پتھّر
کا آدمی
ابن
صفی
Patthar Ka Aadmi By Ibn-e-Safi
1
اس
با ر اس زور سے پتھر لگا تھا کہ اُس کہ آواز دور تک سُنی گئی تھی اور ایسا معلوم
ہوا تھا جیسے وہ پتھر انسانی جسم کے بجا ئے پتھر ہی کی کسی شئے سے ٹکرا یا ہو ۔ آس
پاس کے لوگو ں نے اُ ن بچّو ں کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا تھا جو اس پر پتھر اؤ
کر رہے تھے لیکن خود اُس پر اس کا کو ئی اثر نہیں ہوا تھا ۔ بد ستو ر جھو متا ہوا
چلا جا رہا تھا ۔ نہ پَل بھر کے لیے رُ کا اور نہ مُڑکر دیکھا ۔
راہ گیر وں نے ان بچو ں میں سے ایک
آدھ کی پٹا ئی بھی کر دی جو اس پر پتھر اؤ کر رہے تھے ۔ لڑکے بھا گ گئے اور وہ
معمول کے مطا بق اپنا راستہ طے کر تا رہا ۔تن وتوش کے اعتبا ر سے دیو زاد لگتا تھا
۔ بڑ ے بڑے اُلجھے ہو ئے بالو ں اور بڑھے ہوئے شیو میں بھی اس کی ذاتی وجا ہت کی
جھلکیا ں صاف نظر آتی تھیں ۔ لبا س ڈ ھیلا ڈھا لا اور بے ہنگم تھا ۔ اس کے با وجود
بھی ایسا لگتا تھا جیسے اس میں کسی قسم کے سلیقے کو بھی دخل ہو۔
کچھ دورتک وہ اِسی طرح چلتا رہا پھر دوسرے علا قے کے بچوں
نے اُ س پر خشت باری شروع کر دی اور وہ اسی اطمینان اور سکون سے چلتا رہا ۔ یہا ں
بھی کچھ لو گ آڑے آئے تھے اور بچو ں کو بھگا دیا لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی
کہ اُسے روک کر پو چھتا کہ وہ کون ہے اور بچوں
کے ہا تھو ں اس طر ح اپنی دُرگت کیو ں بنو اتا رہتا ہے ، اگر کبھی کو ئی اس
ارادے سے اس کی طر ف بڑھتا بھی تو نظر
ملتے ہی پیچھے ہٹ جا تا ۔ اُ سے ایسا محسو س ہوتا جیسے اس کا پو ا جسم بر فی جھٹکے
سے ہل کر رہ گیا ہو ۔ بڑ ی بڑی اور غیر معمو لی طو ر پر چمکیلی آ نکھیں پَل بھر کے
لیے بھی کسی کو اپنے سا منے نہ ٹکٹے دیتیں ۔ لیکن آخر بچے اُس پر پتھر اؤ کیو ں کر
تے تھے ؟ لوگوں کا کہنا تھا کہ کبھی اُ س سے کو ئی ایسی حر کت بھی سر ز د نہیں ہو
ئی تھی جسے دیوا نگی پر محمو ل کیا جا سلتا ۔ بچے اس پر پتھر اؤ کر تے تھے لیکن اُ س نے پلٹ کر کبھی ان پر پتھر
نہیں چلا یا تھا ۔ کبھی اس قسم کی بکو ا س بھی نہیں کی تھی کہ بچے اُس کو چھیڑتے ۔
پچھلے ایک ما ہ سے شہر میں دیکھا جا رہا تھا ۔ اس سے پہلے
کہا ں تھا یا کس حال میں تھا کو ئی نہیں جا نتا تھا لیکن آج لیپٹن فیا ض کے
اسسٹنٹ انسپکڑ شا ہد نے تہیہ کر لیا تھا
کہ وہ اس کے با رے میں معلو ما ت ضر ورحاصل کر ے گا ۔
اس کا خیا ل تھا کہ وہ کو ئی بے حد خطر نا ک آدمی ہے اور شا
ید اس طر ح اپنی پبلسٹی کر رہا ہے ، مقصد خو اہ کچھ بھی ہو۔
وہ اس کے پیچھے
پیچھے چلتا رہا کئی جگہ اس پر پتھر اؤ کے منا ظر ویکھے لیکن نہ تو اس نے مُڑ کر
دیکھا اور نہ اس کی فتا رہی میں فر ق آیا ۔ ایک بڑی لا نڈی کے سا منے رُ ک گیا ۔
لڑ کے یہا ں بھی مو جو د تھے اور اُ ن کے ارادے بھی صا ف ثا ہر تھے ۔ لیکن لا ندی
کے ملا زمین نے انہیں بھگا دیا ۔ بھر شا ہد نے اُ سے لا نڈی میں دا خل ہو تے دیکھا
۔ کا ؤ نڑ کے پیچھے بیٹھے ہو ئے آدمی کو اُ س نے ہا تھ اُ ٹھا کر سلا م کیا تھا ۔
سلا م کا جواب دے کر اُ س نے با ئیں جا نب اشا رہ کیا اور
اُ سی طر ف بڑ ھتا چلا گیا اور با لآ خر ایک دروازہ کھو ل کر اندر چلا گیا ۔
اس کے بعد شا ہد لا نڈ ی میں دا خل ہو ا اور کا ؤ نڑ کے
پیچھے بیٹھے ہو ئے آدمی کو تیز نظر و ں سے دیکھتے ہو ئے پو چھا ۔
"یہ کو ن ہے ؟ "
ہما را دھو بی ہے ۔۔۔کیو ں ؟
شا ہد نے اپنا شنا ختی کار ڈ اُ س کے سا منے ر تھ دیا ، جس
پر نظر ڈالتے ہی وہ کر سی سے اُ ٹھ گیا اور بو کھلا کر بو لا۔ "مگر کیو ں جنا
ب ؟ "
"اس کے با رے میں ہمیں معلو ما ت در کا ر ہیں !"
" بے حد شر یف اور ایما ند ار آ دمی ہے جنا ب ۔ دوسرو
ں سے کم اُ جر ت پر کا م کر تا ہے اور بہت تھو ڑ ے وقت میں اپنا کا م نپٹا دیتا ہے
۱"
" کہا ں کا با
شند ہ ہے ۔ کہا ں قیام کر تا ہے ۔ کیا نام ہے ؟"
" نام سنگ
زادبتا تا ہے اوت بس ۔۔۔۔۔اس سے زیا دہ ہم اس کے با رے میں کچھ نہیں جا نتے ۔ اُ
جر ت روزانہ ادا کر دی جا تی ہے ۔ دوسرے دھو بی پچا س روپے سینکڑہ کے حسا ب سے دھو
تے ہیں اور یہ صر ف دسروپے سینکڑہ دگلا ئی
لیتا ہے ۔ کبھی کوئی بے ایما نی
نہیں کی ۔ بیس دن سے ہما رے پا س کا م کر رہا ہے !"
" لا نڈی کا ما لک کو ن ہے ؟ " شا ہد ہے پو چھا ۔
میں خو د ہو ں جنا ب !"
مجھے حیر ت ہے کہ آ پ لا زم کے با رے میں کچھ بھی نہیں جا
نتے؟ "
" یہ ملا زم نہیں ہے جنا ب ، روزانہ اُجر ت پر کام کر
تا ہے اور یہیں کر تا ہے ۔ کپڑ ے دھو نے کے لیے اپنے گھر نہیں کے جا تا ۔ سا رے
دھو بی یہا ں اسی طر ح کا م کر تے ہیں ۔ ہما را اپنا ٹینک ہے ۔ رہ گئے ملا زمین تو اُ ن کا ریکا ر ڈ میرے پا س !"
" کس کے تو سط سے یہا ں آ یا تھا ؟ "
"ایک دھو بی اُ سے یہا ں سا تھ لا یا تھا !"
" کیا وہ دھو
بی اس وقت یہا ں مو جو د ہے ؟ "
" جی ہا ں !"
اُ سے بلوائیے!"
" بہت بہتر !" کہتے ہو ئے اُ س نے گھنٹی بجا ئی
اور کا ؤنٹر کے دا ئیں جا نب والا دروازہ کھو ل کر ایک آ دمی وہا ں پہنچ گیا۔
:سید و کو بلاؤ!"
وہ چلا گیا اور تھو ڑی دیر بعد دوسراآدمی با ئیں جا نب کے
دروازے سے دا خل ہو ا ۔
"صاحب کا تعلق پو لیس سے ہے !" لا نڈی کے ما لک
نے شا ہد کی طر ف دیکھ کع اس سے کہا ۔"اور یہ سنگ زاد کے با رے میں پو چھ گچھ
کر رہے ہیں !"
" پپ۔۔پو لیس ۔۔لل ۔۔لیکن کیو ں؟"
"تم اُ سے کب سے جا نتے ہو ؟" شا ہد نے کسی قد ر
سخت لہجے میں پو چھا ۔
" جج۔۔حی۔۔یہی کو ئی ایک ما ہ سے !"
"کہا ں رہتا ہے؟"
"میراپڑوسی ہے جنا ب !"
"تم کہا ں رہتے ہو ؟"
جمرون الے کی جھو نپٹریو ں میں !'
"اور تم اسے صر ف ایک ما ہ سے جا نتے ہو؟"
"جی ہا ں ' ایک ما ہ ہو ئے اُس نے میرے برابر والی جھو
نپٹری خرید ی تھی ۔ بے کا ر تھا میں نے اسے کا م سے لگوادیا!"
"کیا وہ پا گل ہے ؟"
"جی نہیں ۔۔با لکل نہیں !"
"پھر بچے اُ س پر پتھر اؤ کیو ں کر تے ہیں ؟"
" بس کیا بتاؤں جنا ب ۔ پتا نہیں کس حر امی کی حر کت ہے۔ میں نے تو سنا ہے دیکھا
نہیں کہ وہ کو ن حا م زادہ تھا !"
"کیا مطلب۔۔؟"
کسی نے ایک دن ایک شریر بچّے سے کہا کہ اگر وہ اُ سے پتھر
ما رکر بھا گ جا ئے تو وہ پا نچ روپے دے گا ۔ بچّے نے بڑا سا پتھر اُ ٹھا کر اُ س
کی پیٹھ پر رسید کیا اور بھا گ گیا لیکن نہ تو اُ س نے مُڑ کر دیکھا اور نہ کچھ
کہا ۔ دوسرے بچّوں نے یہ وا قعہ دیکھا اور پھر اُ ن میں سے بھی کسی نے یہی حر کت
کی لیکن وہ اس طر ح چلتا رہا جیسے کچھ ہو اہی نہ ہو۔ بس تو پھر ایک نیا کھیل بچّو
ں کے ہا تھ آگیا ۔ یہ ہے سا ری کتھا ۔ نہ وہ پا گل ہے اور نہ بدمعاش ، بے حد شریف
آدمی ہے ۔ میں نے پو چھا تھا کہ آ خر وہ بچّو ں کو اس حر کت سے روکتا کیو ں نہیں ؟
ہنس کر بولا جب چوٹ ہی نہیں لگتی تو پھر کچھ کہنے سے کیا فا ئدہ ۔ کھلنے دو بے
چاروں کو!"
"کہا ں سے آیا ہے؟"
" وہ خو د بھی نہیں جا نتا!"
"کیا مطلب ؟"
"جنا ب عالی وہ نہیں جا نتا کہ وہ کون ہے اور اُ س کا
کیا نام ہے!"
"لیکن یہ سنگ زاد۔۔؟"
:اُ س نے خو د ہی یہ نام رکھ لیا ہے !" لا نڈی کے ما
لک نت کہا ۔ " کہتا ہے جب مجھے پتھر سے چو ٹ نہیں لگتی تو پھر مجھے کسی پتھر
ہی نے جنم دیا ہوگا لٰہذ ایہ نا م سنگ زادہی منا سب رہے گا!"
"کیا پڑھا لکھا معلام ہو تا ہے ؟"
"جنا ب عا لی بس کیا عر ض کر و ں !" لا نڈ ی کا
مالک ٹھنڈ ی سا نس لے کر رہ گیا ۔ شا ہد اسے سوالیہ نظر و ں سے دیکھے جا رہا تھا۔
" جی ہا ں ' مجھے تو وہ خا صا پڑھا لکھا لگتا ہے
!"
" اب میں اُ سی سے براہ راست گفتگو کر نا چا ہتا ہو ں
!"
لانڈی کے ما لک نے کسی قدر ہچکچاہٹ کے سا تھ اُ سے طلب کیا
اور پھر جیسے ہی شا ہد کا سا منا اس سے ہو ا ، حلق کی خشکی حو اس پر چھا گئی ۔
"یہ ایک پو لیس فیسر ہیں !" لا نڈی کے ما لک نے
کہا ۔ " تمہا رے با رے میں معلوما ت حا صل کر نا چا ہتے ہیں !"
عجیب سی مسکراہٹ اُ س کے ہو نٹو ں پر نمو دا ر ہو ئی جو کم
از کم شا ہد کے نز دیک غصہ ہی دلا نے والی تھی لیکن اُ س نے بڑ ے ضبط سے کا م لیا
۔ و یسے وہ اُ س کی آنکھوں میں براہ راست دیکھنے کی سکت خو د میں نہیں پا ر ہا تھا
۔
آخر اُس پر اسر ارجنبی نے لا نڈی کے ما لک سے پو چھا ۔
" کیا میں اپنے با رے میں کچھ جا نتا ہو ں ؟"
" میں کیا بتا
ؤں؟"
" میں اپنے با رے میں کچھ بھی نہیں جا نتا!"
"اور خو د کو صحیح الد ما غ بھی سمجھتے ہو؟" شا ہد نے تلخ لہجے میں سوال کیا ۔
" با لکل ۔ ان
سے پو چھئے کیا یہ لو گ مھے صحیح الد ما غ
نہیں سمجھتے ؟"
" بچّے تمہیں پتھر کیو ں ما ر تے ہیں ؟"
"یہ بچّوں سے پو چھئے ۔ میں کیا بتا ؤ ں !"
" تمہیں اس پر اعتر ا ض کیو ں نہیں ہو تا ؟"
" کیا اعتراض نہ ہو نا جر م ہے ؟"
شا ہد بغلیں جھا نک کر رہ گیا ۔ پھر جلدی سے بو لا ۔ " تم کہا ں سے آ ئے ہو
؟"
" جہا ں سے سب آئے ہیں !"
" اے ۔۔سید ھی طر ح با ت کر و !"
"کیا میں نے کو ئی ٹیڑ ھی با ت کی ہے ؟" اجنبی نے
لا نڈی کے ما لک سے سوا ل کیا اور وہ ز یر لب کچھ بڑ بڑا کر دوسری طر ف دیکھنے لگا ۔
" یہا ں آ نے سے پہلے کہا ں ر ہتے تھے ؟" شا ہد
کو غصہ آ گیا تھا۔
" میں عر ض کر چکا ہو ں کہ میں نہیں جا نتا ۔ بس یہا ں
سے میر ی یا داشت شر وع ہو تی ہے کہ میں نے سید و بھا ئی کے برا بر وا لی جھو نپڑی
ضر ید ی تھی !"
جھونپڑی خر ید نے کے لیے رقم کہا ں سے آ ئی تھی ؟"
" میر ی جیب میں تھی !"
"جیب میں کہا ں سے آ ئی تھی ؟"
" میں نہیں جا نتا !"
" کیا تم سے مشبتہ افراد کا سا بر تا ؤ کیا جا ئے
؟"
" وہ کیسے ہو تا ہے ؟"
" مشبتہ افر اد کو ہم ۔۔ بند کر دیتے ہیں اور اس و قت
تک نہیں چھو ڑ تے جب تک اُ ن کے با رے میں پو ری طر ح معلو ما ت نہ حا صل کر لیں
!"
" جیسی آپ کی مر ضی !" اُ س نے بے حد نر م لہجے
میں کہا ۔ " میں آ پ کا بے ح د شکر گز ارہو ں گا اگر میر ے با رے میں معلو ما
ت فر اہم کر دیں !"
شا ہد بڑی شو اری سے اپنے غصے پر قا بو پا سکا تھا ۔ یہی دل
چا ہ رہا تھا کہ ریو الو ر نکا ل کر اُ سے شو ٹ کر دے لیکن اس کے بجا ئے محض نو ٹ
بُک نکا ل لینے پر قنا عت کر نا پڑا۔
" تم اپنا صحیح پتہ بتا ؤ !" اس نے سید و دھو بی سے
کہا ۔ اور وہ اُ سے اپنا پتا بتا نے لگا ۔ نو ٹ بُک کے صفحے پر قلم چلتا رہا پھر
شا ہد نے سر اُ ٹھا کر سید و سے کہا ۔ " اگر یہ کہیں غا ئب ہو گیا تو تم سے
جو اب طلب کیا جا ئے گا !"
اجنبی کے ہو نٹو ں پر تحقیر آ میز مسکرا ہٹ نمو دا ر ہو ئی
اور اُ س نے آ ہستہ سے کہا ۔ "آپ خو اہ
مخو اہ دوسروں کو ملوث کر رہے ہیں ۔ سید ھی سی با ت ، مجھے ہی اپنے سا تھ
لیتے چلئے!"
" فضول با تیں مت کرو !"شا ہد پیر پٹخ کر بو لا۔
" ہم تمہا ری نگر انی کر ائیں گے !"
"وقت اور اِ نر جی کی بر با دی !"
" زبا ن بند کرو !"
" جیسی آ پ کی مو ضی !"
پھر شاہد وہا ں نہیں رُ کا تھا ۔ خو اہ مخو اہ اسے چھیڑ
بیٹھا تھا ۔ اس سے کو ئی جو م نہیں سر ز د ہو ا تھا ۔ بچّے پتھر ما رتے تھے اور وہ
اس کا نو ٹس نہیں لیتا تھا بس اتنی سی با ت تھی ۔ ہو سکتا تھا کہ وہ واقعی اپنے با
رے میں کچھ نہ جا نتا ہو ۔ کسی حا دثے کے نتیجے میں اپنی یا ددا چت کھو بیٹھا ہو ۔
ا گر اُ سے مشبتہ قر ا ر د یتا تو سوال پیدا ہو تا کہ کس سلسلے میں مشبتہ سمجھا جا
رہا ہے۔
لا ندی سے نکلا ہی تھا کہ ایک اخبا ر کے کر ئم ر پو ر ٹر پر
نظر پڑی جو شا ید وہا ں اُ سی کا منتظر تھا تیز ی سے اُ س کی طر ف آ یا اور سا تھ
سا تھ چلنے لگا ۔
" فر ما ئیے !" شا ہد اُ س پر اُ لٹ پڑا۔
" شا ید با ت نہیں بنی !" رپو ر ٹر مسکر اکر بو
لا ۔ " میں خو د کئی دنو ں سے جھک ما ر رہا ہو ں !"
" اچھا !"
شا ہد نر می سے بو لا ۔ رپو رٹر اس کے لیے اجنبی نہیں تھا ۔ اکثر و بیشتر
دونوں کی ملا قا ت ہو تی رہتی تھی۔
" وہ ایسی با تیں کر تا ہے جیسے یا دداشت کھو بیٹھا ہو
!" رپور ٹر نے کہا ۔ " واقعی حیرت انگیز ہے لیکن سمجھ میں نہیں ُ تا کہ
پتھر ما رنے کا سلسلہ کیسے شر و ع ہو ا ہو گا؟"
" یہا ں تم مجھ سے پیچھے رہ گئے ہو !"شا ہد طنز
یہ اندا ز میں مسکرا یا۔" میں نہیں سامجھ ریپو ٹر چلتے چلتے رُ ک گیا ۔
" میں جا نتا ہو ں کہ پتھر ما رنے کا سلسلہ کیسے شر و
ع ہواتھا !"
" میری طر ف سے چا ئے کی دعوت قبو ل کر و ۔ ہیگر ٹی کے جھینگے تمہیں بہت
پسند ہیں مجھے علم ہے !"
رپورٹر مسکراکر بو لا۔
" لیکن اس کے با وجود بھی میں تمہیں بتا ؤں گا !"
" اگر یہ معلو م ہو جا ئے تو میر ا فیچر مکمل ہو جا ئے
گا اور کل کے شما ر ے میں تمہا ری پبلسٹی بھی ہو جا ئے گی ۔ اس طر ح فلیش کر و ں
گا تمہیں ری آ ئند ہ نسلیں بھی تم پر فجر کر یں گی اور اس کا فا ئد ہ تمہا رے
محکمے کو بھی پہنچے گا کہ وہ شہر میں ہو نے والے سا رے واقعات پر نظر رکھتا ہے
!"
شاہد نے سو چا با ت تو ٹھیک ہے ، پھر اُ سے ہیگر ٹی کے
جھہنگو ں کی دعو ت قبو ل کر لینی چا ہئے۔
2
فیچر بڑی خوبصو رتی سے چھا پا یا گیا تھا ۔ سنگ زاد کی متعد
د تصا د یر تھیں جن میں کہیں اس پر پتھر بر س رہے تھے اور کہیں را ہ گیر اُ سے
بچّو ں کی یلغا ر سے بچا نے کی کو شش کر رہے تھے ۔سا تھ ہی مضمو ن کی دلچسپی نے اس
مز ید قد رو قیمت بڑھا دی تھی ۔ اس میں انسپکٹر شا ہد کا مختصر قصیدہ بھی تھا جس
نے اس وا قعے کی طر ف خصو صی تو جہ دے کر لیا تھا کہ اُس بے ضر ر آدمی پر پتھر اؤ
کر نے کی پہل کس طر ح ہو ئی تھی اور اب وہ اُ س آدمی کی تلا ش میں تھا جس نے ایک بّچے کو پتھر مارنے کی تر غیب دی تھی۔
تر غیب دینے والے نے یہ فیچر پڑھا تو اُ س کے ہا تھ پا ؤں
پھو ل گئے۔ اُ س سے تو کہا گیا تھا کہ یہ محض ایک تفریحی سلسلہ ہے لیکن پھر پو لیس
کہا ں سے آکو دی ۔ محکمہ سُر ا غ رسا نی کے کسی آفیسر کو اس سے کیا سروکا ر جبکہ
کھا نے والے کو اس پر کو ئی اعتر ض نہیں ۔
جہا نگیر بہت معمولی قسم کا فر یب کا رتھا ۔ کبھی سڑک پر
مجمع کگا کر اُو ٹ پٹا نگ قسم کی ادویات فر و ختکرنا تھا اور کبھی منجم بن
کر بھو لے بھا لے دیہا تیو ں سے کما ئی کر لیتا تھا ۔ ان دنو ں بے کا ر تھا
کہ ایک اچھی ضا صی ر قم کے عیو ض یہ معمولی سا کام مل گیا ۔ ایک بچّے کو پا نچ روپے دئیے اور اُ س نے سنگ
زادی کی پشت پر پتھر جڑ ویا ۔ لیکن جہا نگیر کو یقین تھا کہ اس وقت وہا ں اس بچّو
ں کے علا وہ اور کو ئی بھی نہیں تھا اور پھر صر ف وہی بچہ اُس سے ذرادیر کو واقف
ہو ا تھا جسے اُس نے پانچ روپے دئیے تھے ۔ تو کیا اس بچّے ہی سے پو لیس آفیسر کو
اُس کے با رے میں معلو م ہو ہو گا۔۔؟ بہرحال اُسے اس سلسے میں اُس آدمی سے با ت کر
نی چا ہئے جس نے اُسے اس کام پر مامو ر کیا تھا۔
وہ چائے خانے سے با ہر آگیا ۔تھو ڑی دور پو ایک دوافر و ش
کی دکان تھی ۔ وہاں سے وہ فو ن پر اُ س آ دمی سے رابطہ قا ئم کر سکتا تھا
خو ش قسمتی سے اس کی کا ل اُ سی آ دمی نے ریسیو کی ورنہ وہ
تو سمجھا تھا شا ہد اُ سے کئی با ر کو شش کر نی پڑ ے گی۔
"مجھے یقین تھا کہ تم پر یشا ن ہو جا ؤ گے
!"دوسری طر ف سے ہلکے سے قہقہے کے سا تھ کہا گیا ۔
"کیا مجھے پویشا ن نہ ہو نا چا ہئے ؟" جہا نگیر
کے لہجے میں حیر ت تھی۔
"قطی نہیں ، کیا رکھا ہے ان با تو ں میں ۔ وہ تم تک ہر
گز نہ پہنچ سکے گا اور اگر تمہیں خد شہ ہے کہ اس کا سا منا ہو ہی جا ۴ے گا تو میر
ے پا س چلے آؤ۔ اس سے نپٹنے کی تد بیر تبادوں!"
"کیا ابھی آجاؤں ؟"
"ہاں ہاں ، آجاؤں !"
ریسیور کریدل پر رکھ کر اُس نے کا ل کے پیسے اداکیے اور
دکان سے نکل آیا ۔ تھو ڑی دیر بعد وہ ایک رکشے میں بیٹھا ماڈل ٹاؤن کی طرف
جارہاتھا۔
اُسے یہ بھی تو نہیں معلوم تھا کہ اس کھیل کا مقصد کیا ہو
سکتا ہے ۔ ویسے اُس آدمی سنگ زاد کی شخصیت اس کے لیے بھی حیر ان کن تھی اور وہ خود
بھی تو اس کی ٹو ہ میں رہنے لگا تھا لیکن یہ معلوم کر کے بڑی ما یو سی ہو ئی تھی
کہ ایکلانڈی میں کپڑے دھو تا ہے ، پھر کیا یہ بھی عجیب با ت نہیں تھی کہ اُ س پر پتھر بر سا نے والا
ماڈل ٹا ؤن کی ایک عظیم الشا ن کو ٹھی کا مکین ہے ۔ بھلااس دولت مند آدمی کو ایک
دھو بی سے کیا سر وکا ر ۔ اگر اسے انتقامی کا رروائی سمجھا جا ئے تو کیا طر یق کا
ر عجیب نہیں تھا ۔
رکشہ اُ س نے ایک کو ٹھی کے سا منے اُ کوایا اور کوایہ ادا
کر کے پھا ٹک کی طر ف بڑ ھا ہی تھا کہ پتھا ن
چو کید ار نے ذیلی کھڑکی کھو ل کر سر نکا لا۔
" تم کہا نگیر ہے؟" اُس نے پو چھا۔
"ہا ں بھا ئی !'
" اندر آجا ؤ۔ صا حب ہمیں پہلے ہی بو لا تھا!'
وہ ذیلی کھڑکی سے کپاؤنڈ میں دا خل ہو ا ۔ ایک با ر پہلے
بھی یہا ں آ چکا تھا لہذ اجانتا تھا کہ اُسے عما رت کے کس حصے میں جانا ہے ۔
وہ اُ سے برآمد ے ہی میں مل گیا ۔ چھوٹے سے قدکا ایک دُبلا
پتلا اور بوڑھا آدمی تھا لیکن چا ل ڈھا ل سے خا صا پُھر تیلا معلوم ہو تا تھا اور
آنکھوں سے تو بے پنا ہ تو انا ئی کا اظہار ہوتا تھا۔
جہانگیر سے مصا فحہ کر تے وقت ہنس پڑا ۔جہا نگیر بھی نے دلی
سے ہنساتھا۔
" آؤ ۔۔اندرآجا ؤ !" بو ڑھا سٹنگ روم کی طر ف بڑ
ھا ہو ا با لا ۔ یہا ں اعٰلی درجے کا فر نیچر بہت سلیقے سے لگا یا تھا ۔
"آرم سے بیٹھ جا ؤ ۔ ایسی بھی کیا پر یشا نی !"
اس نے سو فے کی اشا رہ کر لے کہا۔
"صاحب یہ پو لیس کا چکر سمجھ میں نہیں آیا؟"
" ار ے وہ کچھ نہیں ۔ اخبا ر والوں نے ایک خو بصو رت
سی کہا نی بنا ئی ہے اوت آفیست کی تھو ڑ ی سی پبلسٹی کر دی ہے!"
"لیکن صاحب آخریہ معاملہ کیا ہے ۔ اتنے سے کا م کے لیے
آپ نے مجھے پا نچ سوروپے دئیے تھے اور اب یہ پو لیس والا۔۔!"
"کیا تم نے کو ئی جر م کیا ہے ؟"
" جی نہیں ، ایسی صو رت میں اُسے جر م نہیں کہا جا
سکتا جب کہ پتھر کھا نے والے کو اس پر اعتراض نہیں ہے !"
" گڈ ، خا صے سمجھ دار آ دمی ہو ۔ اس لیے پر یشا ن ہو
نے کہ کو ئی ضر و رت نہیں اور پھر مجھے یقین ہے کہ وہ تم تک پہنچ ہی نہ سکے گا !"
" ہو سکتا ہے لیکن آپ میری یہ اُلجھن ر فع کر دیجیے ۔
وہ ایک معمولی سا دھوبی ہے اور آپ اتنے بڑے آدمی ہیں !"
"تم نہیں سمجھے۔ اچھا چلو میں تمہیں اس کی ما ں سے
ملواؤں ۔ وہ پتھر وں سے سر ٹکراتی ہے ۔ پتھر چو ر چور ہو جا تے ہیں لیکن اس کے سر
پر لعمولی سی خراش نہیں آتی !"
"کما ل ہے !"
" چلواُٹھو ۔ تمہیں سنگ زادکی کہا نی بھی وہی سنا ئے
گی!"
" کہا ں چلنا ہو گا ؟"
" بند ر گا ہ تک ۔ وہا ں میر ی ایک کشتی بھی ہے جس کے
عمے کے لیے وہ کھا نا پکا تی ہے ۔ میں جو کچھ بھی کر رہا ہو ں اُ سی کے لیے کر رہا
ہو ں !"
"میں ضر ور چلو ں گا صا حب !" جہا نگیر اُٹھتا ہو
بو لا۔
" اور پھر تمہارا دل چا ہے تو تم بھی گی الحال اُ سی
کشتی پر رُک جا نا ۔ جب معا ملہ ٹھنڈا پڑ جا ئے تو واپس آ جا نا ۔ کشتی کو دیکھ کر
خو ش ہو جا ؤ گے ۔سا ری آسا ئشیں ااس پر مہیا ہیں ۔ بس ایک تیرتا ہو ا امکا ن سمجھ
لو اُسے !"
" بہت بہتر جنا ب ۔ میں و ہیں رُک جا ؤ ں گا !"
تھو ڑی دیر بعد ایک لمبی سی کا ر کو ٹھی کی کمپا ؤ نڈ سے
نکلی جسے بو ڑ ھا خو د ہی ڈا ئیو کر رہا تھا اور جہا نگیر اُ س کے برا بر والی سیٹ
پر بیٹھا ہو ا تھا ۔
" میں بڑےآ دمیو ں کی تقر یح کی کشتو ں کے با رے میں
سنا کر تا تھا ، آ ج دیکھ بھی لو ں گا !"جہا نگیر نے پُر مسر ت لہجے میں کہا
۔
" بلکہ اُس پر کچھ دن قتا م بھی کر و گے !"
" خو ش قسمتی میری !"
سا حل پر پہنچ کر گا ڑی پا ر کنگ لا ٹ میں کھڑ ی کر دی گئی
اور وہ ڈاک (dock)
کی طر ف بڑھے ۔ لیکن جہا نگیر کو اُ س وقت بڑی حیر ت ہو ئی
جب اُس نے بو ڑھے کو ایک چھو ٹی سی مو ٹر بو ٹ پر چر ھئے دیکھا ۔ یہ اتنی چھو ٹی
تھی کہ اس پر بہ مشکل پا نچ یا چھ افراد بیتھ سکتے ۔
" یہ کشتی !" اس نے کسی قد ر ہچکچا ہٹ مے سا تھ
کہا ۔
" ارے نہیں !" بو ڑھے زور سے ہنس کر بو لا ۔
" اس پر بیٹھ کر ہم اُ س کشتی تک پہنچیں گے ۔ دراصل میر ے کچھ مہما ن مچھلیو
ں کے شکا ر کے لیے اُسے آگے لے گئے ہیں !"
" اچھا اچھا !" جہا نگیر نے کہا اور خو د بھی مو
ٹر بو ٹ میں بیٹھ گیا ۔
بو ڑھے نے بو ٹ کا انجن اسٹا رٹ کیا اور اُسے گہرے پانی کی
طر ف مو ڑتا ہو ا زور سے بو لا۔ " تم آخری سر ے پر بیٹھ جا ؤ تا کہ بیلنس رہے
!"
" بہت اچھا جنا ب !" جہا نگیر درمیا نی سیٹ سے
اُتھ کر دوسرے سرے پر چلا گیا ۔ یہا ں سمندر پُر سکو ن تھا لیکن جہا نگیر سو چ رہا
تھا کہ آگے تلا طم ضرور ہو گا اس لیے سنبھل کے بیٹھنا چا ئہے ۔ بو ڑھے دوسر ے سرے پر اُ س کے مقا بل بیٹھا عجیب انداز میں
مسکرارہا تھا ۔ کشتی جلد ہی کھلے سمندر میں آ گئی ۔ دوردور تک کو ئی دوسری کشتی
نظر نہیں آرہی تھی ۔ جہا نگیر خا مو ش بیٹھا اس کی مسکراہٹ کو کو ئی معنی پہنا نے
کی کو شش کر رہا تھا ۔دفعتّہ بو ڑھے نے جیب سے پستول نکا ل کر اُس کا رُخ جہا نگیر
کی طر ف کر دیا۔
"جج۔۔حی ۔۔کک۔۔کیا مطلب َ" جہا نگیر نے بو کھلا کر اُٹھ کھڑے ہو نے کی کو شش کی اور
ٹھیک اُسی وقت سائیلنسر لگے ہو ئے پستو ل سے بے آوازفا ئر ہو ا۔ گو لی جہا نگیر کی
پیشا نی پر لگی اور وہ پا نی میں اُلٹ گیا۔
مو ٹر بو ٹ آ گے بڑھی چلی گئی ۔
3
آئی ایس آئی کے ڈاکٹر کر نل فیضی نے سنک زا د والا فیچر
اخبا ر میں دیکھا اور کر سی کی پشت گا ہ سے ٹک گیا ۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی
ہو ئی تھیں ۔ چہرے کے تا ثر ات سے ایسا معلو م ہو تا تھا جیسے کسی مسئلے پر یقین و
تشلیک کی کشمکش میں متبلا ہو ، پھر اُس نے انٹر کو م کا بٹن دبا کر کسی کو مخا
طب کیا ۔ گر ین فا ئن تھر ٹین چا ہئے فوراَ !"
"او کے سر!"کسی نے جواب دیا۔
انٹر کوم کا سو ئچ آف کر کے کر نل فیضی نے جیب سے سگریٹ کیس
نکا لا اور ایک سگریٹ منتخب کے کے سلگا نے ہی والا تھا کہ میز پر رکھے ہو ئے سرخ
انسٹر ومنٹ کا پز بو ل اُٹھا ۔
"یس سر!" اس نے ریسور اُتھا کر ماؤ تھ پیس میں
کہا ۔
"کیا تم مصر وف ہو ؟"دوسری طر ف سے آواز آئی۔
"جی ہا ں ایک مسئلہ ابھی ابھی سا منے آیا ہے اور فو ری
تو جہ کا طلب گا ر ہے !"
"کیا اِسٹا رکے اس فیچر کی طر ف اشا رہ ہے ؟"
"درست ہے جنا ب !"میں نے گر ین گا ئل تھر ٹین
۔۔نکلوایا ہے !"
"گڈ۔۔!" دوسری طر ف سے آواز آئی ۔"فا ئل
سمیت میرے آفس میں آجا ؤ!"
"بہت بہتر جنا ب !"کر نل فیضی نے کہا اور دوسری
طر ف سے رابطہ منقطع ہو نے کی آوازسُن کر ریسیو ر کر یڈل پر رکھ دیا ۔ یہ ڈائر کٹر
جنر ل کی کا ل تھی ۔سگریٹ سلگا تے وقت اُس نے اپنے ہا تھ میں لرزش محسوس کی۔
اُس کا پر سنل اسسٹنٹ تھو ڑی دیر بعد ایک فا ئل لیے ہو ئے
کمر ے میں دا خل ہو ا۔
"تھیک ہے ۔ بس جا ؤ !" اُس نے اُسے فا ئل میز پر
رکھ دینے کا اشا رہ کر تے ہو ئے کہا ۔ پر سنل اسسٹنٹ کی آنکھوں میں حیرت کے آثا ر
نظر آئے ۔ شا ید کر نل فیضی کا یہ انداز اُس کے لیے غیر معمولی تھا ۔ بہر حا ل وہ
اُس کے حکم کی تعمیل کر کے اُلٹے پا ؤ ں واپس چلا گیا ۔ کر نل فیضی نے سگر یٹ کے
کئی گہر ے گہر ے کش لیے اور ایش ٹر ے میں
رگڑتا ہو ا اُٹھ گیا۔
ڈائر کٹر جنر ل کے آفس میں داخل کے لیے اُسے چند منٹ انتظا
ر کر نا پڑاتھا ۔ جنرل راؤ آئی ایس آئی کا ڈائر کٹرجنر ل ایک نے حد خشک مزاج آدمی
تھا ۔ ما تحت اس کا سا منا کر نے سے خا ئف رہتے تھے ۔ خو د کر نل فیضی اپنے گھٹنو
ں میں لرزش سی محسوس کر رہا تھا ۔
"بیٹھ جا ؤ !" اُ س نے کر نل فیضی کی طر ف دیکھے
بغیر کہا ۔
"ٹھینک یوسر!" کہتا ہو ا کر نل فیضی بیٹھ گیا ۔
"فا ئل !" جنر ل نے اُس کی طر ف ہا تھ بڑھا دیا ۔
کر نل فیضی نے اپنی احتیا ط سے فا ئل اس کے ہا تھ میں دیا تھا جیسے وہ شیشے کا ہو
۔اسٹا ر کا تا زہ شما رہ بھی میز پر پڑاہو تھا ۔ جنر ل فا ئل کی ورق گر دا نی کر
کے اس کی بعض تصویریں اسٹار میں شا ئع ہو نے والی تصا و یر سے ملاتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد طویل سا نس لے کر بو لا ۔ "اس میں کو ئی
شبہ نہیں ہے !"
فیضی کچھ نہ بو لا ۔ آخر جنر ل ہی نے ٹھو ڑی دیر بعد کہا ۔
"فی الحال اس کی صر ف نگرانی کراؤ۔ لیکن اُس آدمی کا سر ا غ ملنا بے حد ضر و
ری ہے جس نے بچّوں کو اُس پر پتھر چلانے کی تر غیب دی تھی !"
"میں یہی سو چ رہا تھا جنا ب !"
"اِس آدمی انسپکٹر شا ہد کو اپنے اعتما د میں لینے کی
کو شش کر و !"
"اوسنگ زاد کی صر ف نگرانی کر ا ئی جا ئے ؟"
"ہا ں ۔۔اور اس کے تحفظ کا بھی خیا ل رکھا جا ئے
!"
"بہت بہتر جنا ب !"
جنرل راؤ نے فا ئل اس کی طر ف بڑ ھا تے ہو ئے با ئیں ہا تھ
کو اس طر ح جنبش دی جیسے ملا قا ت کا وقت ختم ہو چکا ہو ۔
کر نل فیضی اُس کے آفس سے با ہر آگیا ۔ اس کے چہر ے پر گہر
ی تشو یش کے آثا ر تھے ۔
4
کیپٹن فیا ض آپے سے با ہر ہو رہا تھا اور انسپکٹر شا ہد اس
طر سر جھکا ئے کھٹر ا تھا جیسے اس سے بڑی غلطی پہلے کبھی سر ز دنہ ہو ئی ہو۔
" تمہیں کیا ضر ورت تھی حد تک جا تے ؟" فیا ج پھر
گر جا ۔ آخر کس با ت کا شبہ تھا اُس پر ؟"
" بب ۔۔بس کیا عر ض کر و ں جنا ب ۔۔ بس شا مت !"
"اگر بچپن کی
کو ئی جبلت اُبھر آتی کر ائم رپورٹر سے گفتگو کر نے کی کیا ضرورت تھی ۔ وہ اپنے
طور پر اس عجو بے متعلق فیچر چھا پ سکتا تھا ۔ ا کا پیشہ ٹھہر ا ۔ اِسی کی روٹی
کھا تا ہے !"
شا ہد خا مو ش ہی
رہا ۔ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ "روٹی " کے حو الے پر اُن جھینگو ں کا تذ
کر ہ بیٹھتا جو ر پو ر ٹر نے اُسے کھلا ئے تھے ۔
"اب دیکھنا کیسا دما غ خراب کر تے ہیں آئی ایس آئی
والے !" کیپٹن فیا ض اُسے قہر آلو د نظر وں سے گھو ر تا ہو ا بو لا ۔ "
پتا نہیں کیا چکر ہے!"
آخر ایس آئی والے کیو ں ؟"
"میں نہیں جا نتا ۔ آئی ایس آئی کا داکٹر کر نل فیضی
تم سے ملنا چا ہتا ہے ۔ آج شا م پا نچ بجے ،آرمی آفیسر ز کلب میں اُس سے
ملو!"
" لیکن وہا ں میرا دا خلہ کس طر ح ہو گا ؟"
" کر نل فیضی کے حو الے سے ۔ کلب کا کو ئی زمہ دا ر
آدمی تمہیں اس کی میز تک پہنچا دے گا !"
"کس جنجا ل میں پڑگیا !"
" مجھے اطلا ع ملی ہے کہ بہت دنو ں سے یہ سلسلہ جا ری
تھا ؟"
"جی ہا ں !" شا ہد نے پُر تشو یش لہجے میں کہا ۔
"لیکن کسی نے بھی اُس کی طر ف تو جہ نہیں دی اور فیچر چھیپے ہی آئی ایس
آئی والے بھی چڑ ھ دوڑ ے اور وہ مر دود کر
ا ئم ر پو ر ٹر !"
"اُ سے کیو ں گا لیا ں دے رہے ہو !" فیا ض اُسے
گھو ر ےا ہو ا بو لا ۔
"میر ی اس حما قت سے پہلے ہی اُس نے فیچر کیو ں نہیں
چھا پ دیا تھا ؟"
"تمہا رے تذ کر ے کے بغیر اس کی کو ئی اہمیت نہ ہو تی
، اس میں سس پنس ہر گز نہ پیدا ہو تا !"
'بہر حا ل ۔۔!" وہ طو یل سا یس لے کر کچھ کہتے کہتے رُک
گیا ۔ فیا ض استفہا میہ اندا ز میں اُسے دیکھتا رہا ۔
"میر ی سمجھ نہیں آرہا جنا ب !"شا ہد نے لآخر کہا
۔
"ٹھہرو ۔۔!" فیا ض ہا تھ اُٹھا کر پُر تفکر لہجے
میں بو لا ۔ " فیچر میں اس کا ذ کر نہیں ہے کہ پتھر چلا نے کی ابتدا کے با رے
می تمہیں کس نے بتا یا تھا ؟"
" سید و دھو بی نے بتا یا تھا وہ اُس کا پڑ و سی ہے
!"
"شا ید تم نے ر پو ر ٹو سے زریعے کا ز کر نہیں کیا تھا
؟"
"جی نہیں !"
یہ بہت اچھا کیا تھا ۔ اب کم از کم تم کو آئی ایس آئی والو
ں سے اپنا پیچھا تو چھڑ اسکو گے!"
"میں نہیں سمجھا جنا ب ؟"
" وہ تم کو ئی
ایسی با ت معلو م لیے بغیر تمہا را پیچھا نہیں چھو ڑیں گے ھس کا ذ کر فیچر میں نہ ہو ا !"
"اوہ ۔۔تو سید و دھو بی کے حو الے پر میں اُنہیں مطمئن
کر سکو ں گا !"
"با لکل ۔۔ اگر وہ اُنہی کا کو ئی دردسرہے تو خو د سید
ودھو بی کو کھنگا لیں گے !"
"اس رہنما ئی پر میرا شکر یہ قبو ل فر ما یئے جنا ب ۔
اب میں سا را ز و ر سید و دھو بی ہی پر صر ف کر دو ں گا !"
"بس جا ؤ ۔۔ ٹھیک پا نچ بجے ۔۔آر می آفیسر ز کلب کر نل
فیضی نا م یا د کھنا !"
شا ہد سلیو ٹ کر کے
سید و دھو بی کا قصہ اپنی جگہ لیکن شا ید ابھی مز ید حما قتیں اُس کے مقد ر میں
لکھی ہو ئی تھیں ۔ وہ سو چ رہا تھا کہ سید و دھو بی کا قصہ اپنی جگہ لیکن اگر کر
نل فیضی سنگ زاد کا تعا قب کر نے کی وجہ پو چھ بیٹھا تو کیا بتا ئے گا ۔ ضرور پو
چھے گا کہ اُسے اُس پر کس بو عیت کا شبہ تھا ؟"
کیا بتا ئے گا آخر ؟"سو چتا اور بو ر ہو تا رہا ۔ فیا
ض سے صر ف ڈانٹ سُنی تھی ۔ یا پھر سید و دھو بی والا نکیہ ملا تھا ۔ اصل با ت تو
یہ تھی کہ آخر اُس نے سمجیدگی سے اُس کا تعا قب کیو ں شر و ع کیا تھا ۔ سر کا ری
آفیسر اس لیے نہیں ہو تے کہ دیو ا نو ں کے پیچے دوڑتے پھر یں ۔ لیکن آئی ایس آئی والو ں کے الر ٹ ہو جا نے کا یہ مطلب
تھا کہ واقعی کو ئی خا ص با ت تھی ۔ اگر اُن کے نز دیک کو ئی خا ص با ت تھی تو اُس
سے ایک ایک لمحے کا حسا ب لیں گے۔
اسی اُلجھن میں اُسے احمن اعطم عمران کا دھیا ن آیا اور وہ
اُچھل پڑا ۔ ہر چند کہ فیا ض کے تو سط سے وہ عمران پر غر اتا ہی رہتا تھا لیکن
اُسے یقین تھا کہ جس طر ح عمرا ن ، فیا ض کے کا م آتا تھا اُسی طر ح اس کی یہ مشکل
بھی آسا ن کر دے گا یعنی وہ سنگ زاد کے تعا قب کی کو ئی معقو ل وجہ ضرور تلا ش کر
لے گا ۔
اپنے کمر ے میں پہنچ کر اُس نے عمرا ن کے فلیٹ کے نمبر ڈا
ئل کیے ۔ دوسری طر ف سے نسو انی آواز آئی۔
"کیا عمران صا حب تشریف تکھتے ہیں ؟"شا ہد نے پو
چھا ۔
"رکھتے ہیں !"دوسری طر ف سے آواز آئی ۔
"میں انسپکٹر شا ہد بو ل رہا ہو ں !"
"ایک میٹ ہو لڈ کیجئے!"
دوسری با راس نے سلیما ن کی آواز سنی جس نے کڑک کر پو چھا ۔
کیا با ت ہے؟
"تمہا رے لیے ایک کلو ا مر تیا ں خر ید ی ہیں !"
"بہت بہت شکریہ ۔ پھر کب تشریف لا رہے ہیں ؟"آپ
نے خو ب یا د رکھا کہ مجھے امرتیاں پسند ہیں!"
"میرے پہنچنے تک عمران صاحب کو فلیٹ ہی میں روکے رکھو
!"
"وہ تو رُکے ہی ہو ئے ہیں ۔ لو با ن کی دھو نی لے رہے
ہیں اس کے بعد بیسن کے لڈّ واور با لائی کھا ئیں گے ۔ کم از کم پو ن گھنٹے کا نسخہ
ہے ۔ آپ نے فلر ی سے آجا ئے !"
"اچھا !" کہہ کر شا ہد نے ریسیور کر یڈل پر رکھ
دیا ۔ اُسے تو قع نہیں تھی کہ عمرا ن ، فیا ض سے اس ملا قا ت کا تذکرہ کر ے گا ۔
اس نے با ہر نکل کر مو ٹر سا ئکل سمبھا لی اور عمرا ن کے
فلیٹ کی طر ف روانہ ہو گیا ۔ را ستے میں حسب وعدہ سلیما ن کے لیے امرتیاں بھی
خریدی تھیں ۔ سلیما ن نے سٹنگ روم میں اس کا استقبا ل کیا اور امرتیوں کا ڈبّہ
سمبھا لتے ہو ئے آہستہ سے کہا ۔"ابھی دِھو نی ہی لے ہے ہیں !"
"کیا واقعی ؟"شا ہد نے حیر ت سے پو چھا ۔
"جی ہا ن !جب سے مر کر زندہ ہو ئے ہیں ، یہی حا ل ہے ۔
روزانہ لو با ن کی دھو نی لیتے ہیں اور بیسن کے لڈّو با لائی کے سا تھ کھا تے ہیں
!"
"بڑی عجیب با ت ہے!"
"کل اک پڑوسی کو با ری کے بجا ر کا تعویذ بھی دیا تھا
۔شیو نہیں کر تے ، کہتے ہیں داڑھی رکھو ں گا ۔کل گُل رخ نے رورو کر ان کا شیو کر
ایا تھا !'
"کیا قصہ ہے ؟"
"آج را ت قوّالو ں کو بھی بلوایا ہے ۔ آپ بھی آیئے میں
آپ کے لیے کا فی لا تا ہو ں !"
"تکلف کی ضرورت نہیں ، میں انتظار کرو ں گا !"
'ویسے میں نے اطلا ع دے دی ہے کہ آپ تشریف لا رہے ہیں
!"
"ٹھیک ہے!"
"لیکن شا ید اب انہیں پو لیس والو ں سے ملنا گوارہ
نہیں ہے!"
"یہ کس بنا پر کہہ رہے ہو !"
"آج صبح کسی سے فون پر کہہ ہے تھے ۔ اچھا جی بس میں
ابھی آیا ۔ آپ کے لیے کا فی لا رہا ہو ں!"
سلیما ن نے کہا اور کمر ے سے چلا گیا ۔
شا ہد تنہا بیٹھا رہا کا فی آنے سے پہلے ہی عمرا ن کمر ے
مین داخل ہو ا ۔ شا ید با ہر جا نے کے لیے تیا ر تھا ۔
"اوہ ۔۔ہلو!" اُس نے شا ہد کو د یکھتے ہی جلدی سے
مصا فحہ کے لیے ہا تھ بڑ ھا دیا ۔
سا ہد نے بڑی گر م جو شی سے مصا فحہ کیا لیکن عمرا ن اپسے
ایسی نظر و ں سے دیکھے جا رہا تھا جیسے اُس کی دما غی صحت پر یقین نہ ہو ۔
"غا لباَ آپ مجھے بھو ل لے نہ ہو ں گے !" شا ہد
نے کہا ۔
"عذ ابِ قبر بھی مجھے ہر وقت یا د رہتا ہے !"
"مجھ پر طنز نہ کیجئے ۔۔میں کیپٹن فیا ض کا ما تحت ہو
ں ۔ کو کچھ بھی کر تا ہو ں اُنہی کے حکم سے کر تا ہو ں لیکن جینی قد ر آپ کی میر ے
دل میں ہے اُس کا اظہا ر مملن نہیں ہے !"
"تو کیا کیپٹن فیا ض صا حب نے مجھے یاد فر ما یا ہے
؟"
" جی نہیں ، اپنی ایک ضرو رت لا ئی ہے !"
"ٹھیک ہے ۔تشریف رکھئے !"
شا ہد بیٹھ گیا اور عمرا ن اپسے اسرفہا میہ نظر و ں سے
دیکھتا رہا ۔ اتنے میں سلیما ن کا فی لے آیا ۔ ایک پلیٹ میں دو امر تیا ں بھی بڑے
اہتما م سے رکھ لا یا تھا ۔ امر تیو ں پر نظر پڑ تے ہی دیدے نچا ئے اور پھر سیلما
ن کو گھو ر نے لگا۔
"انسپکٹر صا حب میر ے لیے لا ئے تھے !" سلیما ن
جلدی سے بو لا ۔
عمرا ن نے طو یل سا نس ل اور پو ری طر ح شا ہد کی طر ف متو
جہ ہو گیا ۔
"آپ نے آج کا اسٹا ر دیکھا ؟" شا ہد نے عمرا ن سے
پو چھا ۔
"نہیں ۔ میر ے پا س صر ف اُردو کے اخبا ر آتے ہیں
!"
" بہر حا ل ذرا اسے ملا حظہ فر نا ئے !" شا ہد نے
فیچر والا صفحہ جیب سے نکا ل کر اُس کی طر ف بڑ ھا دیا ۔ " ہو ں ، اچھا آپ کا
فی پیجئے!"
"اور امر تیا ں بھی کھا یئے !" سلیما ن بو لا ۔
عمر ان نے ہا تھ ہلا کر اُسے دفع ہو جا نے کا اشا رہ کیا ۔ وہ بڑی دلچسپی سے فیچر
دیکھ رہا تھا ۔ "خو ب !" تھو ڑی
دیر بعد سر ہلا کر رہ گیا اور فیچر پڑ ھتا رہا ۔ شا ہد خا مو شی سے کا فی پی رہا
تھا ۔
" بہت اچھے جا رہے ہیں آپ !" با لآخر عمرا ن سر
اُٹھا کر بو لا ۔
اچھا جا رہا ہو ں یا مجھ ایک بڑی حما قت سر ز د ہو ئی ہے
!" شا ہد نے قد ر ے بسو ر کر کہا ۔
'یہی مطلب تھا میرا ۔ حما قت کی ر فعتیں کو ئی مجھ سے پو
چھے !'
'میں سنجید گی سے اس مسئلے پر گفتگو کر نا چا ہتا ہو ں
!"
"حما قت اور سنجید گی کا چو لی دا من کا سا تھ ہے ۔ آپ
حق بجا نب ہیں !"
"آپ کو اس میں کو ئی خا ص با ت نظر آئی ؟"
"ایک خا می نظر آئی ہے !"
"وہ کیا ؟"
"اُس ذریعے کی و ضا حت نہیں ہے جس کے مطا بق کسی بچّے
کو پتھر ما رنے پر اُکسا یا تھا !"
"جی ہا ں ، میں نے وہ دیدہودانستہ یہ با ت رپورٹر کو
نہیں بتا ئی تھی !"
"دوسری با ت یہ کہ یا دداشت ختم ہو جا نے کی بنا پر
آدمی اس حد تک بے حس نہیں ہو جا تا کہ اُسے چو ٹ نہ لگے!"
"جی ہا ں !"
"اس کے علا وہ اور کیا جا ننا چا ہتے ہو ؟"
"یہی کہ آخر کس شہے کی بنا پر میں نے اس کا تعا قب شر
و ع کیا تھا ؟"
"یہ مجھ سے پو چھ رہے ہو ؟" عمرا ن نے حیر ت سے
کہا ۔
"جی ہا ں ، میں نے یو نہی خواہ محو اہ تعا قت شروع کیا
ھتا لیکن اب جواب دہی کر نی پڑے گی !"
"ارے فیا ض … وہ کیو ں جواب
طلب کر ے گا ؟"
"اُن کی با ت نہیں ہے ۔ آئی ایس آئی والے اس میں
دلچسپی لے رہے ہیں !"
"واقعی ؟" عمرا ن کے لہجے میں حیر ت تھی ۔
"جی ہا ں ، سی پر حیر ت ہے ۔اسی فیچر کے حوالے سے ڈا
ئر کٹر کر نل فیضی مجھ سے ملنا چا ہتا ہے !'
عمران نے سیٹی بجا نے جے سے اندا ز میں ہو نٹ سکو ڑے اور
پھر بو لا ۔ "امرتیا ں نہیں کھا ئیں ؟"
"آپ بھی لیجئے !"
"میں ابھی ابھی بیسن کے لڈّ و کھا چکا ہو ں !"
"کیا واقعی … لیکن لو با ن
کی دھو نی کیو ں ؟"
"خداکی پنا ہ ۔ تو یہ گھر کا بھید ی … !"
"اُسے کچھ نہ کہئے گا نے چا رے کو ، نے سا ختگی میں
کہہ گیا تھا !"
"ہا ں تو یہ کر نل فیضی !"
"مجھ سے یہ ضرور معلو م کر نا چا ہے گا کہ میں نے کس
شہے کے تحت اُس کا تعا قت شر و ع کیا تھا ؟"
"اور تم بتا نا نہیں چا ہتے ؟"
"میں بتا ؤں گا کیا جب کہ کو ئی خا ص مقصد نہیں تھا
!"
"بس یہی کہہ دینا !"
"وہ یقین کر ے گا ، اگر یہ کو ئی سیر یس معا ملہ ہے
!"
"تو پھر کیا کیا جا ئے ؟" عمرا ن طو یل سا نس لے
کر بو لا ۔
"آپ کو ئی معقو ل سی و جہ سوچئے تا کہ میں اُسے مطمئن
کر سکو ں !"
"ہو ں … اچھا … لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ تم مجھے وہ بھی بتا دو
اسٹا ر کے کر ائم رپو ر ٹر کو نہیں بتا یا تھا ؟"
"ضرور بتا ؤں گا !" شا ہد نے کہا اور اسے سید و
دھو بی کے با رے میں بتا نے لگا جس سے سنگ زا د کے با رے میں معلو مات حا صل کی
تھیں ۔
"اور وہ اُس آدمی کی نشا ند ہی نہیں کر سکا تھا جس نے
بچّو ں کو پتھر ما رنے کی تر غیب دی تھی ؟"
"جی نہیں ، اُسے نہیں یا د کہ اُس نے کس سے سنا تھا
!"
"کیر ہا ں ، تو تم نہا یت اطمینا ن سے کہہ سکتے ہو کہ
شہر میں خواتین کو چھیڑ نے کے واقعا ت بکثر ت ہو رہے ہیں لہٰذاتم سمجھے تھے کہ وہ شضص محض خوا تین کو اپنی چر ف
متوجہ کر نے کے لیے اس طر ح پتھر کھا نا ہے ، اس لیے تم اس معا ملے کی تہہ تک
پہنچنا چا ہتے تھے !"
"گڈ!" شا ہد اُچھل پڑا ۔ "میں جا نتا تھا کہ
آپ کے علا وہ اور کو ئی میر ی یہ مشکل نہیں حل کر سکے گا !"
"لہٰذا اب سید و دھو بی اور اس لا نڈی کا پتا بھی بتا
دو!"
عمرا ن نے دونو ں پتے اپنی نو ٹ بُک میں دوج کیے تھے ، شا
ہد حیر ت سے اُسے دیکھتا رہا پھر بو لا ۔
"کیا یہ آپ کی بھی دلچسپی کی چیز ہے ؟"
"دیکھو ں گا ۔ شا ید آئی ایس آئی والو ں سے بھی کچھ
کما ئی ہو جا ئے ۔ دو با رہ زندہ ہو نے کے بعد سے ما لی ضا لت کچھ پتلی ہو گئی ہے
!"
"آخر قصہ کیا تھا ؟" عر صہ تک سب یہی سمجھتے رہے
تھے کہ آپ سمندر میں غر ق ہو چکے ہیں !"
"سمند ر بھی مجھ نا لا ئق کو قبو ل کر نے پر تیا ر
نہیں ۔ مچھلیو ں کا ہا ضمہ خرا ب ہو نے کا خد شہ تھا !"
آپ اپنی تہہ تک کسی کو بھی نہیں پہنچنے دیتے !"
"یہ لو با ن کی دھو نی کا لما ل ہے !" عمرا ن سر
ہلاکر بو لا ۔
"سلیما ن کہہ رہا تھا کہ کل آپ نے کسی کو با ری کے بجا
ر تعو یذ بھی دیا تھا ؟"
"بو اسیر کا فقیر ی نسخہ بھی ہے میرے پا س !"
"اچھا اب اجا زت دیجئے !" شا ہد اُٹھتا ہوا بو
لا۔
"بسم اللّٰہ!"
شا ہد ، عمرا ن کے فلیٹ سے بر آمد ہو کر مو ٹر سا ئیکل اسٹا
ر ٹ کر ہی رہا تھا کہ ایک مو ٹر سا ئیکل سوار اس کے قر یب گز رتا ہوا اُس کا دایا
ں گا ل نو چ کر نکلا چلا گیا ۔
تحیر ز دہ آو از میں ایک گند ی سی گا لی شا ہد کی زبا ن سے
نکلی اور پھر اُس نے آپے سے نا ہر ہو کر اپنی مر ٹر سا ئیکل اُس کے پیچھے دوڑادی ۔
اُس نے اُسے اچھی طر ح دیکھا تھا ۔ وہ اس کا کو ئی نے تکلف
دوست نہیں تھا ۔ شا ہد شنا سا بھی نہیں تھا ورنہ اسے کسی قد ر تذ بذ ت ضرورہو تا ۔
اگلا سو ا ر ٹر یفک کے درمیا ن سے اپنی گا ڑی نکا ل لے جا نے میں ضا صی مشا قی کا مظا ہرہ کر رہا تھا ۔شا ہد اُس کے
مقا بلے میں ہچکچا ہٹ کے سا تھ گا ڑی چلا رہا تھا لیکن نظر اُسی پر جمی ہو ئی تھی
کہ کہیں نکل ہی نہ جا ئے ۔ وہ اُسے اس بے ہو د گی پر خا طر کواہ سزا دینا چا ہتا
تھا ۔
کیا وہ پا گل تھا ؟" یا یہ محض شرا رت تھی ۔ لیکن شرا
رت ایک سر کا ری آفیسر کے سا تھ ۔ شا ہد کا خو ن بُر ی طر ح کھو ل رہا تھا ۔
دونو ں گا ڑیو ں کی دو ڑ جا ری رہی تھی حٰتی کہ وہ شہر ی
آبا د سے با ہر آگئے ۔ شا ہد کا غصہ اپنی انتہا ئی منز لیں طے کر رہا تھا لیکن
ابھی تک اُسے نہیں پکڑ پا یا تھا ۔ دو نو ں کے درمیا ن اب ابھی دو ڈھا ئی سو گز کا
فا صلہ بر قرار تھا ۔
اچا نک اگلے سوانے اپنی گا ڑی ایک ایسے با غ میں مو ڑدی جس
کے گر دا ونچی اونچی جھا ڑیا ں احا طہ کیے ہو ئی تھیں ۔ چا ہد نے بھی تہیہ کر لیا
تھا کہ کسی طر ح اس کا پیچھا نہیں چھو ڑے گا ۔ وہ بھی اپنی گا ڑی اُسی طر ف لیتا
چلا گیا ۔ اُس نے دیکھا کہ متعا قب ک گا
ڑی با غ کے و سط میں ایک کھلی جگہ پر چکر لگا رہی ہے ۔
شا ہد پر نظر پڑتے ہی اُس نے گا ڑی روک دی اور دونو ں ہا تھ
اُٹھا کر بے سا ختہ قہقہے لگا نے لگا ۔ شا ہد اُس کے قر یب پہنچ کر دہا ڑ ا ۔
" شٹ اِپ!"
لیکن وہ ہنستا ہی رہا اور شا ہا کے با زو کی مچھلیو ں میں اکڑ ن پیدا ہو نے گلی ۔ مو ٹر سا ئیکل کا
انجن بند کر کے وہ اس طر ف بڑ ھا ۔ تہیہ
کر لیا تھا کہ چھو ٹتے ہی ایک ہا تھ جھا ڑدے گا لیکن اس سے بے خبر تھا کہ عقب کی
جھا ڑیو ں سے دوفراد بر آمد ہو کر آہستہ آہستہ خو داس کی طر ف بڑھ رہے تھے ۔ پھر
قیل اس کے کہ شا ہد مو ٹر سا ئیکل سوار پر جھپٹتا ، وہ دونو ں اس پر نو ٹ پٹ ے ۔
یہ حملہ بے خبر ی میں ہو ا تھا اس لیے شا ہد کو سمجھنے کا مو قع بھی نہ مل سکا ۔
حملہ آوروں میں سے ایک نے اس کی نا ک پر
تہہ کیا ہو ا روما ل ڈا ل کر ہا تھ سے دبا ئے رکھا تھا ۔ شا ہد کا ذہن تا ریکی میں
ڈو بتا چلا گیا
5
رات کے آٹھ بجے تھے اور کیپٹن فیا ض بے چینی سے ٹہل رہا تھا
۔ با ر با ر فو ن کی طر ف اس طر حدیکھتا جیسے کسی کا منتظر ہو ۔ دفعتہّ فو ں کی
گھنٹی بجی اور وہ تیز ی سے اس کی طر ف جھپٹا ۔
"ہیلو!"
"کو ن ہے ؟" دوسر ی طر ف سے آواز آئی ۔
"او ہ کر نل صا حب !" فیا ض جلد ی سے بو لا ۔
"فیا ض !"
"کچھ پتا لگا آپ کے انسپکٹر کا ؟"
"تلا ش جا ری ہے جنا ب ۔ ہمیں خو د تشو یش ہے !"
"اُسے میرا پیغا م کس و قت ملا تھا ؟"
"جیسے ہی وہ فتر آیا تھا ۔ کو ئی سا ڑھے نو بجے کی نا
ت ہے !"
"اُس کے معد سے اُس کی نقل وحر کت کے با رے میں آپ کے
پا س کیا اطلا عا ت ہیں ؟"
"گیا رہ بجے وہ وفتر سے نکل گیا تھا !"
"کہا ں گیا تھا ؟"
"رو ا نگی ک پو ر ٹ لکھے بغیر آفس سے نکلا تھا ؟"
"کیا یہی طر یقہ را ئج ہے آپ کے دفتر میں ؟"
"جی نہیں ۔ با ت درا صل یہ ہے کہ روانگی کی پو ر ٹ
اُسی وقت دوج کی جا تی ہے جب کسی سر کا ری کا م کے لیے روانگی ہو تی ہے ۔ بجی ضر
ورت کے تحت جا نا ہو تو عمو ما یو نہی چلے جا تے ہیں !"
"کیپٹن فیا ض ، انسپکٹر شا ہد کا اس طر ح غا ئب ہو جا
نا آپ لو گو ں کو د شوا ری میں تھی مبتلا کر سکتا ہے !"
"میں سمجھتا ہو ں جنا ب ۔ یقینا اُسے کو ئی حا د ثہ
پیش آیا ہے ورنہ اس طر ح غا ئب ہو جا نے کا سوا ل ہی نہیں پیدا ہو تا !"
"کیا اُس معا ملے میں آپ سے اُس کی تفصیلی گفتگو ہو ئی
تھی ؟"
"جی ہا ں !"
"تو آپ کو اس کا علم ہو گا کہ سنگ زا د پر پتھر کی بتد
ا کیسے ہو ئی تھی ؟"
"جی ہا ں ۔ اُس نے مجھے بتا یا تھا !"
"اور یہ بھی بتا یا ہو گا کہ اُسے اس کا علم کس سے ہو
ا تھا ؟"
"جی ہا ں ، اُسی لا نڈی کے ایک دھو بی سے جس کا نا م
سید و ہے !"
"اچھی با ت ہے ۔ جیسے ہی انسپکٹر شا ہد کا سُر ا گ ملے
مجھے مطلع کیجئے گا !"
'بہت بہتر جنا ب !" فیا ض نے کہا اور دو سر طر ف سے
را بطہ منقطع ہو نے کی آواز سن کر ریسیو ر کر یڈ ل پر رکھ دیا ۔
فو ر اہی پھر گھنٹی بجی اور اُس نے جلدی سے ریسیو ر اُٹھا
لیا ۔ دوسری طر ف سے بو لنے وا لے کی آوا ز سن کر طو یل سا نس لی اور بھر ا ئی ہو
ئی آواز میں بو لا ۔ "خدا کا شکر ہے کہ تم ز ندہ ہو ۔ چھ بجے سے اس وقت تک
کئی با ر رِ نگ کر چکا ہو ں !"
"کیا کسی فقیری نسخے کی ضرورت پیش آگئی ہے ؟ "
دوسری طر ف سے پو چھا گیا ۔
"سنو ، میں بکو اس سننےکت مو ڑ میں نہیں ہو ں !"
فیا ض نے جھنجھلا کر کہا ۔ "سنجید گی سے
میر ی با ت سنو !"
"بیا ن جا ری رکھو ۔ جب سے مر کر دوبا رہ زندہ ہو ا ہو
ں سنجید گی کے ما رے بُر ا حا ل ہے !"
"تم اس سے انکا ر نہیں کر سکتے کی گیا رہ اور با رہ
بجے کے میا ن انسپکٹر شا ہد تمہا رے پا س تھا !"
"انکا ر کیو ں کر و ں گا ۔ شا ہد ہی تھا شا ہد تو نہیں
تھی !"
"وہ تمہا رے پا س کیو ں گیا تھا ؟"
"ایک کلو ا مر تیا ں بھی لا یا تھا سلیما ن کے لیے
!"
"میں پو چھ
رہا ہو ں کیو ں گیا تھا تمہا رے پا س ؟"
"تمہا را کیا خیا ل ہے کہ کیو ں آ یا ہو گا ؟"
"میں نہیں جا نتا ۔ تم سے پو چھ رہا ہو ں !"
"اس لیے آیا تھا کہ اُس کا ا فیسر با لکل چغد ہے ۔
اُسے یہ نہیں بتا سکا تھا کہ آئی ایس آئی والو ں کو سنگ زاد کے تعا قب کی وجہ کیا
بتا ئے گا ؟"
"یہ میں بتا تا اُسے ۔ دیکھو عمرا ن ہو ش کے نا خن لو
۔ میں نے ابھی تک کر نل فیضی کو یہ نہیں بتا یا کہ وہ دفتر سے نکل کر تمہا رے پا س
گیا تھا !"
"آخر با ت کیا ہے ؟"
" وہ غا ئب ہو گیا ہے ۔ مقر رہ وقت پر کر نل فیضی کے
پا س نہیں پہنچا ۔ کر نل فیضی مجھ سے اس کی نقل حر کت کا چا رٹ طلب کر رہا ہے
!"
"تو کیا وا قعی یہ کو ئی بہت اہم معا ملہ ہے ؟"
"میں نہیں جا بتا لیکن آئی ایس آئی وا لو ں کی بے چینی
سے تو یہی ظا ہر ہو تا ہے !"
"بہر حا ل تم دشوا ری میں پڑ گئے ہو !" عمرا ن کی آواز آئی ۔
"قطعا نہیں ۔ اگر میں کر نل فیضی کو یہ بتا دو ں کہ
دفتر سے نکل کر کہا ں گیا تھا !"
"کیو ں نہیں بتا دیا ؟"
"محض اس لیے کہ کہیں تمہیں پھر نہ غر ق ہو نا پڑ جا ئے
!"
"کیو ں حا نک رہے ہو ؟"
"اچھا تو کیا مجھے علم نہیں ہے کہ آئی ایس آئی وا لوں
سے پیچھا چھڑا نے ہی کے لیے تم جو ر ف سمیت غر ق ہو گئے تھے ؟"
"بہت با خبر ہو تے جا رہے ہو !" عمرا ن نے کہا ۔
"اچھی با ت ہے تو تم اُن لو گو ں سے اپنا پیچھا چھڑا لو !"
"یعنی کر نل فیضی کو آگا ہ کر دو ں کہ شا ہد تم سے ملا
تھ ؟"
"نا لکل آگا ہ کردو !" عمرا ن نے کہا اور رابطہ
منقطع ہو نے کی آواز آئی ۔
فیا ض نچلا ہو نٹ دا نتو ں میں دبا ئے ریسیو ر کو گھو ر تا
رہ گیا ۔ پھر اُس نے یڈ ل دبا کع شا ید کر نل فیضی ہی کے نمبر ڈا ئل کیے تھے ۔
دوسری طر ف سے فو راً ہی جو اب ملا ۔
"کیپٹن فیا ض سر !"
"کیا خبر ہے ؟"
"نارہ بجے تک وہ مسٹر علی عمرا ن کے سا تھ رہا تھا ۔ مسٹر
علی عمرا ن ہما رے ڈائرکٹر جنر ل صا حب کے فر زند ہیں !"
'اس کے بعد ؟"
"مسٹر علی عمرا ن نے لا علمی ظا ہر کی ہے !"
" اچھی با ت ہے !" دوسری طر ف سے آواز آئی ۔
" ہم خو د دیکھ لیں گے ۔ آپ بر ی الذمہ !"
"شکریہ جنا ب !"
دوسری طر ف سے را بطہ منقطع ہو گیا ۔ فیا ض کے ہو نٹو ں
پر مسکر ا ہٹ تھی ۔
6
عمرا ن کی ٹو سیٹر سلطا ن کی کو ٹھی کی کمپا ؤنڈ میں دا خل
ہو ئی ۔ انہو ں نے اُسے فو ری طو ر پو طلب کیا تھا ۔ فیا ض کی کا ل سلسلہ منقطع ہو
تے ہی فو ن پر اُن کی کا ل آئی تھی اوت عمرا ن فو راً روانہ ہو گیا تھا ۔
سر سلطا ن اُس کے منتظر تھے ۔ اس پر نظر پڑتے ہی بو لے ۔
" تم نے آج کا اسٹا رد یکھا ؟"
عمرا ن کھو پڑی سہلاتا ہو ا بیٹھ گیا ۔ پھر بو لا "جی نہیں !میں نے تو نہیں دیکھا لیکن شا
ید آپ بھی سنگ زاد ہی کے سلسلے میں پو چھ رہے ہیں !"
"آپ بھی سے کیا مرا د ہے ۔ کیا پہلے بھی کو ئی پو چھ
چکا ہے ؟"
"آئی ایس آئی والے بھی اُسی کے چکر میں ہیں !"
"اگر نہ ہو ں تو مجھے حیر ت ہو گی !" سر سلطا ن
نے کہا ۔
"لیکن آپ کو بہت دیر میں خیا ل آیا ہے ۔ اس وقت را ت
کے بو بجے ہیں ۔ آئی ایس آئی و الے تو صبح ہی سے حر کت میں آگئے تھے !"
"میں ہر ایک کا صو رت آشنا تو نہیں ہو ں ، جب محکمے کے
ایک ذمہ دار فر د نے اس کی طر ف تو جہ دلا ئ تو مجھے حا لا ت کا علم ہو !"
"قصہ کیا ہے ؟"
"یہ شخص جو خو د کو سنگ زا د کہتا ہے افریقہ کے ایک
ملک میں ہما رے سفا ر ت خا نے کا فو جی اتا شی تھا ۔اصل نا م شہزاد ہے ۔ وہا ں سے اچا
نک غا ئب ہو گیا ۔ اس کی تحویل میں کیر ے محکمے کے بھی کچھ کا غذا ت تھے جب کا آج
تک پتا نہ چل سکا !"
کب کا وا قعہ ہے
؟"
" دو سا ل پہلے کی با ت ہے ۔ میر ے محکمے سے تعلق رکھنے وا لے کا غذات بے حد اہم تھے ۔
اور کئی ملکو ں سے تعلقا ت پر ا ثر اندا ز ہو سکتے تھے ۔ اگر آئی ایس آئی وا لے
بھی چو نک پڑے ہیں یقین کر و کہ یہ شخص کر نل شہزا د کے علا وہ اور کو ئی نہیں ہے
!"
"پتا نہیں کب سے وہ یہیں مقیم ہو!" عمرا ن نے کہا
۔ "لکن ہمیں پتا اُس وقت چلا جب اُس پر پتھر اؤ ہو نے لگا !"
"اچھا تو پھر … ؟"
"اور پتھر اؤ بھی خوا ہ مخواہ … نہ وہ پا گل پن
کی حر کتیں کر تا ہے اور نہ کسی سے کو ئی غر ض رکھتا ہے !"
" کہنا کیا چا ہتے ہو … ؟"
"خا ص طو ر پر ہما ری تو جہ اس کی طر ف مبذ و ل کر و
ئی گئی ہے !" عمرا ن نے کہا اور انہیں بتا نے لگا کہ سنگ با ری کی ابتدا کیسے
ہو ئی تھی ۔
"بڑی عجیب با ت ہے اور اُس پع اس سنگ باری کا کو ئی
اثر بھی نہیں ہو تا اور وہ یا دداشت بھی کھو بیٹھا ہے ۔ اپنے با رے میں کچھ بھی
نہیں جا نتا !"
"جا نتا ہو تا تو کر نل سے دھو بی کیو ں بن کا تا ۔
بہر حا ل اُس کی طر ف تو جہ مبذ ول کرا نے ہی کے لیے ایسا کیا گیا ہے !"
"کس نے کیا ہے اور کیو ں ؟"
" یہی دیکھنا پڑ ے گا ۔ اس شخص کا پتہ نہیں چل سکا جس
نے ایک بچّے کو پا نچ کا نو ٹ دے کر پتھر ما رنے کی تر غیب دی تھی !"
"کیا تم نے معلو م کر نے کی کو شش کی تھی ؟"
"میں نے تو اس سلسلے میں ابھی کچھ کیا ہی نہیں ۔ انسپکٹر شا ہد کا بیا ن ہے کہ
سید و دھو بی اُس شخص کی نشا ند ہی نہیں کر سکا تھا !"
"بہر حا ل اب تمہیں بھی کر نا ہے !"
"یہ بہت اچھا ہو ا کہ ہم سے بھی اس کا کچھ نہ کچھ تعلق
پیدا ہی ہو گیا ورنہ کر نل فیضی خو اہ مخواہ سر ہو تا !"
"کیا قصہ ہے ؟"
عمرا ن اُسے کیپٹن فیا ض کی کا ل سے متعلق بتا تا ہوا بو لا
۔" اب میں ذرا گھر فو ن کر کے معلوم کروں کی کو ئی خا ص واقعہ تو پیش نہیں
آیا ۔ میرا مطلب یہ ہے کہ فیا ض کی زبا ن سے میرا نا م سنتے ہی کر نل فیضی آپے سے
با ہر ہو گیا ہو گا !"
"فکر نہ کر و ۔ ان لو گو ں سے میں نپٹو ں گا !"
عمرا ن نے فو ن پر فلیٹ کے نمبر ڈا ئل کیے اور دوسر ی طر ف
سے سلیما ن کی آواز آئی ۔ ' نیچے ایک جیپ کھڑی ہو ئی ہے اور سٹنگ روم میں ایک کپتا
ن صا حب تشر یف فر ما ہیں !"
"کیو ں تشر یف فر ما ہیں ؟"
'آپ کا انتظا ر کر رہے ہیں !"
"اچھا سُن ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تجھ سے پو چھیں کہ کس کی
کا ل تھی ، اُن سے کہہ دیجو کہ صا حب کی ایک گر ل فر ینڈ خیر یت دریا فت کر رہی
تھی !"
' اور وہ نہیں دھر ے ہیں گے ؟"
"فکر نہ کر ۔ اس کا بھی انتظام ہو جا ئے گا ۔ فی لحا ل اُن سے پو چھ لے کہ چا ئے پئیں گے
یا کا فی !"
'ٹھنڈاپا بی پہلے ہی پی چکے ہیں !"
'بس بکو اس بند !" کہہ کر عمرا ن نے ریسیو ر کر یڈل پر
رکھ دیا اور سر سلطا ن کی طر ف مُڑکر بو لا ۔کر نل فیضی کے آدمی وہا ں پہنچ گئے
ہیں !"
"تمہا رے فلیٹ میں ؟"
"جی ہا ں !"
"ٹھہر و… میں دیکھتا ہو ں !"سر سلطا ن نے کہا اور فو ن پر کسی کے ڈا ئل کر کے کہا ۔
کر نل فیضی پلیز !"
"گھر پر ہو ں گے !" دوسر ی طر ف سے آواز آئی ۔
"گھر ہی پر ملا ؤ !"
"یو ر آئیڈ پلیز ؟"
"سکر یٹر ی بر ا ئے مو ر خا ر جہ !"
"ہو لڈ آن کیجئے جنا ب !"
تھو ڑی دیر بعد دوسری طر ف سے آواز آئی ۔ فیضی !"
"میں سلطا ن ہو ں !"
"فر ما ئیے ، میں کیا ضد مت کر سکتا ہو ں ؟"
"آپ کو مطلع کر نا ہے کہ علی عمرا ن با قا عدہ طو ر پر
وزارت خا ر جہ کے لیے کا م کر تا ہے اور سنگ زاد سے وزارت خا رجہ کو بھی اتنی ہی
دلچسپی ہو سکتی ہے جتنی آئی ایس آئی کو !"
"میں نہیں سمجھا ؟"
"کر نل شہزا د کی تحو یل میں ہما رے بھی کچھ کا غذ ا ت
تھے جب وہ غا ئب ہو ا تھا !"
"لیکن ابھی یقین کے سا تھ نہیں کہا جا سکتا کہ سنگ زا
د شہزا د ہی ہے !"
"مجھے اطلا ع ملی تھی کہ اس وقت آپ کے کچھ لو گ عمرا ن
کے فلیٹ میں مو جو د ہیں ؟"
'جی ہا ں ، مسٹر عمرا ن سے انسپکٹر شا ہد کے متعلق پو چھ
گچھ کر نی ہے !"
"وہ اس وقت یہیں میر ے پا س مو جو د ہے ۔ کیا میں اُسے
ریسیو ردوں ؟"
"بہت بہت شکریہ !"
سر سلطا ن نے ریسیو ر عمرا ن کی طر ف بڑھا دیا ۔ عمرا ن نے
ہو نٹ بھینچ کر عجیب سی شکل بنا ئی اور ما ؤ تھ پیس میں بو لا ۔ "ہیلو
!"
"مسٹر عمرا ن !"
فر ما ئیے ؟"
"انسپکٹر شا ہد آپ کے پا س سے کہا ں گیا تھا ؟"
" یہ تو نہیں بتا یا تھا اُس نے !"
"آپ کے پا س کیو ں آیا تھا ؟"
"آتا ہی رہتا ہے کو ئی خا ص با ت نہیں ۔ جب بھی پر نس سو ئٹ ما رٹ کی طر ف سے گز رتا
ہے ہما رے لیے امراتیا ں ضر و ر لا تا ہے
!"
"کیا سنگ زاد کے متعلق بھی کچھ گفتگو ہو ئی تھی ؟"
"ظا ہر ہے کہ کو ئی تھی کیو نکہ … !"
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے ۔ کیا ضو د سنگ زاد نے اُسے بتا یا
تھا کہ کسی نے کسی بچّے کو پتھر ما رنے کی تر غیب دی تھی ؟"
"میں نہیں سمجھا؟"
"سید و کہتا ہے کہ میں سنا تھا لیکن یہ یا د نہیں کہ
کس سے سنا تھا !"
"تب تو با ت
نہیں بنتی !"
"لیکن آخر شا ہد پر گرا م کے مطا بق آپ سے کیو ں نہیں
ملا ؟"
"یہی تشو یش کا با غث ہے !"
"کیا یہ ممکن نہیں کہ کس نے اُ سے را ستے سے ہٹا نے کی
کو شش کی ہو ؟"
"آخر کیو ں ؟"
"ہو سکتا ہے مقصد یہی ہو کہ وہ آپ نہ مل سکے !"
" میں سمجھتا ہو ں ۔ آپ کہنا کیا چا ہتے ہیں ؟"
" وہ شخص اس سلسلے میں اہم ہے جس نے سنگ با ری کی تر
غیب دی تھی !"
"بہر حا ل اگر ہم آپس میں معلو ما ت کا تبا دلہ کر تے
رہیں تو دونو ں کے لیے بہتر ہو گا !"
'میرا بھی یہی خیا ل ہے !"
'شکر یہ ۔ ضرورت پڑنے پر میں آپ سے رابطہ قا ئم کر و ں گا
!"
"ہمہ و قت !"عمرا ن نے با ئیں آنکھ دبا کر کہا او
ردوسری طر ف سے را بطہ منقطع ہو نے کی آواز سن کر ریسیو ر رکھ دیا ۔
"میر ا خیا ل ہے کہ تمہا را رو یہ درست تھا !" سر سلطا ن مسکر ا کر بو لے ۔
عمرا ن کچھ نہ بو لا ۔ اس کی آنکھو ں میں گہر ی تشو یش کے
آثا ر پا ئے جا تے تھے ۔ تھو ڑی دیر بعد
اُس نے کہا ۔ "اگر کو ئی پا رٹی سنگ زاد کی تشہیر ہی کر نا چا ہتی ہے شا ہد
کے غا ئب ہو جا نے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے ؟"
"شا ہد تم نے بھی کہا تھا کہ وہ کر نل فیضی کا سا منا
نہیں کر نا چا ہتا تھا !" سر سلطا ن بو لے ۔
"یہ با ت تو نہیں تھی ۔ دراصل وہ تعا قب کا کو ئی جو
از چا ہتا تھا اور مجھ سے گفتگو کر نے کے
بعد خا صا مطمئن ہو گیا تھا ۔ بہر حا ل اپنے نلتئہ نظر سے ہمیں فی الحا ل اُس فر د
کو تلا ش کر نا چا ہتے جس نے کسی بچّے کو تر غیب دی تھی … اس کے لیے سب
سے پہلے ُس بچّے کو تلا ش کر نا پڑے گا
!"
"اُس بچّے کو تو وہ جا نتا ہی ہو گا ؟"
"جی نہیں ، سید و دھو بی نے اُس کے با رے میں بھی سنا
ہی تھا !"
"خا صا د شو ار مسئلہ ہے !"
7
سید و دھو بی کی کھو پڑ ی نا چ کر رہ گئی ۔ پتا نہیں کتنے
لو گ اُس پو چھ گچھ کر چکے تھے اور آخر تنگ آکر اُس نے ہر ایک سے کہنا شروع کر دیا
تھا کہ وہ کچھ نہیں جا نتا ۔ سنگ زاد کا معاملہ ہے اُسی سے پو چھو جا کر ۔
لانڈری سے دونو ں سا تھ ہی نکلے تھے اور یہ اپنی جھو نپڑ یو ں کی طر ف چل پڑے تھے ۔
"او بھا ئی سنگ زاد ۔ آخر یہ کیا چکر ہے ؟"سید و
نے کہا ۔
" میں کیا جا نو ں بھا ئی !"
"ایسے لو گو ں نے تمہا رے با رے میں پو چھا ہے کہ کیا
بتا ؤں !"
"اخبا ر میں تصو یر چھپنے کی وجہ سے !"
"تصو یر یو ں چھپی ہے کہ تمہا رے چو ٹ نہیں لگتی ۔ ہما
ری تصو یر تو چھا پ دے کو ئی ما ئی کا لا ل !"
"یہ چو ٹ آخر کیا ہو تی ہے ؟"
"ہا ئیں … تم چو ٹ بھی نہیں جا نتے ؟"
"نہیں بھا ئی !"
" کیا وا قعی پتھر کے ہو ؟"
"پتا نہیں !"
"کچھ یا د کر و کہ تم کو ن ہو ۔ کہا ں سے آئے ہو ۔
تمہا رے آگے پیچھے بھی کو ئی ہے یا نہیں ؟"
"پتا نہیں بھا ئی
!"
"کیا آسما ن
سے ٹیکے ہو ؟"
"مجھے نہیں معلو م !"
اند ھیر ا ہو گیا تھا اس لیے وہ دو نو ں سکو ن سے چلے جا
ررہے تھے ۔ اس و قت بچّے ان پر پتھر اؤ نہیں کر رہے تھے لیکن ہو ش مند و ں کی ایک
بھیڑ اُن کے پیچھے چل رہی تھی ۔ اکثر لو گو ں نے سنگ زاد سے گفتگو بھی کر نی چا ہی
تھی لیکن وہ کسی کی طر ف متو جہ نہیں ہو ا تھا ۔
اس طر ح وہ اپنی جھو نپڑیو ں تک پہنچ گئے تھے ۔ سنگ زاد چپ
چا پ جھو پنڑی کے اند ر چلا گیا اور سیدو اُس آدمی سے اُلجھ پڑ ا جو شا ید اس کی
جھو پنڑی کے قر یب اُس کا منتظر تھا ۔
"میں کچھ نہیں جا نتا !" وہ دو نو ں ہا تھ اُٹھا
کر بو لا ۔ جا ؤ اُسی سے پو چھو جو کچھ پو چھنا ہو !"
"اُس کے پا س تو ایک ہی جواب ہے کہ وہ کچھ نہیں جا نتا
!" اجنبی نے کہا ۔
اس طرح وہ اپنی جھونپڑیوں تک پہنچ گئے تھے۔ سنگ زاد چپ چاپ
جھونپڑی کے اندر چلا گیا اورسید و اُس آدمی سے اُلجھ پڑا جو شاید اس کی جھونپڑی کے
قریب اُس کا منتظر تھا۔
"میں کچھ نہیں جانتا؟ وہ دونوں ہاتھ اُٹھا کر بولا ۔
"جاؤ اُس سے پوچھو جو کچھ پوچھتا ہوا!
" اُس کے پاس تو ایک ہی جواب ہے کہ وہ کچھ نہیں
جانتا؟‘ اجنبی نے کہا۔
تو پھر کیا میں اُس کا با والگتا ہوں کہ مجھے معلوم ہوگا ؟“
" اُس کے پڑوسی اور مددگار تو ہو!“
جب وہ اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتا تو میں کیا جانوں گا ؟“
" کبھی کوئی اس سے ملنے بھی آتا ہے؟"
جی نہیں۔ دیکھئے میں بہت تھکا ہوا ہوں ۔ مجھے معاف کر دیجئے
!
" سنو... میرا تعلق پولیس سے ہے!“
"ایک پولیس والے صاحب تو لانڈری ہی میں پو چھ کچھ کر چکے ہیں
۔ اس کے بعد تو اخبار میں اس کی تصویر چھپی ہے!"
"ٹھیک ہے ۔ میں دوسری طرح کے سوال کروں گا
"کیجئے
صاحب ! دو گروہ کی آواز میں بولا۔
"یہاں اس بستی میں اُسے کون پہنچا گیا تھا ؟“
کوئی بھی نہیں۔ خود ہی آیا تھا ر کی جگہ تلاش کرتا ہوا!"
" لانڈری سے آنے کے بعد وہ کیا کرتا ہے؟"
"پکاتا کھاتا ہے اور پڑ رہتا ہے " کہیں گھومنے پھرنے بھی
نہیں جاتا ؟ "
"جی نہیں۔ میں نے تو کبھی نہیں دیکھا۔ جھونپڑی سے لانڈری اور
لانڈری سے جھونپڑی! " تم نے کسی شخص سے اس آدمی کے بارے میں سنا تھا جس نے کسی
بچے کو پتھر مارنے کی ترغیب دی تھی ؟
"یہی تو یاد نہیں آتا!" وہ پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔
” چلو یہی بتا دو
کہ بچہ کون تھا ؟“
"مجھے یہ بھی نہیں معلوم جناب !“
" کیسے معلوم ہوگا ؟"
"کل صبح آ جائے اور اُن بچوں سے معلوم کرنے کی کوشش کیجئے جو
اُ سے پتھر مارا کرتے ہیں؟“
"ہاں شاید اس طرح معلوم ہو جائے۔ اچھا سید و صاحب بہت
بہت شکریہ اجنبی نے کہا اور آگےبڑھ گیا۔
"سید و صاحب !" سیدو نے آہستہ سے دہرایا اور ”صاحب“ کی
لذت میں کھویا ہوا جھونپڑی میں داخل ہوا۔
"کون تمھارے؟“ اس کی بیوی نے پوچھا۔
"ارے وہی پوچھنے والے چلے ہی آرہے ہیں؟“
"کیا پوچھ رہا تھا؟“
"اس لونڈے کے بارے میں پوچھ رہا تھا جس نے اُسے پہلا پتھر
مارا تھا !"
"تو بتا کیوں نہیں دیا ؟"
"میں کیا جانوں کون خدائی خوار تھا !“
"میں تو جانتی ہوں!"
"کون تھا ؟" سید و اُچھل پڑا۔
"ہوتا کون ۔ وہی شِدّے کا لونڈا… گامو !"
" ارے نہیں !"
"ہاں ہاں، اس کی چاچی نے مجھے بتایا ہے!"
سید و الٹے پاؤں باہر بھاگا کہ اجنبی کو اس سے آگاہ کر دے۔
در اصل هذے سے اُس کی بہت پرانی دشمنی چلی آرہی تھی۔ اُس نے سوچا یہ بہترین موقع
ہے۔ پولیس والے سالے کو پریشان کر ڈالیں گے۔ آخر کار پلیا کے قریب اُس نے اجنبی کو
جالیا۔
"ز کئے جناب …ظہر کیے جناب ! اس نے
کسی قدر فاصلے ہی سے اُسے آوازیں دینی شروع کر دیں۔ اجنبی رک کر اس کی طرف مڑا ۔
"
" آپ کے …چلے آنے… کے… بعد… میری گھر والی
نے بتایا!" وہ ہانپتا ہوا بولا۔
"اچھا… اچھا کیا بتایا؟"
"شدّے کے لونڈے گا موکو کسی نے پانچ روپے دے کر پھر مر دایا
تھا۔“
شدّے کون ہے؟“
دھوبی ہی ہے… جناب ! میرے
گھر کے پاس رہتا ہے۔ اس کا لونڈا ہے گامو۔ باپ ہی کی طرح حرامی ہے!"
"اچھا.. اچھا... میں دیکھوں گا !"
"ابھی دیکھ لیجئے۔ اس وقت باپ بیٹا دونوں جھنگی ہی میں ہوں گے
لیکن جناب میرا نام نہ معلوم ہونے پائے!“
"نہیں نہیں سیز و صاحب، بھلا ایسا بھی کیا۔ اُسے ہر گز
یہ نہیں معلوم ہونے پائے گا کہ اُس کا نام آپ نے لیا تھا؟“
اجنبی پھر جھونپڑیوں کی طرف مڑ گیا اور سیدو وہیں کھڑا
سوچتا رہا۔ آخر یہ کیسا پولیس والا ہے۔ اتنا نرم مزاج اور صورت ہی سے یتیم لگتا
ہے۔ یتیم نہیں بے وقوف ۔ صورت ہی سے بے وقوف لگتا ہے۔ ابے کہیں خفیہ پولیس والا نہ
ہو۔ خفیہ پولیس میں تو ایسے ہی آدمی رکھے جاتے ہوں گے جو صورت سے پولیس والے نہ لگیں
۔ بالکل بے وقوف معلوم ہوں ۔ آگئی شامت سالے شدّے کی ۔
8
ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور عمران نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور
اُٹھالیا ... دوسری طرف سے کرنل فیضی کی
آواز آئی۔
"معلومات کے تبادلے کی بات ٹھہری تھی ! "عمران نے
کہا۔
"ہمارے پاس فی الحال کوئی خاص اطلاع نہیں ہے!"
تو پھر تبادلہ کیسے ہوگا کرنل صاحب ؟"عمران نے کہا ۔
"تو اس کا یہ مطلب ہوا مسٹر عمران کہ آپ کے پاس کوئی
اطلاع ہے؟“
"بالکل ہے۔ لیکن پہلے آپ ...!"
"مسٹر عمران ...!"
"کر نل پلیز ۔ میرپا س کو ئی اہم اطلا ع نہیں ہے لیکن
ایک تجو یز ضرور ہے !"
"کیسی تجویز ؟"
"سنگ زاد کولانڈری سے کسی تجربہ گاہ میں منتقل کر دیا جائے !"
" اس سورت میں وہ لوگ ہاتھ میں آسکیں گے جنہوں نے اس کی
پلیٹی کرائی ہے۔ اس میں پا دیکھنا ہے کہ اُس کی اس انداز میں واپسی کیا معنی رکھتی
ہے!“
"اچھا اگر وہ اس دوران میں غائب ہو گیا تو ...؟"
" مشکل ہے۔ غائب ہو جانے کے بعد بھی ہمارے علم ہی میں
رہے گا !"
"ٹھیک ہے تو پھر نئے۔ اطلاع یہ ہے کہ اس شخص کا نام اور پتا
معلوم ہو گیا ہے جس نے پہلے بچّے کوپتھر مارنے کی ترغیب دی تھی !"
"گڈ کون ہے؟"
" جہانگیر نامی ایک جگلر ہے۔ زیادہ تر سڑکوں کے کنارے
مجمع لگا کر دوائیں بیچتا ہے۔ بورانی اسٹریٹ کی عمارت رانی لاج کے فلیٹ نمبر بائیس
میں رہتا ہے!"
"آپ نے اُس سے کیا معلوم کیا ؟“
"فیچر شائع
ہونے پر گیارہ بجے کے بعد سے اس کی نقل و حرکت کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہو
سکا۔ ساڑھے دس بجے کے قریب وہ بوراجی اسٹریٹ کے مستان ہوٹل میں تھا۔ وہاں سے نکل
کر گورا میڈیکل اسٹور میں گیا تھا جہاں سے اس نے کسی کو فون کال کی تھی !“
"پھر اس کے بعد ؟"
"اس کے بعد بلیک آؤٹ کوئی بھی ایسا نہیں مل سکا جس سے اس کے
بعد کی نقل و حرکت کےبارے میں معلوم ہو سکتا !"
"شکریہ مسٹر عمران ۔ ذرا اس کا پتا دوبارہ بتائیے گا؟“
عمران نے جہانگیر کا پتہ دہراتے ہوئے کہا۔ " فلیٹ مقفل
ہے اور اُس کا کوئی پڑوسی بھی اس کےبارے میں کچھ نہیں بتا سکا !"
" ہم دیکھیں گے ، کرنل فیضی نے کیا اور رابطہ منقطع ہونے کی
آواز آئی۔
عمران ریسیور کریڈل پر رکھ کر صفدر کی طرف مڑا۔
" آپ نے جلد بازی سے کام لیا ہے ! " صفدر نے کہا۔
کیسی جلد بازی ؟"
"ابھی پتا نہ بتانا چاہئے تھا۔ پہلے ہم اُس کے فلیٹ کی
تلاشی لے لیتے !"صفدر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
" کیا تم مجھے بہت عقل مند سمجھتے ہو؟ عمر ان آنکھیں
نکال کر بولا۔
"اپنی باتیں آپ خود ہی جانیں !"
"میں پچھلی رات ہی کو سارے مراحل سے گزر چکا ہوں !"
" کیا مطلب؟"
"پچھلی شام کو اُس لڑکے کا سراغ مل گیا تھا۔ اُس نے جہانگیر کی
نشاندہی کی اور میں اُس کے فلیٹ جا پہنچا اور دو بجے شب کو فلیٹ کی تلاشی لے کر
اُسے دوبارہ مقفل کر چکا تھا !“
" کچھ ملا؟"
"یقینا یہ دیکھو! عمران نے جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر
صفدر کو تھما دیا جس پر تحریر تھا:ٹِڈا "88371..."
"یہ کیا ہے؟‘ صفدر نے حیرت سے کہا۔
" تم بتاؤ!"
"میں کیا بتاؤں۔ پڑا اور یہ ہند سے بھلا کیا بات ہوئی ؟“
"ٹھہرو، ایک نوٹ بک بھی ملی تھی ! عمران نے پھر جیب میں ہاتھ
ڈالتے ہوئے کہا۔ " اس میں کچھ
یادداشتیں تحریر ہیں جنہیں پڑھ کر شاید تم کسی نتیجے پر
پہنچ سکو! "
نوٹ بک کھول کر ایک
صفحہ صفدر کے سامنے کر دیا۔
"لاحول ولا قوة !‘ صفدر ہنس پڑا اور پھر تحریر کو بہ آواز
بلند پڑھنے لگا۔ " بکرے کے ذمہ ساڑھے چار روپے۔ مرغا پلاس پے گیا تھا ابھی تک
واپس نہیں کیا۔ گلہری کے ذمہ سات روپے ۔ ٹیچ بٹن کے ڈیڑھ روپے دیتے ہیں۔ بھینسا نیچی
لے گیا ہے"
"لیکن بھینسا قیچی لے گیا ہے کو قلم زد کر دیا گیا ہے!"
اس نے عمران کی طرف دیکھ کر کہا۔
"ممکن ہے
بھینا تینی واپس کر گیا ہو!" عمران نے جواب دیا۔
" میں نہیں سمجھا ؟"
"قینچی واپس مل جانے پر اس نے اسے قلم زد کر دیا ہوا!"
"یہ آخر ہے کیا بلا ؟
"تم اپنے ایک پڑوی کو نبولا کیوں کہا کرتے تھے ؟"
"اوہ تو یہ بات ہے!"
"اچھا بھلا آدمی تھا بے چارہ لیکن کسی وجہ سے اسے تم نیولا
کہتے تھے !"
" راہ چلتے بالکل نیولوں کی طرح پلٹ پلٹ کر دیکھا کرتا
تھا خواہ مخواہ !
"بعض لوگ اس طرح کی کچھ علامتیں مقرر کر لیتے ہیں اور اپنے
شنا ساؤں کو اُن بھی علامتوں کےحوالے سے یاد کرتے ہیں ۔ جہانگیر میں یہ مرض کچھ زیادہ
ہی شدت اختیار کر گیا ہے!“
"بکرے، مرغے اور نگہری سے تو شاید ہماری ملاقات نہ ہو
سکے لیکن میڈ انشا ید مل جائے ، اس صورت میں کہ اگر یہ اس کے فون نمبر ہوئے !
"یہ ہند سے !"
"ہاں، یہ فون نمبر بھی ہوسکتے ہیں اور جس کے فون نمبر ہوں وہ
جہانگیر کونڈے سے مشابہ لگتا ہو!"
"ضروری نہیں کہ فون نمبر ہی ہوں!"
"دیکھ لینے میں کیا حرج ہے!" عمران نے کہا اور پھر فون کی
طرف پلٹ گیا۔ نمبر ڈائل کیے۔ ریسیورکان سے لگایا۔ دوسری طرف سے گھنٹی بج رہی تھی ۔
دفعہ آواز آئی ۔ ڈاکٹر فوریل کی قیام گاہ !“
"سوری… رانگ نمبر!" کہہ کر عمران نے رابطہ
منقطع کر دیا۔
"کیا واقعی کسی کے فون نمبر ہی تھے ؟ صفدر نے پوچھا۔
"بالکل… کسی ڈاکٹر
فریل کے گھر کے نمبر ! عمران نے کہا۔ "اور اب تم یہ معلوم کرو گے کہ جس عمارت
کا یہ فون نمبر ہے وہ کہاں واقع ہے اور یہ ڈاکٹر فوریل کون ہے اور کیا اس عمارت میں
کوئی ایسا فرد بھی موجود ہے جس پر نڈے والی علامت فٹ ہو سکے!“
" کتنا وقت دیں گے؟"
"دو گھنٹے کافی ہوں گے!"
"فون نمبر سے جگہ کی نشاندہی کے لیے زیادہ وقت چاہئے !"
"قطعی نہیں دس منٹ کی بات ہے!“
" آج یوں بھی
چھٹی کا دن ہے !"
"شاید تم اونگھ رہے ہو!" عمران اُسے گھورتا ہوا بولا۔"
سائیکو مینشن کے آپریشن روم میں کبھی چھٹی نہیں ہوتی اور تم یہ بھی جانتے ہو سا ئیکو
مینشن اپنی اسپیشل ٹیلیفون ڈائرکٹری رکھتا ہے !"
"واقعی شاید میں اونگھ ہی رہا تھا۔ پارٹ تھری میں فون نمبروں
سے جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے!“
"پارٹ فور میں !"
"بہر حال ... !"صفدر طویل سانس لے کر بولا ۔ " میں
جلد سے جلد معلومات فراہم کرنے کی کوشش کروں گا!"
"میں یہاں ملوں گا یا کیپٹن فیاض کے گھر ۔ اُس کے فون نمبر تو
ہوں گے تمہارے پاس؟ "
"جی ہاں !
صندر اُٹھتا ہوا بولا ۔ ” کیا انسپکٹر شاہد ابھی تک نہیں پلٹا ؟“
"کوئی بڑا چکر معلوم ہوتا ہے۔ اُس کا سراغ ابھی تک نہیں
مل سکا ! "
"آخر کس قسم کا چکر ہو سکتا ہے؟“
عمران گھڑی دیکھتا
ہوا بولا ۔ " تم وقت ضائع کر رہے ہو!"
" واقعی ! " صندر اُٹھتا ہوا بولا اور فلیٹ سے
باہر نکل گیا۔
عمران نے سلیمان کو
آواز دی لیکن اُس کے بجائے گل رخ آئی۔
" تو سلیمان کب سے ہو گئی ہے؟" عمران نے حیرت سے
پوچھا۔
"وہ آرام فرما رہے ہیں۔ پچھلی رات سکنڈ شو میں تشریف
لے گئے تھے ؟
" آپ نہیں تشریف لے گئی تھیں ؟“
" اس کے ساتھ جاؤں گی۔ تھر ڈریٹ فلمیں دیکھتا ہے ۔ گوری
تلگوی جیسی کوئی فلم میں نے دیکھ لی تو
میرا کیا حال ہو گا !"
"حال تو واقعی مناسب نہ ہوگا لیکن آخر اس کا بھی تو دل چاہتا
ہوگا کہ تو اس کے ساتھ گھومنے پھرنےکے لیے جایا کرے!“
"بس!" وہ ہاتھ اٹھا کر بولی۔ " اپنی نصیحت اپنے پاس
ہی رکھئے !"
"جی بہت بہتر !" عمران نے بڑی سعادت مندی سے کہا۔
"کس لیے آواز دی تھی اُسے؟“
" یہ پوچھنے کے لیے کہ ٹانگوں والے مرغ بازار میں ابھی
آئے یا نہیں؟“
گُل رخ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس پڑی۔
" اس میں بننے کی کیا بات ہے؟"
"واقعی بہت دنوں سے آپ کو مرغ کی ٹانگیں نہیں ملیں ۔ وہ کہتا
ہے کہ اتنا بڑا آدمی ٹانگیں کیا کھائے گا اور ایک خود کھا لیتا ہے دوسری مجھے کھلا
دیتا ہے!"
" اتنا بڑا آدمی ... یہ کس کا ذکر ہے؟"
" آپ کا صاحب جی ! وہ لہک کر بولی۔
"اچھا!"
عمران اس سے بھی زیادہ خوش ہو کر بولا ۔ پورا مرغ تم دونوں کھالیا کرو۔ میں بھیک مانگ
کر گزارہ کرلوں گا !"
"خدا نہ کرے!"
" تم دونوں مجھے اتنا بڑا آدمی سمجھتے ہو تو اب یہی سہی! "
"میں ہر معاملے میں بے قصور ہوں۔ یہ سب کچھ وہی کرتا
ہے!"
" تجھ سے شادی بھی تو اُسی نے کی تھی !"
"بڑے سرکار کی دھونس تھی ورنہ میں تو اُسے جوتی پر بھی نہ
مارتی ۔ چودھری سلیمان …ہونہہ ۔ ایسے ہی َجٹ کے پلے باندھنا تھا تو پھر مجھے میٹرک
تک پڑھوایا کیوں تھا!"
"اتنے قابل آدمی کو جٹ کہہ کر کیوں اپنی عاقبت خراب
کرتی ہے!"
" قابل !" وہ ہنس پڑی۔
خیر… خیر… ہاں تو میں
باہر جارہا ہوں۔ میری کوئی کال آئے تو کہ دینا کہ میں لیکن… کیا کہ دینا! "عمران
خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا اور گل رخ بولی ۔ " کہہ دوں کہ اوور سیز فلائی کر
گئے ہیں ؟“
"نہیں بٹر فلائی پکڑنے گئے ہیں !"
"یہ آخر تتلی کو بٹر فلائی کیوں کہتے ہیں ؟ ہٹر کے معنی
میں مکھن اور فلائی مکھی کو کہتے ہیں۔ مکھن مکھی۔ کیا
بات ہوئی !"
"بڑا خوش قسمت ہے سلیمان کہ تو اس سے اتنے بے ڈھب سوال نہیں
پوچھ سکتی ! "عمران ٹھنڈی
سانس لے کر بولا۔
"یہ انگریز ہوتے ہی ہیں ہونگے! "
"اچھا اچھا… کہہ دیجیے کہ میں گھر پر نہیں ہوں ! "عمران
نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا اور باہر نکل آیا ۔ انسپکٹر شاہد کے سلسلے میں
اُسے بھی تشویش تھی لہذا وہ کیپٹن فیاض کی طرف چل پڑا۔ چھٹی کا دن تھا اس لیے گھر
ہی پر ملاقات ہو سکتی تھی۔ اُسے معلم تھا کہ وہ چھٹی کا دن گھر ہی پر گزارتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد اس کی ٹوسیٹر فیاض کے بنگلے کی کمپاؤنڈ میں
داخل ہوئی اور فیاض کا ملازم عمران کو دیکھ کر دوڑا آیا ۔
" صاحب ... اور بیگم صاحب تو موجود نہیں ہیں !" اس نے
اطلاع دی۔
" کیوں بکواس
کر رہا ہے!'' اُس کے عقب سے آواز آئی اور عمران چونک کر اُس طرف متوجہ ہو گیا۔
کرانے کی باڑھ کے پیچھے سے ایک چیرہ ابھرا تھا اور پھر وہ شخصیت پوری کی پوری
سامنے آگئی۔ یہ ایک ستر سالہ بوڑھا تھا۔ کلین شیو اور بے حد بھڑک دار رنگین شرٹ
اور گہری نیلی چلون میں کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ چہرے پر لاتعداد جھریاں تھیں لیکن
آنکھوں میں بچوں کی آنکھوں کی سی شوخی پائی جاتی تھی۔
ملازم اس کی طرف مڑا اور اُس نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
" تم ہر ایک کو یہی اطلاع دے کر
"رخصت کر دیتے ہو!"
"پھر کیا کروں جناب ؟"
"ہو سکتا ہے یہ مجھ سے ملنے آئے ہوں... کیوں جناب؟"
"حج… جی ہاں !" عمران ہکلا کر بولا اور اس
کے چہرے پر حماقتوں کے ڈونگرے برسنے لگے۔
"آئے… آئے …تو پھر اُتر آئے گاڑی
سے !"
جج…جی …بہت اچھا !"عمرا ن
نے سعادت مندانہ اندازمیں کہا اور گا ڑی سے اُتر آیا ۔فیاض کا
ملازم طویل سا نس لے کر پیچھے ہٹ گیا ۔ عمران کو اچھی طر ح پہچانتا تھا ۔بو
ڑھا ، عمران کو ڈرائنگ روم میں
لے آیا۔ " تشریف رکھئے ! اس نے عمران سے کہا۔
"م... مجھے افسوس ہے کہ نہیں لا سکا !
" کیا نہیں لا سکے؟“
"تت.. ترشیف"
"میں نے کہا تھا تشریف رکھئے یعنی کہ بیٹھ جائے!"
شکریہ… شکریہ۔ میری اردو کچھ گڑ بڑی ہے۔ بچپن ہی میں
انگلستان بھیج دیا گیا تھا!“
اوہ… اچھا اچھا… ! "بوڑھا
مسکرا کر بولا ۔ " میں فیاض کا سسر ہوں !"
آپ مذاق کر رہے ہیں ! "عمران بے یقینی سے ہنس کر بولا۔
" کیا
مطلب؟" بوڑھا سیریس ہو گیا۔
عمران گڑ بڑا کر بولا ۔ " مم... مطلب یہ کہ آپ اتنے شریف
آدمی معلوم ہوتے ہیں سسر کیسے ہو سکتے ہیں ؟"
"جانتے بھی ہوسٹر کے کہتے ہیں ؟"
"شاید کچھ واہیات کی بات ہے کیونکہ میرا دودھ والا اپنے ملازم
کو ا بےسسرے کہہ کر مخاطب کرتا ہے!" "بکواس
، بعض جاہل لوگ الفاظ کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ سنٹر ، بیوی کے والد کو کہتے ہیں
!"
او ہو… تو آپ، بیگم فیاض کے والد ہیں !" عمران
خوشی کے اظہار میں اچھل پڑا اور بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرتا ہوا بولا ۔ " میں
معافی چاہتا ہوں جناب لیکن لفظ سٹر پر مجھے اب بھی اعتراض ہے۔ ارے نہا بیوی کے
والد کو تو سکندراعظم ہونا چاہئے !"
" کیا اب میرا مذاق اُڑاؤ گے؟"
"ہر گز نہیں جناب! "عمران دونوں ہاتھوں سے منھ پیٹتا ہوا
بولا۔" اور بیوی کی والدہ صاحبہ کیا کہلاتی ہیں؟"
" آپ کی بیوی کی والدہ صاحبہ کیا کہلاتی ہیں؟" بوڑھے نے
بھنا کر پوچھا۔
عمران نے شرما کر
نہ صرف سر جھکا لیا بلکہ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی انگلیاں بھی مروڑ نے لگا۔
"جواب نہیں دیا آپ نے؟“
جج… جی… ابھی میری شش شادی ہی نہیں ہوئی !"
اچھا اچھا!" بوڑھا اُسے خاصی دلچسپی سے دیکھتا ہوا
بولا ۔ ” بیوی کی والدہ کو خوش دامن کہتے ہیں!"
"ہاں یہ ٹھیک ہے۔ بالکل ٹھیک ہے لیکن آپ جیسا اسمارٹ اور ہینڈ
سم آدمی سسُر کہلائے یہ مجھے گوارانہیں ۔ خوش دامن ... واہ وا... میں تو اپنے ہونے
والے سٹر کو ہرگز سر نہیں کہوں گا۔ خوش پگڑی یا خوش ٹوپی کیسا رہے گا خوش دامن کی
مناسبت سے؟“
" تم دماغ سے اترے ہوئے تو نہیں ہو ؟" بوڑھا اُسے
گھورتا ہوا بولا۔
" جی نہیں ... بالکل نہیں !“
تم آخر ہو کون اور فیاض سے کیوں ملنے آئے ہو؟" بوڑھے
نے اُسے گھورتے ہوئے کہا اور پھر یک بیک چونک کر بولا ۔ " تمہارا نام عمران
تو نہیں ہے؟"
"آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟" عمران ایک بار پھر اچھل پڑا۔
" یار، تم سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ بے بی سے تمہارے
بڑے تذکرے سنے ہیں ؟"
"لیکن بات سر ہی پر ڑ کی رہے گی ؟"
"ختم بھی کرو۔ یہ لفظ مجھے بھی اچھا نہیں لگتا لیکن کیا کیجئے
کہ اپنے یہاں ہی رائج ہے!"
" چلئے آپ کہتے ہیں تو میں بعد افسوس اس موضوع کو ترک کرتا
ہوں !" بہت اچھا ہوا کہ تم آگئے ۔ شدت سے بور ہورہا تھا۔ یہاں آؤ تو کوئی بات
کرنے کو بھی نہیں ملتا۔ بے بی سرا کی کم سخن ہے اور رہے فیاض صاحب تو انہیں کبھی
فرصت ہی نہیں ہوتی !"
" تو پھر آپ آتے ہی کیوں ہیں؟"
مجبوراً آنا پڑتا ہے۔ اس بار ایک اہم معاملہ کھینچ لایا ہے۔
تم جانتے ہو کہ بے بی لا ولد ہے۔ میرےایک دوست نے اطلاع دی تھی کہ یہاں آج کل ایک
غیر ملکی لیڈی ڈاکٹر مسز فوریل مقیم ہے جو اس معاملےکی ماہر ہے۔ بے شمار لا ولد
لوگ اُس کی کوششوں سے بامراد ہو چکے ہیں ۔ میں نے کہا کہ میں بھی دیکھوں؟"
فوریل کے نام پر عمران کے کان پہلے ہی کھڑے ہو گئے تھے لیکن
وہ کچھ بولا نہیں سکون سے سنتا رہا۔بوڑھا کہہ رہا تھا۔ " میرا وہ دوست بھی
ڈاکٹر ہی ہے اور مسز فوریل کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ وہ اس کے طریق
کار کا مطالعہ کرے !"
" تو آپ بیگم فیاض کا علاج کرائیں گے؟"
” ہاں، میں اسی لیے آیا ہوں!"
" تو پھر اُس لیڈی ڈاکٹر کو دکھا دیا؟" ا بھی نہیں !
" بوڑھے نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ " ڈاکٹر ڈیوڈ یعنی میرا دوست مجھ سے
ملنے آرہاہے۔ پندرہ منٹ بعد یہاں پہنچ جائے گا !"
"تو یہ ڈاکٹر ڈیوڈ ہی مسز فوریل کے ساتھ کام کر رہا ہے؟“
"ہاں ۔۔۔ اس کا کہنا ہے کہ فوریل حیرت انگیز عورت ہے۔ متعدد
مایوس خواتین اُس کے طریق علاج سے بامراد ہو چکی ہیں !"
"تب تو بڑی اچھی بات ہے !" عمران سر ہلا کر بولا۔
" آخر تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟“
"کسی سے شادی کی درخواست کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور ڈیڈی کہتے
ہیں کہ جہاں دل چاہےشادی کر لو۔ میں دخل نہیں دوں گا !"
"بڑے خوش قسمت ہو۔ میرے ڈیڈی اس معاملے میں بے حد سخت ہیں !"
"آپ کے ڈیڈی ؟" عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل
گیئں ۔
ہاں ہاں، وہ زندہ ہیں
اور مجھ سے بھی کہیں زیادہ زندہ دل واقع ہوئے ہیں۔ پچانوے سال عمرہے۔ مجھ سے زیادہ
تندرست ہیں اور پچھلے ہی سال ایک گونگی خاتون سے شادی کی ہے! " جینیس "
عمران سر ہلا کر بولا ۔
" کیا مطلب؟"
“گونگی خاتون
...واہ... اس عمر میں اتنی عاقبت اندیشی ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ میں بھی ان کی زیارت
ضرور کروں گا !"
"اب میرے باپ کا مذاق اڑاؤ گے؟ وہ آنکھیں نکال کر بولا۔
" سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آپ سب لا جواب ہیں۔ کیا فیاض
صاحب کی خوش دامن تحریرنہیں لائیں ؟"
"دس سال ہوئے وہ دوسری دنیا میں تشریف لے گئیں !"
"ہا ئیں تو کیا آپ نے پھر شادی نہیں کی ؟"
"نہیں! وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
"والد ... والد ہی ہوتا ہے ! "عمران معنی خیز انداز میں
سر ہلا کر بولا۔
" کیا مطلب...؟"
" آپ کے والد صاحب نے پچانوے سال کی عمر میں شادی کی ہے اور
آپ اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھے !"
"یہ بات نہیں ہے!"
"پھر کیا بات ہے؟"
"انہیں میرے لیے بھی کسی گونگی ہی کی تلاش ہے"
"ارے تو اسی سے کرا دیتے جس سے خود کر لی ہے!“
" کیوں بکواس کرتے ہو۔ اُن سے تو اُن کا رومان چل رہا تھا ! "
"رومان بھی ؟ عمران کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
وہ جلا کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ملازم نے آکر کسی کی آمد
کی اطلاع دی اور بوڑھا، عمران کو وہیں چھوڑ کر خود اُس کے استقبال کو دوڑا چلا گیا۔
عمران نے دیدے نچائے اور ٹھنڈی سانس لے کر چھت کی طرف دیکھنے
لگا۔ تھوڑی دیر بعد بوڑھا ک عجیب الخلقت آدمی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ وہ
بھی بوڑھا ہی تھا لیکن عمر کے اعتبار سے غیرمعمولی طور پر چاق و چوبند اور پھر تیلا
نظر آرہا تھا۔
"میرے دوست ڈاکٹر ڈیوڈ فیاض کے سسر نے تعارف کرایا ۔ "اور
یہ مسٹر لی عمران "
"باؤ ڈور ڈوا" بوڑھے نے لا پروائی سے عمران کی طرف ہاتھ
بڑھا دیا لیکن اس کی توجہ فیاض کے سری کی جانب تھی ۔ لیکن پھر اسے چونکنا ہی پڑا
جب عمران نے مصافحہ کرنے کے بجائے اس کی ہتھیلی کو اُنگلی سے سہلا کر ہاتھ بنالیا۔
وہ عمران کو گھورتا رہا۔ فیاض کا سر کچھ کہنے ہی والا تھا
کہ ملازم پھر کمرے میں داخل ہو کر عمران سےبولا ۔ " "آپ کی فون کال ہے
صاحب!"
مم …میری؟ عمران چونک کر بولا ۔ " اچھا!"
وہ ملازم کے ساتھ اُس کمرے کی طرف چل پڑا جہاں فون رکھا ہوا
تھا۔
"ان سسر صاحب کا نام کیا ہے؟" عمران نے اُس سے پوچھا۔
" آپ نہیں جانتے ؟ ملازم نے حیرت سے پوچھا۔
"میں پہلی بار ملا ہوں !"
"شیلی صاحب کہلاتے ہیں۔ مغز چاٹ ڈالتے ہیں ہر وقت کوئی
باتیں کرنے کو چاہئے !"
عمران نے سر کو جنبش دے کر ریسیور اُٹھایا اور دوسری طرف سے
صفدر کی آواز آئی ۔ " اُس عمارت میں اس کے علاوہ اور کوئی ٹڈا نہیں تھا جو
ابھی ابھی فیاض کے بنگلے میں داخل ہوا ہے!" اور یہ کہ فوریل کوئی مرد نہیں
بلکہ عورت ہے!‘ عمران نے کہا۔
"آپ جانتے ہیں؟"
”ہاں، ابھی ابھی معلوم ہوا ہے۔ عمارت کہاں ہے؟“
" ماڈل ٹاؤن، کوٹھی نمبر ایک ایک سو گیارہ ۔ واقعی
بتائے کیا وہ نڈ انہیں لگتا ؟"
"صد فی صد !"
"لیکن فیاض کے بنگلے میں اس کا کیا کام؟"
"پھر بتاؤں گا ! کہہ کر عمران نے رابطہ منقطع کر دیا۔ اب وہ
سوچ رہا تھا کہ ڈرائنگ روم میں واپس جائے یا یہیں سے رخصت ہو جائے ۔ اچانک اُس نے
فیاض کی آواز سنی جو شاید کسی ملازم کو ہدایات دے ہا تھا۔
"بہت انتظار کراتے ہو!؟ "عمران نے کمرے سے برآمد ہو کر
کہا اور فیاض چونک کر اسے حیرت سےجھنے لگا۔
" تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" اُس نے بالآخر سوال کیا۔
"تمہارے خوش پگڑی نے روک لیا تھا ورنہ میں تو واپس ہو رہا
تھا؟“
"خوش بگڑی ؟"
"وہ بدتمیزی کا لفظ میری زبان سے نہیں ادا ہو سکتا !"
" کیا بک رہے ہو ؟ "
"شیلی صاحب نے روک لیا !"
"اوه ! " فیاض طویل سانس لے کر رہ گیا۔
"تم نے پہلے بھی ذکر نہیں کیا کہ کوئی ایسی شئے بھی تمہاری
زندگی میں پائی جاتی ہے!"
"میں نے تمہاری آمد کا مقصد پو چھا تھا ؟"
"انسپکٹر شاہد! "
" تمہیں اس سے کیا سروکار ؟"
" تم نے خواہ مخواہ آئی ایس آئی والوں کو میرے پیچھے
لگا دیا ہے!"
"وہ آخر تمہارے پاس کیوں گیا تھا؟ "
"پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ وہ کبھی کبھی مجھ سے ملتا رہا ہے۔
ہاں تو اُس کا سراغ ملا یا نہیں؟"
"نہیں… شاید تم… !"فیاض
کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
"ہاں شاباش کہہ ڈالوجلدی سے کیونکہ شیلی صاحب کے پاس شاید
ڈاکٹر ڈیوڈ تمہارای منتظر ہے!"
"لا حول ولا قوۃ۔ بڑے میاں کا تو دماغ چل گیا ہے ہم جیسے
بھی ہیں ٹھیک ہیں !"
"اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے!" عمران نے کہا۔
" فیاض بُر اسا منھ بنائے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگا۔
"اچھا ... خدا حافظ ! "عمران مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتا
ہوا بولا۔
"بات سمجھ میں نہیں آئی !" فیاض مصافحہ کرتا ہوا بے یقینی
سے بولا۔ ” تم محض شاہد کے لیے آئے تھے ؟“
"یار تم آئی ایس آئی والوں کو کیا سمجھتے ہو۔ وہ کرتل
فیضی، جو تک ہے جو تک زندگی تلخ کر دی ہے!"
فیاض ہنس پڑا پھر بولا ۔ اب آئے ہو پہاڑ تلے !"
" تمہاری بدولت !"
"بہت پریشان کیا ہے تم نے مجھے ۔ اب دیکھوں گا!"
" کیا تم سنگ زاد میں دلچسپی نہیں لے رہے؟"
"قطعی نہیں۔ جن معاملات کا براہ راست مجھ سے تعلق نہ ہو اُن کی
طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ یہ نا تجربہ کاری کی بنا پر شاہد سے وہ غلطی
سرزد ہوئی تھی!"
"اور پھر اُس نا معقول نے مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لپیٹ لیا۔
آخر اس دوران میں میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اچھا نا تا!"
و ہ تیز خرامی کے ساتھ باہر نکلا ۔ خدشہ تھا کہ کہیں پھر شیلی
سے ڈ بھیٹر نہ ہو جائے ۔
ٹو سینٹر کو کمپاؤنڈ سے نکال کر سیدھے راستے پر لگنے کے بجائے
سامنے والی عمارت کی طرف لیتا چلا گیا اور وہیں ایک ایسی جگہ تلاش کرلی جہاں سے فیاض
کے بنگلے کی نگرانی کر سکتا۔ وہ ڈاکٹر ڈیوڈ کو چیک کرنا چاہتا تھا.. جانمیر جیسے
لفنگے کے پاس ڈاکٹر فوریل کے فون نمبر کا کیا کام اور پھر فون نمبر کے ساتھ ڈیوڈ
کا علامتی نام بھی موجود تھا۔ لہذا اسے نظر انداز کر دینے کا سوال ہی نہیں پیدا
ہوتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر ڈیوڈ کی کار بنگلے کی کمپاؤنڈ سے نکلی اور سڑک پر
بائیں جانب مڑگئی۔
تھوڑی دیر بعد
عمران خاصے فاصلے سے اس کا تعاقب کر رہا تھا جہاں کہیں بھی سراغ کھو دینے کاخدشہ پیدا
ہوتا اپنی گاڑی کی رفتار بڑھا کر اُس سے قریب ہو جاتا ۔
لیکن ڈیوڈ کی گاڑی ماڈل ٹاؤن کی طرف نہیں جارہی تھی۔ تھوڑی
دیر بعد وہ شہر سے باہر نظر آئی۔ عمران نے اپنی گاڑی کے ایندھن ظاہر کرنے والے میٹر
پر نظر ڈالی اور مطمئن ہو گیا۔ ڈکی میں بھی زائد پٹرول رکھنے کا عادی تھا۔ اس لیے
بے فکری سے تعاقب کرتا رہا۔ اچانک اُس نے انگلی گاڑی کو ایک کچے راستے پر مڑتے دیکھا
اور اُلجھن میں پڑ گیا لیکن فوری طور پر احساس ہوا کہ اُس سے تھوڑے ہی فاصلے پر
سڑک کا موڈ خاصی اونچائی پر واقع ہے۔ وہ اپنی گاڑی آگے لیتا چلا گیا اور بائیں
جانب نظر دوڑائی ۔ نشیب میں ڈیوڈ کی گاڑی صاف نظر آ رہی تھی۔ عمران نے اپنی گاڑی
سڑک کے کنارے لگا کر روک دی اور ڈیوڈ کی گاڑی پر نظر جمائے رہا۔ خاصے طویل و عریض
میدان کے بعد باغات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ انہی باغات میں سے ایک میں اُس نے ڈیوڈ
کی گاڑی کو داخل ہوتے دیکھا اور اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے واپسی کے لیےموڑ دی۔ پھر
آگے جا کر وہ بھی کچے راستے پر مڑ گیا۔
لیکن باغات کے قریب
پہنچ کر اندازہ لگانا دشوار ہو گیا کہ ڈاکٹر ڈیوڈ کی گاڑی کس باغ میں داخل ہوئی تھی۔
پھر یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ وہ انہی باغات میں سے کسی ایک میں ڑکا بھی ہو۔
ہوسکتا تھا کہ کوئی کچا راستہ کسی باغ سے بھی گزرا ہوا اور اُس کے سفر کا انتقام ہی
نہ ہوا ہو۔ بہر حال اُس نے بے یقینی کے عالم میں گاڑی کو ایک باغ کے راستے پر ڈال
دیا۔
راستہ نا ہموار تھا
اس لیے تیز رفتاری سے گاڑی نہیں چلائی جاسکتی تھی ۔ جھاڑیوں کا سلسلہ ختم ہوتے ہی
وہ کھلے میدان میں نکل آیا لیکن ڈاکٹر ڈیوڈ کی گاڑی کہیں نہ دکھائی دی۔
وہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ آموں کا باغ تھا۔ اس سے گزر کر اُس
نے گاڑی بائیں جانب موڑی ہی تھی کہ ڈیوڈ کی کا ر دکھائی دی لیکن وہ خالی تھی اور ڈیوڈ
کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔
وہ اپنی گاڑی آگے لیتا چلا گیا اور پھر اسے جھاڑیوں کے ایک
ایسے سلسلے کی اوٹ میں روک دیا جہاں کےسے وہ ڈیوڈ کی گاڑی پر نظر رکھ سکتا۔ دشواری
یہ تھی کہ ڈیوڈ اُسے دیکھ چکا تھا۔ یہاں اس کی موجودگی اس کےچونکا دیتی۔
اُس نے انجن بند کر دیا اور جیب سے جو تم کا پیکٹ نکال کر
پھاڑنے ہی والا تھا کہ کسی وزنی کاری کے انجن کی آواز سنائی دی۔ شاید وہ گاڑی بھی
اُدھر ہی سے آرہی تھی جدھر سے وہ خود آیا تھا ۔
دفعتہّ ایک وزنی ٹرک ٹھیک ڈیوڈ کی
گاڑی کے برابر ہی آکر رُک گیا۔ ذرا دیر انجن کی آواز سنائے میں گوشتی رہی پھر وہ ۔
ونڈ ایک اُسے بند کر دیا گیا۔ ڈرائیونگ سیٹ سے اُترنے والا کسی طرح بھی کوئی پیشہ
ور ڈرائیور نہیں معلوم ہوتا تھا۔
و ہ ایک طرف چل پڑا لیکن پھر عمران نے اُسے رُکتے دیکھا۔
مزہ کر اپنے ٹرک کے آگے کچھ د یکھنے کی تھا۔ پھر ٹرک ہی کی طرف پلٹ آیا۔ عمران سیدھا
ہو بیٹھا۔ شاید اُس کی گاڑی کے پیتوں کے نشانات پر اس کا کی نظر پڑ گئی تھی۔
اب وہ انہی نشانات کو نظر میں رکھے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔
عمران نے اگنیشن سے نجی نکالی اور نیچے اتر کر بڑی آہستگی سے دروازہ بند کیا پھر
گاڑی کو مقفل کر کے جھاڑیوں میں گھستا چلا گیا۔
9
شاہد کی داہنی ٹانگ پر ٹخنے سے ران کے وسط تک پلاسٹر چڑ ھا
ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح دو الیم ہی رہ سکتا تھا لیکن سوال یہ تھا کہ وہ یہاں کیوں
لیٹا ہوا ہے۔ لاوارث تو تھا نہیں کہ صاحب خانہ نے از راہ خدا تری اُسے یہاں روک
رکھا ہو ۔ ہوش آنے پر اسے بتا یا گیا تھا کہ پنڈلی اور ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں
اور ڈاکٹر نے کروٹ لینے کی بھی ممانعت کردی ہے لہذا چت بھی لیٹا رہ سکتا ہے۔ ایک
نو جوان اور خوبصورت لڑکی اس کی تیمار دار تھی۔ اُس نے اُس کو بتایا تھا کہ وہ باغ
میں بے ہوش پڑا ملا تھا۔
"اور میری
موٹر سائیکل ؟‘ شاہد نے کراہ کر پو چھا۔
" وہ محفوظ ہے!‘ لڑکی نے جواب دیا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے
سوال کیا۔ لیکن ہوا کیا تھا۔ تم یہاں ہمارے باغات میں کیا کر رہے تھے ؟“
"مجھے چند لوگوں نے گھیر لیا تھا!" شاہد نے کہا۔
" یہاں ہمارے باغات میں ؟" لڑکی کے لہجے میں حیرت تھی۔
"ہاں، یہیں ۔ اگر یہ عمارت کسی باغ ہی میں واقع ہے!“
"ہماری یہ کوشی باغات کے درمیان ہی بنی ہوئی ہے لیکن یہاں کوئی
کسی کو نہیں گھیر سکتا! "
" وہ لوگ مجھے گھیر کر یہاں لائے تھے!" شاہد نے کیا۔
" ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ باہری کے لوگ رہے ہوں !"
پھر شاہد نے اس سے یہ
بھی معلوم کیا تھا کہ اس واقعے کو کتنا وقت گزر چکا ہے۔
" پرسوں کی بات ہے۔ آپ پورے ڈھائی دن بے ہوشی کی سی کیفیت
میں رہے ہیں !"
" بڑی عجیب بات ہے شاہد نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
" آپ کہتی ہیں کہ میری ناحیک کی بڑی دو جگہوں سے ٹوٹ گئی ہے لیکن میں ذرہ
برابر بھی تکلیف نہیں محسوس کر رہا؟"
" یہ ہمارے ڈاکٹر کا کمال ہے۔ وہ آپ کو ایسے انجکشن دے
رہا ہے کہ آپ تکلیف نہ محسوس کریں !"
" میں نے آج
تک ایسے کسی انجکشن کے بارے میں نہیں سنا جو ہڈی کی تکلیف کو اس طرح رفع کر سکے۔ یہ
اور بات ہے کہ مریض کو مارفیا کا انجکشن دے کر سلا دیا جائے !"
" میں اس کے بارے میں تفصیل سے نہیں جانتی۔ آپ ڈاکٹر ہی
سے پوچھ لیجئے گا !"
خیر ... !"شاہد طویل سانس لے کر بولا ۔ " آپ براہ
کرم میرے آفیسر کو میرے حالات سے مطلع کر دیجئے ! "
" کس سے اطلاع بھجوا سکتی ہوں۔ یہاں فی الحال میرے
علاوہ اور کوئی بھی نہیں ہے۔ دراصل ہم لوگ ایک ہفتے کی چھٹیاں گزارنے کے لیے شہر
سے یہاں آئے تھے۔ اچانک اطلاع ملی کہ وہاں ہمارے ایک عزیز کا انتقال ہو گیا ہے۔
پھر آپ بے ہوش پڑے مل گئے ۔ آپ کو طبی امداد فراہم کرنے کے بعد خاندان کے دوسرے
لوگ شہر واپس چلے گئے اور مجھے یہ ذمہ داری سونپ گئے کہ آپ کی دیکھ بھال
کروں!"
" میں آپ لوگوں کا بے حد شکر گزار ہوں۔ اپنے بزرگوں میں
سے کسی کے نام سے آگاہ کیجئے شایدمیں انہیں جانتا ہوں ؟“
"میرے ڈیڈی کا نام شہباز چودھری ہے !"
" چودھری ملٹی انڈسٹریز والے تو نہیں؟“
"جی ہاں، وہی !“
"اوہ انہیں کون نہ جانے گا۔ اتنے بڑے سوشل ورکر اور ملک کے
متمول ترین افراد میں سے ہیں۔ آپ لوگوں کو میری وجہ سے بڑی تکلیف ہوئی !“
”بالکل نہیں ! وہ ہنس کر بولی۔ " تکلیف میں تو آپ ہیں!“
"اگر یہاں نہ ہوتا تو یقینا تکلیف ہی میں ہوتا۔ ٹانگ کی ہڈی
دو جگہ سے ٹوٹ گئی ہے۔ پتانہیں کون سے اور کتنے قیمتی انجکشن لگوائے گئے ہیں کہ
تکلیف کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے! "
"پتانہیں ڈیڈی جائیں!"
" میرا نام شاہد ہے اور میں محکمہ سراغ رسانی کا انسپکٹر ہوں
!"
"خدا کی پناہ!"
" کیا میری جیب سے میرے کاغذات نہیں برآمد ہوئے تھے؟"
" ہر گز نہیں۔ ورنہ ڈیڈی شہر گئے تھے آپ کے محلے کے کسی
بڑے آفیسر کو ضرور مطلع کر دیتے!"
" تواُن
بدمعاشوں نے میرے کاغذات بھی غائب کر دیئے!" شاہد طویل سانس لے کربو لا ۔
"ہوا کیا تھا؟"
"میں ایک مجرم کا تعاقب کر رہا تھا۔ وہ بھی موٹر سائیکل ہی پر
تھا۔ شہر سے تعاقب کرتا ہوا یہاں تک پہنچا۔ وہ ایک باغ میں داخل ہوا اور پھر میری
بے خبری میں کئی افراد جھاڑیوں سے نکلے اور مجھ پر ٹوٹ پڑے !"
"بات سمجھ میں نہیں آئی ؟" لڑکی نے حیرت سے کہا۔
واقعی سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی لیکن شاہد تفصیل سے
اُسے آگاہ نہیں کر سکتا تھا لہذا جلدی سے بولا۔ "اسی پر تو مجھے بھی حیرت ہے
کہ آخر اس کے ساتھیوں کو کیسے علم ہو گیا کہ میں اس کا تعاقب کررہا ہوں اور وہ
پہلے ہی سے یہاں گھات لگا کر بیٹھ گئے ؟"
"ہو سکتا ہے اُس بدمعاش نے خود ہی آپ کو تعاقب کی ترغیب دی
ہو؟“
"آپ بہت ذہین ہیں!' شاہد مسکرا کر بولا ۔ " اس کے اور
کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن اب آخر میں اپنے محلے کو کس طرح اطلاع دوں ؟“
"میں کیا بتاؤں ۔ کوئی ملازم بھی موجود نہیں ہے!"
"بڑی حیرت کی بات ہے کہ گھروالے آپ کو تا چھوڑ گئےہیں جب کہ
نہیں یہ ہی علم ہے کہاں باغات میں اس قسم کی وارداتیں ہوسکتی ہیں ؟"
"انہیں علم ہے کہ میں اپنی حفاظت آپ کر سکتی ہوں !" لڑکی
نے لا پروائی سے کہا۔
" کمال ہے!"
"پچھلے سال میں نے تین غنڈوں کو زخمی کر کے اپنے ایک خزانچی
کو لٹنے سے بچا یا تھا!"
اوہ… تو آپ …مجھے یاد ہے… کیا نام ہے آپ
کا؟"
"شہلا چودھری !"
"بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر ۔ واقعی آپ نے کمال کر دیا تھا۔ تین
فائر کے تھے اور میں کی ٹانگیں بے کار ہو گئی تھیں !"
"میں رائفل کلب سے ٹرافی بھی لے چکی ہوں !"
"جی ہاں، مجھے علم ہے۔ واقعی آپ اپنی حفاظت خود کر سکتی ہیں !"
"جوڈو اور کرانے پر بھی دسترس رکھتی ہوں !"
" ضرور ہوگی ۔ ضرور ہوگی !"
" کاش میں اُس وقت وہاں موجود ہوتی جب وہ بد معاش آپ
پر حملہ آور ہوئے تھے!"
"بد قسمتی میری کہ ایسا نہ ہو سکا !"
شہلا چودھری نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے پر تشویش لہجے میں
کہا۔ " ڈاکٹر ابھی تک نہیں آیا !"
شاہد کچھ نہ بولا ۔
آج ہی تو اُسے ہوش آیا تھا اور ابھی تک ڈاکٹر سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
" کیا نیند آ رہی ہے؟ شہلا نے پوچھا۔
" جی نہیں ۔ کیا میں بیٹھ نہیں سکتا ؟"
"ہر گز نہیں ۔ ڈاکٹر نے کروٹ لینے تک کی اجازت نہیں دی !"
"پیر میں تکلیف تو نہیں ہے۔ پھر کیا ہرج ہے؟“ شاہد نے کہا۔
" مجبوری ہے مسٹر شاہد ۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے خلاف کچھ بھی نہیں
ہوسکتا!“
"خیر… جیسی آپ کی مرضی !“ شاہد نے ٹھنڈی سانس لی۔
لڑکی نے اُسے متاثر کیا تھا۔
" کھانے کے لیے کچھ لاؤں؟“
"نہیں ، شکریہ ۔ ابھی بھوک نہیں ہے!“
اتنے میں کسی نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی اور شہلا دروازے
کی جانب بڑھ گئی ۔ پھر شاہد نے اُسے کہتے سنا۔ " اوہ ڈاکٹر صاحب ۔ آئیے آئیے
!" اور چانک شاہد کی نظر نو وارد پر پڑی۔ عجیب الخلقت آدمی تھا۔ ذہن کی سطح پر کسی ٹڈے کا تصور اُبھرا
تھا۔ شاہد ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔
" کیا حال ہے؟"
نو وارد نے شہلا سے پوچھا۔
"خود دیکھ لیجئے ۔ اب ہوش میں ہیں!“
وہ شاہد کے قریب آیا اور خاموشی سے اُسے بغور دیکھتا رہ ۔
پھر آہستہ سے بولا۔ ابھی انجکشن لگیں گے !"
" لل... لیکن میرے پیر میں ذرّہ برابر بھی تکلیف نہیں
ہے؟" شاہد نے کہا۔
"یہ میرا طریقِ علاج ہے !'' ڈاکٹر مسکرا کر بولا اور اپنے ہینڈ
بیگ سے ہائیپو ڈرنک سیر نج نکالی۔
" کیوں نہ
ڈاکٹر صاحب میرے محکمے کو اطلاع دے دیں ! "شاہد نے شہلا کی طرف دیکھ کر کہا۔
"ہاں ، یہ ممکن ہے !" شہلا بولی اور ڈاکٹر سے شاہد کا
تعارف کرانے لگی۔
"اوہ تو آپ
پولیس آفیسر ہیں ! " ڈاکٹر نے کہا۔
" جی ہاں اور میری غیر حاضری میرے لیے دشواریاں پیدا
کر سکتی ہے !"
"میں آپ کے آفیسر کو ضرور مطلع کردوں گا ! "ڈاکٹر نے کہا
اور شاہد اُسے بتانے لگا کہ اس سلسلے میں کیا کرنا ہوگا ۔ ڈاکٹر میر نج لوڈ کر چکا
تھا۔
شہلا نے اس کا بایاں بازود با گرنس ابھار دی اور ڈاکٹر نے
انجکشن لگا دیا۔
شاہد کا ذہن ایک
بار پھر اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ نہ جانے کیوں اچانک شہلا کے چہرے پر ناگواری
کے آثار پیدا ہو گئے تھے اور وہ ڈاکٹر کو کینہ تو نظروں سے دیکھے جارہی تھی۔ وفعتہ
ڈاکٹر اس کی نانی کے طرف مڑ کر بولا ۔ اِب اِسے ہوش میں نہیں آنا چاہئے !"
"میں اس سلسلے میں کیا کر سکوں گی ؟“ شہلا نے کسی قدر تلخ
لہجے میں سوال کیا۔
"وہ مشین !" ڈاکٹر اُس کی طرف دیکھے بغیر بولا۔
"پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہاں بجلی نہیں ہے مشین کیسے
چلے گی؟"
"اس کا بھی انتظام کر دیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک ٹرک یہاں
پہنچ جائے گا۔ ٹرک کا انجن چلا کر مشین کا تار اس کے ڈائنا مو سے منسلک کر دینا،
مشین کارآمد ہو جائے گی !"
" کتنی دیر مشین چلانی ہوگی ؟“
"گھڑی دیکھ کر دس منٹ ۔ تین گھنٹے کے بعد !“
"مستقل دردسر ... اور پھر یہ ایک پولیس آفیسر ہے!“
" تم اس کی پروا مت کرو!“
" ڈاکٹر ڈیوڈ یہاں کا ایک معمولی کانٹیل بھی بہت با
اختیار ہوتا ہے!" شہلا نے ناگوار لہجے میں کہا۔
"میں جانتا ہوں !
"ڈیڈی ایک باعزت آدمی ہیں۔ قانون کا احترام کرتے ہیں؟“
"میں یہ بھی جانتا ہوں !"
"تو پھر؟"
" تو پھر کچھ بھی نہیں۔ جب میں اسے دوبارہ ہوش میں لاؤں گا تو
یہ سب کچھ بھول چکا ہوگا۔ حتی کہ اسےاپنا نام تک یاد نہیں آئے گا!"
" کیا ہمیشہ کے لیے؟"
"اپنے کام سے کام رکھوڑ کی۔ اتنے سوالات کیوں کر رہی ہو ؟
"
" سوالات اس لیے کر رہی ہوں کہ یہ سب کچھ ابھی تک میری
سمجھ میں نہیں آسکا !"
" اسے سمجھنا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے!"
" تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں تمہارے مشوروں
پر عمل کیوں کروں؟"
"تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم اس پر مجبور ہو!"
" کیا مطلب؟" شہلا کی بھنوئیں تن گئیں۔
"ہر سوال کا جواب اپنے باپ ہی سے طلب کرنا اور یہ وارننگ ہے
کہ اگر تم نے میری ہدایات کے خلاف کیا تو تمہارے باپ کی گردن میں پھانسی کا پھندا
ہی ہو گا !" ڈاکٹر نے کہا اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
10
بالآخر عمران کی نظر اس عمارت پر پڑی جو باغات کے وسط میں
واقع تھی اور وہ پھر پلٹ پڑا۔ جھاڑیاں اُس کے قد سے بھی کئی فٹ اونچی تھیں اور اتنی
گھنی تھیں کہ وہ بہ آسانی خود کو چھپائے رکھ سکتا تھا لیکن چلنے میں دشواری پیش
آرہی تھی ۔
وہ پھر اُسی جگہ جا
پہنچا جہاں اپنی گاڑی کھڑی کی تھی۔ ٹرک سے اُترنے والا گاڑی کے قریب اکڑوں بیٹھا
ہوا نظر آیا اور گاڑی کا گوشہ جھک گیا تھا۔ شاید وہ ایک ٹائر کی ہوا نکال چکا تھا
اور اب شاید دوسرے پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
عمران جھاڑیوں سے نکل کر اس کے سر پر پہنچ گیا۔
" ارے …ارے… یہ تم… مم.. . میری گاڑی کی ہوا کیوں نکال رہے ہو؟“ اُس نے احمقانہ اندازمیں کہا اور ٹرک ڈرائیو یک بیک اُٹھ کھڑا ہوا۔
"تمہیں باغ میں داخل ہونے کی جرات کیسے ہوئی ؟ "وہ آنکھیں
نکال کر بولا۔
"ضض .. ضرور تا !"عمران ہکلا یا ۔ ضضر ورتا مجھے
گھنی جھاڑیوں کی تلاش تھی !"
"بھاگ جاؤ !"
"کک… کیسے بھاگ جاؤں؟" عمران نے بے بسی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔ " تت… تم نے توہوانکال دی ہے!"
" اسپئیر وصیل نکال کر لگاؤ اور نو دو گیارہ ہو جاؤ
!"
واہ… میں کیوں لگاؤں اپنیر ومیل۔ تم نے ہوا نکالی
ہے اس لیے تم ی لگاؤ! " عمران نےبڑی سادگی سے کہا۔
"بکو اس مت کرو۔ جتنی جلد ممکن ہو یہاں سے دفع ہو جاؤ
... ہری اَپ !"
عمران نے جیب سے کبھی نکال کر ا کی کھولی اور پیچھے بنا ہوا
بولا ۔ نیک اور اپنیر وھیل موجود ہیں۔جلدی سے تبدیل کرد و ! "
"تمہارا ماغ تونہیں خراب ہو گیا ؟ ٹرک ڈرائیور اکڑ کر بولا۔
" میں پیر تبدیل کروں گا!"
" زندگی عزیز ہوگی تو ضرور کرو گے !"
" یہ بات ہے!" سفاک کی مسکراہٹ ٹرک ڈرائیور کے
ہونٹوں پر نمودار ہوئی اور وہ آہستہ آہستہ عمران کی طرف بڑھنے لگا۔ عمران اُس کے
ارادے سے بخوبی واقف تھا لیکن ہونقوں کی طرح منہ اٹھا کے کھڑا رہا۔ ٹرک ڈرائیور کے
ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ تھی جیسے قریب پہنچ کر اُس کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر
خوشامدانہ لہجے میں کہے گا کہ اچھے بچوں کی طرح خود ہی پہیہ تبدیل کر لو۔ لیکن تین
قدم کے فاصلے پر پہنچ کر جھپٹ پڑا۔ عمران نے پھرتی سے بائیں جانب ہٹ کر چھلانگ
لگائی اس طرح کہ اُس کی داہنی لات ترک ڈرائیور کی کنپٹی پر پڑی اور وہ اُچھل کر
دور جا پڑا ۔ پھر عمران اُسے اُٹھنے کی مہلت کب دینے والا تھا۔ دوسری ٹھو کر اُس
کے بائیں پہلو پر پڑی اور وہ کراہ کر پلٹ گیا۔ تیسری ٹھوکر سر پر پڑتی لیکن وہ
پھنسی پھنسی کی آواز میں چینا ۔" نہیں! "
عمران رک گیا اور ٹرک ڈرائیور دونوں ہاتھوں سے بایاں پہلو د
ہائے رُک رُک کر سانسیں لیتا رہا۔
اُٹھو... اور پہیہ تبدیل کر دو، ورنہ میں جان سے بھی
مارسکتا ہوں !" عمران اس کا کالر پکڑ کر اٹھا ہے ہوا بولا اور گاڑی کے قریب
گھسیٹ لایا۔ اس دوران میں اُس کی جیبیں بھی ٹٹو لی تھیں۔ وہ غیر مسلح تھا۔
” چلو... جلدی کرو!"
عمران نے اُسے ڈکی کی طر دھکا دیا۔ وہ کھلی ہوئی ڈکی پر دونوں ہاتھ ایک کر جھک گیا
اور ہانپتا رہا لیکن اس کے چہرے پر خوف کے بجائے غیظ و غضب کے آثار تھے۔
اچانک وہ ڈکی سے جیک نکال کر عمران کی طرف گھوما۔ اگر عمران
پھرتی سے بیٹھ نہ گیا ہوتا تو سر کے کئی ٹکڑے ہو جاتے ۔ وحشیانہ انداز میں پھینکا
ہوا جیک اُس کے اوپر سے گزرتا چلا گیا۔ وہ پھرڈ کی سے اور کچھ نکال لینے کے لیے
مڑا ہی تھا کہ عمران نے اُس پر چھلانگ لگائی اور اس بار تو رگڑ ہی کر رکھ دیا۔ نتیجہ
ظاہر ہے۔ وہ اس قابل نہ رہا کہ اُس کی خواہش کے مطابق گاڑی کا پہیہ بدل سکتا۔
عمران نے اُس کی ٹائی کھول کرہاتھ پشت پر باندھ دیئے اور پیروں کی بندش کے لیے اپنی
ٹائی استعمال کی۔
شاید عمران کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خواہ مخواہ وقت ضائع
کر رہا ہے اس لیے اُس نے اس بارا سے ہوش میں نہ رہنے دیا۔ پھر اسے گاڑی کے پاس سے
بنا کر جھاڑیوں میں پہنچاتے وقت اس نے دیکھا کہ اپنی گاڑی میں آجینا تا کہ اس پر
نظر رکھ سکے۔
ڈیو ڈ اپنی گا ڑی کے قر یب کھڑے ٹر ک تک آیا اور اِدھر
اُدھر دیکھنے لگا ۔ شا ید اُسے ٹر ک ڈرائیور کی تلا ش تھے ۔ وہ تھو ڑی ڈیر تک یو
یہی کھڑ ا رہا پھر ٹر ک کی ڈرا ئیو نگ سیٹ پر جا بیٹھا۔
انجن کی آواز سنانے میں گونجنے لگی اور عمران نے شرک کو
حرکت میں آتے دیکھا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ اُسے موڑ کر عمارت کی طرف لے جارہا تھا۔ عمران پھر
اپنی گاڑی سے اتر کر جھاڑیوں میں جا گھسا۔
ڈاکٹر ڈیوڈ نے ٹرک
عمارت کے قریب کھڑا کر دیا تھا۔ دفعّتہ عمران کو ایک لڑکی نظر آئی جو عمارت کے
برآمدے میں کھڑی تھی۔ ڈاکٹر ڈیوڈ ٹرک سے اتر کر لڑکی سے کچھ کہنے لگا تھا۔ پھر لڑ
کی تو وہیں کھڑی رہی تھی اور ڈاکٹر ڈیوڈ شاید واپسی کے لیے مڑ گیا تھا۔
کیا وہ اس کا تعاقب جاری رکھے؟ عمران نے خود سے سوال کیا۔
وہ پھر اُسی مقام پر واپس آ گیا جہاں سے ڈاکٹر ڈیوڈ کی گاڑی پر نظر رکھی تھی اور یہاں
پہنچ کر اُسے یاد آیا کہ فی الحال اُس کی گاڑی بے کار ہو چکی ہے۔ جتنی دیر میں وہ
پہیہ تبدیل کرے گا ڈاکٹر ڈیوڈ کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہو چکی ہوگی ۔ طویل سانس لے
کر رہ گیا۔
ڈاکٹر ڈیوڈ سیدھا اپنی گاڑی کی طرف آیا تھا۔ انجمن اسٹارٹ
ہونے کی آواز عمران نے سنی اور نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ڈاکٹر ڈیوڈ کی گاڑی کو
دائیں جانب مڑتے دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر تک گم سم بیٹھے رہنے کے بعد وہ اپنی گاڑی
سے اُتر کر جھاڑیوں میں جیک تلاش کرنے لگا۔
ٹرک ڈرائیور اب بھی
بے ہوش پڑا تھا۔ جیک مل جانے کے بعد اُس نے سب سے پہلے گاڑی کے گلو کمپارٹمنٹ سے ایدھیسیو
ٹیپ نکال کر ٹرک ڈرائیور کے ہونٹوں پر چپکا دیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی
گاڑی عین عمارت کے برآمدے کے نیچے جا کھڑی ہوئی۔ ٹرک بھی وہیں موجود تھا۔ عمران نے
گاڑی کا ہارن بجانا شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد وہی لڑکی برآمدے میں نظر آئی جسے
کچھ دیر پہلے بھی دور سے دیکھ چکا تھا۔ لیکن اس کو قریب سے دیکھ کر اُسے چونکنا
پڑا کیونکہ وہ اس لڑکی کو پہچانتا تھا۔
وہ گاڑی سے اتر آیا اور اس نے محسوس کیا کہ لڑکی اسے اس طرح
دیکھ رہی ہے جیسے پہچانے کی کوشش کر رہی ہو۔
" کیا مجھے یہاں تھوڑا پانی مل سکے گا ؟" عمران نے احمقانہ
انداز میں سلام کے لیے ہاتھ اٹھا کر پو چھا۔
"حج… جی ہاں …اوہ …اندر تشریف لے چلئے لڑ کی جلدی سے بولی۔ " شاید میں آپ کو پہچانتی ہوں!"
"اور
شش... شاید میں آپ کو پہچانتا ہوں ۔ آپ میں شہلا چودھری ہیں نا!"
" جی ہاں... جی ہاں !" لڑکی اظہار مسرت کرتی ہوئی بولی۔
وہ اُسے نشست کے کمرے میں لا کر بٹھاتی ہوئی بولی ۔ " میں آپ کے لیے پانی
لارہی ہوں !"
وہ چلی گئی اور عمران خاموش بیٹا اپنے چہرے پر مزید احتقانہ
تاثرات پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد شہلا پانی کا گلاس لیے ہوئے
کمرے میں داخل ہوئی۔
" تکلیف دہی کی معافی چاہتا ہوں ! عمران اُٹھتا ہوا بولا ۔
"آپ بیگم ثریاسلمان کے بھائی ہی ہیں نا؟“
ثریا سلمان... جی ہاں جی ہاں ! "عمران نے اُس سے گلاس
لیتے ہوئے بوکھلا کر کہا۔
" اور آپ کے ڈیڈی انٹیلی جنس کے ڈائرکٹر جنرل ہیں
!"
"ارے ہاں ... یہ تو میں بھول ہی گیا تھا! "عمران چونک کر
بولا ۔
" بیٹھ جائیے نا آپ کھڑے کیوں ہیں؟"
"جی ہاں ، جی ہاں !“ کہتا ہوا وہ بیٹھ گیا اور غٹ غٹ پانی پینے
لگا۔
" میں ایک دشواری میں پڑگئی ہوں ۔ شاید آپ کچھ مدد کر
سکیں!"
"ضرور ... ضرور !"
"یہاں آپ کے ڈیڈی کے محکمے کا ایک آفیسر بھی موجود ہے!“
"کک... کہاں ؟" عمران بوکھلائے ہوئے انداز میں
چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
" وہ اُٹھ نہیں سکتا ۔ اندر بستر پر پڑا ہوا ہے اور اس
وقت بے ہوش بھی ہے!“
"میرے ڈیڈی کے محلے میں آنے کے بعد سب اسی طرح بے ہوش ہو جاتے
ہیں ! "عمران خوش ہو کر فخریہ لہجے میں بولا۔
" آپ سمجھے نہیں۔ اُس کی ایک ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا ہوا
ہے!"
"غلطی سے دوسری ٹانگ خالی رہ گئی ہوگی ! "عمران
نے مایوسی سے کہا۔
"اپنا نام شاہدہ بتاتا ہے۔ انسپکٹر شاہد !"
"وہی تو نہیں جس کی ناک کی نوک پر تل ہے اور دور سے ایسا لگتا
ہے جیسے اُس نے ناک پر کبھی جینےدی ہو؟“
"جی ہاں، وہی... وہی !“
"لیکن وہ یہاں کیوں بے ہوش پڑا ہے؟"
"یہی تو میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں !"
"میں سن رہا ہوں !"
" اُسے یہاں بے ہوشی کی حالت میں لایا گیا تھا اور ڈاکٹر ڈیوڈ
نے بتایا تھا کہ ٹانگ کی ہڈی دو جگہوں سے ٹوٹ گئی ہے لہذا اُس نے پلاسٹر چڑھا دیا
تھا۔ لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ اس کی ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے
اُسے یہاں رو کے رکھنے کے لیے یہ حرکت کی گئی ہو!"
" آپ کے علاوہ یہاں اور کون کون بے ہوش نہیں ہے؟"
" میں تنہا ہوں اُس کی دیکھ بھال کے لیے!"
" کیا آپ کے ڈیڈی کو اس کا علم ہے؟"
" کیوں نہیں ۔ اُنہی کی ہدایت کے مطابق مجھے یہاں
رُکنا پڑا ہے ورنہ میں ڈاکٹر ڈیوڈ کو کیا جانوں !"
" یہ ڈاکٹر ڈیوڈ کون ہے؟"
" میں نہیں جانتی۔ ڈیڈی کے ملاقاتیوں میں سے کوئی ہے!"
"ڈاکٹر ڈیوڈ !" عمران آہستہ سے بڑبڑایا پھر اُس کی طرف دیکھ
کر پوچھا۔ ” وہی تو نہیں... وہ انسان نماٹڈّا ؟"
" بہت خوب ! "شہلا ہنس کر بولی۔ " بڑی مناسب تشبیہ
ہے!"
"ہے نا !" عمران اس سے بھی زیادہ زور سے ہنس کر بولا۔
" واقعی اسے دیکھ کر ذہن میں کسی خزاں رسیدہ ٹڈے ہی کا
تصور ابھرتا ہے!"
" سبحان الله ... خزاں رسیدہ بھی ! "عمران اُسے ستائش آمیز
نظروں سے دیکھتا ہوا بولا ۔" اب پوری طرح بات بنی ہے۔ لیکن آپ یہ کیسے کہہ
سکتی ہیں کہ انسپکٹر شاہد کی ٹانگ کی ہڈی محفوظ ہے؟“
" آج ہی تو وہ ہوش میں آیا تھا اور بتایا تھا کہ اُس کی
ٹانگ میں کسی جگہ بھی کوئی تکلیف نہیں ہے!"
"پھر کیسے بے ہوش ہو گیا ؟“
"ڈاکٹر ڈیوڈ نے کچھ دیر پہلے بے ہوشی کا انجکشن دیا ہے۔ آخر
بے ہوشی کا انجکشن دیا ہی کیوں گیا جب کہ مریض نے کسی قابل برداشت یا نا قابل
برداشت تکلیف کی شکایت نہیں کی تھی ؟“
"واقعی سوچنے کی بات ہے !" عمران سر ہلا کر بولا۔
"ڈاکٹر ڈیوڈ چاہتا ہے کہ وہ یہاں اسی طرح بے بس پڑا ر ہے اور
کسی کو بھی معلوم نہ ہونے پائے کہ وہ کہاں ہے۔ مجھ سے کہہ گیا ہے کہ اب میں اُسے
ہوش میں نہ آنے دوں!"
"تو پھر آپ کیا کریں گی ؟“
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟" اس لیے تو آپ کی
آمد پر خوشی ہوئی تھی !"
"مم ... میں نہیں سمجھا ؟"
" آپ بتائیے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ؟"
" اگر آپ نے اپنی مرضی سے کچھ کیا تو آپ کے ڈیڈی کیا
کریں گے؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن ڈاکٹر ڈیوڈ کے رویے سے کچھ ایسا محسوس
ہوتا ہے جیسے ڈیڈی اس کے دباؤمیں ہوں!"
"بلیک میلنگ !‘ عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
"اسی کا خدشہ ہے!"
تو پھر آپ شاہد کو مسلسل بے ہوش رکھیں گی ؟“
"جی ہاں ، اُس نے یہی کہا ہے ؟"
"انجکشن ! " عمران اُسے غور سے دیکھتا ہوا بولا۔
" نہیں مشین !"
"مشین، کیسی مشین؟
"ٹھہرئیے ، میں لا کر آپ کو دکھاتی ہوں!"
وہ چلی گئی۔ عمران کی آنکھوں میں فکر مندی کے آثار تھے۔
شہلا کی واپسی جلدی ہی ہوئی تھی۔ اُس کے دائیں ہاتھ میں ایک بریف کیس تھا جسے اُس
نے سنٹر میل پر رکھ دیا اور عمران سے بولی ۔ ” یہ مشین بجلی سےچلتی ہے!"
عمران اُٹھ کر میز کے قریب پہنچ چکا تھا۔ شہلا نے بریف کیس
کا ڈھکنا اٹھایا اور بولی۔ " یہ سوئی جو اس نکی سے لگی ہوئی ہے کلائی کے جوڑ
کی نس کو ابھار کر اس میں داخل کر دی جائے گی پھر اُس کے بعد گھڑی دیکھ کر دس منٹ
تک مشین چلائی جائے گی، ہر تین گھنے بعد اس طرح بے ہوشی جاری رہے گی!"
" کتنے دنوں کا پروگرام ہے؟"
”یہ تو ابھی اُس نے نہیں بتایا !"
"کیا شاہد ہوش میں آنے کے بعد ہوش ہی کی باتیں کرتا رہا تھا؟“
"جی ہاں بالکل ، ورنہ مجھے کیسے معلوم ہوتا کہ وہ کون
ہے!"
" اور پھر ڈیوڈ نے انجکشن دے کر اسے دوبارہ بے ہوش کیا
ہے؟"
"جی ہاں !"
" اُس کے بعد مزید بے ہوش رکھنے کے لیے مشین کا استعمال بتایا
گیا ہے؟"
"جی ہاں ۔ انجکشن کو تین گھنٹے گزرنے کے بعد سے مشین کا
استعمال شروع کر دیا جائے گا!"
" آپ نے کہا
تھا کہ مشین بجلی سے چلتی ہے لیکن یہاں مجھے بجلی کا کوئی سلسلہ نظر نہیں آیا ؟"
عمران چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
"بجلی کے حصول کے لیے وہ یہاں ایک ٹرک منگوا کر چھوڑ گیا
ہے۔ٹرک کا انجن چلا کر ڈائنا موسے مشین کا تار منسلک کر دیا جائے گا۔ اس طرح مشین
کارآمد ہو جائے گی !"
ان ساری باتوں کا علم ہے آپ کے ڈیڈی کو ؟ "
"بالکل، لیکن میں یہ نہیں کہ سکتی کہ وہ مسٹر شاہد کی
اصلیت سے بھی واقف ہیں یا نہیں!"
" کیا وہ اُن
کی موجودگی میں ہوش میں نہیں آیا تھا ؟ عمران نے پوچھا۔
" جی نہیں !"
" میرا خیال ہے کہ آپ کے ڈیڈی نا دانستہ طور پر کسی بڑی دشواری
میں پڑنے والے ہیں!"
"میں بھی یہی محسوس کر رہی ہوں۔ اسی لیے تو آپ سے ساری
باتیں کہہ دی ہیں۔ دراصل اس معاملے میں پہلے ہی سے پریشان رہی ہوں !"
" کوئی اور قصہ بھی ہے کیا ؟"
" جی ہاں ،
اصل اُلجھن تو وہیں سے شروع ہوئی تھی ورنہ بے شمار غیر ملکی لوگ ڈیڈی کے مہمان بنے
رہتے ہیں !
"ڈاکٹر ڈیوڈ غیرملکی تو نہیں ہے؟" عمران نے کہا۔
” دیسی عیسائی معلوم ہوتا ہے۔ غالباً گودا کا باشندہ ہے!"
"اس کی بات نہیں ہے۔ ڈیوڈ کے توسط سے ایک غیر ملکی عورت ڈاکٹر
فوریل، ڈیڈی کی مہمان بنی تھی۔ اس کا قیام ہماری ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی میں ہے۔ اس
کے ساتھ ایک دیسی آدمی بھی تھا جو بعد میں میرے لیے اُلجھن کا باعث بن گیا۔ پھر شاید
پولیس والے بھی اُلجھن میں پڑ گئے !"
" میں نہیں سمجھا؟“
" اخبارات میں اُس کے بارے میں بہت کچھ آیا ہے۔ میرا
اشارہ سنگ زاد کی طرف ہے غائباً آپ نے بھی اس کے بارے میں پڑھا ہو؟“
"جی ہاں، اچھا تو وہ پہلے ڈاکٹر فوریل کے ساتھ تھا ؟“
" جی ہاں، اور پھر میں نے اخبارات میں اُس کی تصویر میں
دیکھیں اور ڈیڈی سے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں اس سلسلے میں خاموشی اختیار
کرو، ورنہ نہیں نقصان پہنچے گا ور تھے یقین ہے کہ وہ خا ئف
تھے !"
" بلیک میلنگ
کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا! " عمران سر ہلا کر بولا۔
تو پھر اب بتائیے میں کیا کروں؟"
" آپ نے بہت اچھا کیا کہ مجھے سب کچھ بتا د یا ۔ اب میں
شاہد کو یہاں سے اٹھا لے جاؤں گا!"
"لیکن ہم لوگوں کا کیا بنے گا؟ کیا واقعی ڈیڈی کسی قسم کے
مجرم گردانے جائیں گے ! "
" میری کوشش یہی ہوگی کہ آپ لوگوں پر کوئی الزام نہ
آنے پائے ۔ ہمارے بہتیرے سادہ لوح شہری غیر ملکی ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں !"
"خدا کا شکر ہے کہ پہلے آپ ہی جیسے سمجھ دار آدمی سے ملاقات
ہو گئی لیکن اگر آپ مسٹر شاہد کو اٹھا لے گئے تو ڈاکٹر ڈیوڈ سے کیا کہا جائے گا
؟"
" کیا انتظام کر چکے ہیں؟"
"اس کا انتظام بھی میں پہلے ہی کر چکا ہوں !"
"بات دراصل یہ ہے کہ میں پہلے ہی سے ڈاکٹر ڈیوڈ کے تعاقب میں
تھا ! "
" خدا کی پناہ!"
"اور اس وقت وہ ٹرک ڈرائیور بھی میرے قبضے میں ہے جو اس ٹرک
کو یہاں تک لایا تھا عمران نے کہا اور ٹرک ڈرائیور والا واقعہ اُسے بتانے لگا۔
" تو وہ جھاڑیوں میں بندھا پڑا ہے؟" شہلا نے پوچھا۔
"جی ہاں، میں اُسے اُٹھا کر یہاں ٹرک پر ڈال جاؤں گا اور آپ
ڈاکٹر ڈیوڈ اور اپنے ڈیڈی کو یہ رپورٹ دیجئے گا کہ ڈاکٹر ڈیوڈ کے جانے کے بعد پانچ
آدمی آئے تھے اور شاہد کو زبردستی اُٹھالے گئے تھے!"
"تو گویا ڈیڈی کو آپ کے بارے میں نہ بتایا جائے ؟“
" بھی نہیں ، ورنہ کھیل بگڑ جائے گا۔ یہ تو ہم دونوں
مل کر انہیں اس دشواری سے نکالیں گے ورنہ اگر بات ریگولر پولیس تک پہنچ گئی تو آپ
کے ڈیڈی کو گرفتار کر کے ان پر فرد جرم عائد کردی جائے گی !"
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکر یہ اس رہنمائی پر!"
" خلق خدا کی خدمت میری زندگی کا نصب العین ہے!"
عمران نے ہاتھ اُٹھا کر درویشانہ انداز میں کہا۔
11
شہلا چودھری کی گاڑی تیزی سے شہر کی طرف جارہی تھی۔ خودی ڈا
رائج کر رہی تھی۔ عمران شاہد کو اٹھا لے گیا تھا اور بے ہوش ٹرک ڈرائیور کو ٹرک پر
ڈال گیا تھا۔ اور اُس نے شہلا کو یہ بھی سمجھا دیا تھا کہا ۔۔ ٹرک ڈرائیور کے
سلسلے میں کیا کرنا ہے۔ لہذا شہلا، عمران کے چلے جانے کے بعد ٹرک ڈرائیور کے ہوش میں
آنے کا انتظار کرتی رہی تھی اور پھر جیسے ہی ٹرک کے اندر سے ہاتھ پیر چلانے کی
آواز میں آئی تھیں ، وہ ٹرک کے پچھلے حصے پر چڑھ گئی تھی ۔ ٹرک ڈرائیور نے آنکھیں
کھول دی تھیں ۔
" تم کون ہو اور یہاں
کیا کر رہے ہو ؟ " شہلا نے ڈپٹ کر پوچھا اور وہ خوں خوں کرنے لگا کیونکہ
ہونٹوں پر تو ٹیپ چپکا ہوا تھا۔
" ارے… اوہ… ! “شہلا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں پھر اس نے بندھے ہوئے ہاتھوں اور پیروں پر
بھی نظر ڈالی اور جھک کر اُس کے ہونٹوں سے ٹیپ نکالنے لگی۔
منھ کھلتے ہی ٹرک ڈرائیور زور زور سے کہنے لگا۔ " میں
ہی یہ ٹرک یہاں لا یا تھا۔ کسی نے عقب سے حملہ کر کے اس حال کو پہنچا دیا !“
" تم جھوٹے ہو! شہلا نے تیز لہجے میں کہا ۔ یہ ٹرک ڈاکٹر ڈیوڈ
یہاں کھڑا کر گئے ہیں ۔ ان کے جانے کے بعد پانچ آدمیوں نے کوٹھی پر حملہ کیا اور
ڈاکٹر ڈیوڈ کے مریض کو اٹھا لے گئے !"
"تم جھوٹے ہو ۔ جب ٹرک یہاں آیا تھا تو تم اس پر موجود
نہیں تھے؟" شہلا نے کہا۔
"مجھ پر حملہ اُن جھاڑیوں کے اس طرف ہوا تھا۔ براہ کرم
اب میرے ہاتھ پر بھی کھول دیجئے ؟"
" نا ممکن ... ہر گز نہیں ۔ پہلے میں ڈاکٹر ڈیوڈ کو
اطلاع دوں گی !"
"میں تکلیف میں ہوں محترمہ !"
" ہوا کرو۔ میں کچھ نہیں جانتی اور آپ میں یہ ٹیپ
دوبارہ تمہارے ہونٹوں پر چپکاروں گی تا کہ تم میری عدم موجودگی میں شور مچا کر کسی
کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکو !"
"رحم کیجئے محترمہ ۔ میری حالت اچھی نہیں ہے!"
" ڈاکٹر ڈیوڈ ہی آکر تمہیں کھولیں گے۔ میں کچھ بھی نہیں
کر سکتی !"
"اچھا تو ٹیپ ہی دوبارہ نہ چپکائیے!“
" یہ بھی ممکن نہیں ہے ! "شہلا نے کہا اور جھک کر
دوبارہ ٹیپ اُس کے ہونٹوں پر چپکا نے لگی۔ وہ مچلنےگا اور شہلا پھر بولی۔ "
مجھے طاقت نہ دکھاؤ۔ میں بھی کمزور نہیں ہوں ۔ بہتری اسی میں ہوگی کہ ڈاکٹر ڈیوڈ
کے آنے تک چپ چاپ پڑے رہو!“
وہ خونخوار نظروں سے اُسے گھورتا رہا اور شہلا کوٹھی کو
مقفل کر کے شہر کی طرف روانہ ہوگئی ۔
باپ کوٹھی ہی پر موجود تھا۔ شہلا نے بدحواسی کی ایکٹنگ کرتے
ہوئے اُسے عمران کی ہدایت کے مطابق اُس وقوعے کی اطلاع دی۔ شہباز چودھری ایک لمبا
ترنگا اور صحت مند آدمی تھا لیکن اس اطلاع پر اُس کی حالت ایسی ہی نظر آنے لگی جیسے
فوری طور پر اعصاب زدگی کا شکار ہو گیا ہو۔
"بہت بُرا ہوا۔ بہت بُر اہوا! "وہ ہانپتا ہوا بولا ۔
" اب کیا ہوگا ۔ ڈیوڈ شاید ہی اس پر یقین کرے!" نہ کرے، جہنم میں جائے !"
شہلا پیر چیخ کر بولی ۔" میں جھوٹ تو نہیں بول رہی !"
نن… نہیں… تم جھوٹی نہیں
ہو۔ لیکن ڈیوڈ تو کہتا تھا کہ اُس مریض کے بارے میں کوئی کچھ بھی نہیں جانتا ؟”
" آپ جانتے ہیں کہ وہ کون تھا ؟"
"نہیں ، ڈیوڈ نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا !"
"لیکن میں جانتی ہوں۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کے آنے سے پہلے ہی وہ ہوش میں
آ گیا تھا اور مجھے اپنے بارےمیں سب کچھ بتا دیا تھا !"
" کیا بتایا تھا ؟"
"وہ محکمہ سُراغ رسانی کا ایک آفیسر انسپکٹر شاہد تھا !“
"میرے خدا... !"شہباز چودھری توند پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
"ظاہر ہے کہ اُسے اُٹھا لے جانے والے بھی پولیس والے ہی رہے
ہوں گے !"
"انہوں نے کیا کہا تھا؟“
"کچھ نہیں۔ بس ایک آدمی میری طرف ریوالور تانے کھڑا ر ہا تھا
اور بقیہ چار آدمی اُسے اُٹھا لے گئے تھے؟"
"ڈیوڈ ہرگز یقین نہیں کرے گا !"
"نہ کرے جہنم میں جائے !"
"تم نہیں سمجھتیں شہلا۔ تم نہیں سمجھ سکتیں! "وہ خوفزدہ
لہجے میں بولا۔
" کیا نہیں سمجھ سکتی ۔ میرے ایک جھا پڑ کا ہے وہ نڈا!“
"پلیز شہلا یہ میری عزت کا سوال ہے!"
"خیر اُسے میری بات پر یقین کرنا ہی پڑے گا شہلا نے طویل سانس
لے کر کہا اور اُسے ٹرک ڈرائیور کے بارے میں بتاتی ہوئی بولی " میں اُس کو
اُسی طرح جکڑ بندھا چھوڑ آئی ہوں !"
" یہ تم نے عقل مندی
کا کام کیا ہے۔ ٹھہر و... میں ڈیوڈ کو فون کرتا ہوں !"
شہلا بر اسا منہ بنا کر رہ
گئی ۔ شہباز کی پشت اُس کی طرف تھی اور وہ کا نچتے ہوئے ہاتھ سے فون پر نمبر ڈائل
کر رہا تھا ۔ رابطہ قائم ہونے پر اُس نے خوفزدہ ہی آواز میں اس وقوعے کی اطلاع دی
اور پھر خاموش رہ کر کچھ سنتا رہا۔ اس کے بعد ریسیور رکھ کر شہلا کی طرف مڑا
تو چہرے کی حالت ایسی نظر آرہی تھی جیسے برسوں سے بیمار ہو۔
شہلا نے خاموشی سے اس تغیر کو نوٹ کیا کچھ بولی نہیں ۔
شہباز کری پر بیٹھ کر ہانپنے لگا۔ شہلا کو اب پوری طرح یقین ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر ڈیوڈ
اس کے باپ کو بلیک میل کر رہا ہے لیکن کس سلسلے میں، براہ راست اُس سے پوچھنے کی
ہمت نہ پڑی۔ عمران کی ہدایات بھی مد نظر تھیں ۔ اُس نے کہا تھا کہ اپنے باپ کو ذرہ
برابر بھی شبہ نہ ہونے دینا۔
شہباز تھوڑی دیر بعد بولا ۔ " ڈیوڈ آ رہا ہے!"
"آپ کا یہ دوست ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آسکا !"
اوہ… تم مت سرکھپاؤ ان معاملات میں ! "
” دیکھئے ... اس وقت میں نے کچھ نہیں کہا تھا جب وہ آدمی
سنگ زاد ثابت ہوا تھا لیکن یہ براہ راست پولیس کا معاملہ ہے؟"
" کمال ہے۔ اُس نے جو کچھ تم سے کہا تم نے اس پر یقین کر لیا۔
اگر وہ خود پولیس والا ہوتا یا اُسے اُٹھا لے جانے والے پولیس سے متعلق ہوتے تو کیا
وہ خاموشی سے رخصت ہوتے۔ تم سے پوچھ کچھ نہ کرتے۔ ارے اب تک تو انہوں نے میری ہر
کوٹھی کے گرد گھیرا ڈال : یا ہوتا !"
یہ بات بھی معقول ہی
تھی لیکن شہلا کو پھر عمران کا خیال آیا اور وہ سوچنے لگی کہ خاموشی کا مظاہرہ تو
مصلح ہوا تھا، دونوں کے درمیان ایک سمجھوتے کے تحت لیکن بہر حال یہ دلیل بھی نا
قابل شکست تھی۔ اس لیے شہلا نے صرف یہی پوچھنے پر اکتفا کی ۔ تو پھر آخر وہ کون
تھے؟"
" بد معاشوں کے علاوہ اور کون ہو سکتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر ڈیوڈ
کے کسی ہم پیشہ حریف کی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ دراصل ڈاکٹر ڈیوڈ کو تقریب ایک سرکاری
اعزاز ملنے والا ہے!"
"اچھا اگر یہ بات ہے تو سنگ زاد والے معاملے کو کیا
کہا جائے گا ؟"
"بہت بھولی ہو تم بھی !" شہباز نروس سی ہنسی کے
ساتھ بولا۔ اتنا بھی نہیں سمجھتیں… ارے سنگ زاد تو
اس کا ایک طبّی کارنامہ ہے جس کی وہ اس طرح پلنی کر رہا ہے !"
"میں نہیں بھی ؟"
"اُسے چوٹ نہیں لگتی۔ اگر ایک ایسی فوج تیار کی جائے
تو وہ نا قابل شکست ہوگی !"
لیکن اس کی یادداشت
بھی تو نا ئب ہو گئی ہے ؟"
"اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ ایک بے حد کار آمد آدمی بن
گیا ہے!"
"آدمی یا مشین ؟ "شہلا نے تلخ لہجے میں کہا۔
"تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتیں !"
" لیکن آپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہیں؟"
"قدرتی بات ہے شہلا۔ میں نے ایک ذمہ داری لی تھی جو پوری نہ
ہو سکی۔ وہ بدمعاش بالآخر ایو کے مریض کو اُٹھائے گئے! "
تھوڑی دیر بعد ڈیوڈ وہاں پہنچ گیا۔ بڑے سکون سے اُس نے پوری
رو دا دی تھی اور خاصا فکر مند نظر آنے لگا تھا۔
" شہلا کہتی ہے کہ وہ پولیس کے لوگ تھے ! "شہباز
بولا۔
"ارے نہیں!" ڈیوڈ نے ہنس کر کہا اور پھر شہلا کی طرف دیکھ
کر بولا ۔ " اگر پولیس کے لوگ ہوتے تو ٹرک ڈرائیور کو باندھ کر وہیں کیوں ڈال
جاتے ؟“
" یہی تو میں بھی کہہ رہا تھا !" شہباز بولا ۔
"نہیں بے بی ۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں اس ملک کے لیے ایک
زبردست کارنامہ انجام دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ کیا تم نے سنگ زاد کو نہیں دیکھا
اور کیا تم بجھتی ہوکہ وہ پیدائشی طور پر ایسا ہے؟“
"نہیں، میں سمجھتی ہوں کہ اُسے آدمی سے مشین بنا دیا گیا
ہے!"
”بالکل، بالکل اور یہی آدمی کی معراج ہے کہ وہ مشین بن
جائے۔ ہر قسم کے دکھ درد سے آزاد!"
شہلا بر اسا منھ بنائے ہوئے اس کمرے سے چلی گئی اور ڈیوڈ نے
شہباز کو گھورتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔ " اپنی بیٹی کو قابو میں رکھنے کی
کوشش کرو!“
"وہ قابو ہی میں ہے لیکن جن باتوں کو نہیں جانتی اس کے
بارے میں پوچھا قدرتی اَمر ہے!"
"خیر دیکھا جائے گا۔ اب میں اُس آدمی کو چیک کرنے
جارہا ہوں جس نے ٹرک وہاں پہنچایا تھا۔کوٹھی کی کنجی کہاں ہے ؟“
"شہلا کے پاس ہے۔ میں ابھی لایا!"
ٹھہر وہ ،اُس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اب اُس کوٹھی کی طرف نہ
جائے اور اب کچھ دنوں تک صرف گھر کی چہار دیواری ہی تک محدودر ہے تو بہتر ہو گا !"
"وہ مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرتی ہے !"شہباز نے بے بسی
سے کہا۔
" اُسے پہلاتے
رہو!" ڈاکٹر ڈیوڈ لا پروائی سے بولا۔
تھوڑی دیر بعد اُسے کونٹی کی کنجی مل گئی اور شہباز نے پو
چھا ۔ " کیا میں بھی چلوں ؟"
"نہیں ، میں خود دیکھوں گا ! "ڈیوڈ نا خوش گوار
لہجے میں بولا ۔
وہ وہاں سے روانہ ہو کر ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ کے قریب رکا
تھا۔ گاڑی سے اتر کر بوتھ میں داخل ہوا اور کسی کے نمبر ڈائل کر کے ماؤتھ ہیں میں
بولا ۔ " میری گاڑی اس وقت پلاز وسنیما کے سامنے موجود ہے۔ دس منٹ کے اندر
اندر وہاں پہنچو۔ تمہیں مجھ سے دور رہ کر اس پر نظر رکھنی ہے کہ کوئی میرا تعاقب
تو نہیں کر رہا!"
"اور اگر ایسا ہورہا ہو تو پھر مجھے کیا کرنا پڑے گا ؟"
دوسری طرف سے آواز آئی۔
" تم پہلے مجھے آگاہ کرو گے۔ پھر مستقل طور پر اُسے
نظر میں رکھ کر اُس کے بارے میں معلومات فراہم کرو گے!"
"او کے سرا دوسری طرف سے آواز آئی۔
"بس روانہ ہو جاؤ! کہہ کر ڈاکٹر ڈیوڈ نے رابطہ منقطع کر دیا۔
پھر وہ اپنی گاڑی میں
آبیٹھا۔ ٹھیک دس منٹ بعد اُس نے ڈیش بورڈ کے خانے سے ایک چھوٹا سا ٹرانس میٹر
نکالا اور اس کا سوئچ آن کر دیا اور آہستہ آہستہ بولنے لگا۔
"ہلو ... ٹام.. کیا تم پہنچ گئے ہو؟“
جواب میں کچھ نہ سن کر اُس نے اُسے گود میں ڈال لیا لیکن
اُس کا سوئچ آف نہیں کیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ٹرانس میٹر سے آواز آئی ۔ " میلوڈ
وک میں پہنچ گیا ہوں۔ اب کیا حکم ہے؟"
"سابقہ ہدایت کے مطابق عمل ۔ میں روانہ ہو رہا ہوں !"
کہہ کر اُس نے انجمن اسٹارٹ کیا۔ ٹرانس میٹر کو بدستور گود ہی میں پڑا رہنے دیا
تھا۔ خاصی تیز رفتاری سے اُس کی گاڑی روانہ ہوئی تھی ۔
شہباز کے باغات تک
بھی پہنچ گیا لیکن اُس کے نگراں نے فرانس میٹر پر مکنہ تعاقب کی اطلاع نہ دی۔آخر
خود اُسے ہی اپنے نگراں کو مخاطب کرنا پڑا۔
"ہلو… ٹام …تم نے ابھی تک کوئی
اطلاع نہیں دی؟“
" آپ کا تعاقب کسی نے بھی نہیں کیا ڈ اکٹر... اور یہاں تو بس
ہماری ہی دونوں گاڑیاں ہیں!“
"اچھی بات ہے تو تم جھاڑیوں کے باہر ہی نمبر نا اور میں اپنی
گاڑی عمارت تک لے جاؤں گا ۔ واپسی کے سفر میں بھی تمہیں دھیان رکھنا ہے!"
"بہت بہتر!" دوسری طرف سے آواز آئی۔
ڈاکٹر ڈیوڈ نے ٹرانس میٹر کا سوئچ آف کر کے اُسے ڈیش بورڈ
کے خانے میں ڈال دیا اور اپنی گاڑی عمارت کی طرف لیتا چلا گیا اور مین ٹرک کے پیچھے
رو کی تھی۔ شاید انجن کی آواز ہی سن کر ٹرک ڈرائیورناک کے ذریعے حلق سے آوازیں
نکالنے لگا تھا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ چھلانگ مار کر ٹرک پر چڑھ گیا۔ اور پھر جیسے ہی اُس نے
ڈرائیور کے ہونٹوں سے ٹیپ نکالا وہ چیخنے لگا۔
"مجھ پر بے خبری میں حملہ ہوا تھا !"
" کہاں اور کب
؟'' ڈاکٹر نے یہ آہستگی پوچھا۔
"میں ٹرک لے کر پہنچا۔ آپ کی گاڑی کھڑی دیکھی لیکن اُس کے آگے
بھی ٹائروں کے نشانات دیکھ کر مجھے شبہ ہوا۔ قریب سے دیکھا تو وہ آپ کے ٹائروں کے
نشانات سے مختلف تھے اور تازہ معلوم ہوتے تھے۔ میں ان نشانات پر چلتا ہوا ایک ٹوسیٹر
گاڑی تک پہنچا جو خالی ہی تھی۔ میں اُسے دیکھ ہی رہا تھا کہ میری بے خبری میں کئی
آدمی مجھ پر ٹوٹ پڑے اور باندھ کر جھاڑیوں میں ڈال دیا اور پھر ایک انجکشن لگا یا
جس کے بعد کا مجھے ہوش نہیں !“
"تو پھر اس ٹرک تک کیسے پہنچے ؟“
" میں نے عرض کیا نا کہ اس کے بعد کا مجھے ہوش نہیں!"
"گاڑی کا رجسٹریشن نمبر یاد ہے؟“
"جی ہاں، ٹھہرئیے۔ خدا کے لیے میرے ہاتھ پیر بھی تو کھولیے !"
"او... ہاں!" کہہ کر ڈاکٹر جھکا اور اُس کے ہاتھ پیر
کھولنے لگا۔ پھر بولا۔ ” تمہیں ٹرک پر نہ پاکرمیں سمجھا تھا کہ تم مزید ہدایات کا
انتظار کیے بغیر واپس چلے گئے!"
"بھلا یہ کیوں کر ممکن تھا جناب !" ٹرک ڈرائیور
بولا ۔
وہ دونوں ٹرک سے اتر کر برآمدے میں آکھڑے ہوئے اور ٹرک ڈرائیور
نے کہا۔ " ان لوگوں میں سے ایک کی شکل میں دیکھ سکا تھا۔ عجیب بے وقوف سا آدمی
لگتا تھا !"
" اور تم نے ابھی کسی ٹوسیٹر کا بھی ذکر کیا تھا؟“
ڈاکٹر ڈیوڈ چونک کر بولا ۔
"جی ہاں ، ٹوسیٹر ہی تھی !"
" تم شاید اس کے نمبر یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے
؟"
"جی ہاں ، وہ مجھے یاد ہیں۔ سب سے پہلے میں نے تمبری ذہن نشین
کرنے کی کوشش کی تھی ! "
"یہ بہت اچھی عادت ہے! " ڈاکٹر ڈیوڈ جیب سے نوٹ
بک اور قلم نکا لتا ہوا بولا ۔ پھر اُس نے لڑک ڈرائیور کے
بتائے ہوئے نمبر نوٹ کیے تھے اور پر تشویش انداز میں کچھ سوچتا رہا تھا۔
12
شاہد کو دوسری بار ہوش آیا تو اس کی ٹانگ پر پلاسٹ نہیں
تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا ۔ کمرہ بھی وہ نہیں تھا جس میں
پہلی بار ہوش آیا تھا۔
جلدی سے اُٹھ بیٹھا اور اُس ٹانگ کو جلدی جلدی اوپر سے نیچے
تک تولنے لگا جس پر پہلے پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ دوسرا قدم یہی تو ہو سکتا تھا کہ وہ
بستر سے اتر کر کمرے میں دوڑ لگانے کی کوشش کرتا ۔
ٹانگ بالکل ٹھیک تھی
، نہ کسی جگہ درد تھا اور نہ کہیں ہلکی سی بھی خراش نظر آئی۔
اپنی طرف سے مطمئن ہو جانے کے بعد اُسے وہ حسین چہرہ یاد آیا
تھا۔ جھر جھری سی لے کر رہ گیا پھر دروازے کی طرف بڑھا اور اُسے کھولنے کی کوشش کی
لیکن نا کام رہا۔ دروازہ باہر سے مقفل تھا۔
تھک ہار کر پھر
بستر پر آبیٹھا اور کمرے کا جائزہ لینے لگا اور جیسے ہی ٹیلیفون پر نظر پڑی ، جھپٹ
کر اُس کے قریب پہنچا اور ریسیور اُٹھا کر کیپٹن فیاض کے نمبر ڈائل کرنے لگا۔
اور پھر دوسری طرف
سے آواز آئی ۔ " ہمیں افسوس ہے جناب ! ہم اس نمبر پر آپ کی کال ڈائرکٹ نہیں
کر سکیں گے!"
"کیوں ..؟ "شاہد بھنا کر بولا ۔ یہ کون سا ایکسچینج ہے؟"
"ایکسچینج پوائنٹ بلینک!"
"یہاں تو اس نام کا کوئی انکھینچے نہیں ہے اور ہاں سنو ۔ میں
ایک پولیس آفیسر ہوں اور اپنے چیف سے رابطہ قائم کرنا چاہتا ہوں!“
"اگر ایسا ہے تو ہولڈ آن کیجئے !" دوسری طرف سے
آواز آئی۔ شاہد ہونٹ سکوڑ کر جہت کی طرف دیکھنے لگا۔
پھر تھوڑی دیر بعد اُسے جو آواز سنائی دی تھی ، کچھ جانی
پہچانی سی لگی اور بے اختیار شیخ اُٹھا۔
" عمران صاحب ....! "
" آہستہ… آہستہ… اور نہ لائن ڈیڈ
ہو جائے گی ! "دوسری طرف سے آواز آئی۔
"آپ کہاں سے بول رہے ہیں؟"
"گھر سے… لیکن تم اس کی پروا نہ کرو ۔ اب کیا حال ہے
تمہارا۔ ٹانگ کی کتنی ہڈیاں ٹوٹی ہیں ؟ "
"ایک بھی نہیں ، سب کو اس تھی …لل … لیکن آپ کیا
جانیں ؟"
"وہ تیماردار تو نہیں یاد آرہی ؟ "
"اوه .. تو کیا میں وہاں نہیں ہوں ؟“
" کیا تم وہاں اسی لیے رکھے گئے تھے کہ اپنی اصل حالت سے
باخبر ہوسکوں لیکن یہ تو تاؤ کہ تم ان کے ہتھے کیسے چڑھے تھے؟"
"پہلے آپ مجھے یہ بتا دیجئے کہ میں کہاں ہوں؟"
"اُن لوگوں کے
قبضے میں بہر حال نہیں ہو، ورنہ تمہاری ٹانگ پر اب بھی پلاسٹر چڑھا ہوا ہوتا!
"
شاہد نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپ کا ئیں اور عمران کو
بتانے لگا کہ کس طرح ایک موٹر سائیکل سوار اُس کا گال نوچ کر بھاگا تھا اور وہ اُس
کے تعاقب کے دوران میں اس مصیبت میں پڑ گیا تھا۔
" بس اب اس قصے کو یہیں ختم کردو! "عمران پوری
بات سن کر بولا ۔
"مم ... میں نہیں سمجھا ؟"
"میرا مطلب ہے کہ تمہیں اپنی یہ کہانی بدلنی پڑے گی ! "
" میں اب بھی نہیں سمجھا ؟"
"اچھا ٹھہرو۔ میں وہیں پہنچ کر تمہیں سمجھاؤں گا۔ انتظار کرو،
میں آرہا ہوں ۔ اس دوران میں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مسہری کے سکئے کی پشت سے
لگے ہوئے سبز بٹن کو دبا دیتا۔ سبز بٹن یا درکھنا !"
" بہر حال تو اب میں یہ سمجھ لوں کہ آپ کی تحویل میں
ہوں؟“
"بالکل بالکل ! "دوسری طرف سے کہا گیا اور پھر
رابطہ منقطع ہونے کی آواز آئی۔ شاہد نے ریسیور رکھ دیا اور مرکر مسہری کے سکتے کی
پشت پر نظر ڈالی۔ کئی رنگوں کے بٹن ایک ہی قطار میں موجود تھے ۔ طویل سانس لے کر
وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔
اور جب باتھ روم سے برآمد ہوا تو ایک بار پھر اُس کی آنکھیں
حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ عمران کمرے میں موجود تھا۔
"اب تو مجھے یقین کر ہی لینا پڑے گا !" شاہد جملہ پورا کیے
بغیر خاموش ہو گیا۔
"کہ میں بھوت ہوں ! "عمران شرارت آمیز انداز میں
مسکرایا۔
"آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟“
"فی الحال یہ بتانا مشکل ہے۔ ویسے وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ
تمہاری ملاقات کرتل فیضی سے ہو سکے اور شاید دوسرا مقصد یہ تھا کہ ایک اور سنگ زاد
پیدا ہو جائے !"
"مم… میں نہیں کیا؟"
"وہ تم پر کسی قسم کا تجربہ بھی کرنا چاہتے تھے!"
چیتھڑے اُڑا دوں گا!" شاہد فصیلے لہجے میں
بولا ۔ " مجھے علم ہو چکا ہے کہ وہ لوگ کون ہیں !"
" شاید تمہار اشارہ شہباز چودھری کی طرف
ہے؟"
" جی ہاں !"
"وہ لوگ صرف تمہاری دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اس حرکت کے ذمہ دار
نہیں تھے۔ انہیں یہی بتایا گیا تھا کہ تمہاری ٹانگ ٹوٹ گئی ہے!"
" آخر اس ڈھونگ کی کیا ضرورت تھی ؟"
"تا کہ تم چپ چاپ پڑے رہو۔ فرار ہونے کی کوشش نہ کرو!"
" تو پھر شہباز چودھری وغیرہ اس کے لیے جواب دہ بھی نہیں ہو
سکتے ؟ "
" میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم فی الحال اصل واقعات کا
اظہار کسی پر بھی نہ کرو!"
" کپتان صاحب کو کیا جواب دوں گا ؟"
" میں نے کہا نا کہ کہانی بدل دو ۔ وہی کہانی ہر ایک
کو سنا سکو گے!"
" کہانی کیسے بدل دوں۔ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آیا
؟"
" تو پھر میری سمجھ سے کام لو !"
" بتائیے …کیا کہنا ہے؟"
"تم کبھی کبھی خوانچہ فروشوں سے پوٹیٹو چپس کی تھیلیاں خریدا
کرتے ہو!"
" آپ کیا جانیں؟“
"شہر کے سارے ندیدے بچوں سے واقف ہوں۔ بسا اوقات سر راہ پوٹیٹو
چپس کھاتے ہوئے پائے گئے ہو؟“
"بچپن کی بعض عادتیں زندگی بھر چھٹی رہتی ہیں ؟ شاہد کھسیانا
ہو کر بولا۔
" پروانہ کرو ۔ ہاں ، تو تم نے سڑک کے کنارے کسی چلتے
پھرتے خوانچہ فروش سے ایک تھیلی خریدی اور دو چار ہی چپس کھائے ہوں گے کہ تم پر غشی
طاری ہوگئی۔ دوبارہ ہوش آیا تو کسی کے قیدی تھے۔ لیکن تم اُن لوگوں میں سے کسی کی
بھی نشاندہی نہیں کر سکو گے جن سے اُس قید کے دوران میں تمہارا سابقہ پڑتا رہا
تھا۔ مطلب سمجھ رہے ہونا میرا۔ یعنی ایک نقاب پوش قید کے دوران میں تمہاری ضروریات
پوری کرتا رہاتھا اور پھر اچانک آج تمہیں آزاد کر دیا گیا ! "
"اس صورت میں مجھے اُس جگہ کی نشاندہی تو کرنی ہی پڑے
گی جہاں میں قید تھا ؟"
" اس کا انتظام بھی ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد تمہیں وہ
جگہ دکھا دی جائے گی !"
اس طرح تو کوئی بے گناہ پھنس جائے گا ؟"
" وہ فی الحال ایک ایسی جگہ ہے جس کا کوئی بھی دعوے
دار نہیں ہے۔ جو چاہے اس جگہ کو استعمال کر سکتا ہے؟"
"اب مجھے اس جگہ کے بارے میں بتائیے جہاں اس وقت موجود ہوں؟"
"اس کی نشاید ہی تم زندگی بھر نہ کر سکو گے ! "
" کیوں نہ کر سکوں گا۔ آخر آپ مجھے یہاں سے نکالیں گے
تو !"
" تم پر اتنی بے ہوشیاں پہلے بھی طاری ہو چکی ہیں ایک اور سہی
!"
"خدا کی پناہ، اب آپ بھی بے ہوش کریں گے؟"
" اسی میں تمہاری سٹرال کی بہتری ہے !"
"میری شادی ہی نہیں ہوئی سٹرال کہاں سے آٹیکی ! "
"تم شاید ہیروئنوں کے ایثار اور قربانی والی فلمیں نہیں
دیکھتے !"
"میں سرے سے دیکھتا ہی نہیں !"
" تبھی تو ایسی بے وقوفی کی باتیں کر رہے ہو!"
" خدا را جلدی سے مجھے عقل مند بنادیجئے ۔ اب الجھن ہونے لگی
ہے؟"
"شہلا چودھری جب یہ دیکھے گی کہ تم نے اپنی کہانی میں اُس کا یا
اُس کے باپ کا نام نہیں لیا تو وہ تم سے محبت کرنے لگے گی اور اگر اُس کے کسی کزن
سے تمہاری مار پیٹ نہ ہوگئی تو ظالم سماج کے اعتراضات کے باوجود بھی تمہاری شادی
شہلا چودھری سے ہو جائے گی ۔ پس ثابت ہوا کہ تمہاری سسرال کی بہتری اسی میں ہے کہ
تم اپنی کہانی بدل دو۔ کیپٹن فیاض کے سر سے ملے ہو؟“
"خدا کی پناہ، ایسا کوئی بوڑھا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا
!"
" کیا مطلب؟"
"اب بھی خود کو ہمیں بائیس سال کا لڑکا سمجھتا ہے! "
"اور فیاض تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا!" عمران سر ہلا کر
بولا۔
" اچھا تو پھر مجھے ناشتے سے پہلے بے ہوش ہوتا ہے یا
ناشتے کے بعد؟"
" ناشتے کے لیے زرد رنگ کا بٹن دباؤ ۔ دس منٹ کے اندر اندر ہی
ناشتے کی ٹرالی آجائے گی! "
" کہاں لا کر
بند کیا ہے مجھے؟"
" چلو دباؤٹین !"
شاہد نے فوراہی اس مشورے پر عمل کیا تھا۔ پھر دس منٹ بھی نہیں
گزرے تھے کہ دروازہ کھلا اور ایک نقاب پوش ناشتے کی ٹرائی دھکیلتا ہوا اندر داخل
ہوا۔
" نن... نقاب پوش بھی ؟ "شاہد آہستہ سے بڑبڑایا۔
" تمہاری کہانی
میں تھوڑی ہی حقیقت بھی شامل ہو جائے تو کیا حرج ہے!"
شاہد کچھ نہ بولا ۔
ٹرالی پر پوٹیٹو میں کی پلیٹ بھی نظر آئی اور وہ غیر شعوری طور پر منھ چلانے لگا۔
عمران کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ تھی ۔
ناشتے کے بعد اچانک شاہد بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ "مم… مجھ پر… پھر بے ہوشی… !"
جملہ پورا کیے بغیر وہ بستر پر ڈھیر ہو گیا تھا۔
پتہ نہیں کتنی دیر
تک بے ہوش رہا تھا۔ آنکھ کھلی تو اس بار خود کو جگے فرش پر پڑا پایا اور آس پاس
کوڑے کرکٹ کی ڈھیریاں نظر آئیں۔ بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔ اس بار ذہنی کسل مندی کا
احساس نہیں ہوا تھا ۔ بس ایساہی معلوم ہوتا تھا جیسے اچھی بھلی نیند کا سلسلہ
اچانک ٹوٹ گیا ہو۔
شکستہ حال کمرہ تھا جس کا دروازہ کھلا ہی ہوا تھا اور اس کے
سامنے اُس کی موٹر سائیکل بھی موجود تھی۔ جلدی سے باہر نکلا اور گیر دو پیش نظریں
دوڑاتے ہی سمجھ گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔
نیشنل ہائی وے کے
ساتویں میل پر یہ ویران فارم واقع تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کس کی ملکیت ہے۔
اپنے کپڑوں سے گرد جھاڑتا ہوا دہ موٹر سائیکل کی طرف بڑھا اور اُسی وقت اُسے شہلا
چودھری کا مهربان مهربان سا چہرہ یاد آیا۔ آخر یہ سب کیا تھا؟ اس الجھن کے عالم میں
اُس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔
13
ڈاکٹر فوریل قہر آلود نظروں سے ڈیوڈ کو گھورے جارہی تھی اور
ڈیوڈ دم بخود تھا۔ ڈاکٹر فوریل کے مقابل وہ ایسا ہی نظر آتا تھا جیسے کسی پہاڑ کے
دامن میں کوئی ہجر زدہ بکری اُداس اور تنہا کھڑی ہو۔ ڈاکٹر فوریل ایک ٹیم ٹیم عورت
تھی۔ مجھ کی مناسبت سے آواز میں بھی گھن گرج کی سی کیفیت پائی جاتی تھی اور آنکھیں
تو انائی کا خزانہ معلوم ہوتی تھیں۔
"تم احمق ہو!" دفعتّہ وہ ڈیو ڈ کی ہو تھ اُٹھا کر دہا ڑی
اور ڈیو ڈ صر ف پہلو بدل کر رہ گیا ۔ ڈاکٹر فوریل کہتی رہی ۔" ہر کام کا ذمہ
لے کر خودی اُسے پہنانے کی کوشش کرتے ہو اور بالآخر وہ بگڑ جاتا ہے!"
مم …میں …پھر کہتا ہوں ڈاکٹر !" وہ مُردہ
سی آواز میں بولا ۔ "انسپکٹر شاہ کو اٹھائے جانے والے پولیس سے متعلق نہیں
معلوم ہوتے !"
" کس بنا پر کہہ رہے ہو؟"
" اگر وہ پولیس والے ہوتے تو اب تک شہباز چودھری کا
گھرانا دشواری میں پڑ چکا ہوتا !"
"اگر معلی انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو تو ؟"
"ارے نہیں !" ڈیوڈ زبردستی ہنس کر بولا ۔ "
ہماری پولیس اپنی چالاک نہیں ہے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں !"
" پھر وہی بے
وقوفی کی باتیں ! ڈاکٹر فوریل آنکھیں نکال کر بولی ۔" ہم نے یہ سب کچھ اس لیے
کیا تھا کہ وہ سنگ زاد کی طرف نہ صرف متوجہ ہو جائیں بلکہ اُسے پہچان بھی لیں۔
تمہاری حماقت کی وجہ سے انہیں اس کا احساس بھی ہو گیا کہ کسی اور نے اُن کی توجہ مبذول
کرانے کی کوشش کی ہے۔ تو کیا پھر انہیں اس نا معلوم پارٹی کی تلاش نہ ہو گی ؟“
"ہاں، یہ ممکن ہے!" ڈیوڈ جلدی سے بولا ۔ " لیکن
ایسا ہوا نہیں ہے!"
"خواب مت دیکھو!" وہ میز پر ہاتھ مار کر دہاڑی۔
"میں خواب نہیں دیکھتا کیونکہ معاملے کی تہہ کو پہنچ گیا
ہوں!"
" وہ بھی کوئی خواب ہی ہوگا! "ڈاکٹر فوریل بیزاری
سے بولی۔
"نہیں ڈاکٹر ... یہاں ایک بلیک میلر ایسا بھی ہے جو اپنا
مطالبہ پورا نہ ہونے پر پولیس انفارمر بن جاتا ہے۔ میں تحقیق کر چکا ہوں اُس کے
بارے میں۔ وہ ٹوسیٹر گاڑی جس کا تذکرہ ٹرک ڈرائیور نے کیا تھا اُس بلیک میلر کی
ثابت ہوئی ہے!“
"کون ہے؟"
" علی عمران نام ہے۔ سی آئی بی کے ڈائرکٹر جنرل کا
لڑکا ہے۔ اُس کی بے راہ روی کی بنا پر ڈائرکٹر جنرل نے اُسے گھر سے نکال دیا ہے۔
وہ لوگوں کی ٹوہ میں رہتا ہے۔ اُن کی کمزوریاں معلوم کر کے انہیں بلیک میل کرتا
ہے۔ اگر وہ بلیک میل ہونے سے انکار کر دیتے ہیں تو پولیس کو مطلع کر دیتا ہے؟
" کیا اُس نے اپنا کوئی مطالبہ پیش کیا ہے؟"
"ا بھی نہیں …لیکن مجھے یقین ہے کہ جلد ہی پیش کر دے گا ؟"
" لیکن کیا وہ آفیسر خاموش رہے گا جسے تم نے روک رکھا تھا ؟
"
"اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکا لیکن ٹھہر و… !"وہ ہاتھ
اٹھا کر کچھ سوچنے لگا پھر بولا ۔ وہ بے ہوش رہا ہو گا اُس وقت جب اُسے اُس عمارت
سے بنایا گیا ہو گا! "
" کیا کہنا چاہتے ہو ؟"
"اُس آفیسر کو اس کا علم نہیں تھا کہ وہ کہاں اور کن لوگوں کی
تحویل میں ہے اپنا ہوش میں آنے کے بعداُس عمارت کی نشاندہی نہیں کر سکتا۔ اگر اسے
اپنے بارے میں کچھ بھی اندازہ ہو سکا ہوتا تو اب تک پورے شہر میں تہلکہ پڑ جاتا !"
"کچھ بھی ہو، تمہارے دلائل مجھے مطمئن نہیں کر رہے تم نے اُس
آفیسر کو اُٹھانے کا فیصلہ خود کیا تھا۔ تمہیں اس کی ہدایت نہیں دی گئی تھی
!"
"یہ میں نے اس لیے کیا تھا کہ آئی ایس آئی والے سنگ زاد کو
جلد از جلد اپنی تحویل میں لے لیں !"
"لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا!“
"اسی پر تو حیرت ہے!" ڈیوڈ نے پر تشویش لہجے میں کہا۔
" میرا خیال
ہے کہ وہ صرف اُس کی نگرانی کرا رہے ہیں!"
"دیکھا جائے گا !"
" بے وقوفی کی باتیں نہ کرو، میں بھی کسی کو جواب دہ
ہوں!"
ڈیوڈ کچھ نہ بولا اور وہ اُسے گھورتی رہی، پھر بولی ۔
" اصل کام تم نہ کر سکے؟"
" آج شاید ہی ہو سکے کیونکہ وہ اپنے ماتحت کے معاملے میں الجھ
گیا ہو گا!"
" کیا مطلب؟"
"کیپٹن فیاض کا ماتحت تھا وہ آفیسر جسے میں نے اٹھوایا تھا !"
" خدا کی پناہ!" وہ پیر چیخ کر بولی۔ " کہیں
تمہارا دماغ تو نہیں اُلٹ گیا ؟"
"لا علمی دیوانگی نہیں کہلاتی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ
وہ کیپٹن فیاض ہی کا اسٹنٹ ہے۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا تھا؟"
"دیکھو!" وہ اُنگلی اُٹھا کر بولی۔ "اگر کھیل بگڑ گیا
تو ہم سب فنا ہو جائیں گے!"
" کھیل نہیں بگڑے گا… ڈاکٹر تم مطمئن
رہو اور بے فکر رہو۔ کیپٹن فیاض کی بیوی تمہارے کلینک میں ضرور داخل ہوگی۔ فی
الحال میں عمران کو نپٹاؤں گا !"
"پھر وارنگ دے رہی ہوں کہ احتیاط سے؟“
"ارے سب ٹھیک ہے۔ اگر کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو میں اُسے
سنبال بھی سکتا ہوں ! "ڈیوڈ نے لا پروائی سے کہا۔
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تمہاری اس غلطی کی اطلاع چیف
کو دوں یا نہ دوں ؟"
"کیا ضرورت ہے!" ڈیوڈ نے کہ اسا منھ بنا کر کہا۔
"وہ ایسے کارکنوں کو فیلڈ میں دیکھنا پسند نہیں کرتا جو کسی
جگہ کی پولیس کی نظر میں آجائیں !"
" بس تو پھر اُسے اطلاع نہ دو، ورنہ میرے ہی توسط سے
تمہاری زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی !"
" اور اگر اسے اپنے طور پر اس کا علم ہو گیا تو ؟"
ڈاکٹر فو ریل آنکھیں نکال کر بولی ۔
"میں اس کے لیے کیا کر سکتا ہوں ! " ڈیوڈ نے بیزاری
سے کیا۔
"اُس صورت میں ہمارا انجام عبرتناک ہوگا !"
" اپنے طور پر اُسے کیوں کر علم ہو سکتا ہے جب کہ ہم
خود ہی اس کی معلومات کا ذریعہ ہیں ؟“
"اس وہم میں نہ رہنا۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو ہماری
نگرانی کر رہے ہوں گے!"
" تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ چیف کو اپنے کارکنوں پر
اعتماد نہیں ہے؟"
وہ کچھ نہ بولی، دفعتہ بہت زیادہ فکر مند نظر آنے لگی تھی۔
ڈیوڈ نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ " مجھے یقین ہے کہ بات ابھی
اُس بلیک میلٹر سے آگے نہ بڑھی ہوگی۔ اگر وہ قابو میں آجائے تو سمجھو کہ اس غلطی
کا ازالہ ہو گیا !"
" اچھا اب جاؤ اور مجھے سوچنے دو! "ڈاکٹر فوریل
ہاتھ اُٹھا کر بولی۔
ڈیوڈ اُس کمرے سے نکل آیا۔ یہ ایک بہت بڑی عمارت تھی۔ اس کے
ایک حصے میں ڈاکٹر فوریل کا کلینک بھی تھا جہاں وہ لا ولد عورتوں کا علاج کرتی تھی۔
14
عمران کے اس فون کی گھنٹی بھی جو اس کے نام پر رجسٹریا تھا۔
صفدر کی کال تھی۔
" ہیلو… کیا خبر ہے؟" اس نے ریسیور اٹھا کر
ماؤتھ میں میں کہا۔
"رجسٹریشن آفس سے کسی نے آپ کی ٹوسیٹر کے بارے میں
معلومات حاصل کی ہیں ؟ دوسری طرف سے کہا گیا۔
"کس نے ؟"
"یہ نہیں معلوم ہو سکا !"
"ظاہر ہے کہ کس نے کی ہوں گی !"
"سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ سے ایسی غلطی کیوں کر سرزد ہوئی ۔
ٹرک ڈرائیور کو وہیں نہ چھوڑ آنا چا ہئے تھا !"
"وہ غلطی نہیں تھی۔ دیدہ و دانستہ اُسے وہاں چھوڑا
تھا۔ میں تمہیں شہلا چو دھری کے بارے میں بتا چکا ہوں!"
" بہر حال،
مجھے یقین ہے کہ اب آپ بھی اُن کی نظر میں آگئے ہیں!"
" دیکھا جائے گا!" عمران نے کہا۔ " مجھے یہ
بھی تو دیکھنا ہے کہ شہباز چودھری ان معاملات میں کس حد تک ملوث ہے!"
" اب میرے لیے کیا حکم ہے؟"
" بدستور ڈاکٹر ڈیوڈ پر نظر رکھو اور ہاں شاہد کی کیا خبر
ہے؟"
"آئی ایس آئی والوں کے نرغے میں ہے!"
"خیر تم ڈیوڈ کی نگرانی جاری رکھو! "عمران نے کہا اور ریسیور
کریڈل پر رکھ دیا۔ میز کے پاس سے ہٹا بھی نہیں تھا کہ گھنٹی پھر بجی۔ ریسیور اٹھا
لیا۔ اس بار آواز پہچاننے میں اُسے دشواری ہوئی تھی۔
" کیا بھول گئے ؟ میں شیلی بول رہا ہوں!"
" او ...!" عمران بائیں ہاتھ سے سر سہلاتا ہوا بولا ۔
" فرما ہے؟“
" تو تم اس طرح غائب ہوئے جیسے… !"
"جی ہاں جیسے..؟"
"تشبیہ برداشت نہ کر سکو گے!"
"جی ہاں، سینگ نہیں ہے میرے… اب فرمائیے!"
" تفریح کی کیا رہی!"
"تت .. تفریح … ؟" عمران نے دیدے نچائے۔
"ہاں ، سنا ہے ریا لٹو میں آج کل بڑے غضب کا طور شو ہورہا
ہے؟“
خواه گواہ عمران کے
دانت نکل پڑے اور اُس نے بائیں آنکھ بھی دہائی اور آہستہ سے بولا۔ "اگر کسی کو
معلوم ہو گیا تو ؟"
" تو کیا ہوا۔ ارے میاں رقص دیکھیں گے کوئی رقاصہ کی گود میں
تو بیٹھنا نہیں ہے!"
" بالکل بالکل
! "عمران سر بلا کر ہوا ۔ " تو پھر کب حاضر ہو جاؤں؟"
" آسکتے ہو تو ابھی آجاؤ، بہت بور ہو رہا ہوں !"
"بس آیا !"عمران نے کیا اور دوسری طرف سے رابطہ منقطع
ہونے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور رکھتا ہوا بڑبڑایا۔ ارے واہ بڑے میاں!"
تھوڑی دیر تک کچھ
سوچتے رہنے کے بعد ملبوسات کی ایک الماری کھول کر روانگی کی تیاری کرنے لگا اور
پھر جب فلیٹ سے نکل رہا تھا تو گل رخ کی نظر اُس پر پڑ گئی اور اُس نے ایک زور دار
قہقہہ لگایا کیونکہ عمران سر سے پیر تک عرب معلوم ہو ر ہا تھا۔ ٹخنوں تک لیے کرتے
اور سر پر عمال اور مندیل سے آراستہ ہو کرفیاض کے سرٹیلی صاحب کے پاس جارہا تھا۔
" کیا کسی یتیم خانے کا اختاح کرنےجارہے ہیں صاحب ؟"
اس نے بدقّت ہنسی پر قابو پا کر پوچھا۔
"نہیں ، ایک دوست کی بیوی کو یتیم کرنے جا رہا ہوں ۔ چل اپنا
کام کر! "
باہر نکلا تو پڑوسیوں
کی مسکراہٹوں سے بھی دو چار ہونا پڑا لیکن وہ نکلا چلا گیا۔ ایک جیسی رکوائی اور ٹیکسی
سے اُس جگہ پہنچا جہاں گیراج میں اُس کے محلے کی کئی گاڑیاں کھڑی رہتی تھیں ۔ سیاہ
رنگ کی ایک مرسڈیز نکالی اور فیاض کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گیا۔
فیاض موجود نہیں تھا۔ اس کی بیوی سے برآمدے ہی میں ملاقات
ہوئی۔ پہلے تو شاید وہ اُسے پہچان ہی نہیں سکی تھی پھر پہچان کر بے ساختہ ہنس پڑی
اور عمران نے بر ا سامنھ بنا کر کہا۔ ” اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ سوٹ بوٹ والوں
پر ہنسی نہیں آتی۔ وہ کب اپنا لباس ہے!"
"سوال تو یہ ہے کہ غریب خانے کو اس لباس میں کیوں نوازا گیا
ہے؟“
"اور نہیں تو کیا جہنم خانے کو نوازوں گا !“
" فیاض صاحب موجود نہیں ہیں !"
"آپ کے والد صاحب سے ملنے آیا ہوں !"
" کیا مطلب...؟"
"ہم دونوں کو کہیں جاتا ہے !"
"ہر گز نہیں۔ اُن پر تو کرم ہی فرمائیے!“
" آواز دوں کہ آپ کی صاحبزادی ہمارے درمیان حائل ہو رہی
ہیں !"
" آخر بات کیا ہے؟ "وہ جھنجھلا کر بولی۔
"میں کیوں بتاؤں بات۔ انہیں مطلع کر دیجئے کہ خادم
حاضر ہے!"
"یہ نہیں ہو سکتا ؟"
"گُھٹ گُھٹ کر
مر جائیں گے اگر آپ نے ایسی کوئی پابندی لگائی !"
وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ شیلی صاحب عمودی وارد ہو گئے۔
پہلے تو عمران کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھاپھر بو لے ۔اَ مے یہ کیا ہے ؟"
" کہاں کیا ہے ؟ "عمران ہونقوں کی طرح چاروں طرف دیکھنے
لگا۔
" میں نے کہا… یہ
کیسا حلیہ بنایا ہے ؟"
"دیکھئے جناب، میں اس معاملے میں سینٹی منیٹل ہوں۔ میں نے تو
آپ سے ایسا کوئی سوال نہیں کیا ؟"
" مجھ سے کیا سوال کرو گے ؟"
" یہی کہ آپ نے خواتین کے غرارے کے کپڑے کی بشرت کیوں پہن رکھی
ہے؟"
فیاض کی بیوی وہاں
سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اچھی طرح جانتی تھی کہ عمران کتنا منھ پھٹ واقع ہوا ہے۔ پہ نہیں
یہ گفتگو کس حد تک جاتی لہذا اس نے مناسب ہی سمجھا ہوگا کہ وہاں سے چلی ہی جائے۔
عمران نے شیلی کی طرف دیکھ کر بائیں آنکھ دہائی اور مسکرایا بھی۔
"گاڑی لائے ہو ؟ "شیلی نے پوچھا۔
"مرسڈیز ... اس لباس کے شایان شان !"
" آخر اس کی کیا ضرورت تھی ؟"
" آپ مجھے نہیں ! عمران گاڑی کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ "خیر،
ابھی سمجھا دوں گا اور پھر جب مرسڈیز بنگلے کی کمپاؤنڈ سے نکل رہی تھی، اس نے کہا۔
"رقاصائیں مجھے کوئی عرب شیخ سمجھ کر ہماری میز کے آس پاس منڈلاتی رہیں گی …نہیں سمجھے؟"
"امے بہت گہرے ہو تم ! "شیلی نے قہقہ لگا کر کہا۔
" لوگ یو نہی خواہ خواہ تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں!"
"کون سمجھتا ہے؟ "عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ "
ذرا نام تو بتائیے ۔ اُسے بھی دیکھ لوں گا !"
"جھک مارتے ہیں ، تم دل چھوٹا نہ کرو!“
"جی بہت اچھا! "عمران نے سعادت مندانہ انداز میں کہا۔
"اور ہاں، تم اس تفریح کا ذکر فیاض سے نہیں کرو گے! "
"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا !"
"بڑھا پا بھی طاق پر رکھ دینے کے لیے نہیں ہوتا !"
"بڑھا پا وغیرہ بھی صرف بے وقوفی کی باتیں ہیں ! "عمران
نے کہا۔
" زندگی صرف زندگی ہے، اس پر ادوار کی چھاپ نہیں لگنی
چاہئے !"
"مگر دشواری تو یہ ہے کہ ہمیں پیدا ہونا پڑتا ہے؟ "عمران
نے کہا۔" بس پیدا ہوئے نہیں کہ ادوارمیں تقسیم ہونے لگے ۔ کوئی ایسی تدبیر کی
جائے کہ پٹ سے ایک پڑیں، کہیں سے پلے پلائے! "
" اب اسی ایک کتے کو رگیدتے چلے جاؤ گے!" شبلی نے
جھنجھلا کر کہا۔
" پھر جیسا آپ فرما ئیں !"
" حسن کی رنگینیوں کی باتیں کرو۔ اُن مہ جبینوں کو یاد کرو جن
سے کبھی سابقہ رہا ہو!"
"ارے ہاں، وہ تھی ایک … لیکن کچھ عجیب
سی لگتی تھی !"
"کون تھی ؟" شیلی نے لیک کر پوچھا۔
"مہ جبین ہی نام تھا۔ مجھے دیکھ کر رتی تڑانے لگتی تھی
!"
" رسیّ تڑ انے لگتی تھی ؟" شیلی نے حیرت سے
پوچھا۔
" بڑے خوفناک سینگوں والی تھی !"
" کیا بک رہے ہو ؟"
"خالہ جان کی بکری تھی ، جسے وہ پیار سے مہ جبین کہتی تھیں
!"
"امے تم واقعی گھامڑ لگتے ہو۔ اچھا ماڈل ٹاؤن کی طرف چلو۔ وہ
ٹھیک کہتا تھا ۔ تھوڑی ہی ہی دیر میں اُس نے تمہارےبارے میں اندازہ لگا لیا
تھا!"
" کس کا ذکر ہے؟"
"ڈاکٹر ڈیوڈ کا۔ کہہ رہا تھا کہ تم کسی نفسیاتی مرض میں جتلا
ہو۔ اگر یہ ستم دور ہو جائے تو شاندار پرسنالٹی نکل آئے گی ؟ "
" لیکن یہ ستم دور کیسے ہو؟" عمران نے درد ناک
لہجے میں پوچھا۔
"بہت آسانی سے دور ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ نفسیاتی امراض کا
ماہر ہے اور وہ تمہارے لیے وقت نکالنے پر آمادہ بھی ہے؟“
"واقعی؟ "عمران نے بے حد خوش ہو کر پوچھا۔
”ہاں بھئی، وہ میرا گہرا دوست ہے!“
"تب تو میری شادی بھی ہو سکے گی!" عمران نے بچکانہ مسرت
کا اظہار کیا۔
" بس تو پہلے اُدھر ہی نکل چلو۔ بعد میں اُسے بھی اپنی
تفریح میں شریک کرلیں کے خاصا زندہ دل آدمی ہے!"
"ضرور… ضرور... اگلے چوراہے سے گاڑی موڑ لوں
گا!"
" تو تمہیں کبھی کسی لڑکی نے لفٹ نہیں دی؟"
"نہیں جناب …بس میرا ملکہ اڑاتی رہتی ہیں! "
" حالانکہ تم
خاصے دلکش ہو۔ اگر میں جوانی میں ایسا ہوتا تو سارے شہر کی لڑکیاں میرے پیچھے دوڑ
پڑ تیں! "
" پھر آپ کا کیا
حشر ہوتا؟'' عمران نے بڑی معصومیت سے پو چھا اور قبیلی خاموشی سے اُسے گھورنے لگا۔
کچھ دیر بعد عمران نے کیا۔ " میرے پیچھے بھی دوڑتی ہیں
لڑکیاں لیکن مجھے پاؤں !"
" ننگے پاؤں کیوں
؟"
"چپلیں ہاتھوں میں ہوتی ہیں !"
"مٹّی پلید کر رہے ہو اپنی !"
" محبت شروع کرتا ہوں لیکن اچانک کوئی نہ کوئی بے وقوفی سرزد
ہو جاتی ہے نا ہے۔ مشّلا پچھلے سال ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی۔ دوسرے ہی دن سے محبت
کرنے لگی۔ تیسرے دن اپنی ممی سے ملوایا اور چوتھے دن میں اُس کی می کو پکچر دکھانے
لے گیا ! "
" اس کی ممی کو کیوں ؟"
"وہ مجھے اُس سے بھی زیادہ اچھی لگی تھیں۔ بات بات پر بیٹا بیٹا
کہتی رہتی تھیں لیکن انہیں شکایت تھی کہ کبھی کوئی انہیں کچھ دکھانے نہیں لے جاتا۔
لہذا میں روزانہ پابندی سے صرف انہیں کچھ دکھانے لے جانے لگا اور پھر اُس لڑکی نے
پندرہ میں دن بعد مجھے بے تحاشہ گالیاں دیں اور گھر سے نکال دیا! "
آخری جملے پر عمران کا لہجہ بے حد درد ناک ہو گیا اور شبلی
نے اُس کا شانہ تھک کر کہا۔ " بالکل پروانہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا !"
گاڑی اب ماڈل ٹاؤن کی طرف جارہی تھی۔
" ڈاکٹر ڈیوڈ کو آپ کب سے جانتے ہیں؟" عمران نے
پوچھا۔
" قریباً میں بائیس سال سے !"
" کیا ہمیشہ سے یہیں رہا ہے؟"
"نہیں ، امریکہ میں تھا۔ ابھی حال ہی میں واپس آیا ہے!"
"اور یہ ڈاکٹر فوریل؟"
" اُس کے بارے میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتا کہ ڈیوڈ کی
دوست ہے!"
" کیا ڈیوڈ بھی آپ ہی کی طرح زندہ دل اور رنگین مزاج
ہے؟"
" نہ ہوتا تو اُسے بھی ساتھ لینے کی تجویز کیوں پیش
کرتا۔ اس نے تفصیلی ملاقات تمہیں خوش کر دے گی ؟"
"کیپٹن فیاض سے بھی اُس کی ملاقات ہو چکی ہے یا نہیں؟“
" ہوئی تھی، یونہی سرسری کی ایک بار۔ فیاض باد ہوائی
قسم کے آدمی ہیں ۔ پتہ نہیں تم جیسے زندہ دل آدمی سے کیسے نبھتی ہے!"
"تو اس آپریشن کا انتظام آپ ہی کے ذمہ ہے؟"
"اور کیا! "
"بڑی اچھی بات ہو گی اگر ایسا ہو جائے !"
ماڈل ٹاؤن میں پہنچ
کر فیلی کی رہنمائی میں اُس کوٹھی تک رسائی ہوئی جہاں ڈاکٹر فوریل اور ڈیوڈ کا قیام
تھا۔ ایک جگہ عمران کو مندر کی گاڑی بھی کھڑی ہوئی دکھائی دی جس کا مطلب یہ تھا کہ
ڈیوڈ اس وقت کوئی ہی میں موجود ہے۔ عمران نے گھڑی دیکھی ، رات کے ساڑھے آٹھ بجے
تھے۔ وسط نومبر کا زمانہ تھا کسی قدرخنکی بڑھ گئی تھی۔
گاڑی پھاٹک پر پہنچی تو چوکیدار نے ذیلی کھڑکی سے سر نکال
کر پوچھا۔ ” کون ہے؟"
"کیا ڈیوڈ صاحب موجود ہیں ؟" شیلی نے پوچھا۔
" موجود ہے ساب!"
"پھانک کھول دو۔ میں ٹیلی ہوں !"
اچھا اچھا شیلی ساب
!" کہہ کر چوکیدار پھاٹک کھولنے لگا۔
گاڑی رِوش سے گزرتی ہوئی پورچ تک آئی۔ پھاٹک سے یہاں تک
خاصا فاصلہ تھا۔ پورچ میں تیز روشنی تھی۔
"چلو اُتر و ۔ کسی تکلف کی ضرورت نہیں ۔رہائش حصے میں صر ف و
ہی دو نو ں ہو تے ہیں لہٰذا کسی ایسے ملازم کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا جو ہمارے
کارڈ اُن تک پہنچائے ۔ ڈاکٹر فور یل کو دیکھنا۔ ایسی ٹیم شحیم عورت شاید ہی کبھی
نظر سے گزری ہو!"
عمران گاڑی سے اتر
کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ فضا پر مجیب سا سناٹا طاری تھا۔ اُس نے سر کو جنبش دے کر
شیلی کی طرف دیکھا۔
" کیا سوچنے لگے؟“
" کچھ بھی نہیں
!"
"تو چلو! "شیلی نے برآمدے کی طرف اشارہ کیا۔
"وہ برآمدے میں پہنچے اور ٹیلی نے کال بیل کا بٹن دباتے ہوئے
کہا۔ اب ڈیوڈ یا فوریل ہی آکر دروازہ کھولیں گے!"
عمران کی پیشانی پر شکنیں تھیں ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں اس
طرح یہاں آکر اس نے غلطی تونہیں کی ۔ باتوں کی زد میں شاید یہ بھی بھول گیا تھا کہ ڈیوڈ
اس کی کارگزاری سے واقف ہو چکا ہے اور یہ اسی ترک ڈرائیور کے توسط سے ہوا ہو گا جس
کے ذہن میں اُس کی نوسینٹر کے نمبر محفوظ رہ گئے ہوں گے۔
" کیا بات ہے؟ "شبلی نے پھر کال بیل کا بٹن دبا تے
ہوئے کہا۔ " ابھی تک کوئی آیا نہیں!"
عمران کچھ نہ بولا ۔ اس کی نظر دروازے کے ونڈل پر تھی۔ دفعہ
اس نے قیلی سے پو چھا۔ " کیا آپ نے اُسے پہلے آگاہ کر دیا تھا کہ آپ آرہے ہیں
؟"
"نہیں ،لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ اس وقت نہیں ملے گا ۔
زیادہ تر اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور پھر چوکیدار نے بھی بتایا ہے کہ وہ دونوں
اندر ہی موجود ہیں ! "
"اچھا، اگر اندر سے کوئی جواب نہ ملا تو آپ کیا کریں
گے؟" عمران نے پوچھا۔
"میں دروازہ کھول کر اندر جا سکتا ہوں !" شیلی نے
اکڑ کر کہا۔ " ڈیوڈ سے میرے ایسے ہی تعلقات ہیں!"
"اچھی بات ہے تو پھر چلے ، اگر دروازہ اندر سے مقفل نہ ہو!"
"ہاں ہاں ، میرا خیال ہے کہ وہ باتھ روم میں ہوگا اور فوریل
اپنے کلینک کی طرف نکل گئی ہوگی! " کہتے ہوئے شیلی نے دروازے کا مینڈل گھمایا
اور دروازہ کھلتا چلا گیا۔ پھر وہ اندر داخل ہوتا ہوا عمران سےبولا ۔ " آؤ
چلے آؤ!"
وہ ایک طویل راہداری میں تھے۔ ایک دروازے پر رک کر شیلی نے
کہا۔ " یہی ڈیوڈ کا کمرہ ہے " پھر اُس نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی لیکن
اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔
" میرا خیال ہے کہ یہاں بھی آپ کو بے تکلفی کا مظاہرہ
کرنا پڑے گا ! "عمران آہستہ سے بولا۔
اُس نے اس بار ٹیلی
کی آنکھوں میں بھی اُلجھن کے آثار دیکھے۔ شاید اس دروازے کا مینڈل گھماتے ہوئے کسی
قدر ہچکچا بھی رہا تھا۔ عمران نے اُسے بائیں جانب بنے کا اشارہ کرتے ہوئے ہینڈل
تھما کر جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔ لیکن اس سے بھی وہاں کے ماحول میں کوئی
تبدیلی نہ ہوئی اور پھر جب وہ دونوں دروازے کے مقابل ہوئے تو شیلی کے حلق سے گھٹی
گھٹی سی چیخ نکل گئی کیونکہ سامنے ہی فرش پر ڈاکٹر ڈیوڈ کے سر اور دھڑ الگ الگ پڑے
ہوئے تھے۔
"یہ… یہ… کیا ہے ؟
" وقعتہ وہ عمران کو جھنجھوڑ کر بولا۔
" کسی نے ڈاکٹر ڈیوڈ کو دو سے ضرب دے دیا ہے! "
عمران نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
"تت… تم درندے ہو!" ، شبلی نے جھنجھلا کر
کہا اور پھر بے تحاشہ "قتل …قتل …پولیس… پولیس…! "
" کیوں بور کر رہے ہیں۔ خاموش رہنے ۔ سیدھے ریالٹو چلے
گئے ہوتے تو کیوں پڑتے اس زخمت میں !"
تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ ایک آدی قتل ہو گیا ہے۔
لاش تمہارے سامنے پڑی ہوئی ہے اور تم اس طرح کی باتیں کر رہے ہو؟"
" جو لاش متاثر کرتی ہے اُس سے متاثر بھی ہو جاتا ہوں
؟"
"ارے وہ تمہارا علاج کرنا چاہتا تھا !"
" یہی اُس کی سب سے بڑی غلطی تھی!" عمران نے ٹھنڈی
سانس لے کر کہا۔ ” اب یہ بھی دیکھنا چاہئے
کہ ڈاکٹر فوریل کا کیا حشر ہوا!"
"ڈیوڈ میرا دوست تھا۔ بہت اچھا دوست !"
"آہستہ بولئے کہیں قاتل آس پاس ہی نہ موجود ہو؟“
"میں چوکیدار کو آواز دیتا ہوں!"
"فی الحال خود کو قابو میں رکھئے اور یہیں ٹھہرئیے، میں ذرا
گاڑی تک جانا چاہتا ہوں ! "
"او... تو مجھے یہاں تنہا چھوڑ بھاگنے کا ارادہ
ہے؟"
"نہیں!"
" تو پھر گاڑی تک کیوں جانا چاہتے ہو؟"
عمران نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور پر تفکر انداز میں
بولا۔
"اچھی بات ہے، آپ بھی چلے۔ ہاں کیوں نہ پہلے ہم اُس حصے کی
طرف چلیں جہاں ڈاکٹر فوریل کا کلینک ہے!"
"میں کہتا ہوں فوراً پولیس کو اطلاع دو!"
"میں یہی کرنے جارہا تھا۔ اس عمارت کا فون استعمال نہیں کرنا
چاہتا ! "عمران نے دروازے کے ہینڈل کو رومال سے صاف کرتے ہوئے کہا۔
وہ راہداری سے نکل کر پھر برآمدے میں آکھڑے ہوئے اور عمران
نے صدر دروازے کےہینڈل کو بھی رومال سے صاف کیا۔
"مم... میں کہتا ہوں چوکیدار کو آواز دو!"
" ٹھہر جائے …میں پہلے پولیس کو فون کر دوں۔ میری گاڑی میں وائرلیس سٹ
موجود ہے ! "
"اچھا… اچھا!" شیلی طویل سانس لے کر رہ گیا۔
عمران نے گاڑی میں بیٹھ کر سفری فرانس میٹر کا سونچ آن کیا
اور دھیرے دھیرے مندر کو کال کرنے لگا۔
"اِٹ از صفدر ! "ریسیور سے آواز آئی۔
" تم یہاں کتنی دیر سے موجود ہو ؟"
" قریبا دو گھنٹے سے !"
"ڈاکٹر ڈیوڈ کا تعاقب کرتے ہوئے آئے تھے ؟"
"جی ہاں!"
" اُس کے بعد کوئی اور بھی عمارت میں داخل ہوا تھا ؟"
"جی ہاں، کچھ دیر پہلے سیاہ رنگ کی ایک مرسڈیزا"
"اُس کے علاوہ ؟"
" جی نہیں،
اُس کے علاوہ نہ کوئی گاڑی آئی اور نہ کوئی فرد کمپاؤنڈ میں داخل ہوا تھا !"
"کوئی باہر نکلا تھا؟"
" جی نہیں، کوئی نہیں ۔ کیا آپ عمارت میں موجود ہیں؟"
" مرسڈیز میں میں ہی تھا۔ یہاں ڈاکٹر ڈیوڈ کی لاش ملی
ہے!"
" خدا کی پناہ۔ میرا خیال ہے کہ قاتل اب بھی عمارت ہی میں
موجود ہوگا !"
"خیر، میں دیکھوں گا۔ اب تم عمارت کے عقب میں چلے جاؤ اور
ادھر سے نکاسی کا کوئی راستہ تلاش کرو۔ میں یہاں دیکھتا ہوں !"
ٹرانس میٹر کا سوئچ آف کر کے گاڑی سے نکلا اور پھر شبلی کے
پاس پہنچ گیا۔ شبلی کا چہرہ پینے میں ڈوب گیا تھا۔ عمران نے رومال نکال کر اُس کی
طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ " بہت پسینہ آرہا ہے !"
" رومال ہے میرے پاس !"ٹیلی نے ناگواری سے کہا
اور جیب سے رومال نکال کر اپنا چہرہ خشک کرنے لگا۔
" کیا فیاض کو فون کیا ہے؟ "شیلی نے پوچھا۔
" فیاض کو کیوں کرتا۔ علاقے کے تھانے میں اطلاع دی ہے۔
اب چلئے کلینک کی طرف! "
"کیا کروں اُدھر جا کر؟"
"ڈاکٹر فوریل کو اس قتل کی اطلاع نہ دیں گے؟"
"تمہارا رویہ میری سمجھ سے باہر ہے !" وہ برآمدے سے
اُترتا ہوا بولا اور عمران نے کہا۔" یہ عمارت آپ کی دیکھی بھالی ہوئی ہے اور
نہ آپ کو زحمت نہ دیتا!"
کلینک میں پہنچ کر شیلی اُسے سیدھا ڈاکٹر فوریل کے کمرے کی
طرف لیتا چلا گیا۔ ویسے اس وقت کھنک میں بھی سناتا ہی تھا صرف ایک نرس اور ایک
کمپاؤنڈر کے علاوہ اور کوئی نہیں دکھائی دیا تھا۔ ڈاکٹر فوریل انہیں دیکھتے ہی کرسی
سے اٹھ گئی۔
"ہلو … مسٹرشیلی !" اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے
ہوئے کہا۔ ساتھ ہی وہ عمران کو کنکھیو ں سے دیکھے جارہی تھی ۔ غالًبا اس کے حلئے ہی
نے اُسے خصوصی توجہ دینے پر مجبور کر دیا تھا۔
" کیا آپ اپنی بیٹی کو لے آئے ہیں ؟" فوریل نے ٹیلی سے
پوچھا۔
" نہیں… لیکن ڈیوڈ… شیلی کی آواز
بھرا گئی۔
" ڈاکٹر ڈیوڈ آرام کر رہے ہیں۔ کیا انہیں آپ کی آمد سے مطلع
کر دیا جائے ؟" عمران کی نظر ڈاکٹر فوریل کے چہرے پر تھی۔
میں ڈیوڈ کے کمرے
سے آرہا ہوں لیکن وہاں اُس کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ سُر دھڑ ھے الگ میں ڈیوڈ کر
دیا گیا ہے!"
"نہیں !" فوریل کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
" یقین کیجئے … ہم دیکھ کر
آرہے ہیں!"
وہ دھم سے کرسی پر گر گئی اور اُس کا سر میز پر جھکتا چلا آیا۔
" بے ہوش نہ ہونے پائے !" عمران نے بہو کھلائے
ہوئے انداز میں کہا اور نرس کو آواز میں دیتا ہوا کمرے سے نکل آیا ۔
نرس اور کمپاؤنڈ رکو ڈاکٹر فوریل کی طبیعت کی اچانک خرابی کی
اطلاع دی اور وہ دونوں بھی فوریل کے مطلب کی طرف دوڑ پڑے۔
وہ سچ مچ بے ہوش ہو گئی تھی ۔ کلینک کے فون سے عمران نے
علاقے کے پولیس اسٹیشن کو اس حادثےسے مطلع کیا لیکن اُس وقت خیلی اُس کے پاس موجود
نہیں تھا۔ تھانے میں اطلاع دینے کے پانچ منٹ بعد اُس نے شبلی سے کہا کہ وہ کیپٹن فیاض
کو بھی مطلع کر کے خود وہیں ٹھہرے۔
"اور کیا تم جارہے ہو؟" شیلی نے بوکھلا کر پوچھا۔
"مجبوری ہے !'' عمران نے بسور کر کہا۔ " کیپٹن فیاض
نے مجھے اس لباس میں دیکھ لیا تو ضرور اس کی وجہ پوچھے گا اور میں جھوٹ نہیں بول
سکوں گا !"
"یعنی کہ ...!"
"صاف صاف بتا دینا پڑے گا کہ ہم کس ارادے سے نکلے تھے !
"
"جاؤ… جاؤ... دفع ہو جاؤ!" شیلی مضطر بانہ
انداز میں بولا۔
عمران نے باہر نکل کر گاڑی سنبھالی اور ٹھیک پھاٹک پر پہنچ
کر رکا۔ چوکیدار کو قریب بلا کر اُس سے کہا۔ " خیلی صاحب اندر ہیں اور میں
پولیس کو اطلاع دینے جارہا ہوں !"
"پپ پولیس کیوں ساب؟" چوکیدار ہکلایا۔
" ڈیوڈ صاحب کو کسی نے قتل کر دیا ہے !"
"ارے نہیں… ساب! " چوکیداراً حمل پڑا۔
" ڈیوڈ صاحب کے آنے سے پہلے یہاں کون آیا تھا ؟"
"کوئی نہیں ساب۔ سارا دن بعد بس آپ لوگ آیا تھا !"
" کیا ڈیوڈ
صاحب کے ساتھ گاڑی میں اور کوئی بھی تھا ؟"
"نہیں ساب اکیلا تھا ؟"
" اچھا… خیر… تم ہوشیار رہنا
ابھی پولیس آجائے گی !" کہہ کر عمران نے گاڑی گیئر میں ڈال دی اور پھاٹک سے
نکلا چلا آیا۔ عمارت کے عقب میں پہنچنے کے لیے خاصا بڑا چکر لینا پڑا تھا۔ تاریکی
میں گاڑی کی ہیڈ لائٹ دور دور تک نا ہموار زمین پر پھیل رہی تھی۔ جلد ہی اُسے مندر
کی گاڑی بھی نظر آگئی لیکن وہ خالی تھی۔ عمران نے اپنی گاڑی بھی اُسی کے قریب روک
دی۔ پولیس کے پہنچنے سے قبل ہی انہیں ان اطراف سے نکل جانا تھا۔ گاڑی کی لائٹ بجھا
کر اُس نے انجن بند کر دیا۔
تھوڑی دیر بعد پیروں
کی چاپ سنائی دی۔ کوئی اُدھر ہی آرہا تھا۔ وہ سنبل بیٹھا۔
آنے والا صفدر ہی
تھا۔ عمران کے استفسار پر بولا۔ "بلاشبہ کوئی عقبی پارک کی دیوار پھلانگ کر
اندر پہنچا تھا۔ دیوار پر ایک جگہ نشانات ملے ہیں اور شاید میں نے اُس شخص کی گاڑی
بھی دریافت کر لی ہے جس کا ایک ٹائر فلیٹ ہو گیا ہے اور انجمن ابھی تک گرم
ہے!"
"اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ واردات کو زیادہ دیر نہیں گزری
! "
" دراصل ٹائروں کے نشانات نے گاڑی تک رہنمائی کی ہے۔
گاڑی کو یہاں سے جوں توں لے جا کر قریب ہی ایک خشک نالے میں اُتار دیا گیا ہے۔
نالے کے اوپر جھاڑیاں ہیں۔ بہر حال جب تک اُس گاڑی کی خاص طور پر تلاش نہ ہو کسی کی
توجہ اس طرف مبذول نہیں ہو سکتی !"
"نمبر پلیٹ موجود ہے؟"
"جی ہاں۔ پی کے تھری سکسٹی ایٹ ۔ کو رولا، ماڈل سیونٹی
سیون !"
"گڈ.. تو جلد ہی کوئی اُسے وہاں سے نکال لے جانے کے لیے ضرور
آئے گا ! "
”جی ہاں، میرا بھی یہی خیال ہے۔ میں دیکھوں گا، بے فکر رہئے
۔ میں نے اُسی نالے میں ایک جگہ اپنے لیے
بھی تجویز کر لی ہے!"
"محتاط رہنا چاہو تو اپنی مدد کے لیے کسی اور کو بھی
بلا لو! "
"ضروری نہیں سمجھتا !"
"ٹھیک ہے، تو میں چلا۔ پولیس وینے ہی والی ہوگی لیکن دھیان
رکھنا کہ کہیں ٹائروں ہی کے نشانات کے ذریعے پولیس تمہاری گاڑی تک نہ پائی جائے!
"
" اس کا بھی انتظام کر لیا جائے گا !"
" تو پھر میں
چلوں؟"
" جی ہاں !"
15
دوسری صبح کے اخبارات میں ڈاکٹر ڈیوڈ کے بہانہ قتل کی خبر
ڈاکٹر فوریل کے تفصیلی بیان کے ساتھ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق ڈاکٹر ڈیوڈ اور
ڈاکٹر فوریل گہرے دوست تھے۔ ڈاکٹر فوریل خواتین کے امراض کی ماہر تھی ۔ خصوصیت سے
بانجھ پن کا ازالہ کرنے میں خاصی شہرت رکھتی تھی۔ ڈیوڈ اسے امریکہ سے یہاں لایا
تھا۔ تجویز یہ تھی کہ دونوں مشترکہ طور پر کام کریں گے۔ اس سلسلے میں ڈیوڈ نے یہاں
اپنے بعض ذی اثر دوستوں سے رابطہ قائم کیا تھا۔ ساتھ ہی فوریل نے آخر میں یہ بھی
کہا تھا کہ ڈیوڈ اُسے ہمیشہ ایک پر اسرار آدمی لگا تھا۔ پتا نہیں کیوں اُس کے بارے
میں ایک بے نام سی خلش اس کے ذہن میں ہمیشہ رہی تھی ۔ ڈاکٹر نوریل نے اُس کے قتل
کا شبہ کسی پر بھی ظاہر نہیں کیا تھا۔ کسی ایسے فرد کی نشاندہی نہ کرسکی جس سے کبھی
ڈاکٹر ڈیوڈ کی تلخ کلامی ہوئی ہو۔
بہر حال اُس کے بیان
کے مطابق ڈاکٹر ڈیوڈ ایک بہت اچھا لیکن پُر اسرار آدمی تھا۔
خبر پڑھ کر شہلا چودھری نے اپنے باپ کی خواب گاہ کے دروازے
پر دستک دی۔ وہ شاید ابھی سوی رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور شہباز چودھری
سامنے کھڑا آنکھیں ملتا نظر آیا۔
" کیا بات ہے؟
رات دیر سے سویا تھا؟“
"بڑی اہم خبر ہے ڈیڈی!“
" کیا بات ہے؟"
" کسی نے ڈاکٹر ڈیوڈ کوقتل کر دیا !"
"نہیں… ! "وہ لڑکھڑا کر کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔
" خود دیکھ لیجئے!" اس نے اخبار باپ کی طرف بڑھا
دیا۔ دونوں کمرے میں جابیٹھے اور شہباز خبر دیکھنے لگا۔
" غالبا آپ کو صدمہ تو ہوا نہ ہو گا ! "شہلا نے
تھوڑی دیر بعد ہو چھا۔
بہت بڑے جنجال سے پیچھا چھوٹا۔ ہر وقت دھر کا لگا رہتا تھا
نہ جانے کب ذلیل وخوار ہو جاؤں !" شہباز طویل سانس لے کر بولا۔
" آخر وہ تھا کیا چیز؟"
" بہت بُرا آدمی تھا۔ بس کیا بتاؤں۔ بسا اوقات ہم نادانستگی میں
کوئی بہت بڑی غلطی کر بیٹھتے ہیں شومئی تقدیر سےکوئی اُس پر گواہ بھی ہو جاتا ہے۔
اگر وہ تیرا آدمی ہوا تو غلطی کرنے والے کی پوری زندگی وبال ہو جاتی ہے۔ وہ بہت
بڑا بلیک میلر تھا بے بی !"
"اب تو آپ مطمئن ہیں ؟"
"ہاں بظاہر ۔ اگر کسی دوسرے بلیک میلر نے اُسے قتل نہیں کیا
ہے؟"
" کیا مطلب؟"
"بسا اوقات بلیک میلنگ کا مواد ایک گراں بہا خزانے کی طرح ایک
سے دوسرے کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے!"
"میں نہیں کبھی ؟"
" ہو سکتا ہے کسی دوسرےبلیک میلر نے اُسے قتل کر کے بلیک
میلنگ کا سارا مواد اپنے قبضے میں کر لیا ہو اور اب وہ ہمیں بلیک میل کرنا شروع کر
دے !"
"یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اُس سے تنگ آئے ہوئے کسی فرد ہی نے
اُسے قتل کر دیا ہو۔ کیا اس دوران میں آپ نے نہ سوچا ہوگا کہ کاش آپ اس کو قتل کر
سکتے ؟"
" کتنی بار سوچا ہے!"
"ڈر سا پڑا تو تھا !" شہلا حقارت سے بولی۔ " کیا خیال
ہے آپ کا ۔ ڈاکٹر فوریل واقعی اُس کی اصلیت سے واقف نہ ہو گی ؟“
"خدای جانے ۔ ڈیوڈ کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ کسی خاص
مقصد کے حصول ہی کے لیے اس کو یہاں لایا ہو گا۔ ہو سکتا ہے وہ اسے بھی بلیک میل ہی
کرتا رہا ہو!"
"لیکن وہ اس کا اعتراف کیوں کرنے لگی !" شہلا نے کہا۔
دفعہ فون کی گھنٹی
بجی اور شہباز نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھالیا۔ دوسری طرف سے ایک انجانی سی آواز
آئی اور شہباز نے کہا۔ " ہاں، میں شہباز ہی ہوں!"
" کیا تم یہ
بجھتے ہو کہ ڈیوڈ کی موت کے بعد تم آزاد ہو گئے ہو؟“
"تم کون ہو؟" شہباز نے گرج کر پو چھا۔ اسے انگلش میں
مخاطب کیا گیا تھا اور بولنے والے کا لہرا غیر ملکی تھا ۔
"میں کوئی بھی ہوں ۔ دوسری طرف سے آواز آئی ۔ " ڈیوڈ
محض ایک مہرہ تھا اور میرے لیے کام کرتا تھا۔ اُس کی موت سے حالات میں کوئی تبدیلی
نہیں ہوئی اور اب تم براہ راست ڈاکٹر فوریل سے تعاون کرو گے!"
شہباز نے کچھ کہنا چاہا پھر اضطراری طور پر ریسیور کریڈل پر
ناخودیا اور کرسی کی پشت گاہ سے ملکہ کر ہانپنے لگا۔ چہرے پر خوفزدگی کے آثار گہرے
ہوتے جارہے تھے۔
" کون تھا …کیا بات ہے ایڈی؟" شہلا اُسے حیرت سے دیکھتی ہوئی بولی۔
" کچھ نہیں ، کوئی نہیں۔ جاؤ میری طبیعت ٹھیک نہیں
ہے!"
لہجہ اتنا خراب تھا کہ شہلا وہاں نہ رک سکی لیکن اُس کی فکر
مندی میں اس رویے سے مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کیا اُس کے باپ کا یہ خیال
درست ثابت ہوا ہے کہ ڈیوڈ کی موت کسی دوسرے بلیک میلر کے ہاتھوں واقع ہوئی ہے اور
اب سارا بلیک میلنگ اسٹف اس کے قبضے میں آگیا ہے۔ وہ سوچتی اور اُلجھتی رہی۔ اسی
عالم میں ناشتے کی میز تک پہنچی لیکن آج اُسے تنہا ناشتہ کرنا پڑا۔ باپ نے ناشتہ
خلاف معمول اپنی خواب گاہ میں کیا تھا۔ شہلا کی تشویش بڑھتی چلی گئی۔ سمجھ میں نہیں
آرہا تھا کہ اس سلسلے میں کیا کرے۔ دفعتہ اسے عمران یاد آیا جس نے پوری طرح اُن کے
معاملات کی پردہ پوشی کی تھی یعنی کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا تھا جس کی بنا پر
پولیس شاہد کے سلسلے میں براہ راست اُس سے یا اُس کے باپ سے پوچھ کچھ نہیں کر سکی
تھی۔ کسی نے اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھا تک نہیں تھا۔ تو پھر کیا اس سلسلے میں
اُسی سے رابطہ قائم کیا جائے؟"
وہ سوچ ہی رہی تھی
کہ ایک ملازم نے کسی کا کارڈ دیا جس پر نظر پڑتے ہی وہ منظر بانہ انداز میں آٹھ کھڑی
ہوئی۔
" کیا تم نے انہیں سٹنگ روم میں بٹھا دیا ہے؟“ اس نے
ملازم سے پوچھا۔
"جی ہاں!"
اور جب وہ سٹنگ روم میں پہنچی تو انسپکٹر شاہد اُس کا منتظر
تھا۔
" تکلیف دی کی
معافی چاہتا ہوں !" وہ اٹھتا ہوا بولا۔
"اوہ… کوئی بات نہیں تشریف رکھئے ۔ اب آپ کیسے ہیں؟"
" میں پہلے بھی ٹھیک تھا اور اب بھی ٹھیک ہوں۔ پانہیں کیوں میری
ٹانگ پر پلاسٹر چڑھادیا گیا تھا ؟"
"میں نہیں کبھی ؟"
"ہڈی کہیں سے بھی نہیں ہوئی تھی !"
" تو آپ ہم پر کوئی فرد جرم عائد کرنے آئے ہیں ؟"
" قطعی نہیں ۔
بس تصدیق کرنی تھی۔ میں نے سوچا تھا شاید کسی اور نے آپ کا یا آپ کے ڈیڈی کا نام
لے لیا ہو گا !"
"جی نہیں ، وہ میں ہی تھی لیکن جو لوگ آپ کو اٹھا کر لائے تھے
اُن کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی تھا اور اسی نے ہمیں بتایا تھا کہ آپ کی ٹانگ کی ہڈیاں
ٹوٹ گئی تھیں !"
" بہر حال اس لیے میں اب مناسب نہیں سمجھتا کہ اس
سلسلے میں آپ لوگوں کا نام لیا جائے کیو نکہ آپ
لوگوں کو بھی دھوکا دیا گیا تھا لیکن کیا آپ بتائیں گی کہ آپ کی دینی کوٹھی
سے مجھے کون لے گیا تھا ؟"
" خدا جانے۔ بس آپ رات کو حیرت انگیز طور پر غائب ہو گئے
تھے!"
شاہد طویل سانس لے
کر رہ گیا۔
" تو آپ ہم لوگوں کا نام نہیں لیں گے ؟ " شہلا نے پوچھا۔
"ہر گز نہیں۔ خواہ مخواہ آپ لوگوں کو دشواری میں ڈالنے
سے کیا فائدہ!"
" واقعی اس سلسلے میں ہم آپ کے ہمیشہ احسان مندر ہیں گے !
"
کیا آپ اُن لوگوں میں سے کسی کا حلیہ تاسکیں گی جو مجھے
بحالت بے ہوشی آپ کی کوٹھی میں لے گئے تھے؟"
" اُس وقت وہاں نہ میں موجود تھی اور نہ ڈیڈی ۔
ملازموں اور خاندان کے چند دوسرے افراد نے آپ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری قبول کی تھی
اور میرا خیال ہے کہ ان لوگوں کو شاید ہی کسی کا حلیہ یاد ہو؟
" اچھا تو اب اجازت دیجئے !"
"یہ کیسے ممکن ہے۔ کم از کم کافی تو دیجئے !"
"نہیں، شکریہ۔ پھر کبھی ویسے برسبیل تذکرہ کیا آپ مسٹر علی
عمران کو جانتی ہیں؟"
" آپ اپنے محلے کے ڈائرکٹر جنرل کے صاحبزادے کی بات تو نہیں
کر رہے؟"
”جی ہاں، وہی !"
"میں انہیں جانتی ہوں ۔ کبھی کبھی رائفل کلب میں ملاقات ہو
جاتی ہے!"
" کیا وہ اُس دوران میں اُس دیہی کوٹھی میں آئے تھے جب
میں بے ہوش پڑا ہوا تھا؟“
"نہیں تو ، وہاں اُن کا کیا کام؟"
"اچھا، بہت بہت شکریہ! "
وہ چلا گیا اور
شہلا سوچتی رہی کہ آخر اس ملاقات کو کس خانے میں فٹ کرے۔ سٹنگ روم سے اُٹھ ہی تھی
کہ اُس کا باپ آ گیا۔
" ابھی کون آیا
تھا ؟ "اُس نے چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کیا۔
"انسپکٹر شاہدہ جس کی ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا کر ڈاکٹر ڈیوڈ نے
ہمارے حوالے کیا تھا !"
" کیا کہہ رہا تھا ؟ "شہباز چودھری نے خوفزدہ لیجے
میں پو چھا۔
"یہی کہ اُس نے اپنی رپورٹ میں ہمارا ذ کر نہیں کیا ؟"
" آخر کیوں۔ اس میں کیا چال ہو سکتی ہے؟"
" میں کیا
جانوں ! "شہلا جھنجھلا کر بولی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا باپ اتنا بزدل
ہے۔
"اب تم کسی سے بھی نہیں ملوگی۔ کوئی بھی آئے ، ملنے سے انکار
کر دو!"
" آخر کیوں ؟"
"اس لیے کہ ہم اس جنجال سے نہیں نکل سکے۔ ڈیوڈ کسی نا معلوم
آدمی کا نمائندہ تھا !"
" میں نہیں سمجھی ؟"
"کچھ دیر قبل تمہاری موجودگی میں جو کال آئی تھی اُس کی تھی۔
انگلش بولنے والا کوئی غیر ملکی تھا۔ اس نے ہدایت کی ہے کہ اب مجھے براہ راست
ڈاکٹر فوریل سے تعاون کرنا ہو گا !"
"اور اصل بلیک میلر وہی ہے؟"
"ہاں ، اُس نے یہی کہا ہے۔ تمہارے سامنے ہی میں نے جھنجھلا کر
ریسیور کھ دیا تھا لکن تمہارے پہلے جانے کے بعد پھر اُس کی کال آئی۔ " کیا تم
علی عمران نامی کسی شخص کو جانتی ہو؟"
"اوہ... ہاں… کیوں …اُس کا یہاں کیا ذکر
؟ “
” مجھ سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ شخص یہاں آئے تو میں اُسے کسی مشروب
میں بے ہوشی کی دوا دےدوں اور اُس کے بے ہوش ہو جانے پر اُسے مطلع کردوں۔ لیکن یہ
علی عمران ہے کون ؟”
"سی آئی بی کے ڈائرکٹر جنرل کا لڑکا !"
"خدا جانے کیا ہونے والا ہے؟“
"اب تو ڈیڈی آپ کو بہت ہی پڑے گا کہ آپ کس سلسلے میں
بلیک میل ہور ہے ہیں اور لوگ آخر چاہے کیا ہیں ؟ فضول باتیں مت کرو! وہ پیر پنچ کر
دہاڑا۔ " ہمیں وہی کرنا پڑے گا جو ہم سے کہا جا رہا ہے؟" پھر وہ سونے پر
گر گیا اور کسی ننھے سے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
شہلاہکّا بکاّ بتا کھڑ ی رہ گئی۔
ختم شدہ
0 Comments