Kuchli huwi Lash By Ibn-e-Safi|کچلی ہوئی لاش-ابن صفی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Kuchli huwi Lash By Ibn-e-Safi|کچلی ہوئی لاش-ابن صفی

 

کچلی ہوئی لاش-ابن صفی
Kuchli huwi Lash By Ibn-e-Safi

Kuchli huwi Lash By Ibn-e-Safi


1

عبر تناک منظر-ابن صفی
Ibratnak Manzar By Ibn-e-Safi

انسپکٹر  فر یدی نے پہلے تو سر جنٹ کو حمید کو آواز یں دیں لیکن جب اُس نے جنبش بھی نہ کی تو فر یدی نے جھلاّ کر کمبل کھینچ لیا اور دوسرے ہی لمحے میں اُس کے منہ سے کئی نار والفاظ نکل گئے کیونکہ چا ر پا ئی خالی تھی ۔ البتہ کمبل کے نیچے لحاف اور تکئے اس تر تیب سے رکھئے ہو ئے تھے کہ اُن پر کمبل تان دینے سے کسی سو تے ہو ئے آدمی کا گمان ہو سکتا تھا۔

یہ جز فریدی کے لئے نا قابلِ  برداشت تھی۔ کیا حمید سے بچہ بجھتا تھا؟ اس طرح دھو کہ دے کر راتوں کو غائب رہتا فریدی نے  جھلاّہٹ میں سگار زمین پر گرا کر پیر سے کچل دیا۔

دن نکل آیا تھا اور دھو پھیل گئی تھی۔ ہلکی سردیوں کے دن تھے اور صبح ہی صبح فریدی کو فون پر ایک ایسی اطلاع ملی تھی  کہ وہ ناشتہ کرنا بھی بھول گیا تھا۔ اسے اِس وقت حمید کی ضرورت تھی۔

فریدی ابھی کمرے کے دروازے تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ سرجنٹ حمید نے چار پائی کے نیچے سے سر نکال کر کہا ۔’’ گڈ مارننگ  یور ہارڈنس !‘‘

فریدی چونک کر مڑا اور پھر اسے بے ساختہ ہنسی آگئی ۔ پلنگ کی چادر حمید کے شانوں پر لہرا رہی تھی اور وہ اپنی آنکھیں مَل رہا تھا۔ پھر وہ پلنگ کے نیچے سے رینگ کر باہر نکل آیا۔ فریدی نے دیکھا پلنگ کے نیچے با قاعدہ بستر لگا  ہوا تھا جسے جنگ کی چادر کے لٹکتے ہوئے گوشے چاروں طرف سے چھپائے ہوئے تھے۔

یہ کیا حرکت تھی ؟‘ فریدی نے دوسرے لمحے میں سنجیدہ ہو کر کہا۔

’’پلنگ پر ڈراؤنے خواب آتے ہیں ! مید انگڑائی لے کر بولا ۔ " اس کے لئے میں طالب علمی کے زمانے میں بھی یہی نسخہ استعمال کرتا تھاورنہ تین ہی بجے سے مجھے ایسے خواب آنے لگتے تھے جیسے والد صاحب کہہ رہے ہوں ابے اُٹھیہی تو پڑھنے لکھنے  کا وقت ہے وغیرہ وغیرہ اَہم۔‘‘

اُس نے پھر انگڑ ائی لی اور مسکرا کر فر یدی کو آنکھ ما ر دی اور واش بیسن کی طر ف بڑھ گیا ۔

’’میں مذاق کے مو ڈ میں نہیں ہو ں اور شا ید یہ خبر سن کر تم بھی نہ رہ جا ؤ!‘‘ فر یدی بولا ۔

’’کیا با ت ہے ؟‘‘

’’اشر ف ہلا ک ہو گیا !‘‘

’’کیا ؟‘‘ حمید چو نک کر بولا ۔’’کو ن اشرف ؟‘‘

’’ میرا خیال ہے کہ چار سے دوستوں میں صرف ایک ہی اشرف تھا!‘‘

’’اوہ ! کون اپنا اشرف ؟‘‘ حمید کے ہا تھ سے ٹوتھ بر ش چھوٹ پڑا۔

’’ابھی فون پر اطلاع ملی ہے۔ اس کی لاش ایک بھاری تجوری کے نیچے کچلی ہو ئی پا ئی گئی ہے!‘‘

’’کہاں کس  جگہ؟‘‘

’’گھر ہی پر !‘‘ فریوی نے کہا۔’’ جگدیش وہیں ہےاُسے ہمارے تعلقات کا علم تھا!‘‘

’’تو پھر چلئے !‘‘ حمید ہینگر سے پتلو ن کھینچتا ہو ا بولا ۔اس نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور غسل خانے کا ارادہ ملتوی کر کے تیا ر ہو گیا ۔راستے میں فر یدی نے کہا ۔

’’کل ہی اس کی منگنی کا اعلان ہوا تھا۔غالباً  تم نے نیو اسٹار میں اُن دونوں کی تصویر یں  نہ دیکھی ہوں گی ۔ آج

صبح ہی آئی ہیں اور وہ ایک حادثہ کا شکا ر ہو گیا ۔

’’کاش ان کی منگنی کا اعلان نہ ہوا ہو تا !‘‘  حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔ ’’یہ قتل ہی ہو سکتا ہے !‘‘

’’کیوں ؟‘‘ فریدی چونک کر بولا ۔

’’اس کے ایک  دو نہیں بلکہ پانچ عد در قیب تھے!‘‘

’’میں نہیں سمجھا !‘‘

’’آپ نہیں کچھ سکتے!‘‘  حمید سر ہلا کر بولا ۔’’ کبھی آپ کو روحی سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے!“

’’نہیں کبھی نہیں۔ البتہ اشرف ہی کی زبانی اس کا تذکرہ ضرور سنا تھا !‘‘

’’اس سے زیادہ پُر کشش لڑ کی آج تک میری نظروں سے نہیں گزری !‘‘ حمید بولا۔

’’حمید یہ مو قع ایسا  نہیں ہے کہ تم اپنی حسن پرستی کا اظہا ر کرو !‘‘

’’میں مغمو م بھی ہو ں اور سنجید ہ  بھی ۔ آپ ا س لڑ کی سے واقف نہیں شا ید منگنی کے اعلا ن کے وقت بھی اُسے اپنے فیصلے پر تر ددر ہا ہو ۔‘‘

’’کیا بک رہے ہو ؟‘‘

’’جی ہاں ! وہ ان پانچوں کوبھی ناپسند نہیں کرتی !‘‘  حمید نے کہا۔ ’’ مجھے افسوس ہے کہ آپ کو اس سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ویسے بھی اشرف سے اُ س کا کیا رشتہ تھا؟‘‘

’’غالباً خالہ زاد بہن تھی !‘‘

’’اور یہ پانچوں بھی ... ان میں کوئی ماموں زاد ہے، کوئی پیچازاد اور کوئی خالہ زاد ۔سبھی اچھی  حیثیت والے تعلیم یافتہ اور نوجوان ہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ رومی اشرف کے علاوہ ان پانچوں میں بھی دلچسپی لیتی  تھی !‘‘۔

’’خیر چھوڑ و!‘‘  اس قسم کے اندازے قبل از وقت ہوں گے ۔‘‘

جاوید بلڈنگ کے سامنے کیڈ بلاک پہنچ کررُ ک گئی ۔ جاوید بلڈنگ ایک تین منزلہ عمارت تھی ۔ نچلی منزل میں  صرف ایک بہت بڑا فلیٹ تھا جس میں اشرف رہا تھا اور اوپری منزلوں میں دس بارہ چھوٹے چھوٹے فلیٹ تھے جن میں مختلف کرایہ دار رہتے  تھے۔ یہ عمارت اشرف ہی کی تھی۔ یہی نہیں شہر میں اس کی ایسی  کئی  عمارتیں تھیں جن کے کرائے کی شکل میں ہر ماہ ایک کثیر رقم وصول ہوتی تھی۔

اشرف کا شمار متمو ں میں ہو تا تھا اور اپنی حیثیت کے حلقوں میں وہ کافی عزت کی نظروں سے دیکھا جا تا تھا ۔

وہ ایک خوش طبع اور قبول صورت نو جوان تھا ۔شکا ر کے شوق نے اُسے فر ید ی سے بھی متعا رف کر ادیا تھا ۔

            جاوید بلڈنگ کے نیچے پولیس کار پہلے سے ہی موجود تھی جس سے فریدی نے اندازہ لگا لیا کہ وہاں  ڈی۔ ایس۔ پی سٹی بھی موجود ہے۔ شاید جگدیش نے اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی فریدی کو فون کیا تھا۔ کوتوالی انچارج انسپکٹر جگدیش دونوں کی درمیانی کشیدگی سے بخوبی واقف تھا۔ اس لئے وہ خود ہی ایسے مواقع کو بچا جانے کی کوشش کرتا تھا جہاں اُن دونوں کے ٹکراؤ کا امکان ہو۔

            ’’غالباً  کوتوال صاحب بھی تشریف فرما ہیں! ‘‘حمید نے پولیس کار کی طرف دیکھ کر کہا۔

            ’’ہوگا ! ‘‘فریدی نے لا پروائی سے کہا اور کیڈی سے اتر گیا۔

            وہ دونوں عمارت میں داخل ہوئے۔ دروازے پر کھڑا ہوا کانسٹبل شاید اُن سے واقف تھا۔ اس لئے اس نے بڑے ادب سے انہیں راستہ دے دیا ۔

بڑے کمرے میں ایک سب انسپکٹر اور دو ہیڈ کانسٹیبلو ں کے ساتھ انسپکٹر جگدیش موجود تھا۔ فریدی کو دیکھ کروہ آگے بڑھا۔

’’اچانک کوتوال صاحب بھی پہنچ گئے ؟‘‘اُس نے آہستہ سے کہا۔

’’لاش کہاں ہے؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔

’’خواب گاہ میں۔ کوتوال صاحب و ہیں ہیں !‘ ‘جگدیش مشوش لہجے میں بولا ۔ ’’ابھی لاش تجوری کے نیچے ہی ہے۔ فوٹو گرافروں کا انتظار ہے۔ میرا خیال ہے کہ اشرف صاحب سوتے سے اُٹھے تھے۔ ان کے جسم پر سلیپنگ سوٹ ہے۔‘‘

’’ہوں ! ‘‘فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ” کیا میں لاش دیکھ سکتا ہوں ؟“

’’میں نے آپ کو اسی لئے فون کیا تھا۔ مگر وہ ...!‘‘

’’ڈی۔ ایس پی !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔

’’جی ہاں ۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں جھڑپ  نہ ہو جائے!‘‘

ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ڈی ۔ایس ۔پی کچھ بڑ بڑا تا ہو ا کمرے سے نکل آیا ۔فر یدی پر نظر پڑتے ہی وہ رُکا پھر طنز آمیز مسکرا ہٹ کے سا تھ اس کے قر یب آگیا ۔

’’ آپ کیسے؟‘‘

’’آپ ہر موقع پر یہی سوال کرتے ہیں ! ‘‘فریدی مسکرا کربولا ۔’’ لیکن آج میں آپ کو جو اب نہیں دوں گا۔

ممکن ہے با ت بڑھ جا ئے ۔ویسے میں مغمول ہو ں ۔مر نے والا میرا دوست تھا !‘‘

’’مسٹر فریدی ! مجھے حیرت ہے۔ نہ جانے کیوں آپ کے سارے دوست احباب کسی نہ کسی حادثے ہی کے شکا  ر ہو تے ہیں !‘‘

’’اتفاق ہے!‘‘

’’مجھے افسوس ہے !‘‘ڈی ۔ ایس ۔ پی سنجیدگی سے بولا ۔ ’’ میرے  احباب بڑے سخت جان ہیں اور نہ میں بھی سراغرساں ہو جا تا !‘‘

’’مشکل تو نہیں ! ‘‘فریدی بولا۔ ’’آپ خودہی  کیس کیجئے اور خود ہی سراغ لگائیے ۔ ابتدائی مشقوں کے لئے یہ نسخہ بڑا مجّرب ہے ویسے اگر آپ اجا زت دیں تو میں بھی لا ش کو دیکھ لوں !‘‘

’’ہر گز نہیں ۔ آپ اس میں بھی کوئی نہ کوئی نکتہ نکال کر پریشانیاں بڑھا دیں گے !‘‘

’’ کیا آپ نے کوئی خیال قائم کر لیا ہے؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’بالکل سیدھا سادا کیس ہے۔ اچانک تجوری گرنے سے موت واقع ہوگئی !‘‘

’’ہو سکتا ہے۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے خیالات کا اظہار کر کے آپ کو پریشان نہیں کروں گا ! ‘‘

’’آپ کو اس کی اطلاع کس طرح ہوئی!‘‘  ڈی۔ایس۔ پی نے پوچھا۔

’’جگدیش صاحب جانتے تھے کہ وہ میرا دوست تھا !‘‘

’’اوہ !‘‘ ڈی۔ ایس۔ پی نے گھورتی ہوئی نظروں سے جگدیش کی طرف دیکھا پھر فریدی کی طرف مڑ کر بولا ۔

’’آیئے !‘‘

وہ  واردات والے کمرے میں آئے اور حمید کو اپنا خون رگوں میں منجمد  ہوتا محسوس ہونے لگا۔ اس کے

دوست اشرف کی لاش ایک وزنی اور بھاری بھر کم تجوری کے نیچے آدھی سے زیادہ دبی پڑی تھی۔ سر اور سینے کی حالت کا اندازہ دل ہی دل میں لگا کر وہ کانپ اُٹھا۔ یقیناًسر جو نظر نہیں آرہا تھا بری طرح کچل گیا ہو گا۔ جگدیش کے بیان کے مطابق اشرف کے جسم پر سلیپنگ سوٹ ہی تھا اور پیر ننگے تھے۔ سونے کی پلنگ اس کی لاش سے چار یا پانچ  فیٹ کے فاصلے پر رہی ہوگی ۔ آدھا کمبل فرش پر تھا اور آدھا پلنگ پر۔سر ہا نے کی کر سی کے دونوں پا ئے اُٹھے ہو ئے تھے اور پُشت دیوار سے ٹک گئی تھی ۔

فریدی کی نظریں لاش پر جی  رہیں پھر اُس نے چاروں طرف دیکھ کر لاش کی جانب دیکھا۔

’’یہ غا لباًسو رہا تھا !‘‘ڈی۔ ایس۔ پی نے سکوت توڑا ۔’’ سوتے سے اٹھا اور کسی طرح تجوری گر پڑی!‘‘

’’ ٹھیک ہے ! ‘‘فریدی نے اعتراف میں سر ہلایا۔ حمید سوچ رہا تھا کہ شاید وہ کچھ اور بھی کہے گا لیکن فریدی پھرخاموشی سے لاش کا جائزہ لینے میں مشغول ہو گیا تھا۔ وہ لاش پر جھکا ہوا قرب و جوار کی زمین بھی دیکھتا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔ چند لمحے  خلا میں گھورتا رہا پھر بولا ۔ ’’آپ کا خیال درست ہو سکتا ہے۔ میں بھی فی الحال یہی فرض کئے لیتا ہوں کہ یہ محض ایک اتفاقی حادثہ ہے!‘‘

’’ٹھہریئے  ! ‘‘ڈی۔ ایس۔ پی ہاتھ اٹھا کر بولا۔’’ فرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی تھیوری ہو تو پیشں کیجئے !‘‘

’’بغیر کلیو کے تھیوری !‘‘فریدی خفیف سا مسکرایا۔ ابھی تو میں معاملات کو سمجھ بھی نہیں سکا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوئی تھیوری رکھتے ہیں!‘‘

’’ہو سکتا ہے۔ لیکن میں پہلے آپ کا خیال معلوم کرنا بہتر سمجھوں گا ! ‘‘

’’بہتر ہے۔ مگر پھر شکایت نہ کیجئے گا۔ ہو سکتا ہے کہ میں معاملات کواُلجھا دوں ! ‘‘

’’کوشش کیجئے ! ‘‘ڈی۔ ایس۔ پی طنز  یہ انداز میں مسکرایا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اُس نے سچ مچ  معاملات کے متعلق کوئی خاص نظر یہ قائم کر لیا ہو ۔

فریدی پھر فرش پر جھک کر کچھ دیکھنے لگا۔ اس کی نظریں پلنگ کا جائزہ لیتی ہوئیں سر ہانے والی کرسی کے اُٹھے ہوئے اگلے پایوں پر جم گئیں ۔ اس نے سیٹی بجانے والے انداز میں اپنے ہونٹ سکوڑے اور اب تجوری کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وہ جگہ دیکھی جہاں تجوری رکھی رہی ہوگی ۔ یہاں فرش پر گرد و غبار میں اس کے پیندے کا نشان صاف ظاہر تھا۔

شاید دس منٹ تک وہ کمرے کی ایک ایک چیز کو دیکھتا بھالتا رہا۔ اس دوران میں کئی بار اُس نے محدّ ب شیشے کی مدد سے کئی چیزوں کا جائزہ لیا۔

’’ اب میں یہ معلوم کرنا چاہوں گا کہ اس حادثے کی اطلاع کس نے دی تھی ؟ ‘‘فریدی سیدھا کھڑا ہوتا ہوا بولا۔

’’ایک نوکر نے !‘‘ ڈی۔ایس۔ پی نے کہا۔

’’اشرف کے پاس دو نو کر تھے ۔ خیر اطلاع کس وقت دی ! ‘‘

’’صبح چھ بجے !‘‘

’’حالانکہ اگر یہ حادثہ رات ہی کو ہوا تھا تو انہیں اُسی وقت اس کی اطلاع ہوگئی ہوگی !‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’تجور ی  کے گرنے سے کافی تیز آواز ہوئی ہوگی !‘‘

’’انہوں نے کوئی آواز نہیں سنی ۔ وہ دونوں دو بچے رات تک گھر سے باہر رہے تھے !‘‘

’’اوہ ! تب  میں اُن سے کچھ سوالات کرنا ضروری سمجھوں گا !‘‘فریدی نے کہا ۔

’’لیکن آپ اُن سے کچھ بھی نہ معلوم کرسکیں گے ۔ کیونکہ وہ رات آٹھ بجے سے دو ب بجے تک یہاں تھے ہی نہیں ۔ جن لوگوں کے ساتھ تھے انہوں نے تصدیق کر دی ہے !‘‘

’’کہاں تھے ؟ ‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’سرکس دیکھنے گئے تھے۔ اوپری منزل کے دو کرایہ دار کے خاندان بھی اُن کے ہمراہ تھے !‘‘

’’لیکن اس کے باوجود بھی میں کچھ سوالات کرنا پسند کروں گا !‘‘فرید ی بولا ۔

 دونوں نو کر  بلائے گئے جو صد مے  اور خوف سے زرد ہورہے تھے۔ انہوں نے اپنی غیر حاضری کا سبب وہی بتایا جو اس سے پہلے ڈی ۔ایس پی ۔بتا چکا تھا۔ ان کی موجودگی میں رات میں کوئی اشرف سے ملنے  بھی نہیں آیا تھا۔

’’ کیا یہ تجوری پہلے بھی کبھی گر چکی ہے !‘‘ فریدی نے سوال کیا۔

اس کا جواب دونوں نوکروں نے نفی میں دیا۔

’’ظاہر ہے کہ گھر میں اشرف کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ پھر تم اندر کس طرح داخل ہوئے ؟ ‘‘

’’ہم پچھلے دروازے میں باہر سے تالا لگا کر گئے تھے ! ‘‘ایک نوکر نے کہا۔

’’خصوصیت سے کل ہی رات کو تم نے سرکس دیکھنے کا پروگرام کیوں بنایا؟‘‘

’’ ہمیں ہر سنیچر کی رات کو آٹھ بجے کے بعد چھٹی مل جاتی ہے اور ہم زیادہ تر راتیں باہر ہی گزارتے ہیں !‘‘

’’اور ہمیشہ اسی طرح پچھلے دروازے میں تالا لگا کر جاتے ہو!‘‘

’’جی ہاں !‘‘

’’تم جب واپس آئے تو تالا اُسی طرح بند تھا ؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’اچھا! تمہارے اس معمول سے دوسرے لوگ تو واقف نہ ہوں گے ؟‘‘

’’جی  نہیں ۔ سب جانتے ہیں ۔ یہاں کے سب کرایہ دار!‘‘

’’اشرف کے دوست احباب بھی ؟‘‘

’’ اس کے متعلق علم نہیں ! ‘‘ نو کر بولا ۔

’’تمہارا کیا خیال ہے؟ ‘‘فریدی نے دوسرے نوکر سے پوچھا۔

’’ممکن ہے کہ جانتے ہوں ! ‘‘اس نے تھوک نگل کر جواب دیا۔

’’ تم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے ؟“

’’جی نہیں ‘‘

اس کے بعد بھی فریدی نے اُن سے بہتیرے سوالات کئے اور ڈی۔ ایس ۔پی اُکتائے ہوئے انداز میں طرح طرح کے منہ بنتا تا رہا آخر فریدی نے نوکروں کو رخصت کر دیا۔

’’ہاں جناب ! اب فرمائیے ۔‘‘ ڈی ۔ ایس ۔ پی نے پھر چٹکی  لی ۔

’’میں اِسے اتفاقی حادثہ نہیں سمجھتا!‘‘ فریدی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ اس وزنی تجوری  کا اپنی جگہ  جنبش کرنا بھی قریب قریب ناممکن سا ہے۔ جب تک کہ کئی ہاتھ نہ لگیں ۔ دوسری صورت میں یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے کہ جبکہ اُسے پیچھے سے ڈھکیلا جائے ۔ نشان بتاتا ہے کہ وہ دیوار سے تقریباً ڈیڑھ فٹ کے فاصلہ پر رکھی ہوئی تھی اتنی

جگہ میں ایک آدمی بہ آسانی کھڑا ہو سکتا ہے !‘‘

’’اس حقیت سے کس کا فر کو انکار ہوسکتا ہے!‘‘ ڈی۔ ایس ۔پی مسکرا کر بولا۔

’’میں اسے قتل عمد  سمجھتا ہوں ! ‘‘فریدی نے کہا ۔ ’’ میرے ذہن میں کوئی معمولی چور اُچکّا نہیں ہے!!‘‘

’’میں نہیں سمجھا ! ‘‘ڈی۔ایس۔ پی بولا ۔

’’ مطلب یہ کہ اشرف کی جان تجوری کی وجہ سے نہیں گئی ۔ بلکہ تجوری کو جان بوجھ کر اس کی زندگی ختم کردینے کا ذریعہ بنایا گیا!‘‘

’’بس فی الحال میں اتنا ہی  عرض کر سکتا ہوں !‘‘ فریدی نے کہا ۔ ’’ اب میں آپ کے نظریے کے لئے بے چین ہوں!‘‘

’’لیکن فی الحال آپ جو کچھ کہ رہے ہیں اُس کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل بھی ہے!‘‘

’’میں دلیل کے بغیر کبھی کوئی بات نہیں کہتا !‘‘

’’میں وہ دلیل سننا چاہتا ہوں !‘ ‘ڈی ۔ ایس ۔ پی نے کہا۔

’’تجو ری  خود سے نہیں گر سکتی اور نہ اشرف اتنا احمق تھا کہ خود سے اُسے اپنے اوپر گر الیتا!‘‘

’’ اس کا اعتراف میں پہلے ہی کر چکا ہوں !‘‘

’’سنتے جائیے! ‘‘فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ ’’ میں سارے امکانات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا ۔ فرض کیجئے وہ کوئی چور تھا۔ اس نے چوری کی نیت سے تجوری کھولنی چاہی اتنے میں اشرف کی آنکھ کھل گئی لیکن قبل اس کے کہ وہ چور کو دیکھتا چور تجوری کے پیچھے چھپ گیا... یا اشرف نے اُسے دیکھ ہی لیا۔ جیسے ہی وہ تجوری کی طرف جھپٹاچور نے تجوری اُس پر ڈھکیل دی۔ اشرف اُس کے نیچے دب گیا لیکن آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اس کا سر تجوری کی طرف ہے اور وہ اوندھا پڑا ہے۔ حالانکہ تجوری کا دھکا لگتے ہی اسے چت کرنا چاہئے تھا۔ اس صورت میں اس کا سر پلنگ کی سمت ہوتا اور شاید اس کی ٹانگیں تجوری کے نیچے دبی ہوتیں !‘‘

’’ہو سکتا ہے کہ دو پلنگ  سے اٹھتے اٹھتے ہی اومد ھے منہ گر پڑا ہوا!‘‘ ڈی ۔ ایس ۔ پی نے کہا۔

’’تو چلئے بات بھی ختم ہو گئی !‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ قتل عمد ثابت ہو گیا !‘‘

 ’’کیوں ؟‘‘ ڈی۔ ایس۔ پی بوکھلا گیا۔

’’ سیدھی سی بات ہے۔ اُس کے گر پڑنے کے بعد چور فرار بھی ہو سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا پہلے اُس نے تجوری گرا کر اُسے کچل دیا پھر نکل بھاگا۔ اتفاقیہ حادثہ ہم اُسے اس وقت کر سکتے تھے جب ان دونوں کی جد و جہد کے دوران میں تجوری دھکا لگنے کی بنا پر اُ س پر آگرتی اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا تھا جب وہ جد و جہد تجوری کے پیچھے والی ڈیڑھ فُٹ چوڑی جگہ میں ہوتی اور یہ بالکل ناممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر دو پیچھے ہوتے تو آگے کی طرف گری ہوئی تجوری کے نیچے وہ کس طرح دیتا!‘‘

ڈی۔ ایس پی کچھ نہ بولا۔ اُس نے شروع ہی سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کر کے عقل مندی کا ثبوت دیاتھا۔

’’لیکن !‘‘فریدی تھوڑی دیر بعد بولا ۔ ’’ میں چور والی تھیوری کا قائل نہیں ہوں !‘‘

’’اچھا تو اب آپ الجھا ئیں گے اس معاملے کو !‘‘ڈی ۔ایس۔ پی نے کہا۔

’’ الجھانے کا سوال ہی نہیں۔ میرا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی  اسکیم کے تحت بہت ہی اطمینان کے ساتھ کیا گیا ہے!‘‘

’’کس طرح ؟‘‘

’’ٹھہریئے ! میں ایک بار پھر اُن نوکروں سے گفتگو کروں گا!‘‘ فریدی نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔ حمید بھی اُس کے پیچھے تھا۔ ڈی۔ ایس۔ پی بھی اُسی کمرے میں آگیا جہاں انسپکٹر جگدیش وغیرہ تھے ۔ تھوڑی دیر بعد فریدی پھر نوکروں سے استفسار کر رہا تھا۔

’’خواب گاہ کی صفائی کون کرتا ہے؟‘‘

’’میں !‘‘ ایک نوکر بولا ۔

’’روزانہ!‘‘

’’ جی ہاں !‘‘

’’ کیا تم نے کبھی خواب گاہ میں شیشے کی گولیاں دیکھی ہیں ؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔

2

کوٹ اور گولیاں

اس سوال پر نہ صرف حمید چونکا بلکہ دوسرے بھی فریدی کو تحّیر آمیز نظروں سے دیکھنے لگے۔ نوکر چند لمحے خاموش رہا۔ شاید وہ بھی اس غیر متوقع اور بظاہر اہم سوال کے متعلق غور کرنے لگا تھا۔

’’شیشے کی گولیاں !‘‘نوکر ذہن پر زور دیتا ہوا بولا۔

’’ میں نہیں سمجھا کہ شیشے کی گولیوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘

’’شیشے کی گولیوں سے مراد صرف شیشے کی گولیاں ہیں۔ ایسی گولیاں جو سوڈا واٹر کی بوتلوں میں ہوتی ہیں !‘‘

’’ جی نہیں اس قسم کی گولیاں گھر میں کبھی نہیں تھیں ! ‘‘

’’خواب گاہ کی صفائی کرتے وقت بھی کبھی تمہاری نظروں سے نہیں گزریں !‘‘

’’جی نہیںکبھی نہیں !‘‘

’’کل تم نے صفائی کی تھی ؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’تب  پھر شاید تم نے ملبوسات کی الماری کے نیچے سے گرد نہیں نکالی تھی !‘‘

’’صاحب ایک ایک کو نہ صاف کراتے تھے اور الماری کے نیچے تو خاص طور سے روز ہی ہاتھ لگانے پڑتے ہیں کیونکہ ایک بار اس کے پیندے میں دیمک لگ چکی ہے!‘‘

’’اوہلیکن تمہیں شیشے کی تین گولیاں نہیں دکھائی دی تھیں ؟‘‘

’’قطعی نہیں حضور! اگر دکھائی دیتیں تو مجھے بھی حیرت ہوتی۔ کیونکہ نہ تو ہمارے یہاں کبھی بچے آتے ہیں اور نہ ایسی سوڈے کی بوتلیں جن میں گولیاں ہوتی ہیں !‘‘

’’ٹھیک کہتے ہو ۔ آج کل شہر میں کوئی ایسی فیکٹری نہیں جو کراؤن کا رک والی بوتلوں کے علاوہ کسی اور قسم کی بوتلوں میں سوڈا بھرتی ہو ... اچھا تم جا سکتے ہو!“

نو کر چلے گئے ۔ فریدی فاتحانہ نظروں سے ڈی۔ ایس۔ پی سٹی کی طرف دیکھنے لگا۔ اتنے میں فوٹو گرافر بھی آگئے اور انہوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔ ڈی ۔ایس پی سٹی نے پھر کوئی سوال نہیں کیا۔ حالانکہ حمید بُری طرح الجھ رہا تھا۔ آخر ان گولیوں کا مطلب؟ فریدی کسی نتیجے پر پہنچا ہے اور واردات کے متعلق حقیقتاًاس کا نظریہ کیا ہے۔

جب فوٹو گرافر اپنا کام ختم کر چکے تو ڈی۔ ایس۔ پی سٹی بھی لاش اُٹھوانے کا حکم دیتا ہوا چلا گیا۔ فوٹوگرافروں کے ساتھ ڈاکٹر بھی آیا تھا۔ بہر حال حمید اس کے بعد کمرے میں جانے کی ہمت نہیں کر سکا۔ تجوری اٹھنے کے بعد وہ  اُس لاش کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اپنے اتنے دنوں کے تجرباتی دور میں شاید ہی اس نے کبھی اتنی کمزوری کا احساس کیا ہو۔  

لاش اٹھ جانے کے بعد ہی وہ اُس کمرے میں جا سکا ۔ اب کمرے میں صرف فریدی اور انسپکٹر جگدیش رو گئے تھے ۔ فریدی اب بھی کمرے کی بعض چیزوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ جگدیش کی طرف مڑ کر بولا۔

’’کیا تمہارے کو تو ال صاحب نے کوئی نظریہ قائم کیا تھا؟‘‘

’’ جی ہاں... وہی چور والی بات۔ اُن کا خیال ہے کہ اشرف نے جاگ کر چور کو پکڑ لیا تھا۔ دونوں میں جد و جہد ہوئی اور نتیجے کے طور پر تجوری اُس پر آرہی !‘‘

’’لغو!‘‘فر یدی سگار سلگاتا ہوا بولا ۔ حمید کو فریدی کے سکون اور اطمینان پر حیرت ہو رہی تھی۔ کیا اُس کی نظروںمیں  لاشوں کی کوئی اپنا نہیں رہ گئی تھی۔ خواہ وہ اپنے آدمیوں کی ہوں خواہ برابر بھی متاثرنہیں ہوتا تھا۔

فر یدی چند لمحے تجوری کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔’’ تجوری مقفل ہے۔ اگر یہ کھلی ہوئی بھی ملتی تو میں اس نظریےکوتسلیم کر لیتا۔ اگر چور اتنا ہی دیدہ دلیر بھاگ نکلنے کے بجائے اشرف کو کچل دینے کا منتظر رہا ہوتو وہ بعد کوتجوری سیدھی کر کےاُسے کھول بھی سکتا تھانہیں جگدیش صاحب! وہ تجوری کے لئے یہاں ہرگز نہیں آیا تھا !‘‘

’’آپ کہتے ہیں کہ یہ کام اطمینان سے کیا گیا !‘‘جگدیش نے کیا ۔ ’’ تو آخر تجوری استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ گلا بھی گھونٹا جا سکتا تھاایک تیز دھار و الا خنجر!‘‘

’’ٹھہرو!‘‘فر یدی اس  کی بات کاٹ کر بولا ۔’’ اس سِٹ اَپ  کا مطلب ہی ہے کہ قاتل چور والا نظریہ ذہن نشین کرانا چاہتا تھا۔ لیکن اس نے تھوڑی سی غلطی کی۔ خیر ہاں تو یہ گولیاں !‘‘

 فریدی نے جیب سے تین گولیاں نکالیں اور گفتگو جاری رکھی۔ ’’پچھلی رات یہاں ایسی بہتیری گولیاں رہی ہوں گی جنہیں اشرف کو گرانے کے لئے استعمال کیا گیا ہو گا‘‘

فریدی نے گولیاں زمین پر ڈال دیں۔ پھر ٹہلتا ہوا کمرے کے آخری سرے تک گیا۔ واپسی پر اُس کی رفتار تیز تھی۔ اس کا ہر ایک پر انہیں گولیوں پر پڑ کر پھسلتا چلا گیا۔ اگر اس نے توازن برقرار نہ رکھا ہوتا تو گر ہی پڑا تھا۔

’’تم نے دیکھا!‘‘ فریدی سنبھل کر جگدیش سے بولا ۔’’ ایسی بہتیری گولیاں پلنگ کے قریب پڑی رہی ہوں گی۔ اسے کسی تدبیر سے جگایا گیا اور جیسے ہی وہ جھپٹ کر اٹھا اس کا پیر گولیوں پر پھسل گیا اور اُس کے گرتے ہی اُس پر تجوری دھکیل دی گئی۔ پھر بڑی احتیاط سے سارے نشانات مٹائے گئے لیکن یہ گولیاں اتفاق سے الماری کے ہے نیچےلڑھک گئی تھیں ورنہ یہ بھی یہاں موجود نہ ہو تیں !‘‘

’’میں پھر عرض کروں گا کہ اتنی سی بات کے لئے اتنی جھنجھٹ کیوں ؟ ‘‘جگدیش نے کہا۔ ’’اگر قاتل تجوری ہی کے نیچے اُسے کچلنا چاہتا تھا تو اس نے گولیوں والا طریقہ کیوں اختیار کیا۔ کیونکہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس کا پیر نہ پھسلتا۔ اس سے زیادہ سیدھی سادی چیز تو کلورو فارم تھی۔ اطمینان سے اُسے بے ہوش کرتا پھر اُسے فرش پر ڈال کر تجوری گرادیتا!‘‘

’’اور پھر !‘‘فریدی طنزیہ لہجے میں بولا۔ ’’پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کلورو فارم کی کہانی سنادیتی اور قتل عمد ثابت و جاتا کیوں؟... اگر اُ سے یہی کر نا  ہوتا تو وہ اس سے بھی زیادہ سیدھی سادی چیز چھری استعمال کرتا !‘‘

’’عجیب معاملہ ہے ! ‘‘جگدیش سر بلا کر بولا۔

’’بہر حال اس سارے سِٹ اَپ کا مطلب یہی ہے کہ قاتل خود بھی جانتا تھا کہ اس پر شبہ کیا جاسکتا ہے اسی لئے اس نے چور والا نظر یہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے!‘‘

’’چلئے اب آئی مصیبت ‘‘ جگدیش مسکرا کر بولا ۔ ’’ اب ہمیں کسی ایسے آدمی کو ڈھونڈھنا پڑے گا جس سے اشرف کی وشنی ہی ہو اور وہ یقینا ایساہی آدمی ہو گا جس سے کچھ دوسرے لوگ بھی اشرف کے دشمن کی حثیت سے واقف ہوں گے ورنہ پھر اُسے پہچان لئے جانے کا خدشہ ہو ہی نہیں سکتا !‘‘

’’ تمہارا خیال درست ہے!‘‘ فریدی نے کہا۔ لیکن اس میں بھی ایک دوسری صورت ہوسکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ سب کچھ قتل کا مقصد چھپانے کے لئے کیا گیا ہو!‘‘

’’میں نہیں سمجھا!‘‘

’’تم نے شاید آج کا نیواسٹار دیکھا؟‘‘ فریدی نے کہا۔’’ اس میں اشرف اور روحی کی منگنی  کی خبر آئی ہے اور ان کی تصویریں بھی شائع ہوئی ہیں۔ منگنی کا اعلان کل شام کو ہوا تھا !‘‘

’’اوہ !‘‘ جگدیش یک بیک اُچھلتا ہوا بولا ۔ ’’رقابت ! یہی کہنا چاہتے ہیں نا آپ !‘‘

’’ اس کے بھی امکانات ہو سکتے ہیں ! ‘‘فریدی نے کہا۔

’’ بہر حال آپ اس کیس میں دلچسپی لیں گے !‘ ‘جگدیش بولا ۔

’’مجھے لینی ہی پڑے گی ۔ تم جانتے ہو کہ وہ میرے کتنے قریبی دوستوں میں سے تھا ! ‘‘

’’تو اب میرے خیال سے اس مکان کو مقفل کرنا پڑے گا ! ‘‘جگدیش نے کہا۔ ’’ اشرف کا کوئی... وارث !‘‘ ’’میرا خیال ہے روحی کی ماں کے علاوہ اور اس کا کوئی قریبی عزیز نہیں ہے!“

’’وہی ! اشرف کی منگیتر۔ “

’’ہاں وہی!‘‘ فریدی ایک طویل سانس لے کر دوسری طرف دیکھنے لگا ۔

’’آپ بالکل خاموش ہیں ؟ ‘‘جگدیش نے حمید کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’مجھے صدمہ ہے گہرا صدمہ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ابھی میں اس محکمے کے قابل نہیں ہوا!‘‘

 اس جملے پر فریدی  نے حمید پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ نہ اُس پر غم کے آثار تھے اور نہ تشویش کے۔ تھوڑی دیر بعد وہ حمید کی طرف مڑ کر بولا ۔’’ ذرا اُن نوکروں کو پھر بلاؤ۔

میں کچھ اور پو چھوں گا !‘‘

حمید چلا گیا۔ وہ چونکہ یہاں بار پہلے تھا اس لئے وہ جانتا تھا کہ نو کر کس کمرے میں ملیں گے۔ کمرے کے دروازے پر وہ ٹھٹکا۔

’’دیکھو! چلے جاؤ!‘ ایک کر غالباًسے کہہ رہا تھا ۔’’ پتہ نہیں یہ کس کا ہے؟‘‘

’’تم کیوں نہیں جاتے۔ مجھے خاکی وردیوں ہول آتا ہے!‘‘

’’ڈرنے کی کیا بات ہے۔ چلے جاؤ۔ میں در اصل اب اُس کمرے میں نہیں جانا چاہتا۔ میرا دَم الٹنےلگتاہے!‘‘

دوسرے لمحےمیں  کمرے میں داخل ہوگیا۔ وہ دونوں بو کھلا کر  کھڑے ہو گئے۔حمید  سے اور اچھی طرح واقف تھے ۔

’’تم کیا کہنا چاہتے تھے ؟‘‘ حمید نے پو چھا۔

’’ صاحب!... یہ کوٹ !‘‘ ایک نوکر نے اپنے سامنے پڑے ہوئے کوٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔’’ ہمیں راہ داری میں پڑا ملا ہے۔ پتہ نہیں  کس کا ہے گھر میں تو اس قسم کا کوئی کوٹ کبھی تھا؟‘‘

 حمید نے کوٹ ہاتھ میں اٹھایا۔ معمولی گرم کپڑے کا پرانا کوٹ تھا۔

’’میرے ساتھ آؤ!‘‘حمید بولا۔

فریدی نے بھی اس کوٹ کو حیرت کی نظروں سے دیکھا۔

’’تمہیں یقین ہے کہ یہ پہلے گھر میں نہیں تھا !‘‘ فریدی نے کہا۔

’’جی ہا ں ۔صاحب کبھی  گھٹیا کپڑے نہیں پہنتے تھے!‘‘ تو کر نے جواب دیا۔

 فریدی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ دوسرے لمحے میں اُس کے ہاتھ میں ایک نیلے رنگ کا شناختی کارڈ تھا اور جیسے ہی اس نےاس کی تہہ کھولی اس کی آنکھوں سے حیرت ظاہر ہو نے لگی ۔

’’یہ تو یو نیورسٹی کا کوئی طالب علم ہے !‘‘ اس نے حمید کی طرف دیکھ کر کہا ۔’’کیا ان لو گوں میں سے بھی کو ئی زیر تعلیم ہے ؟ادھر آؤ ۔یہ دیکھو!‘‘

حمید اور جگدیش دونوں اس کی طرف بڑھے ۔فر یدی نے کا رڈ پر چپکی ہو ئی تصویر ان کو سا منے کر دی ۔یہ ایک نو عمر آدمی کی نصف تصویر تھی ۔جس کے نیچے تحریر تھا ۔’’شا ہد جمیل فو ر تھ ایر آرٹس!‘‘

حمید کے لئے چہرہ بالکل نیا تھا ۔وہ ان پا نچ آدمیوں میں سے نہیں تھا ۔

فریدی حمید سے نفی میں جواب پا کر نوکروں کی طرف متوجہ ہوا۔

’’ کیا یہ آدمی تمہارے صاحب کے دوستوں میں سے تھا ؟‘‘

’’پتہ نہیں! میں نے تو کبھی نہیں دیکھا!‘‘ نو کرنے تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ دوسرے نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔

’’تم نے اس کوٹ میں سے کوئی اور چیز تو نہیں نکالی ؟‘‘

’’نہیں صاحب !ہم نے ہاتھ بھی نہیں لگا یا !‘‘

 فریدی چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر جگدیش کی طرف دیکھ کر بولا۔’’ سوال یہ ہے کہ اگر یہ مجرم ہی کا ہے تو وہ اُسے یہاں اتنی لا پروائی سے کیوں چھوڑ گیا اور اس میں ایک ایسی چیز بھی رہنے دی جو اس تک پولیس کو نہایت آسانی سے پہنچا سکتی ہے !‘‘

کوئی کچھ نہ بولا۔ فریدی تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر بولا ۔ ’’آخر یہ کوٹ آیا کہاں سے؟ اگر یہ قاتل ہی کاہے تو مجھے حیرت ہے ۔وہ جس نے اتنی احتیاط سے سا رے نشا نا ت مٹا نے  کو شش کی ، ایسی فا ش غلطی کس طرح کر سکتا ہے ۔جگد یش صاحب تمہا رے آفیسروں کا خیال صحیح تھا کہ میرا ہا تھ لگتے ہی معا ملا ت پیچیدہ شکل اختیا ر کر لیں گے !‘‘

’’مجھے بڑی گھٹن ہو رہی ہے !‘‘ دفتعہً حمید نے کہا ۔’’میں یہا ں زیا دہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا!‘‘

’’تم جا سکتے ہو ،تمہا رے لئے ایک کا م نکل آیا ہے ۔ یہ شنا ختی کا رڈ لے یو نیو رسٹی جا ؤ ۔حالا نکہ آج اتوار ہے لیکن تم پر اکٹر (Proctor)ٌ سے مل کر اس لڑ کےکے متعلق تفصیلا ت حاصل کر سکو گے ۔ممکن ہے آفس بھی کھلا ہو ۔

اگر لڑ کا ڈ ے اسکا لر ہو ا تب بھی تم اُس کے داخلے کے فا رم سے اس کا پتہ معلوم کر لو !‘‘

            حمید شنا ختی کا رڈ لے کر چلا گیا ۔

            ’’ہمیں نشا نا ت کے لئے اسی کمرے تک محدود نہیں رہنا چا ہئے !‘‘ فر یدی نے جگدیش سے کہا ۔

            وہ اس کمرے سے نکل کر نشست کے کمرے میں آئے ۔یہ کمرہ بیرونی دروازے والی راہ داری کے با لکل سر ے پر تھا ۔

            ’’کیا اس کمرے کو تم لو گو ں نے نہیں دیکھا تھا !‘‘ فر یدی نے جگد یش سے کہا۔

            ’’جی نہیں ۔ہم میں سے کسی نے بھی دوسرے کمروں کی طرف دھیان نہیں دیا !‘‘

            ’’کو ٹ تمہیں کہا ں ملا تھا ؟‘‘ فر ید ی نے پلٹ لر نو کر سے پو چھا ۔

            ’’یہا ں اس جگہ !‘‘نو کر نے کمرے کے دروازے کے سا منے کی جگہ کی طرف اشا رہ کیا ۔

            ’’اوہ !‘‘ فر یدی نے جگد یش کی طرف دیکھ کر کہا ۔’’میں بھی ادھر ہی سے گز ر کر اندر آیا تھا لیکن میری نظر اُس پر نہیں پڑی ۔ظاہر ہے کہ تم لو گو ں نے بھی اُسے نظر انداز کر دیا تھا !‘‘

            ’’کیا تم کچھ چھپا نے کی کو شش کر رہے ہو ؟‘‘ فر یدی نے نرم لہجے میں اُس سے کہا ۔

            ’’جج جیمممجھے صبح ہی ملا تھا !‘‘

            ’’تو تم اسے چھپا یا کیوں ؟‘‘ فر یدی کی تیز نظریں پہلے نو کر کے چہر ے پر جم گئیں۔

            ’’میں کچھ نہیں جا نتا صاحب ۔اس نے مجھ سے جو کچھ بتا یا میں نے آپ سے کہہ دیا ۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا !‘‘

            ’’کیو ں ؟‘‘ فر یدی  نے دوسرے کیا ۔’’تم نے پہلے ہی سچی با ت کیو ں نہیں بتا ئی ؟‘‘

            ’’میں بھو ل گیا تھا سر کار ۔میں نے اسے اٹھا کر اپنے کمرے میں ڈال دیا تھا ۔آج ہو ش تو ٹھکا نے ہی نہیں !‘‘

            فر یدی چند لمحے سو چتا رہا  پھر نو کروں سے بولا ۔’’اب جا ؤ ۔لیکن گھر سے با ہر نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ پھر تمہا ری ضروت پڑے!‘‘

            وہ کمرے میں داخل  ہو چکے  تھے ۔ فر یدی  نے چا ر وں طر ف اچٹتی سی نظر ڈالی اور جگد یش سے بولا ۔’’اُس کو ٹ کے متعلق تمہا ری کیا را ئے ہے ؟‘‘

            پھر وہ اُس کے جو ا ب کا انتظار  کئے بغیر صوفوں کے درمیا ن رکھی ہو ئی چھو ٹی میز کے پا یوں کی طر ف جھک گیا ۔

’’اس کوٹ نے مجھے بھی چکر میں ڈال رکھا ہے!‘‘ جگدیش نے کہا  اور اس کے بعد بھی کہتے کہتے کہتے رُک گیا۔ کیونکہ اس نے فریدی کو فرش سے کوئی چیز اٹھاتے دیکھ لیا تھا۔ یہ ایک رومال تھا جسے فریدی غور سے دیکھ رہا تھا۔

’’ آہم !‘‘فریدی آہستہ سے بڑبڑایا۔’’ لپ اسٹک کے دھبے ۔ ایک کونے پر حرف آر "R" گڑھا ہوا ہے!" جگدیش تیزی سے فریدی کی طرف بڑھا۔ فریدی نے رومال میز پر ڈال دیا تھا اور اب پھر فرش پر جھکا ہوا کچھ دیکھ رہا تھا۔ جگدیش نے رومال اٹھا لیا جس سے ایونگ ان پیرس کی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی اور اس پر واقعی کئی جگہ لپ اسٹک کے دھبے  تھے۔

تھوڑی دیر بعد فریدی پھر سیدھا کھڑا ہو گیا اور اس نے جگدیش سے کہا۔ ’’ذرا نوکروں کو پھر آواز دینا!‘‘

 کوٹ والے واقعے کے بعد سے دوسرا نو کر بھی بہت زیادہ سراسیمہ نظر آنے لگا تھا۔ پہلے کی حالت تو خیر شروع ہی سے ابتر تھی۔

’’کیوں بھئی! اس کمرے کی صفائی کب سے نہیں ہوئی ؟‘‘ فریدی نے اُن سے پوچھا۔

’’کل شام ہی کو میں نے صاف کیا تھا !‘ ‘ایک نے کہا۔

’’اچھی طرح یاد ہے۔ سوچ سمجھ کر جواب دینا۔ یہ بہت اہم ہے!‘‘

’’جی ہاں ہمارے معمول میں کبھی فرق نہیں آتا !‘‘

’’ اور کل شام سے رات تک تمہاری موجودگی میں کوئی اشرف سے ملنے نہیں آیا!‘‘

’’ جی نہیں مجھے اچھی طرح ہے۔ اور صاحب کا بھی کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا  کیونکہ انہوں نے ہماری موجودگی ہی میں سونے کے کپڑے پہن لئے تھے !‘‘

’’جگدیش یہ بات اہم ہے۔ اسے نوٹ کر لو!‘‘ فریدی نے کہا اور پھر نوکروں سے مخاطب ہو گیا۔

’’خاتون روحی یہاں کبھی آتی ہیں!‘‘

’’جی ہاں اکثر !‘‘

’’اکثر خلاف توقع رات میں بھی آئی ہوں گی !‘‘

’’جی نہیں ایسا اتفاق تو کبھی نہیں ہوا !‘‘

’’ہوں کوئی اور میرا مطلب ہے جان پہچان کی دوسری عورتیں !‘‘

’’کبھی نہیں!‘‘ نوکر کا لہجہ کچھ نا خوشگوار ہو گیا ۔’’ صاحب ایسے آدمی نہیں تھے !‘‘

’’ ہوں اچھا! ‘‘فریدی اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا ۔’’جاؤ!‘‘

نوکروں کے چلے جانے کے بعد فریدی جگدیش سے بولا ۔’’ اگر نوکر کا بیان صحیح ہے کہ کل شام کو اُس نے اس کمرے کی صفائی کی تھی تو یہاں بھی کوئی آیا تھا۔ شاید کوئی عورت ایک مرد کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے لیکن وہ اشرف  نہیں ہو سکتا !‘‘

’’ کیسے کس طرح ؟‘‘

’’ یہ سگار کی راکھ یہ رہی اِدھر دیکھو ۔ اشرف سگا ر نہیں پیتا  تھا۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہنے کے لئے تیار ہوں کہ اشرف ان دونوں کی موجودگی میں اس کمرے میں آیا ہی نہیں !‘‘

’’یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟‘‘

’’ ایک ذاتی تجربے کی بنا پر ۔ دیکھو میز پر رکھا ہوا ایش ٹرے بالکل خالی ہے اور اشرف چین اِسمو کر تھا۔ ایک سگریٹ سے دوسری سلگانے والا ۔ اگر وہ یہاں آکر اُن دونوں کے ساتھ  بیٹھا ہوتا تو کم از کم ایک سگریٹ کا ٹکڑا تو ضروری ایش ٹرے میں ہوتا اور یہاں فرش پر بھی کہیں سگریٹ کی راکھ نہیں دکھائی دیتی !‘‘

’’اچھا وہ عورت ! ‘‘جگدیش کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ’’کیا آپ اُس رومال کی وجہ سے عورت کے متعلق سو چ  رہے ہیں ؟‘‘

’’ہر گز نہیں .. وہ رومال کسی مرد کا بھی ہو سکتا ہے۔ اس بنا پر اسے کسی عورت کا نہیں سمجھا جا سکتا کہ اس پرلپ اسٹک کے دھبے ہیں!‘‘

’’پھر عورت کا وجود کس طرح ثابت ہوتا ہے؟‘‘

’’ذرا ٹھہرو!‘‘ فریدی ہاتھ اٹھا کر کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ عورت کے متعلق محض قیاس ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ ویسے یہ ہیئر پن مجھے میز کے پائے کے نیچے دباہوا ملا ہے۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ اس کا تعلق کل رات ہی کو آنے والوں سے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پہلے کبھی کا ہو۔ نو کر صفائی کرتے وقت اسے نظر انداز کرتے رہے ہوں !‘‘

جگدیش ہیئر پن کو ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگا۔ سیاہ رنگ کا معمولی سا ہیئر بین تھا۔ پھر اس نے اُسے بھی رومال کے قریب ہی میز پر ڈال دیا۔

فریدی نے شروع سے آخر تک سارے کمروں کا جائزہ لینے کی مہم شروع کر دی تھی۔ تقریبا دو گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران میں ڈی ۔ایس۔ پی سٹی ایک مجسٹریٹ کے ساتھ دوبارہ وہاں پہنچ گیا تھا اور اب شاید مکان کو سرکاری طور پر مقفل کر دیئے جانے کے سلسلے میں کارروائی شروع ہونے والی تھی ۔ فریدی نے ڈی۔ ایس ۔ پی سے کوئی گفتگو نہیں کی اور اس نے جگدیش کو بھی اپنی چھان بین کے متعلق کچھ بتانے سے منع کر دیا۔ اپنی تحقیقات مکمل کرلینے کے بعد وہ وہاں سے روانہ ہو گیا۔ حمید  گھر پر اس کا منتظر تھا۔

’’لڑکا ہو سٹلر ہے !‘‘ حمید نے اپنی تفتیش کے تعلق بتانا شروع کیا۔’’ شرما اسٹریٹ کی ایک عمارت شنکر لاج کے چور ھویں فلیٹ میں رہتا ہے۔ میں وہاں بھی گیا تھا لیکن وہ موجود نہیں تھا۔ پڑوسیوں سے میں نے فی الحال پو چھ کچھ نہیں کی !‘‘

’’خیر پھر  دیکھیں گے !‘‘فریدی بولا ۔’’ مجھے اس کا کو ٹ اُلجھن میں ڈال رہا ہے۔ اگر صرف شاختی کارڈ کہیں پڑا ہو ا ملتا تو  کوئی بات نہ تھی۔ تم خود سوچو جس نے اپنے اطمینان سے واردات کی ہو وہ اپنا کوٹ وہاں کس طرح چھوڑ سکتاہے۔ نہ صرف کوٹ بلکہ شناختی کارڈ بھی !‘‘

حمید  کچھ نہ بولا۔ اس کا سربُری کی طرح چکر رہا تھا۔ بار بار اشرف کی کچلی  ہوئی لاش اُس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی تھی۔

3

نئی کہانی

شام خوش گوار تھی لیکن حمید کا دل کچھ بجھا ہوا سا تھا۔ فریدی نے کئی باراُسے موڈ میں لانے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہا۔ ناکام رہا۔

ہروقت قہقہے لگانے والوں پر حالانکہ کسی غم کا اثر دیر پا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ تھوڑا ساغم انگیز وقفہ ان کے لئے اتنا جاں گسل ہوتا ہے کہ کچھ دیر کے لئے ان کی رَجائیت کی بنیاد میں تک ہل جاتی ہیں۔

وہ بڑی دیر سے اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ یکا یک وہ بر آمدے میں نکل آیا جہاں فریدی آرام کرسی پر لیٹا آنکھیں بند کئے کچھ سوچ رہا تھا ۔ بجھا ہوا سگار اس کی انگلیوں میں دبا ہوا تھا۔

’’ کیا آپ سورہے ہیں؟‘‘ حمید نے اُسے مخاطب کیا۔ فریدی چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا اور پھر خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔ ’’ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر کبھی مجھے اس قسم کا کوئی حادثہ پیش آیا تو شاید تم بھی میرے ساتھ ہی جاؤ گے !‘‘

’’میری بات چھوڑیئے ! ‘‘حمید  جھنجھلا  کر بولا ۔ ’’آخر آپ اس رومال کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں !‘‘

’’نہیں میں اُسے نظر انداز تو نہیں کر رہا ہوں ! ‘‘فریدی بجھا ہوا سگار سلگا کر بولا۔’’ ویسے کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ روحی  کا ہو سکتا ہے!‘‘

’’روجی ! ‘‘حمید بُرا سا  منہ بنا کر بولا۔’’ اس کیس میں کہیں نہ کہیں روحی کا قدم ضرور ہے اور میں ریاض اور رشید کو بھی نظر انداز کرنا نہیں چاہتا !‘‘

’’ ریاض اور رشید سے میں واقف ہوں ! ‘‘فریدی نے کہا۔ ’’لیکن وہ بقیہ تین  کون ہیں ؟“

’’صابر ، مسعود اور فیض لیکن ان تینوں کے  اشراف سے بھی اچھے تعلقات تھے ۔ ریاض اور رشید سے اس کا کئی  بار جھگڑا ہو چکا ہے!‘‘

’’خوب!‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہوا ہوں ’’اور  ان دونو ں  ہی  کے ناموں کے پہلے حروف ’’ آر‘‘ہیں۔ روحی کو بھی شامل کر لو۔ اب تر  کے کے طور پر اشرف کا سارا اثاثہ روحی  خاندان میں جائے گا۔ روحی  اپنے والدین کی اکلو تی  لڑکی ہے۔ لہذا جس کے ساتھ رو حی  شادی ہوگی وہی  اشرف کی دولت کا بھی مالک ہوگا کیوں ؟ یہی سو چ ر ہےتھے نا !‘‘

’’کیا میں غلط سوچ رہا تھا ؟‘‘ حمید جھلا کر بولا ۔

’’میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ ایک احمق سے احمق  آدمی بھی یہی سو چے گا۔ خیر چھوڑ واسے  ہمیں  تعزیت کے لئے روحی کے یہاں چلنا ہے۔ وہ تو تمہیں اچھی طرح پہچانتی ہوگی !‘‘

’’ اچھی طرح !لیکن میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا !‘‘

’’آخر کیوں ؟ ‘‘فریدی نے حیرت سے کہا۔

’’بس یونہی! پتہ نہیں کیوں ۔ اگر میں کوئی سیدھی سادی وجہ بیان کروں گا تو آپ نفسیاتی کی نظر سے روحی

کے ذہن کی جڑیں ٹٹو لنے لگیں گے !‘‘

’’میں سمجھا ! تمہیں  اس کے پانچ عدد عاشقوں پر اعتراض ہے !‘‘

’’مجھے پانچ سو سے بھی غرض نہیں۔ لیکن روحی ۔ وہ کیوں بیک وقت چھ آدمیوں میں دلچسپی لے رہی تھی !‘‘

’’اوں ہوں ! ‘‘فریدی نفی میں سر ہلا  کر بولا ۔” چھ آدمی نہ کہو بلکہ اس کی چھ پسندیدہ مختلف قسم کی خصوصیات کہوجو اُن میں سے ہر ایک میں موجود تھیں خیر اس کی بحث فضول ہے۔ غالباًروحی کے یہاں چلنے کے لئے تیار ہو!‘‘

 حمید راستے میں بھی روحی کے یہاں جانے کے خلاف احتجاج کرتا رہا۔ اس کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ اسے در اصل کہیں رسمی تعزیت کے سلسلے میں جانے میں ہمیشہ  کوفت ہوتی تھی مرنے والے کے متعلق اظہار غم کرتے وقت نہ جانے کیوں وہ خود کو احمق محسوس کرنے لگتا تھا۔

’’خیر اگر تم نہیں جانا چاہتے!‘‘ فریدی آخر کار بولا۔ ’’تو ہم فی الحال شاہد جمیل کو دیکھیں گے اور اگر میں غلطی نہیں کر رہا ہوں تو وہی اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی بھی ہو سکتا ہے!‘‘

 حمید کچھ نہ بولا۔ تھوڑی دیر بعد فریدی نے کہا۔ ’’ تم جس شدت سے ہنستےہو  اُسی شدت سے تم پر غم کا بھی حملہ ہوتا ہے۔ میں اسے کسی فرد کی شخصیت کی ایک بہت بڑی کمزوری سمجھتا ہوں !‘‘

’’میں آپ کی طرح پتھر نہیں ہوں !‘‘

’’نہیں ہو تو بنے کی کوشش کرو۔ اور تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ میں ایسے حادثات سے متاثر نہیں ہوتا لیکن میں

نے بڑی محنت سے اپنے اوصاب کو فو لا دبنا یا ہے !‘‘

’’مجھے اس قسم کی محنت مزدوری قطعی  پسند نہیں !‘‘ حمید  نے جل  کر کہا۔ ’’ ویسے میں نے ساتھیوں کی موت پر مغموم ہو نے کا عضر کتّو ں  کی زندگی ہی بھی پایا ہے!‘‘

’’اور تم یہ بھی جا نتے ہو کہ کتّے  کسی طرح آدمی نہیں بن سکتے !‘‘

’’خیر چھو ڑ یئے میں  اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا !‘‘

’’بس  اتنے ہی ہمیں تمہارے صحت مند نظریات نے دَم توڑ دیا !‘‘فریدی نے طنز آمیز لہجے میں کہا۔

’’سا ری  زندہ د لی ایک ہی جملے میں رخصت ہوگئی۔ حمید صاحب قہقہہ دراصل وہی ہے جو آنسوؤں کے سمندر میں تیر تا ہو ا ہو نٹو ں  تک آتا ہے!‘‘

حمید  خاموش رہا۔ اس کے بعد فریدی بھی اُسی  وقت ہوا جب روشر ما اسٹریٹ کی شنکر  لاج کے سامنے پہنچ گئے۔

’’غا لباً چودھواں فلیٹ اوپر کی منزل پر ہو گا !‘‘

’’ہاں !‘‘حمد نے سر ہلا دیا ۔ فریدی نے کیڈی فٹ پاتھ سے لگادی اور وہ دونوں اُتر کر او پر جانے کے لئے زینے طے کرنے لگے۔

’’یہی ہے !‘‘حمید نے ایک جگہ رُک کر دروازے سے لگی ہوئی نیم پلیٹ کی طرف اشارہ کیا جس پر’’ شاہد جمیل ‘‘ تحر یر تھا۔ فریدی نے بند دروازے پر ایک اچٹتی ہی نظر ڈالی جو باہر سے مقفل نہیں تھا۔ کھڑکیوں کی درازوں سے اندر کی روشنی دکھائی دے رہی تھی ۔

حمد نے دروازے پر دستک دی۔ دوسرے لمحے میں اندر قدموں کی چاپ گو نجی  اور درواز کھل گیا۔

 ’’شام جمیل صاحب!‘‘ فریدی نے آگے بڑھ کر آہستہ سے پوچھا۔

’’ جی ہاں !‘‘فر ما ئیے ۔‘‘ دروازے میں کھڑے ہوئے نوجوان نے کہا۔

’’ہم نے آپ ہی کے لئے آپ کو تکلیف دی ہے۔ غالباً آپ کا شناختی کارڈ کھو گیا تھا…!‘‘

’’اوہ !‘‘ وہ چونک کر بولا ۔ ’’جی ہاں جی ہاں !‘‘

’’یہ لیجئے !‘‘ فریدی نے جیب سے شناختی کارڈ نکالتے ہوئے اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’ہمیں واقعی اس کے سلسلے میں بڑی تکلیف اٹھانی پڑی... یونیورسٹی گئے وہاں سے آپ کا پتہ حاصل کیا اور اب یہاں پہنچےہیں!‘‘

’’اوہ! اند ر تشریف لائیے جناب۔ واقعی آپ کو بڑی تکلیف ہوئی !‘‘ وہ انہیں راستہ دینے کے لئے پیچھے ہٹتا ہو ا بولا  ۔ وہ دونوں اندر چلے گئے ۔ کمرے کے رکھ رکھاؤ سے فلیٹ کا مالک متوسط طبقے کا فرد معلوم ہوتا تھا۔

’’آپ نے ناحق اتنی تکلیف اٹھائی !‘‘ شاہد بیٹھتا ہوا بولا ۔’’اِسے وہیں یونیورسٹی کے آفس میں جمع کرا دیا مجھے ہو تا ۔مجھے مل جاتا ۔ بہر حال میں شکر گزار ہوں!‘‘

’’ آپ کا یہ کارڈ کب  کھو  یا تھا؟‘‘ فریدی نے اُس کے چہرے پرنظر  جمائے ہوئے پوچھا۔

’’کئی دن ہوئے ۔ غالباً تین چارون ۔ لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟‘‘

’’ ہوں !‘‘ فریدی نے اپنی بغل میں دبا ہوا بنڈل نکال کر زالوؤں پر رکھ لیا ۔ پھر اخبار کی وہ تہہ  کھولنے  گا اس پر لیٹی ہوئی تھی۔

’’اور یہ کوٹ کب کھو دیا تھا مسٹر شاہد!‘‘ اس نے کہا۔

 شاہد یکلخت اُچھل کر کھڑا ہو گا لیکن وہ دوسرے ہی لمحے میں پھر کرسی میں گر گیا۔ اس کی سانس پھول رہی تھی اور آنکھیں فریدی کے چہرے پر جمی  ہوئی تھیں۔ لیکن جس تیزی سے اُس نے اپنی حالت پر قابو پایا وہ کم از کم حمید کی نظروں میں تو قابل تعریف ہی تھی۔

’’ میں سمجھا !‘‘ وہ فریدی کوگھورتا ہوا بڑ بڑا رہا تھا۔’’ تم مجھے دھمکی دینے آئے ہو۔ لیکن سن  لو۔ میں آج تک کسی سے مرعوب نہیں ہوا ... سمجھے!‘‘

’’یہ صفت قابل تعریف ہے!‘‘ فریدی نے مسکرا کر کہا۔’’ لیکن یہ کوٹ!‘‘

 ’’مجھے اعتراف ہے کہ یہ میرا ہی ہے !‘‘شاہد نے بات کاٹ کر کہا! ‘‘اور جو کچھ تم سے کرتے بن پڑے کرلو۔ میں تم سے ذرہ برابر بھی خائف نہیں ہوں ! ‘‘

’’حمید سنّا ٹے  میں آ گیا۔ اُسے اس قسم کی گفتگو سنے کی ہر گز توقع نہیں تھی۔

’’ تو یہ کوٹ تمہارا ہی ہے !‘‘ فریدی نے اُسے گھورتے ہوئے کہا۔

’’ ہاں ہاں ! میرا ہی ہے ! شاہد اٹھتا ہوا بولا ۔ حمید کا ہاتھ بے اختیار جیب کی طرف گیا لیکن فریدی بدستور کر سی کے ہتھے  پر جھکا ہوا اُسے تو جہ اور دلچسپی سے دیکھتا رہا۔  

شاہد نے دیوار سے لگے ہوئے ہینگر پر سے ایک دوسرا کوٹ انٹارا اور اُسے فریدی کی طرف اُچھالتا ہوا بولا۔ ’’اسے لے جاؤ اور اس سے زیادہ کا مطالبہ تم مجھ سے نہیں کر سکتے ۔ میرے ساتھ تم اتنا ہی کر سکتے ہو کہ مجھے بھُلا نےکے لئے آج کچھ زیا دہ پی جا ؤ!‘‘

’’مسٹر ! تمہارے حواس قابو میں ہیں یا نہیں !‘‘ حمید تیز لہجے میں بولا۔’’ یا تم اب وہی پرانی اور گندی تد بیر  اختیار کرنے والے ہو۔ پاگل بننے سے کام نہیں چلا کرتا۔ تم جیسے لوگوں کا باقاعدہ طور پر طبی معائنہ کیا جاتا ہے!‘‘

’’ طبی معائنہ تم اپنا کراؤ! شاہد نے زہر خند کے ساتھ کہا۔’’تم  جو پوری سوسائٹی کے لئے ناسور کی حیثیت رکھتے ہو!‘‘

’’مسٹر شاہد ہم یہا ں فلمی قسم کے مکالموں کی مشق کرنے نہیں آئے ! ‘‘فریدی خشک لہجے میں بولا ۔ ’’کیا تم کل رات کو را جرس اسٹریٹ کی جاوید بلڈنگ میں تھے!‘‘

’’قطعی تھا۔ پھر !‘‘شا ہد نے تیزی سے کہا۔ ’’بس کسی چیز کی چوری کا الزام لگا کر مجھے جیل میں بھجوا دو ۔ میرے خیال سے اس کے لئے یہ کوٹ ہی کافی ہوگا !‘‘

شاہد نے اس کوٹ کی طرف اشارہ کیا جو اُس نے   ہینکر  سےاُتار  کر فریدی کی طرف پھینکا تھا۔

’’چو ری نہیں پیا رے لڑ  کے!‘‘ فریدی اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا آہستہ سے بولا ۔ ’’ تم پر قتل کا لزام عا ئد

ہو سکتا ہے !‘‘

’’کیا ؟‘‘شا ہد کے منہ سے چیخ سی نکلی اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔

’’قتل ؟‘‘ فریدی نے پھر اسی انداز میں دُہرایا۔

 شاہد پہلے ہی کی طرح اس بار بھی کرسی میں ڈھیر  ہو گیا تھا لیکن حمید نے پھر اُسے سنبھالا لیتے ہوئے دیکھا۔ اس کی مسکر ہٹ شروع میں تو بے جان ضرور تھی لیکن رفتہ رفتہ پھراُس  کے چہرے کی تازگی لوٹ آئی اور آنکھیں چمکنے لگیں۔

’’ خوب!‘‘ وہ مسکرا کر بولا ۔ ’’ اور کچھ کہتا ہے؟‘‘

’اشرف خلیل سے تم واقف تھے! ‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’میرے خیال سے یہ سب فضول ہے!‘‘ حمید جھنجھلا کر بولا ۔ ’’میں ہتھکڑیا ں  لگاتا ہوں !‘‘

’’ ٹھہرو!‘‘ فریدی ہاتھا اٹھا کر مسکرایا پھر شاہد سے بولا ۔’’ تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا !‘‘

’’ آپ کون ہیں؟‘‘ شاہد نے کہا ۔ غالباً ہتھکڑیوں کے نام پر پھر وہ اعصابی خلل کا شکار ہو گیا تھا۔

’’ پولیس!‘‘ فریدی آہستہ سے بولا ۔ ’’تم ابھی اقرار کر چکے ہو کہ یہ کوٹ تمہارا ہے اور تمہیں اس کا بھی اعتراف ہے کہ تم پچھلی رات کو جاوید بلڈنگ میں تھے ! ‘‘

شاہد کچھ نہ بولا ۔ وہ سہمی  ہوئی نظروں سے ہتھکڑیوں کے اُس جوڑے کو دیکھ رہا تھا جسے حمید نے اپنی جیب سے نکال کر زانو ؤں پر ڈال لیا تھا۔

’’تم وہاں کیوں گئے تھے ؟‘‘ فریدی نے سوال کیا۔

’’ مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کرو!‘‘ شاہد اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا بولا ۔’’ اکثر پرانی ہتھکڑیاں  کباڑیوں کے یہاں بھی سستے داموں میں مل جاتی ہیں ! ‘‘

’’اگر تم سیدھی طرح میرے سوالات کا جواب نہیں دو گے تو دوسرا طریقہ اختیار کروں گا ! ‘‘فریدی نے اُسے گھورتے ہوئے کہا۔

’’یہ بھی کر کے دیکھ لو!‘‘ شاہد نے بے پروائی کے اظہار میں اپنے شانوں کو جنبش دی۔

’’اس میں شک نہیں کہ تم ایک دلیرلڑ کے ہو۔ لیکن کبھی کبھی دلیری در اصل حماقت ثابت ہوتی ہے!‘‘

شاہد کچھ نہ بولا ۔ اس کے چہرے سے ذہنی کشمکش صاف ظاہر ہورہی تھی۔

’’ختم کیجئے یہ قصہ !‘‘حمید ہتھکڑی پر ہاتھ مار کر بولا ۔

’’ ٹھہرو!‘‘ فریدی نے مسکرا کر کہا۔ ’’صاحبزادے شاید کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں !‘‘

’’ آپ کون ہیں ؟‘‘ شاہد نے پھر سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔

اس کی عجیب حالت تھی ۔ کبھی وہ خوفزدہ نظر آتا تھا اور کبھی نڈراور بے باک ۔

فریدی نے جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔

’’ میرے خدا !‘‘وہ پھر یک بیک اچھل پڑا۔ کارڈ اس کے ہاتھ سے گر گیا تھااور نظروں سے فر یدی کی طر ف دیکھنے لگا تھا ۔

 ’’ پچھلی رات اشرف کو کسی نے بے دردی سے قتل کر دیا !‘‘ فر یدی نے کہا ۔

’’مممیں کچھ نہیں جا نتا !‘‘

’’تم را ت اشرف سے ملے تھے !‘‘ فر یدی نے پو چھا ۔

’’نہیں ۔میں اُس سے کبھی نہیں ملا تھا ۔میں اُسے پہچا نتا تک نہیں !‘‘

’’لیکن تم وہاں پچھلی رات کو تھے ۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم وہاں کیوں گئے تھے جب کہ اشر ف  سے تمہا ری جان پہچان بھی نہیں تھی !‘‘

’’ رضیہ میری دوست ہے۔ رضیہ اشرف !‘‘

’’کیا بکتے  ہو!‘‘دفعتہً حمید چیخا۔

’’چیخومت !‘‘ فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

’’ رضیہ اشرف کو تم کب سے جانتے ہو ؟ ‘‘فریدی نے شاہد سے پوچھا اور حمید کا منہ حیرت سے کھل گیا ۔

دو  ڈھائی ماہ قبل ہماری ملاقات ہوئی تھی !‘‘ شاہد نے کہا۔

’’ اور تم برابر اُس سے ملتے رہتے تھے!“

’’ جی ہاں وہ ایک مخلص مگر ستم رسیدہ دوست ہے!‘‘

’’ ستم رسیدہ کیوں ؟‘‘ فریدی اپنی جیبیں ٹٹو لتا ہوا بولا۔

’’یہ رضیہ کا راز ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں کسی قیمت پر نہ بتا سکوں گا !‘‘

فریدی اُس کی بات پر دھیان دیے بغیر حمید سے بولا۔ ’’دیکھو میں اپنا سگار کیس ہی بھول آیا!‘‘

 پھر وہ شاہد کی طرف مڑا۔’’کیا آپ مجھے ایک سگار دے سکیں گے !‘‘

’’ سگا ر !‘‘ شاہد نے کہا۔’’ میں سگریٹ پیش کر سکتا ہوں... سگار نہیں پیتا !‘‘

’’اوہو !  سگریٹ کے بجا ئے سگا ر ہی پیا کیجئے ۔ خالص تمبا  کو ہوتا ہے اور وہ اتنا مضر بھی نہیں جتنا کہ سگر یٹ کا کاغذ ہوتا ہے!‘‘

’’ میں نے آج تک نہیں پیا!‘‘ شاہد بولا ۔’’ اس کے دھوئیں کی بو ہی میرا سر چکرا دیتی ہے!‘‘

’’ کل رات آپ کس وقت وہاں گئے تھے ؟‘‘

’’گیارہ بجے !‘‘

’’اور کس وقت تک ٹھہرے؟‘‘

            ’’پون گھنٹہ ۔ ٹھیک پو نے بارہ پر چلا آیا تھا !‘‘

’’لیکن آپ اپنا کوٹ کیوں چھوڑ آئے تھے ؟‘‘

’’ رات سردی زیادہ تھی ۔ اور میرا کوٹ !‘‘ شاہدہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔

’’ہاں آپ کا کوٹ ! ‘‘

’’ میں دوسرا کوٹ پہن کر چلا آیا تھا۔ یہ جو میں نے آپ کو دیا ہے!‘‘

’’غالباً یہ اشرف کا کوٹ ہے ! ‘‘فریدی بولا۔

’’ ہو سکتا ہے!‘‘ شاہد نے کہا ۔

’’ تو رضیہ سے آپ کے ناجائز تعلقات تھے !‘‘ فریدی نے کہا۔

’’بکواس ہے میں آپ کو ایک شریف عورت پر تہمت لگانے کی اجازت نہیں دے سکتا !‘‘

’’پتہ نہیں آپ کس شریف عورت کا تذکرہ کر رہے ہیں !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔

’’ کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ لوگ مجھے کیوں پریشان کر رہے ہیں ؟‘‘

’’اس لئے کہ ابھی تک تو دنیا میں کسی رضیہ اشرف کا وجود نہیں !‘‘ فریدی نے آہستہ سے کہا۔

’’ کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ اشرف کنوارا تھا اور اُس کے گھر میں کوئی عورت نہیں تھی !‘‘

’’آپ مجھے پاگل نہیں بنا سکتے!‘‘ شاہد پاگلوں کی طرح چیخا۔

4

غفلت کا نتیجہ

فریدی نے اخبار کا وہ ٹکڑا اٹھایا جس میں شاہد کا کوٹ لپیٹ کر لایا تھا۔

’’ ہم آپ کو پاگل نہیں بنا رہے ہیں !‘‘ فریدی نے شاہد سے کہا۔ ” لیکن اگر آپ نے کسی دوسرے کے سامنے کسی رضیہ اشرف کا تذکرہ کیا تو وہ آپ کو ضرور پاگل سمجھے گا!‘‘

’’آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟ ‘‘

’’ تم کئی بار یہ سوال کر چکے ہو اور میں کئی بار یہ جواب دے چکا ہوں ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم صحیح واقعہ مجھےبتا دو!‘‘ فر یدی کے لہجے میں سختی تھی ۔

’’میں نے ابھی تک کوئی بات جھوٹ نہیں کہی !‘‘

’تو پھر یہ اخبار جھوٹا ہوگا! ‘‘

فریدی نے اخبار کا صفحہ اُس کی طرف بڑھا دیا جس میں روحی اور اشرف کی تصویر تھی ۔

’’مگر  ٹھہرو! ‘‘فریدی نے کہا۔ ’’ تم کہتے ہو کہ تم اشرف کو نہیں پہچانتے ۔ خیر ۔ یہ اشرف اوراُس کی منگیتر کی

تصویرہے اور اشرف غیر شا دی شدہ تھا !‘‘

’’ تب پھر یہ کوئی دوسرا اشرف ہوگا!‘‘ شاہد نے کہا۔

’’ اس کے ساتھ والی عورت کو پہچانتے ہو!‘‘

’’ نہیں !‘‘

’’تب  پھر واقعی وہ کوئی دوسرا اشرف ہو گا !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ لیکن یہی اشرف جا وید بلڈنگ  کا ما لک تھا اور یہی اشر ف قتل کیا گیا ہے اور اسی اشرف کے مکا ن میں تمہا را کو ٹ ملا تھا اور تمہا رے کو ٹ کی جیب میں تمہا را شنا ختی کا رڈ تھا !‘‘

’’شنا ختی  کارڈ ہرگز نہیں ہوسکتا!‘‘ شاہد تھوک نگل  کر بولا ۔’’ وہ کئی دن قبل گُم  ہو گیا تھا!‘‘

’’رضیہ تم سے روز ملتی تھی !‘‘

’’جی ہاں ...!‘‘

’’خیر حمید!‘‘ فریدی اُٹھتا ہوا بولا۔ ” جھکڑیاں لگا دو!‘‘

’’یہ  ظلم ہے۔ سراسر ظلم ہے !‘‘شاہد بھی کھڑا ہو کر چیخنے  لگا۔’’ اس میں دھوکا ہے۔ میں اس عمارت میں کل پہلی با ر گیا تھا ۔ہو سکتا ہے کہ وہ دوسری عما رت ہو !‘‘

’’ ہم اس سلسلے میں بھی اپنا اطمینان کرلیں گے ! ‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔

’’میں بے گناہ ہوں ۔ نہیں نہیں ! ‘‘شاہد بُر ی طرح کانپ رہا تھا۔ حمید نے ہتھکڑیاں لگا دیں۔

’’ یہاں سے مجھے اس طرح نہ لے جایئے ۔ میں التجا کرتا ہوں ۔ راستے میں کہیں ہتھکڑیا ں  لگا دیجئے گا!‘‘

 فریدی نے اس کی طرف دیکھا۔ چند لمحے اُس کے چہرے پر نظریں جمی رہیں پھر وہ حمید سے بولا ۔

’’ہتھکڑیا ں نکا ل دو!‘‘

حمید نے ہتھکڑیاں نکال دیں۔ تینوں باہر نکلے ۔ شاہد نے فلیٹ  مقفل کیا اور پھر وہ سڑک پر آ گئے۔

’’چلو آؤ!‘‘ فریدی کیڈی میں بیٹھتا ہوا بولا ۔ ’’ مجھے اُس عمارت کی طرف لے چلو جہاں تم پچھلی رات کو تھے !‘‘

’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نےکسی کو قتل نہیں کیا۔ اگر میں نے کل کیا ہوتا تو وہا ں  اپناکو ٹ کیو ں  چھوڑ آتا ۔ میں آپ سے کچھ بتاتاہی نہیں!‘‘ شاہد کپکپائی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔

’’ رضیہ تمہارے فلیٹ میں آتی تھی ؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’نہیں کبھی نہیں !“ شاہد نے کہا۔

فریدی نے پھر کچھ نہیں پوچھا۔ حمید کو حیرت ہورہی تھی کہ فریدی اس سے کام کی باتیں کیوں نہیں پو چھ رہا ہے ۔

’’فر ید ی  شاہد کے بتائے ہوئے راستے پر کیڈی  ڈرائیور کر رہا تھا ۔ آخر اس نے ٹھیک جاوید بلڈنگ کے سامنے رُک جا نے کو کہا ۔ فریدی نے کیڈی روک دی ۔

’’ یہی عمارت تھی !‘‘شاہد جاوید بلڈنگ کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔

’’ اِسی  دروازے سے اندر گئے تھے !‘‘

’’جی ہاں !‘‘ شاہد نے کہا پھر کانپتا ہوا بولا۔ ’’ کیا قتل یہیں!‘‘

’’ہاں لاش یہیں تھی !‘‘

’’ لیکن ۔ آپ رضیہ سے پوچھ لیجئے !‘‘

’’پیارے لڑ کے !یہاں  کبھی کوئی رضیہ نہیں تھی!‘‘

’’تب  تو مممیں   ڈوب گیا!‘‘ شاہد نے گلو گیر آواز میں کہا اور اس کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ گئے۔

’’ کیا یہ دروازہ  باہر سے مقفل تھا ؟“

’’جی ہاں !‘‘

’’رضیہ نے ہی اُسے کھولا تھا !‘‘

’’جی ہاں !‘‘

’’اندر رضیہ کے علاوہ بھی کوئی اور تھا !‘‘

’’ جی نہیں ۔ اُس نے بتایا تھا کہ اُس کے نوکر سرکس دیکھنے گئے تھے اور اشرف کے متعلق بتایا تھا کہ وہ رات کو

بہت کم گھر پر رہتا تھا !‘‘

’’ تیسرا آدمی کون تھا ؟ ‘‘ فریدی نے سخت لہجے میں پوچھا۔

’’کوئی بھی نہیں ۔ میں قسم کھانے کو تیار ہوں !‘‘

’’کوٹ کے متعلق کیا کہتے ہو؟‘‘

’’رضیہ نے میرا کوٹ اُتر  والیا تھا اور شاید اپنے شوہر کا کوٹ مجھے دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ممکن ہے باہر واپسی میں کسی سے مڈ بھیڑ ہو جائے ۔ تمہیں ردّی قسم کے کوٹ میں دیکھ کر اُسے شبہ ہوگا لیکن مجھے یقین ہے کہ شناختی کارڈ میرے کوٹ کی جیب میں موجود نہیں تھا !‘‘

’’خیر..!‘‘  فریدی کیڈی اسٹارٹ کرتا ہوا بولا۔ ’’اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو بُری طرح پھنس گئے ۔ رضیہ سے

تمہاری ملاقات کہاں اور کس طرح ہوئی تھی ؟‘‘

’’یونیورسٹی کے ریستوران میں !‘‘

’’ یونیورسٹی کے ریستوران میں کیوں؟ کیا وہ بھی طالبہ تھی !‘‘

’’جی نہیں۔ اے جی آفس میں ٹائپسٹ تھی ۔ اس نےمجھے بھی بتایا تھا اور وہ کئی بارمجھے اس کے برآمدےمیں میں بھی مل چکی تھی۔ اے۔ جی آفس یونیورسٹی کے قریب ہی ہے اور کبھی بھی وہاں کے لوگ یو نیو رسٹی کے رستوان میں آجا تے ہیں !‘‘

’’خوب !تم نے اس پر کبھی  غور نہیں کیا کہ ایک دولت مند آدمی کی بیوی فکر کی کیوں کرنے لگی !‘‘

’’ افسوس !کاش میں اُس کے بیان پر یقین نہ کرتا۔ اُس نے مجھے بتایا تھا کہ اشرف شرابی ہے اوراُس کی ذرہ

برابر بھی پروانہیں کرتا۔ حتی کہ اُسے اپنا پیٹ پالنے کے لئے کلر  کی کرنی پڑتی ہے۔ اس نے اس طرح روروکر اپنی کہا نی سنا ئی تھی کہ مجھے یقین آگیا تھا۔ مجھے اُس سے ہمدردی ہو گئی تھی اور میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ جس طرح ہوگا اسے اشرف کے پنجے سے رہائی دلاؤں گا !‘‘

’’کیا اب ہتھکڑی  لگادی جائے ! ‘‘حمید نے جھنجھلا کر پوچھا۔

’’نہیں ۔ ہم گھر چل رہے ہیں ! ‘‘ فریدی نے کہا ۔

’’تو آپ شوق سے گھر جا یئے اسے  کوتوالی پہنچا دوں گا۔ میں نے اس طرح کی دلچسپ کہا نیا ں پہلے بھی بہت سنی ہیں ۔اعترف جرم کر انا تو پو لیس کے رنگروٹو ں کا کا م ہے !‘‘

’’میں بے گناہ ہوں !‘‘ شاہد گڑ گڑایا۔

’’سارے مجرم پہلے یہی کہتے ہیں ! ‘‘حمید نے لا پروائی سے کہا۔

’’میں آپ کو کس طرح یقین دلاؤں اُس عورت نے مجھے بُر ی طرح پھانس دیا ہے!‘‘

’’پہلے خود تم اسے پھانسنے کی کوشش کر رہے تھے !‘‘

’’یہ غلط   ہے۔ ہمارے نا جائز تعلقات نہیں تھے !‘‘

’’ٹھیک ہے۔ اس لئے ہم تمہیں جنت میں پہچانے کا انتظام کر رہے ہیں !‘‘ حمید نے کہا۔

’’ذرا  اُس عورت کا حلیہ تو بتانا !‘‘فریدی بولا۔

’’بہت خوبصورت تھی !‘‘شاہد بولا ۔ ’’بیضاوی  چہرہ ۔ آنکھیں بڑی، قد متوسط ، ناک پتلی اور لمبی اور ہو نٹ!‘‘

’’اس لئے تمہیں اس سے ہمدردی ہو گئی تھی ! ‘‘حمید بول پڑا۔

’’کوئی ایسانشان جس سے وہ پہچانی جا سکے !‘‘ فریدی نے شاہد سے پوچھا۔

’’ ایسا نشان!‘‘ٹھہر یئے   مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کے داہنے کان کی لو کے نچلے حصے میں ایک شگاف سا تھا ایسا کہ لو دو ہری معلو م ہو تی تھی !‘‘

’’بہت قریب سے دیکھا تھا !‘‘حمید  نے چٹکی  لی۔

’’حمید خا مو ش رہو !‘‘فر یدی نے کہا پھر شا ہد سے بولا ۔’’کیا تمہا رے پا س اُس کی کو ئی تصویر نہیں ؟‘‘

’’نہیں میں آپ کو یقین دلا تا ہوں کہ میں اُس سے ایسے تعلقا ت نہیں رکھتا تھا کہ تصویر وں کا تبا دلہ ہو تا !‘‘

’’لیکن وہ تمہیں گھر کیو ں لے گئی تھے ؟‘‘

 

’’یو نہی  ۔ اس نے کہا تھا کہ چلو تمہیں  ٓج  اپنا گھر بھی دکھادوں ! ‘‘

’’تم نے وہاں اپنے دور ان قیام میں کسی وزنی چیز کے گرنے کی آواز سنی تھی !‘‘

’’نہیں ۔ یاممکن ہے مجھے سنائی نہ دی ہو!‘‘

’’ اس رومال کے متعلق مجھے کچھ بتا سکو گے !‘‘ فریدی نے جیب سے دورو مال نکالتے ہوئے کہا جواُسے جا وید

بلڈنگ میں ملا تھا۔ شاہد نے اُسے اُلٹ پلٹ کر دیکھا۔

’’ یہ تو مجھے رضیہ ہی کا معلوم ہوتا ہے !‘‘

’’کیا اس لئے کہ اس پر حرف’ آر‘ کڑھا ہوا ہے؟ ‘‘فریدی بولا ۔

’’جی نہیں ۔ یہ لپ اسٹک کے دھبے  ۔ اس نے کل رات میری موجودگی میں اپنے ہونٹ یہ کہہ کر صاف کئے تھے کہ وہ اب لپ اسٹک کبھی نہ استعمال کرے گی کیونکہ شریف عورتوں کو یہ زیب نہیں دیتا !‘‘

’’خوب !‘‘ فریدی کچھ سوچنے لگا ۔

کچھ دیر خاموشی رہی پھر فریدی نے شاہد سے پوچھا۔ ’’ تمہارا سر پرست کون ہے؟‘‘

’’یہ   نہیں بتاؤں گا خواہ پھانسی ہو جائے!“ شاہد نے دلیرانہ انداز میں کہا۔

’’لڑ کے   تمہاری بچت اُسی صورت میں ممکن ہے کہ تم میرے سوالات کے ٹھیک ٹھیک جواب دو!‘‘

’’میں مجبور ہوں ۔ ہر گز نہیں !‘‘

فریدی کچھ دیر خاموش رہا پھر مسکرا کر بولا۔ ’’ چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ تمہاری حرکات کا علم تمہارے سر پر ست کو ہر حال میں ہو جائے گا۔ جب تم اس قتل کے سلسلے میں گرفتار کئے جاؤ گے تو لا محالہ تمہارے متعلق اخبارات

میں کچھ نہ کچھ ضرور آئے گا !‘‘

شاہد فوراًہی کچھ نہ بولا۔ البتہ اس کی حالت میں پھر تبدیلی ہونے لگی تھی اور خوف نے اُس کے ذہن پر دوبارہ

قبضہ جما لیا تھا ۔

’’میں کیا کروں؟“ وہ بے بسی سے بڑبڑایا۔

’’دوسری صورت میں ! ‘‘فریدی بولا ۔’’ ہوسکتا ہے کہ میں تمہاری مدد کرسکوں !‘‘

’’ کاش مجھے خود کشی کا موقع مل سکتا !‘‘

’’تمہاری مرضی !‘‘ فریدی بڑبڑایا۔ ’’ مجھے بلاشبہ تمہیں پولیس کے حوالے کر دینا چاہئے "!‘‘

’’میری والدہ میری سر پرست ہیں!‘‘ وہ مردہ کی آواز میں بولا۔’’ جب انہیں اس کا علم ہوگا میں کیا

کروں...!‘‘

’’کیا وہ کہیں اور رہتی ہیں ؟‘‘

’’جلال آباد ۔ بڑے ہسپتال میں میٹرن ہیں۔ خاتون سعید ہ !‘‘

’’اور تمہارے والد ؟‘‘

’’مجھےاُن  کی صورت بھی یاد ہیں ۔ میں بہت چھوٹا تھا تب بھی ان کا انتقال ہو گیا تھا !‘‘

فریدیاور حمید دونو ں ہی اس با ت سے بے خبر تھے کہ دور ان گفتگو میں شا  ہد کے ہا تھ کیا کر تے رہے ہیں اور پھر فر یدی اُس وقت چو نکا جب شا ہد کی جگہ خالی ہو چکی تھی ۔حمید اپنی چیخ کسی طرح نہ روک سکا ۔ کیڈی جہا ں تھی وہیں ایک دھچکے کے سا تھ رُک گئی اور فر یدی نے اپنی سیٹ سے چھلا نگ لگا ئی ۔شا ہد کچھ دور پیچھے سڑک پر اوندھا پڑا ہا تھ پیر پھینک رہا تھا ۔

 

’’یہ تم نے کیا کیا پا گل ؟‘‘ فر یدی بے اختیا ر اُس پر جھک پڑا ۔شا ہد کی پیشا نی سے خون کی دھا ر بہہ کر چہرے پر پھیل رہی تھی اور وہ بے ہو ش ہو چکا تھا ۔

فریدی نے اُسے ہاتھوں پر اٹھا لیا۔

 پھر وہ اسے کیڈی کی پچھلی  نشست پر ڈالتا ہوا بولا ۔’’ چلو جلدی سول ہسپتال ۔بیٹھو ! اگر یہ لڑکا مر گیا تو میں  ہراس شخص کو قتل کر دوں گا جس پر مجھے اشرف کے قتل کرنے کا شبہ ہو گا !‘‘

’’میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ ہتھکڑی  ڈال دیجئے !‘‘ حمید کیڈی اسٹارٹ کرتا ہوا بولا ۔

فریدی پچھلی سیٹ پر جھکا شاہد کے زخم کو اپنے رومال سے دبائے ہوئے تھا۔

’’اوہ خدا کی تم یہ بالکل معصوم ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں اپنا پیشہ ترک کرنے کو تیار ہوں! ‘‘اس نے کہا ۔ سول ہسپتال کے ڈاکٹر نے شاہد کے زخموں کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ چوٹیں گہری آئی ہیں۔ اس نے یہ  بھی کہا کہ اندرونی چوٹیں بھی ہو سکتی ہیں۔ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی تھی ۔ فریدی نے اُسے پرائیویٹ وارڈ میں دا خل کر ادیا اور اس وقت تک وہ دونو ں وہا ں ٹھہر ے رہے جب تک کہ ڈاکٹر نے اطمینان نہ دلا دیا ۔

واپسی میں فریدی، حمید سے کہہ رہا تھا۔

’’لڑ کا بلا شبہ معصوم ہے !‘‘

’’ محض اس بنا پر کہ اس نے خود کشی کی کوشش کی !‘‘ حمید طنزیہ لہجے میں بولا۔’’ حالانکہ بیشتر بو کھلا ئے ہو ئے  مجرم اکثر اس قسم کی حرکت کر بیٹھتے  ہیں ۔

’’اوہ !  تم وہ سارا اسٹ اَپ بھول گئے جو اس قتل کے سلسلے میں بروئے کار لایا گیا تھا۔ اول تو اناڑی قسم کے  مجرم اتنے اطمینان سے کوئی واردات کرہی نہیں سکتے اور اگر بفرض محال کریں بھی تو مقتول کے کوٹ سے اپنا کو ٹ

بدلنے کی حماقت نہیں کریں گے !‘‘

’’چلئے  میں نے مان لیا کہ کسی نے شاہد کو پھانسنے کی کوشش کی ہے !‘‘ حمید نے کہا۔’’ لیکن یہ ضرور کہو ں گا وہ بھی احمق ہی تھا۔ آخر کوٹوں  کے تبا دلے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا صرف شناختی کارڈ کے ذریعہ شاہد تک رہنما ئی  ہو سکتی تھی۔ کوٹو ں سے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس کو پھانسنے کی کوشش کی جارہی ہے !‘‘

’’ٹھیک کہتے ہو۔ اگر اس نکتے کو ذہن میں رکھو تو مجرم اناڑی ہی معلوم ہوتا ہے لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا !‘‘

’’ آپ !‘‘حمید کچھ کہتے کہتےرُک  گیا پھر بولا ۔’’اگر شاہد کا بیان صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر وہ عورت کون ہوسکتی ہے۔ کیا روحی؟ مگر ہم نے شاہد کو روحی کی تصویر دکھائی تھی۔ وہ روحی نہیں ہو سکتی ؟ پھر ؟‘‘

’’کوئی عورت !‘‘ فریدی لا پروائی سے بولا ۔

’’لیکن   اشرف بہت محتاط آدمی تھا۔ میرا خیال ہے کہ کسی دوسری عورت سے اس کے اس قسم کے تعلقات نہیں تھے  کہ وہ اس کو منگنی کے اعلان کی بنا پرقتل کر دیتی !‘‘

’’ میری ایسی کی تیسی ! ‘‘حمید جھنجھلا کر بولا ۔

’’اور دوسری طرف وہ وزنی تجوری کسی عورت کے بس کا روگ نہیں معلوم ہوتی ! ‘‘فریدی نے آہستہ سے کہا۔

’’ کیوں تمہیں کیا ہوا ؟‘‘

’’ آپ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے !‘‘حمید نے اُسی لہجے   میں کہا۔ ’’آپ شاہد کو معصوم بھی سمجھتے  ہیں اور دوسری طرف کسی عورت کے وجود میں بھی آپ کو شبہ ہے!‘‘

’’عورت تو تھی ہی لیکن میں یہ کہ رہا تھا کہ وہ تجوری کسی عورت نے نہیں گرائی تھی !‘‘

’’تب پھر یا تو میں پاگل ہو گیا ہوں یا !‘‘

’’یا پھر فریدی !‘‘فریدی نے مسکرا کر بات پوری کر دی۔

’’ آپ شاہد کو معصوم قرار دیتے ہیں ۔ لہذا اُس کی سنائی ہوئی کہانی سچی  ٹھہری۔ مکان میں ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ خود اس کا بیان ہے ۔ اب اگر عورت نہیں گرا سکتی تو پھر آپ کے مجرم قرار دیں گے؟‘‘

’’اور شاید نوکروں کا بیان تمہیں یاد نہیں رہا !‘‘ فریدی بولا ۔ ’’ساتھ ہی تم وہ سب کچھ بھی بھول گئے جو ابھی ابھی شاہد نے بتایا تھا۔ نوکروں کے بیان کے مطابق سامنے کا دروازہ اندر سے بند تھا اور وہ پچھلے دروازے سے قفل ڈال کر سرکس گئے تھے۔ شاہد کہتا ہے کہ رضیہ نے سامنے کے دروازے سے قفل کھولا تھا کیا سمجھے؟“

’’میں یہی سمجھا کہ اَپ آپ بوڑھے ہو چلے ہیں۔ آپ کی قوت فیصلہ جواب دے رہی ہے۔ شاہد مکار ہے۔ اُس نے اپنی کہانی میں جان ڈالنے کے لئے کیڈی سے کود کر اُسے فنشینگ ٹچ  دیا اور بس۔ کیڈی کی رفتار بہت کم تھی۔

ایک بچہ بھی اگر کودتا تو اُسے صرف معمولی چوٹیں آتیں۔ کیا سمجھے؟ فریدی صاحب !‘‘

5

پُر اسرار لڑکی

دوسری صبح تک حمید کا موڈ ٹھیک ہو گیا تھا۔ پچھلی رات وہ فریدی کی مخالفت میں شاہد کو مجرم ضر در گر دا نتا رہا تھا لیکن حقیقتاً وہ بھی ایک عجیب قسم کی  ذہنی کشمکش میں مبتلا ھا۔اُسے خود بھی یقین تھا کہ شاہد کاتعلق واردات سے نہیں

ہو سکتا۔

            وہ اب سو چ رہا تھا کہ پچھلی رات کو انہیں روحی کے یہا ں ضرور جا نا چا ہئے تھا ۔وہ روحی سے قریب قریب متنفر  

تھا حالانکہ ان دونوں کی ملاقاتیں شاذ و نادر ہی ہوتی تھیں لیکن حمید نے قربت کے تھوڑےہی وقت میں اس کے متعلق کچھ رائیں قائم کر لی تھیں جنہیں وہ اٹل سمجھتا تھا۔

اس نے ٹیلیفون ڈائرکٹری کی ورق گردانی کے بعد اس کا فون نمبر معلوم کیا پھر نمبر ڈائل کئے اور رسیو ر کو کا ن

سے لگائے جواب کا منتظر رہا۔

’’ہیلو اوہ ... میں روحی صاحبہ کو چاہتا ہوں !‘‘

’’ کیا بکواس ہے! تم کون ہو !‘‘دوسری طرف سے ایک بھاری مگر نسوانی آواز آئی۔

’’اوه ... معاف کیجئے گا میرا یہ مطلب نہیں میں روحی صاحبہ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں !‘‘

چند لمحے انتظار کر نے کے بعد اُس نے دوسری طرف سے ایک با ریک اور متر نم آواز سنی ۔یہ شا ید روحی تھی۔

’’ہیلو !میں سا رجنٹ حمید بول رہا ہو ں !‘‘

حمید نے نفرت سے ہونٹ سکوڑے لیکن پھر دوسرے ہی لمحے میں غیر متوقع طور پر اپنی آواز میں شو خی پیدا کر کے بولا ۔ ” آپ بھی کیا بات کرتی ہیں۔ میں تو کہنے جارہا تھا کہ کیا آج آپ میرے ساتھ رات کا کھانا آرلکچنو میں کھا سکیں گی !‘‘

’’بہت خوشی سے!‘‘ آواز آئی ۔’’ میں آپ کو بے حد پسند کرتی ہوں اور اب تو میری نظروں میں آپ کی  

وقعت اور زیادہ بڑھ گئی ہے!‘‘

’’کیوں؟‘‘ حمید کے کان کھڑے ہو گئے ۔

’’اس لئے کہ آپ اشرف کی تعزیت کے سلسلے میں ہمارے یہاں نہیں آئے ۔ اس قدر بور کیا ہےلو گو ں نے  

خدا کی پناہ !میں کہتی ہوں کیا وہ رسمی طور پر اظہار افسوس کرنے سے واپس آجائے گا ۔‘‘

  حمید دانت پیس کر ماؤتھ ہیں میں گھورنے لگا۔ پھر وہ بولا ۔

’’اوہ معاف کیجئے گا میں آپ کو مبارک باد دینا تو بھول ہی گیا تھا آپ کی منگنی  پر مگر !‘‘

’’ آپ عظیم ترین  آدمی ہیں !‘‘ روحی نے کہا اور سلسلہ منقطع کر دیا۔

حمید ریسیور پٹج  کر بے چینی سے ٹہلنے لگا ۔

تھوڑی دیر بعد فریدی نے برآمدے سے اُسے آواز دی۔ وہ ناشتے کی میز پر اُس کا انتظار کر رہا تھا۔

’’سنا تم نے !‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ بے چارے جگدیش کی شامت آگئی ۔‘‘

’’ڈی۔ ایس پی کو شاہد کے تعلق علم ہو گیا ہے۔ ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے اشرف کے نوکروں کو کوٹ والی بات کے تذکرے سے نہیں روکا۔ شاہد حراست میں ہے۔ ہسپتال سے اُسے حوالات میں منتقل کر دیا جائے گا ! ‘‘

’’تو پھر اب جگدیش کا کیا ہوگا ؟‘‘

’’ابھی تک تو کچھ بھی نہیں ہوا لیکن مجھے اطلاع ملی ہے کہ ڈی۔ ایس۔ پی خود ہی اس کیس کی تحقیقات کرے گا !‘‘

’’بہر حال اُس غریب کے خلاف اگر کوئی کارروائی ہوئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری آپ پر ہوگی !‘‘

’’دیکھا جائے گا !‘‘ فریدی نے لا پروائی سے شانوں کو جنبش دی۔

 حمید نے اُسے اپنی اور روحی کی گفتگو کے متعلق بتایا۔

’’لڑکی دلچسپ معلوم ہوتی ہے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ میں اسے قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں !‘‘

’’مجھے توقع ہے کہ آج شام آرلکچنو میں ضرور آئے گی !‘‘ حمید نے کہا۔

 فریدی نے وہ دن دوڑ دھوپ میں گزار دیا۔ لیکن ڈی۔ ایس۔ پی نے سارے راستے پہلے ہی سے مسدود کر دیئے تھے ۔ وہ روحی کے دوسرے پانچ امیدواروں سے بھی مالیکن انہوں نے اس کے سوالات کے جواب دینے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ ڈی۔ ایس۔ پی کی طرف سے انہیں یہی ہدایت ملی تھی کہ اس مسئلے پر وہ اس کے علاوہ اور کسی سے گفتگو نہ کریں ۔

 حمید کو جب یہ معلوم ہوا تو اُس نے دل کھول کر قہقہے لگائے ۔

’’ اس بار تو وہ بڑی چوٹیں دے رہا ہے!‘‘ حمید نے کہا ۔

’’ لیکن اُسے زندگی بھر افسوس رہے گا !‘‘ فریدی سنجیدگی سے بولا۔

’’ کیا کریں گے آپ ؟‘‘ حمید نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

’’بس دیکھنا! ‘‘

شام کو فریدی بھی حمید کے ساتھ تھالیکن الگ تھلگ ۔ رقص کے مخصوص پروگرام کی وجہ سے آرلکچنو میں کافی بھیٹر تھی۔ حمید میز پر تنہا روحی کا انتظار کر رہا تھا۔ فریدی دوسری میز پر تھا۔ ٹھیک سات بجے روحی وہاں پہنچی ۔ وہ تنہا تھی۔ حمید ا سے کاؤنٹر کے قریب کھڑا دیکھ کر آگے بڑھا ۔ پھر دوسرے لمحے میں فریدی بڑی توجہ سے روحی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ روحی ایک خوش شکل لڑکی تھی ۔ آنکھیں نیم غنودہ سی تھیں ۔ جیسے ابھی ابھی سو کر اٹھی ہو۔ چلتے وقت پر غرور انداز میں اپنا سرتھوڑا پیچھے کی طرف جھکائے رکھتی تھی اور ادھر اُدھر دیکھنے کے لئے صرف آنکھوں کے کناروں سے کام لیتی تھی۔ سر میں خفیف سی جنبش نہیں ہونے پاتی تھی ۔ دوران گفتگو میں مخصوص انداز میں ابروؤں کو جنبش دینا شاید اس کی عادت ہی تھی ۔

’’آج سردی کچھ بڑھ گئی ہے!‘‘ وہ بیٹھتی  ہوئی بولی۔

’’یقیناً ۔کیا میں آپ کے لئے شیری منگواؤں!‘‘

’’جی   نہیں شکریہ !میں شراب نہیں پیتی  اور نہ میں دعوت کے خیال سے آئی ہوں ۔ بس ذرا سی تبدیلی چا ہتی تھی !‘‘

 ’’واقعی آپ بہت بور ہوئی ہوں گی !‘‘

’’ مر جانے کی حد تک!‘‘ وہ خلا میں گھورتی ہوئی بولی۔ ’’ مجھے غم انگیز باتوں سے نفرت ہے۔ میں ہر وقت قہقہے

چاہتی ہوں ۔ اشرف واپس نہیں آسکتا اور نہ ہم میں سے کوئی اُس کے لئے مرسکتا ہے!‘‘

’’مگر پرسوں ہی آپ کی منگنی ہوئی تھی !‘‘

’’ پھر ہو جائے گی !‘‘ وہ بے زاری سے بولی۔ ’’ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹوٹی ہوئی شاخ کی جگہ ہمیشہ  دوسری کو نپلیں پھو ٹتی  ہیں ۔ گوشت اور ہڈیوں کا کوئی دوسرا جاندار ڈھیر زندگی کا دوسرا مظہر !‘‘

’’ آپ فلسفی ہیں ! ‘‘حمید مسکرا کر بولا۔

’’ہر ایک کو ہونا چاہئے ‘‘ روحی بولی۔

’’آپ سچ مچ روحی ہیں!‘‘  حمید نے کہا۔ ’’ ویسے آپ کو کسی نہ کسی پر شبہ تو ضرور ہو گا ! ‘‘

’’کیا آپ نے یہی  معلوم کرنے کے لئے مدعو کیا ہے!‘‘

’’قدرتی بات ہے!‘‘

’’تب  مجھے افسوس ہے کہ میں اس مسئلے پر گفتگو نہ کر سکوں گی ۔ ڈی ۔ ایس ۔ پی سٹی کی طرف سے کیا گیا ہے !‘‘

’’خیر میں آپ کو مجبور نہیں کروں گا !‘‘ حمید نے لا پر وائی سے کہا ۔

’’شکر یہ !‘‘روحی مسکرا کر  بولی۔ ’’ میں جانتی ہوں کہ آپ سراغرساں ہیں اور اشرف کے دوست بھی ! ‘‘

’’آپ کا اتنا ہی جا ننا  میری تسکین کا باعث ہے۔ میرا خیال ہے کہ اشرف آپ کو بہت زیادہ پسند نہیں تھا !‘‘

’’مجھے کوئی بھی بہت زیادہ پسند نہیں ۔ اشرف تو خاص طور پر چھینکنے سے پہلے اور چھینکنے کے بعد بہت برامنہ بنا تا تھا !‘‘

’’اوہ !‘‘حمید  دل ہی دل میں اُسے گالیاں دیتا ہوا بولا ۔’’ میں آپ سے متفق ہوں ویسے میرا خیال ہے کہ

آپ کے دوستوں میں صرف ریاض ایک ایسا ہے جو چھینکتا ہی نہیں !‘‘

’’ لیکن آپ نے خصوصیت سے ریاض ہی کا ذکر کیوں چھیڑا!‘‘

’’وہ ایک ماہر نشانہ باز ہے !‘‘ حمید بولا ۔

’’ لیکن اشرف شاید گولی کا شکار نہیں ہوا!‘‘

’’میرا یہ مطلب نہیں تھا!‘‘ حمید جلدی سے بولا ۔

’’ اور یہ مطلب بھی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں !‘‘

’’گویا آپ کو بھی اس پر شبہ ہے !‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’ دیکھئے ہم پھر بہک گئے!‘‘ روتی ہنس کر بولی۔ ’’ مجھے کسی پر شبہ  نہیں اور اگر ہو بھی تو میں اس کا اظہار نہیں کروں گی۔ یہاں ہر آدمی اپنی راہ کا کا نٹا  دیتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے۔ کبھی اس فعل کی حیثیت انفرادی ہوتی ہے اور بھی اجماعی اجتماعی حیثیت کو ہم قانون کہتے ہیں ۔ کیا آپ کے ہاتھ خون سے رنگین نہیں۔ میرا خیال ہے کہ خود آپ نے اب تک دو تین درجن خون ضرور کئے ہوں گے!‘‘

’’شاید اس سے زیادہ !‘‘ حمید نے کہا اور پائپ میں تمبا کو بھرنے لگا۔

’’ پھر!‘‘ وہ حمید  کو سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔ ’’ میں کیوں اپنے شمہے  کا اظہار کروں ۔ جس طرح آپ آزادی کا سانس لے رہے ہیں اُسی طرح اُسے بھی لینے دیجئے۔ ممکن ہے اُسے بھی اشرف سے کوئی ایسی ہی شکایت رہی ہو۔ بہتیرے جرائم ایسے بھی ہیں جن کے معاملے میں قانون بے بس نظر آتا ہے !‘‘

’’تو کیا ریاض کو اُس سے کوئی ایسی ہی تکلیف پہنچی تھی !‘‘

’’ آپ نے پھر ریاض کا نام لیا۔ میرا اشارہ خاص طور سے کسی کی طرف نہیں لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ اشرف بھی کسی نہ کسی ایسے جرم کا مرکب ضرور ہوا ہو گا جس کی سزا قانون کے پاس نہ ہو!“

’’بہر حال آپ کو اشرف سے محبت نہیں تھی !‘‘

’’یہ ایک الگ سوال ہے اور پھر یہ ضروری نہیں کہ منگنی کی محرک محبت رہی ہو ۔ اشرف کافی مالدار بھی تو تھا !‘‘

حمید کا دل چاہا کہ اس کا گلا گھونٹ دے۔ اس نے کنکھیوں سے فریدی کی طرف دیکھا، وہ مسکرارہا تھا۔

حمید نے ویٹر کو بلا کر مینو منگوایا۔

 کھانے کے دوران میں بہت کم باتیں ہوئیں۔ کم اس لئے ہوئیں کہ روحی کام کی باتوں کے جواب غیر واضح

دے رہی تھی کھانے کے بعد کافی آئی۔ حمید نے پھر اشرف کا تذکرہ چھیڑا۔ وہ در اصل روحی کو غصہ دلانا چاہتا تھا۔

’’ تو یہ منگنی محض دولت کے لئے ہوئی تھی ! ‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’ دولت تو اب بھی بہر حال ہمارے ہی گھر آئے گی ! ‘‘ روحی نے کہا۔

’’اور آپ کی دوسری منگنی ! ‘‘

’’آپ مجھےچِڑ ھا رہے ہیں !‘‘ روحی کافی کی پیالی رکھ کرحمید کو گھورنے لگی ۔

’’ قطعی نہیں ۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آپ کے دل میں میرے لئے کتنی جگہ ہے!‘‘

’’ آپ کے لئے ! ‘‘وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

’’کیا اشرف نے کبھی آپ سے رضیہ نامی کسی عورت کا تذکرہ کیا تھا؟‘‘

’’رضیہ نہیں تو کیوں ؟‘‘

’’ ہمارا خیال ہے کہ اشرف کے قتل میں کسی عورت کا ہاتھ ہے!‘‘

’’ ہوگا !‘‘ روحی نے بے پروائی سے کہا ۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر روحی نے کہا۔

’’ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی عورت ہی ہو لیکن وہ اشرف کے سوتیلی ماں ہوگی !‘‘

’’ اشرف کی سوتیلی ماں !‘‘ حمید چونک کر بولا ۔’’ لیکن اشرف نے بھی کسی سو کی ماں کا تذکرہ نہیں کیا !‘‘

’’ نہ کیا ہوگا ۔ وہ ایک مظلوم عورت تھی ۔ اس پر سچ مچ  ظلم ہوا تھا!‘‘

’’ حیرت ہے۔ اشرف نے کبھی کچھ نہیں بتایا !‘‘

’’تو پھر میں جھوٹ کہہ رہی ہوں گی !‘‘ روحی نا خوشگوار لہجے میں بولی۔

’’یہ مطلب نہیں ۔ظاہر ہے کہ اشرف سے ہما رے بڑے قر یبی تعلقات تھے ۔لیکن اُس نے کبھی کسی سو تیلی  ماں کا تذکرہ نہیں کیا۔ کیا آپ مجھے اس سلسلے میں کچھ اور بھی بتائیں گی ! ‘‘

’’مجھے اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں معلوم ۔ میں نہیں جانتی کہ وہ زندہ بھی ہوگی یا مرگئی ہوگی۔ والدہ صاحبہ اس کے متعلق کچھ جانتی ہیں... اور شاید انہوں نے آج ڈی ۔ ایس ۔ پی سٹی کو کچھ بتایا بھی ہے! ‘‘

’’ہوں ! ‘‘حمید پائپ میں تمبا کوبھرنے لگا۔ ساتھ ہی اس نے کنکھیوں سے فریدی کی طرف دیکھا جو روحی کو بغور دیکھ رہا تھا اور اس کا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا ہو ا  تھا۔ اُس نے حمید کو اشارہ کیا کہ اب روحی  کو رخصت کردینا چاہئے۔ وہ کافی بھی ختم کر چکے تھے اور روحی کچھ اُکتائی اُکتائی سی نظر آ رہی تھی ۔

’’ کیا میں آپ کو گھر چھوڑ آؤں ! ‘‘ حمید نے کہا۔

’’ جی نہیں شکریہ ۔ میں کار لائی ہوں ۔ ہم پھر بھی ملتے رہیں گے… کیوں؟“

’’اوہ ضرور ضرور میں فلسفیانہ انداز میں سوچنے والی لڑکیوں کی پرستش کرتا ہوں !‘‘

’’ حالانکہ آپ مجھ سے شدید ترین نفرت کرتے ہیں!‘‘ روحی سنجیدگی سے بولی اور حمید سے کوئی جواب نہ بن  پڑا۔ وہ بری طرح ہکلا رہا تھا۔

روحی  کھڑی ہوگئی۔ دفعتہ حمید نے اُس کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار محسوس کئے ۔ اس کا رُخ کاؤنٹر کی  طرف تھا۔ حمید نے مڑکر کاؤنٹر کی طرف دیکھا۔ وہاں روحی کا پرستار ریاض موجود تھا۔ حمید پھر روحی کی طرف مڑا لیکن وہ اس کے قریب نہیں تھی۔ لاؤنج کے دروازے پر اس کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی اور دوسرے لمحے میں وہ لا ؤنج کے اندر تھی۔

وہ بھی ویٹر  کو اشارہ کرتا ہوا لاؤنج میں چلا گیا۔ فریدی اس نئے وقوعے سے نا واقف نہیں تھا۔ وہ ریاضی کی طرف متوجہ ہو گیا۔

روحی، حمید کو اپنے پیچھے آتے دیکھ کر بڑے دلآویز انداز میں مسکرائی۔

’’میں نہیں چاہتی کہ ریاض مجھے یہاں دیکھے!‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

’’بور کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میں اشرف کا سوگ مناؤں۔ ویسے بھی وہ میرا خالہ زاد بھائی تھا !‘‘

’’تو کیا آپ ریاض سے خائف ہیں؟“

’’نہیں لیکن میں یہ نہیں چاہتی کہ وہ مجھے اور زیادہ بور کرے!‘‘

’’ اگر آپ اجازت دیں تو میں اُسے اٹھا کر باہر پھینک دوں !‘‘

’’آپ !‘‘روحی ہنسنے  لگی ۔’’ آپ اُس سے زیادہ طاقتور نہیں معلوم ہوتے !‘‘

 لاؤنج میں اُن دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ دفعتہ کسی نے پشت سے روحی کو آواز دی۔ وہ دونوں چونک

کر مڑے۔ دروازے میں ریاض کھڑا انہیں گھور رہا تھا۔

’’اوہ ۔ ریاض۔ یہ سارجنٹ حمید ہیں !‘ ‘روحی اس کی طرف بڑھتی ہوئی بولی۔

’’میں جانتا ہوں !‘‘ریاض خشک لہجے میں بولا۔’’ لیکن تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟‘‘

’’ کیوں ! تم سے مطلب؟‘‘ روحی تیز لہجے میں بولی ۔

’’ تمہیں آج یہاں نہ ہونا چاہئے !‘‘

’’ بکواس ہے۔ تم اپنا کام دیکھو!“

’’دنیا کا خون سفید ہو گیا ہے !‘‘ ریاض ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ اس کے چہرے پر غم کے بادل چھا گئے۔

’’تم لوگ مجھے مار ڈالو گے۔ کہیں میں پاگل نہ ہو جاؤں ! ‘‘ روحی نے جھنجھلا کر کہا۔’’ دنیا کا خون سفید ہو یا

سیاہ۔ میرا خون کافی گاڑھا ہے۔ تم مطمئن رہو!‘‘

’’ تمہارے اس رویہ کی شکایت پھوپھی صاحبہ سے کروں گا !‘‘

’’آہا۔ تو کیا آپ کی پھوپھی صاحبہ مجھے کھا جائیں گی !‘‘

’’تم اپنے بزرگوں کی تو ہین کرتی ہو!“

’’ریاض ! مجھے بور نہ کرو۔ تم جا سکتے ہو!“

’’بہتر ہے۔ کاش تم آدمی بن سکتیں !‘‘ ریاض نے کہا اور واپس جانے کے لئے مڑا۔

’’ او ہو۔ ٹھہرو!‘‘ روحی آگے بڑھتی ہوئی بولی ۔ ’’ کیا گھر جارہے ہو؟ میں بھی چلتی ہوں۔ میں نے منع کیا تھا تم سے کہ آج رات باہر نہ جاتا۔ کتنی سردی ہے۔ تمہیں پہلے ہی نزلے کی شکایت تھی !‘‘

حمید  حیرت سے منہ کھولے کھڑا رہ گیا۔ اُسے توقع تھی کہ روحی ، ریاض کو چلا جانے دے گی ۔ لیکن وہ خود اس طرح اس کے ساتھ جارہی تھی جیسے ابھی اُن کے درمیان بڑی خوشگوار گفتگو ہوتی رہی ہو۔

فریدی لاؤنج کے دروازے میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔

6

وہ کون تھی؟

حمید اُسے ٹولنے والی نظروں سے دیکھتا رہا پھر آہستہ سے بولا۔

’’دیکھا آپ نے !‘‘

’’ہاں آؤ!‘‘فریدی با ہر نکلتا ہوا بولا - حمید نے کھانے کے دام چکائے اور پھر وہ دونوں باہر آگئے۔

’’ آپ نے ہماری گفتگو بھی سنی تھی !‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’ ایک ایک لفظ !‘‘فریدی کیڈی میں بیٹھتا ہوا بولا۔

’’اب آپ کو یقین آیا !‘‘

’’ کس بات پر ؟ فریدی نے انجن اسٹارٹ کر دیا۔

’’اس با ت پر کہ شہتو ت کے درخت میں مر غی کے انڈ ے لٹکتے ہیں !‘‘حمید جھنجھلا کر بولا ۔

فر یدی ہنسنے لگا کیڈی پھر سڑک پر نکل آئی تھی ۔

’’ لڑکی اپنے ماحول سے اکتائی ہوئی معلوم ہوتی ہے ... اور بس!‘‘

’’بہتر ہو گا کہ آپ ایک پرائیویٹ پاگل خانہ کھول لیں !‘‘

’’اسی فکر میں ہوں۔ سب سے پہلے تمہارا نام رجسٹر کروں گا !‘‘فریدی نے کہا۔’’ڈفر !  یہ تو سوچا گرواقعی اس کا ہاتھ اس واردات میں ہوتا تو وہ اتنی بے باکی سے اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار نہ کرتی !‘‘

’’ مجھے اس سے نفرت ہے!‘‘

’’محض اس لئے کہ اس کے اندر تم سے بھی زیادہ آدم خوری کے جراثیم موجود ہیں۔ تم ساتھ ہی ساتھاحساس  ہو اور اس نے اپنی حِس  مردہ کر ڈالنے کی کوشش کی ہے!‘‘

 حمید کچھ نہ بولا ۔ تھوڑی دیر بعد فریدی نے ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ کے سامنے کیڈی روک دی اور اتر کر

بو تھ کے اندر چلا گیا۔

حمید سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے پائپ کے ہلکے ہلکے کش لے رہا تھا۔ نہ جانے کیوں اُسے آج تھکن  محسوس ہونے لگی تھی حالانکہ آج وہ آفس بھی نہیں گیا تھا ۔ وہ اب بھی روحی کے متعلق سوچ رہا تھا۔ نہ جانے کیو ں یہ  بات اُس کے ذہن میں بیٹھ گئی تھی کہ اس قتل میں روحی کا ہاتھ ضرور ہے۔ وہ قاتل کو اچھی طرح جانتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ریاض ہی ہو۔ اس نے کسی عورت کے ذریعہ شاہد کو پھا نس  کر سا زش  میں لپیٹ لیا ہو کیا وہ عورت روحی  ہوسکتی  ہے؟ لیکن نہیں! روحی  کافی زہین اور چالاک ہے۔ وہ کسی ایسے معاملے میں اس طرح نہیں الجھ  سکتی جس میں اُس کے پہچان لئے جانے کا امکان ہو پھر ؟ بہر حال آگے بڑھنے کے لئے اس کا پتہ لگا نا ضروری تھا۔ روحی نے اشرف کی کسی سوتیلی ماں کا بھی تذکرہ کیا تھا مگر اشرف کی سوتیلی ماں بہر حال اتنی کمسن نہیں ہوسکتی کہ اس کا جادو شاہ پرچل سکے ۔

دوسری طرف واردات کی نوعیت بھی اس کے ذہن میں تھی ۔ فریدی کے خیال کے مطابق کوئی تیسرا شخص بھی اشرف کے مکان میں موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ اُسی تیسرے آدمی نے دروازے کا تالا کھول کر دوسرا تالا اگلے دروازے میں لگایا ہوگا اور شاید وہ اس وقت بھی مکان ہی میں موجود رہا ہو جب شاہد اور دو عورت باہر کے کمرے میں تھے ۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ نا معلوم آدمی اچھی طرح جانتا تھا کہ اشرف کے نو کر  دو بجے سے پہلے واپس نہیں آسکتے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کہتی ہے کہ اشرف کی موت گیارہ اور ایک کے درمیان میں واقع ہوئی تھی۔ گیارہ بجے شاہد اس عورت کے ساتھ وہاں پہنچا تھا اور پونے بارہ تک وہاں ٹھہرا تھا۔ لیکن اس دوران میں اس نے دھماکے کی آواز نہیں سنی  تھیتو پھر اشرف اس وقت تک زندہ تھا لیکن اس بات سے بے خبر کہ اس کے مکان میں اس کے لئے کیا ہورہا ہے۔ شاہد وہاں سے تنہا واپس ہوا تھا اور وہ عورت وہیں رہ گئی تھی۔ لیکن کوئی عورت بھی اس وزنی تجوری کو نہیں دھکیل سکتی تھی ۔ لہذا تیسرے آدمی کا وجود ثابت ہو جاتا ہے اور پھر باہر کے کمرے میں سگار کی راکھ بھی تو ملی تھی جس کے متعلق  فریدی نے اُسی وقت رائے قائم کر لی تھی۔ رہ گیا شاہد تو وہ سگار پیتا ہی نہیں تھا عورتیں بھی سگار نہیں پسند کرتیں۔...

فریدی ٹیلیفون بوتھ سے واپس آ گیا تھا اور کیڈی پھر چل پڑی تھی ۔ حمید کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔

’’میں نے جگدیش کو فون کیا تھا۔ وہ مجھے کوئی نئی اور دلچسپ اطلاع دینا چاہتا ہے !‘ ‘فریدی نے کہا۔

’’ تو اب ہم کہاں جا رہے ہیں ؟“

’’ہوٹل ڈی فرانس ۔ جگدیش و ہیں آئے گا۔ کوتوالی میں نہیں ملنا چاہتا۔ اس بار اس کا صاحب سرپٹ دوڑ رہا ہے اور اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس کیس کو محکمہ  سراغرسانی تک ہرگز نہ پہنچنے دے گا!‘‘

’’ مجھے تو یہ کیس سلجھتا  نظر نہیں آتا !‘‘ حمید بڑبڑایا۔

’’ بظاہر حالات ایسے ہی ہیں !‘‘ فریدی نے کہا ۔’’ شاہد والی عورت بہت ضروری ہے!‘‘

’’اور اگر وہ سرے سے غپ ہی نکلی تو ! ‘‘

’’ممکن ہے لیکن فی الحال ہمیں یہی سوچنا چاہئے ۔ ہم اپنی معلومات کے دائرے سے باہر تو عمل کر نہیں سکتے !‘‘

’’اگر کسی عورت کا وجود ہے بھی تو وہ خود ہی اشرف کی زندگی کی خواہاں رہی ہوگی !‘‘ حمید نے کہا۔ ” ہو سکتا ہے اشرف سے اُس کے تعلقات رہے ہوں اور وہ اُس کی منگنی کی خبر پا کر بھڑک اٹھی ہو!‘‘

’’خیر اسی لائن پر سوچو!‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’ لیکن اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ رضیہ نے شاہد پر دوڈھائی ماہ قبل ہی سے ڈورے ڈالنے شروع کر دیئے تھے اور قتل اس رات کو ہوا جس دن منگنی  کا اعلان کیا گیا تھادوسری طرف یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمیں اشرف کی زندگی میں کسی ایسی عورت کے وجود کا علم نہیں ہوسکا جس سے اس کے جنسی تعلقات ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اشرف بڑا محتاط آدمی تھا۔ اگر وہ واقعی ایسا ہی محتا ط تھا تو اس عورت کے لئے دوماہ قبل ہی منگنی کے امکان کا اندیشہ کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اشرف نے محتاط ہو نے کی بنا پر ہر گز اس پر یہ با ت ظا ہر نہ ہو نے دی ہو گی ۔یہ با ت یہا ں ختم ہو گئی اب اس کے لئے صر ف ایک ہی صورت رہ جا تی ہے وہ یہ کہ عو رت نہ صرف اُسی کے طبقے کی رہی ہو بلکہ اُس سے قر یبی تعلقا ت رکھنے والوں سے بھی متعا رف رہی ہو جن کے ذریعہ اُسے منگنی کا علم دو ما ہ قبل ہی ہو گیا لیکن حمید صاحب اس نظر یے میں ایک بہت بڑی کمزو ری ہے ۔ اگر وہ جا نی پہچا نی ہو ئی عو رت ہو تی تو وہ کسی دوسرے کے کا ند ھے پر رکھ کر بندوق نہ چلا تی ۔کیو نکہ اس میں پہچا ن لئے جا نے کا خطر ہ ہے ۔ظا ہر ہے کہ شا ہد اسے شنا خت کر نے کے لئے زندہ ہے !‘‘

’’  آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘

’’یہی کہ وہ عورت بھی اس بساط پرصرف ایک معمولی سا مہر تھی۔ شاطرتو کوئی اور ہی ہے میراخیال ہے کہ  وہ عورت روزانہ نظر آنے والی کوئی سوسائٹی گرل بھی نہ ہوگی !‘‘

’’اشرف کی سوتیلی ماں !‘‘ حمید بڑبڑایا۔

’’یہ ایک بھی اطلاع ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اشرف کی کوئی سوتیلی ماں بھی تھی تو اس نے کبھی اس کا تذکرہ کیو ں نہیں کیا پھر بھی یہ اطلا ع تمہیں روحی سے ملی ہے جسے تم قریب قریب پا گل سمجھتے ہو !‘‘

حمید کچھ نہ بولا وہ پھر اپنے خیالات میں الجھ گیا تھا۔

ہوٹل ڈی۔ فرانس میں پہنچ کر انہیں زیادہ دیر تک جگدیش کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ جگدیش کچھ پریشان سا نظر

آرہا تھا۔ وہ چپ چاپ آکر اُن کے قریب بیٹھ گیا۔

 حمید اور فریدی سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھ رہے تھے لیکن اس نے خود ہی سلسلہ گفتگو نہیں شروع کیا۔

’’ کیا خبر ہے؟‘‘ فریدی اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔

’’پہلی خبر تو یہ کہ کوتوال صاحب مجھ سے بہت زیادہ ناراض ہو گئے ہیں!‘‘

’’خیر یہ خبر میرے لئے کافی پرانی ہو چکی ہے اور وہ تمہارا کچھ نہیں کر سکتا۔ تم مطمئن رہو۔ اچھا دوسری خبر !‘‘

’’ بیگم ارشاد نے معاملے کو الجھا دیا ہے!“

’’کیوں؟‘‘ فریدی چونک کر بولا ۔ حمید بھی جگدیش و گھور رہا تھا کیونکہ اس نے روحی  کی ماں کا حوالہ دیاتھا ۔

’’انہوں نے!‘‘ جلدیش سگریٹ سلگا تا ہوا بولا۔’’ ایک نئی کہانی سنائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اشر ف کے والد کی  ایک داشتہ  تھی اور ان کی موت کے بعد اس نے جائداد میں حصہ لینا چاہتا تھا لیکن اس کی کوششیں ناکام رہی تھیں۔

اس کے ایک بچہ بھی تھا !‘‘

’’ہو گا !‘‘فریدی سر ہلا کر بولا ۔’’ اس میں کون سا الجھا وا پیدا ہوتا ہے!‘‘

’’سنئے  تو ۔ وہ عورت دراصل شاہد کی ماں ہے۔ سعیدہ ... جلال آباد کے سرکاری ہسپتال میں میٹرن ہے!‘‘

’’کیا ؟‘‘ حمید اچھل پڑا۔

’’جی ہاں ۔ آج کوتوال صاحب جلال آباد گئے تھے لیکن وہ عورت کہتی ہے کہ وہ اشرف کے والد سے واقف  ہی نہیں !‘‘

’’ ہم !‘‘ فریدی بڑبڑایا۔ ’’ حالات تیزی سے روشنی میں آرہے ہیں لیکن تمہیں یہ کسے معلوم ہو گیا کہ وہ شاہد کی

ماں کی ہے !‘‘

’’ شاہد نے اس کا پتہ بتایا تھا۔ دوسری طرف بیگم ارشاد نے بھی وہی نام اور پتہ بتایا !‘‘

’’ بہت خوب ! اور سعیدہ اس سے انکار کرتی ہے۔ اس نے شاہد کوتو اپنا بیٹا سلیم کرلیا ہے نا !‘‘

’’جی ہاں۔ اسے وہ تسلیم کرتی ہے!‘‘

’’ ہوں ! اچھا تو اب تمہارے صاحب کیا فرماتے ہیں !‘‘

’’ فرمائیں گے کیا۔ جھک ماررہے ہیں ۔ شاہد جوں کا توں اپنے پچھلے بیان پر قائم ہے !‘‘

’’میں پہلے ہی کہہ رہا تھا !‘‘ حمید بڑبڑا کر رہ گیا۔

’’ تم بھی یہی کہہ رہے تھے کہ شاہد کا بیان غلط تھا !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔

’’ قطعی بے سروپا بے بنیاد!‘‘

’’خیر تمہیں ان خیالات پر افسوس کرنے کا موقع دیا جائے گا !‘ ‘فریدی خشک لہجے میں بولا اور کرسی سےاُٹھ گیا ۔

’’ کہاں چلے؟‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’ تم میرا انتظار نہ کرنا !‘‘

وہ ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر باہر نکل آیا۔ کیڈی اسٹارٹ کی اور پھر کچھ دور پر اسے ایک پٹرول پمپ کے سامنے روک دیا۔ ٹنکی  بھر وائی اور پھر چل پڑا۔ تھوڑی دیر بعد کیڈی پرنسٹن روڈ پر جارہی تھی جلال آباد کا فاصلہ ساٹھ  میل  تھا۔ پولو گراؤنڈ والی سنسان سڑک پر پہنچتے ہی کیڈی کی رفتار بہت تیز ہوگئی ۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ جلال آباد کے سرکاری ہسپتال کی کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہی تھی ۔ فریدی نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا ساڑھے گیارہ بج چکے تھے ۔ سعیدہ ڈیوٹی ہی پر تھی۔ اس لئے اُس تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہ گی۔ یہ ادھیڑ عمر کی ایک باوقار اور متین عورت تھی ۔ فریدی کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کے چہرے پر تشویش یا پریشانی کے آثار قطعی نہیں تھے۔ حالانکہ اسے اپنے لڑکے کے لئے پریشان ہونا چاہئے تھا۔ فریدی نے جب اُسے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا تو وہ کچھ اکتائی ہوئی سی نظر آنے لگی ۔ پھر بولی۔

’’ دیکھئے! آپ کا تعلق محکمہ سراغرسانی سے ہے اور مجھے آپ کے یہاں کے ڈی۔ ایس۔ پی سے ہدایت ملی

ہےکہ میں محکمہ سراغرسانی کے کسی فرد سے کوئی بات نہ کروں!‘‘

’’اور یہ محض اس لئے کہ میں شاہد کو بے گناہ سمجھتا ہوں ! ‘‘فریدی نے کہا۔’’ وہ بے چارا ا یک بہت بڑی سازش کا شکار ہو گیا ہے۔ میرا فرض ہے کہ میں اسے بچانے کی کوشش کروں ۔شا ید آپ میر ے نا م سے واقف ہو ں گی !‘‘

وہ چند لمحے خاموش رہی پھر بولی۔ ’’ تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘

’’ کیا بیگم ارشاد نے جو اطلاع دی ہے صحیح ہے ؟‘‘

’’کون بیگم ارشاد ۔ میں انہیں نہیں جانتی ؟‘‘

’’دیکھئے !یہ شاہد کے حق میں درست نہیں !‘‘

’’ شاہد !‘‘ اس نے ہونٹ بھینچ لئے پھر بولی۔ ’’ میں ایسے نا خلف کو پھانسی ہی پر دیکھنا پسند کروں گی جس نے میری تربیت پر بٹہ لگا یا !‘‘

’’میں آپ کے اس جذبہ کی قدر کرتا ہوں مگر وہ بے چارا ہے گناہ ہے۔ اگر آپ نے میری مدد نہ بھی کی تو میں اس کی بے گناہی ثابت کر دوں گا ۔ ہاں اس طرح ذرا دشواریاں بڑھ جائیں گی ! ‘‘

’’میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہو ں ؟‘‘

’’یہی کہ مجھ سے کچھ چھپائے نہیں !‘‘

’’مم میں کچھ نہیں چھپا رہی ہو ں !‘‘

’’دیکھئے! آپ ایک بہت بڑی حقیقت چھپا رہی ہیں۔ اشرف کے والد سے آپ کی با قاعدہ شادی ہو ئی تھی !‘‘

’’کک نن نہیں نہ جانے آپ کیا کہہ  رہے ہیں؟ میں کسی اشرف یا اُس کے والد کو نہیں جانتی !‘‘

’’ آپ کی مرضی ! ‘‘فریدی خشک لہجے میں بولا ۔’’ آپ نے صرف پھانسی کا نام سنا ہے کسی کو پھا نسی  ہوتی دیکھی نہیں۔ گردن ربر کی طرح کھنچتی ہے اور جسم جھولتا رہ جاتا ہے۔ پھر جلاّد ٹانگیں پکڑ کر اس طرح جھٹکا دیتا ہےکہ  گردن کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ مرنے والا چیخنے کے لئے پوری طاقت لگاتا ہے لیکن آواز نہیں نکلتی۔ شاہد جوان آدمی ہے۔ گردن کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد بھی اس کا جسم پھڑکتا رہے گا !‘‘

’’خاموشں !‘‘سعیدہ سینے کے بل چیخ کر دیوار سے ٹک  گئی ۔ اس کے چہرے پر پسینے  کی ننھی ننھی بو ند یں پھو ٹ  آئی تھیں اور وہ بُری طرح کا نپ رہی تھی ۔

’’کسی کی موت کی خبر سے متاثر نہ ہوتا اور بات ہے اور کسی کو مرتے دیکھنا اور ...!‘‘

’’مم میں اپنے کوارٹر میں جانا چاہتی ہوں ! ‘‘اس نے مردہ ہی آواز میں کہا۔

 فریدی نے سہارے کے لئے اپنا داہنا بازو پیش کیا اور وہ دونوں باہر آئے کوارٹر ہسپتال کی کمپا ؤنڈہی میں  تھا تھوڑی دیر بعد وہ فریدی کے سامنے بیٹھی مضمحل  آواز میں کہہ رہی تھی۔

’’عرفان سے میری سول میرج ہوئی تھی ۔ شادی کا سرٹیفکیٹ میرے پاس موجود ہے اور شاہد عرفان ہی کالڑ کا ہے یعنی اشرف مرحوم کا سوتیلا بھائی ہے یہ چند آدمیوں کے کمینہ پن کی ایک لمبی داستان ہے۔ لیکن میں مختصراً بتاؤں گی۔ شاہد چھ ماہ کا تھا کہ عرفان چل بسے ۔ اشرف پانچ سال کا تھا اور اس کی ماں زندہ تھی بیگم ارشاد کی بہن ۔ میں نے جائداد میں بٹوارہ چاہا لیکن اشرف کی ماں کے عزیزوں نے طوفان پر پا کر دیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ عدا لتی  چارہ جو ئی  ہونے پردہ شاہد کو ناجائز اولاد ثابت کر دیں گے حالانکہ سرٹیفکیٹ کی موجودگی میں وہ اسے کسی طرح نہ ثابت کر سکتے لیکن میں نے اسے گوارا نہ کیا کہ میرے بچے کی حیثیت اتنے گندے انداز میں موضوع بحث ہے ۔ یہ میری شرافت کی توہین تھی۔ میں نے وہ شہر ہی چھوڑ دیا اور گمنامی میں زندگی بسر کرنے لگی ۔ شادی سے قبل بھی میں نرس تھی ۔ اس واقعے کے بعد میں دوبارہ اس زندگی میں آگئی ۔‘‘

سعیدہ اٹھ کر ایک کمرے میں گئی ۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں شادی کا سرٹیفکیٹ تھا۔ فریدی اُسے چند لمحے دیکھا رہا پھر بولا۔ ” کیا شاہد کو ان واقعات کا علم ہے؟‘‘

’’ ہر گز نہیں ۔ میں نے اُسے کبھی کچھ نہیں بتایا اور نہ پھر اس کے بعد سے کبھی عرفان کے اَ عزّہ سے میرا سامنا ہوا۔ میں یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ بیگم ارشاد کو میری موجودگی کا بھی علم ہوگا ۔ آہ بے شک کسی نے میرے بچے کوبُر ی طرح پھنسا دیا ہے۔ میں کیا کروں؟“

اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔

’’ اگر آپ میری ہدایت پر عمل کریں گی تو سب ٹھیک ہی ہوگا ۔ دیکھئے فی الحال آپ اس سرٹیفکیٹ کو بھول جائے اور اپنے اس بیان پر اڑی رہئے کہ عرفان سے واقف تک نہیں تھیں ۔ اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں یہ سرٹیفکیٹ اپنے ہی پاس رکھوں۔ ہوسکتا ہے کہ بیگم ارشاد کے دوسرے اشارے پر آپ کے گھر کی تلاشی لے لی جائے اگر یہ سرٹیفکیٹ پولیس کے ہاتھ لگ گیا تو پھر شاہد کی گلو خلاصی محال ہو جائے گی اور ہاں صرف یہی نہیں بلکہ ہر ایسی چیز ضائع کر دیجئے جس سے آپ کا اور عرفان کا تعلق ظاہر ہو سکے۔ مثلاً پرانے خطوط وغیرہ ۔ فوٹو گراف - تحائف جن پر آپ کے اور عرفان کے نام موجود ہوں !‘‘

’’لیکن اگر عرفان کے دوسرے اعزّہ نے میرے خلاف شہادت دی تو ؟‘‘ سعیدہ نے کہا۔

’’ فکر نہ کیجئے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ اس صورت میں جلال آباد کے کم از کم ڈیڑھ سو معززین اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ ہمیشہ سے جلال آباد ہی میں رہتی آئی ہیں اور یہیں کے ایک خاندان میں آپ کی شادی ہوئی تھی ۔‘‘

7
فریدی کی چال

دوسری صبح سر جنٹ حمید اور انسپکٹر فریدی میں پھر تکرار ہوگئی ۔ فریدینے اُسے پچھلی رات کے واقعات بتا دیئے تھے ۔وہ اس وقت نا شتے کی میز پر تھے ۔

’’اور اس کے باوجود بھی آپ اپنے پچھلے نظریے پر قائم ہیں ! ‘‘حمید نے کہا ۔’’ سعیدہ نے آخراتنی بڑی   حقیقت کو چھپانے کی کوشش کیوں کی ؟‘‘

’’ اس حقیقت کو تو وہ بیس  بائیس برس سے چھپائے رہی ہے ! ‘‘

’’میں اسے تسلیم نہیں کر سکتا کہ شاہد کو اس کا علم نہ رہا ہو! ‘‘حمید نے کہا ۔

’’اوہ ۔وہ ایک چالاک ترین قاتل ہے!‘‘

’’ اتنا چالاک کہ پھنس جانے کے لئے اپنا کوٹ چھوڑ گیا تھا !‘‘فریدی طنز آمیز مسکراہٹ کے سا تھ بولا۔

 حمید کچھ نہ بولا۔ اس نئے  انکشاف پر د چکر میں آگیا تھا۔ بات حقیقتاً سوچنے  کی تھی۔ اگر شا ہد واقعی قاتل تھا تو اس نے مقتول سے کوٹ بدلنے کی حماقت کیوں کی۔ اگر معاملہ صرف شنا ختی  کا رڈ کا  ہو تا تو  یہ کہا جاسکتا تھا کہ اُس کی بے احتیاطی سے شناختی کارڈ جائے واردات پر گر گیا ہو گا۔

’’کچھ نہیں بیٹے ! ‘‘فریدی اُس کے چہرے کے قریب انگلی نچا کر بولا ۔ ’’ ہم ایک قدم آگے بڑھے ہیں۔ اب ہمیں بیگم ارشاد کے متعلق سوچنا ہے۔ اس نے پولیس کو غلط اطلاع کیوں دی ۔ صاف صاف کیوں نہیں بتایا کہ سعیدہ سے عر فا نی کی سو ل میر ج  ہوئی تھی اور یہ کہ اُسے سعیدہ کے موجودہ حالات کا علم کب ہوا؟ وہ اُس کے جلال آبادکے  قیام کے متعلق کب سے جانتی ہے اور اسے اس کا علم کیونکر ہوا۔ تم نے ابھی تک مجھے یہ بھی نہیں بتایا کہ اُن پانچوں میں سے ریاض اور فیض کے علاوہ اور کون سگار پیتا ہے!‘‘

’’میرا خیال ہے کہ ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں پیتا !‘‘حمید نے کہا ۔

’’ اچھا تو اب ہم اپنا طریقئہ کار بدل دیں گے۔ ان لوگوں سے تو کچھ بھی نہیں معلوم ہوسکتا۔ کیونکہ ڈی ۔

ایس۔ پی نے اُن کے ہونٹ سی دیئے ہیں!“

’’ پھر ہم کہاں ٹکّر یں  ماریں گے ؟‘‘ حمید بے زاری سے بولا ۔ ’’ان تین دنوں میں میری رو  ح بری طرح کچلی

گئی ہے!‘‘

’’ گھبراؤ نہیں ۔ جلدی تمہیں تمہارے معیار کی تفریحات نصیب ہوں گی۔ ناشتہ ختم کر چکے ہوتو اٹھو !‘‘

 لباس تبدیل کر کے وہ باہر نکلے۔ حمید کو حیرت ہو رہی تھی کہ فریدی آج ان گلیوں کے کیوں چکر لگا  رہا ہے جن  کے متعلق سوچنا بھی کم از کم اس کے طبقے کے لوگوں کے لئے باعث تنگ ہو سکتا ہے۔ ان گلیوں میں جا بجا غلا ظت اور گندگی کے ڈھیر تھے ۔ہر نئے مو ڑ پر ایک نئی قسم کی احساس ہو تا تھا ۔دن کے وقت بھی وہا ں قر یب قر یب تا ریکی ہی تھی ۔

’’فریدی نے ایک بھدی سی عمارت کے بد وضع صدر دروازے پر دستک دی۔ حمید ناک پر رومال رکھے کھڑا

تھا ۔اس نے کرا ہیت سے اُس اونچی عمارت پر نظر ڈالی اور فریدی کو گھور نے لگا۔

دو تین بار دستک دینے پر دروازہ چرچراہٹ کے ساتھ کھلا پٹوں کے درمیان سے نکلنے والا سرکسی سالخوردہ

بڑھیا کا تھا۔ اس نے حیرت سے ان دونوں کو دیکھا اور منہ کھول کر کھڑی ہوگئی ۔ فریدی جیب سے فا ؤنٹن پین  نکال کر کا غذکے  ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر کچھ لکھنے لگا۔ پھر اس نے وہ ٹکڑا بڑھیا کے ہاتھ دیتے ہوئے اسے اندر جانے کا شارہ کیا۔ بڑھیا ہونٹوں میں کچھ بڑ بڑاتی ہوئی چلی گئی۔

’’ انتخاب کی داد دیتا ہوں ۔ اگر لنگڑی بھی ہوتو مجھے ذرہ برابر افسوس نہ ہوگا۔ آپ اسی لائق ہیں۔ البتہ بد بوسے میرا دم گھٹ رہا ہے !‘‘

’’بس اتنے ہی میں گھبرا گئے !‘‘

حمید کچھ نہ بولا ۔ اس نے جیب سے دوسرا رومال نکال لیا جو ’’ایسنس آف روز‘‘ کی خوشبو سے بسا ہوا تھا۔

تین چار منٹ گزر گئے ۔ فریدی شاید کسی کا منتظر تھا۔

 دروازہ پھر کُھلا  ۔ اب اُن کے سامنے ایک بھاری بھر کم آدمی کھڑا تھا۔ جس کے جسم پر خا کی گابرڈین کی پتلون

اور چمڑے کی جیکٹ تھی ۔ چہرہ بڑی حد تک بدنما اور بھدا  تھا۔

’’میں نہیں سمجھ سکتا !‘‘ وہ بڑبڑا کر رہ گیا۔

’’باہر آؤ!‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’تھوڑی سی گفتگو اور تھوڑی سی تفریح !‘‘

وہ باہر آ گیا۔ دروازہ کسی نے اندر سے پھر بند کر لیا۔

’’میرے ساتھ آؤ!‘‘ فریدی نے کہا۔

سڑک پر پہنچ کر انہوں نے ایک ٹیکسی رکوائی۔

’’مجھے ایک لڑکی کی تلاش ہے!‘‘ فریدی ٹیکسی میں بیٹھتے ہی بولا۔

’’اوہ تو میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ گرانڈی آدمی نے ہونٹوں پر زبان پھیر تے ہوئے کہا۔

’’ تم سمجھ ہی گئے ہو گے کہ وہ کس قسم کی لڑکی ہو سکتی ہے !‘‘

’’ لیکن میں اب دوسرا دھندا کر رہا ہوں ۔ یہ دھندا تو اب شریفوں میں چلا گیا ہے!‘‘

’’سگا ر !‘‘ فریدی سگار کیس اُس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ۔

’’ شکر یہ!‘‘ اس نے سگار لے کر ہونٹوں میں دبا لیا اور عجیب نظروں سے فریدی کی طرف دیکھتا ہوا بولا ۔’’ کیا

کوئی نئی  مصیبت ۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آج کل میں محنت مزدوری کر رہا ہوں !‘‘

’’ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو! ‘‘ فریدی نے لا پروائی سے کہا۔ ’’ مجھے اس سے غرض نہیں میں چھو ٹے مو ٹے  

معاملات میں ہاتھ نہیں لگاتا !‘‘

’’ پھر ۔ لیکن کسی بڑے معاملے سے میرا کیا تعلق !‘‘

’’تم غلط سمجھے ۔ میں تمہیں کو تو الی نہیں لے جا رہا ہوں !‘‘

’’ دوسری صورت میں بھی مجھے جہنم ہی کی توقع رکھنی چاہئے !‘‘ اس نے کہا ۔

’’ نہیں میں تمہاری مدد چاہتا ہوں ۔ مجھے اُس لڑکی کی تلاش کے سلسلے میں تمہاری ضرورت ہے!‘‘

’’ اب میرے پاس لڑکیاں نہیں ہیں .. آپ یقین کیجئے !‘‘

’’ہو سکتا ہے کہ تم اُسے جانتے ہو!‘‘

’’نام کیا ہے؟‘‘

’’نام مجھے نام میں شبہ ہے۔ ویسے وہ بعض اوقات خود کو رضیہ کہتی ہے۔ کچھ اس قسم کی ہے کہ لوگ اُسے کا فی  تعلیم یافتہ سمجھتےہیں ۔ عمر  بیس اور پچیس کے درمیان ایک خاص پہچان یہ ہے کہ اس کے داہنے کان کی لَو دو ہری معلو م ہوتی ہے!‘‘

وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر مایوسی  سے سرہلا کر بولا۔ ”مجھے افسوس ہے کہ می ایسی  کسی لڑکی نہیں جا نتا  لیکن میرا خیال ہے کہ ایسی لڑکی آپ کو مادام ۔ رود دانو کے ہوسٹل میں ضرور مل جائے گی ! ‘‘

’’ کیا بکواس ہے! ‘‘حمید نے کہا۔ ” وہ تو کالج گرل کا ایک پرائیویٹ ہوسٹل  ہے۔ مادام رود انو ایک معز ز

عورت ہے!‘‘

’’ حضور والا!‘‘ وہ تلخ لہجے میں بولا ۔  یہی تو میں عرض کر رہا تھا کہ ان معزز ہستیوں نے ہما ری رو ٹیو ں پر لا ت ما ری ہے !‘‘

’’ہو سکتا ہے !‘‘ فریدی سر ہلا کر بولا ۔ ’’ مجھے اس کا علم نہیں تھا !‘‘

’’ان کا کاروبار صرف اونچے طبقے تک محدود ہے!‘‘اس نے کہا ۔’’ اسی لئے کسی کو اس کا علم نہیں۔ روالو ہوسٹل کی ساری لڑکیاں دھندا کرتی ہیں لیکن کس کے منہ میں دانت ہیں کہ انہیں طوائفیں کہہ کر پکارے گا۔انہیں آپ   سوسائٹی  گرلز بھی نہیں کہ سکتے کیونکہ وہ عام طور پر بہت کم دکھائی دیتی ہیں ۔ میرا دعوی ہے کہ آپ قانونی طور پرما دام

رودانو کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکتے !‘‘

’’ کیوں؟‘‘

’’ آپ کو کہیں سے کوئی ثبوت ہی نہ ملے گا!‘‘

’’آخر لوگ ان لڑکیوں تک کیو نکر پہنچتے ہوں گے؟‘‘

’’چیٹر لیز ہو ٹل منجر کے ذریعہ !‘‘

’’کیا ؟‘‘ حمید یک بیک چونک پڑا۔

فر یدی نے اُسے ٹٹو لنےوالی نظروں سے دیکھا اور پھر اجنبی کی طرح متو جہ ہو گیا ۔حمید کو اچھی طرح یا د نہیں کہ پھر اُن دونو ں کے در میا ن اور کیا گفتگو ہو ئی۔اس کے کا نو ں میں سیٹیا ں سی بجنے لگی تھیں ۔اس کی آنکھیں خو د بخو د کبھی پھیلتیں اور کبھی سکڑ جا تیں ذہن با ر با ر ’’چیٹر لیز ہو ٹل ‘‘دہر ارہا تھا  ۔

پھر اس نے تھو ڑی دیر بعد ان دو نو ں کو ٹیکسی سے اُتر تے دیکھا ۔وہ بھی اُتر گیا لیکن وہ اندر  ہی اندر بُری طرح کھول رہا تھا اور اس کی زبان کچھ اگل دینے کے لئے بے قرار تھی۔ اجنبی نے فریدی سے مصافحہ کیا اور ایک طرف چلا گیا۔ وہ دونوں فٹ پاتھ پر کھڑے ہوئے تھے۔

’’کس ہو ٹل کا نا م لیا تھا اُس نے ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’اوہ ٹھیک یا د آیا !‘‘ فر یدی اُسے گھو رتا ہو ا بولا ۔’’تم چیٹر لیز ہو ٹل کے نا م پر چو نکے کیو ں تھے ؟‘‘

’’کیا آپ جانتے ہیں ۔ چیٹر لیز ہوٹل کا مالک کون ہے؟“

’’ہاں آں شائد جہانگیر بہرام جی !‘‘

’’ جی نہیں ۔ وہ کئی ماہ پیشتر کی بات ہے۔ اب اس کا مالک فیض ہے!‘‘

’’ گڈلارڈ!‘‘ فریدی چونک پڑا۔

 ’’فیض !‘‘ حمید کچھ سو چتا ہو ا بولا ۔’’وہ سگا ر بھی پیتا ہے اور ہے بھی کمینہ خصلت !‘‘

’’ہوں۔ اچھا تو اب کھیل شروع ہونے جا رہا ہے ! ‘‘فریدی نے ایک گزرتی ہوئی ٹیکسی کے لئے ہاتھ اٹھا تے ہو ئےکہا  اور حمید سے بولا ۔ ’’ اس ڈی۔ ایس۔ پی کے بچے سے بھی سمجھ لوں گا !‘‘

وہ دونوں گھر واپس آگئے اور فریدی حمید کو نیچے چھوڑ کر اوپری منزل پر چلا گیا جہاں اس کی تجربہ گاہ تھی ۔ کچھ دیر بعد اس نے حمید کو اوپر سے آواز دی اور پھر جب حمید او پر پہنچا تو اسے فریدی کے بجائے تجربہ گاہ میں ایک بوڑھا نظر آیا جس کی سفید مونچھیں نچلے ہونٹ کو بھی ڈھکے ہوئی تھیں اور داڑھی صاف تھی ۔ نہ صرف داڑھی بلکہ چند یا تک صاف تھی ۔

’’لعنت ہے ایسے میک اَپ پر کہ سر تک منڈ جائے ! ‘‘حمید بڑبڑایا۔

’’ بیٹے تب تو میک اپ مکمل ہے اور میں اس سے مطمئن ہوں ۔ گھبراؤ نہیں بال محفوظ ہیں ۔ سر پر پلاسٹک کا خول ہے اور یہ سو فیصدی میری ایجاد ہے۔ تم بھی جلدی سے کوئی الٹا سیدھا میک آپ کر ڈالو ۔ اگر ڈی۔ ایس  ۔ پی کے بچے نے راستہ نہ بند کر دیا ہوتا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی ! ‘‘

’’ کیا میں بوڑھا بن جاؤں؟ ‘‘حمید نے بڑی سعادت مندی سے پوچھا۔

’’بکو مت   چلو اِدھر آؤ! ‘‘

حمید میک اَپ کے دوران میں طرح طرح کے منہ بنا تا رہا۔

’’وہ آدمی کون تھا !‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’گر جُن  ۔ تم اس سے واقف نہیں ۔ یہاں کے مشہور بدمعاشوں میں سے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اب اس نے  لڑکیوں کا کاروبار بالکل ترک کر دیا ہو لیکن دو ایک قمار خانے تو اب بھی چلا رہا ہے! ‘‘

’’لیکن اگر ہمیں وہ لڑ کی رودانو کے ہوسٹل میں بھی نہ ملی تو !‘‘

’’ فکر نہ کرو۔ الجھی  ہوئی ڈور کا سرا دریافت کرنے کے لئے ہر گانٹھ پر انگلی  رکھنی پڑتی ہے !‘‘

’’اب آپ کیا کر نے جا رہے ہیں ؟‘‘

’’میں وکیل ہوں اور تم میرے محرر کیا سمجھے۔ بس فی الحال اتنا ہی ! ‘‘

میک اپ کرنے کے بعد انہوں نے لباس تبدیل کئے اور فریدی نے گیراج سے اپنی وہ چھوٹی کا رنکا لی جس کا  بھی استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا تھا ۔ حمید خاموش تھا۔ اس نے سوچا کچھ پوچھنا بے کار ہے ۔ حقیقت تو یہ بھی کہ بعض اوقات  وہ بھی فریدی کی اس حرکت سے کافی محفوظ ہوتا تھا۔ وہ کچھ بتائے بغیر اسے ایسی جگہوں پر لے جاتا جہاں پہنچ   کراُسے تحیّر  خیر اختتام رکھنے والی کہانیوں کا سامزہ آجاتا تھا۔

 اور پھر روحی کے مکان کے سامنے کار رکتے  دیکھ کر اسے سچ مچ  حیرت ہوئی۔ وہ دونوں کار سے اترےاور   پور ٹیکو سے گزر کر برآمدے میں آئے ۔ فریدی نے جیب سے وزیٹنگ کارڈ نکالا جس پر’’ ایس ۔کے نا گر سا لسیڑ‘‘تحریر تھا۔

’’بیگم صاحبہ سے ملتا ہے !‘‘ اس نے نوکر کو وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا۔

 دو تین منٹ بعد وہ اندر بلا لئے گئے ۔ ڈرائنگ روم میں بیگم ارشاد تنہا تھیں اور کچھ مضطرب کی نظر آرہی تھیں۔

’’میں خاتون سعیدہ کا وکیل ہوں !‘‘ فریدی نے اپنا تعارف کرایا۔

’’ کون خاتون سعیدہ!‘‘ بیگم ارشاد نے پیشانی پر شکنیں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ وہی جس کی آپ نے توہین کی ہے اور اب وہ میری وساطت سے آپ پر از الہ حیثیت عرفی کا دعوی کرنے

جارہی ہیں !‘‘

’’ وہ جھوٹی ہے۔ اس نے پولیس کو غلط بیان دیا ہے!“

’’ جی ہاں !انہوں نے پولیس کو بتایا ہے کہ وہ کسی ایسے عرفان کو نہیں جانتیں جس سے اُن کے نا جائز تعلقات رہے ہو ں !‘‘

’’لیکن آپ اس کے بیان کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟‘‘

’’ میں مجبور ہوں ! میرے پاس ٹھوس دلائل ہیں، ثبوت ہے، شہادتیں ہیں ، گواہ ہیں.. . !‘‘

’’میں ایسے گواہ پیش کر سکتی ہوں جو ...!‘‘

’’جی ہاں !‘‘ فریدی اس کی بات کاٹ کر بولا ۔

’’ جو شہادت دیں گے کہ عرفان سے ان کی سول میرج ہوئی تھی !‘‘

’’ یہ غلط ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ اگر ثبوت تھا تو وہ یہاں سے بھاگ کیوں گئی تھی ؟‘‘

’’ دو نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے بچے کی شخصیت ناجائز اولاد کی حیثیت سے زیر بحث آئے۔ اس لئے انہوں نے جائداد پر لات ماروی تھی لیکن اب جبکہ ان کے بچے کو ایک سازش کا شکار بنایا گیا ہے وہ کس طرح خاموش رہ سکتی  ہیں !‘‘

’’سازش !کیسی سازش؟ ‘‘بیگم ارشاد چونک پڑیں۔

’’ کھلی ہوئی سازش ہے۔ اشرف کے اعزّہ نے خاتون سعیدہ کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا۔ انہیں معلو م تھا کہ شاہد قانونی طور پر عرقان کے ترکے کا حصہ دار ہے۔ لہذا انہوں نے پولیس کو غلط راستے پر ڈال دیا تا کہ پولیس چھان بیان کر کے اصل حقیقت معلوم کر لے اور شاہد کو قاتل ٹھہرائے ۔ آخر آپ نے ناجائز تعلقات والی کہانی پو لیس سے کیو ں دہرا ئی ۔ خیر اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ میرے لئے یہ ثابت کر دیا مشکل نہ ہوگا کر اشرف و ان لوگوں نے قتل کیا ہے جو شاہد کو راستے سے ہٹا دینے کے بعد اُس کے وارث ہو سکتے ہیں !‘‘

’’کیا ؟‘‘ بیگم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ پھر وہ سنبھل کر بولیں ۔’’ یہ شاہد کون ہے؟‘‘

 ’’خاتون سعیدہ کا لڑکا، جسے پولیس نے شہبے میں گرفتار کیا ہے۔ اس کا کوٹ مع اُس کے شناختی کارڈ کے جائے واردات پر پایا گیا تھا۔ آپ لوگوں نے اسے پھنسانے کی کوشش کی ہے ۔ ورنہ کون ایسا احمق ہے کہ واردات کرنے کے بعد نہ صرف اپنا کوٹ چھوڑ جائے گا بلکہ اس میں شناختی کارڈ بھی پڑا رہنے دے گا ! ‘‘

’’غضب خدا کا!‘‘ بیگم ارشاد کا نپتی ہوئی بولیں ۔’’ میں اپنے بھانجے کے قتل کی سازش کروں گی!‘‘

 ’’سب کچھ ہو سکتا ہے محترمہ ! کون جانے کہ آپ نے اپنا دامن پاک ظاہر کرنے ہی کے لئے ایک دن قبل اس سے اپنی بیٹی کی منگنی کا اعلان کر دیا ہو۔ اتنا یا درکھئے کہ میں عدالت میں سارے تانے بانے کی دھجیاں اڑا دوں گا۔

نا گر کو وہی لوگ جانتے ہیں جن سے اس کا سابقہ پڑ چکا ہو۔ آپ کو اس کا علم کس طرح ہوا تھا کہ سعیدہ جلال آباد کے ہسپتال میں میٹرن ہے؟‘‘

’’ اشرف کی موت کے بعد کسی نے کہا تھا !‘‘ بیگم اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی بولیں ۔

’’کس نے کہا تھا ؟“

’’مجھے یاد نہیں ۔ بہتیرے لوگ تھے ۔ مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ سعیدہ زندہ ہے یا مرگئی !‘‘

’’ زندہ ہیں اور ان کی شادی کا سرٹیفکیٹ بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ آپ براہ کرم یاد کر کے بتائے کہ سعیدہ کے متعلق کس نے اطلاع دی تھی !‘‘

’’مجھے افسوس ہے کہ یہ قطعی یاد نہیں ۔ میرے جو اس ٹھکانے نہیں تھے !‘‘

’’ کیا اشرف کو مسٹر ارشاد پسند کرتے تھے ۔ حالانکہ اشرف ایک آوارہ لڑکا تھا!‘‘

’’ براہ کرم خاموش رہنے !‘‘ بیگم ارشاد نے طیش میں آکر کہا۔ ’’ آپ اشرف کو کیا جانیں !‘‘

’’ وہ میرا مستقل موکل تھا۔ اس کی جلال آباد کی جائیداد کے مقدمے میں ہی کرتا تھا۔ عیاشیوں کے لئےوہ وہیں  آتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ارشاد صاحب اُسے پسند نہ کرتے رہے ہوں گے کیونکہ وہ اُس کی حرکتوں سے واقف تھے !‘‘

 ’’ارشاد  صاحب! ‘‘بیگم برا سامنہ بنا کر بولیں ۔ ’’ انہیں اتنا سلیقہ ہوتا تو وہ اپنے بھانجے کے لئےضد نہ کر تے جس کی حا لت اظہر  من الشّمس ہے !‘‘

’’اچھا تو وہ فیض صاحب کو پسند کر تے ہیں !‘‘ فر یدی طو یل سا نس لے کر بولا ۔

’’ان با تو ں سے آپ کو کیا سروکا ر !‘‘ بیگم اچا نک اُسے گھو ر نے لگیں۔

’’کچھ نہیں !‘‘ فر یدی اٹھتا ہوا بولا ۔’’بہتر ہے کہ آپ خا تو ن سعیدہ سے اپنی غلط بیا نی کی معا فی ما نگ لیں ورنہ میں دعویٰ دا ئر کر دوں گا ۔‘‘

8
حمید کا کارنامہ

سر جنٹ حمید شدت سے بور ہو رہا تھا اور فریدی رودانو کے گرلز ہوسٹل کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ اس دوران میں وہ زیادہ تر تنہا ہی  با ہر نکلتا  تھا۔ بہر حال حمید  خوش بھی تھا کہ چلو پیچھا چھوٹا ایسے کیسوں میں اس کا دل بالکل نہیں لگتا تھا   جس میں دھول دھپے کے مواقع نہ نصیب ہوں ۔ منطقی استدلال کے ذریعہ مجرم تک پہنچنا اُس کے خیال کے مطابق مکھیا ں  مارنے کے مترادف تھا۔ اس نے کئی بار فریدی کو سمجھایا کہ یہ کیس سول پولیس ہی کے لئے زیادہ مناسب رہے گا۔

فریدی کے منطقی استدلال کی بنا پر اس نے یہ بھی تسلیم کر لیا تھا کہ قاتل فیض ہی ہو سکتا ہے لیکن ثبوت !ثبو ت  کوئی بھی نہیں تھا۔ حالات اور امکانات سراسر فیض ہی کی گردن کی طرف اشارہ کرتے تھے لیکن محض حالات ہی تو   سب کچھ نہیں ہوتے ۔ عدالت کے لئے ثبوت چاہئے ۔

 حمید کو اب تک کسی ایسی لڑکی کے وجود پر یقین نہیں تھا جس کے داہنے کان کی تو دوہری ہو۔ اس کی دانست میں اگر شاہد کی کہانی صحیح بھی تھی تو اسے اس سازش میں پھانسنے والی روحی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ مرد تو عو رت کے معاملے میں بالکل الّو ہو جاتا ہے ہو سکتا ہے کہ شاہد کو ان حالات میں بھی اس کی رسوائی منظور نہ ہو۔

 اس خیال کے ماتحت حمید ابھی تک روحی سے ملتا رہا تھا اور اس دوران میں اس نے اس کی فطرت کا اچھی  طرح مطالعہ کیا تھا۔ وہ جلد اُکتا جانے والی لڑکیوں میں سے تھی ۔ ہر لحظہ زندگی میں نئے پن کی طلب گار۔ کھردری  اورصاف بات کہنے والی۔ رومان اس کی زندگی کا جزو لازم تھا مگر اس معنی میں نہیں جو اردو میں مستعمل ہے۔اسے عشقیہ  قسم کی گفتگو سے الجھن ہونے لگی تھی ۔

سر جنٹ حمید  نے آج اُسے آلکچنو  میں مد عو کیاتھا اور وہیں کا منتظر تھا  ۔روحی نے آتے ہی بیٹھتے ہو ئے کہا ۔

’’آج مجھے دن میں  کئی  بار ایک نا خوشگوار منظر دیکھنا پڑا!‘‘

’’لیکن میرا خیال ہے کہ وہ نا قابل برداشت حد تک ناخوشگوار نہ رہا ہوگا!‘‘

’’قطعی تھا۔ لیکن مجبوری تھی۔ مجھے گھر ہی پر رہنا پڑا!‘‘

’’ کیا مصیبت تھی ؟‘‘

’’میری ایک کزن آج کل میرے یہاں آئی ہوئی ہیں ۔ ان کی گود میں بچہ بھی ہے!‘‘

’’ماشاء اللہ ! ‘‘ حمید نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور وہ اسے بُرا سا منہ بنا کر گھور نے لگی۔

’’ آپ کے لہجے  میں بڑا بوڑھیا پن ہے !‘‘ اس نے کہا۔ ’’ خیر ہوگا۔ میری کزن بار بار بچے کو دودھ پلانے لگتی تھیں !‘‘

’’واقعی بڑا حسین منظر ہو گا !‘‘ حمید بولا۔

’’و ہ دودھ پلاتے وقت ایسا برا منہ بنا کر بیٹھ جاتی ہیں جیسے کتنے کے پلّے کو دودھ پلا رہی ہوں !‘‘

’’ سبحان اللہ !‘‘ حمید شرارت سے مسکرایا۔

’’خدا تمہیں غارت کرے! ‘‘روحی نے جھنجھلا کر حمید کے ہاتھ پر جھپٹا مارا اور اتنے زور سے چُکٹی  لی کہ اس نے بِلبلا اٹھنے کا ارادہ ملتوی کر دیا کیونکہ وہ بہر حال مجمع میں تھا۔

’’ مجھے غصہ آتا ہے تو میں پاگل ہو جاتی ہوں ! ‘‘وہ اُسے گھورتی ہوئی کہہ رہی تھی ۔ ’’ تم مجھے ٹیز کرتے ہو!‘‘

’’ ایک میں ہی نہیں ۔ میں نے سنا ہے کہ فیض بھی کرتا ہے !‘‘

’’ تم نے فیض کا نام کیوں لیا !‘‘ وہ اُسے گھورنے لگی ۔

’’کیا اب فیض پر شبہ ہے۔ اُس دن ریاض کے متعلق؟‘‘

’’ میں کسی پر شبہ نہیں کر رہا ہوں '!‘‘حمید نے اُسے جملہ نہ پورا کرنے دیا۔ میں نے سناتھا کہ آج کل آپ

فیض سے کچھ کھنچی کھنچی  سی ہیں !‘‘

’’یہ کھنچی  کھنچی سی  ہوتا کیا بلا ہے !‘‘

’’پتہ نہیں !‘‘ حمید مایوسی سے سر ہلا کر بولا۔ ’’ہاں تو میں یہ کہہ  رہا تھا کہ چلی میں حلوے کے درخت بکثرت

پائے جاتے ہیں۔ وہاں کے باشندے چائے کی پیالیاں لے کر درختوں پر چڑھ جاتے ہیں اور ناشتہ کر کے پھر اُتر آتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک بہت ہی معمولی سا معاملہ  ہے لیکن اس سے ہنا لولو کی خارجی پالیسی پر بہت بڑا اثر پڑتاہے ۔ویسے

ہمارے یہاں خارجیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں !‘‘

’’ اچھا اب میں چلتی ہوں !‘‘ روحی اٹھتی ہوئی بولی۔

’’اَررربیٹھئے ۔ یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ چلتی ہیں ورنہ یہاں تک کیسے پہنچتیں !‘‘

’’کیا مطلب!‘‘ وہ پھر بیٹھ کر اسے گھورنے لگی ۔

 ’’ کہہ دوں دل کی بات !‘‘حمید بڑے رومیٹک انداز میں بولا ۔

’’کہہ  بھی چلئے !‘‘ وہ اُکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔

’’ جب میں پانچ برس کا تھا!‘‘  حمید کہتے کہتے رک گیا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں  ۔ اس نے

فریدی کو ہال میں داخل ہوتے دیکھا جس کے ساتھ ایک بڑی حسین لڑکی تھی اور فریدی اس کے کاندھے پرہا تھ

رکھے چل رہا تھا۔ روحی بھی اسی طرف مڑ کر دیکھنے لگی۔ پھر وہ حمید کی طرف مڑی ۔

’’ کیوں ؟ وہ کون ہیں!‘‘

’’ آہہہ  ہا۔ کوئی نہیں ! ‘‘حمید ہاتھ ملتا ہوا بولا۔

’’بڑا شاندار آدمی معلوم ہوتا ہے!‘‘

’’ خونی اور قاتل ہے!‘‘

’’ آپ لوگوں کو تو ہر ایک خونی اور قاتل معلوم ہوتا ہے ! ‘‘ روحی جھنجھلا کر بولی ۔

وہ دونوں ایک خالی کیبن میں چلے گئے اور فریدی نے پردہ کھینچ دیا۔ حمید کرسی پر بے چینی سے پہلو بدلنے لگا ۔ ’’شاید آپ اُس لڑکی کو جانتے ہیں !‘‘ روحی نے کہا۔

’’نہیں میں نہیں جانتا !‘‘

’’تو پھر آپ... اس کے حسن سے متاثر ہوئے ہیں !‘‘

’’نہیں وہ آپ سے زیادہ حسین نہیں ہے!‘‘

’’ پھر کیوں اسے اس طرح سے گھور رہے تھے !‘‘

’’میں اس آدمی کو پہچانتا ہوں ۔ وہ خود کو بڑا خشک بنا کر پیش کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اسے عورتوں کی ذرہ برابر بھی پروانہ ہو لیکن !‘‘

’’ایسے آدمی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں!‘‘

’’بے حد !‘‘ حمید ہونٹ سکوڑ کر بولا اور پھر اس نے ویٹر کو بلا کر کھانے کے لئے کہا۔ اس کی سب سے بڑی  خواہش تھی کہ روحی اس وقت کسی طرح جلدی سے ٹل جائے تا کہ وہ فریدی اور اس کی پارٹنر کی طرف متوجہ ہوسکے ۔کھانے کے دوران میں وہ قطعی خاموش رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر باتیں چھڑ گئیں تو پھر روحی کا اٹھنا قیامت پر منحصر ہو گا ۔ ویسے ہو سکتا ہے کہ وہ بور ہو کر چلی جائے ۔ حمید اس کی باتوں کے جواب میں ’’ہوں ہوں‘‘ کرتا رہا۔

لیکن جب وہ کھانا ختم ہو جانے کے بعد بھی نہ اٹھی تو حمید کو تاؤ آگیا... اور اس کے ذہن میں ایک دوسر ی تد بیر  کلبلانے لگی ۔ اس نے دو تین ٹھنڈی آہیں بھریں اور آنکھوں سے دو آنسو گالوں پر ڈھلک آئے ۔ روحی  حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔

’’مجھے اس وقت اشرف کی یا دستارہی  ہے!‘‘حمید   گلو گیر آواز میں بولا۔

’’ تو یہاں بیٹھ کر رونا !‘‘ روحی چاروں طرف جھینپی  ہوئی نظروں سے دیکھتی ہوئی ہوئی ۔’’ یہ کیا بے ہودگی

ہے۔ لوگ دیکھ رہے ہیں !‘‘

’’میں آپ کی طرح بے درد تو نہیں !‘‘ حمید نے باقاعدہ جیب سے رومال نکال لیا اور پھر بولا ۔’’ آپ کو

اشرف سے بالکل محبت نہیں تھی !‘‘

’’بکواس ہے مجھے اشرف کے کتّے  سے بھی محبت تھی لیکن میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘

’’اسی لئے   آپ نے اُسے قتل کرادیا!‘‘ حمید نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا۔

’’ اسے تو نہیں کیا لیکن تمہیں ضرور کر دوں گی !‘‘ وہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر بولی۔

’’ اب آپ کی منگنی  ریاض سے ہوگی یا فیض سے!‘‘

 ’’ تم عجیب آدمی ہو ... بور نہ کرو!‘‘

’’ کیا میں اپنا نام پیش کر سکتا ہوں !‘‘ حمید نے گلو گیر آواز میں کہا۔

’’تم سے تو وہی شادی کرے گی جو اپنی زندگی سے بے زار ہو!‘‘

’’ کیا آپ نہیں ہیں !‘‘

’’میں کیوں ہوتی ..!‘‘

’’ میں بہت اُداس ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں چیخ چیخ کر نہ رونے لگوں!‘‘

’’جہنم میں جاؤ !‘‘ روحی اٹھتی ہوئی بولی۔

’’وہاں بھی کبھی کبھی ملتی رہئے گا !‘‘

’’تم مجھے ٹیز کر رہے ہو !‘‘

’’دیکھئے میں اس وقت بہت مغموم ہوں لہٰذا مجھے ہنسنے  پر مجبور نہ کیجئے !‘‘

روحی نے پھر کچھ کہنا چاہا لیکن صرف منہ بنا کر رہ گئی ۔ حمید نے اسی وقت سر اٹھا یا جب وہ وہاں سے چلی گئی ...

اب وہ شرارت آمیز نظروں سے فریدی والے کیبن کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے ذہن پر بہت زور دیا کہ کوئی نئی

شرارت سوجھ جائے مگر ناکام رہا۔ پھر اس نے کیبن کا پردہ سرکتے دیکھا اور جلدی سے اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیا۔ فریدی اور اس کی ساتھی کیبن سے نکلے۔ پتہ نہیں فریدی نے حمید کو دیکھا نہیں تھا یا جان بوجھ کر نظر انداز کر رہا تھا۔ وہ دونوں رقص گاہ کی طرف چلے گئے۔

 حمید نے جلدی جلدی بل ادا کیا اور اُس نے بھی رقص گاہ کی راہ لی ۔ ہال میں ہلکی ہلکی موسیقی گونج رہی تھی ۔

حمید نے انہیں داہنے بازو کی ایک میز پر بیٹھے دیکھا۔

 فریدی کی پشت حمید کی طرف تھی اور وہ آگے جھکا ہوا اپنی ساتھی سے کچھ کہہ  رہا تھا اور وہ برابر مسکرائے جارہی تھی ۔ اس کی آنکھیں نشیلی  تھیں اور اس کے اوپری ہونٹ کے کونے بار بار پھڑ کنے لگتے تھے۔ لڑکی واقعی بڑی دلکش تھی ۔ دفعتہ حمید سوچنے لگا کہ کہیں وہ پر اسرار کی رضیہ نہ ہو لیکن کیا وہ اتنی آزادی سے باہر نکل سکتی تھی ۔ ساتھ ہی حمید   ایک وسرے آدمی پر بھی پڑیں جو فریدی کی میز سے کچھ ہی فاصلے پر کھڑا ان دونوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔ حمید نے سوچا ممکن ہے کہ وہ بھی فریدی کے شناساؤں میں سے ہو لیکن اس کے دیکھنے کا انداز اس قسم کا نہیں تھا ۔  اس کے چہرے پر حیرت کے آثار ضرور تھے لیکن ان میں خوف کی بھی آمیزش تھی۔ وقعتہ وہ تیزی سے مُڑااور  دروازے سے نکل گیا۔ حمید کے پیر بھی غیر ارادی طور پر اٹھ گئے ۔

 اس آدمی نے باہر نکل کر گیرج سے کار نکالی۔ اس دوران میں حمید تیزی سے کمپاؤن کے باہر پہنچا ۔با ہر دو تین  

ٹیکسیاں موجود تھیں ۔

 جیسے ہی اس کی کار با ہر نکلی ایک ٹیکسی  اس کے تعاقب میں لگ گئی ۔ حمید سوچ رہا تھا کہ کہیں اس بھاگ دوڑکا  انجام مایوسی کی شکل میں نہ ظاہر ہو مگر وہ اُن دونوں کو ایسی نظروں سے کیوں دیکھ رہا تھا اور پھر وہاں سے اس طرح

چلا کیوں آیا۔

اگلی   کار کی رفتار خاصی تیز تھی۔ حمید ٹکسی  ڈرائیور کو برا بر ہدایت دیتا جار ہا تھا۔ اگلی  کار مختلف سڑکوں سے گزری ہوئی مادام رودانو کے گرلز ہاسٹل کے سامنے رک گئی اور حمید کا دل شدت سے دھڑ کنے لگا۔ اس نے تقر یباً دو سو گز کے فا صلے پر ٹیکسی رکوائی ۔

مادام رود انو کا ہاسٹل کسی ویران جگہ پر نہیں تھا خاصی پُر  رونق سڑک تھی جس پر دو رو یہ عمارتیں تھیں۔

حمید نے اُسے کار سے اتر کر ہاسٹل کی عمارت میں داخل ہوتے دیکھا۔ ٹیکسی ڈرائیور کو اس نے پہلےہی بتا دیا  تھا کہ اسکا تعلق پولیس سے ہے لہذا وہ بھی خاموشی سے بیٹھا رہا۔ اس آدمی نے اپنی کا سٹرک ہی پر چھوڑ دی تھی اس لے حمید کو توقع تھی کہ وہ پھر واپس آئے گا لیکن واپسی کا انتظار بہت طویل ہو گیا۔ تقریباً آدھ گھنٹہ گزر گیا

 پھر وہ دوبارہ عمارت سے برآمد ہوا۔ اس بار وہ تنہا نہیں تھا۔ کوئی دوسرا بھی آہستہ آہستہ اس کے سہارے چل  رہا تھا۔ اس نے اُسے کار کی پچھلی سیٹ پر بٹھا دیا اور خود اگلی پر بیٹھ کر انجن  اسٹارٹ کر دیا۔

حمید   کی ٹیکسی پھر تعاقب کرنے لگی تھی لیکن اس بار زیادہ دیر نہیں لگی۔ شاید دس منٹ بعد اگلی کار پھر ایک عمارت کے سامنے رک گئی۔ حمید ٹیکسی  والے کورُ کے رہنے کی ہدایت دے کر ٹیکسی سے اتر گیا۔ انگلی کار سے وہ دونوں بھی اترے۔

 اس بار پھر ایک دوسرے کو سہارا دے رہا تھا اور وہ رینگتی ہوئی رفتار سے عمارت کی طرف بڑھ رہے تھے۔

اندھیرا ہونے کی وجہ سے حمید  کے لئے کوئی خاص خطرہ نہیں تھا۔ وہ ان کے پیچھے لگا ر ہا۔ جب وہ اوپری منزل

پر جانے کے لئے زینے طے کر رہے تھے تو حمید نے کسی عورت کی کراہ سنی ۔ اس کے کان کھڑے ہو گئے تو وہ کوئی

عورت تھی ؟ زینے پر بھی اندھیرا تھا۔

اوپر پہنچ  کردہ ایک طویل کا ریڈر میں چلنے لگے۔ کار یڈر بھی نیم تاریک ہی سا تھا۔ اکثر دروازوں کے شیشوں

سے کمروں  کے اندر روشنی  کا ریڈر میں آرہی تھی لیکن یہ اتنی   نہیں تھی کہ کسی کا چہرہ  نظر آ سکے۔ حمید بس دو دھندلے سے  سا ئے  نظر آرہے تھے ۔ ایک دروازے کے سامنے وہ رُکے اور حمید دیوار سے چپک گیا۔ اُسے قفل  کی کنجی گھما نے کی ہلکی سی آواز سنا ئی دی  اور پھر وہ دونوں سائے تاریکی میں ڈوب گئے۔ لیکن پھر ذراسی ہی دیر میں کاریڈر کے دروازوں میں  سے ایک اور کے بھی شیشے روشن ہوگئے۔ نیچے  کار ایک ایسی جگہ پر چھوڑی گئی تھی کہ حمید  کو پھر اس آدمی کی واپسی کی تو قع تھی ۔وہ تیسری منزل کے زینو ں کے نیچے کھسک گیا ۔اب وہ با لکل تا ریکی میں تھا اور یہا ں سے اس  کمرے کا درواز ہ صاف نظر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد دروازو پھر کھلا اور وہ آدمی با ہر نکل آیا۔ اس کی پشت پر دروازہ  بند ہو گیا اور اب وہ نیچے جا  نے والے راستے لی طرف جا رہا تھا ۔حمید بھی آہستہ آہستہ زینو ں کی طر ف گیا اور اۃسے نیچے جا تے دیکھتا رہا اور جب اُس نے کسی کا ر کا انجن اسٹا رٹ ہو نے کی آواز سنی تو اطمینا ن کا سا نس لیا ۔اب وہ اسی کمرے کی طرف جا رہا تھا ۔

            وہ سو چ رہا تھا کہ جو کو ئی بھی اندر ہے وہ تنہا ہی ہو گا کیو نکہ وہ اُن کی آمد پر دروازے کے قفل میں کنجی گھما نے کی آواز سن چکا تھا ۔ظاہر ہے کہ خالی کمرے ہی مقفل رکھے جا تے ہیں ۔

اس نے دروازے پر رک کر آہٹ لی۔ اندر کی روشنی ابھی گل  نہیں کی گئی تھی۔

حمید نے انگلی سے دروازے پر دستک دی۔

’’ کون ہے ؟ ‘‘اندر سے ایک نحیف سی آواز آئی۔

ذ را کھولنا تو !‘‘ حمید نے بھرائی ہوئی آواز میں اس طرح کہا جیسے جلدی میں کوئی بات رہ گئی ہو۔

’’ تم بھی زندگی تلخ کئے دے رہے ہو! ‘‘حمید نے بڑبڑاہٹ سنی اور ساتھ ہی قدموں کی چاپ بھی سنائی دی۔

دروازہ کھلا اور حمید دوسرے ہی لمحے میں اندر تھا ۔ اس نے سامنے کھڑی ہوئی عورت کو ہٹا کر دروازہ بند کر دیا...وہ اُسے  پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ یہ ایک خوبصورت نو جوان عورت تھی ۔ چہرے سے اضمحلال اور نقاہت  کے آثار تھے جیسے وہ بیما ر ہو ۔

’’تم کون ہو؟“ اس نے خوفزدہ آواز میں کہا۔

’’شش !‘‘حمید نے ہو نٹوں پر انگلی  رکھ سرگوشی کی۔’’ خطرہ قریب ہے۔ گدھے نے غلطی کی کہ تمہیں یہاں لے آیا!‘‘

’’ تم کون ہو؟‘‘ اس نے پھر دوہرایا اسی  دوران میں حمید  کی نظر اس کے داہنے کان پر پڑی اور وہ خوشی کے مارے بے ہوش ہو جانے سے بال بال بچا کان کی لَو  دو ہری تھی۔

’’بیٹھ جاؤ۔بیٹھ جا ؤ! ‘‘وہ مضطر با نہ انداز میں اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔’’ اگر پانچ منٹ خیریت سے گزر گئے تو پھر ہم خطرے سے باہر ہوں گے !‘‘

عورت تھوک نگل کر رہ گئی۔

’’ بیٹھ جاؤ !‘‘ حمید نے زبر دستی اُسے پلنگ  پر بٹھا دیا۔ پھر تیزی سے دروازے کے قریب آیا اور ذرا سا درّہ

کر کے باہر جھانکنے کے بعد پھر پلنگ کی طرف پلٹ آیا۔

’’جاسوسوں کا جال ... ایک جاسوس ہا سٹل  کی لڑکی کو لئے آر لکچنو  میں بیٹھا ہے۔ ہاسٹل کی تلاشی !...یہ گد ھا بھی اندھا ہو گیا ۔احمق کہیں کا !‘‘

 ’’آخر تم ہو کون ؟‘‘

’’ چلواُٹھو !‘‘   حمید گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا ۔’’ کیا میری بھی گردن تُڑ  داؤ گی ۔ چپ چاپ نکل چلو ورنہ   ابھی یہاں بھی پولیس دھری ہوگی ...!‘‘

9
منہ کی کھائی

تقریباً گیارہ بجے ٹیکسی فریدی کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی اور حمید نے سہارا دے کر اس عورت کوٹیکسی سے  کیا اتارا، اُس کا جسم بخار سے پھنک رہا تھا۔ حمید نے دس دس کے تین نوٹ ٹیکسی والے کو بڑھا دئیے۔ وہ حیرت سے اُن نوٹوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے جھک کر اُسے ایک لمبا سا سلام کیا اور نوٹ جیب میں رکھ کر ٹیکسی اسٹا رٹ

کر دی ۔

’’ مجھ سے اب نہیں چلا جارہا ہے! ‘‘ عورت کراہی ۔

’’بس   بس ... اب آرام ہی آرام ہے !‘‘ حمید نے کہا اور اُسے سہارا دے کر اندر لے جانے لگا۔

 تھوڑی دیر بعد وہ ایک کمرے میں آرام دہ بستر پر بیٹھی ہوئی حمید کو گھور رہی تھی ۔

’’تم کون ہو ... اور مجھے کہاں لے آئے ہو؟“ اس نے پھر پوچھا۔

’’میں آدمی ہوں اور تمہیں یہاں لے آیا ہوں !‘‘ حمید نے بڑی معصومیت سے کہا۔

’’میں مر رہی ہوں اور تمہیں اپنے کام سے کام ہے!‘‘ وہ تھکی تھکی کی آواز میں بولی اور کراہ کر لیٹ گئی پھروہ بڑ بڑا نے   لگی ۔’’ اگر مجھے معلوم ہوتا تو کبھی اس چکر میں نہ پڑتی ۔ زندگی حرام ہوگئی تم جانتے ہو میں کئی  راتوں

سے نہیں سوئی !‘‘

 و ہ پھر اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس کی بڑبڑاہٹ برابر جاری رہی۔ اس کی نظریں تو حمید کے چہرے پر تھیں مگرایسا  معلوم ہو رہا تھا جیسے خود سے باتیں کر رہی ہو۔’’ یا تو مجھے گولی مار دی جائے یا پھر پولیس کے حوالے کر دیا جائے۔میں

اس حالت میں کب تک رہوں گی۔ میں برباد ہوگئی!‘‘

’’ سب ٹھیک ہو جائے گا تم لیٹو تو !‘‘ حمید چہک  کر بولا۔ وہ دل ہی دل میں اپنی عقل مندی پر نازاں تھا۔

 ’’ مجھے نیند نہیں آتی !‘‘ وہ جھنجھلا کر بولی۔

’’ٹھہرو! میں تمہیں ایک ہلکی سی خواب آور دوا دیتا ہوں !‘‘ حمید نے کہا اور کمرے سے نکل آیا۔ فریدی کے

کمرے سے اس نے خواب آور دوا کی شیشی اٹھائی اور پھر اسی کمرے سے واپس آگیا۔

دو اپینے سے قبل گلا س ہا تھ میں لے کر عورت نے کہا ۔’’خدا کر ے یہ زہر ہو !‘‘

پھر اس نے دوا اپنے حلق میں انڈ یل کی اور بُر ا سا منہ بنائے  ہوئے لیٹ گئی ۔ وہ نو  کر ابھی  تک جاگ رہے

تھے ۔حمید نے  محسوس کیا کہ وہ بر آمد سے میں منڈلا رہے ہیں۔ اس نے انہیں ڈانٹ کر بھگا دیا اور وہ ہنستے  ہوئے

بھا گ  گئے ۔ شاید وہ اپنے دلوں میں سوچ رہے ہوں کہ فریدی صاحب کے آنے پر خاصی تفریح رہے گی۔ سارےہی نو کر اس با ت سے واقف تھے کہ فریدی عورتوں کے معاملے میں اکثر حمید کو جھاڑتا رہتا تھا۔ حمید کچھ دیر تک کمرے میں ٹھہر ا رہا ۔ جب اس نے دیکھا کہ عورت اونگھ رہی ہے تو چپ چاپ با ہر نکل کر کمرہ مقفل  کردیا۔

اب دو بڑی بے چینی سے فریدی کا انتظار کر رہا تھا ۔ وہ اس طرح اس کے کمرے کے سامنے آرام کرسی ڈال کر

بیٹھ  گیا جیسے  اس کی واپسی پر بڑی گہری باز پرس کرے گا۔ اس کا دل خوشی سے ناچ رہا تھا اور ذہن میں نئی نئی شرارتیں

لے  رہی تھیں ۔ دو اس ڈرامائی انداز کے متعلق سوچنے لگا جس میں وہ رضیہ کو فریدی کے سامنے پیش کرے گا۔

ساڑھے بارہ بجے کے قریب اس نے فریدی کے قدموں کی آہٹ سنی اور پھر جیسے ہی وہ اندرونی برآمدے

میں داخل ہوا حمید اُچھل کر کھڑا ہو گیا ... فریدی کے چہرے پر تھکن اور گہرے تفکرات کے آثار تھے۔

’’کہاں تھے اب تک؟‘‘ حمید نے گرج کر فریدی کے لہجے  کی نقل اتاری اور فریدی کے ہونٹوں پر مضمحل سی

مسکراہٹ پھیل گئی ۔

’’میں آوارگی نہیں برداشت کر سکتا!‘‘ حمید نے پھر اُسی لہجے میں کہا۔

’’ مت بکو !‘‘ فریدی آرام کرسی میں گرتا ہوا بولا ۔ ’’ میں مرجانے کی حد تک بور ہو چکا ہوں !‘‘

’’بُرے  کام کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے!‘‘

’’چھوڑ و !ختم کرو۔ کوئی اچھا سا لطیفہ سناؤ۔ میں بہت تھک گیا ہوں !‘‘

’’ اچھا تو سنئے لطیفہ !‘‘ حمید منہ بنا کر بولا ۔ ’’ اس کی بوڑھیا ماں شام سے کئی چکر لگا چکی ہے !‘‘

’’مت بور کرو!‘‘

’’جناب اس لڑکی کو کہاں چھوڑا؟“

’’کیسی لڑکی ؟‘‘

’’ جسے آرلکچنو میں کھانا کھلا رہے تھے !‘‘

’’اوہ تو تم نے دیکھا تھا.. . وہی تو ساری مصیبت کی جڑ ہے!‘‘

’’اناڑی ہیں نا آپ لڑکیوں کے معاملے میں ہمیشہ مجھ سے مشورہ لیا کیجئے !‘‘

’’جانتے ہو وہ کون تھی ؟‘‘

’’رودانو کے ہوسٹل کی ایک لڑکی !‘‘

’’تب   تو !‘‘ فریدی سنبھل  کر بیٹھتا ہوا بولا۔’’ آج تم بہت کچھ جانتے ہو!‘‘

’’ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ نے اس سے کن کئی لڑکی رضیہ کے متعلق معلومات بہم پہنچا ئی  ہوں گی !‘‘

’’ اچھا پھر !‘‘ فریدی اُسے گھور رہا تھا۔

’’ پھر حضور نے رودانو کے ہوسٹل  پر چھاپہ مار کر اسے چھاپہ خانہ بنا دیا ہو گا !‘‘

’’اوہ !‘‘

’’اور پھر چڑ یا پھُر  سے اُڑ گئی ... فف فف ….فریدی صاحب!‘‘

’’ فریدی ہنسنے  لگا۔

’’شاید تم لیکن تم سامنے کیوں نہیں آئے !‘‘

’’ یہ صرف قیاسات تھے سرکا ر!‘‘ حمید فجر  انداز میں گردن اکڑا کر بولا ۔ ’’ میں آپ کے پیچھے نہیں لگا رہا !‘‘

’’ میرے ہی فرزند ہو!‘‘  فریدی نے مسکرا کر کہا۔ پھر چونک کر بولا ۔’’ دیکھو شاید کوئی پھا ٹک  ہلا رہا ہے  !‘‘

 حمید اٹھ کر با ہر آیا۔ پھاٹک کے  باہر کسی کار کی ہیڈ لائٹس دکھائی دے رہی تھیں اور کوئی پھاٹک ہلا رہا تھا حمید

نے قریب جا کر دیکھا یہ ڈی۔ ایس پی سٹی تھا اور اس کے ہمراہ انسپکٹر رمیش کے علاوہ دوسب انسپکٹر بھی تھے ۔

حمید انہیں اپنے ساتھ ڈرائنگ روم میں لے آیا … اور پھر وہ فریدی کو اطلاع دینے کے لئے اندر کاچلا گیا ۔

واپسی پر وہ بھی فریدی کے ساتھ ہی تھا۔

 فریدی کو دیکھ کر کوتوال کے ہونٹوں پر ایک طنز آمیز مسکراہٹ پھیل گئی ۔

’’ اب بتایئے  !‘‘ ڈی۔ ایس۔ پی چہک  کر بولا ۔ ’’وہ لڑکی بھی اپنے بیان سے پھر گئی !‘‘

’’ میں نہیں سمجھا !‘‘ فریدی بیٹھتا ہوا بولا۔

’’وہی جس نے آپ کو ...!‘‘

’’لڑکی کے متعلق میں سمجھ گیا ہوں !‘‘ فریدی نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’ اس نے بیان کیا بدلا ہے؟‘‘

’’ اب وہ کہتی ہے کہ آپ اُسے آرلکچنو میں اتفا قًائل گئے تھے اور اُس نے آپ سے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ہو سٹل

میں کوئی ایسی لڑکی تھی جس کے داہنے کان کی کو دو ہری رہی ہو!‘‘

’’اگر اس نے بیان بدل دیا ہے تو اس پر حیرت نہ ہونی چاہئے۔ اس نے مجھے یہ سب کچھ یہ کچھ کرنہیں بتا یا تھا میں سی ۔ آئی ۔ ڈی کا آدمی ہوں اور پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے کسی آدمی نے اُسے نا کام تلاشی کی داستان سنا دی ہو !‘‘

 

’’اونہہ! ہوگا !‘‘ڈی ۔ ایس ۔ پی بولا۔ ’’ لیکن مادام رودانو نے آپ پر ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ دا ئر ہ کر نے کی دھمکی دی ہے !‘‘

’’خوب !‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ اسے بھی دیکھ لیا جائے گا!‘‘

’’کیا دیکھ لیا جائے گا ؟‘‘

’’رود انو کے ہوسٹل میں لڑکیوں کابیو پا ر   ہوتا ہے!‘‘

’’چلئے یہ دوسری رہی!‘‘ ڈی۔ایس ۔  پی طنز یہ ہنسی  کے ساتھ بو لا  ۔’’ ارے صاحبزادے میں  آپ سے عمر میں کافی بڑا ہوں اور تجربہ کا ربھی ۔ آپ ہٹ دھرم ہیں۔ جو کچھ آپ کی زبان سے نکل جاتا ہےاُسے ثابت کر نے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے ایک بار کہ دیا کہ شاہد مجرم نہیں ہے ۔لہٰذامیں پھر سمجھتا ہو ں کہ خو د پر دوسروں کو ہنسنے کا مو قع نہ دیجئے !‘‘

’’اوہ !‘‘ حمید بھنا کر بولا ۔‘‘ تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ رضیہ کاوجود سرے سے ہے ہی نہیں !‘‘

’’رضیہ نہیں ریکھا کہو !‘‘ تو اس کا یہ مطلب ہو ا کہ رضیہ کا وجو د سرے سے ہے ہی نہیں !‘‘

’’چلئے ریکھا ہی سہی !‘‘ حمید نے اُسی تیز لہجے میں کہا ۔’’کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ ہو سٹل میں ریکھا نا م کی کو ئی لڑ کی نہیں تھی !‘‘

’’نہیں تھی !‘‘ ڈی ۔ایس ۔پی نے حمید کے لہجے پر جَز بَز ہو کر کہا ۔

’’دیکھئے ! اتنے وثوق سے نہ کہئے !‘‘ حمید نے دھیمے پڑ تے ہو ئے کہا ۔’’فر ید ی اور حمید ایک ہی شخصیت کے دو پہلو ہیں ۔ان میں سے اگر ایک دھو کا کھا تا ہے تو دوسرا اپنی آنکھیں کھلی رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اِن دونو ں عظیم ہستیو ں کے نا م ہمیشہ ایک سا تھ لئے جا تے ہیں !‘‘

فر یدی اُسے عجیب نظروں سے گھو ر رہا تھا ۔

’’تم کہنا کیا چا ہتے ہو ؟‘‘ ڈی ۔ایس ۔پی پھر اُکھڑ گیا ۔اسے حمید کا لہجہ بہت گراں گز ر رہا تھا ۔اگر وہ برا ہ راست اس کا ما تحت ہو تا تو نہ جا نے اب تک کیا ہو رہتا ۔

’’میں یہ عر ض  کر نا چا ہتا ہو ں کی فر یدی صا حب کے متعلق آپ کی را ئے درست نہیں ۔ان سے غلطیو ں کا امکا ن بہت کم ہے اور اگر کو ئی غلطی ہو بھی جا تی ہے تو شہر کا ما حول اتنا پر سکو ن نہیں ہو تا ۔بعض عما رتیں بد روئیں کی آگ اُگلنے لگتی  ہیں(حوالے کے لئے ’’لا شو ں   کا آبشا ر ‘‘ جا سوسی ادب جلد5ملا حظہ فر ما ئیں ۔)اور شہر جہنم   بن جا تا ہے !‘‘

’’میں بے کا ر با تو ں میں وقت ضا ئع کر نے نہیں آیا ہو ں !‘‘ ڈی  ۔ایس ۔پی جھنجھلا کر بولا ۔’’اگر آپ لو گ اپنی مو جو د ہ روِش تر ک نہیں کر نا چا ہتے تو آپ بھگتیں گے !‘‘

’’ہمیں بھگتنے ہی کی  تنخوا ہیں ملتی ہیں !‘‘ حمید مسکرا یا ۔

’’تم حد سے بڑھ رہے ہو۔ مجھے بدتمیزی پسند نہیں !‘‘

’’ حمید!‘‘ فریدی نے اُسے ڈانٹا۔

’’ہم دونوں کئی مہینوں سے بھگت رہے ہیں !‘‘ حمید بڑ بڑایا  پھر ڈی ۔ ایس ۔ پی  سے بولا۔’’ آپ میرے بزرگ ہیں۔ اگر میں نے ریکھا کا وجود ثابت کر دیا تو!‘‘

’’حمیدبکو اس مت کر و !‘‘  فریدی نے کہا۔ ’’ میں رودانو کے دعویٰ  کا بے چینی سے منتظر ر  ہوں گا!‘‘

’’ شاید میں اس سے پہلے ہی کھیل ختم کر دوں !‘‘حمید نے اوپر کی ہونٹ بھنچ  کر کہا  ۔

’’صرف دس منٹ میرا ا نتظار کیجئے !‘‘

فریدی نے پھر اُسے  عجیب  نظروں سے دیکھا۔ حمید کمرے سے جاچکا تھا۔ اس کی عدم موجودگی میں وہ سب

خاموشی سے ایک دوسرے کی شکلیں  دیکھتے رہے۔ ڈی۔ ایس۔ پی کے چہر ے سے اُکتا ہٹ ظا ہر ہو رہی تھی ۔فر یدی نے سگا ر سلگا لیا تھا لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں ۔تھو ڑی دیر بعد قد مو ں کی آواز سنا ئی دی اور حمید ریکھا کو سہا را دیتا ہوا کمرے میں داخل ہو ا ۔پو لیس والو ں کو دیکھ کر ریکھا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔

            ’’ریکھا سے ملئے !‘‘ حمید کی آواز سنا ٹے میں گو نجی اور ڈی ۔ایس ۔پی اُچھل کر کھڑا ہو گیا ۔فر یدی کے چہرے پر بھی حیرت کے آثار تھے ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں وہ مسکرا نے لگا ۔

’’اس کا دا ہناکا ن بھی ملا حظہ فر ما یئے !‘‘ حمید نے ڈی ۔ایس ۔پی سے کہا ۔

’’اس  نے آگے جھک کر دیکھا اور کچھ بڑبڑاتا ہوا پھر سیدھا ہو گیا۔

’’تمہارا کیا نام ہے ؟‘‘ اس نے عورت سے پوچھا۔

’’یہ تمہیں کہاں سے لائے ہیں ؟‘‘

’’میں عمارت کا نام نہیں جانتی !‘‘

’’ڈی۔ ایس۔ پی نے گھور کر حمید کی طرف دیکھا۔

’’ٹھیک کہتی ہے!‘‘ حمید نے کہا۔ ’’ اسے بہت جلدی میں ہوسٹل سے نکالا گیا تھا۔ یہ بیمار ہے!‘‘

 ’’ تم رودانو کے ہوسٹل میں تھیں !‘‘ ڈی۔ ایس ۔پی نے پوچھا۔

’’جی ہاں !‘‘

’’تمہیں وہاں سے کون لے گیا تھا ؟ ‘‘

’’رمیش !‘‘

’’رمیش کون ہے؟‘‘

’’میرا ایک دوست !‘‘

’’وہ کہاں رہتا ہے؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں!‘‘

’’  پچھلی  سنیچر کی رات کو تم کہاں تھیں گیارہ اور دو کے درمیان میں !‘‘

 جواب فور اًہی  نہیں دیا گیا ۔ ریکھا اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر نے لگی تھی۔ پھر تھوک نکل کر بولی۔

’’میں جا وید  بلڈنگ میں تھی۔ لیکن قتل  سے میرا کوئی سروکار  نہیں۔میں نہیں جا نتی تھی کہ رمیش کیا کر نا چا ہتا ہے !‘‘

’’ تمہارے ساتھ صرف رمیش تھا ؟‘‘

’’نہیں!رمیش   نہیں تھا شاہدہ تھا !‘‘

’’شاہد کون ہے؟‘‘

’’یونیورٹی کا ایک طالب علم ۔ رمیش نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ شاہد کو بے وقوف بنانا چاہتا ہے۔ اُسی کے کہنے سے میں نے شاہد سے دوستی کی تھی اور اسے بتایا تھا کہ میں اشرف کی بیوی ہوں !‘‘

’’جاوید بلڈ نگ کا مالک کون ہے ؟‘‘

’’میں پہلے نہیں جانتی تھی ۔ رمیش نے مجھے بتایا تھا کہ شاہد اس کا دوست ہے اور خود کوعورتوں سے دور رکھتا ہے۔ اس نے مجھے اشرف کے متعلق بتایا تھا کہ وہ ایک فرضی نام ہے۔ اس نے سنیچر کی رات کو دس بجے مجھے جاوید  بلڈنگ کی کنجی دی تھی ۔مجھے بری طرح پھا نسا گیا ہے او ر وہ بے چا ر ا شا ہد تو با لکل ہی بے گنا ہ ہے ۔میں نے اس واقعے سے تین دن پیشتر رمیش کے کہنے سے اس کا شنا ختی کا رڈ بھی اُڑاالیا تھا !‘‘

 اور کہا کہ میں شاہد کو وہاں نے آؤں۔ میں اور شاہد کیفے کاسینو میں بیٹھے ہوئے تھے اور رمیش نے

’’ تم نے یہ سب کچھ کیا لیکن رمیش سے اس کی وجہ نہیں پوچھی !‘‘

’’ وہ شاہد کو بے وقوف بنانا چاہتا تھا اور اس کی شکست کی کوئی ایسی نشانی اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا جسے دکھا کر وہ اُسے چھیڑ سکے ۔ اس لئے اس نے اس کا کوٹ بدلوایا تھا... میں وہی کہہ رہی ہوں ... جور میش نے مجھ سے کہا تھا اور

سازش کا علم تو مجھے دوسرے دن کے ایک شام کے اخبار سے ہوا.. .اور پھر میں رمیش کے اشاروں پر ناچتی رہی !‘‘

’’تم شاہد کے ساتھ ہی وہاں سے روانہ ہوگئی تھیں.. یا شاہد وہاں رکا رہا تھا!‘‘

’’ دو پہلے چلا گیا تھا!"

’’رمیش اس وقت کہاں تھا اور تم وہاں کیوں رُک گئی تھیں !‘‘

’’مجھے نہیں معلوم ۔ میں دروازہ باہر سے مقفل کر کے واپس چلی گئی تھی!‘‘

’’مگر شاہد تو کہتا ہے کہ وہ تنہا واپس گیا تھا !‘‘

’’ٹھیک کہتا ہے۔ میں بھی یہی کہہ رہی ہوں۔ مجھ سے رمیش نے کہا تھا کہ میں اس وقت تک مکان میں ٹھہری

رہوں جب تک وہ اس سڑک سے گزر نہ جائے !‘‘

’’ تم نے اس دوران میں تجوری گرنے کا دھما کہ سنا تھا ؟‘‘

’’میں نے قطعی کچھ نہیں سنا !‘‘

’’رمیش کو تم کب سے جانتی ہو؟‘‘

’’چھ ما ہ سے !‘‘

’’تم بھی قتل میں شریک سمجھی  جاؤ گی!‘‘

’’مجھے پر وا نہیں میں اس دوران میں اپنی زندگی سے عاجز آگئی ہوں۔ مگرہ لڑ کا بالکل معصوم ہے!‘‘

’’ جو  کچھ کہو ! سوچ سمجھ کر کہو ۔ تمہارا بیان تمہارے خلاف عدالت میں بھی استعمال ہو سکتا ہے!‘‘

’’میں ہو ش میں ہو ں !‘‘ ریکھانے کہا ۔ ’’ میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ سزا سے بچ سکوں !‘‘

’’تمہیں سزا سے بچانا میرا کام ہے!‘‘ فریدی پُر سکون لہجے  میں بولا۔

ایسی   اطمینان پر تو وہ آپ کے اشاروں پر ناچ  رہی ہے!‘‘ ڈی ۔ایس۔ پی تلخ لہجے میں بولا  ۔

’’ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا !‘‘ریکھا نے کہا ۔

’’رمیش کہا ں رہتا ہے ؟‘‘ ڈی ۔ایس ۔ پی نے ریکھا سے پو چھا ۔

’’میں نہیں جا نتی ۔پہلے میں سمجھی تھی  کہ وہ جا وید بلڈنگ ہی میں رہتا ہے !‘‘

’’تم اس سے کس طرح ملی تھیں ؟‘‘

’’ مادام رو دالو نے تعارف کرایا تھا !‘‘

’’تم کسی کا لج  میں پڑ ھتی ہو!‘‘

’’کسی میں بھی نہیں !‘‘ اس نے ایک تلخ سی ہنسی  کے ساتھ کہا۔’’ اُسے ہوسٹل سمجھنے  والے گد ھے  ہیں ۔ وہا ں لڑکیو ں کا بیو پا ر ہو تا ہے !‘‘

’’خوب پڑھایا ہے!‘‘ ڈی  ۔ ایس۔ پی فریدی کی طرف دیکھ کر بولا ۔

 ’’شکریہ !‘‘  فریدی سگا ر سلگا تا ہوا بولا۔

 ’’تم اسے کہاں سے لائے تھے ؟‘‘ ڈی۔ ایس۔ پی نے حمید سے پوچھا۔

’’اِسے آپ تک پہنچا دینے کے بعد ہمارا کام ختم ہو جاتا ہے !‘‘ حمید نے لاپروائی سے کہا اور فریدی کے

ہو نٹو ں پر  شرارت آمیز مسکر اہٹ رقص کرنے لگی۔

’’کیا مطلب؟‘‘ ڈی۔ ایس۔ پی کی پیشانی پر پھر بَل پڑگئے۔

’’ہمارا کہنا صرف یہ تھا کہ شاہد بے گناہ ہے اور وہ نادانستگی میں اس سازش کا شکار ہوا ہے۔ ہم نے سا زش  کرنے والوں میں سے ایک آپ کے سامنے پیش کر دیا۔ اب ہم آپ کے کسی معاملے میں دخل نہ دیں گے۔ آپ جا نیں اور آپ کا کا م !‘‘

’’یہ تمہیں کہا ں سے لا ئے ہیں ؟‘‘ ڈی ۔ایس ۔پی نے ریکھا سے گر ج کر پو چھا ۔

’’میں نے کہا نا  کہ مجھے ہوش نہیں تھا۔ رمیش مجھے ہوسٹل سے اس عمارت میں لے گیا تھا۔ میں اس وقت بھی بخا ر میں پُھنک رہی ہو ں !‘‘

’’اچھا !میں اسے کو توالی لے جا ر ہا ہوں !‘‘ ڈی ۔ ایس ۔پی نے فر یدی سے کہا ۔

’’شوق سے!‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ لیکن میں بھی چلوں گا۔ اگر اس نے اپنا بیان بدل و یا تو کیا ہوگا۔ ظاہر

ہے کہ اسی وقت میرے سا منے اس کا بیا ن روز نا مچے میں درج کیا جا ئے گا !‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’اوہو ! چونکہ یہ آپ تک ہماری وساطت سے پہنچی ہے اس لئے  میں یہی  مناسب سمجھوں گا کہ بیان میرے

سا منے ہی لکھا جا ئے !‘‘

’’ڈی ۔ایس ۔پی کچھ نہ بولا فر یدی نے اُس کے ہمرا ہ جا نے سے قبل حمید کو الگ لے جا کر کہا ۔

’’فر زند میں تم پر جتنا بھی فخر کر وں کم ہے اب تم اس عما رت پر نظر رکھو ۔رمیش پھر وہا ں واپس آئے گا بس تم چلے ہی جا ؤ!‘‘

’’ہا ت تیری کی !‘‘ حمید پیشا نی پر ہاتھ ما ر کر بولا ۔’’کا ش میں اس عو رت کو کسی کنو ئیں میں پھینک دیتا !‘‘

10
آخری مرحلہ

 

حمید رات بھر اُس عمارت کے قریب جھک مارتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اس طرح جھک ما رنے  نے کا سلسلہ کب اور کس طرح ختم ہوگا۔ کیونکہ اس نے فریدی کو اس جگہ کا پتہ یا نشان تو بتایا ہی نہیں تھا۔ اس نے فریدی کی چھوٹی کا عمارت سے تھوڑے ہی فاصلے پر کھڑی کر دی تھی اور خود اس کےاندر بیٹھا رہا تھا ۔

صبح ہوتے ہوتے اس کی جان پر بن گئی۔ پائپ کا تمبا کو بھی ختم ہو چکا تھا اور ساری دکا نیں بند تھیں ۔ یہ بھی

اتفاق ہی تھا کہ اُس عما رت کے سا منے والی عما رت میں ایک ڈیری تھی ۔ سو رج طلو ع ہو نے سے قبل ہی ڈیری کے دروازے کھل گئے اور حمید کوسا منے ہی میز پر ٹیلیفو ن رکھا ہو ا دکھا ئی  دیا ۔ اس کی جان میں جان آئی اور وہ کار سے اُتر

کر ڈیری کی طرف جھپٹا۔

 اور پھر وہ فریدی کو فون کر رہا تھا۔ فریدی گھر ہی پر موجود تھا۔ حمید نے اُسے بتایا کہ اب وہ اور زیادہ نہیں ٹھہر  سکتا ۔ ابھی تک رمیش نہیں دکھائی دیا۔ فریدی نے جگہ کے متعلق پوچھ کر حمید کو وہیں انتظار کرنے کے لئے کہا ... وہ خودآرہا تھا۔

حمید ریسیور رکھ کر دروازے کی طرف مڑا اور ساتھ ہی اُس نے سامنے والی عمارت کے سامنے ایک کار رکتی دیکھی۔ اس پر سے اتر کر عمارت میں داخل ہونے والا رمیش ہی تھا۔ حمید پھر تیزی سے فون کی طرف جھپٹا ۔ ڈیری

والا اسے مشتبہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

’’ معاف کیجئے گا!‘‘ حمید منکسرانہ انداز میں بولا ۔’’ ایک ضروری بات رہ گئی !‘‘

’’ کوئی بات نہیں!‘‘ وہ اپنی پیشانی کی شکنیں مٹا  کر زبر دستی مسکرایا۔

حمید پھر فریدی کو فون کرنے لگا۔ اُس نے اُسے رمیش کی اطلاع مبہم الفاظ میں دی اور یہ خیال  بھی ظا ہر کیا کہ  شاید اسے اس کا تعاقب بھی کرنا پڑے لہذاوفی  الحال وہیں ٹھہر ے ۔، فریدی نے اس کے خیال کی تا ئید کر تے ہو ئے

فون کا سلسلہ منقطع کر دیا۔

حمید  سڑک پر نکل آیا... اب وہ اپنی کاربیک  کر کے پٹرول پمپ کی طرف لے جا رہا تھا جو وہا ں سے قر یب ہی تھا ۔اس نی نظریں اب بھی عما رت کے زینو ں کی طرف تھیں ۔

اس نے کار کی ٹنکی بھروائی۔ پھر نجن  اسٹارٹ کر کے  نیچے اتر آیا اور انجن  کھول کراس طر ح اس پر جُھک پڑا جیسے اس میں کو ئی  پیدا ہو گئی ہو۔ دس منٹ گزر گئے لیکن رمیش واپس نہ آیا۔ اس کی کاربد ستو ر اُسی جگہ کھڑی تھی ہیں جہاں وہ اُسے چھوڑ گیا تھا۔ بیس  منٹ گزر گئے ۔ حمید کو تشویش ہوئی۔ اس نے کارو ہیں چھو ڑدی اور تیزی سے عما رت کی طرف آیا ۔چند لمحے زینو ں کے قریب کھڑے رہ کر کچھ سو چتا رہا پھر اُس  پر چڑ ھنے لگا ۔اس وقت اوپر کی را ہد اری سنسا ن نہیں تھی ۔ دن نکل آیا تھا اور وہا ں دو چا ر بچے نظر آرہے تھے ۔ دروازے بھی کُھل گئے تھے ۔

حمید نے مطلو بہ کمرے کے دروازے پر پہنچ کر کیو اڑو ں کو دھکا دیا جو کھل گئے ۔کمرہ خالی تھا اور ایسا معلو م ہو رہا تھا جیسے کسی نے جلدی میں کمرے کی سا ری چیزیں اُلٹ پلٹ کر رکھ دی ہو ں ۔ اس نے بڑی تیزی سے کمرے کی مختلف چیزوں کا جا ئز ہ لیا اور پھر با ہر نکل آیا ۔

وہ راہداری کے آخری سرے تک بڑھتا چلا گیا اور پھر ساری حقیقت اُس پر ظاہر ہوگئی ۔ راہداری کے اختتام  پر بائیں طرف ایک اور راہداری تھی جس کا سلسلہ دوسری طرف نیچے جانے والے زینوں کے سرےپر ختم ہو گیا تھا اس نے جھنجھلاہٹ میں اپنی پیشانی پر ہاتھ مارلیا۔ کاش اُسے معلوم ہوتا کہ عمارت میں دوسری طرف بھی زینے ہیں ۔

وہ پندرہ میں منٹ تک وہاں رمیش کے متعلق پوچھ کچھ کرتا رہا لیکن کسی نے بھی تسلی بخش جوابا ت نہ دیئے۔ رمیش کو کمرے میں داخل ہوتے یا نکلتے  کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا وہ خود کو برا بھلا کہتا ہوا نیچے آ گیا اورنیچے آتے  ہی ایک بار پھر اُس کی کھوپڑی گردن سے اکھڑ کر ہوا میں معلق ہو گئی ۔ رمیش کی کا ر غائب تھی۔ اس کا مطلبیہ تھا کہ  اس دوران میں خود میش کی نظر حمید پر رہی تھی۔ جیسے ہی وہ او پر پہنچار میش کا ر بھی لے اڑا۔ اس سےبڑی بد نصیبی اور کیا ہو سکتی تھی کہ حمید  نے کار کے نمبروں پر بھی دھیان دینے کی زحمت نہیں گوارا کی تھی ۔

 اب وہ وہاں رک کر کرتا ہی کیا۔ پچھلی رات کی کا میابی کا نشہ ہرن ہو گیا تھا۔ وہ گھر کی طرف چل پڑااور گھر  پہنچ کر اگر وہ فریدی پر نہ برس پڑتا تو اُسے خود اپنی ذات سے شکایت ہوتی ۔

واقعات بتانے کے بعد وہ بڑے زور سے گر جا۔’’ جب ایک عمارت میں دو طرفہ زینے ہوں تو دو آدمیو ں کی ضرورت ہو تی ہے سمجھے جنا ب !‘‘

’’سمجھا !فرزند !‘‘فریدی سر ہلا کر بولا ۔’’ لیکن ریکھا والے معاملے میں تم تنہا  تھے !‘‘

’’نہیں ہم دود تھے۔ اگر رمیش آپ کو خوفزدہ نظروں سے نہ دیکھتا تو میں کبھی اُس کا تعاقب نہ کرتا۔ اس کے اس طرح دیکھنے ہی سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ آپ کے ساتھ والی عورت رودانو ہاسٹل ہی کی ہو سکتی ہے لیکن وہ آپ کے ہتّھے کس طرح چڑ ھ گئی تھی !‘‘

’’ بہت آسانی سے ! ‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ بس دو تین گھنٹے وہاں ٹھہرکر ان کا طریقہ کار سمجھنا پڑا تھا۔ عمارت کے سامنے کسی نہ کسی کی کار پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ پھر ایک لڑکی عمارت سے نکل کر ٹیکسیوں کے اڈے کی طرف جاتی ہے۔ جب وہ ٹیکسی میں بیٹھ لیتی ہے تو عمارت کے سامنے کھڑی ہوئی کار بھی اس کے پیچھے لگ جاتی ہے اور پھر یہاں عمارت کے سامنے ایک دوسری کا رآکھڑی ہوتی ہے۔ ٹھیک اُسی جگہ پر جہاں پہلی کار کھڑی تھی۔ پھر ایک دوسری لڑ کی عمارت سے باہر آتی ہے اور وہ کار بھی وہاں سے کھسک جاتی ہے۔ بہر حال میری کار پانچویں نمبر پرتھی۔ پانچویں لڑ کی ٹیکسی میں بیٹھ کر روانہ ہوتی ہے اور میری کار اس کا تعاقب کرتی ہے۔ پھر وہ ایک جگہ اتر کر ٹیکسی  کے دام چکاتی ہوئی آلکچنو  میں داخل ہو جاتی ہے اور میں بھی اس کی تقلید کرتا ہوں ۔ وہ پلٹ کر دیکھتی ہے اور میں مسکراتا ہوں !‘‘

’’اور میں مرجاتا ہوں !‘‘ حمید سینے پر ہاتھ مار کر چیخا۔

’’ ہم دونوں مل بیٹھتے ہیں۔ میں تھوڑی دیر بعد ایک ایسی لڑکی کا تذکرہ چھیڑتا ہوں جس کا داہنا کان خاص قسم کا ہے۔ وہ مجھے اس لڑکی کا نام بتاتی ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید میں بہت پر انا گا  ہک ہوں !‘‘

’’بہر حال کل رات آپ نے مزے کئے !‘‘

’’کیا کہنے ہیں !‘‘ فریدی نے ہونٹ سکوڑ کر کہا۔

’’نیند سے میرابُر احال ہے!‘‘ حمید نے کہا ۔ ’’ اس لئے اب میں سونا چاہتا ہوں !‘‘

’’ بہتر ہے اب تم سو ہی جاؤ!‘‘ فریدی بولا ۔ ’’ اس سلسلے کی دوسری اطلاع یہ ہے کہ ڈی۔ ایس پی نے صلح کرلی ہے اور وہ فی الحال ہمارے کہنے پر کنوئیں میں بھی چھلانگ لگا دینے سے گریز نہ کرے گا!“

’’ آپ اُسے یہی مشورہ دیجئے !‘‘ حمید نے کہا اور خواب گاہ کی راہ لی ۔ نیند نے اُس پر اس بری طرح حملہ کیا

تھا کہ اُس نے ناشتے کی بھی پروا نہیں کی۔

 شام کو شاید تین بجے تھے جب اُس کی آنکھ کھلی وہ خود سے نہیں جاتا تھا بلکہ فریدی اُسے جھنجھوڑ رہا تھا۔

’’ کیا مصیبت ہے؟ ‘‘حمید کروٹ لے کر منمنایا۔

’’ اول تو تم عورت نہیں ہو!‘‘ فریدی نے اُسے دوبارہ جھنجھوڑا ۔’’ اور اگر ہوبھی تو یہ تمہارے مصیبت کے دن نہیں !‘‘

 حمید طلق پھاڑ کر چیختا ہوا پلنگ پر کھڑا ہو گیا لیکن اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں۔

’’قبر میں بھی نہ سونے پاؤں گا !‘‘

’’ذرا آنکھیں کھولو پیارے ! یہ قبر نہیں پلنگ ہے!“

 حمید نے پلنگ سے چھلانگ لگائی اور گرتے گرتے بچا۔

’’میں پتہ نہیں کب اپنے کیکر فردار کو پہنچوں گا!‘‘ اس نے آنکھیں کھول کر کہا جو انگارہ ہورہی تھیں ۔

’’یہ کیکر فر دار کیا بلا ہے؟‘‘

’’مجھے صاف نہیں دکھائی دیا تھا.. . کیفر کردار !‘‘

’’چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ!‘‘

’’کیا... میں اب کہیں نہ جاؤں گا !‘‘

’’میں ناشتے کی میز کا تذکرہ کر رہا تھا تم صبح سے بھو کے ہو!‘‘

 حمید مربھکوں  کی طرح ناشتے پر ٹوٹا تھا ناشتہ ختم کر کے پائپ کے تین چارکش لینے لے لئے بعد اُس کا ذہن کچھ صاف ہو ا تو اس نے رمیش کاتذکرہ چھیڑدیا ۔

’’میرا خیال ہے کہ اُس کا تعلق بھی چیٹر لیز ہوٹل ہی سے ہے !‘‘ فریدی نے کہا ’’۔ آج ہم وہاں بھی چھا پہ

ماریں گے۔ اُس آدمی پر قابو پائے بغیر ہم اس سازش کے سرغنہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے !‘‘

’’ کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ فیض ہی ہو سکتا ہے؟“

’’قطعی ! وہ کوئی اچھا آدمی نہیں ہے۔ اشرف کو روحی کی ماں پسند کرتی تھی اور روحی کا باپ فیض کےحق میں تھا  کیونکہ فیض اشرف سے زیادہ مالدار ہے۔ ظاہر ہے کہ اشرف ختم ہو گیا۔ اب روحی کے باپ ہی  کی پسند کو ترجیح  جائے گی ۔ اپنی دانست میں فیض شاہد کو بھی پھنسا چکا ہے۔ لہذا اشرف کی جائداد بھی روحی ہی کی طرف آئے گی۔ اس  کے علاوہ روحی کم دولت مند نہیں ۔ کیا سمجھے ۔ دو بڑی جائدادوں کا مسئلہ ہے!“

’’لیکن پھر بھی فیض کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ! ‘‘ حمید نے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ لیکن اب وہ بچ نہیں سکتا ۔ پہلے تو میں اُسے رودانو والے معاملے میں ماخوذ کروں گا جس کے لئے کافی سے زیادہ ثبوت بہم پہنچا چکا ہوں ۔ رودانو نے اقبال کر لیا ہے کہ چیٹر لیز ہوٹل اُس کی نا جائز تجارت میں برا بر کا شریک تھا !‘‘

’’تب تو معاملہ ٹھیک ہے ! ‘‘حمید نے کہا۔ ’’ لیکن فیض اس سے بھی اپنی لاعلمی ظاہر کرسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اس کی سا ری ذمہ دا ری منیجر پر ڈا ل دے !‘‘

’’یہ بھی ممکن ہے فکر نہ کرو ۔ ہمیں نئے حالات کا منتظر رہنا چاہیئے!“

 آٹھ بجے کے قریب چیٹر لیز ہوٹل کا محاصرہ کر لیا گیا ۔ منیجر بوکھلا کر اپنے آفس سے نکل آیا۔

’’ میں آپ کو حراست میں لیتا ہوں !‘‘ فریدی نے آگے بڑھ کر کہا۔

’’ کیوں؟ کس لئے !‘‘

’’آپ مادام رودانو کی لڑکیوں کی تجارت میں شریک رہے ہیں !‘‘

’’یہ غلط ہے!“

’’یہ مادام رودانو کا بیان ہے اور آپ کے تین گاہکوں نے بھی شہادت دی ہے !‘‘

 منیجر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر رہ گیا۔

 حمید دوسری ہی دُھن میں تھا۔ وہ مسافروں کے رہائش کے کمرے کھنگالتا پھر رہا تھا۔ اچانک ایک کمرے کی کھڑکی میں اسے رمیش کا چہرہ نظر آ گیا۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ حمید ایک ہی جست میں کمرے کے اندر پہنچ گیا ۔ 

’’اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو !‘‘ اس نے ریوالور نکال کر کہا لیکن شاید رمیش اس سے بھی زیادہ پھر تیلا تھا۔ دوسرے ہی لمحے میں وہ دونوں گتھے ہوئے زمین پر آر ہے۔ اس کشمکش میں ریوالور چل گیا۔ لیکن گولی دروازے کے شیشے کو توڑتی ہوئی باہر نکل گئی ۔ حمید نے محسوس کیا کہ رمیش کافی طاقتور ہے۔ اگر اس نے ریوالور کی تال کا رخ اس کی طرف کرایا تو کھیل ختم ہو جائے گا۔ اب حمید اپنی تمام تر قوت ریوالور سے چھٹکارا پانے کے لئے صرف کرنے لگا ۔ وہ چاہتا تھا کہ ریوالور ان دونوں ہی کے ہاتھ سے نکل جائے۔

 ’’ بے کار ہے !‘‘ وہ ہانپتا ہوا بولا ۔ ’’ تم نکل نہیں سکتے ۔ ہوٹل گھرا ہوا ہے !‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے کہا ۔

 پھر حمید نے اپنے داہنے ہاتھ کو جھٹکا دیا اور ریوالور دور جا پڑا۔ ساتھ ہی رمیش نے حمید کی ناک کا رخ اتنے زور سےدبا ئی کہ اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور پھر وہ تڑپ کر نکل گیا۔ قبل اس کے کہ حمید اٹھتا اس کی پیشانی پر ایک ٹھوکر پڑی اور دو دوسری طرف اُلٹ گیا۔ رمیش کمرے سے نکل چکاتھا۔ حمد کو اس محسوس ہوا جیسے اس کا بھیجا نکل آیا ہو۔ وہ ونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے کاریڈر میں بہت سے قدموں کی آواز میں سنیں ۔

’’ ارے تم !‘‘ اس نے فریدی کی آواز سن کر آنکھیں کھول دیں۔

’’ نکل گیا ... وہ نکل گیا ! ‘‘ حمید چیخا۔

’’کون ..!‘‘

’’ر میش!‘‘

’’با ہر نہیں جاسکتا ہا ئیں!‘‘ اچانک فریدی چونک پڑا۔ نہ صرف فریدی بلکہ اُس کے ساتھی بھی چوکنّے ہو گئے ۔ کہیں قریب ہی سے فائر کی آواز آئی تھی ۔ حمید تو جلدی سے نہ اُٹھ سکا لیکن وہ سب باہر نکل گئے... وہ کاریڈر میں آگے بڑھتے چلے گئے ۔ فریدی بارود کی بو محسوس کر رہا تھا ۔ کا ریڈر تاریک تھا ۔ فریدی نے ٹارچ روشن کی اور روشنی کا دائرہ ایک ایسے آدمی پر پڑا جو فرش پر اوندھا پڑا تھا۔ اس کے داہنے شانے سے خون اُبل رہا تھا۔ اتنے میں حمید بھی وہاں پہنچ گیا۔

’’ارے یہ تو رمیش ہے!“ اُس نے بے ساختہ کہا۔

 رمیش ابھی زندہ تھا اور اس کی سانس رُک رُک کر چل رہی تھی ۔

تین چار آدمیوں نے اُسے اٹھالیا اور نیچے لے جانے لگے۔

’’ دیکھو... یہاں کہیں سوئچ ہوگا!‘‘ فریدی بولا ۔’’ روشنی کردو!‘‘

ڈھونڈنے والوں کو سوئچ ملے تو لیکن کا ریڈر کا ایک بھی بلب روشن نہ ہو سکا ۔ فریدی کا ریڈر کے کمروں کے  بند دروازوں پر ٹارچ کی روشنی ڈالنے لگا۔ یہ سارے کمرے غالباً خالی تھے ورنہ فائر کی آواز پر ان میں رہنے والے ضرو ر با ہر نکل آتے ۔

 ’’ہو سکتا ہے کہ اس نے خود ہی گولی مار لی ہو!‘‘ حمید بڑبڑایا۔

’’گولی پشت سے چلائی گئی ہے۔ سامنے سے نہیں !‘‘ فریدی نے کہا۔ پھر اس نے بند دروازوں کودھکے دینے   شروع کئے ۔ کچھ تو کھل گئے اور کچھ مقفل تھے ۔ آخر کار ایک کمرے میں انہیں ایک ریوالور پڑا اوامل گیا۔ یہ کمرہ خا لی

تھا۔ فریدی نے ریوالور کے دستے کو رومال سے پکڑ کر اٹھایا۔

 اتنے میں ڈی ۔ ایس ۔ پی سٹی بھی وہاں آ گیا۔

غالباً گولی اسی ریوالور سے چلائی گئی ہے!‘‘ فریدی ریوالور کی نال ناک کے قریب کئے ہوئے کہہ رہا تھا ۔

” نال سے بارود کی بو آرہی ہے.. .اور اس میں پانچ گولیاں ہیں... ایک چیمبر خالی ہے!“

تھک ہار کر وہ پھر نیچے ہال میں آگئے ۔ جہاں تقریباً ساٹھ ستر آدمی موجود ہے۔ انہی میں سے کچھ ہو ٹل میں   قیام کرنے والے اور کچھ روزانہ کے گاہک تھے ۔ ان کے چہرے اترے ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے فائروں کی  آوازیں سنی تھیں اور ایک زخمی کو پولیس کی گاڑی پر بار ہوتے دیکھا تھا۔

فریدی کی عقابی نظریں مجھے کا جائزہ لے رہی تھیں ۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور پیشانی پر رگیں اُبھر  آئی تھیں ۔ اچانک اُس کی نظریں ایک طویل القامت سِکھ پر رُک گئیں ۔ سِکھ نے بھی شاید اسے محسوس کر لیااور وہ  دوسری طرف دیکھنے لگا فریدی نے اشارے سے اُسے قریب بلایا۔

’’ آپ لوگوں کو ذرہ برابر بھی تمیز نہیں !‘‘ سکھ نے پنجابی لہجے میں کہا۔

’’کیوں سردار جی ! ناراض کیوں ہو گئے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔

’’میں کوئی کُتّا ہوں جو اس طرح انگلی کے اشارے سے بلاتے ہو!‘‘

’’ سردار جی ۔ میں کّتوں کا بڑا شوقین ہوں۔ اگر انگلی کے اشارے پر آنے والا کوئی کتّا تمہاری نظر میں ہوتو  مجھے بتاؤ ہر قیمت پر خرید لوں گا !‘‘

’’کیا سمجھتے ہو مسٹر ! زبان کو لگام دو۔ میں بھی کرنل ہوں !‘‘ سِکھ بگڑ کر بولا ۔

’’ معاف کیجئے گا کرنل صاحب !شاید آپ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں !‘‘

’’نہیں بتا تا.. . تم سے مطلب !“

دوسرے ہی لمحے میں فریدی کا گھونسہ اس کے جبڑے پر پڑا۔ اگر اس کے پیچھے کھڑے ہوئے لوگ اُسے سنبھال نہ لیتے تو وہ کافی فاصلے پر گرا ہوتا۔ اس نے سنبھلتے ہی کر پان نکال لی ۔

’’ تمہیں اس کر پان کے لئے بھی جوابدہ ہونا پڑے گا دوست ۔‘‘فریدی نے قہقہہ لگایا۔’’ میں بڑاخوش قسمت  ہو ں کہ تم نے اپنا کھیل خود ہی ختم کر دیا۔ ورنہ ثبوت کے لئے اب بھی مجھے سر مارنا پڑتا !‘‘

 قبل اس کے کہ دوسرے لوگ کچھ سوچ سمجھ سکتے سِکھ نے فریدی پر حملہ کر دیا۔ اُس کا یہ فعل قلعی اضطراری معلوم ہو رہا تھا۔ فریدی نے کر پان والے ہاتھ پر تھپکی دے کر پھر اُس کے منہ پر ایک گھونسہ جڑ دیا ۔ اتنی دیر میں مجمع تتر بترہو چکا تھا۔ اس با روہ فرش پر چت گرا اور اس کی پگڑی اُتر کر دور جاگری ۔ کرپان اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ وہ بڑی  پھرتی سے اٹھا اور ایک کرسی فریدی پر کھینچ ماری ۔ فریدی جھکائی دے کر اسے بھی بچا گیا۔ سِکھ نے دوسری کرسی  اٹھائی لیکن اب وہ سکھ نہیں معلوم ہور ہا تھا کیونکہ اس کے ننگے سر پر انگریزی وضع کے بال نظر آ رہے تھے... کرسی  اٹھنے  سے پہلے ہی فریدی نے اس کی گردن د بوچ دلی ۔

’’ فیض ‘‘ اس نے اسے زمین پر گراتے ہوئے کہا۔ ’’ اب یہ داڑھی اور مونچھیں بھی فضول ہیں !‘‘

دوسرے لمحے میں اُس نے مصنوعی داڑھی نوچ کر الگ کر دی۔

فیض   پر جیسے دیوانگی کا دورہ پڑ گیا تھا۔ وہ کسی پاگل کتّے کی طرح فریدی کو نوچ رہا تھا لیکن تین ہی چار گھونسوں نے اُسے ٹھنڈا کر دیا۔

 اس کے ہتھکڑیاں لگادی گئیں ۔ پہلے ہوٹل کے منیجر کو یونہی لے جانے کا خیال تھا۔ مگر اس واقعے کے بعد اسے بھی ہتھکڑیاں پہنی پڑیں۔

 

☆☆

دوسری صبح ممکن ہے کہ فریدی کے لئے خوشگوار رہی ہو لیکن حمید اپنی زندگی سے بیزار نظر آرہا تھا۔ پچھلی رات کی چوٹ بری طرح دُکھ رہی تھی۔ سر پھٹا تو نہیں تھا لیکن حمید کے بیان کے مطابق بھیجا ضرور مل گیا تھا اور اس مہلتے ہوئے بھیجے میں یہ بات نہیں سمارہی تھی کہ آخر فیض وہاں سیکھ کے بھیس میں کیا کر رہا تھا۔

 فریدی رات سے اب تک نہیں آیا تھا۔ حمید سر کی تکلیف کی وجہ سے کو توالی نہیں گیا تھا۔

تقریبًا دس بجے فریدی واپس آیا۔

’’بڑے بڑے انکشافات ہوئے ہیں !‘‘ فریدی نے اسے بتایا۔ ’’ فیض ایک خاصے بڑے گروہ کا سرغنہ ہے اور مادام رودانو تو دراصل اس کی تنخواہ دار نوکر تھی ۔ رمیش اس کے بدمعاشوں میں سے ہے۔ فیض بر اہ ر است رو دانو کے ہاسٹل سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ یہ کام اُس نے منیجر سے لیا تھا اور رودانو یہی سمجھتی  تھی کہ ہوٹل کے مالک سے ان معاملات کا کوئی تعلق نہیں.. . اس نے رمیش کے ذریعہ ریکھا سے بھی کام لیا اور اس رات کو خود فیض ہی اشرف کے گھر میں موجود تھا۔ ریکھا اور شاہد کے رخصت ہو جانے کے بعد اُس نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ میں نے گولیوں کے

متعلق غلط   نہیں کہا تھا... اور ہاں روحی کی ماں کو سعیدہ کے متعلق فیض ہی نے بتایا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ سعیدہ کا راز ظاہر ہونے کے بعد کوئی بھی شاہد کے بیان کو صحیح تسلیم نہ کرے گا!“

’’ لیکن !‘‘حمید بولا ۔’’ آخر وہ سیکھ کے بھیس میں ہوٹل میں کیا کر ہا تھا ؟‘‘

’’ کیا تم نہیں سمجھے !رمیش پر اس نے گولی چلائی تھی۔ دوا پیسے آدمی کو زندہ نہیں دیکھنا چا ہتا تھا جو کبھی اُس کے   خلاف گواہی دے سکے۔ اگر حالات نہ بگڑتے  تو شاید  وہ اس کی ضرورت نہ محسوس کر تا ۔جب اسے یہ معلو م ہو ا کہ ٹھکانے لگا دے کیونکہ رمیش کے بعد اس کی طرف اشارہ کرنے والا کوئی  نہ رہ جا تا ۔ اس مقصد کے تحت وہ کل دوپہر کو ایک سِکھ کے بھیس میں مسا فر کی حیثیت سےہو ٹل میں داخل ہو ا ۔رمیش ہو ٹل ہی میں رہتا تھا لیکن شا ید تک اُسے اس پر ہا تھ ڈالنے کا مو قع نہ مل سکا ۔ اتنے میں ہم نے ہوٹل کا محاصرہ کر لیا اور شاید رمیش تمہا رے ہا تھ لگ گیا ۔اس کے بعد اُس کے لئے مو قع ہی مو قع تھا ۔میرا خیا ل ہے کہ فیض محا صرے کے بعد سے رمیش ہی کے کمرے کے آس پا س منڈکاتا ر ہا ہو گا !‘‘

’’لیکن جب اس کے پاس کر پان بھی موجود تھی تو اس نے گولی چلانے کی حماقت کہاں کی ؟‘‘ حمید نے کہا ۔

’’ہم اسے بدحواسی کے  علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ واقعی اگر وہ گولی نہ چلاتا تو ایک  حد تک محفوظ رہ سکتا تھا ۔

مگر حمید صاحب یہ تو سو چو کی ہما رے لئے کتنی پر یشا نیا ں بڑھ جا تیں ۔اسے میں حقیقتاً ایک خو شگوار اتفاق ہی کہو ں گا لہ وہ ہمیں ایک سیکھ  کے بھیس میں مل گیا ۔ ورنہ رمیش کی مو ت کے بعد یہ ثابت کر نا  بڑا دشوار  ہو  جا تا کہ فیض ہی اس سا زش کاروح ورواں تھا !‘‘

’’ کیا رمیش مرگیا ؟‘‘

’’نہیں زندہ ہے. .. اور اس نے اپنا بیان دے دیا ہے ۔ اس کے بعد تو فیض کو بھی سب کچھ اُگلنا پڑا اور نہ وہ بڑا مستقل مزاج آدمی ہے !‘‘

’’اب بے چاری روحی کا کیا ہوگا!‘‘ حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔

’’کچھ بھی نہیں میرا خیال ہے کہ اس کا ٹائپ عام عورتوں سے بہت مختلف ہے، شاید وہ ساری عمرشا دی نہ کر ے !‘‘

’’اور آپ بھی اسی ٹائپ کے مرد ہیں !‘‘ حمید دردناک آواز میں بولا ۔ ’’ کاش آپ دونوں کی شادی  ہو سکے ۔

یقین مانئے وہ آپ کے لئے آپ سے بھی زیادہ خبط الحواس بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے!‘‘

’’شت اَپ !‘‘

’’خیر گھبرائیے نہیں میں چیٹری اُوٹی کا اَرر ایڑی چوٹی کا زور لگا دوں گا ۔ غلط سلط بو لنے لگا ہو ں ۔

شاید میرا الا شعور کھوپڑی کے اوپر آ گیا ہے!‘‘

فریدی اُسے بڑبڑاتا چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا اور حمید نے پھر چادر سے منہ ڈھک لیا۔

***

Post a Comment

0 Comments