مُفلسی
نظیر اکبر آبادی
Muflisi by Nazeer Akbarabadi
جب آدمی کے حا ل پہ
آ تی ہےمُفلسی
کِس کِس طرح
سے اُ س کو ستا تی ہےمُفلسی
پیا سا تما م روز بٹھا تی ہے مُفلسی
بھُو کا تما م رات
سُلا تی ہے مُفلسی
یہ دکھ وہ جا نے ،جس پہ کہ آتی ہے مُفلسی
کہیے تو اب حکیم کی سب سے بڑی ہے شا ں
تعظیم جس کی کر تے ہیں نوّا ب اور
خاں
مُفلس ہوئے تو حضر تِ
لقما ن کیا
ہیں یا ں
عیٰسی بھی ہو
، تو کو ئ نہیں پوچھتا
، میا ں
ِحکمت حکیم کی بھی
ڈُباِتی ہے مُفلسی
جو اہلِ فضل ، عا
لم و فا ضل کہا تے ہیں
مُفلس ہو ئے، تو
کلمہ تلک بھو ل جا تے ہیں
پو چھے کوئی الؔف، تو اُسے بؔے بتا تے ہیں
وہ جو غر یب غُر
با کے
لڑکے پڑھا تے ہیں
اُن کی تو عمر
بھر نہیں جا تی ہے مُفلسی
مفلس کر ے جو آن کے
مجلس کےبیچ حا ل
سب جا نیں ، روٹیو ں
کا یہ ڈا لا ہے اِس نے جا ل
گر گر پڑے ،تو کوئی نہ لیو ے اُسے سنبھا ل
مُفلس میں ہو ویں لا
کھ اگر علم اور کما ل
سب خاک بیچ آ
کے ملاتی ہے مُفلسی
مُفلس کی کچھ نظر
نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جا ن وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑ تا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کُتّے لڑ تے
ہیں ایک استخوان پر
ویسا ہی مُفلسو
ں کولڑاتی ہے مُفلسی
کر تا نہیں حیا سے جو
کوئی ، وہ کا م ، آ ہ
مُفلس کر ے ہے اُ س
کے تئیں انصیرام،آہ
سمجھےنہ کچھ حلا ل
،نہ جا نے حرام ،آہ
کہتے ہیں جس کو شرم
وحیا ،ننگ و نا م ،آہ
وہ سب حیا و شرم
اُ ٹھا تی ہےمُفلس
لا زم ہے ، گرغمی
میں کو ئ شورو غُل مچائے
مُفلس ، بغیر غم کے
ہی کر تا ہے ہا ئے ہا ئے
مرجا وے گر کو ئی ،
تو کہا ں سے اُسے اٹھا ئے
اِس مفلس کی خوا ریا
ں کیا کیا کہو ں میں ہا ئے
مُردےکوبِن کفن
کے گڑاتی ہے مُفلسی
بی بی کی منتھ ، نہ
لڑ کو ں کے ہاتھوں کڑے رہے
کپڑ ے میا ں کے ،
بنیے کے گھر میں پڑےرہے
جب کڑیاں بِک گئیں ، تو کھنڈر میں اڑے رہے
زنجیر، نہ کوا ڑ، نہ
پتّھر گڑے رہے
آخر کو انیٹ
انیٹ کھُد ا تی ہے مُفلسی
نقّا ش پر بھی زور جب
آ مُفلسی کر ے
سب رنگ ، دم میں کردے
مہصّو ر کے کر کر ے
صو رت ہی اُس کی دیکھ
کے،مُہنہ کنھچ رہے پرے
تصویر اور نقش میں
کیا رنگ وہ بھر ے
اُس کے تو مُنہ کارنگ اُڑاتی ہے مُفلس
کیسی ہی دھو م دھا م
کی رنڈی ہو خوش جما ل
جب مُفلسی کا آن پڑے
سر پہ اُس کے جا ل
دیتے ہیں اُس کے
ناچ کو ٹھٹّھے کے بیچ ڈال
نا چے ہے وہ تو فرش
کےاوپر قدم سنبھا ل
اور اُس کو اُنگلیو ں پہ نچاتی ہے مُفلسی
جب مُفلسی سے ہو وے
کلَا نَوت کا دل اُداس
پھر تا ہے لے طنبور ے
کو ہر گھر کے آس پاس
اک پا وسیر آ ٹے کی دل میں
لگا کے آس
گو رؔی کا وقت ہو وے
، تو گا تا ہے وہ بھبؔا س
یا ں تک حوا س
اُ س کے اُ ڑاتی ہے مُفلسی
مُفلس ، جو بیا ہ
بیٹی کا کر تاہے بُول بُول
پیسا کہا ں ، جو جا
کے وہ لا وے جہیز مول
جو روکا وہ گلا ہے ،
کہ پھو ٹا ہو جیسے ڈھو ل
گھر کی حلا ل خو ری تلک
کر تی ہے ٹھٹھو ل
ہیبت تما م
اُس کی اُٹھا تی ہے مُفلسی
بیٹے کا بیا ہ ہو وے
، تو بیا ہی ، نہ سا تھی ہے
نے روشی ، نہ با جے
کی آ واز آ تی ہے
ما ں، پیچھے ایک میلی
چد راوڑھے جا تی ہے
بیٹا بنا ہے دولھا ،
تو با وا بر ا تی ہے
مُفلس کی یہ بات
چڑھاتی ہے مُفلسی
مُفلسی کا درد ،دل
میں کو ئی ٹھا نتا نہیں
مُفلس کی بات
کو بھی کو ئی ما نتا نہیں
ذا ت اور حَسَب نسب
کو کوئی جا نتا نہیں
صورت بھی اُس کی پھر
کو ئی پہچا نتا نہیں
یا ں تک نظر سے
اُ س کو گر ا تی ہے مُفلسی
چو لھے تو ا، نہ پا
نی کے مٹکے میں آبی ہے
پنیے کو کچھ ، نہ کھا
نے کو ،اور نے رکا بی ہے
مُفلس کے سا تھ کے
تئیں بے حجا بی ہے
مفلس کی جو رو، سچ ہے
کہ ہا ں ، سب کی بھا بی ہے
عزّت سب اُس کے
دل کی گنوا تی ہے مُفلسی
کیسا ہی آ دمی ہو ،
ہر افلا س کے طفیل
کو ئی گد ھا کہے اُسے
، ٹھہر اوے کو ئی بیل
کپڑ ے پھٹے تما م ،
بڑ ھےبا ل پھیل پھیل
مُہنہ خشک ، دانت زرد
، بد ن پر جما ہے میل
سب شکل قید یو ں کی
بنا تی ہے مُفلسی
ہر آن دوستو ں کی
محّبت گھٹا تی ہے
جوآ شنا ہیں ، اُن
کی تو اُلفت گھٹا تی ہے
اپنوں کی مہر ، غیر کی چا ہت گھٹا تی ہے
شر م وحیا و عزّت و
حرُمت گھٹا تی ہے
ہاں نا خن اور با ل
بڑ ھا تی ہے مُفلسی
جب مُفلسی ہوئی ،تو
شرا فت کہا ں رہی
وہ قد رذات کی، وہ
نجا بت کہا ں رہی
کپڑے پھٹے ، تو لو گو
ں میں عزّت کہا رہی
تعظیم اور تو ا ضع کی
، با بت کہا ں رہی
مجلس کی جو تیو ں پہ
بٹھا تی ہے مُفلسی
مُفلس ، کسی کا
لڑ کا جو لےپیا ر سے اُ ٹھا
باپ اُس کا ، دیکھےہا تھ کا اور پانو کاکڑا
کہتا ہےکو ئی ، جو تی
نہ لیوے کہیں چرُا
نٹ کھٹ ، اُچکاّ ،چو
ر ، دغا با ز ، گٹھ کٹا
سَو سَو طرح کے عیب
لگا تی ہے مُفلسی
رکھتی نہیں کسی کی یہ
غیر ت کی آ ن کو
سب خاک میں ملا تی ہے
حُر مت کی شان کو
سو محنتوں میں اُس کی
کھپاتی ہے جا ن کو
چوری پہ آکے ڈالے ہے
مُفلس کے دھیان کو
آخر ، ندان بھیک
منگا تی ہے مُفلسی
دُنیا میں لے شاہ سے
اے یا رو، تا فقیر
خا لق ،نہ مُفلسی میں
کسی کو کر ے اسیر
اشراف بناتی ہے اِک
آن میں حقیر
کیا کیا میں مُفلسی
کی خرابی کہو ں نظیر
وہ جا نےجس کے دل کو
جلاتی ہے مُفلسی
0 Comments