مّخمس
نظیر
اکبرآبادی
Mukhammas by
Nazeer Akbarabadi
کیا تو نے حال اُس سے
مرے درد کا کہا ؟
اور میرے انتظار کا
کیا ماجرا کہا ؟
رنج ِفراق کچھ نہ کہا
تو نے یا کہا ؟
قاصد،صنم نے خط کو
مرے دیکھ کیا کہا ؟
حرف عتاب یا سخنِ
دل کشا کہا
آتا ہے ہَول اب تو
مرے دل میں ہوبہو
صبر و قرار ہوتےہیں
خاطر سے ایک سو
جس جس طرح کی باتیں
ہوئیں تیرے روبہ رو
تجھ کو قسم ہے کیجونہ
پوشیدہ مجھ سے تو
کہیو وہی جو اُس
نے مجھے بر ملا کہا
میں تو کمال ہجر میں
ہوں اُس کے بے قرار
دن رات اس کے آنے کارکھتا
ہوں انتطار
جلد سی سنا مجھے جو ہوا تجھ پہ آشکار
قاصد نے جب تو سُن کے کہا ،کیا کہوںمیں یار
پہلے تو مجھ کو اُس
نے بہت نا سزا کہا
ماتھا ہوا مرا عرق
ِشرم بیچ نم
سنتا رہا میں جو جوکہا
اُ س نے بیش و کم
غصےکی با تیں کہہ چکا
جب مجھ سے وہ صنم
پھر تجھ کو سو عتاب سےجھنجھلا کے وہ دم بہ دم
کیاکیا کہوں میں
تجھ سے کہ کیا کیا برا کہا
سرنا مہ خط کا
دیکھتےہی کہا بیچ و تاب
نامے کو دور پھنک دیا
ہوکے پُرعتاب
اور یوں کہا کہ جاؤ
یہی خط ہے جواب
اس کا مزہ چکھاؤں گا
جا کر اسے شتاب
رہ رہ اِسی سخن
کے تئیں بار ہا کہا
میرے جو ہوش سنتے ہی
اِس بات کے اُڑے
گھبرا کے جلدی قدم
راہ میں رکھے
آیا ہوں پر شتاب خبر
کر نے کو تجھے
میری تو کچھ خطانہیں
تو سمجھ اِسے
بے جا کہا یہ اس
نے تجھےیا بجا کہا
تجھ پر تو اس نگار کی
خوبو تھی سب عیاں
کیوں نامہ لکھ کے تو
نے کیا دردِدل بیاں
اب آن کرکرےگا وہ
کیا کیا خرابیاں
کہتا تھا میں تجھے کہ
نہ بھیج اس کو خط میاں
لیکن نطیر ، تو
نے نہ مانا مرا کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 Comments