پراسرارچیخیں
ابنِ
صفی
Purasrar Cheekhein By Ibn-e-Safi
1
موڈی ایک رومان زدہ نو جوان امریکن تھا۔ مشرق کو بیسویں صدی کے سائنسی
دور میں بھی پر اسرار سمجھتا تھا …
اس نے بچپن سے اب تک خواب ہی دیکھے
تھے … دھندلے اور پر اسرار خواب۔ جن میں آدمی کا وجود بیک
وقت متعدد ہستیاں رکھتا ہے … !
بہر حال اس کی سریت پسندی ہی اسے مشرق میں لائی تھی… اس
کا باپ امریکہ کا ایک مشہور کروڑ پتی تھا… موڈی
بظاہر مشرق میں اس کی تجارت کا نگراں بن کر آیا تھا… لیکن
مقصد دراصل اپنی سریت پسندی کی تسکین تھا …!
وہ شراب کے نشے میں
شہر کے گلی کوچوں میں اپنی کار دوڑاتا پھرتا… ایسے
حصوں میں کم از کم ایک بار ضرور گزرتا تھا جہاں قدیم اور ٹوٹی پھوٹی عمارتیں تھیں… شام
کا وقت اس کے لئے بہت موزوں ہوتا تھا… سورج
کی آخری شعاعیں صدہا سال پرانی عمارتوں کی شکستہ دیواروں پر پڑ کر عجیب سا ماحول پیدا
کر دیتی تھیں … اور موڈی کا اپنی روح ان ہی سال خوردہ دیواروں کے گرد
منڈلاتی ہوئی محسوس ہوتی ...
آج بھی وہ عالمگیری سرائے کے علاقے
میں اپنی کار دوڑاتا پھر رہا تھا… سورج
غروب ہو چکا تھا…دھند لکے کی چادر آہستہ آہستہ فضا پر مصلط ہوتی جارہی تھی۔
موڈی کی کار ایک سنسان اور پتلی سی گلی سے گزر رہی تھی۔ رفتار اتنی دھیمی تھی کہ
ایک بچہ بھی دروازہ کھول کر اندر آ سکتا تھا ۔
موڈی اپنے خوابوں میں ڈوبا ہوا ہولے ہولے کچھ گنگنا رہا تھا...
اچانک کسی نے کار کا پچھلا دروازہ زور سے سو کیا .. آواز کے ساتھ ہی موڈی چونک کر مزا
لیکن اندھیرا ہونے کی بناء پر کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوسرے ہی لمحے میں موڈی نے اندرروشنی
کر دی اور پھر اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پر کانپ کر رہ گئے۔
’’بجھا دو!... خدا کے لئے …بجھا دو!‘‘ اس نے ایک
کپکپاتی ہوئی سی آواز سنی !
موڈی نے غیر ارادی طور پر سوئچ آف کر دیا… اندر
پھر اندھیرا تھا۔
’’مجھے بچاؤ ‘‘ پچھلی نشست پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے کپکپاتی ہوئی آواز میں
کہا۔ لہجہ مشرقی مگر زبان انگریزی تھی۔
’’اچھا …اچھا! "موڈی نے بوکھلا کر سر ہلاتے ہوئے کہا اور کار فراٹے بھرنے لگی!
کافی دور نکل آنے کے
بعد نشے کے باوجود بھی موڈی کو اپنی حماقت کا احساس ہوا …وہ سوچنے لگا کہ آخر وہ
اسے کس طرح بچائے گا … کس چیز سے بچائے گا؟
’’میں تمہیں کس طرح بچاؤں ؟ ‘‘اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
" مجھے کسی محفوظ جگہ پر پہنچا دیجئے … میں
خطرے میں ہوں " "
" کو تو الی …!‘‘موڈی نے پوچھا۔
’’نہیں نہیں ؟‘‘ لڑکی کے لہجے میں خوف تھا۔
" کیوں ! اگر تم خطرے میں ہو… تو
اس سے بہتر جگہ اور کیا ہوسکتی ہے۔"
’’آپ سمجھتے ہیں ! اس میں عزت کا بھی تو سوال ہے !"
’’ میں تمہاری بات سمجھ ہی نہیں سکتا… بہر
حل جہاں کہو اُتار دوں!"
” میرے خدا... میں کیا کروں !‘‘ لڑکی نے شاید
خود سے کہا۔ اس کی آواز میں بڑی کشش تھی۔ خوابناک سی آواز تھی۔ اتنی ہی دیر میں موڈی
کو اس آواز میں قدیم اسرار کی جھلک محسوس ہونے لگی تھی۔
" کیا تمہارا اپنا گھر نہیں !‘‘ موڈی نے پوچھا۔
" ہے تو … لیکن اس وقت گھر کا رخ کرنا موت کو دعوت دینا ہوگا۔“
" تم بڑی عجیب با تیں کر رہی ہو!"
" مجھے بچائیے۔ میں آپ پر اعتماد کر سکتی ہوں کیونکہ آپ ایک غیر
ملکی ہیں ۔‘‘
’’بات کیا ہے …!"
’’ایسی نہیں جس پر آپ آسانی سے یقین کر لیں۔“
’’پھر بتاؤ… میں کیا کروں ۔‘‘ موڈی نے بے بسی سے کہا۔
" مجھے اپنے گھر لے چلئے … لیکن
اگر وہاں کتے نہ ہوں ۔ مجھے کتوں سے بڑا خوف معلوم ہوتا ہے۔"
’’گھر لے چلوں !'' موڈی تھوک نگل کر رہ گیا۔ اچانک اسے ایسا
محسوس ہوا جیسے اس کے خوابوں میں سے ایک نے عملی جامہ پہن لیا ہو۔ وہ تھوڑی دیر تک
خاموش رہا۔ پھر بولا " کتے ہیں تو مگر خطرناک نہیں ۔‘‘ موڈی نے کار اپنے بنگلے
کی طرف موڑ دی۔
’’ لیکن خطرہ کس
قسم کا ہے !‘‘ اس نے لڑکی سے پو چھا ۔
’’اطمینان سے بتا
نے کی
بات ہے ۔‘‘ لڑکی بولی ’’اگر میں یہیں بتا تا …شروع کردوں تو آپ
ہنسی میں اڑادیں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ
کار سے
اتر جانے کو کہیں ۔‘‘
مو ڈی خاموش ہو گیا۔ اس نے
اس لڑکی کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی
اور سرسے پیر تک لرز کررہ گیا تھا … اس نے
مشرق قدیم کے متعلق بہت کچھ
پڑھا تھا …بچپن ہی سے پڑھتا آیا تھا …اس لٹر یچر کی پرا
سرار مشرقی حسینا ئیں اس کے
خوابوں میں بس گئی تھی !...بار بار اس کادل
چاہ رہا تھا کہ وہ اندر
رو شنی کرکے اسے ایک با ر پھر سے دیکھے … کتنا پر اسرار
چہرہ تھا کیسی خوا بناک
آ نکھیں …اسےاس کی گرد
رو شنی کا ایک دا ئرہ سا نظر آ یا تھا ۔ پتہ نہیں یہ اس کا
وا ہمہ تھا یا حقیقت تھی
اس نے سوئچ آن کر نا چا ہا
لیکن ہمت نہ پڑی۔ لڑکی بھی خاموش
ہو گئی تھی لیکن اس کی آواز اب بھی
مو ڈی کے ذہن میں گو نج رہی تھی۔
بنگلہ آگیا اور کا
ر کمپا ؤنڈ کے پھا ٹک میں موڑدی گئی …مو ڈی کا ر کو گیراج کی طرف لے جانے کی بجا ئے سیدھا پورچ کی طرف لیتا چلا گیا
اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس کے
سا منےاس کے خوابوں کی تعبیر کھڑی
تھی۔ایک نوجوان مشر قی لڑکی جس کے خدو خال مو ڈی کو بڑے کلا سیکل قسم کے معلوم ہورہے تھے …وہ مشرقی ہی لباس میں تھی لیکن لباس سے خوشحال نہیں معلوم ہو تی تھی ۔اس کے ہاتھ میں ایک چھو ٹا سا
چرمی سو ٹ کیس تھا۔
’’بب …بیٹھو !‘‘ موڈی نے ہکلا کر صوفے کی طرف اشارہ کیا !
لڑکی بیٹھ گئی ۔موڈی اس انتظار میں تھا کہ لڑکی خود ہی گفتگو کرےگی لیکن وہ خا
موش بیٹھی فرش کی طرف دیکھتی رہی …ایسا معلوم ہو رہاتھا
جیسے وہ یہاں آنے کا مقصد ہی بھول گئی ہو …موڈی کچھ دیر تک انتظار کر تا رہا
لیکن خا موشی کا وقفہ بڑھتا ہی گیا تو اس
نے کہا۔
’’مجھے اب کیا
کر نا چا ہئے‘‘لڑکی چو نک پڑ ی اور
اس طرح چو نکی جیسے اسے مو ڈی کی مو جو دگی کا احساس ہی نہ رہا ہو۔
’’اوہ…‘‘اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہا ۔
’’میری وجہ سے آپ کو تکلیف ہو ئی!‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں !‘‘مو ڈی
بولا !’’کچھ پئیں گی آپ!‘‘
’’جی نہیں شکریہ !‘‘لڑکی نے سوٹ کیس
کو فرش پر رکھتے ہو ئے کہا ۔و ہ پھر خا موش ہوگئی …اب مو ڈی کو الجھن ہو
نے لگی …آخر اس نے اسے اصل مو ضوع کی طرف لا نے کے لئے کہا۔’’میں ہر طرح آپ کی مدد کر نے کی کوشش کروں گا ۔‘‘
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں آپ سے
کہو ں اور کس طرح گفتگو شروع کرو۔لڑکی
بولی!
’’آپ
کچھ کہئے بھی تو‘‘۔مو ڈی نے جھجھلا
کر کہا ۔دراصل اس کا نشہ اکھڑا رہا تھا ۔ایسی حا لات میں وہ ہمیشہ کچھ چڑ چڑا سا
نظر آ نے لگتا تھا ۔
’’ذرا …ایک منٹ ٹھہر یے
۔‘‘لڑکی سو ٹ کیس کو فرش سے اٹھا کر صوفے
پررکھتی ہو ئی بولی ۔’’میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ مجھے یہاں تک لا ئے ۔اب
میں آپ سے ایک در خو است اور کروں گی ۔‘‘
"کہئے…کہئے ! "موڈی سگریٹ
سلگاتا ہوا بولا۔
’’ میں کچھ دنوں کے لئے اپنی ایک چیز آپ کے پاس امانتار کھوانا
چاہتی ہوں۔’’ لڑکی نے کہا اور سوٹ کیس کھول کر اس میں سے آبنوس کی ایک چھوٹی سی صندوقچی
نکالی …اور پھر جیسے ہی موڈی کی نظر اس صندوقچی پر پڑی اس کی آنکھیں
حیرت سے پھیل گئیں… کیونکہ اس صندوقچی میں جواہرات جڑے ہوئے تھے !
’’یہ ہمارے ملک کی ایک قدیم ملکہ کا سنگار دان ہے۔‘‘ لڑکی اسے موڈی
کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی ۔" آپ اسےکچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رکھئے ۔"
" کیوں …وجہ؟"
’’بات یہ ہے کہ میں ایک بے سہارا لڑکی ہوں۔ کچھ لوگ اس کی تاک
میں ہیں۔ آج بھی انہوں نے اسےاڑانا چاہا تھا …لیکن میں کسی طرح بچالائی
۔ گھر میں تنہا رہتی ہوں …؟‘‘
’’مگر یہ آپ کو ملا کہاں سے؟"
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں کہیں سے چُرالائی ہوں۔"
’’او ہو! یہ مطلب نہیں !‘ ‘موڈی جلدی سے بولا۔ ’’بات یہ ہے کہ…!‘‘
’’ میری ظاہری حالت ایسی ہے کہ میں اس کی مالک نہیں ہو سکتی
۔‘‘ لڑکی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دکھائی دی۔
" آپ میرا مطلب نہیں سمجھیں۔“
’’دیکھئے میں آپ کو بتاتی ہوں ۔ ‘‘لڑکی نے ایک طول سانس لے کر
کہا۔
’’میں دراصل یہاں کے ایک قدیم شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں
یہ سنگاردان مجھے تک وراثت میں پہنچا… اب میں اس خاندان کی آخری فرد ہوں۔“
’’سچ مچ!‘‘ موڈی بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا۔ وہ سوچ رہا
تھا کہ عنقریب اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل جائے گی۔
’’ہاں تو آپ یہ خیال دل سے نکال دیجئے کہ میں اسے کہیں سے چرا
کر لائی ہوں ۔ ‘‘
’’دیکھئے آپ زیادتی کر رہی ہیں !‘‘ موڈی نے ملتجانہ اندار میں
کہا۔
’’ میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا… میں
اس کی حفاظت کروں گا۔ شہزادی صاحبہ! ‘‘
’’بہت بہت شکریہ… لیکن میں آپ کو ایک خطرے سے آگاہ کر دوں! ہو سکتا ہے
کہ وہ لوگ اسے حاصل کرنے کےسلسلہ میں آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیں ۔“
’’نا ممکن !‘ ‘موڈی اکڑ کر بولا ۔ " میں اڑتے ہوئے پرندوں
پر نشانہ لگا سکتا ہوں۔ یہاں کس کی مجال ہے کہ میری کمپاؤنڈ میں قدم رکھ سکے۔‘‘
’’ایک بار پھر سوچ لیجئے !‘‘ لڑکی نے اسے ٹٹولنے والی نظروں
سے دیکھ کر کہا۔
’’ میں نے سوچ لیا ! میں آپ کی مددکروں گا۔ ابھی آپ کہہ رہی
تھیں کہ آپ تنہا ر ہتی ہیں۔!‘‘
’’جی ہاں…‘‘
’’لیکن آپ ا سے واپس کب لیں گی۔‘‘
’’جب بھی حالات سازگار
ہو گئے۔ اس لئے میں آپ سے کہہ رہی تھی کہ مدد کرنے سے پہلے حالات کو اچھی طرح سمجھ
لیجیئے۔‘‘
’’پر واہ نہ کیجیے !میں
اب کچھ نہ پوچھوں گا۔ جو آپ کا دل چاہے کیجئے۔"
’’اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ اسے کچھ دنوں کے لئے
اپنے پاس رکھ لیں ۔"
’’میں تیار ہوں۔ لیکن کیا آپ کبھی کبھی ملتی رہا کریں گی۔"
’’یہ سب حالات پر مخصر ہے۔"
’’لیکن اب آپ کی واپسی کس طرح ہوگی؟ کیا باہر وہ لوگ آپ کی تاک
میں نہ ہوں گے۔"
’’ہوا کریں لیکن اب وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ! "
" کیوں۔ کیا ابھی
کچھ دیر قبل آپ ان سے خائف نہیں تھیں ۔"
’’ ضر در تھی لیکن اب وہ چیز میرے پاس نہیں ہوگی جس کی وجہ سے میں خائف رہتی
تھی ۔"
’’ممکن ہے وہ آپ کو قابو میں کرنے کے بعد آپ پر جبر کریں۔"
" میرا دل کافی مضبوط ہے۔"
’’آپ پولیس کو کیوں نہیں مطلع کرتیں۔"
’’اوہ اس طرح بھی ایک خاندانی چیز کے ضائع ہو جانے کا امکان
باقی رہ جاتا ہے۔ حکومت ایسی صورت میں یہ ضرورچاہے گی کہ اسے آثار قدیمہ کے کسی شعبے
میں رکھ لیا جائے۔"
’’ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے۔ ‘‘موڈی نے سر ہلا کر کہا۔
’’ نہ میں پولیس کو اطلاع دے سکتی ہوں اور نہ فی الحال اسے اپنے
پاس رکھ سکتی ہوں… اف میرے خدا میں کیا کروں۔ یہ دنوں ہی صورتیں مجھے پولیس
کی نظر میں مشتبہ بنادیں گی۔ اس لئے خاموشی ہی بہتر پالیسی ہوگی ۔"
’’ آپ ٹھیک کہتی ہیں شہزادی صاحبہ ۔ میں اس کی پوری پوری حفاظت
کروں گا ۔“
’’بہت بہت شکریہ!"
’’کیا آپ کا نام اور پتہ پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہوں۔"
’’نام … میرا نام دردانہ ہے… اور
پتہ نہیں پتہ نہ پوچھئے …آپ نہیں سمجھ سکتے کہ میں کن پریشانیوں میں ہامبتلا ہوں …میں آپ سے ملتی رہوں گی ۔ "
’’ بہت اچھا !میں آپ کو مجور نہیں کروں گا ۔ کیا آپ رات کا کھانا
میرے ساتھ پسند کریں گی ۔"
’’نہیں شکر یہ لڑکی اٹھتی ہوئی بولی۔ " آپ ذرا تکلیف کر
کے مجھے پھاٹک تک چھوڑ آئیے ۔‘‘ موڈی چاہتا تھا کہ وہ ابھی کچھ دیر اور ر کے …لیکن دوبارہ کہنے کی ہمت نہیں پڑی… نہ جانے کیوں اس کا دل چاہ ر ہا تھا کہ وہ لڑ کی شہزادیوں
کے سے انداز میں اس سے تحکمانہ لہجے میں گفتگو کرے اور وہ ایک غلام کی طرح سر جھکائے
کھڑ اسنتار ہے۔
وہ اس کے ساتھ پھا تک تک آیا …اور اس وقت تک کھڑا اسے
جاتے دیکھتا رہا جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی ۔ موڈی نے اسے کہا بھی تھا
کہ وہ جہاں کہے اس کار پر پہنچا دیا جائے لیکن لڑکی نے اسے منظور نہیں کیا تھا۔
موڈی اس کے جانے کے بعد کافی دیر تک کھڑا اندھیرے میں گھورتا
رہا پھر واپس چلا آیا۔ سب سے پہلے اس نے وہسکی کے دو تین پگ پئے اور پھر سنگاردان کو
ڈرائنگ روم سے اٹھا کر اپنے سونے کے کمرے میں لایا ۔ اس پر جڑے ہوئے جواہرات بجلی کی
روشنی میں جگمگارہے تھے …موڈی نے اسے کھولنے کی کوشش نہیں کی… وہ
پھر اپنے پراسرار خوا بوں میں کھو گیا تھا۔ اسے ایسامحسوس ہورہا تھا جیسے وہ اب سے
پانچ سوسال قبل کی دنیا میں سانس لے رہا ہواور اس کی حیثیت کسی شہزادی کے باڈی گارڈ
سی ہو !وہ اس کے دشمنوں سے جنگ کر رہاہو …نشے میں تو تھا ہی اس نے سچ مچ خیالی شہزادی کے خیالی دشمنوں سے جنگ شروع کردی۔ اس کا پہلا گھونسہ
دیوار پر پڑا ،دوسرا میز پراور تیسرا غالباً اس کے سرپر… و
ہ غل غپارہ مچا کہ سارے نوکر اکٹھا ہو گئے۔
2
عمران اپنے
آفس میں بیٹھا ایک فائل کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ عمران اور آفس… بات
حیرت انگیز ضرور ہے۔ گمروہ بیچارہ زبردستی کی اس پکڑ دھکڑ کو کیا کرتا جوسرکاری طور
پر اس کے لئے کی گئی تھی…لی یو کا کی گرفتاری کے بعد سے وہ نسی طرح بھی خود کو نہ چھپا
سکا تھا۔ پھر ویران عمارت والا کیس بھی منظر عام پر آ گیا تھا۔ یہ دونوں ہی کیس ایسے
اہم تھے کہ انہیں نپٹانے والے کی شخصیت پردہ راز میں رہ ہی نہیں سکتی تھی !عمران کے
والد جو کہ سراغرسانی کے ڈائرکٹر جنرل تھے خبط الحواس بیٹے کی ان صلاحیتوں پر بمشکل
یقین کر سکے۔ وہ تو اسے گاؤ دی ، احمق اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے تھے۔
آنریبل وزیر داخلہ نے عمران کو مدعو کر کے بہ نفس نفیس محکمہ
سراغرسانی میں ایک اچھے عہدے کے پیش کش کی اور عمران سے انکار کرتے نہ بن پڑا … لیکن
اس نے بھی اپنی شرائط پیش کیں، جو منظور کرلی گئیں۔…اس کی سب سے پہلی تجویز
یہ تھی کہ وہ اپنے طور پر جرائم کی تفتیش کرے گا۔ اس کا ایک سیکشن الگ ہوگا اور اس
کا تعلق براہ راست ڈائرکٹر جنرل سے ہوگا اور وہ ڈائرکٹر جنرل کے علاوہ کسی اور کو جواب
دہ نہیں ہوگا اور وہ اپنے سیکشن کے آدمیوں کا انتخاب خود کرے گا۔ ضروری نہیں کہ وہ
اس کے لئے نئی بھرتیوں کی فرمائش کرے۔ جب بھی اسے محکمے ہی کا کوئی ایسا آدمی ملے گا،
جو اس کے کام کا ہو وہ اسے اپنے سیکشن میں لینے کی سفارش ضرور کرے گا۔ اس کے سیکشن
کے عملے کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہوگی ۔“
شرائط منظور ہو جانے کے بعد عمران نے اپنی خدمات پیش کردیں لیکن
رحمان صاحب کو اس وقت بڑی شرمندگی ہوئی جب انہوں نے سنا کہ عمران اپنے عملے کے لئے
انتہائی ناکارہ اور اد نگھتے ہوئے سے آدمیوں کو منتخب کر رہا ہے …اس نے ابھی تک چار آدمی منتخب کئے تھے اور یہ چاروں بالکل ہی نا کارہ تصور کئے
جاتے تھے۔ کوئی بھی انہیں اپنے ساتھ رکھنا پسند نہیں کر تا تھا …عمران جا نتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا ۔آخر وہی ہواجس
کی تو قع تھی …رحمان صاحب نے اسے
آفس میں بلا کر اچھی طرح خبر لی۔
’’ میرا بس چلے تو تمہیں دھکے دلوا کر یہاں سے نکلوا دوں ۔‘‘
انہوں نے کہا۔
’’ میں اس جملے کی سرکاری طور پر وضاحت چاہتا ہوں ! ‘‘عمران
نے نہایت ادب سے کہا۔ اس پر رحمان صاحب کے اور زیادہ جھلا گئے۔ لیکن پھر انہیں فوراً
خیال آگیا کہ وہ اس وقت اپنے بیٹے سے نہیں بلکہ اپنے ایک ماتحت آفیسر سے مخاطب ہیں۔
"
’’ تم نے ایسے نکمے آدمیوں کا انتخاب کیوں کیا ہے ۔‘‘ انہوں
نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔
’’محض اس لئے کہ میں اس محکمے میں کسی کو بھی نکما نہیں دیکھ
سکتا۔ ‘‘عمران کا جواب تھا۔ رحمان صاحب دانت پیسں کررہ گئے۔ لیکن کچھ بولے نہیں۔ عمرا
ن کا جواب ایسا نہیں تھا جس پر مزید کچھ کہا جاسکتا! بہر حال انہیں خاموش ہو جانا
پڑا… کیونکہ عمران نے اپنے معاملات بر اہ راست وزارت داخلہ
سے طے کئے تھے۔ کچھ لوگ عمران کی ان حرکتوں کو حیرت سے دیکھتے اور کچھ اس کا مضحکہ
اڑاتے !لیکن عمران ان سب سے بے پرواہ اپنے طور پر اپنے سیکشن کے انتظامات مکمل کر رہا
تھا۔
اس وقت بھی اس کے سامنے ایک فائیل رکھا ہواتھا! اس میں چند ایسے
کیسوں کے کاغذات تھے جن میں محکمے کو کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ اس فائیل کو دیکھنے کی
ضرورت یوں پیش آئی کہ ایک بہت پرانے کیس میں دوبارہ جان پیدا ہو چلی تھی۔ یہ کیس دس
سال پرانا اور نامکمل تھا۔ مگر اب …اب تو اس نے ایسی حیرت انگیز شکل اختیار کر لی تھی کہ سارا شہر سناٹے میں آگیا
تھا۔ کیس کی نوعیت عجیب تھی… اب سے دس سال پیشتر شہر کے مشہور رئیس نواب ہاشم کو
کسی نے اس کی خواب گاہ میں تقل کر دیا تھا…مگر پھر اچانک دس سال
بعد نواب ہاشم دوبارہ گوشت پوست میں دکھائی دیا…وہ کسی طویل سفر سے واپس
آیا تھا۔
عمران نے فائیل بند
کر کے میز کے ایک گوشے پر رکھ دیا اور جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکال کر اس کا کاغذ پھاڑنے
لگا !اتنے میں سپر نٹنڈنت فیاض کے ارولی نے آکر کہا...
’’صاحب نے سلام بولا ہے۔“
’’و علیکم السلام " عمران نے کہا اور کرسی کی پشت سے ٹیک
لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ اردلی بوکھلا کر رہ گیا…وانگریزوں کے وقت کا آدمی
تھا…اور…’’ سلام‘‘ کا مقصد اس دور میں بلا وے کے علاوہ
اور کچھ نہیں ہوتا تھا جب کسی انگریز آفیسر کو اپنے ماتحت آفیسر کو بلوانا ہوتا تو
وہ اپنے اردلیوں سے اسے اس طرح سلام بھجوا دیا کرتا تھا…لیکن آج فیاض کے اردلی
کو عمران کے ’’وعلیکم السلام ‘‘نے بوکھلا دیا…وہ چند لمے عمران کی میز
کے قریب کھڑا بغلیں جھانکتارہا۔ پھر الٹے پاؤں واپس چلا گیا… خود
اس کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ کیپٹن فیاض تک عمران کا "وعلیکم السلام ‘‘پہنچاتا ۔لیکن
اس نے اس کا تذکرہ فیاض کے پرسنل اسسٹنٹ سے کر دیا۔ یہ پرسنل اسسٹنٹ ایک لڑکی تھی۔
وہ کافی دیر تک ہنستی رہی پھر اس نے سلام کا جواب فیاض تک پہنچا دیا… فیاض
بھنا گیا… وہ عمران کا دوست ضرور تھا۔ لیکن جب سے عمران اس محکمے
میں آیا تھا اسے اپنا ماتحت سمجھنے لگا تھا۔ س بار اس نے اردلی کو بلا کر کہا ’’جا
کر کہو ! صاحب بلا رہے ہیں ۔“
ار دلی چلا گیا… تھوڑی دیر بعد عمران کمرے میں داخل ہوا۔
’’ بیٹھ جاؤ۱‘‘ فیاض نے کرسی کی طرف اشارہ کیا… عمران
بیٹھ گیا۔فیاض چند لمحےاسے گھور تار ہا پھر
بولا ’’دوستی اپنی جگہ …لیکن آفس میں تمہیں حفظ مراتب کاخیال رکھنا
ہی پڑے گا۔‘‘
" میں نہیں سمجھا !تم کیا کہ رہے ہو ۔"
’’میں تمہارا آفیسر ہوں ۔"
’’اخاہ۔‘‘ عمران بر اسامنہ بنا کر بولا ۔ یہ تم سے کسی گدھے
نے کہ دیا کہ تم میرے افیسر ہو! دیکھو میاں فیا ض !میرا اپنا ایک الگ ڈیپارٹمنٹ ہے اور میں اس کا اکلوتا انچارج ہوں
…اور میں براہ راست ڈائرکٹر جنرل کو جواب دہ ہوں سمجھے !"
’’سمجھا۔‘‘ فیاض طویل سانس لے کر بولا اور کچھ نرم پڑ گیا تھا۔
ہو سکتا ہے کہ ا سے اپنی ترقی کا ’’معجزہ‘‘
یاد آ گیا ہو۔ وہ پہلے صرف انسپکڑ تھا۔ لیکن
پانچ سال کے اندر حیرت انگیز طور پر سپرنٹنڈنٹ ہوگیا تھا… اس
کا دل ہی جانتا تھاکہ اس کی ترتی کے لئے عمران نے کیا کچھ نہیں کیا تھا ‘‘تم آفس میں
بھی اپنے اُلو پن سے باز نہیں آتے ۔"
’’ یہ کہاں لکھا ہے کہ اس آفس میں الوؤں کے لئے کوئی جگہ نہیں
…! "
’’او با با ختم بھی کرو… میں
تم سے ایک اہم مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا تھا !"
’’میرا خیال ہے کہ میرا الوپن بھی نہایت اہم ہے… کیونکہ
اسی الو پن کی وجہ سے میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ ویسے میں جانتا ہوں کہ تم نو اب ہاشم
کے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہو ! "
’’تم نے پورا کیس سمجھ لیا ۔"
’’سمجھ لیا ہے۔ لیکن یہ نہیں سمجھ سکا کہ آخر اسے قتل کیوں قرار
دیا گیا۔ ہزار حالات ایسے تھے کہ اسے خودکشی بھی سمجھا جا سکتا تھا۔"
’’ مثلًا…!‘‘ فیاض نے اسے معنی خیز نظروں سے دیکھ کر پوچھا۔
’’ مثلاً یہ کہ فائر اس کے چہرے پر کیا گیا تھا۔ بندوق بارہ
بور کی تھی اور کار توس ایس جی ، چہرے کے پرخچے اڑ گئے تھے شکل اس طرح بگڑ گئی تھی
کہ شناخت مشکل تھی …وہ صرف اپنے لباس اور چند دوسری نشانیوں کی بنا پر پہچانا گیا
تھا !بندوق اس کے قریب ہی پڑی ہوئی ملی تھی اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے کہ گولی بہت
ہی قریب سے چلائی گئی تھی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کہتی ہے کہ بندوق کے دہانے کا فاصلہ
چہرے سے ایک بالشت سے زیادہ نہیں ہو سکتا…‘‘
’’ گولی مارویار!‘‘ فیاض میز پر ہاتھ مار کر بولا ۔‘‘ وہ کم
بخت تو زندہ بیٹھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بعض وجوہ کی بناء پرکسی کو کچھ بتائے بغیر
گھر سے چلا گیا تھا۔ اتنے دنوں تک جنوبی بر اعظموں کی سیاحت کرتا رہا اور اب واپس آیا
ہے… اس کی خوابگاہ میں کس کی لاش پائی گئی …؟ نواب ہاشم اس سے
لاعلم ہے ۔"
’’ذراٹھہر و !‘‘عمران
ہاتھ اٹھا کر بولا ۔‘‘ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جس رات لاش پائی گئی تھی اس دن وہ اپنے
گھرہی میں رہا ہوگا ۔‘‘
’’ظاہر ہے۔"
’’تو پھراسی رات کو …گھر سے روانہ ہوا… اورا
ت کو ایک ایسے آدم کواس کی خوا بگاہ میں حادثہ پیش آیا، جو اسی کے سلیپنگ میں
ملبوس تھا۔‘‘
’’بات تو یہی ہے۔ ‘‘فیاض نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
عمران چند لمحے کچھ
سوچتا رہا۔ پھر بولا۔’’ اب وہ اس لاش کے متعلق کیا کہتا ہے۔"
’’اس کا جواب صاف ہے…وہ کہتا ہے بھلا میں کیا
بتا سکا ہوں۔ گھر والوں کی غلطی ہے۔ انہوں نے لاش اچھی طرح شنا خت نہیں کی !‘‘
’’لیکن کسی کو کچھ بتائے بغیر اس طرح غائب ہو جانے کا کیا مقصد تھا۔"
" عشق! " فیاض ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
’’ اوہ تب تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔‘‘ عمران نے سنجیدگی سے
کہا۔ " مثل مشہور ہے کہ عشق کے آگے بھوت بھی بھاگتا ہے۔"
’’سنجیدگی عمران سنجیدگی !"
’’میں بالکل سنجیدہ ہوں! اگر وہ اس طرح گھر سے نہ بھاگتا تو
اسے سچ سچ کسی سے عشق ہو جاتا ۔“
’’بکواس مت کرو… عشق میں ناکام رہنے پر وہ دل شکستہ ہو گیا تھا۔ اس لئے
اسے یہاں سے چلا جانا پڑا…‘‘
’’خدا سے ڈرو فیاض وہ جنگ کا زمانہ تھا اور اس زمانے کا رواج
یہ تھا کہ لوگ عشق میں ناکام ہونے پر فوج میں بھرتی ہو جایا کرتے تھے ۔ ایسے حالات
میں سیاحی کا دستور نہیں تھا۔“
"میرا دماغ مت
خراب کرو!‘‘فیاض جھلا کر بولا۔ ’’ جاؤ یہاں ہے ۔‘‘ عمران چپ چاپ اٹھا اور کمرے سے باہر
نکل آیا۔ اس کے کمرے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بج رہی تھی ۔ اس نے ریسیور اٹھایا۔
’’ ہیلو… ہاں عمران کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے. ..کون ...! موڈی کیا بات ہے آخر کچھ بتاؤ بھی تو …ارے بس یارکان نہ کھاؤ… اچھا
میں ابھی آرہا ہوں۔“
ریسیور رکھ کروہ دروازے کی جانب مڑا ۔ جہاں اس کا ایک مریل ساما
تحت کھڑا اسے گھور رہا تھا… اس کے چہرے کی رنگت زرد تھی۔ گال پچکے ہوئے اور بال
پریشان تھے۔
’’ہوں …کیا خبر ہے ۔‘‘ عمران نے اس سے پوچھا۔
’’جناب ! میں نے کچھ معلومات فراہم کی ہیں۔“
شاباش۔ دیکھا تم نے !پہلے تم کہا کرتے تھے کہ معلومات تم سے
دور بھاگتی ہیں مگر اب… اب تم اچھے خاصے جار ہے ہو ۔ عنقریب سارجنٹ ہو جاؤ گے
…لیکن میری یہ بات ہمیشہ یادرکھنا کہ دوسروں کو الو بنانے کا
سائنٹیفک طریقہ یہ ہے کہ خود اُلو بن جاؤ سمجھے !‘‘۔
جی جناب !میں بالکل مجھ گیا… خیر
پورٹ سنئے !نو اب ہاشم حویلی سے باہر نہیں نکلتا!آج ایک سرخ رنگ کی کار حویلی میں دوبار
آئی تھی… حویلی کی کمپاؤنڈ میں ایک لڑکا تقریبا آدھے گھنے تک
منہ سے طلبہ بجابجا کرفلمی گیت گاتا رہا۔ پھر گیارہ بجے ایک نہایت شوخ اورا لہڑقسم
کی مہترانی حویلی میں داخل ہوئی اس کے با ئیں گال پر سیاہ رنگ کا بھرا ہوا ساتل تھا…چہرو بیضوی ! آنکھیں شربتی قد ساڑھے چار اور پانچ کے درمیان میں …‘‘
’’ہائیں… واقعی تم ترقی کر رہے ہو ۔ ‘‘عمران مسرت بھرے لہجے میں
چیخا۔’’ شاباش… ہر چیز کو بہت غور سے دیکھو… کار
جود و بار آئی تھی اس کا نمبر کیا تھا…‘‘
’’اس پر تو میں نے دھیان نہیں دیا جناب۔ "
’’فکر نہ کرو… آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا…اچھا اب جاؤ چار بجے شام پھر تمہاری وہیں ڈیوٹی ہے …!‘‘
عمران نے باہر آ کر سائبان کے نیچے سے اپنی سیاہ رنگ کی ٹوسٹیر
نکالی اور موڈی کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گیا۔ موڈی اس کے گہرے دوستوں میں سے تھا،
عمران جب وہاں پہنچا تو موڈی شراب پی رہا تھا … وہ
تقریبا ہر وقت نشے میں رہتا تھا۔ عمران کو دیکھ کر وہ کرسی سے اٹھا اور لکھنوی انداز
میں اسے سلام کرتا ہوا پیچھے کی طرف کھسکنے لگا !وہ مشرقی طرز معاشرت کا دلدادہ تھا
اور مشرقیوں کے ساتھ عموما انہیں کا انداز اختیار کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا!
3
موڈی نے اپنی داستان شروع کر دی تھی! عمران بغور سن رہا تھا۔
’’ تو وہ سنگاردان میرے پاس چھوڑ کر چلی گئی !'' موڈی نے بیان
جاری رکھا اور اسی رات کو کچھ نامعلوم افراد نے میرے
بنگلے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
" کیا تم جاگ رہے تھے ؟ ‘‘عمران نے پوچھا۔
’’ میں رات بھر جاگتا رہا تھا۔ میں نے انہیں دیکھا، دو تین فائر
کئے …اور وہ ڈر کر بھاگ گئے، لیکن دوسرے ہی دن سے یہاں اجنبیوں کا
تار بندھ گیا ایسی ایسی شکلیں دکھائی دیں کہ میں حیران رہ گیا۔ ان میں سے کوئی نوکری
کے لئے آیا تھا۔ کوئی امریکی طرز حیات کے متعلق معلومات چاہتا تھا کوئی محض اس لئے
آیا تھا کہ مجھ سے دوستی کرنا چاہتا تھا!... تقر
یبادس پندرو آدمی اس طرح مجھ تک پہنچے ۔ اس سے پہلے یہاں کوئی نہیں آتا تھا…پھر شام کو ایک عجیب وغریب آدمی آیا۔ اس کے چہرے پر سیاہ رنگ کی گھنی داڑھی تھی
اور آنکھوں پر تاریک شیشے کی عینک ! …اس نے کہا کہ وہ میرے بنگلے کا مالک ہے۔ واضح رہے کہ میں نے
یہ بنگلہ ایک ایجنسی کی معرفت کرایہ پر حاصل کیا ہے اور اس عجیب نو دارد نے مجھ سے
کہا کہ اسے ایجنسی والوں پر اعتماد نہیں ہے! میں ذرا بنگلے کی اندرونی حالت دیکھنا
چاہتا ہوں …!تم خودسوچو عمران ڈئیر،میں الوتو تھا نہیں کہ اسے اندر
داخل ہونے کی اجازت دیتا اور پھر ایسے حالات میں ...لو میری جان اتم
بھی پیو ...‘‘
’’ نہیں شکریہ!... ہاں ! پھر کیا ہوا؟"
’’تم جانتے ہو کہ میں
خود بڑا پر اسرار آدمی ہوں ۔ ‘‘موڈی نے موڈ میں آکر کہا " مجھے کوئی کیا دھوکا
دے گا… میں نے اسے ٹہلادیا !‘‘موڈی نے دوسرا گلاس لبریز کر کے ہونٹوں سے لگا لیا !...
’’ لڑکی پھر آئی تھی ؟ ‘‘عمران نے پوچھا۔
’’ہائے یہی تو داستان کا بڑا پر درد حصہ ہے !میرے دوست ! ‘‘موڈی
ایک سانس میں گلاس خالی کر کے اسے میز پرپٹختا ہوا بولا ۔وہ آئی تھی… آج سے دس دن پہلے کا واقعہ ہے۔آئی او کہنے لگی کہ میری
سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں ؟ ایسی چیز کو اپنے پاس کیسے رکھوں، میں ایک بے
سہارا لڑکی ہوں، میری گردن ضرور کٹ جائے گی !... میں
نے اس سے کہا کہ وہ اسے کسی معقول آدمی کے ہاتھ فروخت کیوں نہیں کر دیتی ! اس طرح اس
کی حالت بھی درست ہو جائے گی !... تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد وہ راضی ہوگئی، میں نے اسے پچیس
ہزار کا آفر دیا!... اس پروہ کہنے لگی کہ نہیں یہ بہت زیادہ ہے۔ اس کی دانست
میں اس کی قیمت زیادہ نہیں تھی !میں نے سوچا
کتنی بھولی ہے !... ہائے عمران پیارے وہ اب بھی !ہائے… میں
نے اسے زبردستی پچیس ہزار کے نوٹ گن دیئے…! اس دوران میں ہر
رات مجھے ریوالور لے کر اس سنگاردان کی حفاظت کے لئے جاگنا پڑتا تھا…!‘‘
’’ارے وہ ہے کہاں؟ میں بھی دیکھوں ۔‘‘ عمران بولا ۔
’’ٹھہر و…دکھاتا ہوں …‘‘یک بیک موڈی بگڑ گیا… اس کا اوپری ہونٹ، بھینج گیا تھا اور آنکھوں سے خون
ساٹپکتا معلوم ہور ہا تھا…عمران نے اس کے جذباتی تغیر کو حیرت سے دیکھا۔ لیکن کچھ بولا
نہیں … موڈی جھٹکے کے ساتھ اٹھا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا
اعمران چپ چاپ بیٹھا رہا۔ دفعتا اس نے دوسرے کمرے میں شور و غل کی آوازیں سنیں اور
ساتھ ہیں نو کر بھاگتا ہوا کمرے میں آیا .....
’’صاحب‘‘ اس نے ہا نپتے ہوئے عمران سے کہا۔ " موڈی صاحب کو بچائے۔“
’’کیا ہوا؟‘‘ عمران اچھل کر کھڑا ہو گیا …نوکر نے کمرے کے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور خود بھی بھاگتا ہوا ا سی کمرے میں چلا گیا! عمران جھپٹ کر کمرے میں پہنچا!
…موڈی عجیب حال میں نظر آیا ! دو تین نو کر اس کی کمرسے لیٹے
ہوئے تھے اور وہ ایک سیاہ رنگ کے ڈبے سے اپنا سر پھوڑ رہا تھا۔
’’ ہٹ جاؤ… ہٹ جاؤ !‘‘ وہ حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا اور ساتھ
ہی ڈبے سے اپنے سر پر ضربیں لگا تا جارہا تھا !۔
عمران نے بدقت تمام
وہ ڈبہ اس کے ہاتھ سے چھینا …اور نوکروں نے کسی نہ کسی طرح اسے دھکیل کر ایک صوفے میں ڈال
دیا۔ عمران نے ڈبے کو ہاتھوں میں تول کر دیکھا اور پھر اس کی نظر ان جواہرات پر جم
گئی ، جوڈ بے کے چاروں طرف جڑے ہوئے تھے!۔
’’یہی ہے !موڈی صوفے سے اٹھ کر دھاڑا …یہی ہے !"
’’ ہوش میں آجاؤ بیٹا۔ ورنہ ٹھنڈے پانی کی بالٹی میں غوطہ دوں
گا !‘‘عمران بولا !
’’ میں بالکل ہوش میں ہوں ‘‘موڈی نے حلق پھاڑ کر کہا۔
" جب سے میں نے اس کی قیمت ادا کی ہے… چین
سے رات بھر سوتا ہوں۔ سمجھے تم …یا ابھی اور حلق پھاڑوں! "
’’اب تم سو جاؤ !" عمران نے کہا۔ ’’پھر کبھی بات کریں گے
…"
’’کیا… ارے کیا !اب تم بھی کام نہ آؤ گے؟"
’’تو پھر تم ہوش کی باتیں کرو !"
’’ار ے بابا ۔‘‘ موڈی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا ۔ " اس
کے خرید نے کے بعد اسے اب تک ایک بھی پر اسرار آدمی د کھائی نہیں دیا۔ کسی نے بھی اسے
حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی…‘‘
" ہام… " عمران ایک
طویل سانس لیتا ہوا بولا ۔ تو یہ کہو… میں سمجھ گیا۔ ’’سمجھ گئے نا؟"
’’ہاں …اور اگر تمہاری اسرار پرستی کا یہی عالم رہا تو تم یہاں سے کنگال
ہو کر جاؤ گے… ارے مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں تم کچھ دنوں کے بعد گنڈے
اور تعویذوں کے چکر میں نہ پڑ جاؤ!"
’’یہ کیا چیزیں ہیں ؟"
’’کچھ نہیں !... اس لڑکی کا پتہ معلوم ہے؟"
’’وہ عالمگیری سرائے میں رہتی ہے۔"
’’عالمگیری سرائے بہت بڑا علاقہ ہے…!‘‘ عمران بوالا
۔
’’لیکن یہ بتاؤ کہ اب میں کیا کروں …مجھے پچیس ہزار روپوں
کی پرواہ نہیں ہے !میں تو ہائے …میں اسے دھو کے باز کسی طرح سمجھوں ! وہ تو مجھے ایک ایسی عورت معلوم ہوتی ہے،
جو ہزاروں سال سے زندہ ہو… تم نے رائڈر دہیگر ڈکا ناول ’’شی ‘‘پڑھا ہے؟"
’’او… موڈی کے بچے تیرا دماغ خراب ہو جائے گا!‘‘ عمران اسے
گھونسہ دکھا کر بولا…
’’نہیں ! میں تم سے زیادہ ہوشمند ہوں۔‘‘ موڈی ہاتھ جھٹک کر بولا!
" کیا تم نے اس کے جواہرات کہیں پر کھوائے ہیں ؟ ‘‘
’’پر کھوائے
ہیں ! …مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ مجھے دھوکا دیا گیا…!ہائے مصیبت تو یہ
ہے کہ میں اسے دھوکا باز کیسے سمجھوں!...نہیں وہ شہزادی ہے۔‘‘
’’ا بے چپ ! ڈفر کہیں کے… ! کیا تم نے اس
سے دوبارہ ملنے کی کوشش بھی کی ؟
’’نہیں ! میری ہمت نہیں پڑی ! ‘‘عمران اسے ترحم آمیز نظروں سے
دیکھ کر رہ گیا۔
’’ ان پتھروں کا تخمینہ کیا ہے؟ اس نے موڈی سے پوچھا!
’’پتھر نہیں بلکہ …پتھروں کی نقل کہو ۔‘‘
موڈی بولا’’ ان سب کا تخمینہ ڈیڑھ سو سے زائد نہیں ہے!"
’’او موڈی خدا تم پر رحم کرے'!‘‘عمران نے کہا اور موڈی اپنے
سر پر ہاتھ سے صلیب کی شکل بنانے لگا !تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ پھر عمران نے کہا’’ لڑکی
کا مکمل پتہ ہے تمہارے پاس !‘‘’’ہے… لیکن کیا کرو گے …؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں !ظاہر ہے کہ وہ اب وہاں نہ ہوگی یا ممکن ہے پہلے
بھی نہ رہی ہو ۔‘‘
’’ہائے تو تم بھی یہی ثابت کر رہے ہو کہ وہ دھوکے با ز ہے !...‘‘
’’اب تم بکو اس نہ کرو!ور
نہ گولی مار دوں گا!‘‘
’’گولی مارد و !مگر میں یقین نہیں کروں گا کہ وہ دھوکہ باز ہے
!وہ بہار کی ہواؤں کی طرح ہولے ہولے چلتی ہے ۔ اس کے رخساروں سے صبح طلوع ہوتی ہے
!... اس کے گیسوؤں میں شامیں انگڑائیاں لیتی ہیں !"
’’اور میرا چانٹا تمہاری آنکھوں میں دنیا تاریک کر دے گا۔ میں
کہتا ہوں مجھے اس کا پتہ چاہئے اور کچھ نہیں …!"
’’سرائے عالمگیری کے علاقے میں …صرف اتنا ہی اور اس کے
آگے میں کچھ نہیں جانتا !‘‘
لیکن عمران موڈی کو
گھور کر بولا! " تم نے مجھے کیوں بلایا تھا !جب کہ تمہیں ہاتھ سے گئی ہوئی رقم
کا افسوس بھی نہیں ہے !‘‘
’’پیارے عمران ا!میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم ثابت کردو کہ وہ
دھوکہ باز نہیں ! …تم چونکہ سرکاری آدمی ہو! اس لئے میں تمہاری بات قطعی تسلیم
کرلوں گا !و یسے اگر کوئی دوسرا کہے تو ممکن ہے مجھے یقین نہ آئے !"
’’اچھا بیٹا ‘‘عمران نے سر ہلا کر کہا۔ " میں کوشش کروں
گا کہ محکمہ سراغرسانی میں شعبہ عشق و عاشقی بھی کھلوادوں اور پھر تم یہ ساری باتیں
مجھ سے فون پر بھی کہہ سکتے تھے۔"
’’آہ! میں تمہیں کیسے سمجھاؤں !فون پر آپریٹر بھی سنتے ہیں!
میں نہیں چاہتا کہ کوئی شہزادی دردانہ کو دھوکہ باز سمجھے… آہ
… شہزادی !"
’’ شہزادی کے بھیجے میں چلا …آئندہ اگر میرا وقت برباد
کیا تو میں تمہیں برباد کردوں گا! اچھا …میں اس سنگاردان کو اپنے
ساتھ لئے جارہا ہوں!"
’’ہر گز نہیں ! ‘‘موڈی نے عمران کا ہاتھ پکڑ لیا ،’’میں مرتے
دم تک اس کی حفاظت کروں گا ! خواہ شہزادی کے دشمن کوہ قاف تک میرا پیچھا کریں !‘‘
’’تمہارا مرض لاعلاج ہے‘‘ عمران نے مایوسی سے سر ہلا کر کہا
اور سنگاردان کو میز پر رکھ کر کمرے سے نکل گیا…موڈی حلق پھاڑ پھاڑ کر
اسے پکار رہا تھا !...
4
تھوڑی ہی دیر بعد عمران کی ٹوسٹیر ہاشم کی حویلی کے سامنے رکی!
… عمارت قدیم وضع کی تھی ۔ لیکن پائیں باغ جدیدترین طرز
کا تھا اور اس کے گردگھری ہوئی قد آدم دیوار بھی بعد کا اضافہ معلوم ہوتی تھی !عمران نے گاڑی باہر ہی چھوڑ دی اور خود پائیں باغ
میں پھاٹک سے گزرتا ہوا داخل ہوا۔ پھاٹک سے ایک روش سیدھی حویلی کے برآمدے کی طرف چلی
گئی تھی! جیسے ہی سرخ رنگ کی بجری اس کے جوتوں کے نیچے کڑ کڑائی نہ جانے کدھر سے ایک
بڑا سا کتا آکر عمران کے سامنے کھڑا ہو گیا
!۔
’’ میں جانتا ہوں ! ‘‘عمران آہستہ سے بڑبڑایا’’ بھلا آپ کے بغیر
ریاست مکمل ہو سکتی ہے!براہ کرم راستے سے ہٹ جا یئے !... ‘‘
کتا بھی بڑا عجیب تھا !نہ تو اس نے اپنے منہ سے آواز نکالی اور نہ آگے
ہی بڑھا۔ دوسرے ہی لمحے عمران نے کسی کی آواز سنی جو شاید اس کتے بھی کور یگی …ریگی کہہ کر پکار رہاتھا۔ آواز نزدیک آتی گئی اور پھر مالتی کی جھاڑیوں سے ایک
آدمی نکل کر عمران کی طرف بڑھا !یہ ادھیڑ عمر کا ایک مضبوط جسم والا آدمی تھا! آنکھوں
سے عجیب قسم کی وحشت ظاہر ہوتی تھی ۔ چہرہ گول اور داڑھی مونچھوں سے بے نیاز !سر کے
بال کھچڑی تھے۔ ہونٹ کافی پتلے اور جبڑے بھاری تھے ۔ اس نے شارک اسکن کی پتلون اور
سفید سلک کی قمیص پہن رکھی تھی !‘‘
’’ فرما یئے !‘‘ اس
نے عمران کو گھور کر کہا۔
’’میں نواب صاحب سے ملنا چاہتا ہوں !"
" کیوں ملنا چاہتے ہیں!"
’’ان سے کھادوں کی مختلف اقسام کے متعلق تبادلہ خیال کروں گا
۔"
" کھادوں کی اقسام ! اس نے حیرت سے دہرایا پھر بولا ’’آپ
آخر میں کون؟"
’’میں ایک پریس رپورٹر ہوں۔"
’’ پھر وہی پریس رپورٹر ! ‘‘وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ پھر بلند آواز
میں بولا۔ ‘‘دیکھئے مسٹر میرے پاس وقت نہیں ہے۔"
’’مگر میرے پاس کافی وقت ہے !‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
" میں دراصل آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دس سال قبل و ہ لاش کس کی تھی؟ کیا
آپ اس پر روشنی ڈال سکیں گے؟"
’’بس خدا کے لئے جایئے !‘‘ وہ بیزاری سے بولا " میں اس
کے متعلق کچھ نہیں جانتا اگر مجھے پہلے سے اس عجیب دغریب واقعہ کا علم ہوتا تو شاید
میں یہاں آنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کرتا‘‘۔
’’مجھے سخت حیرت ہے!‘‘عمران نے کہا! وہ آخر آپ نے کسی رفتار
سے اپنی روانگی شروع کی تھی کہ آ پ کو اپنے
قتل کی اطلاع نہ مل سکی !...‘‘
’’دیکھو ! صاحبزادے میں بہت پریشان ہوں تم کبھی فرصت کے وقت
آنا ! ‘‘نواب ہاشم نے کہا۔
’’اچھا یہی بتادیجئے کہ آپ ایسے حالات میں کیا محسوس کر رہے
ہیں !‘‘
’’میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ پاگل ہو گیا ہوں! ... پولیس میری
زندگی میں بھی مجھے مردہ تصور کرتی ہے! …میرا بھتیجا میری املاک
پر قابض ہے! …میں مہمان خانے میں مقیم ہوں! …میرا بھتیجا کہتا ہے کہ
آپ میرے چچا کے ہم شکل ضرور ہیں… لیکن چچا صاحب کا انتقال ہو چکا ہے۔ عدالت نے اسے تسلیم
کر لیا ہے لٰہذا آپ کسی قسم کا دھوکہ نہیں دے سکتے! "
’’ واقعی یہ ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے ! ‘‘عمران نے مغموم لہجے
میں کہا !
’’ہے نا!‘‘ نواب ہاشم بولا ۔’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھے
نواب ہاشم تسلیم کرتے ہیں ! ‘‘
’’قطعی جناب! سو فیصد ! آج کل ہر بات ممکن ہے !میں اپنے اخبارکے
ذریعہ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ یہ واقعی بعید از قیاس نہیں ! ‘‘
’’شکر یہ !شکر یہ !میرے ساتھ آئیے۔ میں آپ سے گفتگو کروں گا
!‘‘ نواب ہاشم ایک طرف بڑھتا ہوا بولا۔ عمران اس کے ساتھ ہولیا… دونوں
ایک کمرے میں آئے...
’’مگر حیرت ہے آپ کے بھیجے نے آپ کو یہاں کیوں قیام کرنے دیا
!’’عمران بیٹھتا ہوا بولا‘‘ ایسی صورت میں تو اسے آپ سے دور ہی رہنا چاہئے تھا!"
’’میں خود بھی حیران ہوں !‘‘ نواب ہاشم نے کہا۔ " میرے
ساتھ اس کا رویہ برا نہیں… وہ
کہتا ہے کہ چونکہ آپ میرے چچاسے بڑی حد تک مشابہت رکھتے ہیں اس لئے مجھے آپ سے محبت
معلوم ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو زندگی بھر میرے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ میں ہمیشہ آپ کی خدمت
کرتا رہوں گا۔ لیکن یہ بھی نہ کہیے کہ آپ ہی نواب ہاشم ہیں ۔“
’’ بڑی عجیب بات ہے ! ‘‘عمران سر ہلا کر رہ گیا ! کچھ دیر خاموشی
رہی پھر نواب ہاشم نے کہا ” بھلا آپ کسی طرح ثابت کیجئے گا کہ میں ہی نواب ہاشم ہوں۔“
’’ہر ہر طرح کوشش کروں گا جناب ! ‘‘عمران نے کہا۔ چند لمحے خاموش
رہا پھر راز دارانہ لہجے میں بولا " یہاں اس شہر میں آپ کی دو چار پرانی محبوبا
ئیں تو ہوں گی ہی ! "
’’کیوں ! اس سے کیا غرض ؟‘‘ تو اب ہاشم اسے تیز نظروں سے گھورنے
لگا !
’’او ہو! بس آپ دیکھتے جائے !ذرا مجھے ان کے پتے تو بتائے گا
!سب معاملے میں آن واحد میں فٹ کرلوں گا۔ جی ہاں!‘‘
" آخر مجھے بھی تو کچھ معلوم ہو ! …‘‘
’’ٹھہر یئے! ذراایک سوال کا جواب دیجئے ۔ کیا آپ واقعی یہ چاہتے
ہیں کہ آپ کو نواب ہاشم ثابت کر دیا جائے؟“
’’آپ میرا وقت برباد کر رہے ہیں ! ‘‘وفعتا نواب ہاشم جھنجھلا
گیا !
’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں نواب صاحب کہ اگر آپ کو نواب ہاشم ثابت
کر دیا گیا تو پولیس بری طرح آپ کے پیچھے پڑ جائے گی۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ شاید آپ
پولیس کے چکر میں پڑ بھی گئے ہوں ۔ ظاہر ہے کہ پولیس اس آدمی کے متعلق آپ کو ضرور پریشان
کرے گی ،جس کی لاش نے آپ کے نام سے شہرت پائی تھی ! ‘‘
’’میرے خدا !میں کیا کروں…کاش مجھے ان واقعات کا پہلے سے علم
ہوتا... میں ہرگز واپس نہ آتا ! ‘‘
’’لیکن اب آپ کہیں جا بھی نہیں سکتے !‘‘… عمران
نے کہا !
’’میں خود بھی یہی محسوس کرتا ہوں ! ‘‘نواب ہاشم نے مضطر بانہ
انداز میں کہا۔
’’ آخر آپ اتنے پر اسرار طریقے پر غائب کیوں ہو گئے تھے ! ‘‘عمران
نے پوچھا!
’’ختم کر ومیاں! جو کچھ ہوگا ۔دیکھ لیا جائیگا !میں پرانی باتیں
کرید کر عوام کے لئے گفتگو کا مو ضوع
بننا پسند نہیں کروں گا اور پھر میں تم سے ایسی باتیں کیا کروں صاحبزادے۔"
نہ کیجئے !لیکن میں
جانتا ہوں کہ عنقریب آپ کسی بڑی مصیبت کا شکار ہو جا ئیں گے۔ ‘‘عمران اٹھتا ہوا ہو ا بولا …اور پھر وہ وا پسی کےلئے مڑا۔
’’ذرا ٹھہریئے گا!‘‘… نواب
ہاشم بھی اٹھتا ہوا بولا۔ " آپ میرے تعلق کیا لکھیں گے !"
’’یہ کہ آپ نواب ہاشم نہیں ہیں !عمران نے رک کر کہا ۔لیکن مڑے
بغیر جواب د یا۔
’’میں تمہارے اخبار پر مقدمہ چلا دوں گا ۔ "
’’ہاں یہ بھی اسی صورت میں ہوگا جب آپ کو عدالت نواب ہاشم تسلیم کرلے!‘‘ عمران نے پرسکون لہجے میں کہا۔
’’تم ایسا نہیں کر سکتے !‘‘ نواب ہاشم چیخ کر بولا !
’’مجھے کوئی نہیں روک سکتا!‘‘ عمران بھی اسی انداز میں چیخا۔
’’میں تمہیں گولی ماردوں گا!‘‘ نواب ہاشم کےچیخنے کا انداز بد ستور باقی رہا۔
’’دیکھوں تو کہاں ہے آپ کی بندوق ؟ ‘‘عمران پلٹ پڑا۔ ’’منہ چاہیے
گولی مارنے کے لئے !" عمران بھٹیا ر پنون کے سے انداز میں ہاتھ ہلا کرنو اب ہاشم سے لڑنے لگا
! سب کچھ ہو گیا ! اس ہاتھا پائی کی نوبت نہیں آئی۔ باہر کئی نوکر اکھٹے ہو گئے تھے !پھر ایک خوشرو اور قوی ہیکل آدمی کمرے
میں داخل ہوا۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ تیسں سال رہی ہوگی !انداز سے کافی پھر تیلا آدمی معلوم ہوتا تھا!۔
" کیا بات ہے ‘‘اس نے گرجدار آواز میں پوچھا؟
’’یہ… یہ‘‘ نواب ہاشم عمران کی طرف اشارہ کر کے بولا۔’’ کسی
اخبار کار پورٹر ہے۔"
’’ہو گا! لیکن غل مچانے کی کیا ضرورت ہے !"
’’یہ میرے خلاف اپنے اخبار میں مضمون لکھنے کی دھمکی دیتا ہے
!‘‘
’’کیوں جناب! کیا معاملہ ہے؟ ‘‘وہ عمران کی طرف مڑا۔
’’آپ شاید نواب ساجد ہیں !...‘‘
’’ جی ہاں ! لیکن آپ خواہ خواہ…!‘‘
’’ذراٹھہر یئے ! ‘‘عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ " میں دراصل
آپ سے ملنا چاہتا تھا اور درمیان میں یہ حضرت آکو دے۔کہتےہیں کہ میں نواب ہاشم ہوں
! ‘‘
’’کیوں جناب ! ‘‘وہ نواب ہاشم کی طرف مڑا ۔ " میں نے آپ
کومنع کیا تھا نا کہ فضول باتیں نہ کیجیے گا!‘‘
’’ارے اوساجد ! تجھ سے خدا سمجھے، میں تیرا چچا ہوں!"
’’اگر آپ میرے پچا ہیں تو میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ یہاں
سے چپ چاپ چلے جائیے! ور نہ پولیس آپ کو بہت
پریشان کرے گی۱‘‘ پھر اس نے عمران کی طر دیکھ کر کہا ۔" کیوں جناب !"
’’قطعی قطعی !‘‘ عمران سر بلا کر ہوا ۔ " بلکہ بالکل جناب!
"
’’اچھا جناب ! آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے! "
’’آہا …بات دراصل یہ ہے کہ میں
آپ سے کتوں کے متعلق تبا دلہ خیال کر نا چاہتا تھا !‘‘نواب سا جد عمران کو
گھورنے لگا…وہ کتوں کا شو قین تھا او شہر میں اس زیا دہ کتےاور
کسی کے پاس نہیں تھے!...
’’آپ کی صورت سے تو نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کو کتوں سے دلچسپی
ہو !‘‘نواب سا جد تھوڑی دیر بعد بولا۔
’’ اس میں شبہ نہیں کہ ابھی میری صورت آدمیوں ہی جیسی ہے…لیکن میں کتوں کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں…!‘‘
’’کیا جانتے ہیں!"
’’یہی کہ بعض اوقات کتے بلا وجہ بھی بھو نکھنے لگتے ہیں !...‘‘
’’ہوں! تو آپ کی آئی ڈی کے آدمی ہیں !‘‘ نواب ساجد عمران کو
گھورنے لگا۔
’’میں اے سے لے کر زیڈ تک کا آدمی ہوں۔ آپ اس کی پرواہ نہ کیجئے
لیکن میں آپ سے کتوں کے متعلق تبا دلہ خیال ضرور کروں گا!...‘‘
’’کیجئے جناب !‘‘نواب ساجد کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا ۔ ’’آپ ہی
بتا دیجئے کہ شکاری کتے کتنی قسم کے ہوتے ہیں !اسی سے میں آپ کے متعلق اند از دلگالوں
گا ۔“
"کتے کی ہر قسم میں شکار کی لت پائی جاتی ہے۔"
’’ شکاری سے میری مراد ہے سپورٹنگ پر یڈس !‘‘
تو یوں کہئے نا !...عمران سر ہلا کر
بولا ۔ اچھا گنئے انگلیوں پر!...ہنیچی ، بور زوتی ، ڈیکسنڈ ، گرے ہاؤ نڈ،افغان ہا ؤنڈ، آئرش
اولف باؤنڈ، ہیگل، فش ایلپیڑ، ہیر بیئر …فو کس ہاؤنڈ، او ٹر
ہاؤنڈ ،بلڈ ہا ؤنڈ،ڈیئر ہا ؤنڈ،الک ہا ؤنڈ،بیسٹ ہا ؤنڈ،سلو کی اور خدا آپ کی جیتا
رکھے …وہپسٹ…ہاں اب کہیے تو یہ بھی
بتاؤں کہ کون کس قسم کا ہو تا ہے …ان کے عادات و خصائل
سیا سی اور سما جی رجحانا ت پر بھی رو شنی
ڈال سکتا ہوں…!‘‘
’’نہیں ہیں ! …آپ کو یقینا کتوں سے دلچسپی ہے !... ہاں
آپ کتوں سے متعلق کس موضوع پر گفتگو کریں گے!"
’’میں در اصل کتوں کی گمشدہ نسلوں کے متعلق ریسرچ کر رہا ہوں
!‘‘ عمران بولا!
’’گمشده نسلیں…؟"
’’جی ہاں !بھا! آپ اپنے یہاں کے کتوں کے بارے میں کیا جانتے
ہیں؟"
’’ دیسی کتے!‘‘ نواب ساجد نے نفرت سے منہ سکوڑ کر کہا !
جی ہاں، دیسی کتے!... آج
بھی ان پرولایتی کتے مسلط ہیں !یہ بڑے شرم کی بات ہے !... آپ
والا پتی کتوں کوسینے سے لگاتے ہیں اور ویسی
کتے قعر مذلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔"
’’او ہو!... کیا آپ دیسی کتوں کے لیڈر ہیں ؟‘‘ نواب ساجد ہنسنے لگا۔
’’چلیئے یہی سمجھ لیجئے !ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا …‘‘
’’ٹھہر یئے !میں دیسی
کتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتا ۔ ‘‘نواب ساجد ااٹھتا ہوا بولا۔ " میرا خیال ہے
کہ آپ کو بھی کچھ نہ کچھ مصروفیت ضرور ہوگی!‘‘ وہ عمران اور نواب ہاشم کو کمرے میں
چھوڑ کر چلا گیا۔
چند لمحے خاموشی رہی !نواب ہاشم عمران کو عجیب نظروں سے گھور
رہا تھا۔ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا ’’آخر تم ہو کیا بلا !‘‘
’’ میں علی عمران! ایم ۔ ایسی ۔سی۔ ڈی۔ ایس۔سی ہوں! آفیسر آن
پیشل ڈیوٹی فرام سنٹرل انٹیلی جینس بیورو ۔ اب گفتگو کیجیئے مجھ سے! "
اوہ تب تو میرا بھتیجا بڑا چالاک معلوم ہوتا ہے ! ‘‘نواب ہاشم
ہنستا ہوا بولا۔ ٹھہر یئے !میں اسے بلاتا ہوں
! …‘‘
’’ٹھہر یئے مجھے جو
کچھ معلوم کرنا تھا کر چکا !‘‘
’’یار تم اس قابل ہو کہ تمہیں مصاحب بنایا جائے ! !‘‘…
’’اس سے زیادہ قابل ہوں نواب صاحب ! میں دعوئی سے کہہ سکتا ہوں
کہ آپ ہی نواب ہاشم ہیں۔"
’’پھر قلابازی کھائی‘‘… نواب
ہاشم نے قہقہہ لگایا …پھر سنجیدہ ہوکر بولا۔’’ اب جاؤ! ورنہ میں پولیس کوفون کردوں
گا! "
’’مشورے کا شکریہ ا!‘‘عمران چپ چاپ اٹھا اور باہر نکل گیا !... روش
طے کرتے وقت اتفاقا اس کی نظر مالتی کی بے ترتیب جھاڑیوں کی طرف اٹھ گئی اور اس نے
محسوس کیا کہ وہاں کوئی چھپا ہوا ہے!... دوسرے
ہی لمحے اس نے اپنی رفتار تیز کردی ! با ہر نکل کر کار میں بیٹھا اور ایک طرف چل پڑا
ڈیش بورڈ پر لگے ہوئے عقب نما آئنے میں ایک کار دکھائی دے رہی تھی جس کا رخ اس کی طرف
تھا !...اور کار حویلی ہی سے نکلی تھی۔"
عمران نے یونہی بلا وجہ اپنی کار ایک سڑک پر موڑ دی !... کچھ
دور چلنے کے بعد عقب نما آئنے کا زاویہ بدلنے پر معلوم ہوا کہ اب بھی وہی کار اس کی
کار کا تعاقب کر رہی ہے ... عمر ان تھوڑی دیر ادھرادھر چکراتا رہا اور
پھر اس نے کار شہر کی ایک بہت زیادہ بھری پری سڑک پر موڑ دی۔ دوسری کا راب بھی تعاقب
کر رہی تھی ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وہ کار قریب آگئی ۔ ساتھ ہی چورا ہے کے سپاہی نے
ٹریفک روکنے کا اشارہ کیا !...کاروں کی قطار رک گئی ۔ تعاقب کرنے والی کار عمران کی کار کے
پیچھے ہی تھی۔!...عمران نے مڑ کر دیکھا دوسری کار میں اسٹیرنگ کے پیچھے نواب ہاشم
کا بھتیجا ساجد بیٹا ہوا تھا۔ !
عمران نے کار آگے بڑھائی
…ایک چوراہے پر اسے پھر رکنا پڑا۔ پچھلی کار بدستور موجود تھی!
اس بار عمران نے جیسے ہی مڑ کر دیکھا ساجد نے ہاتھ ہلا کر اسے کچھ اشارہ کیا!سگنل ملتے
ہی پھر عمران کی کار چل پڑی !... اس بار وہ زیادہ جلدی میں نہیں معلوم ہوتا تھا
...!
تھوڑی دور چلنے کے بعد
اس نے کارفٹ پاتھ سے لگا کر کھڑی کر دی! سامنے ایک ریستوران تھا…عمران اس کے دروازے کے قریب کھڑا ہو کر نواب ساجد کو کار سے اترتے دیکھتا رہا !اور تیر کی طرح عمران ہی کی طرف آیا! "
’’آپ سنتے ہی نہیں !‘‘ اس نے مسکرا کر کہا " چیختے
چیختے حلق میں خراشیں پڑ گئیں! "
’’ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دیسی کتوں کی حالت زار پر سنجیدگی
سے غور کیا ہے! "
’’چلئے اندر گفتگو کریں گے !‘‘
’’لیکن موضوع گفتگو صرف دیسی کتے ہوں گئے ۔‘‘ عمران نے ریستوران میں
داخل ہوتے ہوئے کہا !۔
وہ دونوں ایک خالی کیبن میں بیٹھ گئے! عمران نے بیرے کو بلا
کر چائے کے لئے کہا۔
’’میں نے چھپ کر آپ دو نوں کی گفتگو سنی تھی !‘‘ساجد بولا ۔
’’ میں جانتا ہوں ! ‘‘عمران نے خشک لہجے میں کہا!
" تو آپ واقعی
سی آئی ڈی کے آدمی ہیں!"
عمران جیب سے اپنا ملا
قاتی کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ۔ ’’اگر وہ واقعی نواب ہاشم ہیں تو آپ
کو ایک بہت بڑی جائیداد سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔"
" کیا محض مشابہت کی بناء پر… یہ
تو کوئی بات نہ ہوئی۔‘‘ ساجد نے کہا۔
’’دس برس پہلے جب نواب ہاشم کی لاش ملی تھی تو کوٹھی میں کون
کون تھا؟"
’’صرف مرحوم چند نوکروں کے ساتھ رہتے تھے !"
’’آپ کہاں تھے؟"
’’میں اس وقت زیر تعلیم تھا اور قیام میسور کالج کے ایک ہوسٹل
میں تھا!“
’’کفالت کون کرتا تھا آپ کی ؟"
’’چچا جان مرحوم ! آہ مجھے ان سے بے حد محبت تھی اور جب میں
نے اس آدمی میں ان کی مشابہت پائی تو میرے دیدہ دل فرش راہ ہو گئے… اگر
یہ کہنا چھوڑ دے کہ وہ نواب ہاشم ہے تو میں ساری زندگی اس کی کفالت کرتا رہوں گا !‘‘
’’کیا آپ بتاسکیں گے کہ نواب ہاشم کا قتل کیوں ہوا تھا؟“
’’ میں اسے قتل تسلیم کرنے کے لئے آج بھی تیار نہیں ! ‘‘ساجد
کچھ سوچتا ہو بولا ’’وہ سو فیصدی خود کشی تھی ۔"
" آخر کیوں ؟"
’’حالات …مسٹر عمران …بندوق قریب ہی پائی گئی تھی اور چہرے پر بارود کی کھرنڈ ملی
تھی !قتل کا معاملہ ہوتا تو با تیں نہ ہوتیں ۔ قاتل ذرا فاصلے سے
بھی نشانہ لے سکتا تھا !میر اخیال ہے کہ انہوں نے بندوق کا دہانہ چہرے کے قریب رکھ کر
پیر کےانگوٹھے سے ٹریگر دبا دیا ہوگا ۔"
’’بہت بہت شکر یہ!‘‘ عمران سنجیدگی سے بولا ۔’’ آپ نے معاملہ بالکل
صاف کر دیا ! …لیکن اب خودکشی کے اسباب تلاش کرنے پڑیں گے؟ اتنے میں چائے آگئی
اور عمران کو خاموش ہو نا پڑا… جب ویٹر چلا گیا تو اس نے کہا۔
’’کیا آپ خودکشی کے اسباب پر روشنی ڈال سکیں گے "
’’اوہ … شاید کچھ عشق و عاشقی کا سلسلہ تھا !‘‘نواب ساجد جھینپے
ہوئے سے انداز میں بولا ۔ "
’’خوب‘‘ عمران کچھ سوچنے لگا !پھر کچھ دیر بعد بولا۔ "
کیا ان کی محبوبہ کا پتہ مل سکے گا!"
" مجھے علم نہیں"
’’جس رات یہ حادثہ ہوا تھا۔ آپ کہاں تھے ؟‘‘
’’ہوسٹل میں !"
’’اچھا! اب اگر یہ ثابت ہو گیا کہ نواب ہاشم یہی صاحب ہیں تو
آپ کیا کریں گے… ؟‘‘
’’میں پاگل ہو جاؤں گا!‘‘ نواب ساجد جھلا کر بولا۔
’’بہت مناسب ہے ! ‘‘عمران نے سنجیدگی سے گردن ہلائی۔‘‘ وہ اس وقت پر
لے سرے کا احمق معلوم ہورہا تھا۔"
" جی !‘‘ ساجد اور زیادہ جھلا گیا !۔
’’میں نے عرض کیا کہ اب آپ پاگل ہو کر پاگل خانے تشریف لے جائیے
اور دس سال بعد پھر واپس آئیے ۔ اس وقت تک نواب ہاشم کا انتقال ہو چکا ہوگا!“
’’آپ میرا مضحکہ اڑا رہے ہیں !‘‘ نواب ساجد بھنا کر کھڑا ہو
گیا۔
’’جی نہیں! بلکہ آپ دونوں چچا بھیجے قانون کا مذاق اُڑار ہے
ہیں !"
" پھر آپ نے چچا کا حوالہ دیا۔"
’’بیٹھئے جناب !‘‘عمران نے آہستہ سے کہا ’’اب یہ بتائیے …کہ اصل واقعہ کیا ہے؟"
’’میں آپ سے گفتگو نہیں کرنا چاہتا !‘‘
’’اچھا خیر ! جانے دیجئے ! اب ہم کتوں کے متعلق گفتگو کریں گے
!‘‘
ساجد بیٹھ گیا لیکن اس کے انداز سے صاف ظاہر ہور ہا تھا کہ وہ
کسی ذہنی الجھن میں مبتلا ہے۔
’’ میں اس کتے ریگی کے متعلق پوچھنا چاہوں گا !"
’’یہ ا سی شخص کا ہے !‘‘ نواب ساجد نے کہا۔
’’بھلا کس نسل کا ہو گا ؟"
’’دو غلا ہیگل ہے! …انتہائی کاہل اور کام چور کتا ہے! اگر یہ اصیل ہوتا تو کیا کہنا
تھا !واہ واہ!"
’’کیا پہلے بھی کبھی
نواب ہاشم نے کتے پالے تھے؟"
نہیں انہیں کتوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے!‘‘
’’آپ اسے حویلی سے نکال کیوں نہیں دیتے !‘‘ ساجد کچھ نہ بولا۔
عمران نے اسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا! کچھ دیر بعد اس نے کہا !‘‘آپ جانتے
ہیں !وہ کیا کر رہا ہے۔"
’’میں کچھ نہیں جانتا! لیکن وہ مجھے بڑا پر اسرار آدمی معلوم
ہوتا ہے۔"
’’وہ یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے میرے محکمے کے سپر نٹنڈنٹ سے
ملا تھا اور اس نے اسے اپنے کاغذات دکھائے تھے !"
" کیسے کاغذات؟"
’’دو سال تک وہ اتحادیوں کے ساتھ نازیوں سے لڑتا رہا تھا !وہ
یعنی نواب باشم ولد نواب قاسم عہدہ میجر کا تھا !...بھلا ان کا غذات
کو کون جھٹلا سکتا ہے!... آج دو بین الاقوامی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘
’’میرے خدا ‘‘…ساجد حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا! چند لمحے خاموش رہا۔ پھر
ہذیانی انداز میں جلدی جلدی بولنے لگا ۱‘‘نا ممکن… غلط
ہے …بکواس ہے …وہ کوئی فراڈ ہے …میں اسے آج ہی دھکے دلوا
کر حویلی سے نکلوا دوں گا ! ‘‘
’’مگر اس سے کیا ہوگا!... اس
کا دعویٰ تو بدستور باقی رہے گا ؟“
’’پھر بتائیے کہ میں کیا کروں؟ ‘‘ساجد بے بسی سے بولا۔ ” میں
نے اسے حویلی میں ٹھہرنے کی اجازت دے کر سخت غلطی کی۔"
’’اگر یہ غلطی نہ کرتے تو اس سے کیا فرق پڑتا !‘‘
’’پھر میں کیا کروں؟“
’’پتہ لگائیے کہ نواب ہاشم کا قتل کن حالات میں ہوا تھا۔“
’’ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ وہ کسی عورت کا چکر تھا! …‘‘
’’ میں تفصیل نہیں جانتا۔ چچا جان نے شادی نہیں کی تھی … البتہ
ان کی شناسا بہتری عورتیں تھیں ! اس زمانے میں کسی عورت کا بڑا شہرہ تھا، جو عالمگیری
سرائے میں کہیں، رہتی تھی ! چچا جان اس کے سلسلے میں کسی سے جھگڑا بھی کر بیٹھے تھے!... بہر
حال یہ اڑتی اڑتی خبر تھی !میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حقیقت ہی تھی ...
‘‘
’’عا لمگیر ی سرائے !‘‘عمران کچھ
سو چتا ہو ا بڑبڑا یا ’’لیکن محض اتنی سی
بات پر تو کوئی سرا غ نہیں مل سکتا !‘‘
’’دیکھئے ایک بات اور ہے !‘‘سا جد
نے کہا !...’’مگر آپ میرا
مضحکہ اُڑائیں گے ۔‘‘
’’کیا یہ کوئی پر دار چیز ہے ؟‘‘عمران نے پو چھا!۔
’’کیا چیز !‘‘ساجد اسے حیرت سے دیکھنے لگا!
’’یہی مضحکہ !‘‘
’’نہیں تو …‘‘ساجد کے منہ
سے غیر ارادی طور پر نکل گیا !
’’بھلا پھر کیسے اڑے گا؟‘‘عمران سر
جھکا کر تشویس آمیز انداز میں بڑبڑایا
!پھر سر اٹھا کر آہستہ سے بولا !۔
’’آپ خود کچھ کہنا چا ہتے ہیں بے تکلف
ہو کر کہیے ۔ہم لوگوں کو مضحکہ اُڑانے کی
تنخواہ نہیں ملتی!‘‘
’’دیکھئے !بات ذرا بے تکی سی ہے !اس لئے
…لیکن سوچتا ہوں کہ کہیں وہ حقیقت ہی نہ ہو اگر حقیقت نہ ہو!‘‘
’’اگر حقیقت نہ ہو ۔ تب بھی سننے کے لئے تیار ہوں !‘‘عمران اکتا
کر بولا!
’’میں عالمگیری سرائے کی ایک ایسی لڑکی کو جانتا ہوں، جو چچا
مرحوم سے کافی مشابہت رکھتی ہے؟"
’’بھلا یہ کیا بات ہوئی !"
’’ہوسکتا ہے کہ وہ چچا جان کی کوئی نا جائز اولاد ہو !‘‘
’’کیا عمر ہوگی…!‘‘
’’بیس سے زیادہ نہیں ۔"
’’تو وہ اس زمانے میں دس سال کی رہی ہوگی! اگر کسی ایسی عورت
کے لئے جو دس سال کی لڑکی بھی رکھتی ہوقتل وغیرہ نہیں ہو سکتے… کیا
خیال ہے آپ کا ؟"
’’میں کب کہتا ہوں کہ اس عورت کے لئے وہ قتل کئے گئے ہوں گے!
" ساجد نے کہا ۔’’ ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی دوسری عورت ہو... اور میں اس کے متعلق
بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا !...دیکھئے یہ میرا ذاتی خیال تھا... ور محض مشابہت اسے
چچا جان کی اولاد نہیں ثابت کر سکتی !"
" تو آپ کو تو اس لڑکی سے خاص طور پر بڑی دلچسپی ہوگی
!"
’’بس اسی حد تک کہ اسے دیکھنے کو دل چاہتا ہے ! لیکن نہ تو میں
نے آج تک اس سے گفتگو کی اور نہ وہ مجھے جانتی ہے لیکن میں آپ کو اس کے گھر کا پتہ
بتا سکتا ہوں !‘‘
’’ بہر حال ! " عمران مسکرا کر بولا! ‘‘آپ اس کا تعاقب
کرتے رہے ہیں‘‘
’’میں کیا بتاؤں جناب ! اسے دیکھ کر دل بے اختیار اس کی طرف
کھینچتا ہے۔“
’’اگر واقعی دل کھینچتا ہے تو مجھے اس کا پتہ ضرور بتا یئے!...‘‘
’’عالمگیری سرائے میں ادھورے مینار کے قریب زرد رنگ کا ایک چھوٹا
سا مکان ہے....!‘‘ عمران نے چائے کی پیالی رکھ دی ! اس کے چہرے پر تحیر کے آثار تھے!
کیونکہ یہ وہی پتہ تھا جو اسے کچھ دیر قبل موڈی نے بتایا تھا!...
" آپ کو یقین ہے کہ وہ لڑکی اسی مکان میں رہتی ہے! ‘‘اس
نے ساجد سے پوچھا۔
’’اوہ میں نے سینکڑوں بار ا سے وہاں جاتے دیکھا ہے !‘‘عمران
جملہ ادھورا ہی چھوڑ کر اٹھ گیا اس دوران میں اس نے چائے کا بل ادا کر دیا تھا!
’’اگر کبھی میں آپ سے ملنا چاہوں تو کہاں مل سکتا ہوں ؟‘ ‘‘ساجد
نے پوچھا
’’میرے کارڈ پر میرا پتہ اور ٹیلیفون نمبر موجود ہیں ! ‘‘عمران
نے کہا اور ریسٹور ان سے باہر نکل گیا !...لیکن اب اس کا رخ اپنی کار کی بجائے ایک
دوا فروش کی دکان کی طرف تھا۔ وہاں اس نے کالر امکسچر کی ایک بوتل خریدی ... دوافروش
شاید اس کا شناسا ہی نہیں بلکہ اسے اچھی طرح جانتا تھا! کیونکہ عمران نے اس سے انجکشن
لگانے کی سرنج عاریتا مانگی تو اس نے انکارنہیں کیا !...پھر اس نے کسی دوا
کے دو ایک ایمیل بھی خریدے!
5
تھوڑی دیر
بعد عمران کی کار عالمگیری سرائے کی طرف جارہی تھی ۔ ادھورے مینار کے قریب پہنچ کر
عمران رک گیا!... یہاں چاروں طرف زیادہ تر کھنڈر نظر آرہے تھے
۔ لہٰذا ایک چھوٹے سے پیلے رنگ کے مکان کی تلاش میں دشواری نہیں ہوئی !... قرب و جوار
میں قریب قریب سب ہی بہت پرانی عمارتیں تھیں ! ...جو ویران بھی تھیں اور آباد بھی تھیں
!جوحصےمنہدم ہو گئے تھے بیکار پڑے تھے اور جن کی دیوار ہیں اور چھتیں قائم تھیں ان
میں لوگ رہتے تھے !۔
عمران پیلے مکان کے سامنے رک گیا ! کار اس نے وہاں سے کافی فاصلے
پر چھوڑ دی تھی! دروازے پر دستک دینے کے بعد اسے تھوڑی دیر تک انتظار کرنا پڑا....
دروازہ کھلا اور اسے ایک حسین سا چہرہ دکھائی دیا۔ یہ ایک نوجوان لڑکی تھی جس کی آنکھوں
سے نہ صرف خوف جھانک رہا تھا بلکہ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ کچھ دیر قبل روتی رہی
ہو ۔!
’’ میں ڈاکٹر ہوں ‘‘عمران نے آہستہ سے کہا۔ ’’ہیضےکا ٹیکہ لگاؤں
گالڑ کی پورادروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔"
" آپ میونسپلٹی کے ڈاکٹر ہیں !‘‘ اس نے پوچھا !’’لیکن عمران
اس کے لہجے میں ہلکی سی لہرمحسوس کئے بغیر نہ رہ سکا ! ...
’’جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھیں ! ‘‘عمران بولا....وہ کچھ دیر پہلے
اس آدمی کو دیکھ چکا تھا جسے نواب ہاشم ہونے کا دعوئی تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ حقیقتاً
دونوں میں تھوڑی بہت مشابہت ضرور ہے!
" میں نہیں سمجھ سکی !‘‘ لڑکی نے آہسہ سے کہا۔ " میں
بیسں سال سے اس مکان میں ہوں !لیکن میں نے بچپن سے لے کر شاید ہی کبھی کسی سرکاری ڈاکٹر
کی ...آمد کے متعلق سنا ہو!"
’’آنا تو چاہئے ڈاکٹروں کو...‘‘ عمران مسکرا کر بولا...‘‘ اب
اگر کوئی نہ آئے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ میں ابھی دراصل حال ہی میں یہاں آیا ہوں۔"
’’کیا آپ تھوڑی دیر تشریف رکھیں گے؟‘‘ لڑکی بولی !
" کیوں؟"
’’بات یہ ہے کہ میں اپنے عزیز کے بھی ٹیکہ لگوانا چاہتی ہوں
!"
’’ اوہ ! آپ فکر نہ کیجئے میں ایک ہفتہ کے اندراندر یہاں سب
کے ٹیکہ لگا دوں گا ! ‘‘
’’نہیں اگر آج ہی لگا دیں تو بڑی عنایت ہوگی !وہ بڑے وہمی آدمی
ہیں۔ آج کل ہیضے کی فصل بھی ہے، بہت پریشان
رہتے ہیں!‘‘
’’تو آپ مجھے ان کا پتہ بتادیجئے !"
’’ یہیں لاتی ہوں ! ‘‘لڑکی نے کہا اور تیزی سے ایک گلی میں گھس
گئی ۔ عمران احمقوں کی طرح کھڑا رہ گیا !پانچ منٹ گزر گئے لیکن لڑکی نہ آئی عمران نے
پھر دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی ، اسے توقع تھی کہ گھر کے اندرلڑکی کے علاوہ بھی کوئی
اور ہو گا ۔لیکن باربا ر دستک دینے کے با وجود بھی کو ئی نتیجہ بر آمد نہ ہو
ا...پا نچ منٹ اور گز ر گئے اور اب عمران سو چنا پڑا کہ کہیں لڑکی جل دے کر تو
نہیں نکل گئی !موڈی کے بتا ئے ہو ئے حلیے پر وہ سوفیصد پو ری تھی !...عمران نے سو چا کہ اگر وا قعی وہ
جل دے گئی ہے تو اس سے زیا دہ شا طر لڑ کی
شاید ہی کو ئی ہو !اچانک اسے بھا ری قد موں کی آوازیں سنا ئی دیں ،جو رفتہ رفتہ
قریب آرہی تھیں!پھر ایک گلی سے تین باور دی پو لیس والے بر آمد ہو ئے ۔جن میں سے
ایک سب انسپکٹر تھا اور دو کا نسٹیبل
!لڑکی ان کے ساتھ تھی...!
وہ قر یب آگئے اور لڑکی نے
عمران کی طرف دیکھ کر کہا !’’ذراان سے پو چھئے۔یہ کہاں سے آئے ہیں !سب انسپکڑ نے عمران کو تیز
نظروں سے دیکھا !شاید وہ اسے پہچانتا نہیں تھا!‘‘
’’آپ کہاں کے ڈاکڑ ہیں ۔‘‘اس نے عمران سے پو چھا !
’’ڈاکٹر!‘‘عمران نے حیرت سے کہا ۔’’کون کہتا ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں؟‘‘
’’دیکھا آپ نے
!لڑکی نے سب انسپکٹر کو مخا طب کیا !اس کے لہجے میں مسرت آمیز کپکپا ہٹ تھی!
’’تو آپ نے خود کو ڈاکٹر کیوں ظا ہر کیا تھا ۔‘‘سب انسپکٹر
گرم ہو گیا !
’’کبھی نہیں !‘‘عمران لڑکی کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔’’میں
نے تو ان سے صدر الدین اللہ والے کا پتہ پو چھا تھا انہوں نے کہا کہ ٹھہریئے میں بلا ئے لا تی ہوں !مگر آپ
میاں صدرالدین اللہ والے تو نہیں معلوم ہو تے !‘‘
’’یہ جھوٹ ہے سر اسر جھو ٹ ہے !‘‘لڑکی جھلا کر چیخ اٹھی !
’’ارے تو بہ ہے!‘‘عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔’’آپ مجھے جھو ٹا کہتی ہیں !‘‘
’’نہیں مسٹر !اس سے کام نہیں چلے گا!‘‘سب انسپکٹر بھنویں
چڑھا کر بولا !
’’تو پھر جس طرح آپ کہیے کام چلا یا جائے !‘‘عمران نے بے بسی کے اظہا ر کے لئے اپنے
سر کو خفیف سی جنبش دی !۔
’’آپ کو میرے ساتھ تھا نے تک چلنا پڑے گا!‘‘سب انسپکٹر پوری
طرح غصے میں بھر گیا تھا !
’’ذرا ایک منٹ کے لئے ادھر آیئے !‘‘عمران نے کہا ۔پھر وہ
اسے گلی کے سرے تک لا یا جہاں سے لڑکی اور کا نسٹیبل کا فی فا صلے پر تھے لیکن
طرفین ایک دو سرے کو بآسانی دیکھ سکتے تھے۔عمران نے جیب سے اپنا کا رڈ نکال کر سب
انسپکٹر کی طرف بڑھا یا ۔کا رڈ پرنظر پڑتے
ہی پہلے تواس نے عمران کو آنکھیں پھا ڑ کر دیکھا۔پھر یک بیک تین قدم پیچھے ہٹ کر اسے سلیوٹ کیا !لڑکی اور دو نوں کا نسٹیبلوں
نے اس کی حرکت کو بڑی حیرت سے دیکھا !ادھر سب انسپکٹر ہکلا رہا تھا ’’معاف
کیجیے گا !میں آپ کو پہچا نتا نہیں تھا مگر حضور والا یہ لڑکی بہت پر یشان ہے !‘‘
’’کیوں!‘‘
’’کہتی ہے کہ کسی نے گھر سے اس کے پچیس ہزار رو پے
اڑالئے ہیں اور یہ بھی کہتی ہے کہ کچھ نا معلوم آدمی عرصے سے اس کا
تعاقب کر تے رہے ہیں!‘‘
’’ہوں !... گھر میں اور کون ہے؟"
’’کوئی نہیں تنہا رہتی ہے! ایک ماہ گزرا اس کے باپ کا انتقال
ہو گیا!‘‘
’’آپ نے پو چھا نہیں کہ روپے کہاں سے آئے تھے !بظا ہر حالت ایسی
نہیں معلوم ہوتی کہ گھر میں نقد پچیس ہزار
رکھنے کی بساط ہو!‘‘
’’جی ہاں! میں سمجھتا ہوں! لیکن لڑکی شریف معلوم ہوتی ہے !‘‘
’’شریف معلوم ہوتی ہے ! ‘‘عمران نے حیرت سے دہرایا۔ پھر ذرا
تلخ لہجے میں بولا ’’براہ کرم !محکمے کو بنئے کی دکان نہ بنا ئیے... شرافت وغیرہ وہاں دیکھی جاتی
ہے جہاں ادھار کا لین دین ہوتا ہے ! بس اب تشریف لے جائیے !مگر نہیں ٹھہر یئے !‘‘
’’کیا آپ نے با قاعدہ طور پر چوری کی رپورٹ درج کر دی ہے؟“
سب انسپکٹر بغلیں جھانکنے لگا۔
’’جی بات دراصل یہ ہے کہ ... !‘‘
’’لڑکی حسین بھی ہے ... اور جوان بھی ! " عمران نے جملہ
پورا کر دیا !’’جب رپورٹ نہیں درج کی ہے تو اس کے ساتھ بھاگے آنے کی کیا ضرورت تھی
!"
’’جی دراصل... "
’’چلے جاؤ!‘‘ عمران نے گرج کر کہا۔
سب انسپکٹر تھوک نگل کر رہ گیا۔ عمران کی گرج لڑکی اور کانسٹیبلوں
نے بھی سنی تھی ۔ سب انسپکٹر چپ چاپ گلی میں داخل ہو گیا! کانسٹیبلوں نے دیکھا تو وہ
بھی کھسک گئے۔ لڑکی جہاں تھی وہیں کھڑی رہی ! عمران اس کے قریب پہنچا ۔!
" تمہارا نام دردانہ ہے؟"
’’جی ہاں !‘‘
" تم نے مسٹر والٹر موڈی کے ہاتھ کوئی سنگاردان فروخت کیا
تھا؟"
’’جی ہاں !‘‘ لڑکی نے کہا! اس کے انداز میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ
نہیں تھی!
’’وہ تمہارا ہی تھا ؟"
’’میں آخر یہ سب کیوں بتاؤں؟“
’’اس لئے کہ محکمہ سراغرسانی کا ایک آفیسر تم سے سوالات کر رہا
ہے ۔“
لڑکی چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر بولی ! ’’جی ہاں
وہ میرا ہی تھا۔ والدہ کو ورثے میں ملا تھا۔ چند پر اسرار آدمی اسے میرے پاس سے نکال
لے جانا چاہتے تھے! اس لئے میں نے مسٹر موڈی کے ہاتھ فروخت کر دیا !‘‘
’’پچیس ہزار میں! "
’’جی ہاں !...اور پھر میں نے
وہ پچیس ہزار بھی کھو دیئے !‘‘لڑکی کے لہجے میں بڑادر دتھا۔
" کس طرح ۔"
’’چورلے گئے !میرا خیال ہےکہ وہی لوگ ہوں گے ،جو عرصہ
تک اس سنگار دان کے چکر میں رہے ہیں
!انہوں نے مسٹر مو ڈی کا بھی پیچھا
کیا تھا مگر وہاں دال نہیں گلی!‘‘
’’اپ اچھی طرح نکل گئی ہے !‘‘ عمران سر ہلا کر بولا!
’’میں نہیں سمجھی !
"
’’حوالات ایسی جگہ ہے جہاں کھٹمل اور پھر سب کچھ سمجھا دیتے
ہیں !"
’’لیکن حوالات سے مجھے کیا غرض ؟"
دیکھو لڑکی ! بننے سے
کام نہیں چلے گا۔ چپ چاپ اپنے ساتھیوں کے پتے بتادو! نہیں توخیر یہ کہہ کر کبھی بچایا جاسکتا ہے کہ تم محض آلہ کار تھیں ۔ معاملے کی اہمیت سے واقف نہیں تھیں
!‘‘
’’میں کچھ نہیں سمجھی جناب !"
’’ تم نے جس سنگاردان کے پچیس ہزار وصول کئے ہیں ! دو ڈیڑھ سو
میں بھی مہنگا ہے! "
" آپ کو دھوکا ہوا ہوگا !" لڑکی نے مسکرا کر کہا
!’’ اس میں ہزاروں روپے کے جواہرات جڑے ہوئے ہیں !‘‘
’’نقل ...امیٹیشن !‘‘
’’نا ممکن! میں نہیں
مان سکتی ۔‘‘
عمران چند لمحے اسے غور سے دیکھتا رہا۔ پھر بولا ! " نواب
ہاشم کو جانتی ہو؟ "
’’ میں نہیں جانتی!"
’’نواب ساجد کو ۔"
" آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ بھلا نوابوں کو کیوں جانے لگی
! کیا آپ مجھے آوارہ سمجھتے ہیں!"
’’نہیں کوئی بات نہیں ! ...ہاں ہم اس سنگاردان کے متعلق گفتگو
کر رہے تھے ۔“
" آخر آپ یہ شبہ کیسے ہو ا کہ وہ جواہرات نقلی ہیں ؟‘‘
’’ بیکار باتوں میں نہ الجھو !ساتھیوں کے نام بتادو !"
’’میرے خدا! ‘‘لڑکی دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر دیوار کا سہارا
لیتی ہوئی بولی۔
" کسی مصیبت میں پھنس گئی !"
’’میں سچ کہتا ہوں کہ وہ کم از کم تمہارے لئے مصیبت نہ ہوگی!ہاں
شاباش بتا دو ساتھیوں کے نام !“
’’ خدا کی قسم میرا کوئی ساتھی نہیں ! میں بالکل بے سہارا ہوں!"
’’اچھالڑ کی!‘‘ عمران طویل سانس لے کر بولا !" تم کسی شاہی
خاندان سے تعلق رکھتی ہو !"
’’میں نہیں جاتی !... بہر حال مجھ سے یہی...! "
’’یہی کہا گیا تھا ...ہے نا شاباش !" عمران جلدی سے بولا۔
’’کس نے کہا تھا؟"
"میرے ایک ہمدردنے "
’’آہا !... میرا مطلب ہے کہ میں اس ہمدرد کا پتہ چاہتا ہوں۔"
’’پتہ مجھے نہیں معلوم! "
’’لڑکی میرا وقت برباد نہ کرو !‘‘
’’خدا کی قسم! میں ان کا پتہ نہیں جانتی !والد صاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے
میری بہت مدد کی ہے !غا لبا وہ والد صاحب کے گہرے دو ستوں میں سے ہیں!‘‘
’’اور تم ان کا پتہ نہیں جا نتیں !تعجب ہے !‘‘
’’نہیں تعجب نہ کیجئے! والد صاحب کے انتقال کے بعد مجھے علم
ہوا کہ وہ ان کے دوست تھے !‘‘
’’والد کا انتقال کب ہوا!"
’’ایک مہینہ پہلے کی بات ہے۔ میں یہاں موجود بھی نہیں تھی! ایک
ضروری کام کے سلسلے میں باہر گئی ہوئی تھی ۔ والد صاحب اسی دوران میں سخت بیمار پڑ
گئے !ہو سکتا ہے کہ انہوں نے خود ہی اپنے دوست کو تیمارداری کے لئے بلایا ہو! بہر حال
جب میں واپس آئی تو وہ دو دن قبل ہی دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور پھر میں نے ان کی
قبر دیکھی ... پڑوسیوں نے بتایا کہ ان کی تجہیز وتکفین بڑی شان سے ہوئی تھی !سنگاردان
کے وجود سے میں پہلے بھی واقف تھی اور اسے بہت زیادہ قیمتی سمجھتی تھی ! کیونکہ والد
صاحب کی زندگی میں ہی بعض پر اسرار آدمیوں نے اسے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ! ...‘‘
’’تمہارے والد کے دوست نے تمہیں کیا مشورہ دیا تھا!“
" یہی کہ میں اس سنگاردان کو کسی محفوظ جگہ پر پہنچا دوں!
‘‘میں نے کہا آپ ہی اپنے پاس رکھ لیجئے۔ لیکن انہوں نے کہا میں بھی خطرے میں پڑ جاؤں
گا۔ ہاں اگر کوئی غیر ملکی... یعنی انگریز یا امریکن تمہاری مدد کر سکے تو یہ زیادہ
بہتر ہو گا... انہوں نے مجھے موڈی صاحب کو دکھایا جو اکثر ادھر سے گزرتے رہتے ہیں؟"
’’موڈی ادھر سے گزرتا رہتا ہے !‘‘
’’ جی ہاں ! اکثر... میں نے کئی بار دیکھا ہے ! ہاں تو ایک شام
والد صاحب کے دوست بھی یہاں موجود تھے! اتفاقا موڈی صاحب کی کا ادھر سے گزری اور انہوں
نے مجھ سے کہا کہ میں سنگاردان کو ساتھ لے کر ان کی کار میں بیٹھ جاؤں۔ کار کی رفتار
دھیمی تھی!میں بیٹھ گئی اور جو کچھ مجھے کرنا تھا وہ انہوں نے پہلے ہی سمجھا دیا تھا!‘‘
’’یہی کہ میں شاہی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں اور وہ سب کچھ جو
آپ کو موڈی صاحب سے معلوم ہوا ہے ، میں کہاں تک بتاؤں ! میرا سر چکرا رہا ہے ...!‘‘
’’ تو تم شاہی خاندان سے نہیں تعلق رکھتیں !‘‘
’’مجھے علم نہیں کہ میں کسی خاندان سے تعلق رکھتی ہوں !والد
صاحب نے مجھے کبھی نہیں بتا یا !...وہ ایک بہت بڑے عالم تھے ۔ ہمارے یہاں کتابوں کے
ڈھیر کے ڈھیر آپ کو ملیں گے ۔"
’’اچھاوہ کرتے کیا تھے ؟"
’’تصویروں کے بلاک بنایا کرتے تھے! اس سے خاصی آمدنی ہو جاتی
تھی !لیکن پچھلے چھ سال سے جب وہ چار سال کی روپوشی کے بعد واپس آئے تو کچھ بھی نہیں
کرتے تھے! "
’’میں نہیں سمجھا !"
’’آپ بڑی دیر سے کھڑے ہیں۔ اندر تشریف لے چلئے !‘‘لڑکی نے کہا
!اگر واقعی سنگاردان کے جواہرات نقلی ہیں تو مجھے خوشی ہی کرنی پڑے گی ! کیونکہ موڈی
صاحب کے روپے بھی چوری ہو گئے ۔ وہ دونوں اندر آئے جس کمرے میں لڑکی اسے لائی ۔ اس
میں چاروں طرف کتابوں سے بھری ہوئی الماریاں رکھی ہوئی تھیں !
’’ یہ ایک بڑی لمبی داستان ہے جناب !‘‘...لڑکی نے بات شروع ہی
کی تھی کہ کسی نے باہر سے دروازے پر دستک دی!
’’ ذرا ایک منٹ ٹھہریے گا !‘‘لڑکی نے کہا اور اٹھ کر چلی گئی
! عمران گہری نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے لگا !...اچانک اسے ایک آواز سنائی دی اور
وہ بے اختیار چونک پڑا۔ کیونکہ وہ موڈی کی آواز تھی اور پھر دوسرے ہی لمے میں وہ لڑکی موڈی کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
’’عمران ! "موڈی دروازے پر ہی ٹھٹک کر رہ گیا۔
" آؤ ...آؤ...
" عمران مسکرا کر بولا ۔
’’یہ تم نے کیا کیا... تم نے شہزادی صاحبہ کو کچھ بتایا تو نہیں
؟‘‘
’’شٹ اپ ادھر آؤ اور خاموش بیٹھو ۔ “
’’ نہیں ! میں اسے پسند نہیں کرتا!... مجھے اپنے روپوں کی پرواہ
نہیں... تم یہاں سے چلے جاؤ۔ شہزادی صاحبہ نے جو کچھ بھی کیا اچھا کیا! مجھے کوئی شکایت
نہیں ہے۔“
’’شہزادی صاحبہ نے جو کچھ بھی کیا اچھا کیا! مجھے کوئی شکایت
نہیں ہے۔"
’’شہزادے کے بچے ! اگر بکو اس کرو گے تو تمہیں بھی بند کرادوں
گا! عمران نے کہا اور وہ یک بیک ناک سکوڑ کررہ گیا ...
" کہیں کپڑے جل رہے ہیں کیا ؟ ‘‘...اس نے لڑکی کی طرف دیکھ
کر کہا!
’’میں بھی کچھ اسی قسم کی بو محسوس کر رہی ہوں۔ ‘‘موڈی نے پھر
بکواس شروع کر دی۔ عمران اس طرف دھیان دئے بغیر کچھ سوچ رہا تھا... اچانک ہوا کے جھونکے
کے ساتھ کثیف دھوئیں کا ایک بڑا سا مرغولہ کمرے میں گھس آیا ..اور تینوں بوکھلا کر
کھڑے ہو گئے ! عمران کھڑکی کی طرف جھپٹا! ...ایک کمرے سے دھوئیں کے بادل امنڈ ر ہے
تھے۔
’’آگ !‘‘لڑکی بے تحا شا چیخی
اور پھر باہر نکل کر اس کمرے کی طرف دوڑی!عمران
اور موڈی ...ہاں ہاں کر تے ہوئے اس کے پیچھے
دوڑے !لیکن وہ کمرے میں پہنچ چکی ...وہ دونوں بھی بے تحا شہ اندر گھسے !...کمرے کے و سط میں کپڑوں اور کا
غذات کا ایک بہت بڑا ڈھیر جل رہا تھا ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے وہ ساری چیزیں ایک جگہ اکٹھا کر کے ان میں دیدہ دا
نستہ آگ لگائی گئی ہو !۔
لڑکی اس طرح سینے
پر دو نوں ہا تھ با ندھے کھڑی تھی
جیسے قدیم آتش کدوں
کی کوئی پجا رن ہو !... اس کی آنکھیں
پھیلی ہو ئی تھیں اور ہو نٹ کپکپا رہے
تھے !یکا یک وہ چکر اکر گری اور بے ہوش ہو
گئی ۔
6
عمران کمرے
میں ٹہل رہا تھا اور کیپٹن فیاض اسے اس طرح گھور رہا تھا جیسے کچا ہی چبا جا ئے گا ۔ ’’دیکھو فیا ض ‘‘عمران
ٹہلتے ٹہلتے رک کر بولا !’’ یہ کیس بہت زیادہ الجھا ہوا ہے۔ نواب ہاشم کی موت خواہ
قتل سے ہوئی ہو یا خود کشی سے دونوں ہی صورتیں
مضحکہ خیز ہیں ! آخر قاتل نے چہرے پر کیوں فائر کیا۔ اس کے لئے تو سینہ یا پیشانی میں
زیادہ مناسب ہوتی ہیں !موت قریب قریب فوراہی واقع ہو جاتی ہے... میں نے فائل کا اچھی
طرح مطالعہ کیا ہے !مقتول کے چہرے کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے پر خراش تک نہیں ملی تھی اور
لاش کہاں تھی؟ بستر پر!... مرنے والا چٹ پڑا ہوا تھا... فیا ض میں کہتا ہوں تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ بستر
پر پھیلا ہوا خون مرنے والے ہی کا تھا ؟"
"میرے دماغ میں
اتنی طاقت نہیں ہے کہ تمہاری بکو اس سن سکوں ! ابھی تم ایک ایسی لڑکی کی کہانی سنارہے
تھے جس نے موڈی کے ہاتھ سنگاردان فروخت کیا تھا ! ...اب نواب ہاشم کے قتل پر آکو دے
!"
’’تم میری بات کا جواب دو ! ‘‘
’’بستر پر پھیلا ہوا خون مرنے والے کا نہیں تھا!‘‘ فیاض ہنس
پڑا پھر اس نے سنجیدگی سے کہا!’’ اب تم ایک
ذمدار آدمی ہو۔ لونڈاپن ترک کردو ۔"
’’فیاض صاحب !میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ موت اس کمرے
میں واقع ہی نہیں ہوئی تھی !میر اخیال کہ اسے
کسی دوسری جگہ پر گلا گھونٹ کر مارا گیا تھا۔ پھر چہرے پر فائر کر کے شکل بگاڑ
دی گئی ۔"
’’مجرم چونکہ فائر ہی کو موت کی وجہ قرار دینا چاہتا تھا اس
لیے اس نے لاش کو بستر پر ڈال دیا اور بستر کو کسی چیز کے خون سے تر کر دینے کے بعد
اپنی راہ لی ...اگر یہ بات نہیں تو پھر تم ہی بتاؤ کہ کمرے میں کسی قسم کی جدوجہد کے
آثار کیوں نہیں پائے گئے تھے !"
’’جد و جہد !کمال کرتے ہو!... ارے برخوردار سوتے میں اس پر گولی
چلائی گئی تھی ۱‘‘
’’ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج سے دس سال پہلے تمہار امحکمہ
کسی یتیم خانے کا دفتر تھا !"
"کیوں!"
’’اس لئے کپتان صاحب !کہ فا ئل میں لگی ہو ئی رپور ٹ قطعی نا مکمل ہے ؟‘‘
’’کیوں نا مکمل کیوں ہے ؟‘‘
’’یا ر شا ید تم
کسی یتیم خانے کے متو لی
یا منیجر ہو !...میرا خیال ہے کہ
تمہا ری کرسی پر تمہا را چپرا سی
تم سے زیا دہ اچھا معلوم
ہو !‘‘
’’کچھ بکو گے بھی
!‘‘فیا ض جھلا گیا ۔
’’یہ تم بھی
ما نتے ہو کہ فائر بہت قریب
سے کیا گیا تھا !یعنی بہت ممکن ہے
کہ نال سے چہرے کا فا صلہ ایک بالشت سے
بھی کم رہا ہو !‘‘
’’گھسی ہو ئی بات ہے ۔‘‘
’’اچھا تو فیاض صاحب بستر میں کو ئی چھرہ کیوں نہیں پیوست ہو ا تھا ! یا بستر پر بھی با رود کے اثرات کیوں
نہیں ملے ۔‘‘
’’مگر میرے سر کار !رپو ر ٹ میں اس تذکرہ نہیں ہے !...یہ واقعہ صرف دس سال پہلے کا ہے
۔سو برس پہلے کا نہیں جسے تم آدمی کی کم
علمی ثابت کر کے ٹال جاؤ...میرا دعویٰ ہے
کہ تفتیش کرنے والے کو چہرے کے آس پاس با
رود کے نشا نات ملے ہی نہ ہوں گے ورنہ وہ ضرور تذکرہ کرتا...اور پھر لاؤ مجھے
وہ فا ئیل دو جس میں خون کی کیمیا ئی تجزیے کی رپو رٹ ہو !‘‘
’’اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی تھی کہ خون کے ٹائپ
کا پتہ لگا یا جا تا !وہ مرنے والے ہی
کا خون تھا !ہم سب اس پر متفق ہو گئے تھے ۔‘‘
’’جب لو گوں کی ہمت جواب دینے لگتی ہے تو وہ اسی طرح متفق ہو جاتے
ہیں !تم لوگ ہمیشہ پیچیدہ گیوں سے
گھبراتے ہو ! پیچیدہ معاملا ت کو
بھی اس طرح کھینچ تان
کر سیدھا کر لیتے ہو کہ عقل
دنگ رہ جا تی ہے !پو سٹ ما رٹم کی رپو رٹ صاف کہہ رہی ہےکہ موت اچانک قلب
کی حرکت بند ہو جانے کی وجہ سے واقع ہو ئی ہے اور تم لوگ
فائر کی لکیر پیٹتے ہو۔‘‘
’’ہاں قطعی درست ہے
!‘‘ فیاض سر ہلا کر بولا ۔’’وہ سو رہا تھا
کہ اچانک
کان کے قریب ایک دھماکہ ہوا اور اس
کا ہا رٹ فیل ہو گیا ۔یہی و جہ تھی کہ اسے
تڑپنے کی بھی مہلت نہیں ملی اس لئے بستر
بھی شکن آلود نہیں تھا ...وہ جیسے لیٹا ہو اتھا ویسے ہی ٹھنڈا ہو گیا !‘‘
’’میرا اعتراض اب بھی
با قی ہے ! آخر بستر پر چھرے
کیوں نہیں لگے ... کیا ہو
گئے؟...کیا اس وقت بندوق کا بھی ہا رٹ فیل
ہو گیا تھا !‘‘
’’جہنم میں
جائے !‘‘فیاض اکتا ئے ہو ئے انداز میں بولا۔’’کیس تمہارے پاس ہے
...جاکر جھک مارو!...مگر ہاں تم اس لڑکی کا
تذ کرہ کر رہے تھے ،وہ کیس واقعی
دلچسپ معلوم ہو تا ہے...اچھا پھر جب
وہ بے ہوش ہو گئی تو تم نے کیا کیا !‘‘
’’صبر کیا اور کا فی
د یر تک سر پیٹتا رہا ۔‘‘عمران جیب
میں ہا تھ ڈال کر چیونگم کا پیکٹ تلاش کر
نے لگا!
’’آگ کیسے لگی
تھی؟‘‘
’’یقیناً د یا سلائی یا سگار لائیٹر سے ہی لگی ہوگی !"
" تم عجیب آدمی ہو! ‘‘فیاض نے جھلا کر کہا۔ عمران کچھ نہ
بولا! چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا ’’لڑکی میرے لئے ایک نئی الجھن پیدا کر
رہی ہے۔‘‘
’’اوہ تو کیا تم سمجھتے
ہو کہ وہ واقعی معصوم ہے ۔"
’’ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ابھی پورے واقعات بھی نہیں
معلوم ہو سکے اور لڑکی ہسپتال میں ہے... میں اس وقت وہیں جا ر ہوں!
7
موڈی نے سنٹرل ہسپتال کے پرائیویٹ وارڈ میں ایک کمرہ حاصل کر لیا
تھا!‘‘ لڑکی وہیں تھی اور پچھلی رات موڈی بھی وہیں رہا تھا اور اس کے خواب بدستور اس
پر مسلط رہے تھے !لڑکی نے اسے یقین دلانا چاہا تھا کہ اس نے سنگاردان کے جواہرات کو
اصلی ہی سمجھ کر اس کے ہاتھ فروخت کیا تھا ! لیکن موڈی نے اسے یہ کہہ کر گفتگو کرنے
سے روک دیا تھا کہ زیادہ بولنے سے اس کے اعصاب پر برا اثر پڑے گا!
اس وقت بھی وہ اس کے پلنگ کے قریب مؤدب بیٹھا فرش کی طرف دیکھ
رہا تھا !
’’موڈی صاحب ! اب میں بالکل ٹھیک ہوں ! لڑکی نے کہا ! ۔"
’’میں آسمانوں کا مشکور ہوں! ان اونچے پہاڑوں... اور ہزار ہا
سال سے بہنے والے دریاؤں کا مشکور ہوں ! جنہوں نے قدیم شہنشاہوں کی عظمت وشان دیکھی
ہے !شہزادی صاحبہ! صحت مبارک ہو۔“
’’میرا مضحکہ نہ اڑائیے ! میں شرمندہ ہوں ! اگر وہ جواہرات نقلی
ہیں تو جس طرح بھی ممکن ہوگا میں آپ کے روپے واپس کرنے کی کوشش کروں گی۔ میں والد صاحب
کا کتب خانہ فروخت کر دوں گی... وہ پچیس ہزار کی مالیت کا ضرور ہوگا۔ مجھے اچھی طرح
یاد ہے کہ ایک بار ایک صاحب نے ایک قلمی نسخہ ڈھائی ہزار میں خریدنے کی پیش کش کی تھی
لیکن والد صاحب نے انکار کر دیا تھا ...اور آپ براہ کرم مجھے شہزادی صاحبہ نہ کہا کریں۔
میں شہزادی نہیں ہوں ۔ آپ کو بتا چکی ہوں کہ میں نے ایک شخص کے کہنے پر خود کو شاہی
خاندان سے ظاہر کیا تھا!“
’’آپ شہزادی ہیں ! میرے اعتماد کا خون نہ کیجئے... یہی کہتی
رہئے کہ آپ شہزادی ہیں۔ مجھے حکم دیجئے کہ میں ایسے لاکھوں پچیس ہزا ر و پے آپ کے قدموں
میں ڈال دوں !مجھے اپنے سینکڑوں سال پرانے آبا و اجداد کے غلاموں ہی میں سے سمجھے جنہوں
نے ان کے لئے اپنا خون بہایا تھا ۔‘‘
’’لڑکی حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی ! کیوں کہ موڈی کے لہجے
میں بڑا خلوص تھا !
’’کیا عمران صاحب آپ کے دوست ہیں؟“
’’جی ہاں! ...وہ میرا دوست ہے۔ آپ بالکل فکر نہ کریں ! میں آپ
کے گر دروپوں کی دیوار کھڑی کر دوں گا اور پھر مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ایسی
صورت میں پولیس آپ کا کچھ نہ کر سکے گی ۔! "
دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ...اور دوسرے ہی لمحے میں عمران
کمرے میں داخل ہوا...اس وقت بھی حسب دستور اس کے چہرے پر حماقت برس رہی تھی اور انداز
سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کسی
غلط جگہ گیا ہو اور معا فی ما نگ کر الٹے
پاؤں واپس جائے گا !
" کیا آپ کی طبیعت اب ٹھیک ہے؟"
" جی ہاں ! اب
میں اچھی ہوں!
’’مگر تم کوئی الجھن پیدا کرنے والی بات نہیں کرو گے !سمجھے
"موڈی نے عمران سے کہا۔
’’سمجھ گیا !‘‘عمران نے جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور لڑکی سے
بولا!’ ' ذرا اپنے والد کے دوست کا حلیہ تو بتا یئے ! "
’’حلیہ !سوائے اس کے اور کچھ نہیں بتاسکتی کہ ان کے چہرے پر
گھنی داڑھی ہے اور آنکھوں میں کسی قسم کی تکلیف کی وجہ سے سیاہ شیشوں کی عینک کا استعمال
کرتے ہیں۔"
’’ہام‘‘ عمران نے اپنے شانوں کو جنبش دی۔ لیکن اس کے انداز سے
یہ معلوم کرنا دشوار تھا کہ لڑکی کے الفاظ سے اس پر کیا اثر پڑا ہے ! اس نے دوسرے ہی
لمحے میں پوچھا ! " جب آپ کے والد کا انتقال ہوا تو آپ کہاں تھیں... ؟‘‘
’’ میں یہاں موجود نہیں تھی ! واپسی پر مجھے یہ خبر ملی تو میں
اپنے اوسان بجا نہ رکھ سکی! تجہیز و
تکفین اسی آدمی نے
کی تھی،جواب تک خود کو ان کا دوست ظاہر کرتا رہا ہے۔“
’’ٹھیک ہے! ...لیکن کیا آپ کے پڑوسیوں نے اس سلسلے میں آپ کو
کوئی عجیب بات نہیں بتائی ؟ "
’’عجیب بات ! میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی !‘‘
’’ غسل کہاں دیا گیا تھا میت کو ؟“
’’اوہ... ہاں !... والد صاحب کے چند احباب جنازہ گھر سے لے گئے
تھے اور غالباً کسی دوست ہی کے یہاں غسل اور تکفین کا انتظام
ہوا تھا!“
’’ بہر حال کوئی پڑوسی مرنے والے کی شکل بھی نہیں دیکھ سکا تھا!‘‘
" آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں !‘‘ لڑ کی سنبھل کر بیٹھ گئی۔
گفتگو اردو میں ہورہی تھی !.... موڈی نے کچھ بولنا چاہا۔ لیکن عمران نے ہاتھ کے اشارے
سے روک دیا۔
’’اچھا ہاں ! ‘‘...عمران نے لڑکی کے سوال کا جواب دئے بغیر پوچھا؟
’’آپ نے دس سال قبل کے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا تھا !‘‘
’’کیا والد صاحب کی گمشدگی کا ؟ ‘‘لڑکی نے انگریزی میں کہا...شاید وہ
موڈی کو بھی اپنے حالات سے آگاہ کر دینا چاہتی تھی !عمران نے اثبات میں سر ہلایا لڑ
کی چند لمحے خاموش رہ کر بولی!’’ ڈیڈی بڑے پر اسرار آدمی تھے میں آج تک یہ نہ سمجھ
کی کہ وہ کون تھے اور کیا تھے؟ جب میں دس سال کی تھی تو وہ اچانک غائب ہو گئے... میں
تنہارہ گئی۔ والدہ اسی وقت انتقال کر گئی تھیں
جب میں پیدا ہوئی تھی ! ...آپ خود سو چئے !میری کیا کیفیت ہوئی ہوگی... مجھے یہ بھی
معلوم نہیں تھا کہ والد صاحب کا کوئی عزیز بھی ہے یا نہیں کہ میں اس سے رجوع کرتی
۔ انہوں نے بھی اپنے کسی عزیز کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ بہر حال بڑی پریشانی تھی
!... پڑوس میں عیسائیوں کا ایک غریب خاندان آباد تھا۔ اس نے میری بہت مدد کی ! مجھے
ایک مشن سکول میں داخل کر اد یا اور ہر طرح میری دیکھ بھال کرتا رہا! میں مسز ہارڈی
کو کبھی نہ بھولوں گی !وہ عظیم عورت ! جس نے
میری خبر گیری ماؤں کی طرح کی۔ میرے اخراجات بھی اٹھائے اور مجھے کبھی اس بات پر مجبور
نہیں کیا کہ میں عیسائی مذہب اختیار کرلوں ... و ہ تھوڑی دیر خاموش رہی پھر بولی !
چار سال تک والد صاحب کی کوئی خبر نہ ملی۔ پھر اچانک ایک دن وہ آگئے۔ ہفتوں روتے رہے...
لیکن مجھے کچھ نہیں بتایا کہ وہ ا تنے دونوں تک کہاں رہے؟... لیکن اتناضر ور کہا کہ
اب وہ کہیں نہیں جائیں گے۔"
’’و ہ پھر کہیں نہیں گئے ؟ " عمران نے پوچھا!
’’نہیں !پھر وہ گھر سے باہر بھی شاذ و نادر ہی نکلتے تھے ۔ گمشدگی
سے پہلے وہ تصویروں کے بلاک بنانے کا کام کرتے تھے۔ واپسی پر یہ کام بھی ترک کر دیا
تھا! لیکن مجھے آج تک نہ معلوم ہو سکا کہ بسر اوقات کا ذریعہ کیا تھا؟ بظاہر وہ کوئی
کام نہیں کرتے تھے۔ لیکن کبھی تنگ دستی نہیں ہوئی۔
’’ اور غالباوہ سنگار
دان بھی وہ اپنے ساتھ ہی لائے ہوں گے ؟ ‘‘عمران نے پوچھا۔
’’ نہیں ! میں بچپن ہی سے اسے دیکھتی آئی ہوں!۔۔۔"
’’ اچھا! تو پھر وہ پر اسرار آدمی اس کی تاک میں کب سے لگے تھے
۔؟"
’’والد صاحب کے انتقال کے بعد ہی سے ! اس سے پہلے کسی نے ادھر کا رخ
بھی نہیں کیا تھا ۔"
عمران چند لمحے کچھ سوچتا رہا۔ پھر پوچھا !" پچھلے چھ برس
کے عرصے میں ان سے کون کون ملتا رہا ہے؟“
’’کوئی نہیں ؟ حتیٰ کہ پاس پڑوس والے بھی ان سے بات کرنا پسند
نہیں کرتے تھے۔"
’’آخر کیوں؟ کیا وہ بہت چڑ چڑے تھے؟"
’’ ہر گز نہیں ! بہت ہی با اخلاق اور ملنسار تھے۔ انہوں نے کبھی
کسی سے تیز لہجے میں گفتگو نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ لوگ انہیں محض اس لئے برا کہتے
ہیں کہ وہ مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔"
’’لیکن ان کے مرتے ہی اتنے بہت سے دوست کہاں سے پیدا ہو گئے
۔ ‘‘عمران نے پوچھا!۔
’’مجھے خود بھی حیرت ہے !پڑوسیوں سے معلوم ہوا کہ وہ پانچ تھے
!لیکن ان میں سے ایک ہی آدمی اب تک میرے سامنے آیا ہے... وہی جس نے سنگاردان کے متعلق
مشورہ دیا تھا !‘‘
’’اور پھر وہ اس کے بعد نہیں دکھائی دیا"
’’ نہیں وہ اس کے بعد بھی ملتا رہا ہے۔ اس وقت تک جب تک کہ میں
نے سنگاردان فروخت نہیں کر دیا !‘‘
’’ تمہارے والد نے کبھی اپنے کسی دوست کا تذکرہ بھی نہیں کیا
!‘‘
’’صرف ایک دوست کا!... وہی جس کے پاس میں ان کی موت سے چند روز
قبل گئی تھی !"
’’اس کا نام اور پتہ !‘‘...عمران جیب سے ڈائری نکا لتا ہوا بولا
۔
’’حکیم معین الدین ...۴۸فر ید آباد ..دلا ور پور ۔‘‘
’’آپ اس کےپاس کیوں گئی تھیں؟‘‘
’’والد صا حب نے بھیجا تھا !‘‘لڑکی نے کہا ۔’’والد صاحب
عرصہ سے درد گردہ کے مر یض تھے۔اس دوران میں تکلیف کچھ ز یادہ بڑھ گئی ۔ علاج ہو
تا رہا لیکن فا ئدہ نہ ہوا ۔آخر کار انہو ں نے معین الدین
صاحب کا پتہ بتا کر کہا کہ میں ان
کے پاس جاؤں ...شاید ان کے پا س اس مرض کا
کوئی مجرب نسخہ تھا ! میں دلا ور پور گئی
!لیکن دوا تیار نہیں تھی ! اس لئے وہاں مجھے چار دن تک قیام کر نا پڑا ...میں
نے والد صا حب کو بذریعہ تار مطلع کر دیا تھا جس کے جواب
میں انہوں نے بھی بذریعہ تار ہی مجھے مطلع کیا کہ میں دو الئے بغیر وا پس
نہ آؤں ۔خواہ دس دن لگ جا ئیں!‘‘
’’کیا وہ حکیم صاحب !ابھی وہاں مل سکیں گے؟‘‘عمران نےپو چھا
!
’’کیوں نہیں
!یقیناً ملیں گے۔‘‘
’’لیکن اگر نہ ملے تب!‘‘
’’بھلا میں اس کے متعلق کیا کہہ سکتی ہوں!‘‘ لڑکی
مضطربانہ انداز میں اپنی پیشانی رگڑتی ہو ئی بولی ۔‘‘میری سمجھ
میں نہیں آتا کہ آخر یہ سب
کہا ہو رہا ہے ۔‘‘
’’بس عمران ختم کرو !‘‘موڈی ہاتھ اٹھا کر بولا ۔’’میں معا
ملات کی تہہ کو پہنچ گیا ہوں۔‘‘
’’کیا سمجھے ہیں آپ !‘‘ لڑکی نے چو
نک کر پو چھا !
’’آپ کے والد زندہ ہیں ! موڈی ٹھہر ٹھہر کر بولا ۔’’بس
میں سمجھ گیا ۔‘‘
’’شٹ اپ !‘‘ عمران
اسے گھو ر کر بولا ۔’’ شاید تمہارا
نشہ کھڑا رہا ہے ۔جاؤ ایک آدھ پگ
مارآؤ۔۔۔۔۔!‘‘
’’نہیں میں بالکل
ٹھیک ہوں۔‘‘موڈی نے جمائی لے کر کہا
!عمران نے لڑکی سے کہا ۔’’کیا آپ مجھے
اپنے والد کی کوئی تصویر سے سکیں گی ؟‘‘
’’افسوس !کہ نہیں ! جن
چیزوں میں پر اسرار طریقے سے آگ لگ
گئی تھی!ان میں غا لباً ان کے البم بھی تھے ۔یا ممکن ہے
البم نہ رہے ہو ں! مجھے تو کچھ ہوش
نہیں !...ہو سکتا ہے تلاش کر نے
پر کوئی تصویر مل ہی جائے !... مگر یہ تو بتایئے کہ مجھے یہان کب
تک رہنا ہو گا ! میں اب با لکل اچھی طرح ہوں!...‘‘
’’یہاں آپ زیادہ
محفوظ ہیں !‘‘ عمران سر ہلا کر بولا ’’جب تک کہ میں
نہ کہوں آپ یہاں سے نہیں جا
ئیں گی...میں نےاس کا انتظام کر لیا
ہے کہ آپ یہاں طویل
مدت تک قیام کر سکیں!....‘‘
’’آخر کیوں ؟‘‘
’’ضروری نہیں کہ آپ
کو بھی بتا یا جا ئے !‘‘
’’عمران میں
تمہاری گردن اڑادوں گا!‘‘ مو
ڈی اسے
گھو نسہ دکھا کر بولا ۔
’’تم شہزادی صا حبہ
کی تو ہین کر رہے ہو!‘‘
’’اور تم یہاں کیا کر رہے
ہو؟اٹھو !اور میرے ساتھ چلو!‘‘
’’میں یہیں رہوں گا ۔‘‘
’’شٹ اَپ ...کھڑے ہو جاؤ !...اٹھو!‘‘
8
عمران کے ساتھ
مو ڈی اپنے بنگلے پر واپس آگیا
اورآتے ہی اس بری طرح شراب پر گر اکہ خدا کی پناہ !... اس نے
پچھلی رات سے ایک قطرہ بھی نہیں پیا تھا۔دو تین پیگ متوا تر پی لینے بعد وہ
عمران کی طرف مڑا!...
’’تم کیا سمجھتے
ہو مجھے !میں جا نتا ہوں... معا ملا ت کی
تہہ تک پہنچ چکا ہوں اس کا
باپ زندہ ہے اور
وہ انتہا ئی پراسرار آدمی معلوم ہو تا ہے
!‘‘
’’بکواس بند کر و ،جو
میں کہہ رہا ہو اسے سنو !‘‘
’’میں کچھ
نہیں سنوں گا !میری ایک تھیوری ہے !‘‘عمران خا موشی ہو گیا مو ڈی بڑبڑا تارہا ۔’’میں شر لاک ہو مزہ ہوں!...‘‘
’’او...مو ڈی ...شرلاک ہو مزکے بچے !‘‘عمران اسے گھورتا ہو
ابولا !
’’نہیں ڈاکٹر وا
ٹسن تم ان معاملات کو نہیں سمجھ
سکتے !‘‘موڈی بڑبڑا تا ہو ا اٹھ کر
ٹہلنےلگا !اتنے میں نوکر پائپ لے آیا !...عمران
صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر سو چنےلگا تھا
۔مو ڈی پائپ سلگا کر اپنی گردن اکڑاتا ہو اس
کی طرف مڑا....
’’وہ کسی شاہی خزانے کے وجود سے واقف ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کےپاس نقشہ بھی مو جود ہے!‘‘
عمران بد ستور آنکھیں بند کئے پڑا رہا مو ڈی چند لمحہ خا
موش رہا۔پھر بولا ’’آج سے دس سال قبل یقیناًچند خطر ناک آدمیوں نےاس کا پیچھا کیا ہو گا ...بس وہ غا ئب
ہو گیا !...چار سال بعد پھر وا پس آیا !چھ
سال سکون سے رہا اور اس کے بعد پھر !وہ
کچھ دوسرے لوگ اس کے پیچھے پڑ گئے !...اس
بار اس نے اپنی موت کا ڈرا مہ کھیلا
!...کیاسمجھے !...ہا ہا!... کچھ نہیں سمجھے !...تم لوگ دما غ کے بجا ئے
معدہاستعمال کر تے ہو اور اب سنگاردان کی دا ستان سنو!...وہ غالبا ً اسی شاہی
خزانے سے تعلق رکھتا ہے ،خود اس کے باپ نے دشمنوں پر یہ ظا ہر کر نےکے لئے...ہا
ئیں ...کیا ظاہر کر نے کے لئے!‘‘
مو ڈی نے اپنی پیشانی پر گھو نسہ ما رلیا ...چندلمحے خا موش
رہا ...پھر عمران کو جھنجھوڑ کر بولا ۔’’ میں ابھی کیا کہہ رہا تھا ۔‘‘عمران
نے چونک کر آنکھیں کھول دیں!...’’کیا ہے ؟‘‘اس نے جھلا ئے ہو ئے لہجے میں پو چھا!
’’میں کہہ رہا تھا !‘‘ مو ڈی نے پھر اپنے
سر پر دو چار گھو نسے جما ئے!
’’تم!‘‘عمران کھڑا ہو کر اسے چند لمحہ گھو رتا رہا پھر گر یبان پکڑ کر ایک صوفے میں دھکیلتا ہو ا بولا ’’جہنم میں
جاؤ!‘‘
دوسرے ہی لمحے وہ باہر جا چکا تھا ۔!
9
نوابہا
شم کو دوبارہ منظر عام پر آئے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا تھا ...اور اس حیرت
انگیز وا پسی کی شہرت نہ صرف شہر بلکہ پو رے ملک میں ہو چکی تھی!...وہ اپنی نو عیت
کا ایک ہی ہنگامہ تھا!... محکمہ سرا
غرسانی والوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ
وہ اس سلسلے میں کیا کر یں! فی الحال ان کے سامنے صرف ایک ہی سوال تھا وہ یہ کہ اگر نواب ہا شم یہی شخص ہے تو پھر وہ آدمی کون تھا جس کی لاش دس سال قبل نواب ہاشم
کی خواب گاہ سے بر آمد ہو ئی تھی !کیپٹن فیاض عمران کو آج کل بہت زیادہ مصروف
دیکھ رہا تھا ۔لیکن عمران سے کسی بات
کا اگلوا لینا آسان کام نہیں
تھا ۔وہ ہر سوا ل کاجواب ضرور دیتا تھا ۔لیکن وہ جو ابات کچھ اس قسم کے ہو تے
تھے کہ سوال کرنے والا اپنا سر پیٹ
لینے کا ارادہ تو کر تا تھا ۔ مگر اسے
عملی جا مہ پہنا
کر مسخر ہ نہیں کہلا نا چا
ہتا تھا۔!
فیا ض نے لاکھ کو
شش کی لیکن عمران سے کچھ نہ
معلو م کر سکا ! البتہ اسے ایسے
اشعار ضرور سننے پڑے جن کے پہلے مصرعے عمو ماً مرزا غالب کے ہو تے تھے اور دوسرے ڈاکٹر اقبالؒ کے !مثلا ...
’’ہے دل شور یدہ غا
لبؔ طلسم پیچ و تاب‘‘
وہ صبار فتار شاہی
اصطبل کی آبرو!
عمران اس طرح کے جو
ڑ پیو ند لگانے کا ما ہر تھا ...بہر حال
فیاض اس سے کچھ نہ معلوم کرسکا !...آج اس
نے نواب ہا شم اور اس کے بھتیجے نواب ساجد
کو اپنے آفس میں طلب کیا تھا!...دونوں آئے
تھے !لیکن ان کے چہروں پر ایک دوسرے کے خلاف بیزاری کے آثار تھے!۔
’’دیکھئے جناب !‘‘فیاض نے نواب ہاشم کو مخا طب کیا۔’’اب ایک
ہی صورت رہ گئی ہے!‘‘
’’وہ کیا؟...دیکھئے
جناب ! جو بھی صورت ہو! میں جلد سے جلد اس کا تصفیہ چا ہتا ہوں!‘‘نواب ہاشم نے کہا۔
’’صورت یہ ہےکہ میں آپ کو جیل بھجوادوں!...‘‘
’’اچھا !‘‘...نواب ہاشم کی بھنویں تن گئیں !...اتنے
میں عمران کمرے میں داخل ہوا ... اس کے
بال پر یشان تھے اور لباس ملگجا سا!... ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کسی
لمبے سفر کے بعد یہاں پہنچا ہو !...
وہ دو نوں چچا بھتیجے کی طرف دیکھ کر مسکرا یا اور
فیاض کو آنکھ مار کر سر کھجانے لگا!...
’’مجھے جیل بھجوانا
آسان کام نہ وہو گا مسٹر فیاض!آخر آپ کس بناء پر مجھے جیل
بھجوائیں گے؟‘‘نواب ہاشم نے کہا
اور بد ستور فیاض کی آنکھوں میں دیکھتا
رہا !۔
’’دو وجوہات ہیں ! ان میں سے جو بھی آپ پسند کریں !‘‘
فیاض نے کہا !’’ اگر مر نے والا
وا قعی نواب ہاشم تھا تو آپ دھو کے
باز ہیں اور اگر نواب ہا شم نہیں تو آپ اس کے قا تل ہیں !‘‘
’’کیوں !میں کیسے
قا تل ہوں!‘‘
’’جس رات کو آپ اپنی روانگی ظاہر
کر تے ہیں اسی رات کی صبح کو آپ
کی خوابگاہ سے ایک لاش بر آمد ہو ئی تھی
۔میں کہتا ہوں آپ چھپ کر کیوں گئے تھے!‘‘
’’شاید مجھے اب وہ بات
دہرانی پڑے گی!‘‘نواب ہاشم نے جھنپے ہو ئے انداز میں مسکرار کہا ۔
’’دہرایئے جناب !‘‘عمران
ٹھنڈی سانس لے کر بولا ’’آپ کے معا
ملے نےتو میری عقل دہری
کر دی ہے !‘‘
نواب ہاشم چونک کر
مڑا ...شاید اسے عمران کی موجود گی کا علم نہیں ہوا تھا !
’’اوہ ...آپ...تو کیا آیہیں سے تعلق رکھتے ہیں!‘‘
’’آپ کچھ بتانے جا
رہے تھے !‘‘ فیاض نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
’’جی ہاں!...اب وہ
بات بتانی ہی پڑے گی!...آج تک سو چتا ہوں کہ
وہ واقعہ کتنا معمولی
تھا! لیکن اس وقت گویا مجھ پر جنون
سوار تھا !اگر میں نے وہ چوٹ سہہ
لی ہوتی اور لوگوں کے ہنسنے کی پرواہ نہ
کی ہو تی تو آج اس حالت کو نہ پہنچتا !خیر
سنئے جناب !...مگر نہیں پہلے میرے ایک سوال
کا جواب دیجیئے!‘‘
’’دیکھئے بات کو خواہ خواہ طوالت نہ دیجئے ! ہم لوگ بیکار آدمی نہیں
! ‘‘فیاض نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا !
’’ نہیں میں اختصار سے کام لوں گا ! اچھا صاف صاف سنئے ! مجھے
ایک عورت سے عشق تھا۔ بظاہر وہ بھی مجھے چاہتی تھی !اسی شہر کا ایک دوسرارئیس بھی اس کے چکر میں تھا !لہٰذا ہم دونوں کی کشمکش
نے اس واقعے کو سارے شہر میں مشہور کر دیا۔ عورت بظاہر میری ہی طرف زیادہ جھک رہی تھی
! یہ بات بھی عام طور پر لوگوں کو معلوم تھی! لیکن اسی دوران میں نہ جانے کیا ہوا
۔ کہ وہ کم بخت ایک تانگے والے کے ساتھ فرار ہو گئی۔ ذرا سوچئے ! اگر آپ میری جگہ ہوتے
تو آپ کے احساسات کیا ہوتے ! کیا آپ یہ نہ چاہتے کہ اب شناساؤں سے نظریں چار نہ ہوں
تو اچھا ہے شرمندگی سے بچنے کے لئے میں نے ،کسی کو کچھ بتائے بغیر یہاں سے چلا جاؤں۔
جس رات میں نے یہاں سے چلے جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ اسی شام کو باہر سے میرا دوست
آگیا! ...وہ میرا اجگری دوست تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دن اس کی آمد بھی بہت گراں
گزری !" نو اب ہاشم نے رک کر سگرٹ سلگائی اور دو تین کش لے کر پھر بولا ۔ ’’اسے
واقعات کا علم نہیں تھا! ...میں نے تہیہ کر لیا کہ قبل اس کے کہ اسے کچھ معلوم ہو
! میں یہاں سے چلا جاؤں ! چنانچہ میں نے یہی کیا ! اسے سوتا چھوڑ کر میں یہاں سے چلا
گیا !‘‘
’’تو پھر وہ آپ کے دوست کی لاش تھی ؟ ‘‘فیاض نے آگے کی طرف جھک
کر پوچھا!۔
’’ یقیناً اسی کی رہی ہوگی !... اب دیکھئے میں آپ کو بتاؤں
! ابھی میں نے اپنے جس حریف یا رقیب کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ حرکت اس کی بھی ہوسکتی ہے
!ظاہر ہے اسے اس واقعہ کے سلسلے میں کافی خفت اٹھانی پڑی ہوگی اور اس نے یہی سوچا ہوگا
کہ میں نے اسے زک دینے کے لئے عورت کو تانگے والے کے ساتھ نکلوا دیا ہے۔ ہو سکتا ہے
کہ اس نے مجھ سے انتقام کی ٹھانی ہو اور میرے دھو کہ میں میرے دوست سجاد کو قتل کر
دیا ہو!"
’’مگر پھر سوچتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا !"
’’آخر آپ کا حریف تھا کون؟ اس کا نام بتائیے؟‘‘ فیاض نے کہا
!
’’مرزا نصیر‘‘
’’اوہ ...وہ پہلی کو ٹھی
والے !‘‘عمرا ن نے کہا !۔
’’جی ہاں وہی !‘‘نواب ہاشم بولا ۔
’’بڑا افسوس ہو اسن کر!‘‘ عمران نے مغموم آواز میں کہا
"وہ پچھلے سال مر گئے ! اب میں کس کے ہتھکڑیاں لگاؤں... کیا ان کے لڑکے سے کام
چل جائے گا۔ ! ‘‘فیاض نے عمران کو گھور کر دیکھا ! لیکن عمران نے ایک ٹھنڈی سانس بھری
اور سر ہلاتا ہوا فرش کی طرف دیکھنے لگا!
" مگر مجھے یقین نہیں ہے کہ مرزا نصیر نے ایسا کیا ہو!
‘‘نو اب ہاشم بولا ۔’’ اگر وہ ایسا کرتا تو بھلا لاش کی شکل نا قابل شناخت بنانے کی
کیا ضرورت تھی ؟ اگر فرض کیجئے اس نے دھوکے میں بھی مارا ہوتا تو شکل کبھی نہ بگاڑتا
! اب آپ خود سوچئے! کہ وہ کون ہو سکتا ہے!"
’’بھتیجے کے علاوہ اور
کون ہو سکتا ہے چچا! " عمران بڑبڑایا!۔
’’کیا مطلب !‘‘ساجد اچھل کر کھڑا ہو گیا !۔
’’بیٹھ جائیے ! " فیاض نے سخت لہجے میں کہا۔
’’واقعی آپ تہہ تک پہنچ گئے ! ‘‘نو اب ہاشم نے عمران کی طرف
دیکھ کر کہا!۔
’’پہنچ گیا نا !... ہاہا‘‘ عمران نے احمقانہ انداز میں قہقہ
لگایا !۔
’’بہت ہو چکا !‘‘ ساجد نواب ہاشم کو گھونسہ دکھا کر بولا
" تمہاری چار سو بیس ہر گز نہیں چلے گی
!"
’’ گرم نہ ہو بیٹے !" نواب ہاشم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
" دولت بیٹے کے ہاتھ باپ کو قتل کرا سکتی ہے تم تو بھتیجے ہو اور پھر تمہارے پاس
تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ تمہارے باپ نے اپنی جائیداد پہلے ہی بیچ کھائی تھی ! میں
کنوارا تھا۔ ظاہر ہے کہ میرے وارث تم ہی قرار پاتے ...کیا میں غلط کہ رہا ہوں!"
" بکواس ہے. ..سو فیصدی بکو اس تم نواب ہاشم نہیں ہو !
تمہارے کا غذات جعلی ہیں!"
’’اور میری شکل بھی شاید جعلی ہے ! اتنی جعلی ہے کہ تم نے مجھے
حویلی میں قیام کرنے کی اجازت دے دی ! "
’’ تم مجھ پر کسی کا قتل نہیں ثابت کر سکتے !‘‘ ساجد نے میز
پر گھونسہ مار کر کہا! ۔
’’ دیکھئے مسٹر!‘‘ فیاض نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔’’ یہ آپ
کی حویلی نہیں میرا دفتر ہے ذرا ہاتھ پیر قابو میں رکھئے۔! "
’’اوہ ...معاف کیجئے گا !" ساجد نے کہا۔ پھر نواب ہاشم
سے بولا ! ’’میں عدالت میں دیکھوں گا تمہاری چرب زبانی !‘‘ ہاں تو کپتان صاحب میں یہ
کہہ رہا تھا! ‘‘نو اب ہاشم نے لاپروائی سے کہنا شروع کیا۔ "میرے بھتیجے نے دیکھا۔
موقع اچھا ہے ! اگر ہاشم آج کل ہی میں قتل کر دیا جائے تو آئی گئی مرزا نصیر کے سر
جائے گی !... یہ اسی رات کو حویلی میں چوروں کی طرح داخل ہوا اور میرے دھوکے میں سجاد
کوقتل کر دیا !مجھے یقین ہے کہ اسے اپنی غلطی کا احساس فوراًہی ہو گیا ہو گا اس لئے
تو اس نے لاش کو نا قابل شناخت بنا دیا تھا!... پہلے اس نے مجھے تلاش کیا ہوگا۔ جب
میں نہ ملا ہوں گا تو اس نے مقتول کا چہرہ بگاڑ دیا ہوگا !...اور پھر جناب یہ تو بتائیے
کہ لاش کی شناخت کس نے کی تھی ؟...
’’انہی حضرت نے!‘‘ فیاض
نے ساجد کی طرف دیکھ کر کہا!...
’’ اب آپ خود سوچئے !یہ میرا بھتیجا ہے !لاش کا چہرہ بگڑ چکا
تھا !۔ آخر اس نے کس بناء پر اسے میری لاش قرار دیا تھا؟ کیا اس لئے کہ مقتول کے جسم
پر میرا لباس تھا...!‘‘
فیاض کچھ نہ بولا ۔
اس کی نظر ساجد...کے چہرے پر جمی ہوئی تھی !لیکن اس کے بر خلاف عمران نواب ہاشم کو
گھور رہا تھا!...
’’ جواب دیجئے کپتان صاحب !‘‘ نواب ہاشم نے پھر فیاض کو مخاطب
کیا۔
" کیوں جناب! آپ نے کس بناء اسے نواب ہاشم کی لاش قرار
دیا تھا!‘‘ فیاض نے ساجد سے پوچھا!
’’ہاتھوں اور پیروں کی بناء پر !‘‘ساجد اپنی پیشانی سے پسینہ
پونچھتا ہوا بولا ۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ کےآثار تھے!
’’ ہاں ہاں! کیوں نہیں! چہرہ تو پہلے ہی بگاڑ دیا تھا !...اور
اس لئے بگاڑا تھا کہ تمہاری شناخت پولیس کے لئے حرف آخر ہو!... ظاہر ہے کہ اس کچی شناخت
کے معاملے میں پولیس صرف تمہارے ہی بیان سے مطمئن ہو سکتی تھی۔ کیونکہ تم میرے گھر
کے ہی ایک فرد تھے !‘‘ ساجد کچھ نہ بولا ۔ وہ اس انداز میں نواب ہاشم کو گھور رہا تھا
جیسے موقع ملتے ہی اس کا گلا دبوچ لےگا!
’’ہاں مسٹر ساجد ! آپ اپنی صفائی میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ فیاض نے
سخت لہجے میں کہا۔
’’ اب میں ہر بات کا جواب اپنے وکیل کی موجودگی ہی میں دے سکوں
گا۔ ‘‘ساجد بولا ۔
’’ یہی چاہئے بر خوردار! ‘‘نواب ہاشم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’ میں تم سے گفتگو نہیں کر رہا اور ہاں اب تم میری حویلی میں
نہیں آؤ گے! مجھے اگر تم نے ادھر کا رخ بھی کیا !تو نتیجے کے تم خود ذمہ دار ہو گئے
! ‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا !‘‘عمران بول پڑا...’’آپ دونوں سمجھوتہ
کیوں نہیں کر لیتے ! چین سے مل جل کر اسی کوٹھی میں رہئے مجھے افسوس ہے کہ نہ میرے
کوئی بھتیجا ہے اور نہ چچا۔ ورنہ میں دنیا کو دکھا دیتا کہ چچا اور بھتیجے کسی طرح
ایک جان دو قابل... نہیں باقل ... ہا ئیں ... بک رہا ہوں میں سوپر فیاض... کیا محاورہ
ہے وہ ...ایک جان ...دو قابل... چہ چہ چہ ...آہاں ...قالب قالب ایک جان دو قالب ...واہ
بھئی... ہینھ !"
’’ بھلا ان کے آپس کے سمجھوتے سے کیا بنے گا !...وہ لاش تو بہر حال درمیان میں
حائل رہے گی !‘‘ فیاض بولا!۔
’’ارے یار چھوڑ وبھی !‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔’’ یہ کہاں
کا انصاف ہے کہ ایک مردہ آدمی کے لئے چچا بھتیجوں میں نا چاتی ہو جائے ! بھلا و ولاش
ان کے کس کام آئے گی !"
’’اچھا آپ یہاں سے تشریف لے جائیے!‘‘ فیاض نے منہ بگاڑ کر انتہائی
خشک لہجے میں کہا !لیکن عمران پر اس کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا۔ اس نے مسکرا کر کہا!۔
’’میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ اس قتل کا تعلق مرزا نصیر سے تھا
!...کیوں فیاض صاحب !جو بات نواب ہاشم اپنے بھیجے کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ کیا وہی مرز
انصیر کے ذہن میں نہ آئی ہوگی !"
"کون کی بات۔"
" یہی کہ لاش کا چہرہ بگاڑ دینے سے خیال ساجد کی طرف جائے
گا!"
’’یہ بات کہی ہے آپ نے !‘‘ساجد اچھل پڑا اور پھر فیاض سے بولا۔ ’’اب
اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟"
’’اوہ !ختم بھی کیجئے !‘‘ عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔’’ بس جائیے !لیکن
آپ دونوں حویلی ہی میں رہیں گے مقصد کچھ اورنہیں !...بس اتنا ہی ہے میرےآدمیوں کو
کوئی تکلیف نہ ہو !‘‘
" میں نہیں سمجھا! ‘‘نو اب ہاشم نے کہا۔
’’میرے آدمی آپ دونوں کی نگرانی کرتے ہیں !اگر آپ میں سے کوئی
کسی دوسری جگہ چلا گیا تومجھے نگرانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑے گا !‘‘
فیاض نے عمران کو گھور کر دیکھا! غالباً وہ سورچ رہا تھا کہ
عمران کو نگرانی کے متعلق نہ کہنا چاہئے تھا! ...ساجد اور نواب ہاشم حیرت سے منہ کھولے
ہوئے عمران کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’بس اب آپ لوگ تشریف لے جائیے !‘‘ عمران نے ان سے کہا۔
" جس نے بھی حویلی کی سکونت ترک کی اس کے ہتھکڑیاں لگ جائیں گی!"
’’آپ نہ جانے کیسی باتیں کر رہے ہیں ! ‘‘ساجد بولا ۔
’’ چپڑ اسی!‘‘ عمران نے میز پر رکھی ہوئی گھنٹی پر ہاتھ مارتے
ہوئے صدا لگائی !... انداز بالکل بھیک مانگنے کا ساتھا...!
’’ اچھا ...اچھا ...اچھی بات ہے!‘‘ نواب ہاشم اٹھتا ہوا بولا!
" میں حویلی سے نہیں ہٹوں گا۔ لیکن میری زندگی کی حفاظت کی ذمہ داری آپ پر ہوگی
!‘‘
’’فکر نہ کیجئے ! قبر تک کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہوں !‘‘
عمران نے سنجیدگی سے کہا! وہ دونوں چلئے گئے اور فیاض عمران کو گھورتا رہا ...
" تم بالکل گدھے ہو!‘‘ اس نے کہا !
’’نہیں ! میں دوسری برانچ کا آدمی ہوں!... میرے یہاں سپر نٹنڈنٹ
نہیں ہوتے!"
" تم نے انہیں
نگرانی کے متعلق کیوں بتایا ! اب وہ ہوشیار ہو جائیں گے۔ احمق بننے کے چکر میں بعض
اوقات سچ مچ حماقت کر بیٹھتے ہو!"
’’آہ کپتان فیاض !اسی لئے جوانی دوانی مشہور ہے!‘‘ عمران نے
کہا! ...اور داہنی ایڑی پر گھوم کر کمرے سے نکل گیا !...رات تاریک تھی! ...عمران عالمگیری
سرائے کے علاقے میں چوروں کی طرح چل رہا تھا۔ اس کے ایک ماتحت نے جس کو لڑکی کے مکان
کی نگرانی کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ اطلاع دی تھی کہ آج دن میں کچھ مشتبہ آدمی مکان
کے آس پاس دکھائی دیتے تھے!... عمران نے اپنی کار سڑک پر ہی چھوڑ دی تھی اور پیدل ہی
پیلے مکان کی طرف جارہا تھا...گلی کے موڑ پر
اسے ایک تاریک سا انسانی سایہ دکھائی دیا !
عمران رک گیا !اس نے
محسوس کیا کہ وہ سایہ چھپنے کی کوشش کر رہا ہے !۔
’’ہُد ہُد!‘‘ ...عمران نے آہستہ آہستہ سے کہا !...
’’جج جناب والا !‘‘دوسری
طرف سے آواز آئی !...عمران نے اپنے اس ماتحت کا نام ہُد ہُد رکھا تھا!... یہ گفتگو
کرتے وقت تھوڑا سا ہکلاتا تھا اور اس کی شکل
دیکھتے ہی نہ جانے کیوں لفظ "ہُد ہُد ‘‘ کا تصور ذہن میں پیدا ہوتا تھا۔ پہلے
پہل جب عمران نے اسے ہُد ہُد کہا تو اس کے
چہرے پر نا خوشگوار قسم کے آثار پیدا ہوئے تھے اور اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ ایک نجیب
الطرفین قسم کا خاندانی آدمی ہے... اور اپنی تو ہین برداشت نہیں کر سکتا... اس پر عمران
نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس محکمہ میں حقیقتاً اسی قسم کے نام ہونے چاہئیں۔
بہر حال وہ بڑی مشکل سے اس بات پر راضی ہوا تھا کہ اسے ہُد ہُد پکارا جائے... اس میں
ایک خاص بات اور بھی تھی! جو اس کے حلئے کے
اعتبار سے ضرورت سے زیادہ مضحکہ خیز تھی۔ بات یہ تھی کر وہ ہمیشہ دوران گفتگو بہت ہی
ادق قسم کے الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس پر سے ہکلاہٹ کی مصیبت !بس ایسا
ہی معلوم ہوتا تھا جیسے اس پر ہسٹیر یا کا دورہ پڑ گیا ہو۔
" کیا خبر ہے؟ ‘‘عمران نے اس سے پوچھا ! وہ اس کے قریب
آ گیا تھا!۔
’’ابھی تک تو کچھ بھی ظہور میں نہیں آیا ۔‘‘... ہُد ہُد بولا
۔
’’مگر میں نے ظہور کو کب بلایا تھا !‘‘ عمران نے متحیرا نہ لیجے
میں پوچھا! پتہ نہیں اس کے سننے میں فرق آیا تھا یا وہ جان بوجھ کرگھس رہا تھا!
’’جج... جناب والا... میرا مطلب یہ ہے کہ... جج...جج... حالات
میں ککوئی تغیر واقع نہیں ہوا... یا یوں سمجھئے کہ ...تب تا این دودم ... جج جوں کا
تیوں ...!‘‘
’’میرے ساتھ آؤ"
’’بب بسر وچچ چشم !‘‘ دونوں آگے بڑھ گئے ! ...بستی پر سناٹا
طاری تھا۔ کبھی کبھی آس پاس کے گھروں سے بچوں کے رونے کی آواز میں تیں اور پھر فضا
پر سکوت مسلط ہو جاتا !اس بستی کے کتے بھی شاید افیونی تھے۔ عمران کو اس پر بڑی حیرت
تھی کہ ابھی تک کسی طرف سے بھی کتوں کی آوازیں نہیں آئی تھیں۔ پہلے اس کا خیال تھا
کہ اس وقت کتوں کی وجہ سے بستی میں قدم رکھنا بھی دشوار ہو جائے گا وہ تھوڑی ہی دور
چلے تھے کہ اچانک عمران کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گرتے گرتے بچا اور وہ چیزیقیناً ایسی
تھی جود باؤ پڑنے پر اب بھی سکتی تھی عمران نے بڑی پھرتی سے زمین پر بیٹھ کر اسے ٹٹولا
... وہ کسی کتے کی لاش تھی ۔
’’کک... کیا ...ظہور پذیر ہوا۔ جناب !’’ہُد ہُدنے پو چھا !
’’ظہور نہیں پذیر
ہوا ہے
آگے بڑھو !‘‘ مکان کے قریب پہنچ کر
وہ دونوں ایک دیوار سے لگ کر کھڑے ہو گئے
۔گہری تاریکی ہو نے کی بنا ء پر انہیں
قریب سے بھی دیکھ لئے جا نے کا امکان نہیں تھا !۔
’’سس،سس!ہُد ہُد آہستہ
سے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ عمران نے اس کا شانہ دبادیا !...اسے تھوڑے
فاصلے پر کوئی متحرک شے
دکھائی دی تھی۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی چو پایہ
آہستہ آہستہ چلتا ہو ااسی طرف آرہا ہو
...پھر دیکھتے ہی دیکھتے ...ان چو پا
یوںمیں اضافہ ہو گیا !...ایک دو
تین...چار...پا نچ...!‘‘عمران کا دا ہنا
ہا تھ کو ٹ کی جیب میں تھا ...اور مٹھی
میں ریوا لور کا دستہ
جکڑا ہو اتھا !... دیوار کے قریب پہنچتے ہی چو پائے سیدھے کھڑے ہو گئے!... عمران پہلے ہی سمجھ گیا تھا! وہ پانچ آدمی تھے لیکن تا ریکی کی وجہ سے پہچانے
نہیں جا سکتے تھے!عمران نےاس خیال سے ہُد
ہُد کے سینے پر ہاتھ ر کھ دیاکہ کہیں وہ
بو کھلا کر کوئی حماقت نہ کر بیٹھے۔
’’اررر...ہش!‘‘ ہُد ہُد اس کا ہاتھ جھٹک کر اچھل پڑا یا پا
نچوں آدمی بھی بالکل اسی کے سے انداز میں
اچھل کر بھا گا!عمران نے ان پر جست لگائی
اور ایک کو جا لیا !۔
’’خبر دار !ٹھہرو ۔ورنہ گولی ما ردوں گا !‘‘اس نے دو سروں کو للکا رکا کو
ئی اثر نہ ہوا.... وہ تاریکی میں گم ہو چکے تھے۔ عمران کی گرفت میں آیا ہوا آدمی بھی
نکل بھا گنے کے لئے جدو جہد کر رہا تھا!
’’او ہُد ہُد کے بچے !‘‘عمران نے ہا نک لگائی ۔
’’دو...دیکھئے جناب ! ‘‘ہُد ہُد نے کہا، جو قریب میں کھڑا کانپ رہا تھا۔
خبر دارا شمرد ور نہ گولی ماردوں گا؟ اس نے دوسروں
کو ان کارا۔ لیکن اس انکار کا کوئی اثر ہوا تاریکی میں تم
ہو چکے تھے ۔ عمران کی گرفت میں آیا ہوا آدمی بھی نکل بھاگنے
کے لئے جد و جہد کرر ہا تھا
’’مم ...میں... خح .... خاندانی آدمی ہوں ...پہلے ہُد ہُد پھر ہُد
ہُد کا بچہ ...واہ...جناب ...مم...‘‘
’’شٹ اپ ....ٹارچ جلاؤ ۔"
’’وہ تو ...کک...کہیں...گر گئی!‘‘’اس دوران میں عمران نے
اپنے شکار کے چہرے پر دو چار گھونسے رسید کئے اور وہ سیدھا ہو گیا!...
’’چلو!... ادھر... اس نے پھر ہُد ہُد کو مخاطب کیا؟!’’اس کے
گلے سے ٹائی کھولو...! "
’’ہُد ہُد بو کھلا ہٹ میں عمران کی گردن ٹٹو لنے لگا ...
’’ابے ...یہ میں ہوں!‘‘
’’جی ...!کیا ابے...! سعید از شرافت ...میں کوئی کنجڑا اقصائی
نہیں ہوں !...مم...سمجھے... اسی وقت ...مم... ملازمت سے سبکدوش کر دیجئے...جج ...جی ہاں !‘‘۔
’’چلوور نہ گردن مروڑ دوں گا ۔! "
’’حد ہوگئی جناب !۔"
اتنے میں عمران نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ پیر سست پڑ گئے ہیں
! اس پر سچ مچ غشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی
تھی !
عمران نے اس کے گلے سے ٹا ئی کھول کر اس کے ہاتھ باندھد دئے!اپھر
اٹھ کر ہُد ہُد کی گردن دبو چتا ہو ابولا !
’’ملازمت سے سبکدوش
ہونا چاہتے ہو۔"
’’ جج جی ...ہاں... ہُد ہُد کے لہجے میں جھلا ہٹ تھی لیکن اس نے اپنی گردن چھڑانے
کی کوشش نہیں کی۔
’’ٹارچ تلاش کروا!"
عمران اسے دھکا دیتا ہوا ہوا بولا اور ٹارچ جلد ہی مل گئی۔ وہ وہی پڑی ہوئی تھی ، جہاں ہُد ہُد اچھلا تھا !...
عمران نے بے ہوشی آدمی کے چہرے پر روشنی ڈالی۔ یہ ایک نو جوان اور توانا آدمی تھا !لیکن چہرے کی بناوٹ
کے اعتبار سے اچھے اطوار کا نہیں معلوم ہوتا تھا !اس کے جسم پر سیاہ
سوٹ تھا!
10
تقریباً ایک
گھنٹے بعد عمران کو تو الی میں اسی آدمی سے پو چھ گچھ کر رہا تھا !
" تم وہاں کس لئے آئے تھے ؟"
" مجھے اس کا علم نہیں !"
" تم نہیں بتاؤ گے!"
’’ دیکھئے جناب !میں کچھ چھپا نہیں رہا ہوں !خدا کی قسم مجھے
علم نہیں !اور پھر ہم چاروں کو تو باہر کھڑا رہنا تھا !اکیلا وہی اندر جاتا !‘‘
"کون"
’’صفدر خان"
’’یہ کون ہے؟"
’’آپ یقین نہ کریں گے کہ ہم اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے
ویسے وہ خود کو ایک علاقے کا جاگیر دار بتاتاہے اور کہتا ہے کہ ہم لوگوں کی مدد سے
اپنے ایک حریف کے خلاف مقدمہ بنارہا ہے... آج سے کچھ عرصہ پیشتر ہم اس مکان سے ایک
جنازہ لائے تھے اور آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ چادر کے نیچے لاش کی بجائے تمن بالٹیاں
اور ایک دیگچی تھی! ... جی ہاں ...مصنوعی جنازہ...!‘‘
’’واہ !‘‘ عمران بے اختیار مسکر اپڑا !
’’ میں کچھ نہیں چھپاؤں گا جناب !... اس نے ان کاموں کے لئے
ہمیں چار ہزار روپے دیئے تھے.... اور ہاں یہ تو بھول ہی گیا !... وہ ہمیں ایک امریکن
کے بنگلے پر بھیجا کرتا تھا!... وہ بات بھی عجیب تھی !... ہمارا کام صرف یہ تھا کہ ہم وہاں تھوڑی ہی اچھل کو دمچا
کر واپس آجایا کریں لیکن اس نے آج تک اس کا مقصد نہیں بتایا !...‘‘
’’صفدر خان کا حلیہ کیا ہے؟...."
’’چہرے پرگھنی داڑھی!... شلوار اور قیص بھی پہنتا ہے !ناک
چپٹی سی !... آنکھوں میں کیچڑ "
’’سیاہ چشمہ نہیں لگاتا !‘‘عمران نے پوچھا! ...
’’جی نہیں ! ...چشمہ لگائے ہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔"
’’ اچھا اپنے بقیہ تین ساتھیوں کے نام اور پتے بتاؤ !"
’’میں کسی کے نام اور پتے سے واقف نہیں ہوں! جب وہ ہمیں ایک
جگہ اکٹھا کرتا ہے تب ہی ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں!ور نہ پھر آپس میں کبھی ملنے کا
اتفاق نہیں ہوتا !"
’’ ہوں! وہ تمہیں کسی
طرح بلاتا ہے ! ...‘‘
’’فون پر شاید!.... ہم چاروں کو ہی یہ نہیں معلوم کہ وہ کہاں
رہتا ہے! "
’’ تمہیں ان تینوں آدمیوں کے فون نمبر معلوم ہیں ؟"
’’جی نہیں ! ...ہم میں کبھی گفتگو نہیں ہوئی! ...ہم چاروں ایک
دوسرے کے لیے اجنبی ہیں! ویسے صورت آشنا ضرور
ہیں !‘‘ عمران نے لکھتے لکھتے نوٹ بک بند کر دی!... ملزم حوالات میں بھیج دیا گیا
!...
11
شام ہی
سے آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا ! ...اس لئے سورج کے غروب ہوتے ہی تاریکی پھیل گئی
....اور گیارہ بجے تک یہ عالم ہو گیا کہ ہاتھ کو ہاتھ بجھائی نہیں دیتا تھا...بادل
جم کر رہ گئے تھے !جس کی وجہ سے لوگوں کا دم نکل رہا تھا ! لیکن بارش... کے امکانات
نہیں تھے ۔ نواب ہاشم کا بھتیجا ساجد مضطر بانہ انداز میں ٹہل رہا تھا۔ ابھی ابھی کچھ
پولیس والے یہاں سے اٹھ کر گئے تھے۔ ان میں ایک آدمی محکمہ سراغرسانی کا بھی تھا۔ ساجد
کو حیرت تھی کہ آخر ابھی تک اس شخص کو حراست میں کیوں نہیں لیا گیا جو نواب ہاشم ہونے
کا دعوی کرتا ہے! ...اگر وہ سچ مچ نواب ہاشم
ہی ہے تو پولیس کو اسے حراست میں لے کر اس لاش کے متعلق استفسار کرنا چاہئے تھا، جو
دس سال قبل حویلی میں پائی گئی تھی !...
وہ ٹہلتا اور سگرٹ پر سگرٹ پھونکتا رہا! لیکن اب خود اس کی
شخصیت بھی پولیس کے شبہے سے بالا تر نہیں تھی !نو اب ہاشم نے کیپٹن فیاض کے آفس میں
بیٹھ کر کھلم کھلا اسے مجرم گردانا تھا۔ کہا تھا مکن ہے ساجد ہی نے میرے دوست سجاد
کو میرے دھو کے میں قتل کر دیا ہو۔
ساجد نے ختم ہوتے ہوئے سگرٹ سے دوسرا سالگایا اور ٹہلتا رہا
!دو ، دو بجلی کے پیچھے چل رہے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا۔
پھر کیا ہوگا ...وہ سوچ رہا تھا... اگر جرم اس کے خلاف ثابت ہو گیا تو ، اس نے اس شخص
کو کوٹھی میں جگہ دے کر سخت غلطی کی ہے ...اور اب نہ جانے کیوں محکمہ سراغرسانی والے
اس بات پر مصر ہیں کہ اسے کوٹھی میں ٹھہر نے دیا جائے ؟ کیا وہ خود کہیں چلا جائے ....مگر
اس سے کیا ہوگا....اس طرح اس کی گردن اور زیادہ پھنس جائے گی !"
ساجد تھک کر بیٹھ گیا!.... اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ
کیا کرے بعض اوقات تو اس کا دل چاہتا تھا کہ سچ مچ ایک قتل کا الزام اپنے سر لے لے
! اس پر اسرار آدمی کا گلا گھونٹ دے، جو اس کی جان ومال کا خواہاں ہے. ...سگرٹ پھینک
کر وہ جوتوں سمیت صوفے پر دراز ہو گیا....آنکھیں بند کر لیں!.... یونہی....!نیند ایسے
میں کہاں؟ آنکھیں بند کر کے وہ اپنے تھکے ہوئے ذہن کو تھوڑا اسکون دینا چاہتا تھا۔
اچانک اس نے ایک عجیب قسم کا شور سنا !...اور بوکھلا کر برآمدے میں نکل آیا... لیکن
اتنی دیر میں پھر پہلے ہی کی طرح سناٹا چھا چکا تھا!... البتہ اس کے دو تین کتے ضرور
بہت ہی ڈھیلی ڈھالی آوازوں میں بھونک رہے تھے !ساجد سمجھ نہیں سکا کہ وہ کس قسم کا
شور تھا!۔
ساجد کا دل بہت شدت سے دھڑک رہا تھا !وہ چند لمحے برآمدے میں
بے حس و حرکت کھڑا اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ تا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ اس کا
واہمہ نہ رہا ہو! پریشان و ماغ اکثر غنودگی کے عالم میں اس قسم کے دھو کے دیتا ہے!
پھر وہ واپسی کے لئے مڑہی رہا تھا کہ سارا پائیں باغ اس قسم کے شور سے گونج اٹھا۔ بالکل
ایسا معلوم ہوا جیسے بیک وقت ہزاروں آدمی بیچ کر خاموش ہو گئے ہوں !کتوں نے پھر بھونکنا
شروع کر دیا ! اور اب ساجد کئی بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں بھی سن رہا تھا۔
دو نو کر بھاگتے ہوئے اس کے قریب آئے وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔
"حضور!.... یہ کیا ہو رہا ہے! ‘‘ایک نے ہانپتے ہوئے پوچھا
!۔
’’میں کیا بتاؤں!... اندر سے ٹارچیں لاؤ۔ تینوں رائفلیں نکال
لاؤ.... جلدی کرو!... سارے نوکروں کواکٹھا کرو... جاؤ!"
اتنے میں ساجد کو نواب ہاشم دکھائی دیا جو شب خوابی کے لبادے
میں ملبوس اور ہاتھ میں رائفل لئے برآمدے میں داخل ہو رہا تھا!
’’ساجد !‘‘ اس نے کہا " کیا تم اب میرے خلاف کوئی نئی حرکت
کرنے والے ہو!"
’’یہی میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں ! دوست ! ساجد بھنویں تان
کر آنکھیں سکوڑتا ہوا بولا ۔" تم اگر میرے چچا بھی ہو تو اس قسم کی حرکتیں کر
کے مجھ سے کوٹھی خالی نہیں کراسکتے !‘‘... میں بزدل نہیں ہوں جب تک میرے اسٹاک میں
میگزین باقی رہے گا کوئی مجھے ہاتھ بھی نہ لگا سکے گا ....سمجھے!"
’’میں سب سمجھتا ہوں ! ‘‘نواب ہاشم نے کہا’’ اگر تم ہزاروں آدمی
بلا لو تب بھی میں حویلی سے نہ نکلوں گا! محکمہ سراغرسانی والے ہر وقت حویلی کی نگرانی
کرتے ہیں۔ اگر میرا بال بھی بیکا ہوا تو تم جہنم میں پہنچ جاؤ گے۔"
’’چوری اور سینہ زوری!‘‘ ساجدتلخ انداز میں مسکرایا۔
اتنے میں سارے نوکر ا کٹھے ہو گئے! یہ تعداد میں آٹھ تھے۔ ان
میں تین ایسے تھے !جو ساجد کو شکار پر لے جانے کےلئے رکھے گئے تھے اور خود بھی اچھے
نشانہ باز تھے۔
’’میں تمہیں حکم دیتا ہوں!" ساجد نے انہیں مخاطب کر کے
کہا!" جہاں بھی کوئی اجنبی آدمی نظر آئے بیدریغ گولی مار دینا ! پھر میں سمجھ
لوں گا !‘‘
شکاری ٹارچیں اور رائفلیں
لے کر پا ئیں با غ میں اتر گئے۔
’’ دو ایک کتے بھی ساتھ لے لو! میں اس وقت تمہارا ساتھ نہیں
دے سکتا۔ میرا یہاں موجود رہنا ضروری ہے ۔‘‘ اور پھر وہ نواب ہاشم کو گھورنے لگا
!...
’’تم اس طرح مجھے مطمئن نہیں کر سکتے !‘‘ نواب ہاشم بولا۔
’’ اوہ۔ ! تم جہنم میں جاؤ ۔ " ساجد دانت پیستے ہوئے بولا ’’مجھے تم کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہی کیا
ہے اگر پولیس والے تمہیں یہاں نہ رکھنا چاہتے تو میرے نوکروں کے ہاتھ تمہاری گردن میں
ہوتے اور تم پھاٹک کے باہر نظر آتے ! ‘‘
’’اوہ! ساجد کیا تمہارا خون سفید ہو گیا !‘‘ نواب ہاشم کا لہجہ
درد ناک تھا !
اچا نک وہ شور پھر سنائی دیا۔ لیکن ایک لمحے سے زیادہ جاری نہ
رہا !....کتے پھر بھونکنے لگے! اور پھر وہی بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں!
ساجد کے سارے نو کر
بے تحاشہ بھاگتے ہوئے پر آمدے میں اوپر چڑھ آئے دو ایک تو سیڑھیوں پر ہی ڈھیر ہو گئے۔
"حضور! کوئی... نہیں ...کوئی بھی نہیں ! صرف آواز یں ...میرے خدا. ...لیکن اگر
پیچھے سے میرے کھوپڑی پر گولی پڑے تو میری موت کا ذمہ دار یہ شخص ہو گا ! ‘‘ساجد نے
نواب شام کی طرف ہاتھ جھٹک کر کہا۔ " یہ شخص ہو گا میری موت کا ذمہ دار۔ تم لوگ
اسے یا درکھنا۔ اب آؤ میرے ساتھ !...میں دیکھوں گا۔"
12
عمران اپنے
آفس میں کاہلوں کی طرح بیٹھا دونوں ٹانگیں ہلارہا تھا اس کی آنکھیں بند تھیں اور دانتوں
کے نیچے چیونگم تھا۔ پھر اس نے آنکھیں بند کئے ہوئے ہُد ہُد کو آواز دی۔
" جج ... جناب والا! ‘‘ہُد ہُد نے اس کے قریب پہنچ کر کہا
!
’’بیٹھ جاؤ!‘‘ عمران بولا۔
ہُدہُد میزسے کافی فاصلے پر ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
’’پچھلی رات کی رپورٹ سناؤ ؟"
’’رر۔۔۔۔ رات بھر ہنگامہ آرائی رہی ....قدرے.... قف.... قلیل
وقفے سے وہ لوگ آسمان بالائے سر اُٹھاتے رہے.... اور سگان روسیاہ کی بف بف سے...م میرا
دو.. دماغ پراگندگی اور انتشار کی آماجگاہ بنارہا۔!"
’’ہُدہُد... مائی ڈیئر
! آدمیوں کی زبان بولا کرو۔"
’’ میں ہمیشہ ۔ شش۔ شرفا کی زبان بولتا ہوں!"
" مجھے شرفا کی نہیں آدمیوں کی زبان چاہئے ۔"
’’یہ بات !میرے ...نف۔۔۔۔ فہم و ادراک سے...بب.... بالاتر ہے!"
’’اچھا تم دفع ہو جاؤ اور شمشاد کو بھیج دو۔"
لفظ " وفع ‘‘پر ہُد ہُد کا چہرہ بگڑ گیا۔ مگر وہ کچھ نہ
بولا۔ چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد شمشاد داخل ہوا ...
شمشا د بیٹھ گیا !یہ بھی صورت سے احمق ہی معلوم ہو تا ہے
!...
’’چلو !مجھے کل رات کی رپو رٹ چا ہئے!‘‘
’’ کل رات !‘‘ شمشاد ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔’’ انہوں نے بہت
شور مچایا !اس طرح چیختے تھے کہ کان پڑی آواز
نہیں سنائی دیتی تھی ! اور حضور تقریبا چھ بجے کو نواب ساجد کی رنڈی آئی تھی !....لیکن
اس کے ساتھ نائکہ نہیں تھی !... اس کا قد پانچ فٹ سے زیادہ نہیں ہے ... دھانی ساڑھی
میں تھی! پیروں میں یونانی طرز کے سینڈل تھے ... آنکھیں کافی بڑی... چہرہ بیضوی ! کھڑا
کھڑا ناک نقش !...
’’اور اوندھی اوندھی تمہاری کھوپڑی!‘‘ عمران جھلا کر بولا۔ ’’یہ
بتاؤ رات کوئی پھاٹک کے باہر بھی آیا یا نہیں !
’’جی نہیں !رنڈی کی واپسی کے بعد کوئی بھی باہر نہیں نکلا تھا!"
’’پھر وہی رنڈی گٹ آؤٹ !‘‘عمران میز پر گھونسہ مار کر گر جا!
شمشاد چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا !
عمران نے فون کا ریسیور اٹھایا۔
"ہیلو سوپر فیاض ! میں عمران ہوں!"
’’اوہ ... عمران ...آؤ میرے یار ...ایک نیا لطیفہ ان کم بختوں
نے سچ مچ ہی ناک میں دم کر دیا ہے ! سمجھ میں
نہیں آتا کہ کیا کروں!"
’’میں ابھی آیا !‘‘ عمران اٹھتا ہوا بولا۔“
فیاض اپنے کمرے میں تنہا تھا ۔ لیکن انداز سے معلوم ہو رہا تھا
کہ ابھی ابھی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے!...
" کیوں! کیا تمہارے
آدمیوں نے کوئی خاص اطلاع نہیں دی !‘‘ فیاض نے پوچھا!
’’دے رہا تھا کم بخت، لیکن میں نے بیچ ہی میں روک دیا ! ‘‘
’’یعنی"
’’نواب ساجد کی رنڈی آئی تھی !قد پانچ فٹ لمبا، ناک نقشہ ساڑھی
وغیرہ ! ‘‘
’’تم ان کم بختوں کی بھی مٹی پلید کر رہے ہو!"
’’خیر ٹالو....!‘‘ عمران سنجیدگی سے بولا۔ ” تمہار ا لطیفہ کیا
ہے؟"
’’ابھی وہ دونوں آئے تھے ! انہوں نے ایک نئی کہانی سنائی ! اور
دونوں ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے تھے ! ....کسی قسم کی پر اسرار آوازمیں قریب قریب
رات بھر حویلی کے کمپاؤنڈ میں سنی گئیں !ان کا کہنا ہے کہ وہ آواز یں آسمان سے آتی
معلوم ہو رہی تھیں !ہزاروں آدمیوں کے بیک وقت چیخنے کی آواز یں! "
’’ہاں !میرے آدمیوں نے اس کی اطلاع دی ہے !‘‘ عمران سر ہلا کر
بولا!
’’اب وہ دونوں ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہیں !.... آخر وہ
آواز میں کیسی ہو سکتی ہیں؟
’’پتہ نہیں یار! اس قسم کی آواز میں تو ہم پہلے بھی سن چکے ہیں
!اور خوفناک عمارت والا کیس تو تمہیں یاد ہوگا ؟‘‘
’’ اچھی طرح یاد ہے ! " فیاض سر ہلا کر بولا " مگر
وہ تو ایک آدمی ہی کا کارنامہ ثابت ہوا تھا ؟"
’’اور تم اسے کسی آدمی کی حرکت نہیں سمجھتے ! ‘‘عمران نے پو
چھا!
’’آوازیں آسمان سے آتی ہیں بر خوردار !"
’’تو پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو الزام کس بات کا دیتے ہیں !‘‘
’’ان کا خیال ہے کہ ان میں سے کوئی ایک اس کا ذمہ دار ہے!"
’’اور تم ہو کہ اسے انسانی کارنامہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہو!"
’’تم میرا مطلب نہیں سمجھے ! آخر ان میں سے کس کی حرکت ہو سکتی
ہے!"
’’اب تم نے دوسری سمت چھلانگ لگائی !یار فیاض یہ محکمہ تمہارے
لئےقطعی مناسب نہیں تھا !"
’’بکواس مت کرو! آج کل تم بہت مغرور ہو گئے ہو!‘‘ فیاض نے تلخی
سے کہا ! ’’دیکھوں گا اس کیس میں !"
’’ ضرور دیکھنا ! " عمران نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
13
نواب ساجد
بوکھلا کر پھر برآمدے میں نکل آیا اس نے موجودہ الجھنوں سے نجات پانے کے لئے دو تین
پیگ وہسکی کے پی لئے تھے اور اب اس کا دماغ چوتھے آسمان پر تھا۔ اس نے پائیں باغ میں
پھیلے ہوئے اندھیرے میں نظریں گاڑ دیں!
’’یہ تو یقیناً واہمہ ہی تھا !‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا !
لیکن دوسرے لمحہ اسے
ایک تیز قسم کی سرگوشی سنائی دی... دلاور علی ...دلاور علی ... بالکل ایسا معلوم ہورہا
تھا جیسے باہر پھیلی ہوئی تاریکی بول پڑی ہو! ایسی تیز قسم کی سرگوشی تھی کہ اسے دو
ایک فرلانگ کی دوری سے بھی سنا جا سکتا تھا !
ساجد کا نشہ ہرن ہو گیا !سر گوشیاں آہستہ آہستہ پہلے سے بھی
زیادہ تیز ہوتی جارہی تھیں !
’’دلاور علی ... ولا در علی !"
اور پھر وہ سرگوشیاں ہلکی سی بھرائی ہوئی آواز میں تبدیل ہو
گئیں!
’’دلاور علی... دلاور علی ...!‘‘ آواز کسی ایسے آدمی کی معلوم
ہوتی تھی جو روتا رہا ہو! آواز بتدریج بڑھتے بڑھتے انتہا کو پہنچ گئی، یعنی دلاور علی
کو پکارنے والا پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا.... رونے کی آواز برابر جاری رہی اور پھر اچانک
ساجد نے فائروں کی آوازیں سنیں ! پے در پے فائر ...!
رونے کی آواز بند ہو گئی۔
’’ایک ایک کو چن چن کر ماروں گا۔‘‘ نواب ہاشم باغ کے کسی تاریک
گوشے میں چیخ رہا تھا۔ " مجھے کوئی کو فزدہ نہیں کر سکتا....!‘‘
دو فائر پھر ہوئے ...!
’’دلاور علی !‘‘ پھر وہی پر اسرار سر گوشی سنائی دی !...
’’دلاور علی کے بچے
سامنے آؤ!‘‘ نواب ہاشم کی چنگھاڑ تھی!
تین چار فائر پھر ہوئے !۔
اتنے میں کوئی باہر سے پھاٹک ہلانے لگا...فائر بھی بند ہو گئے
اور وہ پر اسرار سر گوشی پھر سنائی نہیں دی !... پھاٹک بڑی شدت سے ہلایا جارہا تھا!
’’پھاٹک کھولو !... پولیس!‘‘ باہر سے آواز آئی ! ’’یہاں کیا
ہو رہا ہے!"
14
کیپٹن فیاض
کے آفس میں نواب ہاشم اور نواب ساجد بیٹھے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور
رہے تھے۔ عمران ٹہل رہا تھا اور کیپٹن فیاض کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے کچھ سوچ رہا تھا
! ساجد اور نواب ہاشم کے انداز سے ایسا ظاہر ہورہا تھا جیسے کچھ دیر قبل دونوں میں
جھڑپ ہو چکی ہو!
’’سوال تو یہ ہے کہ نواب ہاشم صاحب ! ‘‘عمران ٹہلتے ٹہلتے رک کر بولا!
" آخر آپ نے میونسپل حدود کے اندر فائر کیوں کئے !"
’’ میں اپنے ہوش میں نہیں تھا!"
" کیا میں بے ہوشی کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟"
’’ میرے خدا ...آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں عمران صاحب ! اگر آپ
میری جگہ پر ہوتے تو کیا کرتے؟"
’’ ڈر کے مارے کہیں دبک رہتا!‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
’’خیر میں اتنا بز دل نہیں ہوں!"
’’لیکن آپ ہوا سے لڑرے تھے نواب صاحب !‘‘
’’ایک منٹ‘‘ دفعتاً نواب ساجد ہاتھ اٹھا کر بولا! ’’کیا آپ نے
اس بے ایمان کو نواب ہاشم تسلیم کر لیا ہے ! ‘‘
’’چچ چچ ... ساجد صاحب
! اپنے چچا کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال نہ کیجئے !‘‘ عمران نے کہا! " سازش
! خدا کی قسم سازش !‘‘نواب ساجد مضطر باند انداز میں بڑ بڑا کر رہ گیا!
’’لیکن آج میں نے سازش کا خاتمہ کر دینے کا تہیہ کر لیا ہے ! ‘‘عمران
مسکرا کر بولا ! نواب ہاشم اور ساجد دونوں عمران کو گھورنے لگے۔
’’ذرا ایک بار پھر اپنے فرار کا دقوعہ دہرائیے !‘‘ عمران نے ہاشم سے
کہا۔
" کہاں تک دہراؤں ۔‘‘ نو اب ہاشم بیزاری سے بولا’’ خیر
...کہاں سے شروع کروں؟"
’’جہاں سے آپ کا دوست سجاد اس واقعہ میں شریک ہوتا ہے۔"
’’ہاں سجاد!‘‘ نواب ہاشم نے درد ناک آواز میں کہا اور ایک ٹھنڈی
سانس لے کر رہ گیا۔
’’میں آپ کے بیان کا منتظر ہوں ۔ ‘‘عمران نے اسے خاموش دیکھ
کر ٹو کا ..!
نواب ہاشم کی پیشانی پر سلوٹیں ابھر آئیں! ایسا معلوم ہورہا
تھا جیسے وہ کوئی بھولی بسری بات یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو!
’’ہاں ٹھیک ہے !‘‘وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ " سجاد اسی شام
کو آیا تھا۔‘’ پھر اس نے عمران کو مخاطب کر کے بلند آواز میں کہنا شروع کیا !’’ جس
رات مجھے فرار ہونا تھا ! اسی رات کو سجا د وارد ہوا۔ اسے واقعات کا علم نہیں تھا۔
میں نے اس پر اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا اور پھر رات کو اسے سوتا چھوڑ کر چپ چاپ گھر
سے نکل گیا !‘‘
’’ او ہو ! عمران صاحب !سیدھی سی بات ہے ! قاتل نے اپنی غلطی
معلوم کر لینے کے بعد اسے نواب ہاشم بنا دیا ! ۔"
’’ لیکن آپ کے رقیب کو کیا پڑی تھی کہ غلطی معلوم ہو جانے پر
وہ سجاد کو نو اب ہاشم بنانے کی کوشش کرتا !"
’’لیکن آپ کے رقیب کو کیا پڑی تھی کہ غلطی معلوم ہو جانے پر
وہ سجاد کو نو اب ہاشم بنانے کی کوشش کرتا !"
" کچھ نہیں ۔
" نواب ہاشم جلدی سے بولا ۔ " اس کے متعلق سوچنا ہی فضول ہے۔ آپ یہ دیکھئے
کہ اسے میری لاش ثابت ہونے پر کسی قسم کا فائدہ تو نہیں پہنچتا !‘‘
’’اوہ ! تو تم مجھے قاتل ثابت کرنا چاہتے ہو!" ساجد نے
میز پر گھونسہ مار کر کہا !
’’ٹھہرئیے جناب! آپ دخل اندازی نہیں کریں گے !" عمران ساجد
کو گھور کر بولا ۔ ساجد ہونٹوں میں کچھ بڑ بڑا تا ہوا خاموش ہو گیا۔
’’ہاں نواب صاحب ! ‘‘ عمران نے نواب ہاشم سے کہا۔ ’’یہ سجاد
کس قسم کا آدمی تھا کہاں رہتا تھا؟“
’’ ایک سیلانی اور شاعر قسم کا آدمی تھا! کوئی مستقل ٹھکانہ
نہ رکھتا تھا... آج یہاں کل وہاں ...آدمی پڑھا لکھا اور بذلہ سنج تھا۔ اس لئے روسا
کے درمیان اس کی خاصی آؤ بھگت ہوتی تھی۔“
’’اس کے پسماندگان کے متعلق بھی کچھ بتا سکیں گے؟"
’’مشکل ہے کیوں کہ اس نے کبھی اپنے کسی عزیز کا تذکرہ نہیں کیا
۔"
’’مگر جناب ! کیا محض ساجد صاحب کی شناخت کی بناء پر وہ آپ کی
لاش قرار دی گئی ہوگی !‘‘’’ نوکروں نے بھی اسے شناخت کیا تھا۔‘‘ ساجد بول پڑا’’ وہ
نوکر جنہوں نے سالہا سال چچا مرحوم کے ساتھ رہ کر انہیں دیکھا تھا۔"
’’کہاں ہیں وہ نوکر ؟‘‘ نو اب ہاشم گرجنے لگا! ’’کیا ان میں
سے کسی ایک کو بھی تم نے برقرار رکھا ہے؟"
پھر اس نے عمران سے کہا۔ " جب میرے بھیجے نے ہی اسے میری
لاش قرار دے دیا تو نوکروں کو کیا پڑی تھی کہ وہ اس کے خلاف کہہ کو خود کو پولیس کا
تختہ مشق بناتے اور پھر اگر تم سچے تھے تو تم نے ان نوکروں کو کیوں الگ کر دیا !ان
میں سے کم از کم ایک یا دو کو تو اس وقت رہنا ہی چاہئے تھا! ایک ہی گھر میں نوکروں
کی عمریں گزر جاتی ہیں ؟‘‘
’’بات تو پکی ہے! " عمران سر ہلا کر بولا۔
’’تو تم نے صرف یہ کہ میری جائیداد ہتھیانا چاہتے ہو۔ بلکہ مجھے
پھانسی بھی دلواؤ گے !" ساجد نے زہر خند کے ساتھ کہا۔ "
’’ کیا یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں ساجد صاحب ! ‘‘عمران نے بڑی
سنجیدگی سے پوچھا!۔
’’آپ کی تو کوئی بات ہی میری سمجھ میں نہیں آئی ! '‘‘ساجد بولا
’’کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ مجھے بچارہے ہیں۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجھ
میں اور پھانسی کے تختے میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے! ‘‘
قبل اس کے کہ عمران جواب دیتا !نو اب ہاشم بول پڑارہ ۔"
سنو ساجد !یہاں رشوت نہیں چل سکتی ! یہاں سب بڑے لوگ ہیں !یہاں انصاف ہوتا ہے!
"
’’آپ غلط کہہ رہے ہیں
نواب صاحب !‘‘ عمران نے سنجیدگی سے کہا !’’یہاں انصاف نہیں ہوتا ! انصاف عدالت میں
ہوتا ہے۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم کسی ایک کی گردن پھانسی کے لئے پیش کر دیں اور
اس کا فیصلہ میں ابھی کئے دیتا ہوں کہ کس کی گردن پھانسی کے لئے زیادہ مناسب رہے گی
۔"
فیاض خاموش بیٹھا تھا۔
اس نے اس دوران میں ایک بار بھی بولنے کی کوشش نہیں کی تھی ! ویسے اسے یقین تھا کہ
فیصلہ کن لمحات جلدہی آنے والے ہیں۔
عمران نے آگے بڑھ کر میز پر رکھی ہوئی گھنٹی بجائی اور دوسرے
ہی لمحے اردلی چق ہٹا کر اندر داخل ہوا...!
’’اسے یہاں لاؤ! سمجھے ‘‘عمران نے اردلی سے کہا۔
’’ جی حضور ! ‘‘اردلی نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
نہ جانے کیوں کمرے کی فضا پر قبرستان کی سی خاموشی مسلط ہو گئی۔
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہاں کوئی جنازہ رکھا ہواہو۔
نواب ہاشم اور ساجد دونوں کے چہرے اترے ہوئے تھے! عمران سینے
پر دونوں ہاتھ باندھے کھڑا اس طرح فرش کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے قالین پر بنی ہوئی
تصویر یں اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد کرنے والی ہیں!
دفعتاً بر آمدے میں
قدموں کی آہٹ ہوئی اور دوسرے ہی لمحہ میں دروازہ میں دردانہ داخل ہوئی۔ اردلی اس کے
پیچھے حق اٹھائے کھڑا تھا۔
ساجد کا منہ حیرت سے
کھلا اور پھر بند ہو گیا لیکن نواب ہاشم کے رویے میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے لڑکی پر
ایک اچٹنی سی نظر ڈالی اور پھر عمران کی طرف
دیکھنے لگا۔
دردانہ دروازے ہی میں
ٹھٹک کر رہ گئی تھی ۔ اس کی نظر نواب ہاشم کے چہرے پرتھی اور آنکھیں پھیل گئی تھیں
۔ اس پر بالکل سکتے کی سی کیفیت طاری تھی !
’’ابا جان !‘‘ اس کے
منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اگر عمران آگے بڑھ کر اسے سنبھال نہ لیتا
تو اس کا گر جانا یقینی تھا! اس پر غشی طاری
ہو گئی تھی!
عمران نے اسے ایک کرسی پر ڈال دیا !
’’ میں اس کا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘ نو اب ہاشم عمران کو خونخوار
نظروں سے گھورتا ہوا بولا ۔
’’اس نے مجھے ابا جان نہیں کہا تھا ؟ ‘‘عمران نے لا پروائی سے
کہا !
’’بہت خوب !میں سمجھ گیا، اب مجھے کسی جال میں پھانسنے کی کوشش
کی جارہی ہے؟ ساجد میں تم سے سمجھ لوں گا!‘‘
نواب ہاشم ساجد کو گھونسہ دکھا کر بولا ’’خاموش رہو ۔‘‘ فیاض
بگڑ گیا!’’تم میرے آفس میں کسی کو دھمکی نہیں دے سکتے !"
’’ہاں ! اور آپ کی آنکھوں کے سامنے مجھے جال میں پھانسا جارہا
ہے !مجھے اس کی توقع نہیں تھی... خیر مجھے پرواہ نہیں دیکھتا ہوں، مجھے کون پھانستا
ہے! دنیا جانتی ہے کہ میں نے شادی نہیں کی تھی اور نہ دس سال میں کوئی لڑکی اس عمر
کو پہنچ سکتی ہے!... ایک نہیں ہزا ر ایسی لڑکیاں لاؤ، جو مجھے ابا جان کہہ کر مخاطب
کریں... ہونہہ! "
’’ مگر کپتان صاحب ! " ساجد نے فیاض کو مخاطب کیا ۔’’ ذراد
دیکھئے دونوں میں کتنی مشابہت ہے؟ ‘‘سچ مچ فیاض کبھی بے ہوش لڑکی کی طرف دیکھا تھا
اور کبھی نواب ہاشم کو، دردانہ کو اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔
’’ او... ساجد تجھ سے خدا سمجھے !‘‘ نواب ہاشم دانت پیس کر بولا
!
’’تو کیا اس لڑکی کو ساجد نے پیدا کیا ہے! " ساجد نے مسکرا
کر کہا؟
’’نواب ہاشم ! عمران بھاری بھر کم آواز میں بولا ۔ " میں
تصدیق کرتا ہوں کہ تم نواب ہاشم ہو اور تمہاری زندگی میں ساجد تمہاری جائیداد کے مالک
نہیں ہو سکتے‘‘
’’ لڑ کے تم مجھے پاگل بنا دو گے !‘‘ نواب ہاشم بے ساختہ ہنس
پڑا۔
’’آپ شاید نشے میں ہیں ! " ساجد بھنا کر بولا۔
’’نہیں ساجد صاحب ! میں نشے میں نہیں ہوں! بالکل ٹھیک کہہ رہا
ہوں ! نواب ہاشم کے پھانسی پا جانے کے بعد ہی آپ ان کے حقیقی وارث ہو سکیں گے !"
’’کپتان صاحب !‘‘ نواب ہاشم بگڑ کر کھڑا ہوتا ہوا بولا’’ یہ
آپ کا دفتر ہے یا بھنگڑ خانہ...!‘‘
’’ اگر یہ بات میں نے کہی ہوتی تو تم مجھے گولی مار دیتے !‘‘
عمران نے مسکرا کر فیاض سے کہا !
’’آخر تم کرنا کیا چاہتے ہو۔‘‘ فیاج ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’ نواب صاحب ! تشریف رکھئے ! ابھی تک میں مذاق کر رہا تھا یہ
حقیقت ہے کہ آپ بہت ستم رسیدہ ہیں !لیکن اس کا کیا کیا جائے نواب صاحب کہ حکیم معین
الدین آپ کے حملے کے باوجود بھی ابھی تک زندہ ہے! اخبارات میں اس کی موت کی خبر میں
نے ہی شائع کرائی تھی !"
" کیا بکواس ہے!‘ نواب ہاشم حلق پھاڑ کر چیخا ’’ میں جارہا
ہوں‘‘ نہیں سرکار! عمران جیب سے ریوالور نکال کر اس کا رخ نواب ہاشم کی طرف کرتا ہوا
بولا ۔ ’’آپ جائیں گے نہیں بلکہ لیجائے جائیں گے تشریف رکھئے !کیا آپ بتاسکیں گے کہ
پچھلی رات دلاور علی کا نام سن کر آپ پاگلوں کی طرح فائر کیوں کر رہے تھے ؟"
’’ ہٹ جاؤ سامنے سے ! و اب ہاشم نے پاگلوں کی طرح کہا اور دروازے
کی طرف جھپٹا !لیکن دوسرے ہی لمحہ میں عمران کی ٹانگ چل گئی... نواب ہاشم منہ کے مل
فرش پر گر پڑا اور عمران نے بڑی بے دردی سے اس کی پشت پر اپنا داہنا پیر رکھ دیا۔
دردانہ جو ہوش میں آچکی تھی ،چیختی ہوئی عمران کی طرف دوڑی!
’’یہ آپ کیا کر رہے ہیں ! میرا دل گواہی دیتا تھا کہ ابا جان
زندہ ہیں !‘‘
’’یہ تمہارے ابا جان نہیں ہیں !‘‘ عمران نے کہا جو نواب ہاشم
کو پیر کے نیچے دبائے رکھنے کے لئے پوری قوت صرف کر رہا تھا!
’’ ابا جان ہیں، انہوں نے صرف اپنی داڑھی صاف کر دی ہے۔ خدا
کے لئے ہٹ جائیے!
’’نہیں بھولی لڑکی میں !بھی بتاتا ہوں۔"
نواب ہاشم نے پلٹ کر عمران کی ٹانگ پکڑ لی!... لیکن دوسرے ہی
لمحہ میں عمران کا گھٹنا اس کی گردن سے جالگا... نواب ہاشم کے حلق سے آوازیں نکلنے
لگیں۔
" فیاض!ہتھکڑیاں ! ‘‘عمران بولا۔
فیاض میز سے اٹھا تو لیکن اس کے انداز میں ہچکچاہٹ تھی! اس نے
اردلی کو آواز دی ! اتنے میں نواب ہاشم عمران کی گرفت سے نکل گیا ! عمران دوسری طرف
لڑھک گیا! لیکن اس نے نواب ہاشم کی ٹانگ کسی طور بھی نہ چھوڑی! ...
اتنے میں نواب ہاشم کو اردلیوں نے قابو کر کے ہتھکڑیاں لگا دیں!
’’بھگتنا پڑے گا تم لوگوں کو !‘‘ نواب ہاشم کھڑا ہو کر ہانپتا
ہوا بولا ۔
’’بیٹھ جاؤ! ‘‘عمران نے اسے ایک کرسی میں دھکا دے دیا !پھر وہ
لڑکی کی طرف متوجہ ہوا! جو قریب ہی کھڑی بری طرح کانپ رہی تھی۔!
’’تمہارے باپ کا کیا نام تھا ؟ عمران نے لڑکی سے پوچھا!۔
’’ولا در علی‘‘ لڑکی پھنسی ہوئی آواز میں بولی !
’’مگر یہ نواب ہاشم ہے!"
’’دردانہ کچھ نہ بولی! عمران نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا!
وہ اسی طرح کا نپتی ہوئی بیٹھ گئی !
’’نو اب ہاشم !‘‘ عمران بولا’’ میں تم پر فریب دہی ،قتل اور
ایک شخص پر قاتلانہ حملے کے الزامات عائد کرتا ہوں
’’ کرتے جاؤ ! عدالت میں نپٹ لوں گا !‘‘ نواب ہاشم ڈھٹائی سے
بولا۔
’’ تم اس لڑکی کے باپ دلاور علی کے قاتل ہوا !جو تمہارا ہم شکل
تھا... آج سے دس سال قبل تم نے اسے قتل کیا تھا !لوگوں نے اس کی لاش کو تمہاری لاش
سمجھنے میں غلطی کی تھی اور یہ غلطی مشابہت
کی بناء پر ہوئی تھی !تم چار سال کے لئے غائب ہو گئے چار سال بعد واپس آئے اور دلاور
علی کے مکان میں مقیم ہو گئے، لڑکی مشابہت کی بناء پر دھوکہ کھا گئی۔
’’الف لیلیٰ کی داستان ! " نو اب ہاشم نے ایک ہذیانی سا
قہقہ لگایا ۔۔۔۔!
’’ اچھا تو اب پوری داستان سنو!... دلاور علی تمہارے باپ کی
ناجائز اولاد تھا اور تمہارا ہم شکل ! اس کی ماں بچپن ہی میں مرگئی تھی! تمہارے والد اسے بہت چاہتے تھے !لیکن تمہاری
ماں کے برے برتاؤ سے بچانے کے لئے انہوں نے اسے اس شہر ی سے ہٹا دیا!... وہ دلاور پور کے ایک بورڈنگ میں پرورش پا
تا رہا!... وہیں پلا بڑھا اور تعلیم حاصل کی
!وہ فطر تاًبہت ہی نیک اور علم و فن کا دلدادہ تھا! بڑے ہو کر جب اسے اپنی پوزیشن کا
احساس ہوا تو اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس شہر کا بھی رخ ہی نہیں کرے گا ! تمہارے باپ
برابر اس کی مدد کرتے رہے۔ انہوں نے اسے کچھ خاندانی نوادرات بھی دیئے تھے! اور وہ
سنگاردان ان میں سے ایک تھا !جسکی نقل تم نے تیار کرا کے موڈی کے گلے لگائی اور اس
سے پچیس ہزار روپے اینٹھ لئے ...کیا میں غلط کہہ رہا ہوں ؟ نواب ہاشم تم اسے غلط نہیں
کہہ سکتے !میں نے تمہارے خلاف درجنوں شہادتیں مہیا کر رکھی ہیں !‘‘
" بکے جاؤ!...‘‘ نو اب ہاشم بر اسامنہ بنا کر بولا ۔’’
اس بکو اس پر کون یقین کرے گا ؟"
’’ ہاں تو فیاض صاحب ! ‘‘عمران نے فیاض کو مخاطب کیا ’’اب میں
داستان کے اس حصے کی طرف آرہا ہوں ! جہاں نواب ہاشم اور دلا ور علی ایک دوسرے سے ٹکراتے
ہیں۔ یہ ٹکراؤایک عورت کی وجہ سے ہوا جو نواب ہاشم کی محبوبہ تھی اور یہ حقیقت ہے کہ
پہلے اسکی ملاقات نواب ہاشم ہی سے ہوئی! پھر شاید وہ عورت کسی طرح سے دلاور پور پہنچ
گئی! وہاں اس کی ملاقات ولا ور علی سے ہوئی ۔ جس کی صورت ہو بہو ہی نواب ہاشم کی سی
تھی۔ پہلے وہ اسے نواب ہاشم ہی سمجھی لہٰذا
بہت بے تکلفی سے پیش آئی اور پھر کافی عرصے کے بعد اس کی غلط فہمی رفع ہوئی اور وہ
بھی اس طرح کہ ایک موقع پر نواب ہاشم اور دلا در علی اکٹھا ہو گئے ! دونوں ہم عمر تھے
۔ نواب ہاشم کو دلاور علی کے متعلق علم تھا لیکن دونوں پہلی بار ملے تھے اور یہ ملاقات
بھی بنائے فساد ثابت ہوئی وہ عورت دلاور علی کو بے حد پسند کرنے لگی تھی ! اس کے عادات
واطوار شریفوں کے سے تھے اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے وہ نواب ہاشم سے بہت اونچا
تھا ! عورت نے ایک فیصلہ کیا اور اسے عملی جامہ پہنایا ! یعنی دلاور علی سے شادی کر
لی !
نواب ہاشم کے سینے پر سانپ لوٹ گیا !...لیکن اس وقت وہ خاموش
رہا۔ البتہ انتقام کی آگی اس کے سینے میں سلگتی رہی۔ ایک سال زندہ رہ کر وہ عورت بھی
چل بسی ، لیکن وہ اپنی ایک نشانی چھوڑ گئی تھی ! عمران دردانہ کی طرف اشارہ کر کے خاموش
ہو گیا !نو اب ہاشم اس طرح مسکرارہا تھا جیسے کوئی نادان بچہ اس کے سامنے بکواس کر
رہا ہو!۔
’’ اب سے دس سال پہلے جب دردانہ دس سال کی ہو چکی تھی ، نواب
ہاشم نے ایک پلاٹ مرتب کیا !وہ ہر حال میں دلاور علی سے انتقام لینا چاہتا تھا اس نے
سب سے پہلے اپنی ایک آشنا کو ایک تانگے والے کے ساتھ بھگا دیا !پھر دلاور علی کوقتل
کر کے اپنی جگہ ڈالا اور خود روپوش ہو گیا۔ جنگ کا زمانہ تھا اسے فوج میں ملازمت مل
گئی اور وہ سمندر پار بھیج دیا گیا !چار سال بعد اس کی واپسی ہوئی اور چونکہ وہ دلاور
علی کا ہم شکل تھا اس لئے دلاور علی کا رول ادا کرنے میں اسے کوئی دشواری نہ آئی۔ لیکن
کب تک ایک دن اسے عشرت کی زندگی کو خیر باد کہہ کر اپنی حویلی میں واپس آنا ہی تھا
!لیکن حویلی میں واپسی آسان نہ تھی۔ ساجد جائید او پر قابض تھا اس کے لئے نواب ہاشم
نے اصلی سنگاردان کی نقل تیار کروائی اور دردانہ
کو دلاور پور بھیج دیا !جب وہ وہاں سے واپس آئی تو نواب ہاشم اپنی حیثیت تبدیل کر چکا
تھا ! اس نے لڑکی کو اس کے باپ کی موت کی اطلاع دی اور خود کو دلاور علی کا دوست ظاہر
کیا! لڑکی دھو کے میں آگئی ! پھر لڑکی ہی کے ذریعہ موڈی کو پھانسا ۔ اس نے پچیس ہزار
میں نقلی سنگار دان خرید لیا... لڑکی رقم گھر لائی اور نواب ہاشم نے اسے اُڑالیا !
اصلی سنگار دان اور وہ رقم آج بھی اس کے قبضے میں ہے!
’’ ایک منٹ "! فیاض ہاتھ اُٹھا کر بولا ۔ " تمہیں
ان سب باتوں کا علم کیسے ہوا ؟‘‘
’’حکیم معین الدین دلاور پور کا باشندہ تھا اور اس لڑکی کا باپ
اس کے گہرے دوستوں میں سے ہے! وہ دلاور علی اور اس کی زندگی کے حالات سے بخوبی واقف
ہے۔ میں جب دردانہ کی نشاندہی پر اس تک پہنچا تو وہ زخم کھائے ہوئے ہے ہوش پڑا تھا۔
اس پر کسی نے چاقو سے حملہ کیا تھا اور اپنی دانست میں مردہ تصور کر کے چھوڑ گیا تھا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ زخم مہلک نہیں تھا! اس کی جان بچ گئی لیکن میں نے احتیاطاً اس
کے قتل کی خبر دلاور پور کے اخبارات میں شائع کرادی تھی۔ اس سے یہ ساری حقیقت معلوم
ہوئی۔۔۔۔"
’’میں کسی حکیم معین الدین کو نہیں جانتا۔ ‘‘نواب ہاشم نے کہا!’’
یہ سب بکواس اور ساجد کی سازش ہے! روپے میں بڑی قوت ہوتی ہے! دنیا کے سارے آدمیوں کو
پاگل نہیں بنایا جا سکتا۔ اتنی مشابہت تو ایک ماں کے پیٹ میں پیر پھیلانے والے بھائیوں
میں بھی نہیں ہوئی کہ ایک بیٹی دوسرے کو اپنا باپ سمجھ لے ...ساجد یہ اوچھے ہتھیار
عدالت میں کام نہیں آئیں گے!‘‘
’’ دلاور پور کے بورڈنگ سے جہاں دلاور علی نے پرورش پائی اس
کی تصویر میں دستیاب ہوسکتی ہیں! ‘‘عمران نے کہا...
وہ میری ہی تصویریں
ہوں گی!‘‘ نواب ہاشم نے کہا ۔" جو بآسانی ساجد کے ہاتھ لگی ہوں گی اور اب انہیں
اس سازش میں استعمال کر رہا ہے۔! "
’’ٹھہر و! عمران !‘‘فیاض نے کہا۔’’ اگر دلاور علی کو قتل ہی
کرنا مقصود تھا تو اتنا پیچیدہ راستہ کیوں اختیار کیا۔ اس سے فائدہ کیا ہوا اور اسے
نہ اختیار کر کے کیا نقصان اٹھانا پڑتا ؟"
’’ ذرا دیکھئے ! "نواب ہاشم نے تمسخر آمیز لہجے میں کہا
اور ہنسنے لگا !
’’وہ قتل کیا جاتا!‘‘ عمران بولا ۔ " اس کی تصاویر شائع
ہو تیں اور شہر کے ایک بڑے آدمی سے اُس کی مشابہت ہونے کی بناء پر پولیس یقینا ًچونکتی
اور پھر جو کچھ بھی ہوتا ظاہر ہے۔"
’’پھر وہی مشابہت !‘‘ نو اب ہاشم بر اسامنہ بنا کر بولا۔’’ آخر
اس مشابہت پر کون یقین کرے گا!... سازش ہے تو بہت گہری لیکن کامیاب نہیں ہو سکتی اور
میں یہ جتادینا چاہتا ہوں کہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایک زمانے میں میں نے یونہی
داڑھی بھی رکھ لی تھی اور داڑھی میں اپنے کئی فوٹو بھی بنوائے تھے۔"
اس فرضی دل اور علی کی جو بھی تصویر پیش کی جائے گی وہ میری
ہوگی اور سو فیصد ی میری ہوگی۔ ابھی اس لڑکی نے داڑھی کا حوالہ دیا تھا۔ لہذا ’’تو
تم مجھے شکست دینے پر تل گئے ہو!نواب ہاشم ‘‘عمران مسکرا کر بولا۔ میں تمہیں بتاؤں
... اس دن دلاور علی کے مکان میں تم نے چھپ کر کا غذات کا ایک ڈھیر جلایا تھا! لیکن
جس چیز کے لئے تم نے اس ڈھیر میں آگ لگائی تھی !وہ اس میں موجود نہیں تھی !نہیں بھی
یقین نہیں تھا کہ وہ چیز جل گئی ہوگی !اس لئے تم اس کی تلاش میں اپنے چار آدمیوں کے
ساتھ پیلے مکان میں گھسنے کی کوشش کرتے رہے ہوا!لیکن وہ چیز تمہارے ہاتھ نہ لگ سکی
!وہ میرے قبضے میں ہے!"
" کیا؟‘‘ نواب
ہاشم مضطر بانہ انداز میں بولا ۔ پھر فوراًہی سنبھل کر ہنسنے لگا
!ہنسنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ عمران کا
مضحکہ اڑار ہا تھا۔
" تمہاری اطلاع کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ دلاور علی
ایک بہت ہی مشاق قسم کا بلاک میکر تھا !‘‘عمران نے کہا اور دفعتاً نواب ہاشم کا چہرہ
تاریک ہو گیا وہ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا!
’’کیپٹن فیاض‘‘عمران مسکرا کر بولا " یہ پندرہ سال پہلے
کی بات ہے!... دلاور علی نے وائسرائے کے ایک فرمان کا بلاک بنایا تھا جو جنگ کا پراپیگنڈہ
کرنے والے ایک سرکاری ماہنامے میں شائع ہوا تھا... اور ساتھ ہی اس ماہنامہ کے لئے کام
کرنے والوں کے فوٹو بھی شائع ہوئے تھے۔ تمہیں اس ماہنامے میں دلاور بلاک میکر کی تصویر
بھی مل جائیگی !نواب ہاشم کو اس کی تلاش تھی !لیکن وہ میرے ہاتھ لگ گئی۔"
نواب ہاشم نے ہاتھ پیر
ڈال دئے ! وہ خوفزدہ نظروں سے عمران کی طرف دیکھ رہا تھا اور ایسا معلوم ہور ہا تھا
جیسے وہ اب جو کچھ کہنا چاہتا ہو اس کے لئے اسے الفاظ نہ مل رہے ہوں!
’’ اور نواب ہاشم " عمران شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بول
! " پچھلی رات تم نے دلاور علی کے نام پر اندھا دھند فائر کیوں کئے تھے؟"
’’وہ بلا عمران تھی ‘‘عمران نے سنجیدگی سے کہا!’’ میں نے تمہارے
پائیں باغ میں درختوں پر مائکروفون کے چھوٹے چھوٹے ہارن فٹ کر رکھے تھے اور باغ کے
باہر سے بھوتوں کا پروگرام نشر کر رہا تھا۔"
15
اس واقعہ کے تقریبا! ایک ماہ بعد نواب ساجد اور دردانہ حویلی کے
پائیں باغ کی ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔
’’ میں آپ سے پھر کہتی ہوں کہ آپ نے مجھ سے شادی کر کے غلطی
کی ہے؟‘‘ دردانہ بولی۔
’’نہیں ڈیئر! میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایک عقل مندی کا
کام کیا ہے ! ‘‘ساجد نے مسکرا کر کہا!
’’آپ ایک دن سوچیں گے !سوچنا ہی پڑے گا... کاش میری بیوی بھی
نجیب الطرفین ہوتی !"
’’ میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم ایک شریف اور ایماندار باپ کی
بیٹی ہو! میرے نجیب الطرفین چچا کا حال تو تم نے دیکھ ہی لیا !وہ مجھے بھی ناکردہ گناہ
کی سزا میں پھانسی دلوانا چاہتا تھا۔ محض اپنی گردن بچانے کے لئے !تمہارے والد اس سے یقیناً بہتر تھے! "
’’وہ تو ٹھیک ہے !لیکن نہ جانے کیوں میرا دل نواب صاحب کے لئے
کڑھ رہا ہے۔"
’’ او ہو! " نواب ساجد نے قہقہہ لگایا۔ " تم بھی اپنے
باپ ہی کی طرح سے بہت زیادہ نیک معلوم ہوتی ہو...مگر چچا صاحب پھانسی سے کسی طرح نہیں
بچ سکتے !عمران نے انہیں چاروں طرف سے پھانس لیا ہے ...بھئی غضب کا آدمی ہےیہ عمران بھی ! ایسا الو بنا تا ہے باتوں ہی باتوں میں
کہ بس دیکھتے ہی رہ جائیے ! آخر وقت تک پتہ نہیں چلتا کہ نزلہ کس پر گرے گا!... آہا
....بچارے موڈی کو تو ہم بھول ہی گئے... میں ایک بات سوچ رہا ہوں ڈئیر! اب تمہارے مشورے
کی ضرورت ہے!‘‘
" کہئے کیا بات ہے!"
"موڈی کے روپے تو ہم واپس کر چکے ہیں! پھر کیوں نہ ہم اصلی
سنگاردان بھی اسے پریذنٹ کردیں ! دیکھو اس کی شرافت! اگر وہ ذرا بھی سخت ہو جاتا تو
تم جیل پہنچ جاتیں۔"
’’آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی ! میں بھی یہی سوچ رہی تھی !‘‘
’’ اچھا! تو کل ہم اسے مدعو کریں گے !‘‘
" عمران صاحب کو بھی بلائیے گا!"
نہیں... وہ تو اب مجھے پہچاننے سے ہی انکار کرتا ہے۔ کل کلب
میں بڑی شرمندگی ہوئی۔ میں بہت لہک کر اس سے ملا۔ لیکن اس نے نہایت خشک لہجے میں کہا۔
معاف کیجئے گا !میں نے آپ کو پہچانا نہیں ! ‘‘
در دانہ ہنسنے لگی۔۔۔۔
!
0 Comments