خمسہ
نظیرؔ اکبر
آبادی
Khamsa By Nazeer Akbarabadi
چمن میں دن کو جو اک
دو قدم وہ چلتے ہیں
تو پھول آنکھوں سے
تلوے اُنھوں کے ملتے ہیں
خوشی سے غنچے بھی ہر
شاخ پر اُ چھلتے ہیں
وہ چاندنی میں جو ٹک سیر کو نکلتے ہیں
تو مہ کے تشت میں گھی کے چراغ جلتے ہیں
سحر کے نورِ تجلّی کے انتخاب کو دیکھ
اور اپنے پھیکے سے
چہرے کی آب و تاب کو دیکھ
ہزار رشک سے عشرت کے
پیچ و تاب کو دیکھ
چراغ صبح یہ کہتا ہے
آفتاب کو دیکھ
یہ بزم تم کو
مبارک ہوہم تو چلتے ہیں
یہاں تلک ہیں یہ بے
درد خوب رو دل بر
سب اپنے چاہنے والوں کے کاٹتے ہیں سر
غرض یہ ظلم تو دیکھا کیے ہیں ہم اکژ
فدا جو دجل سے
ہیں یاں شوخ سبز رنگوں پر
یہ کافر ان کی بھی چھاتی پہ مونگ دلتے ہیں
گلی میں یار کی اے آہ کس طرح جاوں
نہیں ہے اتنی بھی طاقت جو اک قدم رکّھوں
نہ تن میں خون باقی نہ اب رگوں میں خوں
ہوا ہوں خشک میں یاں تک کہ حضرتِ مجنوں
یہ مجھ سےکہتے ہیں اور اپنے ہاتھ ملتے ہیں
ہمارے تم تو ہو رنگ ظاہر و باطن
اُٹھائے تم نے بھی
غم روز عشق کے گن گن
یہ التجا ہے ہماری
کہ خوش ہو آج کے دن
کوئی تو پگڑی بدلتا
ہے یار سے لیکن
1 Comments
👍👍👍
ReplyDelete