو کا دیا ۔

            ’’میں یہ سوچ رہا تھا کہ تم نے اپنے ڈیڈی سے کیا بہا نہ کیا ہو گا !‘‘

            ’’کچھ بھی نہیں ۔میں نے صاف صاف بتا دیا کہ میں اس وقت ایک آفیسر سا ر جنٹ حمید کے سا تھ ہو ں اور کچھ دیر بعد واپس آؤں گی !‘‘

            ’’انہو ں نے کچھ کہا نہیں ؟‘‘

            ’’کچھ بھی نہیں !‘‘

            ’’اگر ہم منٹو پا رک کے بجا ئے کہیں اور چلیں تو ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

            ’’شہر کے اندر بھی مجھے کو ئی اعتراض نہیں ۔ تمہیں ویرانہ چا ہئے نا ۔وہ تو تمہیں میرے مکان پر بھی مل جا ئے گا ۔

آؤمیرے گھر چلو ڈرائپور گا ڑی مو ڑلو !‘‘

            اس نئی تجو یز پر حمید کی اُلجھن بڑھ گئی ۔ وہ سو چنے لگا کہ اگر سا زش نہیں ہے تب بھی اُس کا بر نا رڈ کے گھر پر جا نا ٹھیک نہیں کیو نکہ فر یدی اُسے جا ن بو جھ کر نظر انداز کر رہا تھا ۔

            ’’ہا ں ۔مجھے معلوم ہے لیکن میں تمہا رے گھر بھی نہیں جا نا چا ہتا !‘‘

            ’’کیو ں ؟ آخر کیو ں ؟‘‘

            ’’با ت یہ ہے کہ تمہا رے ڈیڈی کے تعلقات پو لیس سے اچھے نہیں ہیں ۔ کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں اُن کی ٹوہ میں آیا ہو ں !‘‘

            ’’لیکن میں تو سمجھتی ہو ں ۔میں خود آپ کو لے جا رہی ہوں ۔ڈیڈی کی بعض با تیں مجھے نھی پسند نہیں ۔میں چا ہتی ہو ں کہ وہ انہیں تر ک کر دیں !‘‘

            ’’کون سی با تیں ؟‘‘

            ’’وہ بلیک ما ر کیٹنگ کر تے ہیں !‘‘

            ’’ہے بُری بات ۔شا ید اِسی بنا پر پو لیس اُن سے بر گشتہ ہو مگر میں نے تو سنا ہے کہ وہ آج کل بدھ ازم سے بہت زیا دہ متا ثر ہو رہے ہیں !‘‘

            ’پتہ نہیں ۔تمہیں کیسے معلو م ہو ا ؟‘‘

            ’’ایک دن گفتگو ہو ئی تھی !‘‘

            ’’کیا وہ تمہیں جا نتے ہیں ؟‘‘

            ’’اچھی طرح !‘‘

            ’’ٹیکسی بر نا رڈ کے بنگلے کے سا منے رُک گئی ۔ حمید با تو ں میں اُلجھا رہا تھا ۔اس لئے اُسے کو ئی دوسری تجو یز پیش کر نے کا مو قع ہی نہ مل سکا ۔

            ’’اوہو ۔تم چلو تو !‘‘ و ہ حمید کو پھا ٹک میں دھکیلتی ہو ئی بو لی ۔’’میں ڈیڈی سے کہوں گی کہ سا رجنٹ یہا ں آتے ہو ے کیو ں ہچکچا رہے تھے !‘‘

            طو عا ً وکر ہاً حمید آگے بڑھا لیکن کم از کم اُسے اتنی تقو یت تو ضرور تھی کہ آج صبح ہی سے اُس کی جیب میں ریوالو ر پڑا ہو ا تھا ۔

            با غ میں اندھیر ا تھا ۔

            ’’او ہ کم بختو ں نے بر آمد ے کی لا ئٹ بھی نہیں جلا ئی ۔‘‘ روزا بڑ بڑا ئی ۔

            وہ حمید کا ہا تھ پکڑ ے اُسے عما رت کی طرف لے جا رہی تھی ۔

            ’’کیا معا ملہ ہے ؟‘‘ حمید نے رُکتے ہوئے کہا ۔’’مجھے کہیں بھی روشنی نہیں دکھا ئی دیتی !‘‘

            ’’مجھے خود حیرت ہے ۔ پتہ نہیں کیا با ت ہے ۔ آؤ ، بیرونی روشنی کا سو ئچ بر آمد ے ہی میں ہے !‘‘

            ’’میں دیا سلا ئی جلا ؤں ؟‘‘ حمید نے کہا ۔

            ’’ہو نہہ اس کی ضرورت نہیں ۔راستہ صاف ہے !‘‘ وہ اُسے گھسیٹتی ہو ئی بو لی ۔

            اس با ر اُس کی رفتار تیز تھی ۔ پو ر ٹیکو میں پہنچ کر یکا یک حمید کی چھٹی حِس جا گ پڑی ۔اُسے بڑی شدت سے کسی خطر ے کا احسا س ہو رہا تھا ۔اُس کا ہا تھ جیب کو ٹٹول ہی رہا تھا کہ سَر کے پچھلے حصے پر کو ئی ٹھوس چیز کا فی قوت سے پڑی اور وہ ایک بے جا ن شہتیر کی طرح ڈھیر ہو گیا ۔

15

       کرا ئم رپو رٹر انور نے گھڑی دیکھی ۔مندرہ منٹ گز رچکے تھےلیکن نہ تو بر نا رڈ کے بنگلے میں کہیں روشنی دکھا ئی دی اور نہ حمید ہی واپس آیا ۔

            وہ حمید اور روزا کا تعا قب کر تا ہو ا یہا ں تک پہنچا تھا ۔ انہیں آرلکچنو سے نکل کر ٹیکسی پر بیٹھے دیکھ کر اُس کی مو ٹر سا ئیکل اُن کے پیچھے لگ گئی تھی ۔ وہ کا فی فا صلے سے ان کا تعا قب کر تا رہا تھا ۔اس تعا قب کی وجہ یہ تھی کہ انور بر نا رڈ لہ لڑکی کو بخو بی پہنچا نتا تھا ۔ اگر اُسے یہ نہ معلوم ہو تا کی فر یدی دیدہ اور دا نستہ بر نا رڈ کو نظر انداز کر رہا ہے تو اُسے حمید کی اس حرکت پر حیرت نہ ہو تی ۔ایسی حالت میں اُسے یہی سو چنا پڑا کہ شا ید حمید اُس لڑکی سے واقف نہیں ہے ۔

            بہر حال اُس نے مو ٹر سا ئیکل اُن کے پیچھے لگا دی تھی جس ٹیکسی پر وہ دونو ں بیٹھے ہو ئے تھے اتفاق سے اُس کا انجن بہت خراب تھا اس لئے حمید اس کے شور کی بنا پر مو ٹر سا ئیکل کی آواز نہ سن سکا تھا ۔ ورنہ اُس کا یہ شبہ یقین کی حد تک پہنچ جا تا کہ وہ کسی سازش کا شکار ہو نے والا ہے ۔

            تھو ڑی دور جا کر ٹیکسی جب پھر پیچھے کی طرف مڑ نے لگی تھی تو انور کا شبہ اور زیا دہ پختہ ہو گیا تھا اور اس نے تعا قب جا ری رکھا تھا ۔

            پا نچ منٹ اور گز رگئے لیکن عما رت بد ستو ر تا ریک رہی ۔انور کو یقین ہو گیا کہ حمید ضرور کسی مصیبت میں یا تو پھنس گیا ہے یا پھنسنے والا ہے ۔وہ اچھی طر ح جا نتا تھا  کہ عو رت حمید کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ وہ مکاّ ر تر ین مر دوں سے نپٹنے کی صلا حیت رکھتا ہے لیکن ایک احمق تر ین عو رت بھی اُسے اچھی طرح اُلو بنا سکتی ہے ۔

            اُس نے مو ٹر سا ئیکل وہیں اند ھیر ے میں سڑک کے کنا رے چھو ڑ دی اور خود قریب قریب دوڑ تا ہوا دوسری سڑک پر نکل آیا ۔ یہا ں پا س ہی ایک دوا فر وش کی دکا ن تھی ۔انور نے وہا ں پہنچ کر فر ید ی کو فو ن کیا ۔ خوش قسمتی سے فر ید ی گھر ہی پر مو جو د تھا ۔ انور نے مختصر اًپو ری روداد سنا دی ۔

            فو ن کر کے وہ پھر بر نا رڈ کے بنگلے کے سا منے آگیا ۔ اب بھی عما رت تاریک پڑی تھی ۔ایسا معلو م ہورہا تھا جیسے وہ با لکل خالی ہو ۔ پا ئیں با غ میں بھی کسی قسم کی آواز نہیں سنا ئی دے رہی تھی ۔

            پندرہ منٹ بعد فر ید یبھی پہنچ گیا ۔ شا ید وہ اپنی کا ر بڑی تیز رفتا ر ی سے لا یا تھا ۔

            ’’حالات بد ستور ہیں !‘‘ فر یدی نے پو چھا ۔

            ’’جتنی دیر میں فو ن کر تا رہا اس دور ان میں اگر کو ئی تبدیلی ہو ئی ہو تو اُس سے واقف نہیں !‘‘

            ’’ریوالو ر ہے تمہا رے پا س ؟‘‘

            ’’میرے پاس کہا ں سے آیا ر  یوالور !‘‘

            ’’یہ لو !‘‘ فر یدی نے جیب سے ایک ریوالور نکال کر اُس کی طرف بڑھا تے ہو ئے کہا ۔’’آؤ !‘‘

            اُس نے آگے بڑھ کر پھا ٹک کھو لا ۔ چند لمحے کھڑا ہو کر آہٹ لیتا رہا ہھر آگے بڑھا ۔وہ پو ر ٹیکو میں آئے لیکن یہاں بھی کو ئی آواز سنا ئی نہ دی ۔

          فریدی نے دروازے کو دھکا دیا ۔وہ اندر سے بند تھا ۔ اُس نے یکے بعد دیگر ے تینو ں در وازے آزما ئے لیکن اُن میں سے کسی نے بھی جنیش بھی نہ کی ۔

            آخر اُس نے جیب سے ٹا رچ نکال کر گھنٹی تلا ش کی اور اُس کے بٹن پر انگو ٹھا رکھ دیا ۔ اندر کسی دور اُفتا دہ مقام پر گھنٹی بجنے لگی ۔

            کچھ دیر بعد اندر قد مو ں کی چا پ سنا ئی دی اور کسی نے کمرے میں روشنی کر دی ۔ دروازہ کھلا ۔ایک آدمی اُن کے سا منے کھڑا تھا جو ظاہر ی حالت سے نو کر نہیں معلوم ہو تا تھا ۔

            ’’کیا با ت ہے ؟‘‘ اُس نے ان دو نو ں کو گھو ر کر پو چھا ۔

            ’’بر نا رڈ سے ملنا ہے !‘‘ فر یدی بولا ۔

            ’’بر نا رڈ کو ن بر نا رڈ ؟ یہا ں کو ئی بر نا رڈ نہیں رہتا ۔کیا آپ نے پھا ٹک پر نیم پلیٹ نہیں دیکھی ؟‘‘

            ’’نہیں لیکن میں جانتا ہو ں کہ مِکّی بر نا رڈ یہیں رہتا ہے !‘‘

             ’’رہتا ہو گا ۔اب نہیں ہے !‘‘ یہ کہہ کر جیسے ہی اُس نے پیچھے ہٹ کر دروازہ بند کر نا چا ہا ،فریدی نے اُس کی گر دن پکڑ کی اور انور نے منہ دبا دیا ۔

            دو سرے لمحے میں وہ بے حِس وحرکت اُن کے قدمو ں میں ڈھیر تھا ۔ وہ آگے بڑھے ۔انور نے پلیٹ کر شکار کی طرف دیکھا ۔

            ’’فکر نہ کر و ۔ آدھ گھنٹے سے پیشتر ہو ش میں نہیں آئے گا !‘‘ فر یدی نے آہستہ سے کہا اور کمرے کی رو شنی گُل کر دی پھر وہ ایک تا ریک را ہداری سے گز ر رہے تھے ۔

            آگے چل کر دا ہنی طر ف کے ایک کمرے میں انہیں روشنی دکھا ئی دی ۔ کھڑ کی کے قر یب پہنچ کر وہ رُک گئے ۔شیشو ں کے ذریعے وہ اندر دیکھ سکتے تھے ۔

            سر جنٹ حمید ایک آرام کر سی پر پڑا اپنے سا منے کھڑے ہو ئے چا ر آدمیو ں کو گھو ر رہا تھا ۔اُس کے قریب ہی بر نا رڈ کی لڑ کی روزا ایک کر سی پر بیٹھی ہو ئی تھی ۔ان چا روں آدمیوں میں بر نا رڈ بھی تھا ۔

            ’’تم نہیں بتا ؤ گے ؟‘‘ بر نا رڈ حمید سے کہہ رہا تھا۔

            ’’اپنی لڑ کی سے میری شا دی کر دینے کا وعدہ کر و تو بتا دوں گا !‘‘ حمید سنجید گی سے بولا ۔

            ’’بکو اس بند کر و !‘‘ بر نا رڈ گر جا گھر اپنی لڑ کی سے مخا طب ہو کر بولا ۔’’روزا جا ؤ تم آرام کر و !‘‘

            قبل اس کے کہ وہ کر سی سے اُٹھتی ، فر یدی اور انور دروازے میں تھے۔ دو نو ں نے ریوالور نکال لئے تھے ۔

            ’’مجھ سے پو چھے پیا رے بر نا ر ڈ !‘‘ فر ید ی طنز آمیز لہجے میں بولا ۔

            ’’شا ید تم لڑ کا ل جنگل والا لطیفہ سننا چا ہتے ہو !‘‘

            چا رو ں بو کھلا ئے ہو ئے انداز میں انہیں گھو ر رہے تھے ۔

            ’’لیکن اس سے پہلے میں اُس بن ما نس کی کہا نی سننا پسند کر و ں گا !‘‘ فر یدی نے پھر کہا ۔

            ’’او ہو ! کیا آپ واقعی بن ما نس کو نہیں جا نتے !‘‘ حمید ہنس کر بولا ۔’’وہ مکّی بر نا رڈ کا دا ما د ہے اور یو نیو رسٹی میں اقتصا دیا ت کا درس دیتا ہے !‘‘

            ’’آپ تو بو لئے ہی مت !‘‘ فر یدی چڑ کر بولا ۔’’آپ کی عشق با زی کسی دن آپ کو جہنم میں پہنچا دے گی !‘‘

            ’’فر یدی ۔بکو اس بند کر و !‘‘ بر نا رڈ بگڑ گیا ۔’’تمہا رے اسسٹنٹ نے زبر دستی میر ے مکا ن میں گھس کر میری لڑ کی پر حملہ کیا تھا !‘‘

            ’’ضرور کیا ہو گا لیکن تم اُس سے پو چھنا کیا چا ہتے ہو ؟‘‘

            ’’چٹ !‘‘ ایک ہلکی سی آواز کمرے میں گو نجی اور اند ھیرا ہو گیا ۔ فر ید ی اور انو ر نے روزا کو دیوار کی طرف کھسکتے نہیں دیکھا تھا ۔

            دفعتہً اُن کے ہا تھو ں سے ریوالور نکل گئے ۔ شا ید وہ چا روں بیک وقت اُن پر ٹو ٹ پڑے تھے ۔

            دونو ں پر مُکّو کی با رش کر رہے تھے اور انہیں ایسا محسو س ہو رہا تھا جیسے وہ چا روں مدا فعتی جدوجہد کر رہے ہو ں ۔شا ید اس طر ح وہ نکل جا نے کی کو شش میں تھے ۔

16

            پر نسٹنکے چورا ہے پر کھڑے ہو ئے ٹر یفک کا نسٹیبل کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی اور اُس کے دو نو ں اُٹھے ہو ئے ہا تھ نیچے کی طرف جھو ل کر رہ گئے اور وہ تیز رفتا ر ٹر ک چو را ہے سے گز ر گیا جسے دیکھ کر اُس کی حالت ہو ئے تھی ۔

            آگے چل کر ایک راہ گیر بھی اپنی بے سا ختہ چیخ نہ روک سکا ۔ ٹرک کی رفتا ر بہت تیز تھی اور وہ زیا دہ ترا یسی ہی سڑ کو ں مڑ رہا تھا جن پر زیا دہ بھیڑ بھا ڑ نہیں رہتی تھی ۔

            زور و لین میں ایک پھل فروش لی نظر ڈرائیوں کی سیٹ پر پڑی اور وہ چیخ کر اپنے ٹھیلے پر آرہا ۔ٹھیلا اُلٹ گیا ۔

            چیتھم روڈ پر ایک آدمی ٹیلی فو ن  کے تا رکے کھبے پر چڑ ھا لا ئن کی خرا بی دور کر رہا تھا  جیسے ہی ٹرک اُس کے قر یب سے گز را وہ ند ھے منہ نیچے چلا آیا ۔

            آدھ گھنٹے کے اندر ہی اندر سا رے شہر میں اُس ٹرک کے متعلق سنسنی پھیل گئی اور پو لیس کی کئی کا ریں اُس کی تلا ش میں مختلف سڑ کو ں پر چکر لگا نے لگیں ۔

            اور وہ ٹر ک پو لو گرا ؤنڈ والی سنسا ن سڑک پر ہو لیا تھا اور اب ایک ایسے کچے را ستے پر مڑ رہا تھا جو ہو ائی اڈے کی طرف جا تا تھا ۔ کچے راستے کے اختتام پر پھر ایک پختہ سڑک ملی جو ہو ائی اڈے کے پھا ٹک پر ختم ہو گئی تھی ۔ دفعتہً ٹرک ٹھیک اُسی جگہ پر رُک گیا جہا ں وہ کچا راستہ سڑک سے آملا تھا ۔ اس طرح رُکا تھا کہ پختہ سڑک با لکل بند ہو گئی تھی ۔ ٹرک کا انجن نہیں بند کیا گیا تھا ۔اند ھیرا پھیلنے لگا تھا ۔ گر دوپیش کے منا ظر تا ریکی میں ڈوبتے جا رہے تھے ۔

            تھو ڑی دیر بعد ہو ائی اڈے کی مخا لف سمت میں کسی کا ر کی ہیڈ لا ئٹس نظر آئیں ۔اُن کی روشنی پھسلتی ہو ئی دو چا ر با ر ٹرک پر بھی پڑی ۔ کا ر کا ڈرا ئیو ر دور ہی سے اُس ٹرک کو راہ میں حا ئل دیکھ کر پَے بہ پَے ہا رن دینے لگا تھا  لیکن ٹرک میں جنبش تک نہ ہو ئی ۔البتہ اُس کا انجن بد ستو ر چلتا رہا ۔ آنے والی کا ایک بڑی سیا ہ رنگ کی لیما ؤ سین تھی ۔اس کی رفتار بتد تج کم ہو تی گئی اور پھر وہ ٹرک سے شا ید پا نچ یا چھ گز کے فا صلے پر رُک گئی ۔ڈرا ئیو ر نے چیخ کر کچھ کہا لیکن ٹرک سے کو ئی جواب نہ ملا ۔ آخر وہ کا ر سے اُتر کر آگے بڑھا ۔

            دفعتہً ٹرک کی ڈرا ئیو ر کی سیٹ سے ایک عجیب الخلقت چیز اُتر ی ۔ سا ت فیٹ اونچا بن ما نس ۔اُس نے اپنے منہ سے ایک عجیب طرح کی آواز نکا لی اور ٹرک کے پچھلے حصے سے دھما دھم کئی بن ما نس سڑک پر کو د آئے ۔کا ر کا ڈرائیور تو پہلے ہی چا روں خانے چت گر چکا تھا لیکن کا ر کے اندر بیٹھے ہو ئے کسی آدمی نے ٹا رچ کی روشنی با ہر ڈالی پھر کا ر میں کئی چیخیں گو نجیں ۔

            ’’ریو الو ر ریو الور !‘‘ اندر کسی نے چیخ کر کہا  ۔آواز خود فز د ہ سی تھی  پھر دوسرے ہی لمحے میں کا ر کے اند ر سے فا ئر ہو نے شروع ہو گئے ۔ڈرا ئیو ر کی سیٹ سے اُترا ہوا بن ما نس گو لیو ں کی پر وا نہ کر کے  برا بر کا ر کی طر ف بڑ ھتا جا رہا تھا ۔کا ر میں تین آدمی تھے ۔ اُن میں سے ایک اُچھل کر ڈرائیو ر کی سیٹ پر بیٹھ گیا لیکن ابھی وہ اُسے اسٹا رٹ بھی نہ کر پا یا تھا کہ دو گنجا ن با لو ں والے سخت ہا تھ اُس کی گر دن پر پڑے اور پھر اُسے بڑی بے دردی سے کا ر سے با ہر کھینچ کر ایک طر ف ڈال دیا گیا ۔ اندر سے فا ئراب بھی ہو رہے تھے اور بقیہ  بن ما نسو ں نے کا ر کو چا رو ں طر ف سے گھیر لیا تھا ۔ اُن میں سے کئی ریوالو ر کی گو لیو ں کا نشا نہ بن کر زمین پر پڑے چیخ بھی رہے تھے اور اُن کی چیخو ں سے دوسرے بن ما نسوں کا جو ش وخر وش بڑھ گیا تھا  اور وہ چا روں طرف سے کا ر پر ٹو ٹے پڑ رہے تھے ۔کا ر میں  بیٹھے ہو ئے دو نو ں آدمی خو فز دہ ضرور تھے لیکن انہو ں نے اپنے اوسا ن خطا نہیں ہو نے دیئے تھے ۔ دو خطر نا ک ہا تھ کا ر کی پچھلی سیٹ پر پڑھے پھر دا ئر ہو ا ۔ گو لی اُس بن ما نس کے سینے پر پڑی جو کا ر کے اندر ہا تھ ڈال رہاتھا ۔وہ اپنی جگہ سے ایک گز پیچھے اُچھل کر لڑ کھڑا یا لیکن زمین پر نہیں گرا ۔کا ر سے فا ئر ہو ا ۔اس با ر گو لی اُس کے دا ہنے شا نے پر سے نکل گئی ۔

            اس نے ایک بھیا نک چیخ ما ری اور پھر کا ر کی طرف جھپٹا ۔دوسرے لمحے میں اُس نے ایک آدمی کا ر سے با ہر کھینچ کر سڑک کے کنا رے اُچھا ل دیا ۔ دو سرا آدمی اب بھی اندر سے فا ئر کر رہا تھا ۔

            ہو ا ئی اڈہ قریب ہی تھا ۔شو ر کے سا تھ فا ئروں کی آوازیں بھی وہا ں تک پہنچیں اور بہت سے لو گ اُسی طر ف چل پڑے ۔انہیں دور سے بڑے بڑے تا ریک سا ئے دکھا ئی دے رہے تھے اور کبھی کبھی ریوا لو ر کے شعلو  ں کی چمک بھی نظر آجا تی تھی ۔شو ر کچھ عجیب  قسم کا تھا ۔ایسا   شو ر غا لباً انہو ں نے کبھی نہیں سنا تھا ۔ اسی شو ر میں انہیں کبھی کبھی کسی آدمی کی چیخیں بھی سنا ئی دے جا تی تھیں ۔وہ طر ف بڑھتے رہے ان کے سا تھ مسلح محا فظو ں کی ایک ٹولی بھی تھی ۔

            اِدھر اُس بن ما نس نے آخر ی آدمی کو بھی کھینچ کر سڑک پر پٹخ دیا ۔ اس کے بعد اُس نے کا ر سے کو ئی وزنی چیز اٹھا ئی اور جھپٹا ہو ا ٹرک کے پا س آیا ۔دوسرے لمحے میں ٹرک تیز رفتا ری سے کچے راستے پر مڑ رہا تھا ۔

            ہو ائی اڈہ کے عملے نے ٹا رچیں روشن کر لی تھیں اور وہ تیز ی سے آگے بڑھ رہے تھے ۔انہو ں نے دور سے دیکھا کہ عجیب الخلقت جا نو ر ایک سیا ہ رنگ کی کا ر پر چا روں طر ف سے ٹو ٹے پڑ رہے ہیں ۔فا ئر بند ہو گئے تھے ۔پہلے تو وہ کچھ خو فز دہ ہو گئے پھر مسلح محا فظو ں نے را ئفل کی با ڑھ ما ری ۔تین درند ے چیختے ہو ئے ڈھیر ہو گئے ۔ایک جو با قی بچ رہا تھا چیختا ہو ارو شنیوں کی طرح جھپٹا ۔دوسری با ڑھ ما ری گئی اور وہ بھی لڑ کھڑا تا ہو ا گرا ۔

            گیا رہ ایسے بن ما نسوں کی لا شیں اُن کے سا منے تھیں جن میں سے ایک کی تصویر وہ آج دوپہر کو اسٹا ر کے مخصوص ضمیمے میں دیکھ چکے تھے ۔

            پھر انہوں نے چا ر زخمی آدمیو ں کو زمین سے اٹھا یا جو بے ہو ش تھے ۔

            ’’ارے یہ تو سفا رت خا نے کے لو گ ہیں !‘‘ کسی نے چیخ کر کہا ۔

            ’’کو ن ؟‘‘

            ’’یو گو سلا فی سفیر کے اتا شی !‘‘ کو ئی دوسرا بولا ۔

17

        فر یدی دروازے پر جم گیا تھا ۔ وہ نہیں چا ہتا تھا کہ اُن میں سے کو ئی نکل کر جا سکے لیکن چند لمحو ں کے بعد اُسے حیرت ہو نے لگی کیو نکہ دروازے کی طرف کو ئی بھی نہیں بڑھ رہا تھا ۔البتہ دھینگا مُشتی کی آوازیں برا بر جا ری تھیں اُس نے سو چا کی شا ید حمید بھی شریک ہو گیا اور دونو ں نے مِل کر انہیں الجھا لیا ہے ۔

            فر ید ی آہستہ آہستہ کھسکتا ہو ا سو ئچ بو رڈ کی طرف بڑھا اور روشنی کر دی ۔

            انو ر اور حمید آپس میں گتھے ہو ئے تھے اور بر نا رڈ سا تھیو ں سمیت غا ئب تھا ۔ وہ دونو ں جھلا ہٹ میں ایک دوسرے پر دا نت پیس کر الگ ہو گئے ۔

            دا ہنی سمت کا دروازہ کھلا ہو ا تھا ۔فر یدی اُس طر ف جھپٹا پھر انہو ں نے سا را مکا ن چھا ن ما را لیکن کہیں بھی کسی آدمی کا سرا غ سکا ۔حتٰی کہ وہ بھی نہ ملا جسے وہ بے ہو ش کر کے بیرونی کمرے میں ڈال آئے تھے ۔

            ’’سنو !‘‘ فر یدی  نے حمید اور انو ر کو مخا طب کیا ۔’’اب ہمیں چپ چا پ یہا ں سے چل دینا چا ہئے ۔بر نا رڈ پہلے ہی الزام لگا چکا ہے کہ حمید زبر دستی اُس کے گھر میں گھس آیا تھا !‘‘

            ’’اُس کے الزا م لگا نے سے کیا ہو تا ہے !‘‘ حمید بولا ۔

            ’شا ید تم یہ بھو ل رہے ہو کہ ہما را مخصوص  اجا زت نا مہ منسوخ ہو چکا ہے !‘‘ فر ید ی  طنز آمیز لہجے میں بولا ۔

            وہ با ہر نکل آئے ۔فر ید ی نے اپنی کا ر با نا رڈ  کے بنگلے سے کا فی فا صلے پر کھڑ ی کی تھی ۔انو ر نے اپنی مو ٹر سا  ئیکل اسٹا رٹ کر نی  چا ہی لیکن وہ اسٹا رٹ نہ ہو ئی ۔

            ’’ذرا ٹا رچ  تو دیجئے گا !‘‘ انو ر نے فر یدی سے کہا ۔

            ’’احمق ہو ئے ہو !‘‘ فر ید ی  بو لا  ۔’’اِسے دھکیل  کر میری کا رتک لے چلو ۔ہو سکتا ہے وہ ہمیں زیا دہ دیر تک رو کے رکھنے کے لئے اِسے بگا ڑ گئے ہو ں  !‘‘

            انو ر مو ٹر سا ئیکل کو دھکیل  کر کیڈی اسٹا رٹ کر تا  ہو ا بو لا  ۔’’ بر نارڈ  پو لیس  کو اس کی اطلا ع ضرور دے گا اور اگر نہیں رپو رٹ کر تا  تو سمجھ لو کہ وہ ہمیشہ کے لئے رو پو ش ہوگیا  ۔دوسری صورت مجھے نا ممکن  نظر آتی ہے ۔ اگر واقعی اس کا تعلق اسی گر وہ سے ہے تو وہ ہر گز رو پو ش  نہ ہو گا !‘‘

            ’’سَو فی صد !‘‘ حمید سر ہلا کر بو لا  ۔’’ وہ اُسی گر وہ  سے تعلق  رکھتا ہے ۔ وہ مجھ سے لڑ کا ل جنگل والے اِسٹنٹ کے متعلق پو چھ رہا تھا !‘‘

            ’’کیا پو چھ رہا تھا  ؟‘‘ فر ید ی نے پو چھا ۔

            ’’یہی کہ تم لو گو ں نے بن ما نس  کے سلسلے  میں لڑکا ل  جنگل  کا نا م کیو ں لیا ؟‘‘

            ’’ہو ں ۔تب تو تم بڑے خو ش  قسمت تھے کہ انو ر کی نظر  تم پر پڑگئی  ورنہ تم اس وقت دوسری دنیا میں ہو تے ۔

بر نا رڈ  ا س واقعے کے بعد تمہیں زندہ نہ چھو  ڑتا !‘‘

            اس کے بعد اس نے بغیر پو چھے پو ری دا ستا ن دہرا دی ۔

            ’’تو اس کا یہ مطلب  ہے کہ ہما رے آفس کی بھی کو ئی لڑکی اُن سے ملی ہو ئی ہے !‘‘ فر ید ی بولا ۔

            ’’میرا یہ خیا ل نہیں ہے !‘‘ حمید نے کہا  ۔’’ نسر ین  نے اُس سے تعا رف کرا تے  ہو ئے اس کا پو را نام مس روزا بر نا رڈ  بتا یا  تھا لیکن میں نے اُس  وقت لفظ  بر نا رڈ  پر غور نہیں کیا !‘‘

            ’’غور  کر نے کی ضرورت بھی کیا  تھی !‘‘ انو ر چبھتے ہو ئے لہجے میں بو لا ۔

            ’’میں تم سے با ت  نہیں کر رہا  ہو ں !‘‘ حمید بگڑ گیا ۔

            ’’مجھ سے با ت کر نے کی تم میں اہلیت ہی نہیں !‘‘

            ’’فضو ل با تیں کسی دوسرے وقت کے لئے اُٹھارکھو !‘‘ فر ید ی نے دخل اندا زی  کی ۔’’حمید ۔میں تم سے کہہ رہا  ہو ں تم اس وقت چپ چا پ کسی ہو ٹل میں جا ٹھہر و۔ اگر تمہا رے سر چو ٹ نہ ہو تی تو پھر تشو یش کی با ت نہیں تھی !‘‘

            ’’کیسی تشو یش ۔میں کسی  ہو ٹل  میں  کیو ں ٹھہر وں ؟‘‘

            ’’فر زند  ! بر نا رڈ تمھا رے خلا ف رپو رٹ ضر ور دے گا اور شا ید  یہ بھی لکھو ائے کہ اس نے غصے میں تمہیں زخمی بھی کر دیا  ہے ۔ تمہا رے سَر کا زخم شہا دت دے گا  اور تم  یہ بھی جا نتے  ہو کہ  ڈی ۔ پی سٹی  سے ہما رے  تعلقا ت اچھے نہیں !‘‘

            ’’مگر میر ے  پا س کو ئی سا ما ن  نہیں ۔کیا  ہو ٹل  والو ں کو شبہ نہ ہو گا اور ایسی صورت  میں جب کی میر ے کو ٹ  پر خون کے دھبے بھی ہیں !‘‘

            ’’کو ٹ انور سے بدل لو ۔ فی الحال میں تمہیں ریلو ے اسٹیشن پر چھو ڑ ے دیتا ہو ں ۔تم وہا  ں  کے اسپتا ل میں جا کر اپنے  زخم  کی ڈر یسنگ  کر اؤ ۔اس کے بعد  ویٹنگ روم میں انور کا انتظار  کر نا ۔ یہ تمہا را ساما ن لے کر آئے گا اگر میرا مخصوص اجا زت نا مہ منسو خ نہ ہو ا ہو تا  تو ا س  کی ضرورت ہی نہ پیش آتی ۔ خیر تم کیپٹل میں قیا م کر نا ۔ بقیہ سب کچھ میں دیکھ لو ں گا !‘‘

            حمید کو اسٹیشن پر چھو ڑ  دینے کے بعد فر یدی گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔اُسے  جلدی تھی ۔ ان دنو ں وہ جن حا لا ت سے گز ر رہا تھا  اُن کا تقا  ضا  یہی تھا  کہ احتیا ط کا کو ئی  پہلو  نظر انداز نہ ہو نے پا ئے ۔گھر پہنچ  کر و  حمید  کے لئے ضروری سا ما ن ٹھیک  کرا نے  لگا ۔اتنے میں ٹیلی فو ن  کی گھنٹی  بجی ۔ فر یدی  ،انورکو بر آمد ے میں چھو ڑ  کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ تین چا ر منٹ  تک فو ن پر کسی  سے گفتگو  کر تے  رہنے  کے بعد پھر انور کے پا س واپس آگیا ۔

            ’’دیکھا  تم نے !‘‘ اس نے انور کو مخا طب  کیا  ۔’’ بر نا رڈ نے رپو رٹ  کر دی  ہے ۔جگد یش  کا فو ن  تھا ۔ بر نا رڈ  نے وہی سب کچھ لکھوا یا ہے جو میں تھو ڑی دیر  قبل کہہ رہا تھا ۔حمید  نے اس  کی لڑکی پر مجر ما نہ حملہ  کیا ۔ اچا نک  وہ آگیا اور اُس  نے حمید  کے سَر پر گُلدا ن کھینچ ما را !‘‘

            ’’دید ہ لیری  پر حیرت ہے !‘‘ انو ر بولا ۔

            ’’بر نا رڈ جا نتا  ہے کہ میرا مخصوص اجا زت نا مہ منسو خ  ہو چکا  ہے لیکن اس نے رپو رٹ میں ہم دو نو ں کا حوا لہ نہیں دیا ۔ یہ بھی اُس کی ایک چا ل  ہے ۔خیر دیکھا جا ئے گا !‘‘

            انو ر ۔فر ید ی کے چہرے پر فکر مندی کے آثا ر  دیکھ  رہا تھا ۔

18

            شہر   میں  سرا سیمگی پھیل گئی ۔ اخبا را ت نے پچھلی  را ت والے بن ما نسو ں کے حملے کا حال با لتشریح شا ئع کیا تھا ۔یو گو سلا فی  سفیر کا  اتا شی  چند اہم کا غذات  لے کر اپنے ملک تک پہنچنے  کے لئے  ہو ا ئی اڈ ے  کی طر ف جا رہا تھا کہ راس تے میں اُسے  طند بن ما نسو ں نے گھیر لیا ۔ ا۔تا شی اور اُس کے دو سا تھی  ڈرا ئیو رسمیت اپنی مدا فعت کر تے  رہے ۔ انہو ں نے ان میں سے کئی بن ما نس ما ر بھی گرا ئے ۔ ان کے ہو ش میں تو کا غذات کا چر می  تھیلا  محفو ظ رہا تھا  لیکن اس جد و جہد  کے دور ان  میں وہ  کچھ دیر  کے لئے اپنے ہو ش و حو ا س کھو بیٹھے او ر پھر ہو ش آنے کے بعد انہیں معلو م ہوا کہ تھیلا غا ئب ہے ۔ اخبا ر ات کی اطلا ع کے مطا بق سب سے پہلے پر نسٹن کے ٹر یفک کا نسٹیبل نے ایک بن ما نس کو ایک ٹر ک ڈرا ئیو  کر تے دیکھ کر اس کی اطلا ع پر نسٹن کے تھا نے میں دی تھی ۔اس کے بعد متعد  د جگہو ں سے رپو ر ٹیں مو صو ل ہو نے کے بعد پو لیس  کی کئی  پٹر ول کا ریں اس ٹر ک کی تلا ش  میں نکل  گئی تھیں ۔اخبا رات  نے گیا رہ  بن ما نسو ں کی تلا شو ں کا بھی تذکرہ  کیا تھا  جن میں سے چا ر پر کسی قسم کے زخم نہیں پا ئے گئے ۔بقیہ سا ت کے جسمو ں پر کہیں گو لی ضرور لگی تھی ۔چا ر بن ما نسو ں کی مو ت کے اسبا ب تک نہیں معلو م ہو سکے ۔اخبا را ت نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ بن ما نس ویسے ہی تھے جیسا کہ گز  شتہ دن انسپکٹر فر ید ی نے لڑ کا ل جنگل میں شکا ر کیا تھا ۔

            فر یدی  کو اس حیرت انگیز واقعے کی اطلا ع پچھلی رات ہی کو مل گئی تھی جب وہ حمید اور روزا بر نا رڈ والی خبر کی اشا عت رُکوا نے کے لئے اخبا ر ات کے دفتر وں کے چکر لگا تا پھر رہا تھا ۔وہ اپنے مقصد میں کا میا ب بھی ہو گیا تھا ۔کسی اخبا ر میں بھی حمید کے خلا ف لگا ئے گئے بر نا رڈ کے لزاما ت کے متعلق  کچھ نہیں آیا تھا اور یہ سب کچھ فر ید ی کے ذاتی اثر ور سو خ کی بنا پر ہو ا تھا  ۔

            صبح ہی صبح محکمہ سراغ رسا نی کا ڈی ۔آئی ۔جی فر ید ی کی کو ٹھی  پر پہنچ گیا ۔رات بھی اُس نے نفس نفیس کئی چکر لگا ئے تھے لیکن فر ید ی سے ملا قات نہ ہو سکی تھی ۔

            ’’آخر ی سب کیا ہو ر ہا  ہے ؟‘‘ ڈی ۔آئی ۔ جی کہہ رہا تھا ۔’’ اوپر والے ہما رے معا ملا ت میں ٹا نگ اَڑاتے ہیں اور پھر جب کو ئی اس قسم کی وار دا ت ہو جا تی ہے تب بھی ہم ہی جوا ب طلب کیا جا تا ہے پھر کہا جا تا ہے کہ ہمارا محکمہ سو تا رہتا ہے !‘‘

            ’’پھر بھلا بتا یئے ان آسما نی  بلا ؤں کو بلا ؤں کو ہمارا محکمہ کس طر ح روک سکتا ہے !‘‘ فر ید ی بو لا  ۔’’بھلا بن ما نس !‘‘

             ’’لا حو ل والا قو ۃ تم بھی ویسی ہی با تیں کر نے لگے !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی جھنجھلا گیا ۔’’تم کچھ چھپا رہے ہو۔کیا کل تم نے ویسا ہی ایک بن ما نس  نہیں شکا ر کیا تھا ؟‘‘

            ’’کیا  تو تھا  لیکن مجھے یہ نہیں معلو م تھا اس قسم کے بن ما نس  یو گو سلا فی سفا رت  خا نے سے بھی کچھ تعلق رکھ سکتے ہیں !‘‘

            ’’مجھے بتا ؤ !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی نے فر ید ی کی آنکھو ں میں  دیکھتے  ہو ئے کہا ۔’’جو زف اور اُس  کی بیو ی  کی لا شو ں کے قریب  انہیں بن ما نسو ں کے با ل  پا ئے  گئے تھے پھر اُن دو نو ں کے بھو تو ْں نے انگریز ی  سفا رت  خا نے سے کچھ اہم کا غذات اڑائے اور اب خو د اُن بن ما نسو ں نے یو گو سلا فیہ کی ڈاک پر ڈا کا ڈالا !‘‘

            ’’آپ نے حمید کی با بت  کچھ سنا ؟‘‘ فر ید ی نے سوال  کیا ۔

            ’’سنا ہے لیکن اس بنا پر اُسے کو ئی اہمیت نہیں دی کہ رپو رٹ بر نا رڈ نے لکھو ا ئی ہے !‘‘

            ’’آپ کا خیا ل درست  ہے !‘‘ فر ید ی بو لا  ۔’’ واقعہ یو ں ہے کہ  بر نا رڈ حمید کو دھو کا دے کر اپنے گھر بلوا تا ہے اور زخمی کر دیتا ہے ۔وہ اُس سے یہ معلو م کرنا  چا ہتا تھا کہ ہم لو گو ں نے بن ما نس کے سلسلے میں لڑ کا ل جنگل کا نا م کیو ں لیا !‘‘

            ’’کیو ں ؟ ظا ہر ہے کہ تم نے اُسے  لڑ کا ل جنگل ہی میں شکا ر کیا تھا !‘‘

            ’’قطعی نہیں !‘‘ فر ید ی سر ہلا  کر بو لا  ۔’’ اُس نے خو د ہی غریب خا نے میں قدم رنجہ فر ما یا  تھا !‘‘

            ’’کیا ؟‘‘ ڈی ۔ آئی ۔جی چو نک پڑا ۔

            ’’جی ہا ں اُس کا شکا ر میں نے اپنی کمپا ؤ نڈ  ہی میں کیا تھا !‘‘

            اس کے بعد فر ید ی نے پو را واقعہ  دہرا تے ہو ئے کہا ۔’’ اب وقت آگیا  ہے کہ  میں آپ  کو سب  کچھ  بتا دوں ۔

آصف اور سنگھ  بے چا ر ے تو جھک  ما رتے  ہی رہ جا ئیں گے ۔ مجھے وہ چیز  مل گئی ہے جس کی تلا ش عر فا نی  کے قاتلو ں کو تھی !‘‘

            ’’اوہ تم نے مجھے  پہلے نہیں بتا یا !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی شکا یت  آمیز  لہجے میں بولا ۔

            فر ید ی اُسے اپنی تجر بہ گا ر  میں لا یا  اور پھر  اس نے عر فا نی کی ڈائری  اور تعلیمی  تاش کے دو نو ں پتّے نکا لے ۔

            تقر یبا ً پند رہ  منٹ بعد جب وہ دو نو ں تجر بہ گا ر  سے نکل رہے تھے ڈی ۔آئی ۔جی بولا ۔

            ’’فر ید ی سچ کہتا ہو ں اگر تم جا گتے  نہ رہو  تو ہم سب نا لا ئق بنا دیئے جا ئیں ۔بھئی مجھے اس کا اعترا ف ہے کہ اگر یہ ڈائر ی اور تاش کے پتے  مجھے ملتے تو  میں انہیں ردی کی ٹو کری میں ڈال کر مطمئن ہو جا تا ۔خیر ہا  ں تو تم نے حمید  کو کیو ں چھپا دیا !‘‘

            ’’اگر وہ ایک گھنٹے کےلئے بھی حوالا ت میں گیا  تو میرے  لئے مر جا نے کا مقام ہو گا ۔ مصیبت یہ کہ اس کے سَر پر زخم بھی مو جو د  ہے اور دوسری مصیبت یہ کہ ڈی ۔ایس ۔پی سٹی عر صہ سے اس تاک میں ہے کہ اُسے ہما رے خلا ف کچھ موا دمل  جا ئے اور بنیا دی مصیبت یہ ہے کہ  میرا مخصوص اجا زت نا مہ منسو خ ہو چکا ہے !‘‘

            ’’اس کی فکر نہ کر و ۔آئی ۔جی صاحب خو د بھی پیشما ن ہیں ۔میں کو تو ال کو ایک حکم نا مہ بھیجے دیتا ہو ں کہ سر جنٹ حمید کا کیس  محکمے کو ریفر کر دیا جا ئے ۔برا ہِ را ست کو ئی کا ر روائی نہ ہو اور کیو ں نہ بر نو رڈ کو پکڑ ہی لیا جا ئے !‘‘

            ’’میں اِسے منا سب نہیں سمجھتا ۔مجر مو ں میں وہی ایک ایسا ہے جو  اس وقت ہما رے  سا منے ہے اور شا ید ہم اُسی کے ذریعے وہا ں تک پہنچ سکیں جہا ں سے وہ بن ما نس  بر آمد  ہو تے ہیں !‘‘

            ’’بن ما نسو ں کا معا ملہ بھی عجیب ہے !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی نے کہا  ۔’’ پچھلی رات سا ت تو گو لیو ں سے مرے ہیں اور چا ر کی موت پُرا سرار ہے کیو نکہ اُنہیں گو لیا ں لگی ہی نہیں ، اور ایک کے متعلق اتا شی کا بیا ن ہے کہ اُس پر گو لیو ں کا اثر ہی نہیں ہو ا اور غالباً وہی ٹر ک بھی ڈرا ئیو ر کر رہا تھا !‘‘

            ’’او ر وہی ایک بن ما نس نہیں معلو م ہو تا !‘‘ فر ید ی نے مسکرا کر کہا ۔

            ’’کیو ں کیا مطلب ؟‘‘

            ’’اس لئے کہ وہ گو لیو ں سے نہیں مرا اوروہی ڈاک کا تھیلا  لے گیا !‘‘

            ’’اور ان کے متعلق  کیا کہو  گے جو لیو ں کے بغیر ہی مر گئے !‘‘

            فر یدی  کچھ نہ بولا ۔

19

            سر جنٹ  حمید کیپٹل ہو ٹل سے گھر واپس آگیا  تھا لیکن اُسے اپنی زندگی  تلخ محسوس ہورہی تھی کیو نکہ بر نا رڈ اب بھی بے خوف وخطر آزا دانہ پھر رہا تھا ۔ وہ بڑی شدت سے اندر ہی اندر جھلس رہا تھا ۔اُس کا بس چلتا تو و ہ اُسے ما ر ہی ڈالتا لیکن اُس نے کم از کم روزا بر نا رڈ سے تو انتقام لینے کی ٹھان ہی لی تھی ۔اس سلسلے میں اُس کی نظر انتخاب قاسم پر پڑی لیکن وہ کو ئی فیصلہ نہ کر پا یا کیو نکہ قاسم پَر لے سِر ے کا بے وقو ف تھا اور اُسے وقتی طو ر پر بھی عقل مند بنا دینا کم از کم اُس کے بس کا روگ نہیں تھا ۔

            وہ دن بھر نئی نئی اسکیمیں سو چتا رہا اور شام ہو تے ہی قاسم کی طرف چل پڑا لیکن قاسم گھر پر مو جو د نہیں تھا ۔ اُس کی بیو ی نے بتا یا کہ وہ دو نو ں دن سے غائب ہے ۔ شا ید یہ پہلا اتفاق تھا کہ وہ گھر والو ں کو اطلا ع  دیئے بغیر اس طر ح غا ئب ہو گیا تھا ۔

            حمید نا کا م واپس لو ٹا ۔گھر پہنچ کر وہ پھر نئے نئے منصو بے بنا نے لگا ۔ آخر اُس   نے سو چا کہ کیو ں نہ کسی میک اَپ میں قسمت آزما ئی کی جا ئے لیکن معا ملا ت چو نکہ بہت زیا دہ اُلجھ گئے تھے اس لئے اس نے یہی منا سب سمجھا کہ فرید ی کی را ئے بھی معلو م کر لی جا ئے ورنہ  ممکن ہے  بعد کو وہ اپنی کسی نا کا می الزام اُسی کے سر منڈھ دے ۔

            فر ید ی اُس کی لا علمی میں کئی گھنٹے سے گیراج میں کچھ ٹھو ک پیٹ رہا تھا ۔حمید نے اُسے پہلے گھر میں تلا ش کیا پھر سو چا ممکن ہے با ہر گیا ہو ۔ وہ اُسے دیکھتا ہو ا  گیراج تک گیا جس  کا  دروازہ اندر سے بند تھا ۔ حمید نے دستک دی ۔

فر ید ی نے دروازہ کھو لا ۔ وہ پیسنے میں نہا یا ہو ا تھا  اور اس کے ہا تھ میلے تھے ۔کپڑ وں پر بھی ایک آدھ جگہ تیل کے تا ریک دھبے نظر آرہے تھے ۔

            ’’تمہا ری ضرورت بھی تھی !‘‘ فر ید ی نے اُسے اندر کھینچتے ہو ئے کہا ۔

            ’’ارے ارے میرے کپڑے !‘‘ حمید  جھنجھلا کر بو لا ۔

            ’’صر ف کفن نہ میلا  ہو نا  چا ہئے  !‘‘ فر ید ی مسکرا کر بولا  ۔’’بقیہ سب چلتا ہے !‘‘

            فر ید ی کی جیپ کا ر پر نظر پڑ تے  ہی حمید  کا منہ  حیرت سے کھل گیا ۔ جیپ کا ر کی پچھلی  نشست کے دو نو ں اطراف میں مشین گنیں فٹ تھیں اور اب فر یدی اُن کے دہا نو ں  کو چھو ڑ کر بقیہ حصے بڑے بڑے گد وں کے نیچے چھپا رہا تھا ۔

            ’’یہ کیا مصیبت ہے ؟‘‘

            ’’تمہا رے درد سَر کا علا ج ۔لڑ کا ل جنگل  میں خو بصورت لڑ کیا ں نہیں ملتیں !‘‘

            ’’لڑکا ل جنگل !‘‘ حمید بُرا سا منہ  بنا کر  بولا ۔’’کیو ں وقت بر با د کر رہے ہیں ۔یہ تاش کے پتّے !‘‘

            ’’کیا سَر کی چو ٹ بھو ل  گئے ۔بھلا  یہ کس سلسلے میں آئی ہے ؟‘‘

            حمید کچھ نہ بولا ۔فر یدی  تھو ڑی دیر تک مختلف  پہلو ؤں سے جیپ کا ر کا جا ئز ہ لیتا  رہا  پھر و دونو ں گیر اج سے با ہر نکل آئے ۔

            ’’آج تو مو سم  بھی بڑا دلکش ہے !‘‘ فر ید ی نے کہا ۔’’ خا صی تفریح رہے گی !‘‘

            ’’تو کیا اِسی جیپ پر چلنے کا ارادہ ہے آخر مشین گن کیو ں ؟‘‘

            ’’بطخو ں کا شکا ر کر یں گے !‘‘ فر یدی  خشک لہجے میں بولا ۔

            ’’اللہ ہما ری مغفرت فر ما !‘‘ حمید  نے دعا کے لئے ہا تھ اٹھا ئے ۔ ’’ہم بہت جلد  تیری ہی طر ف آنے والے ہیں !‘‘

            ایک گھنٹے بعد اُن کی جیپ شہر کی سنسا ن را ہو ں سے گز رتی ہو ئی مضا فا ت کی طرف جارہی تھی ۔فر یدی نے دن بھر کی محنت سے اُسے ایک اچھی خاصی اسلحہ بند گا ڑی بنا لیا تھا اور اس کے ہُڈ میں چا ر وں طرف چھوٹی چھوٹی سر چ لا ئٹس فِٹ کر دی تھیں جو فی الحال روشن نہیں تھیں ۔

            ’’آپ جنگل میں تو گھس نہ سکیں گے !‘‘ حمید بولا ۔

            ’’کیو ں ؟ کیا تم اُس دس میل لمبی سڑک سے کبھی نہیں گز رے جو با لی کیمپ سے تا ر جام کی طرف گئی ہے !‘‘

            ’’اوہ ہو ٹھیک ہے جس پر وہ کو لتا ر والی فیکٹری ہے !‘‘

            ’’ٹھیک وہی ۔ بس آج ہم اُس سٹرک کی پیما ئش کر یں گے اگر کہیں مطخیں دکھا ئی دیں تو مشین گنو ں کے سو ئچ آن کر دینا !‘‘

            ’’اوہو کیا آپ کو تو قع ہے کہ وہ بن ما نس وہیں رہتے ہو ں گے !‘‘

            ’’پتہ نہیں یہ تو میں نے احتیا طاً !‘‘

            ’’ذرا یہ تو سو چئے !‘‘ حمید نے اُس کی بات کا ٹ کر کہا ۔’’ اگر اُس جنگل میں ایک  بھی ویسا خو فناک بن ما نس ہو تا تو کم از کم کو لتا ر فیکٹر ی والے ضرور ہلڑ مچا تے !‘‘

            ’’تو فر زند ، یہ بھی نا ممکن ہے کہ اتنی تعداد میں وہ درندے شہر ہی کے کسی حصے میں مقیم ہو ں !‘‘

            ’’یہ بھی ٹھیک ہے ۔آپ یہ بھی جا نتے ہیں کہ بن مانس بہت زیا دہ غل غپا ڑہ مچا تے ہیں اگر وہ اس جنگل ہی کے کسی حصے میں ہو تے تو کم از کم با لی کیمپ والی سڑک سے گز ر نے والے یا کو لتا ر فیکٹر ی کے لو گ کبھی تو اُن کی آواز سنتے !‘‘

            ’’بھئی سچ پو چھو تو یہ معا ملہ ابھی تک میری سمجھ میں آیا ہی نہیں ہے !‘‘ فر ید ی نے کہا ۔’’یو گو سلا فی سفیر کے اتا شی کو جو واقعہ پیش آیا  ہے اپنی نو عیت کے اعتبار سے عجیب ہی نہیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیا دہ ہے ۔ایک بن مانس کا شہر کی سڑکو ں پر ٹرک ڈرائیوکر نا اور وہ بھی اس چا بکدستی سے کہ کہیں کو ئی حادثہ نہیں پیش آیا پھر حملہ کر کے ڈاک کا تھیلا لے بھا گنا ۔آخر دوسرے بن ما نس اِتنے احمق کیو ں تھے کہ وہ نہیں بھا گے !‘‘

            ’’اور کچھ اُن سے بھی زیا دہ احمق تھے جو خود نخود مر گئے !‘‘

            ’’ٹرک ڈرا ئیو کر نے والا تو سو فی صد آدمی تھا !‘‘ فر یدی  نے کہا ۔’’اور اُس نے بن ما نس کی کھا ل کے نیچے بُلٹ پر وف لگا رکھے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اُس پر گو لیو ں نے اثر نہیں کیا !‘‘

            آج کل آپ جیرالڈ  شا ستری کو بری طرح نظر انداز کر رہے ہیں !‘‘ حمید نے اُکتا کر مو ضو ع بدل دیا ۔

            ’’جیر الڈ !‘‘ فر ید ی ٹھنڈی سا نس کے کر بولا ۔’’میں نہیں سمجھ  سکتا کہ اس ڈرامے میں اُس کا کیا رول ہے !‘‘

            ’’وہ کسی پُراسرار قوت کا ما لک ہے !‘‘ حمید نے کہا ۔’’مجھے آج تک اُس کے علا وہ اور کسی آدمی سے خوف نہیں محسوس ہو ا !‘‘

            ’’مجھے وہ ملا قات  اچھی طر ح یا د ہے !‘‘ فر یدی بولا ۔’’ لیکن مجھ پر اُس کی شخصیت کا کو ئی اثر نہیں  ہو ا تھا !‘‘

            ’’ آپ خود ہی اپنا پر و پیگنڈا کر تے ہیں !‘‘ حمید نے جَل کر کہا ۔

            ’’غلط نہیں کر تا !‘‘

            ’’آدمی کو کبھی کبھی کسرِ نفسی سے بھی کا م لینا چا ہئے !‘‘

            ’’بنفشہ بھی پینا چا ہئے !‘‘ فر یدی بُرا سا منہ بنا کر بولا ۔’’میری کسرِ نفسی سے مجھے یا دوسروں کو کیا فا ئدہ پہنچ  سکتا ہے ۔سوا ئے اس کے کہ میر ی کسرِ نفسی کے متمنّی لو گو ں کے غرور کی تھو ڑی سی تسکین ہو جا ئے !‘‘

            ’’آپ مغر ور ہو گئے ہیں !‘‘

            ’’وہی دو ٹکے والی با ت !‘‘ فر یدی نے خشک لہجے میں کہا ۔’’جب میرے غرور سے تمہا رے غر ور کو ٹھیس لگتی ہے تو تم مجھے مغر ور رکہہ دیتے ہو !‘‘

            ’’میں تو فی الحال آپ کو لا چا ر اور مجبور سمجھتا ہو ں !‘‘ حمید نے چڑھا  نے والے انداز میں قہقہہ لگا یا ۔

            فر یدی کچھ نہ بولا۔ جیپ کا ر شہر سے بالی کیمپ جانے والی سنسان  سڑ ک پر دوڑ رہی تھی ۔آسما ن اَبر آلو د ہو نے کی وجہ سے تا ریکی  بڑھ گئی تھی ۔حمید بہت کچھ کہنا چا ہتا تھا لیکن اُس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ فر یدی زیا دہ گفتگو کے مو ڈ میں نہیں ہے ۔

            لڑکا ل جنگل کا سلسلہ شروع  ہو چکا تھا اور مختلف قسم کی آواز یں جیپ کے شو ر کے با وجو د بھی اُن کے کا نو ں تک پہنچ رہی تھیں ۔

            ’’فر یدی صاحب !‘‘ حمید بولا ۔’’اگر وہ ہو ں گے بھی تو جنگل کے کسی دشوار گز ار حصے میں  !‘‘

            ’’مجھے  کب اِس سے انکا ر ہے !‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’ہم تو صرف سڑ ک نا پنے جا رہے ہیں ۔وہ بن ما نس جو ہما ری کمپا ؤ نڈ میں گھسا تھا کیا  ہما را پتہ پو چھتا ہو ا آیا ہو گا ۔ظاہر ہے کہ اُسے کو ئی آدمی ہی وہا ں تک لا یا ہو گا ۔اگر وہ بن ما نس ٹر ک استعما ل کر تے ہیں تب تو انہیں یقیناً اِسی سڑ ک سے گز رنا پڑتا ہو گا !‘‘

            ’’اونہہ ما ریئے گو لی ۔میں  تو شدت سے بو ر ہو چکا ہو ں۔ذرا رفتار کم کیجئے ۔پا ئپ سلگا ؤں گا !‘‘

            فریدی نے رفتا ر کم کر دی اور حمید پا ئپ سلگا نے لگا ۔

            اُن کے سا منے بہت دور پر کسی مو ٹر کی ہیڈ لا ئٹس نظر آرہی تھیں ۔

            فر یدی نے جیپ کی رفتا ر پھر تیز  کر دی ۔سا منے سے آنے والی مو ٹر قریب ہو تی جا رہی تھیں۔ایک جیپ کچھ اونچائی پر آئی تھی کہ اُس کی ہیڈ لا ئٹس کی روشنی سا منے سے آنے والی مو ٹر کے ونڈ ا سکر ین پر پڑی اور حمید بے سا ختہ اُچھل پڑا ۔ڈرا ئیو ر کی سیٹ پر وہی عجیب الخلقت درندہ بیٹھا ہو ا تھا ۔

            ’’خامو ش !‘‘ فر یدی آہستہ سے بولا ۔

            ٹرک تیزی سے جیپ کے قریب سے نکل گیا ۔فر یدی نے اپنی گا ڑی  روک دی اور مڑ کر دیکھنے  لگا ۔ٹرک کی  پچھلی سر خ رو شنی دور ہو تی جا رہی تھی ۔جب فا صلہ کا فی زیا دہ  ہو گیا تو فر یدی  نے بھی جیپ اُسی طرف مو ڑلی ۔ اُس کی ہیڈ لا ئٹس بجھا دی تھیں اور اب اند ھیر ے میں آگے جا نے والے ٹرک کا تعا قب شروع ہو گیا تھا ۔

            ’’کیا بطخو ں کے شکا ر کا وقت قر یب آگیا ہے ؟‘‘ حمید آہستہ سے بڑ بڑا یا ۔

            ’’ذرا صبر کر و !‘‘

            حقیقتاً وہ لمحا ت حمید کے لئے  بڑے صبر آزما تھے ۔ اگر اس وقت اسَٹیئر نگ اُس  کے سا تھ میں  ہو تا تو وہ اتنے فا صلے سے تعا قب کر نے کے بجا ئے ٹرک کے پہلو میں ہو تا اور جیپ کے ایک طرف کی مشین گن گو لیا ں اُگل رہی ہو تیں ۔

            اُدھر فر یدی سو چ رہا تھا کہ ہو ش اس وقت جیپ کے بجا ئے کیڈی لا ک ہو تی ۔اُسے خد شہ تھا کہ جیپ کے انجن کی آواز ٹرک والوں کو ہو شیا ر نہ کر دے ۔اس بات کا تو اُسے یقین تھا کہ ٹرک ڈرائیو کر نے والا درند ے  کے بھیس میں کو ئی آدمی ہی ہے۔

            جیپ کا ر اند ھیر ے میں فرا ٹے بھر تی رہی ۔

            ’’آخر آپ چا ہتے کیا ہیں ؟‘‘ حمید اُکتا کر بو لا ۔

            ’’یہ دیکھنا چا ہتا ہو ں کی آج اُن کے ارا دے  کیا ہیں !‘‘

            ’’اگر نکل گئے تو ؟‘‘

            ’’مجھے یقین ہے کہ یہ کسی صورت سے نہیں بچ  سکتے !‘‘ فر یدی مسکرا کر بولا ۔’’مجھے اُن کا شکر گز ار ہو نا چا ہئے کہ انہو ں نے مجھ سے جنگل کی خاک نہیں چھنوا ئی !‘‘

            ’’اگر آپ نے انہیں ما ر لیا تو اُن کے ٹھکا نے پتہ کس طرح چلے گا !‘‘

            ’’بس ایک کو زند ہ چھو ڑ نا ہے ۔ اُسے جو ڈائیو  کر رہا ہے !‘‘

            ’’آپ کا خیا ل ہے کہ وہ بن ما نس کی کھال میں کو ئی آد می ہے اور اُس نے کھا ل کے نیچے بُلٹ پر وف bullet proof)) لگا رکھے ہیں ۔اگر صورت ِ حال یہی ہے تو وہ لا محا لہ بچ جا ئے گا !‘‘

            ’’خیر یہ تو کو ئی با ت نہیں ۔مشین گن کی گو لیا ں ایک مخصوص فا صلے سے بُلٹ پروف کے باپ کے بھی پر نچے اڑا دیتی ہیں !‘‘

            ’’مشین گنیں  تو میرے خیال سے با لکل ہی بے کا ر ثابت ہو ں گی !‘‘ حمید  نے کہا ۔’’کیو نکہ آپ  نے اِدھر اُدھر فٹ کر رکھا ہے ۔اگر انہو ں نے سا منے  سے ہم پر حملہ کر دیا تو ؟‘‘

            ’’ہما ر ے پا س دو عد دبر ین گن بھی ہیں فر زند !‘‘ فر یدی پُر سکو ن لہجے میں بولا اور حمید خا مو ش ہو گیا ۔

            اُس کا ذہن پر اگند کا شکا ر ہو گیا تھا ۔خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس خیال سے کہ کہیں وہ ٹرک انہیں دھو کے میں رکھ کر کسی اور طرف  نہ نکل جا ئے ۔

            اگلا ٹر ک شہر کی طرف مڑ گیا ۔

            ’’پچھلے حصے میں بھی بن ما نس  ہی ہو ں گے !‘‘ حمید بولا ۔

            ’’کثیر تعداد میں !‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’ کیا تم نے دیکھا نہیں تھا !‘‘

            ’’نہیں میں نہیں دیکھ  سکا !‘‘

            پھر خا مو شی ہو گئی ۔تعا قب برابر جا ری رہا ۔فر یدی نے شہر جا نے والی سڑک پر بھی جیپ کا ر کی ہیڈ لا ئٹس نہیں روشن کیں۔سڑک یو ں بھی سنسا ن تھی اس لئے اس میں بھی کو ئی خاص دشواری نہیں ہو رہی تھی اچا نک فر یدی نے محسوس کیا کہ وہ ٹرک خود بھی ایسی سڑکو ں کو نظر انداز  کر رہا ہے جن پر رات گئے بھی ٹریفک کی مو جو د گی کا امکان ہو سکتا تھا ۔

            کچھ دیر بعد جب وہ ٹرک ایک عما رت کے سامنے رُک گیا توحمید کو اپنا دل پڑی میں دھمکتا ہو ا محسوس ہو نے لگا ۔یہ جیرالڈ شا ستری کی کو ٹھی تھی۔

            فر یدی نے کا فی فا صلے پر اپنی جیپ کا ر روک دی تھی ۔ وہ دونوں ہا تھو ں میں بر ین گنیں لئے ہو ئے جیپ سے اُتر ے اور دوسری عما رتو ں کی چہا رد یوا ریو ں سے لگ کر رینگتے ہو ئےجیرالڈ کی کو ٹھی کی طرف بڑھنے لگے ۔

            ٹرک سے طو یل القا مت اور مہیت سا ئے اُتر نے شروع ہو گئے تھے پھر وہ سب سلا خو ں دار پھا ٹک پر چڑھ چرھ کر جیر الڈ کی کو ٹھی کی کمپا ؤنڈ میں داخل ہو نے لگے ۔

            کچھ دیر تک با لکل خا مو شی رہی ۔حمید کو پھر الجھن ہو نے لگی تھی ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر فر یدی آگے کیوں نہیں بڑھتا ۔

            تھوڑی دیر بعد جیرالڈ  کی کو ٹھی سے شور بلند ہو نے  لگا ۔ دو ایک فا ئر وں کی بھی آواز یں آئیں ۔فر یدی ابھی تک وہیں جما رہا ۔ابھی تک حمید یہ سمجھ رہا تھا کہ بن ما نسو ں کا کچھ نہ کچھ تعلق جیرالڈ سے ضرور ہے لیکن اب ایسی حالت میں اگلا  نظر یہ کیو نکر قائم رہ سکتا تھا ۔

            شور بڑھتا گیا ۔ فا ئر وں کی آوازیں بھی بد ستو ر آرہی تھیں ۔قر یب وجوا ر کی عما رتو ں کی کھڑ کیوں میں رفتہ رفتہ روشنی نظر آنے لگی تھی ۔

            ’’تم جیپ پر واپس جاؤ!‘‘ فر یدی نے حمید سے کہا اور حمید شا ید انکا ر ہی کر نے والا تھا کہ فر یدی پھر بولا ۔

            ’’جو میں کہو ں وہ کرو ۔اگر وہ ٹرک چل پڑے تو ہر تعا قب نہ کر نا ۔جا ؤ !‘‘

            حمید نے بے چو ن و چرا تعمیل کی ۔ حالا نکہ اُس کا دل نہیں چا ہتا تھا ۔

            فر یدی آہستہ آہستہ ٹرک کی طرفرینگتے لگا ۔

            قر ب وجوار کے لوگ بھی بیدار ہو کر گھر وں سے نکلنے لگے تھے ۔ فر یدی ٹر ک کے قر یب پہنچ کر سیدھا ہو گیا اور دوسرے ہی لمحے میں وہ اُس کے پچھلے حصے میں تھا ۔

            سڑک پر کھڑے ہو ئے لو گ پہلے تو سمجھ ہی نہ سکے کہ شور  کہا ں ہو ر ہا ہے ۔اُن میں سے بہتیر ے جیرالڈ کے  لیمی آرتھر کی آواز بخو بی پہنچا نتے تھے ۔ انہو ں نے اس کی چیخیں سنیں اور صاف پہچا نیں پھر وہ پھا ٹک  کی طر ف بڑ ھ ہی رہے تھے کہ انہیں اچا نک رُک جا نا پڑا ۔وہ نہ صرف رۃکے بلکہ بہتوں کی چیخیں بھی نکل گئیں ۔ایک طویل القا مت بن مانس جس نے اپنے ہا تھ میں کو ئی وزنی چیز لٹکا رکھی تھی ، پھا ٹک سے نکل کر نہا یت اطمینا ن سے ٹرک کی طرف بڑھ رہا تھا ۔لوگ ایک دوسرے پر گر نے لگے ۔

            ٹرک چل پڑااور کسی میں بھی اتنی ہمت نہ ہو ئی کہ وہ کسی قسم کی مزا حمت کر تا ۔

            حمید نے ٹرک کو یکھا لیکن کو ئی اقدام  نہ کر سکا ۔ بعض اوقات فر یدی کے اس طرح کے احکا ما ت اُسے شدت سے کھَل جا تے تھے ۔ اس نے ٹرک کا تعا قب نہ کیا لیکن کم از کم وہا ں سے چلا جا نا  اُس کی متجس طبیعت کے عکس تھا ۔ وہ معلوم کر نے کے لئے بُری طرح بے چین تھا کی جیرالڈ پر کیا گزری ۔فر یدی نے اُسے صرف ٹرک کا تعا قب کر نے سے منع کیا تھا ۔ یہ تو نہیں کہا تھا کہ وہ وہا ں سے چلا ہی جا ئے ۔بہر حال حمید نے وہا ں ٹھہر جا نے کا جواز پیدا کر کے جیپ اسٹارٹ  کر دی اور ٹھیک اُس مجمع کے قریب آکر رُکا ۔لو گو ں کی دانست میں شا ید وہ بن ما نس ایک ہی تھا جو ٹرک پر جا چکا تھا ۔حمید اپنے ہا تھ میں بر ین گن لئے ہو ئے جیپ سے اُتر آیا۔

            دفعتہً پھا ٹک  پر دو مہیب سا  ئے دکھا ئی دیئے        جو بند پھا ٹک پر چڑھ کر با ہر آنے کی کو شش کر رہے تھے ۔ لوگ چیخیں ما ر کر بھا گنے لگے ۔

            حمید کی بر ین گن گو لیا ں اُگل رہی تھی ۔دو نوں چیختے ہو ئے ڈ ھیر ہو گئے ۔بر ین گن خا مو ش ہو گئی اور حمید اُسے دو بارہ  لو ڈ کر نے لگا ۔ بھا گتے ہو ئے لو گ ٹھہر گئے لیکن وہ  دور کھڑے ہو ئے تھے ۔حمید اُن کی طرف مڑا ۔

            ’’مجھے ایک دلیر آدمی چا ہئے !‘‘ حمید نے کہا۔

            ’’آپ کو ن ہیں ؟‘‘ مجمع میں سے کسی نے پو چھا ۔

            ’’پو لیس !‘‘

            سنا ٹا چھا گیا ۔ تھو ڑی دیر بعد ایک آدمی مجمع میں سے نکل کر حمید کی طرف بڑھا ۔

            ’’آپ کیا چا ہتے ہیں ؟‘‘ اس نے حمید سے پو چھا ۔

            ’’ہم اندر چلیں گے !‘‘ حمید بولا ۔

            ’’خطر نا ک ہے !‘‘ اُس آدمی نے کہا ۔’’میں نہتّا ہو ں !‘‘

            ’’فکر  نہ کیجئے !‘‘ حمید نے جیپ کی طرف بڑھتے ہو ئے کہا ۔ اُس نے اس میں اپنا ریوالو ر نکالا اور بر ین گن اُس آدمی کے ہا تھ  میں دیتا ہو ا بولا ۔’’خطر کے وقت اس ٹرا ئیگر کو دبا تے چلے جا یئے گا !‘‘

            ’’میں جا نتا ہو ں ۔فو ج میں رہ چکا ہو ں !‘‘ اس آدمی نے کہا ۔

            ’’تب تو اور بھی اچھا آیئے !‘‘

            حمیدآگے بڑھ کر پھا ٹک پر چڑ ھ گیا ۔اُس کے پیچھے وہ فو جی بھی تھا ۔بر آمد ے  میں پہنچتے ہی انہو ں نے پھر ایک فا ئر کی آواز سنی اور پھر ایسا معلوم ہو ا جیسے کو ئی اندر سے بھا گتا ہو ا بر آمد کی طرف آرہا ہو ۔

            دروازہ کھلااور کو ئی دھڑام سے  فر ش پر آرہا ۔بر آمد ے میں اند ھیرا تھا ۔ حمید نے ٹارچ روشن کی ۔ یہ جیرالڈ شا ستری تھا ۔حمید اُسے اٹھا نے کے لئے بڑھ  ہی رہا تھا کہ فو جی کے ہا تھ میں دبی ہو ئی بر ین گن کا رخ دروازے کی طرف مڑ گیا ۔سا تھ ہی شعلے نکلے اور ایک درندہ چیختا ہوا جیرالڈ شا ستری پر ڈھیر ہو گیا ۔اگر حمید آگے بڑھ کر جیرالڈ کو اُس کے نیچے سے کھینچ نہ لیتا تو شا ید  اُس دم تو ڑ تے ہو ئے وحشی نے اُس کے اڑادیئے ہو تے ۔

            ایک لا متنا سنا ٹا۔

            سڑک پر کھڑے ہو ئے آدمیو ں کی آوازیں آنی بند ہو گئی تھیں ۔

            تھو ڑی دیر بعد جیرالڈ کو ہوشآگیا ۔اُس وقت حمید نے دیکھا کہ اُس کے چہر ے پر کسی خوف زدہ بچے کے چہرے کی سی کیفیتین طا ری تھیں ۔اُس کی آنکھو ں اور چہرے کے خدو خا ل میں بڑا ربط اور کا فی ہم آہنگی تھی ۔

            ’’لے گئے !‘‘ وہ بچو ں کی طر ح چیخا ۔’’میری زندگی لے گئے میں لُٹ گیا !‘‘

            ’’کیا لے گئے ؟‘‘ حمید نے آگے بڑھ کر پو چھا ۔

            ’’تم کو ن ہو ؟‘‘

            ’’پو لیس !‘‘

            ’’اب آئی ہے پو لیس ۔کسی کو بھی اپنی ذمہ داریو ں کا احساس نہیں ۔کیا ہو ر ہا ہے اس شہر میں ؟ پو لیس سو ر ہی ہے ۔میں بر با د ہو گیا !‘‘

            ’’کیا لے گئے کچھ بتا یئے بھی تو !‘‘ حمید جھنجھلا کر بولا ۔

            ’’میری بدھ کی مو رتی ۔ٹھو س سو نے کی تھی ۔دس سیر وزن!‘‘

            ’’اوہ !‘‘

            ’’اُس پر میں نے سیا ہ پینٹ کرا دیا  تھا تا کہ وہ محفوظ رہ سکے !‘‘

            ’’کو ئی  جا نتا تھا اُس کے متعلق ؟‘‘

            ’’کو ئی بھی نہیں ۔حتٰی کہ میر ے لڑ کے کو بھی اس کا علم نہیں !‘‘

            ’’آپ لا لڑکا اس وقت کہا ں ہے ؟‘‘

            ’’آہ لیمی میرا لیمی !‘‘ جیرالڈ بے تحاشا چیخا ۔’’لیمی بیٹے تم کہا ں ہو ؟‘‘

            وہ پا گلو ں کی طر ح اندر بھا گ گیا ۔

            حمید نے فو جی کو اندر چلنے کا اشارہ کیا ۔

            اندر اُنہیں بن ما نس کی آٹھ لا شیں ملیں ،لیمی ایک کمرے میں بے ہو ش پا یا گیا ۔اُس کے ہا تھ میں بھی را ئفل دبی ہو ئی تھی اور منہ سے خون بہہ رہا تھا ۔

            جیر الڈ نے اُسے اٹھا کر ایک صو فے پر ڈال دیا ۔

            حمید درندوں کی لا شو ں کو ٹٹو لتا رہا تھا ۔جن میں چمڑ ے کے تسمے کَسے ہو ئے تھے ۔حمید نے تسمے کھول ڈالے ۔کھال ڈھیلی پڑ گئی ۔اُس نے اُوپر کی طرف کھینچا ۔کسی آدمی کا پنچہ با ہر نکل آیا ۔

            ’’ارے !‘‘فو جی اُچھل کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا ۔

            ’’ڈرو نہیں دوست ۔اس کی کھال اُتا رنے میں میری مدد کر و ۔حمید بولا۔

            تھو ڑی ہی جد وجہد کے بعد وہ اُس آدمی پر سے بن ما نس کی کھا ل اُتا رنے میں کا میا ب  ہو گئے ۔یہ ایک ایسے آدمی کی لا ش تھی جسے حمید اچھی طرح پہچا نتا تھا ۔ بر نا رڈ اُن کے سا منے ننگا پڑا تھا ۔

            ’’تو یہ سب بھی !‘‘ فو جی ہکلا کر رہ گیا۔

            ’’دیکھتے ہیں ہو سکتا ہے !‘‘ حمید نے کہا اور پھر اُس نے جیرالڈ کو آواز دی ۔ وہ دوسرے کمر ے میں تھا ۔

            آواز سنتے ہی با ہر نکل آیا ۔

            ’’اِسے پہچا نتے ہیں آپ ؟‘‘ حمید نے لا ش کی طرف اشارہ کیا ۔

            ’’کیو ں ؟ ارے !‘‘ جیرالڈ بو کھلا  کر بو لا  ۔’’یہ تو بر نا رڈ  ہے ۔ اسے کیا ہو ا ؟‘‘

            ’’یہ بھی انہیں درندوں میں تھا ۔یہ رہی اس کی کھال اور شاید آپ ہی کی گو لی کا نشا نہ بنا ہے !‘‘

            ’’مگر میں نے دھو  کے میں ما را ۔یہ جرم نہیں ہے میں نہیں جا نتا تھا !‘‘ جیرالڈ کے لہجے میں بد حواسی تھی ۔

            وہ پھر بولا ۔’’کیا یہ سب آدمی ہی ہیں؟اُف ! بر نا رڈ گھر کا بھیدی ۔ شا ید وہ مو رتی کا راز جا نتا تھا !‘‘

            حمید کو ئی جواب دینے کے بجا ئے پھر اپنے کا م میں مشغول ہو گیا ۔اُس نے اندر کی سا ری لا شیں دیکھیں ۔

با ہر کی تینو ں لا  شو ں کا بھی جا ئزہ لیا ۔وہ سب بن ما نس ہی تھے ۔ ان میں سے وایسے بھی تھے جن کے گو لی نہیں لگی تھی لیکن وہ بے جان تھے ۔

20

            دوسرے دن شہر کے گلی کو چو ں میں فو ج کے مسلح دستے گشت کر رہے تھے ۔ اخبار ات نے بہت شو ر مچا یا تھا ۔وجہ یہ تھی کہ یہ جیرالڈ اپنے علمی تجر کی بنا پر ہر طبقے میں احترام کی نظروں  سے دیکھا جا تا تھا ۔اُس کا اس بے دردی سے لَٹ جا نا لو گو ں کی نظروں میں کا فی  اہمیت رکھتا تھا ۔ اخبارات نے حُکّا م سے پُر زوراپیل کی تھی کہ اس پُرسرار ہشت انگیز ی کا سد  باب کر نے کے لئے کو ئی منا سب قدم اٹھا یا جا ئے ۔

            محکمہ سراغ  رسا نی کے دفتر میں آفیسروں کی میٹنگ ہو رہی تھی ۔ حمید ابھی ابھی پچھلی رات کے واقعات دہرا کر بیٹھا تھا کہ آئی ۔جی نے اُس  سے سوال کیا ۔

            ’’اور فر یدی کہا ں ہے ؟‘‘

            ’’میرا خیال ہے کہ وہ ڑتک کے تعا قب میں تھے !‘‘

            ’’اد وقت کہا ں ہے ؟‘‘

            ’’ابھی تک واپسی نہیں ہو ئی !‘‘

            ’’لہا یہ سچ ہے کہ بر نا رڈ  نے تم پر نا جا ئز دبا ؤ ڈال کر کچھ معلوم کر نے کی کو شش کی تھی ؟‘‘

            ’’جی ہا ں درست ہے ۔ وہ مجھ سے لڑ کا ل جنگل کے متعلق معلو م کر نا چا ہتا تھا !‘‘

            ’’لڑکا ل جنگل متعلق کیا  معلو م کرنا  چا ہتا تھا ؟‘‘ جی نے جھنجھلا کر کہا ۔’’جو کچھ  تمہیں معلو م ہے بیان کر جا ؤ!‘‘

            ’’فر یدی صاحب نے وہ بن ما نس گھر پر ہی شکا ر کیا تھا !‘‘

            ’’کیا ؟‘‘ آئی ۔جی کے لہجے میں حیرت  تھی ۔

            ’’جی ہا ں ۔گھر پر ہی لیکن و ہ ایک ہی تھا اۃسے ہما رے کُتّو ں نے گھیر لیا تھا پھر فر یدی صاحب نے اُسے گو لی ما ر دی ۔اسٹا ر کا ضمیمہ اُن کی خواہش کے مطالق شا ئع ہو ا تھا اور لڑکا ل جنگل کی کہا نی اُن کی ہی اُپج تھی !‘‘

            ’’آخر کیو ں ؟ لڑکا ل جنگل کا نا م کیو ں لیا گیا تھا ؟‘‘ آئی ۔جی نے بھو یں سکو ڑ  کر پو چھا۔

            ’’بر نا ر ڈ بھی مجھ سے یہی معلوم کر نا چا ہتا تھا لیکن مجھے اس کا علم ہی نہیں تھا ۔میں اُسے کیا بتا تا !‘‘

            ’’تمہیں اس کا علم نہیں ؟‘‘ آئی ۔جی نے اُسے تیز نظروں سے دیکھتے ہو ئے کہا ۔

            ’’جی نہیں ۔وہ بہتیری  با تیں  مجھے بھی نہیں بتا تے !‘‘

            ’’تم نے اس سے پہلے بھی کبھی بر نا رڈ کو جیرالڈ کے مکا ن  پر  دیکھا تھا ؟‘‘

            ’’جی ہا ں ایک با ر ۔ جب ہم جو زف پیٹر کے معا ملے میں پو چھ گچھ کر نے گئے تھے !‘‘

            تھو ڑی دیر تک خا مو شی  رہی پھر آئی ۔جی نے سوال کیا ۔

            ’’تمہیں فر یدی کی طرف سے کچھ ہدا یا ت  تو ملی ہی ہو ں گی !‘‘

            ’’جی نہیں ۔وہ مجھے اپنی اسکیموں سے بس تھو ڑی  ہی دیر پہلے آگاہ کر تے ہیں ۔ پچھلی رات جب ہم الگ ہو رہے تھے تو انہوں نے مجھ  سے اتنا  ہی کہاتھا کہ میں یہیں ٹھہر و ں !‘‘

            آئی ۔جی جھلا ہٹ میں ڈی ۔ آئی ۔ جی کی  طرف مڑ کر بولا ۔’’بس اِسی بنا پر میں نہیں چا ہتا تھا کہ یہ کیس اُسے سو نپا جا ئے !‘‘

            ’’ہو سکتا ہے کہ اُسے کو ئی حادثہ پیش آگیا ہو !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی نے آہستہ سے کہا ۔

            ’’اگر آیا بھی ہو تو کیاہو سکتا ہے ۔ جب کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ وہ کد ھر جا رہا ہے اور کیا کر نا چا ہتا ہے ۔میں ما نتا ہو ں کہ وہ محکمے میں ذہن ترین آدمی ہے لیکن بے قا عدگی تو نہیں بر داشت کی جا سکتی !‘‘

            ’’اُس کا کہنا ہے کہ اُس کی بے قا عدگی ہی اُسے اصل مجرم تک بہت جلد  پہنچا دیتی ہے !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی نے کہا ۔

            ’’تو آپ اِس رویے کو درست سمجھتے ہیں ؟‘‘ آئی ۔ جی اُسے گھو ر کر بولا ۔

            ’’میرا یہ مطلب  نہیں ۔میں تو یہ عرض کر رہا تھا !‘‘

            ’’کچھ نہیں !‘‘ آئی ۔جی نے اُس کی بات کاٹ دی ۔’’اُسے مجبور کیجئے  کہ وہ اب تک کی با قا عدہ  رپو رٹ پیش کت ے ۔وہ کیلے اس کا م کو کسی طرح انجام نہیں دے  سکتا ۔میں چا ہتا سمجھے آپ !‘‘

            ’’بہت بہتر !‘‘ ڈی ۔آئی ۔جی نے کہا ۔

            ’’میں  بر نا رڈ  کو اس سا زش کا سر غنہ نہیں سمجھتا !‘‘ آئی ۔جی نے تھو ڑی دیر بعد کہا ۔’’ہوسکتا ہے کہ وہ اُس گر وہ کا ایک معمو لی آدمی رہا ہو !‘‘

            ’’لیکن بن ما نس  کا مسٔلہ ؟‘‘ ڈی ۔آئی۔ جی بولا ۔’’جیرالڈ کا بھی یہی بیا ن ہے کہ اُس نے درندے پر تین فا ئر کئے تھے جو مو رتی اُٹھا کر بھا گا تھا لیکن اُس پر کو ئی اثر نہیں ہو ا !‘‘

            ’’میں سمجھتا ہو ں وہ بھی کوئی آدمی ہی تھا !‘‘ آئی ۔جی نے کہا ۔’’اور وہ کھال کے نیچے بَلٹ پر و ف لگا ئے رہا ہو گا !‘‘

            ’’لیکن پھر سوال پیدا ہو تا ہے بر نا رڈ کی کھال کے نیچے سے بُلٹ پر و ف کیو ں نہیں نکلے ۔ظاہر ہے کہ اُس کا مقصد خو د کشی نہ رہا ہو گا ؟‘‘

            ’’سوال غور طلب ہے !‘‘ آئی ۔جی مد بّرا نہ انداز میں سر ہلا کر بولا ۔’’خیر یہ بعد کی بات ہے ۔خود ان بن ما نسوں کا وجو د ایک حیرت انگیز وقو عہ ہے ۔ آج میں اُن سے متعلق ایک ما ہر علم الحیا ت کا بیا ن دیکھ رہا تھا ۔اُس کا کہنا ہے کہ اس رنگ اور قد کے بن ما نس  ابھی تک دُنیا  کے کسی حصے میں نہیں دریا فت ہو سکے اور اُن کی اندونی سا خت میں بھی اُسے کو ئی عجیب با ت نظر آئی ہے جسے وہ سمجھ ہی نہیں سکا ،پھر اُس نے ان درندو ں کے متعلق جنہیں سرے سے گو لیا ں  لگی  ہی تھیں لکھتے ہو ئے اظہا ر خیال کیا ہے کہ ان کی مو تیں ہا رٹ فیل ہو نے کی بنا پر واقع ہو ئی تھیں ۔یہ تو  ان بن ما نسوں کا تذکرہ  تھا جنہو ں نے یو گو سلا  فی سفیر  کے اتا شی پر ڈالا تھا ۔ ادھر جیرالڈ کے یہا ں پا ئے جا نے والے درندوں میں بھی دو ایسی لا شیں ملی ہیں جن کے گو لیاں نہیں لگی تھیں ۔آخر یہ کیسے بن ما نس ہیں جن میں سے کچھ کا ہا رٹ فیل ہو جا تا ہے !‘‘

            کو ئی کچھ نہ بولا ۔آئی ۔جی حمید کی طرف اس انداز سے دیکھنے لگا جیسے وہ اُس سے جواب چا ہتا ہو پھر اُس نے حمید سے کہا ۔

            ’’جا ؤ ۔فر یدی کو تلا ش کر و !‘‘

            ’’بہت بہتر !‘‘ حمید نے کہا اور سر جھکا کر با ہر چلا آیا ۔

            ’’کہا  ں چلے خان ؟‘‘ اُس کے سا تھ رمیش نے اُسے چھیڑا ۔

            ’’بیٹروں کے انڈ ے جمع کر نے !‘‘ حمید آنکھ ما ر کر بولا ۔’’اگر کسی ٹا ئپسٹ گر ل کو سا تھ لے چلو تو تم بھی چل سکتے  ہو !‘‘

            رمیش پا گلو ں کی طر ح  ہنسنے لگا ۔

            حمید نے مو ٹر سا ئیکل نکا لی اور بر نا رڈ کے بنگلے کی طرف  چل پڑا ۔وہ دیکھنا چا ہتا تھا کہ روزا مو جو د ہے یا نہیں ۔بنگلہ مقفل تھا ۔حمید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہا ں جا ئے ۔وہ سارا دن اِدھر اُدھر پھر تا رہا ۔ ایک چکر قاسم کے گھر کی طرف لگا یا تھا اور اُسے یہ معلو م کر کے حیرت ہوئی تھی کہ قا سم ابھی تک لا پتہ ہے ۔

            شام کو آر لکچنومیں رشیدہ سے ملا قات ہو گئی ۔وہ انسپکٹر آصف کو گھِس رہی تھی ۔انور مو جو د نہیں تھا ۔آصف حمید کو دیکھتے ہی اُٹھ گیا ۔

            ’’رات تو تم نے بڑا کمال کیا !‘‘ رشیدہ نے حمید سے کہا ۔

            ’’کو ئی خاص بات نہیں ۔ اس قسم کے کما لا ت میری  زندگی  میں عام ہیں !‘‘

            ’’او نچے اُڑ رہے ہو !‘‘

            ’’کیا آصف نے بِل نہیں ادا کیا ؟‘‘

            ’’اوہ اب وہ بہت کم پسیجتا ہے !‘‘ رشیدہ مسکرا کر بولی ۔’’اور خیر اب تو تم آہی گئے ہو !‘‘

            ’’اس نے کہا کہ مجھے تم سے محبت ہے اور چا ئے کا بِل ادا کر دیا !‘‘ حمید نے اس طر ح کہا جیسے کسی کو نا ول پڑھ کر سنا رہا ہو ۔

            ’’تمہیں اس کے علا وہ اور آتا بھی کیا ہے !‘‘ رشیدہ سر د لہجے میں بو لی ۔

            ’’کیو ں نہیں ۔مجھے بے وقو ف بننا بھی آتا ہے !‘‘

            ’’بر نا رڈ  کی مو ت کے متعلق  تمہا را کیا خیال ہے ؟‘‘ رشیدہ نے پو چھا ۔

            ’’اچھا خیال ہے ۔ خدا تمہیں بھی ایسی ہی مو ت نصیب کر ے !‘‘

            ’’مت بکو !‘‘

            ’’میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ اُس نے کھال کے نیچے کپڑے نہیں پہن رکھے تھے !‘‘

            ’’حمید بد تمیز ی نہیں ۔ورنہ تمہا رے کا ن اُکھا ڑدو ں گی !‘‘

            ’’کا نو ں کے بغیر بھی اچھا لگو ں گا ۔ شا ید اس کے بعد تم مجھ سے شا دی کر سکو !‘‘

            ’’تم بہت بے ہو دے ہو گئے ہو ۔میں فر یدی  صاحب سے تمہا ری شکا یت کر و ں گی !‘‘

            ’’فر یدی صاحب کو بن ما نسو ں نے ما ر ڈالا ۔وہ انہیں اپنی قوم کی ایک لڑ کی  پیش کر کے فر زند ی میں لینا چا ہتے تھے لیکن فر یدی صاحب  نے انکا ر کر دیا ۔انہو ں نے کہا کہ میں کا لی نو س کا منجن استعمال کر تا ہو ں !‘‘

            ’’بکَے جا ؤ پا گلو ں کی طر ح !‘‘ رشیدہ چِڑ کر بو لی ۔

            حمید تھوڑی دیر تک اُسے چھیڑ تا رہا پھر وہا ں سے بھی اٹھ  کر چلا آیا ۔اس کی اکتا ہٹ بڑھتی  جا رہی تھی ۔فر یدی نے اُسے بڑی شدت سے بو ر کیا تھا ۔وہ سو چ  رہا تھا  کہ شا ید اب وہ کئی دن کے لئے غا ئب  ہو گیا ،پھر  سو چا  ممکن ہے اب واپس ہی آگیا ہو ۔ وہ گھر  کی طرف  چل  پڑا ۔رات ہو گئی تھی ۔خلافِ ،معمو ل  کمپا ؤ نڈ  کا پھا ٹک کھلا  ہو اتھا ۔اس نے مو ٹر سا ئیکل  کی رفتار  کم کر دی ۔پھا ٹک  سے گز ر کر سید ھا  گیرا ج  کی طر ف آیا ۔ اسے حیرت تھی کہ آج رکھو ا لی کر نے والے السیشین بھی نہیں بھو نکے پھر اُسے ایک عجیب قسم کی بُو کا احساس ہو ا اور اس کے نتھنو ں میں  اند ھیرا کیو ں کر رکھا ہے ۔ اُس نے مو ٹر سا ئیکل وہیں  چھو ڑ دی  اور نو کرو ں کے نا م  لے لے کر دہا  ڑ تا  ہو ا بر آمد ے کی طر ف  بڑھا ۔

            ’’کیا ہو گیا ہے ان کم بختو ں کو ۔ کو ئی بو لتا  ہی نہیں !‘‘ وہ بڑ بڑاتا ہو ا بر آمد  ے میں داخل ہو ا پھر دروازے کے قر یب سو ئچ ٹٹول رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اُس  کی گر دن  پکڑ لی ۔حمید نے پلٹنا چا ہا لیکن گر فت مضبوط ہوگئی ۔اس نے کو شش کی کہ حملہ آور کو پیٹھ پر لا د کر پٹخ دے لیکن دوسرے ہی  لمحے میں اُس کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔حملہ آور کے ہا تھ بڑے اور گھنے با لو ں سے ڈھکے ہو ئے تھے ۔ بر آمد  ے میں پھیلی ہو ئی تا ریکی اور زیا دہ گہری ہو گئی ۔

21

        حمید کو ہو ش آیا تو اُس  نے ایسا محسوس کیا جیسے وہ ڈوب رہا ہو ۔اُس  نے گھبرا کر آنکھیں کھو ل دیں ۔ چا روں طر ف پیلا ہٹ نظر آرہی تھی ۔کسی آبی جا نو ر کا تا ریک سا یہ اُس کا تعاقب کر رہا تھا ۔اُس  کے حلق  سے پھر ایک گُھٹی گُھٹی سی چیخ نکلی ۔

            اُس نے ہا تھ پیر  ما رنے شروع  کر دیئے ۔دفعتہً  آبی جا نو ر اُس پر جھکا ۔حمید نے پھر چیخ ما ری اور اُچھل کر ایک طر ف ہٹ گیا ۔ تا ریک سا ئے نے اُسے پکڑ کر پھر تہہ میں گرا دیا ۔

            حمید کو پو ری طرح ہو ش  آگیا۔ کو ئی آدمی اُسے دبو چے ہو ئے تڑپنے پھڑ کنے سے روک رہا تھا ۔

            ’’کو ن ہو تم ؟‘‘ حمید  حلق کے بَل چیخا ۔

            ’’میں ہو ں پیا رے ۔تمہیں یہ کیا  ہو گیا ہے !‘‘ اُس نے جواب دیا اور حمید ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا ۔

            ’’آپ ؟‘‘ وہ آنکھیں مَل کر فر یدی کی طرف دیکھنے لگا ۔

            ’’کتنی با ر پو چھو گے !‘‘ فر یدی  کے ہو نٹو ں پر مسکرا ہٹ تھی ۔

            ’’آخر اس مذاق کا کیا مطلب ؟‘‘

            ’’میں  نہیں  جا نتا کہ تمہا رے  سا تھ کس قسم کا مذاق  کیا گیا  ہے !‘‘

            حمید بو کھلا  کر  چا روں طر ف  دیکھنے لگا ۔ وہ اپنے گھر  کے کسی کمرے  میں نہیں تھے اور یہ کمرہ  بھی عجیب ہی تھا جس میں نہ کو ئی دروازہ  تھا  اور نہ کھڑ کی اور گھٹن کا احسا س  قطعی نہیں تھا ۔ ہوا  کے سا تھ ہی ایک وعجیب قسم کی خنکی بھی مو جو د تھی ۔

            ’’ہم کہا ں ہیں ؟‘‘ حمید ، فر یدی  کو گھو  ر کر بو لا ۔

            ’’قبر میں !‘‘ فر یدی سگا  ر سلگا کر بولا ۔

            حمید اپنا سَر پیٹنے لگا ۔جب اچھی طرح پیٹ چکا تو گلو  گیر  آواز میں کہنے لگا ۔’’مجھے خدا سے شکو ہ ہے کہ اُس نے ہمیں قبر میں ابھی اکٹھا  کر دیا !‘‘

            ’’یہ  تو بڑی اچھی با ت ہے !‘‘ فر یدی گھڑی  کی طرف دیکھتا ہو ا بولا ۔’’اب تو سو جا ؤ ابھی را ت ہے !‘‘

            ’’آخر ہم ہیں کہا ں ؟‘‘ حمید جھنجھلا  کر بو لا ۔

            ’’مجھے خو د بھی معلو م او ر نہ میں ان لو گو ں کو پہنچا نتا  ہو ں جن سے سا بقہ ہے !‘‘

            ’’آپ یہا ں پہنچے کس طر ح ؟‘‘

            ’’یہ ایک دُکھ بھر ی داستان  ہے !‘‘ فر یدی سگا ر کا کش  لے کر بولا ۔’’ شا ید میں زندگی میں پہلی با ر اس طرح بے وقو ف بنا ہو ں ۔میں تمہیں روانہ  کر کے اُس  ٹر ک کے پچھلے حصے میں چھُپ  گیا تھا ۔مجھے تو قع  تھی کی یہ ٹرک  پھر  لڑکال جنگل  کی طر ف  واپس  جا ئے گا ۔ میں اپنی  دانست  میں ایک بڑا کا ر نا مہ انجا م دینے جا رہا تھا  لیکن  وقت مجھ پر قہقہے لگا رہا تھا ۔میں نہیں جا نتا کہ ڈرائیو ر کی سیٹ پر بیٹھا ہو ا درندہ  میری مو جو د گی  سے واقف تھا یا نہیں لیکن اچا نک میں نے اشک آور گیس  کی بو محسوس  کی ۔ ٹرک بڑی تیز رفتا ر ی سے جا رہا تھا  اس لئے کو د پڑنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا  تھا ۔ تھو ڑی دیر بعد  میں بُری طرح کھا نسنے لگا ۔ اس کے بعد مجھے کچھ  یا د نہیں ۔آنکھ کھلی تو  یہا ں تھا ۔ابھی تک مجھے کو ئی خاص  تکلیف  نہیں ہو ئی ۔سب لو گ نہا یت با اخلا ق  اور شریف ہیں !‘‘

            ’’شا ید  ہم کسی  بہت بڑے ریفر یجر یٹر میں بند ہیں !‘‘ حمید بولا ۔

            اُس کے بعد اس نے بھی وہ سب کچھ دہرا دی جو اُس پر گزری تھی ۔ جیرالڈ کے لُٹ  جا نے کا واقعہ بھی بتا یا ۔بر نا رڈ کی مو ت کے متعلق معلوم کر کے فر یدی کی پیشا نی پر شکنیں اُبھر آئیں ۔

            ’’تو اس کا یہ مطلب کہ جیرالڈ سچ مچ ان معاملا ت سے کو ئی سرو کا ر  نہیں رکھتا !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

            ’’میراتو یہی   خیال ہے ۔ بر نا رڈ  شا ید اُسے لو ٹنے ہی کی فکر میں تھا ۔بعض اوقات ہم ظا ہری  اتفا قات کی بنا پر دھو کا کھا جا تے ہیں ۔اب پر و فیسر جھو س(پر و فیسر جھو س کی کہا نی کے لئے ’’چیختے در یچے ‘‘ جا سو سی ادب کی جلد 20ملا  حظہ فر ما ئیں ۔) ہی والے معا ملے کو لے لیجئے ۔میں تو اُسے  سو فی  صدسا زش  سمجھتا تھا !‘‘

            ’’ہا ں        آں !‘‘ فر یدی کچھ سو چتا  ہو ا بولا ۔’’لیکن !‘‘

            ’’اس نے آگے کچھ نہیں کہا ۔حمید  اُسے طلب  نظروں سے گھور رہا  تھا ۔تھو ڑی دیر بعد فر یدی بولا ۔

            ’’ایک چیز مجھے الجھن میں ڈال رہی ہے ۔ آخر بر نا رڈ  کی کھال کے نیچے بُلٹ پر وف کیو ں نہیں ملے ؟‘‘

            ’’یہ با ت ضرور قا بل غور ہے ۔آفس  کی میٹنگ میں بھی یہ مسٔلہ اٹھا یا  گیا تھا !‘‘

            کچھ دیر خا مو شی  رہی پھر حمید نے کہا ۔’’غا لباً ہم کس ز میں دوز عما رت  میں ہیں !‘‘

            ’’اس جگہ کی سا خت  تو یہی بتا تی ہے !‘‘

            ’’تعجب ہے کہ کسی  طر ف کو ئی  راستہ نہیں ہے !‘‘ حمید بولا ۔

            ’’را ستہ تو ہے لیکن افسوس ہے کہ اندر سے را ستہ بنا نے کا کو ئی ذریعہ نہیں !‘‘

            ’’میں نہیں سمجھا !‘‘

            ’’وہ جب چا ہتے  ہیں سا منے والی دیو ا ر ہٹ جا تی ہے !‘‘

            حمید اُس طر ف دیکھنے لگا جد ھر فر یدی نے اشا رہ کیا تھا ۔

            دفعتہً ایک عجیب آواز کے سا تھ  دیوا ر ایک طر ف  کھسک  گئی ۔سا منے اُسی  قسم کا ایک دوسرا کمرہ دکھا ئی دیا ۔

            ’’کمال ہے !‘‘ حمید بڑ بڑایا ۔’’ایسا معلو م ہو تا ہے جیسے ایک دیوار کو  دوسری دیوار نگل گئی ہو !‘‘

            وہ کچھ اور بھی  کہنا  چا ہتا  تھا کہ دفعتہً اُس کی زبا ن بند ہو گئی ۔

            سا منے جیرالڈ شا ستری  کھڑا اپنے پُر سکو ن انداز  میں مسکرا رہا تھا ۔حمید  نے فر یدی کی طرف  دیکھا اُس کے ہو نٹو ں پر  بھی ایک شرا رت  آمیز مسکرا ہٹ تھی ۔

            ’’میرا سا تھی ابھی تمہا ری صفا ئی پیش  کر رہا تھا !‘‘ فر یدی ہنس کر بولا ۔

            ’’لیکن تمہیں یقین نہیں آیا  تھا !‘‘ جیرالڈ نے کہا ۔

            ’’قطعی نہیں !‘‘

            ’’میں عر صے سے تمہا ری ذہا نت کا معتر ف ہو ں !‘‘

            فر یدی نے بڑی لا پر وا ئی سے بجھا  ہو ا سگا یا اور حمید کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ وہ کیا کر ے ۔کچھ دیر تک خا مو شی رہی پھر جیرالڈ نے کہا ۔

            ’’تمہیں  لڑکا ل جنگل کا علم کیو نکر ہو ا تھا ۔کیا عر فا نی نے بتا یا تھا ؟‘‘

            ’’نہیں لیکن تم لو گ عر فا نی کے یہا ں  کیا چیز تلا ش  کر رہے تھے ؟‘‘

            ’’ایک ایسی چیز جو ایک غدار کے ذریعے عر فا نی تک پہنچی   تھی ہما را خیا ل تھا کہ وہ  کو ئی ایسی چیز جو ہم سے متعلق ہو !‘‘

            ’’لیکن تم اُس  چیز  کی نو عیت سے واقف نہیں تھے ؟‘‘ فر یدی نے پو چھا ۔

            ’’نہیں !‘‘

            ’’لیکن  میں واقف  تھا !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

            ’’تمہیں  عر فا نی نے بتا یا  ہو گا !‘‘

            ’’نہیں ۔عر فا نی خود بھی اس معمے کو حل نہیں کر سکے تھے مگر انہو ں نے جس  دن اپنے لئے بہت زیا دہ خطر ہ محسوس کیا ، میرے لئے اُسے محفوظ کر ا دیا !‘‘

            ’’کیا چیز تھی ؟‘‘

            ’’کیا تم یقین کر و گے ؟‘‘ فر یدی مسکرا کر بولا ۔

            ’’بتا ؤ میں غور سے سن رہا  ہو ں !‘‘

            ’’تعلیمی تا ش  کے دو پّتے  جن پر حروف ’’ل‘‘ تھے ۔ ایک کی پشت پر ایک لڑ کے کی تصویر تھی اور دوسرے کی پشت پر دو فوجو ں کی لڑ ائی کا منظر تھا !‘‘

            ’’بس ؟‘‘ جیرالڈ حیرت سے بولا ۔

            ’’اور اُن دونوں تا شو ں سے بنا لڑکال جنگل !‘‘

            ’’بنا ہو گا !‘‘ جیرالڈ لا پر وائی سے بولا ۔’’میں کچھ اور سمجھا تھا ۔ محض لڑکا ل جنگل کا نا م معلو م کر لینے کی بنا پر تم یہا ں تک نہیں پہنچ  سکتے تھے !‘‘

            ’’شا ید میں یہیں مو جو د ہو ں !‘‘ فریدی طنز آمیز لہجے میں بولا ۔

            ’’لیکن تم یہا ں لا ئے گئے ہو !‘‘

            ’’اگر تمہا را  وہ بن  ما نس ہو شیا ر نہ ہو تا تو میں خود ہی پہنچ  گیا تھا !‘‘

            ’’ہم نے شروع ہی سے پر گہری نظر رکھی تھی !‘‘ شا ستری مسکرا یا ۔

            ’’میں بھی یہی کچھ  محسو س  کر نے لگا تھا ۔ اگر اچا نک اس طرح نہ پھنستا  تو میرے ذہن میں دوسری ہی تدبیر یں تھیں !‘‘

            ’’ہو ں اور اب تم نے کیا سو چا ہے ؟‘‘ جیرالڈ نے تضحیک  آمیز لہجے میں پو چھا ۔

            ’’یہی کہ اس گر وہ کا خا تمہ کر نا پڑے گا !‘‘ فر یدی لا پر وائی سے بولا ۔

            ’’میں  تمہا ری دلیری کی بھی قدر کر تا ہو ں !‘‘ جیرالڈ  نے نرم  لہجے میں کہا ۔’’ میں نے شجا عت اور ذہا نت کو ایک سا تھ بہت کم دیکھا ہے !‘‘

            ’’شکر یہ ۔ میں اس تعریف کے صلے میں تمہا ری قبر پر پھو ل ضرور چڑھا ؤں گا !‘‘

            جیرالڈ ہنسنے لگا ۔

            حمید کو اب پھر اُس کا چہرہ پہلے ہی کی طر ح خو فنا ک معلو م ہو رہا  تھا ۔

            ’’اوہ !‘‘ جیرالڈ نے حمید  کو مخا طب کر کے کہا ۔’’تمہا رے کند ھے پر چو ہیا چل رہی ہے !‘‘

            ’’ظا ہر ہے کہ اگر وہ ہا تھی ہو تا تو میں کچل گیا ہو تا !‘‘ حمید نے ہنس  کر کہا ۔’’لیکن آپ نے آخر میری عزت افزائی  کیو ں فر ما ئی ۔میں تو دنیا  کا ڈیو ٹ تر ین  آدمی ہو ں !‘‘

            ’’میں ایسا نہیں سمجھتا ۔میں تمہا ری بھی قدر کر تا ہو ں !‘‘

            ’’اچھا ذرا یہ تو بتا یئے کہ میری مو ت کب آئے گی ؟‘‘ حمید نے اس کی طرف اپنا بڑھا تے ہو ئے کہا ۔

            ’’تم دو نو ں کی زندگی مشروط  ہے !‘‘

            ’’اوہ یہ با ت  بھی ہے !‘‘ فر یدی نے کہا  ۔وہ اُسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا ۔

            ’’تمہا ری بے حیا ئی پر مجھے حیرت ہے !‘‘جیرالڈ بولا ۔’’تم ،جسے میں عظیم ترین فر یدی کہتا ہو ں ،تم ان لو گو ں کے لئے جا ن دیتے ہو جو تم پراعتماد نہیں کر تے ۔ میری ایک ذراسی شکا یت پر تمہا را  مخصوص اجا زت نا مہ منسو خ ہو گیا  بلکہ ایک طرح سے تم بے کا ر بھی کر دیئے گئے !‘‘

            ’’ہو ں۔تو پھر ؟‘‘

            ’’عزت ، شہرت ، دولت تمہیں میرے ہی دکھا ئے ہو ئے راستے پر ملے گی ۔ہم اس بات میں   یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں صرف انہیں زندہ رہنے کا حق ہے جو ہر لحا ظ سے طا قتور ہو ں !‘‘

            ’’خیال بُرا نہیں پھر ؟‘‘

            ’’پھر یہ کہ تم عقل مند ہو ۔تمہیں ہما رے سا تھ سب کچھ ملے گا  ۔ میں نے دنیا کے بہترین دما غ اکٹھے کئے ہیں اور وہ دنیا کے کونے کو نے میں پھیلے ہو ئے ہیں ۔بس ایک اشا رے کی ضرورت ہے ۔اُس کے بعد سا ری دنیا پر ہما ری حکومت  ہو جا ئے گی!‘‘

            ’’شیخ چلّی کو انگریز ی میں کیا کہتے ہیں ؟‘‘ حمید نے فر یدی کی طرف مڑ کر بڑی سنجیدگی سے پو چھا ۔

            ’’تم جھو ٹ سمجھتے ہو ؟‘‘ جیرالڈ یک بیک بگڑ گیا ۔’’کیا یہ بن ما نس تمہاری  اوندھی  پڑی کے لئے حیرت انگیز نہیں ۔لا ؤ ۔دنیا کے کسی گو شے سے ایک ہی لا ؤ لا سکو گے ؟‘‘

            ’’نہیں شا ستری ۔وہ یقیناً حیرت انگیز ہیں ۔حمید احمق ہے !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

            ’’اگر تم ان کی پیدا وار کا طر یقہ دیکھو تو عَش کر اُٹھو  گے !‘‘ جیرالڈ نے کہا ۔

            ’’وہ عمل جوار تقا کےذریعے صد ہا برس میں ہو تا ہے اُسے ہم چند ہی گھنٹوں میں کر لیتے ہیں ۔چند گھنٹو ں میں صد ہا  سال آگے جَست!‘‘

            ’’وہ کس طرح ؟‘‘

            ’’سب دیکھ لو گے !‘‘ جیرالڈ مسکرا کر بولا ۔’’اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم یہا ں سے خود تا قیا مت نہیں نکل سکو گے جب تک کہ میں نہ چا ہو ں ۔انسا نی زندگی کی میری نظروں میں کو ئی وقعت نہیں ۔تم نے دیکھا جو زف ،اُس کی بیو ی اور بر نا رڈ  کتنی آسانی سے مر گئے!‘‘

            ’’میں نے سب کچھ دیکھا اور سمجھا ہے !‘‘ فر یدی نے سنجید گی سے کہا ۔’’بر نا رڈ کی موت حالانکہ میرے سا منے نہیں واقع ہو ئی لیکن میں اس کا طریقہ بھی سمجھ گیا ہو ں !‘‘

            ’’کیا ؟‘‘

            ’’بر نا رڈ ،بن ما نس کی اُس ٹولی میں نہیں تھا جو لڑکا ل جنگل سے روانہ ہو ئی تھی !‘‘ فر یدی سگا ر کا کش لے کر کچھ سو چتا ہو ا بولا ۔’’تم اُسے اس لئے ختم کر نا چا ہتے تھے کہ اُس سے حمید کے معا ملے میں ایک حما قت سر زد ہو ئی تھی لیکن اگر وہ نہ بھی سر زد ہو ئی ہو تی تو بر نارڈ کے خلا ف میرے پاس کافی مواد مو جود تھا ۔ پمیلیا کی موت اُسی کے ہا تھو ں واقع ہو ئی تھی ۔میں نے اُسے اس  کی ران میں زہر یلی سو ئی چجھا تے دیکھا تھا ۔ بہر حال تم نے کل رات بر نارڈ کو پہلے ہی سے اپنے پاس روک رکھا تھا اور کسی بہا نے سے اُسے بن ما نس کی کھا ل پہنا دی تھی جیسے ہی تمہا ری اسکیم کے مطا بق دوسرے بن مانس تمہا رے مکان میں داخل ہو ئے تم نے بر نارڈ کو گو لی ما ردی ۔

اس طر ح  اس کا  قصہ بھی پا ک ہو گیا  اور دوسری طرف تم نے پو لیس  کی نظروں میں اپنی پو زشن بھی صاف کر دی لیکن تم ذرا سا چوک گئے ۔ اگر اُسے بھی کھال کے نیچے بُلٹ پر وف اس طرح پہنا دیتے کہ جسم پر کو ئی جگہ  خالی رہ جا تی تو  اس جرم  پر بھی پر دہ پڑ سکتا تھا !‘‘

            ’’خوب !‘‘ جیرالڈ مسکرا کر بولا ۔’’میں ایک با ر پھر تمہا ری ذہا نت کی تعریف کر تا ہوں !‘‘

            ’’لیکن میں ایک با ت ابھی تک نہیں سمجھ سکا ہو ں کہ تمہا رے کچھ بن ما نس خو د بخو د کیوں مر جا تے ہیں ؟‘‘

            ’’یہ با ت اُس وقت تک تمہا ری سمجھ میں نہیں آئے گی جب تک کہ عملی نمونہ پیش نہ کیا جا ئے !‘‘ جیرالڈ بولا ۔’’فر یدی ہم لو گ  ایجادات اور اخترا عات  کے معا ملے میں مو جو د ہ دور سے صدیو ں آگے نکل گئے ۔ہمارے پا س ایسے آلا ت  ہیں جنہیں صحیح  معنی  میں نیا  کہا  جا سکتا ہے ۔ ایٹمی  توا نا ئی (atomic energy) کی در یا فت اور اس کے استعما ل کو دنیا کا سب سے بڑا  کا ر نا مہ  کہا جا سکتا ہے لیکن کیا تم اُسے جد ید  کہہ سکتے ہو ۔ کیا یہ خیال نیا ہے میرے دوست ؟اس خیال نے حضرت عیسٰی سے پہلے بھی جنم لیا تھا کیا اِمپٹے ڈوکلس کے ذرّاتی نظر یہ کا ئنا ت میں مو جو د ہ  ایٹمی در یا فت کی جڑ یں نہیں ملتیں لیکن ہم اپنے مطا لعے میں جدید ترین ہیں ۔ہم نے قو تِ حیا ت و نمو پر قا بو پا لیا ہے ۔مسٹر حمید کے کا ند ھو ں پر رینگتی  ہو ئی چو ہیا منٹو ں میں خر گو ش کے برابر  ہو سکتی ہے !‘‘

            ’’اوہ !‘‘ فر یدی  حیرت سے اپنے ہو نٹ سکو ڑ کر رہ گیا ۔

            ’’ہما رے پا س ایک  نہیں در جنوں ایسی ایجا دات ہیں !‘‘ جیرالڈ نے کہا ۔’’دور کیوں جا ؤ ۔اسی کمرے کو لے لو جس میں تم  مقیم ہو ۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ تم کسی زمین دوز کمرے میں بیٹھے  ہو ۔ یہا ں نہ کو ئی کھڑ کی  ہے اور نہ کو ئی روشند ان پھر بھی تمہیں گھٹن  نہیں محسوس ہو تی ۔ان زمین دوز عما رتو ں کا سلسلہ  دو میل کے رقبے  میں پھیلا ہو ا ہے ۔

یہا ں کیا نہیں ہے !‘‘

            ’’تمہا را گر وہ ہما رے ملک میں کب سے کا م کر رہا ہے ؟‘‘ فر یدی نے پوچھا ۔

            ’’آج کی بات نہیں ہے ۔ ہم نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی سے اپنا ہیڈ کو ارٹر قائم کر لیا تھا !‘‘

            ’’اور مقصد  کیا ہے ؟‘‘فر یدی نے پو چھا ۔

            ’’سا ری دنیا پر حکو مت ۔کمزور وں کو قوی تر ین  آدمیو ں کے زیر نگیں لا نا ۔جمہو ریت کو ہم رینگتے ہو ئے کیڑوں کا نظام سمجھتے ہیں !‘‘

            ’’با لکل ٹھیک سمجھتے ہیں آپ !‘‘ حمید سنجید گی سے بولا ۔’’میں بھی یہی سمجھتا ہو ں !‘‘

            ’’جب تم بھی یہی سمجھتے ہو تو ہما ری تحریک سے تمہیں پو ری پو ری ہمدردی ہو نی چا ہئے !‘‘

            ’’میں نہا یت سنجید گی سے آپ کی تحریک کی حما یت  کر تا ہو ں !‘‘

            ’’کیا بکتے ہو !‘‘ فر یدی نے اُسے ڈانٹا۔

            ’’تمیز سے  فر یدی صاحب ۔ورنہ سر تو ڑدوں  گا !‘‘ حمید اپنی آستین چڑھا تا ہو ا بولا ۔

            ’’ہو ش  میں ہو یا نہیں !‘‘ فر یدی کو اچا نک غصہ آگیا ۔

            ’’میں پو ری طرح ہو ش میں ہو ں ۔تم اپنی خبر لو !‘‘ حمید نے کہا ۔’’آج پہلی با ر مجھے ایک صحیح آدمی ملا ہے ۔تم نے مجھے کیا دیا ہے ۔ہمیشہ میری تر قیا ں ر کو ا تے رہے ۔آج تک میری شا دی نہ ہو نے دی وغیرہ وغیرہ !‘‘

            ’’اوہو !لڑ نے کی ضرورت  نہیں !‘‘ جیرالڈ اُن کے درمیا ن میں آگیا پھر وہ حمید کا  ہا تھ پکڑ کر بولا ۔’’سا ر جنٹ تمہیں آرام کی ضرورت ہے ۔میرے سا تھ چلو اور فر یدی میں تمہیں سو چنے کا مو قع دیتا ہو ں ۔شروع ہی سے تم میری نظروں میں تھے اور میں کسی منا سب مو قع کی تلا ش میں تھا ، اگر میں تمہیں ختم کر نا چا ہتا تو ہی شہر ہی کی سڑک پر یہ نیک کا م انجا م پا جا تا !‘‘

            ’’میرے خیال سے اِسے ختم ہی کر دیجئے !‘‘ حمید بولا  ۔’’اس سے زیا دہ ہٹ دھرم آدمی آج تک میری نظروں سے نہیں گز ر ا!‘‘

            جیرالڈ کچھ کہے بغیر حمید کوسا تھ لے کر چلا گیا ۔ کمرے کی حد ود سے نکلتے ہی پھر دیوار کھر کھراتی ہو ئی اپنی جگی پر آگئی۔

22

       آج شا ید زندگی میں پہلی با ر حمید ،فر یدی کے سا تھ اتنی گستا خی سے پیش آیا تھا ۔مزا حاً بھی کبھی اُس نے اتنی بے تکلفی کا مظا ہر نہیں کیا تھا ۔وہ فر یدی کو چھیڑ تا بھی رہتا تھا مگر اُسی انداز میں جیسے اکثر شر یر بچے بز رگو ں سے خوش فعلیاں کرتے ہیں مگر آج اُس  کا انداز کچھ اور ہی تھا ۔ وہ ضرور ت سے زیا دہ گستا خ نظر آرہا تھا ۔

            بہر حال آج فر یدی حمید کے اس رویے پر سنجیدگی سے غور کر رہا تھا ۔اس سے قبل اس نے ہمیشہ اس کی حرکتو ں کو کسی شر یر بچے کی  حر کتو ں سے زیا دہ اہمیت نہ دی تھی اور نہ اُسے آج کو ئی ایسا مو قع ہی یا د آرہا تھا جب حمید نے اۃس سے اتنی سر د مہری اور بے وفا ئی کا بر تا ؤ کیا ہو ۔ اس کے رویے سے ہمیشہ یہی معلوم ہو تا تھا جیسے وہاۃس سے چمٹا ہوا اس کی قبر تک مین کو د جا ئے گا ۔ کیا وہ  سچ  مچ جیرالڈ سے اتنا ہی مر عوب ہو گیا کہ اس کی مختصر سی چکنی چپڑ ی گفتگو نے اُسے پھسلا لیا ۔حمید نے انتہا ئی خطر ناک مواقع پر بھی اُس کا سا تھ نہیں چھوڑاتھا اوراکثر خود کو موت کے منہ میں ڈال کر اُس کی جان بچا ئی تھی پھر یک بیک اُسے کیا ہو گیا ۔

            فر یدی نے ایک سگا ر سگا یا اور بے چینی سے ٹہلنے لگا ۔آج شاید زندگی میں پہلی بار وہ رنجیدہ نظر آرہا تھا۔

***

            سر جنٹحمید نے چار وں طرف نظریں دوڑ ائیں ۔یہ کمرہ بھی ویسا ہی تھا لیکن اس کا سا زوسامان ذرا شاہا نہ قسم کا تھا ۔

            ’’میں پہلی ہی ملا قات میں آپ سے بہت زیادہ متا ثر ہوا تھا !‘‘ حمید نے جیرالڈ سے کہا جو ایک گلاس میں شراب انڈیل رہا تھا ۔

            ’’تم مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہے ہو میرے دوست !‘‘ وہ حمید کی طرف مڑ کر بولا۔

            ’’دیکھئے جناب!‘‘ حمید تیز لہجے میں بولا ۔’’میں  ایسے آدمیوں پر لعنت بھیجتا ہوں جو میری نیک نیتی پر شبہ کریں ۔فریدی سے میں عر صہ سے نفرت کر تا تھا اور مجھے کسی مناسب موقع کی تلاش تھی ۔ اتفاق سے آج وہ میرے ہاتھ آگیا!‘‘

            ’’تم فر یدی سے نفرت کیوں کر تے تھے ؟‘‘

            ’’محض اس لئے کہ وہ مجھ پر اعتماد نہیں کر تا تھا ۔ پہلے سے  کبھی اپنی کو ئی اسکیم نہیں بتا تا تھا ۔اس کا کیا مطلب ہوا ۔یہی نا کہ اُسے مجھ پر اعتماد نہیں تھا ۔ اب کل رات ہی کا معا ملہ لے لیجئے ۔ہم دونوں سا تھ ہی چلے تھے لیکن وہ بن ما نسوں کو آپ کے مکا ن  میں دا خل ہو تے دیکھ کر کچھ کہے سنے بغیر مجھ سے الگ ہو گیا !‘‘

            ’’اچھا دوست میں تمہیں آزما لو ں گا !‘‘ جیرالڈ ہنس کر بولا ۔

            ’’جس وقت دل چا ہے !‘‘

            ’’کیا تم فر یدی کو اپنے ہا تھ سے قتل کر سکو گے؟‘‘

            ’’جب کہئے تب میں اُس کی بو ٹیاں نو چنا چا ہتا ہو ں ۔اُسی کی بدولت میں اب تک مو چی کا مو چی رہا !‘‘

            ’’خیرشراب پیو گے ؟‘‘

            ’’میں شراب نہیں پیتا!‘‘

            ’’کیا تم فر یدی  کو سمجھا کر راہِ راست پر نہیں لا سکتے ؟‘‘

            ’’نا ممکن ہے جنا ب ۔وہ مر جا ئے گا لیکن آپ کی بات نہیں ما نے گا !‘‘

            ’’اور اگر میں منوا لو ں تو ؟‘‘

             ’’میں اِسے دنیا کا عظیم ترین کا ر نا مہ سمجھوں گا !‘‘ حمید نے سنجید گی  سے کہا ۔

            ’’اچھا تو تم اس معا ملے  میں بھی میری قو ت کا انداز ہ لگا سکو گے !‘‘ جیر الڈ نے ہنس کر کہا ۔

23

            دوسری  صبح فر یدی  کو ایک بہت بڑے کمرے میں لے جا یا گیا ۔ اُسے کمرے کے علا وہ  اور کیا کہا  جا سکتا تھا ۔اُس کی سا خت بھی ویسی ہی تھی جیسی اُس کمرے کی تھی جس میں فر یدی دور اتیں بسر کر چکا تھا ۔بہر حال اُسے کمرہ ہی کہا جا سکتا تھا خواہ اس کی لمبائی اور چو ڑائی ایک فر لا نگ  ہی کیو ں نہ رہی ہو ۔یہاں بڑی بڑی دیو پیکر مشینیں نصب تھیں اور یہاں کی دیو ار یں دروازوں سے محروم نہیں تھیں ۔

            جیرالڈ کچھ سا تھیوں سمیت وہاں پہلے ہی سے مو جو د تھا لیکن  اُن میں حمید نہیں تھا ۔ جیرالڈ نے بڑے تپا ک کے سا تھ فر یدی کا خیر مقدم کیا۔

            اچا نک فر یدی کی نظر ایک ایسے آدمی پر پڑی جسے وہا ں دیکھ کر اُسے بڑی حیرت ہو ئی ۔وہ گر انڈیل احمق قاسم تھا ۔شاید قاسم خود بھی فر یدی کو دیکھ کر متحیر تھا ۔

            وہ جھپٹتا ہو ا فر یدی کے پا س پہنچا ۔جیرالڈ شا ید اپنے آدمی کو کسی قسم کی ہدا یت دینے میں مشغول ہو گیا تھا

            ’’فف ری دی صاحب !‘‘ قاسم ہکلا یا ۔

            ’’تم یہاں کیسے ؟‘‘

            ’’جو تشی صاحب مجھے یہاں لا ئے ہیں ۔بہت اچھے آدمی ہیں ۔میرے بہت بڑے ہمدرد!‘‘

            ’’ہمدرد!وہ کس طرح؟‘‘

            ’’جی !‘‘ قاسم اپنی انگلی مر وڑ تا ہو ا شر ما کر بولا ۔’’انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میرے لئے ایک بہت تگڑی سی عورت بنا دیں گے ۔میرے ہی ڈیل ڈول والی !‘‘

            ’’جی ہا ں اور کیا ۔وہ ڈیڑھ فُٹ اونچے معمولی بندر کو بن ما نس بنا دیتے ہیں !‘‘

            ’’اوہ !‘‘ فریدی کسی سوچ میں پڑگیا ۔

            ’’یہاں بہت سی لڑکیا ں ہیں !‘‘ قاسم راز دارانہ لہجے میں بولا  ۔

            ’’تمہیں یہاں تک پہنچنے کا راستہ یا د ہے ؟‘‘

            ’’نہیں تو میں نے انہیں اپنی دکھ بھری داستان سنا ئی تھی اس پر انہوں نے اپنی روحانی طا قت سے مجھے یہاں بلا لیا!‘‘

            ’’روحانی طاقت سے ؟‘‘

            ’’جی ہا ں ۔میں اپنے ایک ملنے والے مسٹر بر نا رڈ کے یہاں چا ئے پی رہا تھا جب آنکھ کھلی تو میں نے خود کو یہاں دیکھا ۔جو تشی صاحب نے مسٹر بر نا رڈ لی لڑکی روزا کو بھی یہیں بلا لیا ہے ۔وہ اُسے میرے لئے تگڑی بنا دیں گے !‘‘

            ’’حمید سے ملا قات ہو ئی ؟‘‘

            ’’ہا ئیں ۔کیا وہ بھی آئے ہیں ؟‘‘

            ’’ہا ں !‘‘

            ’’اچھا تو ٹھیک ہے مزہ رہے گا !‘‘

            جیرالڈ اُن کی طرف آرہا تھا ۔

            ’’کیا آپ لو گ ایک دوسرے سے واقف ہیں ؟‘‘ اُس نے فر یدی نے پو چھا ۔

            ’’ہا ں میں انہیں جا نتا ہوں !‘‘ فر یدی نے خشک لہجے میں کہا ۔

            ’’ہا ں حمید بھا ئی !‘‘ قاسم لہک کر حمید کی طرف دوڑا جو ایک دروازے سے داخل ہو رہا تھا ۔

            ’’میں اس کی قوت سے متاثر ہو ا ہو ں !‘‘ جیرالڈ ،فر یدی سے کہہ رہا تھا ۔

            ’’یہ میرے بن ما نس  کی رہنما ئی  کر نے کے قا بل ہے !‘‘

            فر یدی کچھ نہ بولا ۔وہ حمید کو گھو ر رہا تھا اور حمید اُسے گھو ر رہا تھا ۔

            اتنے میں جیرالڈ کے آدمی دو لنگڑے آدمیوں  کو وہا ں لے آئے ۔ان دونو ں کی ظاہری  حالت کہہ رہی تھی کہ وہ شہر کت فٹ پا تھ پر بھیک ما نگتے  رہے ہوں گے ۔

            پھر انہیں ایک مشین کے بہت بڑے رولر میں ڈال دیا گیا جو اندر سے کھو کھلا تھا اور جب اُس کا دروازہ بند کیا جا رہا تھا تو فریدی بے اختیا ر چیخ پڑا ۔’’یہ کیا کر نے کا رہے ہو تم ؟‘‘

            ’’کچھ نہیں بس دیکھتے جا ؤ!‘‘ جیرالڈ  مسکرا یا ۔’’یہ صحت مند ہو کر نکلیں گے ‘‘ پھر ایک دوسری مشین کا رولر کھولا گیا ۔ یہ رولر آڑالگا ہو نے کے بجا ئے سیدھا  کھڑا ہو ا تھا اور اس کا قطر چا لیس  فیٹ سے کسی طرح کم نہ رہا ہو گا ۔اس مے اندر متعدد خانے نظر آرہے تھے ۔

            پھر ایک معمولی سا نبد رلا یا گیا جسے خود جیرالڈ نے اُسی رولر کے ایک خانے میں بند کر دیا ۔اس کے بعد دونو ں مشینیں چل پڑیں ۔دونوں کے رولر  تیزی  سے گر دش کر  رہے تھے ۔مشینوں کے شور کے با وجود جیرالڈ کی تیز آواز یہ کہتے سنا ئی دے رہی تھی ۔’’دواپا ہج آدمیوں سے ایک طا قتور جا نور بہتر ہے۔ وہ دونو ں اپا ہج  ایک طا قتور بن ما نس  کی تخلیق کر رہے ہیں ۔ان کی ہڈیا ں اور اُن کا گوشت ایک حیرت انگیز  جا نور  کی شکل میں تبدیل ہو رہا ہے !‘‘

            ’’کیا کر رہے ہو تم ؟‘‘ فر یدی چیخ کر جیرالڈ کی طرف جھپٹا۔

            دوسری طرف سے حمید نے ایک مو ٹی سی لو ہے کی سلا خ اٹھا ئی اور اُسے گر دش دیتا اور چیختا ہو ا فر یدی کی طرف بڑھا ۔’’اگر  تم نے شا ستری کی شان میں گستاخی کی تو میں تمہا را سر پھا ڑدوں گا !‘‘

            قر یب  تھا کی حمید  ، فر یدی  پر حملہ کر بیٹھے کئی لو گ در میا ن  میں آگئے ۔جیرالڈ کا قہقہہ مشینوں کے شور پر لہرا رہا تھا ۔اس نے بلند  آواز میں کہا ۔’’طا قت پر ایما ن  لا ؤ۔فر یدی  تمہا را اسسٹنٹ تم سے بہتر ہے !‘‘

            فر یدی اپنی جگہ پر کھڑا خون کے  گھو نٹ پی رہا تھا ۔ وہ کر ہی کیا سکتا تھا ۔اُسے با ہر نکلنے کا راستہ بھی تو نہیں معلوم تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ایسی حالت میں غصے کو قا بو ہی میں رکھنا  زیادہ بہتر ہو گا ۔جیرالڈ  سا ری دینا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ  وہ اپنے  منصوبوں کو عملی جا مہ پہنا نے میں کا میا ب  ہی ہو جا ئے پھر کیا ہو گا تبا ہی ،بر با دی ۔وہ ان جنگ با زوں سے بھی زیا دہ خطر ناک  ثابت  ہوسکتا ہے جو آئے دن ایک دوسرے کو اٹیمی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں ۔فر یدی طرح طرح کے خیالا ت  میں الجھتا  رہا پھر تھو ڑی دیر بعد  وہ مشینیں رُک گئیں اور فضا پر گراں گز رنے والا سنا ٹا محیط  ہو گیا ۔ایک لمحے کے لئے ایسا معلوم ہو ا جیسے  زمین کی گر دش رُک گئی ہو او ر کو ئی دوسرا سیا رہ  اُس سے ٹکرا نے کے لئے تیزی سے بڑھتا آرہا ہو۔

            ’’یہ دیکھوفر ید ی!‘‘ جیرالڈ نے اُسے مخاطب کیا ۔’’یہ اُن آدمیوں کا فضلہ ہے !‘‘

            فر یدی  نے مشین  کے نیچے  ایک ٹب میں سیاہ رنگ  کا گا ڑھا سیال  دیکھا  جو کو لتا رسے  مشا بہہ تھا ۔

            ’’ایک سستا ترین  کو لتا ر !‘‘ جیرالڈ نے قہقہہ کگا یا ۔’’ جو تمہا ری  سڑ کو ں پر ڈالا جا تا ہے۔اپاہج آدمیوں کا فضلہ ان کے جسموں کا بہترین حصہ میرے بن مانسو ں  کا جزوبدن ہو جا تا ہے !‘‘

            ’’ہیر ہیر !‘‘ حمید خوش ہو کر تا لیا ں پیٹنے لگا ۔’’اکیلے قاسم کے جسم سے چا ر بن مانس  تیا ر ہو سکتے ہیں !‘‘

            ’’تمہا رے چھ ہو سکتے ہیں ۔ میں سر پھا ڑدوں  گا تمہا را !‘‘ قاسم بھنّا کر بولا ۔

            جیر الڈ نے خانے دار رولر کا دروازہ کھولا ۔اس کے اندر سا منے ہی والے  خانے میں ایک طویل القامت بن مانس اونگھ رہا تھا۔آدمیوں نے اُسے پکڑ کر اندر سے نکا لا  اور اسٹر یچر پر ڈال دیا پھر چا ر آدمی اسٹر یچر کو اٹھائے ہو ئے وہاں سے چلے گئے۔

            ’’اب اُسے دو مختلف قسم کے انجکشن دیئے جا ئیں گے !‘‘ جیرالڈ نے کہا ۔’’اور وہ بالکل فِٹ ہو جا ئے گا اور ہا ں تم نے ان درندوں کے متعلق  سوال کیا تھا جو خود نخود مر جا تے ہیں ۔ با ت دراصل یہ ہے کہ ان کی تکمیل میں کوئی نہ کو ئی خامی  رہ جا تی ہے ۔جس کی بنا پر وہ زیا دہ دیر تک نہیں چلتے !‘‘

            ’’واقعی یہ ایک شا ندار دریا فت ہے ۔اِنہیں آدمیوں سے بخوبی لڑایا جا سکتا ہے ؟‘‘ فر یدی بولا ۔

            ’’قطعی ۔ان کی تخلیق کا مقصد ہی یہی ہے !‘‘ جیرالڈ بولا ۔’’میں ہمیشہ صاف بات کہتا ہو ں ۔یہ اٹیمی قو ت نہیں ہے کہ جسے پُرا من طریقے  پر تعمیری کا موں میں صَرف  کیا جا سکے ۔میں دنیا کو دھو کے میں ہر گز نہیں رکھوں گا ۔ میں کبھی نہ کہوں گا کہ ان بن مانسوں سے کھیتی با ڑی کا کا  م لیا جا ئے گا ۔ میں ایسی  امن  کی فا ختہ نہیں اڑاتا جس کے پیٹ میں بم بھرے ہو ئے ہوں ۔میں اعلانیہ کمزوری کی تبا ہی ہوں !‘‘

            ’’مجھے تمہاری صفا ئی پسند ی پر خوشی ہے !‘‘فر یدی نے کہا ۔

            ’’سنبھلو شاستری !‘‘ حمید چیخا ۔’’کہیں اس کے مکر میں نہ آجا نا ۔میں اس رگ رگ سے واقف ہوں!‘‘

            فر یدی دانت پیس کر رہ گیا ۔وہ سوچ رہا تھا کہ کیا حمید کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

            ’’نہیں ۔فر یدی صاحب نے سچی بات کہی ہے!‘‘ قاسم تھو ک نگل کر بڑبڑایا ۔اُس کا حلق خشک ہورہا تھا ۔

            ’’اب میں قاسم کے ڈیل ڈول کی ایک عورت تیا ر کروں گا !‘‘ جیرالڈ نے ہنس کر کہا ۔

            ’’جی ہاں ۔جی !‘‘ قاسم جلدی سےبولا ۔’’وہی روزا روزا!‘‘

            ’’کیا ؟‘‘ حمید حلق پھا ڑ کر چیخا ۔’’کو ن روزا بر نا رڈ تم کتّے میری محبوبہ پر دانت لگا ئے بیٹھے ہو ؟‘‘

            ’’تمہا رے باپ کی محبوبہ ہے !‘‘ قاسم جھلا کر بولا ۔

            ’’نہیں میری ہے ۔شا ستری میں تم سے درخواست کر تا ہوں کہ اُس لڑکی پر رحم کر و ورنہ میں خود کشی  کر لو ں گا ۔ غضب  خدا کا وہ پھول سا جسم قاسم تجھے خدا غارت کر ے !‘‘

            ’’تم کو خداغارت کرے !‘‘ قاسم نے تر کی بہ تر کی کہا ۔

            ’’میں قاسم سے وعدہ کر چکا ہوں !‘‘ جیرالڈ بولا ۔

            تو  پہلے مجھے زہر کا انجکشن دے دینا!‘‘

            ’’خیر اس پر پھر غور کریں گے !‘‘ جیرالڈ نے اُکتا کر کہا ۔

            ’’کر دیا نا تم نے گڑبڑ!‘‘ قاسم حمید کو گھونسہ دکھا کر بولا ۔’’خدا تمہیں فنا کر دے !‘‘

            ’’فر یدی پھر سو چو !‘‘ جیرالڈ نے فر یدی سے کہا ۔

            ’’ہاں ۔میں سنجیدگی سے اِس پر غور کروں گا !‘‘

            ’’اور اپنے ہی مطلب کی سو چو گے !‘‘ حمید نے طنز یہ لہجے میں کہا۔

            ’’جیرالڈ ۔اس نمک حرام کو میرے سا منے سے ہٹادو!‘‘ فر یدی کوپھر غصہ آگیا ۔

            ’’میں تمہارے جنا زے کے سا تھ رہوں گا !‘‘ حمید نے سنجیدگی سے کہا ۔

24

          فر یدی کو زندہ دَر گو ر ہو ئے چھ راتیں گز ر چکی تھیں ابھی تک اُسے کو ئی تد بیر  نہیں سو جھی      تھی جس پر عمل کر کے وہ کم ازکم اس قید سے تو ر ہا ئی پا سکتا ۔صرف ایک چال تھی لیکن اُسے بھی حمید نا کام بنا دینے پر تُلا ہو ا تھا فر یدی جب بھی جیرالڈ پر ڈورے ڈالنے کی کو شش کر تا حمید اُسے ہتّھے  ہی سے اُکھاڑ دیتا اور اب حمید کے خلا ف اس کا  غصہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ مو قع ملنے پر وہ اُسے ما ر ڈالنے سے بھی گر یز نہ کر تا ۔

            دوسری طرف حمید صحیح معنوں میں عیش کر رہا تھا ۔اس جدیدترین سا ئنٹفک غار میں پندرہ سو لہ خوش شکل لڑ کیاں تھیں جن کے متعلق جیرالڈ نے اُسے بتا یا تھا کہ وہ سب بھی ایک تعمیری خدمت انجام دیتی ہیں ۔وہ دراصل شہر سے نو جوانوں کو پھا نس کر یہاں  لا تی تھیں  اور وہ بے چا ر ے مختلف قسم کے تجربات کی ندر ہو جا تے تھے اور اُن کے جسموں کا بچا کھُچا حصہ سستے ترین کو لتار میں تبدیل کر دیا جا تا تھا ۔

            فر یدی کو یہاں ایسی ایسی ایجادات نظر آئیں کہ وہ متحیر رہ گیا ۔یقیناً وہ لوگ اپنی ایجا دات کے معا ملے میں جدید ترین تھے ۔ جیرالڈ کا دعویٰ غلط نہیں تھا ۔ دومیل لمبی چو ڑی زمین دوز دنیا ہر لحاظ سے عجیب تھی۔ انہوں نے ننھے ننھے مصنوعی سو رج بنا ئے تھے اور جیرالڈ کا دعویٰ تھا کہ ان روشنی اور حرارت میں سا رے نیچر ل اور صاف مو جود ہیں جو قوت حیات ونمو کے لئے ضروری ہیں اور خود فر یدی کو بھی اس کا تجر بہ ہو گیا تھا ۔ ان چھ دنوں کے دور ان میں ایک لمحے کے لئے بھی اُسے گھٹن کا احساس نہیں ہوا تھا اور اس کی صحت بھی بر قرار رہی تھی ۔اپنی قو توں میں اُسے کسی قسم کا انحطا ط نہیں محسوس ہوا تھا ۔

            فر یدی نے جیرالڈ سے پوچھا کہ آخر اُسے قبل از وقت اپنے بن مانسوں کی نما ئش  کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی ۔جو کام اُس نے ان سے لئے تھے وہی آدمیوں سے بھی لے سکتا تھا۔

            اس پر اُس نے ہنس کر کہا تھا ۔’’تم ہمارا ایک دوسرا بڑا راز جا ننے کی کوشش کر رہے ہو مگر خیر میں تمہیں بتاؤں گا ۔میں جا نتا ہو ں کہ یہ راز اس زیر زمین دنیا سے با ہر نہیں جا سکتا سنو وہ ایک طرح کا اشارہ تھا ۔ ہمارے  عالمی اداروں کے لئے ظاہر ہے کہ تمہا رے یہاں کی خبر رسا ں  ایجنسیوں نے  ان عجیب وغریب بن مانسوں کی خبر سا ری دنیا میں پھیلا دی ہو گی اور میری تحریک کے اس اشارے کا مطلب سمجھ کر اپنے کام میں لگ گئے ہوں گے اور یہ کام ہے مختلف ممالک کی جھتے بندی ختم کر نا ۔ہم اُن میں غلط فہمی پھیلا کر پھوٹ ڈلوادیں گے ۔اس کے بعد انہیں ایک ایک کر کے پیٹ لینا مشکل نہ ہو گا !‘‘

            فر یدی اس مسٔلے  پر  بھی غور کر تا رہا تھا ۔یہ ایک خوفنا ک سا زش تھی ۔ اگر ایسا ہوا تو ساری دنیا جہنم بن جا ئے گی ۔اُسے اپنی زندگی کی پر وا نہیں تھی لیکن وہ اُسے جزباتی بن کر ضائع بھی نہ کر نا چا ہتا تھا ۔ ورنہ وہ جس وقت بھی چا ہتا جیرالڈ سے بھڑ سکتا تھا مگر اُس کا یہ فعل افادی ہوتا۔

            وہ بڑی دیر سے اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا  تھا  کہ اُسے کیا کر نا چا ہئے۔اس نے گھڑی کی طرف دیکھا گیارہ بج رہے تھے۔

            دفعتہً سا منے والی دیوار  اپنے داہنے جوڑ کے پاس سے کھسکنے لگی اور دوسرے ہی لمحے میں حمید اندر گھس آیا۔دیوار پھر اپنی اصلی جگہ پر آگئی ۔حمید طرح اپنےہو نٹوں پر انگلی  رکھ لی جیسے  فر یدی کو چپ کرانا چا ہتا ہو پھر اس نے اُسے آنکھ مار کر بلند آواز میں کہا ۔’’غالباً آپ نے شا ستری صاحب کی با توں پر غور کیا ہوگا!‘‘

            فر یدی کچھ نہیں بولا ۔ وہ حمید کو عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ دوسرے لمحے میں حمید نے اپنی جیب سے صاف کا غذکا ایک ٹکڑا نکالا اور پنسل سے اُس پر کچھ لکھنے لگا۔سا تھ ہی سا تھ وہ بڑبڑاتا بھی جا رہا تھا۔’’آپ غلطی پر ہیں۔میری سنئے یہ لوگ بہت طاقتور ہیں ۔دنیا ہمشہ طاقتب کا ساتھ دینا چا ہئے !‘‘

            اسی طرح وہ اور بھی با تیں کہتا رہا ۔ فر یدی کی نظریں اُس کا غذ پر جمی ہو ئی تھیں جس پر حمید لکھ  رہا تھا۔’’اُستاد! اس بار میں نے آپ کو شکست دے دی۔خاموش۔کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔یہاں کی دیواریں بھی بولتی ہیں ۔کسی کمرے کی سر گوشی بھی ایک مخصوص کمرے میں لاؤڈاسپیکر کی طرح چیختی ہے ۔ جیرالڈ یہاں کی چیونٹی کی بھی گنگنا ہٹ سن سکتا ہے لیکن میں نے آپ سے بگاڑ کر کے اُس کا تھوڑا عتماد حاصل کر لیا ہے اور یہ صرف میراحصہ ہے۔اگر آپ اکیلے ہو تے تو کبھی کے اُس سے ٹکرا کر ختم ہو جا تے ۔اس کی شخصیت واقعی حیرت انگیز ہے ۔خدا کر ے میں اُسے چو نا لگا نے میں کا میاب ہو جا ؤں ۔میں نے آپ کی شان جو گستاخیاں کی ہیں ان کے لئے معا فی چا ہتا ہوںاب راویان شیریں یوں بیان فر ماتے ہیں کہ میں نے روزا کو تو ڑلیا ہے ۔ وہ میری ممنون ہے کہ میں نے اُسے اُس مشینی تجربے سے بچا لیا۔میں نے اُسے اُس کے باپ کی موت کی اطلا ع بھی دے دی ہے جس کا اُسے کو ئی علم نہیں تھا ۔ اب وہ ایک بھو کی شیرنی  کی طرح انتقام کے لئے بے چین ہے اور میں آپ سے معافی چا ہتا ہوں کہ میں نے آپ سے پو چھے بغیر اُس کا ایک بو سہ لے لیا ۔بوسہ یوں لینا پڑا کہ وہ نکلنے کے راستے سے واقف ہے ۔ راستہ دراصل اُس کو لتار فیکٹری میں نکلتا ہے جو لڑکال جنگل والی سڑک کے سرے پر واقع ہے اور وہ فیکٹری بھی جیرالڈ ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ہم یہاں سے نکلیں کیوں کر ۔ اول تو دروازے تک پہنچنا ہی مشکل ہو گا ۔اگر پہنچ بھی گئے تو ہاں اوپر فیکٹری میں رات آدمیوں کی اچھی خاصی تعداد مو جود رہتی ہے !‘‘

            اس دور ان میں حمید سا تھ ہی سا تھ بڑبڑاتا بھی رہا تھا ۔ایسا معلوم ہورہا تھا جیسےوہ جیرالڈ کی تعریف میں با قاعدہ لیکچر جھاڑ رہا ہو۔ جب وہ خاموش ہوا تو فر یدی مسکرا کر بولا ۔

            ’’میں غور  کر رہا ہوں ۔ جیرالڈ کی شخصیت مجھے پسند ہے لیکن اس کا طریقہ کا ر بہت ہی  بہمیا نہ ہے !‘‘

            ’’سنئے جناب !‘‘ حمید اکڑ کر بولا ۔’’شا ستری صاحب مجبور نہیں ہیں ۔وہ سا ئنٹفک طور پر بھی آپ کے خیالات بدل سکتے ہیں ۔صرف ایک گھنٹے تک ایک مشین میں آپ کی مر مت ہوگی اُس کے بعد آپ محسوس کر نے لگیں گے جیسے ابھی ابھی ہیدا ہو ئے ہوں ۔میں نے وہ مشین دیکھی ہے !‘‘

            وہ بھی اپنی بڑبڑاہٹ جا ری رکھے ہو ئے کا غذ  پر لکھنے لگا ۔’’شا باش بیٹے حمید ! ابے میں تجھے اپنا ولی عہد بنا دوں گا ۔میرے ذہن میں فی الحال ایک رتجویز ہے ۔یہاں اوربھی بن مانسوں کی کھا لیں مو جو د ہوں گی انہیں کسی طرح مہیا کر و۔ اوپر فیکٹری والو ں سے ہم انہیں پہن کر محفوظ رہ سکیں گے اور یہاں رات کو تو سب سو تے ہی ہو ں گے ۔انہیں یقین ہے کہ ان کے علا وہ اور کو ئی نہ تو یہاں داخل ہو سکتا ہے اور نہ  یہاں سے نکل سکتا ہے ۔اس سلسلے میں روزاسے گفتگو کر و ۔ میرا خیال ہے کہ  وہ ٹرک بھی فیکٹری ہی میں رہتا ہی میں رہتا ہو گا جس میں بن مانس سفر کیا کر تے ہیں !‘‘

            فر یدی کی زبانی نصیحتوں ہر حمید بگڑ کر بولا ۔’’تو اب میرا فیصلہ سنئے ۔میں محکمہ سراغرسانی میں بھی کام کروں گا اور اس عظیم رتحریک سے بھی تعلق  رکھوں گا !‘‘

            ’’میں تمہا را گلا گھو نٹ  دوں گا !‘‘ فر یدی اُس کی طرف جھپٹا ۔حمید نے وہ کا غذ تہہ کر کے فر یدی کی جیب میں رکھ دیا اور خود مدد لے لئے چیختا  ہو ا زمین  پر ڈھیر  ہو گیا ۔فر یدی اُس کے سینے پر چڑھ  بیٹھا اور حمید حلق سے اس طرح کی آواز یں نکالنے لگا جیسے  اُس  کا گلا  گھو نٹا جا رہا ہو۔

            دوسرے ہی لمحے میں  دیوار اپنی جگہ سے سَر کی اور تین  آدمی فر یدی پر ٹوٹ پڑے ۔انہوں نے فر یدی کو پکڑ لیا اور حمید  اُس  کے نیچے سے نکل کر بھا گ نکلا۔

25

       دوسری رات بن مانس  آہستہ آہستہ ایک طویل اور نیم تا ریک گلیا رے میں رینگ رہے تھے ۔مدھم سی پیلے رنگ کی روشنی پو رے گلیارے  میں پھیلی ہو ئی  تھی ۔ اند ھیر ے میں پیلا ہٹ کا امتزاج کچھ عجیب  سی پُرا سرار کیفیت  اور فضا پیدا کر رہا تھا ۔

سب  سے آگے والا بن مانس بقیہ تین کے مقا بلے میں  پستہ قد تھا اور سب سے پیچھے والا اتنا طویل القامت تھا کہ دیکھ  کر ہنسی آسکتی تھی ۔

            ایک فر لا نگ  لمبے گلیارے کے اختتام پر پہنچ کر وہ رُک گئے ۔پستہ قد بن مانس دیوار میں کچھ ٹٹول رہا تھا ۔

دفعتہً ایک عجیب قسم کا شور سنا ئی دیا اور یک بیک پستہ قد بن مانس  بری طرح کا نپنے لگا۔

            ’’غضب ہو گیا !‘‘ وہ آہستہ سے بولا ۔’’خطر ے کی گھنٹی ۔شا ید  اُنہیں پتہ چل گیا !‘‘

            ’’ارے باپ رے باپ !‘‘ سب سے لمبا بن مانس لڑ کھڑا کر گرتے گرتے بچا۔

            ’’سنبھل ڈیوٹ !‘‘ ایک دوسرا بن مانس بولا جو سر جنٹ حمید کے علا وہ اور کوئی نہیں تھا ۔

            ’’چلئے ۔آپ لوگ نکل جا یئے !‘‘ روزا بولی ۔’’میں کچھ دیر اُن سے نپٹوں گی !‘‘

            ’’یہ نہیں ہوسکتا !‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’چلو تم راستہ دکھا ؤ۔یا سب نکلیں گے یاسب مریں گے !‘‘
            ’’میرے پاس
ریوالور ہے!‘‘ حمید بڑبڑا یا ۔

            ’’بے کا ر ہے !‘‘ روزا جلدی سے بولی ۔’’ایک بھی گولی اُن پر نہ پڑے گی ۔یہاں ما رڈ النے کے طریقے دوسرے ہیں !‘‘

            کہیں دور قد موں کی آہٹ سنا ئی دے رہی تھی ۔ دفعتہً انہیں اپنے سَروں پر ایک  ہلکی سی آواز سنا ئی دی ۔

انہوں نے چونک کر اوپر دیکھا ۔سا منے سے ایک زینہ نمود ار ہو گیا تھا اور اُس کے سرے پر ایک چھوٹا سا دروازہ تھا ۔شا ید روزا راستہ پانے میں کا میاب ہو گئی تھی ۔انہوں نے بڑی سُر عت سے زینے طے کئے ۔روز اسب کے پیچھے تھی ۔ جیسے ہی وہ اوپر پہنچے انہوں نے روزا کی چیخ  سنی ۔حمید نے مڑ کر دیکھا ۔دروازہ بند ہو چکا تھا او ر وہ اوپر والی فیکٹری کے گیراج میں کھڑے ہو ئے تھے ۔

            بے کا ر ہے چلو جلدی کرو !‘‘ فر یدی ایک چھوٹی سی اسٹیشن  ویگن  میں بیٹھا ہو ا بولا ۔

            وہا ں ایک ٹرک بھی مو جو د تھا ۔گیراج کھلا ہوا تھا اور سامنے پختہ راستہ تھا ۔ وی دونوں اسٹیشن  ویگن پر لَد گئے ۔دروازہ پھر اور کئی شکلیں دکھا ئی دیں ۔اتنی دیر میں فر یدی انجن اسٹارک کر چکا تھا ۔کار جیسے ہی آگے بڑھی حمید نے کھڑے ہو ئے ٹرک کے پہیوں پر تین چار فا ئر کر دیئے ۔شاید ایک ریوالو ر کہیں سے اُس کے ہا تھ لگ گیا تھا ۔

            ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘ فر یدی بولا ۔

            ’’شا ید میں نے ٹرک کے ٹا ئر پھا ڑ دیئے ہیں !‘‘

            ’’جیتے رہو !‘‘

            دوسرے لمحے میں کا رسنسان سڑک  پر فرا ٹے بھر رہی تھی لیکن یہ سمجھنا  اُن  کی حماقت تھی کہ وہا ں صرف وہی اکیلا ٹرک رہ گیا تھا جس پر حمید نے گو لیاں چلا ئی تھیں ۔وہ بمشکل تمام ایک ہی میل آئے ہو ں گے کہ سا ری سڑک  ایک تیز قسم کی روشنی  میں نہا گئی ۔اتنی تیز روشنی تھی کہ خس وخاشاک میں گری ہو ئی ایک سو ئی بھی ڈھو نڈی جا سکتی تھی ۔

            حمید نے پلٹ کر دیکھا اور اُس کی آنکھیں چند ھیا  گئیں ۔روشنی بہت تیز ی سے اُن کی طرف بڑھی آرہی تھی ۔شا ید وہ کو ئی کا ر تھی جس کے سِر ے پر ایک  بہت زیادہ طاقت والی سرچ لا ئٹ نصب تھی ۔

            ’حمید !‘‘ فر یدی نے پُر سکون لہجے میں کہا ۔’’یہ وقت آزما ئش کا ہے ۔میں رفتار کم کر تا ہوں ۔کو دکو د کر جنگل میں گھسو!‘‘

            ’’ارے باپ !‘‘ قاسم گڑگڑایا ۔

            سب سے پہلے حمید کو دا۔ قاسم گر تے گر تے سنبھل گیا ۔ اس کے بعد فر یدی نے بھی چھلا نگ لگا دی اور تینوں مخالف سمت کے گھنے جنگل میں گھستے چلے گئے۔

            خوش قسمتی ہی تھی کہ انہیں آگے چل کر ایک پگڈ نڈی مل گئی اور وہ سیدھے اُس پر بھا گتے چلے گئے ۔ فر یدی کو خدشہ تھا کہ کہیں لڑکال جنگل میں ملٹری نہ لگا دی گئی ہو ۔اگر کہیں ایسا ہو ا تو بھی اُن کی خیر نہیں کیو نکہ وہ بن ما نسوں کی کھال میں تھے اور اتفا ق سے انہیں نیچے لگا نے کے لئے بُلٹ پر وف نہیں مل سکے تھے اور دوسری طرف اُن کھالوں کو جسموں سے الگ کر نے کے لئے رُکنا بھی خطر ے سے خالی نہیں تھا ۔تھوڑی ہی دیر ہی بعد جنگل کی تاریکی  میں گو لیاں سنسنا نے لگیں ۔

            ’’کیوں نہ کسی درخت پر جا چڑھیں !‘‘ حمید بڑبڑایا ۔

            ’’ہا ئے مجھے درخت پر چڑھنا نہیں آتا !‘‘ قاسم ہا نپتا ہو ا بولا ۔

            ’’بس بھا گتے چلو!‘‘ فر یدی نے کہا ۔’’یہ ایک اندھی چال ہے خود کو تقدیر پر چھوڑدو۔ان کی تعداد اِتنی زیادہ نہیں کہ پو رے جنگل پر چھا جا ئیں !‘‘

            ’’ا ئے اب نہیں چلا جا تا ۔میں گر ا !‘‘ قاسم کراہ کر بولا ۔

            ’’مرد کاش تم چوہے ہو تے !‘‘حمید نے کہا ۔’’ارے افسو س میری چو ہیا وہیں رہ گئی!‘‘

            انہیں بڑی شدت سے گر می لگ رہی تھی ۔اس لئے انہوں نے اپنے سر پر  سے کھال اُتا ردی اور بازوؤ ں تک ان کے جسم کھل گئے ۔

            صبح ہو تے ہو تے انہوں نے جنگل پا ر کر لیا اور پھر وہ اپنے جسموں پرسے کھا لیں اُتا ر ہی  رہے تھے کہ انہوں نے ایک خوفناک کھڑ کھڑاہٹ سنی۔زمین ہلنے لگی اور وہ منہ کے بل گر پڑے ۔گھڑ گھڑاہٹ کی گونج کا فی دیر تک قائم رہی ۔وہ اس طرح سد ھ زمین پر پڑے ہو ئے تھے جیسے اُن کے جسموں کی طاقت سلب ہو گئی ہو ۔دفعتہً حمید کے منہ سے چیخ نکلی ۔وہ آنکھیں پھاڑ ے آسمان کی طرف دیکھ  رہا تھا ۔جہاں کا فی بلندی پر بڑے بڑے درخت گر دوغبار کے مر غولوں میں چکراتے نظر آرہے تھے ۔ سو رج کی پہلی شعا عیں غبار کے اس طوفان میں چھپ کر رہ گئی  تھیں اور یہ غبار پھیلتا  ہی جا رہا  تھا ۔

            وہ پھر اُٹھ کر بھا گے ۔ ا ب وہ کھلے میدان  میں تھے  لیکن ان کی  سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ کیا ہوا ۔

26

            لڑکال جنگل ایک ماہ تک جلتا رہا ۔دس پندرہ میل کے قبے میں ہر وقت دھو ئیں کے بادل منڈ لا تے رہتے تھے ۔ میلوں تک بستیاں سنسان ہو گئیں ۔اتنے بڑے جنگل  کی آگ پر قا بو پا نا  آسان نہیں تھا پھر بھی ہر طرح کی تدبیر یں اختیار کی جا تی رہیں ۔اگر یہ  تبا ہی نہ آئی ہو تی تو فر یدی  کے بیان پر کسی کو یقین نہ آتا ۔سر جنٹ حمید کا کہنا تھا کہ یہ تبا ہی اُس کی چو ہیا ہی لا ئی ہو گی ۔ور نہ وہ لو گ اتنے احمق نہیں تھے کہ اپنی اُن عظیم الشان ایجادات کو اس طرح تباہ کر دیتے ۔

            شہر ، لڑ کال جنگل سے بیس میل کے فا صلے پر واقع تھا لیکن وہاں بھی زلز لے کے جھٹکے محسوس کئے گئے تھے حالا نکہ گھڑ گھڑاہٹ کی آواز زیا دہ تیز نہیں معلوم ہوئی تھی لیکن پھر بھی لو گو ں کا بیان ہے کہ وہ حد درجہ خوفناک تھی اور زمین کے نیچے سے آتی محسوس ہو ئی تھی ۔

            جیرالڈ پھر کبھی اپنی کو ٹھی میں نہیں دکھا ئی دیا ۔ اُس لا لڑ کا لیمی  البتہ حراست میں لے لیا گیا تھا لیکن اُس کا کہنا تھا کہ وہ ان معاملا ت کے متعلق کچھ نہیں جا نتا ۔

            فر یدی کے بیا نات نے سا ری دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور سا رے ممالک کی حکومتیں اپنے یہاں اُس تباہ کُن تحریک کے حا میوں کو کھو د کر اُن کے بلو ں سے نکا لنے میں مصروف ہو گئی تھیں۔

            لڑکال جنگل کی آگ  اب سرد ہو چکی ہے اور اب وہاں ایک ایسی جھیل دیکھی جا سکتی ہے جو تین چا ر میل کے رقبے میں پھیلی ہو ئی ہے ۔اس کی گہرائی نا پنے کی بے حد کو شش کی جا رہی ہے لیکن ابھی تک تو کا میابی نہیں ہو سکی ۔

            کہتے ہیں کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں جیرالڈ اور اُس کے سا تھیوں نے کئی حیرت انگیز ایجادات کا تجر بہ کیا تھا ۔

***

           

           


Post a Comment

0 Comments