سائے کی لاش-ابنِ صفی
Saye ki Lash By Ibn-e-Safai
پُر اسرار عورت
1
اس بار بہت زور سے بجلی کڑکی اور گھوڑا کرتے کرتے بچا۔ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ۔ اس کے ساتھ ہوا کا زور رات کا اند ھیرا۔
وہ ایک طوفانی رات تھی مگر شاید گھوڑا بھی طوفان سے کم نہیں تھا۔ وہ اپنے سوار کو اس طرح اُڑائے لئے جارہا تھا جیسے وہ بھی اس ہنگامہ خیز رات کا ایک جزو ہو ۔ میں میل کی مسافت طے کرنے کے بعد بھی اس کے پیر سست نہیں ہوئے تھے۔ اند میرے میں اس طرح فراٹے بھرنے سے تو یہی معلوم ہو رہا تھا کہ وہ اُس کا جانا پہچانا ہوا راستہ ہے۔ سوار کی حالت ابتر تھی۔ وہ گھوڑے کی گردن سے لپٹا ہوا تھا۔ اُسے ہوش ہی نہیں تھا کہ لگام کب اور کیسے اس کے ہاتھ سے نکل گئی تھی ۔ ظاہر ہے کہ لگام کہیں نہ کہیں گر گئی ہوگی ورنہ کہیں نہ کہیں گھوڑا اس سے الجھ کر گر اضرور ہوتا۔
یہی غنیمت تھا کہ سڑک زمین کی سطح سے کافی اونچی تھی اور اس پر پانی نہیں اکٹھا ہوا تھا ورنہ وہ اس رفتار سے دوڑ بھی نہ سکتا تھا۔
سڑک کے دونوں طرف جنگوں کے سلسلے پھیلے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی بجلی کی چمک ایک لحفظہ کے لئے انہیں چونکا ر کریتی اور پھر وہ اس گھنے اندھیرے اور بارش کے شور میں کھو جاتے ۔ گھوڑے کی ٹاپوں کی تڑاک تڑبارش کے شور کے باوجود بھی دور ہی سے سنی جاسکتی تھی۔
گھوڑا دوڑ تا رہا۔ بادل چنگھاڑتے رہے اور ہوا کی شائیں شائیں بارش کے شور کو اور زیادہ بھیا نک بناتی رہی۔
سوار کو ہوش نہیں کہ گھوڑا کب شہر کی حدود میں داخل ہوا۔ بارش کا ہیجان اب کچھ کم ہو گیا تھا لیکن گھوڑے کی رفتار میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی تھی کیونکہ سڑکیں ویران پڑی ہوئی تھیں۔ ویسے ابھی اتنی رات نہیں گئی تھی کہ سڑکیں ویران ہو جاتیں۔
بارش اور ہوا کے زور نے بجلی کے چوروں کو جھنجوڑ ڈالا تھا۔ نتیجے کے طور پر شہر کے بعض حصے بالکل ہی تار یک ہو گیئے تھے
گھوڑا جس حصے سے گزار ہا تھا ہاں زیادہ تر متمول لوگ آباد تھے۔ وہ ایک عمارت کی کمپلانٹ کے پھاٹک میں گھس پڑا۔ اب اس کی رفتارست ہوگئی تھی۔ ایسا معلوم ہو ر ہا تھا ایسے اب وہ گری پڑے گا۔ پورٹیکومیں پہنچ کرو ہ شاید اپنی پوری قوت سے ہنہنایا اور اُس کے حلق سے کر بناک آوازیں ملتی رہیں۔
اچانک تاریک برآمدے میں بہت سے قدموں کی آواز یں گونجنے لگی ٹارچیں روشن ہوئیں اور کسی اورت کی چیخ سنایئ دی میرا بچہ !‘‘
سوار ابھی تک گھوڑے کی گردن سے لپٹا ہواتھا ۔چار آدمی ن اُسے اُتارا اور گھوڑے نے زمین پر بیٹھ کر اپنی گردن ایک طرف ڈال دی۔
عورت سسکیاں لے رہی تھی کیونکہ اس نے بے ہوش نوجوان کا خون میں بھیگا ہوا شانہ دیکھ لیا تھا۔
اُسے ایک کمرے میں لے جا کر مسہری پر ڈال دیا گیا۔ یہ چاروں آدمی خوش پوش اور مہذب تھے ۔ انہیں گھر کے ملازموں میں سے نہیں سمجھا جا سکتا تھا لیکن ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ سب اُس عورت کا احترام کرتے ہوں۔
عورت دراز قد اور بھرے ہوئے جسم کی تھی۔ عمر پینتالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہوگی ۔ چہرہ اس عمر میں بھی پُرکشش تھا لیکن اس پر اذیت پسندی کی ساری علامتیں موجود تھیں۔ پہلے پہلے بھنچے ہوئے ہونٹ، بھاری جبڑے، چمکیلی بے چین آنکھیں جن میں اس وقت آنسو تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ان سے کوئی غیر فطری فعل سرزد ہورہا ہواور بے چین آنکھیں جن میں اس وقت آنسو ہونے کے باوجود بھی وہ روتی ہوئی ہی نہیں معلوم ہورہی تھیں ۔
ان میں سے ایک آدمی نے نوجوان کا زخمی شانہ کھول دیا تھا اور زخم کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سر اٹھا کر سسکتی ہوئی عورت سے کہا
محترمہ تنویر.... یہ کسی جانور کے دانتوں کے نشانات ہیں!‘‘
اوہوں....!‘‘ عورت نے جلدی سے آنسو پوچھ ڈالے اور خود بھی جھک کر خون بھرے ہوئے حصے کو دیکھنے لگی۔
یہ دانتوں ہی کے نشانات ہو سکتے ہیں !‘‘ اُس نے پر سکون لہجے میں کہا۔
نوجوان کے جسم کا اوپری حصہ بر ہنہ کر دیا گیا تھا۔
آپ باہر تشریف لے جائے تا کہ ہم ان کے بھیگے ہوئے کپڑے اتار سکیں!‘‘ ایک آدمی نے عورت سے کہا اور وہ کمرے سے چلی گئی ۔
وہ اس کے بھیگے ہوئے کپڑے اتار کر اسے ایک خشک چادر میں لیٹنے لگے۔
کسی جنگلی درندے کے دانت !‘‘ ایک بڑبڑایا۔
نہیں! میرا خیال ہے کہ یہ کسی جنگلی درندے کے دانت نہیں ہیں ورنہ شانے کی ہڈی محفوظ نہ رہتی۔ ہاں
بھیڑیے کے امکانات ہو سکتے ہیں مگر اپنی طرف کے بھیڑیے اتنے خطرناک نہیں ہوتے کہ بڑی عمر کے آدمیوں اس طرح حملہ کر بیٹھیں ۔ ریچھ کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ بقیہ جسم بے داغ پڑا ہوا ہے۔ اس کے ناخنوں کی ڈالی ہوئی خراشیں کافی گہری ہوتی ہیں اور حملے کے وقت وہ اپنے بڑے بڑے ناخن ضرور استعمال کرتا ہے۔ دوسرے وحشی درندوں میں تیندوا سب سے زیادہ ہلکا جانور ہے لیکن اس کے جبڑوں کی گرفت بھی ہڈیاں توڑ دیتی ہے!‘‘
پھر ؟" ایک آدمی نے سوال کیا۔
’’یہ تو یہی حضرت ہوش میں آنے کے بعد بتا سکیں گے ۔ کسی کا کہنا مانا تو جانتے ہی نہیں ۔ جو دُھن سوار ہوئی تو ہوئی ۔ اس موسم میں انہیں شکار سے باز رہنے کو کہا گیا تھا۔ پتہ نہیں رائفل کہاں چھوڑی۔ نوکروں اورخمیے کا کیا حشر ہوا!‘‘
محترمہ تنویر بہت پریشان ہیں!‘‘
’’لیکن !‘‘ایک آدمی نے آہستہ سے کہا۔کیا اُن کے چہرے پر پریشانی ہیں؟‘‘
’’نہیں !وہ اپنے سینے میں فولاد کا دل رکھتی ہیں!‘‘ایک آدمی نے درشت لہجے میں کہا۔ایسا معلوم ہورہا تھا جیسےاُسے سوال نا گوار گزراہو۔یہ ایک معمر مگر تندرست آدمی تھا۔
وہ پھر بے ہوش نوجوان کی طرف متواجہ ہوگیا۔یہ ایک کافی قبول صورت نوجوان تھا۔عمر بیس بائیس سے زیادہ نہ رہی ہوگی ۔چہرے پر صتمندی کے آثار تھے اور جسم گھٹیلا تھا۔جسم کی بناوٹ یہی کہیتی تھی کہ وہ وارزشوں کا عادی ہے۔
’’اوہوں !‘‘ایک آدمی نے کہا۔’’ہم کیا کررہے ہیں ۔ڈاکٹر کو فون کرنا چاہئیے !‘‘
اچانک قدموں کی آواز سنائی دی ۔وہ چونک پڑے ۔تنویر کمرے میں داخل ہورہی تھی۔اُس نے کہا۔
’’نہیں اب آپ لوگ تکلیف نہ کریں ۔میں خود دیکھ لوگی ۔آپ اپنے کمروں میں جا سکتے ہیں !‘‘
وہ چاروں چپ چاپ باہر نکل گئے۔اُن کے کمروں میں جانے کا مطلب تھا کہ اب وہ تنویر کی اجازت حاصل کئے بغیر رات بھر کمروں سے باہرنہ نکل سکیں گے۔ان کے لئے اس عجیب و غریب عورت کی طرف سے یہی حکم تھا۔
تنویر چند لمہے اپنے بے ہوش اکلوتے بیٹے کی طرف دیکھتی رہی۔پھر کمرے سے نکل گئی۔اُس نے شاید اُن چاروں کی ساری گفتوگوں ان کی تھی۔
وہ معتددکمروں سے گزرتی ہوئی ایک نیم تاریک کمرے میں آئی ۔یہاں کے بلب پر کچھ اس قسم کا شیڈ لگایا گیا تھا کہ روشنی ایک محدود دائرے میں تھی۔جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی ایک تاریک گوشے سے عجیب طرح کی آوازیں آنے لگیں ۔سیٹیاں سسکاریا ں اور ایسی آوازیں جو کسی آدمی کے بند ہوتے ہوئے حلق سے نکل رہی ہوں ۔
تنویر اُس تاریک گوشے کی طرف بڑی ۔آوازیں پہلے سے بھی زیادہ تیز ہوگیئں ۔تنویر نے دیوار سے لٹکا ہوا چمڑے کا ایک بڑا سا چابُک اُتار ا اور اُسے تاریک گوشے کی طرف گھمانے گی’شائیں ۔۔۔شائیں ۔۔۔شائیں !‘‘
آواز یں آنی بند ہوگئیں اور کمرے پر پھر پہلے ہی کا سا سکوت طاری ہو گیا۔
مڈونگا !‘‘نویر کی آواز کمرے میں گونجی ۔’’میرے بچے کو کسی جنگلی درندے نے زخمی کر دیا ہیں !‘‘
" مر جانے دے!‘‘ تاریک گوشے سے اس قسم کی آواز آئی جیسے ریلوے انجن نے اسٹیم چھوڑی ہو۔
جواب میں تنویر نے پھر اس گوشے کی طرف چابک گھمایا اور سناٹا چھا چھا گیا۔
سن مڈونگا!" تنویر نے پُر وقار آواز میں کہا۔ " تجھے بتانا پڑے گا کہ میرا بچہ کیسے بھی ہوا ہے؟"
نہیں بتاؤں گا نہیں بتاؤں گا سٹیاں اور سسکاریاں پھر کو نہیں ۔ تو مجھے اپنے پر نہیں چائے دیتی۔
میں نہیں بتاؤگا!‘‘
تنویر نے پھر چابک گھمایا اور تاریک گوشے سے آواز آئی ۔ " مار ڈال مجھے مارڈال !۔۔۔۔ مجھے مار ڈال !‘‘
تجھے بتانا پڑے گا !" تنویر غرائی ۔
’’مڈونگا ۔۔۔پیر چاٹے گا !‘‘
تنویرچند لمحے خاموش رہی۔ پھر اس نے داہنے پیر سے سینڈل اُتار کر ا سے تاریکی کی طرف بڑھا دیا وہ خود روشنی میں تھی اور ایک پیر پر کھڑی ہوئی تھی۔
دیکھ اسے کیا ہوا ہے؟‘‘
چٹ چٹ! " کی آواز پھر کمرے میں گونجے گی اور پھر چندہی لمہے میں وہی پہلے کا سا سناٹا طاری ہو گیا۔
شاید ایک منٹ بعد سسکاریاں اور بیٹیاں سنائی دینے لگیں ۔
تنوی !‘‘اند ھیرے سے آواز آئی۔’’ کتا ۔ یہ کسی کتے کے دانت ہیں ۔ تیرا بچہ مر جائے گا!‘‘ "
تنویر چینخی۔" کیا بکتا ہے؟
ہاں مر جائے گا مگر مڈونگا اسے بچا سکتا ہے۔ بچا سکتا ہے تنوی !‘‘
بچالے مڈونگا !‘‘تنویر گھنگھیائی ۔
مگر میں روزانہ تیرے پیر چاٹوں گا!‘‘
اچھا سور کے بچے !"
’’کتاز ہریالا ہے۔ میں رات بھر اس کے زخم چوسوں گا اور صبح یہ تجھے ٹھیک ملے گا ۔ یہاں سے چلی جا تو رات بھر یہاں اس کمرے میں نہیں رہ سکتا ' تنویر نے کہا۔
اچھا تو پھر میں اسے لے جارہا ہوں
لیکن اگر اسے ہوش آ گیا تو ؟
" میرے کمرے میں اندھیرا ہو گا تنوی ۔ اگر اسے ہوش آ گیا تو میں اسے باہر ڈال دوں گا ’’
کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر تنویر نے کہا۔
اچھا۔تو یہی کر لے لیکن یاد رکھ ،میرے بچہ مر گیا تو میں نہیں چھوڑوں گی!‘‘
کیا ہے۔ ویسے باور ڈوں کو روزانہ دس سیر گوشت کے پار ہے اس طرح انگاروں پر پھونے پڑتے تھے کہ مکھن جائے کے بعد بھی ان سے خون چکتا رہے یعنی آدھے کچے پار ہے اور وہ سارے کا سارا گوشت خود تنویر اٹھا کر عمارت کے اس سے میں نے جایا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ آج تک وہاں پرندہ بھی پرنہیں مار سکا تھا۔ اکثر اس حصے کی طرف سے عجیب وغریب آواز میں لوگ نئے اور ہم جانتے مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس حصے کا راز معلوم کرنے کی کوش کرتا۔
طرح ان لوگوں پر غالب تھا۔ دوسروں پر حکومت کرنے والی تنویر کی یہ رات بڑی بے چینیوں میں گزری جارہی تھی ۔ اس
میں تم سے بہت ناراض ہوں عدنان !"
نہیں ممی ڈیئر تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ میں واپس آگیا ۔ میرا گھوڑا کہاں ہے اور میری رائفل ؟‘‘
گھوڑ ا اصطبل میں ہوگا۔ رائفل کے متعلق مجھے علم نہیں۔ میں نے تمہیں اس فنکار سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی!‘‘
کیا تمہیں علم تھاممی کہ مجھے یہ حادثہ پیش آئے گا؟" عدنان نے اُسے گھور کر پوچھا۔
’’ چلو۔ اپنے کمرے میں چلو ۔ تم کمزوری محسوس کر رہے ہو!‘‘
میری بات کا جواب دو ممی ۔ کیا تمہیں علم تھا ؟‘‘
شت اَپ!‘‘
عدنان خاموش ہو گیا لیکن اُس کے چہرے پر پائے جانے والے آثار نہیں کہہ رہے تھے کہ وہ اپنی ماں کی ڈکٹیٹرشپ پسند نہیں کرتا ۔ وہ اسے اُسی کمرے میں لائی جہاں کچھ دیر قبل خود بیٹھی تھی اور اسے آرام کرسی میں ڈھکلتی ہوئی بولی۔ " مجھے بتاؤ کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟"
مجھے یاد نہیں ۔۔۔اوہ ممی کی اب میں سونا چاہتا ہوں ۔ اف فوہ ۔۔۔کتنی جلن ہے میرے شانے میں !"
تم مجھے بتائے بغیر نہیں سوسکوگے ۔مجھے تمہاری خودسری بلکل پسند نہیں ہے !‘‘
’’سونے کی خواہش کرنا خود سری نہیں ہے۔تم اب تک کیوں نہیں سوئیں؟‘‘
میری بات کا جواب دو ۔تم بہت بتمیز ہوتے جا رہے ہو؟‘‘
’’میں شاید موت کے منہ سے نکل آیا ہوںممی!‘‘عدنان نے خشک لہجے میں کہا۔
’’ہاں،میں جانتی ہو ں۔مجھے اس کے متعلق بتاؤ!‘‘
’’صہیح بتاؤںگا۔اب مجھے سونے دو!‘‘
’’تم بتائے بغیر نہیں سوسکتے۔اب مجھے تیسری بار بھی یہی جملہ دہرانا پڑا تو میں بہت بری طرح پیش آؤں گی۔
موت کے منہ میں جانا اور نکل آنا مردوں ہی کا کام ہے۔اگر تم لڑکی ہوتے تو کچھ پوچھے بغیر ہی تمہیں تھپک تھپک کر سلا دیتی!‘‘
’’میں نہیں جانتا کہ ماں کی شفقت کس چڑیا کا نام ہے !‘‘عدنان برُا سا منہ بنا کر بولا۔
’’تم حقیقت بہت بتمیز ہوتے جارہے ہوں۔میں تم سے بھی نہ بولوں گی!‘‘ تنویر مڑتے ہوئے کہا۔
’’اوہ !ممی خفا ہوگئیں!‘‘عدنان بے بسی سے بولا۔’’بیٹھ جاؤ۔بتاتا ہوں ۔میں تنہا شکار کے لیے نکل گیا تھا۔
نوکر خمیے میں تھے اور خمیہ مجھ سے تقریباً ڈیڑھ میل فاصلے پر تھا ۔اچانک ایک کتاً نے پیچھے سےگھوڑے پر حملہ کیا اور گھوڑا بدک کر بھاگا۔میں مڑکر دیکھا وہ کوئی جنگلی کتاً تھا۔یقیناً کسی پالتو تھا مگر جنگل میں۔میرا مطلب ہے کہ دہی آبادیوں میں ایسے کتےً دکھائی دیتے ۔میرا گھوڑا بے تحاشہ دوڑ رہا تھا لیکن کتےً سے اس کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ ایک بار کتے نے چھلانگ لگائی اور مجھ پر رہا۔ شاید اس کا حملہ میری گردن ہی کے لئے تھا لیکن اس کے دات شانے مین ہی اُترتے چلے گئے۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کے میں نے اُسے کس طرح جھٹک دیا تھا۔
گھوڑا دوڑتا ہی رہا ....!‘‘
پھر بارش شروع ہوگئی۔ نہ جانے کیوں مجھ پر غشی طاری ہوتی جارہی تھی ۔ پھر مجھے یاد نہیں کہ کیا ہوا،،،،یہ بتاؤمیرا گھوڑا زندہ ہے یا مر گیا؟‘‘
مجھے علم نہیں ہے " علم ہونا چاہئے ۔ ممی وہ ایک بڑا شا ندار گھوڑا ہے۔ اس نے آج میری جان بچائی ہے!‘‘
’’وہ کتاًکیسا تھا ؟‘‘
’’اوہ اوہ اُس کا رنگ سیاہ تھا جسم کی بناوٹ گرے ہاؤنڈ کی سی تھی لیکن میں نے آج تک سیاہ رنگ کا گرے ہاؤنڈ نہیں دیکھا!‘‘
کیا اس کے سر پر سفید دھاریاں بھی تھیں ؟‘‘
عدنان تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔’’ میں نے اتنے غور سے نہیں دیکھا تھا ۔ ہوسکتا ہے دھاریاں رہی ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ رہی ہوں!‘‘
’’ٹھیک ہے ۔ تمہیں اتنا ہوش کہاں رہا ہوگا کہ یہ دیکھتے۔!‘‘تنویر نے بُرا سامنہ بنا کر کہا۔’’تم تو کسی ننھی سی بچی کی طرح خوفزدہ ہوگئے تھے۔عدنان ....کیا تمہیں ریوالوار کی مشق نہیں ہے؟‘‘
’’ہے کیوں نہیں ۔کیا تم یہ سمجھتی ہو ممی کہ میں ڈرکر بھاگا تھا۔گھوڑا بے قابوں ہوگیا تھا ۔پھر طوفان آگیا ۔اگر تم اس طرح طز کروگی تو میں ابھی اور اسی وقت شکار گاہ واپس چلا جاؤںگا!‘‘
’’خاموش بیٹھو!‘‘تنویر نے اُسے جھڑک دیا ۔چند لمہے چپ رہی پھر پوچھا ۔’’اس کتےّ کے ساتھ کوئی آدمی بھی نظر آیا تھا ؟‘‘
’’میں نہیں دیکھ سکا!‘‘عدنان نے جواب دیا پھر بولا ۔’’اُس کتےّ کے متعلق کچھ جانتی ہو؟‘‘
’’کیوں ؟‘‘تنویر اُسے گھورنے لگی۔
’’تم نے سفید دھار یوں کے متعلق پوچھا تھا!‘‘
’’کچھ نہیں...یونہی!‘‘
’’مجھے بتاؤ کہ وہ کس نسل کا کتا تھا ؟‘‘
’’میں نہیں جانتی لیکن اب تم میری اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلو گے ۔سمجھے!‘‘
’’کیوں؟مجھے وجہ بتاؤ!‘‘
’’تم واقعی بہت بدتمیز ہوتے جارہے ہو!‘‘
’’ممی ڈ ئیر !تم ذراذراسی بات پر خفا ہوجاتی ہو۔میں تمہاری پریشانی کی وجہ معلوم کرنا چہتا ہوں ۔تم کئی دنوں سے پریشان نظر آ رہی ہو!‘‘
’’تم مجھے پریشان نہیں دیکھنا چاہتے.....کیوں؟‘‘
قدرتی بات ہے ممی!‘‘
" اچھا تو میں اس طرح خوش رہ سکتی ہوں کہ تم میرے کہنے پر عمل کرو!‘‘
" یعنی تمہاری اجازت کے بغیر گھر سے قدم باہر نہ نکالوں ؟‘‘
’’ہاں ،میں یہی چاہتی ہوں !‘‘
عدنان نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا ۔’’تم نے وہاں اندھیرے میں کیوں ڈال دیا تھا ؟‘‘
ڈاکٹرنے یہی کہا تھا کہ تمہیں ا اندھیرے میں ہوش آنا چاہئے! "
اندھیر تو میرے کمرے میں بھی ہو سکتا ہے!‘‘ ’’
تم پھر کرنے لگے! "
’’ آہا تو میں کچھ پوچھا ہی نہ کروں!‘‘ عدنان نے شکایت آمیز لہجے میں کہا۔
نہ پو چھا کرو!‘‘
"! تم ابھی تک مجھے ایک ننھہا سا بچہ سمجھتی ہو ۔ یہ مجھے پسند نہیں !"
میری پسند تمہاری پسند ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا۔ اب سو جاؤ !‘‘تنویر اٹھتی ہوئی بولی ۔
عدنان خاموش ہی رہا۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا اور وہ اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر دوسری طرف دیکھنے لگا ۔
تنویر اُس کے کمرے سے نکل کر پھر عمارت کے اُسی حصے کی طرف جارہی تھی۔دروازے پر پہنچ کر وہ رُک گئی۔
’مڈونگا’!مڈونگا!‘‘اُس نے آہستہ سے آواز دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ ملا۔
ہم شکل مردہ
کرنل فریدی آفس میں اپنی میز پر اقبار پھیلائے بیٹھا تھا۔ حمید اور رمیش اپنی میز وں پر تھے۔ رمیش اپنی کاغذات میں الجھا ہوا تھا اور حمید..... دو تو اب محض فریدی کو چڑھانے کے لئے ’’فوٹو پپلےپن اَپ" کے پر چے آفس میں بھی لانے لگا تھا۔ اس وقت بھی وہ پر پے کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ اس میں ہالی وڈ کی ایکٹریوں کی نیم عریاں تصاویر تھیں ۔ کبھی کبھی وہ دور سے ہی رمیش کو بھی کوئی پوز دکھانے لگتا۔ فریدی اقبار میں محو تھا۔
اچانک لیڈی انسپکٹر ریکھا کمرے میں گھس آئی۔ اُس کا چہرہ سرخ تھا اور سانس پھلی ہوئی تھی۔وہ آتے ہی اقبار پر جھک پڑی ۔
فریدی نے اُسے تیکھی نظروں سے دیکھا ریکھا سے ایسی بے تکلفی کی توقع نہیں تھی۔آج وہ اجازت لے کر بھی کمرے میں داخل نہیں ہوئی تھی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’اوہ !میں معافی چاہتی ہوں!‘‘ریکھا سٹپٹا گئی۔’’لیکن ایسی بات ہی ہے!‘‘
’’کیا بات ہے؟بیٹھ جاؤ!‘‘فریدی نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
حمید نے میز کی دراز سے دو تین پرچے اور نکال لئے ۔ آج کل ریکھا سے اُس کی بول چال نہیں تھی اور جھگڑے کی وجہ قاسم تھا ۔ قاسم آج کل زیادہ تر حمیدہی کے ساتھ رہتا اور ریکھا پر خاص طور سے اُس کی نظر عنایت تھی بلکہ وہ حمید کے ساتھ اپنا زیادہ تر وقت اسی لئے گزارتا تھا کہ شاید ریکھا کا دیدار ہی نصیب ہو جائے مگر ایسا بہت کم ہوتا تھا۔
اس جھگڑے سے پہلے وہ تینوں کبھی کبھی کسی کیفے یا ہوٹل میں مل بیٹھا کرتے تھے ۔ ریکھا، قاسم کی حماقتوں سے کافی محفوظ ہوتی لیکن ایک دن جب حمید اور ریکھا آرلکھو میں بیٹھے نہیں مار رہے تھے ، قاسم آگیا اور اچانک ریکھا کی نظر قاسم کے کوٹ کی جیبوں پر پڑی جو رہ رہ کر پھولتی اور پچکتی ہوئی سی معلوم ہونے لگتی تھیں ۔ ریکھا کے استفسار پر قاسم نے بتایا کہ وہ خرگوش کے بچے لئے پھر رہا ہے کیونکہ ریکھا کو خرگوش بہت پسند ہیں۔ شاید ریکھانے پہلے بھی کسی موقع پر کہا تھا کہ اُسے خرگوش بہت پسند ہیں۔ اگر امکان میں ہو تو وہ سارا دن خرگوشوں سے کھیلتی رہے۔ قاسم نے اُسے بتایا کہ اُسے بھی خرگوشوں سے اتنی ہی محبت ہے۔ اس سلسلے میں اُس نے شاید بوکھلاہٹ میں یہ بھی کہہ دیا کہا سے ریکھا سے بھی اتنی ہی محبت ہے۔ ریکھا اس پر اکھڑی گئی۔ تیجہ یہ ہوا کہ قاسم کی لگی بندھ گئی اور تمہید اس کی صفائی پیش کرنے لگا۔ پھر بات اتنی بڑھی کہ دونوں میں لڑائی ہوگئی۔ اسی دن سے دونوں میں بول چال بند تھی ۔
"جی ہاں ، میں نے دیکھا ہے!‘‘ رمیش نے جواب دیا۔
ذرا یہ تصویر دیکھنا!‘‘ !"
رمیش اٹھ کر میز کے قریب آ گیا۔ کچھ دیر تک سر جھکائے تصویر کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔ بیدی مشابہت ہے نہیں بلکہ تھا کیونکہ میں اُس کی لاش دیکھ چکی ہوں "
ہے بلکہ بعض حالات میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں میں سرمو فرق نہیں !" گریہ فقیر تمہیں یاد کیسے رہ گیا۔ دن بھر سینکڑوں فقیر تمہاری نظروں سے گزرتے ہوں گے ؟" " جناب وہ فقیر ہی عجیب ہے " رمیش نے کہا۔
ہم ۔ مجھے بتاؤ کہ وہ فقیر عجیب کیوں تھا؟"
ریکھا اور رمیش ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے۔ پھر رمیش نے کہا۔ " حمید بھائی نے بھی اُس فقیر کو دیکھا ہوگا۔ وہ اچھی طرح بتا سکیں گے!"
"حمید کو بلا وا"
سارجنٹ رمیش باہر چلا گیا اور فریدی کچھ سوچنے لگا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ یہ جبر و اکراہ اس معاملے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ ریکھانے جتنے جوش و خروش کے ساتھ یہ تذکرہ چھیڑا تھا اس کی مناسبت سے وہ توجہ نہیں دے رہا تھا۔ اگر وہ اسے کوئی اہمیت نہ دیتا تو ریکھا کو خواہ مخواہ شرمندگی ہوتی وہ حید کی آمد کا منتظر رہا۔ حمید، رمیش کے ساتھ واپس آیا۔ شاید اس نے فریدی کی جھڑکیوں کا برانہیں مانا تھا کیونکہ وہ اس وقت بھی بڑے اچھے موڈ میں نظر آرہا تھا۔ حالانکہ ریکھا سے بول چال بند تھی لیکن اس نے آتے ہی ریکھا سے کہا۔ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنانے سے کیا فائدہ۔ میں نے بھی اخبار میں سعید باہر کی تصویر دیکھی تھی اور خاموش رہ گیا تھا ؟"
’’یہاں مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ وہ فقیر اتنی شدت سے لوگوں کے ذہنوں پر کیوں مسلط تھا ؟‘ فریدی نے کہا۔ " کیا ان لوگوں نے نہیں بتایا ؟ حمید بولا ۔ ان کا خیال ہے کہ تم ان سے بہتر طریقے پر بتا سکو گے" با حمید سر کھجا کر بولا۔ وہ کچھ اس انداز میں بھیک مانگتا تھا کہ لوگ کھڑے گھاٹ شادیاں کرنے پرتل جاتے تھے ۔ آپ سنتے تو اسے گولی ہی مار دیتے کیا بکواس ہے!‘‘!"
فریدی نے نہایت اطمینان سے اٹھ کر اُس کے دونوں کان پکڑے اور اسے دروازے کی طرف گھما کر کمر پر بات رسید کر دی ۔ حمید سنسان پر آمدے میں دور تک دوڑتا چلا گیا۔ پھر اسی رفتار سے لان کی طرف گھوم گیا اور ے اطمینان سے بہلتا ہوا ادھر جارہا تھا جہاں فریدی کی کارکھڑی کی جاتی تھی۔ اسے علم تھا کہ فریدی ایڑھ ے کے بعد باہر جائے گا ملین اس کے باوجو د بھی وہ اس کی کارنے اڑا۔ آخر اس لات کا بدلہ بھی تو ہونا چاہئے تھا۔ اس نے قاسم کے گھر کی راہ لی جہاں آج کل قاسم کی بیوی کی تین عدد خالہ اور ماموں زاد بہنیں مقیم تھیں ۔ یہ نوں کی بڑی زندہ دل اور خوش مزاج میں۔ ایسے قاسم جیسے شخص کی ہم شیخی نے ان صفات کو اور زیادہ تہکا دیا تھا۔ اں ہوتی کوئی نہ کوئی تفریح ہوتی رہتی تھی مر اسوقت کی تفریح علی خلف توقع تھی۔ اس نے قاسم کو اناما پت پڑار دیکھا جس کے پیٹ پر ایک بہت بڑا پر رکھا ہوتا۔ پر کیا ان کا کر کہتاچا ہے جس کا وزن کم راہ راس من ضر ور رہا ہوگا اور پھر پر قاسم کے دونو کر بڑے بڑے ہتھوڑے برسا رہے تھے ۔
قاسم کی سالیاں او پر برآمدے میں حیرت سے منہ کھولے کھڑی تھیں ۔ ان کے قریب اُس کی بیوی بھی تھی مگر ان کا سر ٹھیک نہیں علوم ہوتا تھا۔ وہ آج بھی وہی ننی مننی سی گڑیا لگ رہی تھی ۔ ایسی خوبصورت عورتیں حمید کی نظر ہم گزری تھیں مگر بے چارہ قائم کیا کرتا۔ اس کا تو پہاڑ اور گہری والا معاملہ تھا۔ وہ تو کوئی اپنی ہی جیسی گرانڈیل لڑکی چاھتا تھا ۔
ؒحمید کار سے اتر کر سیدھا پورفیکو کی طرف چلا گیا۔ قاسم ہتھوڑا برسانے والے نوکروں پر بگڑ رہا تھا۔ اور زور سے۔ ابے سالو! کیا کھانے کو نہیں ملتا !" ایک سر پر بھی جمادو۔ دیکھا جائے گا " حمید نے کہا۔ " ارے، خدا تمہیں غارت کرے۔ تم آگئے ! قاسم نہ جانے کیوں ہو کھلا گیا۔ ہاں امیں آگیا ہوں اور اس پتھر پر کھڑا ہو کر ایک تقریر کروں گا ہائیں آؤ اچھا۔ تم بھی کیا یاد کرو گے۔ کیا تم یہ مجھتے ہو کہ میں کمزور ہوں !‘‘
اب حمید صاحب بھی تشریف لائے تھے۔ جو کچھ نہ ہو جاتا کم تھا۔
حمید پھتر پر چڑھنے کو چھ تو کی مگر ڈر رہا تھا کہ کہیں ایک بیک قاسم کی ذہنی روبیک نہ جائے۔ ایسی صورت میں اسے شہادت ہی نصیب ہوتی۔ پہلے اُس کا ارادہ تھا کہ قاسم کا بخیہ ادھیر ے گا مگر اب یہ خیال ترک کردیا ہار پہ نہیں کب قائم چھلا کر پتھر سمیت اسے زمین پر فتح دے۔
حمید نے جھک کر یتنوں لڑکیوں کو سلام کیا اور چپ چاپ اُتر آیا۔
تقریر وہاں سے کروں گا" حمید نے لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا۔
چلو ب!‘‘تو ڑو پھتر ا" قاسم نے نوکروں کو للکارا ۔ " جب تک پھر نہیں ٹوٹنے کا چھنی نہیں ملے گی " نوکر پہلے ہی سے پسینہ پسینہ ہور ہے تھے۔ انہوں نے بڑے ملتجیانہ انداز میں لڑکیوں کی طرف دیکھا اور ایک لڑکی نے کہا۔ " اب اسے ختم کیجے۔ کوئی دوسرا کر تب " آؤ تم تینوں پتھر پر کھڑی ہو جاؤا " قاسم نے کہا۔
ہاں یہ بڑی معقول بات ہے ' حمید سر ہلا کر بولا ۔ " بلکہ کہو تو اپنی بیوی کو بھی بلالوں۔ "
بالالوا" قاسم نے جھوک میں کہا پھر فوراہی سنجل کر بولا ۔ " کون بیوی؟ کہاں ہے تمہاری بیوی ؟ " ابھی اندر گئی ہے!"
کیا ؟" قاسم حلق پھاڑ کر دہاڑا پھر کروٹ لے کر پتھر کو ایک طرف ڈھکیل دیا اور خود اُٹھتا ہوا بولا " کیا گیا تم نے ؟"
میں نے کہا تمہاری بیوی کو بھی بلالوں " حمید نے پیچھے بہتے ہوئے کہا۔
نا ئیں ۔ تم نے اپنی بیوی کہا تھا !"
" تمہارے سننے میں فرق آیا ہے پیارے " تم خود ہو گے پیارے۔ میں گردن توڑ دوں گا تمہاری "
اب دیکھا سیدھی ہوگئی ہے "حمید نے آہستہ سے کہا ۔ " تمہیں پوچھ رہی تھی ! نہیں لا تم " قاسم کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی مسکراہٹ کھیلنے لگی ۔
ہاں اس خاموش رہو! " حمید نے جواب دیا۔ ان کی سرگوشیاں لڑکیوں تک نہیں پہنچی تھیں ۔
پھر دونوں بننے لگے۔
ہا ئیں " ایک لڑکی بولی۔ " ابھی تو آپ حمید صاحب کو مارنے دوڑے تھے!‘‘ !"
ارے .....وہ تو میں مداخ کر رہا تھا " قاسم نے جواب دیا۔
قاسم کے مذاق بڑے دلچسپ ہوتے ہیں ! ‘‘حمید نے ان میں سے ایک لڑکی کو آنکھ مار کر کہا۔ ظاہر ہے کہ اس آنکھ مارنے کا مقصد محض اپنی بات میں اور اور اہمیت پیدا کرنا تھا۔
اسکی صورت میں لڑکیوں کے برا ماننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ وہ یوں ہنس پڑیں لیکن قاسم نے عید کو آنکھ مارتے دیکھ لیا تھا۔ اس نے بوکھلا کرلو کیوں کی طرف دیکھا مگر وہ برا ماننے کے بجائے جس رہی تھیں ۔ قاسم کی کھوپڑی نکنت الٹ گئی اور حمید کوبھی دھیان نہیں رہا کہ اس نے کیا کیا تھا کیونکہ یہ سب کچھ رواروی میں ہوا تھا۔
اچانک قاسم نے حمید کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ "آؤ میرے ساتھ ! گرفت اتلی سخت تھی کہ حمید کو اپی کلائی توتی ہوئی سی محسوس ہونے لگی مگر وہ چپ چاپ اُس کے ساتھ چلتا رہا۔ ہاتھا پائی میں اپنی ہی بے عزتی تھی۔ قاسم اسے لڑکیوں کے سامنے ہی اٹھا کر بیچ دیتا۔ وہ اسے عمارت کے عقبی حصے کی طرف لے گیا اور گریبان پکڑ کر جنہوڑتا ہوا ا " تم نے مسلیمہ کو آنکھ کیوں ماری تھی ؟
اب حمید کو یاد آیا اور اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ آسمان سر پر گرتا محسوس ہونے لگا۔ جس وقت قاسم نشے میں ہوا سے کوئی بات سمجھا لیتا آسان کام نہیں تھا۔ بہر حال حمید نے ہاتھ پاؤں مارے۔ ارے یارا تم بلکل ہی بھولے ہو ۔ کیا وہ برا مان گئی تھی ؟
مانے یا نہ مانے لیکن تم نے کمینہ پن کیوں کیا؟‘‘
اگر یہ کمینہ پن ہوتا تو وہ ضرور بر امانتی ۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سو چو نہیں ، میں گرم دل سے سوچوں گا میری بات کا جواب دو"
اس طرح اگر میں تمہارے باپ کو آنکھ ماروں تو وہ بھی برا نہیں مانیں گے!‘‘
میرے باپ کو آنکھ مارو گے ۔ ہڈیاں نہ چہا جاؤں گا تمہاری ۔ یہ مجال " قاسم نے گریبان کو جن کا دیا اور حمید کی روح کا ہوگئی۔
اچھا ایک بات سمجھنے کی کوشش کرو بس بجھنے کی کوشش کروں گا لیکن اگر تم نہ سمجھا سکے تو میں کھود کر دفن کردوں گا۔ مجھے امیرے باپ کو آنکھ ماریں گے۔ بڑے مارنے والے ہاں " تم کسی عورت کو ماں کہتے ہو ؟"
میری ماں بچپن ہی میں مرگئی تھی۔‘‘
پر دامت کردا میں تو ایک مثال دینے جارہا تھا۔ تم کسی عورت کو ماں کہو تو وہ خوش ہو گی لیکن اُس کو باپ کی جود کہ کر دیکھ لو، کیا حشر ہوتا ہے تمہارا حالانکہ باپ کی جو روہی ماں ہوتی ہے!"
اچھا میں سمجھ گیا۔ آگے کیو کیا کہوں تمہیں دنیا کا کچھ تجربہ ہی نہیں ہے۔ تم کچھ نہیں جانتے ۔ کسی چیز کا مطلب نہیں مجھتے " " ارے تم تو بڑے قائل ہو۔ پھر بتاؤ نا قاسم ہاتھ نچا کر بولا۔!"
آنکھ مارنے کے انداز میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ ایک آنکھ اس طرح ماری جاتی ہے کہ لگ برا مان جاتے ہیں لیکن اگر تم اپنا ایک گال بھلا کر آنکھ مارو تو کوئی بھی برا نہیں مانے گا۔ آیا مجھ میں۔ تم اس طرح کسی کو آنکھ مار دیتے۔
قاسم کا ایک مال غیر ارادی طور پر چھوت چلا گیا جین پر آنکھ مارنے کی گنجائش نہیں رہ گئی کیونکہ اس طرف کی آنکھی خود بخود بند ہو گئی تھی ۔ قاسم چند لمحے کوشش کرتا رہا پھر بڑی سنجیدگی سے بولا ۔ " نہیں بنتا اچھا ادھر دیکھوا "حمید نے اپنا ایک گال پہلا کر اسے آنکھ ماری۔ تم سے تو بن جاتا ہے " قاسم نے بے بسی سے کیا " مگر اپنا یہ سالا مال ہی ایسا ہے کہ پھول کر آنکھ پر چھ جاتا ہے۔
اچھا اگر دوسری آنکھ ماری جائے تو " کوئی حرج نہیں ہے حمید نے بڑے خلوص سے کہا۔ قاسم نے پھر ایک طرف کا مال پھلایا اور دوسری طرف کی آنکھ مارنے کی کوشش کی لیکن وہ آنکھ صرف ہوگئی ۔ ظاہر ہے کہ ایک آنکھ تو پہلے ہی بند تھی۔ کیوں بنا کر نہیں ! قاسم نے حمید سے ہو چھا۔
بہنے لگے گا تھوڑی مشق کی ضرورت ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گے۔ ’’
قاسم نے قید کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور وہیں دھوپ میں کھڑے کھڑے مشق شروع کر دی تھی ۔ اب وہ یہ کی بھول گیا تھا کہ حمید کو یہاں لایا کیوں تھا۔
نہیں حمید بھائی قاسم نے پھر بڑی بے بسی سے کہا۔ اتنے میں وہ تینوں لڑکیاں وہاں آگئیں۔ ارے بھائی صاحب " ایک نے قاسم سے کہا۔ " کیا سعید بابر کے یہاں نہیں چلتا ہے!" ارے وہ خود ہی آجائے گا " قاسم سر ہلا کر بولا ۔ " مگر سعید سعید نہیں کلو میرے بار بر کا نام کلو ہے ہائیں کیا کہہ رہے ہیں آپ لڑکی بولی ۔ سعید باید بار بر نہیں "
حمید باہر کے نام پر حمید کو جھر جھری ہی آگئی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سال میل ہی نہیں چھوڑتا۔ بھلا یہاں بھی حمید باہر کے تذکرے کی کیا ضرورت تھی ۔
اچھا اچھا اوہی جس کا تذکرہ کل کیا تھا" قاسم نے مسکرا کر کہا۔ " بیڑا جیب نام ہے۔ سعید باہر بالکل شیر ہیر معلوم ہوتا ہے لیکن اگر وہ گہلری کا بچہ نکلا تو میں اس کی گردن مروڑ دوں گا ۔ ہاں یہ سالے نام بھی بڑا دھوکا دینے ہیں ۔ نام پہاڑ خاں اور خود مچھر کی اولاد!‘‘
قاسم یار تم تو قلفی ہوتے جارہے ہوا "حمید نے حیرت سے کہا۔
اور کیا۔ ہاں نہیں تو سالے!‘‘ "
پھر حمید نے اس لڑکی سے پوچھا۔ " آپ سعید بابر کو کیسے جانتی ہیں ۔ وہ تو شاید افریقہ سے آیا ہے!‘‘
میں اسے افریقہ ہی سے جانتی ہوں ۔ نیروبی میں میرے چہچا کا بزنس ہے۔ میں بھی وہاں تین سال رہ چکی ہوں...اُو... اوہو آپ بھی چلئے ....بڑا لطف ہے گا ۔ آپ یقینا اُسے پسند کریں گے!‘‘"
حمید نے قاسم کی بات پر دھیان دیئے بغیر کہا۔’’میں اُس سے ضرور ملوں گا۔مجھے افریقہ بہت پسند ہے مگر آج تک جانے کا اتفاق نہیں ہوا!‘‘
یلیاں کیسی ہوں گی ۔ ہی ہی ہی !" قاسم بے تحاشہ ہسنے لگا۔
یلایلیاں کیا چیز ؟ ‘‘ تینوں لڑکیوں نے حیرت ظاہر کی۔"
ارے وہ کچھ نہیں ۔ جی ہاں، تو آپ کب جائیں گی وہاں " حمید جلدی سے بولا ۔
’’بس چل رہے ہیں !‘‘ اُس نے کہا اور لڑکیاں واپس جانے کے لئے مڑیں اور قاسم بڑبڑانے لگا۔
’’ یار حمید بھائی ، بڑی بوریت رہے گی ۔ کل میں نے ہوں ہی وعدہ کر لیا تھا۔ کل سے اس سالے کی تعریفوں
کے پُل باند ھے جارہے ہیں!‘‘ "
چلو دیکھتے ہیں۔ ڈھب پر آ گیا تو مرغا...!‘‘ "
" ’’ ہا ہا !‘‘قاسم، حمید کے شانے پر ہاتھ مار کر ہنسا اور حمید کو ایسا معلوم ہوا جیسے اُس کے شانے پر کوئی بڑی سی چٹان آگری ہو۔ وہ دونوں پورچ کی طرف جارہے تھے ۔ اچانک قاسم کا دماغ پھر سنگ گیا اور چلتے چلتے رُک کر غصیلی آواز میں بولا ۔ " تم اپنے گھر جاؤ!‘‘"
" کیوں ؟"
"! تم آج کل یہاں روزانہ آرہے ہو ...میں خوب سمجھتا ہوں۔ نہیں، تم اپنے گھر جاؤ!
" کیا سمجھتے ہو؟"
" تم اُن تینوں کی وجہ سے آتے ہو!"
اچھا تو پھر ؟"
اچھا تو پھر یہ کہ چپ چاپ چلے جاؤ!‘‘"
یہ تینوں کچھ دنوں کے لئے آئی ہیں !‘‘ حمید نے کہا۔ " اور ہم دونوں ہمیشہ نہیں رہیں گے!‘‘
میں کچھ نہیں جانتا ۔ تم چلے جاؤ!‘‘"
اچھا! تو پھر میرا نام حمید ہے سمجھے !تمہارے گلے میں رسّی ہوگی اور میں سارے شہر میں ڈگڈگی بجاتا پھروں گا۔ اچھانیں چل دیا " حمید اپنی کار کی طرف بڑھا۔ اچانک سلیمہ نے برآمدے سے آواز دی ۔ " کیا آپ جارہے ہیں ۔ آپ نے تو ساتھ چلنے کو کہا تھا "
انہیں جانے دو !‘‘ قا سم سرہلاکر بولا ۔’’ان کے...ان کے ...پیٹ میں درد ہورہا ہے !‘‘"
حمید کار میں بیٹھ چکا تھا لیکن اسٹارٹ بھی نہیں کر پا یا تھا کہ سلیمہ اس کے قریب پہنچ گئی۔
کیا بات ہے؟ ‘‘اُس نے پو چھا۔‘‘
’’قاسم بھگا رہا ہے !‘‘
’’کیوں؟‘‘
اُس کا خیال ہے کہ میں صرف آپ کی وجہ سے یہاں آتا ہوں حمید گلو گیر آواز میں بولا۔
’’ ان کا بھی دماغ خراب ہے شاید اچھا چلیئے میں بھی مل رہی ہوں !‘‘سلیمہ دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔
حمید نے کار اسٹارٹ کردی اور قاسم ’’ہائیں ہائیں ‘‘کرتا ہوا دوڑا لیکن کار ہ؎پھاٹک سے گزر چکی تھی۔ قاسم پلٹ کر اپنے گیراج کی طرف لڑھکنے لگا۔
دوسرے پر فائر
تنویر کبھی تنھا با ہر نہیں نکلتی تھی۔ اُس کے ساتھ دو باڈی گارڈ ہوتے تھے اور دونوں اپنے پاس بھرے ہوئے ریوالور رکھتے تھے اور اب کچھ دنوں سے و ہ عدنان کو بھی تنہا باہر نکلنے نہیں دیتے تھے۔
ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔
یہ چاروں آدمی بظاہر سیدھے سادے اور بے ضرر تھے لیکن ان کی حقیقت صرف تنویر کو معلوم تھی۔ یہ چاروں ا ول درجہ کے بدمعاش، سازشی اور قاتل تھے۔ ویسے یہ تنویر سے بہت ڈرتے تھے۔ اس کے ایک اشارے پر اس طرح آگے بڑھتے تھے جیسے پالتوکتےّ ہوں۔
تھوڑی دیر بعد تنویر کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں آج کا اخبار تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ کھڑے ہو گئے۔ عوام نے سر کی جنبش سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ سوراب پینے گئے۔ تم لوگوں کو تا ہیے تھی کہ میں تم سے کبھی کوئی کام نہیں لیتی تحریر ایک کری کھینچ کر پیٹھتی ہوئی ہوتی۔ " مگر اب کام کا وقت آگیا ہے!‘‘ "
وہ بڑی توجہ سے اس کی منگو سن رہے تھے ۔ ترکی نے اخبارمین پر پھیلا یا اور اخبار میں نہیں ہوئی ایک تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ " اس آدمی کو جہاں دیکھوں گولی مار دو " وہ باری باری سے اس تصویر کو دیکھنے لگے۔ پھر ایک نے ہار چھا۔ "یہ رہتا کہاں ہے ؟‘‘"
’’تلاش کرو!‘‘تنویر نے کہا۔’’اخبار میں اس کا پتا نہیں ہیں!‘‘
’’ہم جلد سے جلد نپٹانے کی کوشش کریں گے!‘‘
وہ باہر نہیں چلی گئی۔
پھر وہ بیٹھ کر ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھنے گئے۔ آخر ان میں سے ایک نے کہا۔
’’محترمہ بڑے دل گردے کی عورت ہیں ۔ انہوں نے اس طرح اس قتل کا حکم صادر فرمایا ہے جسے ہمیں سعید باہر کے سر میں تیل مالش کرنی ہے!‘‘
’’کیا اس کے متعلق اخبار میں ک کوئی خبر بھی ہے؟‘‘؟دوسرے نے پو چھا۔
’’ ہاں ہے تو !‘‘پہلے نے اخبار پر نظر جمائے ہوئے کہا۔ " یہ نیروبی سے آیا ہے۔ وہاں کا کوئی بہت بڑ ا آدمی ہے۔ اس میں یہ تہریر ہے کہ وہ اپنے اعزہ سے ملنے کے لئے یہاں آیا ہے!"
اور مادام تنویر چاہتی ہیں کہ ہم اسے گولی ماردیں ! ‘‘تیسرا بولا۔
ہمیں اس سے غرض نہ ہونی چاہئے !" چوتھے نے نا خوشگوار لہجے میں کہا۔ ’’حکم ...حکم ہے!‘‘"
" ہم کب کہہ رہے ہیں کہ حکم نہ مانیں گے !‘‘
اچانک عدنان کمرے میں داخل ہوا اور وہ پھر کھڑے ہو گئے۔ عدنان نے مسکراتے ہوئے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا،
" آج کل تم لوگ بے کا ر ہوا!" عدنان بیٹھتا ہوا بولا۔
نہیں جناب ! ہم مادام کا ایک ضروری کام کر رہے !‘‘ !"
کون سا کام ؟‘‘
اوہ جناب آپ کے زخم کا کیا حال ہے؟‘‘ ایک نے دفتًہ ہو چھا۔ "
تم بڑے گدھے ہو۔ جو کچھ پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دوا"
جناب عالی ۔ آپ خود خیال فرما ئیں ہم کیسے بتا سکتے ہیں!‘‘ "
کیا ؟ تمہیں بتانا پڑے گا؟‘‘"
بہتر یہ ہوگا کہ آپ ہمیں شوٹ کر دیں ورنہ مادام کا غصہ ہمارے لئے موت سے بھی زیادہ بھیا نک ہو گا!‘‘ "
میری کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیوں ؟ عدنان نے غصیلے لہجے میں کہا۔
نہیں جناب ! ہم آپ کے لئے بھی جان دینے کو حاضر ہیں!‘‘
عدنان کچھ دیر تک خاموش رہا پھر بولا ۔ " اچھا میرے لئے بھی ایک کام کرو !‘‘
فرمائیے جناب!‘‘ ’’
مجھے وہ کتّاچاہتے جس نے شکار گاہ میں مجھ پر حملہ کیا تھا!‘‘
کتّا؟‘‘ چاروں نے حیرت سے دہرایا۔
’’ہاں، وہ کتّا ہی تھا۔سیاہ رنگ کا اونچا سکتا۔ جسم کی ساخت گرے ہا ؤنٹ کی سی تھی " ہم اسے تلاش کرنے کی کوشش کریں گے جناب شاید خطر ناک ہی ہے؟‘‘"
آپ اس کی لاش چاہتے ہیں ؟"
نہیں زندہ لاش کیا کروں گا!‘‘"
ہم انتہائی کوشش کریں گے!‘‘ "
عدنان بھی اُٹھ کر چلا گیا۔ اُس کے چلے جانے کے بعد کافی دیر تک خاموشی رہی پھر ایک نے آہستہ سے کہا۔ دونوں ہی عجیب ہیں۔ ہم کتنے دنوں سے یہاں ہیں لیکن ہمیں آج تک مادام کے متعلق کچھ نہیں معلوم ہو سکا!‘‘ "
مگر اس آدمی سعید بابر کو ہم کہاں تلاش کرتے پھریں گے۔ بڑا ٹیڑھا کام ہے!"
" کچھ بھی ہو۔ ہمیں یہ کام کرنا ہی پڑے گا اس معمر آدمی نے کہا جو بہت کم ہوتا تھا اور بقیہ تینوں اُس کا احترام بھی کرتے تھے۔
وہ تو ہے لیکن اگر ہم اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو ؟‘‘"
" کیا مطلب؟"
بس یونہی خیال آتا ہے۔ نا کامیابی کی صورت میں ہمارا کیا حشر ہو گا!‘‘ "
نا کا میابی کی بات ہی نہ سوچو۔ میں اسے شارع عام پر گولی مار سکتا ہوں ! معمر آدمی نے کہا۔
سوچ سمجھ کر دعوی کرو۔ آج کل یہ سب کچھ بہت مشکل ہو گیا۔ جب سے سادہ لباس والوں کا چارج کرنل فریدی نے لیا ہے، بہت کم جرائم ہو پاتے ہیں !‘‘
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
حمید کی کار فراٹے بھر ہی تھی اور سیلمہ پہلے پہل تھا اس ک ساتھ باہر نکیلی تھی۔ ان تینوں میں یہی تھی بھی سب سے زیادہ زندہ دل۔ ایسی کہ حمید اس کی ہم نشینی میں بوریت نہیں محسوس کر سکتا تھا۔ آخر آپ دونوں کے تعلقات کیسے ہیں ؟‘‘ سلیمہ نے پوچھا۔
بہت ہی دلچسپ !‘‘ حمید بولا ۔ ” وہ خودی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر بگا ڑ بیٹھتا ہے!‘‘ "
’’مگربیگم صاحبہ تو کہتی ہیں کہ آپ ہی نے انہیں بگاڑ رکھا ہے!‘‘
غلط کہتی ہیں۔ میں نے اسے بگاڑا نہیں بلکہ ہاتھی بنایا ہے !‘‘
سلیمہ پہلے تو اسی پھر آہستہ سے مغموم لہجے میں بولی ۔ ’’دونوں کی زندگی پر بار ہوگئی ہے۔ میں تولعنت بھیجتی ہوں ایسی شادی پر ! ‘‘
مگر مجھے بے جوڑ شادیاں بہت پسند ہیں ۔ اگر بیوی یا شوہر پسند کامل جائے تو زندگی محدود ہو جاتی ہے۔
آدمی مطمئن ہوجاتا ہے۔ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس کی زندگی میں بس ہیں ایک کمی رہ گئی تھی جو پوری ہوگی۔ اب اسے کچھ نہیں کر نا ہے۔ !
واہ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘"
قاسم ہی کی مثال لے لیجئے ۔ اگر بیوی پسند کی ملی ہوتی تو وہ اپنے پیٹ پر پتھر نہ تڑواتا۔ منہ سے لوہے کے گولے نہ نکلتا ؎۔ موٹی موٹی سلاخیں نہ موڑ تا!‘‘
سلیمہ پھر ہسنے لگی اور اس کے بنے کا انداز حمید کو بہت پسند تھا۔ بھرے بھرے سے ہونٹ خفیف سے گھلتے اور چندار دانتوں کی قطار جھانکتے لگی ۔ آنکھوں میں شوخی عود کر آتی اور اس کا سارا جسم تھرکتا سا محسوس ہونے لگتا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایونگ ان پیرس کی لپٹیں اُس کے ہونٹوں سے نکل رہی ہوں ۔ " مگر ہم کہاں چل رہے ہیں ؟‘ سلیمہ نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔ " ہم کیوں نہ اُفق کے پار چلیں!‘‘
آہا ... آ ہا ...تو اب آپ مجھ سے رومانی قسم کی گفتگو کریں گے۔ اچھا چلئے میں شرما گئی۔ اب کیا کہیں گے آپ؟‘‘"
اب میں یہ کہوں گا کہ دنیا کے ہر آدمی کو فرشتوں کی طرح زندگی بسر کرنی چاہئے!‘‘ !
میں آپ کے متعلق بہت کچھ سن چکی ہوں!"
اور مجھ میں یہ جملہ سننے کی تاب نہیں رہ گئی " حمید نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ " شہر کی جس نئی لڑکی سے ملاقات ہوتی ہے، وہ میرا نام معلوم ہو جانے کے بعد یہی کہتی ہے۔ آخر آپ میرے متعلق کیا سن چکی ہیں ؟‘‘
"! کچھ نہیں ۔ کوئی اور بات کیجئے ’’
آپ ہی چھیٹر یے کوئی بات !"
نہیں ، آپ تو باتوں کے ماہر ہیں!‘‘ !"
خیر میں ہی شروع کرتا ہوں ۔ سعید باہر سے آپ پہلے بھی ... !‘‘
نو...نو ...پلیز سعید بابر کی باتیں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ پتہ نہیں راحلہ کو اس میں کون ی خوبیاں نظر
آئی ہیں نہیں ،سعید بابر کے علاوہ اور کوئی بات!‘‘
سراغرسانی سے دلچسپی ہے آپ کو ؟ " حمید نے پو چھا۔
بہت زیادہ... حد سے زیادہ... میرے لئے آپ میں صرف یہی ایک کشش ہے!‘‘
’’ویسے میں بالکل اُس کا پٹھا ہوں... کیوں؟"
’’نہیں، میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ میں یہ کہنا چاہتی تھی کہ آپ کچھ اور نہ سمجھئے گا!‘‘
اور کیا سمجھوں گا!‘‘ "
اوہ ...آپ اپنی بات کیجئے ۔ وہاں، مجھے سراغرسانی سے بہت دلچسپی ہے!"
اچھا تو اگرآپ کی مطلوج فقیر کو بہار جانوروں کی طرح رینگ رینگ کر بھیک مالکھتے دیکھتیں، پھر اچانکہ ایک دن آپ اس کی لاش بھی دیکھ لیتیں اور کچھ ہی دنوں کے بعد یک بیک سعید بایر آپ کے سامنے آجاتا تو "
" کیا بات ہوئی؟ میں خاک بھی نہیں کبھی !"
کچھ دنوں بعد سعید با یر اس طرح آپ کے سامنے آیا کہ اس منظمون مردہ فقیر اور سعید باید میں سرموفرق نہیں تھا "
" کیا مطلب؟"
دونوں کی شکلیں ایک تھیں "
نہیں ؟‘‘"
یہ حقیقت ہے۔ میں سینکڑوں آدمیوں کی شہادت دلوا سکتا ہوں !‘‘
’’اُہو ...تب تو میں یقینا اس کا تذکرہ سننا پسند کروں گی!‘‘
کیا آپ کی عدم موجودگی میں وہ لوگ سعید بابر کے یہاں جائیں گے!‘‘!"
’’یقیناً راحلہ فون پر اُس سے وقت لے چکی ہے ۔ وہ تو ضرور جائے گی!‘‘
کس وقت ؟‘‘
تین بجے!‘‘!"
آہا تو صرف آدھا گھنٹہ اور رہ گیا ہے۔ کیوں نہ ہم اُن سے پہلے ہی پہنچ جائیں!‘‘
’’پہلے سے وقت مقرر کئے بغیر وہ کسی سے نہیں ملتا!‘‘
اس کا باپ بھی ملے گا!‘‘
’’کیسے؟‘‘
اوه .. کیپٹن حمید آف انٹلیجنس بیوریو سے ملنے سے کون انکار کرے گا!‘‘
’’واہ.. یہ تو ٹھیک ہے مگر آپ اس سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟“ کچھ نہیں، بس ایک نظر دیکھوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی تصویر اس سے مختلیف ہو۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے مگر کیا آپ کو اس کا پتہ معلوم ہے ؟‘‘
’’پتہ ...ہاں شاید وہ کنگس لین میں اُسے کہاں تلاش کریں گے!‘‘
آپ تو سراغرساں میں!‘‘ "
چلیے !‘‘حمید ایک طویل سانس لے کر بولا ۔ " یہ بھی سہی...!‘‘ "
اُسے اطمینان تھا کہ وہ کار میں بیٹھے ہی بیٹھے اسکی قیام گاہ کا پتہ کالےگا۔ وجہ یہ تھی کہ آج کل سادہ لباس دانوں کا انچارج فریدی تھا اور اُس نے انہیں کچھ اس انداز میں پھیلا یا تھا شہر کے ہر حصے میں دو ایک سادہ لباس کارکنکس لین کے موڑ پر روک دی اور ادھر ادھر دیکھنےلگا۔ سڑک کی دوسری طرف ایک سادہ لباس والا موجود تھا۔ حمید نے اُسے اشارے سے بلایا۔ وہ بڑی تیزی سے کار کے قریب آیا۔
پتہ لگاؤ کہ سعید با ہرکہاں تھیرا ہوا ہے۔ وہ افریقہ سے آیا ہے!‘‘"
’’سولہ نمبر کی کوٹھی میں جناب۔ وہ موجودہے
بالوں والی کتیا بھی ہے!‘‘
بہت خوب! تم لوگ بہت تندی سے کام کر رہے ہو!‘‘
یس سر!‘‘"
اب تم جا سکتے ہو!‘‘
و ہ سلام کر کے چلا گیا۔
’’یہ سب کتنا سنسنی خیز ہے۔ میرے خدا...!‘‘سلیمہ نے پر مسرت لہجے میں کہا۔
’’ابھی آپ نے دیکھا ہی کیا ہے! ‘‘حمید نے کہا اور کارکنکس لین کے اندر موڑ دی۔ یہاں دونوں طرف بڑی شاندار عمارتیں تھیں۔
ان کی کا رسولہ نمبر کی کوٹھی کے سامنے رک گئی۔ حمید کار کو کپاؤ ٹھہ کے اندر نہیں لے گیا۔ وہ دونوں اتر کر پھاٹک میں داخل ہوئے اور برآمدے میں ایک صاف ستھرے ملازم نے ان کا استقبال کیا۔ حمید نے اُسے اپنا کارڈ دے کر کہا۔ "ضروری کام ہے!‘‘
صاحب تو سورہے ہیں۔ میں مس صاحب کو اطلاع کئے دیتا ہوں!‘‘
صاحب سے کام ہے.... خیر.... مسں صاحب ہی سہی!‘‘
آپ یہاں تشریف رکھئے ! ‘‘اُس نے نشست کے کمرے کی طرف اشارہ کیا اور خود اندر چلا گیا۔
وہ اس کمرے میں آئے ۔ سلیمہ چند لمحے خاموش رہی پھر بولی۔
آپ مسں صاحب سے مل کر کیا کریں گے ؟"
یہ تو اس سے ملنے کے بعد ہی سوچوں گا کہ کیا کرنا چاہیئے!‘‘ "
سیلمہ خاموش ہو گئی مگر شاید اسے اس طرح انتظار میں بیٹھنا گراں گزر رہا تھا۔ حمید بھی خاموش تھا۔ انوالہ قدموں کی آواز سنای دی پھر دوسرے ہی لمہے حمید کو ایسامحسوس ہوا جیسے سچ مچ خواب دیکھ رہا ہو۔کیونکہ دروازے میں کھڑے ہوئے آدمی اور اُس مفلوج فقیر میں اگر کوئی فرق تھا تو یہی تھا کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑا تھا اور وہ بے چارا پیروں سے معذور ہونے کی بناپر گھسٹتا پھرتا تھا۔
حمید فوراہی سنبھل گیا۔ اس نے اپنے چہرے سے استعجاب نہیں ظاہر نہیں ہونے دیا۔
سعید با بر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے آگے بڑھا۔
’’ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ تشریف لائے۔ میرے لائق کوئی خدمت !'' اُس نے بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
لوگوں سے پوچھ کچھ کرنی پڑتی ہے۔ میں صرف آپ کے پاسپورٹ پر ایک نظر ڈالوں گا اچانک حید کو قاسم کا قہقہہ سنائی دیا اور اس کی روح فنا ہوگئی ۔
دوسرے ہی لمحہ میں راحلہ، نجمہ اور قاسم کمرے میں داخل ہوئے۔
’’ہائیں تم یہاں ...؟" قاسم بھاڑ سامنہ کھول کر رہ گیا۔
ہاں ! میں یہاں ایک سرکاری کام سے آیا ہوں ! ‘‘حمید نے جواب دیا۔
اوہ محترمہ راحلہ !‘‘سعید بابرراحلہ کی طرف بڑھا۔
نجہمہ ،سلیمہ سے بولی۔ "یہ کیا حرکت تھی؟ ‘‘بہر حال کمرے میں عجیب کی افرا تفری مچی گئی۔ ہر ایک بو کھلا ہوا معلوم ہو رہا تھا ۔ شائد ایک منٹ بعد حالات اعتدال پر آئے!‘‘
حمید، راحلہ سے کہہ رہا تھا ۔ " آپ کے پاس سے میں نہیں آتا ۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ آپ بھی ہیں آئے والی میں تو میں نے کہا کہ پہلےہی اپنا کام نپٹا تا چلوں مگر محترمہ سلمہ زبردستی میرے ساتھ چلی آئیں " قاسم نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا اور پھر بند کر لیا۔
اوہو!‘‘یہ میری مزید خوش قسمتی ہے کہ آپ میرے دوستوں کے دوست ہیں! سعید با بر نے دو بارحمید سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
اس کا طلب کردہ نوکر آ گیا تھا۔ اس نے اُس سے کہا۔ "مس براؤن کو بھیج دو!‘‘"
قاسم منہ چلانے لگا پھر اس کے ہونٹوں پر ایک شریری مسکراہٹ نظر آئی اور اُس نے دوسروں کی نظر بچاکرحمید کو آنکھ ماری۔
ہم ابھی حال ہی میں آئے ہیں !"
’’ہم تین سال بعد ملے ہیں محترمہ راحلہ سعید ہاہر نے راحلہ سے کہا۔ " آپ یہاں کب سے مقیم ہیں ؟ ‘‘
بڑی اچھی ملاقات رہی....خصوصاً آپ سے اُس نے حمید کی طرف دیکھ کر کہا۔ " میں بڑی شدت سے
ایک ہمدرد آفیسر کی ضرورت محسوس کر رہا تھا اور اب تو آپ آفیسر ہی نہیں بلکہ دوست بھی ہیں۔ میرے دوستوں کے دوست یعنی میرے بھی!‘‘
میرے لائق کوئی خدمت!‘‘
اگر اس نشست کے بعد آپ مجھے تھوڑا سا وقت دے سکیں ....تو شکر گزار ہوں گا۔ بات کوئی ایسی پوشیدہ بھی نہیں مگر دوسروں کے بور ہونے کا خیال ہے!"
’’نہیں ، آپ ہرقسم کی گفتگو چھٹڑ سکتے ہیں ! راحلہ نے کہا۔ " بور ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا “ اتنے میں نو کر نے آکر اطلاع دی کہ مس براؤن موجود نہیں ہے۔
اوہو! وہ تو میں بھول ہی گیا تھا !‘‘سعید نے کہا۔ " ٹھیک ہے۔ وہ اندر نہ ہوگی !"
پھر اُس نے ان لوگوں کو مخاطب کر کے کہا۔ " آپ سب اپنے ہی ہیں۔ میں یہاں آکر ایک بہت بڑی الجھن میں گرفتار ہو گیا ہوں
سب لوگ حاموشی سے اُس کے دوسرے جملے کے منتظر رہے۔
’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں یہ داستان کہاں سے شروع کروں !" اس نے حمید کی طرف دیکھ کر کہا۔
ویسے میں آپ سب سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہاں میری شکل و شباہت کا کوئی فقیر بھی آپ کی نظروں سے گزرا ہے!‘‘"
ارے ہی ہی ہی !‘‘قاسم ہنسا ۔ ’’یہ آپ کیا فرمارہے ہیں؟"
سلیمہ نے حمید کی طرف دیکھا اور حمید نے اپنی بائیں آنکھ دبادی۔
’’ آپ نے نہیں دیکھا !" سعید نے مایوسی سے کہا۔ خیر ...لیکن ایسا سننے میں آرہا ہے اور میں بہت پریشان ہوں!‘‘ !"
کیا سنے میں آرہا ہے!" حمید نے پوچھا۔
’’ایسے ہی ایک فقیر کے متعلق۔ خیر مشابہت ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے اور محض مشابہت کی بنا پر میں پریشان نہیں ہو سکتا ... مگر!‘‘
حمید کو الجھن ہونے لگی۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہ جائے مگر وہ رُک رُک کر بول رہا تھا۔ سب لوگ بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ صرف قاسم ایسا تھا جو بار بار پہلو بدلتا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بری طرح اُکتا گیا ہو۔
’’خیر، میں یہ بات وہیں سے شروع کرتا ہوں جہاں سے شروع ہوئی تھی ۔ میرا ایک سوتیلا چھوٹا بھائی تھا۔ یہ یا چورہ سال کی عمرمیں وہ نیروبی سےنکل بھاگا۔ بچپن ہی سے اس کی حالت عجیب تھی۔ دورات رات جو گھر سے قائب رہتا لیکن والد مرحوم اس سے ئی کا برتاؤ کبھی نہ کرتے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اسے ان کے بے جالا ڈی سے ) تھا۔ اس کی ماں یعنی میری سوتیلی والدہ اس کے بچپن ہی میں مرگئی تھیں۔ محترمہ راحلہ آپ کو توان حالات کا علم ہوم نہیں، میں نہیں جانتی!‘‘ "
’’خیر، آپ نہ جانتی ہوں گی۔ بہت پرانی بات ہوئی۔ شاید نیروبی والوں کو بھی یاد نہ ہو اور پھر یہ کوئی ایسی اہم بات بھی نہیں تھی ۔ بہر حال ایک رات وہ ہم لوگوں کے لئے ہمیشہ کے لئے غائب ہو گیا ۔" قاسم نے بھاڑ سامنہ پھیلا کر آواز کے ساتھ جماہی لی اور منہ چلاتا ہوا ایک ایک کی صورت دیکھنے لگا۔ پھراس جھپکا ئیں جیسے سوتے سوتے اٹھا ہو!‘‘
طرح پلکیں پھر اچانک مجھے اس کا ایک خط ملا جو یہیں سے پوسٹ کیا گیا تھا۔ یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے۔ اس لے اپنی خستہ حالی کی داستان لکھی تھی۔ میں نے اسے لکھا کہ وہ نیروبی واپس آجائے لیکن اس نے وہاں آنے سے انکار کر دیا۔ اس نے مجھے لکھا کہ وہ زیادہ کا مطالبہ نہیں کرتا اُسے صرف اتنا ہی دیتا رہوں جس سے وہ با فراغت بر اوقات کر سکے۔ میں اسے تین ہزار روپے ماہوار لائڈ بینک کی معرفت بھیجنے لگا۔ اس سے مخلط و کتابت بھی برابر رہتی تھی۔ ابھی پیچھلے ماہ بھی اُس نے لائڈ بینک سے تین ہزار روپے وصول کئے ہیں ۔ اتفاقاً میرا یہاں آنے کا پروگرام بن گیا۔ میں نے اُسے بھی اپنے ارادے سے آگاہ کر دیا تھا۔ اب جو میں اُس کی قیام گاہ پر جاتا ہوں تو مجھے معلوم ہونا ہے کہ وہاں اس نام کا کوئی آدمی بھی تھا ہی نہیں۔ اس عمارت میں ایک بیوہ مسز خان تقریباً پچیس سال سے رہتی ہے۔ میں نے پڑوسیوں سے بھی اُس کی تصدیق کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ رشید بابر نامی کسی آدمی کو نہیں جانتے!‘‘ !
" ’’کیا آپ کے بھائی آپ کے ہم شکل تھے ؟ " حمید نے پوچھا۔
’’جی ہاں ۔ ہم میں بہت زیادہ مشابہت تھی خیر اب اپنے ہم شکل ایک فقیر کی کہانی سن رہا ہوں ۔ میں
بڑی یالجھن میں ہوں کپتان صاحب۔ اگر رشید وہ رقم وصول کرتا رہا تو اسے بھیک مانگنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اگر سے رقومات نہیں میں تو پھر انہیں کون وصول کرتا رہا۔ اگر وہ فقیر میرا ہم شکل تھا تو وہ رشید کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا " وہ یقینا آپ کا ہم شکل تھا ! حمید نے ایک طویل سانس لی۔ کیا آپ نے اسے دیکھا تھا ؟‘ سعید نے بے ساختہ پو چھا۔ جی ہاں ۔ میں عرصہ تک آپ کے ہم شکل ایک فقیر کو دیکھتا رہا ہوں ! اب مجھے یقین آگیا سعید نے آہستہ سے ٹمگین آواز میں کہا اور بے جان سا ہو کر صوفے کی پشت پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کی پھٹی پھٹی سی آنکھوں میں ویرانی تھی۔ پھر اس نے تھوڑی دیر بعد کہا ۔ " میرے خدا۔ یہ کیا اندھیر ہے !‘‘
وہ بھیک مانگتا پھر رہا ہے اور کسی نے پچھلے ماہ بھی اس کے نام سے تین ہزار روپے وصول کئے ہیں ۔ میں نے لائڈ بیک میں اچھی طرح تحقیق کی ہے۔ اس کا حساب بھی وہاں چلتا تھا۔ آخری رقم جو اس نے وہاں سے نکالی ہے وہ پچاس ہزارتھی اور تین ہزار تو ہر ماہ وصول ہی کرتا رہتا تھا!‘‘
وہ رقم کس تاریخ کو نکالی گئی تھی ؟ " حمید نے پوچھا۔
میرے یہاں پہنچنے سے تین دن پہلے یعنی ...سات جنوری کو!‘‘ "
’’سات جنوری؟" حمید بے ساختہ چونک پڑا۔
’’جی ہاں ۔ اسی تاریخ کو اُس نے پچاس ہزار روپے بینک سے نکالے تھے اور یہ آخری بڑی رقم تھی۔ اب اس کے اکا ؤنٹ میں صرف سات روپے پڑے ہوئے ہیں !"
’’سات روپے۔ سات جنوری !‘‘حمید بڑ بڑا یا ۔ اور یہی سات جنوری اُس کی موت کی بھی تاریخ ہے!" "موت" سعید با پر اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ یہ کیا کہ رہے ہیں ؟" کسی نہ کسی سے تو آپ کو اس کی اطلاع ملنی ہی تھی 1 حمید نے آہستہ سے کہا ۔ جی ہاں ۔ سات جنوری کو
اُس کی لاش صدر کے ایک فٹ پاتھ پر دیکھی گئی تھی!‘‘
وہ دھم سے صوفے میں گر گیا اور مینوں لڑکیاں اُس کے گرد اکٹھا ہوگئیں ۔ وہ بے ہوش نہیں ہوا تھا لیکن ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اُسے سکتہ ہو گیا ہو ۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں لیکن پلکیں یا پتلیاں متحرک نہیں تھیں ۔ اچانک ایک فائر ہوا اور گولی راحلہ کے سر پر سے گزرتی ہوئی سامنے کی دیوار سے لگی ۔ کھڑکی کے شیشے میں ایک نا ہموار سا سوراخ تھا ۔ راحلہ تو دھڑام سے فرش پر آرہی اور دوسرے لوگ بدحواسی میں ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ میدا مھل کر برآمدے میں آرہا۔ اس نے اُس کھڑکی کی طرف دیکھا جس سے گزر کر گولی اندر پنچی تھی اور پھر اس کی سیدھ میں دوڑنے لگا لیکن اُس کے سامنے والی منہدی کی باڑھ کے پیچھے اُسے کوئی بھی نہیں دکھائی دیا۔ سعید کے تینوں نوکر شاید فائر کی آواز سن کر ہی باہر آئے تھے۔
فائراور لڑکی
حمید نے کمپاؤنڈ کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن اسے ایک بھی ایسا آدمی نہیں مل سکا جسے وہ فائر کرنے کے التزام میں جکڑ لیا۔ پھر اس نے عمارت کے اندر بھی چھان بین شروعکی لیکن نتیجہ کچھ نہ کلا۔ سید بابر بہت زیادہ پریشان نظر آرہا تھا۔
ہو سکتا ہے کہ یہ فائر میرے ہی لئے رہا ہوا!‘‘ اس نے کہا۔
" آپ کے لئے کیوں ؟‘‘
’’جو میرے بھائی کی موت کا باعث بنا ہے، وہ میری زندگی کا خواہاں بھی ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نے رشید کے نام پر ایک لاکھ اسی ہزار روپے وصول کئے ۔ اب جبکہ میں یہاں آگیا ہوں ، لازمی بات ہے کہ ان واقعات کی رپورٹ پولیس کو دوں گا۔ لہذا قیل اس کے کہ میں اس کے خلاف کوئی کارروائی کروں وہ مجھے بھی ختم کردیا چاہتا ہے "
نا ئیں .... نا ئیں !" قاسم، حمید کی طرف ہاتھ اٹھا کر دہاڑا ۔ ’’یہ بڑا منحوس آدمی ہے۔ جہاں اس کے قدم جاتے ہیں ٹھائی ٹھائی شروع ہو جاتی ہے !‘‘
’’نہیں جناب ،یہ میری خوش قسمتی ہے کہ کپتان صاحب یہاں اس وقت تشریف رکھتے تھے ورنہ غیر ملکیوں کی شکایات پر کون کان دھرتا ہے خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا !‘‘
بڑی خوش قسمتی! " قاسم نےبُر ا سا منہ بنا کر بولا ۔’’ ذرا بلاؤ... وہ کون ہے؟ مس بلیک ۔ اسے بلاؤ پھر دیکھوں خوش قسمتی!‘‘
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ؟ " سعید بابر نے کہا۔
" ’’قاسم بھائی... کیا بکواس لگا رکھی ہے آپ نے " راحلہ نے اُسے ڈانٹا اور قاسم کے اسا منہ بنائے ہوئے سعید ہا بر حیرت سے ایک ایک کی صورت دیکھ رہا تھا۔ راحلہ نے اپنی داہنی کپٹی کے قریب اُنگلی لے جا کر اسے چکر دیا۔ مطلب یہ تھا کہ قاسم کا اسکروڈ ھیلا ہے۔
اوہ ...چھا سعید باہر پھر حمید سے مخاطب ہو گیا۔ ہاں تو جناب اب میری زندگی بھی خطرے میں پڑگئی ہے لیکن میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک کہ اس مردود کا پتہ نہ لگ جائے جس کی بدولت میرا بھائی ایڑیاں رگڑ کر مر گیا!‘‘
قدرتی بات ہے ! ‘‘حمید سر ہلا کر رہ گیا۔
اچانک ایک نو کر دوڑتا ہوا کمرے میں آیا۔ اس کی سانسیں چڑھی ہوئی تھیں اور چہرہ سرخ تھا ...
’’مس صاحب...!‘‘ وہ ہانپتا ہوا بولا ۔" گودام میں بورے میں!‘‘
" کیا بات ہے؟" سعید با بر اسے گھورنے لگا۔
مس صاحبہ گودام میں بے ہوش...!‘‘ "
’’ارے ...! وہ دروازے کی طرف جھپٹتا ہوا بولا ۔’’ کپتان صاحب !"
" آپ لوگ یہیں ٹھرے میں ! ‘‘حمید نے دوسروں سے کہا اور خود اس کے پیچھے چلا گیا۔ ابھی دروازے سے باہر بھی نہیں نکلا تھا کہ قاسم بڑبڑایا ۔ " کھالینا...مس ساب کو ...ہاں!‘‘
راحلہ اس پر برس پڑی...
سعید د با بر بڑی تیزی سے راہداریاں طے کر رہا تھا۔ پھر وہ ایک کمرے کے سامنے رکے جس کا دروازہ کھلا ہوا نا سید نے محسوس کیا کہ سعید با بر اندر جاتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔ وہ شاید اُس نوکر کا منتظر تھا جس نے اسے اطلاع دی تھی۔
’’کہاں مرگئے تھے؟ ‘‘وہ اچانک نوکر پر برس پڑا ولنگڑاتا ہوا اس طرف آرہا تھا۔ شاید اس بھاگ دوڑ میں اس کے پیر میں چوٹ آگئی تھی۔
کہاں ہے۔ کیا بک رہے تھے تم ؟‘‘
اندر جناب ! وہ اُدھر ا‘‘"
’’چلو!‘‘سعید بابر نے اُسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ نوکر کے پیچھے ہی پیچھے وہ دونوں بھی اندر داخل ہوئے ۔ حمید کو سامنے ہی دو ٹانگیں نظر آئیں جن پر کشمشی رحمگ کے اسٹاکنگ تھے اور ٹاپ ہیل جوتے ۔ آدھا دھڑ ایک بورے میں تھا ۔ سعید بابر کے ہاتھ اور پیر بری طرح کا چنے لگے تھے ۔ آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں اور وہ کسی اعصاب زردہ آدمیوں کی طرح مخبوط الحواس نظر آ رہا تھا۔
یہ کپتان صاحب میری سکریٹری مس براؤ
"تو پھر نکالئے نا۔ پتہ نہیں یہ لاش ہے۔ یا "
لاش ؟" سعید بابر کے حلق سے شیخ سی نکلی اور وہ لڑکھڑاتا ہوا دیوار سے جالگا۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں " حمید جنجلا گیا اور خود ہی اُسے بورے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد ایک بڑی خوبصورت انگریز لڑکی فرش پر چت پڑی ہوئی تھی ۔ وہ مردہ نہیں تھی، صرف بے ہوش تھی گرا سعید با بر خوفزدہ نہیں تھا۔ البتہ اُس کے چہرے پر حیرت کے آثار ضرور تھے اور اُس کا ملازم بھی متحیری نظرآرہا تھا ۔
آرہا تھا۔
کیا یہ یہیں پڑی رہے گی ؟‘ حمید نے کہا۔
’’ جی !‘‘سعید بے ساختہ چونک پڑا۔ ’’جی ہاں... جی نہیں !‘‘
’’ مسٹر سعید !‘‘حمید بولا " مجھے بڑی حیرت ہے۔ اُس فائر نے آپ کو اتنا زیادہ پریشان نہیں کیا تھا!‘‘
’’ٹھیک ہے !‘‘ سعید بڑبڑایا۔’’ یہ واقعہ اس فائر سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے! ‘‘
’’نہیں، میرے خیال سے یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ممکن ہے اس نے فائر کرنے والے کو دیکھ لیا محہ یعنی فائر کرنے سے قبل ا اور وہ اپنی اسکیم کو نا کام ہوتے دیکھ کر یہ حرکت کر بیٹھا ہوا!‘‘
مگر... میں نہیں جانتا یہ کون ہے؟"
کیا مطلب؟‘ ‘حمید چونک کر اُسے گھورتا ہوا بولا۔ " کیا یہ مس براؤن نہیں ہے؟‘‘
ہیں یہ مس براؤن نہیں ہے سعید نے پر سکون لہجے میں جواب دیا۔
حمید نے نوکر کی طرف دیکھا اور نو کر بھی سر ہلا کر بولا ۔ " یہ اپنی مس ساب نہیں ہیں "
آپ اسے پہچانتے بھی نہیں ؟‘‘
’’نہیں جناب۔ مجھے حیرت ہے ، آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"
مس براؤن کہاں ہے ؟‘‘
مگر آپ کے ملازم نے تو کہا تھا کہ صاحب سورہے ہیں۔ میں مسں صاحب کو خبر کرتا ہوں!‘‘ "
میری جگہ اگر آپ بھی ہوتے تو یہی کرتے!‘‘ "
یعنی..؟‘‘ "
آپ خود سوچئے کپتان صاحب ! ایسے آدمی کی حالت کیا ہوگی جس کا کوئی ہم شکل فقیر بھی موجود ہو ۔ تصویر شائع ہوتے ہی پریس رپورٹروں کا تار بندھ گیا۔ سینکڑوں آدمی مجھے دیکھنے کے لئے آئے ۔ میرے خدا میں دہلی نہ کرتا تو اور کیا کرتا۔ یسلی براؤن لوگوں سے گفتگو کرتے کرتے تنگ آگئی اور اسے بھی مل جانا پڑا۔ ملازم کو شاید علم نہیں تھا کہ وہ باہر چلی گئی ہے
’’اوہ ...اچھا اگر یہ واقعی بڑی حیرت انگیز بات ہے۔ گولی باہر سے چلائی گئی تھی ۔ اگر اس لڑکی نے حملہ آور کو دیکھ لیا تھا تو حملہ آور نے اسے بے ہوش کر کے یہاں اندر لانے کا خطرہ کیوں مول لیا۔ وہ اسے کمپاؤ نہ ہی میں کہیں بے ہوش کر کے ڈال سکتا تھا!‘‘ "
میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کپتان صاحب ۔ آخر اسے یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ۔ میں یقینا کسی بڑی سازش کا شکار ہو گیا ہوں!‘‘
چندلحہ خاموش رہ کر پھر حمید نے کہا۔ کیا یہ یہیں پڑی رہے گی ؟‘‘"
جو کچھ آپ فرما ئیں کیا جائے سعید نے جواب دیا۔
اسے کسی ہوادار کمرے میں لے چلنا چاہئے!‘‘ "
نہیں ! سعید بولا ۔ بیرونی بر آمدے میں نہ جانے یہ ہوش میں آکر کون سا فتنہ کھڑا کرے۔ نہیں کپتان
مجھے بہت محتاط رہنا چاہئے !"
ہوں !‘‘ حمید نے سر ہلا دیا۔ ویسے وہ سوچ رہا تھا کہ ا سے اس کو اٹھانے میں پہل نہ کرنی چاہئے ۔ سعید بابر حمید کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اسے اٹھائیے !" حمید نے کہا۔ میں کیوں اٹھاؤں ! سعید با پر جھنجلائے ہوئے سے لہجے میں بولا۔
حمید نے نوکر کی طرف دیکھا۔ وہ بھی کانپتا ہوا پیچھے ہٹ گیا۔ پھر حمید نے بے ہوش لڑکی کو اٹھا لیا اور بیرونی انے کی طرف جانے والی طے کرنے لگا۔ سعید با یر اس کے پیچھے چل رہا تھا۔ ہیم کی نظر اس جلوس پر پہلے پڑی اور وہ بے ساختہ چنگھاڑا۔ دینا میں نہ کہتا تھا۔ ہاہا چلو۔ ایک صوفہ اٹھالا ؤ اندر سے حمید نے اُسے آواز دی۔
ٓاچھا... آچھا ...!"
قاسم نے ڈرائنگ روم کا ایک صوفہ اس طرح اٹھالیا جیسے وہ کئی کھلونا ہو۔ صوفہ برآمدے میں ڈال دیا گیا اور وں کی اس پرڈال دی گئی۔ قاسم منہ کھلے کیں جھکا رہا تھا کبھی وحی کی طرف دیکھا اور بھی بے ہوش لڑکی ڈال دی گئی ۔
طرف۔ تینوں لڑکیاں بھی وہیں پہنچ گئی تھیں۔
تقریباً پندرایا بسیں منٹ تک وہ مختلف تدبیریں عمل میں لاتے رہے لیکن اسے ہوش نہیں آیا لیکن اس دوران جود ہو۔ تھری کمانی توسعیدی نے کسی ڈاکٹر کو بلانے کی تجویز پیش کی اور نہ تمید ہی نے اس کے متعلق سوچا۔ ہارے آدھ گھنٹے کے بعد لڑکی کسمسائی ۔ پونوں میں متواتر جنبش ہونے لگیں اور پھر اس نے کروٹ لینے کی کشش کی سلیمہ اگر جلدی سے آگے بڑھ کر ہاتھ نہ لگا دیتی تو وہ صوفے کے نیچے چلی آئی ہوتی ۔ سلیمہ کا ہاتھ لگتے ہی اچھل کر بیٹھ گئی۔ چند لمحے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھتی رہی پھر ہذیانی انداز میں چینخی۔
میں یہاں نہیں رہوں گی ....میں اس ملک میں نہیں رہوں گی!‘‘ "
’’وہ سب خاموش رہے۔
مسٹر بابر میں آپ سے کہ رہی ہوں ! ‘‘وہ پھر اُسی انداز میں چینخی ۔ " میں واپس جاؤں گی!‘‘
آپ مجھے کیا جانیں ...آپ کون ہیں؟ ‘‘بابر نے پوچھا۔‘‘
کیا ؟‘‘ایک لڑکی اُچھل کر کھڑی ہو گئی۔
’’آپ کون ہیں؟ یہاں کیسے آئیں؟ ‘‘بابر نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
’’میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں ‘‘لڑکی نے بڑا سا منہ بنا کر شیخ لہجے میں کہا۔ "میرا سر چکرا رہا ہے۔ وہ کہت میرا گلا گھونٹ رہا تھا۔ یہ مکان بھوتوں کا مسکن ہے۔ میں اب یہاں نہیں رہوں گی ! تم مجھے تو نہیں بنا سکتیں ! وقتہ سعید باہر گر جا۔ " یہاں ایک سرکاری آفیسر بھی موجود ہیں ، مجھیں " مسٹر بہا ہر لڑکی نے متحیر ا نہ آواز میں کہا۔
’’تم کون ہو۔ کیا چاہتی ہو؟ " سعید بابر نے سخت لہجے میں کہا۔
’’ میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں ! لڑکی ہاتھ ہلا کر رو دینے کے سے انداز میں نہی۔ ہاں " قاسم بڑے خلوص سے یہ بڑایا۔ آپ خواہ خواہ مذاق کر رہے ہیں ۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے!"
’’میں پوچھتا ہوں تم کون ہو؟‘‘ سید بابر جھلا گیا۔ ’’سیدھی طرح بنا ؤ ورنہ میں پولیس کو رنگ کروں گا ‘‘
’’مسٹر بابر کیا آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے !‘‘لڑکی بھی چیخ پڑی ۔ " آپ مجھے نہیں پہچانتے ۔ لِسلیِی براؤن کو نہیں پہچانتے !‘‘
لسلیِ ِبراؤن !‘‘بابر حلق پھاڑ کر چینخا ۔
تم مجھے اند ھا بنارہی ہو۔ پاگل بنا رہی ہو۔ تم لسلی براؤن ہو؟ دن دہاڑے میری آنکھ میں دھول جھوکوگی !‘‘
’’میں پاگل ہو جاؤں گی۔ تم مجھے جھٹلا ر ہے ہوا لڑکی اپنے بال نوچنے لگی اور حمید بوکھلا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کے جھوٹا سمجھے اور کسے سچا ؟
اَمیں ...یہ تمہارے قدم کی برکت ہے ...ہاں " قاسم نے ہنس کر حمید سے کہا۔
حمید اس کی طرف دھیان دیئے بغیر بولا ۔ " آپ سب براہ کرم خاموش رہ ہیں ! پھر اس نے لڑکی سے پوچھا۔ " تم نسلی براؤن ہو ؟" میں نہیں جانتی لڑ کی فرائی ۔ یہ اچھا مذاق ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں سلی براؤن ہوں ۔ مسٹر باہر، اگر آپ کو مجھے اس طرح ذلیل کرنا تھا تو یہاں لائے کیوں تھے ؟
مسٹر بابرتمہیں لسلی براؤن تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ! ‘‘حمید نے کہا۔
’’ تب تو پھر وہ نشے میں ہیں یا ان کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ آپ اُن نو کروں سے پوچھئے !" مگر نوکروں نے بھی اُسے نسلی براؤن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
’’اب تم کیا کہوگی ؟‘‘ حمید بولا ۔ ’’یہ بھی تمہیں پہچاننے سے انکار کرتے ہیں؟"
اسے حراست میں لیجئے۔ مگر نسلی براؤن وہ یقینا خطرے میں ہوگی۔ یہ لڑکی نکل کر جانے نہ پائے ورنہ لسلی براؤن کی موت کے ذمہ دار آپ ہوں گے!" آپ نتائج اخذ کرنے میں جلدی کر رہے ہیں ! حمید نے خشک لہجے میں کہا۔ پھر لڑ کی سے بولا ۔ " تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم لسلی براؤن ہو ؟ ثبوت ۔ خدا کی پناہ۔ ارے ثبوت میں میرے کاغذات موجود ہیں۔ میرا پاسپورٹ جس پر میری تصویر نسلی براؤن فصیلی آنکھوں سے ایک ایک کو دیکھتی رہی ۔ پھر اس نے سعید بابر سے کہا۔ مسٹر بابر، میں کیا کھوں۔ کیا آپ یہاں ایک اجنبی ملک میں مجھے ملازمت سے بر طرف کرنا چاہتے ہیں " کپتان صاحب ا میں بچ بچ پاگل ہو جاؤں گا سعید بابر نے حمید سے کہا۔ یہ کوئی بہت بڑی سازش ہے۔
میں پاسپورٹ دیکھنا چاہتا ہوں!“
’’میں ابھی لاتی ہوں!‘‘ وہ اٹھ کر عمارت کے اندر جانے لگی۔
’’ ہائیں ...ہائیں!‘‘ سعید با بر تیرانہ انداز میں چینا۔ اندر کہاں خیر دارا لڑکی نے دروازے پر رک کر اسے فصیلی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ " کیا آپ میرا سامان بھی ہضم کرلیں ہے۔ میں اپنے کمرے میں جارہی ہوں ۔ اپنے صندوق سے پاسپورٹ نکالوں گی " کیا میں خواب دیکھ رہا ہوں ! سعید بابر نے اپنے بازو میں زور سے چنکی لی اور اسی کر کے رہ گیا۔۔ میں اور مسٹر بابر تمہارے ساتھ چلیں کے ٹھہر وا" حمید نے کہا اور سعید کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا۔ چلو ٹھر چلیں !" قاسم نے لڑکیوں سے کہا۔ وہ کچھ یو کھلایا ہوا سا نظر آنے لگا تھا۔ انگریز لڑکی بڑی تیزی سے چلتی رہی۔ ایک کمرے کے دروازے پر رک کر اس نے کچی نالی، اسے ہینڈل کے سوراخ میں ڈال کر دروازہ کھولا اور کمرے میں چلی گئی۔ یہ غلط ہے۔ یہ ناممکن ہے پیسلی کی چیزوں میں ہاتھ نہیں لگا سکتی ! سعید بابر نے کہا اور حمید کی طرف جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔
لڑکی پاسپورٹ لئے ہوئے کمرے سے نکل آئی۔ اُس کے چہرے پر شدید غصے کے آثار تھے ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے روڈ راسی ٹھیس پر پھٹ پڑے گی۔
’’یہ لییجے ۔ یہ ہے پاسپورٹ مگر مجھے یقین ہے کہ میں پاگل ہو جاؤں گی !"
حمید پاسپورٹ لے کر دیکھنے لگا۔ تصویر اسی لڑکی کی تھی۔ نام یوسی براؤن ، سکونت نیروبی، پیشہ ملازمت اور پتہ سعید بابر ہی کا تھا۔ حمید نے پاسپورٹ سعید بابر کی طرف بڑھا دیا۔
’’یہ فراڈ ہے !‘‘ کھلا ہوا فراڈ میں دلدل میں پھنس رہا ہوں! "
’’تم فراڈ ہو!‘‘لڑکی برسانی انداز میں چینچی اور حمید کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں گھسیٹ لے گئی۔ یہ دیکھئے یہ
ساری چیزیں میری ہیں ۔ یہ جوتے میرے پیروں میں فٹ ہوتے ہیں۔ یہ ملبوسات میرے جسم پر فٹ ہوتے ہیں!" سعید بابر بھی کمرے میں گھس آیا تھا۔ لڑکی مختلف جوتے اور سینڈل پہن پہن کر حمید کو دکھانے لگی۔ اور ان صندوقوں کی کنجیاں میرے پاس ہیں اُس نے کہا۔ اور سعید بابرکو گھونسہ دکھا کر چنگھاڑی۔ یہ کمینہ پن ہے۔ تم مجھے اس اجنبی دیس میں ملازمت سے برطرف نہیں کر سکتے۔ اگر یہاں کا قانون میرا ساتھ نہیں دے گا تو میں تمہیں گولی ماردوں گی!‘‘
" ’’آپ سن رہے ہیں !‘‘ سعید بابر نے حمید سے کہا۔
’’ ہاں ، میں سن رہا ہوں۔ مسٹر سعید با بر!لیکن فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اس کے کاغذات پولیس کو مطمئن کر دینے کے لئے کافی ہوں گے ۔ آپ یا آپ کے تین نوکروں کے بیانات ان کا غذات کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے یا پھر آپ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیجئے کہ یہ نسلی براؤن نہیں ہے میں ڈوب گیا۔ سعید باہر آہستہ سے بڑ بڑا یا بالکل اسی انداز میں پیسے خود سے مخاطب ہو۔ پھر اس نے سعید سے کہا۔ " کیا آپ کی موجودگی میں مجھ پر فائر نہیں کیا گیا تھا؟" آپ یقین کے ساتھ نہیں کہ سکتے کہ وہ فائر آپ ہی کے لئے تھا۔ ہو سکتا ہے نشانہ اور کوئی رہا ہو۔ آپ کے علاوہ کمرے میں پانچ افراد اور بھی تھے!‘‘
ان حالات میں جبکہ میرا بھائی " اس کے لئے بھی آپ کے پاس کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔ محض مشابہت کی بنا پر وہ فقیر آپ کا بھائی نہیں ہو سکتا۔ اپنے بھائی کی تلاش جاری رکھئے ۔ ہو سکتا ہے وہ کسی بنا پر آپ کے سامنے نہ آنا چاہتا ہوا " آپ تو میرا بیڈ ابھی فرق کئے دے رہے ہیں " سعید بابر نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ فی الحال آپ اس لڑکی کا معاملہ طے کیجئے!‘‘ "
معاملہ کیا طے کرتا ہے۔ مجھے پاگل کتے نے نہیں کاتا ہے کہ اسے اپنے ساتھ رہنے دوں۔ یہ حوالات میں رہے گی ۔ اس وقت تک جب تک کہ میری سکریٹری لسلی براؤن کا پتہ نہ بتادے۔ اس کے پاس اُس کے صندوقوں کی کنجیاں تک موجود ہیں!‘‘
’’ اچھی بات ہے حمید نے لا پروائی سے اپنے شانوں کو جنبش دی ۔’’آپ براہ راست پولیس سے رابطہ قائم کیجئے!‘‘
’’ لیکن آپ میری مدد نہیں کریں گے!‘‘ سعید بابر نے نا خوشگوار لہجے میں کہا۔ ’’حالانکہ آپ میرے دوستوں کے دوست ہیں!‘‘
’’اور ایک ذمہ دار آفیسر بھی! " حمید نے خشک لہجے میں کہا اور واپسی کے لئے مڑ گیا۔ ڈرائنگ روم میں صرف راحلہ موجود تھی ۔ قاسم وغیرہ جاچکے تھے۔ حمید سوچنے لگا کہ کم از کم سلیمہ کو تو اس کا انتظار کرنا ہی چاہئے تھا۔
بکواس بند کرو۔ میرے کان نہ کھاؤ! فریدی نے ہاتھ جھٹک کر کہا۔ حمید کو بڑی حیرت ہوئی۔ سعید بابر والا واقعہ ایسا ہی تھا کہ معمول کے مطابق فریدی کو اس میں کافی دلچسپی لینی چاہئے تھی ۔ پر حمید کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ فریدی بولا ۔ فی الحال صرف اتنی ہی بات میں قانون دلچسپی لے سکتا ہے کہ سعید باہر کے ڈرائنگ روم میں کسی نے فائر کیا تھا۔ وہ بھی اسی صورت میں جب سعید با پر اس کی اطلاع پولیس کو دے!"
بس اتنی سی بات !"حمید نے مایوسی سے کہا۔ مگر وہ اُس لڑکی کا معاملہ!‘‘
’’وہ بھی کچھ اس ہے۔ سعید بابر کو چاہئے کہ کیس کو اپنے سفارت خانے میں پیش کرے۔ ہم سے پر اور است کا تعلق نہیں ہے۔ ایسے اگر تمہیں لڑکی کے معاملے کی تعیش تفریحا کرنی ہو تو قارن برانچ میں جا کر اس کے کوائری فارم کو الو ۔ اس پر سیفی براؤن کی تصویر موجود ہو گی " عید اٹھ کر دفتر کے اس کمرے میں آیا جہاں باہر سے آنے والوں کے کاغذات کا ریکارڈ رہتا تھا۔ اس نے نے ٹرک سے پچھلے ایک ماہ کے کا عقدات نکالنے کو کہا۔ اُسے اُن لوگوں کی آمد کی تیخ تاریخ کا علم نہیں تھا۔ کلرک نے ہار فارم اُٹھے تھے کہ عید کی نظر اسی لڑکی کی تصویر پر پڑی جو سعید بابر کے یہاں بے ہوشی ملی تھی ۔ اس نے فارم ایک ایک کالم د کچھ ڈالا اور پھر اسے تسلیم کر لینا پڑا کہ لسی براؤن اُس لڑکی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ عید پھر فریدی کے کمرے میں واپس آیا۔ فریدی غور سے اس کی بات ستار ہا پھر بولا۔ ہیں تو یہ سعید با پر کوئی فرار کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی وجہ سے وہ اُس لڑکی سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا ہو۔ کردہ بڑا احمق معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کا غذات کی موجودگی میں اس کی بات کون سنے گا نہیں جناب اور اتنا احمق نہیں ہو سکتا کہ اس قسم کی کوئی حرکت کرے۔ وہ کافی چلاک آدمی معلوم ہوتا ہے!‘‘
کہ وہ خود ہی کسی سازش کا شکار ہو گیا ہو گر کسی شکایت کے بغیر ہم کوئی کارروائی کیسے کر سکتے ہیں " اچانک ریسیپشن روم کے اردلی نے کمرے میں داخل ہو کر کسی کا دور بیٹنگ کارڈ حمید کو دیا۔ اوہو! سعید با برا حمید بڑبڑایا۔ پھر اردلی سے پوچھا۔ "
"اچھا کہہ دو میں آرہا ہوں! ’’
اردلی چلا گیا ۔ حمید نے فریدی کی طرف دیکھ کر کہا۔’’ پتہ نہیں اب وہ کیا سنانے آیا ہے!"
تم چلو میں بھی آرہا ہوں ۔ اُس آدمی کو کم از کم دیکھ ہی لوں لیکن تم اس سے میرا تعارف نہیں کراؤ گے!‘‘
’’یعنی میں آپ سے گفتگو بھی نہیں کروں گا ؟"
’’ نہیں !قطعی نہیں! "
حمید اٹھ گیا۔ ریسپشن روم میں سعید بابر اس کا منتظر تھا۔ حمید نے اُس کے چہرے پر ولی کیفیات پڑھ لیں ۔ وہ بہت زیادہ پریشان معلوم ہوتا تھا۔
کپتان صاحب ! آپ نما ہو کر چلے آئے تھے حالانکہ میں مظلوم اور آپ کی اعداد کا متفق ہوں ۔ کیا آپ کروا سکتے ہیں کہ میں کسی وجہ سے اس لڑکی کو نسلی براؤن تسلیم نہیں کرنا چاہتا۔ کیا میں اتنا احمق ہوں کہ کا غذات کو ا کر خواہ خواہ اپنی گردن پھنسانے کی کوشش کروں گا !" ہیں تو میں بھی نہیں سمجھ سکتا!‘‘
’’اب میں آپ کوسلی براؤن کا پاسپورٹ دکھلانے لایا ہوں۔ اس وقت میں بہت زیادہ الجھن میں تھا اور ہے بھول گیا تھا کہ نسلی براؤن کا پاسپورٹ میرے ہی پاس موجود ہے " اس نے جیب سے ایک پاسپورٹ نکال کر حمید کی طرف بڑھا دیا۔ اس پاسپورٹ کی تصویر اس لڑکی سے تلقف جی ہاں ہم دونوں ساتھ آئے تھے۔ انکوائری فارم تو ہو گا آپ کے یہاں ۔ آپ اپنا اطمینان کر لیجے " حمید کچھ کہنے ہی والا تھا کہ فریدی نے اُسے آنکھ ماری - حمید سمجھ گیا کہ وہ اسے دوسرے انکوائری فارم کا تذکرہ کرنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اچھا جناب حمید نے ایک طویل سانس لے کر کہا۔ " آپ یہ پاسپورٹ میرے پاس چھوڑ دیجئے۔
مگر میں لسلی کے لئے کیا کروں وہ صرف دو گھنٹے کے لئے باہر گئی تھی لیکن چار گھنٹے گزر چکے ہیں کپتان صاحب ا پتہ نہیں وہ کس حال میں اور کہاں ہوگی۔ اس کے لئے کچھ کیجئے۔ آپ میرے دوستوں کے دوست ہیں۔
’’آپ پر میرا حق ہے!‘‘
وہ کہاں گئی تھی ؟‘‘
’’اُس نے کسی جگہ کا نام نہیں لیا تھا ۔ بس وہ پریس رپورٹروں کے ہجوم سے گھبرا کر چلی گئی تھی ۔ میں دیکھوں گا کہ اس کے لئے کیا کر سکتا ہوں ' حمید نے کہا۔ "اچھا وہ لڑکی اس وقت کہاں ہے؟" میں اُسے نوکروں کی نگرانی میں چھوڑ آیا ہوں۔ ویسے وہ نسلی براؤن اس لئے بنی ہے کہ ہر وقت میرے سر پر سوار ر ہے۔ یہ میرا اپنا خیال ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ نسلی براؤن کی زندگی خطرے میں ہوگی ۔ کچھ کیجئے!‘‘
حمید نے فریدی کی طرف دیکھا جو سعید بابر کو بغور دیکھ رہا تھا۔
’’میں کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا۔ آپ مطمئن رہئے !" حمید آہستہ سے بولا ۔
حمید ایک بار پھر ریکا رڈ روم میں بیٹا فارموں کا فائل اُلٹ رہا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ اس پاسپورٹ کا ویزا انکوائری فارم فائل میں موجود نہ ہوگا۔ مگر دوسرے ہی لمحے میں اس کی کھوپڑی ناچنے لگی کیونکہ اس دوسری بسیلی براؤن کا انکوائری فارم بھی فائل میں موجود تھا اور اس لڑکی کی آمد بھی اس تاریخ کو ہوئی تھی جس تاریخ کو دوسری لڑکی کیاآمد بھی اسی تاریخ کو ہوئی تھی جس تاریخ کو دوسری لڑکی کی ہوئی تھی۔
دہ سناٹے میں آگیا۔ اپنی نوعیت کا واحد کیسں۔ وہ کافی دیر تک اسی طرح بیٹھا رہا۔
حیرت انگیز نشانات
سعید بابر بے خبر سو رہا تھا۔ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ پتا نہیں وہ کسی قسم کی آواز ھی یا سید بہار کی چٹنی میں جس نے اسے جگا رہا تھا۔ وہ اٹھ جیٹا ۔ کمرہ کی کھڑکیاں بھی بند تھیں۔ سعید نے گھڑی کی طرف دیکھا ، دو بیچ رہے تھے۔ سردیوں کی پہاڑی رات کا ئنات پر مسلا تھی ۔ نڈہ اسے راہنی طرف کی کھڑکی میں ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دی۔ وہ دبے پاؤں بستر سے اٹھا۔ اس کے ہے اور باپ بھی بےاطمینانی یاری بیان کے آثار نہیں ھے۔ وہ پنجوں کے بل چتا ہو میر کے قریب آیا۔ بہا بھی اس کی دراز کینچی اور اندر ہاتھ ڈال کر ایک ریوالور نکالا جس کا دستہ ہاتھی دانت کا تھا۔ اُس نے اُس پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
کمرے میں دھم سی نیلے رنگ کی روشنی تھی۔ اچانک وہی کھڑ کی اپنے فریم سمیت بلنے لگی جس میں سرسراہٹ کی آواز ہوئی تھی ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ فریم سمیت دیوار سے نکل کر فرش پر آگرے گی۔ چاروں طرف کا پالاسٹر ادھڑتا جا رہا تھا ۔
پھر اچانک وہ فرش پر آگری اور ساتھ ہی سعید نے دیوار کی خلا میں فائر کر دیا۔
ایک ایک چیخ دور تک سنا ٹے میں لہراتی چلی گئی ۔ مردہ تیل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ تو کسی ریلوے انجن کی سیٹی تھی ۔ پھر اس کے فورا بعد ہی ایسی آواز یں ...آنے لگیں جیسے کوئی ریلوے انجمن پے در پے اسٹیم چھوڑ رہا ہو۔ پھر ....بھاگتے ہوئے بھاری قدموں کی آواز میں سعید ہایہ نے ریوالور خالی کر دیا۔ زراعی کی دیر میں پھر وہی پہلے کا سا سناٹا طاری ہو گیا لیکن سعید بابر نے اپنے کمپاؤنڈ ہی میں کار اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی تھی۔ اُسے یقین تھا کہ کاروہیں سے اسٹارٹ ہوئی ہے۔ پھر وہ بڑی تیزی سے باہر نکلا ۔ ساری عمارت سنسان پڑی تھی لیکن اب وہ اتنا احمق بھی نہیں تھا کہ کمپاؤن میں کا رخ روشن کرتا ۔ نوکروں کے کوارٹروں میں بھی روشنی نہیں نظر آرہی تھی۔ پتہ نہیں وہ سو ہی رہے تھے یا خوف کی وجہ سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں رہ گئی تھی۔ سعید تھوڑی دیر تک برآمدے میں کھڑا رہا پھر اندر چلا آیا۔ ایک کمرے میں پہنچ کر اندھیرے میں ٹٹو لتا ہوا فون کی طرف گیا اور محض ہندسوں کی ترتیب کو ذہن میں رکھ کر اندھیرے ہی میں کسی کے نمبر ڈائل کرنے لگا ۔ دوسری بار ریسیور اٹھا لیا۔
ہیلو! ‘‘دوسری طرف سے ایک بھرائی ہوئی سی آواز آئی۔
میں کیپٹن حمید صاحب سے ملنا چاہتا ہوں!‘‘ ’’
کون صاحب ہیں ؟ " دوسری طرف سے آواز آئی ۔
اُن سے کہئے کہ سعید با بر فون پر ہے!‘‘"
وہ سو رہا ہے!‘‘
آپ کون ہیں ؟‘‘
’’فریدی!‘‘
’’اوہ ...کرانل صاحب ...معاف فرمائیے گا۔ میں نے ناوقت آپ کو تکلیف دی۔ میں خطرے میں ہوں جناب کسی نے میری خواب گاہ کی کمر کی کھڑکی گ کر ر اندرگھسنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے فائر کر دیا۔ اب سناتا ہے لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ روشنی کر سکوں!‘‘
’’کیا کہا آپ نے ۔ کھڑکی گرادی گئی ؟ ‘‘دوسری طرف سے آواز آئی۔
جی ہاں ۔ فریم سمیت دیوار سے نکل آئی ہے!‘‘!"
یہ کیسے ممکن ہے؟"
مجھے خود حیرت ہے۔ جناب !میں کسی قسم کی آواز سن کر جاگ پڑا تھا۔ میں نے کھڑکی کے چاروں طرف کا پلاسٹر ادھر تے دیکھا۔ پر فریم اپنی جگہ سے کھسکا اور پوری کھڑکی اندر آگری۔ بالکل ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی آہستہ آہستہ اس پر زور آزمائی کر رہا ہو۔ ہہلو ہاں آپ خود سوچئے۔ مجھے بالکل تھا مکھئے۔ میں نے چھ فائر کئے تھے لیکن نوکروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ وہ بدستور اپنے کواٹروں میں ہیں!‘‘
لڑکی کہاں ہے؟"
میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ رات کا کھانا اس نے زبردستی میرے ساتھ کھایا تھا اور نسلی براؤن کے کمرے میں سونے چلی گئی تھی ۔ اب ایک اور مصیبت آگئی ہے۔ ہم اپنے یہاں کے ناظم الامور کے دفتر میں گئے تھے ۔ وہاں سے حکم ملا ہے کہ انکوائری کے دوران میں میں اسے اپنی ہی نگرانی میں رکھوں !‘‘
جی ہاں !"
’’کس طرف ؟‘‘
’’بائیں بازو کی ...دیکھئے تاتا ہوں۔ چوتھی ...نہیں پانچویں ...ہاں پانچویں ہی تو ہے۔ دیکھئے وہ بائیں بازو کی پانچویں کھڑکی ہے!‘‘
’’اچھا آپ وہیں ٹھہریے ، جہاں اس وقت ہیں!‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی اور سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔
سعیدبابر چند لمہے وہیں کھڑا رہا۔ پھر ٹولتا ہوا ایک طرف چل پڑا ۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ بہت جلدی میں ہو ۔ کئی و لا کھڑا کر گرتے گرتے بچا لیکن وہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ پھر ایک کمرے میں گھس کر اُس کا دروازہ اندر سے بندکر لیا۔
لیکن وہ زیادہ دیر تک اندر نہیں ٹھہرا۔ اب وہ پھر اس کمرے کی طرف جار ہا تھا جہاں ٹھہرنے کی فریدی نے جا کی کی تھی۔ اب کیا وقت تھا۔ سعید انداز ہ نہیں کر سکا لیکن اُسے اس کا احساس تھا کہ فون کرنے کے بعد سے اب تک ایک گھنٹے کی مدت ضرور گزری ہوگی۔
اچا نک اندر گھنٹی بجی۔ شاید بر آمدے میں کوئی گھنٹی کا بٹن دبا رہا تھا۔ سعید نے سوچا آنے والا فریدی کے علاوہ اور کون ہوگا ۔
وہ بر آمدے کی طرف جھپٹا۔ برآمدے میں اندھیرا تھا۔
"مستر با بر!‘‘ کسی نے برآمدے سے کہا۔
’’کون... اوہ... کیا ...کرنل صاحب!‘‘
’’ہاں !میں ہوں ۔ اب آپ روشنی کر سکتے ہیں !‘‘
سعید با بر نے سوئچ بورڈ ٹول کر برآمدے میں روشنی کر دی۔ اس کے سامنے ایک دراز قد آدمی سیاہ السٹر اور سیاہ فلیٹ ہیٹ میں کھڑا تھا۔ روشنی ہوتے ہی اس نے قلیت ہیت کا گوشہ او پر اٹھا دیا۔ سعید بابر کو ابھی تک فریدی سے نے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ویسے اس نے اس کی شہرت بہت پہلے سی تھی۔ افریقہ کے پولیس افسروں میں اکثر اس کے تذکرے رہا کرتے تھے کیونکہ وہ بین الاقوامی شہرت کا مالک تھا۔
خوش آمدید سعید بابر ہاتھ پھیلا کر آگے بڑھتا ہوا بولا ۔ " ہم پہلی بارٹل رہے ہیں کرنل صاحب! آپ کے متعلق میرا اندازہ غلط تھا ۔ آپ تو مجھ سے بھی کم عمر معلوم ہوتے ہیں " میں آپ کی خواب گاہ دیکھنا چاہتا ہوں مسٹر بابر فریدی نے آہستہ سے کہا۔ اس دوران میں اُس کی نظر ایک بار بھی سعید بابر کے چہرے سے نہیں ہٹی تھی۔ اوہ تھی ہاں ۔ آئیے ! سعید بابر نے کہا اور آگے بڑھ کر تاریخ کی روشنی میں اسے راستہ دکھانے لگا۔ وہ خواب گاہ میں آئے جہاں کھڑکی قریم سمیت اب بھی فرش پر پڑی ہوئی تھی اور اس کے دونوں طرف ادھڑے ہوئے پلاسٹر کے ڈھیر تھے ۔ فریدی چند لمحے تیز نظروں سے کمرے کا جائزہ لیتا رہا پھر ایک طرف ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ " آپ نے شاید وہاں سے فائر کیا تھا " " جی ہاں، وہیں سے " " آپ کے فائر سے کوئی زخمی ہوا ہے کیونکہ با ہر دیوار پرخون ہے!‘‘"
اوہ ...میں نے ایک چیخ سنی تھی مگر... !‘‘"
’’میں وثوق سے نہیں کہ سکتا کہ وہ چیخی ہی تھی ۔ جناب عجیب طرح کی آواز تھی۔ ایسا معلوم ہو اتھا میں ریلوے انجمن کی سینی ہو۔ پھر سیٹی آواز میں آنے لگیں جیسے انجمن رورہ کر تیزی سے اسٹیم چھوڑ رہا ہوا " شاید میری معلومات میں کوئی نیا اضافہ ہونے والا ہے "فریدی مسکرایا۔
یقین کیجئے جو کچھ میں نے سنا تھا عرض کردیا!‘‘ "
اس کھڑکی کے نیچے کچھ بڑے عجیب قسم کے نشانات میں افریدی نے دیوار کی غلام کی طرف اشارہ بہار پھر سعید باہر کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
ان نشانات کا مطالعہ میرے لئے بڑا دلچسپ ثابت ہوگا!‘‘! اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ " کیسے نشانات ہیں؟"
’’اگر آپ دیکھنا چا ہیں...!‘‘
میں ضرور دیکھوں گا" سعید ہایہ نے کہا اور فریدی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ دونوں کمال عمر آئے ۔ ان کے ہاتھوں میں تاریخیں تھیں ۔ عمارت کے بائیں بازو کی طرف پہنچ کر فریدی رک گیا اور ہوا۔ ذرا احتیاط سے۔ میں روشنی دکھا رہا ہوں ۔ کہیں وہ نشانات ضائع نہ ہو جائیں!‘‘
پھر چلے۔ فریدی زمین پر روشنی ڈالتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ کہیں کہیں وہ سعید ہاجر سے کتر کر چلنے کوکہا۔
کھڑکی کے سامنے وہ رک گئے ۔
یہ نشانات فریدی نے ایک جگہ روشنی ڈالی۔
یہاں زمین نرم اور نم آلود تھی۔ اس لئے نشانات کافی گہرے تھے ۔ سعید با بر جھک کر دیکھنے لگا۔ لیکن شاید اس کی سمجھ میں بھی نہ آسکا تھا۔ وہ سیدھا کھڑا ہو کر بے دلی سے بولا ۔ جی ہاں یہ نشانات " شاید آپ نے غور سے نہیں دیکھا " فریدی مسکرایا۔ ورنہ آپ کے چہرے پر حیرت کے آثار ضرور ہوتے!‘‘
’’یہ حقیقت ہے کہ میں کچھ نہیں کجھ سکا‘‘
یہ نشانات دور تک ہیں اور ان کی ترتیب بتاتی ہے کہ یہ کسی ایسے جانور کے پیروں کے نشانات ہیں جوصرف دو پیروں سے چلتا ہے
گور یا سعید بڑبڑایا۔
نہیں ، گوریلے کے پیرسپاٹ ہوتے ہیں۔ تلوؤں میں اتنی گہرائی نہیں ہوتی ۔ یہ دیکھئے " فریدی ایک تنکا اٹھا کر نشان کے مختلف حصوں کی طرف اشارہ کرنے لگا۔
انگلیاں یہ انگلیوں کے نیچے کا ابھار اور یہ گول نشان جو ایڑی ہی ہوسکتی ہے۔ ایڑی اور انگلیوں ہے کے ابھار کا فاصلہ دیکھئے ۔ جموے کتنے گہرے ہیں ۔ گوریلا کے تلوؤں میں گہرائی نہیں ہوتی ۔ یہ کسی آدمی کا پیر انی کا حق قسم کے جانوروں کے حق میری معلومات کم نہیں مگر یہ کہ یقینا میری معلومات کے رے سے باہر ہے!‘‘
ر یہ کیا ہے؟ سعید بابر کی آواز عشق میں پچھنے لگی تھی۔
وہ بہتر جانتا ہے۔ فریدی سیدھا کھڑا ہوتا ہوا بولا " میں اپنے فوٹوگرافروں کو بلانا چاہتا ہوں۔
ضرور ضرور " فریدی نے دوبارہ عمارت میں داخل ہو کر اپنے محلے کے فوٹوگرافروں کو فون کیا اور وہ دونوں ڈرائنگ روم پہنچے!‘‘
سعید پایہ کا چہرہ زرد تھا اور ہونٹ خشک ہو گئے تھے۔ فریدی نے ایک بار پھر اسے غور سے دیکھا اور باہر پھیلے اندھیرے میں گھورنے لگا۔ پھر اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ جتنی جلد ہو سکے آپ یہاں سے چلے جائیے سید بابر نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولا " کرتل صاحب میرا بھائی انیاں گر کر مرگیا۔ میں اسے تین ہزار روپے بھجواتا رہا اور وہ فٹ پاتھ پر گھسٹ گھسٹ کر بھیک مانتارہا۔ خواہ میری جانا جگا جائے ، میں اس آدمی کو سزا دیئے بغیر نہیں جاؤں گا ، جو اس حرکت کا ذمہ دار ہے۔
آپ نے لانڈ میک میں تحقیق کی تھی ؟‘‘
ہاں۔ ہر ماہ تین ہزار کا ڈرافٹ رشید باہر کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتا رہتا تھا اور رسید بابر کے چیک پر گی ہوتی رہی تھی۔ میرے یہاں پہنچنے سے تین دن قبل آخری رقم پچاس ہزار نکالی گئی اور اسی دن شام کو میرے جمالی کی لاش ایک فٹ پاتھ پر ٹی۔ میرے خدا کتنی زبر دست تر بھنڈی ہے
’’پہلے ڈرافٹ پر کس نے تصدیق کی تھی کہ یہی رشید بابر ہے ؟ فریدی نے سوال کیا ؟‘‘
مینیجر د داراب نے!‘‘
یہ کون ہے ؟ ‘‘
’’دار اب اینڈ کمپنی کا پرو پر انٹر۔ اس کی فرم ہم سے لین دین رکھتی ہے۔ میں نے اسے لکھ دیا تھا کہ وہ اس رافٹ کی تصدیق کر کے رشید بایے کا اکاؤنٹ کھلوادے آپ اس سلسلے میں اس سے ضرور ملے ہوں گے۔ قدرتی بات ہے" جی ہاں میں اس سے بھی پوچھ کچھ کر چکا ہوں وہ کیا کہتا ہے؟‘‘"
’’اُسے کچھ یادہی نہیں ۔ بات پانچ سال پرانی ہے۔ میرے یاد دلانے پر اس نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ اس نے میرے لکھنے پر کسی کے ذرات کی تصدیق کی تھی۔ جب اسے اس کا نام بھی یاد نہیں تو پھر صورت شکل یا در کنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔
’’داراب سے آپ پہلی بار کب ملے تھے؟‘‘
’’بس ابھی حال ہی میں البتہ کاروباری تعلقات شائکہ پندرہ سال پرانے ہیں!‘‘
’’یعنی اس ڈرافٹ کی تصدیق سے پہلے اُس نے آپ کو نہیں دیکھا تھا؟‘‘
’’جی نہیں ، میں نے عرض کیا تا کہ ابھی حال ہی میں ہم دونوں ایک دوسرے کے صورت آشنا ہوئے ہیں " تب تو وہ اس واقعہ کو بھلا دینے میں حق بجانب ہے ! فریدی نے کہا۔
" کیوں؟ ‘‘...میں نہیں کھا ؟ ‘‘
اگر وہ پہلے دیکھ چکا ہوتا تو رشید با بر اُسے آج بھی یاد ہوتا ۔ محض اتنی قریبی مشابہت کی بنا پر حیرت انگیز چیزیں ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔
کیوں! مثلا یہ آپ کی سکریٹری والا قصہ مجھے ہمیشہ یادر ہے گا " اور شاید میں اسے قبر میں یاد کر کے متحیر ہوتار ہوں گا‘ سعید بابر نے تلخ لہجے میں کہا۔
یہ لڑکی بسیلی براؤن کب سے آپ کے پاس ہے؟"
تقریباً تین سال سے
" آپ کو اچھی طرح یاد ہے؟ فریدی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ جی ہاں ! مجھے اچھی طرح یاد ہے!"
تو پھر نیروبی سے آئی ہوئی اطلاعات غلط ہوں گی ؟ فریدی نے خشک لہجے میں کہا ۔
اوہ ...‘‘سعید بابر ہنسے لگا۔ فریدی استفہامیہ انداز میں اس کی طرف دیکھتا رہا۔
’’آپ نے یہی پو چھا تھا نا کہ وہ کب سے میرے پاس ہے؟‘‘
’’ہاں !یہی پو چھا تھا!‘‘
’’یہ تو نہیں پوچھا تھا کہ وہ میری سکریٹری کب سے ہے۔ اگر آپ یہ پوچھتے تو میں عرض کرتا کہ وہ صرف کاغذات پر میری سکریٹری ہے اور کا غذات پر بھی اس وقت آئی جب ہم پاسپورٹ ہوانے لگے تھے۔ ظاہر ہے کہ ہرے اور اس کے علاوہ کسی کو اس کا علم نہیں ہو سکا کی پو چھئے تو یہ سرمحض اس کے اصرار پر ہوا تھا ۔ مگر اب " سعید با بر ایک طویل سانس لے کر بولا ۔ اب میں نے اُسے کھو دیا ہے!‘‘
محبوبہ!‘‘ فریدی مسکرایا۔
جواب میں سعید بابر نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور خاموش ہو گیا۔
عدنان اپنے گھر میں ایک طرح سے قیدی تھا۔ وہ تویر کی عدم موجودگی میں بھی گھر سے قدم نہیں نکال سکتا تھا۔ اگر وہ ایسا کرتا بھی تو اسے اپنی اس عاقبت نا اندیشی پر زندگی بھر پیمانی رہتی کیونکہ یہاں تنویر کی حکومت تھی ۔ اگر دو گھر سے باہر جانے پر زور دیتا تو ملاز میں اُس کی بے عزتی نیک کر بیٹھتے۔
وہ اپنی ماں کی سخت گیریوں سے تنگ آ گیا تھا مگر قبر درویش بر جاں در ویش۔ اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکتا۔ اُس کی دانست میں اس کی ماں کر یک تھی مگر وہ بھی اپنی ماں ہی کا بیٹا تھا۔ وہ زیادہ تر ایسی ہی حرکتیں کرتا جو تنویر کو نا پسند تھیں ۔
آج صبح ہی سے تنویر کہیں گئی ہوئی تھی۔ دو باڈی گارڈ اس کے ساتھ تھے۔ عدنان کے باڈی گارڈ گھر ہی پر موجود تھے... اُس نے انہیں طلب کیا۔
تم دونوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی بڑا کام بھی کیا ہے؟" عدنان نے بڑی حقارت سے پوچھا۔
وہ دونوں خاموش رہے۔
کیا تم بہرے ہو؟ " عدنان گر جا۔
"نہیں جناب !ہم آپ کا سوال ہی نہیں سمجھ سکے؟"
تم بڑا کام نہیں سمجھتے! کیوں ؟‘‘"
سمجھتے تو ہیں مگر سوال کا مقصد سمجھے بغیر جواب کیسے دیا جا سکتا ہے!‘‘
آج تمہیں ایک بڑا کام انجام دینا ہے!‘‘
ہم سے یہ نہیں ہو سکے گا جناب !"
" کیا ؟تم میرا حکم ماننے سے انکار کر رہے ہو ؟‘‘
جہاں مادام تنویر کی بات آپڑے وہاں ہم یقیناً انکار کر دیں گے!‘‘
’’میں نہیں گولی مار دوں گا !‘‘عدنان گر جا۔
گولی مار دیجئے مگر یہ بڑا کام ہم سے نہیں ہو سکے گا!‘‘
عدنان خاموش ہو گیا۔ پر تھوڑی دیر بعد سکرا کر ز لہجے میں بولا۔ مادام تور کواس کالم میں ہونے پارے گا۔ تم آخرا تا ڈرتے کیوں ہو۔ تم میرے باڈی گارڈ ہو۔ تمہارا علق براہ راست مجھ سے ہے۔ تمہارے افعال کے لئے میں جواب دہ ہوں!‘‘
"! ہم مجبور ہیں جناب
تم اُلو کے پٹھے ہو!" عدنان طلق پھاڑ کر چینخا۔ ’’یہاں سے دفع ہو جاؤ!‘‘"
وہ دونوں منہ لگائے ہوئے چلے گئے۔ عدنان کچھ دیر تک خاموش بیٹا رہا۔ پھر اٹھ کر شور کے بھی آخر طرف چلا گیا۔ یہاں تین لڑکیاں کلرک تھیں جو تویر کے بھی اخراجات کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں۔ عدنان نے ان میں سے ایک کو الگ بلایا۔ میلڑکی ابھی حال ہی میں آئی تھی اور شاید اسے اس عمارت کے مکینوں کے متعلق کچھ نہیں معلوم تھا۔ تنویر کو بھی اُس نے ایک ہی آدھ بار دیکھا تھا۔
’’تم مجھے جانتی ہو... . میں عدنان ہوں ! ‘‘عدنان نے اُس سے کہا۔
جی ہاں!‘‘
‘‘؟ میرا ایک کام کر دو گی
’’فرمائیے!‘‘
’’اگر تم میری مدد کرو گی تو ہم ہمیشہ کے لئے گہرے دوست بن جائیں گے ! ‘‘
ہاں ۔ ہاں ... بتائیے !‘‘ لڑکی نے کہا ۔ عدنان عورتوں کے لئے بڑا پرکشش تھا۔
’’میری ماں لیمو بہت پسند کرتی ہے مگر مجھے نہیں کھانے دیتی ۔ میں اُس کے لیمو چرانا چاہتا ہوں !"
لڑکی ہسنے لگی اور عدنان بولا ۔ " میں مذاق نہیں کر رہا ہوں ۔ ایک کمرے میں لیموؤں کا اسٹاک رہتا ہے۔میں تمہارے لئے بھی نکال لاؤں گا۔ بس تم راہداری کے سرے پر کھڑی دیکھتی رہنا کہ کوئی ادھر آ تو نہیں رہا ہے!"
چلیئے !‘‘لڑکی پھر ہنس پڑی۔ وہ دونوں اُس راہداری میں آئے جس کے دوسرے سرے پر اُس پُر اسرار کمرے کا دروازہ تھا۔ لڑکی راہداری کے اِسی سرے پر رُک گئی۔
عدنان نے جیب سے ایک مڑا ہوا تار کالا اور دروازے میں پڑے ہوئے قتل پر ہاتھ صاف کرنے لگا۔ قتل کھئے میں دیر نہیں لگی۔ اس نے دروازے میں تھوڑا سا درہ کیا ۔ کمرے میں گہری تاریکی تھی۔ اندر سے ایک عجیب تم ا ن د انجونور کا بیٹا تھا، درواز کھو کر دھڑ دھڑا تا ہو اندر گھس گیا۔ دوسرے ہی لیے میں وہ ابداری میں تھا۔ اس کے حلق سے ایک عجیب سی چیخ نکلی کسی نے اسے اٹھا کر کمرے سے باہر پھنک دیا تھا۔ لڑکی تو ہ اللہ دیکھتے یاسر پر پر رکھ کر بھاگ گئی ۔ عدنان کے گھٹنوں اور سر میں کافی چوٹیں آئیں ۔ دوسری طرف اس کے باڈی گارڈ چیخ سن کر دوڑ پڑے تھے ۔ سامنے والے کمرے کا دروازہ بند تھا لیکن قتل انہیں راہداری کے فرش پر پڑا دکھائی دیا۔ انہوں نے خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے عدنان کو اٹھانے لگے ۔ وہ اُسے سہارا دیے ہوئے راہداری سے نکال لائے۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ ٹھیک اسی وقت تنویر بھی آپہنچی ۔ عدنان کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ۔ اُس نے باڈی گارڈوں سے اُس کے متعلق پوچھا۔ پہلے تو وہ پہچکچاتے رہے لیکن پھر انہیں بتانا ہی پڑا کہ عدنان نے اُس کمرے کا قفل کھول لیا تھا ۔
تنویر بے تحاشہ دوڑتی ہوئی راہداری میں چلی گئی ۔ عدنان ایک کرسی میں پڑا ہا انتا رہا۔
میں تم دونوں کو جان سے ماردوں گا۔ سمجھے ! ‘‘وہ انہیں گھونسہ دکھا کر بولا۔
ہم کیا کرتے جناب!‘‘
شٹ آپ!‘‘
دو چار منٹ بعد تنویر واپس آگئی لیکن اُس کا موڈ بہت خراب معلوم ہو رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں چمڑے کاچا بُک تھا ۔
عدنان ! کھڑے ہو جاؤ! ‘‘اُس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
عدنان چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ چاروں باڈی گارڈ وہیں کھڑے تھے۔
’’تم لوگ جاؤ!" عدنان نے اُن سے کہا۔
نہیں وہ یہی ٹھہر یں گے !‘‘تنویر نے سرد لہجے میں کہا۔ " تم اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لو !‘‘
عدنان نے ہاتھ بھی اٹھا دیئے۔ تنویر کا چا یک والا ہاتھ حرکت میں آگیا۔
شا ئیں ...شائیں !" عدنان کے پشت پر چابک پڑ رہے تھے اوروہ ہونٹ نیچے کھڑا تھا۔
’’ میں گن رہا ہوں !‘‘ عدنان نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’گنتے رہو!‘‘تنویر کا ہاتھ تیزی سے چلنے لگا۔
’’یہ پھر نہیں، میرے جسم پر پڑ رہے ہیں مادام تنویر۔ مگر میرے سینے میں بھی پتھر کا دل ہے !‘‘
’’تمہاری دھمکیاں مجھے اور زیادہ تنگدل بنادیں گی!‘‘ تنویر بولی لگی اُس کا ہاتھ چلتا رہا۔
کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کے اُسے روک دیتا۔
میں بس نہیں کہوگا مدام تنویر اور نہ رحم کی درخواست کروں گا !‘‘
میجرداراب
حمید کے لئے یہ کتنی جیب تھی مگر اسے اس گتھی نے کوئی راہ میں نہیں تھی ۔ جس الجھادے میں کسی عورت کو بھی ہاہے وٹل ہو تا تھا وہ کم از کم حمید کی رہی جمنا ملک سے تو بچاہیں رہتا تھا کیو نکہ حمید پھر حمد نظم ا. ظاہر ہے کہ عورت اس کے جہا۔ حصے میں آتی اور کئی فریدی کے حصے میں ۔ یہ ثابت کر نا فریدی کا کام تھا کہ وہ لڑکی دیتا نسلی براؤن تھی یا اور کوئی حمید ہوں کہے کے لئے تو وہ صرف لڑکی تھی ۔ اگر اس کا نام لسلی براؤن کے بجائے کیوی براؤن پالش براؤن ہوتا جب بھی وہ اس میں اگر ایک اتنی ہی دلچسپی لیتا...
وہ سعیدہ بابر کی کوٹھی کے چکر لگانے لگا۔ دن میں کئی کئی بار کوئی نیا سوال تیار کر کے جاپہنچتا اور سعید ہا یہ اس بات پر بے تحاشہ خوشی کا اظہار کرتا کہ محکمہ سراغرسانی کے دو بہترین دماغ اس کے معاملے میں اتنی دلچسپی لے رہے ہیں۔ آج اچانک اس کی ملاقات اس لڑکی سے ہوگئی جسے سعید بابر کڑی نگرانی میں رکھتا تھا اور اسے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا تھا ۔ وہ تحمید کو برآمدے ہی میں ملی۔ اس کے سر پر دو نو کر مسلط تھے اور سعید با ہر گھر میں موجود نہیں تھا ۔ لڑکی نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور ایک تلخی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔ وہ شریف آدمی گھر پر موجود نہیں ہے!‘‘
اده... اچھا!"
’’لیکن ٹھریئے ،میں آپ سے گفتگو کرنا چاہتی ہوں!‘‘
’’اوہ ...ضرور... ضرور...!‘‘ حمید و ہیں ایک کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔
مجھے یہ سزا کیوں دی گئی ہے۔ کیا آپ بتا سکیں گے؟‘‘"
’’سزا تو تم نے آج کل ہم لوگوں کو دے رکھی ہے ! ‘‘حمید مسکرا کر بولا ۔
’’ کیا آپ لوگ نیروبی سے براہ راست نہیں معلوم کر سکتے ۔ میں آپ کو اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے پتے دے سکتی ہوں!‘‘
’’ کیا وہ لوگ اس کی بھی تصدیق کر سکیں ہے کہ تم سعید با ہر کی سکریٹری ہو !‘‘
لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ سر جھکائے بیٹھی رہی ۔ اس کے چہرے کی رنگت بڑی تیزی سے بدل رہی تھی ۔ ھوڑی دیر بعد اسنے سر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں نمکین تھیں اور چہرے پر پہلے سے زیادہ راہ تھی۔ اس نے آہتہ سے کہا۔ " نہیں ، وہ اس کی تصدیق نہیں کرسکیں
گے!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس کا جواب وہی ذلیل کتّا دے سکتا ہے لیکن اب وہ تو مجھے لسلی براؤن ہی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ مرد بڑے کتنے ہوتے ہیں۔ کبھی تمہارے لئے ٹھنڈی سانسیں بھریں گے، روئیں کے گڑ گڑا ئیں گے اور کبھی تا طرح منہ پھیر لیں گے جیسے میں کیا کہوں . سعید بابر اور میں گہرے دوست تھے ۔ ایک دوسرے کو بے حد کو بھی چاہے تھے لیکن میں اس سے چھپ کر ملتی تھی کیونکہ افریقہ کے انگریز بہت متعصب ہیں۔ وہ کالوں سے نفرت کرتے سا کے ہیں۔ حالانکہ سعید ہا: بہتیرے انگریزوں سے بھی زیادہ حسین ہے مگر اس کا تعلق کالی نسل سے ہے اور اب میں کہتی امید ہوں کہ افریقہ کے انگریز اپنے تعصب میں حق بجانب ہیں۔ سعید مجھے یہاں اپنی سکریٹری بنا کرلایا تھا اور اب یہاں امیں آکر ایک نئی مصیبت میں پھنسا دیا۔ مقصد میں نہیں جانتی کیا ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارا ایک تفریکی سفر تھا۔ ویسے وہ اپنے کسی و کی سے بھی ملنا چاہتا تھا!‘‘ "
’’سعید کے آدمیوں کو تو اس کا علم ہو گا کہ تم اس کی سکریٹری کی حیثیت سے سفر کرنے والی ہو!‘‘
’’کوئی بھی نہیں جانتا۔ کسی کو بھی اس کا علم نہیں ۔ میرے عزیز اور دوست ہی سمجھتے ہیں کہ میرا سفر مومباسدی کنے دیا کہ محدود ہوگا۔ میں نے اُن سے یہی کہا تھا کہ میں تین ماہ مومباسہ میں قیام کروں گی !" یہی وجہ ہے کہ سعید با بر حمید جملہ پورا کرنے سے پہلے ہی خاموش ہو گیا۔ ہاں ہاں! کہئے انکی بات ہر حال میں کہہ دینی چاہئے ۔ آپ کی زبان تک کیوں گئی ۔ آپ ہی کہنا چاہتے ا کر ہی لئے سعید اور زیادہ صفائی سے جھوٹ بول رہا ہے!‘‘!"
’’ہاں !آپ مجھے قید سے رہائی نہیں دلا سکتے ۔ میں اچھی خاصی قیدی ہوں۔ ناظم الامور کے دفتر سے سعید خدا جانے میں کچھ نہیں کہ سکتا " ہدایت ملی ہے کہ انکوائری کے دوران میں وہ مجھے اپنی نگرانی میں رکھے مگر نگرانی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ میں کہیں کم کردی جاؤں۔ سعید کے علاوہ میں اور کسی کو یہاں نہیں جانتی مگر تازہ ہوا اور کھلے آسمان پر تو ہر آدمی کا حق ہوتا ہے۔ ایہ کاروں میں میر اور گھٹ رہا ہے۔ میں مر جاؤں گی!‘‘
آپ میرے ساتھ باہر چل سکتی ہیں!‘‘ "
سچ !‘‘لڑکی پُر مسرت انداز میں چینخی ۔
’’جی ہاں!‘‘
مگر یہ !‘‘لڑکی نے دوسروں کی طرف دیکھا۔
میں انہیں اپنے ساتھ لے جارہا ہوں !‘‘حمید نے نوکروں سے کہا۔
صاحب کی اجازت نہیں ہے ایک نوکر نے بڑے ادب سے جواب دیا۔
اُن سے کہہ دیا کپتان صاحب اپنے ساتھ لے گئے ہیں !‘‘
’’اُن کا انتظار کر لیجیے تو بتہر ہے"
حمید نے بات آگے نہیں بڑھائی ۔ وہ کہتا تھا کہ لڑ کی اس طرح باہر نہیں جاسکے گی ۔ لہذا اُس نے یہیں مناسب سمجھا کہ سعید کا انتظار ہی کرے۔
آج کل ہائی سرکل نائٹ کلب میں رقص کے پردو گرم ہو رہے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ لڑکی اس کے ساتھ ہوئی تو کلب میں اس کی خاصی دھوم رہے گی۔
اُسے تقریبًا آدھے گھنٹے تک سعید بابر کا انتظار کرنا پڑا۔ پھر جیسے ہی وہ آیا حمید اُسے اپنے ساتھ لیتا ہوا اندر چلا گیا۔ لڑ کی برآمدے ہی میں رہ گئی۔
’’میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کپتان صاحب لیکن میری زندگی خطرے میں ہے !‘‘
مجھے افسوس ہے کہ میں ابھی تک آپ کے لئے کچھ نہیں کرسکا !"حمید بولا۔ ’’میں ابھی تک در اصل اپنے ہی ایک معاملے میں اِدھر کے چکر لگا تارہا ہوں !‘‘
میں نہیں سمجھا ؟"
’’ بھئی بات یہ ہے کہ وہ انکوائری سکشن میرے ہی چارہ میں ہے اور میں آج آپ پر یہ حقیقت واضح کر رہا ہوں کہ دونوں لڑکیوں کے انکوائری قارم ریکارڈ روم میں موجود ہیں۔ دونوں ہی نسلی براؤن اور مسٹر سعید بابر کی سکریٹر!‘‘
’’میرے خدا !‘‘سعید با بر منہ کھول کر رُک گیا۔
’’جی ہاں۔ یہ متلقہ کلریک کی غلطی ہے کہ اُس نے اس پر دھیان نہیں دیا۔ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ سکشن کی کتنی بدنامی ہو گی!‘‘
’’یقیناً...یقیناً!‘‘
بس نہیں چکر ہے۔ میرا خیال ہے کہ آج سے میں اس لڑکی کو چکر دیا شروع کر دوں ۔ اس طرح کام نہیں بنے گا۔ لہذا میں اسے اپنے ساتھ لے جارہا ہوں!‘‘
سعید با بر کسی سوچ میں پڑ گیا۔ چند لمہے خاموش رہا پھر تفکر آمیز لہجے میں بولا ۔ " ناظم الامور کے دفتر سے ...!"
’’مجھے معلوم ہے کہ وہ آپ کی عمرانی میں ہے مگر آپ یہ نہ بھو لئیے کہ یہاں کے مہکمہ سراغرسانی کے ساتھ بھی فراڈ کیا گیاہے !‘‘
’’آپ جو مناسب رکھئے کیجئے ! اس نے مردہ ہی آواز میں کہا۔ لیکن مجھے میری پہلی پر اذان ضرور مانی اہئے ورنہ میں اس لڑکی کوگولی ماردوں گا ۔ بھائی سے تو ہاتھ دھو چکا۔ پی نہیں یہ کیا چکر ہے؟ ‘‘
مجرم بہت جلد سزا کو پہنچیں گے !‘‘حمید نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر محبت آمیز انداز میں کہا۔ " جس کام میں کرنل فریدی کا ہاتھ پڑ جائے اُس کا بیڑا پار ہی رکھئے !"
سعید بابر نے تمہیں دھوکا دیا ہے؟" حمید نے پوچھا۔
’’یقیناً ...مگر اُس کا مقصد میں ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔ ہم دونوں ابھی تک محض دوست بھی رہے ہیں۔ میں بھی ا صرف اس حد تک پسند کرتی ہوں ۔ ہماری شادی کا بھی کوئی امکان نہیں رہا ہے۔ پھر اس کی اس حرکت کا کیا مقصد ہوسکتا ہے!‘‘
’’تم اس کے اس بھائی کے متعلق کیا جانتی ہو جس سے ملنے کے لئے وہ یہاں آیا تھا؟" کچھ بھی نہیں جانتی۔ اس نے بس یونہی رواروی میں اس کا تذکرہ کیا تھا۔ وہ بھی محض اس لئے کہ وہ اُس سے مشابہ تھا!‘‘
’’تم دونوں نے ساتھ ہی اپنی آمد یہاں درج کرائی تھی؟‘‘
ہاں ،ہم دونوں ساتھ گئے تھے!‘‘ ’’
اس کے بعد حمید نے کوئی سوال نہیں کیا ۔ وہ اس کے قریب اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے جسم سے اٹھنے لوار کی بھینی بھینی خوشبو حمید کے ذہن پر بری طرح مسلط ہوگئی تھی۔ وہ بیداری میں خواب دیکھنے لگا تھا۔ ویسےاُسے اس کا ہوش تھا کہ کہیں کوئی ایکسیڈینٹ نہ ہوجائے۔
کار ہائی سرکل نائٹ کلب میں ترکی ۔ وہ دونوں ہال میں جانے سے پہلے نیجر کے کمرے میں گھس گئے ۔ میجر بادی میں موجود تھا۔ حمید کو دیکھ کر بڑے ادب سے کھڑا ہو گیا۔ کرنل صاحب بھی تشریف رکھتے ہیں ؟ اس نے کہا اور لڑکی کو گھورنے لگا۔
’’کہاں تشریف رکھتے ہیں !‘‘حمید بوکھلا گیا۔
’’ہال میں ۔ہوسکتا ہے انہیں علم ہو گیا ہو کہ آپ ایک سرو ِگلزار شباب کے ساتھ یہاں قدم رنجہ فرما ئیں گے!‘‘
"شٹ آپ ! حمید جنھجلا گیا۔
ارے نہیں کپتان صاحب:
دل بہت جلیل شیدا کا ہے نازک گلیچیں
پھول گلزار میں یوں توڑ کہا آواز نہ ہو‘‘
فرنیچر ٹوٹنے کی آواز پسند کرو گے ؟" حمید آگے بڑھتا ہوا بولا۔
ارررر.... دیکھئے۔ بس دور ہی رہئے گا۔ بقولِ شاعر ...جی ہاں... سراپا ناز آپ کے ساتھ ہے اور آپ مجھےسے دھول دھپا کرنے چلے ہیں!‘‘
حمید رُک گیا۔ اس کی مجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ فریدی یہاں کیوں آیا۔ بھلا فریدی کوکسی نائٹ کلب سے کیا سروکار؟
’’میں فی الحال یہیں بیچوں گا حمید نے اُس سے کہا۔ " جب فریدی صاحب چلے جائیں تو مجھے اطلاع دینا!‘‘
گویا میں وہاں جا کر یہ دیکھتار ہوں کہ وہ کب تشریف لے گئے ؟‘‘"
’’ہاں!‘‘
" ’’کیا آپ مجھے کوئی گرا پڑا آدمی سمجھتے ہیں !‘‘ منیجر نے اکڑ کر انگریزی میں کہا۔
"اگر تم نے انگریزی میں اپنی قابلیت کا اظہار کیا تو تمہاری گردن مروڑ دوں گا!‘‘
آپ مجھے دھمکا رہے ہیں ؟‘‘"
’’تم بیٹھ جاؤ !" حمید نے لڑکی کی طرف مڑ کر کہا مگر لڑکی غائب تھی ۔ حمید دروازے کی طرف جھپٹا مگر دو برآمدے میں بھی نظر نہیں آئی۔ حمید ہال کی طرف دوڑا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلا گیا۔ ریکر کمیشن ہال میں بھی دیکھا لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ پھر اسے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ اسے حقیقتا کمپاؤنڈ ہی کی طرف جانا چاہئے تھا۔ اگر لڑ کی اُسے جُل دے کر نکل گئی تھی تو ہال میں جانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ حالانکہ اب یہ فضول ہی تھا لیکن پھر بھی اُس کے قدم کمپاؤنڈ کی طرف اُٹھ گئے ۔ وہ پھاٹک والی روش طے کر رہا تھا کہ کسی نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ حمید جھنجلا کر پلٹا۔
کیوں پریشان ہو؟‘‘ اس نے فریدی کی آواز سنی۔
حمید خاموش ہی رہا۔ جواب کیا دیتا۔
’’ لڑکی کے غائب ہو جانے کا غم ہے ! ‘‘فریدی چڑھانے کے سے انداز میں بولا۔
بکو اس مت کرو! ‘‘فریدی بگڑ گیا ۔ " تم اُسے لائے کیوں تھے ؟‘‘
مجھے توقع تھی کہ میں اُس سے کچھ معلوم کر سکوں گا!‘‘ ’’
" کیا معلوم کیا ؟"
یہی کہ کوئی خوبصورت لڑکی دیر تک نہیں ٹھرتی!‘‘
" ’’تم نے میری ساری اسکیم چوپٹ کر دی ! ‘‘فریدی نے نا خوشگوار لہجے میں کہا ۔
پھر کوئی دوسری اسکیم بن جائے گی مگر یہ تو فرمائیے کہ آپ کو اس کا علم کیسے ہوا ؟"
میں یہیں موجود تھا۔ پھر مجھے کیسے علم نہ ہوتا!‘‘ "
" تو آپ نے اسے نکل کیوں جانے دیا ؟ ‘‘
محض اس لئے کہ تم اپنا وقت نہ برباد کرو!‘‘"
میں سعید بابر کو کیا جواب دوں گا ؟‘‘"
" ’’اُسے جواب دینا تمہارے فرائض میں سے نہیں ہے۔ تم اپنے روز نامچے میں اطمینان سے لکھ سکتے ہو کہ تم چھ کچھ کرنے کے لئے اسے اپنے ساتھ آفس لا رہے تھے۔ ایک جگہ کا روک کر تم کسی کام سے اترے، جب کار کی طرف واپس ہوئے تو وہ غائب تھی!‘‘
آخر آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟"
’’یہاں میجر داراب موجود ہے۔ اُس کے ساتھ دولڑکیاں ہیں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ تم رقص کرو گے ! میں شاید ناچنے ہی کے لئے پیدا ہوا ہوں ! حمید نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔ میں میجر داراب کو نہیں پہچانتا " میں بتاؤں گا فریدی اُس کا ہاتھ پکڑ کر ہال کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
"مگروہ لڑکی؟"
اُسے جہنم میں جھونکو۔ میجر داراب کے ساتھ دولڑ کیاں ہیں!‘‘
فریدی اسے ہال کے صدر دروازے تک لایا۔
وہ اُدھر... بڑی پینٹنگ کے نیچے والی میز پر ۔ وہی میجر داراب ہے۔ اُس کے قریب والی میز خالی ہے۔
میں نے مخصوص کرائی تھی !‘‘
کیا آپ کو علم تھا کہ میں یہاں آؤں گا ؟‘‘"
’’’’’’ہاں مجھے علم تھا اور یہ کوئی ایسی حیرت انگیز بات نہیں جس کے متعلق سوچنے میں تم اپنا وقت برباد کرو ۔ آج صبح تم نے رمیش سے کہا تھا کہ لسلی براؤن کو یہاں کے رقص میں لانے کی کوشش کرو گے ...بس اب جاؤ!‘‘"
فریدی بر آمدے سے کمپاؤنڈ میں اُتر گیا۔ حمید پر اب بھی اُسی لڑکی کی گمشدگی کی فکر سوار تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر وہ اس طرح اور اتنی جلدی غائب کہاں ہو گئی۔ اب وہ پھر میجر کے کمرے کی طرف جارہا تھا۔ مینجر نے اُسے دیکھ کر ایک ٹھنڈی سانس لی اور کرسی کی پشت سے ٹک گیا۔
حمید نے اس بار اُس سے کوئی برابر تا ؤ نہیں کیا۔
کیا تم نے اسے کمرے سے نکلتے دیکھا تھا ؟ ‘‘حمید نے اُس سے پوچھا۔
پروانہ کیجئے کپتان صاحب۔ یہ سنگدل ایسے ہی ہوتے ہیں :
دیکھیں محشر میں اُن سے کیا ٹھرے۔
تھے وہی ُہت وہی خدا ٹھہرے"
’’میں شعر سننے کے موڈ میں نہیں ہوں ۔ میری بات کا جواب دو!‘‘
جی ہاں، میں نے آسے باہر جاتے دیکھا تھا۔ ایک لڑکی نے اشارے سے اُسے باہر بلایا تھا!‘‘
لڑکی نے....؟ "
’’ جی ہاں ۔ آپ مطمئن رہے۔ وہ کوئی مرد نہیں تھا!‘‘مینجر معنی خیز انداز میں مسکرایا۔
حمید مزید کچھ کہے بغیر دروازے کی طرف مڑ گیا۔ اس نے منیجر کے قیقے کی آواز بھی سنی لیکن وہ اس وقت اُس سے اُلجھن کے موڈ میں نہیں تھا۔
وہ ہال میں آیا اور سیدھا اس خالی میز کی طرف چلا گیا جو فریدی نے عالم اس کے لئے مخصوص کرائی تھی ۔ میجر داراب خاموش بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ کی دونوں لڑکیاں اونچی آواز میں گفتگو کر رہی تھیں ۔ میجر دار اب ایک ڈبیلا پتلا آدمی تھا۔ گال پچکے ہوئے تھے اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ سرد طبیعت آدمی معلوم ہوتا تھا۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا جیسے ان لڑکیوں سے کوئی دلچپسی نہ ہو ۔ شاید وہ ان کی گفتگو بھی نہیں سن رہا تھا۔ حمید نے لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک طویل سانس لی اور سکیوں کی طرح بڑبڑاتا ہوا چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ دونوں لڑکیاں سفید فام اور قبول صورت تھیں۔ اچانک ایک ویٹر میجر داراب کی میز کے قریب آکر نہایت ادب سے جھکا اور آہستہ آہستہ کچھ کہنے لگا۔ لڑکیاں خاموش ہو گئیں ۔ حمید نے مینجر داراب کو اُٹھ کر جاتے دیکھا۔ وہ اس دروازے سے منیجر کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا جو ہال میں کھلتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اُس کی کوئی ٹیلیفون کال رہی ہو۔
ابھی رقص شروع ہونے میں دیر تھی اور زیادہ تر لوگ ہال ہی میں تھے۔ کبھی کبھی ریکر کمیشن ہال کی طرف سے موسیقی کی ایک لہر آتی اور پھر سکوت طاری ہو جاتا۔ شاید آپریٹر مائک شٹ کر رہا تھا۔ حمید بہت مغموم نظر آرہا تھا۔ لڑکیوں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر گفتگو میں مشغول ہو گئیں۔ اتنے میں ویٹر پھر ان کی میز کے قریب آکر بولا۔
صاحب کسی ضروری کام سے باہر تشریف لے گئے ہیں۔ آپ کے لئے کہا ہے کہ آپ یہیں تشریف رکھیں گی !"
’’اوہ ...ٹھیک... جاؤ!‘‘ایک لڑکی بولی پھر اس نے دوسری کی طرف جھک کر آہستہ سے کچھ کہا اور دونوں بے ساختہ ہنس پڑیں۔ حمید نے بھی قہقہ لگایا اور جیسے ہی لڑکیوں نے اُس کی طرف دیکھا اُس نے گویا اپنے قیقے میں بر یک سالگا دیا اور کچھ پشیمان سا بھی نظر آنے لگا۔ لڑکیاں چند لمحے اُسے تفصیلی نظروں سے دیکھتی رہیں پھر انہوں نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔
حمید بوکھلائے ہوئے انداز میں اٹھا اور ان کی میز کے قریب جا کر بولا ۔ " میں معافی چاہتا ہوں!‘‘
لڑکیوں نے پھر سے گھور کر دیکھا اور حمید ہکلا یا۔’’ ایک بے وقوف آدمی سمجھ کر معاف کر دیجئے ۔ میں دوسروں کو پتے دیکھ کر خود بھی بنے لگتا ہوں ۔ جو لوگ مجھ سے واقف ہیں فورا معاف کر دیتے ہیں ! ‘‘
’’تم ایسے ہو، اِسی لئے اپنی میز پر تنہا نظر آرہے ہو! ‘‘ایک لڑکی نے کہا۔
’’ نہیں اس کی وجہ تو دوسری ہے !‘‘ حمید ایک کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔
ایک لڑکی کی آنکھوں میں احتجاج تھا لیکن دوسری بدستور مسکراتی رہی بلکہ حمید یہ بھی دیکھا کہ اس نےاُس لڑکی کو آنکھ ماری تھی ۔
’’تم شاید شیری پیتی ہوا !‘‘اُس نے دوسری لڑکی سے کہا۔ ایک لحہ خاموش رہی پھر بولی ۔" میں پورٹ پیتی ہوں !“
حمید نے ویٹر کو اشارے سے بلا کر پورٹ اور شیری کے لئے کہا اور اپنے لئے کافی منگواہی رہا تھا کہ ایک لڑکی بولی ۔ واہ ...تم کافی پیو گے نہیں، یہ غلط ہے ۔ ویٹر لا رج و اہسکی اور سوڈایا جو یہ پسند کریں!‘‘ ’’
’’لارج و اہسکی اور سوڈا !‘‘حمید شیخی میں آکر بولا ۔ اُس نے سوچا ایک آدھ پک میں کیا بگڑے گا ۔ انکار کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ یہ لڑکیاں اُسے بالکل ہی چند کجھ کر دھتکار دیں ۔ اگر فریدی نہ کہتا تب بھی اسے کم از کم ایک ساتھی کی ضرورت یقینا محسوس ہوتی ۔
مگر جب دور شروع ہو جائے تو معاملہ ایک ہی آدھ پک تک محدود نہیں رہتا۔ لڑکیاں عادی معلوم ہوتی تھیں کر مید اناڑی تھا۔ اس نے شاید زندگی میں دودی چار بار شراب پی تھی اور ہر موقع پر کھوپڑی سے باہر ہوگیا تھا۔
چنانچہ آج بھی یہی ہوا اور پھر کھوپڑی سے باہر ہونے کے بعد کہاں کی لڑکیاں اور کہاں کا رقص ۔ حمید نے آگے پیچھے جھول کر کہا۔
میں ...جھولا ...جھولوں... گا!‘‘"
پہلے بل ادا کر دو!‘‘ ایک لڑکی بولی۔
حمید نے جھلا کر جیب سے پرس نکالا اور اسے میز پر پٹخا ہوا بولا " کیا غریب بجھتی ہو مجھے... میں لِسل...لسلی براؤن ہوں...ہاں!‘‘
’’ہا ئیں ...میں ...بھی ...میں بھی ...!‘‘حمید اُٹھتا ا ہوا بولا اگر وہ اتنی دیر میں ہال سے نکل چکی تھیں۔ حمید نے تریب سے گزرنے والے ایک ویٹ کی گردن پکڑلی۔
جی صاحب !‘‘ ویٹر بوکھلا گیا۔ یہاں کے سارے ویٹر حمید کو پہچانتے تھے۔
مینجر کو بھیج دو۔ میں شعرسننا چاہتا ہوں!‘‘ ’’
اچھا ...صاحب!‘‘
حمید نے اُس کی گردن چھوڑتے ہوئے کہا۔ " اگر تم اسے نہ لائے تو ...میں تمہیں جہنم میں پہنچا دوں گا!‘‘
شامت اعمال کہ مینجر خود ہی کسی کام سے اُدھر آ نکلا تھا ۔ اس نے حمید کو ویٹر کی گردن پکڑتے دیکھا اور قریب قریب دوڑتا ہوا اس کی میز کی طرف آیا۔
’’یہ کیا کر رہے تھے آپ؟‘‘ وہ ہانپتا ہوا بولا ۔
ہائے ...تم آگئے... مری جان... باٹھو ...باٹھو!‘‘
نہیں میرے پاس وقت نہیں ہے! "
نہیں بیٹھنا پڑے گا !" حمید نے اُسے جھنجھوڑ کر زبر دستی بٹھا دیا۔
’’ ارے ارے ...یہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔ ہا ئیں!"
’’مجھے اشعار سناؤ ...مری جان ...!‘‘حمید جُھک کر اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
میں اس وقت آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ آپ نئے میں ہیں !"
تم کتےّ کے پلے ہو۔ مجھے شعر سناؤ!‘‘"
آپ میری تو ہین کر رہے ہیں!‘‘
حمید نے میز پر جھک کر اسے دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا تھا اور منیجر اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کے آس پاس قیقے ہی قہقہے تھے۔ ویسے چونکہ وہاں اونچے ہی طبقے کے لوگ آتے تھے اس لئے ہر بونگ صرف اسی میز تک محدود رہی۔ ابھی یہ دھینگا مشتی کسی فیصلہ کن منزل پر نہیں پہنچی تھی کہ میجر داراب آ گیا۔ یہ سیاہ سوٹ میں ملبوس تھا اور ڈیلا ہونے کی وجہ سے غیر معمولی طور پر دراز قد معلوم ہو رہا تھا ۔ وہ چند لمحے انہیں حیرت سے دیکھتا رہا پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر میز کے قریب پہنچ گیا۔
’’یہ میز میرے لئے مخصوص تھی!‘‘ اس نے سرد لہجے میں منیجر سے کہا۔
اب آپ دیکھ رہے ہیں جناب میجر صاحب۔ یہ نشے میں ہیں!‘‘ مینجر ہانپتا ہوا بولا ۔ " میں ان سے یہی کہنے آیا تھا کہ یہ میجر صاحب کی میز ہے!‘‘
کون ہے؟'' میجر داراب نے حقارت سے پوچھا۔
’’کیپٹن حمید!‘‘
کیپٹن حمید... میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ! ‘‘داراب غرایا۔
خاموش رہو۔ کیچوے... ورنہ میں تمہیں دفن کر دوں گا !" حمید تن کر کھڑا ہو گیا۔
’’دیکھا میجر صاحب !‘‘منیجر ا چھیل کر ایک طرف بیٹھا ہوا بولا ۔ " دیکھا آپ نے ؟ ان حضرت نے کلب کو کباڑخانہ بنارکھا ہے۔ زبر دست ٹھہررے۔ اب آپ سے بھی بدتمیزی فرمارہے ہیں۔ خدا ان پولیس والوں سے سب کومحفو ظ رکھے...آمین ...بقول شاعر!‘‘
حمید نے اُس کی گردن چھوڑتے ہوئے کہا۔ " اگر تم اسے نہ لائے تو میں تمہیں جہنم میں پہنچا دوں گا!‘‘
شامت اعمال کہ میجر خود ہی کسی کام سے اُدھر آ نکلا تھا ۔ اس نے حمید کو ویٹر کی گردن پکڑتے دیکھا اور قریب قریب دوڑتا ہوا اس کی میز کی طرف آیا۔
یہ کیا کر رہے تھے آپ وہ ہانپتا ہوا بولا ۔
ہائے تم آگئے مری جان ہاتھو ہاتھو!‘‘
نہیں میرے پاس وقت نہیں ہے " نہیں بیٹھنا پڑے گا " حمید نے اُسے جھنجھوڑ کر زبر دستی بٹھا دیا۔ ارے ارے یہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔ ہا ئیں!" مجھے اشعار سناؤ مری جان حمید مھک کر اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔ میں اس وقت آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ آپ نئے میں ہیں !"
" تم کتّے کے پلے ہو۔ مجھے شعر سناؤ!‘‘"
آپ میری تو ہین کر رہے ہیں!‘‘
حمید اور دار اب ایک دوسرے کو خوانوار نظروں سے گھور ہے تھے ۔ اچا نک داراب بڑی پھرتی سے جھکا اور حید کو اپنے بازوں میں جکڑ کر دہی اٹھایا۔ اس کی ہر راستے مورے ے کم نہیں تھی۔ وہ بہت زبالا تھا۔ اس کے چھرے کا ہر وقت مردانی کی چھائی رہتی تھی۔ گال پچکے ہوئے تھے اور انہیں اندر کونسی ہوئی تھیں۔ وہ کسی زندہ آدی کا چہر نہیں معلوم ہوتا تھا۔ پر بھی اس نے عید کیسے آبی ایل آری ٹھایا تھا اور جید اس کی گرفت میں اس طرح ہاتھ ہی مر رہا تھا جسے کوئی تھا سانچہ کسی جانے کی گود سے اترنے کی شش کر رہا ہو۔
سنسان سڑک
وہ اسے اسی طرح اٹھائے چلتا رہا۔ سارا ہال قہقہوں سے گونج رہا تھا او حمید کانشہ وہ تو کبھی کا یوں ہو چکا تھا۔ میجر داراب نے برآمدے میں بھی کر اسے آہستہ سے اتار دیا۔ اب تم گھر جاسکتے ہوا' اس نے سرد لہجے میں کہا۔ " اگر کھوپڑی پر کنٹرول نہیں رہتا تو پینے کیوں ہو!‘‘ حمید کی مٹھیاں بھی گئیں لیکن قبل اس کے کہ وہ کوئی اقدام کرنا میجر دار اب ایا یہاں پر گھوما اور ہال میں چلا گیا ۔
وہاں سبھی نشے کی ترنگ میں تھے اس لئے کسی نے بھی یہاں تک آنے کی رحمت نہیں گوارا کی تھی، بس اپنی جگہوں پر بیٹھےبنہستے رہ گئے تھے۔
حمید آہستہ آہستہ میجر کے کمرے کی طرف چلنے لگا۔ اس کی حالت ابتر تھی۔ سارا اس دور رخصت ہو گیا تھا۔ اسکی بے عزتی سے بھی اس کا سابقہ نہیں پڑا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ خبر پر لگا کر سارے شہر میں اڑتی پھرے گی ۔ ہو سکتا ہے کہ اخبارات بھی زہر اگلیں۔ انہیں تو بس پولیس آفیسروں کے خلاف کچھ لکھنے کا بہانہ مل جانا چاہتے۔ دو چتی ہٹا کر میجر کے کمرے میں داخل ہو گیا ۔ کمرہ خالی تھا ۔ وہ ایک آرام کرسی میں گر گیا۔ اس کے چہرے پر پینے کی بوندیں تھیں اور آنکھیں سرخ ۔ سانسیں چڑھی ہوئی تھیں۔ وہ تقریبا ایک منٹ تک اسی طرح چار ہا پھر اٹھنے کا ارادہ کر رہاتھا کہ میجر کمرے میں داخل ہوا لیکن وہ دروازے ہی کے قریب رک گیا تھا۔ اچانک وہ شور مچانے والے انداز میں کہنے لگا۔ " زیادتی آپ ہی کی تھی جناب! آج آپ نے میری بہت سے موتی کی ہے۔ میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں ۔ آپ مجھ پر ظلم کرتے ہیں!‘‘
حمید سیدھا بیٹھتا ہوا آہستہ سے بولا ۔ " مجھے افسوس ہے!"
مینجر ہکاّہ بکاّرہ گیا ۔ اسے حمید سے اس رویہ کی توقع نہیں تھی۔ شاید وہ سجمھا تھا کہ حمید ،میجر داراب کا غصہ اس پراتارے گا ۔
’’دیکھئے نا کپتان صاحب ! ‘‘وہ آگے بڑھ کر ناصحانہ انداز میں کہنے لگا۔ ’’آپ اب بہت بڑی ہر نام کے مالک ہیں۔ آپ کو ہر وقت اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔ آپ بعض اوقات عام آدمیوں کی سی حرکتیں کرنے لگتے ہیں ۔
حمید کچھ نہ بولا ۔ منیجر کہتا رہا۔ " اب آپ خود سوچئے ۔ اس وقت یہ بات کہاں تک پھیلے گی !‘‘
’’ ہاں... آں ...تم اپنا کام کرو!‘‘حمید نے ہاتھ ہلا کر کہا۔ " میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھوں گا ! "
’’ آپ زندگی بھر یہیں بیٹھے ...مجھے خوشی ہوگی مگر آپ کی رسوائی مجھے گراں گزرے گی۔ میں اتنی قدر کرتا ہوں آپ کی!‘‘
’’اب یہ گراموفون بند کر دیا باہر چلے جاؤا " حمید غرایا۔
منیجر چپ چاپ اپنی کرسی پر جا بیٹھا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ منیجر نے ریسیور اٹھالیا۔ پھر حمید کی طرف کی کر بولا ۔ " آپ کا فون ہے۔
’’ہیلو! حمید اسپیکنگ ! ‘‘حمید نے ریسیور لے کر ماؤتھ پیس میں کہا۔
’’اب مجھے اپنی شکل نہ دکھانا سمجھے !‘‘دوسری طرف سے فریدی کی تفصیلی آواز آئی۔ بہت بہتر حمید نے جھلا کر کہا اور ریسیور کریڈل میں شیخ کر پھر اُسی کرسی میں آگرا ۔ شراب کا اثر تو ابھی باقی ہی تھا۔ دماغ میں گرمی تھی۔ خون جوش کھا رہا تھا۔ اُسے فریدی پر غصہ آگیا
اور سوچنے لگا کہ کل ہی اپنی پہلی فرصت میں استعفیٰ دے دے گا مگر یہ رات کہاں بسر ہوگی ... اس نے سوچا کیوں نہ قاسم ہی کے گھر چلا جائے۔
یہ سوچ کر وہ باہر نکلا ۔ اس وقت دوبارہ ہال میں جانا ممکن نہیں تھا۔ بے خیالی میں وہ اس طرف چل پڑا ہوا۔ کار کھٹڑی کی تھی مگر کا روہاں موجود نہیں تھی ۔ شاید فریدی اُسے لے گیا تھا۔ وہ کمپاؤنڈ سے باہر نکلا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک دوا فروش کی دکان سے قاسم کو فون کر رہا تھا۔
ہیلو! ‘‘دوسری طرف سے ایک نسوانی آواز آئی۔
میں حمید ہوں ۔ قاسم ہے گھر پر !"
میں سلیمہ ہوں۔ کہئے حضرت خوب غائب ہوئے!‘‘ ’’
’’بہت مشغول تھا۔ ذرا قاسم کو فون پر بلائیے!‘‘
"! ٹھہر ہے ... ایک منٹ
حمید انتظار کرتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد آواز آئی ۔ " واؤں ... واؤں ... ہالو... میں ... واؤں دادی خانا خار ہا ہوں ... ہالو!‘‘ ..."
قاسم ! ‘‘حمید نے کہا۔ " میں رات تمہارے یہاں بسر کرتے آرہا ہوں!‘‘
ئیں .. واؤں .. واؤں ... قیا مطالب!‘‘ ’’ہا
بس یونہی گھر نہیں جانا چاہتا!‘‘ ’’
’’ہاچھا... آجاؤ... آجاؤ ... واؤں ...واؤں ا ضا وری آجاؤ ایک ضروری بات کرنی ہائے... واؤں!‘‘
حمید نے ریسیور رکھ دیا۔ باہر آ کر ایک جیسی کی اور قاسم کی کوٹی کی طرف روانہ ہوگیا۔ سردی بہت زیادہ تھی اور آج ہوا بھی بہت تیز تھی۔ شراب کا اثر بھی زائل نہیں ہواتھا۔ ٹھنڈی ہوا لتے ہی سید کی پلکی بھاری ہونے لگیں۔ اس نے پائپ میں تمبا کو بھری اور پشت گاہ سے ایک لگا کر ہلکے ہلکے کش لینے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر فریدی نے اسے میجر داراب کے پیچھے کیوں لگایا تھا۔ اتنا اسے معلوم تھا کہ سعید بابر نے اپنے ہم شکل بھائی کے سلسے میں داراب کا تذکرہ کیا تھا۔ اس کے پہلے ڈرافٹ پر میجر داراب ہی نے تصدیق کی تھی اور لائنڈ بینک میں اس کا اکاؤنٹ بھی اسی کی سفارش پر کھولا گیا تھا مگر کم از کم داراب کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ وہ تین ہزار روپے ماہوار پر اپنی نیت خراب کر بیٹھتا ۔ وہ لاکھوں میں بھی نہیں کروڑوں میں کھیلتا تھا۔ اس کے لئے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی رقم اپنی کشش نہیں رکھ سکتی تھی کہ وہ اس کے لئے ایسی پر اسرار وارداتیں کرتا ۔ مگر فریدی نے تو اس کی لڑکیوں میں سے ایک کے ساتھ رقص کرنے کو کہا تھا۔ مقصد جو کچھ بھی رہا ہو۔ حمید کو سب سے زیادہ حیرت اس لاش نما آدمی کی طاقت پرتھی۔ اس نے اسے پھول کی طر اُٹھا لیا تھا۔
حمید کو ایک بار پھر اُس پر غصہ آگیا اور اس نے ایک بہت بڑی قسم کھائی کہ وہ اس سے اپنی توہین کا بدلہ ضرور لے گا۔
حمید نےٹیکسی کمپاؤنٹر میں لے جانے کے بجائے پھانک ی پر رکوادی کیونکہ قام چھان کی پٹہل رہاتھا۔ اس کے ساتھ سیلیہ بھی تھی۔
میں نہیں تم سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں ! قاسم نے کہا۔ گھر میں کھیلا ہو جائے گا
" کیا بات ہے....؟"
’’یہ سالا ...سعید بابر ...مصیبت ہو گیا ہے " قاسم نے کہا اور سلمہ کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ہاں ، یہ آدمی خطر ناک معلوم ہوتا ہے۔ نہ جانے کیوں میں ایسا محسوس کرتی ہوں ۔ وہ بظاہر یدا خوش اخلاق ے گر کوئی چیز نہ جانے کیا چیز ہے اس میں جس کی بنا پر اس سے خوف معلوم ہوتا ہے !"
مگر دو تم لوگوں کے لئے کیوں مصیبت ہو گیا ہے!‘‘
’’مگر میں نہیں پسند کرتا!‘‘
کیا نہیں پسند کرتے ؟"
اس کی اور راحلہ کی دوستی ۔ وہ دن میں کئی بار آتا ہے۔ دونوں میں سر پوشیاں ہوتی رہتی ہیں!‘‘
سرپوشیاں ... کیا؟‘‘
’’سر پوشیاں نہیں جانتے " قاسم نے قہقہ لگایا۔ ’’بڑے قابل بنتے ہو ۔ کان پکڑ دتو بتا دوں !"
حمید نے ہاتھ بڑھا کر قاسم کا کان پکڑ لیا اور قاسم مسکرا کر بولا ۔’’ ٹھیک ہے ....سر پوشیاں ....وہی آہستہ آہستہ باتیں کرنا !‘‘
سلیمہ بے تحاشہ ہنس پڑی۔
ابے سرگوشیاں لمڈھگ!‘‘
ہاں اتم نے میرا کان پکڑ رکھا ہے " قاسم اس کا ہاتھ جھٹکا ہوا بولا ۔ دھو کے بارہ میں نے تم سے اپنا کان پکڑنے کو کہا تھا!‘‘
ایک ہی بات ہے حمید نے کہا پھر وہ سلیمہ سے بولا ” کیا آپ کو بھی ان دونوں کا ملنا نا گوار ہے؟" میں نے صرف یہ کہا تھا کہ باہر جو کچھ نظر آتا ہے حقیقتادہ نہیں ہے!" آپ کے پاس کوئی ثبوت بھی ہے یا یہ محض قیاس ہےمیں محسوس کرتی ہوں!‘‘
ان سے زیادہ میں محسوس کرتا ہوں ! قاسم بولا ۔ " اس سالے کو مرغا بنانا چاہئے۔ تم نے دیکھا نہیں وہ کتنا کمینہ ہے۔ اُس بے چاری پہلی براؤن کو ساتھ لایا اور یہاں آکر کہہ دیا کہ میں تو اسے پہنچا ستاری نہیں “ السلمی براؤن " حمید نے تصحیح کی ۔
’’میرے لینے سے ، وہ کوئی براؤن ہو۔ میں تو یہ کہ رہا تھا کہ وہ بڑا کمینہ آدمی ہے؟" دفعته حمید کو خیال آیا کہ اُسے نسلی براؤن کے متعلق ہا بر کو فون کرنا چاہئے ۔ اس نے بتایا کہ وہ خود سعید با بر کو ٹھیک کرنے کے چکر میں ہے۔ قاسم کی چھت کے نیچے رات بسر کرنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ قاسم کی ہاں میں ملائے۔
قاسم نے مزید سوالات نہیں گئے ۔ وہ تھوڑی دیر بعد منے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ سلمہ، حمید کے ساتھ ہی رہی۔ ساتھ ہی وہ دونوں اس کمرے میں آئے جہاں فون تھا۔ حمید نے سعید باہر کے نمبر ڈائل کئے ۔ وہ گھری پر موجود تھا۔ اُس نے اُسے وہ بڑی خبر سنائی اور سعید باہر گرجنے لگا ۔ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا ۔ اب بتائیے امیں ناظم الامور کے دفتر کو کیا جواب دوں گا ؟‘‘
آپ نہایت اطمینان سے اس کا سارا بار یہاں کے محکمہ سراغرسانی پر ڈال سکتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہاں کے محکمہ سراغرسانی کے ساتھ فراڈ کیا گیا ہے۔ لہذا ....!"
’’سب جہنم میں جائے !‘‘دوسری طرف سے آواز آئی۔ لسلی مجھے واپس ملنی چاہئے ۔ وہ نسلی براؤن جو میرے ساتھ آئی ہے!"
" آپ پروانہ کیئے !‘‘ حمید نے کہا۔ " اس کا اس طرح غائب ہو جانا آپ کے حق میں بہت اچھا ہوا ہے !"
’’میرے حق میں کیا اچھا ہوا ہے ؟ ‘‘سعید غرا یا۔
مہحکمہ سراغرسانی آپ کے معاملے میں پوری طرح دلچسپی لینے لگے گا۔ ویسے اسے اس فقیر سے کوئی دلچسپی نہ " دوسری طرف سے کوئی آواز نہ آئی۔ حمید نے کہا۔ "ہیلو!" میں دوسری طرف سے آواز آئی ۔ ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر میری وہ رپورٹ کہ میری زندگی یہاں نظرے میں ہے اس کے لئے آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ بہت کچھ کر رہے ہیں آپ مطمئن رہے " حمید نے کہا اور جواب کا انتظار کے بغیر ریسیور رکھ دیا۔ سلیمہ نے پوچھا۔ " کیا وہ لڑکی آپ کے ساتھ تھی ؟"
’’ ہاں !میں اُسے ہیڈ کوارٹر نے جارہا تھا۔ راستے میں وہ دھوکا دے کر نکل گئی !‘‘
یہ لیسلی براؤن والا واقعہ کیا حیرت انگیز نہیں ہے؟ ‘‘سلیمہ نے کہا۔
اپنے لئے کچھ بھی حیرت انگیز نہیں ہے ! ‘‘حمید نے مسکرا کر کہا۔ " میری زندگی کا حیرت انگیز دن وہ ہو گا جب کوئی لڑکی مجھ سے شادی کرنے پر آمادہ ہو جائے گی ! ‘‘
’’مگر اس دن آپ مغموم بھی ہوں گے ! ‘‘سلیمہ بولی۔ " کیونکہ کوئی زندہ لڑکی تو آپ سے شادی کرنےسےب رہی!‘‘
میرے لئے یہ موضوع بہت زیادہ المناک ہے۔ اس لئے اسے نہیں ختم کر دو!‘‘
فریدی کی کار تاریکی کا سینہ چیرتی ہوئی سنسان سڑک پر تیرتی رہی ۔ لیڈی انسپکٹر ریکھا اس کے برابر بیٹھی ہوئی اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ رہی تھی۔ اُس نے کچھ کہنے کے لئے ہونٹ کھولے اور پھر بند کر لئے ۔ فریدی کی نظر ونڈ ٹینڈ پر تھی۔ اچانک وہ بولا۔
’’ہماری یہ مہم خطر ناک بھی ہو سکتی ہے اس لئے میں تمہیں ساتھ لانے سے احتراز کر رہا تھا !"
’’ آپ فکر نہ کیجئے ۔ اس کی تمام تر ذمہ داری خود مجھ پر ہے۔ آپ بتائیے کیا صرف فائلوں میں سرکھپانے سے آگے بڑھ سکوں گی ! ‘‘
’’اگر تم صرف تعاقب کرنے کے آرٹ پر زور دوتب بھی تمہارا مستقبل محفوظ ہی ہوگا۔ میں اس وقت جس مہم پر چار ہا ہوں وہ کم از کم کسی عورت کے بس کی نہیں!‘‘
آپ کہاں جار ہے ہیں؟“
’’بالی کیمپ۔ وہاں ایک آدمی رہتا ہے جس تک پہنچنے کے لئے کافی دشواریوں کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تھوڑی سی ورزش بھی کرنی پڑے۔
ورزش کا مطلب قائما تم سمجھتی ہی ہوگی ۔ نہیں میں تمہیں وہاں تک ہوگا نہیں لے جاؤں گا ۔ تم چڑھائی والے ہوٹل میں میرے فون کا انتظار کرنا ۔ ہوسکتا ہے کہ میں تمہیں فون کرنے کی ضرورت محسوس کروں ۔ ہو سکتا ہے کہ بات بڑھ جائے اور بالی کیمپ کے تھانے سے مدد طلب کرنی پڑے۔ تم یہ کام وقت پر انجام دے سکو گی !"
’’اگر وہ ایسی ہی خطرناک جگہ ہے تو آپ وہاں تنہا کیوں جائیں ؟‘‘
’’ یہ بہت ضروری ہے۔ تنہا گئے بغیر اس آدمی کو تلاش کر لینا آسان کام نہ ہوگا۔ میں دراصل ابھی تک ان نشانات کو نہیں سمجھ سکا جو سعید بابر کی کپاؤنڈ میں ملے تھے۔ وہ کسی جانور کے پیر کا نشان تو ہر گز نہیں ہو سکتا۔ مجھے یقین ہے مگر اُسے کسی آدمی کے پیر کا نشان سمجھنے میں دشواری پیش آئے گی۔
اسے کسی آدمی کے پیر کا نشان رکھنے میں مجھے نال ہے ہو سکتا ہے۔ دو نشان محض دھوکا ہی ہو۔ میں نے آپ ہی کے کسی کیس میں پرندوں کے پنجوں کے نشانات کے متعلق پڑھا تھا مگر وہ جوتوں کے تلے میں لگے ہوئے خاص قسم کے فعلوں کے نشانات ثابت ہوئے تھے!‘‘
ہو سکتا ہے۔ میں بات ہوا " فریدی نے کہا۔ " وہ کسی جوتے کے سول کے نشانات بھی ہو سکتے ہیں مگر اتنے چوڑے جوتے بھی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ انگلیوں کے نیچے کے ابھار کی چوڑائی تقریبا سات انچ تھی۔ چلو میں یہ بھی مائے لیتا ہوں کہ وہ اتنے ہی چوڑے جوتے ہوں گے لیکن پہننے والے کے نیچے اپنے چوڑے ہر گز نہیں ہو سکتے ۔ جب پنجے اتنے چوڑے نہیں ہو سکتے تو پورے سول پر یکساں دباؤ ہر گز نہیں پڑ سکتا۔ جب یکساں دباؤ نہیں پڑسکتا تو نشان کے بعض حصے یقیناً غیر واضح ہوں گے۔ مگر ہمیں ایک نشان بھی ایسا نہیں ملا جس کا کوئی حصہ غیر واضح ہوں گے لیکن پہننے والے کے نیچے اتنے چوڑے ہر گز نہیں ہوسکتے ۔
ریکھا چند لمحے خاموش رہی پھر بولی ۔ " مگر آپ بالی کیمپ میں اس کے متعلق... !"
ہاں ! میں اس کے متعلق وہاں معلومات فراہم کرنے کی توقع رکھتا ہوں۔ تمہیں چڑھائی والے ہوٹل میں چھوڑ دوں گا!‘‘
’’مگر آج حمید صاحب کہاں ہیں ؟"
’’وہ ایک دوسرا کام انجام دے رہا ہے ! فریدی نے نا خوشگوار لہجے میں کہا۔
لجے کی تلخی ریکھا نے محسوس کرلی اور اس قسم کے سوالات کرنے لگی جن کے جواب ہی سے وہ اس تخلیی کی تہہ تک پہنچ جائے لیکن فریدی سے کچھ معلوم کر لیتا آسان کام نہیں تھا۔ حمید والے واقعے کی تشہیر وہ نہیں چاہتا تھا اس لئے اس نے پہلے ہی انتظام کر لیا تھا کہ اس کی خبر اخبارات میں نہ آنے پائے۔ ریکھا کے سوالات کے جواب ایسے نہیں تھے جن سے وہ واقعات کا اندازہ کرسکتی ۔ پھر دہ خاموش ہوگئی۔ اچانک کار کی داہنی سمت سے ایک تیز رفتار موٹر سائیکل نکی اور ٹھیک کار کے سامنے دوڑنے لگی ۔ کار سے اس کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ دس گز رہا ہوگا۔ فریدی نے چاہا کہ اپنی کا رداہنی طرف سے آگے نکال لے جائے لیکن اس کی کاری ہیڈ لائن کا ڈائرکشن بدلتے ہی موٹر سائیکل بھی اسی سمت لہرائی ۔ فریدی نے ہارن دیا لیکن نتیجہ کچھ لگا۔ موٹر سائیکل اب بھی سامنے ہی تھی ۔ فریدی نے بائیں جانب سے لکھنا چاہا لیکن اس بار بھی وہی واقعہ پیش آیا۔ بالکل گدھا ہے کیا ریکھا بڑ بڑائی۔
نہیں ۔ شاید میں گدھا بنے والا ہوں ۔ ٹارچ اور ریوالور سنبھالنا!‘‘ ’’
خطرہ !‘‘ریکھا بڑبڑائی ۔
یقیناً اب اس کی رفتار بھی کم ہوتی جارہی ہے ۔ یا تو مجھے رفتار کم کرنی پڑے گی یا کار روکنی پڑے گی " پر فریدی نے عقب نما آئینے کی طرف دیکھا مگر پیچھے سڑک سنسان پڑی تھی ۔ نزدیک یا دور کہیں بھی کسی کار کی بیڈ لائٹس نہیں دکھائی دے رہی تھیں ۔
کیا قصہ ہے؟" فریدی بڑبڑایا۔
کیا میں اس کے پچھلے پہیئے پر فائر کروں؟" ریکھا نے پوچھا۔
نہیں ، یہ کام میں ہی کروں گا!‘‘
"! کیسے کیجئے گا"
’’دیکھو ایتا تا ہوں ....مگر ٹھہرو۔ میں ایک بارا ُسے متنبہ کردوں !"
پھر فریدی نے بیچ کر کہا۔ " اگر تم مرناہی چاہتے ہو تو اب کا ر میرے قابو سے نکلتی ہے!" لیکن موٹر سائیکل سوار کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ آخر فریدی نے جھلا کر رفتار بڑھائی لیکن موٹر سائیکل والا بھی غافل نہیں تھا۔ ساتھ ہی موٹر سائیکل کی رفتار بھی تیز ہوگئی۔ اب بھی دونوں کے درمیان پہلے ہی کا سا فاصلہ تھا۔ فریدی نے کوٹ کی جیب سے ریوالور نکالا۔ اس کا ایک ہاتھ اسٹیرنگ پر تھا۔ ربع الور کو گود میں ڈال کر داہنی طرف کی کھڑکی کا شیشہ گرانے لگا اور ریکھا کانپ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح فائر کرے گا ۔ ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پر ہوگا دوسرے سے وہ فائر کرے گا۔ اس کے لئے اُسے کھڑکی کی طرف اتنا جھکنا پڑے گا کہ اسٹیئرنگ والا ہاتھ بہک بھی سکتا ہے لیکن وہ کچھ بولی نہیں کیونکہ فریدی نے روانگی کے وقت ہی اس مہم کے خطرناک ہو جائے کے امکانات ظاہر کئے تھے۔ مقصد یہی تھا کہ ریکھا اُس کے ساتھ نہ جائے۔ فریدی نے ریوالور والا ہا تھ کھڑکی کے باہر نکالا ۔ موٹر سائیکل سوار سمیت کار کی اگلی روشنی میں نہائی ہوئی تھی۔ فریدی کھڑکی کی طرف جھکا مگر ریکھا کی نظر اسیر رنگ پر رکھے ہوئے ہاتھ پر تھی۔ اچانک فریدی کے منہ سے جلکی کی کرا و گلی اور کار ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی۔ ریکھا کا سرڈیش بورڈ سے جا کرایا۔ فریدی نے پورے بریک لگائے تھے۔ موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی آگے نکل گئی۔ فریدی کا راہنا ہاتھ اب بھی کھڑکی کے باہر ہی تھا اور وہ کسی چیز کو باہر کی طرف ڈکھیلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’انجن بند کرو!‘‘اُس نے ہانپتے ہوئے کہا۔
ریکھا بوکھلا گئی ۔کار کے اندر اندھیرا تھا۔ بہر حال اُس نے بڑی پھرتی سے انجن بند کیا۔
’’روشنی فریدی نے جھلائی ہوئی آواز میں کہا۔ ریکھا کی ٹارچ اُس کے زانوں کے پاس ہی پڑی تھی ۔اُس نے کھڑکی میں اُس کی روشنی ڈالی اور دوسرے ہی لمہے میں اُس نے منہ سے ہلکی چیخ نکل گئی۔ فریدی کی داہنی کلائی ایک خوفناک کتّے کے جبڑوں میں تھی۔ فریدی نے بائیں ہاتھ سے اس کے سر پر ایک گھونسہ رسید کیا اور غراتا ہوا دوسری طرف پلٹ گیا۔اس پر پوری طرح روشنی پڑ رہی تھی ۔یہ ایک غیر معمولی طور پر دراز قد کتّا تھا ۔رنگت سیاہ تھی۔
جسم کی بناوٹ گرے گراؤنڈ کی سی تھی....سر پر تین سفید دھاریاں تھیں ۔کتّے نے ایک بار پھر چھلانگ لگائی اور آدھے دھڑ سے کھڑکی میں گھس آیا ۔ریکھا پھر چیخی۔
اس بار فریدی نے اُسے باہر ڈکھیل دیا۔
’’تمہارا بستول ۔ٹارچ جلاؤ!‘‘
ریکھا نے پھر ٹارچ روشن کی۔بد قت تمام بلاؤزکے گریبان سے بستول نکالا۔اس دوران میں فریدی نے کھڑکی کا شیشہ چڑھا دیا۔کتّا اُچھل اُچھل کر نیچے ماررہا تھا۔فریدی نے شیشہ تقریباً ایک انچ نیچے کھسکا یا اور پستو ل سے کتّے پر فائر کردیا مگر اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ کتّا بڑی پھرتی سے خود کو بچا گیا۔ اس نے دوسرا فائر کیا لیکن اس بار بھی کامیابی نہیں ہوئی ۔تیسرے فائر پر کتّے نے سڑک کے کنارے کی جھاڑیوں میں چھلانگ لگادی ۔ فریدی اُصی سمت دو فائر اور کئے لیکن میں جنبیش تک نہ ہوئی۔
تقریباً دو تین منٹ تک وہ بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔
سارا جنگل جھینگروں کی جھائیں جھائیں سے گونج رہا تھا۔ کبھی کبھی گید ڑوں کی آوازیں بھی فضائی میں اُبھرتی اور دور تک تیرتی چلی جاتیں ۔
’’ہمیں یہیں سے واپس ہونا چاہئیے !‘‘ فریدی نے تھوڑی دیر کے بعد کہا۔’’میرا ہاتھ زخمی ہوگیا ہے ۔مجھے فوراً انجیکشن لینا چاہئیے ۔کتّا غیر معمولی تھا!‘‘
وہ نیچے اتراا ور اپنا ریوالور اٹھا کر پھر کار میں آبیٹھا ۔انجن اسٹارٹ کیا اور شہر کی طرف موڑ نے لگا۔
’’بڑا حیرت انگئیز کتّا تھا!‘‘ اس نے کہا۔’’انتہائی پھرتیلا ۔یقیناً بڑی محنت سے سیدھا یا گیا ہوگا۔ مگر میں نہیں جانتا کہ وہ کس نسل سے ہے!‘‘
’’میں آپ کا ہاتھ دیکھوں!‘‘ریکھا نے کہا۔
’’پروانہ کرو۔اُس کے دانت ہڈیوں تک پہنچ گئے تھے مگر آج تک میری نظر وں سے ایسا تیز رفتار کتّا نہیں گزرا۔گویا وہ ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتا رہا تھا۔ وہ موٹر سائکل اِسی لئے آئی تھی کہ میں کارروک دوں اور کتّا مجھ پر حملہ کر بیٹھے!‘‘
آپ کو تو اس موٹر سائیکل والے کو گولی مارنی چاہئے تھی ہی ہمارے پاس اُسے گولی مارنے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ کیسے تمکن تھا۔ میں نے اس لئے تمہیں فائر نیں کرنے دیا تھا کہ کہیں تیار ہاتھ نہ بہک جائے۔ اس وقت پتہ نہیں وہ مردود کون تھا ؟"
تم نے نہیں دیکھا کہ اس کے چہرے پر سیاہ نقاب تھی ! میں نے نہیں دیکھا تھا ورنہ آپ مجھے اس پر فائر کرنے سے باز نہ رکھ سکتے؟ فریدی کچھ نہ بولا ۔ ریکھا بھی تھوڑی دیر تک خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
آپ کو کچھ اندازہ ہے، وہ کون رہا ہو گا ؟" خدا جانے ۔ میرے ایک نہیں ہزاروں دشمن ہیں مگر اس قسم کا آنا زندگی میں پہلی بار میری نظر سے گزرا ہے!‘‘
آپ کی کلائی سے خون بہ رہا ہوگا ریکھا نے معمول آواز میں کہا۔ مردانہ کرو ۔ میرا جسم خون بہانے کا عادی ہے۔ شاید ہی اس کا کوئی حصہ زخم کے نشان سے خالی ہوا ریکھانے ایک طویل سانس لی اور خاموش ہو گئی۔ کچھ دیر بعد فریدی نے کہا۔ " مجھ پرشی طاری ہو رہی ہے۔ تم ڈرائیو کرو۔ میں جھیلی نشست پر جارہا ہوں۔ تایدا میں بے ہوش ہو جاؤں گا ۔ تم مجھے سیدھے سول ہسپتال لے جانا، پولیس ہسپتال نہیں ، مجھیں " فریدی نے کار روک دی اور پچھلی نشست پر جانے کے لئے اٹھا لیکن دوسرے ہی لمحے میں وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اس کا آدھا دھڑ کار کے پچھلے حصے میں تھا اور پیر اگلی نشست پر۔ ریکھا ہسٹریائی انداز میں اُسے آواز میں دے رہی تھی۔
دوسرا سفر
وہ خطرے سے باہر نہیں ہیں سول سرجن نے اس کمرے میں آکر کہاں جہاں لیڈی انسپیکٹر یکھا اور سارجنٹ میں موجود تھے ۔ دونوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔
کتا حیرت انگیز طور پر زہریلا معلوم ہوتا ہے !‘‘سول سرجن نے پھر کہا۔ ’’میں آئی بی اور ڈی آئی جی کوفون کر چکا ہوں!‘‘
’’خح... خطرے سے ...کک...کیا مراد ہے آپ کی ؟‘‘
’’یعنی ...وہ ...آپ کاساتھ چھوڑ بھی سکتے ہیں !‘‘
نہیں !‘‘رمیش بے اختیار چینی اور کسی بچے کی طرح پھوٹ پڑا۔ اسے اپنے آفیسر سے بہت محبت تھی ۔ آفیسر سے زیادہ ایک بڑا بھائی تھا۔ ریکھا دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
اچانک ایک ڈاکٹر نے کمرے میں آکر کہا۔ ’’وہ ہوش میں آگئے ہیں!‘‘
آہا .!..." سول سرجن یکانت اچھل پڑا۔ تب تو جب تو کوئی خطرہ نہیں ہے !'' اس نے کہا اور تیزی سے دروازے میں مرڈگیا۔ رمیش کی بے ساخت قسم کی سکیاں ابھی تک جاری تھیں لیکن اس نے کسی نہ کسی طرح بر آمدے میں ریکھا کو یہ خوشخبری سنائی ۔ ریکھا بھی وہاں روہی رہی تھی۔
کچھ انہیں دونوں پر منحصر نہیں تھا۔ محلے کا ہر وہ آدمی جو فریدی سے حسد نہیں رکھتا تھا اُسے بے حد چاہتا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں کئی آفیسر وہاں پہنچ گئے ۔ ان میں ڈی آئی جی بھی تھا۔ لیکن حمید اُسے اس کا علم ہی نہیں تھا۔ دیکھانے کئی بار گھر پر فون کیا مگر وہ تو قاسم کے یہاں تھا۔
دوسری صبح اس نے یہ خبر اخبار میں پڑھی لیکن خبر بھی مکمل نہیں تھی ۔ اس جملے پرخبر کا انتقام ہوا تھا کہ دو بچے رات تک کرنل فریدی خطرے سے باہر نہیں تھے ۔ ایک دوسرے اخبار میں لیڈی ریکھا کا بیان کردہ واقعہ بھی موجود تھا۔ حمید پریشان ہو گیا ۔ پہلے اس نے گھر کا رخ کیا پھر وہاں سے سیدھا سول ہسپتال پہنچا۔ کمپاؤنڈ ہی میں اسے معلوم ہو گیا کہ فریدی کی حالت بہتر ہے لیکن حمید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس طرح اُس کے سامنے جائے ۔ فریدی رات بھر موت و حیات کی کشمکش میں رہا تھا اور دو قاسم کے یہاں میٹھی نیند سو یا تھا۔ اُسے شرمندگی تھی ۔ حالانکہ یہ سب کچھ اس کی نادانستگی میں ہوا تھا مگر پھر بھی وہ فریدی کے سامنے جاتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ مگر جانا تو تھا ہی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے پرائیویٹ وارڈ کے اُس کمرے میں قدم رکھا جہاں فریدی تھا موجود تھا ۔ رمیش اور ریکھا بھی جاچکے تھے ۔ ان دونوں نے رات یہیں گزاری تھی۔ اس وقت فریدی بستر کے بجائے آرام کرسی پر تھا مگر اس کے چہرے سے یہ اندازہ کرنا بہت مشکل تھا کہ دو چھلی رات موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہ چکا ہے۔ صرف اُس پئی کے علاوہ جو اُس کی کلائی پر چڑھی ہوئی تھی دید کو اور کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آئی۔
فریدی اسے دیکھ کر مسکرایا اور حمید کے ہونٹ کپکپانے لگے۔
بیٹھ جاؤا " فریدی نے کہا۔ اس کی آواز میں بھی اضمحلال نہیں تھا۔ حمید چوروں کی طرح بیٹھ گیا۔ سمٹایا سمٹایا ہوا سا۔
" تم نے پچھلی رات بہت لہک کر کہا تھا کہ تم اب مجھے اپنی شکل نہیں دکھاؤ گے ! فریدی بدستور مسکراتا رہا۔ حمید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی نظریں فرش پر تھیں۔ فریدی بھی خاموش ہو گیا۔ حمید نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ " میں نے رات قاسم کے یہاں بسر کی تھی ۔ صبح کے اخبار سے مجھے معلوم ہوا!‘‘
’’ہاں !کتّا بہت زیہریلا تھا !‘‘
’’آپ گھر کب چلیں گے ؟‘‘
ا بھی اور اسی وقت ۔ مجھے صرف تمہارا انتظار تھالیکن تم مجھے اس طرح سے چلو گے جسے میں نقل و حرکت سے مجور ہوں!‘‘
کوئی خاص آئیڈیا ! حمید اسے غور سے دیکھنے لگا۔ ہاں اقطعی !"
پھر حمید نے وجہ نہیں پوچھی ۔ فریدی بستر پر جالیا اور حمید باہرنکل کر ایمبولینس گاڑی کا انتظام کرنے لگا۔ چار آری ایک اسٹرکچر لائے ۔ فریدی کو بستر سے اٹھا کر اسٹریچر پرڈالا گیا۔ اس طرح وہ ایمبولینس گاڑی تک پہنچا۔
حمید متحیر تھا کہ آخر فریدی کیا کرنا چاہتا ہے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عدنان نے اخبار میز پر رکھ کر ایک طویل سانس لی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ پھر اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اس کے اندر اضطراب ظاہر ہورہا تھا ۔ اُس نے ایک بار پھر اخبار اٹھا کر کوئی خاص خیر دوبارہ پڑھی اور اخبار کو تو زنا مروڑ تا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔
راہداری میں ایک نوکر سے اُس نے تنویر کے متعلق پوچھا اور یہ معلوم کر کے کہ تنویر لائیبریری میں ہے وہ اُسی طرف چلا گیا۔
تنوی بھی اخبار ہی دیکھ رہی تھی ۔ عدنان کی آہٹ پر چونک کر اسے استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
" تم نے وہ خیر پڑھی تھی ۔ کرنل فریدی کے متعلق ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے تم نے اس رات مجھ سے پوچھا تھا کہ کتّے کے سر پر سفید دھاریاں تو نہیں تھیں ؟‘‘
’’ہوں! تو پھر ! ‘‘تنویر نے اُسے تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اور ہونٹ بھینچ لئے۔
’’کچھ نہیں! کرنل فریدی بڑا شاندار آدمی ہے۔ اگر وہ مرگیا تو مجھے بڑی کوفت ہوگی ۔ ہم دونوں میں یونہی سکول کی جان پہچان ہے۔ ایک بار ہمیں ایک ساتھ شکار کھیلنے ک اتفاق ہوا تھا۔ کیا کہنے میں اس کے نشانے کے۔ خدا ام تو پی لینے ک دل چاہتاہے میں وہ بندر کی طرح پھر تیل لومڑی کی طرح چالاک اور شیرکی طرح نڈر ہے!‘‘
ہوں! تو پھر ؟‘‘
میں اُسے دیکھنے جاؤں گا!‘‘
تم گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکو گے ۔ ویسے اگر نوکروں کے ہاتھوں بے عزتی پسند ہے تو میں کچھ نہیں کہتی!‘‘
ممی !تم مجھے خودکشی پر مجبور کر رہی ہو!‘‘عدنان جھنجلا گیا ۔
میری اجازت کے بغیر تم وہ بھی نہیں کر سکو گے ! ‘‘تنویر نے انتہائی سرد لہجے میں کہا۔
تم مجھے نہیں روک سکو گی ۔ اگر فریدی زندہ ہے تو ہم دونوں مل کر اس کتے کو تلاش کریں گے!‘‘ "
اس سلسلے میں میں کچھ نہیں سننا چاہتی !" تو پھر تم ہی مجھے اس کتےّ کے تعلق کچھ بتاؤ!‘‘"
میں کچھ نہیں جانتی....!‘‘
پھر تم نے سفید دھاریوں کے متعلق کیوں پوچھا تھا ؟‘‘"
یونہی... عدنان !یہاں سے جاؤ۔میں اخبار دیکھ رہی ہوں!‘‘ ’’
’’تم مجھے باہر نہیں نکلنے دو گی کیوں ؟‘‘
تنویر دوبارہ اخبار دیکھنے لگی تھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’میں فریدی کو فون کرنے جا رہا ہوں ...عدنان بولا ۔
دفع ہو جاؤ یہاں سے ! ‘‘تنور نے اخبار سے نظر بنائے بغیر جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
اُس نے کال مل کا بٹن دبایا اور دوسرے ہی لمحے میں ایک باور دی چپراسی اندر آ گیا۔ باڈی گارڈ ز کو یہاں بھیج دو " اس نے اس سے کہا اور پھر اخبار اٹھا کر اُس کی ورق گردانی کرنے لگی مگر اس کے چہرے سے یہ نہیں ظاہر ہو رہا تھا کہ اس نے ابھی کوئی غیر معمولی کام انجام دیا ہے۔
تھوڑی دیر بعد چاروں باڈی گارڈ لائبریری میں داخل ہوئے۔
بیٹھ جاؤا تنویر نے سامنے پڑی ہوئی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا اور اُن کے بیٹھنے تک خاموش رہی۔ پھر بولی۔ " میں عدنان کو یہاں سے بتانا چاہتی ہوں!‘‘
مگر آپ نے فرمایا تھا‘‘ ’’
پوری بات سنو!" تنویر نے بولنے والے کو ڈانٹ دیا۔
ایک لمحے کے لئے وہاں موت کی سی خاموش طاری ہو گئی۔ تنویر کی کرخت آواز دیواروں اور چھت سے کرٹکرا کر یک قسم کی جھنکاری پیدا کرنے لگی ۔ " تم لوگوں کو صرف باتیں بنانا آتی ہیں۔ عملی حیثیت سے صفر ہو۔ تم سے ابھی تک ا نہ ہو سکا کہ سعید با پر کوٹھکانے لگا دیتے " محترمہ اہم تین بار کوشش کر چکے ہیں ! معمر آدمی نے کہا۔ لیکن شاید ابھی اس کے ستارے گردش میں نہیں آئے ؟
کو اس مت کرو۔ تم سب گھتے ہو۔ وہ تو دور کی بات ہے۔ تم سے اتنا نہیں ہوسکتا کہ عدنان ہی کو گرانی میں رکھو۔ اس عمارت میں رہ کر وہ خلاف حکم حرکتیں کر جاتا ہے اور تم آنکھیں بند کے بیٹھے رہتے ہوا محترمہ وہ بھی مالک ہیں !" جب میں اُس کے خلاف کوئی حکم دوں تو اسے میرا بیٹا ہ کھوا تویر آنکھیں نکال کر بولی۔ اب ایسا ہی ہوگا ، معمر آدمی نے کہا۔ " مگر وہ بے تحاشہ ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر اپنے بچاؤ کے سلسلے میں!‘‘
ہم " گستاخی ہو جانے دو!‘‘
تو پھر اب اطمینان رکھئے کہ وہ آپ کے حکم کے خلاف ایک قدم بھی نہ اٹھا سکیں گے !‘‘
تنویر تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر آہستہ سے بولی۔ " میں اُسے یہاں سے بنانا چاہتی ہوں۔
تم نے فریدی کے متعلق پڑھا؟“ جی ہاں ! معمر آدمی نے پر اسامنہ بنا کر کہا۔ " اور ہمیں افسوس ہے کہ وہ اب خطرے سے باہر ہے!‘‘
" کیا خبر ہے؟"
اُسے اسٹریچر پر ڈال کر گاڑی میں رکھا گیا اور کیپٹن حمید اسے گھر لے گیا !‘‘
جب وہ اپنے پیروں سے چل بھی نہیں سکتا تو اُسے ہسپتال سے کیوں ہٹایا گیا ؟
خدا ہی جانے...!‘‘
خیر مجھے اس سے بحث نہیں ! تنویر بولی۔ عدنان اور فریدی ایک دوسرے کے شناسا ہیں ۔ عدنان پر بھی ایک کتے ہی نے حملہ کیا تھا اور اتفاق سے وہ کتا بھی اُسی قسم کا تھا جس کے متعلق اخبارات میں آیا ہے۔ لہذا عدنان، فریدی سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فی الحال میں نے ٹیلیفون کے تارکاٹ دیئے ہیں مگر یہ طریقہ زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ثابت ہو سکتا!‘‘
و ہ فریدی سے رابطہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ معمر آدمی نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں!‘‘
تو کیا آپ انہیں اپنے حالات سے بالکل ہی لاعلم رکھتی ہیں؟‘‘“
شٹ آپ ۔ تمہیں اس سے کوئی بحث نہ ہونی چاہئے!‘‘ ’’
میں معافی چاہتا ہوں کستر مہ " معمر آدمی گڑ گڑایا۔
آج رات اسے یہاں سے بنا دو!‘‘ "
جو حکم ہوا‘‘"
قریب آؤ۔ اپنی کرسیاں قریب کھسکالا ؤ۔
وہ قریب آگئے اور تو ہر آہستہ آہستہ ان سے کچھ کہنے لگی۔
رات اندھیری تھی اور کیپٹن حمید سارجنٹ رمیش کے ساتھ سعید بابر کی کونٹی کے گرد منڈلا رہا تھا مگر سارجنٹ رمیش کو اسکیم نہیں معلوم تھی ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اندھیرے میں سرمارنے کا مقصد کیا ہے؟
یہ چکر کیا ہے بڑے بھائی ؟" میں بڑبڑایا۔
" حمید ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔ ’’گدھے بھی اس وقت گھاس کھا رہے ہوں گے لیکن ہم سردی کھا رہے ہیں ۔ رمیش کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟"
ہاں ، کیوں ؟"
تمہاری شادی بھی نہیں ہوئی ۔ پھر تم اس محلے میں کیوں جھک ماررہے ہو ؟‘‘
تو تمہارے ساتھ کون سی مصیبت ہے۔ تم بھی تو آزاد ہو ۔ تم کیوں یہاں ججک مار رہے ہو ؟ رمیش نے کہا۔
میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری شادی نہ ہو جائے اس وقت کیا ہوگا "
آپ کو شادی کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘"
میں مار بیٹھوں گا تمہیں تم بھی یہی کہتے ہو؟" میں غلط نہیں کہہ رہا ہوں ۔ درجنوں لڑکیاں تو تمہارے ساتھ ماری ماری پھرتی ہیں!‘‘
"! آہا، یہی تو تم نہیں سمجھتے۔ اس راز سے واقف نہیں ہو ۔ نہ سمجھو تو بہتر ہے
"! آخر پھر بھی "
چھوڑو ...ہم اس وقت ڈیوٹی پر ہیں۔ ہمیں لڑکیوں کی باتیں نہ کرنی چاہئیں!‘‘ "
’’ریکھا !‘‘حمید کہ رہا تھا ۔ " اس نے شاید فریدی صاحب سے پریم اسٹارٹ کر رکھا ہے!"
میں بھی یہی محسوس کر رہا ہوں۔ دن میں کم زکم دس بار صاحب کے کمرے میں آتی ہے!‘‘
ہائے....ریگزاروں میں کہیں ہوتی ہے پانی کی نمود... آپ جتنے کی کرش پارا اسٹون کو مجھ سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھا۔ دنیا کی ڈیڈ دو درجن حسین عورتوں کو میں جانتا ہوں جو آج بھی گریل بار اسٹون کو سات کنوک بنانے کے چکر میں ہیں!‘‘
واقعی حمید بھائی سمجھ میں نہیں آتا کہ کرنل صاحب عورتوں سے اتنا بہ کتے کیوں ہیں ؟ ‘‘
نہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔ کیا تم نے انہیں کبھی کسی عورت کے ساتھ اچھے نہیں دیکھا نہیں " رمیش نے حیرت سے کیا۔
’’آہا تم نے نہیں دیکھا۔ اس وقت وہ حضرت پرانے کھلاڑی اور چالے سرے کے عیال معلوم ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت میرا دھوئی ہے کہ اس شخص میں عورت کے حسن سے محفوظ ہونے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اگر ضرور تا انہیں کسی بھینس کے ساتھ نا چنا پڑے تب بھی وہ اتنے ہی ہشاش بشاش نظر آ ئیں گے " کمال ہے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ اگر کبھی کسی لڑکی نے مسکرا کر بات کر لی تو ہفتوں کی نیند یں حرام۔ جس یہ معلوم ہوتا ہے جیسے وہ کی بچی مجھ پر عاشق ہوگئی ہو اور ایسے میں دل کہنے لگتا ہے۔ دونوں طرف ہے آگ ہے اور لگی ہوئی۔ بنیادہ بھی اپنے فراق میں اسی طرح تڑپ رہی ہوگی " بائیں " حمید نے متحیرانہ انداز میں کہا۔ " رمیش ! تم تو مجھے ماور زاد عاشق معلوم ہوتے ہو اور اس کے باوجود بھی کرنل بارڈ اسٹون کی نظر میں اچھے کے اچھے" میں لڑکیوں کی دم میں تو نہیں بندھا رہتا " رمیش نے طتر یہ لہجے میں کہا۔ لڑکیوں کے متعلق سوچتے رہنا اس سے بھی برا ہے فرزند !‘‘
لکھے نہ ہونے پائیں " کیا اس کے کچھ دشمن بھی ہیں ؟ " رمیش نے پو چھا۔ حمید اثبات میں جواب دے کر ایک دیوار سے تک گیا ۔ رمیش سعید ہاے کے ہم شکل فقیر کو دیکھ چکا تھا لیکن اسے ان واقعات کا علم نہیں تھا جو اس کے بعد ظہور پذیر ہوئے تھے۔ فریدی نے شروع ہی سے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ سعید باہر کی ذات سے تعلق رکھنے والے کسی بھی واقعہ کا تذکرہ اخبارات میں نہ آنے پائے اور اس نے سعید باہر کوتاکید بھی کر دی تھی کہ ان واقعات کے متعلق کسی کو کچھ نہ بتائے ۔ سعید با ہر نے اس پر حیرت بھی کا ہر کی تھی لیکن کرمہ کی نے اسے سمجھا دیا تھا کہ بات پھیلنے پر پریس رپورٹر اس کی زندگی قلع کردیں گے۔ تو وہ یہاں کیوں مقیم ہے ؟" رمیشں نے پو چا۔
ریگزاروں میں کہیں ہوتی ہے پانی کی مصور آپ جتنے کی کرش پارا اسٹون کو مجھ سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھا۔ دنیا کی ڈیڈ دو درجن حسین عورتوں کو میں جانتا ہوں جو آج بھی گریل بار اسٹون کو سات کنوک بنانے کے ہتر میں ہیں "
واقعی حمید بھائی سمجھ میں نہیں آتا کہ کرنل صاحب عورتوں سے اتنا بہ کتے کیوں ہیں ؟ نہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔ کیا تم نے انہیں کبھی کسی عورت کے ساتھ اچھے نہیں دیکھا نہیں " رمیش نے حیرت سے کیا۔
ہا تم نے نہیں دیکھا۔ اس وقت وہ حضرت پرانے کھلاڑی اور چالے سرے کے عیال معلوم ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت میرا دھوئی ہے کہ اس شخص میں عورت کے حسن سے محفوظ ہونے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اگر ضرور تا انہیں کسی بھینس کے ساتھ نا چنا پڑے تب بھی وہ اتنے ہی ہشاش بشاش نظر آ ئیں گے " کمال ہے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ اگر کبھی کسی لڑکی نے مسکرا کر بات کر لی تو ہفتوں کی نیند یں حرام۔ جس یہ معلوم ہوتا ہے جیسے وہ کی بچی مجھ پر عاشق ہوگئی ہو اور ایسے میں دل کہنے لگتا ہے۔ دونوں طرف ہے آگ ہے اور لگی ہوئی۔ بنیادہ بھی اپنے فراق میں اسی طرح تڑپ رہی ہوگی " بائیں " حمید نے متحیرانہ انداز میں کہا۔ " رمیش ! تم تو مجھے ماور زاد عاشق معلوم ہوتے ہو اور اس کے باوجود بھی کرنل بارڈ اسٹون کی نظر میں اچھے کے اچھے" میں لڑکیوں کی دم میں تو نہیں بندھا رہتا " رمیش نے طتر یہ لہجے میں کہا۔ لڑکیوں کے متعلق سوچتے رہنا اس سے بھی برا ہے فرزند ا مارد گولی رمیش نے ہاتھ جھنک کر کہا۔ " سردی لگ رہی ہے۔ آخر ہم کب تک اس طرح مھک مارتے پھریں گے جب تک کہ سعید بابر کے دشمن اسے ختم نہ کر دیں ۔ یہ لوگ غیر ممالک سے اس لئے آتے ہیں کہ ہم کام چور لکھے نہ ہونے پائیں۔
" کیا اس کے کچھ دشمن بھی ہیں ؟ " رمیش نے پو چھا۔ حمید اثبات میں جواب دے کر ایک دیوار سے تک گیا ۔ رمیش سعید ہاے کے ہم شکل فقیر کو دیکھ چکا تھا لیکن اسے ان واقعات کا علم نہیں تھا جو اس کے بعد ظہور پذیر ہوئے تھے۔ فریدی نے شروع ہی سے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ سعید باہر کی ذات سے تعلق رکھنے والے کسی بھی واقعہ کا تذکرہ اخبارات میں نہ آنے پائے اور اس نے سعید باہر کوتاکید بھی کر دی تھی کہ ان واقعات کے متعلق کسی کو کچھ نہ بتائے ۔ سعید با ہر نے اس پر حیرت بھی کا ہر کی تھی لیکن کرمہ کی نے اسے سمجھا دیا تھا کہ بات پھیلنے پر پریس رپورٹر اس کی زندگی قلع کردیں گے۔ تو وہ یہاں کیوں مقیم ہے ؟" میں نے پو چھا۔
پہ نہیں ! اگر وہ مرنا ہی چاہتا ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے " حمید دیوار سے اپنی پشت الگ کرتا ہوا بولا۔ وہ پر ملتے ہوئے سڑک کی طرف چل پڑے۔ سعید باہر کی کمپاؤ نہ اب تاریک ہو چکی تھی ۔ برآمدہ بھی تاریک تھا۔ حمید اور رمیش سلاخوں وار پھانک کے قریب آ کر رک گئے۔ یہ کوٹھی ایک ایسی جگہ پر واقع تھی جس کے آس پاس کوئی الکٹرک پول نہیں تھا۔ اس لئے پھاٹک کے قرب و جوار میں تاریکی ہی رہتی تھی۔ چانک اندر سے بند تھا لیکن اس کی اونچائی زیادہ نہیں تھی۔ پہلی ہی کوشش میں قید دوسری طرف پہنچ گیا۔ رمیش با ہری رہا ۔ حمید نے آہستہ سے کہا۔
رمیش نے اس کی تقلید کی ۔ اندر چاروں طرف تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ کراج کی باڑھ کی اوٹ ہی میں رہنا " حمید آہستہ سے بولا۔ عمارت میں کہیں بھی روشنی نظر نہیں آرہی تھی۔ حمید نے اپنی ریڈیم ڈائل والی گھٹری کی طرف دیکھا۔۔ بارہ بیچ چکے تھے۔
وہ دونوں آہستہ آہستہ پورچ کی طرف بڑھتے رہے۔ ادھر تین دنوں سے برابر سعید با بر شکایت کرتا رہا تھا کہ چند نا معلوم آدمی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ جاگ کر راتیں گزارتا ہے۔ آج یہاں ان دونوں کی موجودگی کی یہی وجہ تھی ۔ دہ تقر یبا ایک بجے تک سرگرداں رہے لیکن سعید بابر کے بیان کی تصدیق نہ ہوگی۔ کیوں نہ اب میں ہی حملہ کردوں اس انو کے پیچھے پر حمید نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا اور رمیش جنے لگا۔
نہیں یار حمید پھر ہوا ۔ کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہئے۔ مجھے یہ آدمی بھی بڑا پر اسرار معلوم ہوتا ہے۔ سنو! کیوں نہ ہم اندر چلیں ۔ میرا خیال ہے کہ کوئی کھٹر کی آزمانی چاہئے " اگر تم نے ایسی کوئی حماقت کی تو بھگتو گے حمید نے اپنے پیچھے ایک تیز قسم کی سرگوشی سنی اور بے ساختہ اچھل پڑا ۔ رمیش بھی بوکھلا گیا۔
چلو، اب یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ میں اپنا اطمینان کر چکا ہوں وہی آواز پھر آئی لیکن اس بار حمید نے پیچان لیا۔ یہ فریدی کی آواز تھی اور اب وہ کرانا کی باڑھ پھلانگ کر ان کے قریب پہنچ چکا تھا۔ عمارت خالی ہے ! اس نے آہستہ سے کہا۔ " سعید با بر اندر موجود نہیں ہے!" مگر آپ کیوں چلے آئے ؟ حمید بڑبڑایا ۔ " آپ تو خود کو صاحب فراش ظاہر کرنا چاہتے تھے!" وہ تو میں ابھی ہوں لیکن آجائے میں تم مجھے پہچان نہ سکو گے!‘‘
" میک آپ " حمید نے کہا۔
ہاں.... اب اس کے بغیر کام بنا نظر نہیں آتا!"
تو آپ آرام فرس کریں گے۔ آپ کی کلائی بری طرح زخمی ہو گئی ہے !‘‘"
پرواہ نہ کرو۔ اب یہاں سے نکلو ہیں بالی کیمپ کی طرف ملتا ہے ؟ ید جلا کیا کر کچھ بولا نہیں۔ وہ کہا تھا کہ اب یہاں سے گھری کی طرف بہانا ہوگا۔ شدید سردی کے احساس کے جو بھی اس کی پلکیں نیند سے جنگی آرہی تھیں۔ وہ کہاؤلہ سے باہر آئے ۔ تھوڑی دور پیدل چلنے کے بعد فریدی کار کے قریب پہنچ گیا۔
تم کار ڈرائی کرو گے !‘‘فریدی نے حمید سے کہا۔
’’ اس وقت مجھ سے یہ کام نہ لیتے ورنہ کار سمیت کسی درخت ہی پر پھیرا ہوگا!‘‘
بکواس مت کرو!‘‘"
رمیش تم ڈرائیو کرو۔ کیا تمہیں بھی نیند آرہی ہے!‘‘
جی نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں!‘‘"
رمیش اور حمید اگلی نشست پر جا بیٹھے اور فریدی نے کھیلی نشست کا دروازہ کھولا ۔ کچھ دیر بعد کار سنسان سڑکوں پر چکراتی ہوئی بالی کیمپ کی طرف جاری تھی اور حمید کھٹر کی پر بازو لیکے بڑے امیت ان سے سو رہا تھا۔
رمیش ہمیں جلد پہنچتا ہے! " فریدی نے کہا۔ " رفتار اور تیز کرو!‘‘
بہت بہتر جناب !" رمیش نے کہا اور رقمار تیز کر دی ۔
اس وقت وہ اسی سڑک پر تھے جس پر چند روز قبل فریدی کو ایک حیرت انگیز تجربہ ہوا تھا۔ فریدی سیدھا ہو کر ہو گیا ۔ ریوالور کے دستے پر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی مگر آج وہ بخیر و خوبی اس سڑک سے گزر گیا جب کا رہالی کیپ والی سڑک پر مڑ رہی تھی ، فریدی نے حمید کو جھنجوڑ کر اٹھادیا۔ تم مجھولے پر نہیں ہو فرزند اس نے طائر یہ لہجے میں کہا۔
حمید کچھ نہیں بولا ۔ چپ چاپ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ویسے اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کار سے چھلانگ لگارے۔ آنکھوں میں جلن سی محسوس ہونے لگی تھی اور کھو پڑی ہوا میں معلق معلوم ہورہی تھی۔ میش کار روک دوا فریدی نے کہا اور رمیش نے رفتار کم کر کے کار کو سٹرک کے کنارے لگا دیا۔ فریدی، عید کے شانے پر ہاتھ رکھ نرم لہجے میں بولا۔ یہ کام بہت اہم ہے، اور نہ میں ایسی صورت میں بستر مرگ سے اٹھنے کی رحمت کیوں گوارا کرتا!‘‘
حمید خاموش ہی رہا۔ بہر حال اب وہ اپنے ذہن کو نیند کے بیچ ولم سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہا تھا اور خود
اُسے بھی احساس ہو چکا تھا کہ اس وقت جھلاہٹ کا مظاہر قطعی بے شکا ر ہے گا۔
اس کام کا سارا دارومدار تم پر ہے !‘‘افریدی بولا۔
ہاں ،....اچھا ....پھر!‘‘
ہاں.... اچھا ....پھر کیا؟ ....کیا ابھی تک نیند سوار ہے!‘‘"
نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں!‘‘ "
تمہیں وہ نیگر و شکاری زغالی یاد ہے تا جو بھی نواب وجاہت مرزا کے یہاں میر شکار کی حیثیت سے ملازم تھا!‘‘
ہاں مجھے یاد ہے!‘‘ "
اس وقت ہم اس کے پاس جارہے ہیں اور ہمیں اس سے ان نشانات کے متعلق معلومات حاصل کرتی ہیں
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار اس نے ایسے ہی حیرت انگیز نشانات کا تذکرہ کیا تھا اور بات غالباً افریقہ نیروبی ہی کی تھی۔ البتہ وہ واقعہ یاد نہیں آرہا ہے جس کے سلسلے میں اس نے یہ بات چھیڑی تھی!‘‘ !
بالی کیمپ کی ایک بستی میں ۔ میں تمہیں وہیں لے چل رہا ہوں۔ خطرناک آدمیوں کی بستی ہے۔ ہر وہ آدی جورات میں نظر آئے اُس کے سامنے رانی کا نام ضرور لیتا در یہ جسم پر کپڑے بھی نظر نہ آئیں گے!‘‘
’’یہ آپ کہہ رہے ہیں؟ ‘‘حمید نے حیرت سے کہا۔
ہاں میں کہ رہا ہوں۔ یہ موقع ہی ایسا ہے کہ میں بات نہیں بڑھانا چاہتا۔ کجھے۔ زغالی تمہیں یقینا پیچان لے گا۔ میرے متعلق تم کہو سکتے ہو کہ میں علم الاجسام کا ایک پروفیسر ہوں اور میرے پاس کسی حیرت انگیز جانور کے پیروں کے نشانات کے فوٹو میں اور تم مجھے اس کے پاس اسی لئے لائے ہو کہ وہ مجھے اپنی معلومات سے فائدہ پہنچائے!‘‘
اُس کی درندگی
چاروں طرف پلے مکانات کے سلسلے بکھرے ہوئے تھے۔ لیستی میں گھستا دشوار ہو گیا تھا۔ چاروں طرف سے کتوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ پھر ذراسی کی دیر میں ایسا معلوم ہونے لگا جیسے ساری بستی جاگ پڑی ہو۔ دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز میں آنے لگیں۔ اچانک ایک گھی میں تین چار آدمی اُن کا راستہ روک کرکھڑے ہوگئے۔ایک نے اُن پر ٹارچ کی روشنی ڈالی۔
’’ہم زغالی کے پاس جارہے ہیں!‘‘حمید نے کہا۔
’’اوہ...جائیے...جائیے!‘‘ٹارچ والا ایک طرف ہٹتا ہوا بولا۔’’کیا آپ اندھیرے میں جائیں گے۔
آپ کے پاس ٹارچ نہیں ہے؟ ‘‘
نہیں۔ ہم سے غلطی ہوئی ۔ لانا بھول گئے ! ‘‘حمید بولا۔
چلئے ! میں آپ کو راستہ دکھاتا ہوں !‘‘ ٹارچ والے نے کہا۔
وہ لوگ پھر چل پڑے۔
بھی جار ہا تھا جو ادھر ادھر کی گلیوں سے نکل کر بھونکنے لگتے تھے۔
ایک آدمی تاریخ کی روشنی میں انہیں نہ صرف راستہ دکھا رہا تھا بلکہ اُن کتّوں کو ڈنٹتابھی جا رہا تھا جو اِدھر اُدھر کی گلیوں سے نکل کر بھوکنے لگتے تھے۔
پھر وہ ایک پختہ عمارت کے سامنے رک گئے جو سرخ اینٹوں سے بنائی گئی تھی ۔ عمارت بہت پرانی تھی اور اُس کی اینٹوں میں لونا لگنے لگا تھا۔
ان کا راہبر وہاں پہنچ کر رخصت ہو گیا۔
حمید نے صدر دروازے کی زنجیر کھٹکھٹائی اور اس وقت تک کھٹکھٹا ئی تا رہا جب تک اندر سے ایک غصیلی آواز نہیں آئی۔
کون ہے؟ ‘‘کسی نے دہاڑ کر پوچھا۔
ایک ضرورت مند ۔ دروازہ کھولو ! "حمید نے کہا۔
کیا صبح نہ ہوتی ! ‘‘کسی نے دروازے کے قریب آکر کہا۔ " تم کون ہو؟‘‘"
میں کیپٹن حمید ہوں ۔ مرکزی سی آئی ڈی کا ایک آفیسر!‘‘ ’’
دوسری طرف سے ایک ہلکی سی فراہٹ سنائی دی اور ساتھ ہی دروائہ و چہ چہا ہٹ کے ساتھ کھل گیا۔ اندر زر در جنگ کی ہلکی سی روشنی تھی اور ان کے سامنے ایک چوڑا چکا مگر معمر نگر دکھڑا تھا۔ اس کی گردن شانوں میں دھسی ہوئی ہی معلوم ہو رہی تھی ۔ وہ بڑے غور سے حمید کی طرف دیکھتار ہا پھر بولا۔
’’بے شک آپ وہی ہیں لیکن اس وقت کیسے آئے اور یہ دونوں کون ہیں ؟‘‘
ایک بہت ضروری کام ہے۔ مجھے کرنل صاحب نے تمہارے پاس بھیجا ہے!"
اندر چلئے !مگر مجھے حیرت ہے ، اتنی رات گئے!‘‘ "
وہ اُن کے آگے چلنے لگا۔ اس کی چال عجیب تھی اس طرح اچھل اچھل کر چل رہا تھا جیسے ٹانگیں چھوٹی بڑی ہوں ۔
وہ انہیں ایک ایسے کمرے میں لایا جہاں بید کی تین چار میلی ی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ دیوار سے ایک رائفل ی نظر آرہی تھی ۔ یہاں مٹی کے تیل کا ایک لیمپ روشن تھا جسے زعالی نے آتے ہی روشن کر دیا تھا۔
آپ لوگ بٹھئیے !‘‘اس نے قدرے جھک کر کہا ۔
یہ تینوں بیٹھ گئے۔ رمیش حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ کبھی بھی وہ اس نیگرو کی طرف بھی دیکھتا لیکن کچھ اس انداز میں فورا ہی دوسری طرف دیکھنے لگتا جیسے وہ اس سے خوفزدہ نہ ہونے کی کوشش کر رہا ہو ۔
’’ہاں ! اب بتائیے ...میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
یہ پروفیسر دیال ہیں۔ علم الاجسام کے ماہر !‘‘َحمید نے فریدی کی طرف اشارہ کیا جو میک اَپ میں تھا۔
علم الاجسام کیا ؟ " زغالی نے سوال کیا ۔
’’آپ ہی بتائیے جناب!‘‘ حمید نے فریدی کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’بات یہ ہے کہ میں پہلے کرنل فریدی کے پاس گیا تھا فریدی نے کہا ۔ " انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیج دیا۔ میرے پاس در اصل چند حیرت انگیز نشانات کے فوٹو ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ کسی جانور کے پیروں کے نشانات ہیں مگر اس قسم کا کوئی جانور میرے علم میں نہیں ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ کرنل فریدی بھی لا محد و معلومات رکھتے ہیں ۔ اسی لئے میں اس سلسلے میں ان کے پاس گیا تھا مگر انھوں نے بھی لاعلمی ظاہر کی ....پھر آپ کا پتہ بنایا کہ آپ ضرور بالضرور ان پر روشنی ڈال سکیں گے!‘‘
’’مگر اس کے لئے آپ دن کو بھی آسکتے تھے !‘‘ز غالی نے حمید کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’دیکھئے بات دراصل یہ ہے! " فریدی جلدی سے بولا ۔ " یہ نشانات کئی دنوں سے یونیورسٹی میں زیر بحث ہیں ۔ ہم میں سے کئی پر و فیسر ان کے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں۔ کل صبح ہمیں اپنی رپورٹیں پیش کرتی ہوں گی ۔ بس اسی لئے دوڑا آیا کہ شاید آپ سے کچھ مددل جائے !‘‘
ز عالی تھوڑی دیر تک اُسے غور سے دیکھتا رہا پھر بولا ۔ " لائیے... وہ نشانات کہاں ہیں!"
فریدی نے جیب سے ایک کارڈ نکال کر اُس کی طرف بڑھا دیا جس پر دو نشانات کا عکس تھا۔
’’یہ نشانات کہاں ملے تھے ؟ " زعالی نے آہستہ سے پوچھا۔
لڑکال جنگل میں ! ‘‘فریدی نے جواب دیا۔
زغالی خاموشی سے نشانات کو دیکھتا رہا۔ پھر ایک طویل سانس لے کر بولا ۔ " نہیں ، میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسے نشانات نہیں دیکھے۔ اگر اس قسم کا کوئی جانور لڑکال جنگل میں موجود ہے تو اس کا شکار بڑا دلچسپ رہے گا !‘‘
پھر حمید کی طرف دیکھ کر اس نے کہا ۔ ’’کرنل صاحب تو یقیناً اس جانور کی تلاش میں ہوں گے ؟"
’’میں نے آج ہی اُن سے اس کا تذکرہ کیا ہے ! ‘‘فریدی نے کہا۔
زغالی نے سر جھکا لیا۔ اس کی پیشانی پر شکنیں تھیں۔ کمرے پر گہر اسکوت مسلط ہو گیا۔ لیپ کی مدھم روشنی میں
زغالی کا چہرہ بڑا بھیا تک لگ رہا تھا...
اچانک حمید بولا ۔ " مگر کر نل صاحب نے تو کہا تھا کہ تم ان نشانات کے متعلق کچھ بتا سکو گے!‘‘
کس بنا پر کہا تھا انہوں نے ؟ ‘‘زغالی نے سر اُٹھا کر پو چھا لیکن اب وہ اُن میں سے کسی کے چہرے کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھیں چہرے کی بھرپائی کھال میں ایسی ہی لگ رہی تھیں جیسے وہ کسی سالخوردہ مگر طواف اور گینڈے کی آنکھیں ہوں ۔
’’تم نے شاید کبھی اُن سے اس قسم کا تذکرہ کیا تھا...ایسے نشانات غالباً افریقہ میں کہیں تمہاری نظروں سے گزرے تھے!‘‘
’’مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی اس قسم کی گفتگو کی ہو ۔ ویسے میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ کرنل غلط کہتے ہیں۔ اب دیکھئے نا، میں کتنا بوڑھا ہوا۔ اس لئے بھلکّڑ بھی ہوں ۔ آپ سمجھتے ہیں نا !‘‘
’’تو پھر ...گویا ...مجھے یہاں بھی ناکامی ہوئی!‘‘ فریدی بڑبڑایا۔
زغالی کچھ نہ بولا، بدستور سر جھکائے بیٹھا رہا۔
فریدی اٹھ گیا ۔ ’’اچھا تو میں نے ناحق آپ کو تکلیف دی!‘‘
کوئی بات نہیں ہے جناب۔ میں گرنل صاحب اور ان کے دوستوں کا خادم ہوں !"
حمید اور رمیش بھی اٹھ گئے۔ صدر دروازے تک وہ خاموشی سے آئے۔ پھر عالی نے حمید سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ " ہر خدمت کے لئے مجھے ہر وقت یا درکھئے ان کے باہر نکلتے ہی دروازہ آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔ وہ چل پڑے۔ فریدی ہونوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑایاتھا۔
گلی کے موڑ پر انہیں رک جانا پڑا کیونکہ گلی پتلی تھی اور دوسری طرف سے چار آدمیوں کا ایک جلوس اُس گلی میں داخل ہو رہا تھا ۔ چاروں ایک لائن میں تھے اور انہوں نے ایک بہت لمبا سا بنڈل اپنے کاندھوں پر سنبھال رکھا تھا ۔ وہ اُن کے قریب ہی سے گزر گئے ۔ فریدی رک گیا تھا۔ حمید نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس نے اس کا ہاتھ دبا دیا۔
دو چاروں آدمی زغالی کے مکان کے سامنے رک گئے تھے اور اب دروازے کی زنجیر ہلا رہے تھے۔ فریدی چند لمحے وہیں کھڑار ہا پھر گلی میں مڑ گیا۔
وہ سڑک پر نکل آئے۔ ٹھیک گلی کے سامنے ہی انہیں کار نظر آئی ۔ فریدی رک گیا۔ کار خالی تھی ۔ وہ چند لمحے کھڑا سوچتا رہا پھر مگار لائیٹر جلا کر اس کی روشنی میں ڈیش بورڈ پر نظر دوڑانے لگا۔
اچانک اُس نے مڑ کر حمید سے کہا۔ "حمید اس کار کے نمبر نوٹ کر لو۔ غلباًانہیں لوگوں کی کا ر ہے جو ابھی گلی میں ملے تھے ...اور تم دونوں واپس جاؤ!‘‘
کیا ہمیں کار میں چھوڑنی پڑے گی ؟ " حمید نے پو چھا۔
’’نہیں کا ر لے جاؤ!‘‘ فریدی نے کہا اور بڑی تیزی سے اُس گلی میں چلا گیا ۔
چلو مری جان ! ‘‘حمید ، رمیش کے شانے پر ہاتھ رکھ کر ایک طویل سانس لیتا ہوا بولا ۔
’’نمبر تو نوٹ کر لو!‘‘
ہاں ...نمبر ...!‘‘حمید نے کہا اور دیا سلائی جلا کر کار کے نمبر دیکھے اور انہیں ذہن نشین کرتا ہوا سیدھا ہوگیا۔
آؤ چلیں ۔ ورنہ ذراسی دیر میں میں بھی مرغوں کی طرح با تنگ دینے لگوں گا ۔ صبح تو ہوہی رہی ہے !‘‘
وہ اپنی کار میں آبیٹھے ۔ حمید نے اس بار بھی رمیش ہی سے ڈرائیو کرنے کی استدعا کی ۔ اس نے بہت دیرسے پائپ نہیں پیا تھا۔
سروی بے تحاشہ بڑھ گئی تھی ۔ پائپ کے دو تین گہرے کش لینے کے بعد اس نے کچھ سکون محسوس کیا ۔
’’پتہ نہیں وہ چاروں کیا اُٹھائے ہوئے تھے ؟ " رمیش نے کہا۔
’’یار جہنم میں ڈالو۔ ہمیں اس سے کیا کہ لقّا کبوتر دُم کیوں اٹھائے رہتا ہے، مگر تم کیا کرو ۔ اس محکمے کی ملازمت ہی ایسی ہے۔ چوبیس گھنٹے سراغرساں بنے رہئے !"
’’نہیں حمید بھائی۔ وہ بنڈل عجیب تھا۔ اتنا لمبا بنڈل ...آخر اس میں تھا کیا ؟"
آئسں کریم!‘‘
رمیش خاموش ہو گیا ۔ کار سٹرک پر دوڑتی رہی۔
صبح کے نو بجے تھے دھوپ اچھی طرح پھیل چکی تھی۔ تویر اپنی لائبریری میں بیٹھی اخبار دیکھو ری تھی ۔ وہ صبح کی چائے لائبریری ہی میں پیتی تھی۔ یہ اس کا معمول تھا۔ چائے کے دوران میں اخبار دیکھتی رہتی۔ کھانا بھی وہ تباہی کھائی ۔ کم از کم اس کے بیٹے عدنان کوتو یاد نہیں تھا کہ کبھی وہ دونوں کھانے کی میز پر ساتھ بیٹھے ہوں ۔ اس کی کوٹھی میں آئے دن دعوتیں بھی ہوتی رہتی تھیں لیکن وہ بھی مہمانوں کے ساتھ نہ بیٹتھی۔میزبانی کے فرائض عدنان کو انجام دینے پڑتے ۔ وہ تو اپنی ماں کو نیم دیوانی ہی سمجھتا تھا۔
تنویر اخبار ایک میز پر پھینک کر کھڑی ہوگئی۔ وہ باہرہی جارہی تھی کہ ایک ملازم نے آکر اس کی فون کال کی اطلاع دی۔
تنویر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ایک کمرے میں آئی جہاں فون تھا۔ اس نے لا پروائی سے ریسیور اٹھا لیا اور نڈھال کی آواز ہیلو ‘‘کہا۔
ذراہی کسی دیر میں اُس کے چہرے کی رحمت بدل گئی۔ دوسری طرف سے بولنے والا کوئی ایسی ہی بات کہہ رہا تھا۔ اس نے تھوڑی دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔ " کچھ اندازہ ہے تمہیں کہ یہ حرکت کس کی ہو سکتی ہے ؟ پھر وہ دوسری طرف سے بولنے والے کا جواب سنتی رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا صحت مندچہرہ کسی پرانے مریض کا چہرہ معلوم ہونے لگا تھا۔
ہوں ، اچھا اس نے تھوڑی دیر بعد کہا۔’’ تم بالکل پروا نہ کرو۔ میں دیکھوں گی۔ ویسے یہ میرا مشورہ ہے کر تم اب وہاں سے ہٹ جاؤ ۔ کیوں کیا خیال ہے!‘‘
جواب میں پھر کچھ کہا گیا اور تنویر سر ہلا کر بولی۔ " جہاں بھی جاؤ مجھے اپنی جائے قیام سے باخبر رکھنا اچھا ہاں دیکھو ۔ مجھے ہمیشہ سے تم پر اعتماد رہا ہے۔ تم مرجاؤ گے لیکن کسی سے ایک لفظ بھی نہیں کہو گے اچھا " اس نے ریسیور رکھ دیا۔ چند لمحے کھڑی کچھ سوچتی رہی پھر بیرونی برآمدے میں آکر اس نے سارے ملاز میں کو اکٹھا کیا ۔ بھی دفتر کی کھری لڑکیوں کو بھی و ہیں بلوالیا۔
تم سب !" وہ انہیں مخاطب کر کے بولی۔ " بسیں منٹ کے اندر اندر کوٹھی خالی کردو ۔ یعنی آج چھ بچے شاتک کے لئے تم سبھوں کی چھٹی ہے۔ میں آفس فون کر رہی ہوں ۔ وہاں سے آج کے لئے تمہیں تفریح الاؤنس ملے گا۔ بیسں منٹ کے اندر اندر یہاں سے چلے جاؤ!"
پھر وہ انہیں وہیں چھوڑ کر اندر چلی آئی ۔ ملازمین کی اس بھیڑ میں اس کے چاروں باڈی گارڈ شامل نہیں تھے۔ میں منٹ کے اندر ہی اندر کوٹھی میں انو بولنے لگے ۔ نوکروں کو اس کے اس رویہ پر ذرہ برابر بھی حیرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ اس قسم کی انہونی باتوں کے عادی ہو چکے تھے۔ ان کا بھی یہی خیال تھا کہ تنویر ایک نیم دیوانی عورت ہے۔
کمپاؤنڈ کا پھاٹک تو میر نے خود اپنے ہاتھوں سے بند کیا۔ چاروں باڈی گارڈ بھی تعمیر نہیں تھے۔ ان کی مجال نہیں تھی کہ وہ تنویر کے کسی کام میں دخل دے سکتے۔ خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے۔ آخرتنویر نے تھوڑی دیر بعد ان چاروں کو طلب کیا۔
تم کل اسے لے کر وہاں کس وقت پہنچے تھے ؟ ‘‘
’’شاید تین بجے تھے !‘‘معمر آدمی نے جواب دیا۔
کیا اُسے ہوش آ گیا تھا ؟"
جی نہیں محترمہ ہم زغالی کو سب کچھ سمجھا کر واپس آگئے تھے!‘‘ ’’
ہوں! " وہ انہیں غور سے دیکھتی ہوئی سرد لہجے میں بولی ۔ " محراب عدنان وہاں نہیں ہے!"
میں نہیں سمجھتا محترمہ !" معمر آدمی نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
سمجھنے کی کوشش کروا!" تنویر آہستہ سے بولی تمہارے وہاں پہنچنے سے تھوڑی ہی دیر قبل کیپٹن حمید دو آدمیوں کے ساتھ وہاں پہنچا تھا!‘‘
’’وہ وہاں کس لئے گیا تھا؟'' معمر آدمی نے متھیرا نہ لہجہ میں پوچھا۔
’’ پتہ نہیں !‘‘تنویر نے لا پروائی سے شانوں کو جنبش دے کر کہا۔’’ بہر حال چار اور پانچ کے درمیان عدنان غائب ہو گیا۔ جس کمرے میں اُسے رکھا گیا تھا اس کاقفل ٹوٹا ہوا ملا اور صدر دروازہ کھلا ہوا تھا۔ زغالی اُسے کمرے میں بند کر کے سو گیا تھا۔ اب تم بتاؤ کہ یہ حرکت کس کی ہو سکتی ہے؟"
’’کیپٹن حمید وہاں کیوں گیا تھا ؟ ‘‘معمر آدمی بڑبڑایا۔
’’تو تمہارا خیال ہے کہ یہ حرکت انہیں لوگوں کی ہے !‘‘
جی ہاں، پھر ایسی صورت میں یہی کہا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا سمجھیں گے !"
میں نے اُسے وہاں کیوں بھجوایا تھا !‘‘
تا کہ وہ فرید ی تک نہ پہنچ سکیں ! "
پھر ؟‘‘ تنویر اُسے گھورنے لگی ۔
محترمہ آپ یقین کیجئے ! " معمر آدمی بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔ ’’ہم نے اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا تھا۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ان لوگوں کو کیسے خبر ہو گئی !"
تنویر کچھ نہیں بولی۔ وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر اُس نے کہا۔’’ اب ایک دوسری اسکیم ہے لیکن تم بہت زیادہ محتاط رہو گے!‘‘
فرمائیے محترمہ ہم شاید اس بار آپ کا کام صحیح طور پر انجام دے سکیں ۔ ویسے آج کل شاید ہمارے ستارے ہی گردش میں ہیں۔ جس کام میں ہاتھ لگاتے ہیں بگڑ جاتا ہے!"
’’پروا مت کرو! اکثر ایسا بھی ہوتا ہے !‘‘تنویر مسکرا کر بولی اور وہ چاروں بے ساختہ چونک پڑے۔ انہوں نے اپنے ہوش میں پہلی بار تنویر کو مسکراتے دیکھا تھا۔
’’میں فی الحال تمہیں اپنے ایک راز میں شریک کرنا چاہتی ہوں مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ راز ہمیشہ تم چاروں ہی تک محمد ودر ہے گا!‘‘
ہماری وفاداری پر شبہ نہ کیجئے ۔ ہم نے ہر موقع پر آپ کے لئے جان کی بازی لگائی ہے۔ ضمانت میں ہم صرف اپنی وفاداری ہی پیش کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ہماری سب سے بڑی قسم ہے!‘‘
اچھا تو آؤ ....میں تمہیں عمارت کے اُس حصے میں لے چلوں گی جہاں آج تک میرے علاوہ اور کوئی نہیں جا سکا!‘‘
ہم اسے اپنی سرفرازی سمجھیں گے ! ‘‘معمر آدمی نے قدرے جھک کر کہا۔
تم کبھی کسی سے اس کا تذکرہ نہیں کرو گے!‘‘ ’’
کبھی نہیں محترمہ! آپ ہم پر اعتماد کیجے!‘‘
اچھا تو آؤ میرے ساتھ !‘‘
و اس راہداری میں چل رہے تھے جس کے سرے پر وہ دروازہ تھا جس کی دوسری طرف کا حال تنویر کے علاوہ اور کسی کو نہیں معلوم تھا۔
تنویر نے دروازے کا قفل کھول کر دونوں پٹ کھول دیئے ۔ کمرہ تاریک تھا۔
چلو تنویر ایک طرف ہٹی ہوئی بولی۔ معمر آدمی سب سے آگے تھے ۔ وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اندر چلا گیا۔ اس کے ساتھیوں نے بھی اس کی تقلید کی۔ تنویر کے انداز سے ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ بھی ان چاروں کے بعد کرے میں چلی جائے گی۔ مگر اس کا رویہ خلاف توقع تھا۔ اس نے دوسرے لمحے میں دروازے کے پٹ کھینچ کر باہر سے بند کر لئے۔
’’محترمہ !‘‘اندر سے آواز آئی مگر تنویر قفل چڑھا چکی تھی۔
پھر اس نے چیخ کر کہا۔ مڈونگا تیرے شکار ۔ تیری بہت پرانی خواہش پوری ہوگئی ۔ آدمی کا گوشت!"
’’محترمہ ...محترمہ !‘‘چاروں بیک وقت چیخے اور پھر اچانک ان کے حلق سے عجیب سم کی آوازیں نکلنے لگیں ۔
’’ بچاؤ... بچاؤ !‘‘کے شور کے ساتھ ہی ریلوے انجن کی سیٹیاں بھی گونج رہی تھیں ۔
’’ محترمہ ...تنویر!‘‘
’’تنویر...حرامزادی...کتیا!‘‘
تنویر ...حرامزادی... کتیا!‘‘
او تنویر... سور کی بچی...!‘‘
با ہر تنویر کے ہونٹوں پر ایک سفاک سی مسکراہٹ تھی اور آنکھیں کسی بھو کے سانپ کی آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں۔
فریدی صبح ہی سے زیادہ متفکر تھا۔ آج صبح اس کے چار بہترین کتے پر اسرار حالت میں مردہ پائے گئے تھے۔
چاروں رکھوائی کرنے والے السیشین تھے۔
علامات سے فریدی اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ موت زہر سے واقع ہوئی تھی اور یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے غیرت انگیز کہا جاسکتا۔ کوئی بھی باہر سے گوشت کے چند ہر یلے ٹکڑے کمپاؤنٹر میں پھینک کر ان کی جانیں لے سکتا تھا۔ دو ٹکڑے ملے بھی تھے اور فریدی نے انہیں کیمیاوی تجزیے کے لئے بھیجوا دیا تھا۔ ویسے حمید کا بیان تھا کہ ساڑھے چار بجے جب اس کی واپسی ہوئی تھی تو کتّے زندہ تھے۔
فریدی نے میز پر رکھی ہوئی گھنٹی بجائی۔ ایک ملازم اندر داخل ہوا۔
’’حمید کو بھیج دو فریدی نے کہا ۔ ملازم چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد حمید دروازے میں نظر آیا۔
تم نے کیا کیا ؟" فریدی نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
معاملہ بالکل گول ہے۔ کو تو الی سے معلوم ہوا کہ فقیر کی لاش سول ہسپتال روانہ کر دی گئی تھی اور سول ہسپتال والے کہتے ہیں کہ وہ طلبا کی مشق کے لئے میڈیکل کالج بھیج دی گئی تھی!‘‘
میڈیکل کالج والے کیا کہتے ہیں؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔
میڈیکل کالج والے کہتے ہیں کہ اس تاریخ کو تین لاوارث لاشیں انہیں موصول ہوئی تھیں اور یہ تا سال ہے کہ کس کے ٹکڑے کہاں دفن کئے گئے تھے مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی ۔سول ہسپتال کا جشن تا تا ہے کہ اس تاریخ کو وہاں سے چار لاشیں میڈ یکل کا نہ بھیجی گئی تھیں مگرمیڈ یکل کالج کے رجسٹر میں صرف تین لاشوں کی وصولیابی درج ہے!‘‘
اوه !‘‘فریدی اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
مگر اب آپ اُس کی لاش کے چکر میں کیوں پڑ گئے ہیں۔ یہ تو ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ سعید بابر کے ایک ہم شکل کی لاش صدر میں پائی گئی تھی!‘‘
یہ کھلی ہوئی حقیقت میرے آنکھوں کے سامنے ہے!‘‘"
پھر ؟ ‘‘حمید نے اُسے جواب طلب نظروں سے دیکھا۔
کچھ نہیں ۔ میں فی الحال اور کچھ سوچ رہا ہوں ۔ ویسے یہ ضروری نہیں کہ وہ آدمی سعید بایر کا بھائی ہی رہا ہوں!‘‘
’’اگر رہا بھی ہو تو اب کیا ہو سکتا ہے!‘‘ حمید جھنجلا گیا۔
اس مسئلے کو یہیں چھوڑ دو!‘‘فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ’’فی الحال میں زغالی میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہوں۔
تم نے پچھلی رات کیا محسوس کیا تھا ؟‘‘"
یہی کہ وہ ان نشانات کے متعلق کچھ جانتا تو ہے لیکن بتانا نہیں چاہتا!‘‘
ٹھیک ہے۔ لڑکال جنگل کے نام پر اسے کتنی حیرت ہوئی تھی ....یاد ہے!‘‘"
جی ہاں ۔ مجھے یاد ہے۔ لڑکال جنگل کا نام سن کر وہ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا تھا!‘‘
اچھا خیر چھوڑو ...مجھے اطلاع ملی ہے کہ زغالی آج ہی صبح کو بالی کیمپ والی بستی سے ہٹ گیا ہے۔ اس وقت دہ ارجن پورے کی شاپور بلڈنگ کے ساتویں فلیٹ میں ہے۔ میری بلیک فورس کے کچھ آدمی تو دیکھ بھال کری رہے ہیں لیکن تم بھی خیال رکھنا اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ بالی کیمپ سے کیوں ہٹا ہے؟‘‘
پُر اسرار سایہ
حمید خاموشی سے سنتا رہا پھر فریدی بھی خاموش ہو گیا۔
’’ ایک بات مجھے سمجھا ہے !‘‘حمید نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ ’’ لِسلِی براؤن آپ کی موجودگی ہی میں ہائی سرکل بان قلب سے غائب ہو گئی تھی لیکن آپ نے اس کی ذرہ برابر بھی پر انہیں کی !‘‘
’’غیر ضروری چیزوں کی پروا مجھے کبھی نہیں ہوتی!‘‘
حالانکہ آپ پہلے ہی سے اس کی ٹوہ میں رہے تھے کہ حمید سے کب اپنے ساتھ لے جاتا ہے!‘‘
ہاں ، ہاں ! تو کیا ہوا؟‘‘
خط استوا، خط سرطاں میں گھس گیا !‘‘حمید جھلاہٹ میں ناچتا ہوا بولا۔ " میں پاگل ہو جاؤں گا !‘‘
’’اللہ کی مرضی !‘‘فریدی نے ایک طویل سانس لی اور مغموم لیجے میں بولا ۔ ’’مگر اس صورت میں بھی تم میری کی نگہرائی میں رہو گے پاگل خانوں میں آج کل بڑی بد رنظمی رہتی ہے!"
قبر میں بھی ہم دونوں لپٹ کر ہی سوئیں گے اور آپ وہاں بھی فاؤل، فاول چلائیں گے ۔ مجھے یقین ہے!‘‘
خیر ...اب کام کی باتیں کرو!‘‘"
میں کبھی بے کار باتیں نہیں کرتا!‘‘
کل رات تم نے اس کار کا نمبر نوٹ کیا تھا؟‘‘"
جی ہاں ، کیا تھا!‘‘ ’’
’’مجھے دو!‘‘
حمید نے جیب سے نوٹ بک نکالی۔ اس سے وہ ورق پھاڑا جس پر کار کے نمبر تحریر تھے اور اسے فریدی کے سامنے ڈالتا ہوا بولا ۔
اس کیس کے سر پیر کا بھی کہیں پتہ ہے۔ بات سعید بابر کے بھائی سے شروع ہوئی تھی ۔ سعید باہر پر حمل کی کاؤنٹر میں مجیب و غریب نشانات کا پایا جانا....لسلی براؤن اصلی اورل سلی براؤن نقلی تھی کا کیس ۔ آپ پر ایک کتےّ حملہ مگراس کے متعلق وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا تعلق بھی اس کیس سے ہے۔ پھرل سلی براؤن نقلی کا غائب ہو جانا !‘‘
پھر تمہارا اور میجر داراب کا عشق !‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔
اس کی تو میں ہڈیاں توڑے بغیر نہیں رہوں گا !"
’’ کیا تمہیں اب بھی اس کی قوت کا صحیح انداز نہیں ہوا!‘‘
ٹریگر کو اُنگلی سے کھینچتے وقت زیادہ قوت نہیں صرف ہوتی !‘‘ حمید نے لا پروائی سے کہا۔
’’ اور پھانسی کا پھندہ گلے میں پڑ جانے کے بعد تو کسی بات کا ہوش ہی نہیں رہتا!‘‘فریدی نے کہا۔
’’پھانسی !‘‘حمید نے بر ا سامنہ بنا کر کہا۔’’ شاید پھانسی کا خوف بھی مجھے اس سے باز نہ رکھ سکے!‘‘
نہیں !تم فی الحال ایسا نہیں کر سکتے ۔ میرا کھیل بگڑ جائے گا !‘‘
’’تو کیا وہ بھی اس کیس میں کہیں نہ کہیں موجود ہے !‘‘ حمید نے پوچھا۔
بہت زیادہ حمید صاحب!‘‘ ’’
آہا ...تب تو...!‘‘
نہیں ٹھہر و!ایہ میرا شبہ ہے۔ فی الحال ہم اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کر سکتے!‘‘ ’’
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ آپ کا شبہ کبھی غلط نکلا ہو!‘‘"
’’یہ اور بات ہے لیکن مکمل شہادت فراہم کئے بغیر میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھا تا !"
حمید خاموش ہو گیا۔ فریدی نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
ویسے مجھے یقین ہے کہ تمہیں میجر داراب کی ہڈیاں توڑنے کا موقع ضرور نصیب ہوگا ۔ فی الحال تم زغانی پر نظر رکھو!‘‘
آخر آپ اس بے چارے کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں !" حمید نے کہا۔ ’’وہ تو انتہائی برخوردار تم کا آدمی معلوم ہوتا ہے!‘‘
تم اسے نہیں جانتے ۔ وہ انتہائی خطر ناک آدمی ہے۔ بہت عرصہ سے ہمارے یہاں مقیم ہے اس لئے اب اس میں تہذیب کے بھی کچھ آثار پائے جانے لگے ہیں اور نہ پہلے کبھی وہ ایک لکھنے کتے کی طرح لوگوں پر جھپت بہتا تھا۔ تہذیب نے اسے مکاری بھی سکھا دی ہے۔ اچھا بس اب جاؤ ۔ اس کی نگرانی بہت ضروری ہے۔ تم اگر بھول چوک بھی گئے تو پرواہ نہ کرتا۔ بہر حال مجرموں کو اس کا علم ہو جانا چاہئے کہ تم زغالی کی نگرانی کر رہے ہو اس سے کیا فائدہ ہو گا ؟‘‘
اب یہ بات مجرموں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہی کہ ہم زغالی میں دلچسپی لیتے رہے ہیں!"
تو کیا آپ کو یقین ہے کہ زغالی بھی مجرموں کا ساتھی ہے!"
ہاں کسی حد تک بہر حال اب جاؤ حمید ۔ فضول وقت نہ برباد کر و!‘‘ ’’
حمید چلا گیا۔ فریدی تھوڑی دیر تک کمرے میں ٹہلتا رہا۔ پھر اس نے فون کا ریسیور اٹھا کر کوتوالی کے نمبر ڈائل گئے۔
’’ہیلو!‘‘ اس نے کہا۔’’انسپکٹر جگدیش پلیز!‘‘
’’ایک منٹ توقف کیجئے ! ‘‘دوسری طرف سے آواز آئی۔
پھر جلد ہی دوسری طرف سے جگدیش کی آواز سنائی دی ۔
ہیلو، جگدیش !میں فریدی ہوں۔ ذرا دیکھو تو آج کسی مسزتنویر نے کوئی رپورٹ تو نہیں درج کرائی ہے!"
’’اوہ جناب !‘‘ اس عورت نے پوری کو تو الی کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ مگر آپ ...کیا قصہ ہے؟"
’’رپورٹ کیا ہے جگدیش ؟‘‘
کل رات سے اس کا لڑکا عدنان اور اس کے چاروں باڈی گارڈ غائب ہیں ۔ اس کا خیال ہے باڈی گارڈوں نے اسے اغوا کیا ہے اور اب وہ تنویر سے کسی بھاری رقم کا مطالبہ کریں گے۔ اس نے اپنے لڑکے اور باڈی گارڈوں کی تصویر میں بھی دی ہیں۔ آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ یہ شہر کے چار بد معاشوں کی تصویریں ہیں۔ کئی بار کے سزایاب بد معاش!‘‘!
اوہ ... ذرا مجھے بھی تو اُن کے نام بتاؤ!"
جگدیش نام بتا تارہا اور فریدی ایک کاغذ پر نوٹ کرتا گیا۔ پھر اس نے کہا۔ یہ لوگ تو واقعی اس سے کسی بڑی رقم کا مطالبہ کر سکتے ہیں!‘‘
مگر !‘‘ جگدیش نے کہا۔ ’’تنویر کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ انہیں ایک پائی بھی نہ دے گی ، خواہ اسے اپنے بیٹے ہی سے کیوں نہ ہاتھ دھونے پڑیں ۔ بڑی شاندار عورت ہے جناب۔ ایس پی صاحب اس سے...!‘‘
’’ہیلو!‘‘
جی ہاں ! ‘‘جگدیش ہنستا ہوا بولا ۔ " میں ادھر ادھر دیکھنے لگا تھا کہ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا ہے۔ ایس پی صاحب اُس سے گفتگو کرتے وقت ہکا رہے تھے ۔ بڑی شاندار عورت ہے۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان ہوگی مگر صحت بڑی شاندار ہے۔ بڑا شاندار جسم ہے!‘‘ ’’سب کچھ شاندار ....!‘‘فریدی نے برا سامنہ بنا کر کہا۔
’’ اوہ ... کیا آپ اس سے بھی نہیں ملے ! ‘‘
’’نہیں... صرف نام سنتا رہا ہوں!‘‘
ضرور ملئے جناب! آپ اسے بے حد پسند کریں گے!"
’’ہاں... پسند ہی کرنے کے لئے میں اس سے ضرور ملوں گا۔ تم مطمئن رہو!‘‘
میں کیا بتاؤں ۔ میں تو اُس سے آنکھیں ملا کر گفتگو نہیں کر سکا !‘‘جگدیش بولا لیکن فریدی نے ہر اسا منہ بنا کر سلسلہ منقطع کر دیا۔
اب وہ پھر کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ اس کی پیشانی پر لکیریں ابھر آئی تھیں ۔ ایک بار اس نے پھر ریسیور اٹھایا اور اپنے ڈی آئی جی کے نمبر ڈائل کرنے لگا۔ ڈی آئی جی گھر ہی پر موجود تھا۔ فریدی نے اُس سے تنویر کی رپورٹ کے متعلق بتا کر استدعا کی کہ وہ تنویر والا کیس اپنے محلے میں ٹرانسفر کرالے۔
ابھی یہ کیسے ممکن ہے! " ڈی آئی جی نے کہا۔
’’یہ بہت ضروری ہے جناب۔ براہ راست میری زندگی اور موت کا سوال ہے!‘‘
کیوں؟ میں نہیں سمجھا!‘‘ ’’
مجھ پر ایک زہر یلے کتّے نے حملہ کیا تھا۔ بعض حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہ نہیں سوچ سکتا کہ وہ محض اتفاق تھا
’’ہاں ! حالات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ کسی موٹر سائیکل سوار نے تمہارا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی ! "
جی ہاں اور اس سازش کی جڑیں تنویر کی موجودہ رپورٹ میں ملتی ہیں۔ میں نے ہی اندازہ کیا ہے
اوہو! کیا قصہ ہے؟"
قصہ تو ابھی خود میرے ذہن میں بھی صاف نہیں ہے لیکن آپ مجھ پر اعتماد کیجئے!‘‘ ’’
اچھا بابا ۔ ایک طرف تم کان کھا رہے ہو اور دوسری طرف میرا نو اسا!"
’’میں بھی تو آپ کا بچہ ہوں آخر!‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔
" مگر ضدی ... بچے! اچھا ... اور کچھ کہو!‘‘
نہیں جناب۔ بس اتنا ہی ۔ شکریہ!‘‘ ’’
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے پر فریدی نے بھی ریسیور رکھ دیا۔ لیکن ریسیور رکھتے ہی گھنٹی بجی۔
"ہیلو! ‘‘اس نے دوبارہ ریسیور اٹھالیا۔
میں ریکھا بول رہی ہوں ! ‘‘دوسری طرف سے آواز آئی ۔’’ آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟‘‘
ٹھیک ہوں!‘‘ ’’
’’زخم ...کیسے ہیں؟‘‘
اب زیادہ تکلیف نہیں ہے!‘‘
مجھے بڑی بے چینی ہے!‘‘
"کیوں؟"
وہ دیکھئے... میں سوچتی ہوں ...آپ کے زخموں میں ...تکلیف ہوگی ...اور مجھے نیند نہیں آتی مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ زخم ....میری کلائی پر ہوں !"
’’بڑی عجیب بات ہے !‘‘فریدی کے ہونٹوں پر ایک شرارت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی ۔ ’’یقینا وہ کہتا کوئی حیث روح تھی ۔ تب ہی تو تم ایسا محسوس کر رہی ہو!"
میرا مطلب ہے...!‘‘
’’کیا مطلب ہے ؟‘‘
’’وہ ...وہ ...دیکھئے ۔ خدا کرے آپ جلدی سے اچھے ہو جا ئیں !‘‘
"شکریہ!" فریدی نے کہا اور برا سامنہ بنا کر فون رکھ دیا۔
اسے بعض اوقات اپنے محکمے پر غصہ آنے لگتا۔ خواہ گواہ ایک لیڈی انسپکٹر بھی مہیا کر کی حالانکہ اس کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
وہ سگار سلگا کر ایک آرام کرسی میں نیم دراز ہو گیا۔
بمشکل تمام دو یا تین منٹ گزرے ہوں گے کہ فون کی گھنٹی پھر بجی ۔ فریدی نے اٹھ کر ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے حمید کی آواز سنائی دی۔
’’میں نگرانی کر رہا ہوں جناب !‘‘فریدی جھلائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ میرے سوالات کا جواب نہ دے سکے تو میں کیا کروں!‘‘
’’سوالات کرنے کو تم سے کس کہا تھا؟‘‘فریدی کی آواز تیز ہو گئی۔
’’میں اُس سے صرف ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں !‘‘
’’تمہارا دماغ نہیں خراب ہوگیا۔بکواس کئے جارہے ہو!‘‘
’’اچھا جناب !‘‘حمید نے مردہ سی آواز میں کہا۔ " میں تو اس سے صرف یہ پو چھنا چاہتا تھا کہ تیری کھوپڑی میں سوراخ کیسے ہو گیا۔ مگر وہ میری بات کا جواب ہی نہیں دیتا۔ اس سے یہی سوال کرنے کے لئے بے شمار آدمی اکٹھا ہو گئے ہیں!‘‘
’’اوہ ...توزغالی قتل کردیا گیا!‘‘
جناب والا!‘‘
فورا واپس آجاؤ۔ اب وہاں تمہاری ضرورت نہیں ہے!‘‘ ’’
کیا میں یہ بھی نہ معلوم کروں کہ اس کا قتل کن حالات میں ہوا ہے؟‘‘"
نہیں ...مجھے رپورٹ مل جائے گی۔ تم واپس آجاؤ!‘‘"
فریدی نے ریسیور رکھ کر بچھا ہوا سگار سلگایا اور پھر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ لیکن اس کے چہرے پر تشویش کے آثار نہیں تھے ۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے اُسے پہلے ہی سے علم رہا ہو کہ زغالی مار ڈالا جائے گا۔
جلد ہی پھر فون کی گھنٹی بجی ۔ فریدی نے ریسیور اٹھالیا لیکن اس بار وہ ایک عجیب و غریب زبان میں گفتگو کر رہا تھا۔ بس ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کی زبان بل نہیں رہی بلکہ کنکروں اور پتھر کے ٹکڑوں پر سٹرک کوٹنے والا انجمن چل رہا ہو۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ کبھی کبھی وہ خاموش ہو کر دوسری طرف سے بولنے والے کی بات سنے لگتا تھا۔ اس کے چہرے پر اب پھر گہرے نظر کے آثار نظر آنے لگے تھے۔
ریسیور رکھتے وقت اس نے ایک طویل سانس لی اور دروازے کی طرف ُمڑا۔ حمید بڑی دیر سے دروازے میں خاموش کھڑا اُسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
’’کیا میں ڈاکٹر کو بلاؤں ؟‘‘ حمید نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا اور فریدی ہنس پڑا۔ حمید نے کچھ ایسے ہی انداز میں یہ جملہ کہا تھا کہ اسے جیسے فریدی کے صحیح الدماغ ہونے میں شبہ ہو۔
’’بیٹھو !‘‘فریدی نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ ’’میں تمہیں بتاؤں کہ اس کی موت کیسے واقع ہوئی " حمید بینے گیا ۔ فریدی چند لمحے خاموش رہ کر بولا ۔ ایک طویل قامت برقعہ پوش صورت شاپور بلڈنگ کے ساتویں فلیٹ کے سامنے رکی۔ فلیٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے سائیلنسر لگا ہوا ریوالور نکالا اور پھر بقول تمہارے زغالی کی کھوپڑی میں سوراخ ہو گیا۔ شاہور بلڈنگ میں دونوں طرف زینے ہیں اور ساتویں فلیٹ دوسری منزل پر ہے۔ بیچے سے سامنے کے سارے قلیوں کے دروازے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہاں تو زغالی کو ختم کرنے کے بعد وہ پچھلے زیینوں سے پچھلے زینوں سے اتر گئی اور جاتے وقت اپنا ہر قعد زمینوں ہی پر پھینک گئی تھی ! "
’’تب تو وہ گرفتار بھی ہو چکی ہوگی ؟"
’’کیوں !انہیں تو ...وہ نکل گئی !‘‘
آپ کے بلیک فورس کے جیالے منہ دیکھ کر رہ گئے !‘‘حمید نے طنزیہ میں لہجے کہا۔
نہیں، وہ بے چارے کچھ کچھ ی نہیں سکے تھے۔ وہ تو تھوڑی دے بعد ہٹلر ہونے پر انہیں قتل کا علم ہوا ور نہ ہیے حقیقت ہے کہ وہ گرفتار کرلی گئی ہوتی۔ قلیت کا دروازو پہلے ہی سے کھلا ہوا تھا۔ کسی پڑوی کی نظر لاش پر پڑ گئی اور اس نے ہسٹیریا کی مریضہ کی طرح پینا شروع کر دیا۔ بلیک فورس والے نیچے تھے اور اس قلبیت کی عمرانی کر رہے تھے۔ بہر حال اس آدمی کی چیخیں سن کر ہی وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے " ب پھر آپ وثوق سے کیسے کہ سکتے ہیں کہ وہ کوئی عورت ہی تھی۔ برقعہ میں مرد بھی تو ہو سکتا ہے" برقعے کے ساتھ عورت ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ ویسے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ دو عورت ہی تھی ۔
بہر حال بلیک فورس حرکت میں آگئی ہے !"
زغالی کیوں مارا گیا؟ حمید نے پوچھا۔
’’زغالی!‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ’’کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زغالی ان کانات کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور جانتا تھا۔ خیر ختم کرو۔ بالی کیمپ کے بے شمار لوگ آج چین کی نیند سوئیں گے۔ زمانی ایسا ہی آدمی تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر سرکاری طور پر اس کی لاش دفن نہ کی گئی تو جنازہ یونہی پڑا رہ جائے گا کیونکہ اس کے ساتھی اس سے صرف ڈرتے تھے ۔ انہیں اس سے محبت نہیں تھی ! فریدی تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گیا ۔ پھر اٹھتا ہوا بولا ۔ " میں صبح سے صرف دوسروں کے کالز ریسیو کرتا رہا ہوں ۔ اب ایک فون میں بھی کروں گا اس نے کسی کے نمبر ڈائل کئے۔ ہیلو! کون سعید با بر صاحب میں فریدی ہوں ! فریدی کے لیجے میں گھبراہٹ تھی ۔ " بھا گئے جتنی جلد ممکن ہو سکے دو عمارت چھوڑ دیجئے آپ بہت بڑے خطرے میں ہیں ! پھر کسی جواب کا انتظار کئے بغیر فریدی نے ریسیور رکھ دیا۔
" کیا مطلب؟" حمید بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔
بیٹھو بیٹھو۔ اس کی فکر نہ کرو!‘‘"
آپ مجھے کچھ نہیں بتا ئیں گے!"
فریدی نے آرام کرسی کی پشت گاہ سے ایک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔
حمید سارا دن گھر میں رہا۔ آج اتوار تھا اور دوپہر ہی سے مطلع ابر آلود ہو گیا تھا اس لئے وہ باہر نہیں گیا۔
وہ دن بھر فریدی کو فون کرتے یا کالیں ریسیو کرتے دیکھتا رہا۔ حمید کے مکرر استفسار پر اُس نے اتناہی کہا کہ وہ بستر مرگ پر بھی کام کر سکتا ہے۔
شام کو اس نے خاص طور پر نوکروں کو ہدایت دی کہ کوئی کتا کھلا نہ چھوڑا جائے ۔ حمید کو اس پر بھی حیرت ہوئی لیکن اب اس نے کچھ نہ پوچھنے کی قسم کھائی تھی۔ ایک بار جب فریدی لیباریٹری میں تھا، حمید نے اس کی ایک کال ریسیو کی ۔ دوسری طرف سے بولنے والی کوئی صورت تھی ۔ یہ بات اوراہی میں سمجھ میں آئی کہ بولنے والی لیڈی انسپکٹر ریکھا کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتی ۔ فریدی صاحب کا انتقال ہو گیا حمید نے بڑی درد ناک آواز میں کہا۔ انہیں ریکھا اتنے زور سے چینی کہ ریسیور جھنجھنا اٹھا۔
یہاں دفن کفن کا انتظام ہو رہا ہے لیکن انہوں نے مرتے وقت کہا تھا کہ ریکھا کو میرے ساتھ ہی دفن کر جا یدے کمینے ہیں ریکھا جھلا گئی ۔ اس قسم کے فضول مذاق کرتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آتی ۔ بتائیے
فریدی صاحب کیسے ہیں؟" محروم ہو گئی تھی ۔ چاہتے ہو تو یہیں ایک آرام کرسی پر سو بھی سکتے ہو!" وہ اوپری منزل کے ایک کمرے میں تھے جس کی کھڑکیاں عقبی پارک کی طرف کھلتی تھیں اور یہ اسلحہ کا کمرہ تھا۔ حمید نے ان سارے انتظامات کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ وہ کچھ پوسٹ اور فوٹو پہلے پین آپ کے بہت سے رسائل اٹھالا یا تھا اور اب ان کی ورق گردانی کرنے لگا۔ سارے نوکر کوارٹروں میں تھے اس لئے اس کمرے میں استو د جل رہا تھا اور اس پر کافی کا پانی چڑھا ہوا تھا۔ تقریبا گیارہ بجے فریدی نے کمرے کی روشنی گل کر دی اور تحمید میز پر رسالہ پہنتا ہوا بڑ بڑایا۔" یہاں تو پھر بھی نہیں ہیں کہ اندھیرے میں ان کی سارنگی ہی سے دل بہلتا توقع ہے کہ دل بہلنے کا کچھ نہ کچھ سامان مہیا ہی ہو جائے گا‘ فریدی بولا ۔ لیکن حمید نے اب بھی کچھ نہیں پوچھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں لیکن ایسے میں نیند کہاں ۔ کچھ بھی ہو۔ فریدی اپنا وقت نہیں یہ باد کرتا تھا۔ ان تمام تیاریوں کا کچھ نہ کچھ مقصد ضرور تھا۔ پتہ نہیں وہ کب تک آنکھیں بند کئے آرام کرسی کی پشت گاہ سے نگار رہا پھر اچانک وہ چونک پڑا کیونکہ فریدی اس کا داہنا شانہ دبا رہا تھا۔
بس ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سورہے ہوں۔ عرصہ سے اس قسم کی بارونق لاش دیکھنے کی تمنا تھی ۔ شت آپ ریکھا حلق کے مل چینی اور سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پھر اندھیرا پھیلنے لگا۔ سورج غروب ہو چکا تھا اور آسمان میں امر ہونے کی وجہ سے فضا تاروں کی روشنی سے بھی نوکروں کے لئے فریدی کا سخت آرڈر تھا کہ وہ رات کے کسی بھی حصے میں اپنے کواٹروں سے باہر قدم نہ نکالیں خواہ کچھ بھی ہو جائے ۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر اس نے صرف ایک کتا کمپاؤن میں کھلا رہنے دیا۔ اور اب ہم لوگ ' اُس نے حمید سے کہا۔ " یہ رات مختلف قسم کی تفریحات میں بسر کریں گے ۔ اگر تم سون ادھر وہ دیکھو عقبی پارک کی دیوار پر سامنے " اس نے آہستہ سے کہا۔ کافی گہرا اندھیرا تھا لیکن دیوار کے دھندلے سے آثار تو نظر ہی آرہے تھے۔ حمید نے دیوار پر ایک گول مٹول سایہ دیکھا اور پھر اس سائے نے زمین پر چھلانگ لگائی تھہ ہی ایک تیز قسم کی روایت سنائی دی اور وہ کسی کتے ہی کی فراہت تھی۔ میرے کسی کتے کی آواز نہیں ہوسکتی ' فریدی نے کہا اور میز پر پڑی ہوئی رائفل اُٹھا لی مگر نیچے زمین پر جھاڑیوں اور درختوں کی وجہ سے گہری تاریکی تھی۔
اچا نک ایسا معلوم ہوا جیسے دو کئے آپس میں لڑ پڑے ہوں گھر آواز صرف ایک ہی کی سنائی دے رہی تھی اور فریدی برابر یہ کہے جا رہا تھا کہ وہ اس کے کسی لئے کی آواز نہیں ہے پھر ایک بڑی لمبی آواز سنائی دی اور سناتا چھا گیا ، ایسا معلوم ہوا جیسے وہ کتے کی آخری چیخ رہی ہو ۔
یڑا سا گول منول سایہ اب درختوں کے نیچے سے نکل کر کھلے میں آگیا تھا اچانک فریدی کی رائفل سے ایک طہ لگا اور وہ دس پندروفیٹ او پر اچھل گیا مگر اس کے بعد پھر کچھ نہ معلوم ہوسکا کہ وہ کہاں گیا ۔
’’افسوس!‘‘ فریدی کی بھرائی ہوئی آواز کمرے میں گونجی اور تحمید کی نظر پارک کی دیوار کی طرف اٹھ گئی ....گول مسئول سایہ گو یا فضا میں اڑتا ہواد یوار پار کر رہا تھا۔ فریدی نے پھر فائر کیا مگر اس فائر کا انجام نہ معلوم ہو سکا ۔
دوسرے ہی لمحے میں فریدی، حمید کو کھنچتا ہو زینے طے کر رہا تھا۔ وہ نبی پارک میں پہنچ گئے۔ ٹارچ کی روشنی اندھیرے میں آڑی ترچھی لکیریں بنا رہی تھی۔
حمید کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ دوسرا کتّا سیاہ رنگ کا تھا اور اس کے سر پر سفید دھار یا ں انھیں ، جسم گرے ہاأنڈ کا ساتھا۔
کسی نے ان دونوں کی پچھلی ٹانگیں چیر دی تھیں ۔
قاسم اور سایہ
فریدی دیوار کی طرف جھپنا ۔ حمید بھی اُس کے ساتھ ہی آگے بڑھ گیا۔ دوسرے ہی لمحے میں فریدی کے منہ سے ایک تیر آمیز آواز نکلی ۔ وہ ٹارچ کی روشنی میں جھکا ہواز مین پر کچھ دیکھ رہا تھا۔
"حمید!" وفعتًہ اس نے سر اٹھا کر کہا۔ " یہ تو ویسے ہی نشانات ہیں !"
حمید بھی جھک پڑا۔ وہی حیرت انگیز نشانات تھے جو سعید بابر کی کوٹھی کی کمپاؤنڈ میں پائے گئے تھے اور جن کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے فریدی نے زعالی سے مدد لینے کی کوشش کی تھی۔
دیوار کے نیچے نرم زمین تھی اس لئے نشانات بہت زیادہ واضح تھے۔
’’ میرے خدا !‘‘حمید بڑ بڑایا ۔ ’’وہ کیا بلا تھی۔ میں نے اُسے اڑتے دیکھا تھا ۔ وہ دیوار سے دو یا تین گز بلند تھی!‘‘
افسوس ہے کہ میرے دونوں فائر خالی گئے!‘‘ ’’
جب وہ دیوار سے زمین پر آئی تھی !‘‘حمید نے کہا ۔" کیا وہ لڑھکتی ہوئی ایک بہت بڑی گیند نہیں معلوم ہو رہی تھی ؟‘‘
حمید کو توقع تھی کہ اب فریدی بھاگ چل پڑا۔
ایسے ہی کسی کتّے نے آپ پر حملہ کیا تھا ؟ ‘‘حمید نے پوچھا۔
’’ ہاں ، یہ لاش تو اُسی کتّے کی معلوم ہوتی ہے !‘‘ فریدی نے جواب دیا۔ " مجھے افسوس ہے کہ یہ زندہ میرے ہاتھ نہ آسکا!‘‘
اندر آ کر فریدی نے کسی کے نمبر ڈائل کئے ۔ ریسیور کان سے لگائے رہا۔ پھر ڈس کنکٹ کر کے دوبارہ نمبر ڈائل کئے اور فورا ہی ڈس کنکٹ کر دیا۔ اس طرح اس نے تقریبا پچیس باروی نمبر ڈائل کئے اور وہ نمبر حمید کے ذہن نشین ہو گئے ۔ بہر حال اس کے بعد فریدی نے ریسیور کریڈل میں ڈال دیا۔
آپ کسی سے گفتگو کرنا چاہتے تھے ؟"
’’کسی سے بھی نہیں۔ میں تو صرف ایک تجربہ کرنا چاہتا تھا جو سو فیصدی کامیاب رہا !
" کیا کامیاب رہا۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے ابھی تک اپنا قیمتی وقت برباد کیا ہے۔ آپ کی جگہ اگر میں ہوتا تو دیوار کے اس طرف پہنچے میں دیر نہ کرتا!‘‘ "
تم پر کیا منحصر ہے !" فریدی بر اسا منہ بنا کر بولا ۔ ’’شیخ نتھو اور میر جّمن بھی یہی کرتے !"
’’خیر... خیر! "حمید نے بیزاری سے کہا۔ " آپ کے سب تجربات ختم ہو گئے یا ابھی کچھ باقی ہیں !"
" اب تم سو سکتے ہو۔ مجھے توقع ہے کہ باقی رات آرام سے گزرے گی !‘‘
فریدی کمرے سے چلا گیا اور حمید بڑی تیزی سے ٹیلیفون ڈائرکٹری پر جھپٹ پڑا۔ دوسرے ہی لمحے میں رہ اس نمبر کی تلاش میں اوراق الٹ رہا تھا جو کچھ دیر قبل ڈائل کیا گیا تھا۔
مگر نمبر سے پتہ معلوم کر لیتا آسان کام نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے جھلا کر ڈائرکٹری میز پر شیخ دی اور پھر اُسے اپنی عقل پر غصہ آنے لگا۔ آخر اتنی دیر تک ڈائرکٹری میں سرکھپانے کی کیا ضرورت تھی ۔ نمبر کے ذریعہ پتہ تو انکوائری سے بھی معلوم کیا جا سکتا تھا۔ ٹیلیفون انکوائری میں کئی لڑکیاں اس کی شناسا بھی تھیں۔
اس نے انکوائری کو ریگ کیا۔ اتفاق سے لڑکی جان پہچان والی ہی نکلی اور حمید کو جلد ہی مطلوبہ پتیل گیا لیکن جب وہ پتہ ایک کاغذ پر نوٹ کر کے ریسیور کریڈل میں رکھ رہا تھا ، اس نے فریدی کی آواز سنی۔
" لیکن تم کوئی حماقت نہیں کرو گے!‘‘
حمید دروازے کی طرف مڑا۔ فریدی سامنے کھڑا سگار سلگا رہا تھا۔
’’آپ نے مسنر تنویر کے نمبرکیوں ڈائل کئے تھے ؟ ‘‘
’’بس یونہی ۔میں نے سوچا کہ نہیں کی شاندار صورت کی سر پرستی میں دے دیا جائے! "
شکریہ مجھے آپ ہی کے زیر سر پرستی ہر قسم کا مزہ آ جاتا ہے۔ آپ مزید تکلیف نہ کریں !"
تم اُدھر کا رستا نہیں کروگے سمجھے !‘‘ ’’
مجھے بوڑھی عورتوں سے کوئی دلچپسی نہیں ہے۔ میرا خیال ہے یہ وہی مسز تنویرہے، تو یہ ٹکسٹائل ملز اور تنویرآئرن اور کسی کی ملکہ!‘‘
ہاں وہی ۔کیا تم اس کبھی مل چکے ہوں گا!‘‘
’’اس کا لڑکا تمہاری عمر کا ہو گا !‘‘
اور اس سے ایک آدھ سال چھوٹی کوئی لڑکی بھی ہوگی۔ میں شرط لگانے کے لئے تیار ہوں! "
’’تم ہار جاؤ گے !‘‘
حمید پھر کچھ نہ بولا ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ " مگر وہ خوشگوار کہا آج بھی تہا نہ رہا ہوگا۔ آپ نے اس تجربے کے چکر میں اسے نکل جانے دیا!‘‘
حمید صاحب !مجرم میری جیب میں رکھے ہوئے ہیں ۔ جس وقت چاہوں جھڑیاں لگا دوں ۔ مگر میں ی کال ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ بس دو چار دن اور تھہر جاؤ تا کہ جو سر باقی رہ گئی ہے وہ بھی پوری ہو جائے! "
’’آپ تو ایسا کہہ رہے ہیں گویا یہ کسر میری شادی سے پوری ہوگی !‘‘
شٹ آپ! " فریدی نے کہا اور جانے کے لئے مڑا لیکن حمید فورا ہی بول پڑا۔
تو پھر آپ اس گول مٹول سائے کے متعلق بھی جانتے ہوں گے ؟"
’’نہیں ، میں نہیں جانتا کہ وہ کیا بلا ہے۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ہمارے ہی لئے آئی تھی ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اُسی کتّے کا تعاقب کرتی ہوئی یہاں آئی ہو۔ رہا کتا تو وہ ایک بار پہلے بھی مجھ پر حملہ کر چکا ہے۔ ممکن ہے آج بھی اسے یہاں اسی نیت سے لایا گیا ہو!‘‘
تو کیا وہ سایہ اس کتے کا تعاقب بھی کر سکتا ہے؟"
خدا جانے !“ فریدی نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ " کیا تمہیں نیند نہیں آرہی ہے؟‘‘"
حمید بھرا کر وہاں سے اُٹھ گیا۔ اپنے کمرے میں آکر اُس نے لباس تبدیل کیا۔ بستر پر جانے سے پہلے ایک پائپ پینے کی تیار کرنے لگا۔ و ہ ُپر اسرار سایہ اب بھی اُس کے ذہن پر مسلط تھا۔ وہ کوئی بھاری بھر کم مگر ایسی چیز تھی جو گیند کی طرح لڑھک سکتی تھی اور ٹینس کی گیند کی طرح اچھل بھی سکتی تھی۔ پہلے فائر پر تو وہ حقیقت کسی ایسی `ٹینس بال ہی کی طرح اچھلی تھی جسے پوری قوت سے زمین پر شیخ دیا گیا ہو۔ حمید دیر تک اس کے متعلق سوچتار ہا پھر ذہنی رَواس خطر ناک کتے کی طرف بیک گئی۔
اس نے بھی شاید زندگی میں پہلی بار س قسم کا تار کیا تھا تم کیا ہی خوفناک سائے نے اس کی ٹا تھیں چھ ڈالی تھیں۔ یہ بات اس کی مجھ میں نہ آسکی۔ اگر یہ سایہ ہی تھا جس کے ہی ان کے لثارات سعید بنانے کی کھڑکی کے نیچے ملے تھے تو اس کتے سے اس کا کیا تعلق ہے۔ اس کتے نے فریدی پر صلہ کیا تھامگر سانے کا اعلہ سعید باید کے لئے تھا۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ دونوں کے راستے الگ الگ تھے۔ پھر ان دنوں کا کر ادا کیا سگی رکھتا ہے۔
حمید کو جلدی نیند نہ آسکی۔ وہ بستر پر پڑا جاگتا رہا۔ اسے مجرموں سے زیادہ فرید کی پر اسرار معلوم ہور ہا تھا۔ اس وقت نہ تو اس نے اس کتے کی لاش کی پروا کی تھی اور نہ ہی معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ پرُ اسرار یہ کہاں سے آیا تھا اور کدھر گیا تھا۔ اس کے بر خلاف وہ فون پر تنویر کے نمبر ڈائل کرتا رہا تھا۔
اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجی اور وہ بے ساختہ اچھل پڑا۔ اس عمارت میں تین خون تھے۔ ایک فریدی کی خواب گاہ میں رہتا تھا۔ دوسرا حمید کی خواب گاہ میں اور تیسر الائبریری میں ۔
’’ہیلو!کیا سوگئے!‘‘اس نے فریدی کی آواز سنی۔
آپ کہاں سے بول رہے ہیں ؟ ‘‘حمید نے بوکھلا کر پو چھا۔
اور میں اہرام مصر پر ہوں!‘‘ ’’
سنو، مذاق نہیں۔ تمہیں ایک کام کرنا ہے!‘‘"
بستر سے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں ۔ یہی نا حمید جھلا گیا ۔
اس وقت نہیں، صبح!‘‘
تو کیا صبح نہ ہوتی ۔ بتائیے کیا کام ہے؟‘‘"
صبح ضرور ہوگی !‘‘دوسری طرف سے آواز آئی۔’’ مگر اس کام کی شروعات بستر پر پڑے ہی پڑے ہوسکتی ہے!‘‘
ابھی کچھ کہہ دوں گا تو...!‘‘
شٹ اَپ۔ میری بات سنو ۔ کسی طرح قاسم اور سعید با بر کولڑادو....دونوں کو....تمہاری تفریخ ہو جائے گی!‘‘
ہاں تم نے مجھے راحلہ کے متعلق بتایا تھا میں گرادو دونوں کو تمہاری تفریح ہو جائے گی " آخر آپ ان دونوں کو کیوں لڑانا چاہتے ہیں ؟‘‘
تجربے کے نام پر حمید جھلا گیا۔ اُس نے بائیں ہاتھ سے اپنا گلا گھونٹتے ہوئے کہا۔ " گردن ریت ڈالئے
ری ، وہ کام ہو تو فرمایئے ایک تجربہ رہا ہوں قاسم کی خواب گاہ میں خون ضرور ہوگا " فریدی نے کہا۔ ہوگا مجھے پتہ نہیں میری ۔وجہ پوچھوں تو فرمائے ایک تجربہ کررہا ہوں !‘‘
’’قسم کی خواب گاہ میں فون ضرور ہوگا !‘‘ فریدی نے کہا۔
’’ہوگا! مجھے پتہ نہیں!‘‘
تم اس کے نمبر ڈائل کرو۔ کوئی دوسرا بولے تو کہو قاسم سے ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ سو رہا ہوگا ۔ اٹھا بھی تو ا کھانے کے سے انداز میں فون پر آئے گا۔ تم کہنا کہ تم سعید بابر بول رہے ہو اور پھر راحلہ کے متعلق کچھ پوچھ بیٹھنا!‘‘
سچو شین کا تصور کر کے حمید بے تحاشہ اس پڑا اور دوسری طرف سے آواز آئی۔ سمجھ گئے 18 میں سمجھ گیا۔ لیکن آپ وجہ نہیں بتا ئیں گے ۔ کیوں؟
حمید فون کا سلسلہ یہ سارے معاملات تجرباتی دور میں ہیں ۔ ویسے دو ایک مجرم میری نظر میں ضرور ہیں کر بے کار مکمل شہادت ملے بغیر میں ان کی طرف اشارہ بھی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ سب کافی با عزت اور اور انچی پوزیشن کے لوگ ہیں ۔
خیر اچھا... اب تم اپنا تجربہ شروع کرو!‘‘
حمید فون کا سلسلہ منقطع کرکے سوچ میں پڑ گیا ۔ضروری نہیں کہ خون خواب گاہ میں ہو اور قاسم کے نوکر یا گھر ے افراد شاید ہی اسے جگانے کی ہمت کر سکیں ۔ پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اس نے ایک بار دو تین ٹیلیفون آپریٹر لڑکیوں کا تعارف قاسم سے کرایا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ انہیں فون کرتا ہو۔ دن کو بیوی کی وجہ سے دشواری ہوتی ہوگی اس لئے دو رات کو ضرور کوشش کرتا ہوگا۔ وہ دونوں الگ الگ کمرے میں سوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے آج کل ایک فون خواب گاہ میں رکھ چھوڑا ہو۔
اس نے قاسم کو فون کرنے سے پہلے ایک بار پھر فریدی سے رابطہ قائم کیا۔
’’ ہیلو!میں ہوں.... جی ہاں.... مگر سعید بابر کو تو آپ نے کنگس لین سے بھگا دیا ہے !"
’’یہی تو مصیبت ! ‘‘فریدی بولا ۔ وہ ابھی تک وہیں جما ہوا ہے۔ میرے کہنے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
اس کے بعد کو مجھے فون کیا تھا۔ کہتا تھا کہ وہ قطعی کسی سے مرعوب یا خائف نہیں ہے۔ اگر اس کا بھائی یہاں ایڑیاں رگز کر مرا ہے تو وہ بھی یہیں مرجائے گا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ ایسے بزدلوں سے مرعوب نہیں ہو سکتا جو ایک اپانچ کی رقم بعضم کرکے اسے بھیک مانگنے پر مجبور کرتے رہے ہوں۔ اب میں تمہیں بتادوں کہ قاسم کی وجہ سے اُسے وہ کوٹھی چھوڑنی کیا پڑے گی!‘‘ !
آخر آپ اُس بے چارے کو وہاں سے کیوں نکلوانا چاہتے ہیں ؟ ‘‘
’’یہ ابھی نہ پوچھو۔ بس دیکھتے جاؤ!‘‘
فریدی نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ اب حید قاسم کے نمبر ڈائل کر رہا تھا۔ اسے تقریبا پانچ یا چھ بار نمبر ڈائل کرنے ے پر دوسری طرف سے ریسیور اٹھنے کی آواز آئی۔
ہالو...قون ...کون ہے ؟ " قاسم کی دہا سنائی دی۔
" قام صاحب " حمید نے اپنی آوازبولنے کی کوشش کی ۔
ہاں قاسم صاحب ....تم کون ہو.... یہ بھی قوئی وکت ہے!‘‘ "
کیا را جلہ جاگ رہی ہیں ؟ ‘‘
ا بے تم کون ہو؟" قاسم دہاڑا۔
سعید بابر !‘‘حمید نے بھی ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا !‘‘چند لمحے خاموشی رہی اور حمید کے’’ ہیلو ‘‘ہکنے پر قاسم پھٹ پڑا ابے او سعید بابر کے بچے ،تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ہے ...سالے!‘‘
ذرا تمیز سے گفتگو کیجیے !‘‘حمید نے لہجے میں غصیلا پن پیدا کیا۔
تیری تمیز کی دم۔ یہ راحلہ کیا تیری ممانی لگتی ہے!‘‘
قاسم صاحب ! آپ حد سے بڑھ رہے ہیں!‘‘ ’’
ابے میں تیری بوٹیاں ارادوں گا۔ یا افریقہ کا بچہ خبردار جو اَب کبھی ادھر کا رُخ کیا۔ مار مار کر بھس بھر دوں گا !‘‘
میں آپ کی دھجیاں اڑا دوں گا۔ آپ میں کسی خیال میں !" حمید نے کہا۔ " را علہ میری ہے اور پیش میری رہے گی!‘‘
تیرے باپ کی ہے راحلہ۔ اچھا ٹھہر و!سور کے بچے !میں وہیں تمہارے گھر پر آتا ہوں ۔ پھر دیکھوں گا راحلہ کس کی ہے!‘‘
’’آپ میرے گھر پر آکر اپنی موت کو دعوت دیں گے!‘‘
"اچھا ....اچھا"
راحلہ کو ساتھ لیتے آئے گا!" حمید نے کہا۔
’’ خرموش!‘‘ قاسم چنگھاڑا۔ ’’سور کے بچے ۔ ابے میں سچ مچ آرہا ہوں... اسی وقت ، پھر دیکھوں گا کہ تجھ میں
کتنا دم ہے!"
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو گیا۔ حمید پیٹ وہائے ہوئے بے تحاشہ قہقہے لگا رہا تھا۔ اس نے پھر فریدی سے گفتگو کرنے کے لئے ریسیور اٹھایا۔
کیا بات ہے؟'' دوسری طرف سے آواز آئی ۔
وہ ابھی اسی وقت سعید باہر کی ہڈیاں توڑنے جا رہا ہے!‘‘ ’’
’’خوب !‘‘
میں بھی جا رہا ہوں!‘‘ ’’
تم کیا کرو گے!‘‘ ’’
واه .....اصل تفریح تو و ہیں ہوگی ۔ اچھا میں چلا !‘‘
ٹھہرو !سنو ۔ وہ دونوں تمہیں دیکھنے نہ پائیں!‘‘
آپ مطمئن رہیں ! ‘‘حمید نے کیا ریسیور کر یڈ ل میں ڈالا اور بڑی تیزی سے لباس تبدیل کرنے لگا۔
کمرے سے باہر نکلتے وقت اس کے جسم پر سیاہ چلون اور چڑے کی جیکٹ تھی ۔
اُسے کچھ اچھی طرح یاد نہیں کہ اس نے گھر سے سعید کی کوٹھی تک کا راستہ کیسے طے کیا۔
کار ایک تلی میں کھڑی کر کے وہ کوٹھی کی پشت پر پہنچ گیا ۔ کوٹھی کے گرد قد آدم چہار دیواری تھی ۔ حمید بڑی احتیاط سے اس پر چڑھا اور دوسری طرف اتر گیا۔ لیکن آج ایک حیرت انگیز بات اس نے مارک کی تھی ۔ کوٹی کی کمپاؤنڈ کا چانک کھلا ہوا تھا اور عمارت کی بعض
کھڑکیوں میں روشنی بھی نظر آرہی تھی۔
حمید پام کے گملوں کی اوٹ میں رُک گیا۔ یہاں سے پھاٹک صاف نظر آتا تھا۔ اچانک اُسے قاسم کی آواز سنائی دی جو شاید پھاٹک میں داخل ہونے سے پہلے ہی دہاڑنے لگا تھا۔
"ابے او سعید ... بابر کے بچے میں آگیا نکل تو باہر!‘‘
پھر پھاٹک میں اس کے پہاڑ سے جسم کا دھندلا سا سایہ نظر آیا۔ وہ پورچ کی طرف بڑھ رہا تھا اور ساتھ ہی مغلظات کا طوفان بھی امڈاتھا۔ اچانک حمید کے جسم کے سارے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ قاسم کے پیچھے بھی ایک سایہ تھا۔ وہی گول مٹول سا سایہ جو تھوڑی دیر قبل فریدی کی کوٹھی میں نظر آیا تھا، وہی تھا۔ سو فیصدی وہی تھا ۔ حمید اُسے محض واہمہ نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ زمین پر کسی بڑی سی گیند کی طرح لڑھک رہا تھا اور قاسم شاید اس کی موجودگی سے لاعلم تھا۔ دونوں میں بمشکل تمام دس گز کا فاصلہ رہا ہوگا ۔
حمید بوکھلا گیا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں فائر کر دینے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا لہذا اس نے ریوالور نکال کر پے در پے تین فائر جھونک دیئے۔
ہٹ تیرے کی !‘‘ اُ س نے قاسم کی چنگھاڑ سنی ۔ " سالے بزدل!‘‘
حمید نے اس گول مٹول سائے پر فائر کئے تھے اور اُسے اُچھل کر دوبارہ زمین پر گرتے دیکھا تھا مگر پھر اس کے بعد وہ نظر نہیں آیا اور قاسم بھی ندارد ...
" قاسم ! ‘‘حمید نے اُسے آواز دی۔
قق ...قو !‘‘قریب ہی سے کپکپائی ہوئی آواز آئی۔
ساتھ ہی کسی نے اوپری منزل کی ایک کھڑکی سے آوازوں کی سمت تاریخ کی روشنی ڈالی۔
حمید بھائی !" قاسم اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ وہ شاید اب تک زمین پر چت پڑاتھا۔ پھر وہ اوپر منزل والی کھڑکی کی طرف ہاتھ اٹھا کر چیخا۔
آؤ... سالے ۔.... نیچے اؤ۔تم نے ایک پولیس آفیسر کی موجودگی میں مجھ پر گولیاں چلالی ہیں !"
’’کون ہے؟‘‘ اوپر سے آواز آئی۔
’’میں تمہارا باپ۔ نیچے آؤ !قاسم نے للکارا ۔
حمید بوکھلا گیا۔ یہ نئی مصیبت تھی ۔ قاسم کو کنٹرول کرنا آسان کام نہیں تھا۔ وہ کیا سوچ کر آیا تھا اور کیا ہوگا۔
تم اس وقت یہاں کیوں آئے ہو؟" حمید نے اس سے پوچھا۔
’’اس سالے کو بار بر بناؤں گا۔ مگر تم نے مجھ پر کیوں فائر کیا تھا ؟ وہ رک کر حمید کی طرف پلٹ پڑا۔
سعید نے برآمدے سے کہا۔ " میں نے شاید فائروں کی آواز میں سنی تھیں ۔ میرے ہاتھ میں بھی ریوالور ہے اور میں ایک ستون کی اوٹ میں ہوں !" کیمپین حمیدا حمید نے گرجدار آواز میں کہا۔
اوہو ....کپتان صاحب فرمائیے ! ‘‘سعید با بر پھر روشنی میں آگیا۔
’’ میں فرماؤں گا! " قاسم وہاڑا ۔ " اور ایسا فرماؤں گا کہ تم مہینوں چار پائی سے اُٹھ نہ سکو گے !"
یہ کون صاحب بول رہے ہیں ۔ کپتان صاحب! آپ حضرات یہاں کیوں نہیں تشریف لاتے!‘‘ ’’
جہاں تم کہو !" قاسم نے چیخ کرنے کے سے انداز میں کہا۔ ’’میں ہر جگہ تیار ملوں گا!‘‘ ’’
قاسم خاموش رہو !"حمید نے کہا۔
’’موجودگی کا مطلب موجودگی ہے !" قاسم غرایا۔ ہاں اب کہو جو کہہ رہے تھے!‘‘
میں کچھ نہیں سمجھا جناب ؟‘‘
جناب سالا گیا چولھے میں ۔ میں شرافت سے نہیں پیش آؤں گا !‘‘
حمید نے سوچا کہیں راز فاش نہ ہو جائے ۔ اگر ایسا ہوا تو فریدی اچھی طرح اس کی خبر لے گا ....لہذا اس نے سعید باہر سے کہا کیا آپ کو علم ہے کہ آج رات بھی آپ بال بال بچے ہیں !‘‘
’’ یہ تم نے کیسے کچھ لیا کہ یہ بال بال بچے ہیں !" قاسم غرایا۔ ” کیا تم میرا ہاتھ پکڑ لو گے۔ ہے اتنی ہمت...ہاں بابر صاحب ۔ اب تو راحلہ کا نام اپنی نا پاک زبان سے لو تو دیکھوں !‘‘
’’راحلہ ....کیا مطلب؟‘‘
قاسم کا ہاتھ چل گیا۔ پھر پور ہاتھ ....سعید با برلڑ کھڑاتا ہوا فرش پر ڈھیر ہو گیا۔
قاسم ! تم ہوش میں ہو یا نہیں ! ‘‘حمید درمیان میں آگیا۔ ’’پیچھے ہٹو، ور نہ گولی مار دوں گا!‘‘ "
ارے ....ارے ....!‘‘قاسم پیچھے بہتا ہوا بولا ۔
’’بس چلے ہی جاؤ۔ اس میں خیریت ہے۔ میں اس وقت ڈیوٹی پر ہوں۔ سعید بابر کی محافظت سرکاری طور پر
کر رہا ہوں۔ میں اس وقت تمہار ا دوست نہیں.... جاؤ!"
سعید با بر فرش پر بیٹھا یا یاں گال دبائے خون تھوک رہا تھا۔
اچھا سرکاری کے بچے ۔ میں تمہیں بھی دیکھ لوں گا !" قاسم یکلخت دوسری طرف مُڑتا ہوا بولا۔ پھر بر آمدے کے نیچے اُتر کر دہاڑا۔
" سعید بابر .... کان کھول کر سن لو۔ اب اگر تم نے راحلہ کا نام بھی لیا تو جہنم میں ہو گے ....ہاں!‘‘
پھروہ تیزی سے چلتا ہوا تاریکی میں گم ہو گیا۔
’’یہ یہاں اس وقت کیوں آیا تھا ؟ " حمید نے سعید بابر سے پوچھا۔
میں نہیں جانتا۔ عجیب وحشی آدمی ہے؟‘‘"
ویسے وہ کئی بار مجھ سے بھی کہ چکا ہے کہ اُسے آپ راحلہ کا ملنا جلنا پسند نہیں ہے!‘‘
جھک مارتا ہے۔ میں اور راحلہ بہت جلد شادی کرنے والے ہیں !‘‘"
اوہ خیر.... مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے حمید نے کہا۔ لیکن یہ بھی اطلاع اس کے لئے نئی سنسنی خیز ضرور تھی سنسنی خیز اس لئے کہ قاسم اس کے متعلق سنتے ہی شاید اپنی ہی ہڈیاں چبا ڈالے۔
آج یہاں در اصل میری ہی ڈیوٹی تھی ! ‘‘حمید نے سعید باہر سے کہا ۔ جس دن سے آپ پر حملہ ہوا ہے کوئی نہ کوئی یہاں ضرور موجود رہتا ہے!‘‘
میں شکر گزار ہوں جناب!‘‘ ’’
ذرا ٹارچ مجھے دیجئے اور میرے ساتھ آئیے ! ‘‘وہ دونوں بر آمدے سے باہر آئے ۔ حمید نے ٹارچ کی روشنی وہاں ڈالی جہاں اسے پُر اسرار سایہ نظر آیا تھا۔
یہاں ویسے ہی حیرت انگیز نشانات موجود تھے۔
’’میرے خدا !‘‘سعید با بر خوفزدہ آواز میں بڑبڑایا۔
’’ میں نے اس پر فائر کیا تھا ....مگر شاید وہ فولاد یا پتھر کی کوئی مخلوق ہے!‘‘
’’ چلئے!‘‘ سعید اس کا ہاتھ پکڑ کر برآمدے کی طرف کھینچتا ہوا بولا ۔ ’’ یہاں اب نہ ٹھہر ئیے!‘‘
سعید دوڑ رہا تھا ۔ حمید کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا لہذا حمید کو بھی دوڑنا پڑا تھا۔ سعید بابر دروازہ بند کر کے ہانپنے لگا۔
خوفناک لمحات
حمید کو نہیں معلوم تھا کہ اب فریدی کا پروگرام کیا ہے۔ اس نے اسے وہ سارے واقعات بتائے تھے جو سعید باہر کی کونٹی میں پیش آئے تھے ۔ جواب میں فریدی نے مسکرا کر صرف اتنا ہی کہا۔ " ضروری نہیں کہ ہماری ساری اسکیمیں کامیاب ہی ہوں۔ میں نے دوسری طرح کام نکالنا چاہا تھا مگر نہیں ہو سکا!‘‘
حمید نے سوچا کہ نہیں ہو سکا تو جہنم میں جائے ۔ اسے کیا ؟ مگر اس نے فریدی کو راحلہ اور سعید بابر کی ہونے والی شادی کی خوشخبری سناہی دی۔
’’بہت دلچسپ !‘‘فریدی مسکر دیا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت آمیز چمک تھی۔
’’ ضرور دلچسپ !‘‘حمید دانت نکال کر بولا ۔ ’’دوسروں کی شادیوں کے متعلق سن کر آپ کو کافی مزہ آتا ہے! "
فریدی باہر جانے کے لئے تیار تھا اس لئے بات آگے نہ بڑھے گی۔ حمید اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ پچھلے چو بیس گھنٹوں میں بمشکل تمام تین گھنٹے سویا ہوگا۔
بستر پر جانے سے پہلے اس نے قاسم کو فون کیا ۔ فون سلمہ نے ریسیو کیا تھا۔ پھر قاسم آگیا۔
’’میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا !" قاسم نے نا خوشگوار لہجے میں کہا۔
’’مت کروبات لیکن میں سرکاری طور پر وہاں سعید باہر کی حفاظت کے لئے تھا !‘‘
’’سرکاری کی ایسی کی تیسی تم نے پہلے مجھ پر گولی چلائی پھر دوبارہ گولی مار دینے کی دھمکی دی۔ ویسے اگر تم مجھے سے نپٹنا چاہو تو میں اب بھی تیار ہوں !"
’’میں نے تم پر کوئی نہیں چلائی تھی ۔ تمہارے پیچھے ایک آدمی تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سعید کی تاک میں آیا ہو۔
بہر حال میری ایک بھی گولی اس کے نہیں لگی۔ سعید بابر کی زندگی خطرے میں ہے۔ ایک بار تمہاری موجودگی میں بھی اُس پر فائر ہو چکا ہے! "
صرف زندگی خطرے میں ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ سالا مرے بھی تو کسی طرح!‘‘
اب میں تمہیں ایک بری خبر سناؤں گا !"حمید نے کہا۔’’ راحلہ اور سعید کی شادی ہونے والی ہے!‘‘"
’’قیا !‘‘ قاسم دہاڑا۔’’قبیھی نہیں ہونے دوں گا !‘‘
’’بھلا تم کیسے روک سکو گے راحلہ اپنی مرضی کی مالک ہے!‘‘
میں دونوں کو گولی ماردوں گا !‘‘
آخر کیوں ؟ تمہارا کیا بگڑتا ہے ؟‘‘
میں اب دنیا میں کسی کی شادی نہیں ہونے دوں گا ....سا مجھے!‘‘
کیوں برخوردار ؟‘‘
’’یونہی.... میرا دل چاہتا ہے اور اب تو میں سعید بابر کو شہرہی میں نہ رہنے دوں گا!‘‘
قاسم نے دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا۔ حمید نے جیسے ہی ریسیور رکھا گھنٹی پھر بجی۔
’’ ہیلو ....حمید!‘‘ آواز آئی ۔ آواز فریدی کی تھی۔ وہ کہ رہا تھا۔ عدنان والا کیس بھی میرے ہی پاس ہے۔ تم تنویر سے مل کر اُن چاروں آدمیوں کے تعلق ضروری معلومات فراہم کرو جو عدنان کے ساتھ ہی غائب ہو گئے ہیں۔
اُس کے لئے اپنی تمام تر ذمہ داری آپ پر ہوگی روہاں کا ہر کرنا محض اس لئے کہ ہم میں شناسائی تھی۔ مجھے !"
’’سمجھ گیا ...جا رہا ہوں لیکن نیند کی وجہ سے دماغ کچھ ماؤف سا ہورہا ہے۔ اگر ایسی ذہنی حالت میں مجھے تنویر سے عشق ہو گیا تو تمام تر ذمہ داری آپ پر ہوگی کیونکہ نیند ہی کے عالم میں ایک بار ...!"حمید بکتا رہا اور فریدی نے سالے منقطع کر دیا۔
اسے بہت عرصہ سے تنویر کو دیکھنے کی تمنا تھی۔ اس نے اس کی حیرت انگیز صحت کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا۔
تنویر نے اسے اپنے نجی آفس میں ریسیو کیا لیکن حمید اس کے چہرے سے قطیعی اندازہ نہیں لگا سکا کہ وہ اپنے لڑکے کے لئے مغموم ہے۔
آفس میں دولڑ کیاں رجسٹروں پر جھکی ہوئی تھیں۔"
مجھے یہاں کی پولیس سے بڑی شکایت ہے!‘‘ تنویر نے کہا۔
ٹھیک ہے!‘‘حمید سر ہلا کر بولا ۔’’ لیکن آپ لوگ بھی غلطیاں کرتے ہیں ۔ کئی بار کے سزا یافتہ لوگوں کو آپ نے باڈی گارڈ بنا ر کھا تھا!‘‘
یہ تو مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ وہ سزا یافتہ تھے! ‘‘تنویر بولی ۔ ’’ان مردودوں نے مجھے اپنے سرٹفیکیٹ دکھائے تھے!‘‘ ’’
چوریوں، ڈکیتیوں اور کشت وخون کے سر ٹیفکیٹ ! ‘‘حمید نے پو چھا۔
نہیں ، انہوں نے کہا کہ دور ریٹائرڈ فوجی ہیں ۔ ان کے پاس سرٹیفکیٹ تھے !‘‘
اوہ.... تو آپ اُن کے متعلق دھوکے میں تھیں!‘‘
قطعی دھوکے میں رہی!‘‘
وہ آپ کے پاس کب سے تھے ؟‘‘"
پانچ سال سے لیکن اس دوران میں کبھی انھوں نے مجھے شکایت کا موقع نہیں دیا۔ میں نہیں مجھ سکتی کہ وہ عدنان کو کیوں لے گئے!‘‘
اگر عدنان صاحب بھی انہیں کہیں لے گئے ہوں تو ؟‘‘
نہیں ، وہ مجھے اطلاع دیئے بغیر کہیں نہیں جا سکتا ت!‘‘تنویر نے کہا اور کچھ سوچنے لگی۔ پھر ایسا معلوم ہوا جیسے کچھ اور بھی کہے گی لیکن وہ کافی دیر تک کچھ نہ بولی اور حمید دونوں لڑکیوں کا جائزہ لیتا رہا۔
ٹھرئیے ، میں ابھی آتی ہوں !‘‘۔تنویر نے کہا اور اٹھ کر آفس سے نکل گئی۔
حمید اب با قاعد و طور پر لڑکیوں کو گھورنے لگا تھا۔ ایک لڑکی سے کئی بار نظریں ملیں۔ حمید کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ لڑکی کو بولنا ہی پڑا۔
کیا آپ کچھ چھنا چاہتے ہیں؟"
جی ہاں ....!" حمید ایک طویل سانس لے کر بولا ۔ ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لڑکیوں کو نظر کی کرتے دیکھ کر میرا کلیجہ خون ہو جاتا ہے!‘‘
لڑکی بر اسا منہ بنا کر پھر کا غذات میں مشغول ہو گئی ۔ حمید نے دوسری لڑکی کی طرف دیکھا جو اسے غور سے دیکھ رہی تھی ۔
آپ کا کلیجہ خون کیوں ہو جاتا ہے جناب ؟‘‘
آپ اتنی ذراسی بات نہیں سمجھ سکتیں ۔ میں شاعر ہوں ۔ لڑکیوں کو ان کے صحیح مقام پر دیکھنا چاہتا ہوں!‘‘ "
ذرا مجھے بھی تو آگاہ کیجئے اس مقام سے !‘‘لڑکی اپنا اوپری ہونٹ بھینچ کر بولی ۔
رنگین مرغزاروں میں چاندی کی جھیلوں کے کنارے، صنوبر کے سائے تلے اور...!‘‘"
’’یعنی ہم!‘‘ لڑ کی بات کاٹ کر بولی۔ " مرغزاروں کی گھاس چریں اور جھیل سے ٹھنڈا پانی پی کر سور ہیں!‘‘
او ہو۔ آپ میں جمالیاتی حس بالکل نہیں معلوم ہوتی!‘‘
’’جی ہاں ، اس وقت بالکل مردہ ہوگئی ہے جمالیاتی حس، کیونکہ صبح سے اب تک صرف دو سلائس اور ایک کپ چائے پر ہوں ۔ لنچ کے بعد پھر جاگ اٹھے گی جمالیاتی حس !"
’’او ہو!مجھ سے غلطی ہوئی! " حمید جلدی سے بولا۔ ’’لڑکیوں کا صحیح مقام در اصل باور پچی خانہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میری نا نی صاحبہ اپنے وقت کی سب سے بڑی مفکر تھیں!‘‘
خدا غارت کرے ان نا نیوں اور دادیوں کو ۔ انہیں کی بدولت عورتوں کی مٹی پلید ہوتی ہے ؟‘‘
حمید جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ تنو یر واپس آگئی لیکن اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ آنکھوں سے بے چینی مترشخ تھی۔
ذرا میرے ساتھ آئے !‘‘ اس نے کہا اور پھر دروازے کی طرف مُڑ کر حمید اُٹھ کر باہر نکل آیا۔
" کیا بات ہے؟ آپ کچھ پریشان نظر آرہی ہیں !‘‘
’’ ہاں ، میں پریشان ہوں۔ میں دراصل آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتی تھی لیکن اب وہ وہاں نہیں ہے۔ آئیے میرے ساتھ!‘‘
حمید اپنے شانوں کو جنبش دے کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔ وہ رہائشی عمارت میں آئے ۔ یہ شاید نشست ہی کمرہ تھا ۔ تنویر نے محل میں پر رکھے ہوئے ایک آبنوسی ڈبے کی طرف اشارہ کیا جس پرنقش و نگار بنے ہوئے تھے ۔ آج کل میری کوٹھی میں کچھ نا معلوم آدمی بغیر ہیے وہ دروازے کی طرف جھپٹی اور حمید اس ڈبے کی طرف دیکھنے لگا۔ تنویر کا جملہ اور اشارہ دونوں ہی ادھورے رہ گئے تھے ۔ وہ دروازے تک گئی اور پھر واپس آگئی ۔ میں نہیں سمجھ سکتی کہ یہ کیا قصہ ہے۔ ہر وقت مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی چھپ کر میری گفتگو سن رہا ہو۔ بعد ان کا اس طرح غائب ہو جانا کسی گہری سازش کا پیش خیمہ ہے۔ پہلے تو میں یہ بھی تھی کہ شاید وہ چاروں مجھ سے کوئی بڑی رقم وصول کرنا چاہتے ہیں !"
’’ہمارا بھی یہی خیال تھا !‘‘ حمید نے کہا۔
"مگر اب ... پچھلی رات کی بات ہے۔ کمپاؤنڈ میں کچھ نا معلوم آدمی موجود تھے ۔ انہوں نے کئی کھڑکیوں کے شیشے تو ڑ کر اند رکھنے کی کوشش بھی کی تھی!‘‘
" ’’کامیاب نہیں ہو سکے ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’ نہیں کامیاب ہو سکے لیکن آج صبح میں نے ایک کھڑکی کے لیے ایک لاکٹ پڑا پایا تھا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ وہ پولیس کے کسی کام آسکے لہذا میں نے اسے اس ڈبے میں رکھ دیا۔ آپ کی آمد پر میں نے ارادہ کیا کہ دو لاکٹ آپ کو دکھاؤں مگر میرے خدا اس ڈبے میں لاکٹ کے بجائے...!‘‘
تنویر پھر خاموش ہوگئی۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے ۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی بری خبر سناتے ہوئے ڈر رہی ہو ۔ آخر اس نے بدقت تمام کیا ۔ " اس ڈبے میں ایک کٹا ہوا ہاتھ ہے "
حمید ڈبے کی طرف جھپٹنا اور اسے مینٹل میں سے اتار کر کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔
کیا یہ مقفل ہے ؟ اس نے پو چھا۔
نہیں ، وہ سفید بٹن دبا ئیے ! ‘‘تنویر بولی۔
بٹن پر اُنگلی پڑتے ہی ڈھکن اچھل کر سیدھا کھڑا ہوگیا ...لیکن حمید ...لڑ کھڑا کر دو چار قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ڈیہ اب بھی اس کے ہاتھ ہی میں تھا مگر نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ آنکھوں اور ڈبے کے درمیان زرد رنگ کا گہبر اخبار حائل ہو گیا تھا۔ پھر اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اندھیرے میں ہو۔ گہرے اندھیرے میں ۔ پھر اُسے یاد نہیں کہ کیا ہوا۔ نہ انے کتنی دیر بعد ہوش آیا ۔
جاسے وقت کا احساس نہیں ہوا ۔ الہتہ اب بھی وہ اندھیرے ہی میں تھا اور اس کی فراق حالت اعتدال پر نہیں آئی تھی۔ اس نے زمین سے اپنا وہ ہاتھ اٹھانا چاہا جس پر ریڈ یم ڈائل کی گھنی تھی لیکن یہ بھی ممکن نہ ہوا۔ ایسے وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کے ہاتھ پیر آزاد ہیں ۔ ہوش میں آئے ہوئے کافی وقت گزر گیا لیکن حمید کی ذہنی اور جسمانی حالت درست نہ ہوئی ۔ اس کا ذہن اوٹ پٹانگ خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ کیفیت وہی تھی جو کسی بے ربط خواب کی ہوتی ہے۔
پھر اُس نے کسی کے قدموں کی آہٹ سنی اور دفتہً چاروں طرف روشنی پھیل گئی۔
زینے پر اسے تنو یر نظر آئی۔ بڑی شان سے آہستہ آہستہ نچیے آرہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں پڑے کا انٹر تھا۔
وہ حمید سے تین یا چار فیٹ کے فاصلے پر رک گئی ۔ اس کی آنکھوں سے حقارت اور نفرت جھانک رہی تھی ۔
عدنان کہاں ہے؟'' اس نے سرد لہجے میں کہا۔
’’میں... کیا جا نوں !"حمید نے بدقت کہا۔
یہ اذیت خانہ ہے۔ تم سک سک کر مر جاؤ گے!‘‘ ’’
حمید نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن دوسرے ہی لمحے میں شوہر نے اس کے سینے پر پیر رکھ دیا اور حید کو ایا حسون ہوا جیسے اس کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی۔
پتہ نہیں وہ حقیقت اتنی ہی طاقتور تھی یایہ حمید کی موجودہ نقاہت تھی جس کی بنا پر اس نے ایسا محسوس کیا تھا۔
خیریت اسی میں ہے کہ چپ چاپ پڑے رہوا!‘‘اس نے اس کے سنے ی پر سے پیر ب ہٹا تے ہوئے کہا۔
ور نہ یہاں تمہیں کوئی رونے والا بھی نہ ملے گا!‘‘
حمید پھر حمید تھا ...اور تنویر عورت تھی ۔ معمر اور سخت مزاج ہی کی لیکن اپنی صحت اور رکھ رکھاؤ کی بناپر لال انہی میں تور حمید نے درد ناک لہجے میں کہا۔ " ہوش میں آنے کے بعد میں کچھ اور سمجھا تھا مگر تم عدنان کا قصہ لے بیٹھی!‘‘
کیا سمجھے تھے ؟ ‘‘تنو یر غرائی۔
میں سمجھا تھا شاید تم مجھ پر عاشق ہوگئی ہو!‘‘"
شراپ...! " چمڑے کا اہنٹر حمید کے پیروں پر پر اگر وہ تملانے کی حد تک بھی ہاتھ پر نہیں بنا سکتا تھا۔ ڈبے سے ملنے والا زر در یک کا غبار شاید اس لئے استعمال کیا گیا تھا کہ اس کی قوت ہی ختم ہو جائے مگر حمید کی زبان کی قوت سلب کرنا کس کے بس کا روگ تھا۔
میں اس ٹریجڈی کے بعد ایک کہانی لکھوں گا جس کا عنوان ہوگا سنگدل محبوبہ!‘‘
ہنٹر پھر پڑا۔
’’مار ڈالو!‘‘حمید مسکرا کر بولا۔حقیقت تو یہ ہے کہ حمید کو چوٹ کا بھی کچھ ایسا زیادہ احساس نہیں ہورہا تھا۔
تنویر چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر بولی ۔
’’تمہیں بتانا پڑے گا کہ عدنان کہا ں ہے؟‘‘
’’ہم اسے تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر یہ طریقہ بڑا عجیب و غریب ہے۔تنویر ،کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ عدنان کو ہم نے اغوا کیا ہے؟‘‘
تنویر کچھ نہ بولی۔وہ غور سے اسے دیکھ رہی تھی ۔
’’خدا کی قسم قسم بس ذراسا مسکرا دو۔ان پتلی پتلی یا قوتی قاشوں پر مسکراہٹ بڑی بھلی لگتی ہوگی!‘‘
’’شٹ اَپ !‘‘
حمید ایک ٹھنڈی اسی سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ اس کے فریشتوں کو بھی علم تھا کہ عدنان کہاں ہے ۔
’’کیا تم ایک رات زغالی کے گھر نہیں گئے تھے؟‘‘تنویر نے پوچھا۔
’’یقیناً گیا تھا !۱‘‘
’’تمہارے ساتھ کون کون تھا؟‘‘
’’سارجنٹ رمیش اور افیسر صمدانی !‘‘
’’کیوں گئے تھے؟‘‘
’’کسی عجیب و غریب جانور کے پیروں کے نشانات کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئےْ!‘‘
’’نشانات کہا ملے تھے ؟‘‘
’’افریقہ کے ایک تاجر سعید بابر کی کمپاؤنڈ میں !‘‘
’’تمہیں زغالی کے پاس کس نے بھیجا تھا ؟‘‘
’’کرنل فریدی نے!‘‘
’’اسے کیا معلوم کہ زغالی اس کے متعلق کچھ بتا سکے گا؟‘‘
’’کرنل فریدی آدمی نہیں جن ہیں !‘‘حمید نے ایک طویل سانس لے کر کہا ۔
تنویر تھوڑی دیر کے لئے پھر خاموش ہوگئی اور حمید بولا۔’’تم آخر یہ سب مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو،کیا تم اس جانور کے متعلق کچھ جانتی ہو؟‘‘
’’ہاں ،میں جانتی ہو!‘‘تنویر کے ہونٹوں پر سفاک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔’’میں جانتی ہوں۔وہ آدمی کا گوشت بڑی رغبت سے کھاتا ہے ...کل رات کرنل فریدی اور کیپٹین حمید کا گوشت کھانے کے لئےگیا تھا مگر وہ دونو ں ہوشیار تھے ۔پھر وہ سعید بابرکا وشت کھانے کے لئے گیا لیکن وہاں بھی کیپٹن حمید ہی آڑے آیا۔لہذا اب اب تم خود سوچ لو ،کافی سمجھ دار ہو!‘‘
حمید سناٹے میں آ گیا۔ اب اس کی عقل راستے پر آرہی تھی۔ نہ صر ف عقل صحیح راستے پر آئی تھی کہ فری ہی کی بعض حماقتیں بھی یاد آرہی تھیں ۔ مثًلا پچھلی رات کو اُس نے اس گول مٹول بلا کے تعاقب میں جانے کے بجائے خوری کے ٹیلیفون نمبر ڈائل شروع کر دیئے تھے۔
تو کیا...تنویر ہی ...!‘‘حمید کانپ گیا۔ اس نے تنور کی طرف دیکھا جو پلکیں جھپکائے بغیر اس کی طرف دیکھے جارہی تھی ۔
" کیا تم اسے دیکھنا چاہتے ہو؟ تنویر کی تیز قسم کی سرگوشی کمرے میں گونجی۔
حمید کچھ نہ بولا ۔
’’میں تمہیں دکھاؤں گی !‘‘ تنویر دائیں طرف والی دیوار کی طرف جاتی ہوئی بولی۔ اچانک کمرے کی تیز روشنی دھندلاہٹ میں تبدیل ہوگئی اور حمید نے محسوس کیا جیسے سامنے والی دیوار اپنی جگہ سے کھسک کر ایک طرف دوڑتی چلی گئی ہو ۔ ساتھ ہی سڑتے ہوئے گوشت کی بدبو سے اس کا دماغ پھٹنے لگا۔ بنی ہوئی دیوار کی دوسری طرف گہری تاریکی تھی لیکن دوسرے ہی لمحے میں وہ تاریکی بھی دھندلاہٹ میں تبدیل ہو گئی....!‘‘
فرش پر ایک بہت بڑی سی گیند لڑ سکتی پھر رہی تھی ۔ حمید کچھ اس قسم کی آواز میں بھی سن رہا تھا جیسے کوئی ریے انجمن اسٹیم چھوڑ رہا ہو۔
مڈنگا ....میں وہاں روشنی کروں گی ! ‘‘تنویر نے کہا۔
وہ گول مٹول سا سایہ لڑھکتا ہوا ایک طرف چلا گیا اور دوسرا کمرہ بھی روشنی میں نہا گیا۔ ترحمید نے دوسرے ہی لمحے میں اپنی آنکھیں بند کر لیں کیونکہ سامنے ہی اُسے انسانی ہڈیوں کے تین پنجر نظر آگئے تھے ۔
دو تو صرف ہڈیوں کے ڈھانچے تھے لیکن تیسرے پر ابھی تھوڑا گوشت با قی تھا اور شاید یہ اس کی بدبوتھی۔
اچانک ایک آدمی گھٹنوں کے بل چلتا ہوا اس کمرے میں آگیا جہاں حمید فرش پر چت پڑا ہوا تھا۔ آنے والے کا شیر بڑھا ہوا تھا اور اس کے چہرے پر مردنی تھی۔ آنکھیں حلقوں میں گھسی ہوئی تھیں ۔
حمید نے اسے پہچان لیا۔ وہ انہیں چاروں میں سے ایک تھا جن کی تصویر میں اس نے کو تو الی میں دیکھی تھیں ۔ وہ آتے ہی تنویر کے قدموں میں ڈھیر ہو گیا۔ معاف کردیجئے محترمہ۔ خدا کے لئے معاف کر دیجئے ! وہ روتا ہوا گڑ گڑایا مگر تنویر نے بر ا سامنہ بنا کر اُسے ٹھوکر ماردی۔
حمید کی حالت رفتہ رفتہ بہتر ہوتی جارہی تھی لیکن وہ فرش پر بے حس و حرکت پڑا رہا۔ اس کا ذہن تیزی سے کام کرنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر وہ گول سا یہ روشنی کا نام سن کر وہاں سے ہٹ کیوں گیا تھا۔
’’نہیں تجھے معاف نہیں کیا جا سکتا !‘‘ تنویر روتے ہوئے باڈی گارڈ سے کہہ رہی تھی ۔ ’’ تو مڈونگا کی غذا بنے گا ۔
اسے معاف کر سکتی ہوں!‘‘
حمید نے دل میں کہا۔ " تم مجھے ضرور معاف کردو گی میری الھڑ بوڑھیا !‘‘
اب بہت کچھ اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ اس نے نحیف آواز میں کہا۔ " میں بتا دوں گا!‘‘
بتاؤ ۔ میں تمہیں معاف کر دوں گی!‘‘ ’’
’’پانی!‘‘
میں پانی لارہی ہوں !‘‘ تنویر نے کیا اور زمینوں کی طرف جھپٹی۔ حمید نے اس وقت تک یہ ایکٹنگ جاری رکھی جب تک کہ اس کے قدموں کی آہٹ سکوت میں نہیں ڈوب گئی۔
دوسرا بد نصیب آدمی اسے بڑی بے تعلقی سے دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس کے ہر قسم کے جذبات فا ہو گئے ہوں۔ حتی کہ اس کے چہرے پر خوف کے آثار بھی نہیں تھے۔ حمید نے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا اور وہ بالکل اسی طرح گھٹنوں کے بل جھنا جیسے کوئی کتا اپنے مالک کی سیٹی پردم بلاتا ہوا دوڑا چلا آئے ۔
’’یہ روشنی میں کیوں نہیں آتا ؟ " حمید نے آہستہ سے پوچھا۔
روشنی میں اسے دکھائی نہیں دیتا!‘‘
وہ ہے کیا بلا ؟"
خبیث ۔ نہ وہ آدمی ہے اور نہ جانور !‘‘
کیوں نہ ہم اُسے مارلیں!‘‘
ممکن ۔ وہ ہزاروں پر بھاری ہے لیکن کیا آپ کے پاس ریوالور ہے ؟‘‘
نہیں!‘‘ ’’
قطعی ناممکن!‘‘ ’’
پھر کیا تم مرنا ہی چاہتے ہو!" حمید نے کہا۔
مقدر !" اس نے بے بسی سے کہا لیکن پھر جلدی سے بولا ۔ " تنویر کے بلاؤز کے گریبان میں ہر وقت ایک پستول رہتا ہے!‘‘
اوه ...بس اب تم ہٹ جاؤ!" حمید نے کہا اور آنکھیں بند کر لیں ۔ باڈی گارڈ پھر گھٹنوں کے بل چلتا ہوا وہیں پہنچ گیا جہاں تو ہر اُ
سے چھوڑ کر گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد پھر زینوں پر قدموں کی آہٹ ہوئی ۔ تنویر پانی کا گلاس لئے ہوئے بیچے آرہی تھی۔ اس نے قریب آکر عید کو آوار میں دیں لیکن حمید چپ چاپ پیزا ر ہا۔ نوری شاید یہ بھی کہ اس پر دوبارہ غشی طاری ہوگئی ہے۔
وہ اس کے قریب بھی بیٹے کو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے گئی اور پھر حمید یک ایک اس پر ٹوٹ پڑا ۔ سب سے پہلے اس کا ہاتھ اس کے گریبان کی طرف بڑھا لیکن کامیابی نہ ہوئی اور حمید اس کی طاقت کا اندازہ کر کے ششدر رہ گیا۔
وہ کبھی کسی عورت میں اتنے پھر تیلے پن اور طاقت کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ تنویر اس کی گرفت سے نکل گئی اور باڈی گارڈ چینی ۔ کپتان صاحب یہ سوئچ بورڈ کی طرف نہ جانے پائے!‘‘ !
حمید نے پھر اس پر چھلانگ لگائی مگر اس کا سر دیوار سے جا کر دیا لیکن وہ پھر سنبھل کر تنویر کی طرف جھپٹا مگر اب دو سوئچ بورڈ کے قریب پہنچ چکی تھی ۔
وقعتًہ روشنی دھندلاہٹ میں تبدیل ہوگئی ۔ باڈی گارڈ کے حلق سے ایک مردہ ہی حیح نکل گئی تھی ۔ دوسری طرف تنویر چیخ کر بولی ۔ میں مڈونگا !‘‘
ایک زہریلا قہقہہ لگا کر کہا۔ دومڈونگا!‘‘لیکن وہ آگے نہ کہہ سکی کیونکہ زمینوں کی طرف سے پے در پے تین چار فائر ہوئی اور آوازیں بھی ختم ہو گئی۔
حمید نے اندھیرے میں فریدی کا قہقہہ سنا۔ وہ کہ رہا تھا۔’’ تنویر اب وہ چیز ختم ہوگئی جس کی وجہ سے تم سالہا سال سے اپنے گھر والوں اور قریبی حلقوں میں پراسرار مشہور رہی ہو۔ اب یہ خالی پستول اپنے سر پر مارلو۔ کم از کم ایک کا رتوس خود کشی کے لئے تو چھوڑا ہوتا!‘‘
سائے کی لاش
فریدی سوئچ بورڈ کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے کمرے میں روشنی کر دی ۔ وقعتہ تنویر کے حلق سے ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی اور اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپالیا۔ فریدی کے ساتھ عدنان بھی تھا۔
وہ عجیب الخلقت آدمی یا جانور فرش پر چت پڑا ہوا تھا۔ انتہائی ڈراؤ نا۔ اس کی لاش بھی خوفزدہ کرنے کے لئے کافی تھی۔ اس کا قد بمشکل تمام چارفیٹ ہوگا۔ پھیلاؤ کبھی اس سے کسی طرح کم نہ رہا ہوگا ۔ چہرہ جھرایا ہوا اور خوفناک تھا۔ بڑے بڑے دانت ہونٹوں سے باہر نکلے ہوئے تھے ۔ پلکیں تک سفید ہوگئی تھیں اور اس کے پیر، وہ یقینا عجیب تھے ۔
’’میرے.... پیارے .....!‘‘وہ اپنے بال نوچ رہی تھی۔’’ تو دس ہاتھیوں سے زیادہ طاقتور تھا مگر پیرے چاٹتا تھا ۔
میں تجھ پہ ظلم کرتی تھی۔ تجھے کوڑے لگائی تھی۔ تو میراپرستار تھا۔ میں زندگی بھر تی لئے روتی رہوں گی تیرے قاتل کو کبھی نہ معاف کروں گی!‘‘
فریدی نے اسے آہستہ سے ایک طرف بناتے ہوئے کہا۔ اس وقت یہ تمہاری ماں نہیں ہے۔ صرف ایک ارت ہے " عدنان سر جھکائے ہوئے زمینوں کی طرف مڑ گیا۔ فریدی نے اسے روکا نہیں۔ وہ اوپر جانے کے لئے اپنے طے کر رہا تھا۔ حمید اور فریدی خاموش کھڑے ، ہے ۔ باڈی گارڈ ایک کونے میں منہ ڈالے کھڑا بری طرح کانپ رہا تھا۔
بدبو سے میرا دماغ پھٹ رہا ہے " حمید بڑبڑایا۔ یہ کمبخت آدم خور بھی تھا۔ تین بارای گارڈوں کو صاف کر گیا۔ ان کی لاشیں سڑ رہی ہیں اور چوتھا وہ اُدھر ہے !‘‘
" فریدی حمید کی بات کی طرف دھیان دیئے بغیر شویر کی طرف بڑھا جو اب بھی عدونا کی لاش پر پڑی کسی چھوٹی ی زندگی کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
فریدی نے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ۔ اس کا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا ہوا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
جاؤ یہاں ہے۔ میں تم سے التجا کرتی ہوں۔ اگر میں مجرم ہوں تو مجھے اسی تہہ خانے میں بند کردو ۔ میں ایڑیا ں رگڑ کر مر جاؤں گی!‘‘ ’’
’’مجھے تم سے ہمدردی ہے ! ‘‘فریدی نے نرم لہجے میں کہا۔ " اسی لئے میں نے تمہارے لئے خود کشی کی تجویز کی تھی کیونکہ تمہارے عدالت میں پیش ہونے سے عدنان کا سوشل اسٹیٹس خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہاں سعید بابر اور داراب کی گرفتاری میں مجھے مدد دو گی!‘‘
سعید .... بابر.... داراب! " تنویر نے حیرت سے کہا اور اپنے آنسو پوچھو ڈالے۔ چند لمحے فریدی کو گھورتی رہی پھر آہستہ سے بولی ۔ انہیں کیوں گرفتار کرو گے ۔ ان کی تو پشت پناہی کر رہے تھے تم! "
ہاں، میں کبھی کبھی کو اس وقت پکڑتا ہوں جب وہ میرے گلے میں بانہیں ڈالے مجھے اپنی محبت کا یقین دلا رہے ہوں!‘‘
یقین دلا ر ہے ہوں!‘‘ "
اس کے بھائی کا قصہ ؟‘‘تنویر نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔
اس کا بھائی...! " فریدی ایک طویل سانس لے کر بولا ۔ " اس کا بھائی ابھی تک میری محافظت میں تھا اور شاید سوتیلی ماں اس وقت میرے سامنے کھڑی ہے !"
تم کیا ....جانو تم کیا جانو!‘‘ اس نے منظر بانہ انداز میں فریدی کا ہاتھ پکڑ لیا۔
فریدی اسی طرح کھڑا رہا۔ اس نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔
" میرے ذرائع لا محدود ہیں! '' فریدی نے کہا۔
’’مگر عدنان اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا!‘‘
نہ جانتا ہوگا۔ میں نے ابھی تک اُس سے اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا !"
میں ضرور مدد کروں گی۔ تم جو کچھ بھی کہو۔ میں اُن کشوں کی لاشیں دیکھنا چاہتی ہوں ۔ انہوں نے خواہ گواہ میری پرسکون زندگی میں زہر ہوئے ۔ میں سب کچھ بھول گئی تھی!‘‘ "
تمہیں براہ راست پولیس سے مدد طلب کرنی چاہئے تھی !"
’’میں اپنی پرانی تاریک زندگی پر سے پردہ نہیں ہٹانا چاہتی تھی ۔ تمہیں پورے حالات کا علم نہیں ہے شا ید ؟‘‘
فریدی نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اپنی کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا ۔ " میرے ساتھ آؤ ...وقت کم ہے! ‘‘پھر اُس نے باڈی گارڈ سے کہا۔ " شکر تم نہیں ٹھہرو گے!‘‘
اچھا ...حضور... والا!‘‘
وہ تینوں اوپر آئے اور حمید نے محسوس کیا کہ وہ ابھی تک ایک تہہ خانے میں رہے ہیں۔
تنویر بڑ بڑاری تھی ۔ عدنان کو تہہ خانوں کا بھی علم نہیں تھا!‘‘ "
فریدی نے کہا۔ " مجھے ان پُر اسرار کمروں کا علم عدنان سے ہوا تھا۔ تہہ خانے میں نے دریافت کئے تھے۔
میری اسکیم دوسری تھی ۔ یہاں اس طرح آنے کا ارادہ نہیں تھا جس طرح پہنچا ہوں ۔ مگر میرے مخبروں نے خبر دی کہ کیپٹن حمید کو تمہاری کونٹی سے برآمد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور اس وقت شاید مجھے ایک منٹ کی بھی دیر ہوتی تو ...!"
مجھے اس پر افسوس نہیں ہے ! ‘‘نویر نے سرد لہجے میں کہا۔ " میں عدنان کو بچانا چاہتی تھی لیکن مڈونگا کی موت کے بعد مجھے اس کے بچ جانے کی بھی خوشی نہیں ہے۔ میں شروع ہی سے بجھتی تھی کہ عدنان تمہارے قبضے میں ہے !‘‘
" چار خون میں تمہاری گردن پر زغالی کو بھی تم نے ہی گولی ماری تھی اور برقعہ زمینوں پر پھینک گئی تھیں میری گردن پر سینکڑوں خون میں تنویر نے لا پروائی سے کہا۔ " زغالی کو اس لئے ماردیا تھا کہ کہیں مڈونگا کی کہانی تم تک نہ پہنچ جائے۔ وہ اس سے واقف تھا ! حمید اس کی گفتگو پر عش عش کر رہا تھا۔ ایسی عورت آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری تھی۔ ابھی ابھی اسے
ایک سنگین جرم کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا لیکن اب وہ اتنے سکون اور اتنی لاپروائی سے باتیں کر رہی تھی جیسے کی ارامے کے ریہرسل میں حصہ لے کر لوٹی ہو۔
اوپر سارے کمرے ویران پڑے تھے۔ کہیں بھی کوئی اور نہیں کھائی دیا۔ شاہ تو نے انہیں پچھن رے میں نے یہی سمجھ کر عدنان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی کہ وہ م لوگوں کے قبضے میں ہے، سنتوری دی تھی ۔۔
فریدی ایک کمرے میں رُک گیا اور ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا ۔ ابھی ہمیں آدھے گھنٹے تک انتظار کرنا پڑے گا!‘‘
’’عدنان کہاں ہے۔ میں اب اس کے سامنے نہیں آنا چاہتی !"
میں خود نہیں چاہتا۔ وہ تمہیں گولی مار دے گا !"
ان کا خیال ہے کہ عدنان کا اغوا محض افواہ ہے۔ وہ نہیں اس کوٹھی میں کہیں موجود ہے لہذا آج وہ تم دونوں کو ختم کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تمہارے مڈونگا کے لئے بھی وہ کافی انتظامات کے ساتھ آئیں گے ۔ ان کے ساتھ ایک بہت بڑا حال ہو گا ۔ اب تم مجھے بتاؤ کہ یہ کیا قصہ ہے۔ ویسے تمہیں عدالت میں حاضر کر دینے کے لئے وہ ایک اڈی گارڈ ہی کافی ہوگا جو بچ گیا ہے اور تین لاشیں ! ‘‘
تم بار بار اس کا تذکرہ نہ کرو۔ میں کہہ چکی ہوں کہ میری گردن پر سینکڑوں کے خون ہیں۔ آج بھی افریقہ کے مشرقی ساحل کے لوگ ساکنی کے نام سے کانپتے ہیں " سالنی ....! ‘‘یک بیک فریدی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔ سٹالنی سمندری ڈاکو۔ جس کا صحیح کسی سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں ہے!"
’’ہاں ! میں سنالنی ہوں!" تنویر غرائی ۔ " سنالنی تھی۔ میں نے درجنوں سرکاری جہاز لوٹے ہیں ۔ جب میں اپنے قزاقوں سمیت کسی جہاز پر جا پڑتی تھی تو وہاں آگ ، خون اور چیخوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔ میں سنائی ولی ہوں جس نے سفید فام جہاز رانوں کی زندگی قطع کر دی تھی۔ میری لاش کے لئے انگریزوں نے ایک لاکھ پونڈ کے انعام کا اعلان کیا تھا۔ تم آج بھی میری لاش انگریزوں کے حوالے کر کے ان سے یہ انعام حاصل کر سکتے ہو۔
ویسے اب شاید ہی انگلینڈ والوں کو یقین آئے کہ میں ہی سنانی ہوں ۔ وہ بجھتے ہیں کہ میں کسی مہم میں کام آگئی !‘‘
ایک اپ کی بھی انگلینڈ والوں کو یقین آئے کہ میں ہی جانتی ہوں۔ دو کھتے ہیں کہ نہیں کی ہم نیب کا رہا کی تم یہاں بہت دنوں سے ہوا کروکی نے کیا۔
’’ہاں ،میں اس وقت یہاں آئی تھی ہے جو ان صرف ایک سال کا تھا اور اسی دلیل کی جو اسے آئی تھی ہیں کے لیے لے جہاں بھی میری زندگی تلخ کردی۔ افریقہ کے مشرقی سائل پر قراتوں کے کئی گروہ کام کرتے تھے ہیں کر دو سب سے زیادہ طاقتورتھی۔
اکثر ہ کر دو آیاں ہی میں گھر جاتے اور اچھا نا سا کشت و خون ہو ۔ ایک گردگیر سردار باید تھا۔ اس سید بہانے اور جو ان کا باپ۔ ہم دونوں کے گروہ ایک بار آئین میں کرا گئے ۔ ہانے کے گروہ کو اک و گرفتار و کر میرے سامنے آیا نہ جانے کیوں مجھے اس پر اہم آگیا اور میں نے اسے چھوڑ دو۔ پھر میں نے پانے سے باقاعدہ طور پر شادی کرلی ۔
اس نے مجھے تا کہ ، فیر شادی شدہ ہے۔ کچھ دن وہ ساحل پر رہتا تھا اور کچھ دنوں کے لئے اندرون ملک میں چلا جایا کرتا لیکن اس سے ہیں تایاتھا کہ وہ اندرون ملک کہاں رہتا ہے اور عراق کی حیثیت میں اس نے مجھے اپنا کی ہم پر بھی ہیں تار تھا وہاں وہ شہار کے نام سے مشہور تھا ۔
میں کچھ اس طرح اس کی محبت میں اولی ہوئی تھی کہ میں نے یہ بھی جاتے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کون ہے؟ کہاں رہتا ہے؟ حالانکہ نہ دنگا لے مجھے شادی ہی کے موقع پر آگاہ کر دیا تھا کہ نہیں شادی کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ میں نے اس کی بات پر دھیان نہ دیا۔ دو ایک بہت اچھا جادو گر اور ستارہ شناس تھا۔ بگڑوں میل دور سے طوفان کی بونگہ لیتا تھا ۔ وہ ہاتھیوں کی طرح طاقتور تھا۔ میرا علام تھا ۔ مجھ سے ڈرتا تھا۔ میران پاتا تھا۔ میں نے اس کا کہنا نہ سنا۔ بہر حال شادی ہوگئی۔ پھر عدنان پیدا ہوا اور مجھے شہباز کے بارے میں کچھ شکوک نے گھیر لیا۔ اکثر وہ تین تین ماہ نائب رہتا۔ ایک بار میں نے چپ کر اس کا تعاقب کیا اور پھر یہ حقیقت مجھ پر کھلی کہ وہ نیروبی کا ایک با عرات تاجر ہے ۔ بہت بڑا تاجر اور اس کا نام شہباز نہیں بلکہ ہا ر تھا اور یہی نہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ ایک لڑکے اور تین لڑکیوں کا باپ ہے۔ لڑ کا اس وقت دس بارہ سال کا تھا۔ مجھ پر خون سوار ہو گیا۔ میں نے چاہا کہ با ہر کوقتل کر دوں مگر اس بار مد و لگا لے مجھے بہت بڑی دھمکی دی۔ اس نے کہا کہ اگر میں نے باد کے خون میں ہاتھ رکھے تو وہ مجھے قتل کر دے گا۔ اس نے بتایا کہ باہر کا خون میرے لئے تباہی لائے گا۔ میں نے بابری کے سلسلے میں ایک بار اس کی بات نہیں مانی تھی اور اس کے لئے مجھے پچھتانا پڑا تھا۔ لہذا اب مجھے اس کی بات کو اہمیت اٹی پڑی۔ میں نیروبی سے دل شکستہ واپس آئی۔ دل مردہ ہو گیا تھا اس لئے قزاقی ترک کر دی۔ چونکہ میرا میچ علیہ سرکاری فائلوں میں موجود نہیں تھا اس لئے میں کچھ دنوں کے بعد یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی لیکن داللہ ا ضابطہ طور پر نہیں ہوا میں نے دونگا کو بھی اپنے ساتھ لائی تھی۔ چونکہ وہ مجیب الخلقت تھا اس لئے مجھے اس کو دوسروں کی نظروں سے چھپائے رکھنا پڑتا تھا۔ مولا نے کبھی کسی حال میں میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ میرا دل زندگی کے آخری لمحات تک اس کے لئے روتا رہے گا !"
تنویر ایک ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گئی۔
’’مگر سعید بابر کو کو کیسے معلوم ہوا کہ تم اس کی سوتیلی ماں ہو۔ ظاہر ہے کہ بابر نے اپنے خاندان والوں سے است چھپالی ہوگی کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ تمہیں اپنی اصلیت سے کیوں نہ آگاہ کرتا!‘‘
آج سے دس سال پہلے باہر یہاں آیا تھا۔ اٹھاتا ایک جگہ مجھ سے ملاقات ہوگئی۔ وہ شکایات کا دفتر لے پہنچا میں نے اس سے کہا کہ خیریت اسی میں ہے کہ وہ مجھے بھول جائے اور سکون سے زندگی بسر کرنے دے ورنہ کی کا انجام ہو اور ناک ہوگا۔
میں اب بھی وہی سنانی ہوں جس کا نام مشرقی ساحل کی صورتیں اپنے بچوں کو ڈرائے کے لئے استعمال کرتی تھیں۔ بہر حال وہ مجھ سے متفق ہو گیا لیکن میں جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے بہت ڈرتا تھا۔ اس نے پنے بنے سے میرا اور عدنان کا تذکرہ ضرور کیا ہوگا ۔
یہ بھی کہا ہوگا کہ ہم دونوں اس کے لئے خطر ناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں ، بہر حال جب اس کتے نے عدنان پر حملہ کیا تو میں سمجھ گئی کہ باہر کے خاندان کے کسی فرد نے اس سرزمین پر قدم رکھا ہے۔
کتے کی شکل و شباہت عدنان نے مجھے بتائی تھی اور اس بنا پر میں نے یہ سوچا تھا کیونکہ اس قسم کے کتنے ابر کے علاوہ شاید ساری دنیا میں اور کسی کے پاس نہیں تھے ۔ بابر کوگوں کا شوق تھا اور وہ ان کی نسلوں پر مختلف تم کے تجربے کیا کرتا تھا۔
کئی نسلوں کے ملاپ سے اس نے یہ نئی نسل پیدا کی تھی ۔ یہ بڑے خطرناک اور انتہائی درجہ زہر یلے تھے ۔ اکثر وہ انہیں بحری حملوں میں بھی استعمال کیا کرتا تھا۔
مگر یہ کتا تو داراب کے پاس تھا!‘‘ فریدی نے کہا۔ " میں تصدیق کر چکا ہوں ۔ وہی اسے ایسے کاموں کے لئے استعمال بھی کرتا تھا!‘‘ ’’
ہوسکتا ہے۔ داراب اور بابر بہت پرانے دوست تھے۔ میجر داراب بھی بہت دنوں تک افریقہ میں رہ چکا ہے اور شاید اب بھی وہاں اس کی تجارت ہے۔ بہر حال سعید با بر اسی کے بل بوتے پر یہاں آیا ہے اور داراب۔ سے بھی مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔ وہ بہت عرصہ سے مجھ سے شادی کرنے کا خواہش مند تھا۔ میں نے اسے دھتکار دیا۔ ایک موقع پر اس کی بے عزتی بھی کی.... اور پھر وہ خاموش ہو رہا ....لیکن...! "
’’ آہا .... ٹھہرو!‘‘فریدی ہاتھ اُٹھا کر بولا اور ایسا معلوم ہوا جیسے وہ کچھ سنے کی کوشش کر رہا ہو. پھر وہ اُٹھتا ہوا بولا۔ " تنویر ا تم اپنی پوری قوت سے عدنان کو آواز دو ۔ اسی طرح آواز دیتی ہوئی اوپری منزل پر چلو۔ کہیں کی روشنی نہ جلانا۔ چلو انھو یہ آخری مرحلہ ہے۔ اس کے بعد مجرم ہمارے ہاتھوں میں ہوں گے !‘‘
تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘"
بسں دیکھتی رہو۔ اٹھو دیر نہ کر و!‘‘ فریدی نے حمید کوبھی پیچے آنے کا اشارہ کیا۔ تنویر، عدنان کو آواز یں دیتی ہوئی زینے طے کر رہی تھی ۔ اچانک حمید نے عدنان کی بھی آوازسنی ۔ میں یہاں ہوں ماں !"
آواز کے ساتھ ہی ایک کمرہ روشن ہوا۔ پھر شاید اس کمرے کی کسی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ کر چھنچھناہوا فرش پر آرہا۔
بہت عمد ہ فریدی یہ بڑ بڑایا۔ ’’سب کچھ اندازے کے مطابق بھی ہو رہا ہے۔ آؤ تنویر واپس پلٹیں۔ کام کیا ہو گیا !‘‘
’’جس کمرے سے عدنان کی آواز آئی تھی وہاں کھڑکی کے قریب ایک مجسمہ رکھا ہوا تھا۔ جیسے ہی کمرے میں روشنی ہوئی مجھے کو عدنان مجھ کر باہر سے کسی نے فائر کر دیا اور ظاہر ہے کہ اب فائر کرنے والا ہاتھوں ہاتھ یہاں جا رہا ہوگا!‘‘
کیا تمہارے آدمی یہاں موجود ہیں؟ تقریبا پچاس آدمی تاریک کمپاؤ لہ میں بکھرے ہوئے ہیں !
’’ کیا تمہارے آدمی یہاں موجود ہیں ؟‘‘
اسٹذی میں چلوا!‘‘فریدی نے تنویرسے کہا۔ "میرے آدمی انہیں میں لائیں گے !"
اسنڈی میں پہنچ کر وہ بیٹھنے بھی نہیں پائے تھے کہ با ہر روش پر بہت سے قدموں کی آواز میں سنائی دینے لگیں۔
دوسرے ہی لئے میں ایک جم غفیر اندر گھس آیا۔ یہ سادہ لباس والے تھے اور انہوں نے میجر داراب اور سعید
بابر پکڑ رکھا تھا۔
آ ہا ....کرنل صاحب !‘‘دفعتہ سعید با بر نے خوشی کا نعرہ لگایا۔
’’ ہاں !‘‘فریدی نے تنویر سے کہا لہجے میں کہا۔ " تم شاید یہ مجھے ہو گے کہ یہ شوہر کے آدمی ہیں !"
’’جی ہاں ! ‘‘ہم اس گول سائے کا تعاقب کرتے ہوئے یہاں تک آئے تھے۔ وہ اندر گھسا اور پائپ کے سہارے دیوار پر چڑھ ہی رہا تھا کہ میجر داراب نے اس پر فائر کر دیا۔ میرا دعوتی ہے کہ وہ اس عمارت میں رہتا ہے ہیں اور اگر وہ نہیں رہتا ہے تو اس صورت سے پوچھئے کہ میرے مفلوج بھائی نے اس کا کیا بگاڑا تھا۔ اس ے اسے فٹ پاتھ پر کیوں سنا کر مارا ہو مجھے تم نے اس سائے کو دیکھا تھا ؟
’’ابھی ابھی.... ابھی میجر داراب نے اس پر فائر کیا تھا۔ دومنٹ بھی نہ گزرے ہوں گے !"
’’حالانکہ !‘‘فریدی مسکرا کر بولا۔ " میں اسے ایک گھنٹہ قبل ختم کر چکا ہوں ۔ کیا تم سائے کی لاش دیکھو گے!‘‘
دوسرا آج تک پیدا ہی نہیں ہو ا سعید بابر فریدی بولا ۔ " اور سعید با بر ....اس عورت نے تمہارے بھائی کو جنم دیا تھا ۔ دوائی کی گود میں پل کر جوان ہوا ہے اور تمہاری جائداد میں سے اسے آدھا حصہ یقینی طور پر لے گا!‘‘
’’پتہ نہیں آپ کہہ کر رہے ہیں ؟"
’’تم بے کا ر اپنا وقت برباد کر رہے ہو ا !‘‘دراب نے سعید سے کہا۔ یہ لوگ ہمیں کسی حال میں پھانسنے کی اش کر رہے ہیں !‘‘
اچانک حمید نے داراب کے پیٹ پر ایک گھونسہ رسید کردیا اور جیسے ہی وہ بیع مار کر دو برا ہوا، دونوں ہاتھوں ہم نے اس کے شانوں پر پڑے اور وہ منہ کے علی فرش پر گر گیا۔
ہائیں ہایئں !کپتان صاحب !‘‘سعید با بر بولا اور حمید کا نام تھا اس کے گال پر پڑا۔
’’تم لوگ مفت میں مجھے رات رات بھر جگاتے رہے ہو! ‘‘حمید غرایا۔
داراب اُٹھنے کی کوش کر رہا تھا۔ اس بار حمید نے اس کے سر پر ٹھوکر ماری اور وہ اسے گالیاں دیتا ہوا دوبارہ ڈھیرا ہوگیا۔
’’سعید بابر فریدی بولا " السلی براؤن میری قید میں ہے اور اس نے اعتراف کر لیا ہے۔ اس کے ایک وت کی تصویر میک آپ میں تھی ۔ تم نے بڑا پر ُاسرار ڈرامہ کھیلا تھا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ تم ماں کے پاسپورٹ جعلی تھے۔
تم بہت دنوں سے یہاں آگئے تھے۔ تم ہی فقیر بن کر سڑکوں پر بھیک ماتے پھرتے نے پر ایک دن مر گئے۔ تم نے پہلے ہی کسی رشید بار کے نام یہاں کے بینکوں میں رقمیں نقل کرنی شروع کردی ہیں۔ سعدیہ تھاکہ تم یہاں اپنے کسی بھائی کی موجودگی ظاہر کرنا چاہتے تھے۔
پھر اس کا بھی اعلان چاہتے تھے کہ وہ ا مرگیا اور اب تم اپنے باپ کی جائداد کے تبا مالک ہو تمہیں خدشہ تا کہ کبھی نہ بھی تیر یا عدنان تمہاری افریقہ با کماد کے دعویدار ضرور بن جائیں گے ۔ بس تم نے فقیر کا بہروپ اختیار کر لیا۔
کچھ اس قسم کی صدائیں لگاتے ہے کہ لوگ تم میں دلچسپی لینے لگے۔ یہ تم نے اس لئے کیا تھا کہ تمہاری شکل و شباہت ان کے ذہن نشین ہو جائے۔ ا ایک ہوا۔ جب تمہاری تصویر اخبارات میں چھپی تو لوگوں میں حیرت پھیل گئی۔
جب تم نے اپنے بھائی کی کہانی نیای تو کم ازکم مجھے بھی یقین ہو گیا کہ وہ تمہارا بھائی ہی رہا ہوگا۔ تم جانتے تھے کہ تنویر سب کچھ سمجھ جائے گی لیکن نہرے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے گی کیونکہ ایسی صورت میں خود اس کی بھی پول کھل جائے گی۔
تم تو وائل نویر کے مرنے کے بعد عدنان کے کسی اقدام کے امکانات پر غور کر رہے تھے۔ تمہاری دانست میں تنویر مرتے ات کی عدنان کو اس راز سے آگاہ کر کے کاغذات اس کے سپرد کرتی ۔ تم نے ٹھیک سوچا تھا۔
تویہ حقیقتا اس کھیرے کو ا زندگی میں نہ اُٹھنے دیتی ۔ ہاں تو تم ایک فائر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ عدنان کی موت اور سرکاری طور پر تمارے بھائی کی موت کی تصدیق ۔ اگر ان میں سے ایک کام بھی ہو جاتا تو تمہاری دولت ہمیشہ کے لئے محفوظ جہانی اور اگر اس کی تصد یق سرکاری طور پر ہو جاتی اور عدنان کوتم قتل نہ کرسکتے تب بھی تمہارا کام بن جاتا۔
اگر یہ بھی تو تم یہ کہ دیتے کہ یہ دی یقینا اس پارٹی سےتعلق رکھتاہے جو تمہارے بھائی کی موت کی صدارتی تم نے شروع ہی سے ہمیں یہ باور کرانے کی کوش کی تھی کہ کچھ لوگ جنہیں زیر دتی یہاں سے واپس بھیجنا ۔
چاہتے ہیں ۔ اگر ان جب تم کمپین حید کو اپی روداد تا ر ہے تھے تم پر ایک فائر ہوا تھا ۔ ظاہر ہے کہ فا ئر سے ان کسی آدمی نے کیا ہوگا۔ پھر نسلی براؤن والا اسٹنٹ اس کا مقصد بھی حالات کو نے اسراء جانا تھا۔ (Stunt) سامنے آیا ۔
یعنی تمہاری پر اسرار داستان تمام پھیل جائے ۔ دوسری طرف تم ہمیں یہ کھانا چاہتے تھے کہ تمہارے بھائی کی موت کے ذمہ دار لوگوں کی جماعت سے نسلی براؤن کا بھی تعلق ہے اور وہ تمہیں خوفزدہ کرنے کے لئے تمہارے پیچھے لگ رہی ہے ۔
تا کہ تم ان حالات سے گھبرا یہاں سے بھاگ نکلو۔ آخر میں ہوتا یہ کہ ایک دن نسلی بھی غائب ہو جائی اور قم چوری کی رپورٹ میں ایک بھاری رقم درج کرادیتے ۔ تمہارا کیس اور زیادہ تقویت پا جاتا اور ہمیں اس نتیجے پر پہنچنا پڑتا کہ وہ فقیر حقیقتا تمہارا بھائی تھا اور ہم اس کی موت کی تصدیق کردیتے!‘‘
کیا آپ مجھے کوئی جاسوسی ناول سنار ہے ہیں ؟ ‘‘سعید بابر مسکرا کر بولا ۔ " یعنی میں ہی اپنا بھائی بنا تھا اور پھر مر بھی گیا ....اور اب یہاں کھڑ ا جاسوی نا ول سن رہا ہوں !"
’’ا بھی راحلہ سے تمہاری شادی نہیں ہوئی ! ‘‘فریدی نے سرد لہجے میں کہا۔
’’اس جملے اور اس داستان کا تعلق بھی واضح فرما دیجئے ! سعید بایر مسکرا کر بولا ۔ اے بندر کے بچے احمد جھنجلاکر بولا۔ اپنی یہ مسکراہت بند کر دور نہ وار اب کی طرح تمہیں بھی بے ہوش کردوں گا!‘‘
’’تہذیب کو ہاتھ سے نہ جانے دیجئے ! ‘‘سعید نے سرد لہجے میں کہا ۔ ’’ابھی آپ میرے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں کر سکے !"
’’کیا راحلہ کو یہ نہیں معلوم تھا !" فریدی نے سنجیدگی سے کہا ۔ ’’کہ تم میں دم کے ماہر ہو ....تم نے یہ فن ایک ہندو یوگی سے سیکھا تھا تم نے راحلہ کو بھی اپنے جال میں پھاننسے کی کوشش کی تا کہ وہ تمہارے اس کمال کا تذکر وکسی سے نہ کرے۔
تمہیں صرف تین چار گھنٹے کے لئے مردہ بنا پڑا تھا۔ میں دم کے ماہر تو کئی کئی ہفتے زمین میں دفن رہے ہیں
اور پھر زندہ نکل آتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ تمہاری لاش کے ساتھ تین دوسری لاشیں بھی میڈیکل کالج کو بھیجی گئی تھیں لیکن وہاں صرف تین پہنچیں۔ مردہ گاڑی کھینچنے والوں کو بھی اس پر حیرت تھی۔
ان کا بیان کہ انہوں نے چار لاشیں سول ہسپتال کے مردہ خانے سے اُٹھائی تھیں لیکن جب انہوں نے میڈیکل کالج میں گاڑی کھولی تو اس میں تین ہی برآمد ہوئیں ۔
ان سے حماقت یہ ہوئی تھی کہ وہ گاڑی کو ایک گلی میں کھڑی کر کے ایک جگہ چرس کے دم لگانے کے لئے رُک گئے تھے ۔ اسی دوران میں تم گاڑی سے نکل بھاگے ۔ قلبیوں نے اس کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا لیکن جب میں نے تفتیش شروع کی تو انہیں اگنا ہی پڑا اور پھر میں نے نیروبی سے بھی تحقیق کی ہے۔
جسں دم کی کہانی وہاں کا سراغرساں بھی سناتا ہے۔ ویسے وہ تمہارے کسی دوسرے بھائی کے وجود کے متعلق خاموش ہے۔
اس کی دانست میں تمہارا کوئی سوتیلا بھائی ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا کیونکہ تمہارا باپ ایک عیاش آدمی تھا۔ بہر حال میں تمہیں اس سارے فراڈ کے الزام میں حراست میں لیتا ہوں اور تم نے یا داراب نے اس وقت عدنان پر گولی چلائی تھی!‘‘
3
بیگم شوخ کی شخصیت کافی دلچسپ ہوتی جارہی تھی۔حمید قاسم کے گھر سے روانہ ہوکر ایک طرف چل پڑا۔مگر پھر خیال آیا کہ اُسے قاسم کی بیوی سے اُس آدمی نا صرف کا پتہ چلا معلوم کر لینا چاہئے تھا۔
راہ میں ایک جگہ کا ر روک کردہ از پڑا اور پبلک ٹیلی فون ہوتھ سے قاسم کے نمبر ڈائل کئے ۔ کال اس کی بیوی نے ریسیو کی لیکن حمید نے صرف پندی معلوم کر کے سلسلہ منقطع کر دیا۔ اب وہ احمد لاج کی طرف جارہا تھا۔ قاسم کی بیوی کا ماموں زاد بھائی وہیں رہتا تھا۔ یہ لوگ بھی شہر کے معمول ہی طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔
عمارت کے قریب پہنچ کر حمید نے کارروکی اور اپنا کارڈ اندر بھجوایا۔ ڈرائنگ روم میں اسے تقریبًا پانچ منٹ تک تنہا بیٹھنا پڑا پھر ایک معمر آدمی نے اُسے انتظار کی زحمت سے نجات دلائی۔
فرمائیے جناب !‘‘بوڑھے نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
مجھے مسٹر ناصر سے ملنا ہے!‘‘
آپ... ناصر !‘‘بوڑھا کچھ نروس سا نظر آنے لگا ۔’’ جی ہاں وہ ....میرا لڑکا ہے ....مگر محکلمہ سراغرسانی ....!"
جی ہاں ایک سلسلے میں ان سے گفت و شنید کرنی ہے!‘‘"
کس سلسلے میں؟ ‘‘
’’مجھے افسوس ہے کہ میں نہ بتا سکوں گا!‘‘
’’تب پھر مجھے بھی افسوس ہے جناب !‘‘ بوڑھا گلو گیر آواز میں بولا ’’۔ آپ اس سے گفتگو نہ کرسکیں گے !‘‘
قانون کی مدد کر نا ہر شہری کا فرض ہے!‘‘ ’’
بشر طیکہ شہری صحیح الدماغ ہو!‘‘ بوڑھے نے کہا۔
’’کیوں؟ میں نہیں سمجھا ! ‘‘حمید نے حیرت ظاہر کی۔
ناصر ہوش میں نہیں ہے! ‘‘
مگر ایک ہفتہ پہلے تو ایسی کوئی بات نہیں تھی!‘‘ ’’
جی ہاں ۔ آج سے پانچ دن پہلے یک بیک ان کا دماغ اُلٹ گیا اور وہ منٹل ہاسپٹیل میں ہے!‘‘
’’آپ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اُسے آپ کے خلاف عدالت میں بھی...!‘‘
’’جی ہاں قطعی !‘‘بوڑھا بات کاٹ کر ہوا ۔ ’’لیکن آخر ناصر کے سلسلے میں عدالت کا تذکرہ کیوں ؟ ‘‘
’’وہ ایک ایسی عورت کے ساتھ دیکھے جاتے رہے ہیں جسے قانون اچھی نظر سے نہیں دیکھتا!‘‘
بوڑھے نے ایک طویل سانس لی اور کرسی کی پشت سے ٹک گیا۔
’’ کیوں ؟ کیا آپ بھی اس عورت کے متعلق کچھ جانتے ہیں؟ ‘‘حمید اُسے گھورنے لگا۔
ناصر کے پاگل پن کی وجہ ایک عورت ہی ہے!‘‘
کون ؟ ‘‘
کوئی پروفیسر شوخ ہے ، اُس کی بیوی!‘‘
لیکن ناصر صاحب کو یہ حادثہ کیسے پیش آیا ؟‘‘
میں نہیں جانتا بوڑھا برُاسامنہ بنا کر بولا ۔ ’’اس کے پچچا زاد بھائی کو بھیجتا ہوں ، وہی بتائے گا !" بوڑھا ڈرائنگ روم سے چلا گیا اور حمید کہ برُ اسامنہ بنائے بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر بعد ایک خوش پوش نوجوان اندر آیا ۔ اس کی عمر بیسں سال سے زیادہ نہ رہی ہوگی ۔ صورت ہی سے کھلنڈر اور غیر سنجید و معلوم ہوتا تھا۔ !"
کیا آپ ہی مجھے ناصر کے متعلق بتا ئیں گے؟‘‘
جی ہاں، لیکن اس سے پہلے میں آپ کے بکرے کی خیریت پوچھوں گا! ‘‘نوجوان نے ہنس کر کہا۔ !" کیونکہ میرا بکرا بھی ایسوسی ایشن کا ممبر ہے!"
’’لیکن میں اس وقت بکروں کے لئے خیر سگالی کے مشن پر نہیں آیا ہوں ! ‘‘حمید نے غصیلے لہجے میں کہا اور نوجوان یک بیک سنجیدہ ہو گیا ۔
آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘"
ناصر نے آپ کو بیگم شوخ کے متعلق کیا بتایا تھا؟‘‘ ’’
یہی کہ وہ ایک قتالہ عالم ہے۔ قدم قدم پر فتنے جگاتی ہے!‘‘
صاحبزادے مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں ہے!‘‘
یہی بتایا تھا ناصر بھائی نے ، یقین کیجئے!‘‘ ’’
ان کا دماغ کس طرح اُلٹ گیا ؟"
’’انہوں نے ایک واقعہ بتایا تھا مگر مجھے یقین نہیں آیا تھا پھر جب دو روز بعد وہ پاگل ہو گئے تو یقین کرنا ہی پڑا!‘‘
واقعہ بتاؤ دوست! ‘‘حمید اسے چمکار کر بولا۔
ایک رات وہ دونوں نیا گرا کے ایک فیملی کیبن میں تھے ۔ بھائی ناصر نے تھوڑی ی پی رکھی تھی لہذا موج میں تھے ۔ انہوں نے اس سے محبت کرنی چاہی لیکن اس پر کھانی کا دورہ پڑ گیا اور اسی دوران میں اُس کے منہ سے ایک سانپ کا بچہ نکل کر میز پر رکھنے لگا۔
بھائی ناصر کا بیان ہے کہ انہوں نے اسے فورا ًہی مارڈالا لیکن وہ خود برُی طرح م خائف ہو گئے تھے ۔ عورت نڈ ھال ہو گئی تھی ۔ جب بھائی ناصر نے اُس سے اس کے متعلق پو چھا تو وہ رونے لگی ۔
اس نے کچھ نہیں بتایا مگر برابر یہی کہتی رہی کہ مجھ سے دور بھاگو، میرا خیال دل سے نکال دو۔ میں ایک بدنصیب عورت ہوں.... جاؤ!‘‘
پھر یہ کہ بھائی ناصر کی محبت تو پہلے ہی ٹھنڈی پڑ گئی تھی۔ انہوں نے گھر کی راہ لی ۔ دو دن تک بور ہوتے رہے پھر پاگل ہو گئے ۔ منہ سے نکلنے والے سانپ نے ان کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا تھا!‘‘
تم نے دیکھا ہے اس عورت کو ؟‘‘
دیکھنے کی خواہش ضرور رکھتا ہوں!‘‘ ’’
منٹل ہاسپیٹل میں پاگل ہو جانے کی کیا وجہ درج کرائی گئی ہے!‘‘"
بات کا بتنگڑ بنے کے خیال سے اصلیت چھپائی گئی ہے !‘‘نوجوان نے کہا۔
لہذا اب یہ بات بھی چھپانی ہی پڑے گی کہ محکمہ سراغرسانی اس عورت میں دلچسپی لے رہا ہے!"
’’ محکمہ سراغرسانی یا صرف آپ ۔معاف کیجئے گا۔ میں ذرا بے تکلف ہورہا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ میں نے آپ کے تذکرے بہت سنے ہیں اور میرے ایک عزیز سے آپ کے گہرے تعلقات ہیں !"
گہرے نہیں، بلکہ لمبے چوڑے! ‘‘حمید مسکرایا۔
آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا !"
’’بیگم شوخ اور نا صر صاحب کی دوستی کتنی پرانی تھی ؟ ‘‘
اس کا مجھے علم نہیں۔ ویسے انہوں نے اس کا تذکرہ ایک ہفتہ پہلے ہی کیا تھا پھر دوسرے دن پاگل ہو گئے تھے!‘‘
آپ بڑے بے دردانہ انداز میں اس ٹریجڈی کا تذکرہ کر رہے ہیں !‘‘
’’ دیکھئے کپتان صاحب بات دراصل یہ ہے ! ‘‘اس نے چاروں طرف دیکھنے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس پر یقین نہیں ہے!‘‘
’’کس پر؟‘‘
اسی کہانی اور بھائی ناصر کے پاگل پن پر!‘‘ ’’
’’کیوں؟‘‘
بس یونہی ۔ وہ اس قسم کے آدمی ہیں ۔ خاندان والوں میں سنسنی پھیلانے کے لئے اس سے پہلے بھی متخلف قسم کی حرکتیں کرتے رہے ہیں... مگر...!‘‘
’’مگر کیا ؟‘‘
مگر آپ اس عورت کے سلسلے میں ان سے ملنے آئے تھے ؟‘‘"
ہاں ، اور اُس کے متعلق آپ جتنی زیادہ معلومات فراہم کر سکیں بہتر ہے!‘‘ ’’
اس سے زیادہ اور کچھ نہ بتا سکوں گا !‘‘
اس عورت کا پتہ بتایا تھا نا صر صاحب نے ؟‘‘
نہیں کپتان صاحب !‘‘ نوجوان نے ایک طویل سانس لے کر کہا۔ ” ورنہ اب تک میں بھی پاگل ہو چکا ہوتا!‘‘
خیر... شکریہ حمید اُٹھتا ہوا بولا ۔ " اس کا تذکرہ آپ لوگ کسی سے نہیں کریں گے !"
اب اس کی کار پروفیسر شوخ کی قیام گاہ کی طرف جارہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ ان دونوں سے کس طرح یا ہے۔ بیگم شوخ معمہ بنتی جارہی تھی۔ جیسے ہی اس کی کا رعمارت کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی ، سامنے والی کھڑکی سے ایک سر باہر نکلا۔ یہ پروفیسر شوخ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کھڑکی سے جست لگائی اور باہر چلا آیا۔
’’یکھئے ، دیکھئے ! ‘‘وہ ہاتھ ہلا کر چیخا۔ بائیں جانب موڑ کر پارک کیجئے ورنہ لان تباہ ہو جائے گا !‘‘
حمید نے اس کی ہدایت کے مطابق کار بائیں جانب روِش پر موڑ کر انجن بند کر دیا۔ پروفیسر شوخ جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔
حمید کار سے اتر کر اُس کی طرف بڑھا۔ پروفیسر اس طرح پلکیں جھپکانے لگا جیسے اسے پہچانے کی کوشش کر رہا ہولیکن پھر مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر استفہامیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔ کیا آپ نے مجھے نہیں پحہچانا ۔ میں آپ کے بھتیجے کی خیریت دریافت کرنے آیا ہوں!‘‘
میں نے آپ کو نہیں پہچانا ...بھیجتے کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ اس وقت سو رہا ہے مورفیا کے انجکشن کے بغیر وہ سو نہیں سکتا۔ کیا آپ اُس کے دوستوں میں سے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ میں پہلے بھی آپ کو کہیں دیکھ چکا ہوں !"
پچھلی رات نیا گرا میں !" حمید مسکرا کر بولا ۔ " ہم دونوں پنگ پنگ کھیل رہے تھے !"
’’تب تو آپ کو یقیناً غلط فہمی ہوئی ہے۔وہ کوئی اور ہوگا!‘‘
کیا آپ پر و فیسر شوخ نہیں ہیں ؟‘‘"
میرے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے!‘‘
کیا پچھلی رات ہم سٹ نہیں کھیلے تھے؟‘‘"
خدا جانے مجھے تو یاد نہیں !‘‘ پروفیسر نے جھنجلا کر کہا۔
اتنے میں اچانک حمید کی نظر سامنے اٹھ گئی ۔ سر شوخ برآمدے میں کھڑی اُسے اشارے کر رہی تھی۔ پروفیسر کرات پر آمدے کی طرف تھی ۔ مسز شوخ کبھی عید کو جاتی بھی ہاتھ جوڑتی۔ پھر والے برآمدے سے اتر کر ان کی طرف تیزی سے بڑھی ۔
" اوہ.... ہیلو ....کیپٹن ! ‘‘اس نے پرُ اشتیاق لہجے میں حمید کو مخاطب کیا ۔
’’ارے ہاں، آپ کیپٹین حمید ہیں۔ پچھلی رات ہم نے نیا گرا میں ساتھ کھانا کھایا تھا ....او ، لاحول ولا قو ۃ!‘‘
پروفیسر نے پر اسامہ بنا کر کہا۔ " یہ حضرت فرمارہے تھے کہ میں ان کے ساتھ کھلی رات وہاں پنگ پنگ کھیلتا رہا!‘‘
بہت دلچسپ آدمی ہیں ڈیئر!‘‘ ’’
پروفیسر ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتا ہوا گلاب کی کیاریوں کی طرف چلا گیا اور اس طرح ایک بیچلہ
اُٹھا کر مٹی کی تہیں الٹنے لگا جیسے جید کی آمد سے قبل وہ یہی کام کرتا رہا ہو ۔
’’ آئے ۔ اندر چلئے !" مسز شوخ حمید کا ہاتھ پکڑ کر عمارت کی طرف کھینچتی ہوئی بولی ۔ حمید خاموشی سے چلتا رہا۔
" آپ کی گاڑی بڑی شاندار ہے !‘‘ وہ کہہ رہی تھی ۔ " کاش میں بھی ایک ایئر کنڈیشنڈ لنکن خرید سکتی!‘‘
آپ چار خرید سکتی ہیں !‘‘
وہ تو ٹھیک ہے ...مگر پروفیسر!‘‘ ’’
حمید نے اُس سے جملہ پورا کرنے کی استدعا نہیں کی۔ وہ اسے ایک شاندار اسٹڈی میں لائی۔ کچھ دیر تک دونوں ہی خاموش بیٹھے ایک دوسرے کو گھورتے رہے پھر حمید بولا ۔ " میں ایک شخص کے متعلق معلومات فراہم کرنا چاہتا ہوں!‘‘
جی !‘‘ وہ چونک پڑی۔
نا صر !" حمید اُس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
کون ناصر ؟"
وہی، جسے نیا گرہ میں منہ سے نکلنے والے سانپ کی پوجا کرنی پڑی تھی !‘‘
’’اوہ !‘‘دفعتہً اس کی آنکھوں میں خوف کی جھلکیاں نظر آئیں لیکن پھر شاید اس نے اپنے اعصاب پر قابو پالیا اور اس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
" کیا آپ کوئی دلچسپ داستان سنائیں گے؟‘‘
حمید آنکھیں بند کر کے مسکرا دیا۔ اُس نے یک بیک اپنا پورا پلان بدل دیا تھا۔ " صنوبر کے سائے تلے وہ آنکھیں کھولے بغیر بولا ۔
" مگر نہیں، میں غلط کہ رہا ہوں وہ تو نیا گرہ کا ریگر یکیشن ہال تھا جہاں پہلے پہیل....ہا !‘‘حمید آنکھیں کھول کر مرمٹنے والے انداز میں مسکرایا پھر بولا ۔ ’’مگر آپ اس وقت اشاروں ہی اشاروں میں میری خوشامد میں کیوں کر رہی تھیں !"
وہ چند لمحے خاموش رہی پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ " کہیں آپ اُس سوئی کا تذکرہ پروفیسر سے نہ کردیں!‘‘
’’چلئے میں نے نہیں کیا !‘‘حمید بولا ۔’’ لیکن اس سانپ کی داستان بری طرح عام ہورہی ہے اگر وفیسر کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچی تو کیا ہو گا !"
’’ میں اسے افواہ ثابت کر سکتی ہوں ؟ ‘‘اس نے کہا اور پھر اس طرح درون گئی جیسے وہ جملہ نادانستگی میں زبان سے نکل گیا ہو ۔
’’خیر اسے آپ افواہ ثابت کر سکتی ہیں ! ‘‘حمید نے لا پروائی سے کہا۔ ” لیکن وہ سوئی زندگی بھر میرے دل میں پیوست رہے گی!‘‘
آپ میر مذاق اُڑار ہے ہیں!‘‘ ’’
میں صرف کبوتر اڑاتا ہوں۔ بشرطیکہ وہ گرہ باز ہوں!‘‘
پھر آپ کس لئے تشریف لائے ہیں ؟‘‘"
آپ کے بھیتجے داؤد کی خیریت دریافت کرنے کے لئے!‘‘ "
ہڈی جوڑ دی گئی ہے اور وہ اس وقت مورفیا کے زیر اثر ہے۔ مگر آپ ناصر کے متعلق کیا معلوم کرنا چاتے ہیں ؟
آپ جانتی ہیں اُسے؟‘‘"
ہاں میں اُسے جانتی ہوں اور مجھے اعتراف ہے کہ اُسے ایک تیر انگیز واقعہ سے دو چار ہونا پڑا تھا !"
تو یہ حقیقت ہے کہ سانپ آپ کے منہ سے نکلا تھا!‘‘ "
حقیقت ہے!‘‘
خدا کی پناہ ...محاورہ غلط ہو گیا!‘‘ ’’
کیسا محاوره؟‘‘"
آستین میں سانپ پالنا سنا تھا مگر پیٹ میں...!‘‘ "
بس خاموش رہئے ۔ میرے ہی گھر میں بیٹھ کر آپ میرا مضحکہ نہیں اڑ سکتے !"
میں مضحکہ نہیں اڑا رہا ہوں بلکہ خود بھی آپ کا یہ کمال دیکھنا چاہتا ہوں!‘‘ ’’
دیکھئے نہ تو میں آپ کو اس کے متعلق کچھ بتا سکتی ہوں اور نہ...! "
’’ناصر پاگل ہو گیا ہے اور منٹل ہاسپیٹل میں ہے اُس کے اعزہقریب آپ لوگوں پر چڑھ دوڑیں گے۔ وہ بھی اونچے ہی طبقے کے لوگ ہیں!‘‘
یہ بات برُی ہوگی!‘‘ بیگم شوخ نے مصنطر یانہ انداز میں کہا۔
بات ختم بھی ہو سکتی ہے ! ‘‘حمید اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا ۔ " مگر...!‘‘
‘‘ مگر کیا ؟"
اس کے متعلق سب کچھ میرے علم میں آنا چاہئے!‘‘ "
مز شوخ تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی رہی پھر بولی ۔ لیکن اگر زبان میرا ساتھ نہ دے تو اس کی آنکھوں میں الجھن کے آثار نظر آرہے تھے اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔
زبان ضرور ساتھ دے گی " میرے خدا میں کیا کروں بیگم شوخ نے کچھ ایسے انداز میں کہا جیسے ابھی اپنے کپڑے چیر پھاڑ کر دیوانہ دار با ہر نکل جائے گی ۔
ٹھیک اسی وقت ایک آدمی اسٹڈی میں داخل ہوا جس کے دونوں ہاتھوں میں کسی جانور کی بڑی ہڈیاں تھیں ۔ اس کے بعد ہی پروفیسر بھی اندر آیا۔ اس کے ہاتھوں میں اب بھی پہلا تھا۔ بیگم ! اس نے پر مسرت لہجے میں کہا۔ یہ ذرا دیکھو یہ ہڈیاں ....ابھی ابھی گلابوں کی ایک کیاری سے بر آمد ہوئی ہیں ۔ میرا دعوئی ہے کہ کم از کم پانچ سو سال پرانی ضرور ہیں!‘‘
ہوں گی !‘‘بڑی لا پروائی سے کہا گیا۔
’’ انہیں میں اپنی خواب گاہ میں لٹکاؤںگا!‘‘
میرا موڈ اس وقت ٹھیک نہیں ہے!‘‘ اس کی بیوی نے غصیلے لہجے میں کہا۔
کیا خیال ہے آپ کا پروفیسر سید سے مخاطب ہو گیا۔
کیا ان ہڈیوں کے ساتھ کوئی تحریر نہیں بر آمد ہوئی ؟ ‘‘حمید نے پوچھا۔
نہیں تو ...تحریر کیوں ؟‘‘
ایسی چیزوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی تحریر بھی نکلا کرتی ہے۔ مثلاً میرے دادا جان ایک امرود کے کھیت میں ...!‘‘
امرود کے کھیت میں؟ ‘‘پروفیسر نے حیرت سے دہرایا۔
’’جی ہاں ۔ ہماری طرف امرود کے کھیت ہی ہوتے ہیں!‘‘
’’یہ آپ کی طرف کدھر ہوتی ہے !" پر و فیسر نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
ادھر ہی جدھر پروفیسروں کا سورج غروب ہوتا ہے۔ آج کل میں نباتات پر ریسرچ کر رہا ہوں اور عنقریب مجھے پانچے میں ڈاکٹریٹ مل جائے گی اور آپ یہ ہڈیاں کیا لئے پھر رہے ہیں۔ آپ یہ تک تو تھا نہیں سکتے کہ ہے شجرۃ الجن کی ہڈیاں ہیں یا شاہ بلوط کی!‘‘
ہا ئیں ....بائیں ! ‘‘پروفیسر آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا اور اس کی بیوی اسلامی سے چلی گئی۔
جہالت کی باتیں نہ کروا!" پروفیسر اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔
’’آپ کب عقل مندی کی باتیں کر رہے ہیں۔ اگر آپ مجھے زیادہ بور کریں گے تو میرے منہ سے سانپ نکل پڑے گا !‘‘
’’یار تمہارے دماغ میں فتور معلوم ہوتا ہے !" پروفیسر آنکھیں نکال کر بولا۔
دنیا کے سارے بڑے آدمیوں کے متعلق عام آدمی ہیں خیال رکھتے ہیں!‘‘ ’’
میں عام آدمی ہوں !" پروفیسر نے غصیلے لہجے میں کہا۔
" آم کیا ہیں آپ کو امرود بھی نہیں سمجھتا !"حمید اُٹھتا ہوا بولا۔
’’بیٹھو بیٹھو!‘‘پروفیسر ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ " میں تمہارے دماغ کے کیڑے جھاڑ دوں گا!‘‘
گلاب کے پودوں کے کیڑے آپ کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں !‘‘سعید نے کہا اور اسٹڈی سے نکل آیا۔
پروفیسر کی بیوی پہلے ہی چلی گئی تھی لہذا یہاں بیٹھنا دماغ کے کیڑے بھی جھٹروانے کے مترادف ہوتا مگر آئی منتشر کے بعد یہ عورت اور زیادہ معمہ بن گئی تھی۔ حمید لمبے لمبے قدم رکھتا ہوا کار کے قریب پہنچ گیا لیکن اسے چوکنا پڑا۔ کیونکہ پروفیسر کی حسین ترین بیوی تھیلی نشست پر نیم در ارتھی ۔ اس نے نیم باز آنکھوں سے عید کی طرف دیکھا۔ جینکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی اور اُس نے پھر آنکھیں بند کرلیں۔ حمید اندر بیٹھ کر ا نجن اسٹارٹ کر چکا تھا۔ کار پھاٹک سے سڑک پر نکل آئی لیکن وہ اسی طرح پچھلی سیٹ پر پڑی رہی۔ حمید بھی کچھ نہیں بولا البتہ اس کادل دھر کنے لگا تھا۔
وفتہ ًبیگم شوخ نے کہا۔ " مجھے کسی ایسی جگہ لے چلئے جہاں چھت نہ ہود، دیوار میں نہ ہوں ، درشت نہ ہوں ، جھاڑیاں نہ ہو۔ کسی چٹیل میدان میں لے چلئے۔ میں بھی آج امتحان کرنا چاہتی ہوں۔ تنگ آگئی ہوں اپنی زندگی سے!‘‘
میں سمجھا نہیں محترمہ!‘‘
آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ جو کچھ میں کچھ رہی ہوں کیجئے!‘‘ ’’
چٹیل میدان میں لے چلوں!‘‘ ’’
ہاں، جہاں ہم میلوں تک دیکھ سکیں ۔ اپنے گردو پیش آسانی سے نظر دوڑا سکیں ۔
اچھی بات ہے حمید نے ایک طویل سانس لی۔
آپ نے اس وقت پھر پروفیسر کی تو ہین کرنے کی کوشش کی تھی! "
وہ بالکل ڈفر ہے ! ‘‘حمید نے کہا۔
دیکھئے آپ میری بھی تو ہین کر رہے ہیں۔ وہ میرے شوہر ہیں !‘‘
’’اگر وہ میرے شوہر ہوتے تو میں انہیں زہر دے کر بقیہ زندگی بحالت بیوگی گزار دیتا !‘‘
نہیں آپ ایسا نہیں کہہ سکتے ۔ خدا کے لئے خاموش رہے! "
تو وہ آپ ہی کا انتخاب ہے؟‘‘
سوفیصدی!‘‘"
کیا میں اس انتخاب کی وجہ پوچھ سکتا ہوں ؟‘‘
اگر کوئی عورت پوچھتی تو بتا دیتی!‘‘ ’’
مجھے بھی مرد نہ سمجھے!‘‘
اگر آپ ہیں تو ضرور سمجھ جائیں گے!‘‘"
ہٹا ئیے یہ ایک فضول بحث ہے! ‘‘حمید نے کہا۔ وہ اپنی کا رجھریالی کے میدان کی طرف لے جارہا تھا۔
پچھلی رات آپ کے ساتھ وہ دیوز ادکون تھا ؟‘‘ بیگم شوخ نے پوچھا۔
آپ ہی کے گرفتاروں میں سے ایک!‘‘ ’’
آپ نہ جانے کیسے آدمی ہیں وہ بگڑ گئی۔
شریف اور بازاری عورتوں میں فرق نہیں کر سکتے۔ کیا گفتگو کا یہی طریقہ ہے !"
’’معاف کیجئے گا۔ آپ کبھی نہیں وہ بھی ناصر کے عزیزوں میں سے ہے۔ آج جب اُسے سانپ والا واقعہ معلوم ہوا تو اُس کے دیوتا کوچ کر گئے ۔ اب وہ پیٹ کے درد میں مبتلا ہے ! "
’’لیکن اس پر کچھ اثر نہیں ہوا!‘‘
’’ہم لوگ اگر ایسی باتوں سے متاثر ہونے لگیں تو پورا شہر ایک دن میں فنا ہو جائے!"
’’اوہ... یہ میدان ...یہ میدان بالکل ٹھیک ہے!‘‘ دفعتّہ و ہ پُر مسرت لیجے میں بولی۔
کار جھریالی کے میدان میں داخل ہو رہی تھی۔’’ بس اب روک دیجئے ! ‘‘بیگم شوخ نے کہا۔
حمید نے کار روک دی اور بیگم شوخ اس سے پہلے ہی نیچے اتر گئی ۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ حمید اسے متحیر انہ انداز میں گھورتا ہوا نیچے اتر آیا۔
’’میں شیطان کی محبوبہ ہوں ! وہ آنکھیں بند کئے ہوئے آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی ۔ " میں جب بھی اُس کا راز ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو مجھے پر کوئی نہ کوئی مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے۔
پچھلی رات والی سوئی ایسی ایک مصیبت تھی۔ اگر کوئی مجھ سے عشق جتانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس بری طرح ڈرایا جاتا ہے کہ پاگل ہو جاتا ہے ! ‘‘پھر وہ آنکھیں کھول کر چنے لگی لیکن ساتھ ہی خوفزدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھتی بھی رہی تھی ۔ " لیکن اس وقت مجھ پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوئی اور تم مجھ سے اظہار محبت کر کے دیکھ لو!‘‘
حمید سناٹے میں آ گیا۔ وہ تو صرف چھیڑ چھاڑ کا رسیا تھا۔ ’’مم میں نہیں سمجھا !‘‘وہ پہاپننے لگا ۔
بس صرف اتنا کہہ دو کہ مجھے تم سے محبت ہے!‘‘
اس سے فائدہ ؟‘‘
تجربے کے طور پر ،اور نہ میں ایک شریف عورت ہوں اور ایسی باتوں کو مزاحاًبھی نہیں برداشت کر سکتی ....کہہ دو صرف کہنے کی خاطر!‘‘
مجھے تم سے محبت ہے ! ‘‘حمید خود کو چغد محسوس کرنے لگا۔
بیگم شوخ نے پھر چاروں طرف دیکھا اور بے تحاشہ ہسننے لگی ۔
اور اگر میں اسی طرح رونا شروع کر دوں تو !" حمید نے جھینپ کر کہا۔
’’میں لوریاں گا کر تمہیں سلا دوں گی ۔ آؤ اب واپس چلیں ، کام ہو گیا !"
حمید آنکھیں پھاڑے اُسے گھورتا رہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
میں سب کچھ بتا دوں گی۔ اب مجھے اس سے خوف نہیں معلوم ہوتا۔ وہ کوئی آدمی ہی ہے۔ انتہائی چالاک اور پُر اسرار آدمی! " مسز شوخ نے کہا۔
’’اچھی بات ہے! ‘‘حمید نے طویل سانس لے کر کہا۔ " میرا نام حمید ہے محترمہ !"
’’ اب پھر آپ اعلانِ جنگ کرنے والے ہیں ! ‘‘عورت مسکرائی ۔ !" میں آپ کو مطمئن کر دوں گی " اُس نے آگے بڑھ کر گاڑی کا اگلا دروازہ کھولا اور انگلی ہی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ " کیا مجھے اب اپنی گاڑی میں میٹر لگا نا پڑے گا "حمید نے اندر بیٹھ کر مشین اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ کرایہ ادا کردوں ! وہ بڑے دلآویز انداز میں مسکرائی۔
حمید کچھ نہیں بولا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس عورت کو کیا سمجھے لیکن اس کی باتوں کو مجذوب کی بڑ سمجھنے پر بھی تیار نہیں تھا۔
گاڑی کچے راستوں کے جال سے نکل کر پختہ سڑک پر آگئی تھی۔ مز شوخ نے کہا۔ " اگر میرے منہ سے سانپ کا بچہ نکلا تھا تو کیا یہ کوئی جرم ہے؟"
’’قطعی نہیں ۔ اگر آپ کے منہ سے ہاتھی کا بچہ نکلے تب بھی قانون کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ! ‘‘
’’اگر میں نے خود ہی اپنی پنڈلی میں ایک سوئی چھور بھی تھی تو آپ مجھ پر کون سی فرد جرم عائد کریں گے ! ‘‘
’’پاگل پن ۔ اور آپ جانتی ہیں کہ قانون نے پاگلوں کے لئے جیل میں کوئی جگہ نہیں رکھی ! ‘‘
بس تو پھر میں یہ ضروری نہیں سمجھتی کہ آپ کو حالات سے آگاہ کیا جائے ۔ یہ میرے بھی معاملات ہیں !"
میں آپ کو مجبور نہیں کرتا کہ مجھے آگاہ کیجئے ۔ ناصر کے اعزہ آپ سے سمجھ لیں گے۔ ان کا خیال ہے آپ نے اُسے کچھ کھلا دیا ہے!‘‘
کیا کھلا دیا ہے؟‘‘"
کوئی ایسی زہریلی چیز جس سے دماغ ماؤف ہو جائے!‘‘
اس کے لئے انہیں طبی ثبوت پیش کرنا پڑے گا ۱‘‘
ہٹائیے ۔ مجھے کوئی دلچپسی نہیں رہ گئی!‘‘ "
پھر کیوں دوڑے آئے!‘‘ "
غلطی ہوئی تھی ۔ آپ صرف ہسٹریا کی مریض ہو سکتی تھیں اور اس کے لئے جواز بھی موجود ہے۔ بوڑھوں کی جوان بیویاں اکثر و بیشتر اس مرض میں مبتلا پائی گئی ہیں!‘‘
بکواس ہے ! ‘‘وہ غصیلے لہجے میں بولی۔
میں آپ کی باتوں کا برانہیں مان سکتا کیونکہ آپ اس وقت بھی دورے ہی کی حالت میں ہیں!‘‘ ’’
آپ اپنی زبان بند رکھیں تو بہتر ہے!‘‘
نہیں میں اس کی ضرورت نہیں محسوس کرتا کیونکہ دورہ شدید نہیں ہے یعنی اگر میں نے اپنی بکو اس جاری رکھی تو آپ مجھے نوچے کھسوٹنے کی کوشش نہیں کریں گی ۔ اس لئے مجھے کہنے دیجئے ۔ اب کہاں چلوں...نیاگرا...یا کہی اور...!‘‘
’’میں گھر واپس جانا چاہتی ہوں !‘‘ اس نے نا خوشگوار لہجے میں کہا۔
یہ ناممکن ہے، آپ نے میر ا وقت برباد کیا ہے!‘‘
پھر آپ کیا کریں گے؟‘‘"
’’کچھ دیر میں بھی آپ کا وقت برباد کروں گا۔ اگر کہے تو پر و فیسر کا مستقبل بھی برباد کر دوں ! "
’’آپ سے عاجز آگئی ہوں لیکن کیا آپ دوسرے جملے کی وضاحت کریں گے ؟‘‘
’’ یہی کہ آپ کے چہرے پر تیزاب ڈال دوں ! ‘‘حمید نے ہونٹ سکوڑ کر کہا اور وہ سہم کر ایک طرف سمٹ گئی۔
حمید پھر بولا ۔ " آپ بے حد حسین ہیں اور میں دنیا کی ہر حسین عورت کا چہرہ بگاڑ دینا چاہتا ہوں !‘‘
’’کیوں؟ ‘‘وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔
ایک بار ایک بدصورت عورت نے مجھے اس کی استدعا کی تھی!‘‘
آپ کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں !"
یہ نہ میرا قصور ہے اور نہ ہاتوں کا!‘‘ "
عورت تھوڑی دیر تک خاموش رہی پھر بولی۔ " مجھے میرے گھر پہنچا دیجئے!‘‘
’’یہ ناممکن ہے۔ میں آپ کا وقت برباد کرنے کا عہد کر چکا ہوں !"
پھر اگر میرے منہ سے یا آپ کی جیب سے سانپ نکل آئے تو میں نہیں جانتی!‘‘
میں تو چارہ سازی کر رہا تھا۔ عاشقوں کے چارہ ساز بھی تو ہوتے ہیں۔ اردو شاعری میں اگر نہ ہوں تو عاشقوں کے سامنے گھاس کون ڈالے!‘‘
میں گھر جاؤں گی!‘‘
تنہائی سے ہمیشہ دور بھاگئے ورنہ آپ کو بھی اس شیطان سے عشق ہو جائے گا!‘‘
مجھے تو ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میں نے اُس شیطان حمید نے محسوس کر لیا کہ اشارہ خود اس کی طرف ہے۔
کو پکڑ لیا ہوا" عورت نے نا خوشگوار لہجے میں کہا اور
جب عاشقوں کی تعداد ید بڑھ جائے تو چالاک قسم کے عاشق اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں !"
آپ بے شرم ہیں ! ‘‘عورت کی آواز غصہ سے کانپ رہی تھی۔
باشرم عاشق تو کوئی مولوی ہی ہو سکتا ہے!‘‘
میں آپ کے خلاف کیس دائر کر دوں گی۔ آپ اتنے دنوں تک مجھے خواہ خواہ پریشان کرتے رہے!‘‘ "
عاشقوں کو پھانسی نہیں ہوا کرتی!‘‘ "
آپ بد تمیز ہیں ۔ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں!‘‘"
آپ کچھ بھی کہیے۔ میرا سایہ آپ کی قبر تک جائے گا!‘‘
میں چیخنا شروع کر دوں گی!‘‘
یہاں دور دور تک آدمیوں کا پتہ نہیں ہے۔ ویسے اگر آپ ان درختوں کو محفوظ کرنا چاہتی ہوں تو مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں ہو سکتا!‘‘
کار روک دو !‘‘عورت نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
حمید نے کارروک دی۔
تم میرا کچھ نہیں کر سکتے ! ‘‘عورت اُسے گھورتی ہوئی بولی ۔
میں کب کہتا ہوں کہ کر سکتا ہوں!‘‘ ’’
پھر یہ سب کیا ہے؟‘‘"
اس کا جواب دہی آدمی دے سکے گا جو اس وقت پاگل خانے میں ہے!‘‘
تمہیں پاگل خانے میں ہونا چاہئے تھا !" عورت نے غصیلے لہجے میں کہا۔
"...! مجھے کیوں ہونا چاہئے جبکہ میں ابھی تک نہ تو گستاخ ہوا ہوں اور نہ بیبا ک "
تم اتنے دنوں تک مجھے خواہ مخواہ ڈراتے اور سمہاتے رہے۔ تمہارے لکھے ہوئے خطوط میں پولیس کے حوالے کر دوگی۔
ہوش میں آئے محترمہ آپ ایک سرکاری افسر سے گفتگو کر رہی ہیں!‘‘ "
عورت کی آنکھوں میں پھر الحسن کے آثار نظر آنے لگے۔
تو آپ وہ آدمی نہیں ہیں جو مجھے پریشان کرتا رہا ہے؟‘‘"
پتہ نہیں کسی آدمی کی طرف اشارہ ہے، آپ کا ؟ ویسے پچھلی رات سے شاید میں بھی آپ کو پریشان کر رہا ہوں!‘‘ "
جہاں کا رڑکی تھی، اس کے دونوں طرف نشیب تھا اور پھر دور تک جوار کے گھنے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
اچانک دونوں اطراف کی ڈھلانوں سے کچھ آدمیوں نے سر ابھارے۔ ساتھ ہی ان کے ہاتھ بھی اٹھے جن میں رہو اور تھے اور اُن کے چہرے نقابوں میں چھپے ہوئے تھے۔
حمید اپنا سر سہلانے لگا کیونکہ وہ بالکل نہتا تھا۔
وہ لوگ سڑک پر چاچی کر کار کو نرنے میں لے چکے تھے اور اُن میں سے ایک آدمی عورت کا شانہ جھنجوڑ کر غصیلے لحجے میں بولا۔
’’مم ....میں....نن....!‘‘سلیمہ ہکلا کر رہے گئی۔
ہاں ، تم نہیں جانتیں کہ میں کون ہوں لیکن کیا تم اس حبیبہ کو مذاق کبھی تھیں ؟ سلیمیہ خاموش رہی۔ اس آدمی نے پھر کہا۔ " میں تمہیں کسی دوسرے کے ساتھ نہیں دیکھ سکتا !"
پروفیسر کے تعلق کیا خیال ہے ؟ حمید بول پڑا۔
تم خاموش بیٹھے رہوا وہ آدمی گرج کر بولا ۔ " میں بہت زیادہ خون بہانے کا عادی نہیں ہوں ورنہ یہاں تمہاری لاش توپچی نظر آتی میلے میں تم سے گفتگو کر رہا ہوں " میں نہیں جاتی کہ آپ کون ہیں ؟ سلیمہ پانچی ہوئی ہوئی ۔ میں کوئی بھی ہوں لیکن تمہیں اپنا پابند دیکھنا چاہتا ہوں!‘‘ "
کسی سراغرساں سے تمہارا گئے جوڑ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور اگر تم اسے کسی قائل بجھتی ہوتو میں تمہیں اس کی موجودگی ہی میں کھینچ لے جاؤں گا!‘‘
اچھا، اب تم اپنی زبان بند کروا " حمید کو غصہ آگیا لیکن دوسرے ہی لمحے ایک ریوالور کی نال اُس کی کمیٹی أثار لو، اس عورت کو اس آدمی نے گرج کر کیا اور سلمہ بڑی بے بسی سے نہیں نہیں کرنے لگی لیکن
اُن لوگوں نے اسے کھینچ کر اُتار لیا ۔ وہ بری طرح کانپ رہی تھی اور اُس کی آنکھیں حمید سے التجا کر رہی تھیں ....اور حمید جو فریدی کا شاگرد تھا اسوچ رہا تھا کہ ایسے مواقع پر جب اپنے بچاؤ کے لئے کچھ بھی نہ ہوتو و لیزری دکھانا صحافت ہی ہے۔
ہاں ، اگر حکمت عملی کوئی بھی راہ دکھا دے تو دوسری بات ہے۔ وہ نہتا تھا اور ان کی تعداد تھر تھی اور متحد ہی ریع الوروں کی تالیں، اس کے لئے اپنے فن کا مظاہرہ کر سکتی تھیں لیکن خود حمید اپنا جسم چھلنی کرانے کا دلدادہ نہیں تھا۔
اس لئے وہ نہایت خاموشی سے بینا رہا۔ اگر وہ کار کے باہر ہوتا تو شاید خاموشی اُسے گراں گزرنے لگی اور وہ کچھ نہ کچھ ضرور کر گزرتا۔ مگر اس صورت میں تو کار سے اتر تے اتر تے وہ دوسری دنیا کا سفر کر سکتا تھا۔ سیلمہ کو گرا کر اس کے ہاتھ پر باندھ دیئے گئے ۔ منہ میں کپڑ اٹھوس گیا اور وہ کسی ایسے خوفزدہ پرندے کی طرح بے بسی سے پانچتی رہی جو باز کے چنگل میں جا پھنسا ہو۔ حمید کی کنپٹی سے ابھی تک ربع الور کی نال لگی ہوئی تھی...۔ دو آدمیوں نے سلیمہ کو اُٹھایا اور بائیں جانب والے نشیب میں اُتر گئے ۔
اُن کے جانے کے بعد دوسروں نے بھی ادھر ہی چھلانگیں لگائی تھیں لیکن وہ آدمی بدستور و میں کھڑا رہا جس نے حمید کی کنپٹی سے ریوالور کی نال لگا رکھی تھی۔
’’ اب کیا ارادہ ہے؟ ‘‘حمید نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
’’ کچھ نہیں، بس اتنی دیر اور کہ وہ لوگ ایک خاص مقام تک پہنچ جائیں !"
’’ وہ عورت واقعی بہت حسین ہے !" حمید نے کہا۔
وہ آدمی جواب میں خاموش رہا۔
اگر تم لوگوں نے اسے تکلیف پہنچائی تو خدا تمہیں غارت کرے گا!"
اب پولیس والے بھی کونے لگے ' اس آدمی نے قبہ لگایا۔ ٹھیک اسی وقت حمید نے سر پیچھے بنا کر اُس کے ربع الور پر ہاتھ ڈال دیا۔ پھر دو تین جنگوں کے بعد حمید نے اس سے ریوالور چھین لیا اور وہ آدمی اُس سے ہاتھ چھڑا کر بھاگا۔ جتنی دیر میں حمید کار سے اترتا، وہ نشیب میں چھلانگ لگا چکا تھا۔
حمید بھی اُدھری پکا لیکن پھر وہ جوار کے کھیتوں کو برا بھلا کہنے لگا جن میں کھڑی ہوئی قد آدم فصل ، اس آدمی کو نکل گئی تھی۔ وہ کافی دیر تک کھیتوں میں بخشتا رہا پھر تھک ہار کر واپس آگیا۔ وہ اب بھی تفصیلی نظروں سے کھیتوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے کار اسٹارٹ کی لیکن اب وہ شدید الجھن میں گرفتار تھا۔ اگر شوخ کی کوٹھی کے کسی آدمی نے مسیلمہ کو اس کی کار میں بیٹھے دیکھ لیا ہوگا تو اس کے لئے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔
حالات اُس کی سمجھ سے باہر تھے۔ وہ شروع سے اب تک کے واقعات کا جائزہ لینے لگا۔ اگر سلیمہ کے بیان کے مطابق اس پر اسرار آدمی کو کوئی مافوق الفطرت استی سمجھ لیا جائے تو اس وقت کا واقعہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا اور اگر یہ سمجھا جائے کہ سلیمہ کے اس تجربے کے بعد، اس نے بھی اپنا رویہ بدل دیا جب بھی اس کے مافوق الفطرت ہونے میں شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
کیونکہ ایسی صورت میں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ اسے اس تجربے کا علم کیسے ہوا ؟
اور اس سوال کا جواب بھی ہونا چاہئے کہ وہ کوئی مافوق الفطرت ہستی ہے ورنہ سے اُس تجربے کا علم کیسے ہوا؟
کیونکہ حمید کے خیال کے مطابق کسی نے ان کا تعاقب نہیں کیا تھا۔
وہ اسی ادھیڑ بن میں گھر تک پہنچ گیا ۔ جیسے ہی کار کمپاؤنڈ میں پینکی ، اسے چکر سے آنے لگے کیونکہ برآمدے میں اسے فریدی دکھائی دیا جو ایک ظالم سے کچھ کہہ رہا تھا۔
وہ تین دن بعد گھر آیا تھا ۔ حمید کار کو گیراج کی طرف لیتا چلا گیا ....واپسی پر بھی اُس نے فریدی کو برآمدے ہی میں پایا۔
’’کیوں، کیا قصہ ہے؟ ‘‘فریدی اُسے اوپر سے نیچے تک دیکھتا ہوا بولا " تمہارے چہرے پر ہوائیاں کیوں اُڑرہی ہیں؟‘‘
’’ کچھ نہیں... !‘‘حمید زبردستی ہنسا۔’’آپ کہاں تھے؟"
فریدی جواب دینے کے بجائے اندر جانے کے لئے مڑ گیا حمید سوچنے لگا کہ فرید ی کو اس واقعے کی اطلاع دے یا نہ دے کافی سو بچار کے بعد اُس نے ملے کیا کہ اسے خاموش ہی رہنا چاہئے۔ ممکن ہے سلیمہ اب تک گھر بھی پانچ پکی ہو۔
اگر مقصد اُس کا اغوا ہوتا تو آج ہی کیا ضروری تھا۔ یہ کام اس سے پہلے بھی ہو چکا ہوتا۔ ممکن ہے مجرموں نے اُسے وقتی طور پر چڑانے اور اشتعال دلانے کے لئے ایسا کیا ہو۔
وہ اندر آیا۔ یہاں نوکروں سے معلوم ہوا کہ فریدی او پر لیباریٹری میں ہے حمید او پر چلا گیا۔ تین دن بعد ملاقات ہوئی تھی ۔۔ اس نے اسے مائیکرو اسکوپ پر جھکے ہوئے دیکھا۔ حمید کی آیت پر وہ چونک پڑا پھر اس نے حمید کو اشارے سے اپنے قریب بلایا۔
’’ دیکھو....!‘‘ اس نے مائیکرو اسکوپ کے لینس کی طرف اشارہ کیا۔ حمید نے شیشے سے آنکھ لگا دی۔ سلائڈ پر بے شمار چمک دار ذرات نظر آرہے تھے۔ کیا دیکھا ....؟‘‘
’’ پریاں ناچ رہی ہیں۔ ہر ایک کے ہاتھ میں ڈالڈا کے اپنے ہیں ارر ...نہیں میرے خدا !ان ذرات سے تو شما میں ہی پھوٹ رہی ہیں، ٹیلی اور بنفشی ....یہ کیا بلا ہے؟ ‘‘حمید نے شیشے سے آنکھ ہٹاتے ہوئے کہا۔
یہ تمہارے لئے ایک نئی مصیبت ثابت ہونے والی ہے....!‘‘ فریدی مسکرایا۔
یعنی...؟‘‘ ’’
ایک شاندار کیس....!‘‘ فریدی کا جواب تھا۔
4
کیس کا نام سن کر حمید کی جان نکل گئی اور وہ کراہ کر فرش پر بیٹھ گیا۔" یہ ذرات ....!‘‘ فریدی کہتا رہا۔
’’ تار جام کی لوہے کی ایک کان سے برآمد ہوئے ہیں جو لوہے کے ذرات ہر گز نہیں ہو سکتے! "
’’ارے، تو یہ کیس ہو گیا حمید نے رونی آواز میں کہا۔
’’ ہاں ...کان کن کمپنی اسے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ اس کی اطلاع حکومت کو ہونی چاہئے اور یہ کان کن کمپنی غیر ملکی ہے!‘‘
’’یہ ذرات، آپ کو کب اور کہاں سے ملے ؟‘‘
یہ میرے پاس تقریباً پندرہ دن سے ہیں اور آج میں ان سے دو طرح کی شعاعیں خارج کرنے میں کامیاب ہوا ہوں!‘‘
آپ.... ؟" حمید نے حیرت سے کہا۔
ہاں کیوں ...؟ یہ اتنی بڑی تجربہ گاہ آخر کس لئے ہے!‘‘ "
ان ذرات میں پہلے کیا خصوصیت تھی جس نے آپ کو دلچسپی لینے پر مجبور کیا ؟"
ہر ذرے کے گرد فالسی رنگ کے دائرے معلوم ہوتے تھے!‘‘ ’’
کاش! اور دائرے میرے لئے پھانسی کا پھندا بن جاتے۔ مگر یہ آپ کے ہاتھ کیسے لگے؟‘‘"
کمپنی کے ایک محبت وطن دیسی ڈائر یکٹر نے مجھے اطلاع دی تھی پھر میں نے اپنے طور پر یہ ذرات حاصل کر لئے تھے۔
خدا اس دیسی ڈائر یکٹر کی دس شادیاں کرا دے تاکہ اُسے علم الاولاد کے علاوہ کسی اور علم سے دلچسپی نہ رہ جائے ! ‘‘فریدی ہسنے لگا اور حمید بولا ۔ " تو یہ ذرات مصیبت کیوں بنیں گے؟ کان گئی رکوائی بھی تو جاسکتی ہے!‘‘
آسانی سے نہیں !‘‘فریدی سر ہلا کر بولا ۔ " پہلے تحقیقات ہوگی، اگر یہ ثابت ہو گیا تو کوئی کارروائی کی جاسکے گی ورنہ نہیں لیکن اتنی دیر میں وہ لوگ حاصل کئے ہوئے ذخیرے کو باہر بھیجنے میں کامیاب ہو جائیں گے! "
" تو ذخیرے ہی پر کیوں نہ قبضہ کر لیا جائے!‘‘
یہی تو مصیبت ہے کہ وہ جگہ ابھی تاریکی میں ہے جہاں ان لوگوں نے اس کا ذخیرہ کیا ہے! ‘‘"
" کیا پتہ ذخیرہ یہاں سے منتقل بھی کیا جا چکا ہوا!"
نہیں ، ذخیرہ نقل کرنے کی ابھی کوئی تدبیر اُن کی سمجھ میں نہیں آسکی ہے!‘‘ ’’
ذخیرے کا علم آپ کو کیسے ہوا؟‘‘
’’یہ بھی اُسی اس دیسی ڈائر یکٹر کی اطلاع ہے۔ اُس نے غیر کی ڈائریکٹروں کو اس مسئلے پر گفتگو کرتے سنا تھا!‘‘
’’غالباً چھُپ کر سنا ہوگا!‘‘
"یقینا "
چپ کر دوسروں کی باتیں سنتا اور پھر انہیں ادھر ادھر کہتے پھرنا بہت بڑا گناہ ہے جو کبھی معاف نہیں ہوتا!‘‘ "
اور ہم پرانے گنہگار ہیں !‘‘فریدی مسکرایا۔
’’ میں تائب ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں !" حمید بُرا سا منہ بنا کر بولا ۔
فریدی کچھ نہ بولا ۔ وہ پھر ذرات کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
آپ نار جام ہی میں تھے ؟ ‘‘تھوڑی دیر بعد حمید نے پوچھا۔
ہاں ...اور کل پھر جاؤں گا مگر تنہا نہیں۔ تم بھی میرے ساتھ ہو گے!‘‘ "
تار جام بڑی خشک جگہ ہے!‘‘ "
نہیں ....اب وہاں کے ہوٹلوں میں بھی لڑکیاں نظر آنے لگی ہیں !‘‘فریدی نے مشک لہجے میں کہا۔
شکر ہے، اُن پر آپ کی نظر تو بڑی!‘‘ ’’
آپ کا مقدر ہی نیجر ہے، کوئی کیا کرے حمید نے کہا اور لیباریٹری سے باہر چلا گیا۔ پھر بقیہ وقت سکون سے گزرا۔ نہ تو فریدی نے اُسے طلب کیا اور نہ محمید کو یہ معلوم ہو سکا کہ فریدی گھر کے کس حصے میں کیا کر رہا ہے۔
رات بھی چین سے گزری۔ یعنی حمید کو طلب کر کے کسی مسئلے پر بحث نہیں کی گئی ۔ ہر ایسے موقع پر جب فریدی کے ہاتھ میں کوئی کیسی ہوتا تھا، حمید خود ہی کترانے لگتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ آج کل وہ ذہنی جمناسٹک سے ذرا دور بھاگنے لگا تھا۔ البتہ ان کاموں کے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا جس میں صرف جسمانی انرجی صرف ہوتی ہو۔
5
دوسری صبح وہ دیر سے اٹھا تھا۔ فریدی ناشتہ کر چکا تھا۔ حمید ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ ایک تو کر نے آکر اطلاع دی کہ فریدی نے اُسے ڈرائنگ روم میں طلب کیا ہے۔ اس نے جلدی جلدی ناشتہ ختم کیا۔
ڈرائنگ روم میں قدم رکھتے ہی اُس کا دم نکل گیا۔ کیونکہ سامنے ہی پروفیسر شوخ پر ایمان تھا اور بہت سے میں معلوم ہوتا تھا۔
جی ہاں ! یہی وہ حضرت ہیں !‘‘ وہ حمید کو دیکھتے ہی اچھیل کر دوڑا پر حمید کوللکارا۔ " سلیمہ کہاں ہے ؟"
میں کیا جانوں؟ ‘‘میں کیا بتا سکتا ہوں؟'' حمید نے خود پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
آپ اُسے اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس کے بعد وہ گھر واپس نہیں آئی!‘‘
!‘‘ میں نہیں لے گیا تھا بلکہ وہ خود گئی تھیں "
وہ کہاں ہے ؟‘‘
میں نہیں جانتا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ مجھے جمیس اسٹریٹ پر اُتار دینا!‘‘ "
پھر کیا میں نے انہیں جمیس اسٹریٹ پر اتار دیا " آپ میرے یہاں آئے ہی کیوں تھے ؟‘‘ پروفیسر چنگھاڑا۔
انہوں نے مجھ سے استدعا کی تھی کہ میں اُن کا کھویا ہوا پرس تلاش کرنے میں مدددوں!‘‘ "
یہ قطعی بکواس ہے ۔ سیلمہ نے یہ بھی نہ کہا ہوگا جب کہ میں نے اُسے خاموش رہنے کا مشورہ دیا تھا!‘‘ "
لیکن وہ خاموش نہیں رہیں ! ‘‘حمید نے پُرسکون لہجے میں جواب دیا۔
’’میں یہ سب کچھ نہیں جانتا ۔ اگر وہ شام تک واپس نہ آئی تو میں آپ کے خلاف قانونی کارروائی کروں گا!‘‘
آپ میرے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے ! ‘‘حمید کو بھی غصہ آگیا۔
آپ ایک آوارہ آدمی ہیں ۔ میں آپ کے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتا !‘‘"
اب آپ اپنی زبان بند رکھیں گے!‘‘ "
دھاندلی نہیں چلے گی !‘‘ پروفیسر ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ " قانون سب کے لئے یکساں ہے۔ خواہ وہ کوئی پولیس ، افسر ہو یا کوئی عام شہری!‘‘
میں نہیں سمجھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟" پروفیسر اس کی طرف مُڑا۔
بھی تو میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا۔ کہتے نہ کہنے کا دارو مدار میرے اس سوال پر ہے!“
ہاں اکثر وہ رات کو باہر ہی رہ جاتی ہے۔"
آپ کو اطلاع دیے بغیر ہی؟“
نہیں، وہ مجھے فون پر اطلاع دیا کرتی ہے یا کہہ کر جاتی ہے !‘‘
’’کل دونوں ہی با تیں نہیں ہو ئیں ؟" فریدی نے پوچھا۔
ہاں ، کل نہ تو وہ مجھے بتا کر گئی اور نہ ہی فون پر اطلاع دی!‘‘ ’’
پھر بھی آپ نے رات کسی تشویش کے بغیر گزاری؟"
میں رات بھر نہیں ہوسکا۔ جہاں جہاں اُس کے ملنے کے امکانات ہو سکتے تھے، فون کیے لیکن کہیں سے کوئی اطلاع نہ مل سکی!‘‘
لیکن آپ نے کیپٹن حمید کو فون نہیں کیا ؟"
’’تو مجھے آج صبح معلوم ہوا کہ وہ ان حضرت کے ساتھ گئی تھی .....ایک ایسے نوکر نے انہیں جاتے دیکھا تھا جو صرف دن کے لئے ہے ، رات اپنے گھر پر بسر کرتا ہے!"
آپ اس وقت کہاں تھے جب یہ دونوں گئے تھے؟
میں اندر تھا!‘‘
فریدی چند لمحے خاموش رہا پھر اس نے کہا ۔ اچھی بات ہے، پروفیسر! اگر دو گھنے تک اور ان کی طرف سے کوئی اطلاع نہ ملے تو مجھے فون کیجئے گا!"
’’ ضرور کروں گا پروفیسر حمید کو ھورتا ہوا تلخ لہجے میں بولا.... " اب میں سب سے پہلے اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کراؤں گا!‘‘
میں ابھی اس کا مشورہ نہیں دوں گا‘ فریدی بولا۔
" کیا میں آپ کے مشورے کا پابند ہوں ؟ پروفیسر نے جھلا کر کہا۔
جاؤ، درج کرادو، رپورٹ " حمید ہاتھ ہلا کر غرایا ۔ بس اب چلے ہی جاؤ ورنہ اُٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دوں گا!‘‘
’’دھمکی ...اچھا، اچھا دیکھ لوں گا " پروفیسر اُٹھتا ہوا بولا ۔
فریدی نے حمید کوڈائنا اور پروفیسر سے کہا۔ پروفیسر مجھے افسوس ہے کہ آپ اس سلسلے میں میرے اسٹنٹ کا نام لے رہے ہیں لہذا میں کوشش کروں گا!‘‘
وہ تو کرنی ہی پڑے گی!" پر وفیسر نے گردن ہلاتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا۔ حمید اُسے پھاٹک سے گزرتے دیکھتا رہا۔ پھر وہ فریدی کی طرف مڑا جوا سے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔
یہ بھی ایک کیس ہی ہے، کرنل صاحب !‘‘ حمید دل کڑا کر کے بولا ۔ " میں نے اُسے جیمس اسٹریٹ پر نہیں اُتارا تھا بلکہ جھریالی کے میدان میں لے گیا تھا اور پھر جوار کے کھیت اُسے نگل گئے!‘‘
فریدی کچھ نہ بولا ۔ وہ متواتر حمید کو گھورے جار ہا تھا لہذا حمید نے اس میں عافیت کبھی کہ جلد از جلد اسے حالات سے آگاہ کر دے۔
فریدی بہت تو جہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا اور اب اس کے چہرے پر غصے کے آثار بھی نہیں تھے۔
" تم نے مجھے کل ہی کیوں نہیں بتایا تھا؟ ‘‘اس نے تشویش آمیز لہجے میں کہا۔ میں سمجھا تھا کہ وہ گھر پہنچ گئی ہوگی ۔ ان لوگوں نے مجھے تاؤ دلانے کے لئے ایسا کیا ہے؟‘‘"
بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ بشرطیکہ تم نے غلط بیانی سے کام نہ لیا ہو!" اس میں ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں ہے ! حمید بولا " کیا پہلے بھی میں نے آپ سے جھوٹ بولنے کی کوشش کی ہے، تفریحی معاملات کی بات الگ ہے!‘‘
اچھا تو اُٹھو ....میں وہ جگہ دیکھنا چاہتا ہوں جہاں وہ واقعہ پیش آیا تھا !"
کچھ دیر بعد فریدی کی لکن کمپاؤنڈ سے نکل رہی تھی۔
’’یہ پروفیسر، میری سمجھ میں نہیں آسکا حمید بولا۔ شوہروں سے زیادہ بیویوں کو مجھنے کی کوشش کرنی چاہئے ! فریدی بولا۔
" تب پھر یہ معاملہ آپ سے نہیں سنبھلے گا!‘‘
" کیوں...؟"
’’ممکن ہے ، آپ شوہروں کے متعلق کچھ جانتے ہوں لیکن بیویوں کے متعلق....!‘‘
میں دونوں کے متعلق کچھ نہیں جانتا !"
’’ حالانکہ یہ صرف شوہر اور بیوی کا کیس معلوم ہوتا ہے!‘‘
ممکن ہے! ‘‘فریدی نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔
کار شہری آبادی کو پیچھے چھوڑنے لگی۔ وہ جھریالی کی طرف جارہے تھے اور حمید کا ذہن سلیمہ میں الجھا ہوا تھا۔
وہ پُر اسرار عورت.... شیطان کی محبوبہ... اُس کے مقابلے میں وہ آدمی اُسے بے وقعت معلوم ہو رہے تھے جو اُسے اُٹھا کر لے گئے تھے۔
کچھ دیر بعد فریدی نے کہا۔ ’’وہ رپورٹ درج کرانے کی دھمکی دے کر گیا ہے!‘‘
میں دھمکیوں سے نہیں ڈرتا۔ میرا بیان پہلے ہی سے تیار ہے۔ میں نے اُسے جیمس اسٹریٹ پر اس کے کہنے پر اُتار دیا تھا !"
’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اچانک خود ظا ہر ہو کر کوئی نئی کہانی سنادے تو تم کہاں پائے جاؤ گے!‘‘
میں نہیں سمجھا ؟‘‘"
اگر وہ کہ دے کہ اس اغوا میں تمہارا ہی ہاتھ تھا تو ؟‘‘
’’ اگر وہ یہ کہ دے تو مجھے ساری دنیا کی حسین عورتوں کو گولی مار دینی پڑے گی۔ نہیں ، وہ ایک مظلوم عورت ہے۔ ایک بوڑھے کی نوجوان بیوی اور بیرونی عشاق کی زبر دستیوں کا شکار!"
تم اس پیشے سے علیحدگی اختیار کر کے کوئی اور دھندہ دیکھو تو بہتر ہے!‘‘"
لیجئے ! حمید چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا ۔ " ہم کچھ آگے بڑھ آئے ہیں!‘‘
یاد داشت دھوکا تو نہیں دے رہی ہے؟"
نہیں، ہم تقریبا دو سو گز آگے آگئے ہیں!‘‘ ’’
کا چکی ررُک چکی تھی ۔ وہ دونوں اتر گئے ۔
’’ ہاں ، یہ جگہ ایسے کاموں کے لئے بے حد مناسب ہوتی ہے ! ‘‘فریدی نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
پھر وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں حمید کو قمع تجربے سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ حمید نے وہ سمت بتائی جدھر وہ لوگ سلیمہ کو لے کر گئے تھے۔
فریدی نشیب میں اتر گیا لیکن حید او پر سڑک ہی پر کھڑا رہا۔ فریدی چاروں طرف دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ کھیتوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ہوا تیز تھی اور جوار کے کھیتوں کی کھر کھراہٹ سے فضا گونج رہی تھی ۔ حمید نے فریدی کو زمین سے کوئی چیز اُٹھاتے ہوئے دیکھا ... وہ کھیتوں میں پہنچ گیا تھا۔ شاید وہ کپڑے کا ٹکڑا تھا جو فریدی نے جوار کے پودوں کے درمیان سے کھینچ کر نکالا تھا۔
حمید جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔ فریدی نے بھی اسے اپنے پاس نہیں بلایا تھا۔ اچانک حمید کو بائیں جانب والے نشیب میں کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی اور وہ اُدھر جھپٹا لیکن دوسرے ہی لمحے اگر وہ خود کو سڑک پر نہ گرا دیتا تو کھوپڑی صاف ہو گئی تھی۔
دوسری طرف کے نشیب میں کئی آدمی تھے اور اُن میں سے ایک نے فائر کر دیا تھا۔ حمید نے بھی ریوالور نکال کر ایک ہوائی فائر کیا کیونکہ وہ لوگ ابھی نشیب ہی میں تھے۔ فریدی شاید پہلے ہی فائر پر دوڑ پڑا تھا۔ وہ بھی حمید ہی کی طرف سڑک پر گر کر دوسرے کنارے کی طرف رینگنے لگا۔
ہوشیاری سے ....!‘‘وہ بڑبڑایا۔’’ وہ لوگ یقینی طور پر کھیتوں میں جا گھسے ہوں گے ۔ کسی درخت کے تنے کی آرلینے کی کوشش کرو۔ یہی مناسب ہے!‘‘
اگر ادھر سے بھی حملہ ہوا تو ....؟‘‘ حمید نے دوسری طرف اشارہ کیا۔
ٹھیک ہے ! ‘‘فریدی بولا ۔ " تم اُدھر جاؤ، میں ادھر دیکھتا ہوں!"
سڑک کے دونوں کناروں پر دو رویہ بڑے بڑے تناور درخت تھے ۔ دونوں درختوں کے تنوں کی اوٹ میں ہو گئے لیکن وہ اب بھی سینے کے بل ہی زمین پر پڑے ہوئے تھے اور یہاں سے وہ کھیتوں کو بخوبی نظر میں رکھ سکتے تھے ۔ ساتھ ہی وہ سڑک کی بھی نگرانی کر رہے تھے ۔ فریدی نے کھیتوں کی طرف دو فائر کئے ۔ اُدھر سے بھی جواب میں فائر ہوئے ۔
تقریبًا پندرہ منٹ تک دونوں طرف سے فائر ہوتے رہے پھر سناٹا چھا گیا۔
’’ ارے، یہ دعوت ختم ہوئی یا نہیں ؟ ‘‘حمید کر رہا۔ ’’سڑک چھاتی سے چمٹی جارہی ہے!“
’’گاڑی کی طرف جاؤ! ‘‘فریدی نے کہا۔
’’ اسی طرح لیٹے لیٹے....؟‘‘
”ہاں....!‘‘
ارے باپ رے!‘‘
حمید کسی نہ کسی طرح گاڑی تک پہنچا اور اسے اسٹارٹ کر کے وہاں لے آیا جہاں فریدی درخت کے تنے کی اوت میں پڑا ہوا تھا۔ وہ بھی کار میں آجینا اور کار چل پڑی۔
اب...؟‘‘ حمید نے سوالیہ انداز میں کہا اور خاموش ہو گیا۔
تو یہ عورت خطر ناک آدمیوں کے ہاتھوں میں پڑگئی ہے... !" فریدی بولا۔
اور شاید وہ لوگ کھیتوں ہی میں زندگی بسر کرتے ہیں !‘‘حمید نے کہا۔
عورت...!‘‘ فریدی نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔
ہا ئیں ...ہائیں یہ کیا ....آپ کو نمونیہ ہو جائے گا!‘‘
’’میں تمہیں سینکڑوں بار سمجھا چکا ہوں کہ عورت کا چکر بُرا ہے!‘‘
واقعی بُرا ہے۔ اگر اُسی عورت نے جنم نہ دیا ہوتا تو آج جلتی سڑکوں پر سینے کے بلِ نہ پڑے رہنا پڑتا مگر آپ نے اس فائرنگ کے متعلق اظہار خیال نہیں کیا !"
’’ وہ پاگل پن کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے وہ اس عورت سے زیادہ تم میں دلچسپی لے رہے ہیں
" مجھ میں کیوں ؟"
پتہ نہیں ، ورنہ اس طرح فائرنگ کر کے بھاگ جانے کا کیا مقصد ہو سکتا تھا !"
" مگر اُن کے خلاف آپ کیا کریں گے؟‘‘
"! تم شاید یہ چاہتے تھے کہ میں کھیتوں میں جا گھستا "
"! میرا دل تو سیکی چاہتا تھا "
ایسے افعال کا دوسرا نام خود کشی ہے!‘‘
6
تین دن سے سلیمہ کی تلاش اپنی پیانے پر جاری تھی لیکن اُس کا سراغ ابھی تک نہیں ملا تھا۔ پروفیسر نے با قاعدہ طور پر اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرادی تھی ۔
جس میں کیپٹن حمید کا نام واضح طور پر لیا گیا تھا۔ فریدی نے ان کھیتوں کو چھنوا ڈالا لیکن حملہ آوروں کا پتہ نہیں چل سکا ۔ یہ تمید کے علاوہ اور کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کھیتوں میں کے تلاش کیا گیا تھا۔
کیونکہ حمید ابھی تک اپنے پچھلے بیان ہی پر قائم تھا کہ اس نے سلیمہ کو نیس اسٹریٹ پر اُتار دیا تھا۔ فریدی کی دوڑ دونوں طرف جاری تھی۔ اگر صبح تار جام میں ہوتی تو شام شہر میں ۔ حمید الگ دن بھر سر گرداں رہتا۔ کیونکہ اب پروفیسر شوخ نے اُس پر گرجنے برسنے کے بجائے رونا اور گڑگڑانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی دانست میں و ہ سلیمہ سے بے حد محبت کرتا تھا۔
" ’’میں اُس کے بغیر مر جاؤں گا کیپٹن ! ‘‘
وہ حمید سے کہہ رہا تھا۔
’’ تو آخر اب کتنے دن زندہ رہو گے ۔ یہ ہی عمر کافی ہوئی ۔ ہو سکتا ہے سلیمہ کی گمشدگی ہی تمہاری موت کا بہانہ بن جائے!‘‘
’’تم سنگدل ہو!" بوڑھے پروفیسر نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔
اتنے میں اُس کا بھتیجا داؤ د آ گیا جو پہیوں والی کرسی پر بیٹا ہوا تھا۔ اُس کے ایک پیر پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ حمید نے آج اُسے پہلی بار دیکھا تھا۔
داؤد اچھے ہاتھ پیروں کا ایک لمبائر لگا نو جوان تھا ۔ دل کا بھی مضبوط نظر آتا تھا کیونکہ تمہید کو اس کے چہرے پر اضمحلال نظر نہیں آیا تھا۔ حالانکہ اس کی ایک ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ اُسے تو بستر سے ملنا بھی نہیں چاہئے تھا مگر وہ پہیوں والی کرسی پر بیٹھا، عمارت میں گھومتا پھر رہا تھا۔
" آپ کی تعریف، انکل !‘‘اُس نے حمید کی طرف دیکھتے ہوئے پروفیسر سے پوچھا۔
’’ محکمہ سراغ رسانی کے کیپٹن حمید!"
’’اوہ ، تو آپ ہی ہیں " داؤد نے حمید کو اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے کہا۔
حمید کچھ نہ بولا ۔ وہ داؤد کو ٹو لنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
" کیونکہ جناب ! آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا ؟‘‘ اس نے تلخ لہجے میں پوچھا۔
جب تک خدا چاہے گا!‘‘ ’’
’’یا آپ چاہیں گے؟"
" آپ مجھ پر اس قسم کا کوئی الزام نہیں رکھ سکتے، مسٹر داؤد کوئی بات زبان سے نکالنے سے پہلے اس پر غور کر لیا کیجئے!‘‘
داؤ دا بے کار باتیں مت کروا پر و فیسر اس کی طرف مڑ کر بولا ۔
’’ بس کیا بتاؤں کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوں، ورنہ ایک ایک سے سمجھ لیتا!‘‘ داؤد نے غصیلے لہجے میں کہا۔
" کیا اشارہ میری طرف ہے؟ ‘‘حمید کو بھی غصہ آگیا ۔ " اچھی بات ہے، میں آپ کے صحت یاب ہونے کا انتظار کروں گا!‘‘
داود خدا کے لئے...!‘‘ پروفیسر ہاتھ اُٹھا کر بولا ۔ " جاؤ تم آرام کرو!"
داؤد نے کرسی موڑی اور پہیوں کو گھماتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
" تم کچھ خیال نہ کرنا کیپٹن! "پروفیسر نے حمید سے کہا۔ یہ لڑکا بہت اکھڑ ہے!‘‘
میں اکٹھر ترین ہوں!‘‘
....!‘ ’’ کیپٹن ، پلیز
حمید چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔ " آخر تم کسی کے خلاف شبہ کیوں نہیں ظاہر کرتے ؟
اُس کے انداز سے صاف ظاہر اور ہا تھا جیسے وہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’ آؤ، میرے ساتھ آ پر وفیسر اس کا ہاتھ پکڑ کر منظر ہانہ انداز میں ہوا۔ وہ اُسے ایک طرف لے جا رہا تھا ....پھر انہوں نے بالائی منزل کے زینے طے کیے۔ اوپر پہنچ کر پروفیسر اُسے ایک کمرے میں لے گیا ....پھر دروازہ بند کر دینے کے بعد وہ حید کی طرف مڑا ۔ شبہ ظاہر کر دوں ؟ اس نے آہستہ سے کہا۔
یقینًا اس کے بغیر کام نہیں چلے گا!‘‘ "
" مجھے داؤد پر شبہ ہے !" پر و فیسر نے بہت آہستہ سے کہا۔
’’ کمال ہے۔ کل تک آپ کو مجھ پر شبہ تھا !"
’’شبے کی وجہ ہے کیپٹن !دا ود بے ایمان اور غاصب ہے۔ میں نظریں پہچانتا ہوں ۔ وہ سلمہ کو اُن نظروں سے نہیں دیکھا تھا، جن نظروں سے اُسے پانی کو دیکھنا چاہئے!‘‘
ہو سکتا ہے حمید نے سر ہلا کر کہا۔’’ لیکن وہ تو معذور ہے!‘‘
مجھے تو اس پر بھی شبہ ہے!‘‘
کیوں...؟‘‘"
میں اُسے ڈریسنگ ہو جانے کے بعد ہی دیکھ سکا تھا اور میری عدم موجودگی میں پلاسٹر بھی چڑھا دیا گیا تھا ۔
جب وہ گرا ہوگا تو کوئی نہ کوئی عمارت میں ضرور موجود رہا ہوگا ؟" تین نوکر تھے لیکن کسی نے اُسے گرتے نہیں دیکھا تھا۔
وہ صرف اُس کی چیخی سن کر دوڑے تھے ۔ وہ زمینوں کے نیچے پڑا تڑپ رہا تھا ۔حالانکہ اسے بے ہوش ہو جانا چاہئے تھا ۔
پنڈلی کی ہڈی ٹوٹی تھی کیپٹن !مذاق نہیں ہے۔
میں نے بڑے بڑے پہلوانوں کو بے ہوش ہوتے دیکھا ہے، داؤد کی کیا حقیقت ہے۔ آپ نے ابھی اُسے دیکھا تو تھا ۔ کیا اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسم کے کسی حصے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے؟"
’’یہ تو کوئی بات نہیں۔ ایسے بہتیرے آدمی میری نظر سے گزرے ہیں جو سینے پر گولی کھا کر اُس وقت تک مسکراتے رہے جب تک کہ اُن کا دم نہیں نکل گیا!‘‘
آپ نے شبہ ظاہر کرنے کے لئے کیاتھا !‘‘پروفیسر نے نا خوشگوار لہجے میں کہا۔ " میں نے ظاہر کردیا۔ اب دیکھنا ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟‘‘
حمید کسی سوچ میں پڑ گیا۔
کیوں، آپ کیا سوچنے لگئے ؟ ‘‘پروفیسر نے اسے ٹوکا۔
’’کچھ نہیں ، داؤد کے متعلق ہی سوچ رہا ہوں ۔ آپ صرف نظریں ہی پہنچاتے ہیں یا آپ کی نظروں سے کوئی قابلِ اعتراض بات بھی گزری ہے؟‘‘
" بس، حد ہوگئی ۔ اب میں اور زیادہ ذلیل نہیں ہونا چاہتا !" پروفیسر دروازے کی طرف بڑھا۔
ٹھہرو، پروفیسر.. حمید ہاتھ اُٹھا کر بولا۔
کیا ہے؟ ‘‘پروفیسر اس کی طرف مُڑے بغیر بولا ۔
مجھے اس ڈاکٹر کا نام اور پتہ چاہئے جس نے داؤد کو دیکھا تھا !‘‘"
ڈاکٹر زیدی ....پارک اسٹریٹ وہ بھی کوئی اچھا آدمی نہیں ہے !" پروفیسر نے حمید کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔ " صورت ہی سے اوباش معلوم ہوتا ہے!‘‘
اچھا، میں اسے چیک کروں گا !" حمید نے کہا اور پھر وہاں سے چلا آیا۔
وہ پروفیسر کے شبے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ خود اس نے بھی داؤد کو دیکھا تھا اور اُس کے متعلق کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی تھی۔
اُس کی موٹر سائیکل پارک اسٹریٹ میں داخل ہوئی اور پھر ڈاکٹر زیدی کے مطلب کے سامنے رُک گئی ۔ اندر ڈاکٹر کی میز پر اسے جو شخص نظر آیا، اسے حمید شہر کی اچھی تفریح گاہوں میں دیکھ چکا تھا اور وہ اُسے پسند نہیں کرتا تھا۔
اُس کا نام آسے آج ہی معلوم ہوا تھا۔ پہلے وہ سمجھا کرتا تھا کہ وہ شہر کا کوئی او باش رئیس ہے۔
دہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے کس طرح چیک کرے کہ اچانک اُس کی نظر دوسری طرف کے ایک ریستوران کی کھڑکی کی جانب اٹھ گئی اور اس نے وہاں جو کچھ دیکھا، وہ اس کے لئے کافی سنسنی خیز تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ اُس نے فریدی کی آنکھوں میں بھی حیرت دیکھی۔ اس نے موٹر سائیکل فٹ پاتھ سے لگا کر کھڑی کی اور ریستوران میں گھستا چلا گیا ۔ فرید ی میز پر تنہا ہی تھا۔
کیوں ؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔ حمید بیٹھ چکا تھا۔
" آپ خفا کیوں ہورہے ہیں؟ کیا میں کوئی لڑکی ہوں ؟ ‘‘حمید نے کہا۔
’’ اُس سے بھی بدتر !‘‘فریدی نے برا سامنہ بنایا۔
میں ڈاکٹر زیدی کو ایک معاملے میں چیک کرنا چاہتا ہوں!‘‘"
کس معاملے میں؟" فریدی آگے جھک آیا۔
اُس نے داؤد کے ٹوٹے ہوئے پیر پر پلاسٹر چڑھایاتھا!‘‘ ’’
پھر...!‘‘ ’’
مجھے شبہ ہے کہ داؤد کا پیر سرے سے لوٹا ہی نہیں تھا!‘‘ ’’
آخر کس بنا پر ؟‘‘
خود پروفیسر نے یہ شبہ ظاہر کیا تھا!‘‘ ’’
خوب ... اس کی کہانی کیا ہے؟‘‘"
پروفیسر نے جو کچھ بھی کہا تھا، حمید نے و ہرا دیا۔
فریدی تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر بولا ۔ یہ چیز بھی دلچسپ ہے!‘‘
آپ یہاں کیوں نظر آرہے ہیں ؟“
"تمہارا منتضر تھا ! فریدی مسکرایا۔ " مجھے فرشتوں سے اطلاع ملی تھی کہ تم اس وقت ادھر ہی آؤ گے!"
’’سراغ رسانی سے عشق حقیقی تک ....!‘‘ حمید بڑبڑایا۔ عشق مجازی اپنے حصے میں آیا ہے۔ خیر میں آپ کو مجبور نہیں کروں گا کہ آپ یہاں اپنی موجودگی کی وجہ بتائیے ! ‘‘
’’لو بھئی، میں جارہا ہوں لیکن زیدی سے کسی قسم کی بھی گفت و شنید مت کرنا۔ صرف اس پر نظر رکھو، سائے کی طرح اُس کا تعاقب کرو۔ اس کے خلاف نہ ہوا فریدی نے کہا اور اُٹھ کر ریستوران سے نکل گیا۔ حمید بیٹھا پلکیں جھپکا تا رہ گیا۔
اُسے وہاں ڈھائی بجے تک بیٹھنا پڑا اور جب ڈاکٹر زیدی اپنی کار میں بیٹھ چکا تو وہ بھی ریستوران سے نکلا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس کی کار کا تعاقب کر رہا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہا تھا کہ بڑے بھنے ۔ اسے صرف تعاقب کرنے سے اختلاج ہونے لگتا تھا اور اس وقت تو اختلاج کے علاوہ فریدی کے رویے سے پیدا ہو جائے والی الجھن بھی تھی ۔ آخر وہ ڈاکٹر زیدی تک کیسے پہنچا؟ جبکہ اُس نے نہ تو داؤ کو دیکھا اور نہ ہی پروفیسر سے کوئی بات ہوئی تھی۔
کا رشہر کی مختلف سڑکوں پر دوڑتی رہی اور حمید جھک مارتا رہا۔ اُسے توقع تھی کہ ڈاکٹر زیدی، مطلب سے اُٹھ کر اپنی قیام گاہ پر جائے گا اور اس تعاقب سے جلد ہی نجات مل جائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ وہ اس کے بجائے ہائی سرکل نائٹ کلب میں جا گھسا۔
ڈائننگ ہال میں برائے نام آدمی تھے۔ ڈاکٹر زیدی نے لنچ طلب کیا تھا۔ اب تو حمید کو بیٹھنا ہی تھا۔ اسے بھی لیج ہی طلب کرنا پڑا بلکہ وہ تو سوچ رہا تھا کہ شاید رات کا کھانا بھی نہیں کھانا پڑے۔
ہال کا ماحول انتہائی خشک تا کیونکہ کہیں بھی کوئی ایسا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا جس دیکھ کر حید دن بھر کی ذہنی تھکن دور کر سکتا ۔ وہ خاموشی سے نوالے حلق سے اُتارتا رہا۔
’’ ڈاکڑزیدی بھی کچھ تھکا تھکا سانظر آرہا تھا۔ ایک آدھ بار اس نے حمید کی طرف بھی دیکھا مگر بالکل اسی انداز میں جیسے ہال کے دوسرے لوگ، ایک دوسرے کو بے تعلقی سے دیکھ لیتے تھے۔
لنچ ختم کرنے کے بعد ڈاکٹر زیدی لاؤنج میں چلا گیا لیکن حمید نے اُٹھنا مناسب نہیں کیا۔ وہ چونکہ اسے دیکھے چکا تھا اس لئے احتیاط لادی تھی۔ اگر اس اخوا میں جیتا اس کا ہاتھ تھا تو حمید کو سر پر مسلط دیکھ کر اسے شہر بھی ہو سکتا تھا۔
وہ اُٹھ کر ٹیچر کے کمرے میں گیا لیکن وہ بھی موجود نہ تھا۔ اس کمرے کی دوسری طرف ایک کمرہ اور تھا جہاں نیجر آرام کیا کرتا تھا۔
حمید نے وہاں جھانکا لیکن وہ بھی خالی تھا ۔ خالی مسیری دیکھ کر حمید انگڑائیاں لینے لگا۔ وہ بہت زیادہ جھک گیا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ جوتوں سمیت بھی اس مسہری پر سوتا ہوا پایا گیا تو میجر کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
دو اطمینان سے جالینا۔ سونے کا ارادہ نہیں تھا۔ وہ تو صرف مکن دور کرنا چاہتا تھا اور یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر میجر آ گیا تو کچھ دیر اسے بھی بور کرے گا۔
وفتًہ اسے منیجر کے آفس میں قدموں کی چاپ سنائی دی لیکن وہ چپ چاپ لیٹا رہا پھر ایسی آواز آئی جیسے فون پر نمبر ڈائل کئے جارہے ہوں ابھی کیپٹن حمید یہاں دکھائی دیا تھا میں ہائی سرکل سے بول رہا ہوں میں نہیں کہ سکتا کہ وہ میرا تعاقب کرتا ہوا یہاں تک آیا تھا یا پہلے ہی سے موجود تھا۔ خیر دیکھو، یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے میں یہاں سے جارہا ہوں !" پھر ریسیور رکھنے کی آواز آئی اور فون کرنے والے کی واپسی سے حمید لاعلم نہیں رہا۔ وہ جاچکا تھا۔
حمید نے ایک طویل سانس لی۔ اُس نے ڈاکٹر زیدی کی آواز صاف پیچان لی تھی۔ رہے ہے شبہات بھی یقین میں تبدیل ہو گئے ۔ وہ چاپ چاپ لیٹا رہا۔ ڈاکٹر زیدی ہوشیار ہو گیا تھا۔ لہذا اب اس اسٹیج پر اُس سے دور رہتا ہی بہتر تھا۔
تھوڑی دیر بعد میجر نے دروازے کا پردہ ہٹایا اور تحمید کو دیکھ کر تیر رہ گیا گو کہ حمید اُس سے انتہائی درجے بے تکلف تھا ...لیکن اس طرح اُس کے کمرے میں آنے کا پہلا اتفاق تھا۔
اس وقت مجھے کامل رشید کا ایک شعر یاد آ رہا ہے! حمید نے سر اُٹھا کر کہا۔ " آؤ آؤ میری جان! ایسا شعر ہے کہ طبیعت پھڑک اٹھے گی: ’’مجھے کو سکتہ سا، اُن کو حیرت
آئینہ بن گئی ہے، یک جائی‘‘
منیجر سر پیٹنے لگا۔ ’’واہ وا ...کیا شعر ہے ...ہے ہے ...آئینہ بن گئی ہے یکجائی ...حمید صاحب ! خدا آپ کا بھلا کرے ....ساری کوفت دور ہو گئی ....لیٹے رہئے ....لیٹے رہے!‘‘
کس کوفت میں جتلا تھے؟‘‘
کیا عرض کروں جناب !شریف آدمیوں کو زندہ ہی نہ رہنا چاہئے !"
" کیا ہوا؟ مجھے بتاؤ ...کسی لڑکی نے پریشان کیا ہے؟‘‘
لڑکی ...!'' منیجر نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا ۔ ’’نہیں، جناب امیں کلب کے بعض مستقل ممبروں سے تنگ آ گیا ہوں!‘‘
اُن میں یہ خاکسار تو شامل نہیں ؟‘‘
نہیں ، جناب ! آپ پر تو پیار بھی آتا ہے !‘‘منیجر مسکرایا ۔ " لیکن اُن لوگوں پر صرف قصہ آتا ہے!"
" آخر بات کیا ہے؟ کیا انہوں نے تمہاری محبوباؤں کو چھیڑ نا شروع کر دیا ہے؟"
’’نہیں بلکہ ....وہ کلب کی ریپوٹیشن پر یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اب مثال کے طور پر ڈاکٹر زیدی ہی کو لیجئے !"
حمید سنبھل کر بیٹھ گیا لیکن میجر نے اُس کی طرف توجہ نہیں دی۔ اُس نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ حضرت ایسے آدمیوں کو اپنے ساتھ لاتے ہیں جن کی محبت کوئی شریف آدمی پسند نہیں کرتا !"
وہ کیسے آدمی ہوتے ہیں؟"
چھٹے ہوئے بدمعاش لفنگے ...جنہیں آپ منہ لگانا بھی پسند نہیں کر سکتے!‘‘ ’’
کیا تم اُنہیں پہچانتے ہو؟‘‘"
کیوں نہیں ...ان میں سے ایک اسمگلر ہے۔ کئی بار بحری پولیس کی گولیوں سے زخمی ہو چکا ہے... مگر چونکہ اُسے بڑے آدمیوں کی سر پرستی حاصل ہے اس لئے ہمیشہ آزاد ہو جاتا ہے!‘‘
کون ہے ، نام بتاؤ؟‘‘"
لوگ پہلے اُسے راجو کہ کر پکارتے تھے... مگر اب چند برسوں سے وہ الفریڈ راج کہلانے لگا ہے!"
اور اچھا، وہ جو پر ٹرام روڈ پر رہتا ہے!‘‘"
جی ہاں.... وہی وہی!‘‘ ’’
تمہیں حق حاصل ہے کہ تم ڈاکٹر زیدی کو کلب کی رکنیت سے خارج کردو!‘‘"
مگر پھر میر اٹھکانہ کہاں ہوگا؟ میں غنڈوں سے بہت ڈرتا ہوں ... غنڈ وں سے نہیں بلکہ بے عزتی سے! "
’’کس کی مجال ہے کہ تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے ...!"حمید بولا۔
آپ کی ذات سے یہی توقع ہے۔ آپ سے زیادہ میرا کون ہمدرد ہوگا!‘‘ "
مگر ٹھہروں ....چند دن اور ٹھہر جاؤ۔ اپنی زبان بالکل بند رکھو ...میں ایک ضروری کام سے فرصت پاتے ہی اُن لوگوں سے نمٹ لوں گا۔ جب تک میں مصروف ہوں، طرح دیتے رہو!‘‘
بہت بہتر جناب! آپ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کروں گا۔ مجھے یقین ہے اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ مجھے کن بڑے آدمیوں کی حمایت حاصل ہے تو وہ اِدھر کا رُخ ہی نہیں کریں گے! "
کیا ڈاکٹر زیدی اس وقت بھی موجود ہے؟‘‘"
" ’’کچھ دیر پہلے تھا ۔۔ اب نہیں ہے ۔ منیجر نے برا سامنہ بنا کر کہا۔
’’ اکژر اُس کے ساتھ لڑکیاں بھی ہوتی ہوں گی ؟"
’’ ہوتی ہیں ...وہ بھی اس معاملے میں آپ ہی کی طرح خوش قسمت ہے کپتان صاحب ! ایک بار میں نے اس کے ساتھ ایک اتنی حسین لڑکی دیکھی تھی کہ اُف.... شاید میں اُسے مرتے دم تک نہ بھلا سکوں ۔ اُس کے اوپری ہونٹ کے گوشے پر دو تل قیامت تھا کہ بقول شاعر...!‘‘
حمید کو اچھی طرح یاد نہیں کہ منیجر نے کون سا شعر پڑھا تھا کیونکہ اُس نے اس حسین عورت کا جو خلیہ بتایا تھا، وہ بیگم شوخ کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہو سکتا تھا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں وہ شعر کی طرف کیا دھیان دیتا۔
7
حمید نے فون پر فریدی کو ان حالات کی اطلاع دینی چاہی لیکن وہ گھر پر نہیں ملا۔ بڑی مشکل سے اس کا سراغ ملا۔ وہ پر ٹرام روڈ کی پولیس چوکی پر موجود تھا۔
سارے حالات سننے کے بعد بولا ۔ " شکر یہ حمید ا تم نے بڑا کام کیا۔ یہ راجو، نیا آدمی لسٹ پر آیا ہے۔ تم آج کل بہت شاندار جا رہے ہو۔ عورتوں کے لئے تم نے ہمیشہ شاندار کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔ اچھا، اب تم گھر واپس جاؤ۔ شام کو وہیں ملاقات ہو گی مگر شام تک فریدی گھر نہیں آیا ۔حمید بری طرح الجھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ با ہر جائے یا فریدی کا انتظاری کرتا رہے۔
اس نے اسی انداز میں اُسے گھر جانے کی ہدایت کی تھی جیسے اپنی آمد پر اس کی موجودگی ضروری سمجھتا ہو۔ حمید بینا جھک ماررہا تھا کہ قاسم کی کال آگئی۔
کیا بات ہے؟" حمید نے پوچھا۔
بات نہیں ، بات کا باپ ہے !‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی ۔ " تم سالے! اس کے بھائی بنے ہو۔ وہ مجھے پر غراتی ہے!"
’’چپلیں لگائے گی تمہارے... ابھی کیا ہے!‘‘
ٹا نگیں چیر کر پھینک دوں گا !"
اور میں تمہیں جیل میں سڑا دوں گا!‘‘"
ابے جان جا ڈیل میں ٹھڑا دیں گے!‘‘ غالباً دوسری طرف سے قاسم نے اُس کا منہ چڑانے کی کوشش
کی تھی۔
" تم چاہتے کیا ہو؟"
تمہاری موت!‘‘ "
یہ ممکن ہے۔ میں تم سے پہلے نہیں مروں گا۔ اور نہ تمہاری لاش کون گھسٹےگا ؟
گھسیٹ کر دیکھو، کیا تماشا دکھاتا ہوں!‘‘ ’’
تم آج رات کو مر جاؤ گے!‘‘
اے ہٹ....!" قاسم نے خوفزدہ آواز میں کہا۔
’’یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ مسز شوخ کی پیشین گوئی ہے!‘‘
ارے باپ رے ...نہیں، الاً قسم !‘‘"
جب دو لکھنے لگے تو مجھے فون کر دینا ...کیا تمہیں اپنے سرکا پچھلا حصہ کچھ بھاری بھاری سا لگ رہا ہے؟ دوسری طرف خاموشی رہی پھر یک بہ یک قاسم کی آواز آئی ۔ " ہاں بھاری لغ رہا ہے!‘‘
خدا تم پر رحم کرے! " حمید نے درد ناک آواز میں کہا۔
’’قیوں...قیوں...؟‘‘
اُس نے یہی علامت بتائی تھی!‘‘ "
اے حمید سالے ! ‘‘قاسم حلق پھاڑ کر دہاڑا ۔ " اگر میں مر گیا تو تمہیں گولی ماردوں گا !"
’’ مجھے اس پر بھی خوشی ہوگی کیونکہ تمہارے مرنے سے میری بہن بیوہ ہو جائے گی اور پھر کسی اچھے آدمی سے اُس کی شادی ہو جائے گی!‘‘
چپ را ہو ...!" قاسم کی دہاڑ نے آخر کار فون کی لائن خراب کر دی...مگر غنیمت تھا کہ فریدی کی کوٹھی میں تین فون تھے اور ہر ایک کی لائن الگ تھی۔ نمبر بھی مختلف تھے ۔ تھوڑی دیر بعد لیبار بیٹری والے فون کی گھنٹی کی آواز آئی اور حمید دوڑتا ہوا اور پر پہنچ گیا۔
کال فریدی ہی کی تھی۔
کیا بات ہے، خواب گاہ والے فون کی لائن خراب ہے کیا ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
شاید خراب ہی ہے!‘‘
ایک ملاح کے میک اَپ میں تمہیں سونا گھاٹ پہنچتا ہے!‘‘
لیکن پھر آپ ، میری ملاحیوں پر اعتراض نہ کیجئے گا !‘‘
’’سنجیدگی اختیار کر و!‘‘فریدی نے درشت لہجے میں کہا۔
کر لی ...لیکن مقصد کیا ہے؟‘‘"
مقصد وہیں بتاؤں گا!‘‘
مگر سونا گھاٹ پر کس جگہ ؟‘‘
جہاں ماہی گیروں کی کشتیاں رہتی ہیں!‘‘ "
اچھی بات ہے ، میں سمجھ گیا ؟‘‘"
کیا سمجھ گئے ؟‘‘"
الفریڈ راج یا راجو کا چکر ہے؟‘‘"
ہو سکتا ہے، ایسا ہی ہو ۔ تمہیں ٹھیک آٹھ بجے وہاں پہنچی جانا چاہئے ۔ تمہارے سر پر سرخ رنگ کا رومال ہو گا ؟‘‘
پہنچ جاؤں گا "
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا ۔ مسز شوخ کا اغوا اُس کی سمجھ سے باہر ہوتا جارہا تھا۔
اس وقت چھ بجے تھے۔ اُس نے میک اپ کیا اور اندھیرا گہرا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اُس نے ایک ریوالور اور ساتھ راؤنڈز اپنے ساتھ رکھنے کا بھی انتظام کر لیا تھا۔
حمید ٹھیک اس حصے میں رک گیا جہاں کچھ دور پانی میں بے شمار بادبانی کشتیاں کھڑی ہوئی تھیں کچھ دیر بعد جہاز راں آیا کرتے تھے اور وہ صرف نام کی بار تھی ورنہ حقیقت وہاں شراب کے بجائے کشیدنی قسم کے نشوں کا غیر قانونی بیو پار ہوتا تھا۔
چرس اور افیون کے شائق غیر ملکی جہاز رانوں کے لئے یہ بہترین جگہ تھی۔ پیر کے جگ سامنے رکھ کر دہ چرس اور کشیدنی افیون کے سگریٹ پیا کرتے تھے۔ اس طرح پولیس کی مداخلت کا خدشہ بھی باقی نہیں رہتا تھا۔
سونا گھاٹ پر زیادہ تر ماہی گیر آباد تھے۔ یہاں کچھ بڑی عمارتیں بھی تھیں جن میں کچھ ماہی گیر کمپنیوں کے دفاتر اور کولڈ اسٹوریج واقع تھے۔ ایک دو گھٹیا قسم کے ہوٹل اور بار بھی تھے ۔ شہر کے اکثر سرمائے داروں نے اپنے لئے سمر ہاؤس بھی بنوارکھے تھے۔
ایک آدمی اُس کے قریب سے کہتا ہوا گزر گیا ۔ " در یک بار، پلیز " وہ فریدی ہرگز نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر فریدی ہوتا تو چال اور آواز بدلنے کی کیا ضرورت تھی۔
ڈریک بار میں پہنچے کامشورہ دیا تھا ...لیکن یہ تھاکون ؟ الفر یڈی راجو... وہی جس کا نام سنتےہی فریج کیلئے لائے یز جوش انداز میں اُسے شاباشی دی تھی۔
حمید کا ذہن بہت تیزی سے سوچ رہا تھا۔
" تمہارا نام کیا ہے، دوست ؟ " راجو نے آگے جھک کر آہت سے پو چھا۔
’’تمہیں میرے نام سے کوئی سروکار نہ ہونا چاہئے حمید نے غصیلے لہجے میں کہا۔
گڈ...!‘‘راجو نے اُسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے سر ہلایا ...پھر چند لمہے ٹھہر کر بولا ۔ تمہیں کس نے بھیجا ہے؟"
’’میں یہاں بکواس سننے کے لئے نہیں آیا !‘‘
حمید نے اُسے گھورتے ہوئے کہا۔ " میں نے تو تم سے نہیں پر کہا کہ تم کون ہو.... یا تمہارا نام کیا ہے؟‘‘"
ویری گڈ ....!‘‘را جو مسکرا کر بولا ۔ ’’کچھ پیوگئے ؟"
’’نہیں !‘‘حمید غرایا۔ " میں صرف اسی صورت میں پیتا ہوں جب مجھے گھر پر پڑے رہنا ہو!‘‘
بہت عمدہ میں ایسا ہی آدمی چاہتا ہوں " راجو بولا ۔ " تھوڑی دیر اور ظہر و پھر ہم یہاں سے روانہ ہو جائیں گے "
حمید کچھ نہ بولا ۔ وہ بہت کچھ سمجھ چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ان میں تیسرے آدمی کا اضافہ ہو گیا۔ یہ بھی راجوری کی طرح جہاز رانوں کے سے لباس میں تھا لیکن اس کے چہرے پر گھنی داڑھی تھی۔ اس کے آتے ہی راجو اٹھ گیا۔ حمید بھی اٹھا اور یہ لوگ گھاٹ کی طرف چل پڑے۔
داؤد نے کتنا خطرہ مول لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت وہ پروفیسر کو دھوکے میں رکھ کر ہی گھر سے نکلا ہوگا۔ حمید سوچنے لگا کہ پروفیسر بھی نرا گاؤدی نہیں ہے۔ داؤد کے تعلق اُس نے پہلے ہی شبہ ظاہر کر دیا تھا لہذا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ دھوکا کھا گیا ہوگا۔ پھر کیا وہ داؤد سے ڈرتا ہے؟
کشتی کی رفتار خاصی تیز تھی۔ رات کے سڑکی غبار میں راجو کی متحرک پر چھا میں صاف نظر آرہی تھی جو کشتی کھے رہا تھا۔
تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا !‘‘واؤد نے پھر کہا۔
’’دیکھئے ...یہ ایسا آسان کام تو ہے نہیں !دیا" حمید نے راجہ کی آواز سنی۔ بہر حال ہم انتہائی جدوجہد کر رہے ہیں
اُس اسکیم کا کیا رہا؟‘‘"
اُسی اسکیم کے لئے یہ صاحب آئے ہیں !‘‘ اُس کا اشارہ حمید کی طرف تھا۔
یہ کون ہیں ؟‘‘"
میں خود بھی نہیں جانتا لیکن کام کے آدمی معلوم ہوتے ہیں!‘‘
کیا بات ہوئی ؟ داو دغرایا۔
زیدی صاحب کے بھیجے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ جو آدمی بھیجیں گے، ہر لحاظ سے کارآمد ہوگا!‘‘
اب معاملہ تقید کی سمجھ میں آگیا تھا۔ وہ سوچنے لگا شاید ان کی کسی اسکیم کا علم فریدی کو ہو گیا ہے۔ اسی لئے اس نے یہ طریقہ اختیار کیا۔ یہ کتنا خطر ناک تھا۔ اگر حمید سے نادانستگی میں ذراسی بھی لغزش ہو جاتی تو سارا کھیل بگڑ جاتا۔
ُاسے چاہئے تھا کہ صورت حال سے پہلے ہی آگاہ کر دیتا۔
اب حمید اس فکر میں پڑ گیا کہ کھیل کسی طرح بگڑنے نہ پائے ۔ اسے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔
زیدی سے تم نے وضاحت طلب نہیں کی ؟ ‘‘داؤد نے پوچھا۔
نہیں... انہوں نے مزید کچھ بتانے سے انکار کر دیا تھا!‘‘
میں اسے درست نہیں سمجھتا !‘‘ داؤد نے کہا پھر حمید کو مخاطب کر کے بولا ۔" کیوں جناب اکیا آپ اپنے متعلق کچھ نہیں بتائیں گے؟‘‘
نہیں...! " حمید کا لہجہ درشت تھا۔
پھر کام کیسے چلے گا؟"
میں کام کرنے کے لئے آیا ہوں، یہ سوچنے کے لئے نہیں کہ کام کیسے چلے گا !‘‘
’’تم کیسے آدمی ہو؟" واؤد نے غصیلے لہجے میں کہا۔
اگر زیدی صاحب کا معالمہ نہ ہوتا تو اس لیے کا مزہ چکھا دیتا حمید غرایا۔ آپ بات نہ بڑھائے جناب ! راجو نے داؤد سے کہا ۔ ہر آدمی کا طریقہ الگ ہوتا ہے۔ مجھے یہ طریقہ پسند ہے۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں، ہمیں صرف کام سے فرض رکھنی چاہئے!‘‘
داؤدخاموش ہو گیا ۔ حمید بھی کچھ نہ بولا ۔ کشتی سمندر کا پر سکون سینہ چیرتی رہی۔
راجو کے بازو بھی عمل نہیں ہوئے تھے ۔ وہ ایک مشاق قسم کا کشتی بان معلوم ہوتا تھا۔ کچھ دیر بعد کشتی کلن آلی لینڈ کے ایک ویران ساحل سے جانگی ۔ راجو نے چوار رکھ دیئے اور بکلی پر کود گیا پھر وہ دونوں بھی اُتر گئے۔ اب وہ جو ہیرے کے جس حصے میں چل رہے تھے ، وہ بالکل تاریک اور ویران تھا ، حمید کا امن مختلف قسم کے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔۔
وقعتہ راجو چلتے چلتے رک گیا۔ داؤ د بھی رُکا۔
’’ تو تم اپنے متعلق نہیں بتاؤ گے ؟ ‘‘راجو نے تفصیلی آواز میں کہا۔
راجو، حمید کی طرف بڑھا لیکن حمید نے بڑی پھرتی سے آگے بڑھ کر اس کے چہر اس ماری اور وہ دائیں بازو میں کہا۔
ٹھیک ہے !‘‘راجو نے زمین پر پڑے پڑے کہا۔
شاید میرا ساتھ غلط آدمیوں سے پڑ گیا ہے! ‘‘حمید نے اپنے لیجے میں سفا کی پیدا کرتے ہوئے کہا۔
مگر میں اس کی پروا کم کرتا ہوں تاؤ تم لوگ کون ہو؟ ور نہ صبح یہاں دو لاشیں ملیں گی "
ہم تمہارا امتحان لے رہے تھے دوست " راجو نے کہا " ریوالور جیب میں رکھ لو!" بکواس ہے ! حمید غرایا۔ " تم اب مجھے دھوکا نہیں دے سکتے " پھر تمہاری دانست میں ہم کون ہیں ؟ " راجو نے پوچھا۔
’’ پولیس...!‘‘
اس پر نہ صرف راجو نے بلکہ داؤد نے بھی قہقہہ لگایا۔
’’بس، بس ...ٹھیک ہے۔ تم ایسے ہی آدمی معلوم ہوتے ہو کہ ہر قسم کا کام انجام دے سکوا" راجو نے کہا اور اُٹھ بیٹھا۔ ریوالور رکھ لو د دوست امیں تم سے مطمئن ہوں!‘‘ !
لیکن مجھ سے معاوضے کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا !‘‘حمید بڑبڑایا۔
پہلے تم کام سن لو۔ اس کے بعد جو معاوضہ بھی مانگو گے ، دیا جائے گا !"
اُٹھو!" حمید ریوالور جیب میں رکھتا ہوا غرایا۔
’’راجو زمین سے اُٹھ گیا۔
کام کیا ہے؟ ‘حمید نے درشت ہے میں چھا۔ " میرے پاس زیادہ وقت نہیں رہتا!‘‘
کیا پھر کوئی امتحان ؟"
’’ نہیں دوست !" راجو اس کا شانہ تب قیا کرہ ہوا۔ انا کالی ہے۔ ہم تم ہی ہر طرح اتار کر سکتے ہیں !‘‘
حمید پر ان کے ساتھ چلنے لگا۔ ان دونوں کو سبق ، پینے کے بعد اس کی ذاتی اور جسمانی توانائی کا جو گئی تھی اور دوائی لا پروائی سے ان کے ساتھ چل رہا تھا جیسے کچھ دیر قبل ان سے چاند کی باتیں ہولی ہوں۔ آبادی میں آگئی کر راجو نے ایک چھوٹے سے مکان کا قفل کھولا اور وہ اندر داخل ہوئے۔
جس کمرے میں راجو نے نظیر نے کے لئے کہا وہ زیادہ بڑانہیں تھا۔ درمیان میں ایک بڑی میز تھی جس کے گرد کرسیاں پڑی ہوئی تھیں
جب وہ بیٹھ گئے تو راجو نے کہا۔ " یہ ایک آدمی کے اغوا کا مسئلہ ہے!‘‘
اسے مسئلہ مت بناؤ !‘‘حمید نے لا پروائی سے کہا۔ اغو ابھی کوئی مسئلہ ہے؟"
ہاں ! ہمارا یہ کام اب ایک وقت طلب مسئلہ بھی بن گیا ہے! " راجو بولا۔
تفصیل! "حمید نے فرش کی طرف دیکھتے ہوئے کیا۔
یہ آدمی آج کل پولیس کی حفاظت میں ہے!‘‘"
یعنی ...جیل یا حوالات میں! "حمید نے فرش سے نظر ہٹائے بغیر کہا۔
نہیں اپنے گھر پر ہے لیکن اس کے گھر کے گرد پولیس کا پہرہ ہے!‘‘ "
حمید کچھ نہ بولا۔ راجو کہتا رہا۔ وہ سادہ لباس والے ہیں اس لئے اُن کو بچانا دشوار ہوگا۔ کیوں کیا تم سے کام کر سکو گے!"
واقعی مسئلہ ہے!‘‘ حمید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا پھر سر اٹھا کر بولا ۔ " نام اور پتہ تماؤ ممکن ہے میں کا میاب ہو جاؤں!‘‘
تم بہت ہار رہے ہو شاید !"را جو مسکرایا۔
میری تو ہین نہ کرو!" حمید غرایا۔
مجھے نام اور پتہ بتاؤ ۔ تم لوگ مجھ سے واقف نہیں ورنہ اس تو ہین کا " سنو تو تم بہت جلد غصے میں آجاتے ہوا " راجو نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ نام و پتہ اور تصویر اس لفافے میں ہیں۔ کیا تم پڑھ سکتے ہو؟‘‘
اُس نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور حمید نے کہا۔ " تحریر کس زبان میں ہے !"
اردو میں!‘‘
!‘‘ پڑھ لوں گا۔ کیا اسے کھول ڈالوں ’’
ظاہر ہے کہ یہ اسی لئے دیا گیا ہے۔"
حمید نے لفافہ کھول ڈالا ۔ یہ ایک معمر آدی کی تصویر تھی۔ نام کے ایل بھٹی تھا اور پ۱/۵۲ کنکس لین حمید نے سوچا یقینا کوئی بڑا آدمی ہوگا کیونکہ لنکس لین میں معمولی حیثیت کے لوگ نہیں رہتے تھے۔
حمید نے لفافہ جب میں رکھ لیا۔ وہ دلوں اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ حمید نے میز پر کیاہواں ایک کر آگے جھکتے ہوئے کہا۔ " معاوضہ کرتا ہو گا ؟‘‘
اگر تم کل رات کو اسی وقت اسے یہاں لے آؤ تو دس ہزار لیکن اگر تم اپنے پیچھے سرکاری سراغ رسالوں کو لگا لائے تو انجام کے ذمہ دار تم خود ہو گے !"
’’اور اس کی کیا گارنٹی ہے کہ کام بخوبی انجام پا جانے کے بعد مجھے دس ہزارٹل ہی جائیں گے ؟ تم کوئی فرشتے تو ہو نہیں کہ صبر کر لو گے راجو مسکرایا ۔
صبر بھی کرلوں گا مگر اس صورت میں آس پاس کی زمین سرخ نظر آئے گی !‘‘ حمید نے لا پروائی سے کہا۔
کچھ کر کے دکھاؤ۔ تم باتیں بہت لمبی چوڑی کر لیتے ہو!‘‘دفعتًہ داؤد نے نا خوش گوار لہجے میں کہا۔
" کیا دیکھنا چاہے ہو!" حمید ایک زہریلی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔ کیا تمہاری داڑھی پر ہاتھ پھیر کر دکھاؤں مگر شاید تم اسے پسند نہ کرو!‘‘"
میں بدتمیزوں کی زبان کھینچ لیا کرتا ہوں داؤد غرایا اور حمید اپنی زبان نکال کر بیٹھ گیا۔ داؤد اُسے غصیلی نظروں سے دیکھتا رہا۔
حمید زبان اندر کر کے بولا ۔ " میں ہر وقت ہر ایک کا چیلنج قبول کرنے کو تیار رہتا ہوں!‘‘
یار تمہیں مذاق بھی گراں گزرتا ہے " راجو نے خوش مزاجی کا مظاہرہ کیا۔ داد د خاموش ببیٹھا ر ہا لیکن اس کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئی تھیں اور ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے موقع ملتے ہی وہ حمید کو کچا چہا جائے گا۔
" کیا تم میں سے کوئی وہاں موجود ہو گا ؟ " حمید نے پوچھا۔ "
ہم میں سے کسی کی موجودگی وہاں ضروری نہیں ہے ! " راجو بولا ۔
اچھی بات ہے تو اب میں چلوں !"
’’جیسی تمہاری مرضی !‘‘راجو نے ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا۔ لیکن کیا تمہیں یقین ہے کہ تم یہ کام بہ آسانی کر لو گے؟‘‘
تمہیں سادہ لباس والوں کی وجہ سے تشویش ہے !"حمید نے مسکرا کر پوچھا۔
یقینا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اگر وہ تمہارا تعاقب کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے تو کھیل ختم ہو جائے گا!‘‘
’’اس کے لئے بہترین تدبیر یہ ہے کہ کسی ایسی عمارت کا انتخاب کرو جس کے تعلق کوئی بتا نہ سکے کہ اس کے قبضے میں ہے، میں اسے وہیں لاؤں۔ تم لوگ قلمی الگ رہو۔ جب تمہیں اچھی طرح اطمینان ہو جائے جب اس عمارت میں قدم رکھو!‘‘
تجویز معقول ہے !" راجو نے داؤد کی طرف دیکھ کر کہا۔
داؤد نے صرف سر ہلا دیا۔
پھر کچھ دیر بعد راجو نے کہا ۔’’ یہی عمارت مناسب رہے گی !‘‘
’’تم جانو!‘‘ حمید نے لا پروائی سے کہا۔ ’’ مجھے جتنا بھی کرتا ہے کرڈالوں گا !‘‘
حمید اُٹھنے لگا اور راجو نے کہا ۔ ’’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ تم کچھ کھاتے پیتے نہیں ہو ؟‘‘
جو کچھ میں پیتا ہوں ، تم پلا نہیں سکو گے!‘‘ ’’
’’کیاپیتے ہو؟‘‘
خون !‘‘ حمید اپنی آنکھوں میں سفا کا نہ چمک کی پیدا کر کے بولا ۔
’’یار تم بڑے تیس مار خاں معلوم ہوتے ہو!‘‘ راجو مسکرایا۔ " مجھے حیرت ہے کہ ایک ہی شہر میں رہنے کے باوجود بھی ہم پہلی بار ملے ہیں!‘‘
تمہیں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو خر یہ اور اعلانیہ طور پر اپنے لفنگے پن سے لوگوں کو مرعوب کرنے کے شائق ہوتے ہیں!‘‘
گہرے معلوم ہوتے ہو!‘‘
اچھا اب میرے پاس وقت زیادہ نہیں ہے ! حمید نے کہا اور ان کے جواب کا انتظار کئے بغیر مکان سے نکل گیا۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا ساحل کی طرف جارہا تھا۔ ساتھ ہی اُسے اُس کی بھی فکر تھی کہ کہیں کوئی اس کا تعاقب تو نہیں کر رہا ہے۔
ساحل پر بھیٹر زیادہ تھی۔ لوگ لانچوں کے انتظار میں کھڑے ہوئے تھے ۔ آج نہ جانے کیوں لانچھیں بھی کم تھیں۔ دفعتہ حمید کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اُس کے جیب میں ہاتھ ڈال دیا ہے ۔ اس نے مڑ کر دیکھا مگر پیچھے ایک بھی ایسا آدمی نہیں نظر آیا جس پر وہ شبہ کر سکتا ۔
البتہ اُس کا ہاتھ اُسی جیب میں رنگ گیا اور انگلیاں ایک مڑے ڑے کا غذ سے ٹکرا ئیں۔ وہ اُسے ٹوٹتا رہا لیکن جیب سے باہر نہیں نکالا ۔ اس کا اضطراب بڑھتا رہا اور آخر کار اُس نے فیصلہ کیا کہ اُسے قریبی ریستوران میں جا کر اُس کا غذ کو دیکھنا چاہئے۔
ساحل پر ہی کئی ریستوران تھے ۔حمید نے ایک کی راہ لی ۔اتفاق سے اُسے ایک خالی میز بھی ایک گوشے میں مل گئی ۔یہ تفریح کرنے والوں کی واپسی کا وقت تھا لہذا ریستوران ان خالی ہوتے جارہے تھے۔حمید نے کافی کا آرڈر دے کر جیب سے کاغذنکالا جس پر تحریر تھا:
’’حمید....بہت اچھے جارہے ہو لیکن اب تم گھر نہیں واپس جاؤ گے ۔ارجن پورے
کی داس بلڈینگ کے پندرہویں فلیٹ میں تمہارا قیام ہوگا ۔یہ دوسری منزل پر ہے۔دس
بلڈنگ پانچویں گلی۔میں ہے۔ اُسے تلاش کرنے میں تمہیں کوئی دشواری نہیں پیش آئے گی۔
جس فلیٹ میں تمہیں قیام کرنا ہے وہاں ایک آدمی ہوگا ۔تم اُسے صرف میرے نام سے
آگاہ کردینا اور وہ تمہارے لئے ساری سہولیتیں بہم پہنچا دے گا۔‘‘
لکھنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا لیکن تحریر فریدی کے علاوہ وہ کسی کی نہیں ہوسکتی۔حمید کاغذ جیب میں ٹھونس کر کافی پینے لگا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆
حمید کی الجھن بڑھ گئی ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اُس ایک عورت کے لئے کیا کیا ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بھٹئی بھی اس کے عاشقوں میں سے ہو۔ کوئی ایسا عاشق جو اغوا کنندگان کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہو۔
وہ ارجن پورہ کی پانچویں گلی میں داخل ہوا۔ داس بلڈنگ کا پتہ لگانے میں دیر نہیں لگی۔ دوسری منزل پر پندرھواں فلیٹ بھی جلد ہی مل گیا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ حمید نے دستک دی۔ دروازہ فورا ہی کھل گیا۔
فریدی !‘‘ حمید نے آہستہ سے کہا۔ وہ آدمی احتراماً خفیف سا جھکا اور ایک طرف ہٹ گیا۔ حمید اندر آیا۔ وہ اس آدمی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔
اس کا لباس نچلے طبقے کے آدمیوں کا سا تھا لیکن وہ خود نچلے طبقے کا آدمی ہرگز نہیں معلوم ہوتا تھا۔ اس کا رنگ بہت صاف تھا۔ آنکھیں ہلکے سبز رنگ کی تھیں، بال گھونگھریالے جن کی رنگت گہری کھتی تھی اور پیشانی فراخ ۔ اُس کے ہاتھ بھی محنت کشوں کے سے سخت اور کھر دے نہیں تھے۔
آپ آرام سے رہئے ! ‘‘اس نے یہ جملہ اردو ہی میں کہا لیکن لہجے کی اجنبیت پکا پکار کر کہہ رہی تھی کہ وہ کوئی غیر ملکی ہے۔
شکریہ! ‘‘حمید ایک خالی چنگ پر دراز ہوتا ہوا بولا ۔ وہ بہت تھک گیا تھا۔
" کیا آپ کچھ کھائیں گے؟"
نہیں شکریہ احاجت نہیں ہے! ‘‘حمید نے اُسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا پھر بولا ۔ " اردو بولنے میں آپ کو زحمت محسوس ہوتی ہے۔ آپ اپنی ہی زبان میں گفتگو کریں تو بہتر ہے!‘‘
حمید نے سوچا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ کوئی انگریز، جرمن یا فرانسیسی ہوگا، اس کے جواب میں اُس آدمی نے کچھ کہا لیکن حمید احمقوں کی طرح منہ پھاڑ کر رہ گیا کیونکہ اُس نے جوز بان استعمال کی تھی وہ اس کے لئے بالکل نئی تھی۔
وہ آدمی مسکرایا لیکن انداز مضحکہ اڑانے کا سانہیں تھا۔
" آپ اردو ہی بولیں ‘‘حمید نے سر کھجا کر کہا۔
اگر آپ سونا چاہیں تو بستر....!‘‘ ’’
نہیں شکریہ " حمید نے کہا ۔ " میں ابھی سونا نہیں چاہتا "
’’ اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس سے پو چھے کہ تمہارا فریدی سے کیا تعلق ہے لیکن پھر کسی خیال کے تحت اس نے ایسا نہیں کیا۔
کچھ دیر بعد پھر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ اس آدمی نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔
اندر آنے والے نے اپنی کلائی کھول کر اُسے کچھ دکھایا اور وہ آدمی اتنا جھکا کہ اُس پر رکوع کا گمان ہونے لگا پھر وہ سیدھا کھڑا ہو کر ایک طرف ہٹ گیا۔ نو وارد ایک معمر آدمی تھا اور اس کا لباس بھی نچلے ہی طبقے والوں کا سا تھا۔
حمید اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
آنے والے نے کہا۔ " کیا بہت تھک گئے ہو؟‘‘"
اب حمید نے آواز سے اسے پہچانا۔ وہ فریدی تھا۔
’’نہیں کچھ ایسی زیادہ چکن تو نہیں ہے! حمید نے غصیلے لہجے میں کہا اور فریدی جینے لگا پھر بولا ۔ " اس عمارت میں جو کچھ بھی گفتگو ہوئی تھی اُس سے میں واقف ہوں۔ لہذا اس سے پہلے کی باتیں بتاؤ!‘‘!
عمارت کی گفتگو کا علم آپ کو کیسے ہوا؟"
’’وہاں کئی ڈکٹافون موجود ہیں۔ لہذا وہاں ہونے والی ہر گفتگو مجھ تک پہنچ جاتی ہے۔ تم اس کی فکر نہ کرو!" حمید نے سونا گھاٹ سے فن آئی لینڈ تک کے واقعات دہرائے اور پھر بولا ۔ " اگر مجھ سے کوئی لغزش ہو جاتی تو ....آپ کو صورت حال سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا !“
’’میں تم میں خود اعتمادی پیدا کرنا چاہتا ہوں اگر انگلی پکڑ کر چلا تا رہا تو تمہاری صلاحیتیں زنگ آلود ہو جائیں گی۔ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ اب تمہیں اسی طرح خطرات میں دھکیلتا رہوں گا!‘‘ !
" کیا اس میں بھی کوئی خطرہ تھا؟“
" کیوں نہیں! کیا تمہاری ذراسی لغزش تمہیں موت کے منہ میں نہیں دھکیل سکتی تھی ؟‘‘
’’مجھے لڑکیوں کے جھرمٹ میں دھکا دے دیجئے۔ تب البتہ پھر آپ کو وہاں سے میری لاش ہی اُٹھانی پڑے گی۔ ویسے میں کافی سخت جان ہوں اور اسے لکھ لیجیے کہ میری موت میں کسی مرد کا ہاتھ ہر گز نہیں ہو گا!‘‘
یہ بکو اس کسی دوسرے وقت پر اُٹھا رکھو۔ وہ لفافہ نکالو!‘‘
احمید نے لفافہ نکال کر اس کے سامنے ڈال دیا۔
فریدی اسے دیکھتا رہا پھر حمید کو واپس کرتا ہوا بولا ۔ کل رات تم اسے وہاں سے لے جاؤ گے! "
" کیا یہ حقیقت ہے کہ وہاں سادہ لباس والوں کا پہرہ ہے؟"
’’ہاں ....یہ حقیقت ہے! " فریدی نے کہا۔ " مگر تم اس کی نظر نہ کرو۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں پڑ جائے! "
کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر حمید بولا ۔ ’’وہ آدمی جسے سونا گھاٹ پہنچتا تھا اُس کا کیا بنا؟‘‘
وہ حراست میں ہے!‘‘
لیکن ....اگر ....شاید ڈاکٹر زیدی نے اُسے وہاں بھیجا تھا اگر اس کی وجہ سے بھانڈا پھوٹ گیا تو ؟"
"و ہ....!"فریدی مسکرایا ۔ " وہ بے چارہ بھی میرے ڈر سے روپوش ہو گیا ہے لیکن اکثر داؤد سے فون پر گفتگو کر لیتا ہے!"
" میں نہیں سمجھا ؟‘‘
’’وہ بھی میری قید میں ہے لیکن داؤد سے فون پر گفتگو کرتا رہتا ہے اور اس وقت اس کی کھوپڑی پر پستول کی نال ہوتی ہے جو کچھ اس سے کہا جاتا ہے وہی اُسے کہنا پڑتا ہے!" اده حمید اپنا سر کھجاتا ہوا بولا ۔ وہ سچ مچ شیطان ہی کی محبوبہ معلوم ہوتی ہے۔
کیونکہ یہ معاملہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا اور نا قابل فہم ہوتا جارہا ہے!"
" شیطان کی محبوبہ ! فریدی، حمید کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا مسکرایا ۔ " کیا وہ تمہیں بہت پسند ہے؟"
’’بے حد ....کیونکہ میں شیطان کا رقیب بنے میں کافی فخر محسوس کروں گا ! فریدی نے اس خیال پر رائے زنی نہیں کی۔ ویسے وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
حمید نے صاحب خانہ کی طرف دیکھا۔ وہ بھی اس گفتگو کے دوران وہیں موجود رہا تھا لیکن اس کے چہرے سے بے تعلقی ظاہر ہو رہی تھی ۔
حمید نے اشارے سے پوچھا کہ وہ کون ہے لیکن فریدی نے اپنی بائیں آنکھ دبادی - حمید سمجھ گیا کہ وہ اس کے سامنے اس کا تذکرہ نہیں چھیڑ نا چاہتا مگر حمید کو اس پر حیرت ضرور ہوئی کہ وہ اُن کی گفتگو کے دوران وہیں موجود رہا ھا۔ بہر حال اس نے اس کے معاملے میں خاموشی اختیار کرلی۔
’’ لیکن !‘‘اس نے کچھ دیر بعد سر اٹھا کر کہا۔ " آپ کو اس کا علم کیسے ہوا تھا کہ زیدی نے اُن کے لئے کوئی مددگار تیار کیا ہے؟‘‘
فن آئی لینڈ والا وہ مکان حقیقتاًان کی مشورہ گاہ ہے۔ وہ وہیں اکٹھے ہو کر اپنے مسائل پر غور کرتے ہیں!‘‘
" ’’میرے خدا !‘‘حمید نے حیرت سے کہا۔’’ وہ شیطان کی محبوبہ یہ مسائل بھی رکھتی ہے؟"
’’ لا تعداد ....!‘‘فریدی مسکرایا پھر بولا۔’’ ڈاکٹر زیدی پر عرصہ سے میری نظر تھی ۔ داؤد اور راجو تمہاری دریافت ہیں ۔
اب دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وارد ہی ان کا سرغنہ ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر ریدی کے عادہ اور کوئی اس کی اصلیت سے واقف نہیں ہے کیو نکہ وہ ان لوگوں کے سامنے میک اپ میں آتا ہے" ایک عورت کے لئے ؟ حمید پھر آنکھیں پھاڑ کر بولا ۔ ’’میرا سر چکرا رہا ہے!"
فریدی نے اُس کی بات پر دھیان دیے بغیر کہا ۔ " اُن لوگوں نے اس وقت سے تمہاری نگرانی شروع کردی ہے۔
’’نہیں!‘‘
’’ہاں.... اور غالباً تمہاری لاف و گزاف نے انہیں اس بات پر مجبور کر دیا ہے!"
’’میں جس وقت یہاں پہنچا ہوں ایک آدمی عمارت کی نگرانی کر رہا تھا۔ وہ ان ہی میں سے ایک ہے۔ میں اسے اچھی طرح پہچانتا ہوں ۔ اُس کے جانے کے بعدہی میں عمارت میں داخل ہوا تھا۔ بہر حال میرا خیال ہے کہ یہ گرانی مسٹر بھٹی کے اغوا کے بعد تک
آپ نے پہلے سے کیوں بتادی!‘‘ حمید نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
" کیونکہ اس اسٹیج پر بگڑا ہوا کام کسی طرح نہیں سنبھلے گا۔ اگر آج رات والا کھیل بگڑ بھی جاتا تو اسے سنبھالا جا سکتا تھا!‘‘
حمید کچھ نہ بولا ۔ وہ اُس شخص مسٹر بھٹی کے متعلق سوچ رہا تھا۔
آخر وہ اس کے بارے میں فریدی سے پوچھ ہی مبینا ۔ اس پر فریدی نے ایک ہلکا سا قہقہ لگا یا پھر بولا۔
" کیا تم اس پر یقین کر لو گے کہ اصلی مسز شوخ وہی ہے !"
’’ہائیں ....!" حمید منہ پھاڑ کر رہ گیا۔
’’ ہاں اس ناول کا نام بہرام کی خالہ عرف اُداس چہوترہ ہے!"
عرفیت تو بڑی ترقی پسند قسم کی ہے!"
فریدی سگار سلگانے لگا۔
" آپ بتانا نہیں چاہتے !‘‘حمید نے کہا۔
’’بتا تو دو !‘‘
حمید نے ہونٹ سکوڑ لئے ، وہ بھی جیب میں تمبا کو کا پاؤچ تلاش کر رہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد اس پر پھر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کیونکہ اندر سے ایک لڑکی ہاتھوں پر کافی کی ٹرے اٹھائے ہوئے کرے میں داخل ہو رہی تھی۔ یہ بھی غیر ملکی ہی تھی اور بے حد قبول صورت حمید نے ایک طویل سانس لی اور فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔
’’ارے اس کی ضرورت نہیں تھی بے بی !‘‘فریدی نے انگریزی میں کہا۔
’’ آپ لوگ بہت تھک گئے ہوں گے جناب ! ‘‘اس نے بڑے ادب سے جواب دیا اور بڑے میار پر رکھ کر پیالیاں سیدھی کرنے لگی۔ اب وہ تیسرا آدمی بھی ان کے قریب آ گیا تھا۔
وہ کافی پینے لگے۔ لڑکی بھی ان میں شامل تھی۔ کسی خوبصورت لڑکی کی موجودگی میں حمید کو خاموشی ملنے گئی تھی۔
اُس نے لڑکی سے کہا ۔ آپ لوگوں کو اس گندی بستی میں بڑی تکلیف ہوتی ہو گی ؟ ‘‘
’’نہیں کیپٹن ! ‘‘ایسا تو نہیں ہے لڑکی مسکرائی اور حمید متحیر رہ گیا۔ تو وہ اسے جانتی تھی۔
فریدی کچھ نہ بولا۔ وہ کافی کے دو تین گھونٹ لینے کے بعد کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے سگار کے کش لے رہا تھا اور اس کی آنکھیں چھت کی طرف تھیں ہی۔
" کیا آپ لوگ ہمیشہ نہیں رہتے ہیں ؟ ‘‘حمید نے پوچھا۔
ایسا بھی نہیں ہے لڑکی پھر مسکرائی ۔ " کیا آپ ہم لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ؟ فریدی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور لڑکی سے بولا ۔ ’’ضروری نہیں ہے کہ کیپٹن حمید میرے ہر راز میں شریک ہو۔
اس پر ہی کیا منحصر ہے۔ دنیا کا کوئی آدمی میرے متعلق سب کچھ نہیں جانتا !"
لڑکی اور اس کے ساتھی کے چہروں پر حیرت کے آثار نظر آنے لگے لیکن حمید کو فریدی کے اس جملے میں اچھی تو ہین نظر آئی۔ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اگر وہ دونوں وہاں موجود نہ ہوتے تو وہ بلا شبہ فریدی سے الجھ پڑا ہوتا۔ کچھ دیر بعد فریدی اُٹھتا ہوا بولا ۔ " اچھا تو اب میں جارہا ہوں۔ کیپٹن حمید یہیں رہیں گے.... اور تم ....!‘‘اُس نے مرد کی طرف دیکھ کر کہا۔’’میرے ساتھ آؤ!‘‘
کا بچہ بہار ہوتا ہے وہ مجھے فون کر دیتی ہے پھر اسے کچھ نہیں کرنا پڑتا !"
" آپ دونوں کے شوق عجیب ہیں ۔ آخر آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟ ‘‘
’’دراصل مجھے خدمت خلق کا شوق ہے لیکن اپنی بیوی کی خدمت... خدمت نہیں بلکہ زن مریدی کہلاتی ہے۔ یہاں میرے ملک میں۔ میں تمہارے ملک کے متعلق نہیں جانتا ؟‘‘
ہمارے یہاں دونوں پر ایک دوسرے کی خدمت واجب ہے!"
’’بہر حال مجھے ماؤں کا ہاتھ بنانے سے بڑا سکون ملتا ہے!‘‘
لیکن میں ماں تو نہیں ہوں ! ‘‘لڑکی ہسنے لگی۔
’’ پھر آپ اُن صاحب کی کون ہیں جو کچھ دیر پہلے یہاں تھے ؟‘‘
ہشت ! ‘‘لڑکی شرمیلے انداز میں مسکرائی ۔ وہ میرا ساتھی ہے!‘‘"
’’شوہر !‘‘
نہیں ساتھی .....آپ نے بے تکی باتیں کیوں شروع کر دیں ؟"
’’ مجھے افسوس ہے اگر یہ باتیں آپ کو بے تکی معلوم ہوتی ہیں ! حمید نے کہا اور پھر وہ اپنے پینے پر ہاتھ رکھ کر کر ر ہا۔
کیوں؟ کیا بات ہے۔ کیا کوئی تکلیف ہے؟‘‘"
ہاں سینے میں بہت شدید درد ہے !‘‘ حمید کراہتا ہوا لیٹ گیا۔ ابھی ابھی اچانک اُٹھا ہے۔
تھی تو برازیل ہی کی ؟‘‘"
اوہ ۔ اسی لئے ...میں جب بھی برازیل کی کافی پیتا ہوں، یہی کیفیت ہوتی ہے!"
"اچھا ...دیکھئے میں ابھی آئی !‘‘ اس نے کہا اور برتن سمیٹ کر اندر چلی گئی۔
حمید مسکراتا ہوا اپنے سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک شیشی تھی۔
یہ دیکھئے ۔ اسے آہستہ آہستہ پینے پر مل لیجے !‘‘ اس نے حمید کی طرف شیشی بڑھاتے ہوئے کہا۔
مگر میں کیسے ملوں گا۔ مجھ سے نہیں بنے گاحمید نے مایوسی سے کہا۔
بنے گا۔ آپ کوشش تو کیجئے ؟‘‘"
نہیں بنے گا ۔ میں جانتا ہوں ۔ ایسے کام خود اپنے ہاتھوں سے نہیں ہو پاتے !‘‘
’’ کوشش نا ممکن کو بھی ممکن بنا دیتی ہے۔ نپولین کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کیجئے ۔ اچھا شب بخیر! ‘‘
لڑکی نے بڑی سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔ حمید اُلّو کا سامنہ لے کر رہ گیا ۔ اپنا سا منہ رہ جانا محاورہ ہے لیکن محاورے حمید کو عموماً غلط معلوم ہوا کرتے تھے لہذا اس محاورے میں اکو والی صحیح برو اُسی نے کی تھی ۔ اُسے توقع تھی کہ وہ اس لڑکی سے اپنے سینے پر مالش کرانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن : درد منتِ کش دوا نہ ہوا... اور دوسرے مصرعے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ وہ بیماری کب تھا؟
8
بھٹّی کے اغوا کا مسئلہ ابھی تک عید کی مجھ میں نہیں آیا تھالیکن بہر حال اسے وہ کام انجام دیتا تھا۔ فریدی نے دوسرے دن اُسے طریق کا ر سمجھا دیا۔
سات بجے شام تک حمید اور وہ غیر ملکی جس کے فلیٹ میں اس کا قیام تھا، کنکس لین پہنچ گئے ۔ وہ دونوں ایک بڑی شاندار کار میں آئے تھے ۔ حمید پچھلے ہی دن کے میک آپ میں تھا لیکن آج اس کے جسم پر میلے کچیلے لباس کے بجائے بہترین قسم کا سوٹ تھا ۔
ور اس کا سفید فام ساتھی کوئی ڈاکٹر معلوم ہوتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک اسی ھو اسکوپ تھا۔ کار پھاٹک کے اندر چلی گئی۔ حمید کو باہر کئی جانے پہچانے چہرے نظر آئے تھے۔
یہ اس کے محلے کے لوگ تھے۔ حمید نے اس کا اندازہ بھی کر لیا تھا کہ ان لوگوں نے انہیں شہبے کی نظر سے دیکھا تھا۔ کار سیدھی پورچ میں چلی گئی اور پھر حمید نے اُسے اس طرح موڑ کر اُس کا پچھلا حصہ برآمدے کی سیڑھیوں سے لگا دیا جیسے ڈکی سے کچھ سامان نکال کر برآمدے میں رکھنا ہو ۔
وہ دونوں اُتر گئے۔ حمید کے ہاتھوں میں دواؤں کا بیگ تھا ۔ پھر وہ نہایت اطمینان سے اند ر کھتے چلے گئے۔ چاروں طرف گہرا سناٹا تھا لیکن سارے کمرے روشن تھے ۔ فریدی کے بتائے ہوئے نقشے کے مطابق حمید کو خواب گاہ تک پہنچنے میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی لیکن اُس کی توقعات کے خلاف وہاں بھی قبرستان کا ساماحول نظر آیا۔ مسہری پر چپ چاپ پڑے ہوئے آدمی کو اُس نے فورا ہی پہچان لیا کیونکہ بھّٹی کی تصویر اس وقت بھی اس کی جیب میں پڑی ہوئی تھی اور اُس نے آج دن میں کئی بار اُس کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔ گر اور گہری نیند سورہا تھا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا۔ یہاں کوئی تو کر بھی نہیں نظر آتا " حمید نے اپنے ساتھی سے کہا۔ " مجھے خود بھی حیرت ہے۔ ویسے کرنل نے تو یہی کہا تھا کہ تم لوگ اسے بہت آسانی سے نکال لے جاؤ گے۔
ہو سکتا ہے ان کا اشارہ انہیں آسانیوں کی طرف رہا ہو!" حمید نے آگے بڑھ کر بھٹی کی پیشانی پر ہاتھ رکھ دیا لیکن نہ تو وہ چونکا اور نہ اس کی آنکھیں ہی کھلیں ۔ یہ بے ہوش ہے ! حمید نے آہستہ سے کہا۔ " مجھے اس پر حیرت نہیں ہے !" سفید فام ساتھی بولا ۔ " کرنل کے کام ایسے ہی ہوتے ہیں
حمید نے دواؤں کا بکس کھول کر اُس میں سے ایک تھیلا نکالا اور پھر پندرہ منٹ کے اندر ہی اندر مسیری خالی ہو گئی۔
’’راہداری اور برآمدے کی روشنیاں ُگل کر آؤ !‘‘حمید نے سفید فام ساتھی سے کہا اور وہ چلا گیا۔ حمید کھڑا اُس تھیلے کو دیکھتا رہا جو آب خالی نہیں تھا۔
سفید فام ساتھی کی واپس پر تھیلا اٹھا یا گیا اور پھر وہ اندھیرے ہی میں برآمدے تک آئے۔ سلید نام ساتھی نے ڈکی اٹھائی اور حمید نے تھیلا بڑی پھرتی سے اس میں ٹھونس رہا۔ پھر کار کو دھکیل کر اس کا رخ دوسری طرف کرتے ہوئے انہوں نے دروازے ک ھونے اور اندر بیٹھ گئے۔
ٹھیک اسی وقت برآمدہ پھر روشن ہو گیا اور ان کی کار پھاٹک سے نکلی چلی گئی۔ سڑک پر اونچی کر حمید نے اُسے بائیں جانب موڑ دیا ۔ تعاقب کا خیال رکھنا !‘‘اُس نے مڑ کر سفید فام ساتھی سے کہا جو پہلی نشست پر نیم دراز تھا ۔
لیکن حمید نے خود ہی سادہ لباس والوں کو حرکت میں آتے دیکھ لیا ۔ تین آدمیوں نے موٹر سائیکلیں سمبھال لی تھیں ۔
حمید نے سوچا کافی منتظم طور پر سارے کام ہور ہے ہیں۔
تین موٹر سائیکلیس کار کا تعاقب کرتی رہیں ۔
" تعاقب شروع ہو گیا !‘‘سفید قام ساتھی بڑبڑایا۔
’’ تین موٹر سائیکلیں۔ میں عقب نما آئینے میں دیکھ رہا ہوں! ‘‘حمید نے کہا۔
" لیکن کیا اُن کے پیچھے بھی کوئی ہے؟"
’’ ہاں ۔ ایک چھوٹی سی کا ر!" ساتھی نے جواب دیا۔
’’ اچھا جیسے ہی ہم ویرانے میں داخل ہوں تم !"
’’مجھے یاد ہے۔ تم مطمئن رہو! " ساتھی بولا ۔
موٹر سائیکلیں کار کا تعاقب کرتی رہیں۔ اُن کے پیچھے وہ چھوٹی کار بھی برابر نظر آتی رہی۔ کچھ دیر بعد حمید کی کار شہری آبادی سے نکل کر ویرانے میں داخل ہوئی۔
وقعتہ سفید فام ساتھی نے باہر ہاتھ نکال کر کوئی چیز سڑک پر جھنگی اور ایک زور دار دھماکا ہوا اور دھوئیں کے گہرے بادل چاروں طرف پھیل گئے ۔ حمید نے رفتار پہلے سے بھی زیادہ تیز کر دی۔ سعید قام ساتھی نے دھوئیں کا ہم پھیکا تھا اور جس کا دھواں خواب آور تھا۔ موٹر سائیکلیں رک گئیں کیونکہ دھوئیں کی دوسری طرف کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ انہوں نے موٹر سائیکلیں ضرور روک دی تھیں لیکن انجن نہیں بند کئے تھے۔ اُن کے پیچھے والی کارنے راستہ کاٹ دیا۔ اب وہ کچی سڑک پر اتر گئی تھی جو کھیتوں کے درمیان سے گزرتی تھی۔ موٹر سائیکلیں بھی مڑکر مخالف سمت میں روڑنے لگیں ۔ حمید کی کار فراٹے بھرتی رہی اب اس کے پیچھے میدان صاف تھا۔
سونا گھاٹ پہنچ کر وہ کار کو اُس طرف لیتے چلے گئے جہاں ان کے لئے ایک لانچ پہلے ہی سے موجود تھی۔ تھیلاؤ کی سے نکال کر لانچ میں رکھا گیا اور سفید قام ساتھی کا رلے کر پھر شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔
دوسری طرف مید خود ہی لانچ کو اسٹیر کرتا ہو ان آئی لینڈ کی جانب لے جار ہا تھا۔ رات تاریک تھی لیکن تاروں کے غبار نے رات کا سرگی رحمہ اکھاڑ دیا تھا۔ لالچ فن آئی لینڈ کی طرف بڑھتی رہی۔ اب حمید سوچ رہا تھا کہ وہاں پہنچ کر وہ اس تھیلے کو عمارت تک کیسے لے جائے گا ؟‘‘
ابھی اُس نے آدھا راستہ بھی نہیں طے کیا تھا کہ پیچھے سے ایک لانچ آکر اُس کے برابر ہی چلنے گی۔
’’ واہ دوست تم نے سچ مچ کمال ہی کر دیا اس پر سے آواز آئی۔
اور حمید نے اسے صاف پہچان لیا۔ وہ راجو کی آواز تھی۔
" مگر کتنی محنت کرنی پڑی ہے۔ یہ میں ہی جانتا ہوں ! "حمید نے جواب دیا۔
’’محنت کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔ تم خوش کر دیئے جاؤ گے مگر کیا وہ بے ہوش ہے؟" جس وقت میں نے اسے کار کے ڈکی میں ٹھونسا تھا اس وقت تو بے ہوش ہی تھا۔ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ؟‘‘"
ایسا نہ کہو پیارے۔ اس کی موت سے ہمیں کوئی فائدہ نہ ہو گا!‘‘ ’’
لیکن اگر مر ہی گیا تو ؟‘‘"
تب پھر ہمیں گھنٹوں اس مسئلے پر غور کرنا پڑے گا!‘‘ ’’
حمید خاموش ہو گیا۔ دونوں لانھیں جزیرے کی طرف بڑھتی رہیں۔
پھر جیسے ہی وہ ساحل سے لگیں ، دوسری لانچ سے تین آدمیوں نے اتر کر حمید کو گھیر لیا۔
راجو نے کہا۔ " تم لوگ تھیلے کو اٹھاؤ!‘‘"
ہر گز نہیں ! ‘‘حمید غرایا۔ " پہلے دس ہزار میرے ہاتھ پر رکھ دو!‘‘"
افوہ! اتنی بے صبری ! " راجو ہسنے لگا۔
اپنا وعدہ یاد کرو!‘‘"
میں نے یہ کب کہا تھا کہ ساحل ہی پر معاوضہ ادا کر دیا جائے گا۔ تم شاید بھول رہے ہو۔ میں نے کہا تھا کہ جس وقت تم اُس عمارت میں اسے لاؤ گے دس ہزار ادا کر دئیے جائیں گے!‘‘
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا تم خود ہی اسے عمارت تک نہیں لے جاسکتے ؟"
’’دیکھو دوست !‘‘ راجو اُس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ہم اپنا اطمینان کئے بغیر اتنی بڑی رقم کیسے دے سکتے ہیں؟
کیا مطلب؟‘‘"
مطلب صاف ہے۔ تم سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہاں چل کر ہم دیکھیں گے کہ تم نے ہمیں دھوکا تو نہیں دیا !"
اوہ ...اچھا چلو !تم سمجھتے ہو شاید میں بھّٹی کے علاوہ اور کسی کو اٹھا لاؤں گا !"
’’میری جگہ تم ہوتے تو کیا سوچتے ؟‘‘
ٹھیک ہے ! "حمید نے نرم لہجے میں کہا۔ " میں بھی اطمینان کے بغیر اتنی بڑی رقم کبھی نہ دیتا!‘‘
گڈ.... اچھا تو اب چلو!‘‘
لانچوں کو وہیں چھوڑ کر وہ چاروں بستی کی طرف چل پڑے۔ تھیلے کو دو آدمیوں نے اٹھا رکھا تھا ۔ عمارت میں داخل ہو کر راجو نے صدر دروازہ بند کردیا اور پھر تمید سے بولا ۔ یار تم بہت کام کے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ میں مستقل طور پر تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں!‘‘
اس سے کیا ہو گا؟‘‘
حمید نے سوال کیا۔ ہم دونوں بھی بہت زیادہ فائدے میں رہیں گے!‘‘ "
وہ ایک کمرے میں آئے اور راجو خاموش ہو گیا۔ یہاں پہلے ہی سے تین آدمی موجود تھے ۔ ایک تو دادا تھا اور اس وقت بھی وہ داڑھی بھی والے میک اپ میں نظر آرہا تھا۔ دو سفید قام غیر ملکی تھے۔ ان کے داخل ہوتے ہیں مینوں کے چہرے چمک اٹھے۔
کیا رہا ؟ ‘‘واؤ د نے بے صبری سے پوچھا۔
’’ فتح !‘‘راجو نے فخریہ انداز میں کہا۔ تھیلا اتار کر یہ پر رکھ دیا گیا اور حمید آگے بڑھ کر اسے کھولنے لگا۔ تھیلے کا منہ کھلتے ہی راجو نے بے ساختہ کیا۔ ٹھیک ہے!‘‘
تھوڑی ہی دیر بعد بھٹی میز پر چت پڑا ہوا تھا اور اس طرح میرے گہرے سانس لے رہا تھا جیسے اسے بہت بڑی گھٹن سے نجات ملی ہو لیکن اس کی آنکھیں بند تھیں۔
’’یہ ہوش میں کیسے آئے گا؟‘‘ راجو نے حمید سے پوچھا۔
خود بخود!‘‘احمید نے کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ " ایک گھنٹہ گزر چکا ہے اب اسے ہوش میں آجانا چاہئے ۔ تم ڈرادہ کھڑ کی کھول دو!‘‘
کھڑکی نہیں کھولی جاسکے گی وارد بولا۔
’’ ہوا کے بغیر.... اس کی بے ہوشی طویل بھی ہو سکتی ہے!‘‘ حمید نے جواب دیا۔
کس چیز سے بے ہوش کیا تھا ؟‘‘"
اب کیا میں دس ہزار میں اپنے راز بھی بتا دوں گا ؟
داؤداُسے گھورتا ہوا خاموش ہو گیا۔ وہ اس وقت بھی اُسے پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا۔
حمید جھک کر بّھٹی کے چہرے پر رومال جھلنے لگا۔ ساتھ ہی وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑ بڑائے بھی جا رہا تھا ۔
کچھ دیر بعد بھّٹی کے ہونٹوں میں حرکت ہوئی اور منہ چلانے لگا پھر کراہ کر کروٹ بدلی۔
و ہ سب سنبھل کر بیٹھ گئے۔
پانچ منٹ کے اندر ہی اندر بھّٹی کو ہوش آ گیا وہ اٹھ بینا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولا " تم لوگ اپنے مقصد میں ہرگز کامیاب نہ ہو سکو گے !"
’’ہم کامیاب ہو گئے !‘‘داؤد نے قہقہہ لگایا اور بھّٹی کی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا۔
’’ دیکھو!‘‘اداؤد نے سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا۔ " نہیں کتنی آسانی سے یہاں بلوالیا گیا حالانکہ تمہاری کوٹھی کے گرد سادہ لباس والوں کا جال بچھا ہوا تھا۔
اس طرح ہم جب چا ہیں جنہیں قتل کر سکتے ہیں! "
’’نہیں !‘‘بھٹی کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا ۔ " تم لوگ مجھ پرظلم نہیں کر سکتے !"
تمہیں یہاں اس لئے نہیں لایا گیا ہے کہ تمہاری پوجا کی جائے داؤ د ایک زہریلی ہی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ اُس کی آنکھوں سے نفرت جھانک رہی تھی ۔
اب میرا حساب صاف کردو !‘‘دفعہتّہ حمید نے کہا۔
نہیں ابھی ٹھہرو! " ہو سکتا ہے اس آدمی کو قتل ہی کرا دینے کی نوبت آجائے !"
’’نہیں نہیں !‘‘بھٹئی بے بسی سے کر رہا ۔
’’قتل کے میں بیس ہزار!‘‘ حمید کے لہجے میں بڑی سفا کی تھی۔’’ قتل کے لئے ہمیشہ اخوا کی رقم کا دوگنا وصول کرتا ہوں!‘‘
بیس کیا ہزار ، اس آدمی کے لئے چالیس ہزار بھی صرف کئے جاسکتے ہیں داؤد بولا ۔
تب پھر میں ضرور رُکوں گا !" حمید نے کہا اور کرسی کھینچ کر برابر ہی بیٹھ گیا۔
’’میں ....میں نہیں.... یہ نہیں ....تم لوگ کیا چاہتے ہو؟'' بّھٹی کا پتا ہوا ہکلایا۔
" ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم سے جو کچھ کہا جائے کرو ....اور اُس کے بعد اپنی زبان بند رکھو ورنہ اس کے خلاف کرنے کا انجام قتل ہی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ ہم اُس پر بھی خاک ڈالنے کو تیار ہیں جو تم ابھی تک کرتے رہے ہو!‘‘
’’مم ...میں مجبور تھا ...اس نے زبردستی کی تھی ...مجھے بتانا پڑا !‘‘
’’خیر تم اس کی فکر نہ کرو۔ ہم اُس سے سمجھ لیں گے.... مگر تم ....!‘‘داؤد جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ کا غذات نکلتا ہوا بولا ۔ " ان پر اپنے دستخط کر دو۔ تم خوب سمجھتے ہو کہ اس کا کیا مطلب ہے ۔ لہذا فضول قسم کی گفتگو کر کے وقت پر باد نہ کرنا!‘‘
’’مم...میں سمجھتا ہوں!‘‘
پھر شاباش جلدی سے دستخط کر دو!‘‘"
لیکن اگر.... اگر اس کے بعد.... تم نے مجھے قتل کر دیا ؟‘‘"
"ہم اتنے احمق نہیں ہیں۔ تمہاری زندگی ہمارے لئے زیادہ مفید ہوگی مگر اُسی صورت میں جب تم اپنی زبان بند رکھو
دستخط کر دینے کے بعد ....کیا میں اپنی زبان سے کچھ نکال سکوں گا ؟‘‘"
ٹھیک ....تم بہت سمجھ دار ہو!‘‘داؤ د مسکرا کر بولا۔ " دستخط کر دو!"
بھّٹی نے کاغذات میز پر پھیلا دئیے۔ داؤد نے قلم اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ دستہخط تمہارے لئے ایک شاندار مستقبل کا پیام لائیں گے!"
بّھٹی کا غذات پر دستخط کرنے لگا۔ حمید بری طرح بیتاب تھا۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ وہ کا غذات کیسے ہیں۔
دومنٹ بعد بھّٹی نے کاغذات اور قسم رکھ دیئے اور کرسی کی پشت سے تک کر ہانپنے لگا۔
داؤد نے کاغذات دونوں غیر ملکیوں کی طرف بڑھا دئیے۔ انہوں نے کاغذات کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر ان م۔یں سے ایک دہاڑا
یہ تمہارے دستخط ہیں؟" ہاں بھٹی نے ہانپتے ہوئے جواب دیا۔ ی کھلی ہوئی بکواس ہے غیر ملکی نے داؤد کی طرف دیکھ کر کہا۔ " یہ ہمیں دھوکا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اس کے کاروباری دستخط نہیں ہیں؟‘‘
داؤد کی خونخوار آنکھیں بھّٹی کی طرف اُٹھیں جو اب بھی کرسی کی پشت سے لگا ہوا ہانپ رہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆
بھّٹی اُسی طرح پڑا ہانپتا رہا۔
کیا تم مرنا ہی چاہتے ہو؟" داؤ د غرایا۔
بھٹی سیدھا ہو کر بولا ۔ " میں کیا کروں؟‘‘
اتنا کچھ کھانے کے باوجود بھی تم ہمیں دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہو!"
’’ لاؤ...!‘‘ و ہ کاغذات کے لئے ہاتھ پھیلا کر کراہا کا غذات اُسے پھر واپس کر دیے گئے۔
لیکن خلاف توقع بھّٹی نے انہیں تہہ کر کے جیب میں رکھ لیا۔
" کیا مطلب؟" داؤد رہاڑ کر کھڑا ہو گیا۔
کچھ نہیں بیٹھ جاؤ۔ کھیل ختم ہو گیا !‘‘بّھٹی نے کہا اور اب اُس کی آواز سن کر حمید بے ساختہ اچھل پڑا کیونکہ یہ فریدی کی آواز تھی ..سرد اور سفاکی کی جھلکیاں رکھنے والی آواز ۔
جیب میں پڑے ہوئے ریوالور کے دستے پر حمید کی گرفت مضبوط ہو گئی۔
و ہ دونوں غیر ملکی بھی کھڑے ہو گئے اور راجو اپنے ساتھیوں سمیت فریدی کی طرف بڑھا۔
’’ٹھہر و بھّٹی کے روپ میں فریدی نے ہاتھ اُٹھا کر کہا۔ راجو اور اُس کے ساتھی رک گئے۔ دفعتًہ حمید نے دیکھا کہ ایک غیر ملکی جیب سے ریوالور نکال رہا ہے۔
" خبر دار حمید نے ریوالور نکالتے ہوئے کہا۔ " تم سب اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو!
کیا ؟ " راجو اُس کی طرف پلٹ کر بولا ۔
لیکن حمید کی نظر اس غیر ملکی ہی کی طرف تھی جس نے ریوالور نکالنے کی کوشش کی تھی ۔ ویسے اب اس کے دونوں ہاتھ میز پر رکھے ہوئے تھے اور وہ حمید کو گھور رہا تھا۔
" میں نے کہا ہے کہ تم سب اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو۔ یہ ریوالور بے آواز ہے!"
" تم کیا چاہتے ہو؟ " را جو اپنے ہاتھ اُٹھاتا ہوا بولا۔
’’ میں وہی چاہتا ہوں جو مسٹر بھّٹی چاہتے ہیں!‘‘
اوه ....!‘‘داود پر بیچ کر وہاڑا ۔ " زیدی نے دھوکا دیا !"
’’نہیں ننھے بچے وہ خود دھوکا کھا گیا !" فریدی نے کہا۔
تم خود کو محفوظ نہ سمجھو!‘‘ داد و آنکھیں نکال کر بولا ۔ ہم چھ ہیں اور تم صرف دو!"
’’اس کی فکر نہ کرو!" فریدی مسکرایا۔ شاید تم نے ابھی تک مجھے پہچانا نہیں۔ کسی ایسے آدمی کا اغوانا ممکن ہے
جو کرنل فریدی کی حفاظت میں ہو!‘‘"
تم ...تم ....!" راجو ہکلایا۔
تعجب ہے کہ تم مجھے نہیں پہچانتے حالانکہ عام حالات میں میرے سائے سے بھی بھاگنے کی کوشش کرتےہو!‘‘
’’کک...کرنل...!‘‘راجو ہکلایا۔
کیا ؟ داؤ د حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا۔
پھر راجو، حمید کی طرف مڑا اور حمید مسکرا کر بولا۔ "اگر تم انہیں کرنل فریدی رکھتے ہو تو لامحالہ مجھے کیپٹن حمید کجھتا پڑے گا
" مر گئے ؟ " راجو کراہ کر دیوار سے جالگا۔
" تم فریدی ہو؟‘ داؤد نے کہا۔
اس میں تمہیں شبہ نہیں ہونا چاہئے !‘‘ فریدی مسکرایا۔
داؤد نے ایک بذریانی سا قہقہہ لگایا۔
فریدی کا نام سنتے ہی دونوں غیر ملکیوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگی تھیں ۔
کیا تم یہاں سے زندہ نکل سکو گے ؟ ‘‘داؤد نے فریدی کی طرف انگلی اٹھا کر کہا۔ اس کی آنکھوں کی وحشیانہ چمک بڑی بھیا تک لگ رہی تھی ۔
’’ہاں اے دودھ پیتے بچے !نہ صرف میں زندہ نکلوں گا بلکہ اپنے ساتھ تمہیں بھی لے جاؤں گا۔ میں جانتا ہوں کہ سامنے والے سوئچ بورڈ پر ڈائنامیٹ کا سونچ بھی ہے۔ تمہاری انگلی کی ایک خفیف کی حرکت اس پوری عمارت کے چیتھڑے اڑا دے گی اور میں اُس ڈائنامیٹ کے مقصد سے بھی واقف ہوں ! "
کیا مقصد ہے؟ ‘‘داؤد نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
یہی کہ ضرورت پڑنے پر ان ذرات کا ذخیرہ بر باد کر دیا جائے!‘‘ "
اوہ ....ہاہاہا ہا !‘‘داؤد نے پھر قہقہ لگایا۔ "تم ....تم بہت ذہین ہو۔ تم نے شاید لوہے کا برادہ دیکھ لیا ہے۔
جسے ہم یہاں اسٹاک کر رہے ہیں !‘‘
" چلو ...وہ لوہے کا برادہ ہی سی ! ‘‘فریدی مسکرایا ۔ " لیکن لوہے کے وہ گارڈ جو ایکسپورٹ کرنے کے لئے گودی والے گودام میں پڑے ہوئے ہیں، کیا تم بتا سکو گے کہ ان کھو کھلے گارڈروں میں لوہے کا برادہ کیوں بھرا گیا ہے؟‘‘"
قبل اس کے کہ فریدی کچھ اور کہتا ، داؤ د ا چھیل کر سوئچ بورڈ کے قریب پہنچ گیا۔
فا ئر مت کرنا " فریدی نے حمید سے کہا اور نہ اُس کی انگلی ٹریگر پردباؤ ڈالنے ہی والی تھی۔
داؤد نے سونچ و با دیا اور دونوں غیر ملکی طلق پھاڑ کر چیچے ۔ ’’نہیں ن،ہیں " ڈرو نہیں ! فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ " میرے علم میں آجانے کے بعد وہ قابل استعمال نہیں رہ سکتا تھا ۔ تم ب زندہ رہو گے اور اچھڑیاں پہنو گے!" رفعتہ داؤد نے غصے سے پاگل ہو کر فریدی پر چھلانگ لگائی ۔ حمید پر ٹریگر دباتے دباتے رہ گیا۔ اس نے سوچا کہیں ہاتھ بہک نہ جائے۔
فریدی کری سے نہیں اُٹھا تھا۔ اس نے بڑی پھرتی سے داؤد کو ہاتھوں پر روک کر دوسری طرف پھینک دیا۔ ایسا کرتے وقت بڑی میز اُلٹ گئی اور دونوں غیر ملکی بھی دیتے ہوئے دوسری طرف لڑھک گئے ۔
میز ان پر ہی گری تھی۔ وہ اس کے نیچے دبے ہوئے دیتے رہے۔ داؤد پھر فریدی کی طرف جھپٹا لیکن راجو اور اُس کے دونوں ساتھی دیوار سے لگے بے حس و حرکت کھڑے رہے۔
تم بے کار اپنا اور میرا وقت برباد کر رہے ہوا " فریدی نے داؤد کے جیڑے پر گھونسہ رسید کرتے ہوئے کہا۔
وہ پھر دوسری طرف کی دیوار سے جالگا۔
ہھتکڑیاں !‘‘ دفعتًہ فریدی نے بلند آواز سے کہا۔ بائیں جانب والا دروازہ کھلا اور آٹھ آدمی اندر گھس آئے ۔ داؤد پر دیوانگی سی طاری ہوگئی تھی ۔ اس نے ایک بار پر فریدی پرحملہ کیا لیکن اب وہ کئی آدمیوں کی گرفت میں تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہاں چھ ایسے آدمی نظر آرہے تھے جن کے ہاتھوں میں ہتکھڑیاں تھیں ۔ حمید نے آگے بڑھ کر
داؤد کے چہرے سے داڑھی الگ کر دی اور بولا ۔ " میں نے کل ہی وعدہ کیا تھا کہ تمہاری داڑھی پر ہاتھ ضرور پھیروں گا ۔ کاش اس وقت تمہاری چچی اماں بھی موجود ہو تیں ؟‘‘
’’شٹ آپ!‘‘ داؤدحلق پھاڑ کر چیخا۔
’’ان کی چچی!‘‘ فریدی مسکرایا پھر بولا۔ " کیوں داؤدکیا تم مجھے اتناہی احمق سمجھتے تھے کہ میں سلیمہ کے اغوا والے معاملے میں اُلجھ کر تم لوگوں کا پیچھا چھوڑ دوں گا!‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ حمید، فریدی کی طرف مڑا۔
’’یہ ایک بڑا شاندار ڈھونگ تھا ۔ جن دنوں میں اُن ذرّات کے متعلق چھان بین کر رہا تھا ان لوگوں کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے ہماری توجہ دوسری طرف بنا دینے کی کوشش کی۔
اس کے لئے شیطان کی محبوبہ تخلیق کی گئی اور سب سے پہلے تمہیں اس معاملے میں الجھایا گیا...اور تم ...خیر ...! پھر اس کا اغوا اسی لئے عمل میں لایا گیا کہ پروفیسر شوخ تمہارے خلاف رپورٹ درج کرا دے... اور میں تمہیں بچانے کے لئے اس کیس میں الجھ جاؤں۔ یہ صرف اتنا ہی موقع چاہتے تھے کہ ان ذرات کو باہر بھیجنے میں کامیاب ہو جا ئیں!‘‘
فریدی خاموش ہو گیا پھر داؤد کی طرف دیکھ کر بولا ۔ یہ کاغذات جو اس وقت میری جیب میں موجود ہیں انہیں اپنے تابوت میں آخری کیل سمجھو!‘‘
تم ہمارے خلاف کچھ بھی نہیں ثابت کر سکو گے ! ‘‘داؤ د غرایا۔ زیادہ سے زیادہ فرم پر فریب دہی کا کیس چل جائے گا کیونکہ ہم کھو کھلے گارڈروں میں لوہے کا برادہ بھر دیتے ہیں ! "
’’تم احمق ہو ۔ میں کئی دنوں سے تم لوگوں کے آپس کے مشورے ریکارڈ کرتا رہا ہوں۔ اس عمارت میں متعدد جگہوں پر ڈکٹا فون چھپا دیئے گئے تھے ان کے ذریعے تم لوگوں کا ایک ایک جملہ ریکارڈ کیا جاتا رہا ہے
اور میرے نھنے بچے ! اس قسم کے جرائم کے لئے بہت بڑے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے اگر تم سے سلیمہ والے معاملے کی حماقت سرزد نہ ہوتی تو میں اتنی آسانی سے تمہارے ان ذخیروں تک نہ پہنچ سکتا !‘‘
’’تم زندگی بھر ان ذخیروں کی اہمیت نہیں ثابت کر سکتے !اداؤ د بولا۔
آہا۔ اس بات پر دل چاہتا ہے کہ اس بھولے بچے کے منہ پر تھپڑ مار دوں ۔ کیوں؟ کیا تم میرے ملک کی
ایک بہت بڑی دولت غیر قانونی طور پر ایک دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ کیا وہ ارات ، اگر انہیں ریستیک ایسلہ میں ڈال دیا جائے تو اری ڈیم کے خلاف درے نکل آئیں گے انہیں ؟ ‘‘
’’ یہ ....یہ....غع....غلط ہے!‘‘ ایک غیر کلی بالا یا لیکن فریدی اس کی طرف دھیان دیے لالیہ کہتا رہا " تم ران ذرات کو باہر بھیجنا چاہتے تھے۔ ایک غیر ملکی فرم سے اس کے لئے معاہدہ بھی کیا تھامگر معاہدہ تھا لوہے کے گارا کے ایمپورٹ کا ۔ البتہ معاہدہ اس وقت تک ہا کمل سمجھا جاتا جب تک کہ تمہاری فرم کے ایک ڈالر کیلر مست علی کے داند اس پر نہ ہوتے۔ بھٹی کو تماری اسکیموں کا علم ہو گیا تھالیکن وہ بے چارہ یہ ہیں جانتا تھا کہ ان رات کی لومیت کیا ہے اور نہ اسے ہیں معلوم تھا کہ ذخیرے کہاں ہیں۔ اگر بھنگی کی کی اس وقت تمہارے ہاتھ پا گیا ہوتا تو تم اس وقت تک اسے اپنی حراست میں رکھتے جب تک کہ سارا مال یہاں سے نکل نہ جاتا۔ بھٹی کو یہ بھی معلوم میں تھا کہ وہ ازارات یہاں سے بھیجے کس طرح جائیں گے لیکن اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اب کسی نئے معاہدے پر اتحاد نہیں کرے گا اور اسے یہ مشورہ میں نے ہی دیا تھا اس لئے تمہیں اس کے افرا کی بھی ضرورت پیش آئی اور تم داؤد۔ تمہارے ہم ائم تو بہت ہی تکلمین ہیں۔ اس دوران میں تمہاری اصلیت بھی ظاہر ہو گئی ہے۔ تم کافی عرصے سے ایک غیر ملک کے احیت کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہو اور دوسرا جرم تو اتنا گھناؤنا ہے کہ تمہیں گولی مار دینے کو دل چاہتا ہے۔ تم اپنے چچا کی بیوی پر متصرف رہے ہو۔ وہ بوڑھا بھی اسے اچھی طرح سمجھتا تھا... لیکن بدنامی کے ڈرسے اس کی زبان بند تھی!‘‘
داؤد نے ہنس کر جواب دیا۔ " میں ایک بے حیا اور بے جگر آدمی ہوں ۔ میری نظروں میں نہ تو رشتوں کا کوئی احترام ہے اور نہ پھانسی کے پھندے ہی سے ڈرتا ہوں لہذا تم خواہ خواہ اچی زبان تھکا ر ہے ہو بس اتمامی کافی ہے کہ میں ہار گیا !‘‘"
مگر وہ شیطان کی محبوبہ ہے کہاں؟" حمید نے فریدی سے پوچھا۔
’’باٹم روڈ کے ایک چھوٹے سے بنگلے میں.... بنگلہ نمبر تیرہ !فریدی نے جواب دیا۔
کچھ دیر بعد قیدیوں کا جلوس اس عمارت سے کلا ۔ فریدی اور حمید پیچھے تھے۔
’’ خدارا اب ایک بات اور بتا دیجئے ! ‘‘حمید نے کہا۔ ’’وہ ارجن پورہ کے فلیٹ والی گل رخ کون ھی اور وہ آدمی کون تھا ؟‘‘
بلیک فورس کے دورُ کن!‘‘ ’’
اوہ.... تو کیا اُس بلیک فورس میں غیر ملکی بھی ہیں؟"
یقیناً ہیں ...لیکن اُن کا تعلق ان دوست ممالک سے ہے جس کے اور ہمارے مفادات مختلف نہیں ہیں !‘‘
یہ اِری ایم اپنے یہاں کیسے آٹپکا؟‘‘"
’’ہماری زمین کے سینے میں کیا نہیں ہے مگر ہم مفلس ہیں ..کامل ہیں.... ہمیں باتیں بنانی آتی ہیں۔ ہم تقریریں کر سکتے ہیں، ایک دوسرے پر اپنی ذہنی برتری کا رعب ڈال سکتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کے لئے اپنی بہترین ذہنی صلاحیتیں ضائع کر سکتے ہیں.... لیکن ہم سے تعمیری کام نہیں ہو سکتے!‘‘
9
سلیمہ بے خبر سورہی تھی ۔ کمرے میں مدھم روشنی والا نیلا بلب روشن تھا ۔ دفعتہ ایک کمٹر کی کھلی اور اس میں کسی بہت بڑے بندر کا چہرہ دکھائی دیا۔ دوسرے ہی لئے میں وہ چھوٹیٹ کا بندر کمرے میں تھا لیکن اس کے جسم پر ایک نہایت نفیس قسم کا سیاہ سوٹ تھا اور پیچھے لمی ہی دم لٹک رہی تھی جس کے سرے پر یک تنھا سا بلب روشن تھا۔
اس کا چہرہ بندروں کا سا تھا مگر جسم اور ہاتھ پیر آدمیوں کے سے تھے ۔ اس نے ہولے ہوئے سلیمہ کا گال تقیہ پایا۔ وہ جاگ پڑی لیکن بندر نے اُسے پینے نہیں دیا کیونکہ دوسرے ہی لمحے میں اُس کا ہاتھ اس کے منہ پر تھا۔
’’ہا ئیں !‘‘اس نے کہا۔ " تم شور مچانے جارہی ہو میری جان ۔ اپنے شیطان کو نہیں پہچانتیں ؟‘‘
بندر کی آواز کچھ بھرائی ہوئی سی تھی۔
ہٹو!‘‘وہ اُس کا ہاتھ جھنک کر اٹھلائی ۔ " تم نے مجھے ڈرا یا داؤد,!‘‘
’’کون داؤد! کیا بیکتی ہے عورت ۔ تو عزرائیل کے سامنے کسی پیغمبر کا نام نہیں لے سکتی۔ میں تجھے کھا جاؤں گا۔
دیکھو میری قوم پر ستارہ چمک رہا ہے ! شیطان نے اپنی دم اٹھا کر اسے وہ طلب دکھایا جو اُس کے سرے پر روشن تھا۔ سلیمہ ہنستی ہوئی اُٹھ بیٹھی ۔
’’تم بہت شریر ہو گئے ہو!‘‘ا وہ اُس کی کمر پر دھپ رسید کرتی ہوئی بولی مگر پھر نچیدگی سے کہا۔ " کیا تم کچھ بیمار ہو، تمہاری آواز اتنی بھرائی ہوئی ہے کہ پہچانا مشکل ہے؟‘‘
میں آج کل شو پنہار پر ریسرچ کر رہا ہوں اس لئے روتے روتے گلا پڑ گیا ہے۔ تم اس کی فکر نہ کرو۔ میں اس وقت اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں جہنم کی سیر کرا دوں۔
کیا تم نے برنارڈ شا کا ڈرامہ مین اینڈ سپُر مین پڑھا ہے؟"
’’یہ آج تم کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو ڈیئر.... یہ نفرت انگیز خول اپنے چہرے سے اُتار دو۔ آدمی بنو!‘‘
’’آدمی شیطان بن سکتا ہے لیکن شیطان کبھی آدمی نہیں بن سکتا !‘‘
’’داؤد...!‘‘ وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر بچوں کی طرح ٹھنکی ۔
’’پھر وہی نام ....میں صرف شیطان ہوں جو اپنی چچی....!‘‘
’’شٹ آپ .....تم گدھے پن کی باتیں کیوں کر رہے ہو؟‘‘ وہ جھینپے ہوئے انداز میں بولی۔
گدھوں میں آدمیت نہیں ہوتی اسی لئے مجھے گدھے پسند ہیں!‘‘ ’’
کیا تم نشے میں ہو داؤد!‘‘
نہیں شاید تم نشے میں ہو!‘‘شیطان نے اپنے چہرے سے بندر کا خول الگ کرتے ہوئے کہا۔
سلیمہ کے حلق سے ایک گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی اور مسہری پر ہانپنے لگی ۔کیپٹن حإید اُسے کھا جانے والی نظروںن سے گھوررہا تھا۔ اُس نے بیلٹ سے دُم الگ کی اور اُسے ایک طرف ڈالتا ہوا بولا ۔’’تم جیسی عورت آج میری نظروں سے نہیں گزری۔مگر کھیل ختم ہوچکا ہے۔داؤد وغیرہ اس وقت حوالات میں ہیں اور اِری ڈیم کا ذخیرہ ہمارے قبضے میں ہے!‘‘
وہ اپنی حالت پر قابو پاچکی تھی۔مسہری پرلیٹے ہی لیٹے اُس نے انگرائی لی اور مسکرا کر بولی۔’’کیپٹن !تم اتنے بدھوکیوں ہو۔کیا تم اتنے ذہین نہیں ہو کہ موقع سے فائدہ اُٹھا سکو!‘‘
’’نہیں !میں بالکل بدھو نہیں ہوں!‘‘حمید مسکرا کر جواب دیا۔’’میں موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے آیا ہوں!‘‘
’’پھر...!‘‘وہ الماری کھول کر اسکاچ کی بوتل نکالو!‘‘اُس نے پھ انگڑائی لی۔
’’بابر یہ عیش کوش کہ عالم دو بار ہ نیست!‘‘
’’پہلے میرا ایک حقیر تحفہ قبول کر لو ڈرالینگ !‘‘حمید نے پتلون کی جیب مین ہاٹھ ڈالتے ہوئے کہا۔’’میں تمہارے لئے جڑاؤ کنگن لایا ہوں!‘‘
’’تم مذاق کررہے ہوڈئیر!‘‘وہ اٹھلائی ۔
’’خاموشی سے اسے پہن لو!‘‘حمید تحکمناے لہجے میں کہا۔’’اپنے ہاتھ آگے بڑھاؤ!‘‘
’’نہیں !‘‘وہ پھر خوفزدہ نظر آنے لگی۔
’’یقیناً۔میں تمہارے ہتھکڑیاں لگا کر یہاں سے پیدل کوتوالی تک لے جاؤں گا۔ابھی صرف گیارہ بجے ہیں۔
سڑکیں جگمگارہی ہیں اور ....!‘‘
’’نہیں .....خدا کے لئے نہیں ....!‘‘
’’شیطان کی محبوبہ کو خدا سے کیا سروکار ۔شاید تم نشے میں ہو!‘‘
’’کیپٹن !‘‘وہ اس کا ہاتھ پکڑ نے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔’’ اس طرح بے عزت نہ کرو!‘‘
’’اوہ !تم تو ایک دلیر عورت ہو۔ تم اپنی پنڈلی میں اپنے ہی ہاتھوں سے پوری سوئی پیوست کرلیتی ہو۔ہوسکتا ہے عدالت تمہیں بری بھی کردے مگر میں تو اس وقت تمہیں ایک آوارہ کتیا کی طرح کھینچتا ہوالے جاؤں گا!‘‘
’’کیپٹن !‘‘اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
’’شریف عورتوں کے آنسوؤں پر اپنا گلا گھونٹ سکتا ہو۔تم شاید مجھے عیاش آدمی سمجھتی تھیں اسی لئے مجھے متوجہ کرنے کے لئے وہ ڈرامہ اسٹیج کیا تھا.....لیکن ......چلو.....ہتھکڑیاں پہن لو مجھے تشدد پر آمادنہ کرو....میں صرف عورتوں کو دوستی کا شائق ہوں....عیاش نہیں ....!‘‘
حمید اُس کے ہتھکڑیاں لگا دیں ....اور وہ پھوٹ پھوٹ کرروتی رہی۔
0 Comments