برسات کاتما شا-نظیر
اکبر آبادی
Barsat Ka Tamasha By
Nazeer Akbarabadi
اہل سخن کو ہےگااک
بات کا تما شا
اور عارفوں کی
خاطرہے،ذات کاتماشا
دُنیا کے صا حبوں
کودن رات کاتماشا
ہم عاشقوں کوہے گاسب
گھات کاتماشا
آیار،چل
کےدیکھیں برسات کاتماشا
ساون کے بادلوں نے
پھرآ،گھٹاجوچھائی
بجلی نےاپنی صورت
پھرآن کردکھائی
ہومست،رعدگرجا،کوئل
کی کوک آئی
بد لی نے کیا مزےکی
رِم جھِم جھڑی لگائی
آیار،چل
کےدیکھیں برسات کاتماشا
ہرگُل بدن کے تن میں
پوشاک ہےاکہری
پگڑی گُلابی
ہلکی،یاگُل انارگہری
صحنِ چمن میں
ہےجوبارہ دری سنہری
اُس میں سبھوں کی
آکرہےبزمِ عیش ٹھہری
آیار،چل
کےدیکھیں برسات کاتماشا
معشوق،عاشقوں میں
کیابزم بانمک ہے
شیشہ،گُلابی،ساقی،اورجام
اور گزک ہے
جھنکارتال کی ہے،اور
طبلےکی کھڑک ہے
گوری،ملارکےساتھ
آوازکی گمک ہے
آیار،چل
کےدیکھیں برسات کاتماشا
آکر کہیں مزےکی
ننّھی پھُواربرسے
چِیروں کارنگ ٹپکے،حُسن
اورنکھاربرسے
اک طَرف اُولتی کی
باہم قطاربرسے
چھاجوں اُمنڈکے پانی
،موسل کی دھاربر سے
آیار،چل
کےدیکھیں برسات کاتماشا
ہر کو ہ کی کمر تک سبزہ
ہے لہلہاتا
بر سےہے مِنہ
جَھڑاجَھڑ،پانی بہاہے جا تا
وحش وطیور،ہراک مل مل
کے ہے نہاتا
غو غاکر ہیں مینڈک،جھینگرہے
غل مچا تا
آیار،چل
کےدیکھیں برسات کاتماشا
کالی گٹھاہےہردم،برسے
ہیں مِنہ کی دھاریں
اور جس میں اُڑ رہی
ہیں بگلوں کی سو قطاریں
کوئل، پپیہے کو کیں،
اور کوک کر پکاریں
اور مور، مست ہو کر،
جوں کو کلا چنگاریں
آ یار، چل کے
دیکھیں برسات کا تماشا
کالی گھٹائیں آکر،
ہو مست تُل رہی ہیں
دستاریں سُرخ اُس میں
کیا خوب کھُل رہی ہیں
رُخساروں پر بہاریں
ہر اک کے ڈھل رہی ہیں
شبنم کی بوندیں جیسے
ہر گل پہ تُل رہی ہیں
آ یار، چل کے
دیکھیں برسات کا تماشا
ساون کی کالی راتیں،
اور برق کے اشارے
جگنو چمکتے پھرتے،
جوں آسماں پہ تارے
پلٹے گلے سے سوتے
معشوق ماہ پارے
گرتی ہے چھت کسی کی،
کوئی کھڑا پکارے
آ یار، چل کے
دیکھیں برسات کا تماشا
شہروں کے پیچ ہر جا،
عُمدوں کے جو مکاں ہیں
باراں کے دیکھنے کی
بام و اٹاریں ہیں
بیٹھے ہوئے بغل میں
معشوق دِل سِتاں ہیں
ہر رنگ، ہر طرح کے
مَے کی گلابیاں
ہیں
آ یار، چل کے
دیکھیں برسات کا تماشا
آگے دُکاں کے نالا
ہے موج مار چلتا
عالم طرح طرح کا آگے
سے ہے نکلتا
کوئی چھپکتا پانی،
اور کوئی ہے پھسلتا
ٹھٹھّا ہے اور مزہ
ہے، آبِ عنب ہے ڈھلتا
آ یار، چل کے
دیکھیں برسات کا تماشا
0 Comments