عورت فروش کا قاتل-ابنِ صفی
Aurat Farosh Ka
Quatal By Ibn-e-Safi
1
آج شام ہی سے سار جنٹ حمید نے کا فی ہڑ بو نگ مچار کھی تھی
لیکن یہ بات محض اتنی ہی تھی کہ آج اس نے نما ئش جا نے کا پر و گرام بنا یا تھا۔
کئی باراس نے مختلف رنگو ں کے سو ٹ نکالے اور ان پر قسم قسم کی ٹا ئیا ں رکھ کر
دیکھتا رہا ۔ انسپکڑا فر یدی اس کے بچپنے پر دل میں مسکرا ر ہا تھا لیکن اس نے دخل
دینا منا سب نہ سمجھا ۔ آج وہ بھی نمائش جانے کے لیے تیار ہو گیا ۔ جس کی سب سے
بڑی وجہ یہ تھی کہ آج کل وہ قطعی بے کا رتھا ۔ ورنہ اس جیسے مشغول آدمی کو کھیل
تماشوں کی فر صت کہا ں اور ویسے بھی اسے ان چیزوں سے دلچسپی نہ تھی ۔ فر صت کے
اوقات میں وہ زیادہ تر اپنے پالتو جانوروں سے دل بہلا یا کر تا تھا یا پھر حمید کے چٹکلو ں سے لطف اندوز ہوا کر تا
تھا ۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ حمید بھی اس کے عجائب
خانے کا ایک جا نو ر تھا۔ حیوان ظریف ۔
حمید اس کا ماتحت ضرورتھا لیکن ان
دونوں کے درمیا ن کسی قسم کا ر سمی تکلف بھی نہیں تھا اور یہی چیز ان کے دوسرے
ماتحتو ں کو بہت گراں گز رتی تھی ۔ اکثر دبی زبان سے اپنی خفگی کا اظہا ر بھی کر
دیاکر تے تھے لیکن فر یدی ہمیشہ ہنس کر ٹا ل دیتا تھا۔ بہتیر و ں نے اس با ت کی کو
شش بھی کی کہ سارجنٹ حمید کا کسی دوسری جگہ تبا دلہ کر ادیا جا ئے لیکن وہ اس میں
کا میا ب نہ ہو سکےکیوں کہ بڑے افسران کو بہر حال کو ئی کام فریدی کی مرظی کے خلاف
کرنے میں کچھ نہ کچھ تا مل ضرور ہوتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ حمید کا تبا دلہ کسی
دوسری جگہ نہ ہو سکا ۔ ورنہ سارجنٹو ں کے تبادلے تو آئے دن ہوا کرتے تھے۔
انسکپٹرفریدی ایک جو ہر شنا س آدمی
تھا۔ اس نے پہلے ہی دن حمیدکی صلا حیتو ں کا اندازہ لگا لیا تھا ۔ اور پھر دو تین
معا ملا ت میں اپنے ساتھ چانس دینے پر تو وہ اس کا گر ویدہ ہو گیا تھا۔رفتہ رفتہ
دونوں کے تعلقات بڑھتے گئے اور پھر ایک دن وہ آیا کہ حمیدا نسپکٹر فریدی کے ساتھ
رہنے لگا۔ اس وقت وہ اس کی کو ٹھی میں
بیٹھا اس کے نو کروں پر اس طرح رعب جمار ہا تھا جیسے وہ خوداسی کے نو کر ہوں۔
’’آپ کون سا سوٹ پہن رہےہیں؟‘‘ حمید
نے فریدی سے پو چھا ۔
’’کو ئی ساپہن لیا جا ئے گا۔ آخر
تمہیں آج کپڑو ں کا خبط کیو ں پیدا ہو گیا ہے؟‘‘فریدی نے کہا۔
’’کو ئی ایسی خا ص با ت تو نہیں۔
‘‘حمید نے ہنس کر کہا۔
’’نہیں تم نے ضرور کوئی نئی حما قت کی
ہے ۔‘‘ فریدی نے سر ہلا کر کہا۔ ’’ میں ما ن نہیں سکتا‘‘۔
’’بات دراصل یہ ہے کہ آج ۔‘‘َ…حمید رکتے ہو ئے بولا ۔ ’’ بات یہ ہے کہ نما ئش گاہ تو محض بہا نہ ہے۔ کیا آپ
کو نہیں معلوم کہ آج آرلکچنو میں خاص پر و گرام ہے ۔ سچ کہتا ہوں بڑا لطف رہے گا
۔‘‘
’’تو یہ کہئے۔‘‘ فریدی اسے گھورتا ہوا
بولا ۔ ’’ آپ ہی تشریف لے جا یئے ۔ میرے پاس ان لغو یات کے لیے وقت نہیں۔‘‘
’’خدا کی قسم مزاآجائے گا آج آپ بھی
نا چئے گا ۔ شہناز کے ساتھ اس کی سہیلی بھی ہو گی۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ فریدی طنز یہ انداز میں سر
ہلا کر بولا ۔’’ یہ شہناز کیا بلا ہے؟‘‘
’’ہی ہی ہی ۔ بات یہ ہے کہ…وہ میری دوست ہے …یعنی کہ با ت یہ ہے …ہی ہی ہی ۔‘‘
’’جی ہاں بات یہ ہے کہ آپ نے کو ئی
نیا عشق فر ما یا ہے۔ ‘‘
’’جی ہاں !جی ہاں ! ۔ آپ تو سمجھتے ہی
ہیں لیکن میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ اس با ر سو فیصد ی سچا عشق ہوا ہے۔ بس یہ سمجھ
لیجئے کہ میں اس کے بغر …‘‘
’’زندہ نہیں رہ سکتا ۔‘‘ فرید ی نے
طنز یہ انداز میں جملہ پورا کر تے ہوئےکہا اوراگر زندہ بھی رہ سکتا ہوں تو اس گھر
میں نہیں رہ سکتا اور اگر اس گھر میں رہ بھی گیا تو ۔ دن رات بھوں بھوں رونے کے
علا وہ کو ئی اور کام نہ ہو گا ۔‘‘
حمید کھسیا نی ہنسی ہنسنے لگا ۔‘‘ آپ چلئے تو ۔
اچھا آپ نہ نا چئےگا ۔‘‘اس نے کہا ۔
’’خیر ، چلا چلوں گا کیو ں کہ میں بھی تھوڑی سی تفر یح چا ہتا ہو
ں لیکن براہ کرم میر ا وہاں کسی سے تعارف
نہ کرنا ۔‘‘
’’ چلئے منظور ۔‘‘حمید نے مسکرا کر
کہا۔ اچھا ،’’اب جلدی سے اپنا سوٹ نکلوا لیجئے ۔ پہلے نمائش چلیں گے۔‘‘
’’تو کیا تمہیں نا چنا آتا ہے؟‘‘فریدی
نے کہا۔
’’کیو ں نہیں، میں فا کس ٹراٹ ناچ
سکتا ہو ں۔ والز ناچ سکتاہو اور…‘‘
’’بس بس ۔ ‘‘ فرید ی نے ہاتھ اٹھا کر
کہا۔’’ ابھی امتحان ہوا جاتا ہے۔ ‘‘ فریدی نے ریکا ر ڈوں کے ڈبے میں سے ایک ریکارڈ
نکال کر گرا مو فون پر چڑ ھا دیا۔ ایک انگریزی طرز کا نغمہ کمرے میں گو نجنے
لگا۔’’ اچھا بتاؤ کیا بج رہاہے ۔‘‘ فریدی نے حمید کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہو ئے
کہا۔
حمید بو کھلا گیا ۔ اپنی گھبراہٹ میں
چھپا تے ہو ئے بو لا ۔ ’’ ماڈرن فاکس ٹراٹ۔‘‘
فریدی نے قہقہہ لگا یا ۔’’ اسی بل
بوتے پر چنے چلے تھے جناب ۔‘‘
’’اچھا تو پھر آپ ہی بتا یئے کہ
کیا ہے ؟‘‘ حمید نے جھینپ مٹا تے ہو ئے
کہا۔
’’والز ۔‘‘
’’میں مان نہیں سکتا۔‘‘
’’اچھا اگر فا کس ٹراٹ ہے تو نا چ کر
دکھاؤ۔‘‘
’’کس کے ساتھ نا چوں؟‘‘
’’میرے ساتھ۔‘‘
’’آپ نا چنا کیا جانیں ؟‘‘
’’حضور، تشریف تولائیں۔ ‘‘ فریدی نے
با یاں ہا تھ حمید کی کمر میں ڈال دیا اور حمید کا بایاں ہاتھ اپنے کند ھے پر
رکھنے لگا۔ ’’ تو گو یا آپ مجھے عورت سمجھ رہےہیں۔ میں کند ھو ں پر ہاتھ نہیں
رکھوں گا۔‘‘ حمید نے جھینپ کرپیچھے ہٹتے ہو ئے کہا ۔ ’’گدھے ہو۔‘‘ فریدی نے اسے
اپنی طرف کھینچتے ہو ئے کہا۔’’ آؤں تمہیں ناچنا سکھا دوں۔‘‘ دونوں لپٹ کر ریکا رڈ
کے نغمے پر نا چنے لگے ۔ فریدی ہدایتیں دے رہا تھا’’پیچھے ہٹو ، دایاں پاؤ ں، با
یاں پاؤں پیچھے پیچھے ، آگے آؤ ۔ بایاں ……داہنا بر خوردار یہ
دالز ہے …ہاں ہاں…بایاں پا ؤں …فاکس ٹراٹ نہیں ہے۔‘‘ ریکا رڈختم ہو جا نے کے بعد دوسرا ر یکا رڈلگایا گیا۔ وہ
دونو ں پھر نا چنے لگے ۔ تھو ڑی دیر میں حمید پسینے تر ہو گیا۔’’ بس میرے شیر ،
اتنے ہی میں بو ل گئے۔‘‘ فریدی نے ہنس کر کہا۔
’’خداکی قسم ! آپ کا جواب نہیں ۔ ‘‘
حمید نے ہانپتے ہو ئے کہا۔‘‘ میں تو آپ کو انتہا ئی خشک آدمی سمجھاتھا۔ آپ نے یہ
سب کیسے سیکھ لیا؟‘‘
’’ایک سراغ رساں کو سب کچھ جا ننا
چاہئے۔‘‘
’’میں آپ کا شکر گزار ہو ں ۔ ورنہ آج
سخت شر مند گی اٹھا نی پڑ تی ۔‘‘ حمید نے کہا۔
’’شر مندگی کس بات کی۔ پحپرفیصدی لو گ عمو ماًغلط نا چتے ہیں ۔ تم تو
پھر بھی غنیمت ناچ رہے تھے۔‘‘
’’اچھا تو پھر آج آپ کو بھی نا چناپڑے
گا۔‘‘ حمید نے کہا۔
’’یہ غلط بات ہے۔ میں تمہارے ساتھ اسی
شرط پر چل سکتا ہو ں کہ مجھے نا چنے پر مجبو ر نہ کرنا۔‘‘
’’عجیب بات ہے۔ اچھا خیر میں آپ کو
مجبور نہ کروں گا۔‘‘
دونو ں کا فی دیر تک نمائش کے چکر لگا
تے رہے ۔ حمید کی یہ کیفیت تھی کہ وہ ہر حسین عورت کو قریب سے گزرتے دیکھ کر فریدی
کا ہاتھ دبا دینا ضروری سمجھتا تھا۔ اس وقت فریدی کی جھنجھلا ہٹ دیکھنے کے قابل ہو
تی جب وہ اس کی تو جہ کسی دوسری طرف سے ہٹا کر کسی عورت کو دکھانے کی کو شش کرتا
’’ حمید آخر تم اتنے گدھے کیوں ہو؟‘‘ فریدی نے چلتے چلتے رک کر کہا۔
’’اکثر میں بھی یہی سو چا کرتا ہوں
۔‘‘ حمید ہنس کر بو لا۔
’’دیکھو میں تمہیں سنجید گی سے سمجھا
تا ہو ں کہ اب تم اپنی شادی کر ڈالو۔‘‘
اگر کو ئی شادی شدہ آدمی مجھے اس قسم
کی نصیحت کر تا تو میں ضرور مان لیتا۔ ‘‘ حمید نے مسکرا کر کہا ۔
’’اگر یہ ممکن نہیں تو پھر میری ہی طر
ح عورتوں کے معا ملے میں پتھر ہو جاؤ۔‘‘
’’ آپ تو خوامخواہ بات پڑھا دیتے ہیں
۔‘‘ حمید نے برامان کر کہا ۔’’ کیا کسی اچھی چیز کی تعر یف کرنا بھی جرم ہے ؟‘‘
جرم تو نہیں لیکن ہمارے پیشے کے
اعتبار سے یہ ر حجا ن خطر ناک ضرورہے ۔‘‘
حمید
نے اس کا کو ئی جواب نہ دیا ۔ اس کے انداز سے معلوم ہو رہاتھا، جیسے وہ اس وقت اس قسم کی نصیحتیں
سننے کے لیےتیار نہیں ہے۔ تقر بیاً ایک گھنٹے تک نما ئش کا چکر لگا نے کے بعد وہ
لو گ آرلکچنو کی طرف روانہ ہو گئے۔آر
لکچنو کا شمار شہر کے بڑے ہو ٹلو ں میں ہو تا تھا۔ یہاں کا سارا کا روبار انگریزی
طرز پر چلتا تھا۔ یہاں ناچ بھی ہو تا تھا جس میں شہر کے اونچے طبقے کے لوگ حصہ لیا
کر تے تھے۔دونوں نےآر لکچنو پہنچ کرر ہال کے ٹکٹ خرید اور ہال میں داخل ہو گئے۔
سارا ہال برقی قمقموں سے جگمگا رہاتھا اور مو سیقی کی لہر یں فضا میں منتشر ہو رہی
تھیں۔پہلا راؤنڈ شروع ہو گیا تھا۔ بے شمار خوش پوش نو جوان جوڑے بغل گیر ہو کرہال
کے چو بی فرش پر تیررہے تھے ۔ حمید اور
فریدی پہلا راؤنڈ ختم ہو نے کا انتظار کر نے لگے۔ حمید کی بے چین نگا ہیں اس بھیڑ
میں شہناز کو تلاش کر رہی تھیں۔
’’ارے ، یہ شہناز کس کے ساتھ ناچ رہی
ہے؟‘‘ حمید نے ایک جو ڑے کی طرح ا شارہ کر
کے کہا ۔ فریدی ادھر دیکھنے لگا۔ ایک خو بصورت لڑکی ریشمی شلو اراور فرا ک میں
ملبو س ایک جامہ زیب نو جوان کے ساتھ ناچ رہی تھی ۔ فریدی اسے غور سے دیکھ رہاتھا۔
جب وہ دونوں ان کے قریب ہو کر گزرے تو شہناز نے مسکرا کر حمید کو کچھ اشارہ کیا ۔ حمید نے منہ پھیر لیا اور فریدی مسکرانے
لگا ۔
’’آخر ہو نا سودیشی ۔ ‘‘ فریدی نے طنز
یہ لہجے میں کہا۔’’ بر خو ردار۔‘‘ اگر ان لغو یات کا شوق ہے تو یہ سب بھی براداشت
کرنا پڑے گا ۔ وہ تمہاری بیوی تو نہیں کہ تم اس پر جھنجھلارہے ہو اور پھر یہ تو
مغربی تہذیب کا ایک اہم جزوہے۔ کوئی بھی عورت کسی مرد کے ساتھ ناچ سکتی ہے۔ حمید ،
اپنا نچلا ہو نٹ چبارہا تھا۔’’ نا را ضگی کی کوئی بات نہیں ۔ اگلے راؤنڈ میں تم بھی
ناچ لینا۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’نہیں ۔ میں اب نہیں ناچوں گا۔‘‘
’’ کیو ں؟‘‘
’’بس ! یو نہی دل نہیں چاہتا۔ آیئے
واپس چلیں‘‘ حمید نے بے دلی سے کہا۔
’’پھر آئے کیوں تھے ؟ عجیب آدمی ہو
۔‘‘
’’یہاں ٹھہر نے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘
’’بھئی میں توابھی نہیں جا سکتا۔ ‘‘
فریدی نے کہا اور سگارسلگاکر لمبے لمبے کش لینے لگا۔
’’خیر پھر مجبوری ہے۔‘‘ حمید آہستہ سے
بو لا۔
’’گھبراؤنہیں ۔‘‘ فریدی مسکرا کر
بولا ۔’’ مجھے تمہاری محبوبہ سے قطعی کوئی
الچسپی نہیں۔ میں تو اس آدمی میں دلچسپی لے رہا ہوں جو …کیا نام ہے اس کا …ہاں …شہناز کے ساتھ ناچ رہاہے۔‘‘
حمید فریدی کو حیرت سے دیکھنے لگا۔’’
کیا تم نے اسے پہلے بھی کبھی دیکھاہے ؟‘‘ فریدی نے حمید سے پو چھا۔
’’نہیں۔‘‘
’’اس کا نام رام سنگھ ہے اور یہ ایک
خطر ناک آدمی ہے خودکو کسی ریاست کا شہزادہ مشہو ر کئے ہوئے ہے لیکن دراصل ایک خطر
ناک مجرم ہے۔‘‘ فریدی نے سگارکا کش لے کر کہا۔
’’یہ سب آپ کیسے جانتے ہیں ؟‘‘ حمیدنے
پو چھا۔
’’عجیب احمقانہ سوال ہے۔ ارے میں ان
حضرات کو نہ جانوں گا تو پھر کون جا نے گا۔ میں عرصے سے اس کی تاک میں ہو ں۔ مجھے
شبہ ہے کہ آج کل یہ لڑ کیوں کا بیو پار کر رہا ہے ۔ ذرا یہ تو بتاؤ کہ شہناز کون ہے کیا کرتی ہے اور اس
کا تعلق کس خاندان سے ہے ؟‘‘
’’یہ تو مجھے پتا نہیں کہ کس خاندان سے تعلق رکھتی ہے لیکن
اتنا ضرورجا نتا ہوں کہ یہ ماڈرن گر لز کا
لج میں لیکچر ارہے ۔‘‘
’’تمہا ری ملا قات اس طرح ہو ئی؟‘‘
’’دو ماہ قبل جب میں دس دن کی چھٹیاں
گزار کر گھر سے واپس آرہا تھا تو یہ مجھے ٹر ین میں ملی تھی ہم دونوں کمپا ر ٹمنٹ
میں تنہا تھے، اس لیے ایک دوسرے سےشنا سائی حاصل کر نے میں وقت نہ ہو ئی۔ اس کے
بعد سے اکثر ہم دونوں ایک دوسرے سے یہاں ملتے رہتے ہیں۔‘‘
’’کیا وہ جانتی ہے کہ تمہا راتعلق
محکمہ سراغ رسانی سے ہے؟ ‘‘
’’ نہیں میرے بہت کم جاننے والے اس سے
واقف ہیں۔‘‘
’’یہ اچھی عادت ہے۔‘‘
دونوں خاموش ہو گئے۔ شہناز اور رام
سنگھ ایک دوسرے سے با تیں کرتے ہو ئے نا چ رہے تھے۔ شہناز ہنس ہنس کر اس سےکچھ کہہ
رہی تھی ۔ وہ طرح طرح کے مضحکہ خیز منہ بنا کر سن رہا تھا۔ پہلا راؤنڈ ختم ہو گیا
۔ کچھ لوگ سائڈ میں بیٹھ کر سستا نے لگے اور کچھ بار کی طرف چلے گئے۔ شہناز بار
بار مڑکر حمید کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے شاید خیال تھا کہ حمید اس کے پاسب آئے گا لیکن جب اس نے دیکھا
کہ حمید اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تو وہ خوداٹھ کران کی طرف بڑھی ۔‘‘ ہیلو حمید
صاحب آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں۔ آیئے چل کر بیٹھیں ۔ چلیےمیں آپ کو کنور صاحب سے
ملاؤں ۔ ان سےبھی اسی وقت ملا قات ہو ئی ہے ۔ بہت دلچسپ آدمی ہیں ۔‘‘شہناز نے
کہا۔
’’وہ شاید ہم لو گوں سے ملنا پسند نہ
کریں۔‘‘فریدی نے کہا۔
’’واہ!یہ کیسے ہو سکتاہے؟‘‘ شہناز نے
حمید کو مخا طب کر کے فریدی کی طرف دیکھتے ہو ئے کہا۔’’ آپ کی تعریف؟‘‘
’’ آپ ہیں میرے دوست احمد کمال…اور آپ ہیں مس شہناز ۔‘‘ حمید نے تعارف کرایا۔
’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘ فریدی نے
شہناز سے ہاتھ ملا تے ہو ئے مسکرا کر کہا۔
’’مجھے بھی ۔‘‘ شہناز نے اپنے خوب
صورت دانتوں کی، نما ئش کی ،اتنے میں دوسراراؤنڈ شروع ہو گیا۔
’’کیا میں آپ سے در خواست کر سکتا
ہوں۔‘‘ فریدی نے شہناز سے کہا۔
’’ اوہ بڑی خوش سے‘‘ شہناز نے دایاں
ہاتھ پھیلا تے ہو ئے کہا۔ فریدی نے دایاں ہاتھ پکڑ کر با یاں ہاتھ اس کی کمر میں
ڈال دیا اور ہلکے ہلکے ہلکورے لیتا ہوانا چنے والوں کی بھیڑ میں آگیا ۔ حمید کی
آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
رام
سنگھ اب کسی اور لڑکی کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ فریدی ایک مشاق ناچنے والے کی طرح اپنے
فن کا مظاہرہ کررہا تھا۔ غا لًبا وہ شہناز
کو بھی ہدایتیں دیتا جا رہا تھا۔ حمیدکا
چہرہ غصہ سے سرخ ہو رہا تھا۔ وہ کئی باراٹھا اور بیٹھا۔ پھر بار کی طرف چلا گیا۔
ایک بو تل لیمن پی اور رو مال سے منہ پو نچھتا ہو ا واپس آ گیا۔ فریدی اور شہناز
نا چتے ہو ئے اس کے پاس سے گزررہےتھے۔ فریدی نے شہناز سے نظریں بچا کر مسکراتے ہو ئے حمید کو آنکھ ماری اور
حمید کو ایسامعلوم ہوا جیسے اس کے کان میں کچھ کہا اور وہ حمید کی طرف دیکھ کر
ہنسنے لگی۔ حمید کا غصہ اور تیز ہو گیا اس نے ادھر اُدھر دیکھا۔ قریب ہی کی میز پر
ایک بوڑھی اور بدشکل اینگلو انڈین کے قریب آیا اور اس سے ناچنے کی درخواست کی تو وہ یہ سمجھ کر بھنائی کہ شاید حمید اس کا
مذاق اڑارہاہے لیکن پھر اس کی طرف قدر ے سنجید گی سے دیکھ کر ہچکچاتی ہو ئی کھڑی
ہو گئی ۔ حمید اس سے بغل گیر ہو کرنا چنے لگا۔ ہال میں بے شمار قہقہے گو نجنے لگے۔
فریدی اور شہناز تو اس بری طرح ہنس رہے تھے کہ انہیں قدم سنبھالنا دشوار ہو گیا
تھا۔ حمید اتنی سنجید گی سے ناچ رہا تھا
جیسے کو ئی بات ہی نہ ہو۔ البتہ بڑھیا بری طرح شرما رہی تھی۔ چند منٹ گزرنے
کے بعد دونوں اس طرح گھل مل کر باتیں کر رہے تھے جیسے بر سوں کے ساتھی ہوں۔
دوسراراؤنڈ ختم ہو گیا۔ فریدی ، حمید، شہناز اور اینگلوانڈین بڑھیا ایک میز کے گر
دآبیٹھے۔
’’کمال صاحب !واقعی آپ نے کمال ہی
کردیا۔‘‘شہناز بولی۔’’حمید صاحب میں آپ کی ممنون ہو ں کہ آپ نے مجھے ایسے با کمال
آدمی سے ملادیا۔ مجھے آپ سے رقص سیکھنے میں مدد ملے گی۔‘‘
’’ضرور، ضرور۔،، حمید نے ہنستے ہو ئے
کہا۔’’ابھی آپ نے دیکھا ہی کیا ہے یہ واقعی بڑےباکمال آدمی ہیں۔‘‘ فریدی نے میز کے
نیچے سے حمید کا پاؤں اپنے پاؤں سے دبادیا۔
’’آپ کا نام جاننا مانگتا؟‘‘ اینگلوا
نڈین بڑھیا حمید سے مخاطب ہوکر بولی۔
’’ہمارانام۔‘‘ حمید مسکراکربولا۔’’ہمارانام الوکا پٹھاہے؟‘‘
’’ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔‘‘ بڑھیا بے تحا شا
ہنستی ہو ئی بو لی۔
’’اچھا ، ہد ہد کا پٹھا سہی۔‘‘ حمید نے کہا۔
’’نہیں ٹھیک بو لو۔‘‘ حمید نے جھک کر
آہستہ سے اس کے کان میں کچھ کہا۔
’’تم پاگل ہے۔‘‘وہ کھسیانی ہنسی ہنستی
ہو ئی اور شرما کر سر جھکالیا۔
’’معلوم ہو تا ہے، کنور صاحب چلے
گئے۔‘‘ شہناز نے گردن اونچی کر کے اِدھر، ادھر دیکھتے ہو ئے کہا۔
’’یہ کنورصا حب رہتے کہاں ہیں ؟‘‘فریدی
نے پو چھا۔
’’پتا نہیں ۔مجھ سے تو یہیں اسی وقت
ملاقات ہوئی تھی ، ویسے ہیں دلچسپ
آدمی۔‘‘
’’صورت سے تو نراڈیوٹ جان پڑتا ہے ۔‘‘
حمید نے منہ بنا کر کہا۔
’’نہیں واقعی بہت زندہ دل آدمی
ہے۔‘‘شہناز بولی۔
شہناز کادو پٹہ بار بار شانوں سے ڈھلک
رہا تھا۔ وہ ایک قبول صورت لڑ کی تھی۔ عمر
بائیس، تئیس سال سے زیادہ نہ رہی ہو گی۔ اس کے چہرے میں سب سے زیادہ حسین چیزا س
کے ہو نٹ تھے ۔ اوپری ہونٹ نچلے کی منا سبت سے کافی پتلا تھا۔ نچلے ہونٹ کے درمیان
کا دل آویز خم اس کی جنسی شدت پسند ی کی غمازی کر رہا تھا۔ ہنستے وقت گالوں میں
خفیف سے گڑھے پڑجا تے تھے۔
حمید اس وقت اسے عجیب نظروں سے
گھوررہاتھا۔ ایسی نظریں جن میں شکایت ، غصہ اور ناپسند ید گی کی جلکیاں دکھائی دے
رہی تھیں۔
’’حمید صاحب ! آپ اس قدر خا موش کیوں
ہیں؟‘‘
’’میں دراصل اس لیے خاموش ہوں۔‘‘ حمید
نے مسکرا کر کہا۔’’کہ خاموش رہنے سے کھانا جلد ہضم ہو جا تا ہے۔‘‘
’’آپانہیں کھانا ہضم کرنے دیجئے۔‘‘
فریدی نے شہناز کا ہاتھ پکڑ تے ہوئے کہا۔’’آیئے ایک راؤنڈ اور ہو جائے ۔ ‘‘ تیسرے
راؤنڈ کے لیےموسیقی شروع ہو گئی تھی۔ فریدی اور شہناز بھی ناچنے والوں کی بھیڑ
میں آگئے۔ حمید نے پھر اسی بڑھیا کے ساتھ نا چنا شروع کر دیا۔
’’آپ واقعی بہت اچھانا چتے ہیں۔ ‘‘
شہناز نے آہستہ سے کہا۔
’’اورآپ…آپ کسی سے کم ہیں ؟‘‘
فریدی نےکہا۔
’’آپ کرتے کیا ہیں؟‘‘
’’بہت کچھ کرتا ہوں اور کچھ بھی نہیں
کرتاہوں۔‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’مٹر گشتی۔‘‘ فریدی نے کہا…اور پھر اچانک چونک کر بوالا’’ یہ کیا؟‘‘
’’کیابات ہے؟‘‘ شہناز نے اپنی بوجھل
پلکیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند ہو تی جا رہی تھیں ور ان میں سرخ
سرخ ڈورے نظر آنے لگے تھے۔
’’ایسا معلوم ہوا تھا جیسے کسی نے
ریوالور چلا یا ہو ۔‘‘ فریدی نے ایک طرف دیکھنے ہو ئے کہا۔
’’ریوالور؟یہاں ریوالور کا کیا کام ؟
میں نے تو نہیں سنا۔‘‘
’’ساز
بہت اونچے سروں میں بج رہے ہیں۔‘‘ شہناز نے اپنا سارا بوجھ فریدی کے کند ھو پر ڈال
دیا۔وہ ایک نشے میں ڈوبی ہوئی نا گن کی طرح لہر یں لے رہی تھی ۔ تیسرا راؤنڈ ختم
ہو نے میں ابھی کافی دیر تھی لیکن اچا نک آر کسڑارک گیا۔ ناچنےوالے حیرت سے ایک
دوسرے کامنہ دیکھنے لگے۔ ہوٹل کا منیجر او پر گیلری میں کھڑاچیخ چیخ کر کہہ رہا
تھا۔
’’خواتین وحضرات !مجھے افسوس ہے کہ آج
کا پرو گرام اس آگے نہ بڑھ سکےگا۔‘‘
’’کیوں
، کس لیے؟ بہت سی غصیلی آوازیں بیک وقت سنائی دیں۔‘‘
’’یہاں، ایک آدمی نے ابھی ،بھی خودکشی
کر لی ہے۔‘‘ ہال میں سنا ٹا چھا گیا۔ پھر بیک وقت مختلف قسم کی آوازوں کے ملنے سے
ایک عجیب قسم کی بھنبھنا ہٹ سی گو نجنے لگی۔ لوگ ایک ایک کر کے جانے لگے۔
حتیٰ کہ تھو ڑی دیر بعد پور ے ہال میں صرف
آٹھ ، دس آدمی رہ گئے، ان میں حمید ، فریدی اور شہناز کے علاوہ ہو ٹل کے ملاز مین
شامل تھے۔
’’بد تمیزی ضرورہے۔‘‘ فریدی بولا۔’’
لیکن شاید آپ کو تنہا واپس جانا پڑے ۔ مجھے منیجرسے کچھ ضروری کام ہے ۔ اس لیے
مجھے اس کا انتضار کرنا پڑے گا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں ۔ ‘‘ شہناز بولی۔’’
بھلااس میں بد تمیزی کی کیا بات ہے۔ اچھا پھر کب مل رہےہیں آپ …… یہ
رہا میرا کاڈ ۔‘‘ فریدی نے اس سے کار ڈلے
لیا جس پر پتہ لکھا ہوا تھا۔ شہناز چلی گئی۔
’’ واہ استاد ۔ آپ نے کمال کر دیا۔
حمید شکا یتی لہجے میں بولا۔ اگر اسی طرح اپنا ارادہ تبد یل کرنا تھا تو کسی اور
پر نظر عنایت کی ہوتی۔‘‘
’’عشق پر زورنہیں ہے یہ وہ آتش غالب ۔
‘‘ فریدی نے گنگنا کر کہا۔
’’خدا خیر کرے۔‘‘
’’چھوڑو آؤدیکھیں کیا معامکہ ہے۔‘‘
فریدی نے دروازے کی طرف پڑھتے ہو ئے کہا۔ بر آمد ے میں کافی بھیڑ تھی
کمرہ نمبر تین کے دروازے پر دو کا نسٹبل کھڑے ہو
ئے تھے ۔ فریدی اور حمید کو دیکھ کر دونوں سلام کر تے ہو ئے ایک طرف ہٹ گئے۔
********
حمید اور فریدی کی
نظر جیسے ہی لاش پر پڑی وہ چونک گئے۔ کمر ے کا منظر حدرجہ متا ثر کن تھا۔ایک آرام کر سی پر لاش اس طرح پڑی تھی
جیسے مققول بیٹھے بیٹھے ٹیک لگا کر کچھ دیر کےلیے اونگھ گیاہو ، اس کا دایاں ہاتھ
جس میں پستول دبا ہوا تھا، اس کی گودمیں پڑا تھا۔ بایاں ہاتھ نیچے لٹک کر زمین پر
لٹکا ہوا تھا۔ گر دن ئیں طرف لڑھک گئی تھی ۔ فریدی اور حمید نے ایک دوسرے کو معنی
خیز نظر وں سے دیکھا۔
’’یہ تو وہی کنور ہے جو شہناز کے ساتھ ناچ رہا
تھا۔‘‘ حمید نے آہستہ سے فریدی کے کان میں
کہا ۔ فریدی نے اس کا ہاتھ دبا دیا۔ حمید خاموش ہو گیا ۔ کمرے میں دوانسپکڑ اور
ایک ہیڈ کا نسٹبل ہو ٹل کے منیجر کا
بیان لے رہے تھے۔ وہ تینو ں اس طرح مشغول
تھے کہ انہیں فریدی اور حمید کے آنے کی اطلاع نہ ہو ئی ۔ ہو ٹل کا منیجر کہہ رہا تھا۔
’’کنور صا حب تقریباً دو ماہ سے اس
ہوٹل میں ٹھہر ے ہوئے تھے۔ میں ان کے متعلق صرف اتناہی بتا سکتا ہوں کہ ان کے حباب انہیں کنورصاحب کہہ
کر تے تھے اور بھلا میں یہ کیو ں کر بتا سکتا ہو ں کہ انہوں نے خودکشی کیو ں کی؟ لو گوں کا بیان ہے کہ وہ
اس قت رقص میں بھی شامل تھے ۔ دوسرے راؤنڈ تک انہیں وہاں دیکھا گیا ہے اور
پھر یہ یہاں اپنے کمرے میں چلے آئے تھے ۔‘‘
’’ کیا یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کس
کے ساتھ ناچ رہے تھے؟‘‘ ایک سب انسپکڑنے پو چھا۔
’’یہ شاید سوائے میرے اور کوئی نہ بتا
سکے۔ ‘‘ فریدی اچانک بول پڑا۔
سب لوگ بیک وقت پیچھے مڑ کر دیکھنے
لگے۔ دونوں انسپکٹرگھبراکر کھڑے ہو گئے۔
’’آپ؟ یہ تو بڑااچھا ہوا انسپکڑا
صاحب کہ آپ یہاں مو جود ہیں۔ ‘‘ایک سب
انسپکٹرنے فریدی کی طرف بڑھتے ہو ئے کہا۔ یہ ایک نو جوان آدمی تھا جو شاید حال ہی
میں ٹر یننگ لے کر آیا تھا ۔ اس کے دوسرے ساتھی سب ا نسپکٹرنے جو کا فی معمر تھا،
براسامنہ بنا یا لیکن جلد ہی اپنے اوپر
قابو پانے میں کامیاب ہو گیا۔
’’ آئیے آیئے ۔ اب ہمیں زیا دہ پر یشان نہ ہو نا
پڑےگا۔‘‘ دوسرا سب انسپکٹربولا۔
’’
نہیں صا حب میں محض تما شا ئی کی حیثیت
رکھتا ہوں۔‘‘ فریدی نے کہا۔’’ جب تک کوئی کام سر کاری طور پر مجھے نہ سو نپا جائے،
میں اس کو ہاتھ نہیں لگا تا اور پھر خود
آپ کسی سے کم ہیں۔‘‘
’’ارے صاحب ! ہم کیا اور ہماری بساط
کیا؟‘‘ بوڑھاسب انسپکٹر بولا۔
’’خیر یہ تو آپ کا انکسارہے۔ کہئے
خودکشی کی وجہ بھی معلوم ہوئی یا نہیں۔
‘‘فریدی نے کہا۔
’’ ابھی تک تو کچھ بھی نہیں معلوم ہو سکا
۔"نو جوان سب انسپکٹر بولا۔
’’اس کے متلق بھی کچھ معلوم ہوا ہے کہ
یہ ہے کون ؟‘‘
’’کسی ریا ست کے کنوار ہیں۔‘‘
کس ریاست کے ہیں؟‘‘ سب انسپکٹروں نے ہو ٹل کے
منیجر کی طرف دیکھا۔
’’ یہ تو میں بھی نہیں بتا سکتا۔ ‘‘
ہو ٹل کے مینجر نے کہا۔
فریدی مسکرانے لگا۔’’ بڑی عجیب بات ہے
کہ جو شخص سو سا ئٹی میں اس قدرمقبول ہوا س کےمتعلق لوگ اتنا بھی نہ جان سکیں ۔‘‘
فریدی نےکہا۔
’’یہی تو سو چنے کی بات ہے ۔‘‘ نو
جوان سب انسپکٹربولا۔
’’تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہ شخص
خواہ مخواہ لو گوں کو دھو کا دے رہا تھا ۔ ‘‘ فریدی نے سنجید گی سے کہا۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ‘‘ بو ڑھا سب انسپکٹربولا۔
’’با لکل اسی طرح جیسے آپ اپنے کو سپر
نٹنڈنٹ پولیس ظاہر کریں اور یہ بتا نے سے احتراز کریں کہ آپ کس شہر میں متعین
ہیں۔‘‘ فریدی نے سگار سلگا تے ہو ئے کہا۔
’’ بالکل ٹھیک کہتے ہیں آپ۔‘‘ نو جوان
سب انسپکٹر بے اختیار بول اٹھا۔
’’خیر ہو گا ۔‘‘ بوڑھے سب انسپکٹرنے
کہا’’ اس سے کیا بحث ہمیں تو اس کی خودکشی کی وجہ
دریا فت کرنی ہے ۔‘‘
’’ہاں تو غالباً ابھی آپ نے یہ فر مایا تھا کہ
آپ اس عورت سے واقف ہیں جس کے ساتھ یہ ناچ رہا تھا۔‘‘
’’میں بانتا تو ہوں مگر شایدوہ اس
واقعے پر کوئی روشنی نہ ڈال سکے کیوں کہ نہ تو یہ کنورہے اور نہ یہ کیس خودکشی کا ہے۔‘‘ فریدی نے کہا۔ بوڑھا سب انسپکٹر ہنسنے لگا۔
’’تو گو یا آپ میرے پچیس سالہ تجر بے
کو جھٹلا رہے ہیں۔‘‘ سب انسپکڑ نے ہنس کر کہا۔
’’جی ہاں !یہ بات میں اپنے صرف چھ
سالہ تجر بے کی بنا پر کہہ رہاہوں۔’’فریدی نے کہا۔ اگر آپ یقین نہ ہو تو یہ
دیکھئے۔‘‘ فریدی نے مر نے والے کی
گھنٹی مو نچھیں اکھا ڑ لیں ۔ کہیں کہیں ایک آدھ بال چپکے رہ گئے۔ ’’ کہئے
دارو غہ جی اسے پہنچا نتے ہیں آپ ؟‘‘ فریدی نے مسکرا کر کہا دونوں سب انسپکٹراحیرت
سے منہ پھا ڑے فریدی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
دونوں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔’’ تو
آپ نہیں جا نتے۔
’’کیا آپ نے مشہور بد معا ش رام سنگھ
کی تصویر نہیں دیکھی جوا بھی حال ہی میں آئی ہے ؟‘‘ فریدی نے کہا۔ بو ڑھے سب انسپکٹرنے
مندہ ہو کر سر جھکا لیا۔
’’اب یہ بتا یئے کہ اسے قتل کس طرح
کیا جا سکتا ہے؟ جب کہ اس کے ہاتھ میں پستو ل دبا ہوا ہے ۔‘‘ نو جوان سب انسپکٹربولا۔
’’اس کی بہت سی وجو ہا ت ہیں ۔ ‘‘
فریدی لاش پر جھکتے ہو ئے بو لا۔’’ ایک تو یہی کہ اگر اس نے خودکشی کی ہو تی تو اس
کی لاش اتنے اسلیقے سے آرام کرسی پر نہ
ررکھی ہو تی اور نہ پستول والا ہاتھ اتنے اطمینان سے اس کی گود میں ہو تا ۔
دوسری وجہ یہ کہ پستول اس کے داہنے ہاتھ میں ہے اور گولی کا زخم بائیں کنپٹی پر۔یہ
وہی گھما کرنا ک پکڑ نے والی شکل ہو ئی ۔اگر آپ کے دائیں ہاتھ میں پستول ہے تو آپ
خود کشی کر نے کے لیے داہنی کنپٹی کو نشا نہ
بنا ئیں گے ۔ کیو ں کہ یہی سید ھا پڑتا ہے۔ اب تیسری وجہ سنئے۔ ذرااور قریب آجائیے ۔ اب اس
زخم کو دیکھئے ۔ اگر یہ کیس خودکشی کا ہو تا تو زخم کے ارد گرد دکا حصہ بارود کے
دھو ئیں سے سیاہ ہو گیا ہو تا لیکن یہاں اس قسم کی کو ئی چیز نہیں ۔ اس سے صاف
ظاہر ہو تا ہے کہ گو لی کافی فاصلے سے چلا ئی گئی ۔ رہی چو تھی وجہ تو وہ بالکل
صاف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت زیادہ طاقت والا پستول ہے۔ اگر اس کی نالی کنپٹی پر رکھ کر پستول چلائی گئی
ہو تی تو وہ سر کے اندر ہی نہ رہ جاتی بلکہ دوسری طرف کی ہڈی بھی تو ڑ کر با ہر
نکل جا تی۔ اگر یہ چیز قانون کے خلا ف نہ ہو تی تو میں ابھی آپ کو اس کا تجر بہ
کرا دیتا۔‘‘
’’ وہ کس طرح ۔‘‘ بو ڑھے سب انسپکٹر نے
کہا۔
’’ اس کی کنپٹی پر دوسرافائر کر کے۔‘‘
فریدی بو لا۔ بو ڑھا سب انسپکڑاخا موش ہو گیا۔
’واقعی انسپکٹر صاحب ، جیسا آپ کا نام
سنا تھا ۔ آپ کو ویسا ہی پایا ۔ سچ کہتا
ہوں اس طرف ہم لو گوں کا دھیان ہی نہیں گیا۔‘‘ نو جوان سب انسپکٹربولا۔
’’ ایسا تو نہیں ہے ۔ میں بھی اس پر
غورہی کر رہا تھا۔‘‘ بوڑھے سب انسپکٹرنے کہا۔
حمید اب تک بالکل خاموش تھا۔ یہ سن کر
اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکا۔’’ آپ سچ کہتے ہیں داروغہ جی۔‘‘ حمید مسکرا کر بو لا۔
’’
کل تک آپ قاتل کو بھی گر فتار کر لیں گے۔‘‘
’’جی ہاں! کر کے دکھا دوں گا ۔‘‘
بوڑھا سب انسپکٹر جو ش میں آ کر بو لا۔
’’حمید، یہ کیا بکواس ہے ‘‘ فریدی نے
اسے گھو ر کر کہا۔
’’داروغہ جی، آپ کچھ خیال نہ کیجئے گا
۔ یہ یو نہی بے موقع ، بے تکی بو لتا رہتا ہے ۔‘‘
کوئی بات نہیں ۔‘‘ بو ڑھا سب انسپکٹربولا۔’’
میں ان کی کافی تعریف سن چکا ہوں ۔‘‘
’’ اور اس وقت آپ مجھ سے مل کر خوش
بھی ہو ئے ہوں گے۔‘‘ حمید نے بے ساختہ کہا۔
بوڑھے سب انسپکٹر نے پھر برا سامنہ
بنا یا۔
’’اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ قاتل
نے حملہ کس طرف سے کیا؟‘‘ نو جوان سب انسپکٹربولا۔
’’
اس روشن دان سے۔‘‘ فریدی نے بائیں جانب کی دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’
یہ غسل خانہ ہے۔‘‘ ہوٹل کا منیجر بولا۔
’’
ٹھہر یے۔ یہ معاملہ بھی صاف ہواجاتاہے۔‘‘ فریدی نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر
اندر گھستے ہوئے کہا۔
تھوڑی
دیرکے بعد وہ مسکرا تا ہوا غسل خانے سے نکل آیا ۔’’ رام سنگھ ناچ سے تھک کر لو ٹا۔
‘‘ فریدی نے کہنا شروع کیا۔ ’’ غالباً قاتل پہلے ہی سے تیارتھا۔ اسے اس طرف آتے
دیکھ کر چپکے سے غسل خانے میں گھس گیا ۔ رام سنگھ اس آرام کرسی پر آ کر لیٹ گیا ۔
قاتل نے نہا یت اطمینان سے روشندان سے اس کی بائیں کنپٹی کا نشانہ لیا اور گولی
چلا دی ۔ آر کسٹرا کی پر شور آواز میں گولی کی آواز کی طرف کسی نے دھیان بھی نہ
دیا لیکن میں نے گولی کی آواز سنی تھی۔ گولی لگتے ہی مققو ل اچھا کر ادھر آ گرا ۔
یہ دیکھئے یہاں خون کا دھبہ ہے جو دوسرے بڑے دھبے سے بالکل علیحدہ ہے۔ قاتل اس وقت
غسل خا نے کے اندررہاہو گا۔ جب تک رام سنگھ ختم نہ ہو گا ۔ مگر نہیں اس نے ایسانہ
کیا ہو گا کیو ں کہ اسے یہ پستول بھی تو اس کے ہاتھ میں دینا ہو گا اور یہ کام لاش
کے ٹھنڈے ہونے پر جب کہ جسم کاڑ جاتا ہے نہیں ہو سکتا۔ اس میں کچھ جان باقی رہی
ہوگی تب ہی اس نے اس کو اٹھا کر پھر کر سی پر ڈال دیاہو گا اور پستول اس کے ہاتھ میں دے کر اس وقت تک
اپنے ہا تھوں میں دبائے رہاہو گا جب تک کہ لاش بالکل سر دنہ ہو گئی ہو گی۔‘‘
’’یہ سب آپ کس بنا پر کہہ رہے ہیں ۔‘‘ بوڑھا سب انسپکٹربولا۔
’’ میرے ساتھ آئیے میں بتا ؤ ں ۔ آپ
بھی آ ئیے ۔ ‘‘ فریدی نے نو جوان سب انسپکٹرکو بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تینوں غسل خانے میں چلے گئے۔ ان
کے پیچھے حمید بھی تھا۔
’’ بھلا بتا یئے تو اس کرسی کی یہاں
کیا تک ہے اور اس پر پیروں کے نشانات کیسے ہیں؟ خودرام سنگھ یا ہو ٹل کا ملا زم
اتنا بد تمیزی نہیں ہو سکتا کہ مخمل کے گدے کی کرسی پر کیچڑ سے بھرے ہوئے جو تے
سمیت کھڑا ہو کر اس کے نفیس گدے کو خراب کردے۔ اب ذراِسی پر کھڑے ہو کر اس روشن دا
ن کو سو نگھئے ۔ آیئے آیئے ، اوپر چڑھ آ یئے ۔ ہاں ذراناک لگایئے اس روشن دان سے۔
کہئے، بارود کی بد بو آرہی ہے یا نہیں اور یہ دیکھئے ۔ دھو ئیں کانشان سا ‘‘ فریدی
خاموش ہو گیا۔
بوڑھے سب انسپکڑ کے منہ پر ہوائیاں
اڑرہی تھیں ۔ نو جوان سب انسپکٹر فریدی کو
تحسین آ میز نگا ہوں سے دیکھ رہا تھا۔ ’’ آؤ بھئ حمیداب چلیں ۔‘‘ فریدی نے حمید
کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا پھر بوڑھے سب انسپکٹر کی طرف مخاطب ہو کر بو لا’’
داروغہ جی معاف کیجئے گا۔ میں نے خواہ مخواہ آپ کا وقت بر باد کیا۔‘‘
’’ارے واہ صاحب ۔‘‘ نو جوان سب انسپکٹر نے کہا’’
اگر آپ نہ ہو تے تو ہم لوگ نہ جانے کہاں بھٹکتے پھر تے ہمیں تو آپ کا شکر گزار ہو
نا چا ہئے۔‘‘
بوڑھا سب انسپکٹر بھی جھینپی ہو ئی
ہنسی کے ساتھ اس کی ہال میں ہال ملا نے لگا۔ فریدی چلتے چلتے رک گیا۔ وہ پھر لوٹ
کر لاش کے قریب آیا۔ تھوڑی دیر تک مققول کےاس ہاتھ کا جائزہ لیتا رہا۔ جس میں
پستول دبا ہوا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ سیٹی
بجا
نے لگا۔ اب وہ جھک کر کر سی کے نیچےدیکھ رہا تھا ۔ اس نے لاش کے نیچے دبا ہواایک
سفیدریشمی رو مال کھینچ لیا اور اسے بغور
دیکھنے لگا۔ دفعتہً اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہو ئی ۔’’یہ لیجئے یہاں ایک عورت
بھی تھی۔‘‘
’’ جی !‘‘بو ڑھے سب انسپکڑ نے چونک کر
کہا۔
’’ جی ہاں!یہ کسی عورت کا رومال ہے
۔‘‘ فریدی نےکہا۔
’’ یہ آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں ؟ ‘‘ نو
جوان سب انسپکڑ بولا۔
’’نہا یت آسانی سے یہ دھبے دیکھ رہے
ہیں آپ ۔‘‘ فریدی نے رومال پر پڑے ہو ئے سرخ رنگ کے دھبے دکھاتے
ہو
ئے کہا۔’’یہ ہونٹوں میں لگا نے والی سرخی کے دھبے ہیں اور بالکل تازہ ہیں۔‘‘
’’کمال کر دیا آپ نے ۔‘‘ نو جوان سب انسپکڑ نے فریدی کو
حیرت سے دیکھنے ہوئے کہا۔
’’ تو پھر اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہی
عورت قاتل بھی ہے۔‘‘ بوڑھا سب انسپکٹر
بولا۔
’’ جی نہیں ! کیا آپ نے کرسی کے گدے پر پڑے ہو
ئے جو توں کے نشا نات کا بغورجائزہ لیا۔ اگر کسی عورت کے اتنے بڑے پیر ہو سکتے ہیں تو آپ ہی کا کہنا سچ ہو گا۔‘‘
’’ تو پھر وہ قتل کی سازش میں شریک رہی ہو گی ۔‘‘ بوڑھا سب انسپکٹرا پنے
خشک ہو نٹوں پر زبان پھیر تے ہو ئے بولا ۔ ’’ اس کے متعلق ابھی کچھ نہیں کہہ
سکتا ۔ ‘‘ فریدی نے بجھا ہوا سگار سلگا تے ہوئے کہا۔
2
دوسرے روز صبح حمید
اور فریدی ناشتہ کرنے کے بعد ڈرائنگ روم میں بیٹھے رات والے حادثے کے متعلق گفتگو
کر رہے تھے کہ ملازم نےایک ملاقاتی کا کا رڈلا کر میز رکھ دیا۔ حمید نے کا رڈاٹھا
کر پڑ ھا ’’ مس شہناز بیگم!‘‘
’’ ارے ! یہ یہاں کیسے پہنچ گئی۔‘‘
فریدی نے حمید کی طرف دیکھنے ہوئے کہا۔’’ ضرورتم
نے اسے بتا دیا ہو گا۔ آخر خواہ مخو اہ مجھ سے جھو ٹ مو لنے کی کیاضرورت
تھی ؟‘‘
’’ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ
میں نے اپنے یا آپ کے متعلق اسے کبھی یہ نہیں بتایا کہ ہم محکمہ سراغ رسانی سے تعلق رکھتے ہیں ۔‘‘
’’ بھیج دو۔‘‘ فریدی نے ملا زم سے کہا
۔ ملا زم چلا گیا۔ دوسرے ہی لمحے شہناز کمرے کے اندر تھی ۔ فریدی اور حمید کو دیکھ
کر وہ چونک پڑی ۔
’’ارے آپ لوگ یہاں۔‘‘ اس نے حیرت سے
کہا ۔ فریدی اور حمید مسکراتے ہوئے کھڑے ہو گئے ۔’’ معلو م ہوتا ہے کہ آپ لو گ بھی
میری ہی طرح پر یشان کیے گئےہیں۔ ‘‘ شہناز ایک کرسی پر بیٹھتی ہو ئی بو لی ۔’’ یہ
بہت اچھا ہوا کہ آپ لوگ بھی یہاں مو جود ہیں ۔ اب میں اپنی بے گنا ہی کا ثبوت
فریدی صاحب کو دے سکوں گی۔‘‘
’’آخیرکیا بات ہے ؟‘‘ حمید
بو لا ۔
’’ پولیس والو ں نے تنگ کر رکھا ہے ۔
وہ میں کل کنور صاحب کے ساتھ ناچ رہی تھی
نا۔ بس اسی لیے وہ لوگ مجھ پر شبہہ کر رہے ہیں ۔ کل رات سے اسی پر یشانی میں مبتلا
ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں ۔ ’’ میرے ایک دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ میں فریدی صاحب سے مدد لوں ۔‘‘
’’ لیکن فریدی اس سلسلے میں آپ کی کیا
مدد کر سکے گا۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ میں نے سنا ہے کہ وہ بے گنا ہوں کی
مددضرورکے کرتے ہیں اور پھر خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ آپ لو گ بھی میرے ساتھ ہی تھے۔ میں اپنی
بے گنا ہی اچھی طرح ثابت کر سکوں گی۔‘‘ شہناز بولی ۔’’ آپ کی گفتگو کے انداز سے
معلوم ہو تا ہے کہ آپ فریدی صاحب سے کافی بے تکلف ہیں۔‘‘
’’ کیا کہنے ہیں آپ کی بے تکلیفی
کے۔‘‘ حمید ہنس کر بو لا۔’’ بس یہ سمجھئے کہ فریدی کی بیوی ان کی بیوی ہے ۔‘‘
’’ بیو ی ! ‘‘ شہناز چونک کر بو لی
۔’’ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے شادی ہی نہیں کی ۔ میرے جس دوست نے ان کا پتابتا یا
تھا۔ اسی سے ان کی بہتیری عجیب و غریب عادتو ں کے متعلق بھی معلو م ہواتھا۔‘‘
فریدی مسکرا نے لگا ۔
’’عجیب وغریب عادتوں سے آپ کا کیا
مطلب ہے ؟ ‘‘ حمید بو لا ۔
’’یہی کہ وہ عام آدمیوں سے بالکل الگ
تھلگ ہیں ۔‘‘ شہناز نے کہا ۔
’’ غا لباً اس آپ کایہ مطلب معلوم ہو
تا ہے کہ فریدی صا حب کے سر پر دوسینگ ہیں ، ایک سونڈ ہے اور کان سرے سے ہی نہیں
۔‘‘ حمید ہنس کر بو لا۔
’’ تعجب ہے کہ آپ انہی کے گھر میں
بیٹھ کر اس طرح ان کا مضحکہ اڑارہے ہیں۔‘‘ شہناز ترش روئی سے بو لی اورفریدی
مسکرانے لگا۔
’’آپ فریدی سے کیا کہنا چاہتی ہیں ؟‘‘
فریدی نے کہا۔
’’آخر آپ کیوں پو چھ رہے ہیں ۔؟‘‘
شہناز براسامنہ بنا کر بو لی ۔’’ میں نے تو آپ سے ہر گز یہ نہیں پو چھا کہ آپ لو گ
یہاں کیا کرنے آئے ہیں ۔‘‘حمید نے پھر قہقہہ لگا یا ۔’’ میں لو گوں کو اتنا
بداخلاق نہیں سمجھتی تھی۔‘‘ شہناز بھرائی ہو ئی آواز میں بولی۔’’ آپ لوگ نہیں سمجھ
سکتے کہ میں کس قدر پریشان ہوں۔‘‘
’’آپ خواہ مخواہ پر یشان ہیں میں اس
بات کی گواہی دوں گا کہ حدثے کے وقت آپ میرے ساتھ تھیں۔‘‘ فریدی ’’ آپ کی گواہی کی
کیا وقعت ہو سکتی ہے ؟ یوں تو دو چار جھوٹے گواہ بھی بنا ئے جا سکتے ہیں ۔‘‘ شہناز
نے بے بسی سے کہا۔ حمید پھر ہنسنے لگا ۔ فریدی نے اسے گھورن کر دیکھا۔
’’ اچھا چھو ڑدیے اس باتوں کو کچھ
چائے وغیرہ پیجئے۔‘‘ فریدی نے کہا۔ اور نو کو بلا کر چا ئے لانے کے لیے کہا ۔
’’ کیا فریدی صاحب آپ کے کو ئی عزیز
ہیں ۔‘‘ شہناز متعجب ہو کر بو لی’’ آپ بے تکلیفی سے تو یہی ظاہر ہو تا ہے۔‘‘
’’ جی نہیں بلکہ میں خود فریدی ہوں۔‘‘
فریدی نے مسکراکر کہا۔
’’ارے آپ !‘‘ شہناز گھبرا کر کرسی سے
اٹھتی ہو ئی بو لی ۔
’’ ہاں …ہاں…آپ اٹھ کیوں گئیں بیٹھئے ۔‘‘ فریدی نے مسکرا کر کہا۔
’’ اور یہ سا ر جنٹ حمید ہیں ۔ میرے
اسٹنٹ اور بہتر ین دوست ۔ شہناز کبھی حمید کی طرف دیکھتی تھی اور کبھی فریدی کی
طرف ۔
’’ معافی چاہتی ہوں ،ابھی ابھی میں آپ
کے ساتھ بڑی گستا خی سے پیش آئی تھی اور
اس کی وجہ محض لا علمی ہے ۔‘‘
شہناز
شر مند گی کے لہجے میں بولی ۔
’’ کو ئی با ت نہیں ہماراپیشہ ہی ایسا
ہے۔‘‘ فریدی مسکرا کر بو لا ۔
’’ مجھے سخت شر مند گی ہے ۔‘‘ شہناز
بولی۔ ’’ لیکن کل آپ نے کوئی اور نام
بتایا تھا۔‘‘
’’ میں نے غلط نہیں بتا یا تھا ۔ میرا
پورا نام احمد کما ل فریدی ہے ۔ لو گ صرف فریدی کے نام سے یاد کرتے ہیں اور حمید
نے بھی اپنا نام غلط نہیں بتایا تھا۔‘‘
’’ میں سمجھی تھی کہ آپ بوڑھے نہیں تو ادھیڑ ضرورہو ں گے ۔ مگر
آپ تو …‘‘ شہناز نے
کہا۔
’’آپ ٹھیک سمجھی تھیں۔ یہ اس وقت بھیس
بدلے ہو ئے ہیں۔‘‘ حمید جلدی سے بو لا۔
فریدی ہنسنے لگا۔اس کی آنکھیں کہہ رہی
تھیں میاں حمید مطمئن رہو ۔ تمہا ری مجبو بہ مجھے قطعی پسند نہیں آئی۔ اتنے میں
چائے آ گئی ۔ تینو ں چائے پینے لگے۔
’’ میں کیا بتاؤ ں کی اس وقت مجھے
کتنی خوشی ہو رہی ہے ۔ خدانے اگر میرے اوپر مصیبت ڈالی تو اس سے بچاؤ کا
انتظام بھی پہلے ہی دیا ۔ ‘‘ شہناز چائے
کی پیالی رکھتی ہو ئی بو لی۔
آپ مطمئن رہئے ۔ آپ کو کوئی کچھ نہ
کہے گا۔ ‘‘ حمید بولا۔
’’ ہاں ذرایہ بتایئے…لیکن ٹھیک بتایئے گا رام سنگھ یعنی کنور صاحب کو کب سے جانتی ہیں ؟‘‘ فریدی نے
کہا ۔
’’ بخدامیں آپ سے سچ کہتی ہوں کہ کل
شام کے علا وہ میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’اس سے آپ کا تعارف کس نے کر ایا
تھا؟ فریدی نے پوچھا۔’’ لیڈی سیتا رام نے ۔‘‘ شہناز نے کہا۔ ’’ لیڈی سیتا رام مجھے
اچھی طرح جانتی ہیں۔ میں اس کی چھوٹی بہن کی ٹیوٹر تھی جب میں کل شام کو آر لکچنو
پہنچی تو یہ دونو ں بیٹھے ہوئے تھے ۔ لیڈی سیتا رام نے مجھے بھی اسی میز پر بلا
لیا۔ و ہیں اس سے تعارف ہوا۔ لیڈی سیتارام کو تھو ڑی دیر میں اچا نک کو ئی کام یاد
آگیا اور جلدی ہی واپس آنے کا وعدہ کر کے چلی گئیں۔ مجھے حمید صاحب کا انتظار کرنا
تھا۔ کیوں کہ انہو نے مجھ سے آر لکچنو میں ملنے کا دعدہ کیا تھا ۔ اس لیے میں و
ہیں کنور صاحب کے پاس بیٹھی با تیں کر ی رہی پھر کچھ دیر کے بعد ناچ شروع ہو گیا۔
لیڈی سیتارام اس وقت تک نہیں لو ٹی تھیں۔ ہمارے حمید صاحب بھی نداردتھے، میں سوچ
رہی تھی کیا کروں کہ کنورصاحب نے نا چنے کی درخواست کی ۔ دل تو نہیں چا ہتا تھا مگر
اخلا قاً نا چنا ہی پڑا۔‘‘
’’ اچھا ! دوسرے راؤنڈ میں جو عورت کے ساتھ ناچ رہی تھی وہ
کون تھی ؟ فریدی نے کہا۔
’’ لیڈی سیتا رام ۔ وہ شا ید پہلے ہی
راؤ نڈ کے درمیان واپس آ گئی تھیں۔ شہناز
نے کہا۔
’’ اچھا تو وہی لیڈی سیتا رام تھیں۔
‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ وہ تو بالکل جوان ہیں اور سر سیتا
رام کی عمر ساٹھ سال سے کسی طرح کم نہ ہو
گی۔‘‘
’’یہ اس کی دوسری بیوی ہیں ۔ ابھی تین
سال ہو ئے اس کی شادی ہو ئی ہے۔‘‘
’’جس لڑ کی کو آپ پڑھاتی ہیں ۔ اس کی
کیا عمر ہے ؟‘‘
’’ذیا دہ سے ذیادہ پندرہ سال۔‘‘
’’ کیا وہ بھی یہیں رہتی ہے ؟‘‘
’’جی ہاں لیڈی سیتا رام اسے اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔‘‘
’’سر سیتا رام اور لیڈی سیتا رام کے تعلقات کیسے ہیں ؟ میرے خیال سے تو آپس میں
بنتی نہ ہو گی۔ ‘‘ فریدی نے آہستہ سے کہا۔
’’ بظا ہر تو ایسی کو ئی بات نہیں
معلوم ہو تی ۔ تقر یباً ایک سال تک ان کے یہاں آتی جا تی رہی ہوں۔‘‘
’’اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ پو لیس کو
اس کی اطلاع کیسے ملی آپ اس کے ساتھ ناچ رہی تھیں۔ کیا آر لکچنو میں کوئی اور بھی
شنا سا مو جود تھا؟‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ میرے خیال سے تو دونو ں اور لیڈی
سیتا رام کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا یا ممکن ہے کوئی اور رہا ہو لیکن اس کی اطلاع
نہیں۔‘‘
’’آپ نے پو لیس کو بیان دیتے وقت یہ
بتا یا تھا یا نہیں کہ لیڈی سیتارام عر صے تک مققول کے ساتھ رہیں ۔‘‘ فریدی نے
کہا۔
’’ مققول ۔‘‘ شہناز چونک کر بولی۔’’
تو کیا کنور صاحب کو قتل کیا گیا ہے ۔ لیکن اخبارات میں توان کی خودکشی کی خبر
شا
ئع ہو ئی ہے۔‘‘
’’ممکن ہے ، ایساہی ہو۔‘‘ فریدی نے بے
پر وائی سے کہا۔’’ہاں ،‘‘آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔‘‘
’’میں دراصل پو لیس کو یہ بتا نا بھول
گئی کہ لیڈی سیتارام بھی کنور صاحب کے ساتھ تھیں۔‘‘ شہناز نے کہا ۔’’ میں ابھی اس
کی اطلاع پو لیس کو دے دوں گی۔‘‘
’’ نہیں اب اس کین ضرورت نہیں۔ اب آپ
پو لیس کو کوئی اور بیان نہیں دیں گی۔ میں
ابھی کو توالی جا کر سب معا ملات ٹھیک کر
لوں گا۔ آپ قطعی محفوظ ہیں۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ کس زبان سے آپ کا شکر یہ ادا کروں۔‘‘ شہناز نے کہا۔
’’ شکر یے وغیرہ کی ضرورت نہیں ۔‘‘
حمید نے منہ بنا کر کہا ۔’’ یہ اپنے ہی آدمی ہیں ۔‘‘
’’کی کہا آدمی ۔‘‘ فریدی نے بنا وٹی
غصے سے کہا۔
’’ جی نہیں ! آ فیسر۔‘‘ حمید نے سنجید
گی اور گھبراہٹ کی ایکٹنگ کر تے ہو ئے کہا۔ شہناز ہنسنے لگی۔
*******
شہناز کے چلے جا نے
کے بعد فریدی اور حمید دونوں کو کو توالی کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان کی کا رتیزی سے
شہر کی سڑ کیں طے کر رہی تھی۔’’ کیوں بھئی حمید ۔‘‘ شہناز کے متلق تمہا را کیا
خیال ہے ؟‘‘ فریدی نے کہا۔
’’
یہ آپ کیوں پو چھ رہے ہیں اور کس حیثیت سے
؟ حمید بو لا۔
’’ عا شق کی حیثیت سے نہیں پو چھ
رہاہو ں بلکہ سار جنٹ حمید کی حیثیت سے پو چھ رہا ہوں۔‘‘
’’ تو میرا جواب یہ ہے کہ میں اس کے
لیے کسی حالت میں بھی سار جنٹ حمید نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’ اور اگر رام سنگھ کے قتل میں اسی
کا ہاتھ ہو تو ۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ تب بھی میں صر ف حمید نے سنجید گی
سے کہا۔
’’شا باش اے مجنو ں کے بھا ئی ، خدا
تم پر رحم کرے ۔‘‘ فریدی نے ہنس کر کہا ۔ ’’ اگر یہی با ت ہے تومجبو راً مجھے تم
کو اس کیس سے الگ ہی رکھنا پڑے گا ۔‘‘ فریدی نے کہا ۔
’’تو
آپ کو یہ کیس ملا ہی کب ہے ۔کو ئی ایسا خاص کیس نہیں …رام سنگھ ایک عادی
مجرم اور قاتل تھا۔ جب بھی پو لیس کے ہتّھے
چڑ ھتا اسے پھانسی ضرور ہو جا تی ۔ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں کچھ زیادہ
چھان بین ہی نہ کی جائے گی لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اخبا رات میں خودکشی
کا واقعہ کیوں شائع ہوا ہے جب کہ آپ پو رے دلائل کے ساتھ اسے قتل ثا بت کر چکے تھے۔‘‘
’’یہ سب اسی بو ڑھے سب انسپکڑ کی
شرارت ہے۔ وہ دراصل اپنی کار گزاری دکھا کر تر قی حا صل کرنا چا ہتا ہے ۔ دو تین
دن کے بعد وہ اپنے طریقے پر اس بات کو پبلک کے سامنے لائے گا کہ مرنے والا کسی ریا
ست کاراج کما رنہیں بلکہ مشہور بد معاش
رام سنگھ تھا اور اس نے خود کشی نہیں کی بلکہ اسے قتل کیا گیاہے۔ خیر مجھے کیا
اگراس طر ح اس کا بھلا ہوتا ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتاہے ۔‘‘
’’ لیکن آپ نے جس وقت اپنے دلائل پیش
کئے تھے وہاں ہو ٹل کا مینجر بھی تو مو جودتھا۔‘‘ حمید نے کہا۔
’’تو اس سے کیا ہو تا ہے ۔ اس کا منہ
نہا یت آسانی سے بند کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال سے تو سب انسپکڑ کی صرف ایک ہی
دھمکی کا فی ہو ئی ہو گی۔‘‘
’’خیرا گر ایسا تو میں ان بڑے میاں سے
سمجھ لوں گا ۔‘‘ حمید نے ہو نٹ سکو ڑ تے ہو ئے کہا۔
’’ اس کی ضرورت ہی کیاہے؟‘‘ فریدی نے
آہستہ سے کہا اور کو توالی کے پھا ٹک میں داخل ہو نے کے لیے کا رگھما ئی ۔ بو ڑھا
سب انسپکڑ سنہا کو توالی میں مو جود تھا اور وہ نو جوان سب انسپکڑ بھی جواردات کی
رات انسپکڑ سنہا کے ساتھ تھا۔
’’ فریدی صا حب ! آپ کی رات والی بات
میری سمجھ میں نہیں آئی تھی۔‘‘ انسپکڑ نے جھینپ مٹا تے ہو ئے کہا۔’’ میں اسے خود
کشی ہی سمجھتا ہو ں۔‘‘
’’ممکن ہے آپ ہی کی رائے درست ہو ۔
مجھ سے غلطی بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ فریدی نے خوش اخلا قی سے جواب دیا۔
’’ نہیں۔ خیر میں یہ تو نہیں کہہ
سکتا۔‘‘ سنہا نے کہا۔
’’ لیکن آپ نے تحقیقات کے سلسلے میں
غلط آدمی کو منتخب کیا ہے۔‘‘ فریدی نے سگا ر سلگا تے ہو ئے کہا۔
’’ میں سمجھا نہیں۔‘‘ سنہا بولا۔
’’ جس وقت یہ واردات ہو ئی شہناز میرے ساتھ ناچ
رہی تھی اور آخیر تک میرے ہی ساتھ رہی۔ پہلے راؤنڈ میں وہ ضروررام سنگھ کے ساتھ
نا چی تھی لیکن کنور ہی سمجھ کر ۔ اس سے
پہلے کبھی اس نے اسے دیکھا بھی نہ تھا۔‘‘
’’ تب تو واقعی مجھ سے غلطی ہو ئی ۔‘‘
سنہا نے جواب دیا۔
’’ خیر کوئی بات نہیں۔ وہ بے چاری بہت
پریشان ہے۔‘‘ فریدی نے کہا۔’’ ہاں یہ تو بتا یئے کہ اس بات کا آپ کو کس طرحعلم ہوا
کہ شہناز رام سنگھ کے ساتھ ناچ رہی تھی اور اس کے ساتھ نا چنے والی دوسری عورت کون
تھی۔‘‘
’’ دوسری کے متعلق تو میں کچھ نہیں جا نتا ۔‘‘سنہانے
جوا ب دیا۔’’اور بعض وجوہات کی بنا پر یہ
بھی نہیں بتا سکتا کہ شہنا ز کےمتعلق
اطلاع دینے والا کون ہے‘‘۔
’’خیر
،میں اس کے لیے آپ کو مجبور نہ کروں گا
۔میں تو اس وقت محض شہناز کی طرف سے صفائی پیش کرنے کے لیے آیا تھا ۔‘‘فرید ی نے کہا۔
’’اس
کی طرف سے آپ مطمئن رہئے ۔‘‘سنہانے اُٹھتے
ہو ئے کہا ۔’’میں اب معافی چا ہتا ہو ں
۔ایک ضروری کام سے مجھے باہر جا نا
ہے۔‘‘’’ضرورضرور۔‘‘فرید ی نے اٹھ کر اس سے ہا تھ ملا تے ہوئے کہا۔
سنہاچلاگیا
نو جوا ن سنب انسپکڑ ابھی تک خا موش بیٹھا تھا ۔فریدی اس کی طرف مخا طب ہوا۔’’کہئے داروغہ جی !کیا آپ
ابھی حال ہی میں یہاں آئے ہیں‘‘۔
’’جی
ہاں !ٹر نینگ لے کر آئے ہوئے ابھی صرف چھ ماہ ہوئے ہیں ۔ابھی تو کام سیکھ
رہاہوں‘‘۔
’’آپ
کا فی ترقی کر یں گے ۔آپ کی بلند اور کشا
دہ پیشانی پکار پکار کرآپ کی ذہا نت کا اعلان کر رہی ہے۔‘‘فریدی نے مسکرا کر کہا۔
’’لیکن
اس لائن میں ترقی کرنے کے لیے تھوڑی سی چا
لبا زی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اب
سنہانے صاحب ہی کو لے لیجئے۔ کتنی ہو شیا ری اور احتیا ری اور
احتیاط سے کام لے رہے ہیں کہ ابھی تک اس بات کا بھی اعلان نہیں کیا کہ مققول راج
کما ر نہیں بلکہ مشہور بد معاش رام سنگھ ہے۔ اگر یہ اس کیس میں کا میاب ہو گئے
توان سر کل انسپکڑ ہو جا نا کو ئی بڑی بات نہیں۔‘‘
’’ اگر آپ لو گوں کی عنا تییں ساتھ
رہیں تو میرا تر قی کر نا کچھ مشکل نہ ہو گا۔‘‘ نو جوان سب انسپکڑ نہا یت سعادت
مندی سے بو لا۔
’’بھئی ۔ میرے لائق جو خدمت ہوا س کے لیے ہر وقت تیا ر ہوں ۔ مجھے
نہ جا نے کیوں آپ سے کچھ انسیت سی ہو گئی ہے ۔ لیجئے۔‘‘ فریدی نے سگار کا ڈبہ پڑھا
تے ہو ئے کہا۔ نو جوان سب انسپکڑ نے سلام کر کے ایک سگار نکال لیا اور سلگا کر
ہلکے ہلکے کش لینے لگا۔
’’ نہ جا نے کیوں میرا دل چاہ رہا ہے
کہ اس کیس کی بجی طور پر تفتیش کروں اور کا میا بی ہو جانے پر یہ مشہور کر دوں کہ
اس کی کا میا بی کا سہر اآپ ہی کے سر ہے۔‘‘
’’نو جوان انسپکڑ کی بانچھیں کھل گئیں
اور اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔’’ ارے کیا ؟‘‘
’’ نہیں واقعی نہ جا نے کیوں میں آپ
کو ترقی کر تا ہوا دیکھنا چا ہتا ہوں۔ میں یہ جا نتاہوں کہ یہ کیس سنہا صا حب کی
ہٹ دھر می کی وجہ سے محکمہ سراغ رسانی کے سپر دنہ کیا جا ئے گا اور میرا دل بھی
چاہتا ہے کہ اس کی تفیش کروں۔ لٰہذااس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ نجی تفتیش کے بعد
مجھے کسی نی کسی کے سراس کی کا میا بی کا
سہرا ضر ور باندھنا پڑے گا۔ اس لیے میں یہ سو چتا ہوں کہ وہ آپ ہی کیوں نہ
ہوں۔‘‘
’’ ارے صاحب اگر ایسا ہو تو کیا کہنا،
میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کروں گا۔’’ نو جوان سب انسپکڑ کرنے
بو لا۔
’’ لیکن اس کے لیے راز داری شرط ہے۔‘‘
فریدی نے کہا۔’’ اور ابھی تک تو یہی پتا نہیں چل سکا کہ شہناز کے متعلق مطلع کرنے
والا کون ہے؟‘‘
’’آپ مطمئن رہیے میں کسی سے اس کا تذ
کرہ نہ کروں گا ۔‘‘ نو جوان سب انسپکڑ نے
کہا۔’’ اور شہنا ز کے متعلق اطلاع دینے والی ایک عو رت ہے۔‘‘
’’ وہ کون ہے ؟‘‘ فریدی نے جلدی سے پو
چھا۔
’’ لیڈی سیتا رام ۔‘‘ نو جوان سب
انسپکڑ نے آہستہ سے کہا۔’’ کل آپ کے چلے جانے کے بعد وہ ہمیں آرلکچنو میں ملی
تھی۔‘‘
’’بہت خوب !اچھا اس کا تذ کرہ سنہا
صاحب سے نہ کیجئے گا۔ میں اب چلوں گا۔‘‘ فریدی نے اٹھتے ہو ئے کہا۔
’’ ہاں میں آپ کا نام پو چھنا تو بھول
ہی گیا۔‘‘
’’ مجھے جگد یش کمار کہتے ہیں۔‘‘ سب
انسپکڑنے اٹھ کر ہا تھ ملا تے ہو ئے کہا۔
’’ اچھا جگد یش صاحب گھبرا یئے نہیں ۔
پو لیس کے بڑے عہد ے آپ کا انتظا ر کر رہے ہیں۔‘‘ فریدی نےکہا اور حمید کو لے کر
با ہر چلا آیا۔’’ کہو بر خوردار کیسی رہی۔‘‘ فریدی نے کار میں بیٹھتے ہو ئے کہا ۔
’’ بھئی آُ کو گھسنا بھی خوب آتا ہے ۔‘‘ حمید ہنس کربولا۔ فریدی ہنسنے
لگا۔’’ اب کہاں چل رہے ہیں ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔
’’ سول سر جن کے یہاں ۔‘‘ فریدی نے
کہا۔
’’ کیوں وہاں کیا کرنا ہے ؟‘‘
’’ رشوت دے کر اپنے لیے ایک باہ کی چھٹی کے لیے
میڈیکل سر ٹیفکٹ لوں گا ۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ یہ کیوں؟‘‘ حمید نے حیرت سے کہا
۔
’’میں کتوں کی نما ئش دیکھنے با ہر
جارہا ہوں۔ اپمے کچھ عمدہ قسم کے کتے بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’لیکن آپ تو نجی طور پر کیس کی تفتیش کر نے جا رہے
تھے۔‘‘ حمید نےحیرت سے کہا۔
’’ میرے خیال سے تواب اس کی کو ئی
ضرورت نہیں۔ اصلی مقصد تو کو بچا نا تھا سووہ پو را پو گیا۔‘‘
’’ تعجب ہے کہ آپ ایسا کہہ رہے ہیں
کیا آپ کو اس پر یقین ہے کہ سنہا سچ مچ شہناز کا پیچھا چھو ڑدےگا ۔ اگر ایسا تھا
تو اس نے لیڈ سیتا رام کا نام کیوں چھپا یا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صفا ئی
دینے کے بعد بھی شہناز پر شبہ کر رہا ہے۔‘‘
’’ بھئی کچھ بھی ہو میرا جا نا ضروری
ہے ۔ میں نما ئش کے منتضم سے وعدہ کر چکا ہوں۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ نما ئش ختم
ہو تے ہی فو راً واپس آجاؤں۔‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ خیر صا حب جا ئیے۔ آپ بھلا میرے
لیے کیوں تکلیف کر نے لگے۔ جا نتے ہیں نا
کہ شہناز میری دوست ہے۔‘‘ حمید نے منہ پھلا کر کہا۔
’’ بس بگڑ گئے۔ ‘‘ فریدی نے کہا’’ تم
تو ہو نر ے گھا مڑ۔ آ خرا تنی جلدی کون سی آفت آئی جا تی ہے۔ میرے جا نے کے معد سر
سہتا رام لے گھر کی نگرانی کرتے رہنا۔ اچھا چلو شہناز کو بھی لگے ہا تھ کچھ
ہدایتیں دیتا چلوں۔‘‘
’’ گی ! بس رہنے دیجئے۔ ہم لو گوں کی
فکر نہ کیجئے خدا آپ کے کتوں کو سلامت رکھے۔‘‘ حمید نے منہ بنا کر کہا ۔
’’آپ گدھے ہیں ۔‘‘ فریدی نے یہ کہہ کر
کا رشہناز کی طرف مو ڑدی۔
شہناز ، بیلی روڈ پر ایک چھو ٹے سے
انگر یزی وضع کے خوب صورت مکان میں رہتی
تھی۔ اس وقت وہاں نہ جانے کیوں اچھی خاصی بھیڑ لگی ہو ئی تھی ۔ شہناز کی بو ڑھی
ملا زمہ ہاتھ بچا بچا کر لو گوں سے با تیں کر رہی تھی ۔
’’ کیا بات ہے ۔‘‘ حمید نے کار سے اتر
کر اس سے پو چھا۔
’’ارے صاحب ،نہ جانے کیا ہو گیا؟‘‘ وہ
ہو نپتی ہو ئی بولی۔
’’ کیا ہو گیا؟‘‘ حمید نے حیرت سے کہا۔
’’ ابھی مس صا حبہ یہاں کھڑی تھیں۔
میں وہاں بر آمدے سے دیکھ رہی تھی ۔ اچا نک ایک مو ٹر یہاں آ کر رکی۔ اس پرسے دو
آدمی اترے اور انہوں نے مس صا حبہ کو اٹھا کر مو ٹر میں ڈال دیا اور موٹر یہ جا وہ
جا۔ نہ جا نے کہا ں غا ئب ہو گئی۔ ہائے اب کیا ہو گا ۔‘‘ ملا ز مہ روتی ہو ئی بو
لی۔
’’ مو ٹر کد گئی؟‘‘ فریدی نے جلد ی سے کہا۔’’
اور کتنی دیر ہو ئی ؟ مو ٹر کا رنگ کیسا تھا?
’’ مشکل سے پندرہ بیس منٹ ہو ئے ہو ں
گے۔‘‘ ملا زمہ نے جنوب کی طرف ہا تھ اٹھا تے ہو ئے کہا ’’ مو ٹراس طرف گئی ہے۔ مو
ٹر کا رنگ کتھئی تھا۔ بالکل نئی معلوم ہو تی تھی۔‘‘
’’ حمید جلدی کرو۔ ‘‘ فریدی نے کار میں بیٹھ کر اسے اسٹا رٹ کر تے ہو
ئے کہا۔ فریدی کی کار تیزی سے جنو ب کی طرف جا رہی تھی۔‘‘ یہ تو بہت برا ہوا۔‘‘
فریدی نے کہا۔ حمید غصے میں ہونٹ چبا رہا تھا۔ وہ دونو ں گھنٹو ں سڑ کیں نا پتے
پھرے لیکن کتھئی رنگ کی کا ر کہیں نہ دکھائی دی۔’’ صبر کرو میاں حمید ، اس کے علا
وہ کو ئی چا رہ نہیں۔‘‘ فریدی نے اس کا شانہ تھپکے ہو ئے کہا ۔
’’ حمید چھڑ کئے زخموں پر۔‘‘ حمید نے
برا سامنہ بنا کر کہا۔
’’ بس چہکنا بھول گئے۔ ابھی تو آئے ہو
جناب اس چکر میں۔ اچھا اب سوال سر جن کے یہاں چلنا چا ہئے۔‘‘ فریدی نے کہا ۔
’’ مجھے تو آپ یہیں اتا رویجئے۔ جب تک
میں اس کا کو تلاش نہ کر لوں گا۔ مجھے چین
نہ آئے گا۔‘‘ حمید نےب کہا۔
’’ احمق ہو ئے ہو ؟ اس شہر میں کتھئی
رنگ کی ور جنوں کا ریں ہوں گی۔ کیا جناب
چیف انسپکٹرکی کار کتھئی رنگ کی نہیں، اس طرح بھی کہیں سراغ ملا کر تا ہے ۔۔‘‘
’’ پھر بتا یئے میں کیا کروں۔‘‘ حمید
نے بے بسی سے کہا۔
’’ مجھے فی الحال جانے دو اور خود
سیتا رام کی کو ٹھی کی نگرانی کرتے رہو۔ مگر خبر دار کو ئی حما قت نہ ہو نے پائے۔
واپسی پر مجھےن مکمل رپورٹ دینا اور سیتا رام کی کو ٹھی کے اندر جانے کی کو شیش نہ
کرنا ۔‘‘
3
سر سیتارام شہر کے معززآدمیوں میں
تھے اور بے پناہ دولت کے مالک تھے ۔ ان کی
عمر بچپن یا ساٹھ کے لگ بھگ رہی ہو گی۔ پچاس سال کی عمر میں ان کی بیوی کا انتقال
ہو گیاتھا۔ وہ لا ولد تھے۔ پہلی بیوی سے
کو ئی اولاد نہ تھی بیوی کے مر نے کے کچھ
دن بعد تک وہ یہ عہد کیے رہے کہ دو سری شادی کسی حا ل میں نہیں کریں گے لیکن آخر
کا ران کا دل ان کے ایک قرض خواہ کی جوان لڑ کی پو آہی گیا اور انہوں نے اس کے
ساتھ شادی کر لی۔ یہی لڑ کی مو جو دہ لیڈی سیتارام تھی۔ اس کے ساتھ اس کی چھو ٹھی
بہن کمو دنی بھی رہ رہی تھی۔ سر سیتا رام اسے اعلی تعلیم دلا رہے تھے۔ سر سیتا رام
کے ساتھ اس کا بھتیجا سر یند ر کمار بھی رہتا تھا جو تین سال قبل انگلینڈ سے ایم
اے کی ڈ گری لے کر واپس آیا تھا۔ یہ ایک وجیہہ اور تندرست نو جوان تھا۔ سر سیتا
رام اسے بیٹو ں کی طرح عز یز رکھتے تھے۔ عمو ماَ دیکھا گیا ہے کہ وہ لو گ جو صاحب
اولاد نہیں ہو تے عجیب وغر یب قسم کے شوق
رکھتے ہیں ۔ یہی ہال سر سیتا رام کا بھی تھا۔ انہیں کتو ں کا شوق جنو ن کی
حد تک پہنچ گیا تھا ۔ ان کے پاس ساٹھ ستر
کتے رہے ہوں گےئ اور سب اپنی مثال آپ۔ دینا کی کو ئی مشہور نسل نہ رہی ہو گی جس کا
ایک آدھ جو ڑاان کے پاس نہ ہو ۔ شہر میں وہ کتوں کے اسپیشلس سمجھے جا تے تھے۔ اس
لائن میں ان کی تجر بہ کاری کا یہ عالم
تھا کہ محض کتوں کی آواز سن کران کی نسل کے بارے
میں پو رے پو رے لیکچر دے ڈالتے تھے۔
حمید نے ان ساری با تو ں کا پتہ لگا
لیا تھا۔ اسے رہرہ کر فریدی پر غصہ آرہا تھا۔ وہ اس کی پریشانیوں کی پروا کیے بغیر
کتوں کی نما ئش میں حصہ لینے کت لیے بمبئی چلا گیا لیکن وہ کر ہی کیا سکتا تھا ۔ فریدی بہر حال اس کا
آفیسر تھا۔ یہ اس کی شرا فت اور نیک نفسی تھی کہ اس نے کبھی اسے اپنا ما تحت نہیں
سمجھا۔ حمیددن میں کئی بار سر سیتا رام
کی کو ٹھی کے چکر لگا تا لیکن بے سود ۔
کسی قسم کا سراغ نہ ملا۔ اسے سب سے بڑی پر یشانی شہناز کی وجہ سے تھی ۔ ورنہ بھلا وہ کیوں اپنا وقت خواہ مخواہ بر با د کر تا۔
معلوم نہیں وہ کہاں اور کس حال میں ہو گی؟
اسی دوران میں فریدی کی طرف سے میدان
صاف دیکھ کر انسپکڑ نے بھی نئے نئے گل کھالا نے شروع کیے۔ ایک دن اخبا ر ت میں یہ
خبر دیکھنے میں آئی کہ آرلکچنو میں خود کشی کر نے والا کائی راج کمار نہیں بلکہ
مشہور عورت فروش رام سنگھ تھا۔ پھر دوسرے
دن اخباروالے چیخ رہے تھے کہ رام سنگھ نے خو دکشی نہیں کی بلکہ اس کو کسی نے قتل
کر دیا تھا اور ساری سراغ رسانی کا سہر
اانسپکڑ سنہا کے سر باند ھا جا رہا تھا۔ اخبارات دل کھول کر اس کی تعریفوں کے پل
باندھ رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر حمید کا خون کھو لنے لگا۔ وہ کو توالی پہنچا۔ اتفا
قاً انسپکڑ سنہا سے جلدی ہی مڈ بھیڑ ہو گئی۔
’’ کہئے حمید صاحب ! مزاج تواچھےہیں۔‘‘
سنہا نے مسکرا کر کہا۔
’’ جی ہاں ! کافی اچھے ۔‘‘ حمید نے
منہ بنا کر کہا۔’’ ہما رے مزاج اچھے نہ ہو
تے تو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہو
تا۔‘‘
’’ آپ کچھ پر یشان معلو م ہو تے ہیں ۔ ‘‘ سنہا نے کہا۔’’
بھئی کیا کرو ں مجبو راً شہناز کا وارنٹ گر فتاری جاری کرنا پڑا۔‘‘
’’ وارنٹ گر فتا ری۔‘‘ حمید چونک کر
بو لا ’’ کیا مطلب ؟‘‘
’’جی ہاں وہ بہت عیا رعورت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’ کیا بکواس ہے۔‘‘ حمید نے جھلا کر
کہا۔’’ اسے تو کچھ لو گ زبردستی پکڑ کر لے گئے۔‘‘
سنہا ہنسنے لگا۔’’ ابھی آپ کی عمر ہی
کیا ہے حمید میاں؟ میں نے بال دھو پ میں سفید نہیں کیے ۔‘‘ سنہا نے کہا۔
‘‘ کیا مطلب ؟‘‘ حمید نے کہا۔
’’ اچھا یہ بتا یئے۔ کیا آپ نے اپنی
آنکھو ں سے دیکھا تھا کہ کچھ لو گ اسے زبر دستی پکڑ کر لے گئے؟‘‘
’’ نہیں لیکن ہم لو گ ٹھیک اس وقت
پہنچے تھے جب اس کی نو کرانی مکان کے سامنے کھڑی شور مچا رہی تھی ۔‘‘
’’ تو پھر معاملہ صاف ہے ۔‘‘ سنہا نے
ہاتھ ملتے ہو ئے کہا۔’’ شہناز نے بڑا عمدہ پلا ٹ بنا یا ایک طرف اس نےآپ لو گو ں
سے اپنی صفا ئی دلوائی اور دوسرے طرف اپنی بے گناہی کا اور زیا دہ یقین دلا نے کے
لیے اس طرح غا ئب ہو گئی ۔ بھئی بلا کی عیار عورت نکلی۔‘‘
’’ تو اس طرح پھر یہ بھی کہا جا سکتا
ہے کہ میں اور فریدی صاحب بھی اس قتل میں
شریک ہیں کیوں کہ وہ آخر تک ہمارے ساتھ رہی تھی۔‘‘ حمید نے غصے سے کہا۔
’’میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کی گواہی
غلط ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس نے آپ لو گوں کوبھی دھو کا دیا ہو ؟‘‘ سنہانے
کہا۔
’’ یہ قطعی نا ممکن ہے۔‘‘
’’ ہو سکتاہے۔‘‘ سنہا نے آہستہ سے کہا
اور اپنی میز پر رکھے ہو ئے کا غذا ت
اٹلنے پٹنے لگا۔
حمید
غصے میں اپنے ہو نٹ چبار ہا تھا۔ وہ تھوڑی
دیر تک یو نہی بیٹھا رہا ۔ پھر خامو
شی سے اٹھ کر با ہر نکل آیا۔ شام ہو ریہی تھی ۔ بزار
میں کافی بیھڑ ہو گئی تھی ۔ حمید
بری طرح الجھ رہا تھا ۔ اس وقت
سنہا سے گفتگو کر نے کے
بعد اس کا مو ڈ بہت زیا دہ خراب ہو گیا تھا ۔ دل بہلا نے کے لیے وہ ایک
ریستو ران میں چلا گیا ۔ تھو ڑی دیر تک
بیٹھا چا ئے پیتا رہا لیکن وہاں
بھی دل نہ لگا۔ ریستوران سے نکل کر وہ فٹ
پا تھ پر کھڑا ہوا گیا۔ اس کی سمجھ
میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ وفعتاً اس نے ایک ٹیکسی رکوائی اور اس میں بیٹھ
کر سیتارام کی کو ٹھی کی طرف روانہ ہو گیا۔ کو ٹھی سے ایک فر لا نگ ادھر ہی اس نے
ٹیکسی رکوا ئی اور وہاں سے پید ل چلتا ہو
اکتابو ں کی ایک دکان پر آیا۔ یہاں اس کے اور کو ٹھی کے درمیان میں صرف ایک سڑک حائل
تھی۔ وہ بظا ہر کا ؤ نڑ پر لگی ہو ئی کتا
بیں الٹ پلٹ رہا تھا لیکن اس کی نگا ہیں باغ کے پھا ٹک کی طرف لگی ہو ئی تھیں ۔
تھو ڑی دیر کے بعد سر سیتا رام ایک کتھئی
رنگ کے اسپیشل کتے کی ز نجیر تھا مے کو ٹھی سے
بر آمد ہو ئے۔ یہ ان کی سیر کا وقت تھا۔ ان کی عا دت تھی کہ وہ روزا نہ شام
کو اپنے کسی چہیتے کتے کو ہمراہ لے کر ہوا خو ری کے لیے پیدل لا رنس گا رڈن تک جا
یا کر تے تھے۔
حمید
انہیں جاتا ہواد یکھتا رہا۔ اس نے جلدی سے ایک کتاب خریدی اور سیتا رام کے پیچھے چل پڑا۔ سر سیتا رام بڑا ۔ سر سیتا رام بڑھا پے کی
سرحدوں میں ضرور قدم رکھ چلے تھے ……لیکن قو یٰ ابھی تک کا فی مضبو ط معلو م ہو تے تھے ۔ چہرہ داڑھی اور مو بچھوں سے قطعی آزاد
تھا۔ بھر ے ہو ئے چہرے پر پتلے پتلے ہو نت کچھ عجیب سے معلو م ہو تے تھے ۔ کنپٹی اور آنکھو ں کے درمیان بے
شمار شکنیں تھیں ۔ بچلا جبڑا چہرے
کے او پری حصے کی بہ نسبت زیا دہ بھا ری تھا ۔ ان کی چال میں ایک عجیب قسم کی
شان پائی جا تی تھی ۔ جس میں غرور کی آ میز ش زیا دہ تھی یا پھران میں یہ انداز پچیس سال تک فو جی زندگی بسر کر نے کی وجہ سے پیدا ہو
گیا ہو۔
ویسے
وہ کا فی خلیق اور ملنسا ر مشہور تھے۔
حمید نہیں کئی بار دیکھ چکاتھا ۔ وہ
انہیں ایک خطر ناک آدمی سمجھے تھا ۔ علم القیا فہ کے ما ہر ین کی طرح وہ بھی اسی
پر ایمان رکھتا تھا کہ بھا ری جبڑوں کے لو گ عمو ماً ظا لما نہ رجحا نا ت کے مالک
ہو تے ہیں ۔ نہ جا نے کیوں اس کا دل بار بار کہہ اٹھتا کہ رام سنگھ والے معاملے
میں ان حضرت کا ہا تھ ضرور ہے اور شہناز کو غائب کر ادینے کے ذمے داربھی یہی ہیں ۔
حمید برابر سیتا رام کا تعاقب کیے جارہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لا رنس گا رڈن
پہنچ گئے ۔ چند لمحے وہ نہلتے رہے اس کے
معد وہ ایک بنچ پر بیٹھ کر نئی
خریدی ہو ئی کتاب کے ورق الٹنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ طرح سر سیتا رام سے جان
پہچان پیدا کرے۔ اچانک غراہٹ کی آواز
سنائی دی اور ایک پیلے رنگ خوف ناک کتا مہندی کی باڑ پھلا نگتا ہوا سر سیتا رام کے
کتے دوپٹخنیاں دیں اور اس کی گر دن دبا کر بیٹھ گیا۔ سر سیتارام کے کتے نے سہم کر
آواز بھی نکالنی چھو ڑدی تھی۔ سر سیتا رام بنچ پر کھڑے ہو کر چیخ رہے تھے۔’’ اے
ہٹو …ہٹو…ڈنگو کے بچے۔‘‘ ایک آدمی مہندی کی باڑ کی دوسری طرف سے کہتا
ہوا کو دا۔ اس نے جھپٹ کر پیلے کتے کے پٹے
پر ہا تھ ڈال دیا اس کی گر فت سے آزادہو تے ہی سیتارام کا کتا بھاگ کر نیچے دبک
گیا۔ نو داردعجیب الخلقت آدمی معلوم ہو تا تھا۔ دیکھنے میں وہ کافی مہذب معلوم ہو
تا تھا لیکن چہر ے سے بلا کی عیا ری ظا ہر ہو رہی تھی ۔ اس کے سر خ وسپید چہر ے پر گہر ے سیاہ رنگ کی فر نچ کٹ ڈارھی بڑی
عجیب لگ رہی تھی لیکن اس میں بے ڈھنگا پن
نہیں تھا۔ آنکھو ں پر بغیر فریم کا سبک سا چشمہ تھا۔ مو نچھیں باریک اور نو کیلی
تھیں۔ جسم کی ساخت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی
کہ وہ کڑی محنت کا عادی ہے۔ اس نے سیاہ رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ مجمو عی حیثیت سے
وہ کسی اونچی کا فردمعلو م ہو تا ہے۔
’’ جناب والا مجھے ندامت ہے۔‘‘ اس نے
بھپر ے ہو ئے پیلے کتے کو اپنی طرف کھینچنے ہو ئے کہا۔
’’ مگر…مگر…اتنا خوف ناک کتا۔ آپ اسے اس طرح آزاد کیوں چھو ڑدیتے ہیں۔‘‘ سر سیتا رام نے
برا سامنہ بنا کر کہا۔’’آپ ایک بھا ری جرم کررہےہیں۔‘‘
’’جرم! اجنبی نے چونک کر کہا۔’’ بھلا
اس میں جرم کی کیا بات ہے ؟‘‘
’’ایسے خطر ناک کتے کو آزاد چھوڑن
دینا جرم نہیں تو ادر کیا ہے۔‘‘ سر سیتا رام تر شی سے بولے۔’’ یا پھر شاید آپ اس
کی نسل سے نا وا قف ہیں۔ یہ افریقی نسل کا یلو ڈنگو ہے۔ بعض اوقات یہ شیر اور چیتے
سے بھی ٹکر لے لیتا ہے یہ آ پ کو ملا کہاں سے اور یہاں کی آب وہوا میں اب تک کیسے
ہے ؟‘‘
اجنبیسر سیتا رام کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ دفعتہً اس کا چہرہ
خوشی سے چمکنے لگا۔’’ وہ میری قسمت ۔‘‘ وہ تقر یباً چیخ کر بولا۔’’سارے ملک میں آپ
ہی مجھے کتوں کے معا ملے میں اتنے تجر بہ کا ر نظر آ ئے ہیں ۔ مجھے آپ سے مل کر بے
حد خوشی ہو ئی ہے اور مجھے خود حیرت ہے کہیہ کتا یہا ں کی آب
وہا میں کس کے پاس تنا اور یہاں زندہ کیسے رہا۔‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘ سر سیتا رام نے چو نک کر کہا۔’’ تو کیا یہ کتا آپ کا نہیں ہے ؟ ‘‘
’’ جی نہیں ! یہ بہت ہی عجیب وغیریب
طر یقے سے مجھ تک پہنچا ہے۔‘‘ اجنبی نے اپنے پا ئپ میں تمبا کو بھر تے ہو ئے کہا۔
سر سیتا رام تو جہ اور دلچسپی کے ساتھ اجنبی کو دیکھ رہے تھے۔ حمید کا دل بڑی شدت سے دھڑ ک رہا تھا ۔ کیو ں کہ وہ اس کتے کو
پہچا نتا تھا۔’’ تین چاردن کی بات ہے۔ ‘‘ اجنبی کہنے لگا۔’’ میں شکار کھیل کر واپس
آرہا تھا میں نے ایک چلتی ہو ئی ٹر ین کے جا نوروں کے ڈبے سے اس کتے کو کود کر
باہر آتے دیکھا۔ٹرین گزر گئی اور یہ بھا گتا ہوا میری طرف آرہا تھا میں نے کارروک
دی اور اتر کر اسے پکڑ لیا۔ تب سے یہ میرے پاس ہے۔‘‘
’’ لیکن یہ اتنی جلدی آپ کے قا بو میں
کیسے آگیا ؟‘‘ سر سیتا رام پلکیں جھپکا تے ہو ئے بو لے۔
’’ اوہ، میرے لیے یہ کون سی بڑی بات
ہے ۔‘‘ اجنبی مسکرا کر بولا۔’’ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ افر یقہ کے جنگلوں
میں گزا را ہے۔ میں اس ذات کے کتوں کی نس ، نس سے واقف ہو۔‘‘
اجنبی نے اپنے کتے کے گلے میں زنجیر
ڈال کر اسے ایک بیچ کے پا ئے سے باندھ دیا اور سر سیتا رام کے کتے کو گو د میں
اٹھا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیر نے لگا۔‘‘ مجھے چھو ٹی ذات کے اسپیشل بہت پسند
ہیں۔‘‘ اجنبی بو لا۔’’ آپ بہت شو قین آدمی معلوم ہو تے ہیں۔ کیا آپ کے پاس اور کتے
بھی ہیں؟‘‘
’’ جی ہاں!‘‘ سر سیتا رام مسکرا کر بو لے’’ تقر یباً با نچ یا چھ
در جن۔‘‘
’’ پانچ ، چھ درجن ۔‘‘ اجنبی چو نک کر
بو لا۔’’ تب تو آپ واقعی بالکل میرے ہم مذاق ہیں۔‘‘
’’ تو آپ بھی ؟‘‘ سر سیتا رام نے کہا۔
’’ جی ہاں! اجنبی نے جواب دیا۔
’’ آپ کی تعریف ؟‘‘ سر سیتا رام نے
کہا۔ اجنبی نے اپنا ملا قا تی کا رڈجیب سے نکا ل کر سر سیتا رام کے ہا تھ میں دے
دیا۔‘‘ کر نل جی۔ پر کاش ۔سی۔بی۔ای۔‘‘ سر سیتا رام نے بلند آواز سے کار ڈپڑ ھا۔
’’اور آپ؟‘‘
’لو گ مجھے سر سیتا رام کے نام سے پکا
رتے ہیں۔‘‘
’’ سر سیتا رام ۔‘‘اجنبی نے خوشی کے
لہجے میں چیخ کر اس سے ہاتھ ملا تے ہو ئے کہا۔’’ بڑی خو شی ہو ئی آپ سے مل کر بھلا
پھر کیوں نہ ہو۔ آپ سے زیادہ کتو ں کے بارے میں کون جان سکتا ہے۔ یہی تو میں کہو ں…میں نے آپ کی تعریف ایک انگر یز دوست سے افریقہ میں سنی تھی۔ اس اچا نک ملا قا
ت سے مجھے کتنی خوشی ہو ئی ہے۔ یہ میں نہیں بیا ن کر سکتا۔‘‘
’’ آپ مجھے خواہ مخواہ شر مندہ کر
رہےہیں۔ ارے آپ بھلا کسی سے کم ہیں۔‘‘سر سیتا رام نے منکسر المز اجی کے ساتھ کہا۔’’ کیا اس وقت میں افریقہ کے مشہو
ر کر وڑ پتی سے ہم کلام نہیں ہوں؟‘‘
’’ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ یہاں بھی
لو گ مجھے جا نتےہیں۔‘‘ اجنبی نے مسکرا کر کہا۔
’’ایک بار میرا ارادہ ہواتھا کہ
افریقہ کے ہیر ے کی ایک کان کا حصہ دار ہو ؤں اسی دوران میں مجھے آپ کا نام معلوم
ہوا تھا۔واقعی میں بہت خوش قسمت ہوں کہ آج
آپ سے اس طرح ملاقات ہو گئی۔ اب وہ دونوں گفتگو کرتے ہو ئے بنچ پر بیٹھ گئے تھے ۔ حمید کی نظر یں کتے پر جمی ہو ئی تھیں۔ اس نےان دونوں کی گفتگو صاف سنی تھی۔ یہ کر تل پر کاش
اسے حد درجہ پرا سرار معلوم ہو رہا تھا۔ بظا ہر وہ کتا ب پڑھ رہا تھا لیکن کنکھیو ں سے بار با ران
کی طرف دیکھتا جا رہا تھا۔ دفعتاً ایک خیال اس کے ذہن میں پیدا ہوا۔ اسے آج ہی
اطلا ع ملی تھی کہ مققول رام سنگھ کے کچھ ساتھی اس کے قاتل کی تلاش میں سر گر داں
ہیں تو کیا یہ اجنبی انہی میں سے کو ئی ایک ہے؟ مگر یہ اسے کیسے مل گیا۔ کہیں اس
کی آنکھیں دھو کا تو نہیں دے رہی ہیں ۔ مگر نہیں وہ اسے ہزاروں میں پہچان سکتا۔
حمید ادھر گھتیو ں میں الجھ رہا تھا اور
وہ دونوں نہا یت انہما ک اور گرم جو شی کے ساتھ گفتگو میں مشغول تھے۔ لیکن ان کی
آواز اب زیا دہ صاف نہیں سنائی دے رہی
تھی۔ حمید پھر الجھن میں ابھی ابھی ملا قات ہو ئی تھی اور اتنی جلدی یہ رازداری
کیسی؟ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے
دونوں بر سو ں سے ایک دوسرے
کو جا نتے ہوں۔
تھو
ڑی دیر تک دونوں آہستہ آہستہ باتیں کر تے رہے پھر اٹھ کھڑے ہو ئے۔’’ اچھا کر نل
صاحب ۔ اب چلنا چا ہئے۔ واقعی آپ سے مل کر بڑی خوشی ہو ئی‘‘۔ سر سیتا رام نے کر نل
پر کاش سے ہاتھ ملا تے ہو ئے کہا’’ تو پھر کل آپ آرہے ہیں نا ؟‘‘
ٍ ’’ ضر ور ، ضرور میرے لیے یہ خوشی نصیبی
کم نہیں کہ خلاف تو قع یہا ں اتنی اچھی سو سائٹی مل گئی۔‘‘ کر نل پر کا ش نے ہنستے
ہو ئے کہا۔ وہ دونوں اٹھ کر باغ سے سے با
ہر آئے۔ حمید ، اب سر سیتا رام کے بجا ئے کر نل پر کاش کا تعا قب کر رہا تھا۔ اسے
یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہو ئی کہ کر نل پر کا
ش آر لکچنو ہو ٹل کے انہی کمروں میں ٹھہرا
ہوا تھا جن میں مققول رام سنگھ ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کا شبہ یقین کی سر حد یں چھونے
لگا۔ ضروریہ شخص رام سنگھ ہی کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے رہ رہ کر فریدی پر غصہ
آرہا تھا کہ ایسے وقت میں اسے تنہا چھو ڑ کر خود سیر سپا ٹے کر تا پھر رہا ہے۔
شہناز کی گمشد گی کا خیال اسے بے چین کئے ہو ئے تھا۔ یہ تو وہ کسی طرح سوچ نہیں
سکتا تھا کہ رام سنگھ کے قتل کی سا زش میں
وہ بھی شر یک رہی ہے ۔ اسے پو را پو را
یقین تھا کہ وہ محض اسی لیے غا ئب کی گئی ہے کہ پو لیس اسی کو مجر م تصور کر کے
قاتل کی تلاش چھو ڑدے۔
4
واپسیپر
حمید کو فریدی کا خط ملا۔ اس نے لکھا تھا۔
’’ڈیئر حمید ! کیا بتا ؤں کس پصیبت
میں پھنس گیا۔ یہاں آتے ہی ملیر یا میں مبتلا ہو نا پڑا۔ ابھی تک بجار ہے ۔ فی
الحال سفر کے لا ئق نہیں۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ میراا فر یقی نسل کا
یلو ڈ نگو راستے میں کہیں ٹرین سے لا پتہ ہو گیا۔ یہاں آنے کا اصل مقصد یہی تھا کہ
اسے نما ئش میں شریک کروں۔ اسخت پر یشانی ہے۔ اسے تلاش کرانے کے لیے ہر ممکن طریقہ
اختیار کیا گیا ہے۔ تم بھی خیال رکھنا ۔ شہناز کا سراغ ملا یا نہیں۔ امجھے اس کا
خیال ہے لیکن کیا کروںسخت مجبو رہو ں، اب معلوم ہوا کہ میں نے یہاں آکر بھا ری
غلطی کی –فریدی۔‘‘
حمید نے خط پڑھ کر بیزاری سے ایک طرف ڈال دیا۔
یلو دنگو کا معا ملہ اب بالکل صاف ہو چکا
تھا لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ کر نل پر کا ش ہے کون ؟ اتنی مکاری اور عیا ری
اس نے آج تک کسی کے چہر ے پر نہ دیکھی تھی
جتنی کہ اس کر نل پر کاش کے چہرے پر نظر
آتی تھی اور وہ شرارت آمیز مسکرا ہٹ کتنی
خطر ناک تھی۔ اس کی مسکرا ہٹ اور اس بلی
کی آنکھوں کی وحشیانہ چمک میں جس نے کو ئی
تا زہ شکار پکڑا ہو کو ئی مشتر ک سی چیز
محسوس ہو تی تھی اور چیز خون کی پیاس کے علا وہ اور کیا ہو سکتی ہے۔ سوچتے سو چتے
وہ اٹھ کر فریدی کی لائبر یری میں آیا۔ چاروں طرف الما ریاں کتا بو ں سے بھری نظر
آہی تھیں ۔ وہ ایک الما ری کے قریب آ کررک گیا۔ کچھ دیر تک کتا بو ں کا جا ئزہ
لیتارہا۔ پھر ایک کتاب نکالی جس کا نام ’’ جنو بی
افریقہ کے کامیاب ہندوستانی‘‘ تھا۔ کئی صفحات الٹنے کے بعد مطلب کی چیز مل
گئی۔ وہ پڑھنے لگا’’ کر نل جی پر کاش سی ۔ بی۔ ای جنو بی افریقہ کا کروڑ پتی۔ متعد
دہیروں کی کا نوں کا حصہ دار 1910ء میں ایک مع مولی آدمی کی حیثیت سے افریقہ آیا۔ کافی عر صے تک انگریز شکار یوں کے
ساتھ ہا تھیوں کا شکار کر تا رہا۔ مقصد ہا تھی دانتب کی تجا رت تھا۔ 1915ء میں پرا سرار طر یقے پر اپنی تجا رت
کو فروغ دینے لگا۔ نڈ راور بے باک ہے کئی بار چیتوں کے شکار میں بری طرح زخمی ہو
چکا ہے۔ درندوں کے شکار کا شوق جنو ن کی حد تک رکھتا ہے۔ بہتیرے خو نخوا ر
قسم کے کتے پال رکھے ہیں۔ کتو ں کے متعلق معلومات
میں ید طو لیٰ رکھتا ہے۔ گر میوں کا مو سم ماً سو ئٹز رلینڈ میں گزارتا ہے ۔ زمانہ جنگ کی خدمات سے
متا ثر ہو کر سر کار انگلشیہ نے سی بی ای کے خطاب سے نوازا ۔‘‘ حمید نے
معنی خیزا نداز میں اپنا سر ہلا دیا اور صفحہ الٹ دیا۔ دوسرے صفحے پر کر نل پر کاش
کی تصو یر تھی۔ تصو یر کا چہرہ بھی عیا رانہ تاَ ثرات سے عاری نظر نہیں آتاتھا۔
بہر حال حمید کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا کہ کرنل پر کاش ، رام سنگھ کے گر وہ سے
تعلق رکھتا ہے۔ پھر بھی فریدی کا خوف ناک کتا یلو ڈنگو اس کی الجھن کا با عث بنا ہوا تھا۔ آخر وہ اس سے
اتنی جلدی مانو س کیسے ہو گیا؟ اب وہ سوچ رہا تھا کہ اس سے حاصل کس طرح کیا جا ئے
لیکن جلدہی اس سے اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال پھینکا۔ جب فریدی نے شہناز کی زیادہ
پر وانہ کی تو پھر اس ذلیل کتے کی پر وا
کیو ں کرے۔ اس کی قیمت شہناز سے زیا دہ نہیں ۔ حمیدان خیالا ت میں الجھا ہی ہوا
تھا کہ نو کرنے انسپکڑ سنہا کی آمد کی
اطلا ع دی۔ وہ سخت متحیر ہوا۔ آخیران حضرت
نے آنے کی زحمت کیوں گواراکی۔ وہ لا ئبر یری سے ڈرائنگ روم میں آیا۔ انسپکڑ سنہا
اس کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔’’ تشریف رکھئے۔‘‘ حمید
نے بیٹھتے ہو ئے کہا۔’’ فرما ئیے میرے لا ئق کو ئی خدمت۔‘‘
’’ بھئی دراصل میں آپ کی غلط فہمی دور
کر نے آیا ہوں۔ اس وقت آپ ناراض ہو کر چلےآئے تھے اور میں بھی ایک اشد ضرور ی کام
میں مشغول تھا۔ اس لیےآپ کو مطمئن نہ کر سکا۔‘‘
’’ مطمئن تو آپ مجھے زندگی بھر نہیں کر سکتے۔ جب کہ میں شہناز کی بے گنا ہی سے اچھی طرح واقف
ہوں‘‘ حمیدنے انسپکٹرسنہا کی طرف سگا رکا ڈبہ بڑھا تے ہو ئے کہا۔
’’ فریدی صاحب کہاں تشریف رکھتے
ہیں؟‘‘
’’ایک ماہ کی چھٹی پر ہیں۔‘‘ حمید نے
جواب دیا۔
’’کیا کہیں با ہر گئے ہو ئے ہیں ؟‘‘
’’ جی ہاں کتوں کی عالمی نما ئش
دیکھنے گئے تھے۔ وہاں بیمارہو گئے ہیں۔‘‘
’’اس کے باو جود بھی آپ شہناز کی بے
گنا ہی ثابت کر نے پر تلے ہو ئے ہیں۔‘‘ انسپکڑ سنہا نے کہا۔
’’ کیوں، اس سے کیا؟‘‘
’’تعجب ہے کہ آپ اتنا بھی نہیں
سمجھتے۔‘‘ سنہا نے ہنس کر کہا۔ اگر فریدی صاحب شہناز کو بے گناہ سمجھتے ہو تے تو
اس طرح معا ملے کو کھٹا ئی میں ڈال کر تفریح کر نے نہ چلے جا تے۔‘‘
’’ یہ تو اپنی اپنی طیعت کی بات ہے۔
اب اسے کیا کیا جائے کہ انہیں آدمیوں سے زیادہ کتے پسند ہیں ۔‘‘ حمید نے برا سامنہ
بنا کر کہا۔
’’ یہ بات نہیں حمید صاحب !میں فریدی
صاحب کو اچھی طرح جانتا ہو ں، اگر انہیں شہناز کی بے گنا ہی کا یقین آ جاتا تو وہ
سر دھڑ کی بازی لگا دیتے۔‘‘
’’ مجھ سے زیادہ آپ انہیں نہیں جا
نتے۔‘‘ حمید نے کہا۔
’’اب ہٹ دھر می کو کیا کہا جا ئے۔‘‘
انسپکٹرسنہا نے سگا رکا کش لے کر کہا۔
’’ بہر حال مجھے اس سے بحث نہیں۔
میں اسے مجر م سمجھتا ہو ں اس لیے میں اسی کے مطا بق کام کر رہا ہوں، اور
جو کچھ آپ سمجھے ہیں اس کے لیے آپ کو شش کر تے رہئے ۔ فیصلہ وقت کرے گا۔‘‘
’’ آخرا سے مجرم سمجھنے کی کو ئی وجہ بھی تو ہو۔ ’’حمید نے
کہا۔
’’ اس کے لیے محض شہناز کا غا ئب ہو جانا ہی کافی نہیں
جیسا کہ پہلے کہہ چکاہوں۔ ممکن ہے کہ مجر مو ں نے پو لیس کو غلط را ستے پر لگا نے
کے لیے اسے گا ئب کر دیاہو۔‘‘
’’میں اس وقت آپ کو یہی بتا نے کے لیے
حاضر ہوا ہوں کہ میں اتنا بے وقوف نہیں اس کے لیے میرے پاس بہت ہی پختہ قسم کے ثبو
ت ہیں۔ اتنا میں بھی سمجھتا ہوں کہ مجرم اس قسم کی چال چل سکتے ہیں۔‘‘
خیر صاحب! وہ ثبوت بھی دیکھ لیتا ہو
ں۔‘‘
’’ نہیں آپ مذاق نہ سمجھئے ۔ میں
سنجید گی سے کہہ رہا ہوں۔‘‘ انسپکٹر سنہا
نے جیب سے ایک کا غذ کا ٹکڑا نکالتے ہو ئے کہا ’’ اسے دیکھئے۔‘‘حمید نے کا غذ لے
لر پڑ ھنا شروع کیا۔
’’ تم نے جس ہو شیاری سے اپنا کام
انجام دیاہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی۔ تم آج سے با قا عدہ گروہ میں شامل کرلی
گئیں لیکن اب بہت زیا دہ ہو شیاری کی ضرورت ہے۔ پو لیس کو تم پر شک ہو گیا ہے۔
لٰہذا کچھ دنوں کے لیے یہاں سے ہٹ جا ؤ ۔
بی ٹو آج ایک بجے دن کتھئی رنگ کی کا ر پر
تمہا رے مکان کے سامنے گز ریں گے۔ تم
انہیں سڑک پر ملنا۔ بقیہ کام وہ دونوں خود کر لیں گے۔ بہت زیا دہ احتیا ط کی ضرورت
ہے۔‘‘ پڑھتے پڑھتے حمید کی پیشانی پر پسینہ پھو ٹ آیا ۔ اس کا دل شدت سے دھڑ ک رہا
تھا جس کی دھمک اسے اپنے سر میں محسوس ہو
رہی تھی۔ ہو نٹ خشک ہو گئے تھے۔ اس نے ہو نٹو ں پر زبان پھیر تے ہو ئے کا غذ سنہا
کو دیا۔
’’ بھئی ! یہ ثبوت بھی کچھ ایسا
مستحکم نہیں معلوم ہو تا۔‘‘ حمید نے خود پر قا بو پا نے کی کو شش کر تے ہو ئے
کہا’’ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک طرف مجر موں نے اسے غائب کر دیا ہوادوسرے طرف پو لیس
کا شبہ اور زیا دہ مضبو ط کرنے کے لیے یہ
خط بھی لکھ دیا ہو لیکن آپ کو یہ خط کہاں سے ملا ؟‘‘
’’ یہ خط شہناز کے گھر کی تلا شی لیتے وقت اس کے لکھنے
کی میز کے نیچے پڑا ملا تھا۔ ‘‘ سنہا نے کہا’’ اور گئی امکانا ت کی بات تو یہ بھی
ممکن ہو سکتا ہے کہ میں ہی اصل مجر م ہو ں یا فریدی صاحب محض اصل مجرم ہو نے کی
وجہ سے باہر چلے گئے ہوں یا پھرآپ …امکانا ت کے تحت تو سب ہی کچھ ہو سکتا ہے۔‘‘
’’خیر خیر۔‘‘ حمید نے کتا کر کہا۔’’
ان سب باتوں سے کیا حا صل۔ اصل بات تو ایک نہ ایک دن سامنے آہی جا ئے گی ۔ بہر حا
ل اپنے مشا ہدا ت کی بیا پر شہناز کو بے
گناہ سمجھے پر مجبو ر ہو ں۔‘‘
’’ آپ اس کے لیے قطعی آزاد ہیں۔ ‘‘
انسپکڑ ہنس کر بو لا۔’’ خیالا ت پر تو پا بند نہیں لگا ئی جا سکتی۔‘‘
تھو ڑی دیر کے بعد سنہا اٹھ کر چلا
گیا۔ حمید تک خو دکو مطمئن ضاہر کر نے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سنہا کے جا تے ہی
سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کیا واقعی شہناز مجرم ہے مگر
نہیں کر سکتی۔ اسے بہر حال اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کا بہت خیال تھا۔
مجرم دور سے پہنچا نے جا سکتے ہیں لیکن شہناز کو قریب سے دیکھ کر بھی کبھی اس کے
دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوا تھا کہ شہنا
ز جرم بھی کر سکتی ہے اور پھر ایسا بھیا نک اور دل لر زہ دینے
والاجرم ۔ اس کی فطرت میں نسا ئیت کا رچاؤا
سے کسی ایسے بھیا نک کام کی طرف بھی نہیں
لے جا سکتا۔ پھر آخر یہ بات کیا ہے۔ یہ سب آخر کیسے ہوااور پھر وہ خط ۔ سوچتے سو چتے حمید کا سر چکر ا نے لگا
اور وہ صو فے کی پشت پر سر ٹیک کر نڈ ھا ل ہو گیا۔
5
حمید کا دل بری طرح الجھ رہا تھا۔ کبھی وہ سچ مچ
شہناز پر شک کرنے لگتا اور کھبی
یہ شک محبت کی لہرا پنے ساتھ بہا لے جاتی ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر واقعی وہ خط
شہناز کو ملا ہو تا تو وہ اسے اتنی جلدی بداحتیا طی سے میز
کے نیچے نہ ڈال دیتی اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ پو لیس کا شبہ رفع کر نے کے لیے رو پو ش ہو گئی ۔ ایسی صورت میں
تو اسے یہیں مو جو درہنا چا ہئے تھا نا کہ
پو یس کے شکو ک رفع ہو جا ئیں۔ مگر نہیں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس گروہ کے
لو گو ں نے اسے محض اس لیے غائب کر دیا ہے کہ کہیں پو لیس اس پر جبر کر کے ساراراز ا گلوانہ لے۔
مگر ایسی صورت میں بھی شہناز وہ خط پڑھنے کے بعد ضرور جلا د یتی پھر آخر کیا بات
ہے۔ وہ کتا کر فریدی کے خط کا جواب لکھنے بیٹھ گیا مگر لکھے کیا؟ فریدی کی طرف سے
ایک طرح کی نفرت اس کے دل میں پیدا ہو گئی تھی۔ کچھ نہ کچھ تو لکھنا ہی تھا کیو ں
کہ بہر حا ل وہ اس کا ما تحت ٹھہرا ۔ اس
نے یو ں ہی ایک اسمی خط لکھنا شروع کر دیا
لیکن یلو ڈ نگو کے تذ کرے میں سوائے اس کے اورکچھ نہ لکھا کہ اس کے کھو جانے پر
اسے افسوس ہے ۔ شہناز کے متعلق بھی یہ لکھ دیا کہ وہ ابھی تک نہیں مل سکی۔ اس درمیان میں اس نے کیا کیا اس کے متعلق اس نے
کچھ لکھنا قطعی بیکار سمجھا۔ اس نے مکمل ارادہ کر لیا کہ اس مہم کو وہ اکیلے ہی سر
کر نے کی کو شیش کرے گا اور فریدی کو یہ دکھا دے گا کہ وہ نرا بد ھوہی نہیں ہے۔
آخر اسے بھی تو تر قی ہی ہے۔ کب تک فریدی کا سہا را لیتا رہے گا۔ اس طرح تو شیا ید
اسے زندگی بھر ترقی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ رہ اچھا خاصا جھکی ہے۔ کئی بار چیف
انسپکڑ ی ملی۔ ٹھکرا دیا۔ نہ جانے کس قماش کا آدمی ہے ۔ اس کی بات ہی سمجھ میں
نہیں آتی ۔ کبھی یہ حا ل ہو تا ہے ، چاہے کو ئی واسطہ ہو یا نہ ہو خواہ مخواہ ہر
معا ملہ میں ٹا نگ اڑا ئی جاتی ہے اور جب کوئی خاص موقع آتا ہے تو اتنی صفائی سےالگ ہو جا تا ہے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ۔
حمید کے اور اس کے تعلقات بر ا در انہ تھے لیکن پھر بھی اس نے اس کی پر وا نہیں کی
اور یہا ں سے چلا گیا ۔ اگر شہناز سے اس
کا کو ئی تعلق نہ ہو تا تو شا ید آپ اپنی جان تک کی بازی لگا دیتے۔ حمید جتنا سو چتا جا رہا تھا۔ اس کی طبیعت کی کتا ہٹ بڑھتی ہی گئی۔ دیوار پر لگی ہو ئی
گھڑی آٹھ بجا رہی تھی۔ اس نے سو چا کیوں نہ آر لکچنو ہی میں چل کر دل بہلا یا جا
ئے اور اس طر ح شاید کر نل پر کاش کےمتعلق بھی کچھ معلوم ہو سکے۔ مگر اس کے متعلق
کچھ معلوم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ کیوں کہ وہ تو قطعی غیر متعلق آدمی ہے صو رت سے خطر ناک ضرور
معلوم ہو تا ہے لیکن اس
واقعے سے اس کا کیا تعلق ۔ اس کے پیچھے پڑ نا خواہ مخوا ہ وقت بر باد کرنا ہے ۔ اس
نے کپڑے پہنے۔ پہلے سو چا کہ فریدی کی کارنکال لے لیکن پھر کچھ سوچ کر پیدل ہی چل
پڑا۔ آ گے چل کر ایک ٹیکسی ای اور آر لکچنو کی طرف روانہ ہو گیا۔ اقص گا ہ میں کافی رو نق تھی۔ ابھی ناچ شروغ نہیں
ہو ا تھا۔ لو گ ادھر ، ادھر بیٹھے کچھ کھا پی رہے تھے۔ شراب کے کا ؤ نڑ پرا چھی
خاصی بھیڑ تھی۔ حمید نے اچٹتی سی نضر پو رے مجمعے پر ڈا لی ایک میز پر کر نل پر
کاش بیٹھا کچھ پی رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ کو ئی اخبار بھی دیکھتا جا رہا تھا۔ وہ
اس میز پر تنہا ہی تھا۔ با قی تین کر سیاں خالی تھیں۔ اسی کے قریب ایک اور میز
خالی تھی۔ حمید نے نہ جانے کیوں اپنے لیے وہی جگہ منتخب کی۔ کر نل پر کاش اپنے گر
دو پیش سے بے خبر پڑھ نے میں مشغول تھا۔ اس وقت حمید کو اسے بہت ہی قریب سے دیکھنے
کا مو قع ملا۔ وہ اسے پہلے سے زیا دہ خطر ناک معلوم ہو رہا تھا۔ حمید ادھر ادھر
بیٹھی ہو ئی عو رتوں کو عمداًاس طرح گھو رنے لگا جیسے وہ ایک بہت اوباش قسم کا آدمی ہو ۔ وفعتاً اس نے یو نہی پیچھے مڑ
کر دیکھا۔ لیڈی سیتا رام ہال میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ چپکے سے آکر کر نل پر کاش کے
پیچھے کھڑی ہو گئی ۔ کر نل پر کاش بد ستور پڑھنے میں مشغول رہا۔ لیڈی سیتارام ستا
ئیس سال کی ایک قبو ل صورت عورت تھی۔ اس
کے ہو نٹ بہت زیادہ پتلے تھے۔ جن پر بہت شوخ رنگ کی لپ اسٹک لگا ئی گئی تھی۔ ایسا
معلوم ہو تا جیسے اس نے اپنے ہو نٹ بھینچ رکھے ہوں۔ پیشانی پر پڑی ہو ئی سلو ٹیں بد نما نہیں معلوم ہو تی تھیں۔ وہ چند لمحے اسی
طرح کرنل پر کاش کے پیچھے کھڑی رہی۔ پھر آہستہ سے کچھ کہا اور واپس جانے کے لیے
مڑگئی ۔ کر نل پر کاش چونک کر پیچھے دیکھنے لگا ۔ اس کے چہر ے پر شرارت آمیز مسکرا
ہٹ رقص کر رہی تھی۔ لیڈی سیتا رام اوپر ی
گیلر ی میں جانے کے لیے زینے پر چڑھ رہی تھی ۔ اس کے جانے کے تین چار منٹ معد کرنل
پر کاش بھی اٹھا ۔ اب وہ بھی اس زینے پر
چڑھ رہا تھا۔ حمید حیرت سے پلکیں جھپکا نے لگا۔ یہ بات اس کی سمجھ میں قطعی نہ آئی
کہ لیڈی سیتارام کرنل پر کاش سے اس قسم کی واقفیت کیسے رکھتی ہے۔ جب کہ خود سیتا
رام اس کے لیے قطعی اجنبی تھا اور ان دونو ں کی پہلی ملا قات لا رنس باغمیں خوداسی
کے سامنے ہو ئی تھی۔
آخر
یہ ما جرا کیا ہے ؟حمید تھوڑی دیر تک سو
چتا رہا
کہ اسے کیا کرنا چا ہئے ۔وہ اٹھا بے
پرواہی سے ٹہلتا ہوا خود بھی اسی زینے پر چڑھنے لگا۔ گیلری خالی پڑی تھی۔ اس نے با
لکنی میں جھا نک کر دیکھا وہ دونوں جنگلے پر جھکے ہو ئے با تیں کر رہے تھے ۔ انہی
کے قریب دو کھمنو ں پر نیچے سے آئی ہو ئی لتر پھیلی ہو ئی تھی۔ اوپر آکر لتر نے
اتنا پھیلا ؤ اختیار کیا تھا کہ بالکنی کا وہ حصہ بالکل بے کار ہو گیا تھا۔ سا
رجنٹ حمید دوسرے دروازے سے نکل کر لتر کی
آڑ میں چھپ گیا۔ اس طرف اندھیر ا ہونے کے سبب ادھر والوں کی نگا ہیں حمید تک پہنچنی دشوار تھیں ۔ بہر حال وہ
ایک ایسی جگہ پہنچ چکا تھا جہاں سے ان کی گفتگوکا ایک ایک لفظ صاف سن سکتا تھا۔
لیڈی سیتارام کہہ رہی تھیں۔
’’ کر نل ، تم شاید کو ئی جا دو گر ہو ۔‘‘
’’ کیوں؟ کیوں خیر یت تو ہے۔‘‘ کرنل
پر کاش قہقہہ لگا کر بو لا۔
’’مجھے بتاؤ کہ میں اپنا زیادہ سے
زیادہ وقت تمہا رے ساتھ کیوں گزا رنا چا ہتی ہوں۔ ‘‘
’’ یہ اپنے دل سے پو چھو ۔‘‘ کرنل پر
کاش بہت ہی رو ما نٹک انداز میں بو لا۔
’’ کاش ! میں افریقہ میں پیدا ہو ئی
ہو تی۔‘‘
’’ تب تم اتنی حسین نہ ہو تیں۔‘‘
’’ تو کیا میں واقعی حسین ہو ں۔‘‘
’’ کاش میں تمہا رے حسن کی تصویر
الفاظ میں کھینچ سکتا۔‘‘
’’ ہٹو بی۔‘‘ لیڈ سیتارام نے شر میلے
انداز میں کہا۔
’’ لیڈسیتا رام میں سچ کہتا ہوں کہ …‘‘
’’ دیکھو کر نل، تم میرا نام جانتےہو
۔‘‘ وہ پر کاش کی بات کاٹ کر بو لی۔ ‘‘
مجھے اس منحوس نام سے مت یاد کرو۔
مجھے تکلیف ہو تی ہے۔‘‘
’’ اچھا چلو یہی سہی ۔ ہا ں تو حسین
ریکھا۔ میں ایک سپا ہی قسم کا اکھڑآدمی ہو ں لیکن تمہا ری پیا ری سی شخصیت سے مجھے
بالکل موم بنا دیا ہے ۔‘‘
’’ تم مجھے بے وقوف بنا رہے ہو ۔‘‘
لیڈ ی سیتارام نا ز سے بو لی۔
’’ نہیں ریکھا تم پہلی عو رت ہو جس نے
مجھے اتنا متأ ثر کیا ہے۔ میں ابھی تک
کنوارا ہو ں۔ بعض اوقات سو چتا ہوں کہ کاش تم میرے حصے میں آئی ہو تیں۔‘‘
’’ میرے ایسی قسمت کہاں تھی ؟ ‘‘ لیڈی
سیتا رام سر د آہ بھر کر بو لی ۔
’’ ہا ں اور سنو۔‘‘ کر نل پر کاش اتفا
قاً تمہا رے کھو سٹ ملا قات ہو گئی۔ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوااور کل شام کو
چائے کی دعو ت دی ہے ۔ کتنا لطف رہےگا ۔
جب وہ میرا تعا رف تم سے ایک اجنبی کی حیثیت سے کرا ئے گا۔
مجھے
تو سوچ سوچ کر ہنسی آرہی ہے ۔‘‘
’’ بہت اچھا ہواڈیئر کر نل اب میں تم
سے با قا عدہ مل سکو ں گی۔ میں کتنی خوش قسمت ہوں۔ ‘‘
’’ تم نہیں بلکہ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہاں ایک ایسے انمول ہیر ے کا قریب
نصیب ہوا جس کا ٹا نی دنیا میں نہیں۔‘‘
’’ اور تم ٹھہر ے ہیرو ں کے تا جر۔‘‘
لیڈی سیتارام قہقہہ لگا کر بولی۔ کرنل پر کاش بھی ہنسنے لگا۔’’ آں یہ کون آرہا ہے ؟‘‘
لیڈی سیتارام چونک کر بولی’’۔ میرا بھتیجا سر نید رکمار ۔ اچھا کر نل صاحب اب
تم نیچے جا ؤ میں ابھی آئی ۔ سر یندر کے
سامنے ہمیں ایک دوسرے کے لیے قطعی اجنبی بننا پڑے گا ۔‘‘
’’اچھا میں چلا لیکن یہ تو بتاؤ کہ
اب کب ملیں گے؟‘‘
’’بہت جلد ۔‘‘ لیڈی ا سیتارام نے کہا اور ٹہلتی ہو ئی بالکنی کے دوسرے کنا رے تک چلی گئی۔
تقریباً دس پندرہ منٹ تک وہ وہاں
ٹہلتی رہی۔ پھر وہ بھی نیچے چلی گئی۔ حمید
لتر کی اڑ سے نکلا اور پو ری بالکنی کا چکر لیتا
ہوا دوسرے زینے سے نیچے اتر آیا۔ ناچ شروع ہو چکا تھا۔ کر نل پر کاش ایک نو
عمر لڑ کی کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ لیڈی سیتارام
اور سرر یند رایک کنا رے بیٹھے ہو
ئے کچھ پی رہے تھے۔حمید دونوں کو دیکھتا ہوا بار کی طرف چلا گیا۔ اس کی نیگا ہیں
انہی دونوں پر جمی ہو ئی تھیں۔ سر یند رایک معمو لی جسامت کا مگر خو ب صو رت نو
جوان تھا۔ اس نے سیاہ رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا جو اس پر بہت زیادہ کھل رہا تھا۔
دوسرا راؤنڈ شروع ہونے پر لیڈ ی اسیتا
رام اورسر یند راٹھ کر ٹہلتے ہو ئے گیلر ی کے زینو ں کی طرف گئے۔ دوسرے لمحے میں
دونو ں غا ئب تھے۔ کر نل پر کاش اب ایک دوسرے عورت کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ نہ جانے
کیوں حمید کا دل چاہا کہ ان دونوں کے پیچھے جا ئے وہ ٹہلتا ہوا زینے کے قریب آیا
لیکن یہ دیکھ ٹھٹک گیا کہ کر نل پر کاش کی
نگا ہیں ذراادھر ادھر ہوں اور وہ زینے پر چڑھ جا ئے لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیا ب
نہ ہو سکا۔ کرنل پر کاش کے قدم کچھ مضمحل تھے۔ وہ اس طرح لڑ کھڑ ارہا تھا جیسے وہ
بہت زیادہ پی گیا ہو ۔ اس کے ساتھ ناچنے
والی عورت نے شا ید ا سے محسو س کر لیا تھا۔ لٰہذا وہ اس کی گر فت سے نکل جانے کی
کو شش کر رہی تھی۔ یک بیک کر نل پر کاش نے خودا سے چھو ڑ دیا اور لڑ کھڑ اتا ہوا
زینے کی طرف بڑھا۔
حمید متحیر تھا کہ آخر یہ بات کیا ہے۔
یہ اپر کیوں جارہا ہے۔ کیوں کہ ابھی ابھی لیڈی سیتارام نے اس سے کہا تھا کہ وہ سر
یند رکی مو جودگی میں ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔ حمیدا بھی سوچ ہی رہا
تھا کہ وہ کیا کرے کہ نل پر کاش لڑ کھڑا تا ہوا
نیچے اتر آیا۔ غصے سے اس کے نتھنے پھول رہے تھے۔ نچلا ہو نٹ اس نے اپنے
دانتو ں میں دبا رکھا تھا۔ وہ لڑ کھڑ ا تا ہوا بار کی طرف چلا گیا ۔ حمید نے ادھر
ادھر دیکھا اور دبے پا ؤں زینے پر چڑ ھتا چلا گیا ۔ اب پھر وہ اسی لتر کی آڑ میں
چھپ گیا تھا۔ لیڈی سیتارام اور سر یندرایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جنگلے پر
جھکے ہو ئے تھے۔’’ سر یند رڈارلنگ ،میں اب اس طرح زندہ رہنا نہیں چاہتی ۔‘‘ لیڈی
سیتارام بولی۔
’’ تو آخر اس میں پر یشانی کی کو ن سی
با ت ہے۔ د نیا کی نظروں میں اگر ہم چچی بھیجتے رہ کر ہی زندگی کا لطف اٹھا ئیں تو
کیا حرج ہے۔‘‘ سر یندر نے کہا۔
’’ لیکن مجھے یہ پسند نہیں۔ ‘‘لیڈی
سیتارام نے کہا ۔
’’ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس میں
برا ئی کیا ہے ۔‘‘ سر یند بولا۔
’’میں اس بو ڑھے کھو سٹ کی شکل بھی
نہیں دیکھنا چا ہتی ۔‘‘ لیڈی سیتا رام نے کہا۔
’’ یہ ذرا دشوا ر چیز ہے لیکن تم جو
کہا میں کر نے کے لیے تیا رہو ں ۔‘‘ سر یند ربو لا۔
’’ آؤ کہیں دور چلے جا ئیں ۔ بہت دور
جہا ں ہم دونو ں کے سوااور کو ئی نہ ہو۔‘‘
’’آررر…نہیں وہا ں ہمارا کھا
نا کون پکا ئے گا ۔‘‘ سر یندر ہنس کر بو
لا ’’ شر یر کہیں کے۔‘‘ لیڈی سیتارام نے
کہا اور سریندر او، او ، کرتا ہواایک طرف ہٹ گیا۔ غالباً لیڈی سیتارام نے
اس کے چٹکی کاٹ لی تھی۔حمید نے معنی خیزا نداز میں سر ہلا یا اور چپکے سے گیلر ی
میں آگیا۔
گیا رہ بجے رات کو جب وہ گھر واپس
آرہا تھا تو اس کے ذہن میں عجیب قسم کا انتشا ربر پا تھا۔ عجیب وغریب عورت ہے ۔
ایک طرف تو بھتیجے کو پھا نس رکھا ہے اور دوسرے طرف کر نل پر کاش کو بیو قوف بنا
رہی ہے۔ کر نل پڑے غصے میں نیچے اترا۔ غالباً اس نے بھی ان کی گفتگو سنی ہو گی ۔
دیکھئے اب کیا ہو تا ہے؟ اس کا دماغ پھرا لجھنے لگا لیکن ان سب با توں کا شہناز کے
وا قعے سے کیا تعلق ۔ وہ آخر ان کے پیچھے
کیوں لگا ہوا ہے۔ مگر پھر لیڈی سیتارام ہی
نے تو پو لیس کو شہناز کی طرف سے شہے میں مبتلا کیا تھا اور یہ رام سنگھ کے ساتھ نا
چی تھی۔ یہ ایک فاحشہ عو رت ہے اور رام
سنگھ ایسی عو رتو ں کی تجا رت کرتا تھا۔ یہاں تک تو کڑیاں ملتی ہیں لیکن
پھر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ لیڈی سیتارام ایک دولت مند کی بیو ی ہوہے۔ مفلس تو
ہے نہیں کہ عو رت فروش سے اس کی راہ
سم ہو عجیب وغریب معمہ ہے۔ ایسی پرا ر عورت آج تک اس کی نظر رں سے نہیں گزری تھی۔
کم بخت چہراہ اتنا پر و قار ہے کہ کوئی
بھی اس سے ذلیل حر کتو ں کی تو قع نہیں رکھ سکتا ۔ یہی عو رت جو سو سا
ئٹی میں کافی آزاد خیال ہے۔ رقص گا ہو ں میں مردوں کے ساتھ نا چتی پھر تی
ہے۔ اسے اپنی محبت پر نفرت کی ہلکی سی تہ چڑھتی ہو ئی محسوس ہو نے لگی۔
6
حمید سخت الجھن میں تھا کہ کس طرح سر سیتارام تک رسا ئی حا
صل کرے ۔ اسے اس دلچسپ ڈرا مے کا اخنتام دیکھنے کی آرزوتھی۔ اس سلسلے کے اور حیرت
انگیزواقعات نے اس کی ساری تو جہ منعطف کرالی تھی۔ وہ دیکھنا چا ہتا تھا کہ لیڈی
سیتارام اور کر نل پر کاش جو پہلے سے ایک دوسرے کے گہر ے دوست ہیں ۔ سر سیتا رام
کے سامنے اجنبیو ں کی طرح کیسے ملتے ہیں ۔ وہ دن بھر تمام تد بیریں سو چتا رہا کہ
کس طرح اسی وقت سر سیتا رام کے یہاں پہنچ جا ئے جب کہ کر نل پر کاش بھی وہاں مو جو
دہو ۔ آفس میں بھی اس کا دل نہ لگا اور آفس بند ہو نے کے وقت سے پہلے ہی گھر لو ٹ
آیا۔ جیسے ، جیسے شام نز یک جا رہی تھی ۔ ا س کے اضطرب میں اضا فہ ہوتا جا رہا
تھا۔ وہ ڈرا ئنگ روم میں ایک صو فے پر لیٹا خیالا ت میں گم تھا کہ نو کر نے ایک
ملا قا تی کا رڈ لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔”ڈاکڑ محمود ۔”حمید نے آہستہ سے کہا۔”انہیں اندر بھیج دو ۔”حمید اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"آداب عرض
ہے ، حمید صاحب !" ڈاکڑ محمود نے ڈرا ئنگ روم میں داخل ہو تے ہوئے کہا۔
یہ
ایک ادھڑ عمر کا جامہ زیب آدمی تھا۔ چہر ہ
داڑ ھی مو نچھوں سے صاف تھا۔ اس کے اور فریدی کے
تعلقات بہت اچھے تھے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ جا نوور ں کےاسپتال
کا ا نچا رج تھا اور کتو ں کے امراض کا ماہر ۔ وہ اپنی اسی خصو صیت کی بنا پر او
نچی سو سا ئٹی میں خاص طور پر پو چھا جا نا تھا۔ ویسے وہ خدمتو سط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ خود
نما ئی جیسی بری عادت کا شکار ہو گیا تھا۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایسے لو گ اپنے
طبقے کے لو گو ں میں بیٹھ کر ہمشہ لمبی چو ڑی باتیں کیا کرتےہیں۔ مقصد محض یہ جتا
نا ہو تا ہے کہ او نچی سو سا ئٹیو ں میں ان کی خاص اہمیت ہے ۔ اس کا ملا قا تی کا
رڈدیکھتے ہی حمید کو الجھن ہو نے لگی تھی ۔ ایسے لو گو سے گنفتگو کر نا وہ محض
تضیع اوقات سمجھتا تھا ۔ کیو ں کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ان با تو ں میں نوے
فیصد ی جھو ٹ کی آ میز ش ہو تی ہے۔ خصو صاً ڈاکڑ محمود تو بعض اوقات قدیم شاعر ی
کے مبا لغے کی سر حدوں سے ٹکر ا نے لگتا ہے۔ وہ زیا دہ تر اونچے طبقے کی عورتوں کی
با تیں کیا کرتا تھا۔ مثلاً فلاں جج کی بیوی نے اسے یوں مسکرا کر ایکھا ، فلاں
سیٹھ کی بیوی اس کے ساتھ بھاگ جانے پر آ ما دہ ہو گئی تھی ، فلاں کرنل کی بیوہ بہن
اس پر بری طرح لٹو ہو رہی تھی، فلا ں ایڈ
وکیٹ کی لڑکی تو اس کے لیے زہر تک کا لینے بیٹھی ہے لیکن وہ اس کی ذرہ برا بر بھی
پر وا نہیں کر تا۔ کیو ں کہ خود اس کی
بیوں کئی بچے چکنے کے با و جو د بھی صرف تیرہ برس کی معلوم ہو تی تھی اور اس کے
حسن کا تو یہ عالم ہے کہ شا ید حو ریں بھی
اس کی قسم کھا تی ہوں گی ۔ حمید ،ڈا کڑ محمو د کو دیکھ کر زبر دستی مسکر ا تا ہواا ٹھا ۔ اس سے ہا تھ ملا تے وقت
خواہ مخو اہ گر مجو شی کا مظا ہرہ کرتا
ہوا بیٹھ گیا۔
"کیافریدی
صا حب گھر پر مو جو د نہیں ہیں"؟ڈا کڑ محمود نے بیٹھے ہو ئے کہا۔
"
جی نہیں ، وہ با ہر تشریف لےگئےہیں
۔" حمید نے کہا۔
"بھئی
حمید صاحب کیا بتا ؤں ؟ معلوم نہیں آپ لو گو ں سے اتنی محبت کیوں ہو گئی ہے حالت
یہ ہے کہ اگر زیا دہ دنو ں تک آپ لو گو ں سے نہ ملو ں تو عجیب قسم کی لجھن ہو نے
لگتی ہے ۔"ڈا کڑ محمود نے کہا۔
"محبت ہے آپ کی۔" حمید
مسکرا کر بولا وہ دانستہ طور پر زیا زہ بات چیت نہیں کرنا چا ہتا تھا نا کہ جلدی
ہی پیچھا چھوٹ جا ۓ ۔
"
اس وقت سر سیتارام کے یہاں ٹی پا رٹی میں جا رہا تھا۔ سو چا، لگے ہا تھ آپ لو گو ں
سے بھی ملتا چلو ں ، ویسے مجھے فر صت کہاں ۔ "ڈا کڑ محمود نے کہا" بھٔی
کیا بتا ؤں ؟ میں تو اس ٹی پا رٹی ،وارٹی کو محض تضیع اوقات سمجھتا ہوں مگر کیا
کرو ں یہ لو گ کسی طرح مانتے ہی نہیں۔ اب آج ہی کا واقعہ لے لیجئے۔سر سیتا رام کا
آدمی دعوت نامہ لے کر آیا ۔ میں نے ٹالنے
کے لیے جواب لکھ دیا کہ میں معا ف چا ہتا
ہوں۔ کیوں کہ میرے یہاں مہمان آگئے ہیں لیکن صاحب
بھلا سر سیتارام کہا ں ما ننے لگے۔ فو راً ہی کہلا بھیجا کہ مہمان سمیت آجا
ؤ۔ مر تا جا نا ہی پڑے گا۔ جا کر کہو ں گا کہ مہمان کی طبیعت کچھ خراب تھی اس لیے
وہ نہ آسکے۔"
حمید
کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔ اس نے سو چا کیوں نہ اس مو قعے سے فا ئدہ اٹھا ئے حا لا
نکہ وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ یہ مہمان
والی بات سو فیصدی غپ ہے لیکن وہ پھر بھی کہہ ہی پیٹھا۔
"تو
اس میں پریشانی کی کون سی بات ہے۔ میں آپ کا مہمان بن کر چلا جاؤ ں گا۔"
"
رے آپ کہا ں؟ آپ مذا ق کر رہے ہیں ۔"ڈاکڑ محمود نے جھینپتی ہو ئی ہنسی ہنستے
ہو ئےکہا۔
"
نہیں میں سنجید گی سے کہہ رہا ہوں۔"حمید نے کہا۔
"اور
اگر کسی نے آپ کو پہچان لیا ؟"ڈاکڑ محمود نے پیچھا چھڑا نےکے لیے کہا "
مجھے بڑی شرمند گی اٹھا پڑے گی ۔"
"کمال کر
دیا آپ نے ۔"حمید نے ہنس کر کہا ۔"ارے صاحب میں بھیس بدل کر چلو ں گا۔"
"
تب تو آپ واقعی مذاق کر رہے ہیں۔"ڈاکڑ محمود نے قہقہہ لگا کر کہا۔
"بخدا،
میں مذاق کر رہے ہیں ۔" حمید نے
کہا۔"بات یہ ہے کہ مجھے سر سیتا رام کے کتو ں کو دیکھنے کا بے حد شو ق ہے ۔ میں نے
کئی بار کو شش کی کہ وہا ں تک پہنچوں مگر
کو ئی معقو ل بہا نہ ہا تھن نہ آسکا ۔"
"
اگر یہ بات ہے تو میں کسی مو قع پر آپ کوان سے ملا ؤ ں گا۔" ڈاکڑ محمود نے
کہا۔
"
آپ جانتے ہیں کہ ہم لو گو ں کو اتنی فر صت
کہاں۔ آج کل خوش قسمتی سے کو ئی کیس نہیں ہے ۔
اس لیے فرصت ہی فرصت ہے۔ ور نہ معلوم نہیں کب اور کس وقت پھر مصروف ہو نا
پڑے۔"
"مگر۔"ڈاکڑ
محمود نے بات کا ٹتے ہو ئے کہا۔
"اگر
،مگر کچھ نہیں۔ میں اس وقت آپ کے ساتھ ضرو ر چلو ں گا ۔"حمید نے کہا۔
"
آخر آپ کو پریشانی کس بات کی ہے؟ جب کہ سر سیتا رام آپ کو مہمان سمیت مد عو کر چکے
ہیں۔"
"پر
یشانی کی کو ئی بات نہیں۔ سو چتا ہو ں اگر آپ بھیس بدلنے پر پہچان لیے گئے تو بڑی
خرابی ہو گی ۔" ڈاکڑ محمود نے زچ ہو کر کہا۔
"اس کا ذمہ
میں لیتا ہو ں ۔"حمید نے سینے پر ہا تھ مار کر کہا۔" اگر کو ئی پہچان لے
تو میں مبلغ ایک ہزارو پے آپ کی خدمت میں
پیش کروں گا۔ کہئے تو اس کے لیے
تحر یر دے دوں ۔" ڈاکڑ محمود مز یدا لجھن میں پڑ گیا ۔ وہ ٹی پا ر ٹی میں مد
عو ضرورتھا لیکن مہمان والی بات اس نے محض اپنی بے پر وا ئی اور او نچے طبقے کی
اپنی نضرو ں میں کو ئی اہمیت نہ ہو نے کے اظہار کے لیے یوں ہی کہہ دی تھی ۔ اب اسے
اپنی حمیا قت پر سخت افسوس ہو رہا تھا ، لیکن اب ہو ہی کی اسکتا تھا۔ تیر کمان سے
نکل چکا تھا۔ مجبو راًا سے حمید اسے ڈرا ئنگ روم میں بٹھا کر خو د چلنے کی تیار ی کر
نے کے لیے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ ڈا کڑ محمود بیٹھا پیس رہا تھا۔ خو اہ مخوا ہ
کی بلا گلے لگ گئی۔ وہ ہمشہ ایسی باتو ں سے کترا تا تھا جن سے اونچی سو سا ئٹی میں
اس کی سبکی بن بلا ئے مہمان کو اپنے ساتھ
ایسی جگہ لے جانے سراسر تہذیب کے خلاف سمجھا جاتا ہے ۔ متو سط طبقے کی زندگی میں
تو خیر جا ئز ہے لیکن اعلیٰ طبقے کے افرادان با توں کا خاص خیال رکھتے ہیں ۔ محمو د بیٹھا الجھ رہا تھا کہ ایک
پرانی وضع کے مسلمان رئیس نے ڈرا ئیس نے ڈرائنگ روم میں داخل ہو کر کہا " اسلام علیکم۔" ڈاکڑ
محمود چونک کر کھڑا ہو گیا۔ آ نے والے ظا ہر ی جا ہت اسے بری طرح مر عو ب کر رہی
تھی ۔ کیا "فریدی صاحب تشریف رکھتے ہیں؟"
آنے
والے نے بے تکلفی سے بیٹھے ہو ئے کہا۔
"
جی نہیں ! وہ تو با ہر تشریف لے گئے ہیں۔"ڈاکڑ محمود نے جلدی سے کہا۔
"آپ
کی تعریف ؟" اجنبی نے ڈاکڑ محمود کی طرف
دیکھنے ہو ئے کہا۔
"مجھے
ڈا کڑ محمود کہتے ہیں ۔ جانور وں کے اسپتا ل کا انچا رج ہوں۔"
"
بہت خوب آپ سے مل کر بہت خوشی ہو ئی
۔" اجنبی نے ہا تھ ملا تے ہو ئے کہا اس کے بعد خاموش چھا گئی ۔
"آپ
نے میری تعریف نہیں پو چھی۔ انتہا ئی بدا
خلاق معلوم ہو تے ہیں آپ۔"
"اجنبی
نے برا سامنہ بنا کر کہا۔ ڈاکڑ محمود بڑا کر ہکلا نے لگا۔
"
گھبراؤنہیں پیارے ڈاکڑ…اجنبی نے قہقہہ لگا کر کہا" جب تم مجھے نہیں پہچان
سکے تو پھر کون ما ئی کا لال پہچان سکے
گا۔"
"
ارے حمید صاحب !" ڈاکڑ نے اچھل کر کہا"خدا کی قسم کما ل کر دایا۔"
"اچھا۔
تو اب اچھی طرح سمجھ طرح سمجھ لیجئے میری
تعریف یہ ہے ۔" حمید ہنس کر بو لا۔
"
خان بہا در مجا ہد مر زا، اددھ کا بہت بڑا
تعلق دار کیا سمجھے ؟اور کتو ں کا
شوقین۔"
"
سمجھ گیا۔ اچھی طرح سمجھ گیا۔ مجھے اب کو ئی پریشانی نہیں۔"ڈاکڑ محمود نے کہا۔ دونو ں کا پر بیٹھ کر سیتارام کی کو
ٹھی کی طرف روانہ ہو گئے ۔ کو ٹھی کے پا ئیں باغ میں ایک بڑ ی سی میز بچھی ہو ئی
تھی جس پر دعوت کا سا ما ن سلیقے سے چنا
ہوا تھا۔ سر سیتارام ، لیڈی سیتارام ، سر یندر اور دوایک دوسرے آدمی کر یسو ں پر
بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ کر نل پر کاش
ابھی نہیں آیا تھا۔ ڈاکڑ محمود کے پہنچنے پر سب لو گ کھڑے ہو گئے ۔ اس کے ساتھ ایک قدیم وضع کے
اجنبی کو دیکھ کر لیڈی سیتا رام نے برا سامنہ بنا یا۔ سر سیتا رام کا مو ڈ بھی کچھ
خراب ہو گیا۔
"
سر سیتا رام آپ سے ملئے"۔ ڈاکڑ محمود نے مسکرا کر کہا۔" آپ ہیں میرے
دوست خان بہادر،مجا ہد مر زا، اور دھ کے
بہت بڑے تعلق دار ، آپ کا سلسلۂ نسبت واجد علی شاہ مر حوم سے ملتا ہے ۔"
"اوہ
، بہت خوشی ہو ئی آپ سے مل کر ۔" سر سیتا رام نے اٹھ کر گرم جو شی سے ہاتھ ملا تے ہو ئے کہا۔
"مجھے
آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا۔" حمید نے کہاں آرہے تھے۔ میں نے سو چا لگے
ہا تھ آپ سے بھی مل لوں ۔"
"
ارے خان بہا در صا حب یہ خا نۂ بے تکلف
ہے۔"سر سیتا رام نے کہا۔
" میری خوش قسمتی ہے کہ اس طرح آپ سے نیاز حا صل
ہوا ۔"
"خلو
ص ہے آپ کا۔" حمید نے مسکرا کر کہا" دراصل مجھے جو چیز یہاں تک کھینچ لا
ئی ہے وہ آپ کت کتے ہیں ۔ مجھے بھی کتو ں کا شوق ہے۔"
" تب تو آپ سے مل کر اور ابھی
خوش ہو ئی ۔"سر سیتارام نے بچوں کی طرح ہنستے ہو ئے کہا اور لیڈی سیتارام نے نفرت
سے ہو نٹ سکو ڑ لیے۔ سر سیتارام اور حمید میں کتوں کے متعلق لمبی بحث چھڑ گئی ۔
دونو ں ہی اپنی معلوما ت زیا دہ سے زیا دہ مظا ہر ہ کرنا چا ہتے تھے۔ طے پا یا کہ
چا ئے پینے کے بعد سیتارام کے کتا خانے کی سیر کی جا ئے کی۔ دیر کے بعد کر نل پر
کاش بھی آگیا۔ وہ اس وقت پہلے سے زیا دہ
شا ندا ر نظر آرہا تھا۔ اسے دیکھ کر سب لوگ کھڑے ہو گئے۔ سر سیتارام زیا دہ گر
محوشی کے ساتھ اس کا استقبال کرنے کے لیے بڑھے ۔"آیئے، آئیے کر نل صاحب ! ہم
سب بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔"
"
شکر یہ، شکر یہ ۔" کر نل پر کاش مسکرا تا ہوا بو لا۔
"
ان سے ملئے۔" سر سیتا رام نے تعا رف کر انا شروع کیا" ریکھا میری بیوی
۔"
"
بڑی خوش ہو ئی آپ سے مل کر ۔" کر نل پر کاش نے ہا تھ ملا تے وقت قدرے جھک کر
کہا۔ لیڈی سیتا رام کے ما تھے پر پسینے کی ہلکی ہلکی بو ندیں پھو ٹ آئی تھیں۔ ہا
تھ ملا کر ز بر دستی مسکرا نے کی کو ششیں کر تی ہو ئی خاموشی سے بیٹھ گئی۔ اس کے
بعد فرداً فر داًسب سے تعا رف ہوا۔ حمید محسوس کر رہا تھا کہ کر نل پر کاش کی نظر بار
باراس پر پڑرہی ہے۔ وہ کچھ گھبراسا گیا
لیکن فو راً ہی خو د پر قابو پا کر مسکرا مسکرا با تیں کر نے لگا۔ لیڈی سیتارام بد
ستور خا موش تھی ۔ غا لبًا سر سیتارام نے بھی اسے محسوس کر لیا تھا۔ لٰہذا ایک مو
قع پر بے اختیار کہہ ا ٹھے۔
" کر نل صاحب ریکھا کو زیادہ با
تیں کر نے کی عا دت نہیں اور جنبیوں سے وہ کچھ شر با تی بھی ہے۔"
"خوب یہ تو اچھی عادت
ہے۔"کر نل پر کاش نے مسکرا کر کہا۔" کم از کم ہر شریف عورت میں یہ صفت
تو ہونی ہی چا ہئے۔ کیا خیال ہے نواب صا حب ۔"
"
بجا ار شاد ہوا۔" حمید نے کہا۔
چا
ئے کا دور ختم ہو جانے کے بعدسر سیتا رام سب کو لے کر کتا خانے کی طرف چلے گئے۔ کر
نل پر کاش اور حمید نے کتوں کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلا بے ملا نے شروع کیے۔
ایک کتے کی نسل کے بارے میں دونوں میں بحث ہو گئی۔ دونوں کسی طرح چپ ہو نے کا نام
ہی نہ لیتے تھے۔حمید ما ت پر پورا بھرو سا تھا۔ کیوں کہ وہ بھی فریدی جیسے ما ہر
کا صحبت یا فتہ تھا۔ بحث کو طول پکڑ تے دیکھ کر آخر کا ر سر سیتارام کو بیچ بچاؤ
کرانا پکڑا۔ سب کتوں کو دیکھ لینے کے بعد وہ پھر باغ میں پڑی ہو ئی کر سیوں پر آ بیٹھے۔
"
اچھاسر سیتارام اب میں اجازت چا ہوں گا۔"کر نل پر کاش نے کہا۔" ایسی بھی
کیا جلدی ہے۔"
"ذرامجھے
تجارتی معا ملات کے سلسلے میں ایک صاحب سے ملنا ہے۔" کر نل پر کاش نے اٹھتے
ہو ئے کہا۔
"
اب تو برابر ملا قات ہو تی رہے گی نا۔" سر سیتارام نے بھی اٹھتے ہو ئے کہا۔
"
جب تک یہاں مقیم ہوں، آپ کا دم غنیمت ہے
۔ یہاں اور کا ئی اچھی سو سا ئٹی ابھی تک ملی ہی نہیں۔"
سر
سیتا رام نے دانت نکال دیے۔ کرنل پر کاش کے رخصت ہو جانے پر بقیہ لوگ بھی ایک ایک
کر کے اٹھ گئے۔
"
جب بھی یہاں تشریف لا یئے گا، غریب خانے کو نہ بھو لئے گا ۔" سر سیتا رام نے
حمید سے کہا۔
"ضرور،
ضرور، آپ کے اخلاق نے میرے دل پر گہراا ثر ڈالا ہے۔ کبھی لکھنؤ تشریف لا یئے
۔"
"
کیا بتا ؤں، نہ جانے کیوں اب اگھر چھو ڑتے وقت کچھ الجھن سی محسوس ہو تی
ہے۔"
حمید
، یو ں ہی خواہ مخواہ ہنسنے لگا اور اس کی نگاہ لیڈی سیتارام کی طرف اٹھ گئی جواسے
بہت غو رسے دیکھ رہی تھی۔
7
حمید کو اپنی حما قت
پر سخت افسوس ہوا کہ اس نے یہ کیوں کہہ دیا کہ وہ آج ہی رات کی گاڑی سے لنکھؤ واپس جا رہا ہے۔اب اس طرح فی الحال وہ
وہاں نہ جا سکے گا۔ اسے فریدی کی ہدا یت یا د آگئی کے اندر جانے کی کو شش نہ کرنا
۔ معلوم نہیں اس نے یہ کیوں کہا تھا۔ حمید سو چنے لگا ۔ کیا ہو گا، اپنا اپنا
طریقہ کا رہے۔ جب فریدی کو اس کیس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تو وہ خواہ مخواہ کیوں
اس کی ہدا یتوں کے چکر میں پڑکر اپنا کا م خراب کرے۔ اب وہ پھر کر نل پر کاش کے
پیچھے لگ گیا تھا۔ دو تین روزاسی قسم کے چکر وں میں گز ر گئے لیکن کو ئی کا ر آمد بات نہ معلوم ہو سکی۔ ان تین چارو نو
ں میں لیڈی سیتا را م اور کر نل پر کاش با
قا عدہ طور پرکھلم کھلا ایک دوسرے سے
ملنے لگے تھے۔ لیڈی سیتارام اب آر
لکچنو میں سر یندر کے سامنے بھی کر نل پر
کاش کے ساتھ ناچ سکتی تھی۔ حمید محسوس کر رہا تھا کہ سر یندر کو کرنل پر کاش اور
لیڈی سیتارام کی بے تکلیفی پسند نہیں۔ حمید کو حیرت تو اس بات پر تھی کہ کرنل پر
کاش لیڈی سیتارام اور سر یندر کے تعلقات کے بارے میں جانتے ہو ئے کیوں اس پر اس پر
اس بری طرح ریجھا ہوا ہے۔ بار بار اس دل میں خوا ہش پیدا ہو
ئی پیدا ہو ئی کہ کاش فریدی یہا ں مو جو
دہو تا ۔ اسے اس
درمیان فریدی سے تھو ڑی سی چڑ
ضرور گئی تھی لیکن وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اگر وہ یہا ں مو جو د ہو تا تو کبھی
کا سا را معا ملہ حل ہو گیا ہو تا۔ اس کو اب افسوس ہو رہا تھا کہ کیوں نہ اس نے
فریدی کو سارے حالا ت لکھ دیے۔ اس طرح ممکن تھا کہ وہ ایسے عجیب و غریب معمے کو حل
کرنے کے شوق میں بیماری ہی کی حالت میں چالا آتا۔
ان دنوں اسے شہناز کی یا دبری طرح سیتا رہی تھی۔ اسے اس کی بے گنا ہی کا پورا پورا یقین
تھا۔ ویسے کبھی کبھی وہ اس کی بڑھی ہو ئی آزادی اور لیڈی سیتارام کے عادات واطوار
کو سامنے رکھتے ہو ئے اس کی ساری عو رتیں یا سارے مر دایک جیسے نہیں
ہو تے ۔ عشق ومحبت کے معا
ملے میں وہ ایک کھلنڈ را اور آ دمی
تھا۔ اس کا عقید ہ تھا کہ قیس و فر ہاد قسم
کی محبت کا دنیا میں و جود ہی
نہیں تھا۔ اس نے اب سے پہلے بھی کئی عشق کئے تھے لیکن وہ ضرو ف فلمی گا نوں اور بے تکی ہا ئے وائے ہی تک محدودر ہے
تھے اور ویسے وہ فریدی کو چڑا نے کے لیے بھی اکثر ایک آدھ عشق کر
بیٹھتا تھا۔ ایسی کہا نیوں کے محبوب عمو
ماًفرضی ہوا کرتے تھے ۔ شہناز سے بھی اس کی محض دوستی تھی لیکن اس درمیان میں اسے
اس سے حددرجہ ہمد ردی ہو گئی تھی اور یہ
ہمدردی آہستہ آہستہ دوسری شکل اختیار کر
تی جا رہی تھی لیکن ایسا بھی نہیں ہوا تھا
کہ اس نے اپنی کو ئی رات تارے گن گن کر گزا ری ہو ہا
محض آہیں بھر نا شعار کر لیا ہو۔ دونوں وقت پیٹ بھر کر کھا نا کھا تا تھا۔ آرلکچنو
میں جا کر ایک آدھ راؤ نڈ نا چتا بھی تھا
لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ ضرورتھا یہ ضرورتھا کہ وہ شہناز کو حا صل کرنے کے لیے اپنی
جان کی بھی بازی ضرور لگا سکتا تھا۔ اپنے خون کا آخری قطرہ بھی صرف کر سکتا تھا۔
آج شام کو جب وہ آفس سے واپس آیا تو سے فریدی کاخط ملا۔ جس
میں اس نے سب سے پہلے شہناز کے بارے میں پو چھا تھا۔ پھر یلو ڈنگو کا نو حہ تھا
اور آخر میں اپنی بیماری کاحال لکھا تھا۔ وہ ابھی تک بیمار تھا۔ نقا ہت زیا
دہ تھی اس لیے سفر کرنے کی ہمت نہیں کر
سکتا تھا۔ آخر میں اس نے پھر تا کید لکھی تھی کہ اسے کل حالا ت سے مطلع
کیا جا ئے ۔ فریدی کا خط پڑھ کر حمید کے دل میں ہمدردی کے جذ بات جاگ اٹھے۔ وہ
محبت جاگ اٹھی جوا سے فریدی سے تھی۔ اسے
فریدی سے اتنی ہی محبت تھی جتنی کہ اپنے بڑے بھا ئی سے ہو سکتی ہے ۔ اگر فریدی نے
اسے یہ نہ لکھ دیا ہتا کہ تم پر یشان ہو
کر یہاں آنے کی کو شش نہ کر نا بلکہ شہناز کے سلسلہ میں تفتیش میں مشغول
رہنا تو وہ ایک آدھ ہفتے کی چھٹی لے ممبئی ضرور جا تا اور جس طرح بھی بن پڑ تا
فریدی کو وہاں سے لانے کی کو شش کر تا۔
نا شتہ کر نے کے
بعد حمید نے فریدی کو لکنا شروع کیا۔ سارے حالا ت مفصل لکھے یلو ڈنگو کا حوالہ
دیتے ہو ئے لکھا کہ محض اس کی وجہ سے اسے اتنی باتیں معلوم ہو گئیں اور وہ بہت
جلدی اسے کرنل پر کاش سے قا نو نی طور پر
چھین لے گا۔ خط ختم کر چکنے کے بعد وہ سو گیا۔
آج رات کو آر لکچنو میں خاص پر و گرام تھا۔ ٹکٹ کا دام اتنا
بڑ ھا دیا گیا تھا کہ زیادہ تر صرف اعلیٰ طبقے
ہی کے لو گ اس میں حصہ لے سکتے تھے۔ کرنل پر کاش کی در یا فت کے لیے ضروری ہو گیاتھا۔ تقر یباً آٹھ بجے
وہ سو کرا ٹھا ۔ نا وقت سو نے سے
طبیعت کچھ کسل مند ہو گئی تھی لیکن کا فی
کے ایک گرام پیا لے نے اس کے جسم میں حرارت وتوا نا ئی پیدا کر وی۔ کھا نے سےفارغ
ہو کر اس نے جلدی جلدی لباس تبدیل کیا۔ اور آرلکچنو کی طرف روانہ ہو گیا آرلکچنو کی رقص
گاہ آج با لکل انو کھے انداز میں سجا ئی
گئی تھی۔ چا روں طرف قہقہوں کے فوارے
ابل رہے تھے۔ حمید کی نگا ہیں کر نل پر
کاش اور لیڈی سیتارام کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ لیکن وہ دونوں ابھی تک نہیں آئے تھے۔
حمید اوپر گیلری میں گیا۔ با لکنی بھی خالی تھی۔ پھر ٹہلتا ہوا کر نل پر کاش کے
کمرے کی طرف گیاوہ بھی بند تھا۔ تھک ہار کر
وہ ہال میں لوٹ آیا۔ ایک جگہ ایک میز خا لی نظر آئی ۔ قریب جانے پر معلوم
ہوا کہ وہ کر نل پر کاش کے لیے پہلے ہی سے "مخصوص" کردی گئی ہے ۔ایک
میز کے گر ددوا ینگلو انڈین لڑ
کیاں بیٹھی ہو ئی تھی۔ بقیہ دو کر سیاں
خالی تھیں ۔ وہ ان کے قریب آگیا۔
"اگر
کو ئی حرج نہ ہو تو میں یہاں بیٹھ جاؤں۔" حمید نے کہا۔
"ضرور
، ضرور۔" دونوں بیک وقت بو لیں۔
حمیدان کا شکر یہ ادا کر کے بیٹھ گیا وہ یو ں بھی کافی حسین تھا اور اس وقت عمدہ
قسم کے سیاہ سو ٹ میں وہ کو ئی ذی حثییت اینگلو نڈین معلوم ہو رہا تھا۔ غا لباً وہ
دونوں بھی اسے اینگلو انڈین سمجھتی تھیں۔حمید نے بیٹھے ہی ان پر رعب ڈالنے کے
لیےکچھ کھانے پینے کی چیزوں کا آرڈردیا۔
"آپ
ہم لو گو ں کے لیے تکلیف نہ کیجئے ۔" لڑ کیو ں میں سے ایک بو لی۔
"واہ
یہ کیسے ممکن ہے۔" حمید نے مسکرا کر کہا۔
"
معاف کیجئے گا ۔ ہم لو گ ایسے لو گوں کی
دعو ت قبول نہیں کرتے جنہیں ہم جا نتے نہ
ہوں۔"
"
تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اب آپ مجھے جان جائیں گی۔ مجھے آرتھر کہتے ہیں۔ آپ کے
شہر میں نوواردہوں۔ "
دونوں
لڑ کیاں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگیں۔"یہ جو لیا ہے اور میں لزی ۔ ہم
دونوں اسٹو ڈنٹ ہیں۔"
"
کتنے پیارے ہیں آپ دونوں کے نام ، جو لیا، لزی ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے کسی نے
کانوں میں شہد ٹپکا دی ہو۔"
"
تو آپ شاعر بھی ہیں۔" جو لیانے مسکرا کر کہا۔
"
کاش میں شاعر ہوتا۔ جو لیا، لزی ،لزی ، جو
لیا۔"
اتنے
میں بیر اطلب کی ہو ئی چیزیں لے کر آ گیا
۔ تینو ں کھانے پینے میں مشعول ہو گئے ۔ تھو ڑی دیر کے بعد ناچ
کے لیے مو سیقی شروع ہو گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں ناچ کے لیے
کس سے درخواست کروں۔ " حمید نے کہا۔
"ہم
دونوں با ری باری سے نا چیں گے ۔" جولیا نے کہا اور لزی اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔ حمید نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا
یا " تم نے بہت زیا دہ پی رکھی
ہے۔"لزی مسکرا کر بو لی۔
"
میں نے !نہیں ایک قطرہ بھی نہیں۔"
"
کون سی پیتے ہو ؟"
"
اسکاچ۔" حمید نے جلدی سے کہا" لیکن میں نے اتوارکے روز پینے سے قسم کھا
رکھی ہے ۔"
"
کیوں؟
"
میں تھو ڑا سامذ ہبی آدمی بھی ہوں۔"
"
یہ بہت بری بات ہے۔"
"
اچھی ہو یا بری۔ اصول بہر حال اصول ہے۔" حمید نے کہا
"تم
کون سی پیتی ہو؟"
"
شیری۔"
"
اچھا تو میں تمہیں شیری ضرور پلا ؤں گا۔"
"
تم بہت حسین ہو۔"
"
ایک برایک بڑھیانے بھی مجھ سے یہی کہا تھا۔"لزی کھل کھلا کر ہنس پڑی۔
"
تم بہت دلچسپ آدمی معلوم ہو تے ہو۔"
"
تم جیسی خوبصورت لڑ کیوں کا قرب مجھے سب کچھ بنا دیتا ہے۔"
"
با تیں خوب بنا لیتے ہو۔"
"
میں روز نہ ایک درجن باتیں بنا تا ہوں اور انہیں پیک کر کے لیے با زا ر میں بھیج دیتا ہوں۔"
"تم
ضرور پئے ہو ئے ہو۔"
"
تمہا ری ستا روں سے زیادہ چمک دارآ نکھو ں کی قسم میں نشے میں نہیں ہو ں۔"
"خیر
ہو گا! تم بہت اچھا ناچ لیتے ہو۔" وفعتاً حمید کی نضر یں اس میز کی طرف
اٹھ گئیں جو کرنل پر کاش کے لیے مخصوص
تھی۔ شاید کر نل پر کاش ،لیڈی سیتارام اور سر یندر ابھی ابھی آکر بیٹھے تھے۔ لیڈی
سیتارام اس وقت بہت زیا دہ جچ رہی
تھی ۔ تھو ڑی دیر سستا نے کے بعد کر نل پر
کاش اور لیڈی سیتارام ناچنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ حمید اور لز ی کئی بار نا چتے ہو ئے کر نل پر کاش اور لیڈی سیتارام کے قریب سے گزرے۔ لیڈی سیتارام
شراب کے نشے میں بد مست تھی۔ رقص کی مو سیقی رفتہ رفتہ تیز ہو تی جا رہی تھی کہ ا چانک پو رے ہال میں اند
ھیر اچھا گیاتھا۔ شاید فیو زاڑ گیا تھا۔ اندھیر ے میں عجیب قسم کا ہیجان بر پا ہو
گیا۔ دفعتاً ایک عورت کی چیخ سنا ئی دی۔
"ارے، ارے…چھو ڑ …ارے چھوڑ…میراہار …میرا ہار۔" وہ بری طرح چیخ رہی تھی۔ اسی کے ساتھ اور
بھی کئی تیز قسم کی آوازیں سنائی دینے
لگیں۔ چند لمحوں کے بعد پھر روشنی ہو
گئی ۔ ایک جوان عورت جو لباس سے کافی دولت
مند معلو م ہو رہی تھی۔"میرا ہار، میرا ہار۔"ابھی تک چیخے جارہی تھی۔
لوگ اس کے گر داکٹھا ہو گئے ۔" کسی
نے میرا ہیروں کا ہاراتا رلیا۔" وہ چیخ کر بو لی۔
اتنے
میں منیجر بھی آگیا۔ اس نے ہال کے سب
درواز ے مقفل کرادیے ۔
"خوا
تین و حضرات !" وہ ایک میز پر کھڑ ہو کر بو لا۔
"
مجھے سخت افسوس ہے کسی بد معاش نے لیڈی
اقبال کا ہار چرا لیا۔ مجبو راً مجھے اس وقت تک کے لیے سب درواز ے مقفل کرا
دنیے پڑے جب تک کہ پو لیس آ کر کو ئی کا
رروائی نہ شروع کر دے ۔ امید ہے کہ آپ لو گ مجھے اس گستا خی پر معاف فر ما ئیں
گے۔"
"
بالکل ٹھیک ہے ۔ بالکل ٹھیک ہے۔" بہت سی آواز یں سنائی دیں۔ کچھ دیر بعد پو لیس آ گئی ۔ ایک سرے
سے سب کی تلاش شروع ہو گئی ۔ تلا شی لینے
والوں میں انسپکڑ جگد یش بھی تھا جب وہ حمید کے قریب آیا تو حمید نے بھی اپنے ہا
تھ او پرا ٹھا دیئے۔
"
ارے آپ ؟" جگد یش ٹھٹک کر بو لا" کیو ں مذاق کرتے ہیں۔" وہ آگے
بڑھنے لگا۔
"
ٹھہر ومیری تلاشی بھی لیتے جاؤ۔"حمید نے آہستہ سے کہا۔ جگد یش بھی ٹھٹک
گیا۔" جلدی کرو ۔ہچکچا ؤ نہیں۔ مصلحت یہی ہے اور میرے لیے بالکل اجنبی بنے
رہو۔"جگد یش نے حمید کی بھی
تلاشی لی اور آگے بڑھ گیا۔ حمید خود بھی اپنی تیزنضر وں سے برابر کام لے
رہا تھا لیکن اسے اچھی طرح یقین ہو گیا
تھا کہ چو راس وقت ہال میں موجود نہیں ۔ کیوں کہ عو رت کے چیخنے کے دو یا تین
منٹ بعد تک ہال میں اندھیرا رہا تھا۔
اس وقفہ میں چو رنہا یت آسانی سے باہر جا
سکتا تھا۔ اس وقت کی تلاشی لینی محض رسمی
کا ر روا ئی سمجھ رہا تھا۔
تلاشی
کا سلسہ تقر یباً تین گھنٹے تک جاری رہا
لیکن کو ئی نتیجہ بر آمد نہ ہوا ۔ آخر تھک
ہار کر پو لیس والوں نے دروازے کھلوادیے تھو ڑی دیر بعد ہال میں بالکل سنا ٹا تھا۔صرف
وہی لوگ باقی رہ گئے تھے جو آر لکچنو میں مستقل طور پر ٹھہرے ہو ئے تھے۔
لیڈی سیتارام اور سر یندر بھی ابھی مو جود تھے۔ انہی کے قریب کی ایک میز پر حمید
بھی کافی پی رہا تھا۔ پو لیس والے کچھ دیر ٹھہر کر واپس چلے گئے لیڈی اقبال ابھی
تک منیجر سے الجھی ہو ئی چیز ہو ٹل کو
بد نامی سے نہیں بچا سکتی تھی ۔" اب چلنا چا ہئے۔" لیڈی سیتا رام بو لی۔
" ایسی بھی
کیا جلدی ۔" کر نل پر کاش نے کہا ۔" کچھ دیر چل کر میرے کمرے میں بیٹھئے
پھر چلی جا یئے گا۔ کیوں سر یندر صاحب ۔"
"مجھے کو ئی اعتراض نہیں۔" سریندر نے کہا۔ تینوں
اٹھ کر زینے کی طرف بڑھے ۔ حمیدان کا پیچھا کر نے کی خواہش کو کسی طرح نہ دبا سکا۔
وہ اس وقت خاص طور پر کرنل پر کاش کا پیچھا کر نے کا عا دی ہو گیا تھا۔ جب لیڈی
سیتارام بھی اس کے ساتھ ہو تی تھی اور اس وقت تو سر یندر
بھی موجود تھا۔ کر نل پر کاش کا رقیب ،اس وقت ان کا پیچھا کر نے کی سب سے
بڑی وجہ یہ تھی کہ آخر کر نل پر کاش نے ان دونوں کو اتنی رات گئے روکا
کیوں ہے ؟ حمید بھی اٹھا ، زینے طے کر کے وہ او پر آیا ۔ کر نل پر کاش کے کمر وں
کے سامنے ایک چھوٹا سا صحن تھا جسے قد آدم دیواروں نے چا روں طرف سے گھیر رکھا
تھا۔ اس طرح یہ حصہ ہوٹل کے بقیہ حصو ں سے
بالکل الگ ہو گیا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ حمید دروازے سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔
اُ سے اطمینان تھا کہ اس وقت ادھر کو ئی نہیں آسکتا ۔ اُس نے اپنی آنکھ دروازے کی
کنجی کے سوراخ سے لگا دی۔ لیڈی سیتارام اور سر یندر صو فو ں پر بیٹھے ہو ئے تھے
اور کرنل پر کاش ٹہل رہا تھا۔
"
میں اس وقت آپ لوگوں کو اپنا ایک کر تب دکھا نا چا ہتا ہوں۔" وہ ٹہلتے ٹہلتے
رک کر بولا ۔ سر یندراور لیڈی سیتارام است تعجب سے دیکھنے لگے" یہ دیکھئے…یہرہا…لیڈی اقبال کا ہار۔"
"
ارے !" کہہ کر لیڈی سیتارام اور سر یندر کھڑے ہو گئے۔ کرنل پر کاش نے ایک
زوردار قہقہہ لگا یا۔
"
میں آپ کو اتنا گرا ہوا نہیں سمجھتا تھا۔ " سریندر نے تیز لہجے میں کہا۔
"واہ میرے
شیر " کرنل پر کاش طنز یہ
ہنسی کے ساتھ بو لا۔" تم کسی سے کم
ہو۔"
"
کیا مطلب ؟ " سریندر جلدی سے بولا۔ اس کے چہر ے پر پریشانی کےآثار پیدا ہو
گئے۔
"مطلب
صاف ہے۔ ذرااسے ملا حظہ فرمایئے۔" کر نل پر
کاش نے ایک کا غذ نکا ل کر سر یندر کی طرف بڑ ھا تے ہو ئے کہا۔ سریندر کا
غذ لے کر پڑھنے لگا۔ اس کی پیشانی سے پسینےکی بو ندیں ڈھلکنے لگیں۔ اس نے کا غذ
پھا ڑ دینے کا ارادہ کیا لیکن دوسرے ہی لمحے میں کر نل پر کاش کے ہاتھ میں پستول
تھا۔
"خبر
دار! ادھر لا ؤ، ورنہ بھیجا اڑا دوں گا۔" اس نے آہستہ سے کہا" تم غلط
سمجھے ۔میں تم سے سمجھو تہ کرنا چا ہتا ہوں۔" سر یندر نے کا غذ لو ٹا دیا لیکن وہ بری طرح کا نپ رہا تھا۔ لیڈی
سیتارام کے چہر ے پر ہوا ئیاں اڑ رہی تھیں
۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یک بیک وہ گو نگی
ہو گئی ہو ۔ کبھی وہ سر یندر کی طرف دیکھتی اور کبھی کر نل پر کاش کی طرف ۔
"میں
اس کاغذ کی پوری کہانی سے اچھی طرح واقف ہوں۔"کرنل پر کاش نے کہا۔
"نہ
جانے آپ کیا کہہ رہے ہیں۔"سریندر بہ دقت تمام بولا۔
"خیر!
تم ابھی بچے ہو۔ مجھے دھو کانہیں دے سکتے۔
ہاں اب آؤ کام کی طرف۔ میں تم سے سمجھو تہ کرنا چا ہتا ہوں۔"
"کس بات کا سمجھو تہ۔"
"ہا ں! اب آئے ہو سید ھی راہ پر ۔" کرنل پر کاش
میز پر بیٹھتے ہو ئے بولا۔" جانتے ہو میں افریقہ سے یہاں کس لیے آیا ہوں؟ محض
اس ہار کی خاطر …اور بھی ایسے دو ہا اور اسی شہر میں موجود ہیں۔ یہ تینو ں
ہار میرے ہی ہیں اور یہ دنیا میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ اس ہار کی اصل قیمت سے
لیڈی اقبال بھی واقف تھیں۔ہاں ، یہ ہار تو میری تجو ری سے چرا ئے گئے تھے۔ میں عر
صے تک ان کی تلاش میں سر گر داں رہا۔ آخر
مجھے پتا چلا کہ تینو ں ہا راس ملک میں فروخت کئے گئے ہیں۔ میں یہا ں آیا اور عرصے
تک ادھر ادھر کی خا ک چھا نتا رہا۔آخر کار مجھے معلوم ہو ہی گیا کہ تینو ں ہاراسی
شہر میں فرو خت کئے گئےہیں۔ ایک تو میں نے حا صل کر ہی لیا۔ باقی رہے دو ہا ران کے متعلق کو ئی پتا
نہیں چل سکا کہ کس کے قبضے میں ہیں۔ بہر حال میں جس معا ملے میں تم سے سمجھو تہ کر
نا چا ہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم دونوں یہاں
کےبڑےدمیو ں سے ملاؤ ۔ میں اپنے ہار حاصل کرکے واپس چلا جاؤں گا اور ایک بہادرکی
طرح وعدہ کرتا ہوں کہ تم لو گوں کا رازمیرے سینے میں دفن رہے گا" لیڈی سیتا
رام اور سریندر کی حالت غیر ہو رہی تھی ۔
دونوں بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ
رہے تھے۔" میرا دوستی کا ہاتھ ہمیشہ تم لوگوں کی طرف بڑھا رہے گا۔" کرنل
پر کاش پھر کاش پھر بولا۔" تم جب بھی یہاں اپنے لیے خطرہ محسوس کرو نہا یت بے
تکلفی کے ساتھ افریقہ آسکتے ہو۔ میں ہمیشہ تمہیں اپنا ہی سمجھو ں گا ۔ تم لوگ ابھی
مجھ سے واقف نہیں ایک رات میں کروڑ پتی بنا سکتا ہوں۔ بو لو کیا کہتے ہو۔"
" منضو ر
ہے۔" سریندر نے کہا۔
"
شاباش ، مجھے تم سے یہی امید تھی۔ بغیر ایک دوسرے کے کام آ ئے زندہ رہنا بے کار
ہے۔"
کر
نل پر کاش خاموش ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے وہ کسی چیز پر غور کر رہا ہو۔ اچا نک
وہ دروازے کی طرف جھپٹا اور دروازہ کھول
دیا۔ حمید سنبھلنے بھی نہ پاتا تھا کہ کرنل پر کاش کا ہاتھ اس کی گر دن پر
پڑا۔" خبر دار ! شور نہ کرنا ورنہ یہیں ڈھیر کر دو گا۔ " کر نل پر کاش
نے حمید کو کمرے کے اندر دھکیل کر در وازہ اندر سے بند کر دیا۔ لیڈی سیتارام اور
سر یندر گھبرا کر کھڑے ہو گئے۔
"
یہ کون ؟" دونوں بے ساختہ بولے ۔ حمید بے بسی سے فروش پر پڑا کر نل پر کاش کے
ہاتھ میں دبے ہو ئے پستول کو دیکھ رہا تھا۔
"
کون ہے، بے تو ۔" کر نل پر کاش گر ج کر بولا۔
"تمیز
سے بات کرو۔" حمید اٹھ کر بیٹھتے ہو ئے بولا۔
"
اچھا جی ! سیدھی طرح بتا ؤنہیں تو…"
"
اور اگر میں نہ بتا ؤ تو ۔"
"
میراایک کا رتو س خواہ مخواہ خراب ہوگا۔" کرنل پر کاش بولا۔
اس
کے لہجے میں کی اور درندگی محسوس ہو رہی ت تھی ۔ حمید لر زاٹھا" جانتے ہو
کرنل پر کاش کاراز معلوم کرنے والے کی سزا موت ہے۔" کرنل نے کہا "خیر یت
چا ہتے ہو تو سیدھی طرح بتا دو کہ تم کون
ہو ؟"
"تم
ذرا گولی چلا کر تو دیکھو ۔" حمید جی کڑا کر کے بولا۔" کر نل پر کاش تم
نے شا یدا بھی تک کسی برا بر والے سے ٹکر نہیں لی۔"
"واہ رے میری مینڈکی۔" کر نل پر کاش نے
کہا۔" میرے پاس زیادہ وقت نہیں ورنہ میں ابھی تم سے اگلوالیتا…خیر پھر سہی ۔"
کرنل پر کاش نے میز پر رکھا ہوا رول حمید کے سر پر دے مارا۔ حمید تیورا کر گر پڑا۔
اس نے دو تین رول اور سید کیے۔حمید بے ہوش ہو چکا تھا۔" دیکھا تم نے ۔"
کرنل دونوں کی طرف مخا طب ہو کر بولا۔
"اس
طرح لوگ میرے پیچھے لگے ہو ئے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کون ہے۔ شکر ہے کہ میں نے بات کی
رو میں تمہا رے راز پر کو ئی روشنی نہیں ڈالی ۔ مگر یہ مشکو ک ضرور ہو گا۔ یہ
معلوم کرنا ضروری ہے کہ یہ کون ہے ؟ ورنہ میں اس کو اسی وقت ٹھکا نے لگا دیتا۔
مگراب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اسے رکھا کہاں جا ئے۔"
" اس کا انتظام میں کروں گی۔" لیڈی سیتارام
جلدی سے بولی ۔" لیکن اسے یہاں سے کس طرح لے جایا جا
ئے گا۔"
"نہا
یت آسانی سے یہ میں کر لوں گا۔"کر نل پر کاش کہا اور حمید پر جھک گیا ۔ حمید
کا سر پھٹ گیا تھا۔ زخم سے خون بہہ رہا
تھ۔ کرنل پر کاش نے زخم صاف کر کے پٹی
باندھ دی ۔" سریندر، آؤاسے پکڑ کر نیچے لے چلیں ۔ کار تو تم لا ئے ہی ہو گے
۔"
"تو
کیا اسی طرح نیچے لے ج ا ئیے گا۔"
لیڈی سیتارام حیرت سے بولی۔
"ہاں،
اسی طرح تم گھبراؤنہیں۔ تم ابھی مجھے نہیں جا نتیں ۔" حمید کو ایک طرف سے سر
یندر نے پکڑا اور دوسری طرف سے کرنل پر
کاش نے اور اسے سہارادیتے ہو ئے لے چلے ۔ نیچے اتر کر وہ ہال سے گزررہے تھے کہ منیجر لپکتا ہواان کی طرف آیا۔
"کیوں
کرنل صاحب کیا بات ہے؟"
"
ارے صاحب کیا بتاؤں۔ آج کل کے لونڈوں کے جسم میں سکت نہیں اور پینے پر آئیں گے تو
قرابے کے قرابے صاف ۔ صاف زادے نے وہ اچھل کودمچا ئی کہ سر ہی پھو ڑ بیٹھے ۔ اب
انہیں ان کے گھر پھینکنے جا رہا ہوں۔ منع کر رہا تھا کہ زیادہ نہ پیو۔ مگر کون
سنتا ہے۔" منیجر مسکرا کر سر ہلا تا ہوا وا پس چلا گیا۔
"کیوں سر
یندر کیسی رہی ؟"کر نل پر کاش کار
میں بیٹھ کر بولا۔
"ما
نتا ہوں استاد ۔"
"میں
آپ کو اتنا دلیر نہیں سمجھتی تھی ۔" لیڈی سیتارام بو لی ۔
"
ابھی تم لو گو ں نے دیکھا ہی کیا ہے ۔ مجھے کر نل پر کاش کہتے ہیں۔"کار تا
ریک سڑ کوں پر روشنی بکھیر تی تیز ی سے سیتارام کی کو ٹھی کی طرف جا رہی تھی ۔
8
حمید کو ہوش آیا تو اسے اپنے چاروں طرف تار یکی ہی تا ر یکی
پھیلی ہو ئی ۔ سر بری طرح دکھ رہا تھا۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے نقا ہت بہت
بڑھ گئی تھی۔ اس نے لیٹے ہی لیٹے ادھر ادھر ہاتھ پیر چلائے ۔ وہ ایک چٹائی پر پڑا
تھا۔ تھو ڑی دیر تک وہ آنکھیں پھا ڑ پھاڑ کر تا
ریکی میں گھو رتا رہا پھر آنکھیں بند کر لیں۔ آہستہ آہستہ سارے واقعات اس
کے ذہن میں نا چنے لگے۔ معلوم نہیں وہ اس وقت کہاں پڑا ہو ا ہے ۔ اس یقین ہو گیا
تھا کہ وہ کہیں پر قید ہے۔اس نے کر نل پر کاش راز معلوم کو لیا تھا۔ لٰہذا وہ اسے
آزاد کیو ں چھوڑ نے لگا۔آخر لیڈی سیتارام وغیرہ کا راز کیا تھا جس کی طرف کر نل پر
کاش نے اشارہ کیا تھا ۔ کہیں یہ رام سنگھ
کے قتل کی طرف تو اشا رہ نہیں تھا یہ کر نل پر کاش بھی انتہا ئی سفا ک آدمی معلوم
ہو تا ہے۔
حمید کو ایسا محسوس
ہو رہا تھا۔ جیسے کو ئی اس کے سر پر ہتھو ڑے چلا رہا ہوا س پر آہستہ آہستہ
غشی طا ری ہو تی جارہی تھی۔نہ جانے کتنا وقت گز رگیا وہ سو تا رہا۔
اچا نک اسے ایسا
محسوس ہوا جیسے کسی کی نرم ولطیف سانس
اس کے
چہر ے کو چھو رہی ہو۔ کو ئی اس پر
جھکا ہوا تھا۔اس نے آنکھیں کھو لنے کی کوشش کی لیکن ایسا ہوا جیسے اس میں مر چین
بھردی گئی ہوں۔ لا کھ ششوں کے باو جو د بھی وہ آنکھیں نہ کھو ل سکا۔ اب کسی کی نرم
انگیا ں اس کے بالوں میں آہستہ آہستہ رینگ
رہی تھیں۔
"
حمید صاحب ۔" کسی نے آہستہ سے پکا را۔
وہ
چو نک پڑا آواز جانی پہچانی معلوم ہو ئی ۔ اس نے پھر پکا را ۔ اب کی با ر حمید نے
بے تحا شا آنکھیں کھول دیں اور انتہا ئی نقا ہت کے باو جود بھی وہ ہڑ بڑا کر اٹھ
بیٹھا ۔
"
ارے تم، شہناز ۔" وہ خوشی اور تعجب کے ملے جلے لہجےمیں چیخا۔
شہناز
نے سر ہلا یا۔ اس کا سرخ وسپید رنگ ہلدی کی مانند پیلا ہو گیا تھا ۔ آنکھو ں کے
گرو حلقے پڑ گئے تھے۔ ہو نٹوں پر سیا ہی ہلکی سی تہ جم گئی تھی۔ آنکھوں میں آنسو
جھلک رہے تھے۔
"یہ
آپ کے سر میں کیا ہوا؟ آپ کے کوٹ پر خون کے دھبے کیسے ہیں؟"شہناز ایک ہی سانس
میں کہہ گئی۔
"یہ
ایک لمبی داستان ہے۔ مجھ میں اتنی سکت نہیں کہ ابھی بتا سکوں۔ میں تمہارے متعلق
معلوم کر نے کے لیے بیتا ب ہوں۔ تم یہاں کس طرح پہنچیں؟"حمید نے کہا۔
"یہ
میں بعد میں بتا ؤں گی۔ آپ کی حالت مجھ سے نہیں دیکھی جاتی ۔ میں کیا کروں؟"
"
سچ ۔" حمید نے ایک نقا ہت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور پھر چٹا ئی پر لیٹ گیا۔ شہناز نے اپنا دو
پٹہ تہ کر کے اس کے سر کے نیچے رکھ دیا۔ اس کی آنکھو ں میں رکے ہو ئے قطرے گالوں
پر ڈھلک آئے تھے۔
"
تم رورہی ہو پگلی کہیں کی۔" حمید نے کہا۔"میں تمہیں پانے کے لیے جدو جہد
کر رہا تھا۔ پا لیا، اب میں نہا یت سکون کے ساتھ مر سکتا ہو ں۔"
شہناز
ہچکیاں لے کر رونے لگی۔
"
تم مجھے اپنا دوست سمجھتی ہو؟"حمید نے پو چھا۔
شہناز
نے سر ہلا دیا۔
"تو
میں اسی پاک دوستی کا واسطہ دے کر کہتا
ہوں کہ روۂ نہیں میں اپنے دل کو اس وقت بہت زیادہ کمزور محسوس کر رہا ہوں۔"شہناز
نے آنسو پو نچھ ڈالے اور اپنی ہچکیوں کو شش کر نے لگی۔
"تم
بہت اچھی لڑ کی ہو ۔ میں شروع ہی سے تمہیں بے گناہ سمجھتا ہوں۔ جب تمہا را وارنٹ
گر فتاری نکلا تھا تو میں انسپکڑ سنہا سے لڑ گیا تھا۔"
"وارنٹ
گر فتاری !" شہناز چو نک پڑی ۔
"
تمہارے غائب ہو جانے کے بعد تمہارے گھر سےایک مشکوک خط بر آمد ہوا جس سے کسی گر وہ
کی طرف سے غا ئب ہو جانے کی ہدایت دی گئی تھی۔"
"میں
خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ مجھے اس قسم کے خط کا علم نہیں اور نہ میرا تعلق
کسی گروہ سے ہے ۔"
"اب
قسم کھا نے کی کو ئی ضرورت نہیں۔"
حمید نے کہا۔" تمہا ری بے گنا سو رج کی طرح روشن ہے۔"
اچھا
یہ بتا سکتی ہو کہ تم کس کی قید میں ہو ۔"
" یہ مجھے آج تک نہ معلوم ہو سکا۔ البتہ مجھے کر نے
والے مجھ پر مہر بان ضرور ہیں۔ انہوں نے مجھے بھو کوں نہیں ما را۔"
"اچھا …تو کیا کو ئی کھا نا لے کر آتا ہے ؟""نہیں،اس سا
منے والی دیوار کی جڑ میں ایک درا ڑسی پیدا ہو جا تی ہے اور اسی سے کھا نا اندر کی
طرف دھکلیلدیا جا تا ہے اور جب میں بر تن اسی درا ڑ سے باہر نکال دیتی ہوں تو دراڑ
خود نجود بند ہو جا تی ہے۔"
اب
حمید نے لیٹے اس جگہ کا جا ئزہ لینا شروع کیا یہ ایک وسیع کمرہ تھا ایک طرف بڑی سی
میزا اور کچھ کر سیاں پڑی ہو ئی تھیں۔ کمرے کی اساخت بتا رہی تھی کہ وہ تہ خانہ ہے
چھت میں دو تین جگہ مو ٹے مو ٹے اور دھند لے شیشے لگے ہو ئے تھے جن کے ذریعہ تھوڑی
بہت روشنی اندر آتی تھی ۔ شیشے اس قدر دھند لے تھے کہ اس کے پار کی کو ئی چیز دکھا
ئی نہیں دیتی تھی ۔ اس پو رے کمرے میں باہر جانے کے لیے کو ئی دروازہ نہیں تھا۔
صرف ایک دروازہ نظر آرہا تھا۔ وہ بھی اس کمرے کے ایک کو نے میں بنی ہو ئی کو ٹھری
کا تھا۔
"کیا
یہ درواز ہ باہر جانے کا ہے ۔" حمید نے پو چھا۔
"
نہیں غسل خانہ ہے۔"
"تو
اس کا مطلب کہ یہ کمرہ نہیں ہمارا مقبرہ ہے۔ " حمید نے کہا۔" ذراہاتھ
پاؤں میں کچھ طا قت آئے تو با ہر نکلنے
کی جدوجہد کی جا ئے ۔"
اتنے میں سا منے والی دیوار کی جڑ میں ایک کھٹکے کے ساتھ دو
با لشت چو ڑی دراڑپید ا ہو گئی۔ جس سے ایک کشتی جس میں ناشتہ تھا۔ کمرے کے
اندرکھسکا دی گئی ۔ شہناز نے بڑھ کر کشتی اٹھا لی ۔ حمید اس دراڑ کو بغو رد دیکھ
رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس دراڑ کی با قاعدہ حفا ظت کی جا تی ہو گی ۔ حمید
خیالات میں الجھتا رہا۔ اتنی دیر میں شہناز نے دو پیالیاں چا ئے کی تیار کیں۔ حمید
کو قطعی بھوک نہیں تھی لیکن شہناز کے اصرار پر کچھ نہ کچھ کھا نا ہی پڑا۔ شہناز نے
بر تن اسی دراڑسے واپس کر دیئے۔
"کل
تک میں بہت پر یشان تھی لیکن آج نہ جانےکیوں ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ میں اپنے گھر
ہی میں بیٹھی ہو ۔" شہناز نے کہا۔
"خدا
نے چا ہا تو تم بہت جلد اپنے گھر میں ہو گی ۔میں نے اپنی زندگی میں ایک ہی کام
عقلمندی کا کیا ہے۔"
"وہ
کیا؟"
"
یہی کہ اس حادثے سے پہلے میں نے فریدی صاحب کو یہاں کے مفصل حالات لکھ دیئے
تھے۔"
"تو
کیا فریدی صاحب مو جود نہیں تھے۔"
"
نہیں وہ باہر گئے ہو ئے ہیں۔"حمید نے کہا اور اس کے بعد اس نے شروع سے لےکر
آخر تک شہناز کو سارے وا قعات بتا دیے۔
"تو
پھر اس کا یہ مطلب ہوا کہ میں لیڈی سیتارام کی قید ہوں۔ "شہناز نے حیرت سے
کہا۔
"وقطعی۔"
"لیکن
آخر کیوں؟ میں نے ان کا کیا بگا ڑا ہے؟"
"وہ
دراصل اپنا جرم کسی دوسرے کے سر تھو پنا چا ہتی تھی۔ اتفاق سے تم ہی زدمیں
آگئیں۔"
"تو
کیا لیڈی سیتارام ہی رام سنگھ کی قاتل ہیں؟"
"حا
لات تو یہی کہتے ہیں ؟"
"اب
مجھے یہاں سے بچ نکلنے کی کو ئی امید نہیں۔"
"ایسا
مت سوچ ، فریدی صاحب ضرور آئیں گے اور اگر وہ نہ بھی آئے تو میری مو جود گی میں
تمہیں پریشان ہو نے کی قطعی کو ئی ضرورت
نہیں۔"
"آپ
بہت اچھے آدمی ہیں۔" شہناز نے کہا۔
"بس
اتنی سی بات ۔ نہیں میں بہت برا آدمی ہو ں۔"
"ہوں
گے لیکن میرے لیے نہیں۔"
"تو
کیا واقعی تم مجھ پر بھرو سہ کر تی ہو۔"
"آخر
کیوں نہ کروں؟"
"ایک
بات پو چھوں…یہ کہ تم نے لیڈی سیتارام کے یہاں سے ٹیو شن کیوں چھو ڑدیا
تھا؟"
"مجھے
نا پسند ید گی کی وجہ ؟"
"وہاں
کئی بہت ہی آوارہ اوباش قسم کے لو گ آنے
لگے تھے۔ اکثر وہ مجھے بھی اپنی طرف متو
جہ کر نے کی کو شش کر تے تھے۔ یہ چیز مجھے ناپسند تھی ۔"
حمید
کچھ اور پو چھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ شہناز نے اسے روک دیا۔
"آپ
زیادہ باتیں نہ کیجئے ۔ سر سے بہت زیادہ خون نکل گیا ہے ۔ کہیں پھر چکر نہ آجا ئے
۔"
"اتنے
دنوں کے بعد تم ملی ہو دل چا ہتا ہے بس باتیں ہی کیے جا ؤں۔"
"
نہیں بس آنکھیں بند کیجئے ۔ میں سر سہلا تی ہوں ۔
"حمید
نے آنکھیں بند کر لیں اور وہ ہو لے ہو لے اس کا سر سہلا نے لگی حمید اپنے دل میں
ایک عجیب قسم کی غم آلو د نر ماہٹ پھیلتی معلو م ہو نے لگی۔ وہ خلوص اور پیار جس
کا ہر مردایک عورت سے متمنی ہو تا ہے۔ حمید کو آج تک نہ ملا تھا۔ حمید کو شہناز کے
اس رویے میں ایک ایسی لگا وٹ محسوس ہو ئی جسے مامتا کے بعد درجہ دیا جا سکتاہے۔ اس
کی مند آنکھوں سے آنسو پھوٹ نکلے۔
"ارے
ارے آنسو کیوں؟"
"کچھ
نہیں۔"حمید نے گھٹی ہو ئی آواز میں کہا۔
"آپ
کو میرے قسم ، بتا یئے کیا بات ہے ؟"
"مجھ
ست تمہا ری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی ۔"حمید نے کہا۔
"
فی الحا ل آپ اپنی حالت دیکھئے ۔ میری بعد دیکھئے گا۔"
"
یہ آفت تم نے خوداپنے سر مول لی ہے۔" حمید نے دیکھا۔
"وہ
کیسے ؟"
"نہ
تم اتنی سوشل ہو تیں اور نہ دن دیکھنا نصیب ہو تا۔"
"اپنی
اس حما قت پر تو عر صے رو رہی ہوں۔" شہناز نے کہا" اگر کبھی آسمان
دیکھنا نصیب ہوا تو انشاء الّٰلہ صحیح معنوں میں ایک شرویف عورت کی طرح زندگی بسر
کر نے کی کو شش کروں گی۔"
"
جب تک کہ ہمارے سماج کا پو را ڈھا نچہ ہی
نہ بدل جا ئے عو رتو ں کی آزادی کو ئی معنی
نہیں رکھتی۔"
"آپ
ٹھیک کہہ رہے ہیں۔اب یہ بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔"
"خیر
چھوڑ وان باتو ں کو ۔ اب یہاں سے نکلنے کی کو ئی تدبیر کر نی چا ہئے۔"حمید نے
اٹھتے ہو ئے کہا۔
"تو
لیٹے رہئے نا۔"
"
نہیں یہ لیٹنے کا وقت نہیں۔ اب کسی لمحے بھی ہم موت سے دو چارہو سکتے ہیں؟"
"وہ
کیسے ؟"
"
کرنل پر کاش محض یہ معلوم کر نے کے لیے یہاں لایا ہے کہ میں کون ہوں۔ میں نے اس کا راز معلوم کرلیا
ہے۔ لٰہذا وہ مجھے کبھی زندہ نہ چھوڑے گا۔"
"خدا
نخواستہ…ایسی بات منہ سے نہ نکالیے۔"
"میں
سچ کہہ رہا ہوںشہناز ، یہاں سے بچ کے لیے جلدی ہی کچھ نہ کچھ کر نا چا ہئے۔"
حمید
اٹھ کر تہ خانے کی دیواروں کا جا ئزہ محنت اور جا نفشا نی سے دیوار کا ایک ایک حصہ
ٹھو نک بجا کر دیکھ رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ پسینے پسینے ہو گیا لیکن کو ئی نتیجہ نہ نکلا۔
"معلوم
ہو تا ہے شاید مرنے کا وقت سچ مچ قریب آگیا ہے ۔"حمید نے بے بسی سے کہا۔
شہناز
کے چہر ے پر ہوا ئیاں اڑرہی تھیں۔ وہ
نڈھال ہو کر چٹا ئی پر لیٹ گئی۔
"
کیوں کیا بات ہے؟"حمید نے کہا۔
"کچھ
نہیں…یو نہی چکر سا آگیاہے ۔"
"گھبراؤنہیں
ضروع کو ئی اچھی صورت پیدا ہو گی ۔ میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ بے گناہ ہوں کا کو
ئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ۔"حمید نے کہا۔
شہناز
نے کو ئی جواب نہ دیا۔ حمید بیٹھا سو چتا رہا۔ دفعتاً اس کا خیال دیوار کے اس حصے
کی طرف گیا جہاں دراڑ پیدا ہو ئی تھی۔ وہ جھک کر دیکھنے لگا۔ وہیں قریب ہی فروش کی
ایک اینٹ اکھڑ ی ہو ئی اور خا لی جگہ میں اتنی مٹی بھری تھی کہ سطح فوش کے برابر
ہو گئی تھی۔ حمید نے پہلے تو اس کی طرف کو ئی دھیان نہ دیا لیکن پھر سوچنے لگا کہ
یہاں اس تہ خانے میں اتنا گر دو غبار کہاں سے آیا کہ خالی اینٹ کی جگہ خود بخود
بھر گئی اور اگر اینٹ نکل جانے کے بعد اس میں مٹی اس لئے بھری گئی ہے کہ فرش برابر
ہو جائے تو یہ بات بالکل بے تکی سی لگتی ہے کیو ں کہ جہاں اس جگہ دوسری اینٹ جڑی
جا سکتی تھی۔ مٹی سے اسے بھر نے کی کو ئی وجہ نہیں ہو سکتی۔
حمید
نے ادھر ادھر دیکھا۔ میز پر ایک چمچہ پڑا ہوا تھا۔وہ اس سے مٹی کھودنے لگا۔ کافی
مٹی نکل جانے کے بعدا چا نک چمچہ کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ اس نے جلدی جلدی مٹی
نکالنی شروع کی۔ یہ سخت چیز لو ہے کا ایک کٹو تھا اس نے اسے گھمانے کی کو شش کی
لیکن اس میں جنبش بھی نہ ہو ئی ۔ اس نے اب اسے دوسری گھما نا شروع کیا۔ ذراسی محنت
کے بعد ہی لٹو گھو منے لگا اور جہاں پر دراڑ پیدا ہو ئی تھی وہاں کی دیوار کا کچھ
حصہ آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہا تھا۔
"شہناز
یہ دیکھو۔" حمید خوشی سے چیخا۔
شہناز
اور حمید کھڑے متحیر ہو کر دیکھ رہے تھے۔ سامنے کی دیوار میں ایک قدم آدم دروازہ
نمو دار ہو گیا تھا۔ چند گزکے فاصلے پر اوپر جانے کے لیے زینے تھے۔
*******
ابھی دونو ں کی حیرت رفع نہ ہو ئی تھی کہ زینے پر قدموں کی
آہٹ سنا ئی دی ۔ کر نل پر کاش اور لیڈی سیتارام زینےطے کرتے ہو ئے نیچے کی طرف
آرہے تھے۔حمید کو ایسا معلوم ہوا جیسے
کسی نے اسے پہا ڑ پر سے زمین کی
طرف لڑھکا دیا ہو۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرے، کرنل پر کاش نے ایک زوردار قہقہہ لگا یا۔
"بڑے
چالاک ہو بر خوردار۔"اس نے جیب سے پستول نکالتے ہو ئے کہا" پیچھے
ہٹو۔"
شہناز
اور حمید سہم کر پیچھے ہٹ گئے ۔"لو ریکھا اچھے وقت پر پہنچ گئے ورنہ یہ ابھی
چو ٹ ہی دے گیا تھا۔" کر نل پر کاش نے کمرے میں داخل ہو تے ہو ئے کہا۔
"ڈارلنگ
،تم ہمشہ ٹھیک وقت پر کام کی ناتیں سو چتے ہو۔" لیڈی سیتارام اس کے شانے پر
ہاتھ رکھتے ہو ئے بولی۔
"تم
لوگ وہاں کو نے میں جا کر بیٹھو۔" کر نل
پر کاش نے حمید اور شہناز سے کہا۔ "
"اگر
ذرہ برابر بھی شرارت کی تو یا درکھنا یہ پستول بڑا خونی ہے۔"
حمید
اور شہناز کو نے میں جا کر بیٹھ گئے ۔"جا نتی ہو ر یکھا ڈارلنگ ،یہ کون ہے
۔" پر کاش نے کہا " نہیں ۔"
"سر
کاری سراغ رسالں سار جنٹ حمید۔"
"ہاں…یہ مجھے آج صبح کو معلوم ہوا۔ کہو بیٹا حمید صاحب ! تمہا را کیا حشر کیا جا
ئے۔"
"
کرنل پر کاش ، کان کھول کر سن لو۔ اگر میراایک بال بھی بیکاہوا تو میرااستاد تمہیں
زندہ نہ چھوڑے گا۔ چا ہے تم پا تال ہی میں جا کر کیوں نہ
چھپو۔"۔ حمید نے کہا۔
"واہ بی
مینڈ کی تمہیں پھر زکام ہوا۔" کرنل پر کاش ہنس کر بولا۔
"خی
نہ گھو ڑا دور نہ میدان ۔ تم مجھے ہاتھ لگا کر ہی دیکھ لو۔"
حمید
نے بے پر وا ئی سے کہا۔
"
اچھا ریکھا ابھی میں ان دونوں کا خا تمہ کیے دیتا ہوں تم یہ بتاؤ کہ افریقہ چلنے
کی کیا رہی ۔ اگر تم تیار ہو جا ؤ تو میں اپنے دونوں ہارلیے بغیر ہی چلا جاؤں
گا۔ تم سے زیادہ ان ہا روں کی قیمت نہیں ہے۔"
"
مگر یہ ابھی کیسے ممکن ہے ۔"لیڈی سیتارام نے کہا۔
"
جو چیز تمہیں روک رہی ہے۔ میں اسے بھی سمجھتا ہوں۔تم اطمینان رکھو سر یندر کو مجھ
تہ کر نا ہی پڑے گا۔"
"
کیا مطلب ؟" لیڈی سیتارام چونک کر بولی۔
"
ارے تم اس کا مطلب نہیں سمجھیں۔ کیا وہ کل رات والا کا غذ یا دنہیں جو میں نے سر
یندر کو دیا تھا۔ دیکھو میں اچھی طرح جا نتا ہوں کہ تمہا رے اور سر یندر کے نا جا
ئزہ تعلقا ت ہیں۔ رام سنگھ کے ہاتھ تمہا راایک خط لگ گیا تھا جو تم نے سر یندر کو لکھا تھا ۔وہ آئے دن تم لوگو ں کو اسی
خط کا حوالہ دیتے ہو ئے دھمکا کر تم سے رو پیہ اینٹھتا تھا۔ آخر ایک دن تنگ آکر تم
نے اسے قتل کر دینے کا پلا ن بنا یا اور اسے قتل بھی کر دیا۔ کرنل پر کاش سے کو ئی بات چھپی ہو ئی نہیں ہے ۔"
لیڈی
سیتارام کا چہرہ فق ہو گیا تھا اور وہ تھر
تھر کا نپ رہی تھی۔
"لیکن
میری ریکھا۔ میں تمہا رے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ میں تمہاری پچھلی زندگی سے کو ئی
سر کا ر نہ رکھو ں گا۔ محنت اندھی ہو تی ہے وہ اچھا ئی یا برا ئی کچھ نہیں دیکھتی
۔"
"
کرنل میں تہارے ساتھ چلو ں گی ۔ اتنی برا ئیوں کے باو جود بھی مجھ میں سچی محبت کا
جذ بہ موجود ہے اور میں اسے صرف تمہارے ہی لیے وقف کر چکی ہوں۔ میں کیا بتاؤں کہ
کن مجبو ریوں کے تحت سر یندر…"
"
سر یندر کے ساتھ عیا شی کر تی تھی۔"
دروازے کی طرف سے آواز آئی ۔
سب
کی نگا ہیں ادھر اٹھ گئیں۔ دروازے میں سر یندر ہاتھ میں پستول لیے کھڑ تھا۔ جس کا
رخ کرنل پر کاش کی طرف تھا۔
"تم
دونوں یہ آرزو ہی لیے ہو ئے دنیا سے چلے جا ؤ گے ۔" وہ گرج کر بولا۔
کرنل
پر کاش نے اٹھنا چا ہا۔ سریندرنے بیٹھ کر لٹو گھما دیا۔ دروازہ بند ہو چکا تھا۔
"خبر
دار اپنی جگہ سے مت ہلنا۔" سریندر نے چیخ کر کہا ۔ کرنل پر کاش نے ا س کی طرف
بڑھے ہو ئے قہقہہ لگا یا۔ "پیچھے ہٹو پیچھے ہٹو نہیں تو گولی چلا دوں
گا۔" سریندر نے چیخ کر کہا۔
"
چلا بھی دو میری جان ۔" کرنل پر کاش رک کر بولا۔" مجھے تم سے بھی اتنی ہی محنت ہے جتنی کہ ریکھا
سے ہے۔"
"
چپ رہو۔ سورکے بچے ۔"سریندر نے گرج کہا اور ٹر ایگر دبا دیا مگر دھما کے کی آواز نہیں سنا ئی دی۔
کرنل پر کاش نے پھر قہقہہ لگا یا ۔ سر یندر گھرا کر پستول کی طرف دیکھنے لگا۔
" واہ بر خوردار اسی کے بل بو تے پر بہا دری دکھا
نے چلے تھے۔ سنو بیٹا۔ میں ماتھے کی لکیروں میں دل کا حال پڑھ لیتا ہوں۔میں نے اسی وقت تمہاری جیب میں
پڑے ہو ئے پستو ل کی گو لیاں نکال لی تھیں۔ جب تم اوپر مجھ سے بات کر رہے تھے۔ میں
کل رات ہی سمجھ گیا تھا کہ تم کو ئی
ضرورچال چلو گے ۔ تو گویا تم اس تہ خا نے کو ہم دونوں آدمیوں کا مقبرہ بنانا چا
ہتے تھے۔ خیراب بھی یہاں تین ہی لا شیں ہوں گی ۔"
کر
نل پر کاش نے بڑھ کر سر یندر کی گردن پکڑلی ۔ سریندر بچوں کی طرح چیخ رہا تھا۔ کر
نل نے اسے ایک کر سی پر بٹھا دیا۔
"دیکھو
سریندر میں تم سے سمجھو تا ہی کر نا چا
ہتا ہوں اگر تم مجھے ریکھا کو نکال لے
جانے میں مددوینے کا وعدہ کرو تو تمہیں چھو ڑ دوں۔"
مجھے
منظور ہے۔" سریندر نے بھرائی ہو ئی
آواز میں کہا۔
"یوں
نہیں۔" کر نل نے ہنس کر کہا۔" تم بہت بھیا نک آدمی ہو، تمہیں اپنافیصلہ تبدیل کرتے دیر نہیں
لگتی ۔ میں کو ئی ایسی چیز چا ہتا ہوں جس سے ہمشہ تمہاری کو رمجھ سے دبتی رہے تا
کہ تم بعد میں کو ئی شرا رت نہ کر
سکو۔"
"آخر
تم چا ہتے کیا ہو ؟"
"تم
مجھے یہ لکھ کر دے دو کہ تم رام سنگھ کے قا تل ہو …اس پر تمہارے اور ریکھا
دونوں کے دستخط ہوں گے ۔ تم گھبراؤ نہیں میں صرف اپنے اطمینان کے لیے کر رہا
ہوں۔"
سریندر
کے سارے جسم سے پسینہ چھوٹ پڑا کبھی وہ
لیڈی سیتارام کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی کر نل پر کاش کی طرف ۔
"میں
مسو دہ تیار کیے دیتا ہوں تم دونوں اپنے دستخط کر دو۔" کر نل پر کاش نے کہا۔
"میں
کیوں دستخط کروں؟" ریکھا نے کہا۔
"
ریکھا ڈارلنگ …تم گھبرا کیوں گئیں…تمہارے دستخط سے یہ
چیز اور مضبوط ہو جائے گی کیوں کہ تم مطو ر گوا ہ اس پر
دستخط کرو گی تبھی ہم دونوں چین سے رہ سکیں گے ورنہ یہ حضرت …"
کر
نل پر کاش نے جلدی جلدی مسو دہ تیار کیا اور دستخط کے لیے سریندر کی طرف بڑ ھا
دیا۔ سر یندر نے ماتھے کا پسینہ پو نچھتے ہو ئے دستخط کر دیے۔ لیڈی سیتارام نے بھی
اس کی تقلید کی ، کر نل پر کاش نے کا غذ
تہ کر کے جیب میں رکھ لیا۔
"
اب تم دونوں مر نےکےلیے تیار ہو جاؤ۔" اس نےحمیداور شہناز کی طرف دیکھ کر
کہا۔
پھر
اچا نک کر نل پر کاش نے جنگلیوں کی طرح اچھل اچھل کر نا چنا شروع کر دیا ۔ ساتھ ہی
ساتھ وہ گا تا بھی جا رہا تھا لیکن مفہو م ان کی سمجھ سے باہر تھا۔ کیوں کہ زبان
غیر ملکی تھی۔
وہ
وحشیوں سے بد تر ہو تا جا رہا تھا۔
"
پر کاش ڈارلنگ ۔ پر کاش ڈارلنگ۔" لیڈی سیتارام چیخی۔ کرنل پر کاش اسی طرح نا
چتا ہوا بو لا۔" بو لو مت چین خیں چیں گیر و لا۔ میں خوشی کا ناچ ناچ رہا
ہوں۔ افریقہ کے جنگلیوں کا ناچ گیر و لا چپی پینی ٹمٹما ئیں گیر ولا۔"
نا
چتے ناچتے اس کا چشمہ اچھل کر دیوار سے جا ٹکرا یا۔
مونچھ
اورڈاڑھی اکھڑ کر فرش پر آ رہی اور حمید بے اختیار چیخ پڑا۔
"
فریدی صاحب …"
فریدی
کھڑ قہقہہ لگا رہا تھا ۔ لیڈی سیتارام چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی ۔ سریندر
بیٹھا اس طرح کا نپ رہا تھا جیسے اسے جاڑا
دے کر بجا ر آ گیاہو۔ فریدی نے جیب سے ہتھکڑیاں نکال کر حمید نے جلدی جلدی دونوں
کو ہتھکڑیاں پہنا دیں۔
9
فریدی اور حمیدڈرائنگ روم میں بیٹھے چا ئے پی رہے تھے۔"ابھی
تک جگد یش نہیں آیا" فریدی نے گھڑی کی طرفدیکھتے ہو ئے کہا۔
"تو
کیا واقعی اس کیس کی کامیا بی کا ذمے داراسی کو بنا ئیں گے۔"حمید بو لا۔
"میں
اس سے وعدہ کر چکا ہوں۔ اگر اس نے لیڈی سیتارام کے بارے میں مجھے نہ بتایا ہوتا تو
میں زندگی بھر کا میا ب نہیں ہو سکتا تھا اور میں نے یہ ساری دردسری محض شہناز کے
لیے مول لی تھی۔"
"تو
کیا آپ واقعی شہناز…حمید بے اختیار بول پڑا۔ اس کا چہرہ تر گیا تھا۔
"تم
اچھے خاصے الوہو۔ شہناز کی تلاش مجھے محض تمہا رے خیال سے تھی۔ تم اتنی جلدی بد
گمان کیوں ہو جا تے ہو۔"
"معاف
کیجئے گا میں سمجھا شاید۔"
"
جی نہیں! آپ براہ کرم مجھ سے پو چھے بغیر کچھ نہ سمجھا لیجئے۔ میں اور عورت لا حول
وا قو ۃ۔"
"
اچھا صاحب ! لا حول ولا قو ۃ۔" حمید ہنس کر بولا۔
"
آؤشہناز آؤ۔" فریدی دروازے کی طرف مڑ تے ہو ئے بو لا۔ شہناز مسکرا تی ہو ئی
کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔
"
بو لو۔ حمیداب کیا کہتے ہو۔ کہ دوں شہناز سے۔" فریدی نے ہنس کر کہا۔
حمید
بو کھلا گیا۔" کیا بات ہے۔"شہناز بیٹھتی ہو ئی بو لی۔
"
کچھ نہیں کچھ نہیں۔" حمید جلدی سے بولا۔
"خیر
کہو شہناز کو ئی نئی بات۔" فریدی نے کہا۔
"
کو ئی نئی بات نہیں ۔نئی باتیں تو میں آپ سے سننے آئی ہوں۔"
"
ہاں! اب سارے حالات بتا جا یئے۔ مجھے بھی بہت بے چینی ہے۔" حمید نے کہا۔
"حالا
ت کو ئی خاص نہیں سوا ئے اس کے کہ میں نے بڑی بے دردی سے تمہا را سر پھاڑ دیا تھا۔"
"
اس کی شکا یت تو مجھے بھی ہے اگر آپ ذراسا شارہ کردیتے تو میں خودہی بے ہوش ہو
جاتا۔"
"ضرور
۔ضرور آپ سے یہی امید ہو تی تو اتنی قلا بازیا ں کھانے کی کیا ضرورت تھی۔"
"اچھا
یہ بتا ئیے کہ وہ کا غذ کیسا تھا جو آپ نے سریندر کو دیا تھا اور ہار چرانے کی کیا
ضرورت تھی۔"
"اتنا ہی سمجھنے لگو تو پھر سارجنٹ کیوں رہو۔"
فریدی ہنس کر بولا" اچھا شروع سے سنا تا ہوں۔ جگد یش سے لیڈی سیتارام کے
متعلق معلوم کر لینے کے بعد بھی میراارادہ خواہ مخواہ اس جھگڑے میں پڑنے کا نہیں
تھا۔ لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ شہناز غائب کردی گئی ہے تو میں نے اسی وقت پلاٹ تیار
کر لیا۔ جب ہم لوگ اس کی تلاش میں سڑ کیں نا پتے پھر رہے تھے۔چھٹی میں نے سچ مچ
اسی لیے لینی چا ہی تھی کہ کتوں کی نما ئش میں حصہ لوں۔ لٰہذا شہناز کے غائب ہو
جانے کے بعد بھی میں اسی پراڑارہا کہ جاؤں گا۔ تم مجھے اسٹیشن چھوڑنے آئے تھے۔
مجھے ٹرین پر سوار کرا کرتم واپس لوٹ گئے تھے۔ میں اگلے اسٹیشن پر اتر گیا۔ وہاں
سے بھیس بدل کر شہر واپس آیا۔ مجھے سر سیتارام سے جان پہچان پیدا کر نی تھی ۔ اس
لیے میں نے کر نل پر کاش کا بھیس بدلا ۔کیوں کہ وہ بھی کتوں کا ایک مشہور شو قین
تھا اور اپنے افریقی نسل کے یلو ڈنگو کی وجہ سے مجھے اور بھی آسانی ہو گئی ۔ میں
نے آلکچنو کا وہی کمرہ کرو ئے پر لیا جس میں رام سنگھ ٹھہرا ہوا تھا۔ایک دن اچانک
جب کمرے کی صفا ئی ہو رہی تھی ۔ مجھے قالین کے نیچے سے ایک خط مل گیا۔ یہ خط لیڈی
سیتارام نے سریندر کو لکھا تھا۔ فوراً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ شا ید رام سنگھ
اس دونوں کو اسی خط سے بلیک میل کر رہاتھا اور ان لو گوں نے تنگ آ کر دیا۔ اب میں
نے با قاعدہ کام شروع کر دیا ۔ سب سے پہلے تو میں نے تمہیں نما ئیش گاہ سے خط
بھجوانے کا انتظام کیا تا کہ تمہیں بالکل
یقین ہو جائے کہ میں وہیں گیاہوں۔ اس
دوران میں میں نے یہیں آرلکچنو
میں لیڈی سیتارام پر ڈورے ڈلنے
شروع لیے وہ بہت جلدقابو میں آگئی ۔ پھر میں سر سیتارام سے پارک میں ملا اور جب
واپس لوٹ رہا تھا تو تم میرا تعا قب کر رہے تھے۔اب میں دیدہ ودانستہ تمہیں تعا قب
کا مو قع دینے لگا تھا۔ تمہاری موجود گی میں ہمیشہ میں کو ئی نہ کو ئی ایسی
حرکت ضرور کر بیٹھتا تھا جس سے تمہا را شبہ اور زیادہ پختہ ہو جائے ۔ اس دن
بالکنی میں بھی تم نے ہم دونوں کی باتیں سنی تھیں اور اس کے بعد سریندر اور ریکھا کی باتیں بھی سنی تھیں۔ مجھے
پہلے ہی یقین تھا کہ سر سیتارام کی کو ٹھی میں کو ئی تہ خا نہ ضرورہے اور شہناز
صاحبہ اسی میں بند ہیں۔ اور یہ تو میں پہلے ہءی اندازہ لگا چکا تھا کہ بے چارہ سر
سیتارام ان واقعات سے بالکل لا علم ہے۔ لٰہذا میں نے اس پو شید ہ مقام کا پتا لگا
نے کے لیے ہار چرا نے والا پلاٹ بنا یا ۔ یہ میں جانتا کہ تم سائے کی طرح میرے پیچھے لگے
رہتے ہو۔لٰہذا تم آج بھی ہمارے گفتگو سننے کی ضرور کو شش کرو گے اور ایسا ہی ہوا
بھی ۔ اگر تمہیں اس بات کا علم پہلے سے ہوتا واقعات میں اتنی زیادہ بے ساختگی ہر
گزر نہ پیدا ہو سکتی۔"
"
وہ تو سب کچھ ہے لیکن مجھے چکر آنے لگے ہیں۔ اس کاکیا علاج ہو گا۔"حمید نے
کہا۔
"اوراس
کا علاج تو۔" فریدی اتنا کہہ کر شہناز کی طرف دیکھنے لگا اور شہناز نے شرما
کر سر جھکا لیا۔
"
ہاں بھئی ۔اب تم نے کیا سوچا ہے۔ کیا لج کی ملا زمت جا ری رکھو گی"؟فریدی نے شہناز سے کہا۔
"اب
جیسی آپ رائے دیں۔ میرااس دنیا میں کو ئی نہیں جو مجھے کو ئی معقول مشورہ دے
سکے۔"
"میرے
خیال سے اب ملازمت ترک دو۔اس واقعے کے بعد سے تمہاری کافی بد نامی ہو چکی ہے۔ہر
چند کہ تم بے گناہ تھیں لیکن اس قسم کی بد
نامی کے اثرات مشکل ہی ہے سے مٹتے ہیں۔"
"تو
پھر بتا ئیے میں کیا کروں؟"
"میں
اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم اور حمید ایک
دوسرے سے محبت کرتے ہو۔میری مانوتو…کیوں حمید صاحب آپ کی کیا را ئے ہے؟"
حمید
شرما نے کی ایکٹنگ کر نے لگا اور شہناز جو سچ مچ شرمارہی تھی۔ضبط کرنے کے باو جودبھی اپنی ہنسی نہ روک
سکی۔
اتنے
میں انسپکڑ جگد یش آگیا۔اس کے چہرے سے خوشی پھوٹی پڑرہی تھی۔
"آؤ
بھئی جگد یش صاحب ،خوب وقت پرآئے۔" فریدی نے کہا ۔"حمید ذرا چائے کے لیے
کہہ دو۔"
"میں
آپ کا شکر یہ کس منہ سے ادا کروں،انسپکڑ صاحب کہ آپ نے میرا کیر یئر بنادیا۔"
"شکر
یہ تو مجھے تمہارااداکرنا چاہئے۔"فریدی نے کہا" اگر میری مددنہ کرتے تو
بے چاری شہناز جانے کہاں ہوتی۔"
"میں
نے صرف زبانی مدد کی تھی لیکن آپ نے اتنی تکا لیف کا سامنا کر کے میرے لیے ترقی کی
راہ لکالی۔"
"اگر
ایسا ہی ہے تو پھر شہناز بہن کا شکر یہ ادا کرو۔ نہ یہ اس طرح غائب ہو تی اور نہ
میں اس کیس میں ہاتھ ڈالتا۔"
"اچھا
صاحب ۔شہناز بہن کا بھی شکریہ۔" جگد یش نے سعادت مند ا نہ انداز میں کہا۔
"اچھا
جگد یش،لیڈی اقبال کا ہار بھی لیتے جانا۔ یہ کارنا مہ بھی تمہا را ہی رہے
گا۔"
"میں
آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔" جگد یش نے حیرت سے کہا۔ فریدی صاحب نے اسے ہار کی
چوری کے سارے واقعات بتا ئے۔جگدیش کامنہ حیرت سے کھلا ہواتھا؟
"لیکن
میں لیڈیاقبال سے کہوں گا کیا؟"
"سیدھی
بات ہے کہہ دینا کہ شاید بھا گتے وقت چورکے ہاتھ سے گر گیا تھا۔ مجھے ایک نالی میں
پڑاملا۔"
"آپ
کے احسانات کا شکریہ کس زبان سے ادا کروں۔"جگدیش نے کہا۔
"اچھا
یہ بتاؤ کہ سنہا کا کیا حال ہے۔"
"
منہ لٹکا رہتاہے۔ بات بات پرمجھ سے الجھ پڑتا ہے۔"
"خیر
وہ تو ہونا ہی تھا۔"حمید نے کہا۔
چاروں
چائے پینے لگے۔ کبھی کبھی حمید اور شہناز نظر یں چرا ایک دوسرے کو دیکھ لیتے اور
عجیب قسم کی شرمیلی مسکراہٹ دونوں کے ہو نٹو پر رقص کر نے لگتی۔
ختم شد
0 Comments