Andhere ka Shahinshah by Ibne Safi|اند ھیرے کا شہنشاہ-ابنِ صفی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Andhere ka Shahinshah by Ibne Safi|اند ھیرے کا شہنشاہ-ابنِ صفی

 

اند ھیرے کا شہنشاہ-ابنِ صفی

Andhere ka Shahinshah by Ibne Safi

Andhere ka Shahinshah by Ibne Safi

دولا شیں

اگر یہ واقعہ روز روشن میں پیش آیا ہوتا تو لوگ نہ صرف حیرت سے چیختے بلکہ کی تو اس رولس رائیس کار کے

پیچھے دوڑنے بھی لگتے ۔

 لیکن اس وقت رات تھی اور شاید دو بجے ہوں گے۔ شہر کی سب سے بار وفق سڑک بالکل ویران تھی اور ایک اندھا فقیر فُٹ پاتھ پر ایک عمارت کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹا اونگھ رہا تھا۔ دفعتًہ ایک رولس رائیس کار اس کے قریب ہی آکر رُک گئی ۔ اندھا چونک پڑا۔ چار آدمی بہ آہستگی کار سے اترے، وہ دبے قدموں اندھے کی طرف بڑھا رہے    تھے لیکن اندھا بھی اب بیٹھا نہیں رہا تھا۔ اُسے اس حال میں دیکھنے والے اُسے اندھا نہیں سمجھ سکتے تھے۔ وہ نہ  صرف کھڑا ہو گیا تھا بلکہ اس پوزیشن میں تھا جیسے اُسے کسی کے حملے کا انتظار ہو۔ چار آدمیوں میں سے ایک نے لوہے کی ایک موٹی سی سلاخ نکالی، جیسے ہی وہ چاروں اُس کے قریب پہنچے اندھا جھکائے دے کر ان کے نرغے سے نکل گیا لیکن پھر! اُس کے سر پر لوہے کی سلاخ پڑی اور وہ سنبھلنے کی کوشش کرتا ہوا اوندھے منہ گر پڑا۔ چاروں عقاب کی طرح اُس پر جھپٹے، اندھے نے چیخنا چاہا مگر اس کا منہ دبا دیا گیا۔

 پھر وہ کا رسنسان سڑکوں پر تیزی سے دوڑنے لگی۔ کار کے اندر اب بھی جد و جہد جاری تھی۔ انہوں نے اندھے کو کسی نہ کسی طرح کار میں ٹھونس تو دیا تھا لیکن اب وہ ان کے بس سے باہر ہوا جارہا تھا۔

 اندھے کا چہرہ سرسے بہے ہوئے خون کی وجہ سے حد درجہ خوفناک نظر آنے لگا تھا اور وہ کسی زخمی درندے کی  طرح انہیں جھکو لے دے رہا تھا۔ ساتھ ہی اس پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش بھی ہورہی تھی۔

 ان میں سے ایک جو کار ڈرائیو کر رہا تھا شاید اچھی حالت میں تھا ورنہ بقیہ تین تو خود بھی بھوت بن گئے تھے۔ اُن کے کپڑے پھٹ گئے تھے۔ کسی کا کان زخمی تھا اور کسی کے چہرے پر خون کی لکیریں نظر آرہی تھیں ۔ ایک آدمی کی  ناک سے متواتر خون بہہ رہا تھا۔

’’کاش میں اس کا گلا گھونٹ سکتا!‘‘ ایک آدی ہا نپتا ہوا بولا۔

’’شش شا !‘‘انہوں نے جواب میں ایک ہذ یانی قہقہہ سنا۔ اندھا بے  تحاشہ ہنس رہا تھا ۔

 ’’ تم !‘‘مجھے ختم نہیں کر سکتے ۔ مجھے مارنے کے لئے فولاد کا جگر چاہئے!‘‘  اندھا چیخا ۔ جواب میں اُس کے منہ

پر ایک گھونسہ پڑا۔

 چاروں کو حیرت تھی کہ اندھا ابھی تک ہوش میں ہے ۔ نہ صرف ہوش میں ہے بلکہ ابھی اُس میں مقابلے کی قوت بھی باتی ہے۔ جب وہ اس مہم پر روانہ کئے گئے تھے تو ان کے فرشتوں کو بھی اس کی توقع نہیں تھی کہ وہ اندھادس آنکھ والوں پر بھی بھاری ہوگا۔ وہ سمجھے  تھے کہ وہ اُسے ٹانگیں پکڑ کر گھیٹ لائیں گے ۔ اس کام کے لئے انہیں ایک بھا ری  رقم ملی تھی لیکن اب وہ سوچ  رہے تھے کہ اس کا م کے لئے وہ بھا ری رقم بھی کم تھی ۔

آدھا گھنٹہ  گزر گیا۔ اب کا شہر کی گھنی  آبادی سے نکل کر چیتھم  روڈ پر آگئی تھی ۔ یہاں سڑک کے دونوں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹی بڑی عمارتوں کے سلسلے تھے ۔ آگے چل کر کار مشرق کی سمت ایک کچے راستے پر مڑ گئی۔پھر وہ ایک  فرلانگ تک آہستہ آہستہ رینگتی  ہوئی بالآ خر رک گئی۔ اس اُجاڑ میدان میں صرف ایک ہی عمارت تھی اور  اندھیرے میں اس کا پھیلا ؤ کسی قدر خوف انگیز بھی معلوم ہو رہا تھا ۔

چاروں نے اندھے کو بڑی بے دردی سے کھینچ کر نیچے اُتارا۔ وہ اب بھی ہوش میں تھا لیکن اس نے گلو خلاصی کے لئے جدو جہد نہیں کی۔ ویسے اُن میں سے ایک نے احتیاطاً اب بھی اس کا منہ دبا رکھا تھا۔

 وہ اُسے عمارت کے اندر لائے۔ ان کے داخل ہوتے ہی پے بہ پے کئی کمروں میں روشنی ہوتی گئی۔ آخر وہ ایک بڑے کمرے میں آئے جہاں ایک آدمی شاید اُن کا منتظر تھا۔ اندھے کو اُن کے ساتھ دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ایک تسکین آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ بدنمائی کی حد تک چوڑے شانے اور کوتاہ گردن رکھتا تھا۔ سربڑا اور  اس کی مناسبت سے چہرہ بھرا ہوا تھا ۔ ناک طوطے کی چونچ سے بہت مشابہ تھی۔

چاروں اندھے کے گرد کھڑے ہوئے تھے اور ان کے سامنے پانچواں آدمی خاموش کھڑا اندھے کو گھور رہا تھا۔

 ’’مسٹر... عدنان ...‘‘ اُن میں سے ایک نے کھنکار کر کچھ کہنا چاہا لیکن سامنے کھڑے ہوئے آدمی نے اپنے ہو نٹو ں  پر انگلی رکھ کر اُسے خاموش کر دیا۔

’’آں ...!‘‘ اچانک اندھا چونک کر بڑبڑایا۔ ’’مسٹر عدنان ! ‘‘

کوئی کچھ نہ بولا ۔ عدنان اُس آدمی کو قہر آلود نظروں سے گھور رہا تھا جس نے اُس کا نام لیا تھا۔

’’ کیا تم لوگوں کو موت کے فرشتے نے سونگھ لیا ہے؟‘‘ اندھا گرج کر بولا۔’’ اگر یہ واقعی عدنان ہے تو مجھے اس

ملاقات پر افسوس نہ ہو گا !‘‘

’’شاید تم خوش ہونے کے لئے زندہ نہ رہو !‘‘ عدنان ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

’’ اپنے ذہن کی آنکھیں کھولو!‘‘ اندھا ہنس کر بولا ۔’’ اور تصور کرو کہ تمہاری لاش ایک چٹیل میدان میں پڑی ہے اور اُس پر گدھ منڈلا رہے ہیں !‘‘

’’اندھے بکواس بند کرو۔ مجھے نور جہاں کی ضرورت ہے !‘‘ عدنان نے سرد لہجے میں کہا۔

’’ تم جانتے ہو کہ میں افریقہ میں اندھیرے کے شہنشاہ کے نام سے مشہور تھا !‘‘اندھے نے کہا۔

’’ تمہارے دن پورے ہو گئے!‘‘ عدنان نے کہا اور میز سے چمڑے کا ہنٹر اٹھالیا۔ چند لمحے  اند ھے  کو گھو رتا رہا

پھر بولا ۔ ’’ مجھے تمہارے بڑھاپے پر رحم آتا ہے !‘‘

 جواب میں ان سے نے قہقہہ لگایا اور پھرطنزیہ  لہجے  میں بولا۔ ’’ تمہارے آدمی پہلےہی مجھ پر کا فی رحم کر چکے ہیں اور اب تم بھی کچھ کر کے دیکھ لو ۔ لیکن اتنا ضرور سو چ  لینا کہ آخر مجھے بھکا ر یو ں کی طرح فٹ پا تھ پر بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی !‘‘

عدنان کا اُٹھا ہو ا ہاتھ جُھک گیا۔ اس کی پیشانی پر تفکر  کی گہری لکیریں اُبھر آئی تھیں۔

’’کیوں؟ ‘‘ اندھے نے چڑھانے والے انداز میں کہا۔ ’’ سوچنے لگے تم ضرور سوچو گے۔ اتنا وعظیم آدمی معمولی بھکاری کے روپ میں ہاہاہا سوچو جتنی دیر سوچو گے وہی وقفہ در اصل تمہاری زندگی کےآخری لمحات کا   حامل ہوگا !‘‘

 عدنان نے پھر ہنٹر والا ہاتھ اُٹھایا اور چاروں آدمی اندھے کے پاس سے ہٹ گئے۔ شایدیہ صرف انہیں ہٹا نے   ہی کے لئے ایک قسم کا اشارہ تھا کیونکہ اس کے بعدی پھر اُس کا ہاتھ ہنٹر سمیت جھول گیا اُس کےچہرے سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ کسی اُلجھن میں مبتلا ہو گیا ہے۔

’’سو چ چکے تم !‘‘ اندھے کی آواز سنّا ٹے میں گو نجی ۔

’’دیکھو میں کہتا ہوں ...!‘‘

’’کچھ کہنے کی مہلت نہیں ملے گی !‘‘ اندھے نے عدنان کو جملہ پورا نہ کرنے دیا ۔’’ سنو! مجھےمعلوم ہو ا تھا  کہ   جنوبی افریقہ سے کوئی میری تلاش میں آیا ہے۔ میری تلاش کسی کو کیوں ہو سکتی ہے۔ یہ میں اچھی طرح جانتاتھا ۔

 بہر حال یہ معلوم کرنے کے لئے کہ میری تلاش میں آنے والا کون ہو سکتا ہے، میں کھل کر سامنے آگیا۔ میر اطریقہ کا ر  سو فیصدی کامیاب ثابت ہوا اور اب تم نتیجے کے طور پر میرے سامنے ہو ... ایک ایسے چوہے دان میں جس سے تم کسی   طرح نہیں نکل سکتے !‘‘

’’کیا؟ ‘‘ عدنان سر سے پاؤں تک کانپ گیا۔ وہ خوفزر دو نظروں سے چاروں طرف دیکھنے گا تھا۔ اندھے نے قہقہہ   لگایا۔ اس کا چہرہ سرسے بہے ہوئے خون کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا۔ جب وہ قہقہہ  گاتا تو اُس  کے سفید اور نوکیلے دانت سچ  مچ  کسی درندے ہی کے دانت معلوم ہوتے ۔ ایسے درندے کے دانت جو ابھی ابھی کسی لاش اُدھیڑ کر اُٹھا ہو۔

’’ڈرو نہیں عدنان !‘‘ اندھے کی تیز سرگوشی کمرے کے سنّاٹے  کو چیرتی چلی گئی۔

’’میں صرف گلا گھونٹ کر مارتا ہوں !‘‘

’’ خاموش رہو!‘‘عد نان  خوفزدہ آواز میں چیخا  اور ساتھ ہی اس کا ہنٹر والا ہاتھ حرکت میں آگیا شائیں سٹائیں شائیں چوتھی بار اندھے نے ہنٹر پکڑ لیا۔ عدنان نے جھٹکا دیا لیکن اندھے نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی۔ اس کے برعکس خود عدنان ہی کچھ آگے کی طرف کھسکنا آیا ۔ دوسرے لمحے میں اندھا ہنٹر کو اپنی کلائی میں لپیٹ رہاتھا اور ہر بل کے سا تھ عدنان کو آگے کی طرف کھسکنا ۔چا روں آدمیوں نے جب یہ دیکھا تو وہ خامو ش سے کھڑے نہ رہ سکے ۔ اُن میں سے بڑی تیزی سے بو ڑھے کی طرف بڑھا لیکن ابھی اُس کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ سا منے والے روشن دان سے ایک فا ئر ہو ا ۔گو لی ٹھیک اس کی پیشا نی پر بیٹھی وہ کسی قسم کی آواز نکا لے بغیر پیچھے کی طرف اُلٹ گیا ۔

’’عدنان ... دیکھا تم نے!‘‘ اندھے نے قہقہہ لگایا عدنان کے ہاتھ سے ہنٹر چھوٹ گیا۔ بقیہ تین آدمی  بد حواس ہو کر دروازے کی طرف بھاگے لیکن انہیں باہر جانے کا کوئی راستہ نہ ملا۔ ہر دروازے پر ایک ایک آدمی ریوالور ہو ئے کھڑا نظر آیا ۔

 

عدنان کی پیشانی پر پسینے کی بوند میں پھوٹ آئیں۔

’’ عدنان !‘‘اندھے کی تیز سرگوشی پھر کونچی ۔ ’’ میرے قریب آؤ!‘‘

عدنان بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ وہ تین آدمی بھی کھسک کر اُس کے قریب آگئے تھے۔

’’ عدنان کے ساتھیو!‘‘ اندھے نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ ’’ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ کرائے پر مہیا کئے گئے ہو! شاید تمہارا ایک ساتھی تم سے بچھڑ گیا۔ اب تم عدنان کو پکڑ کر میرے قریب لاؤ ورنہ تمہارا بھی یہی حشر ہوگا !‘‘

’’ نہیں کبھی نہیں !‘‘ عدنان بے بسی سے چیخا۔

’’لڑ کو ! تم نے سنانہیں میں کیا کہہ رہا ہوں عدنان کو  اِدھر لاؤ۔ میں تمہیں معاف کر دوں گا! “

 وہ تینوں اپنے کام کی اجرت پہلے ہی وصول کر چکے تھے اور پھر انہوں نے ابھی اپنے ایک ساتھی کا انجام بھی دیکھ لیا تھا۔ کسی طرح بھی بچ نکلنے کے امکانات نہیں تھے۔ ہر دروازے پر ایک مسلح آدمی نظر آرہا تھا اور کسی لمحے بھی اُن کی طرف اُٹھے ہوئے ریوالور آگ اُگل سکتے تھے۔ وہ بوکھلائے ہوئے کتّو ں کی طرح عدنان پر ٹوٹ پڑے اور عدنان ایک ڈوبتے ہوئے آدمی کی مانند دیوانہ وار ہاتھ پیر مارنے لگا۔ اس کے منہ سے خوفزدہ ہی آوازیں نکلنے لگی

تھیں۔

آخر کار کسی نہ کسی طرح اندھے کے ہاتھ عدنان کی گردن تک پہنچ ہی گئے ۔ عدنان کے حلق سے نکلتی ہوئی

آوازیں بند ہو گئیں ۔ کمرے میں گہری گہری سانسوں کے علاوہ اور کسی قسم کی آواز نہیں تھی ۔ ان تینوں کو اپنے سر

چکراتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے ۔ پھر عدنان کے مردہ جسم کے گرنے سے آواز پیدا ہوئی ۔ تینوں کے منہ سے سہمی سہمی سی چیخیں نکلیں اور پھر کمرے میں سنّا ٹا چھا گیا ۔

 

2

ہوٹل ڈی فرانس کے ایک کمرے میں ایک لڑکی مضطربا نہ انداز میں ٹہل رہی تھی۔ اُس نے رُک کر کلا ئی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا، ڈھائی بج  چکے تھے۔ اس کے چہرے سے الجھن  کا اظہار ہو رہاتھا ۔ اور  وہ چند لمحے ٹہلتی رہی پھر کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ راہ داری سنسان پڑی تھی ۔ آگے بڑھ کر اس نے ایک کمرے کے

دروازے پر دستک دی۔

دروازہ کھلنے میں دیر نہیں لگی۔

’’ اُوہ آپ ! ‘‘دروازے میں کھڑے ہوئے ایک آدمی نے کہا۔

’’ہاں میں ابھی تک ڈیڈی واپس نہیں آئے !‘‘

’’شاید صبح تک آجائیں !‘‘ آدمی بولا ۔

’’نہیں ۔ میں بہت پریشان ہوں ۔ تم سب میرے کمرے میں آؤ!‘‘

’’بہت بہتر !‘‘

 لڑکی پھر اپنے کمرے میں واپس آگئی۔ تھوڑی دیر بعد وہاں پانچ آدمی اور آگئے۔ ان میں دو انگریز تھے  اور ایک نیگر و ۔بقیہ دو صورت سے ہندوستانی ہی معلو م ہو تے تھے ۔

’’ مجھے خدشہ ہے!‘‘ لڑکی نے انگریزی میں کہا۔

’’ڈردمت بے بی!‘‘ ایک انگریز بولا ۔ ’’ باس فولاد کا بنا ہوا ہے ! ‘‘

’’کہیں وہ دھوکا نہ کھا ئیں ۔ میں انہیں کرائے کے آدمیوں سے کام لینے سے روک رہی تھی !‘‘

’’کوئی حرج نہیں بے بی ۔ تم سو جاؤ ڈ ر ومت!‘‘

 ’’ نہیں مسٹر ڈیگال ۔ ہم سب وہاں چلیں گے !‘‘

’’تمہاری مرضی !‘‘ ڈیگال نے شانوں کو جنبش دے کر کہا۔

’’تم گیراج سے کار نکالو! ‘‘لڑکی نے ایک ہندوستانی کی طرف مڑ کر کہا۔

’’پتہ نہیں یہاں کا کیا قاعدہ ہے !‘‘ہندوستانی بڑبڑایا۔’’ اتنی رات گئے گیراج کھل سکے گا یا نہیں !‘‘

’’اوہ  جاؤ!‘‘ لڑکی پیر پٹخ  کر بولی۔ وہ چلا گیا اور لڑ کی مضطر بانہ انداز میں بڑ بڑاتی رہی۔ ’’ڈیڈی نے غلط  طریقہ اختیار کیا ۔ آخر وہ اندھافٹ پاتھ پر بھیک کیوں مانگتا تھا!‘‘

’’بے بی!‘‘ ڈیگال ہوا ۔’’ وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ سی چکّر میں ہو!‘‘

’’اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تنہا نہ ہو!‘‘ لڑکی نے کہا ۔

’’ابھی تک ہمیں اس کے کسی ساتھی کا علم نہیں ہوسکا!‘‘

’’وعلم نہ ہونا اور بات ہے۔ ضروری نہیں کہ معاملات تمہارے علم ہی سے مطابقت رکھتے ہوں ۔ اس قسم کا

کو ئی آدمی  کبھی  تنہا نہیں رہ سکتا کیا وہ اندھانہیں  ہے !‘‘

’’ ہے تو لیکن آنکھ والوں سے بہتر ۔ وہ اپنی جانی بو جھی  جگہوں پر کار تک ڈرائیو کر سکتا ہے۔ اس نے ایک بار لندن جیسے  بھیڑ بھاڑ والے شہر میں چیرنگ  کر اس سے پکا ڈلی تک کار ڈرائیو کی تھی !‘‘

’’میں سن چکی ہوں ۔ لیکن مجھے یقین نہیں اور اگر یقین کر بھی لوں تو اسے ماننےن پر ہرگز تیار نہ ہوں گی کہ وہ

اندھا ہے !‘‘

’’ بے بی! وہ سو فیصدی اندھا ہے۔ لیکن اس کی کھال سانپ کی کھال سے بھی زیادہ حساس ہے ۔ تم دبے قدموں اس سے تیس گز کے فاصلے پر جاؤ ۔ اُسے تمہاری موجودگی کا نہ صرف احساس ہوگا بلکہ وہ تمہاری جنس تک سے

واقف ہوگا۔ وہ آواز پر نشانہ لگا تا ہے!‘‘

’’تب  میں اُسے آدمی کے بجائے خبیث کہوں گی اور تمہیں کیا کہوں کہ تم نے ڈیڈی کو تنہا جانے دیا !‘‘

’’ ہم مجبور تھے!‘‘ انگریز بولا۔ ’’ باس کی اسکیم یہی تھی اور تم جانتی ہو کہ وہ بعض اوقات کسی کا مشورہ نہیں قبول کر تے !‘‘

ہندوستانی نے واپس آکر تیاری کی اطلاع دی۔

تھوڑی دیر بعد ایک کار ہوٹل ڈی فرانس کی کمپاؤنڈ سے نکل کر سڑک پر مڑ رہی تھی پھر وہ  چیتھم روڈ پر چل پڑی۔

’’مسٹر ڈیگال !‘‘اندر بیٹھی ہوئی لڑکی نے انگریز کو مخاطب کیا۔

’’ہاں بے بی ...واقعی تم بہت پریشان ہو!‘‘

’’ اگر ڈیڈی کو کوئی حادثہ پیش آ گیا تو ؟“

” ہم ابھی زندہ ہیں ! ‘‘ ڈیگال بولا ۔

 کچھ دیر بعد کار اُسی عمارت کے سامنے رُک گئی جہاں تھوڑی ہی دیر قبل ایک خونی ڈرامہ کھیلا گیا تھا۔

’’ بے بی تم بقیہ آدمیوں کے ساتھ یہیں ٹھہرو میں اندر جاتا ہوں !‘‘ ڈیگال نے کہا اور انہیں باہر چھوڑ کر عمارت کے اندر چلا گیا۔ لڑکی کے لئے وہ صبر آزما لمحات تھے۔ واپسی پر ڈیگال کی رفتار بہت تیز تھی لیکن اُس نے پرسکون لہجہ  کہا ۔’’ عمارت ویران ہے۔ وہاں کوئی بھی نہیں !‘‘

 

3

ڈیگال

 

یہ آٹھو اں ہو ٹل تھا اور اب سر جنٹ حمید پا گل ہو جا نے کی حد تک بو ر ہو چکا تھا ۔اس کا بس چلتا تو قاسم کی  بوٹیاں اُڑادیتا۔ بات یہ ہوئی تھی کہ وہ سرشام ہی ایک ہوٹل میں کھانا کھانے بیٹھے تھے۔ قاسم  کی خوراک معلوم !ظاہر ہے کہ  وہ بکرے کی ایک پو ری ران اور ایک مرغ مسلّم کا نا شتہ  کر نے والا آدمی تھا ۔ جب اُس نے ہو ٹل میں بھی گھر ہی کی سی بے تکلفی کا مظاہرہ شروع کیا تو حمید کو اختلاج ہو نے لگا ۔

’’ قاسم ! اب بس کرو!‘‘

’’واہ۔ تو کیا بھوکا مروں !‘‘

’’دیکھو ! یہاں کے سارے ویٹر مجھے پہچانتے ہیں !‘‘

’’مجھے بھی پہچان جائیں گے ۔ فکر نہ کرو!‘‘ قاسم سنجیدگی سے بولی۔ ’’ میں ٹی بی کا مریض توہو ں نہیں کہ دس  

پانچ چپاتیوں پر قناعت کر لوں !‘‘

’’اچھا تو یہاں بس کرو ۔ کسی دوسرے ہوٹل میں !‘‘

’’واہ کیا میں الّو ہوں… مذاق مت کرو!‘‘

’’میں تمہارے سر پر پلیٹ توڑ دوں گا !‘‘

’’مگر خالی پلیٹ میرا سر کافی مضبوط ہے!‘‘

’’ اچھا تو میں جا رہا ہوں !‘‘ حمید نے کہا۔

’’یہ نہیں ہوسکتا۔ زبردستی کرو گے تو دبوچ لوں گا !‘‘

حمید کی روح فنا ہوگئی ۔ بہر حال اس نے کسی نہ کسی طرح قاسم کو اپنی تجویز پرعمل کرنے پر آمادہ کرالیا۔

 تو یہ آٹھواں ہوٹل تھا۔ قاسم اب تک بیتس روٹیاں کھا چکا تھا۔ ممکن ہےحمید   کو پریشان کرنے کے لئےوہ معمول  سے زیادہ کھا گیا ہو ۔ بتیس روٹیاں بہت ہوتی ہیں۔

یہ آٹھواں ہوٹل ... ہوٹل ڈی فرانس تھا۔

قاسم کھانے میں مشغول تھا اور حمید شام کا اخبار دیکھ رہا تھا۔ اس کی توجہ در اصل ایک ایسی خیر نے اپنی طرف مبذول کرالی تھی جو اُس کے لئے بھی عملی طور پر پر یشانی کا با عث ہو سکتی تھی ۔ پرنسٹن کے علاقے کی ایک عما رت میں دو لا شیں پا ئی گئی تھیں ۔  اُن میں اُس آدمی کی بھی لاش تھی جس نے تین دن قبل وہ عمارت کرائےحاصل کی تھی ۔  آگے چل کر اُن دونوں کا حلیہ تھا۔ حمید نے بھنّا کر اخبار میز پر پٹخ  دیا اور قاسم کو اس طرح گھورنے لگا جیسے   یہ قتل اُسی کی

ذات سے تعلق رکھتے ہوں ۔

’’اب کی ہوٹل میں چلو گے حمید بھائی!‘‘  قاسم نے مسکرا کر پوچھا۔

’’اب میں تمہیں دفن کر دوں گا !‘‘

’’ بس دو اسٹیک اور کھاؤں گا !‘‘قاسم منہ چلاتا ہوا بولا ۔ ’’ تم کیوں خواہ مخواہ بور ہو رہے ہو۔ کتنی فل

فلو ٹیا ں ہیں آج یہاں !‘‘

’’ ارے اُو آدم خور میری تو ساری تفریح بر باد ہوگئی!‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

’’دو لاشیں !‘‘

’’ہائیں !  کہاں !‘‘

قاسم کرسی سے تھوڑ اسا اُٹھ کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ منہ کا نوالہ نکل پڑنے کے قریب تھا۔

’’ تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا !‘‘ حمید جھنجھلا کر بولا ۔ ’’ بیٹھو !‘‘

’’ارے تو کھانے کیوں دوڑ رہے ہو۔ میرے ٹھینگے  پر ہیں تمہاری لاشیں واشین سالیاں !‘‘

حمید  کچھ نہ بولا ۔ اخبار کی خبر اس کے ذہن میں کچوکے لگا رہی تھی ۔ دو لاشیں نتیجہ معلوم ۔ آج کل ڈی۔ ایس ۔پی سٹی  سے بھی گاڑھی چَھن رہی ہے۔ اُس نے فریدی کو جائے واردات پر ضرور بلایا ہوگا پھر بس شامت ۔  

حمید آج آفس نہیں گیا تھا۔ صبح ہی سے قاسم کے ساتھ حماقتوں کا پروگرام جاری تھا۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ

واپسی پر اُسے واردات سے متعلق فریدی کا لکچر ہضم کرنا پڑے گا۔ ان دنوں حمید پر بُری طرح کا ہلی مسلط تھی۔ تفتیش کے نام ہی سے اس کی جان نکلنے لگتی تھی۔

قاسم کھا نا ختم کر کے میز پر طبلہ بجانے لگا۔ پھر اپنا بھاڑ سا منہ کھول کر ایک لمبی سی جماہی لی۔

’’ حمید بھائی !‘‘ اس نے آگے جُھک کر آہستہ سے کہا۔ ’’ کیا سچ   مچ  آدمی کی روح سے محبت ہوتی ہے!‘‘

’’اپنے والد صاحب سے پوچھنا!‘‘

’’اوہ وہ بیچارے کیا بتا ئیں گے۔ مولوی ٹائپ کے آدمی ہیں !‘‘ قاسم نے منہ بنا کر کہا۔

حمید جھنجھلا کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر انسپکٹر جگدیش پر پڑی جو دو کانسٹیبلوں کے ساتھ ہال میں داخل ہورہا تھا۔ جگدیش نے بھی حمید کو دیکھ لیا تھا اور وہ سیدھا اُسی کی میز کی طرف آیا۔

’’اوہ تو آپ پہلے ہی سے موجود ہیں !‘‘ جگدیش حمید کو مخاطب کر کے بولا ۔

’’کیا؟ کیا بات ہے!‘‘

’’بات یہ ہے کہ وہ یہیں مقیم تھا !‘‘

’’کون؟ کس کی بات کر رہے ہو!‘‘

’’عدنان جس کی لاش ...!‘‘

’’بس بس سمجھ گیا! ‘‘ حمید ہا تھ اٹھا کر بولا ۔

’’ میں نے ابھی اخبار میں دیکھا ہے۔ مگر یہ نام مقامی نہیں معلوم ہوتا !‘‘

’’ وہ ترک تھا۔ جنوبی افریقہ کا ایک بہت بڑا تا جر۔ اس کی لڑکی اور کچھ دوسرے لوگ یہیں ٹھہرے ہوئے ہیں!‘‘

لڑکی کے نام پر حمید اپنا داہنا گال کھجانے لگا۔

’’بیٹھ جا ؤ!‘‘  اس نے کہا۔’’ اخبار میں کسی گمنام او کی لاش کے تعلق تھا۔ جس نے دو عمارت کرا ئے پر  لی تھی۔ مالک مکان نے اپنا شبہ ظاہر کیا ہے کہ اُس نے اپنا صحیح نام نہیں بتایا تھا!‘‘

’’ٹھیک ہے!‘‘ جگدیش بیٹھتا ہوا بولا ۔ ’’ اس کی جیب میں کچھ ایسے کاغذات ملے جنہوں نے ہمیں فا  رن آفس   سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ وہاں اس کی اصلیت معلوم ہوئی۔ وہ کسی تجارتی سلسلے میں یہاں آیا تھا  لیکن اس کے سا تھ ایک مقامی آدی کی بھی لاش پائی گئی ہے اور وہ ایک مشہور بدمعاش پہلو تھا۔ پنٹو کی پیشانی پرگولی لگی ہے۔ عدنان کو شائد گلا گھونٹ کر مارا گیا ہے!“

’’ہز ہائی نس ہارڈ اِسٹون )سخت پتھر )بھی موقعے پر موجود تھے یا نہیں ! ‘‘ حمید نے پوچھا۔

 ’’ کون؟‘‘

’’ارے تم ہارڈ اِسٹون کو نہیں جانتے ۔ یہ مسٹر احمد کمال فریدی کا انگریزی ترجمہ ہے !‘‘

 جگدیش ہنسنے  لگا ۔’’ ڈی۔ ایس۔ پی صاحب نے انہیں خاص طور سے بلایا تھا !‘‘

’’ یہ بہت بُرا ہوا کہ اِن دونوں میں صلح ہو گئی !‘‘ حمید نے سنجیدگی سے کہا۔

’’کچھ بھی ہو حمید صاحب۔ یہ معاملہ پیچیدہ معلوم ہوتا ہے!‘‘ جگدیش بولا ۔’’ عدنان جب یہاں ٹھہرا تھا تو  ایک دوسری عمارت کرائے پر حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی اور اگر اس نے ایسا کیا تھا تو اس کی اطلاع فارن آفس کو کیوں نہیں دی ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایک مقامی بدمعاش کی لاش کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ اور پھر اس نے وہ عمارت اپنا صحیح نام ظاہر کر کے کیوں نہیں حاصل کی تھی !‘‘

’’ہے تو کچھ ایسا ہی!‘‘ حمید پائپ میں تمبا کو بھرتا ہوا بولا ۔ ” کیا تمہیں یقین ہے کہ اُس کے دوسرے ساتھی  اب بھی یہیں مقیم ہیں ؟‘‘

’’قطعی ! وہ یہیں ہوں گے۔ ابھی تک کسی نے لاش کا مطالبہ نہیں کیا !‘‘ جگدیش جیب سے نوٹ بک نکالتا ہوا  بولا پھر اس نے کچھ صفحات اُلٹنے کے بعد کہا ۔’’ ایک تو عدنان کی لڑکی فوزیہ ہے!‘‘

’’فوزیہ !‘‘ قاسم بڑبڑایا ۔’’  نہیں فوجیہ ہوگا فوج سے فوجیہ تُرک عورتیں بڑی دھا کڑ ہوتی ہیں! ‘‘

’’ نہیں جناب فوزیہ!‘‘ جگدیش نے کہا پھر حمید سے مخاطب ہو گیا۔ ’’دوسرا اس کا سکریٹری ڈیگال ہے۔یہ  انگریز ہے۔ دوباڈی گارڈ ہیں ۔ ایک لیو کاس اور دوسراٹو مبا۔ یہ نیگرو ہے۔ لیو کا بھی انگریز ہے۔ دو ہندوستانی ہیں۔

لیکن  افریقہ کے باشندے امر سنگھ اور دولت رام !‘‘

’’ پھر تو اب تم کیا کرو گے ؟‘‘

’’سوال بڑا ٹیڑھا ہے!‘‘ جگدیش مسکرایا ۔’’ خیر اٹھئے ۔ ہوسکتا ہے کہ لڑکی آپ کے ٹیسٹ کی ہو!‘‘

قاسم نے بڑے زور سے قہقہہ لگایا اور حمید دانت پیش کر رہ گیا۔

’’ آؤ!‘‘ حمید اٹھتا ہوا بولا۔

’’میں بھی !‘‘ قاسم نے دانت نکال کر کہا۔

’’ نہیں ! تم میرا انتظار کرو!‘‘

اس جواب پر قاسم کا حلیہ قابل دید تھا ۔ ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے کسی نے سر بازار چیت رسید کر دی ۔وہ ہنسا تو ضرور مگر یہ ہنسی شر مندگی کا رد عمل تھی ۔

حمید نے کا ؤ نٹر کلر ک سے عدنان کے کمروں کے نمبر معلو م کئے اور پھر وہ لو گ  آگے بڑھ گئے ۔کمرے اوپری منزل پر تھے ۔

انہو ں نے پہلے جس کمرے کے دروازے پر دستک دی وہ اندر سے بند تھا ۔تھو ڑی دیر بعد کسی نے دروازہ کھو لا ۔اندر گہرے نیلے رنگ کی روشنی تھی۔اس لئے اس کی صورت صاف نہیں نظر آئی ۔

’’ کیا مس فوزیہ موجود ہیں ! ‘‘حمید نے انگریزی میں پوچھا۔

’’ کیوں ؟‘‘ لہجہ کسی انگریز کا تھا۔

’’پولیس ۔ ہم کو اُن سے یا مسٹر عدنان کے سکریٹری سے گفتگو کرنی ہے!‘‘

’’کیا بات ہے؟‘‘ مخاطب نے کہا اور کمرے کا دوسرابلب روشن کر دیا۔ ایک انگریز شب خوابی کے لبادے میں ان کے سامنے کھڑا تھا۔

’’مسٹر ڈیگال کہاں ہیں ؟‘‘

’’میں ہی ہوں۔ کیا بات ہے۔ اندر آ جائیے!‘‘

کمرے میں ڈیگال کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ حمید نے اندر داخل ہو کر چاروں طرف متجسسانہ نظریں ڈالیں

اور پھر ڈیگال سے مخاطب ہو گیا۔

’’مسٹر عدنان پچھلی رات کو کہاں تھے؟‘‘

’’ کیوں؟‘‘

’’مسٹر ڈیگال مجھے افسوس ہے کہ اس وقت ہم صرف سوال ہی کرنا پسند کریں گے ! ‘‘حمید نے خشک لہجے میں

کہا ۔

ڈیگال چند لمحے اُسے تحّیر آمیز نظروں سے دیکھتا رہا پھر بولا۔

’’وہ اپنے کسی مقامی دوست کے ساتھ تھے اور آج رات بھی اس کے ساتھ بسر کریں گے!‘‘

’’دوست کا نام اور پتہ !‘‘

’’یہ انہوں نے نہیں بتایا تھا !‘‘ ڈیگال ایک لمحے تک خاموش رہا پھر بولا۔

’’لیکن آپ کل دس بجے دن کو ان سے نہیں مل سکتے ہیں !‘‘

’’مجھے افسوس ہے کہ شاید کبھی اس کی نوبت نہ آئے !‘‘

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ؟‘‘

’’انہیں کسی نے گلا گھونٹ کر مار ڈالا !‘‘

’’کیا!‘‘ ڈیگال چیخ پڑا اور یہ چیخ بے ساختہ قسم کی تھی۔ اس پر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ڈیگال پچھلی رات

کو خود اپنی آنکھوں سے عدنان کی لاش دیکھ چکا ہوگا۔

’’جی ہاں مسں فوزیہ کہاں ہیں ! ‘‘

’’نہیں نہیں!‘‘ ڈیگال مضطر با نہ انداز میں بولا۔ ” آپ بے بی کو اتنی بُری خبر اس طرح نہیں سناسکتے۔لاش کہاں ہے کہاں ملی تھی مجھے بتا یئے اوہ میرے خدا نا ممکن نا ممکن !‘‘

’’آپ کے بقیہ ساتھی پچھلی رات سے اب تک کہاں رہے ہیں ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’یہاں میرے ساتھ !‘‘

’’کل رات آپ لوگ کہیں نہیں گئے !‘‘ جگدیش نے پوچھا۔

’’نہیں!‘‘

’’لیکن... چوکیدار ...!‘‘

’’ٹھہریے!‘‘ ڈیگال بات کاٹ کر بولا۔’’ یاد آ گیا۔ ہم تقریبًا دو بجے کچھ دیر کے لئے باہر گئے تھے !‘‘

’’ خوب ! کیا کسی خاص ضرورت کے تحت ؟ ‘‘حمید نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔

’’اوه . ..بات یہ ہے کہ بے بی بہت ضدی لڑکی ہے۔ اچانک رات کو اُس پر تفریح کا دورہ پڑا!‘‘

’’ کیا قرنطنیہ نے آپ لوگوں کے ٹیکے  نہیں لگائے تھے ۔ ہمارے یہاں یہ مرض نہیں پایا جاتا !‘‘

’’بس وہ ضدی ! کیا کہا جائے۔ لیکن یہ قتل ۔ مجھے یقین نہیں آتا ۔ یہاں اُن کا کون دشمن ہو سکتا ہے!‘‘

’’ کوئی بھی نہیں !‘‘ حمید نے سر ہلا کر کہا۔ ’’ میرا خیال ہے کہ وہ اپنے کسی دشمن کو اپنے ساتھ ہی لائے تھے !‘‘

’’نا ممکن جناب ! ‘‘ڈیگال کے لہجے میں غصہ تھا۔’’ ہمارے سب آدمی معتبر ہیں!‘‘

’’ تو آپ پچھلی رات کہاں کہاں گئے تھے؟“

’’ہمیں یہاں کی جگہوں کے نام تو ابھی معلوم نہیں ۔ اِدھر اُدھر چکر لگانے کے بعد ہم پھر واپس آگئے تھے۔

شاید آدھ گھنٹہ باہر رہے ہوں !‘‘

’’پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق دونوں کی موتیں دو اور چار بجے کے درمیان میں ہوئی ہیں !‘‘ جگدیش نے حمید  سے اُردو میں کہا۔’’ اور یہ ایک ضدی لڑکی کی تفریح کا افسانہ سنا رہا ہے۔ دو بجے رات کی تفریح ۔ چوکیدار کابیان ہے کہ یہ سب لڑکی سمیت با ہر گئے تھے !‘‘

’’ یار مجھے تو یہ لڑکی بھی نا بالغ ہی معلوم ہوتی ہے !‘‘حمید نے کہا پھر انگریزی میں ڈیگال سے پوچھا۔

’’میں آپ سے سے استد عا کر تا ہوں !‘‘ ڈیگا ل نے ملتجا نہ انداز میں کہا ۔’’بے بی کو فی الحا ل اس معاملے سے دور ہی رکھئے ۔ویسے میں ہر حکم کی تعمیل کے لئے تیا ر ہو ں !‘‘

’’آپ کو ہمارے ساتھ کو تو الی تک چلنا ہو گا!‘‘ جگدیش نے کہا۔’’ تا کہ آپ لاش کو شناخت کر سکیں !‘‘

’’ میں تیار ہوں!‘‘ ڈیگال بولا ۔’’ میں بے بی کو رفتہ رفتہ بتاؤں گا۔ ورنہ ممکن ہے کہ وہ صدمے ہی سے مرجائے !‘‘

’’ٹھیک ہے !‘‘ حمید نے اُردو میں کہا۔ ’’ تم اسے کو تو الی لے جاؤ۔ بقیہ میں دیکھ لوں گا!‘‘

پھر جیسے ہی حمید دروازے کی طرف مُڑا۔ اس نے محسوس کیا کہ کوئی تیزی سے دروازے کے قریب سے ہٹا ۔

ہے کیونکہ راہ داری میں اُسے ایک لمبا سا سایہ دکھائی دیا تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ ایک آدمی راہ داری کے آخری سرے پر دوسری طرف مڑتا ہوا نظر آیا۔ حمید سوچنے لگا ممکن ہے اُسے دھوکا ہوا ہو۔ ویسے پہلے اسے خیال ہوا تھا کہ شاید کسی نے باہر سے اُن کی گفتگو کی سننے کوشش کی  تھی۔

ڈیگال جلد ہی تیار ہو گیا.. . اور وہ سب نیچے چلے آئے ۔ قاسم اُسی میز پر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ حمید پھر وہیں آبیٹھا۔

جگدیش اور اس کے ساتھی ڈیگال سمیت باہر چلے گئے ۔ قاسم حمید کی آہٹ پر چونک پڑا تھا۔ اس نے آگے جُھک

کر آہستہ سے پوچھا۔ ’’حمید بھائی کیسی ہے… اَلّا قسم میں نے آج تک کوئی ترک لونڈیا  نہیں دیکھی ۔ ویسے سنتا ہوں کہ

بڑی تگڑی ہوتی ہیں !‘‘

حمید  کچھ نہ بولا۔ وہ دوبارہ اوپر جانے کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ان لوگوں نے سات کمرے لے رکھے تھے۔ فوز یہ انہیں میں سے کسی ایک میں ہوگی ۔

’’قاسم !‘‘ اُس نے کہا۔’’ اب تم گھر جاؤ۔ میرے لئے ایک سرکاری کام نکل آیا ہے۔ شاید مجھے رات بھر یہاں بیٹھنا پڑے !“

’’میں ہر گز نہیں جاؤں گا۔ اُلو بناتے ہو۔ خود چھلکُّرّے اَرگُلچھرے اڑاؤ کے ضرور ۔لونڈ یا زوردارہے!‘‘

’’ابے کوئی لونڈ یا وونڈ یا نہیں ۔ آٹھ سال کی بے بی ہے۔ ہر کس و ناکس سے ٹافیوں کے لئے ضد کرتی ہے۔ نہ دو تو نوچتی کھولتی ہے وغیرہ وغیرہ!‘‘

’’ لاحول ولا قوة !‘‘ قاسم بُرا سا منہ بنا کر بولا ۔ ’’ تب یہ جگدیش سالا چُغد ہے کیا ! ‘‘

’’نہیں چغدکا سا لا ہے ۔اب تم جا ؤ ۔ہو سکتا ہے کہ یہاں رُکنے پر تمہیں میرے سا تھ شراب بھی پینی پڑے!‘‘

’’نہیں بس !معاف کر و۔میں چلا ۔ابھی میری پیٹھ پر سیا ہ (سیا ہ نشان کیسے تھے ؟ زیر نظر جا سوسی ادب سیر یز کا خاص نمبر ’’جنگل کی آگ ‘‘ ملا حظہ فر ما یئے۔)مو جو د ہیں ۔‘‘

4

خوفناک اندھا

 

فریدی نے اپنے مخاطب کو گھور کر دیکھا۔ وہ بھدّے خد و خال کا ایک مضبوط جسم والا جوان تھا۔

 ’’ تم کچھ چھپا رہے ہو؟“ فریدی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔

’’یقین کیجئے ! میں کچھ نہیں جانتا۔ جو کچھ مجھے معلوم تھا میں نے پولیس کو بتا دیا!‘‘

’’ مجھ میں اور پولیس میں فرق ہے۔ اس لئے تم مجھے کچھ اور بھی بتاؤ گے !‘‘

’’ میں اب کیا بتاؤں ۔ بڑی مصیبت میں پھنس گیا۔ آخر آپ کیا جاننان چاہتے ہیں؟“

’’تم لوگوں کی رسائی عدن تک کیسے ہوئی تھی ؟‘‘

’’میں کسی عدنان کو نہیں جانتا۔ پنٹو  سے میری دوستی ضرور تھی لیکن میں اس کے کسی کام میں حصہ نہیں لیتا تھا !‘‘

’’سفید جھوٹ !‘‘ فریدی نے سگار سلگاتے ہوئے کہا۔ ’’ کل رات تم پنٹو کے ساتھ تھے۔ تم چاروں نےسَن سِٹ بار میں شراب پی ۔ بِے وقوف آدمی یہ نہ بھولو کہ کل تم لوگ ایک رولس رائیس کار میں تھے۔ تم جیسے لوگوں کوکسی رولس رائیس کار میں بیٹھنا بجائے خود ایک بہت بڑا اشتہار ہے اور پھر یہاں کے بدمعاشوں کی نقل و حرکت مجھ سے چھپی نہیں رہتی ۔ چلو اُگل دو۔ میں بقیہ دو آدمیوں سے زیادہ تمہیں معتبر سمجھتا ہوں۔ وہ کار کس کی تھی؟“

 مخاطب کا چہرہ اُتر گیا۔

’’ہاں ہاں کہو!‘‘ فریدی نرم لہجے میں بولا۔

’’مجھے نہیں معلوم ۔ دیکھئے ایک وجہ سے میں پولیس سے جھوٹ بولا تھا۔ کیا آپ میری گردن پھنسوادیں گے !‘‘

’’حالات پر منحصر ہے!‘‘

’’آپ جانتے ہیں کہ پنٹو  ہی ہمارا اسرغنہ تھا !“

’’میں جانتا ہوں ... آگے کہو!‘ ‘فریدی گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا ۔

’’پنٹو   ہی نے عدنان سے معاملہ طے کیا تھا۔ بات اتنی تھی کہ ہمیں ایک اندھے فقیر کو فُٹ پاتھ سے اٹھا کر اُس عمارت میں پہنچا نا تھا۔ اس کے لئے ہمیں چار ہزار ملے تھے!“

’’کیا ؟‘‘ فر یدی تحیر آمیز انداز میں آگے کی طرف جھک گیا ۔

’’کسی کو یقین نہیں آئے گا !‘‘ مخاطب نے کہا ۔’’اسی لئے میں نے پو لیس کو کچھ نہیں بتا یا تھا ۔ لیکن آپ سے پا ر پا نا مشکل ہے ۔شا ید آپ بھی یقین نہ کر یں ۔بہر حال میں آپ کو سب کچھ بتا دوں گا !‘‘

او ر پھر اُس نے اندھے پر قابو پا نے اور پنٹو کے قتل تک کے واقعات دہرادیئے ۔وہ کچھ دیر کے لئے رُکا ۔

شا ید وہ عدنان کا انجام بتا تے ہو ئے ہچکچا رہا تھا ۔کیو نکہ خود اس کے سا تھیو ں نے عد نان  کو گھسیٹ کر اندھے تک پہنچا یا تھا ۔

’’ہوں ! ‘‘ فریدی اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا ۔ ’’ اور عدنان کا کیا ہوا ؟ ‘‘

’’ اند ھے نے اُس کا گلا گھونٹ دیا !‘‘

’’اور اس نے تم تینو ں سے کو ئی   تعرض نہیں کیا ... کیوں ؟‘‘

’’کچھ نہیں ! اس کے بعد انہوں نے ہمیں عمارت سے نکال دیا ! ‘‘

’’اور اس رولس رائیس کار کا کیا ہوا۔ وہ کس کی تھی ؟“

’’ہمیں نہیں معلوم ۔ عدنان نے کہیں سے مہیا کی تھی ۔ ہم تو اس کے بعد سر پر پیر رکھ کر بھاگے تھے !‘‘

’’تم اب بھی کچھ چھپا رہے ہو!‘‘ فریدی خشک لہجے میں بولا ۔

’’اوہ ٹھیک یاد آیا ... میں بھول ہی گیا تھا۔ عدنان نے اندھے سے کہا تھا کہ مجھے نور جہاں کی ضرورت ہے!‘‘

 ’’ نور جہاں !‘‘ فریدی آہستہ سے بولا ۔’’ کوئی اور بات !‘‘

’’نہیں ... اس کے بعد پھر کوئی گفتگو نہیں ہوئی !‘‘

 کچھ دیر خاموشی رہی۔ فریدی اُسے ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا ... بالآخر اُس نے پوچھا۔

’’ کچھ اور !‘‘

’’اور کچھ نہیں ۔ بس یہی غنیمت ہے کہ اپنی جانیں بچ گئیں۔ کیا آپ مجھے پولیس کے حوالے کر دیں گے !‘‘

’’ نہیں.. . لیکن اس وعدے پر کہ تم شہر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گے!‘‘

’’ آپ یقین کیجئے کہ میں آپ کے حکم کا پابند رہوں گا لیکن دوسروں کی ذمہ داری نہیں لے سکتا !‘‘

’’ انہیں کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ انہیں یقین دلاتے رہو کہ پولیس کو کچھ نہیں معلوم ہو سکا !‘‘

’’میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں !‘‘

’’ ہوں !‘‘ فریدی اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا ۔ ’’ لیکن تم اب بھی کچھ چھپا رہے ہو!“

’’یقین کیجئے اَرر!‘‘

’’ نہیں ٹھہرو تمہاری داہنی کلائی پر چاندی کا ایک تعویذ ہوا کرتا تھا !‘‘

’’جی ہا ں جی ہاں میرا خیال  ہے کہ وہ پچھلی رات اندھے کو اُٹھا نے کے سلسلے میں کہیں گر گیا !‘‘

فریدی نے جیب سے چاندی کا ایک تعویذ نکالا جس کے دونوں سروں پر چاندی ہی کی زنجیر یں لٹک رہی تھیں۔

’’جی ہاں یہی ہے !‘‘ اس نے کہا۔

’’  لیکن یہ مجھے کسی فٹ پاتھ پر نہیں ملا !‘‘

’’تو پھرا اُسی عمارت میں ملا ہو گا !‘‘

’’یہ عدنان کے گریبان میں اُلجھا ہوا تھا… کیوں ؟... میں اس کا جواب چاہتا ہوں !‘‘

ایک بار پھر اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ آنکھوں سے خوف جھا نکنے   لگا تھا۔

’’وہ دیکھئے آپ خود بتائیے ہم پر چاروں طرف سے پستول اُٹھے ہوئے تھے ۔پنٹو   کا انجام  دیکھ ہی چکے تھے پھر !‘‘

’’وہ خاموش ہو گیا۔ فریدی کچھ نہ بولا۔ البتہ اب بھی اُس کی نظریں استفہامیہ انداز میں اس کی طرف اٹھی ہو ئی تھیں ۔

’’اندھے نے کہا !‘‘ وہ کچھ دیر بعد بولا۔ ’’ اگر ہم عدنان کو پکڑ کر اس کے قریب نہ لے گئے تو ہم بھی  پنٹو کے پیچھے روانہ کر دیے جائیں گے ۔ مجبوراً ہمیں عدنان کو کھینچ کر اُس کے قریب لے جانا پڑا۔ زندگی سب کو  عزیز ہو تی ہے !‘‘

’’خیر ... دوسری بات ! ‘‘فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔’’ اندھے نے تمہاری آزادی کے لئے کوئی شرط نہیں پیش  کی تھی !‘‘

’’جی نہیں قطعی نہیں ... انہوں نے دھکّے دے کر ہمیں عمارت سے باہر نکال دیا تھا !‘‘

’’اگر تم اُسے اب کہیں دیکھو تو پہچان جاؤ گے!‘‘

’’کہہ نہیں سکتا ہمیں اس کی شکل دیکھنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے کہ پہچان ہی لوں لیکن یقین نہیں ہے۔مجھے اس کی شکل یاد نہیں !‘‘

’’خیر ہم دیکھیں گے کہ تمہاری داستان کا کتنا حصہ درست ہے۔ اب  تم جا سکتے ہو لیکن  اپنے وعدے پر قا ئم ۔

رہنا ۔ ورنہ پھر میں کچھ نہ کر سکوں گا !‘‘

5

سر جنٹ حمید نے یکے بعد دیگرے عدنان کے سارے کمرے کھلوائے لیکن کسی میں بھی کوئی لڑکی نہ ملی ۔ انگریز، نیگرو اور دونوں ہندوستانی موجود تھے ۔ انہوں ن بتایا کہ چند منٹ قبل وہ اپنے کمرے میں موجود تھی ۔ ان لو گو

نے بھی اُس کی عدم موجود گی پر تشویش ظاہر کی کیونکہ اُن کے بیان کے مطابق فوزیہ اُن میں سے کسی کو ساتھ لئے  بغیر ڈائننگ ہال تک بھی نہیں جاتی تھی پھر حمید نے ان کے ساتھ ہوٹل کا کونا کونا چھان ڈالا لیکن فوزیہ نہ ملی ۔ پھر و  ہ گیراج میں آئے لیکن ان کی کار بھی موجود تھی ۔

’’ کیا مصیبت ہے !‘‘لیوکاس بڑبڑایا۔ ’’مسٹر عدنان کا حکم تھا کہ بے بی تنہا باہر نہ جائے ۔ اب وہ آ کر مجھ سے جواب طلب کریں گے !‘‘

’’کون ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’مسٹر عد نا ن !‘‘

’’کیا واقعی تمہیں اُمید ہے کہ  وہ واپس  آئیں گے ؟‘‘

’’ مسٹر ڈیگال اُن کی لاش شناخت کرنے کے لئے گئے ہیں !‘‘

’’لا ش !‘‘ سبھو ں منہ سے بیک وقت نکلا۔

’’ہا ں ! پچھلی رات کسی نے  اُ نہیں ما ر ڈالا !‘‘

’’کیا بکواس ہے؟‘‘ لیو کاس بھنویں چڑھا کر بولا ۔

’’ کیا تمہیں بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں !‘‘ حمید نے تیز لہجے میں کہا۔

’’ تم ایک ذمہ دار افسر گفتگو کر رہے ہو!‘‘

 لیو کاس کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ڈیگال واپس آگیا۔

’’ کیوں ؟‘‘ حمید نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔

اس کے دوسرے ساتھیوں نے اُس پر سوالات کی بوچھار شروع کر دی۔ البتہ نہ جانے کیوں حمید کو لیو کاس کا رویہ کچھ غیر فطری سا معلوم ہو رہا تھا اس بڑے بھونڈے اور تصنع آمیز لہجے میں ڈیگال کو فوزیہ کی گمشدگی  کے متعلق بتایا۔

حمید کو شروع ہی سے اس معاملے میں کوئی چیز کھٹک رہی تھی اور پھر اُس کے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ وہ پچھلی  رات کو دو بجے کہیں باہر گئے تھے اور اس کے لئے انہوں نے ایک عذر لنگ پیش کیا تھا۔ اس عذر لنگ کا تعلق فوزیہ کی ذات سے تھا اور اب فوزیہ اچانک پر اسرار طریقے پر غائب ہوگئی تھی ۔ اس سے کیا سمجھا جائے ۔

 حمید نے سوچا کہ کیوں نہ فریدی کو فون کر دیا جائے لیکن وہ وہاں سے ہٹنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ

اگر فوزیہ کی گمشدگی میں انہیں لوگوں کا ہاتھ ہے تو وہ ابھی اُسے ہوٹل کے باہر نہ لے جاپائے ہوں گے ۔ ہوسکتا ہے کہ

اس کی عدم موجودگی میں انہیں اس کا موقع مل جائے ۔

ڈیگا ل اپنے سا تھیو ں پر بُری طرح برس رہا تھا ۔حتٰی کہ اس نے انہیں نمک تک کہہ دیا جس پر ینگر و کو غصہ آگیا اور وہ اُسے مارنے کے لئے چھپٹا ۔ دوسرے لوگ فورا درمیان میں آگئے ۔

            اسی دور ان میں حمید کو کا ر یڈ ر کے سر ے  پر فر یدی  دیا  جو  ایک  ویٹر کے سا تھ اُسی طر ف  آرہا تھا ۔

’’او ہو!تو تم یہاں ہو!‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔

’’ میں صبح ہی سے اس چکر میں ہوں !‘‘ حمید نے کہا۔

’’بکو اس مت کرو ؟ مجھے معلوم ہے کہ تم بہت سچے ہو    یہاں کیا ہورہا ہے؟‘‘

 حمید نے مختصر اًما جرا بیان کر دیا۔ فریدی چند لمحے خاموش رہا پھر آہستہ سے بولا ۔ ’’ میرا خیال ہے کہ وہ ابھی

ہوٹل ہی میں مل جائے گی !‘‘

’’ میں بھی یہی سوچ رہا تھا ۔ اگر اُس کی گمشدگی میں ان لوگوں کا ہاتھ ہے تو یہ ابھی اُسے باہر نہ لے جا پا ئے  ہوں گے !‘‘

ڈیگال اب بھی اپنے ساتھیوں سے اُلجھا ہوا تھا۔ حمید نے فریدی کو بتایا کہ وہ عدنان کا سکر یٹری ہے۔

 فریدی نے آگے بڑھ کر اُن سے اپنا تعارف کرایا اور پھر ڈیگال کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’ مجھے ابھی معلوم ہوا

ہے کہ لڑکی بھی غائب ہوگئی !‘‘

’’ جی ہاں مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے چند نالائقوں پر اعتماد کرلیا۔ میں لاش کی شناخت کے لئے پو لیس  اسٹیشن چلا گیا تھا !‘‘

’’کیا وہ اپنے کمرے ہی میں تھی !‘‘ فریدی نے ایک ایک کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا جملہ پورا کیا ۔

 جواب اثبات میں ملا…. لیکن انہوں نے اُسے اس کے کمرے سے برآمد ہوتے نہیں دیکھا تھا۔

’’ میں اس کا کمرہ دیکھنا چاہتا ہوں !‘‘ فریدی نے کہا۔

’’آیئے  ! ‘‘ڈیگال اُن کے آگے ہولیا۔ کمرے میں پہنچ کر فریدی نے سرسری طور پر قرب و جوارکا جا ئزہ لیا ۔

یہاں ایک طرف ایک بڑی سی مسہری پڑی ہوئی تھی جس کے سر ہانے ایک میز تھی جس پر لکھنے پڑھنے کاسامان تھا ۔

دو کرسیاں ملبوسات کی الماری ... اس نے معنی خیز نظروں سے حمید کی طرف دیکھا۔ پھر وہ دوسرے آدمیوں کے طرف مُڑا۔

’’کیا مس فوزیہ ایک ہی جوتا پہن کر باہر گئی ہیں !‘‘ اس نے ڈیگال سے کہا۔

’’ کیا مطلب ! میں نہیں سمجھا!‘‘

فریدی اُسے کوئی جواب دینے کے بجائے حمید سے بولا ۔ ’’ تم برابر والے کمرے کے دروازے پر ٹھہرو!‘‘

حمید باہر چلا گیا۔ اس کے پیچھے لوکاس بھی نکلا اور اپنے کمرے میں جانے لگا۔

’’ نہیں جناب !‘‘ حمید اُسے روک کر بولا ۔ ’’ ابھی آپ کمرے میں نہیں جا سکتے !‘‘

’’کیوں ؟‘‘ اس نےغصیلی  آواز میں پوچھا۔

’’ہم میں فوزیہ کو تلاش کر رہے ہیں !‘‘

’’فکر نہ کر و !‘‘ حمید نے لا پر وائی سے شا نو ں کو حبنبش دے کر کہا ۔’’ میرا چیف سگر یٹ کیس سے ہا تھی بر آمد کر لیتا ہے !‘‘

’’جہنم میں گیا تمہارا چیف ۔ مجھے اندر جانے دو!“

’’نہیں اُسی کو جانے دو۔ تم مت جاؤ! ‘‘حمید سنجیدگی سے بولا۔

ادھر  فریدی نے فوزیہ کے کمرے کا غسل خانہ کھولا پھر اس نے ڈیگال کو آواز دی۔ فوزیہ فرش پر اوندھی پڑی تھی ۔

’’ارے !‘‘ ڈیگال تحیر آمیز انداز میں چیخا۔

وہ اُسے اٹھا کر کمرے میں لائے اور مسہری پر ڈال دیا۔ وہ بے ہوش تھی اور سانس رُک رُک کر آرہی تھی ۔ ’’آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے ! ‘‘ ڈیگال بڑبڑایا۔’’ کس نے یہ حرکت کی !‘‘

 فریدی کچھ نہ بولا ۔ وہ چند لمحے بے ہوش لڑکی کی طرف دیکھتا رہا پھر حمید کو آواز دی۔ حمید کے ساتھ لیوکاس

بھی   اندر چلا آیا۔ فوزیہ کو مسہری پر دیکھ کر لوکاس پہلے تو جھجھکا لیکن پھر اس نے بھی تحیر اور افسوس کے ملے جُلے خیالات کااظہار شروع کر دیا۔

’’کسی قریبی ڈاکٹر کو فون کر دو ! ‘‘فریدی نے حمید سے کہا جو تو جہ اور دلچسپی سے بے ہوش لڑکی کی طرف دیکھ رہاتھا۔ لڑکی جس کے خدو خال میں بہت کم نسوانیت تھی ۔ اعضا مضبوط اور ہڈیاں چھوڑی تھیں ۔ حمید اُن کی عقلوں پرماتم کرنے لگا جو ا سے بے بی کہتے تھے۔

 اس نے نیچے جا کر کاؤنٹر سے ڈاکٹر کے لئے فون کیا اور پھر واپس آگیا ۔ فریدی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا اور وہ سب وہیں کھڑے تھے۔

’’آپ کا بہت بہت  شکریہ !‘‘ڈیگال فریدی سے اِس انداز کہہ رہا تھا جیسے اب وہاں فریدی یا اُس کے ساتھی کی موجودگی کی ضرورت نہیں ۔

’’مجھے لڑکی سے کچھ سوالات کرنے ہیں !‘‘ فریدی بولا ۔

’’کیا ابھی اسی وقت !‘‘ ڈیگال کے لہجے میں حیرت تھی لیکن کہنے کے انداز میں چھپی ہوئی بناوٹ کا اظہاربخوبی   ہو گیا تھا۔ حمید نے شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ فریدی کی طرف دیکھا۔

’’میں ہوش میں آنے کا انتظار کرلوں گا ۔ آپ مطمئن رہے !‘‘ فریدی نے کہا ۔

’’ لیکن پھربھی یہ ظلم ہوگا۔ ایسے حالات میں آپ آسے اس کے باپ کے قتل کی خبر سنا ئیں گے!‘‘

’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں اُس کے باپ کی قتل کی خبر سنانے آیا ہوں !‘‘

’’ پھر ؟ ‘‘

’’کچھ نہیں فریدی نے لا پروائی سے کہا اور لڑکی کے چہرے نظریں جمادیں۔

 لیو کاس اور ڈیگال کی نظریں ملیں ۔ لوکاس پہلے باہر گیا پھر ڈیگال نے بھی اس کی تقلید کی حمید ا ستفہامیہ  انداز میں فر یدی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔سب خامو ش تھے ۔ کچھ دیر بعد کسی کی آہٹ سے سکو ت ٹو ٹا ۔لیو کا س اور ڈیگا ل واپس آگئے تھے اور اُن کے سا تھ ڈاکٹر بھی تھا ۔

معائنے کے دوران میں لیو کاس اور ڈیگال گھور گھور کر فریدی کو دیکھتے رہے۔ ڈاکٹر نے آلات سمیٹ کربیگ  میں رکھے اور بیگ کا تسمہ پڑھا تا ہوا بولا ۔’’ کوئی نشہ آور چیز یا تو پلائی گئی ہے یا انجکٹ کی گئی ہے۔  میں ایک  انجکشن دے کر بیس  منٹ تک انتظار کروں گا ۔ اگر ہوش نہ آیا تو پھر یہ خود ہی سے بیدار ہوں گی !‘‘

کوئی کچھ نہ بولا اور کمرے پر پھر سکوت مُسلط ہو گیا۔

 6
گمشد گی کا راز

فوزیہ ہوش میں آچکی تھی ۔ اب کمرے میں اس کے علاوہ صرف تین آدمی تھے فریدی ،حمید اور ڈیگال ۔لیکن  ڈیگال مضطرب نہیں نظر آرہا تھا۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور شاید اس نے اپنے دانت بھی پوری  قوت سے  بھینچ رکھے تھے کیونکہ جبڑوں کے مسلس اُبھرے ہوئے نظر آرہے تھے اور آنکھیں اس طرح فوزیہ کے چہرے  پر جمی  ہوئی تھیں جیسے وہ تنویمی طریقے پر اپنی قوت ارادی کے ذریعے اس کے ذہن پر کوئی خاص اثر ڈالنے کی کو شش کر رہا ہو ۔

’’ آپ غسل خانے میں بے ہوش پائی گئی تھیں !‘‘ فریدی نے فوزیہ سے کہا۔

’’ کیا؟ ‘‘وہ اس طرح چونک پڑی جیسے خواب دیکھ رہی ہو۔ اس کی حیرت سے پھیلی ہوئی آنکھیں ایک  لخطے کے لئے فریدی کے چہرے کی طرف اٹھیں اور پھر جھک گئیں ۔

’’ کیا آپ اس معاملے پر روشنی ڈالنے کی تکلیف کریں گی !‘‘ فریدی نے پھر کہا۔

’’ میں نے اُسے دیکھا نہیں ۔ کسی نے پیچھے سے میرے سر پر کپڑا ڈال کر گلا گھونٹ دیا تھا!‘‘ وہ اپنی گر دن پر   ہاتھ پھیر نے لگی ۔

دفعتہ ڈیگال نے ایک طویل سانس لی اور اُس کے جبڑے ڈھیلے پڑ گئے ۔ حمید نے کنکھیوں سے اس کی طر ف  دیکھا اور پھر فوزیہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

’’ آپ کے والد کہاں ہیں ؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’جی !‘‘ وہ پھر چونک پڑی ۔’’ مجھے نہیں معلوم !‘‘

’’کل رات دو بجے آپ لوگ کہاں گئے تھے!‘‘

’’میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یونہی تفریحاً!‘‘ ڈیگال بولا۔

’’آپ با ہر جا ئیے !‘‘ فر یدی  نے دروازے کی طرف اشارہ کیا ۔

’’آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا!‘‘ ڈیگال بگڑ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’ آپ صرف ہمارے ملک کے

ہا ئی کمیشن آفس کی وساطت سے ہم تک پہنچ  سکتے ہیں ورنہ نہیں !‘‘

            ’’یہ کس نے کہہ دیا تم سے !‘‘ فر یدی  کی مسکراہٹ پُر سکون تھی ۔’’باہر سے آنے والو ں کا میز بان محکمہ سرا غر سا نی ہی ہو تا ہے ۔ ورنہ نو ر جہاں !‘‘

’’کیامطلب ؟‘‘  ڈیگال  ایک قدم پیچھے ہٹ کر بولا اور فو زیہ مسہری سئ اُچھل کر فر ش پر کھڑی ہو گئی ۔

’’مطلب یہ کہ عد نا ن   کے سا تھ ہی  ایک مقامی آدمی خون ہو ا ہے !‘‘ فر یدی  ایک ایک لفظ  پو ر زور دیتا ہو ا بولا ۔

’’کیا ؟‘‘ فو زیہ حلق پھاڑ کر چیخی۔

’’مسٹر عدنان کا قتل کیا تمہیں اب اطلاع ہو ئی ہے !‘‘

فو زیہ سر پکڑ کر فر ش پر بیٹھ  گئی ۔اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس طرح  جھکو لے لے رہی تھی جیسے اَب گری اور تب گری ۔

ڈیگال نے جھپٹ کر اُسے اٹھایا اور مسہری پر ڈال دیا۔ وہ پھر بے ہوش ہو گئی تھی۔

’’ تم لوگ درندے ہو!‘‘ ڈیگال فریدی کی طرف دیکھ کر دانت پیتا ہوا بولا ۔

’’لیکن تمہاری طرح سرکس کے درندے نہیں !‘‘ فریدی نے سر ہلا کر سنجیدگی سے کہا۔

 کچھ دیر سکوت رہا پھر فریدی بولا ۔ آخر اس ناٹک کی کیا ضرورت تھی مسٹر ڈیگال..!‘‘

’’  کیسا ٹا تک !‘‘ ڈیگال جھنجھلا کر بولا ۔ ’’ تم مجھے خواہ مخواہ غصہ دلا رہے ہو!‘‘

فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا.. . او حمید اس نے تو شاید اس دوران کی گفتگو بھی نہیں سنی تھی۔ اس کا ذہن ’’ نور جہاں‘‘ میں اُلجھ کر رہ گیا تھا۔ آخر فریدی نے یہ بے تکا نام کیوں لیا ؟ اور اس نام کا جور دووعمل

ڈیگال اور فو زیہ پر ہو ا تھا وہ بھی حمید کے ذہن میں محفوظ تھا ۔

            دفتعہً فر یدی  نے اُسے مخاطب کیا ۔’’حمید  ! ذرا لیو کا س کو یہا ں لا ؤ!‘‘

            حمید با ہر چلا گیا ۔ فر یدی نے یہ با ت اُردو میں کہی تھی لیکن اس نے لیو کا س کے نا م پر ڈیگال  کو چو نکتے دیکھا۔

ڈیگال لے چہرے پر زردی پھیل گئی اور وہ  اپنے ہو نٹو ں پر زبان پھیر نے لگا ۔

            لیو کا س کے آنے میں دیر نہیں لگی لیکن وہ بہت زیا دہ جھنجھلا یا ہو ا نظر آرہا تھا ۔ فر یدی چند  لمحے اُس کی آنکھو ں میں دیکھتا رہا پھر بولا ۔’’مسٹر لیو کا س ! یہ کیا حرکت تھی !‘‘

’’کیا مطلب ؟‘‘

’’ تم نے لڑکی کو بے ہوش کیا تھا !‘‘

’’مسٹر سر اغرسان تم بہک رہے ہو!‘‘

’’ میں مسٹر ڈیگال میں سچ کہ رہا ہوں۔ غسل خانے میں مجھے مسٹر لیو کلاس کی ڈائری ملی ہے!‘‘

’’اوہو! یہ کیا بات ہو ئی !‘‘ لیو کا س جلدی سے بولا ۔’’دونو ں کمروں لا غسل خانہ مشتر کہ ہے ۔اس کا ایک  درواز ہ میرے کمرے میں ہے۔ ممکن ہے کسی وقت مجھ سے گر گئی ہو۔ مجھے اس کی تلاش تھی ۔ کہاں ہے !‘‘

            ’’میرے پا س !‘‘ فر یدی مسکرا کر بولا ۔’’ لیکن بہت ہی محترم مسٹر لیوکا س ! کیا میں پو چھ سکتا ہو ں کہ تمہا ری قمیص لی  پلیٹ پر پڑا ہو ا سرخ دھبہ کیسا ہے ؟‘‘

لیو کاس کا سر بے اختیار سینے کی طرف جُھک گیا ... اور پھر وہ ہکلانے لگا۔

’’بے کار ہے ! تم نے ہی اُسے بے ہوش کر کے باتھ روم میں ڈالا تھا !‘‘

’’ٹھہر ولیو کاس! دفعتہ ڈیگال ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ ’’ اب کچھ چھپانا فضول ہے!‘‘

 فریدی نے جیب سے سگار کیس نکال کر ڈیگال کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’ میں نے پولیس انسپکڑے پہلے ہی کہا تھا کہ مجھے جیسے شریف آدمی کو کوئی دھوکا دینا پسند نہیں کرتا سگار !‘‘

ڈیگال نے کا نپتی  ہوئی انگلیوں سے ایک سگار نکال لیا۔

’’ لیو کاس تھوڑا بے وقوف ضرور ہے !‘‘ اس نے کھانس کر کہا۔’’ لیکن بدخواہ نہیں ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بے بی کو اچانک یہ منحوس خبر سنائی جائے ۔ اس نے مجھے پولیس والوں سے گفتگو کرتے دیکھا اور جلدی میں اُسے یہی  تدبیر

سوجھ گئی !‘‘

’’ لیکن مجھے تو اطلاع ملی ہے کہ آپ اپنے کسی ساتھی کو اس خبر سے مطلع کئے بغیر ہی پولیس اسٹیشن چلے گئے

تھے !‘‘ فریدی نے کہا ۔

’’میں اور لیو کاس پہلے ہی سے جانتے تھے ؟“

’’ہوں کس طرح !‘‘

’’میں نے وہ لاشیں کل رات ہی دیکھ لی تھیں ۔ پولیس آفیسر کو میں نے غلط بیان دیا تھا۔ بے بی مسٹر عدنان کے لئے بہت پریشان تھی۔ لہٰذا ہم دو بجے ان کی تلاش میں اُس عمارت تک گئے۔ میں بقیہ لوگوں کو باہر چھوڑ کر اندر چلا گیا۔ وہاں میں نے دونوں لاشیں دیکھیں اور چپ چاپ واپس آگئے !‘‘

’’مگر پولیس سے غلط بیانی کیوں کی گئی !‘‘

’’محض ... اس بچی کی خاطر ... میں نہیں چاہتا تھا ...!‘‘

’’یہ جملہ ہم کئی بارسن  چکے ہیں !‘‘فریدی نے تلخ لہجے  میں کہا۔ ’’ میں صحیح واقعہ سننا چا ہتا ہوں !‘‘

’’یہ قطعی  صحیح  واقعہ ہے !‘‘

’’عد نا ن نے دو عمارت کرائے پر کیوں حاصل کی تھی ؟‘‘

’’ہمیں  یہ ضرور معلوم تھا کہ انہوں نے ایک عمارت حاصل کی تھی لیکن انہوں نے اس کی غرض وغائت  کسی کونہیں بتا ئی !‘‘

’’ ہوں تو پھر یہ لڑکی پریشان کیوں تھی ؟‘‘

’’ظا ہر ہے کہ مسٹر عد نا ن نے یہ نہیں بتا یا  تھا کہ انہو ں نے وہ عما رت کیو ں حاصل کی ہے اور یہ سب کو معلوم تھا کہ وہ گز شتہ رات وہیں بسر کر نے والے تھے ۔ کیا آپ نہیں جا نتے کہ بچو ں میں والدین کے لئے اور والدین میں بچوں کے لئے ایک چھٹی حس ہوتی ہے!‘‘

’’نہ میں والدین ہوں اور نہ مجھے  اپنا بچپن کی یاد ہے!‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔’’ لیکن میں دو بارہ مس فو زیہ کے ہو ش میں آنے کا انتظار کر وں گا !‘‘

            ’’آپ ہر گز ایسا نہیں کر سکتے !‘‘ ڈیگا ل پھر اُکھڑ گیا ۔’’ بے بی کو آرام کی ضرورت ہے !‘‘

            ’’سب کو آرام کی ضرورت ہو تی ہے !‘‘ فر یدی  نے لاپر وائی سے کہا اور سگا ر سلگا نے لگا ۔

            ’’آخر آپ چاہتے کیا ہیں ؟‘‘

’’سچی  بات !‘‘

’’اس سے زیادہ ہم میں سے کوئی بھی کچھ نہیں جانتا !‘‘

’’ کچھ دیر پہلے تم یہ بھی نہیں جانتے تھے جو ابھی بتا چکے ہو!‘‘

’’میرے خیال سے اسے ہسپتال پہنچا دیا جائے !‘‘ حمید نے فوزیہ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

’’ ہر گز نہیں کبھی نہیں ! ‘‘ڈیگال تن کر کھڑا ہو گیا۔

’’ بیٹھ جاؤ!‘‘ فریدی نے تحکمانہ لہجے میں کہا ۔ ’’ تم مجھے نہیں جانتے !‘‘

’’مجھے تشدد پر آمادہ نہ کرو!“ ڈیگال غرایا۔

’’ چلو بیٹھ جاؤ سیدھی طرح ورنہ!‘‘ فریدی اور کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ اس کی نظریں لیو کاس پر تھیں جس

نے ریوالور نکال لیا تھا۔

’’بہت اچھے !‘‘ فریدی آہستہ سے بولا۔

’’کمرے سے نکل جاؤ!‘‘ لیوکاس نے کہا اور ہونٹ بھینچ لئے ۔

’’ بہتر ہے !‘‘ فریدی اُٹھتا ہوا بولا ۔ ’’ آؤ حمید !‘‘

وہ دروازے تک آئے ۔ لیو کاس ان کے پیچھے تھا۔ فریدی نے دروازہ کھولنے کے لئے ہینڈل کی طرف ہاتھ

بڑھا یا لیکن پھر دوسرے ہی لمحہ وہ بڑی تیزی سے پلٹا اس اک با یا ں ہاتھ ریوالور پر پڑا  اور داہنا ہا تھ لیوکا س کے جبڑے پر لیو کا س اچھل کر کئی فٹ دور جا پڑا ریوالور فر یدی کے ہا تھ میں تھا ۔

            ’’لیو کا س ! یہ کیا بے ہو دگی ہے !‘‘ ڈیگال چیخا۔

            لیو کا س کھڑا ہو کر اپنا جبڑا سہلا رہا تھا ۔پھر خون کی ایک دھا ر اُس کے ہو نٹو ں سے نکل کر ٹھو ڑی پر پھیل گئی۔

’’آفیسر! مجھے  افسوس ہے!‘‘ ڈیگال لجا جت  آمیز لہجے میں بولا پھر وہ لیو کا س پر برس پڑا۔

’’میں لیوکاس کو آتشگیر اسلحہ رکھنے کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں !‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’ تم یہاں بغیر اجازت

ریوالور نہیں رکھ سکتے !‘‘

 ’’آفیسر! میں معافی چاہتا ہوں !‘‘ڈیگال گڑ گڑایا ۔ ’’ ہم بڑی رحمت میں پڑ جائیں گے !‘‘

’’ اس کی ایک ہی صورت ہے۔ حقیقت کہہ دو!‘‘

 ڈیگال کچھ نہ بولا۔ اس کے چہرے پر اُلجھن کے آثار نظر آرہے تھے اور وہ بار بار لیوکاس کو قہر آلود نظروں سے گھو ر نے لگتا تھا ۔

’’ایک ذراسی بات نے اتنا طول کھینچا !‘‘ وہ تھوڑی دیر بعد بڑ بڑا یا۔’’ بہت معمولی سی بات تھی لیکن مسٹر عدنان نے میرا کہنا نہ مانا۔ خود جان سے ہاتھ دھوئے اور ہمیں مصیبت میں پھنسا دیا !‘‘

 فریدی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ لیو کاس رومال سے اپنے چہرے کا خون صاف کر رہا تھا ۔

 ڈیگال خاموش ہو گیا۔ اس کے چہرے سے ذہنی کشمکش عیاں تھی ۔ فریدی اُسے جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔

’’انہیں جو کچھ بھی کرنا تھا اس کے لئے ہم ہی کافی تھے !‘‘ ڈیگال کچھ دیر بعد بولا ۔’’ انہوں نے مقامی آدمیوں کی مدد حاصل کر کے سخت غلطی کی !‘‘

’’ لیکن عدنان کیا کرنا چاہتا تھا ؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’ کیا آپ کو اپنے شہر میں کسی ایسے اندھے آدمی کے وجود کا علم ہے جو سینکڑوں آنکھ والوں پر بھاری ہو!“

 حمید نے ڈیگال کے اس جملے پر قہقہہ لگایا لیکن فریدی میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔

 ’’ کہتے جاؤ۔ میں سن رہا ہوں !‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔

’’ لوز اٹا... چند ماہ پیشتر کیپ ٹاؤن میں تھا !‘‘

’’ لوز اٹا کون؟‘‘

’’لوز اٹا۔ وہ اندھا۔ جنوبی افریقہ میں اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ وہ حقیقتا کہاں کا باشندہ ہے یہ کسی کو نہیں معلوم لیکن افریقہ کے ڈامےگا گا قبیلے کا ایک دیو تا لوز اٹا کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں اندھیرے کا مالک !‘‘

حمید   عجیب نظروں سے فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اُسے فریدی کی سنجیدگی پر ہنسی آگئی ۔ فریدی نے اُسے

گھو ر کر دیکھا اور حمید کہنے لگا ۔’’میں اُس  اند ھے کو جا نتا ہو ں اس کا نام  لو زاٹا نہیں بلکہ ڈھمپ کٹل چرخ پٹاخ پو ں ہے کس حما یت میں پھنسے ہیں آپ ۔یہ سا لے فو ر ٹو نٹی ہیں!‘‘

            پھر ڈیگال کی طرف دیکھ کر اُردو میں بولا ۔’’تم لو گو ں سے مجھے نفر ت ہو گئی ہے ۔ آئے ہو اتنی دور سے اور اپنے ہمراہ ایک ہیجڑوں کی شکل کی لڑکی لا ئے ہو ۔جس سے میں ذراہ برابر بھی دلچسپی  نہیں لے سکتا!‘‘

            ’’کیا کہہ رہے ہیں ؟ ‘‘ڈیگال نے فریدی سے ہو چھا۔

’’کچھ یہیں تم اپنا بیان جاری رکھو !‘‘

’’اس نے مسٹر عدنان کو دھوکہ دے کر ایک بہت بڑی رقم وصول کی اور یہاں چلا آیا۔ ہم اس کے تعاقب

میں یہاں آئے تھے !‘‘

’’لیکن مسٹر عدنان نے خود ہی زحمت کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی ۔ وہ اپنے ہائی کمیشن کے ذریعہ سر کا ر ی طور پر اُس کے خلاف چا رہ جو ئی کر سکتے تھے !‘‘

’’ یہی مشورہ میں نے بھی دیا تھا !‘‘ ڈیگال جلدی سے بولا۔ ’’لیکن مسٹر عدنان نہیں مانے !‘‘

’’آخر کیوں ؟‘‘

’’میں کیا بتا سکتا ہوں !‘‘

’’لڑ کی ضرور بتا سکے گی !‘‘ فریدی نے مسکرا کر کہا۔ ’’ میں نور جہاں کا قصہ سننا چاہتا ہوں ! ‘‘

’’وہ شہنشاہ جہانگیر کی بیوی تھی ! ‘‘حمید بولا ۔’’ اس کی پہلی شادی علی قلی خان ... یا علی خاں قلی سے ہوئی تھی!‘‘

’’تم خاموش رہو یا یہاں سے چلے جاؤ!‘‘ فریدی اس پر اُلٹ پڑا۔

’’ اب میں کہاں جا سکتا ہوں ... قصہ نور جہاں کا ہے! ‘‘

’’ آپ نے ایک بار پہلے بھی یہ نام لیا تھا لیکن میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا !‘‘ ڈیگال بولا ۔

’’  شاید لڑ کی جانتی ہو!‘‘ فریدی نے کہا۔

’’پتہ نہیں !‘‘ ڈیگال بے زاری سے بولا اور بے ہوش لڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔

’’اندھا کہاں رہتا ہے؟“

’’معلوم نہیں ۔ مسٹر عدنان نے اُسے یہاں کے کسی فٹ پاتھ پر بھیک مانگتے دیکھا تھا !‘‘

 حمید نے پھر قہقہہ لگایا اور فریدی کا شانہ چھو کر بولا ۔ ’’ سنئے اگر وقت ہی برباد کرتا ہے تو چلئے کرکٹ کھیلیں۔

بڑی سہانی رات ہے!‘‘

’’تم نہیں جانتے۔ خاموش رہو!‘‘

’’مائی ڈیر مسٹر ہارڈ اسٹون! مجھے اس سے بھی زیادہ دلچسپ کہانیاں یاد ہیں ۔ رانی سرنگا کی کہانی۔ سوتے

جاگنے کا قصہ۔ ہر بادشاہزادی کی داستان ۔ موڈر ن کی کہانیوں میں علی بابا اور چَل  ٹم ٹم کا قصہ !‘‘

فریدی اس کی کچھ اس پر دھیان نہ دے  کر ڈیگال سے بولا ۔ ’’کیا اس اندھے  کا کوئی گروہ بھی ہے ؟‘‘

’’آپ گروہ کہتے ہیں!‘‘ ڈیگال نے کہا ۔’’ وہ جہاں کی رہتا ہے  شا ہا نہ شا ن سے !‘‘

’’اور فٹ پاتھ پر بھیک بھی مانگتا ہے !‘‘ حمید  اردو میں ابڑبڑیا  ۔’’ فریدی صاحب اس سے تو یہی بہتر تھا کہ آپ چا نڈو سے شوق فر ما لیتے !‘‘

ڈیگال  خاموش ہو کر حمید کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اس کی نظر فریدی کی طرف اٹھی۔

’’ میرے دوست کو کسی ایسے اندھے آدمی کے وجود پر یقین نہیں !‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔

’’ انہیں یقین آجائے گا!‘‘ڈ یگال نےسنجید  گی سے کہا۔’’ کیا آپ نے اب سے تین سال قبل اخبارات  میں ایک حیرت   انگیز خبر نہیں پڑھی تھی کہ لندن میں ایک اندھے نےچیرنگ   کر اس سے پکاڈلی  تک کا روڈ ائیو کر کے پو رے  شہر میں سنسنی پھیلا دی۔

’’اوہ !‘‘فریدی چونک کر بولا۔’’ تو یہ وہی اندھا ہے!‘‘

’’جی ہاں وہی !‘‘

’’تب تو نور جہاں!‘‘ فریدی کچھ سوچنے لگا۔

’’کیا ؟‘‘ ڈیگال کے منہ سے بے سا ختہ نکلا لیکن وہ اچا نک خامو ش ہو گیا ۔ فریدی کی عقابی  آنکھیں ایک لخطے  کے لئے اس کے چہرے پر پڑیں پھر وہ مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

”اچھا مسٹر ڈیگال ہم دیکھیں گے!‘‘ اس نے کہا۔ ’’لیکن تم لوگ پولیس کو اطلاع دیئے بغیر ہوٹل کے باہر

قدم نہیں نکالو گے !‘‘

7
بکرے سے اندھے تک

دوسری صبح حمید فریدی سے اُلجھ پڑا۔ اُسے سب سے زیادہ تاؤ خود اپنی حماقت پر آرہا تھا کہ اُس نے پچھلی  رات کا زیادہ تر حصہ لغویات میں گزار دیا۔ وہ محض اس توقع پر ہوٹل  ڈی فرانس میں سر مارتا رہا تھا کہ فوزیہ کو دیکھ کر آنکھوں میں نور اور دل میں سرور پیدا ہو سکے گا مگر وہ ایک بالکل ہی معمولی شکل وصورت کی لڑکی ثابت ہوئی۔ حمید کا خیال تھا کہ وہ لڑ کی بھی اپنے باپ کے قتل کی سازش میں شریک ہے۔ اندھے والی کہانی پر اُسے یقین نہیں آیا تھا۔ اس کے خیال کے مطابق عدنان کا خاتمہ کرنے کے لئے چار مقامی بد معاشوں کو کرائے پر حاصل کیا گیا تھا۔ ان میں سے  ایک عدنان کے ہاتھوں مارا گیا اور بقیہ تین آدمیوں نے اُس کے بعد عدنان کا خاتمہ کر دیا اور مقصد ! مقصدفی الحال تاریکی میں تھا۔

’’میں کہتا ہوں !‘‘ وہ فر یدی سے کہہ رہا تھا ۔’’آخر اس اندھے نے اُن تینوں کو بخش کیو ں دیا ۔ اگر اس کی جگہ میں ہو تا تو انہیں اس دن کے لئے زندہ نہ چھو ڑتا کہ وہ پو لیس کو بیا ن دے سکیں !‘‘

’’تمہیں  اندھے کے وجود میں شبہ ہے !‘‘

’’بنڈل سرے  سے بنڈل !‘‘

            ’’لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا وہ کا رڈرائیو کر نے والا واقعہ ۔کیا تمہیں یا د نہیں ۔ایک زما نے میں اُس کی بڑی شہرت تھی!‘‘

            ’’رہی ہو گی ۔لیکن اس معا ملے میں اس کا کیا تعلق ۔آخر آپ کس بنا پر اُسے آپ سے متعلق سمجھتے ہوں گے !‘‘

            ’’نور جہاں !اگر یہ نام نہ لیا گیا ہو تا میں بھی اسے کو ئی اہمیت نہ دیتا!‘‘

            ’’اوہ تو حقیقتاً کو ئی لڑکی اور بھی ہے ۔یقیناً ہ بہت زوردار ہو گی ۔ورنہ عدنان مر تا کیوں !‘‘

            ’’لڑکی !‘‘ فر یدی مسکرا کر بولا ۔’’اچھا ہے تم اُسے لڑکی ہی سمجھتے رہو !‘‘

            ’’ہا ئیں تو کیا بو ڑھیا ہے !‘‘

            ’’ختم کرو یہ قصہ !‘‘فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ’’میرے پاس تمہاری ایک  شکا یت  آئی ہے!‘‘

’’وہ تو آیا ہی کرتی ہیں !‘‘

’’ آخر تمہارا بچپنا کب رخصت ہوگا۔ خود مذاق بنتے ہو اور مجھے بھی بدنامی نصیب ہوتی ہے!‘‘

’’بات کیا ہے؟‘‘

’’ہائی سرکل نائٹ کلب میں بکرا کیوں لے گئے تھے !‘‘

 حمید یک بیک سنجیدہ ہو گیا۔ اتنا سنجیدہ جیسے فریدی نے اُس کے مذہبی جذبات کوٹھیس لگائی ہو۔

’’ کیوں نہ لے جاتا !‘‘ حمید بگڑ کر بولا۔ ” وہاں بعض عورتیں کتّے کیوں لاتی ہیں !‘‘

’’مضحکہ خیز بننے کی کوشش نہ کیا کرو۔ میں نے سنا ہے کہ تم اور انور نائٹ کلب کے منیجر کو بہت پریشان کرتے

ہو !‘‘

’’لیکن وہ کمبخت اس کے باوجود بھی اشعار سنانے سے باز نہیں آتا !‘‘

’’اس قسم کی حرکتوں سے فائدہ کیا ہوتا ہے!“

’’ میں کہتا ہوں کتّوں کو ساتھ لئے پھرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔ اور خصوصاً یہ عورتیں بچوں کو تو گھر پر چھوڑ دیتی ہیں اور کتّوں  کو گود میں لئے پھرتی ہیں۔ ان کی نفسیات آج تک میری سمجھ میں نہ آسکی !‘‘

’’ بچے ، کتوں سے زیادہ شور مچاتے ہیں !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔

’’نہیں بتا ئے ! آپ تو ماہر نفسیات بھی ہیں!‘‘

’’دوسروں کو مستقل طور پر غلام بنائے رکھنے کی لاشعوری خواہش ۔ آدمی سے اس کی توقع فضول ہے۔ لہٰذا تو جہ جانوروں کی طرف مبذول ہوتی ہے اور جانوروں میں کتّے سے زیادہ سعادت مند جانور اور کوئی نہیں ہوتاہر وقت  

دُم ہلا تا رہتا ہے۔ عورتوں میں غلام بنانے کی خواہش مردوں سے زیادہ ہوتی ہے!‘‘

’’ کیا میں آپ کو بھی عورت سمجھوں !‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’آپ نے درجنوں کتّے  پال رکھے ہیں... اور میں نے ایک بکرا پال لیا تو اُس پر اتنا غصہ!‘‘

8

ہائی سرکل نائٹ کلب کا منیجر برآمدے میں کھڑا تھا۔ یہ چھوٹے قدا،دُ بلے جسم اور سُتے  ہوئے چہرے کا ایک اد ھیڑ عمر کا آدمی تھا۔ اس نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور اسے سالگانے ہی جار ہا تھا کہ کمپاؤ نڈ میں ایک کار داخل ہوئی جس کی کھڑکی سے ایک بکرا سر نکالے بڑے دلآ ویز انداز میں جگالی کر رہا تھا۔ منیجر نے سگریٹ جیب میں ڈال لیا اور دانت پیس کر خلا میں مُکّا مارنے کے سے انداز میں ہاتھ کو جنبش دی۔

کار سے حمید اُترا اور پھر اُس نے بکرے کو بھی کھینچ کھانچ کر باہر نکال لیا۔

’’مسٹر حمید خدا کے لئے ! ‘‘منیجر ہاتھ پھیلا کر گھگھیا تا ہوا آگے بڑھا۔

’’میری جیب میں کھلے ہوئے پیسے نہیں ہیں !‘‘ حمید لا پروائی سے بولا ۔ وہ اُس چُغادری بکرے کا پٹہّ پکڑے اُسے منہدی کی باڑھ پر منہ مارنے سے روک رہا تھا۔

’’آپ میرا بیڑا غرق کر دیں گے!‘‘

’’آپ نے فریدی صاحب سے شکایت کیوں کی ؟‘‘

’’شکایت نہیں تو وہ تو میں نے کہا تھا کہ ایسی جگہوں پر لانے سے بکرے کے اخلاق پر بُرا اثر پڑ سکتا

ہے!‘‘

’’بکواس ہے۔ میرا بکر انہایت سلیم الطبع اور برخوردار قسم کا ہے۔ وہ بروں سے اچھائیاں سیکھتا ہے۔ ایسا بکرا شیخ سعدی کو بھی نہ نصیب ہوا ہو گا ۔ اچھا کوئی عمدہ سا شعر سنا یئے!“

’’ دیکھئے ! میں بہت پریشان ہوں ۔ آپ بکرے کو اندر نہیں لے جاسکتے ۔ پچھلی بارے کئی معزّز آدمیوں نے

یہاں آنا چھوڑ دیا ہے !‘‘

’’پھر کتّے  کیوں آتے ہیں۔ اگر کتّے آئیں گے تو بکرا بھی جائے گا ! ‘‘

’’ بکرے کو دیکھ کر کتّے بھونکنے لگتے ہیں!‘‘ منیجر نے کہا۔ ’’ میرے حال پر رحم کیجئے اور آپ ایسی حرکتیں کرتے

ہوئے اچھے نہیں معلوم ہوتے ۔ آپ بھی کافی معزّز آدمی ہیں !“

’’ جی نہیں میں چمار ہوں ۔ بکرا مجھ سے جدا نہیں ہوسکتا !‘‘

’’آپ نہیں لے جاسکتے ! ‘‘مینجر بے بسی سے چیخا ۔

’’اچھی بات ہے ۔ اب دیکھوں گا تمہاری شراب کی نا جائز تجارت ر!‘‘

’’مسٹرحمید!‘‘ منیجر کا لہجہ نرم ہو گیا۔

’’تو پھر میں اس بکرے کو کہاں چھوڑوں ؟‘‘

’’میں انتظام کر دوں گا !‘‘

’’نہیں آپ اسے اپنی آنکھو ں کے سا منے رکھنے کا وعدہ کریں تو میرا مطلب ہے کہ اپنے آفس میں!‘‘

’’ مجھے منظور ہے !‘‘ منیجر نے اطمینان کا سانس لیا ۔

منیجر نے اپنے دفتر کا کمرہ کھولا اور حمید نے بکرے کو ڈ ھکیل کر اندر کر دیا۔

’’ا سے تنہائی  نہ محسوس ہونے پائے سمجھے ہاں !‘‘  حمید نے کہا اور بال میں چلا گیا۔ منیجر برآمدے ہی میں

کھڑا طرح طرح کے منہ بناتا رہا۔ وہ فطرتًا کچھ اس قسم کے بوڑھوں میں سے تھا جنہیں بچے بھی چٹکیوں میں اڑا دیتے ہیں۔ حمید اُسے خاص طور سے چھیڑ تا رہتا تھا اور حقیقت تو یہ تھی کہ منیجر اُس کے خلاف کوئی قدم بھی نہیں اٹھا سکتا تھا کیونکہ حمید اس کی تجارت کے بعض نا جائز پہلوؤں سے اچھی طرح واقف تھا۔ دفعتًہ اسے پھر ہال کے ایک قریبی دروازے میں حمید کی شکل دکھائی دی جو اُسے گھور رہا تھا۔

’’ ہا ئیں ! آپ نے اُسے تنہا چھوڑ دیا ہے ! ‘‘حمید نے غصیلی آواز میں کہا اور منیجر جلدی سے اپنے دفتر چلا گیا۔ یہاں تیرا بڑی سعادت مندی سے جگالی کرتا ہوا اس کی میز کا جائزہ لے رہا تھا۔ منیجر کے داخل ہوتے ہی وہ اُسے نیم باز  آنکھوں سے دیکھ کر اس طرح ممیا یا جیسے دیر سے غیر حاضری کی وجہ پوچھ رہا ہو ۔

’’ ارے تجھے خدا غارت کرے۔ ہٹ میز کے پاس سے !‘‘ منیجر اُسے میز کے قریب سے ڈھکیلتا ہوا بڑ بڑایا لیکن  بکرا سر جنٹ حمید کا تھا۔ اس نے اس کی پروا کئے بغیر اپنی جگالی جاری رکھی۔

دفعتًہ اُس کی نظر اس الماری پر پڑی جس میں ایک بڑا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر اس نے گر دن اکڑائی ۔ دو قدم پیچھے ہٹا پھر پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر آئینے پر ٹکر مارنے ہی جار ہا تھا کہ منیجر چیختا ہوا درمیان میں گیا۔ اس طرح وہ ٹکر تو نہ مارسکا لیکن اس کی اگلی ٹانگوں کے ساتھ ہی ساتھ منیجر بھی زمین پر آرہا۔ بکر ا دوسری ٹکر کی  تیار کرنے لگا تھا۔ منیجر بے اختیار اُٹھ کر اس سے لپٹ پڑا۔ اس دھینگا مشتی میں ایک کرسی اُلٹ گئی ۔ بکرے کو بھی شا ید تاؤ آ گیا تھا۔ وہ بار بار آئینے ہی کا رخ کرتا تھا۔ منیجر بری طرح ہانپ رہا تھا اور اس کے منہ سے گھٹی گھٹی آوازمیں گا لیا ں  نکل رہی تھیں ۔ ایک بار بکرے نے میز سے سینگیں اُڑائیں اور زور کرنے لگا۔ منیجر نے لاکھ چاہا کہ اُسےہٹا دے   مگر کامیاب نہ ہوا۔ آخر کار میز بھی اُلٹ گئی ۔ منیجر حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخنے لگا۔ بدحواسی میں وہ میز کی طرف جُھک  پڑا تھا۔ اتنے میں بکرے کو موقع مل گیا اور اس نے آئینے پر ایک ٹکّر رسید ہی کر دی ۔ کئی ٹکڑے کھنکھناتے ہوئے فرش پرآگرے۔

’’ابے اُدحر امی کے پلّے !‘‘ منیجر اپنا سر پیٹ کر چیخا۔

 دونو کر کمرے میں گھس آئے۔ کمر نہ جانے کیا سمجھا۔ اس نے چیختے  ہوئے منیجر کے سینے  پر ایک ٹکر رسید کی اور پھر نوکروں کی طرف پلٹ پڑا۔ نوکر معاملے کی نوعیت بھی نہیں سمجھ پائے تھے کہ ان میں سے ایک کو بڑی زور دارٹکر  نصیب ہوئی ۔ وہ پیچھے گرا اور بکرے نے اس کے اوپر سے جست لگائی۔ دوسرے لمحے  میں وہ بر آمدے میں تھا ۔شامت اعمال !کمپاؤنڈ میں کسی صاحب کے دو کتّے  خوش فعلیوں میں مشغول تھے ۔ انہوں نے بکرےکو دیکھا تو بھونکتے ہوئے اس کی طرف لپکے۔ بکرا ہال میں گھس گیا۔ شام کا وقت تھا اس لئے ہال قریب قریب بھرا ہوا تھا۔ سر جنٹ حمید اور اس کے ایک شناسا میں شطر نج ٹھن گئی تھی ۔ جیسے ہی بکرا ہال میں گھسا کئی طرح کی آواز یں میں گونجنے  لگیں۔ اس کے تعاقب میں گتّے  بھی گھس  آئے تھے ۔ حمید بدقت تمام اپنی ہنسی  روک سکا لیکن وہ بکرے کو پکڑنے کے

لئے اٹھا نہیں۔

قریب ہی کی میز پر بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے اپنے ساتھی سے پوچھا۔ ’’ کیا بات ہے؟‘‘

’’عجیب اس کا ساتھی بولا ۔’’ ایک بکر اگھس آیا ہے!‘‘

’’بکرا!‘‘ آدمی حیرت سے بولا ۔ ’’ بکرے کا یہاں کیا کام!‘‘

 اور دفعتًہ حمید بکرے کو بالکل ہی بھول گیا۔ وہ بڑی توجہ سے اُس آدمی کو دیکھنے لگا تھا جس نے اپنے ساتھی سے غل غپاڑے کی وجہ دریافت کی تھی۔ یہ ایک طویل القامت اور قوی الجثہ آدمی تھا ۔ آنکھوں پر گہرے نیلے رنگ کے شیشوں کی عینک تھی اور وہ ایک نہایت نفیس سوٹ میں ملبوس تھا۔

’’ کیا؟‘‘ حمید کے ذہن میں ایک سوال تیزی سے گونجا ۔’’ اس نے بکرے کو نہیں دیکھا !‘‘

 بکر اٹھیک اُس کی میز کے قریب سے گزرا تھا ۔ حمید کے ذہن میں سیٹیاں سی بجنے لگیں ۔ کیا وہ اندھا تھا؟... اندھا ؟ لیکن بادی النظر میں وہ اندھا نہیں معلوم ہوتا تھا۔ حمید ذہنی ہیجان میں مبتلا ہوگیا... کیا ... ڈیگال کا بیان صحیح تھا۔ حمید نے فوراً ہی ایک دوسری بات بھی محسوس کی۔ وہ آدمی اپنے ساتھی کے ساتھ شطرنج بھی کھیل رہا تھا وہ تو شطرنج کھیل رہا تھا لیکن بکرا اُسے نہیں دکھائی دیا تھا۔ عجیب بات پھر حمید کی متجسس نگاہوں میں ایک بات اور بھی آئی ۔ ہال کے سارے لوگوں کی نظریں بکرے پر تھیں لیکن وہ نیلی عینک والا بدستور بساط پر جھکا ہوا تھا۔ اس نے ایک بار بھی بکرے کی طرف رُخ نہیں کیا حالانکہ اس کا ساتھی کھڑا ہو کر بکرے کی دھما چوکڑی سے لطف اندوز ہورہا تھا ۔

تو وہ اندھا تھا... سو فیصدی اندھا... ورنہ اسے بھی فطرتا ًکمرے میں دلچسپی لینی چاہئے تھی۔ انہونی باتیں ہر ایک   توجہ اپنی طرف مبذول کرالیتی ہیں ... اور وہ بھی ایک انہونی تھی ۔ نائٹ کلب میں بکرا۔

حمید نے منیجر کی طرف بھی دھیان نہ دیا جو اُ سے بری طرح جھنجھوڑ رہا تھا۔

 ’’ کیا ہے بھئی چلو چھوڑو ۔ بازی ختم کرو!‘‘ نیلی عینک والے نے اپنے ساتھی سے کہا۔

’’بکر اکسی  طرح قابو میں نہیں آتا !‘‘ اس کا ساتھی بولا ۔

’’جہنم میں گیا بکرا۔ بازی ختم کرو !‘‘

’’ کیا ہے بھئی!‘‘ دفعتہً حمید منیجر کی طرف پلٹا۔

’’میں بر باد ہو گیا لیکن خدا کی قسم تمہیں نقصان بھر نا پڑے گا !‘‘ منیجر ہا نپتا ہوا بولا ۔

            ’’تم اُس سے غافل ہو گئے ہو گے !‘‘ حمید اُٹھتا ہو ا بولا پھر وہ منیجر کو با ہر بر آمد ے میں کھینچ لے گیا ۔وہ نہیں چا ہتاتھا کہ ہا ل میں اس سے کسی قسم کی تکرار ہو ۔

            ’’تم بے کا ر جھک ما ر رہے ہو !‘‘ حمید نے کہا ۔’’کیوں آما دہ ہو گئے تھے اُسے سنبھالنے پر ۔ اگر انکار کر تے تو میں واپس چلا گیا ہو تا!‘‘

’’اب اُلٹی دھونس جماؤ  گے !‘‘ منیجر بھنّا کر بولا۔

’’ بات بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اپنے نوکروں سے کہو کہ اُسے میری کار میں ٹھونس دیں !‘‘

’’اور یہ نقصان کون بھرے گا ! ‘‘منیجر آفس کا دروازہ کھولتا ہوا بولا ۔

’’ تم ضرور اس سے بداخلاقی سے پیش آئے ہو گے !‘‘حمید نے غصیلی آواز میں کہا۔

 اتنے میں نو کر بکرے کو برآمدے میں گھسیٹ لائے۔

حمید سوچ رہا تھا کہ کہیں معاملہ طوالت نہ اختیار کر جائے۔ اگر ایسا ہوا تو ممکن ہے کہ وہ اندھے کو ہاتھ سے کھو بیٹھے ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ اس طرح اُس سے مڈبھیڑ بھی ہوگئی تھی ورنہ وہ زندگی بھر اُس کے متعلق یہ  اندازہ نہ لگا پاتا کہ وہ اندھا ہے۔

 دفعتہً حمید کو یاد آیا کہ اُس کی چیک بک جیب ہی میں موجود ہے۔

’’سنو پیارے!‘‘ حمید منیجر کا شانہ تھپکتا ہوا بولا۔ ’’ تمہارے نقصان کی تلافی ہو جائے گی۔ تم فی الحال اس سعادت اطوار بکرے کو کسی نوکر کے کوارٹر میں بندھوا دو!‘‘

’’ہر گز نہیں نہیں ۔ کبھی نہیں !‘‘ منیجر پیر پٹخ کر بولا ۔

حمید نے جیب سے چیک بُک نکالی اور ایک سادے چیک پر دستخط کر کے منیجر کی طرف بڑھاتا ہوا بولا ۔ ’’ اپنے نقصان کا

تخمینہ لگا کر رقم لکھ لینا چلو شابش … ورنہ تمہیں پچھتانا پڑے گا ۔‘‘

منیجر چند لمحے اُسے گھورتا رہا پھر اس نے چیک لے کر اپنی جیب میں ٹھونس لیا۔

’’ میز اُلٹ دی ! ‘‘ وہ بڑبڑایا ۔’’ آئینہ چور چور کر دیا اور میرا جسم ریزہ ریزہ ہو گیا!‘‘

’’یا  رختم بھی کر و قصہ۔ میری شطرنج کی بازی بر باد ہورہی ہے !‘‘

منیجر نے ایک نوکر سے بکرے کو لے جانے کو کہا ...

حمید پھر ہال میں لوٹ آیا۔ حمید کا ساتھی بساط بچھائے بیٹھا اُس کا انتظار کر رہا تھا اور دوسری میز پر نیلی عینک والا بھی اپنے ساتھی کے ساتھ بازی میں مشغول تھا۔ حمید پر جم گیا۔ لیکن اس بار اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے کئی بے سر و پا جائیں چلیں اور اُس کے مہرے دھڑا دھڑ پٹتے  گئے۔ اس کا ذہن اُس اند ھے میں اُلجھا ہوا تھا۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں اس کا شبہ سرے سے غلط ہی نہ  ہو ۔ ضروری نہیں کہ یہ وہی  اندھا ہو جس کی تلاش فریدیکو تھی  ۔یہ   خیال آتے ہی اس کا دل ڈوبنے لگا۔ اگر ایسا ہی ہوا تو اُسے وہ چیک قیامت تک یادر ہے گا جو اُس نے جھگڑا ختم کرنے کے لئے منیجر کو دیا تھا۔ اس کی نظریں ایک بار پھر ان سے کھلاڑی پر جم گئیں ۔ دو بڑی  دانشمندی سےچا لیں چل  رہا تھا۔ کیا یہ ایک اندھے کے لئے حیرت انگیز بات نہیں تھی۔ اس نے آج تک کسی اندھے کو شطرنج کھیلتے نہیں کیا دیکھا تھا لیکن وہ اندھا جو کا ر ڈرائیو کر سکتا ہووہ بھی لندن جیسے مشغول شہر میں اُس کے لئے شطر نج کیا وقعت رکھتا ہے۔

            اند ھے کا سا تھی اسے اپنی چال کے متعلق  بتا یا  جا تا تھا لیکن خود اندھا بھی تک ایک با ر بھی چال چلتے وقت نہیں ہچکچا یا تھا ۔ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے پو ری بساط اس کے ذہن میں محفوظ ہو ۔

            حمید یو ں ہی اندھا دھند چا لیں چل رہا تھا ۔ آخر کا ر اُسے جلدہی ما ت ہو گئی اور وہ کر سی کی پشت سے ٹیک لگا کر پا ئپ میں تمبا کو بھر نے لگا۔

            اب وہ سوچ رہا تھا کہ خود ہی معاملات کو سنبھالے یا فریدی کو فون کردے۔

’’دوسری بازی !‘‘اُس کے ساتھی نے پوچھا۔

’’ٹھہرو!  میں ایک منٹ میں آیا!‘‘ حمید اُٹھتا ہوا بولا ۔ وہاں سے وہ سیدھا منیجر کے آفس میں آیا ... اور یہاں کی ابتری پر دھیان دیئے بغیر فریدی کو فون کرنے لگا۔

9
دُھوکا

حمید پھر ہال میں واپس آگیا۔ اندھے کی بازی ختم ہوگئی تھی اور اب وہ کسی کی پشت سے ٹیک  لگائے خاموش بیٹھا تھا۔ اس کا ساتھی شاید کہیں چلا گیا تھا۔

حمید کے ساتھی نے دوبارہ مہرے جمانے شروع کئے۔

’’اب بس ! ‘‘حمید نے کہا ۔’’ کچھ پیوگے!‘‘

’’نہیں سورج غروب ہونے سے پہلے میں کچھ نہیں پیتا!‘‘ اس کے ساتھی نے کہا ۔

 پھر خاموشی چھا گئی۔ ہال میں کافی رونق تھی اور کئی عورتیں حمید کو گھور رہی تھیں ۔ شاید ان میں سے ایک آدھ ایسی بھی رہی ہوں جنہوں نے اسے پچھلے موقع پر بکرے کے ساتھ دیکھا ہو۔ حمید نے دیدہ و دانستہ اُن کی طرف سےمنہ پھیر  لیا تھا پھر بر آمدے میں اُسے ایک بڑی خوبصورت لڑکی نظر آئی۔ وہ ہال میں داخل ہوئی ، چند لمحے  اِدھر اُدھر دیکھتی رہی پھر تیر کی طرح اُس میز کی طرف آئی جس پر اندھا بیٹھا ہوا تھا۔

اندھے کی پیشانی پر شکنیں پڑگئیں اور پھر وہ مسکرانے لگا۔ لڑکی میز پر ہاتھ ٹیک کر جھکی اور آہستہ آہستہ کچھ کہنےلگی ۔ اس کے اوپری ہونٹ کی جنبش بڑی ترغیب انگیز تھی ۔

نہ جانے کیوں اُسے دیکھ کر حمید کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں گُدگدی کی سی کیفیت کا احساس ہونے لگا۔ اند ھے کے ہوٹ سکڑے ہوئے تھے اور شاید وہ غیر معمولی تو جہ سے لڑکی کی بات سن رہا تھا۔ اچانک وہ اٹھا اور تیز قدموں سے چلتا ہوا ہال سے نکل گیا۔ اس کے اس رویّے پر حمید ایک بار پھر اُلجھن میں مبتلا   ہو گیا۔ کوئی اندھا  کسی سہارے کے بغیر اس طرح نہیں چل سکتا لیکن جلدہی اُسے کار ڈرائیو کرنے والی روایت یاد آ گئی۔ لڑکی بھی اس آدمی کے پیچھے چلی جا رہی   تھی ۔ وہ کمپاؤنڈ میں کھڑی ہوئی ایک کار میں بیٹھ گئے۔ اندھا پچھلی سیٹ پر تھا اور لڑکی نے انجن اسٹارٹ کر دیا تھا۔

’’ دوست مجھے ذرا ایک کام یاد آ گیا ہے!‘‘ حمید اُٹھتا ہوا اپنے ساتھی سے بولا۔

’’وہ ہنسنے  لگا۔ اس نے کہا۔ ’’لونڈیا کے پیچھے ؟‘‘

’’ارے نہیں لا حول ولا!‘‘

اندھے کی کار پھاٹک کے باہر پہنچ چکی تھی۔ حمید نے اپنی کار کا انجن اسٹارٹ کیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ فریدی وہاں ضرور آئے گا لیکن وہ انہیں چھوڑ کس طرح جا سکتا تھا۔ اس کی کار باہر نکلی اندھے کی کار کافی فاصلے پرتھی تعاقب شروع ہو گیا۔

انگلی کار چونکہ بھری پُری  سڑکوں سے گزر رہی تھی اس لئے حمید کو زیادہ احتیاط کی ضرورت نہ تھی ۔ دونوں کا فاصلہ بہت کم تھا۔ اچانک اگلی کار ایک جگہ سڑک سے اُتر کر ایک گلی میں مڑگئی ۔ حمید کو اس کی توقع نہیں تھی ۔ حمید نے اپنی کا ر بھی سڑک سے اُتاری۔ اگلی کا ر نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی اور حمید گلی میں مڑنے ہی جار ہا تھا کہ ایک ٹھیلا  جو داہنی طرف سے آرہا تھا گلی کے دہانے پر رُک گیا۔ حمید نے ہارن دیا۔ جتنی دیر میں ٹھیلا ہٹا اگلی  کار وہ گلی  پار کر کے دوسری سڑک پر مُر چکی تھی ۔

راستہ ملتے ہی حمید تیز رفتاری کے ساتھ گلی سے گزر گیا۔ اٹلی کا رٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے زیادہ دور نہیں جا سکتی تھی۔

تعاقب جاری رہا...

سورج غروب ہو جا چکا تھا اور اب دھند کے کی ملگجی چادر کائنات پر محیط ہوتی جارہی تھی ۔

حمید سوچ رہا تھا کہ آخر اس بھاگ دوڑ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ اگلی کار اس طرح مختلف سڑکوں کے چکر لگا رہی تھی جیسے ڈرائیو کرنے والی کا مقصد محض تفریح ہو۔

اور پھر جب کار آر لکچنو کی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے لگی تو حمید نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے بعد ہی حمید بھی اپنی کار کمپاؤنڈ میں لے گیا۔

 لیکن !تحیّر اور استعجاب کا وہ لمحہ شاید وہ حمید کو زندگی بھر یادر ہے۔ اس کا رسے نہ تو وہ لڑکی اُتری  اور نہ اند ھا ڈرائیور کی سیٹ سے ایک ملٹری آفسیر اتر رہا تھا ۔وہ اپنی پوری وردی میں تھا۔ حمید آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کا ر کی طرف دیکھ رہا تھا ۔یہ سو فیصدی وہی کا ر تھی ۔ اگر حمید  کو اُس کے نمبر یا د نہ ہو تے تو وہ سمجھتا کہ دھو کا کھا گیا ہو گا ۔نمبر اس کے

ذہن میں محفوظ  تھے۔ پھر کیا ہوا ؟ و و اندھا اور وہ لڑکی کیا ہوئے ؟

اس نے فوجی آفیسر کو آر لکچنو کے ڈائننگ ہال میں داخل ہوتے دیکھا ۔

وہ تیزی سے اُس کا ر کے قر یب آیا ۔ دو نوں سیٹیں خالی تھیں ۔چند لمحو ں کے لئے وہ بالکل ہی خالی الذہن

 ہو گیا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔ دفعتہً وہ چونگا اور پھر جھپٹتا ہوا ڈائننگ ہال میں داخل ہو گیا ۔

وہ کئی منٹ تک سرگرداں رہا لیکن وہ فوجی آفیسر کہیں نہ دکھائی دیا۔ پھر اس نے ویٹروں سے کیا پو چھ  کچھ شروع  کی۔ نتیجہ  مایوس کن برآمد ہوا۔ ایک ویٹر نے اُسے بتایا کہ ایک فوجی ابھی آیا ضرور تھا لیکن پھر وہ عقبی  دروازہ سے  باہر چلا گیا۔ حمید نے اُس منحوس عقبی دروازے کے درشن کئے اور دل ہی دل میں گالیاں بکتا ہوا واپس آیا اور پھر جیسے ہی دو باہر نکلا اس کے پیروں تلے سے زمین نکل کر کسی طرف کھسک گئی ۔ کیونکہ اب وہ کار بھی غائب تھی  اور جب وہ اپنی کار کی طرف متوجہ ہوا تو سر پر سے آسمان بھی نکل گیا۔ کار کے ایک اگلے پہئے کا ٹائر کسی نے چاقو سے کاٹ دیا۔ تھا۔ حمید پھر واپس جا رہا تھا۔

☆☆☆

 

فوجی عقبی دروازے سے نکلا اور چکر لگا کر پھر کمپاؤنڈ کے پھاٹک پر آکھڑا ہوا۔ جیسے ہی حمید ڈائننگ ہال میں داخل ہوا، فوجی نے منہدی کی باڑھ کی اوٹ لے کر اس کی کار کی طرف بڑھنا شروع کیا جہاں حمید نے اپنی کارکھڑی کی تھی اُدھر زیادہ روشنی نہیں تھی اور کار کا ایک پہیہ منہدی کی باڑھ سے لگا ہوا تھا۔ فوجی نے جیب سے ایک بڑا سا چاقونکالا اور ٹائر کوریتنے لگا۔ نتیجہ برآمد ہونے میں دیر نہیں لگی۔ پھر اس نے اپنا کوٹ اُتارا اور اُسے بغل میں دبا کر سیدھا اپنی کار کی طرف آیا۔ چند لمحوں کے بعد کار کمپاؤنڈ کے باہر تھی۔

 تھوڑی دور چل کر اس نے کار ایک سنسان گلی  میں موڑ کر روک دی۔ پھر اس نے سیٹ کے نیچے سے ایک نمبر پلیٹ نکالی اور اُسے پہلی والی نمبر پلیٹ پر فٹ کر دیا۔

کار دوبارہ چل پڑی۔

 وہ ابھی مختلف سڑکوں سے گزر رہی تھی کہ پولیس کی پٹرول کاریں جن میں ریڈ یوٹرانسمیٹر فٹ تھے چاروں طرف دوڑنے لگیں۔ شاید سرجنٹ حمید نے آر لکچنو سے گمشدہ کار کے متعلق پولیس ہیڈ کوارٹر کو مطلع کر دیا تھا۔ نمبر تو اُسے یاد ہی تھے۔

لیکن کار کا ڈرائیور بڑی لاپروائی سے کار ڈرائیو کرتا ہوا اپنی منزل کی طرف جارہا تھا۔

 تھوڑی دیر بعد اس نے آسکر اسٹریٹ کی ایک شاندار عمارت کے سامنے کا روک دی ۔ عمارت کے اندر پہنچ کروہ ایک ایسے کمرے میں داخل ہوا جہاں ایک میز کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا اور میز پر صرف ایک فون رکھا ہوا تھا ۔اس نے نمبر ڈائل کئے اور ماؤ  تھ پیش میں بولا۔

            ’’لو زاٹالوزاٹا!‘‘وہ ایک لحظہ کے لئے رُکا ۔پھر  بولا ۔’’تیرا غلام گازالی بول رہا ہے ۔سب ٹھیک ہو گیا میں اُسے چکر دیتا ہوا آرلکچنو میں لے گیا !‘‘ پھر اس نے اپنے فرارکی داستان دہرادی۔

            ’’گازالی لوزاٹا تجھ سے خوش ہوا !‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔’’کیا مانگتا ہے !‘‘

            ’’عظیم لوزاٹاتیرے غلام کو کسی چیز کی کمی نہیں ۔گازالی  اس لڑکی کو چاہتا ہے جس کاباپ تیرے مقدس ہا تھوں سے دوسری دنیا میں پہنچ گیا !‘‘

            ’’گازالی !‘‘ دوسری طرف سے تنبیہ آمیز لہجے میں کہا۔

            ’’عظیم لوزاٹا !‘‘ گازالی کانپ گیا۔

            ’’تو لوزاٹا کے غلاموں کے مسلک سے واقف ہے !‘‘

            ’’عظیم لوزاٹا!میں رحم کی بھیک مانگتا ہوں !‘‘

            ’’آئندہ جنسی پیوند کی بات نہ آئے!‘‘

            ’’ایسا ہی ہوگالوزاٹا!‘‘

            گازالی نے فون کا سلسلہ منقطع کر دیا۔

10

سر جنٹ حمید آرلکچنومیں فریدی کا انتظار کر رہا تھا۔ پہلے اُس نے ہائی سرکل نائٹ کلب کے منیجرکر فون کیا تھا ۔

اس نے بتایا کہ فریدی کچھ دیر تک وہاں اس کا انتظار کرتا رہا تھا پھر اپنا پتہ چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ حمید نے منیجر کے بتائے ہوئے پتہ پر فون کیا۔ فریدی وہاں موجود تھا۔اس نے اُسے آر لکچنوہی  میں انتظار کرنے کو کہا ۔

 حمید اس وقت کی شکست پر بُری طرح جھنجھلایا ہوا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا تھا کہ آخر یہ سب ہوا کیسے!

وہ دونوں کہاں اور کیسے غائب ہو گئے... کیا اُس گلی میں جہاں چند لمحوں کے لئے کار اُس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی۔

حمید کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ شاید بیس منٹ بعد فریدی آرلکچنو کے ڈائننگ ہال میں داخل ہوا ۔

’’سب چوپٹ ہو گیا ! ‘‘حمید نے کہا۔

’’پہلے تم یہ بتاؤ کہ میرے منع کرنے کے باوجود بھی آج تم نے وہی حرکت کیوں کی !‘‘ فریدی نے جھنجھلا کر

کہا۔

’’اوہ تو اُس چکا دڑ کے بچے نے پھر شکایت کردی۔ کیا اُس نے آپ کو وہ سادہ چیک نہیں دکھایا ۔ وہ اچھاخاصا سور ہے ۔ اس نے بر خوردار بغر اخاں کو چھیڑا ہی کیوں تھا!‘‘

فریدی چند  لمحے  اُسے گھورتا رہا پھر بولا۔ ’’ تم نے مجھے وہاں کیوں بلایا تھا ؟‘‘

’’ برخوردار بَغر اخاں کے ایک کارنامے کی داد خواہی کے لئے !‘‘حمد نے کہا۔ ’’ لیکن  افسوس کہ میں اُس عظیم بکرے کو وہاں سے اپنے ساتھ نہ لا سکا تھا ورنہ یہ دن نہ دیکھتا!‘‘

 حمید نے سارے واقعات دہراد یئے  ۔ اس نے اُسے بتایا کہ کس طرح وہ محض اُسی بکرے  کی وجہ سے اُس پر اسرار اندھے کو پہچان سکا اور کس طرح بکرے کی عدم موجودگی میں اُس سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ فریدی غور سے سنتا رہا۔

درمیان میں دو ایک بار اس نے بولنا چاہا لیکن پھر خاموش ہو گیا۔

جب حمید  سب کچھ کہہ چکا تو فریدی بولا ۔’’ یہ بہت بُرا ہوا ۔ یقینًا وہ لوز اتا ہی تھا۔ آج میں نے اس کی گزرشتہ

زندگی کے متعلق اور بھی معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ وہ حقیقتاً افریقہ کے ڈالے گاگا قبیلے کا ایک مذہبی پیشوا بھی ہے۔

تمہیں کا فی احتیاط بر تنی چا ہئے تھی !‘‘

            ’’تو بتا یئے نا مجھ سے کون سی غلطی  سر زد ہو ئی ہے !‘‘ حمید جھنجھلا کر بولا۔

            ’’یہی کہ تم نے یہاں ٹھہر کر بے کا روقت ضائع کیا ۔ جیسے ہی تم نے اُس فوجی کو یہاں دیکھا تھا تمہیں پھر اُسی گلی میں واپس جانا چا ہئے تھا جہاں ایک ٹھیلے نے تمہاری راہ روک لی تھی ۔یا اس سے بھی زیادہ آسان طریقہ یہ تھا کہ تم یہاں باہر ہی ٹھہر کر اُس فوجی کا انتظار کر تے !‘‘

            ’’مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ اس طرح نکل جا ئے گا !‘‘

            ’’بچوں کی سی با تیں نہ کرو۔آخر اُن دونوں کے بجائے کا ر میں اُس فوجی کی موجود گی کا کیا مطلب تھا ۔ظاہر ہے کہ وہ ہو شیا ر ہو گئے تھے ۔انہوں نے تمہیں دھو کا دیا تھا ۔ان کی جگہ فو جی نے اس لئے نہیں لی تھی کہ تمہا رے سا تھ بیٹھ کر آئس کر یم کا لطف اٹھا نا چا ہتا تھا !‘‘

            ’’چلئے میں گدھا !‘‘ حمید جھلّا کر بولا ۔’’اب آپ ہی تیر ما ریئے!‘‘

            فر یدی کچھ نہ بولا ۔

            تھو ڑی دیر بعد حمید نے کہا ۔’’مجھے کا ر کا نمبر یا د تھا ۔میں نے پو لیس ہیڈ کو ار ٹر کو اُس سے مطلع کردیا !‘‘

            ’’اور تم سمجھتے ہو کہ وہ کا ر پکڑ لی گئی ہو گی !‘‘

            ’’نہ بھی پکڑی گئی ہو گی تو کیا میں کنوا رامر جا ؤں گا یہ سا لے دنیا بھر کے اندھے لو لے لنگڑ ے اسی شہر میں آمر تے ہیں !‘‘

            ’’میں نے تم سے یہ تو نہیں کہا تھا  کہ تم اس کیس میں دلچسپی لو!‘‘ فر یدی تلخ لہجے میں بولا ۔

            ’’بہتر ہے ! میں نے ابھی تک آپ کے لئے جتنی معلومات فراہم  کی ہیں انہیں واپس لیتا ہوں !‘‘

            فر ید ی کچھ نہ بولا ۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر اُٹھ کر چلا گیا ۔

11

ہوٹل ڈی فرانس کے ایک کمرے میں فوزیہ بے چینی سے قبل رہی تھی۔ کسی نے باہر سے دروازے پر

دستک دی ۔

’’آجاؤ!‘‘ فوزیہ نے ٹہلتے ٹہلتے  رُک کر کہا۔

دروازہ کھلا اور ڈیگال اندر داخل ہوا۔

’’کیا بات ؟‘‘ فو زیہ نے تحکما نہ لہجے میں کہا۔

’’لیو کا س بہت شر مندہ ہے بے بی ۔اس سے حما قت ہو ئی۔ اُسے و ہ طریقہ نہ اختیار کر نا چا ہئے تھا۔ یقین مونواس کی نیت بخیر تھی ۔ اس نے محض اس لئے تمہیں بے ہو ش کیا تھا کہ کہیں پولیس تم سے اصل بات نہ معلوم کر لے ۔مسٹر عدنا ن زندہ نہیں ہیں لیکن ان کا نا م بڑا تھا اور ہمیشہ رہے گا ۔ ہم نہیں چا ہتے کہ اُن کے نام پر دھبہ لگے ۔اگر نور جہاں والی با ت ظاہر ہو جائے تو تم خود سوچو؟‘‘

’’لیکن تم نے ڈیڈی کی موت کے متعلق مجھ سے کیوں چھپایا ؟‘‘

’’میں کس طرح بتاتا ہے بی۔ میں نے سوچا تھا کہ آہستہ آہستہ تمہیں بتاؤں گا !‘‘

’’ خیر !‘‘ فوزیہ کچھ سوچنے لگی۔

’’ اور ... یہ دیکھو!‘‘ ڈیگال نے جیب سے ایک لفافہ نکال کر فوزیہ کی طرف بڑھایا۔

’’ کیا ہے؟‘‘

’’ اسے پڑھو!‘‘

فوزیہ نے لفافے سے کاغذ نکال لیا جس پر تحریر تھا

’’ اندھیرے کا مالک تمہیں حکم دیتا ہے کہ چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ تم سب تاریکی کی مملکت میں پہنچا دیئے جاؤ گے جہاں عدنان اس وقت اندھیرے میں سر ٹکر اتا پھر رہا ہے اگر تم نے پولیس کو میرے متعلق کچھ بتایا تو تمہارا خون تمہاری ہی گردن پر ہوگا۔ میں بے وجہ کشت و خون پسند نہیں کرتا لیکن اپنی راہ میں آئے ہوئے روڑوں کو ہٹانا ہی پڑتا ہے!‘‘

فوزیہ نے کاغذ کو موڑ تو ڑ کر پیروں تلے مسل ڈالا۔

’’بے بی ہمیں جلد از جلد یہاں سے چلا جا نا چا ہئے!‘‘

’’میں ڈرتا نہیں ہو ں !‘‘ ڈیگال نے کہا۔’’محض تمہا ری وجہ سے !‘‘

’’میری پر دامت کرو!‘‘ فوزیہ بولی۔ ’’ میں اُس اندھے کا خون اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں!‘‘

’’یہ بہت مشکل ہے بے بی بہت مشکل ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ لوزاٹا کے ساتھ گا زانی بھی ہے اور تم اُسے

اچھی طرح جا نتی ہو ۔ وہ کتنے عرصہ تک تمہیں تنگ کر تا رہا تھا !‘‘

            ’’کچھ بھی ہو میں ڈیڈ ی کے خون کا بدلہ ضرورلوں گی !‘‘

’’بچپنا مت کرو بے بی ۔ وہ بہت خوفناک آدمی ہے ! ‘‘

’’ڈیگال ! اگر تم لوگ اُس سے ڈرتے ہو تو مجھے یہاں تنہا چھوڑ کر واپس جاسکتے ہو۔ میری رگوں میں ایک جنگجو قوم کا خون ہے!‘‘

’’میں پھر کہوں گا کہ تم غلط بھی ہو۔ اگر میں ڈرتا ہوتا تو مسٹر عدنان کے ساتھ اس مہم پر نہ آتا۔ مجھ پر تمہاری

حفاظت فرض ہے !‘‘

’’اچھا جاؤ بے کار مجھے پریشان نہ کرو ۔ میرا جو دل چاہے گا کروں گی۔ دوبارہ مجھے تکلیف نہ دینا۔ میں تنہائی چا ہتی ہوں !‘‘

 فوز یہ ٹہلتی  رہی۔ اس طرح پندرہ منٹ گزر گئے۔ پھر اس نے انگڑائی لی اور شاید دروازہ مقفل کرنے کی نیت سے آگے بڑھی ہی تھی کہ کسی نے باہر سے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔ دروازہ کھلا اور ایک آدمی تیزی سے اندر داخل ہوا۔ اس کے ایک ہاتھ میں ریو الور تھا ۔ فوزیہ سہم کر پیچھے ہٹ گئی ۔ آنے والے نے دروازہ بند کر کے پیشانی سے فلیت ہیت کا گوشہ اٹھایا اور کوٹ کے کالر گرا دیئے ۔ فوزیہ کے سامنے گا زالی کھڑا مسکرارہا تھا۔

ایک شکار

پھر گازالی نے ریوالور جیب میں ڈال لیا۔ فوزیہ اُ سے گھور رہی تھی اور گا زالی اُسے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے

کوئی بلّی کسی چوہے کو قابو میں کر لینے کے بعد دیکھتی ہے۔اُس کی آنکھوں سے جنسی درندگی جھانک رہی تھی۔

’’ تم بغیر اجازت میرے کمرے میں کیوں داخل ہوئے !‘‘ فوزیہ غرائی۔

 گازالی کچھ نہ بولا اور نہ اُس کے چہرے پر کسی قسم کا تغیرہی دکھائی دیا۔ وہ پلک  جھپکائے بغیر فوزیہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔

فوزیہ فون کی طرف بڑھی۔ وہ جھپٹ کر اُس کے سامنے آگیا لیکن اب بھی اُس کی پلکیں نہیں جھپکیں وہ برابر فوزیہ کی آنکھوں میں دیکھے جارہا تھا ۔ فوزیہ کے ہاتھ اُسے ڈھکیلنے کے لئے اٹھے لیکن آگے نہ بڑھ سکے۔ پتہ نہیں وہ مسحور ہوگئی تھی یا پھر اُسے یہ خدشہ تھا کہ اگر اُس کی پلکیں جھپکیں یا نظر ذراسی بھی چوک گئی تو وہ اس پر حملہ کر بیٹھےگا ۔ بالکل سانپ اور نیولے کی سی جنگ کا نقشہ تھا۔ فوزیہ چیخ سکتی تھی لیکن اس کے منہ سے ہلکی سی آواز بھی نہ نکلی۔

اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ گازائی چونک پڑا اور پھر وہ دو ہی جستوں میں دروازے کے قریب   تھا۔ اس نے پھر ریو الور نکال کر اُس کا رخ فوزیہ کی طرف کر دیا جو کمرے کے دوسرے سرے پر میزکے قریب کھڑی تھی ۔

12

فریدی آرلکچنو سے اُٹھنے کے بعد ہوٹل ڈی فرانس کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔ اُسے ڈیگال اور اُس کے ساتھیوں سے لوزاٹا کے متعلق کچھ اور بھی پوچھنا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ حمید نے ایک بہترین موقع کھو دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اندھے تک پہنچنا آسان نہ رہا ہو گا تب ہی تو اُس نے عدنان کے کرائے پر مہیا کئے ہوئے آدمیوں میں سے تین کو زندہ نکل جانے دیا تھا ورنہ وہ انہیں بھی ختم کر دیتا۔ اس لا پروائی کا مطلب یہی  ہوسکتا تھا کہ وہ خود کومحفوظ سمجھتا ہے اور یہ تو اُسے معلوم ہی ہو چکا تھا کہ لوز اٹا تنہا نہیں ہے۔ جیسے ہی فریدی ہوٹل ڈی فرانس میں داخل ہوا اُس کا متعین کیا ہوا ایک آدمی اس کی طرف تیزی سے آیا۔

’’لڑکی کے کمرے میں ابھی ایک اجنبی داخل ہوا ہے! ‘‘اس نے کہا۔

 فریدی سر ہلاتا ہوا اوپری منزل کی طرف چلا گیا ۔ راہ داری سنسان تھی۔ وہ فوزیہ کے کمرے کے سامنے پہنچ

کررکا۔

 پھر اُس نے آہستہ آہستہ دستک دی۔ شاید ایک منٹ بعد اندر سے فوزیہ کی آواز آئی۔

’’ آجاؤ!‘‘

فریدی دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ فوزیہ غسل خانے کے دروازے سے لگی کھڑی تھی اور اُس کے چہرے

سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اُس کی پیٹھ میں کوئی چیز چبھ رہی ہو ۔ غسل خانے کے دروازے میں خفیف سادرّہ  تھا۔

’’کیا بات ہے؟ ‘‘فوزیہ نے پوچھا۔ فریدی کو اُس کے لہجے میں کچھ بناوٹ سی محسوس ہوئی۔

’’میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آپ موجود ہیں یا نہیں !‘‘ فریدی نے اُسے گھورتے ہوئے کہا۔

’’ مم میں مم موجود ہوں !‘‘

’’ تکلیف دہی کی معافی چاہتا ہوں!‘‘ فریدی نے نرم لہجے میں کہا۔’’  کیا آپ میرے ساتھ ڈائٹنگ ہال تک

چلیں گی!‘‘

فوزیہ گھبراگئی اور یہ اچانک قسم کی گھبراہٹ اُس کے چہرے سے صاف ظاہر ہورہی تھی ۔

’’جج  ... جی نہیں.. . آپ جاسکتے ہیں ۔ میں اس وقت کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتی !‘‘

’’اچھا پھر سہی! ‘‘فریدی نے لا پروائی سے کہا۔’’ شب بخیر !‘‘

 اُس نے تیزی سے باہر نکل کر دروازہ بند کر لیا۔ داہنی طرف کیل سے کمرے کی دونوں کنجیاں لٹک رہی

تھیں ۔ فریدی نے ہاتھ بڑھا کر کنجیاں اُتاریں اور دروازے کو باہر سے مقفل کر دیا۔ پھر تیزی سے برابر والے کمرے کی طرف بڑھا جو غالباً لیو کاس کا تھا ۔ اس نے دستک دیئے بغیر دروازے کا ہینڈل گھمایا اور پھر دوسرے لمحے میں وہ اندر تھا۔ لیو کاس اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ کہتا فریدی نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اُسے خاموش کر دیا۔

 لیو کاس اُسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ فریدی نے بڑھ کر غسل خانے کے دروازے کو دھکا دیا لیکن وہ

اندر سے بند تھا۔

’’ کیا بات ہے! ‘‘لیو کاس نے فریدی کے قریب آکر آہستہ سے پوچھا۔

’’ لڑکی کے کمرے میں کوئی ہے !‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ڈیگال ہو گا !‘‘

’’نہیں کوئی اور تم میں سے کوئی نہیں ہے۔ تم اپنے ساتھیوں کو بلاؤ ۔ جلدی کرو!‘‘

 بات اب بھی لیوکاس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ حیرت سے منہ کھولے کھڑا رہا۔

’’ جلدی کرو!‘‘ فریدی اُسے دروازے کی طرف ڈھکیلتا ہوا بولا ۔

 لیو کاس چلا گیا۔ اس کے ساتھیوں کے آنے میں دیر نہیں لگی۔

’’ اوه آفیسر کیا بات ہے!‘‘ ڈیگال آگے بڑھتا ہوا بولا۔

’’ کمرے میں لڑکی کے ساتھ کوئی ہے !‘‘ فریدی نے کہا ۔ ’’ تم لوگ یہیں ٹھہر و۔ غسل خانے کے دروازے کا

خیال رکھنا اور تم میرے ساتھ آؤ!‘‘

 فریدی نے نیگرو کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ پھر راہ داری میں آگیا۔

 اس نے فوزیہ کے دروازے کے قتل میں کنجی لگائی ہی تھی کہ اندر سے کسی نے غرا کر کہا۔ ’’گولی مار دوں گا

لڑکی کو اگر کوئی اندر آیا !‘‘

’’ارے !‘‘سیاہ فام افریقی اُچھل پڑا ۔

فریدی نے اُسے جواب طلب نظروں سے دیکھا۔

’’ گازالی!‘‘ نیگرو نے سرگوشی کی۔ ’’ لوزاٹا کا داہنا ہاتھ نہیں گورنر! وہ خطرناک ہے۔ وہ مسّی کو ضرور مار

ڈالے گا!‘‘

فریدی نے ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔

’’ شائیں !‘‘ کوئی چیز اس کے داہنے کان کے قریب سے گزر کر پچھلی دیوار سے ٹکرائی۔ وہ پھرتی سے ایک

طرف ہٹ گیا۔ فوزیہ بری طرح چیخ رہی تھی لیکن پھر شاید اس کا منہ دبا دیا گیا۔

’’ریوالور پھینک دو!‘‘ فریدی نے باہر سے کہا۔’’ اور نہ تمہارا جسم چھلنی ہو جائے گا !‘‘

فوزیہ کی پشت گازالی کے بیٹے سے لگی ہوئی تھی۔ بائیں ہاتھ سے اس نے اس کی گردن و بوچ رکھی تھی اورداہنے ہاتھ میں ریوالور تھا ۔اس طرح فو زیہ اس کی ڈھال بن کر رہ گئی تھی ۔

فا ئر کی آواز پر بہت سے لوگ راہ داری پر اکٹھا ہو گئے تھے ۔فر یدی انہیں دروازے کے سامنے آنے سے روک رہا تھا ۔

اب گا زالی نے ریوالور کی نال فو زیہ کی کمرے سے لگا دی اور اُسے ڈھیکتا ہو ا آگے بڑھنے لگا ۔ سا تھ ہی سا تھ وہ چیختا بھی جا رہا تھا ۔’’اگر کسی نے مجھے چھوا بھی تو میں اس لڑکی کو جہنم میں پہنچا دوں گا !‘‘

فریدی نے بے بسی سے مجمع کی طرف دیکھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید اسے اپنی اس وقت کی بے بسی تمام عمر یاد رہے۔ پستول کی نال فوزیہ کی کمر پرتھی ۔ گازالی کی انگلی کی ایک خفیف سی جنبش پر اُس کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ مجمع متحیر تھا۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ لوگ ایک خونخوار آدمی کی گرفت میں ایک بے بس لڑکی کو دیکھ رہے تھے لیکن شاید وہ اُس لڑکی سے بھی زیادہ بے بس تھے ۔ کیونکہ گازالی کی غراہٹ برابر جاری تھی۔ وہ بڑی خوفناک آواز میں کہہ رہا تھا۔

’’قریب نہ آنا ورنہ لڑکی کو گولی مار دوں گا !‘‘

مجمع کائی کی طرح پھٹنے لگا۔ گازالی فوزیہ کو آگے کی طرف ڈھکیلتا ہوا راہداری میں آگیا تھا اور اب نیچے جانے کے لئے زینوں کی سمت بڑھ رہا تھا۔ اتنی دیر میں ڈائننگ ہال کے سارے آدمی او پر پہنچنے کے لئے جدو جہد کا آغاز کر چکے تھے۔ عجیب مضحکہ  خیز منظر تھا۔ فریدی جو اُن دونوں کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا خود کو اسٹیج کا مسخرہ  تصور کرنے لگا تھا۔ غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے نکل رہا تھا ۔’’ ہٹو راستہ دو ہٹو راستہ دو!‘‘

کتنی عجیب سچو یشن تھی ۔قانون کا ایک مجرم کے لئے راستہ بنا رہا تھا ۔ وہ جا نتا تھا کہ اگر کسی سے گا زالی کے معمولی سا دھکا بھی لگ گیا تو ریو الو ر کا ٹر یگر کھینچ جا ئے گا ۔ وہ ایک نفساتی لمحہ تھا ۔ بچا ؤ کی صورت نہ دیکھ کر ایک بلّی بھی کسی شیر کی طرح جھپٹتی ہے۔

گازالی نے زینے  طے کئے ۔ ہا ل کے وسط میں پہنچ کر وہ فوزیہ سمیت مجمع کی طرف مُڑا۔

’’پیچھے ہٹو!‘‘ وہ زور سے چیخا ۔فر یدی اُسے غور سے دیکھنے لگا ۔ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اُس کی آنکھوں سے اُس کے ذہن میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہو ۔

’’اور پیچھے ہٹو !‘‘ گا زالی پھر چیخا ۔’’ہٹتے جا ؤ!‘‘

مجمع پیچھے ہٹا اور دفعتہً فر یدی نے اپنے سامنے کھڑے ہو ئے دو آدمیوں کو ایک طرف ہٹادیا ۔اس کا داہنا ہا تھ جیب میں تھا اور عقابی آنکھیں گازالی کے چہرے پر گڑی ہو ئی تھیں ۔

اچا نک گا زالی کا ریوالور والا ہا تھ بڑی پھر تی سے اوپر اٹھا ۔شا ید وہ بجلی کے کسی بلب پر نشا نہ لگا کر ہا ل میں اندھیرا کر نے جا رہا تھا لیکن اُسے مہلت نہ ملی ۔مجمع نے فا ئر کی آواز سنی اور گا زالی کا ریوالور اچھل کر دور جا گرا۔

گا زالی فو زیہ کو دھکا دے کر اُچھلا لیکن قبل اس کے کہ پیر زمین سے لگتے فر یدی کے ریو لور سے دوسرا شعلہ نکلا اور گا زالی کو لہو ں بَل دھب سے فرش پر آگرا ۔اس نے پھر اٹھنا چاہا لیکن فر یدی نے جھپٹ کر اس کی ٹھو ڑی پر ایک ٹھو کر رسید کر دی ۔

فوزیہ کا حبشی باڈی گارڈ چیخ چیخ کر گانے لگا۔

’’پلو  مالا پلو مالا پے  گوری ... ٹاگال !‘‘ (مارلیا ... مارلیا... آخری نیزہ زہر یلا تھا ) پھر اُس نے اُچھل

اُچھل کر جنگلی ناچ  بھی شروع کر دیا۔

 فریدی زخمی گازالی کی ٹانگ پکڑ کر کھینچتا ہو ادروازے کے قریب سے ہٹا رہا تھا ۔ گا زالی بے ہوش نہیں ہوا تھا، نہ وہ چیخ رہا تھا اور نہ کراہ رہا تھا۔ اس کی خاموشی کسی ایسے سانپ کی بے بسی سے بہت مشابہ تھی جس کی کمر ٹوٹ گئی ہو اور وہ ایک ہی جگہ پر پڑا لہریں لے رہا ہو۔ اس کی چمکیلی آنکھیں فریدی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ۔

’’ کھیل ختم ہو گیا !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ اور پھر اس نے اُسے گریبان سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے ایک کرسی میں ڈال دیا۔

 حبشی ابھی تک ناچ رہا تھا ۔ ڈیگال وغیرہ بڑی مشکل سے اس پر قابو پا سکے ۔ فریدی مجمع کی طرف مڑا۔

’’ خواتین و حضرات !‘‘ اس نے بلند آواز میں کہا ۔ ’’ آپ لوگ براہ کرم اپنی جگہوں پر تشریف رکھئے۔ کوئی خاص بات نہیں ۔ ایک مجرم جس کی پولیس کو تلاش تھی ...!‘‘

مجمع میں کئی ایک فریدی کے ملاقاتی بھی تھے لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس وقت فریدی کے

قریب بھی آتے ۔ فریدی گازالی کو اُن کے چارج میں دے کر فون کی طرف بڑھا۔

 پرنسٹن کا تھا نہ قریب ہی تھا۔ فون کرنے کے ٹھیک سات منٹ بعد تھانے کا انچارج وہاں پہنچ گیا۔ گازالی کو اُس کے سپرد کر کے فریدی ڈیگال کے ساتھ پھر اوپری منزل پر چلا گیا۔ فوزیہ کی حالت ابتر تھی ۔ ابھی تک اس کے جسم کی تھر تھری نہیں مٹی تھی۔

’’ وہ کس لئے آیا تھا؟‘‘ فریدی نے فوزیہ سے پوچھا۔

فوزیہ کچھ نہ بولی ۔ وہ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔

’’ آفیسر!‘‘ ڈیگال کھنکار کر بولا ۔’’ بات دراصل یہ ہے کہ گازالی پہلے بھی بے بی کو پریشان کرتا رہا ہے لیکن مسٹر عد نان کی زندگی میں اُسے کبھی اتنی جرأت نہیں ہو ئی!‘‘

’’لو زاٹا اور عدنان کے تعلقات کس قسم کے تھے؟‘‘

’’ کسی قسم کے بھی نہیں !‘‘ ڈیگال جلدی سے بولا ۔ ’’ اس نے مسٹر عدنان کو دھوکہ دے کر اتنی ہزار انگلش پونڈ اینٹھ لئے تھے!‘‘

’’شاید چھ ماہ پیشتر کی بات ہے! ‘‘لیو کاس نے ٹکڑالگایا۔

فریدی نے اُسے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے اسے اس کی بات پر یقین نہ آیا ہو۔

’’  ہم !‘‘ وہ سگار کا کونا تو ڑتا ہوا بولا ۔ ’’ میرا خیال ہے یہ تین سال پہلے کی بات ہے!‘‘

’’  کیوں؟ ‘‘ڈیگال چونک پڑا۔ ’’ میں نہیں سمجھا !‘‘

’’ لیکن میں سمجھ گیا ہوں !‘‘

’’ آخر بات کیا ہے؟‘‘ ڈیگال بے چینی سے پہلو بدلتا ہوا بولا ۔

 فریدی چند لمحے اُسے گھورتا رہا پھر سگار سلگانے کے لئے جھکا ۔ کمرے کا سناٹا کچھ اور بھی بوجھل ہو گیا۔ ان میں کم از کم ایک آدمی ایسا ضرور تھا جس کی چڑھتی ہوئی سانسیں کمرے کی محدود فضا میں گونج رہی تھیں ۔

’’میں اب تم سے کچھ نہیں پوچھوں گا !‘‘ فریدی اُٹھتا ہوا بولا ۔

’’  ہم نے سب کچھ بتا دیا ہے آفیسر ! ‘‘ ڈیگال بھی اٹھتا ہوا بولا ۔

اور پھر ان سب کی تحیر آمیز نظریں فریدی کا تعاقب کرتی رہیں. .. وہ کمرے سے جا چکا تھا۔ ڈیگال چند لمحے

بے چینی سے ٹہلتا رہا پھر اپنے ساتھیوں سے بولا۔

’’ تم لوگ آرام کرو!‘‘

لیو کاس کے علاوہ اور سب چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد ڈیگال لیو کاس کو گھور نے لگا۔

’’ تم نے !‘‘ وہ دانت پیس کر بولا ۔ ’’سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے!‘‘

’’میری وجہ سے کیوں؟‘‘لیو  کاس نتھنے پھلا کر بولا ۔

’’ تم نے بے بی کو بے ہوش کر کے اُسے ہماری طرف سے مشکوک کر دیا ہے!‘‘

’’میں کیا کرتا … کیا یہ تمہاری ہدایت نہیں تھی کہ ...!‘‘

’’ کچھ نہیں !‘‘ ڈیگال ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ ’’ فضول بحث سے کوئی فائدہ نہیں !‘‘

لیو کاس جھلاہٹ میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ فوزیہ بول پڑی ۔’’ پچھلی باتوں میں الجھنے سے کیا فائدہ۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ یہ آدمی بہت زیادہ چالاک معلوم ہوتا ہے!‘‘

’’بین الاقوامی شہرت کا مالک ہے بے بی !‘‘ڈیگال نے کہا۔’’ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایک ایسے آدمی سے ٹکرائے ۔ میرا خیال ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور نہ تین سال قبل کا حوالہ نہ دیتا!‘‘

’’لیکن اس وقت اس کی وجہ سے میری جان بچ گئی !‘‘

’’ہوا کیا تھا؟“ ڈیگال نے پوچھا۔

’’تمہارے جانے کے شاید دس منٹ بعد گازالی کمرے میں گھس آیا لیکن میں ابھی تک نہیں سمجھ سکی کہ وہ چاہتا کیا تھا اوہ مگر اُسے کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جلدی کسی نے دروازے پر دستک دی۔ گازالی نے ریوالور نکال لیاپھر وہ مجھے غسل خانے کے دروازے پر لایا۔ خود اندر چلا گیا اور مجھے دروازے کے قریب کھڑا کر دیا۔ ریوالور کی نا ل

میری کمر سے لگی رہی۔ میں نے آفیسر کو اندر آنے کی اجازت دی ۔ گازالی نے یہی کہا تھا مگر وہ آفیسر انتہائی چالاک ہے۔ وہ کچھ کچھ گیا۔ جب میں نے گاڑالی ہی کے کہنے پر اسے کرے سے پہلے جانے کو کہا تو وہ چپ چاپ نکل گیا اور  پھر یہ سب کچھ ہو گیا۔ میرے خدا ک!کتنی خطرناک سچویشن تھی اور اُس نے کتنی آسانی سے گا زالی کوسیدھا کر دیا۔ مجھے تو وہ لوزٹا سے  بھی زیادہ خطر ناک معلوم ہوتا ہے !‘‘

 ڈیگال کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا ۔’’ اسے لکھ لو بے بی کہ لوزاٹا کو یہاں اس کی موت ہی لائی  ہے۔ فریدی

حقیقتًا بڑا خطر ناک آدمی ہے۔‘‘

13
کتّا جھپٹتا ہے

دوسری صبح حمید کے لئے زیادہ خوشگوار نہیں تھی۔ اُسے رہ رہ کر وہ چیک یاد آرہا تھا جو اس نے ہائی سرکل نائٹ کلب ک منیجر کو دیا تھا اور میجر نے بعد کو اسی کے سامنے بڑی بے دردی سے اس پر ڈھائی سو روپئے کی رقم لکھ لی تھی۔ اگر اسے اندھے کا تعاقب نہ کرنا ہوتا تو اس کی جیب سے ایک پائی بھی نہ نکلتی۔

 فریدی رات سے اب تک واپس نہیں آیا تھا اور حمید کو ہوٹل ڈی فرانس میں پیش آنے والے حادثے کا بھی علم  نہیں تھا۔

ناشتے کی میز پر اُس نے صبح کا اخبار اٹھایا۔ پہلے ہی صفحے پر ہوٹل ڈی فرانس والے واقعے کی خبر تھی۔ حمید نے چائے کی پیالی رکھ دی۔

 خبر کے اختتام پر نوٹ تھا۔ ’’بعد کی اطلاعات مظہر ہیں کہ پولیس کی ذراسی غفلت کی بنا پر انسپکٹر فریدی کی محنتوں پر پانی پھر گیا۔ مجرم سے بعض حیرت انگیز انکشافات کی توقع تھی لیکن بیان دینے سے قبل ہی اُس نے خودکشی کرلی۔ اس کی ڈھکن دار انگوٹھی  میں کوئی بہت ہی سریع الاثرقسم کا زہر تھا۔ پرنسٹن کے تھانے کے انچارج کی آنکھوں

کے سامنے مجرم اُسے چاٹ گیا۔ ‘‘

حمید نے اخبار رکھ کر ایک گہری سانس لی اور پھر چائے پینے لگا۔

 اُس کی نظروں میں یہ سارا معالمہ قطی بے سروپا تھا۔ آخر نور جہاں کون تھی جس کے لئے یہ سب کچھ ہوا۔ اگر وہ عدنان کی کوئی تھی تو اس نے براہ راست سرکاری طور پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کرائی۔ کیا فریدی اس کے متعلق  کچھ جانتا تھا ؟ ابھی تک مشاہدات کی بنا پر تو یہی ثابت ہوا تھا کہ فریدی اس کے متعلق کچھ نہ کچھ ضرور جانتا ہے۔ اس کے منہ سے نور جہاں کا نام سن کر ڈیگال اور فوزیہ بری طرح بدحواس ہو گئے تھے۔

 ناشتے سے فارغ ہو جانے کے بعد حمید سوچنے لگا کہ اب اُسے کیا کرنا چاہئے ۔ تنہائی اُسے اکتاہٹ کی طرف لے جاری تھی ۔ دل بہلانے کے لئے بکر اقطعی نا کا رہ تھا۔ ایسے مواقع پر اسے اپنی چو ہیا بری طرح یاد آنے لگتی تھی۔

وہ کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ اسے پھر ایک چو ہیا پال کر اُسے تربیت دینی چاہئے۔

 بکرا اس نے محض اس لئے پالا تھا کہ اپی بعض شناسا عورتوں کو چڑھا سکے جو کتے پالتی تھیں اور تھوڑا بہت فریدی کو بھی تنگ کرنا مقصود تھا۔

حمید لباس تبدیل کرنے کے لئے اٹھ ہی رہا تھا کہ ایک نوکر نے قاسم کی آمد کی اطلاع دی۔ ووڈرائنگ روم میں ایک صوفے پر جوتوں سمیت پڑا حمید کا انتظار کر رہا تھا۔ حمید کو دیکھ کر اٹھ بیٹھا۔

 اس کا موڈ کچھ خراب معلوم ہورہا تھا ۔ حمید نے سوچا چلو غنیمت ہے تنہائی سے تو نجات ملی ۔ قاسم بُرے بُرے

منہ بنا رہا تھا۔

’’ کیا بات ہے؟ ‘‘حمید نے پوچھا۔ ” بیوی سے لڑ کر آرہے ہو!‘‘

’’ہاں !‘‘ قاسم اس طرح جھلا کر بولا جیسے حمید اس کی بیوی کا سگا بھائی ہو ۔’’ بسالی اب بالکل نا قابل برداشت

ہوگئی ہے!‘‘

’’سالی سے کیا مطلب ! تم بیوی کی بات کر رہے تھے !‘‘

’’یار تاؤ نہ دلاؤ !ور نہ تمہیں مار بیٹھوں گا !‘‘

’’ آخر بات کیا ہے؟‘‘

’’ہماری کوٹھی کے سامنے وہ وداور صاحب رہتے ہیں نا۔ آج ان کی لڑکی ثمینہ میری توند پر مُکّے ماررہی تھی بس  سالی ہتھے سے اُکھڑ گئی ... کہنے لگی میں سب سمجھتی ہوں ۔ آخر کیا بجھتی ہے اُلّو کی پٹھی !‘‘

پھر قاسم خاموش ہو کر اس طرح حمید کو گھورنے لگا جیسے اس کا جواب اس سے چاہتا ہو!“

’’لڑکی کی عمر کیا ہے؟‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’ نہیں پہلے یہ بتاؤ کہ وہ کیا سمجھتی  ہے!‘‘

’’ابے میں کیا بتاؤں !‘‘

’’نہیں اندازا کچھ !‘‘

’’پہلے اُس کی عمر بتاؤ پھر میں اندازہ لگاؤں گا !‘‘ حمید نے کہا۔

’’تیره یا چودہ سال !‘ ‘قاسم نے غصیلی آواز میں کہا۔

’’  تب تو وہ ٹھیک ہی سمجھتی  ہے ! ‘‘حمید مسکرا کر بولا ۔’’ وہ تمہاری تو ند پر مُکّے کیوں ماری تھی !‘‘

’’یو نہی  مذاقّا !‘‘

’’تم اسے پسند کرتے ہو کہ وہ تمہاری تو ند  پر مکّے  بازی کیا کرے !‘‘

’’ کیا حرج ہے زور سے تو مارتی نہیں !‘‘

’’اگر تمہاری بیوی بھی یونہی کسی کی توند سے شوق فرمانا شروع کر دے تو !‘‘

’’زند ہ دفن کر دوں سالی کو !‘‘ قاسم گرج کر بولا ۔

’’ آخر کیوں ؟‘‘

’’بحث مت کرو مجھ سے !‘‘ قاسم حلق پھاڑ کر چیخا اور کمپاؤنڈ  میں کتّے بھونکنے لگے۔

’’  تمہارے کنوارے پن کا کیا حال ہے!‘‘

قاسم جھلا کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ حمید نے فون کی گھنٹی سنی ۔ وہ ڈرائنگ روم سے اُٹھ کر فریدی کے کمرے میں آیا ... ریسیور اٹھایا اور پھر اس کی پیشانی پر بَل پڑ گئے۔

’’ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

’’ برخوردار بغرا خاں کی شادی کی فکر کر رہا ہوں!‘‘

’’ ایک بلڈ(Blood Hound (۔(شکار ی کتّا)ہاؤنڈ لے کر پرنسٹن کے تھانہ پر آ جاؤ!‘‘

’ کیوں ؟‘‘

’’ضرورت ہے!‘‘ فریدی نے جھلا کر کہا۔ ’’ جلدی آؤ!‘‘

’’ برخوردار بغرا خاں بھی ضد کر رہا ہے۔ وہ بھی آئے گا !‘‘

 حمید بکتا رہا لیکن دوسری طرف سے سلسلہ منقطع کر دیا گیا۔

14

طویل القامت اندھا لوزاٹا اپنی عجیب و غریب تفریح میں مشغول تھا۔ میز پر بہت سے چاقو بکھرے ہوئے تھے اور کمرے کے ایک گوشے میں ایک آدمی بڑا سا تھیلا اُٹھائے کھڑا تھا۔

’’ چلو!‘‘ اندھے نے کہا۔

گوشے میں کھڑے ہوئے آدمی نے تھیلے سے ایک موٹا سا چوہا نکال کر فرش پر ڈال دیا۔ چوہے کے ایک پیر میں ننہا سا گھنگھرو بندھا ہوا تھا۔ لوزاٹا نے میز سے چا قو اٹھایا اور چوہے نے آدھا کمرہ بھی نہیں طے کیا تھا کہ چا قو اس کا جسم چھید تا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ چوہا چا قو سمیت اُچھلنے لگا۔

’’کیوں؟‘‘ لوزاٹا اُس آدمی کی طرف مڑ کر بولا۔

’’ لوز اٹا ... سورج ہے ! عظیم لو زاٹا...!‘‘ آدمی کا نپتا ہوا بولا۔

’’دوسرا ! ‘‘ لوزاٹا نے کہا۔

 اس نے دوسرا چو ہا تھوڑا۔ لوزاٹا نے پھر چاقو پھینکا اور اس کا بھی وہی حشر ہوا ۔ وہ کھنگھروؤں کی آواز پر نشانہ لگاتا تھا۔ یکے بعد دیگرے چھ چوہے ختم کرنے کے بعد وہ اُس آدمی سے بولا ۔’’ بیلا کو بھیج دو!‘‘

وہ تعظیماً جھکا اور کمرے سے چلا گیا۔ اس نے مردہ چو ہے بھی نہیں اٹھائے اور نہ ان کے جسموں سے چاقو ہی

نکالے۔

تھوڑی دیر بعد ایک خوبصورت کی لڑکی کمرے میں داخل ہوئی۔

’’بیلا!‘‘

’’ہاں لوزاٹا!‘‘

’’ کیا خبر ہے؟‘‘

’’گازالی کے متعلق صحیح خبر تھی!‘‘

’’اُس کتّے کو میں نے باز رکھنے کی کوشش کی تھی !‘‘ لوزاٹا سرد لہجے میں بولا ۔ ’’ لوزاٹا کا حکم نہ ماننا موت کو دعوت دینا ہے ! موت اُن کا پیچھا کرتی ہے۔ دن رات ان کے سروں پر منڈلاتی رہی ہے ... اور پھر وہ اس کا لقمہ بن جا تے ہیں !‘‘

’’میں نے لا ڈن کو وہا ں بھیجا ہے جہا ں اس کی لاش ہے !‘‘بیلا نے کہا ۔

’’اس احمق زولو کو تو نے ناحق بھیجا !‘‘ لوزاٹا کچھ سوچتا ہوا بولا ۔’’ لیکن بھیجاہی کیوں ؟‘‘

’’  ممکن ہے گا زالی کے پاس کوئی ایسی چیز رہی ہو جس سے انہیں ہمارا سراغ مل سکے!‘‘

 ’’خیال ٹھیک ہے !‘‘ لوز اٹا بڑ بڑایا ۔ ’’ لیکن لاڈن اس کے لئے موزوں نہیں تھا خیر!‘‘

’’  عظیم لوزاٹا !‘‘بیلا تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولی ۔ ’’ میری مجال نہیں کہ تجھے کوئی مشورہ دے سکوں لیکن کیا یہ

مناسب نہیں کہ ہم یہ جگہ چھوڑ دیں !‘‘

’’ کیا تو بلوزاٹا کی پر اسرار قوتوں سے واقف نہیں !‘‘

’’میں واقف ہوں لوز اٹا۔ تجھ پر ساری دنیا کا حال روشن ہے۔ لیکن میں نے یہاں کے ایک آدمی کے متعلق

بہت کچھ سنا ہے!‘‘

’’تیرا اشارہ اُس جاسوس کی طرف ہے جس نے گازالی کو پکڑ ا تھا ۔“

’’ ہاں! .. بلوزاٹا... اس دن نائٹ کلب میں مجھے پہچاننے ہی کے لئے بکرا چھوڑا گیا تھا!‘‘

لوز ا ٹا ہنسنے لگا۔

’’واقعی یہاں کے سراغرساں بڑے چالاک ہیں۔ مجھ سے دراصل اس رات کو غلطی ہوئی۔ مجھے اُن تینوں آدمیوں کو زندہ نہ چھوڑنا چاہئے تھا۔ بلاشبہ ان ہی تینوں کی بنا پر پولیس کو ہم سے آگاہی ہوئی۔ عدنان کے ساتھی تو خاموش ہی رہتے۔ خیر فکر نہ کرو۔ میں اس وقت تک یہاں ٹھہروں گا جب تک کہ جواہرات کی نمائش نہ شروع

ہو جائے !‘‘

تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر بیلا نے کہا۔

’’گازالی کی جگہ اب کون کام کرے گا؟‘‘

’’ تیرے علاوہ اب کون کر سکتا ہے !‘‘ لوزاٹا مسکر اکر بولا ۔ ’’ میں نے تجھے سب سے زیادہ روشنی بخشی ہے۔ کیا میه اس روشنی کا فیض نہیں تھا کہ تو نائٹ کلب والے واقعے سے واقف ہو گئی تھی ! ‘‘

’’ لوزاٹا ... مالک ہے!‘‘ بیلا تعظیماً جھک کر بولی۔

’’اب میری بات سن ! تو ابھی جس جاسوس کا تذکرہ کر رہی تھی وہ سچ مچ خطر ناک ہے۔ اس کا کام تمام کر دے۔ آخر وہ کیچوے کس دن کام آئیں گے!‘‘

’’اوہ کیچوے!‘‘

’’ہاں ... اس کی کار میں۔ یہ کام اَملیگا س کرے گا۔ املیگا س کو میں تیرے چارج میں دیتا ہوں۔ سارے کام اس سے لے ۔ لاڈن جیسے کچھوے یہ سب نہیں کر سکتے !‘‘

 کمرے پر پھر خاموشی مسلط ہوگئی… دفعتًہ ایک زخمی چوہا چا تو سمیت پھڑ کنے لگا۔

15

سر جنٹ حمید بلڈ باؤنڈ لے کر پرنسٹن کے تھانے پر پہنچ گیا۔ قاسم بھی اس کے ساتھ تھا راستے بھر وہ فوزیہ کے مسئلے پر حمید کو بور کرتا آیا تھا۔ اس نے آج تک کوئی ترک لڑکی نہیں دیکھی تھی۔ اس لئے وہ حمید پر زور ڈال رہا تھا کہ اگر تعارف نہیں تم کم از کم درشن ہی کرا دے۔

 فریدی تھانے میں موجود تھا ۔ حمید بلڈ ہاؤ نڈ اس کے سپرد کر کے گازالی کی لاش دیکھنے چلا گیا۔ واپسی پر اس نے فریدی کو بتایا کہ آرلکچنو میں اُس نے اس کی کار کا ٹائر پھاڑا تھا۔

فریدی بلڈ ہاؤنڈ کی زنجیر تھا مے  انچارج سے گفتگو کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر آیا۔ حمید اور قاسم بھی ساتھ تھے۔

’’ کتّے کی ضرورت کیوں پیش آئی ! ‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’ ابھی کچھ دیر قبل ایک غیر ملکی یہاں آیا تھا۔ یہاں اس کی موجودگی کی وجہ پوچھی گئی تو وہ کانسٹیلوں کو چر کہ

دے کر نکل گیا۔

’’ آپ موجود تھے !‘‘

’’ نہیں !‘‘ فریدی نے کہا اور جیب سے ایک رومال نکال کر کتے کے آگے ڈال دیا۔ پھر حمید سے بولا۔

’’ یہ رومال اس کی جیب سے گر گیا تھا ۔ کیا خیال ہے؟ ممکن ہے کتّا ہماری مدد کر سکے ۔ ورنہ ان تک پہنچنا مشکل

میں ہو گا !‘‘

’’ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں!‘‘ قاسم سر ہلا کر بولا ۔’’ ایک بار ہملاک شومز نے بھی ایسا ہی کیا تھا!‘‘

’’ہملاک شومز!‘‘فریدی مسکرایا۔

’’ ا بے شرلاک ہومز! حمید بولا ۔

’’ وہی ہوگا سالا ۔ تم میرے بیچ میں مت بولا کرو! ‘‘ قاسم برا مان گیا۔

کتّے نے رومال کو سونگھ کر ہلکی  سی آواز نکالی  اور سر اٹھا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ پھر وہ تھانے کی عمارت کی ایک کھڑی کی طرف بڑھا جس کا تعلق مردہ خانے سے تھا۔

 کھڑکی کے نیچے پہنچ کر اس نے پھر زمین سو نگھی  اور بھو گھنے لگا۔ پھر وہ زمین سونگھتا ہوا پھاٹک کی طرف دوڑا ۔ چند لمحے پھاٹک پر رُک کر چاروں طرف دیکھتارہا اور پھر بھونکتا ہوا فریدی وغیرہ کی طرف پلٹ آیا۔

’’  اچھا بھئی قاسم !‘‘ فرید ی بولا ۔’’ اب ہم شاید تمہارا ساتھ چھوڑ دیں !‘‘

’’ ہو۔ ہو اچھا اچھا مجھے بھی ذرا کام ہے!‘‘

 فریدی اور حمید کتّے کے پیچھے چل پڑے۔ وہ پھاٹک سے گزر کر سڑک پر آئے اور کتّا ایک طرف آہستہ آہستہ

دوڑنے لگا۔

’’کاش یہ لیلیٰ کا کتّا ہوتا ! ‘‘حمید ٹھنڈی سانس بھر کر بولا ۔

 فریدی کی نظریں کتّے کے تعاقب میں تھیں ۔ دو گلی میں گھسا۔ یہاں بھی اس نے دو تین جگہ زمین سو نگھی  اور پھر دوڑنے لگا۔

کئی گلیوں سے گزر کر وہ ایک دوسری سڑک پر آگئے۔

’’  کیا حماقت ہے! ‘‘ حمید بڑ بڑایا ۔’’ اگر وہ آگے چل کر اپنے پیروں سے نہ گیا ہو تو !‘‘

’’ فکر نہ کرو میں کوئی امکانی بات نہیں چھوڑتا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم اس تک پہنچ ہی جائیں گے !‘‘

’’ پھر اس طرح جھک مارنے سے کیا فائدہ !‘‘

’’اوہ تم شاید ... !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ کسی جاسوسی ناول کے سراغرساں کی طرح آرام کرسی کے جاسوس بننا چاہتے ہو!‘‘

’’ میں اب صرف شوہر بننا چاہتا ہوں ... باپ بننا چاہتا ہوں اور کچھ نہیں !‘‘

’’ میں نے تمھیں منع کب کیا ہے؟‘‘

’’ تنہانہیں !‘‘ حمید نے کہا۔ ’’ آپ کو بھی بننا پڑے گا !‘‘

’’ کیا مضائقہ ہے !تم شوہر بنو میں باپ بن جاؤں گا۔ امداد با ہمی   کے لئے سائنٹفک طریقے پر !‘‘

 دفعتًہ بلڈ ہاؤ نڈ قریب ہی کے ایک ریستوران میں گھسنے لگا۔ فریدی نے جھپٹ کر اُس کا پٹہّ پکڑ لیا۔ کتّا بھونکنے لگا تھا۔

’’ اسے دور لے جاؤ! ‘‘فریدی آہستہ سے بولا ۔ ’’ میں ابھی آیا !‘‘

 حمید نے بر ا سا منہ بنایا اور کتے کو کھینچتے ہوئے دوسری طرف لے جانے لگا۔ فریدی ریستوران میں چلا گیا۔

حمید کچھ دور چلنے کے بعد کتے کے پٹّے  میں زنجیر ڈالنے کے لئے رُکا۔

 فریدی تیزی سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’’حمید اسے واپس لے جاؤ۔ وہ ریستوران میں موجود ہے!‘‘

’’  لے آؤ۔ لے جاؤ!‘‘ محمد جھنجھلا کر بولا ۔ ’’کتّا  خصّی کے لئے میں ہی رہ گیا ہوں !‘‘

 فریدی کچھ کہے بغیر تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا ریستوران میں داخل ہو گیا۔ کتّابھی اُسی طرف جانے کے لئے زور کرنے لگا تھا۔

 اچانک سڑک کے دوسرے کنارے پر حمید کو ایک لڑکی دکھائی دی ۔ صورت کچھ جانی پہچانی سی معلوم ہورہی تھی ‘‘ کیا ؟‘‘ اس کے ذہن کو جھٹکا سالا... یہ ہی تو نہیں جو اس دن اندھے کے ساتھ تھلڑکی بھی سڑک پار کر کے اُسی ریستوران میں چلی گئی۔

16
لڑکی اور سانپ

فریدی نے اخبار اٹھا لیا تھا لیکن اس کی نظر سامنے والے کیبن پر تھی جہاں ایک غیر ملکی بیٹا کولڈ ڈرنگ کی چسکیاں لے رہا تھا۔ فریدی اُس کے چہرے کی بناوٹ کے متعلق غور کرنے لگا۔ یقینًا وہ افریقہ ہی کا باشندہ ہوسکتا ہے۔ غالباً زولو قوم سے تعلق رکھتا ہو، کھلتا ہوا گندمی رنگ یہی کہتا ہے اور پھر جبڑوں کی بناوٹ کا سہ سر کی اُبھری ہوئی پچھلی ہڈیاں .. وہ زولو ہی ہو سکتا ہے۔

 ایک لڑکی فریدی کے قریب سے گزر کر اس کے شکار کے کیبن کے ملحقہ کیبن میں جا بیٹھی لیکن فریدی اُسے اُس غیر مکی کو کسی قسم کا اشارہ کرتے نہ دیکھ سکا تھا۔

 غیر ملکی نے اطمینان سے کولڈ ڈرنک کا گلاس ختم کر کے ہونٹوں پر ہاتھ پھیرا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی  اور پھر اس طرح آنکھیں بند کر لیں جیسے بقیہ وقت اسی کیبن میں بیٹھے بیٹھے گزار دے گا۔ فریدی نے کافی کا آرڈر دے کر سگار سلگالیا۔

لڑکی والے کیبن میں ایک ویٹر چائے کی کشتی لئے ہوئے داخل ہوا۔ کشتی میز پر رکھ کر وہ مڑا ہی تھا کہ لڑکی بڑے زور سے چیخی۔ ہال میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ چونک پڑے۔ ویٹر باہر آ چکا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر ایک چائے کی پیالی آکر لگی۔ ابھی وہ سنبھلا بھی نہیں تھا کہ مِلک پاٹ اس کے شانے سے ٹکرایا اور پھر جب انتہائی گرم پانی والاٹی پاٹ اس کے سینے پر پڑا تو وہ چیخ مار کر ایک بیرونی میز پر اُلٹ گیا۔

 کسی بڑے ہنگامے کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ ایک میز کے اُلٹتے ہی بہتیری اُلٹ گئیں۔ لڑکی ہال کے درمیان میں کھڑی بڑی طرح چیخ رہی تھی۔ کوئی کچھ سمجھ ہی نہ سکا۔ معمولی آدمیوں کی اس بھیڑمیں فریدی جیسا ذہین آدمی بھی موجود تھا لیکن اس کی حالت دوسروں سے مختلف نہ تھی۔ دو اپنے شکار کے متعلق بھی بھول چکا تھا۔

کچھ لوگ نہ جانے کیا سمجھے کہ انہوں نے اس ویٹر کو پکڑ کر پیٹنا شروع کر دیا۔ فریدی بہر حال قانون کا محافظ تھا ۔ وہ یٹر کو چھڑانے کے لئے دوڑا۔

پھر ساری بھیڑ ویٹر کے گرد اکٹھا ہوگئی۔

 اچا نک فریدی چونگا ۔ ویٹر تک پہنچے کا خیال چھوڑ کر وہ پھر اپنی جگہ پر پلٹ آیا لیکن غیر ملکی والا کیبن خالی تھا۔ وہ اُسے بھیڑ میں تلاش کرنے لگا لیکن وہ وہاں بھی نہ ملا اور وہ لڑ کی! وہ بھی غائب تھی۔ لیکن ویٹر کے گرد بھیڑ پڑھتی ہی جاری تھی فریدی بیرونی دروازے کی طرف لپکا۔

☆☆☆

  سر جنٹ حمید جہاں تھا وہیں اُس کے قدم جم گئے تھے ۔ اس نے لڑکی کو اچھی طرح پہچان لیا تھا اور اب اُسے الجھن ہونے لگی تھی۔ نہ وہ کتّے کو چھوڑ سکتا تھا اور نہ اُسے لے کر ریستوران کے اندر جاسکتا تھا۔ اگر وہ آدمی جس کی فریدی کو تلاش تھی ریستوران ہی میں موجود تھا تو کتّے کو وہاں لے جاتا دانش مندی نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ اُس کی بُو محسوس کرتے ہی جھپٹ پڑتا۔

دوسری طرف یہ خیال کہ فریدی اس لڑکی سے واقف نہیں تھا ۔ ہو سکتا تھا کہ وہ اُسے چوٹ دے جاتی۔ یعنی

اُس کے شکار کو اس بات سے آگاہ کر دیتی کہ اس کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ تو حمید نے پہلے ہی لگا لیا تھا کہ فریدی اُسے پکڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ ورنہ وہ ریستوران سے واپس آکر اُس سے کتّے کو واپس لے جانے کے لئے نہ کہتا ... شاید وہ صرف اس کا تعاقب کرنا چاہتا تھا۔

 حمید ریستوران سے کافی فاصلے پر تھا۔ اُسے فریدی کی ہدایت کے مطابق اب تک واپس چلا جانا چاہئے تھا

لیکن وہ لڑکی اس نے اُسے الجھن میں ڈال دیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔ اگر اس وقت اُسے کوئی ڈیوٹی کا نسٹبل بھی نظر آجاتا تو وہ کتّے کو اُس کے سپرد کر کے خود بھی فریدی کے پاس پہنچ گیا ہوتا۔

 اچانک بلڈ ہاؤنڈ قریب سے گزرنے والے ایک آدمی پر جھپٹا ۔ زنجیر پر حمید کی گرفت مضبوط نہیں تھی ۔ آدمی اُچھل کر بھاگا اور اس کی ٹانگ کتّے کے جبڑوں کے درمیان آنے سے بال بال بچی۔ حمید نے جھپٹ کر کتّے کو دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا۔ وہ آدمی بھا گتا ہوا ایک گلی میں گھس گیا۔ حمید کی جان میں جان آئی۔ اس نے سوچا چلو اچھاری ہوا ۔ اگر وہ آدمی بھاگنے کے بجائے اس پر اُلٹ پڑتا تو معاملے کو برابر کرنے میں بڑی دشواری پیش آتی۔

 کتّا آپے سے باہر ہورہا تھا۔ لوگ حمید کے گرد اکٹھا ہونے لگے اور وہ ایک اچھا خاصا تماشا بن کر رہ گیا۔ اس

کا دل چاہ رہا تھا کہ کتّے کی ٹانگیں چیر ڈالے۔ کتّا بار بار اُسی گلی کی طرف جھپٹ رہا تھا جدھر وہ آدمی کیا تھا۔ حمید اتنا بدحواس ہو گیا تھا کہ کچھ کچھ ہی نہ سکا۔

دفعتًہ فریدی اس کے گرد لگی  ہوئی بھیڑکو چیرتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔

’’چلو! تم اب تک یہاں ہو!‘‘ وہ اُسے کھینچتا ہوا آگے بڑھا۔ کتے کے آگے بڑھتے بھی بھیڑ پھٹ گئی۔

ان دونوں نے سڑک پار کی۔

’’یہ دھکّا زندگی بھر یادر ہے گا!‘‘ فریدی بڑبڑایا۔

’’ کیوں ؟‘‘ حمید احمقوں کی طرح بولا ۔

’’وہ نکل گیا !‘‘

’’ہائیں !‘‘ حمیداُچھل کر بولا ۔’’ اف فوہ! تب تو پھر وہی رہا ہوگا!‘‘

 ’’کون ؟‘‘

’’ابھی ابھی ... یہ ایک آدمی پر جھپٹا تھا !‘‘

’’اور تم نے اُسے نکل جانے دیا !‘‘

’’میں کیا جانتا تھا !‘‘

’’ ارے اُو احمق ... اس سے پہلے بھی وہ کسی پر جھپٹا تھا؟ بولو کیا ہم اسے زنجیر کے بغیر یہاں تک نہیں

لائے تھے!‘‘

’’ادہ !... تب تو وہ اُس گلی میں گیا تھا !‘‘ حمید نے گلی کی طرف اشارہ کیا۔

کتّا اب بھی اُسی طرف جانے کے لئے زور کر رہا تھا ۔ حمید نے زنجیر ڈھیلی چھوڑ دی اور کتّے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ اس گلی میں گھسا اور زمین سونگھ سونگھ کر آگے بڑھنے لگا۔ گلی کا اختتام ایک دوسری چوڑی سڑک پر ہوا تھا۔ یہاں کتّا داہنی طرف کچھ دور چل کر رُک گیا۔ وہ بار بار زمین سونگھتا اور پھر چاروں طرف دیکھنے لگتا ۔ ایک بار اس نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر رونے کی سی آواز نکالی اور پچھلی ٹانگوں پر وہیں بیٹھ گیا۔

فریدی ایک طویل سانس لے کر حمید کی طرف مُڑا ۔

’’لیکن وہ نکل کیسے گیا ؟ ‘‘ حمید نے پوچھا۔ اس پر فریدی نے پورا واقعہ و ہرا دیا۔

حمید اپنی گدّی سہلانے لگا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ فریدی کو یہ بتائے دیتا ہے کہ وہ اُس لڑکی کو پہچان گیا تھاتو شامت ہی آجائے گی۔ وہ جانتا تھا کہ فریدی سے باتوں میں بھی جیتنا آسان نہیں... بہر حال اُس نے اُس لڑکی کے

متعلق کچھ بھی نہ کہا۔

17

اُسی شام کی بات ہے۔ فریدی اور عید ہوٹل ڈی فرانس میں چائے پی رہے تھے۔ فروری کو ہوٹلوں کی تفریح سے دلچسپی نہیں تھی لیکن جب سے عد نان والا کیس ہوا تھا وہ کم از کم دن میں ایک چکر ہوٹل ڈی فرانس کا ضرور لگالیتا تھا۔ اُسے عدنان کے پرائیویٹ سکریٹری ڈیگال پر بھی شبہ تھا اور اس نے اس موضوع پر حمید سے تھوڑی بہت بحث بھی کی تھی ۔ وہ کھلم کھلا یہ تونہیں کہتا تھا کہ عدنان کے قتل میں ڈیگال کا بھی ہاتھ ہے لیکن بہر حال اُسے اس کی شخصیت بھی پُراسرار معلوم ہوتی تھی اور وہ ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ ڈیگال کے جرم کی کیا نوعیت ہوسکتی ہے۔

’’میں تو اب تنگ آ گیا ہوں!‘‘ حمید بڑبڑایا۔

’’ تم تنگ کب نہیں آتے؟ ‘‘فریدی بر اسا منہ بنا کر بولا ۔ ’’ جہاں ذرا سا کام کرنا پڑا تمہاری جان نکلنے لگی !‘‘

 ’’ ہیہات ہیہات !‘‘ حمید نے گلو گیر آواز میں کہا ۔’’ ایک لونڈ یا !ایشیا کے عظیم سراغرساں کو چوٹ دے گئی ۔ پتہ نہیں اس قتالہ عالم کا نام کیا ہے۔ اگر افریقن ہی ہے تو گازالی ہی کی طرح اس کا بھی نام ہوگا۔ٹنگیانا چین

چرر ….یا پھر پوں ٹِل ... لاحول والا!‘‘

             فریدی کچھ نہ بولا ۔ وہ حمید کی بکو اس پر مسکرا یا تک نہیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔ ’’ تم فوزیہ سے دوستی

بڑھاؤ!‘‘

’’کسی ہجڑے سے نہ پر یم کرلوں !‘‘ حمید جل کر بولا ۔

’’  تم سمجھتے نہیں !‘‘

’’میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں۔ ویسے اگر آپ کہیں تو میں برخوردار بغرا خاں کے لئے پیغام دے سکتا ہوں !‘‘

’’ تم اُس بکرے کو ہٹاؤ گھر سے دور نہ میں گولی مار دوں گا !‘‘

’’ ہرن تصور کر کے ماریئے گا۔ اس طرح شکار کا شوق بھی پورا ہو جائے گا۔ مگر کمال ہے۔ کیسا چونا لگا یا لونڈ یا

نے ہا ہا !‘‘

            ’’بکو مت !‘‘فر یدی جھنجھلا گیا ۔

            ’’بڑی ذہن لڑکی ہے ۔اگر آپ نسل میں ذہا نت کے جر اثیم بر قرار رکھنا چا ہتے ہیں تو اُس سے شا دی کی کو شش کیجئے ۔افریقہ اور ہندوستان کا پیو ند۔ بچوں کے نام ہو ں گے ٹخ ٹخ فر یدی کھٹ کھٹ فر یدی چر خل فر یدی وغیرہ وغیرہ !‘‘

فریدی کچھ نہ بولا۔ تھوڑی دیر بعد حمید پر بھی سنجیدگی طاری ہوگئی ۔ اس نے پوچھا۔

’’ آخر یہ نور جہاں کا کیا قصہ ہے؟‘‘

’’ ہوگا کچھ ! مجھے اس سے دلچسپی نہیں ۔ مجھے دو آدمیوں کے قاتل یا قاتلوں کی تلاش ہے!‘‘

’’لیکن آپ نور جہاں والے معاملے کے متعلق کچھ جانتے ضرور ہیں !‘‘

’’ہو سکتا ہے !‘‘ فریدی نے کہا اور آگے کی طرف جھک کر سگار سلگانے لگا۔

 بیرونی دروازے سے فوزیہ کا حبشی ملازم اندر داخل ہوا اور انہیں گھورتا ہوا اوپری منزل کے زینوں پر چڑھنے لگا۔

’’اوہ یہ باہر سے آرہا ہے!‘‘ حمید نے کہا۔

’’ہاں ! میں نے ان پر سے پابندی ہٹالی ہے !‘‘ فریدی اُٹھتا ہوا بولا ۔ ’’آؤ!‘‘

’’ آؤ اور جاؤ!‘‘ حمید نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ اس کے علاوہ اور رہ ہی کیا گیا ہے ۔ لونڈ یاں الگ اُلو

بناتی ہیں!‘‘

’’ کیا بک رہے ہو۔ اب اگر تم نے اس واقعے کا نام لیا تو گلا گھونٹ دوں گا !‘‘

’’چلئے یہی سہی  ۔ یہیں نام لوں یا گھر چل کر !‘‘

وہ دونوں کمپاؤ نڈ میں نکل آئے۔ رات بڑی خوشگوار تھی ۔ فریدی چند لمحے کھڑا اِدھر اُدھر دیکھتا رہا پھر کیڈ یلاک کی طرف بڑھا۔

وہ اگلی کھڑکی کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر اُسے گھمانے ہی جارہا تھا کہ حمید نے اُسے اُچھل کر پیچھے ہٹتے دیکھا۔ ’’ٹارچ  ہے! ‘‘اس نے مڑ کر حمید سے پوچھا۔

’’  کیا بات ہے! ‘‘حمید آگے بڑھ کر بولا۔

 فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے جیب سے سگار لائیٹر نکال کر جلایا اور کار کے اندردیکھنے لگا۔

’’بہت اچھے !‘‘ حمید نے سگار لائیٹر کی مدھم روشنی میں فریدی کے چہرے پر عجیب قسم کی مسکراہٹ دیکھی اور پھر جب اُس کی نظر اگلی سیٹ پر پڑی تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک بڑا سا سانپ سیٹ پر رینگ رہا تھا۔ پھر اچانک پچھلی سیٹ پر بھی اُسے کوئی سیاہ حرکت کرتی ہوئی چیز نظر آئی۔

’’ غل مچانے کی ضرورت نہیں !‘‘ فرید ی آہستہ سے بولا ۔ ’’ اب ہمارے پاس کل کتنے سانپ ہوئے ؟“

 حمید کی کھوپڑی بھَک سے اُڑ گئی۔ وہ سوچنے لگا کہیں اس آدمی کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ۔ اگر ابھی بیٹھ گئے ہوتے تو کیا حشر ہوتا۔ فریدی سگار لائیٹر جلائے ہوئے بڑی دلچسپی سے سانپوں کو دیکھ رہا تھا۔ وہ حمید کی طرف مڑکر

بولا۔

’’مائی ڈیر... بلیک مومبا!‘‘

’’آپ ہوش میں ہیں یا نہیں ! ‘‘ حمید نے جھلا کر کہا۔

’’ اس قسم کا سانپ صرف افریقہ میں پایا جاتا ہے !‘‘ فریدی نے کہا۔ ”بلیک مومبا کہلاتا ہے۔ سانپوں کی نسل میں اس سے زیادہ شریر سانپ اور کوئی نہیں ہوتا۔ یہ جان بوجھ کر آدمیوں پر حملہ کرتا ہے!‘‘

’’تو آپ اس کی نسل پر لکچر دیں گے!‘‘ حمید  اپنا اوپری ہونٹ بھینچ کر بولا۔

’’ فرزند ایک شاندار اضافہ ۔ میرے پاس اس نسل کا کوئی سانپ نہیں تھا !‘‘

’’ لیکن یہ ایک ہندوستانی کار میں کہاں سے آٹپکے!‘‘ حمید نے پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا۔

’’اوہو  ... اس پر پھر غور کریں گے ۔ فی الحال انہیں پکڑنے کا مسئلہ ہے!‘‘

’’ کیا!‘‘ حمید طلق پھاڑ کر چیخا۔

’’ ایک کو تم پکڑو اور دوسرے کو میں !‘‘

’’ سنئے جناب !میرے باپ دادا سپیرے نہیں تھے ... اور ...!‘‘

’’چپ چپ !شور نہیں۔ تم سگار لائیٹر پکڑو !‘‘

 حمید حیرت سے فریدی کو دیکھ رہا تھا ۔ کیا یہ وہی فریدی تھا۔ سنجیدہ اور باوقار فریدی... ہرگز نہیں ۔ اس وقت تو وہ ایک شوخ اور کھلندڑا بچہ معلوم ہو رہا تھا۔ ایسا بچہ جو گھاس پر بیٹھی ہوئی کسی ٹڈی کو پکڑنے جارہا ہو۔

 حمید نے سگار لائیٹر پکڑ لیا ۔ سانپ اب سیٹ سے نیچے اُتر گیا تھا۔ فریدی نے ہینڈل گھما کر کھڑکی میں ذراسی دراز کی۔ سانپ باہر نکلنے کا راستہ دیکھ کر اس کی طرف اپکا لیکن صرف اس کا سرہی باہر نکل سکا کیونکہ فریدی نے کھڑکی کا پاٹ تھوڑا سا دبا دیا تھا اب اس نے چٹکی سے سر کے نیچے کا حصہ پکڑ لیا۔ سانپ کا منہ پھیل گیا۔

’’ ارے کیا کر رہے ہیں آپ !‘‘ حمید دانت پیش کر بولا ۔

 فریدی کوئی جواب دیئے بغیر سانپ کو آہستہ آہستہ باہر کی طرف کھینچ رہا تھا۔

’’ہاتھ میں لپٹ جائے گا! ‘‘حمید بے چینی سے بولا ۔

’’ بس دیکھتے رہو۔ اس میں اتنی سکت ہی نہ رہ جائے گی۔ یہ بھی ایک آرٹ ہے فرزند ۔ وہ رگ دبائی ہے کہ کیچوے کی طرح جھولتا رہ جائے گا۔‘‘

فریدی نے ایک جھٹکے کے ساتھ سانپ کا بقیہ حصہ باہر کھینچ لیا اور اُسے حمید کے چہرے کے برابر اٹھا تا ہوا بولا ۔’’ دیکھو ہے نا کیچوا... یہ نہ مجھنا کہ مرگیا ہے۔ ابھی زمین پر چھوڑ دوں تو مجھے تحت الثریٰ میں بھی نہ چھوڑے۔

 شابش ... اب تم اسی طرح دوسرے کو پکڑ لو ! ‘‘

’’ کیا ؟ آپ ہوش میں ہیں یا نہیں !‘‘

’’افسوس کہ میں سانپ دیکھ لینے کے بعد ہوش میں نہیں رہتا !‘‘ فریدی نے ہلکا سا قہقہ لگا کر کہا۔

’’اچھاڈکی  کھولو !‘‘

حمید نے ڈکی کھولی اور فریدی نے سانپ کو اس میں ڈال دیا۔ اسٹپنی بند کر کے وہ پچھلی سیٹ کی طرف آئے ۔ ’’اچھا اب میں اسے پکڑتا ہوں !‘‘ فریدی نے انگریزی میں کہا اور زمین پر بیٹھ کر آہستہ سے بولا ۔’’ تم سگار لائیٹر کو اسی طرح اُٹھائے رہو۔ اب میں تمہیں ایک دوسرا کرتب دکھاؤں گا ۔ میری واپسی تک اسی طرح لائیٹر اٹھائےہوئے کچھ اوٹ پٹانگ بڑ بڑاتے رہنا۔ اچھا شب بخیرفر زید!‘‘

 وه حمید کو متحیر چھوڑ کر ایک طرف تاریکی میں رینگ گیا۔

 کمپاؤنڈ کا یہ حصہ ہوٹل کی عمارت سے کافی دور تھا اور یہاں قرب و جوار میں تاریکی تھی۔

18
دشمنوں میں

حمید کی سمجھ میں خاک بھی نہ آیا۔ اول تو کسی سانپ کا اس طرح پکڑنا ہی پاگل پن سے کچھ کم نہیں تھا۔ دوسرے یونہی بلا وجہ کچھ بے تکی باتیں کر کے سینے کے بل رینگتے ہوئے اندھیرے میں غائب ہو جانا بھی صحیح الدماغی کی علامت نہیں تھی ۔

 لیکن یہ حرکتیں فریدی سے سرزد ہوئی تھیں۔ اس لئے حمید اُسے محض مذاق سمجھنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔

 حمید انتظار کرتا رہا... اور اس اثناء میں سگار لائیٹر کی اسپرٹ بھی ختم ہوگئی۔ اندھیرا ہو گیا۔ اس کے بعد حمید دیا سلائیاں پھونکتا رہا۔ ایک سانپ ابھی تک بہر حال آزاد تھا اور وہ اس نسل کے سانپ کی خصوصیات تھوڑی ہی دیر قبل سن چکا تھا۔ پتہ نہیں فریدی کب تک واپس آئے اور وہ کیڈی کے پاس سے ہٹنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ مگر وہ سانپ جو اب بھی پچھلی نشست کے نیچے رینگ رہا تھا ، حمید نے سوچا کہ کیوں نہ اُسے اُسی طرح مار ہی ڈالے جس طرح فریدی نے اگلی سیٹ والا سانپ پکڑا تھا۔ مگر یہ کام اُس اکیلے کے بس کا نہیں تھا اور وہ ہوٹل سے بھی کسی کو نہیں بلا سکتا تھا۔

 کیونکہ اگر فریدی اُسے پسند کرتا تو پہلے ہی اس نے کسی اور کو بھی مدد کے لئے بلا لیا ہوتا۔

پھر اس نے سوچا کہ کھڑکی کھول کر اُسے باہرہی نکال دے لیکن اُسے اس کی خصوصیات یاد آگئیں ۔ فریدی نے کہا تھا کہ وہ جان بوجھ کر آدمیوں پر حملہ کرتا ہے۔

 دفعتًہ نہ جانے کدھر سے ایوننگ اِن پیرس کی خوشبو کی لپٹ آئی اور حمید نتھنے سکوڑ کر اندھیرے میں گھور نےلگا۔

’’آرتھر ڈارلنگ !‘‘ کسی عورت کی سرگوشی سنائی دی۔ وہ چونک کر مڑا۔ اس سے شاید تین فٹ کے فاصلے پرکوئی عورت کھڑی تھی ۔

حمید سب کچھ بھول گیا۔ آواز میں بڑی دلکش کھٹک تھی ۔ بڑی سکس اپیل تھی ۔

’’ڈیرسٹ ! میں تیار ہوں !‘‘ عورت نے آہستہ سے کہا۔

’’ اچھا! ‘‘حمید گھٹی گھٹی سی آواز میں تھوک نکل کر بولا۔

عورت اور قریب آگئی ۔ اتنی قریب کہ اس کے اور حمید کے چہرے میں شاید ایک بالشت کا فاصلہ رہ گیا اور پھر حمید نے ایک بہت ہی تیز قسم کی بُو محسوس کی جو ایوننگ اِن پیرس کی خوشبو پر بھی غالب آگئی تھی ۔ اُس کے نتھنوں میں جلن ہونے لگی ۔ وہ لڑ کھڑا کر ایک قدم پیچھے ہٹا اور پھر اُسے ایسا معلوم ہوا جیسے وہ  عورت اُسے اپنے بازوؤں میں لے کر آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہو ۔ چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی تھی۔

 اور جب تاریکی دور ہوئی تو حمید نے خود کو ایک کمرے میں پایا۔ شاید وہ دو گھنٹے تک بے ہوش رہا تھا ۔ اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں ۔ کمرے کی روشنی اس کے سر کے اندر چین ہی پیدا کر رہی تھی۔

 کچھ دیر بعد اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اس کے ذہن میں پھر ایوننگ اِن پیرس کی خوشبو جاگ اٹھی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔

 اس کے سامنے وہی کی کھڑی تھی جسے اس نے لوزاٹا کے ساتھ دیکھا تھا۔ حمید اُچھل کر بیٹھ گیا لڑکی بڑے دل آویز انداز میں مسکرا رہی تھی ۔

’’ تم شاید مجھے پہچانتے ہو!‘‘ لڑکی تھوڑی دیر بعد انگریزی میں بولی۔

 حمید کچھ نہ بولا ۔ اس نے اپنی آنکھیں کچھ نشیلی ہی بنالیں ۔ لڑ کی اُسے دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔

’’ شاید!‘‘ حمید نے آہستہ سے کہا۔ ’’ میں نے تمہیں مصر میں دیکھا تھا ۔ اب سے ایک ہزار برس پہلے !‘‘

’’ اور تب تم بکروں کے بجائے گدھے پالتے تھے !‘‘

’’ میں اس مذاق کو نہیں سمجھا!‘‘ حمید نے سنجیدگی سے کہا۔ اس کی آواز خوابناک اور بھرائی ہوئی تھی ۔ پھر دفعتًہ وہ چونک کر اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا ۔ ’’ میں کہاں ہوں ؟‘‘

 اور وہ اُچھل کر کھڑا ہو گیا ۔ پھر اس نے ایک ڈری ڈری سی  چیخ ماری اور لڑکی سے لپٹ گیا۔

’’ ارے ارے!‘‘ وہ اُسے ڈھکیل کر پیچھے ہٹ گئی۔

’’ بچاؤ! ‘‘ حمید پھر جھپٹا۔ لڑکی بوکھلا گئی تھی۔ اس نے اُسے روکنے کے لئے اپنے دونوں ہاتھ آگے کی طرف

پھیلا دئیے۔

’’سانپ سانپ !‘‘ حمید کمرے میں چاروں طرف ناچنے لگا۔ وہ ڈری ڈری سی آواز میں’’ سانپ سانپ‘‘ کہتا ہوا پھر لڑکی کی جانب بڑھا۔

’’  خاموش رہو!‘‘ دفعتًہ لڑکی نے بلاؤز کے گریبان سے ایک چھوٹا سا آٹو میٹک پستول نکالتے ہوئے کہا۔ حمید جہاں تھا وہیں کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں مَل مَل کر چاروں طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر سوتے سوتے جاگا ہو۔

’’ تم کون ہو؟“ اس نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔

’’ تم مکّار ہو! ‘‘لڑکی اپنا اوپری ہونٹ بھینچ کر بولی۔

’’ افسوس تم بھی یہی کہ رہی ہو ۔ آج تک کسی نے میری روح میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی !‘‘

’’ بکواس بند کرو! ‘‘لڑکی جھنجھلا کر بولی۔ ’’ تم یہاں فلرٹ کرنے کے لئے نہیں لائے گئے ہو!‘‘

’’پھر !‘‘ حمید یک بیک سنجیدہ ہو گیا۔

’’  نور جہاں کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟‘‘

’’میں دنیا کی ساری عورتوں کے متعلق صرف ایک بات جانتا ہوں !‘‘

لڑکی کچھ نہ بولی۔ لیکن اس کی آنکھیں سوالیہ انداز میں حمید کی طرف اٹھی ہوئی تھیں اور حمید نے جیسے تہیہ کر لیا تھا۔ کہ آگے کچھ نہ کہے گا۔ لڑکی چند لمحے اُسے گھورتی رہی پھر تحکمانہ لہجے میں بولی۔ ’’ بیٹھ جاؤ!‘‘

’’ مگر میں ٹہلنا چاہتا ہوں !‘‘ حمید لا پروائی سے بولا۔ ’’ پستول رکھ لو اس کی ضرورت نہیں۔ تم مجھے پسند آئی ہو۔

اس لئے میرے بھاگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا !‘‘

 وہ چند لمحے خاموش رہ کر پھر بولا ۔ ’’ میں اور میرا چیف مداری ہیں ۔ تمہارے بلیک مومبا کا کیا حشر ہوا؟ شاید

تم نے دیکھا ہو!‘‘

’’ لیکن وہ کہاں غائب ہو گیا ؟‘‘

’’ڈر کر بھاگ گیا ہوگا۔ وہ خوبصورت لڑکیوں سے بہت ڈرتا ہے!‘‘

’’ ڈیگال نے تمہیں عدنان کی موت کے متعلق کیا بتایا ہے!‘‘

’’ ہا ئیں !تو کیا عدنان مر گیا۔ مجھے تو ڈیگال نے بتایا تھا کہ وہ حج کرنے گیا ہے!‘‘

 لڑکی اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے حمید کو گھور رہی تھی ۔

’’  تم نہیں بتاؤ گے ! ‘‘وہ تھوڑی دیر بعد بولی۔

’’ سنو ہنی ! کبھی تم نے کسی سے محبت بھی کی ہے!‘‘

 وہ مُکّا تان کر حمید کی طرف جھپٹی۔

’’بیلا!‘ ‘عقبی دروازے کی طرف سے آواز آئی۔ حمید چونک پڑا۔ لڑکی بھی جہاں تھی وہیں رُک گئی ۔ دروازے میں وہی طویل القامت اندھا کھڑا تھا جسے حمید نے نائٹ کلب میں دیکھا تھا۔

’’ کیا بات ہے؟ ‘‘وہ ایک قدم آگے بڑھ کر بولا ۔

’’ بیلا... !‘‘حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔ ’’ کتنا پیارا نام ہے!‘‘

’’آں !‘‘ اندھا چونک پڑا۔’’ یہاں اور کون ہے؟“

’’جاسوس !‘‘ بیلانے کہا ۔ ’’ اُن میں سے ایک ہمارے ہاتھ آ گیا ہے!‘‘

’’خوب ! لیکن کیوں؟‘‘

’’یہ معلوم کرنے کے لئے کہ یہ نور جہاں کے متعلق کیا جانتے ہیں؟“

’’ کیا تمہیں ڈیگال کی بات پر یقین آگیا تھا!‘‘ اندھے نے مسکرا کر پوچھا۔

’’ مجھے یقین ہے کہ یہ ضرور کچھ جانتے ہیں !‘‘

’’دوسرا کہاں ہے؟‘‘

’’وہ نکل گیا !‘‘

’’ ہوں!‘‘ اندھا جھنجھلا گیا ۔ ’’ لیکن میرے کہنے پر عمل کیوں نہیں کیا گیا !‘‘

’’ عظیم لوزاٹا!‘‘ بیلا لرزتی ہوئی بولی۔ ’’ تیرے حکم سے سرتابی ناممکن ہے۔ ہم نے تیرے کہنے پر عمل کیا تھا لیکن انہوں نے ان سانپوں کو بچوں کا کھیل بنا ڈالا !‘‘

’’اوہو!‘‘

کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر اندھے نے کہا ۔ ’’ کیا یہ فریدی ہے؟‘‘

’’ نہیں ! وہ نکل گیا ! ‘‘ بیلا نے کہا۔

’’ اوہ ! ‘‘اندھے کی پیشانی پر سَلوٹیں پڑ گئیں ۔ ’’ کیا سب لوگ یہاں موجود ہیں ؟‘‘

’’ امَلیگا س کے علاوہ اور سب ہیں ! ‘‘ بیلا نے کہا۔

’’وہ کہاں ہے؟‘‘

’’دوسرے کو تلاش کر رہا ہو گا !‘‘

’’ہوں ! ‘‘لوزاٹا کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ تم نے اس سے کیا معلوم کیا !‘‘

’’ کچھ نہیں ... یہ باتوں میں ٹال رہا ہے!‘‘

’’ تمہیں بولنے پر مجبور ہونا پڑے گا! ‘‘لوزاٹا نے حمید سے کہا۔

’’میں بڑی دیر سے بول رہا ہوں!‘‘ حمید نے کہا اور بیلا کو آنکھ مار کر مسکرانے لگا۔ بیلا نے بوکھلا کر لوزاٹا کی طرف دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔

’’ نور جہاں کے متعلق کیا جانتے ہو؟“

’’ اگر تم ایک بار مجھے اس کی شکل دکھا دو تو اُس کے باپ دادا تک کا نام بتا دوں گا !“

’’ بیلا مجھے یقین ہے کہ یہ کچھ نہیں جانتا!‘‘ لوزاٹا نے کہا۔ ’’ تو نے اسے یہاں لاکر غلطی کی ۔ یہاں لاشوں کو

ٹھیکانے لگانے میں بڑی دشواریاں پیش آتی ہیں!‘‘

حمید سناٹے میں آگیا اور سناٹے میں آنے کے بعد وہ ہمیشہ ہنگامہ پسند کرتا تھا۔ وہ کچھ کر بیٹھنے کے امکانات پر غور کر ہی رہا تھا کہ ایک آدمی بوکھلایا ہوا کمرے میں گھسا۔ اُس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی چہرے پر کئی خراشیں تھیں جن سے خون نکل کر جم گیا تھا۔

بیلا حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔

’’کون ہے؟‘‘ لوزاٹا یک بیک چونک کر بولا ۔

’’املیگاس ! ‘‘پہلا آہستہ سے بڑ بڑائی ۔’’ وہ زخمی ہے!‘‘

’’املیگا س !‘‘ لو اٹا کی پیشانی پرشکنیں پڑگئیں اور پھر اس نے اس طرح نتھنے سکوڑےجیسے  کچھ سونگھنے کی

کوشش کر رہا ہو ۔

اس نے کسی غیر ملکی زبان میں بیلا سے کچھ کہا اور وہ کمرے سے چلی گئی ۔

’’ املیگاس!‘‘ اس نے نووارد سے انگریزی میں کہا۔ ’’ کیا خبر ہے؟‘‘

’’بہت سخت لڑائی ہوئی !‘‘املیگاس گراہ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔’’ وہ اس سے واقف تھا کہ میں اس کا

تعاقب کر رہا ہوں !‘‘

’’ پھر کیا ہوا املیگاس؟‘‘

’’پھر اس خیال سے مجھے جان بچا کر بھاگنا پڑا کہ کہیں گرفتار نہ ہو جاؤں !‘‘

’’ تم نے اچھا کیا املیگاس !‘‘

بیلا پھر واپس آگئی ...

’’بیلا !‘‘ لوزاٹا نے اُسے مخاطب کیا ۔’’ کیا املیگاس بہت زیادہ زخمی ہے! ‘‘

’’ شاید !‘‘ بیلا امیگاس کو گھورتی ہوئی بولی۔

’’لیکن املیگا س ایک بات نہیں جانتا!‘‘ لوز اٹا نے زہر خند کے ساتھ کہا۔ ” وہ نہیں جانتا کہ لوزاٹا کے سرسے

پیر تک آنکھ ہی آنکھ ہے اور اُس کی ناک شکاری کتّے کی ناک سے بھی زیادہ تیز ہے۔ املیگا س کی شکل آنکھ والوں کو

دھوکا دے سکتی ہے۔ اندھیرے کے شہنشاہ کو نہیں !‘‘ پھر دفعتًہ اُس نے چیخ کر کہا۔ ’’ اس جاسوس کو پکڑ لو !‘‘

املیگا س اُچھل کر دروازے کے قریب چلا گیا لیکن اُسے پھر ایک قدم آگے بڑھ آنا پڑا کیونکہ ایک ریوالور کی

نال اُس کی پیٹھ میں چبھ رہی تھی۔

’’اسے  میرے قریب لاؤ! ‘‘ لوزاٹا نے کہا۔

 ریوالور کی نال اور شدت سے املیگا س کی پیٹھ میں چبھنے لگی ۔ وہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور پھر رُک گیا ۔ حمید

اور وہ ایک دوسرے کو گھور رہے تھے ۔ آخر املیگاس نے مسکرا کر اُردو میں کہا۔ ’’بُرے پھنسے فرزند !‘‘

’’ہا ئیں !‘‘ حمید اُچھل پڑا۔ آواز فریدی کی تھی۔

 لوزاٹا نے قہقہہ لگایا۔ حمید گھبرا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ کمرے میں تین دروازے تھے اور ہر دروازے

میں ایک آدمی ریوالور لئے کھڑا تھا۔

’’لاؤن !‘‘لوزاٹا چیخا۔’’ اسے میرے قریب لاؤ!‘‘

’’ ٹھہر و! ‘‘فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ ’’ کیا تم مجھے عدنان سمجھتے ہو!‘‘

’’اس سے بھی کمتر! ‘‘لوزاٹا نے مسکرا کر کہا۔

’’اچھا تو چلو کوشش کرو! ‘‘فریدی لا پروائی سے بولا ۔’’ شاید ایسی گردن تمہیں پہلےکبھی خواب میں بھی نصیب

نہ ہوئی ہو!‘‘

فریدی خود ہی اس کی طرف بڑھنے لگا۔ حمید نے سوچا کہ اب کچھ نہ کچھ ہو کر ہی رہے گا۔ اس نے جھپٹ کر بیلا کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور انہیں اپنی گردن کی طرف کھینچتا ہوا بولا۔

’’  چلو تم میرا گلا گھونٹ دو۔ میں تو اُس بد صورت اندھے کے ہاتھوں مرنا پسند نہ کروں گا!‘‘

 بیلا ہاتھ چھڑانے لگی اور پھر اچانک حمید نے اس کی گردن دبوچ لی اور چیخ کر بولا ۔’’ لوزاٹا !میں اس لڑکی کا

گلا گھوٹنے جا رہا ہوں !‘‘

’’ چھوڑ دو چھوڑ دو!‘‘ تینوں مسلح آدمی بیک وقت چیخے۔

 فریدی کی طرف بڑھے ہوئے لوزاٹا کے ہاتھ نیچے جھول گئے ۔ بیلا بُری طرح مچل  رہی تھی اور اس کے منہ سے گالیوں کا فوارہ جاری تھا۔

’’ میں بھی مرجاؤں گا ۔ تم بھی مرجاؤ گی!‘‘ حمید ناک کے بل گنگنایا ۔’’ پھر میں عالم ارواح میں تم سے کہوں

گا۔ آمری جان مرے پاس در یچے کے قریب !‘‘

دفعتہً فریدی نے اُچھل کر لوزاٹا کے پیٹ پر لات ماری اور وہ چیخ کر ڈھیر ہوگیا۔ بیک وقت تین فائر ہوئے لیکن شاید فریدی اس سے قبل ہی لوزاٹا کے برابر لیٹ گیا تھا۔

 حمید سمجھا شاید فریدی رخصت ہو گیا۔ اس لئے اس نے مچلتی ہوئی لڑکی کا الوداعی بوسہ لے کر اُسے ایک ریوالور والے کی طرف اُچھال دیا۔ وہ دونوں فرش پر آرہے ۔ بیلا بڑے زور سے چیخی ۔ پھر دو فائر ہوئے ۔

 فرش پر فریدی اور لوزاٹا گتھے ہوئے تھے ۔ حمید گرنے والے کے ریوالور پر قبضہ پا چکا تھالیکن جب اُس نے ایک آدمی کا نشانہ لے کر ٹریگر دبایا تو یو اور پھٹ سے کر کے رہ گیا۔ وہ خالی تھا۔ گرا ہوا آدمی حمید پرٹوٹ پڑا۔

 بیلا بے ہوش پڑی تھی ... اور اب حمید مطمئن تھا۔ اس نے فریدی کو لوز اٹا سے لیٹے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ بقیہ دو آدمی بے بسی سے انہیں گھور رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ اگر وہ فریدی اور حمید پر گولی چلاتے تو لوزاٹا اور ان کے ایک ساتھی کے زخمی ہو جانے کا بھی احتمال تھا۔

اچانک اُن میں سے ایک نے پیتل کا ایک وزنی گلدان اُٹھا کر فریدی کے سر پر ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ حمید اُس آدمی کو چھوڑ کر فریدی کی مدد کو لپکا۔ پھر ایک فائر ہوا۔ اگر حمید پھرتی سے بیٹھ نہ گیا ہوتا تو گولی اس کے سرسے گزر گئی تھی۔

فریدی تو گلدان کی ضربوں سے بے ہوش ہو ہی چکا تھا۔ اس کے بعد حمید کی خاصی مرمت ہوگئی۔

’’ اتناہی کافی ہے!‘‘ لو زاٹا ہانپتا ہوا بولا ۔’’ جان سے مت مارو۔ ابھی ہمیں دیکھنا ہے کہیں عمارت کے گرد پولیس کا گھیرا نہ ہو انہیں کہیں بند کر دو ۔ ان کے ساتھ تین لاشیں اور ہوں گی۔

19
نور جہاں کا راز

 

فریدی کو ہوش آیا تو اس نے محسوس کیا کہ اُس کے ہاتھ اور پیر بندھے ہوئے ہیں ۔ کمرہ تاریک نہیں تھا۔ اُسے اپنے قریب ہی ڈیگال، لیو کاس اور فوزیہ بھی نظر آئے ۔ ان کے ہاتھ پیر بھی اُسی طرح بندھے ہوئے تھے ۔ حمید ذرا فاصلے پر تھا اور اُسے بھی ہوش آچکا تھا۔

’’ڈیگال!‘‘ فریدی نے اُسے مخاطب کیا ۔’’ یہ سب محض تمہاری وجہ سے ہوا!‘‘

’’املیگا س ! تم اس حال میں کیوں نظر آر ہے ہو!‘‘ ڈیگال نے حیرت سے پوچھا۔

’’میں فرید ی ہوں !‘‘

ڈیگال اور اس کا ساتھی آنکھ پھاڑ پھاڑ کر فریدی کو گھورنے لگے۔

’’ میں کہ رہا تھا !‘‘ فریدی بولا ۔ ’’ کہ یہ سب کچھ محض تمہاری وجہ سے ہوا ۔ اگر تم مجھے پہلے ہی لوزاٹا کی قیام

گاہ کا پتا بتا دیتے تو یہ کبھی نہ ہوتا !‘‘

’’میں نہیں جانتا تھا !‘‘

’’ تم بکتے ہو۔ تم نور جہاں کے لئے لوزاٹا سے سودا کر رہے تھے ۔ تم نے لوزاٹا کو دھمکی دی تھی کہ اگر اُس نے تمہیں ایک بھاری رقم نہ دی تو تم پولیس کو نور جہاں کے متعلق بتادو گے اور اپنی حفاظت کے لئے تم نے یہ شوشہ بھی چھوڑ ا تھا کہ دوسراغرساں بھی نور جہاں کے متعلق پہلے ہی سے کچھ جانتے ہیں ۔ کیوں ؟ کیا خیال ہے؟“

’’یہ جھوٹ ہے!‘‘ ڈیگال بڑ بڑایا۔

’’اگر یہ جھوٹ ہے تو پھر تم تینوں آج ہی یہاں کیوں نظر آرہے ہو ۔ پہلے ہی اس حال کو کیوں نہیں پہنچے۔ لوزاٹاکی دانست میں صرف ہم پانچ ہی نور جہاں کے راز سے واقف ہیں۔ اس لئے شاید تھوڑی ہی دیر بعد موت کے

گھاٹ اتار دیے جائیں گے!‘‘

 ’’ڈیگال تم !‘‘فوزیہ بڑ بڑائی۔

’’ ہے... بي... یہ جھوٹ ہے!‘‘

’’فریدی کبھی لایعنی گفتگو نہیں کرتا!‘‘ فریدی نے کہا۔

’’  آپ یہاں پہنچے کس طرح تھے ؟ ‘‘حمید نے پوچھا۔

’’لمبی کہانی ہے!‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ سب سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم سچ مچ  چوہوں کی سی موت کا انتظار کرنے کے لئے نہیں پیدا ہوئے تھے !‘‘

کوئی کچھ نہ بولا۔ فریدی چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ کمرہ زیادہ کشادہ نہیں تھا۔ کمرے کے بجائے اُسے کو ٹھری

ہی کہنا مناسب ہوگا۔ اس میں صرف ایک دروازہ تھا اور کھڑکیاں نہیں تھیں۔ چھت سے ایک چالیس پاور کا بلب لٹکا

ہواتھا۔

’’میرا خیال ہے کہ لوزاٹا کو املیگاس کی بھی فکر ہوگی !‘‘ فریدی نے حمید سے کہا۔ ’’ شاید وہ مجھ سے پو چھے ۔

 بس یہی  ایک موقعہ میرے ہاتھ آ سکتا ہے ورنہ !‘‘

’’املیگاس کہا ں ہے ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔

’’میری قید میں !‘‘

فوزیہ ڈیگال کو بُرا بھلا کہ رہی تھی اور ڈیگال خاموش تھا ۔

’’آخر وہ اندھا آپ کو پہچان کیسے گیا۔ مجھے سخت حیرت ہے ‘‘حمید نے کہا۔

’’ میں اس کی غیر معمولی قوتوں کا معترف ہوں ۔ وہ کسی شکاری کتّے ہی کی طرح اپنے آدمیوں کی بوپہچانتا

ہے ۔ آنکھوں سے محروم ہو جانے پر بعض لوگوں میں بے پنا ہ ذہنی  قو تیں عود کر آتی ہیں !‘‘

’’ کسی کو آپ کے یہاں آنے کا علم ہے کہ نہیں !‘‘ حمید نے پو چھا۔

’’ کسی کو بھی نہیں ۔ اُس آدمی املیگاس سے مجھے یہاں کا پتہ معلوم ہوا تھا لیکن چونکہ مجھے یقین نہیں تھا اس لئے

میں نے پہلے تنہا ہی اطمینان کر لینا مناسب سمجھا !‘‘

’’اب زندگی بھر اطمینان کرتے رہئے !‘‘حمید بُراسامنہ بنا  کر بولا  ۔ ’’ آئی ۔ جی صاحب بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ آپ کریک ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر بار ہم بال بال بچ جائیں!‘‘

’’ نہ بھی بچیں تو کیا فرق پڑے گا!‘‘

’’ آپ کے کتّے  یتیم ہو جائیں گے!‘‘

اچانک دروازہ کھلا اور دو آدمی اندر داخل ہو ئے ۔وہ چند لمحے اپنے قید یو ں کو گھو ر تے رہے پھر وہ فر یدی کے قر یب آئے اور اُسے اٹھانا چا ہا ۔

’’دو آدمی اور لا ؤ!‘‘فر یدی ہنس کر بولا ۔

دونوں نے اپنا انتہائی زور صرف کر دیا لیکن فریدی نے اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کی ۔ آخر جھلا کر ایک نے اُس کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ فریدی نے جھلاہٹ میں کہنیاں ایک کر اٹھنے کی کوشش کی اور پھر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے پشت پر بندھے ہوئے ہاتھوں کی رسّی  کا ایک بَل ڈھیلا ہو گیا ہو۔ وہ اُٹھنے کی کوشش ترک کر کے چت لیٹ گیا۔ پاس کھڑے ےہوئے آدمی نے اُسے ٹھوکر ماری جسے اس نے اپنے جوتوں کے تلوں پر روک لیا۔ وہ ٹھوکریں مارتا رہا اور فریدی کا شغل بھی جاری رہا۔ اس کی ایک ٹھو کر بھی اُس کے جسم پر نہیں پڑی۔ اس دوران میں اُس کے دونوں ہاتھ آزاد ہو گئے پھر جیسے ہی وہ ٹھوکر مارنے کے لئے آگے بڑھا فریدی نے اس کی ٹانگ پکڑلی۔ جھٹکا لگتے ہی وہ اپنے پیچھے کھڑے ہوئے ساتھی پر گرا اور وہ دونوں ایک وقت زمین پر آرہے ۔

 دوسرے لمحے میں فریدی اُن کے اوپر تھا۔ اس کے پیر اب بھی بندھے ہوئے تھے۔ لیکن وہ تو زندگی اور موت کا سوال تھا۔ اگر اس کے ہاتھ بھی بندھے ہوتے تب بھی آخری جدو جہد کا خاتمہ گشت و خون ہی پر ہوتا ۔ فرید ی کے گھٹنے ایک کی گردن پر تھے اور دوسرے کی گردن اُس کے ہاتھوں میں تھی اور وہ اپنی پوری قوت صرف کر رہا تھا۔

 زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ دوسرے قیدیوں نے فریدی کو الگ ہٹتے دیکھا اور وہ بڑی تیزی سے اپنے پیروں کی رسّی کھول رہا تھا ۔ دونوں آدمی بے حس و حرکت فرش پر چت پڑے تھے۔ کسی کے منہ سے آواز تک نہ نکلی۔ خود حمید بھی فریدی کو ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ ہو ۔

 فریدی نے حمید کی رسیاں بھی کھول ڈالیں۔ اب وہ اُن دونوں کی طرف متوجہ ہوا۔ اُن کے پاس سے ریو الور بر آمد ہوئے ۔ ایک اُس نے حمید کی طرف اچھال دیا۔

’’  کیا یہ!‘‘ حمید فرش پر پڑے ہوئے آدمیوں کی طرف دیکھ کر ہکلایا۔

’’ ہاں یہ گازالی کے پاس پہنچ گئے !‘‘

’’  کیا ہمیں نہیں کھولو گے!‘‘ ڈیگال مردہ سی آواز میں بولا۔

’’ تم مجرم ہو ۔ تم سے مراد تم اور لیو کاس!‘‘ فریدی نے خشک لہجے میں کہا پھر حمید سے بولا ۔’’لڑکی کو کھول دو!‘‘

 حمید اُس کی طرف چلا ہی تھا کہ بیلا کمرے میں داخل ہوئی ۔ فریدی نے ریوالور کا رُخ اس کی طرف کر کے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔ بس ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے بیلا کی روح قبض کرلی ہو۔ وہ پتھر کے مجسمے کی طرح بے حس و حرکت کھڑی تھی۔

’’ِ اسے باندھ لو! ‘‘فریدی نے حمید سے کہا۔

’’ ارے ہائے ہائے ... اسے تو میں اپنے البم میں چپکاؤں گا!‘‘ حمید سینے پر ہاتھ ما کر بولا ۔

’’بد تمیزی نہیں جلدی کرو !‘‘

 حمید نے اُس کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے بھی ڈیگال وغیرہ کے پاس ہی ڈال دیا۔ پھر وہ فوزیہ کی رسیاں کھولنے

کے لئے آگے بڑھا۔

’’ٹھہرو!‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’ ابھی رہنے دو! آؤ میرے ساتھ !‘‘

انہوں نے کوٹھری سے نکل کر دروازہ مقفل کر دیا۔

’’اب وہ بالکل تنہا ہوگا !‘‘ فریدی نے کہا۔

’’کیوں ؟‘‘

’’  جب میں یہاں آیا تھا لوزاٹا کے علاوہ صرف تین ہی مرد تھے ۔ دو کا خاتمہ ہو چکا تھا تیسرا غالبًا با ہر کمپاؤنڈ میں رکھوالی کر رہا ہو گا!‘‘

’’ہو سکتا ہے کچھ اس وقت باہر رہے ہوں !‘‘

’’ا ملیگاس کی دی ہوئی اطلاعات ابھی تک تو ٹھیک ثابت ہوئی ہیں !‘‘فریدی نے کہا۔ ’’ آؤ !‘‘

 وہ ایک ایک کرہ د یکھتے پھر رہے تھے ۔ آخر ایک کمرے میں لوزاٹا تنہامل گیا ۔ حالانکہ یہ دونوں دبے پاؤں وہاں تک پہنچے تھے لیکن لوزاٹا ٹہلتے ٹہلتےاچانک اس طرح رُک گیا جیسے اُسے اُن کی آہٹ مل گئی ہو ۔ وہ دونوں دروازے سے ہٹ کر کھڑکی کے سامنے آگئے۔ اب انہوں نے لوزاٹا کو بھی اُدھر ہی مڑتے دیکھا۔

’’کمال ہے!‘‘ فریدی آہستہ سے بولا ۔

’’ تم دروازے ہی پر ٹھہرو!‘‘  فریدی نے حمید سے کہا۔ ’’ تیسرے آدمی کا خیال رکھنا !‘‘

جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا اس نے لوزاٹا کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ دیکھی ۔

’’املیگاس کہاں ہے؟ ‘‘اس نے پوچھا۔

’’فضول ہے !تھوڑی دیر بعد تم بھی اُسی کے پاس ہو گے !‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ میں ! ‘‘ لوزاٹا نے قہقہہ لگایا۔ ’’ تم مجھے اتنا مجبور سمجھتے  ہو!‘‘

’’ میں تمہیں عدنان اور ایک مقامی آدمی کے قتل کے جرم میں گرفتار کرتا ہوں!‘‘ فریدی آگے بڑھتا ہوا بولا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اُس کی پیشانی پر ایک ایساز در دار گھونسا پڑا کہ چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا تھا۔ لوزاٹا نے ریوالور کے لئے جست لگائی اور فریدی اس خطر ناک موقعے پر بھی اس کے جچے تُلے اندازے پر عش عش کئے بغیر نہ رو سکا۔ وہ سچ مچ  اندھیرے کا شہنشاہ تھا۔ لوزاٹا کے ساتھ ہی فریدی بھی ریوالور کے لئے جھپٹا لیکن ریوالور اس کے ہاتھ نہ آسکا۔ اُن دونوں میں پھر زور آزمائی ہونے لگی ۔ ریوالور لوز اٹا کو بھی نہیں

مل سکا تھا ۔ فریدی نے ٹھوکر مار کر اُسے دور پھینک دیا۔

 تھوڑی ہی دیر بعد فریدی پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ لوزاٹا کو اس طرح بھی زیر کرنا آسان کام نہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ لوزاٹا گتھے رہنے یا اُسے زیر کر لینے سے زیادہ نکل بھاگنے کی فکر میں ہے۔ حمید بڑی دلچسپی سے اُن کی کشتی کا منظر دیکھ رہا تھا۔

 اچانک لوزاٹا نے فریدی کے سر پر ایک زور دار ٹّکر ماری۔ فریدی کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور لوز اٹااُچھل کر دروازے کی طرف بھاگا۔ فریدی کا سر چکرا گیا لیکن اب اسے بھی سچ مچ غصہ آگیا تھا۔ اس نے جھپٹ کر لوزاٹا کی

ٹانگ پکڑلی اور دو منہ کے بل اتنے زور سے فرش پر گرا کہ سارا کمرہ جھنجھنا اٹھا۔ اس نے اٹھنا چا  ہا لیکن فریدی اس کی ٹانگ مروڑنے لگا تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو چیخ چیخ پڑتا۔ کبھی وہ زمین پر ہاتھ ٹیک دیتا اور کبھی اس کے سر کا پچھلا

حصہ بھڑ سے زمین پر گرتا ۔

’’ اندھیرے کے شہنشاہ تمہیں تارے نظر آئے یا ابھی نہیں !‘‘ فریدی نے قہقہہ لگا کر پو چھا۔

 لوزاٹا کچھ نہ بولا۔ اُس کے ہونٹوں اور ناک سے خون بہہ رہا تھا۔

’’کیا تمہیں عدنان کی موت نہیں یاد آرہی ہے؟ ‘‘فریدی نے کہا ’’ مگر عدنان ہی کیوں۔ تم نے اب تک سینکڑوں خون کئے ہیں ۔ بتاؤ نور جہاں کہاں ہے تاؤ ورنہ میں تمہارے پیٹ پر پوری قوت سے کھڑا ہو جاؤں گا !‘‘

’’میرے پاس میرے سینے پر!‘‘ لوزاٹاگھٹی گھٹی  سی  آواز میں بولا اور اس کے بعد اس کے حلق سے ایک بھیا نک چیخ نکلی ۔ ایسا معلوم ہوا جیسے ایک مرتا ہوا بھینسا ڈ کر رہا ہو ۔ ساتھ ہی اُسے ایک بڑی سی  خون کی قے ہوئی اور اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ فریدی نے تانگ چھوڑ دی۔ لوزاٹا بے حس و حرکت فرش پر پڑا تھا۔

 فریدی اُس کی جیبیں تو لنے لگا۔ آخرسینے پر اسے کوئی سخت سی چیز محسوس ہوئی ۔ اس نے اُس کا گریبان پھاڑ ڈالا ۔ سینے پر چڑے کی ایک چوڑی سی پٹی  کسی ہوئی تھی جس میں کی جیب تھے۔

 پھر حمید نے فریدی کی ہتھیلی  پر ایک بڑا سا جگمگا تا ہوا ہیرا دیکھا۔

’’یہ کیا؟‘‘ حمید بوکھلا کر بولا۔

’’ نور جہاں !‘‘

’’ہاں فرزند ! میں نے تم سے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ کسی خوبصورت کی لڑکی کی توقع نہ رکھو!‘‘

☆☆☆

دوسری شام فریدی، حمید اور فوزیہ ہوٹل ڈی فرانس میں چائے پی رہے تھے۔

’’ آپ کو نور جہاں کے متعلق کیسے علم ہوا تھا؟‘‘ فوزیہ نے فریدی سے پوچھا۔

’’ محض اپنی یادداشت کی بنا پر!‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ ڈیگال نے لوزاٹا کا تذکرہ کرتے وقت جب لندن میں کار ڈرائیو کرنے والا واقعہ بیان کیا تو میں نے فوراً ہی اندازہ لگا لیا کہ نور جہاں کوئی عورت نہیں ہو سکتی کیونکہ اس نام کا ایک ہیرا بھی تھا اور وہ لندن میں اُسی رات کو چرایا گیا تھا جس کی صبح لوزاٹا  نے اپنی موٹر ڈرائیوری کی مہارت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اُسی اخبار میں اس چوری کی بھی خبر تھی اور پھر سب سے بڑی بات تو یہ کہ لوزاٹا  اسی خاندان کا مہمان تھا جس کی ملکیت میں وہ ہیرا تھا۔ چسٹر فیلڈ خاندان ۔ لہذا مجھے نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہ لگی ۔ اب یہ  تم بتاؤ کہ عدنان کا اُس سے کیا تعلق تھا ؟‘‘

’’میں پہلے ہی بتا دیتی !‘‘  فوزیہ طویل سانس لے کر بولی ۔ ’’لیکن ڈیگال نے مجھے روک دیا تھا ۔ اس نے کہا کہ اس سے والد مرحوم کی نیک نامی پر دھبہ لگے گا۔ اس لئے اس رات لیو کاس نے مجھے بے ہوش بھی کر دیا تھا۔ میں نہیں جانتی  تھی کہ ان کم بختوں کا اصل مقصد کیا ہے۔ خیر ہاں تو یہ ایک شرمناک بات ہے لیکن مجھے بتا نا ہی پڑے گا کہ وہ ہیرے  والد مرحوم کے کہنے ہی پر چرایا گیا تھا۔ لوزاٹا کا کام ہی یہی تھا۔ معاملہ اسّی ہزار پونڈ پر طے ہو گیا۔ والد مرحوم اس ہیرے کے لئے اتنے بے تاب تھے کہ انہوں نے رقم پیشگی  ہی دے دی۔ بعد کو وہ کمبخت معاہد ے سے پھر گیا۔ نہ صرف یہ کہ اُس نے ہیرا خود ر کھ لیا بلکہ اسّی ہزار پونڈ بھی واپس نہیں کئے ۔ آپ جانئے کہ یہ رقم تھوڑی نہیں تھی۔ خیر والد نے تو صبر کر ہی لیا تھا لیکن اس حرامزادے ڈیگال نے انہیں بہکایا۔ کسی طرح اُسے معلوم ہو گیا تھا کہ لوز اٹا انڈیا میں ہے۔ وہ انہیں یہاں لایا!‘‘

’’لیکن آخر لوز اٹا یہاں کیوں جھک مارنے آیا تھا!‘‘ حمید نے کہا۔

’’ اوہ تم نہیں سمجھے ! ‘‘فریدی بولا ۔ ’’ ہیروں کی چوری اُس کا خاص پیشہ تھا اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ یہاں عقریب جواہرات کی بین الاقوامی نمائش ہونے والی ہے!‘‘

’’وہ پورے افریقہ کے لئے مصیبت تھا !‘‘ فوزیہ نے کہا ۔’’ ایک طاقتور قبیلے کا مذہبی پیشوا ہونے کی بنا پر کوئی اُس کی طرف انگلی بھی نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ حالانکہ اس کے سیاہ کارناموں سے سبھی واقف تھے ۔ کیا وہ ابھی زندہ ہے!‘‘

’’  نہیں آج صبح ہسپتال میں مرگیا۔ اس کے پھیپھڑ پھٹ گئے تھے !‘‘

’’ آپ ہی کا کام تھا !‘‘ فوزیہ اُسے عجیب نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔ ’’ آپ جیسا بے جگر آدمی آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا ! ‘‘

’’اللہ آپ کو یہ ہجڑی  مبارک کرے ! ‘‘حمید نے اُردو میں کہا اور اپنا داہنا گال سہلانے لگا۔

 ہوٹل سے واپسی پر حمید نے فریدی سے پوچھا۔ ’’ آپ نے املیگاس والا واقعہ نہیں بتایا ؟‘‘

’’ او... وہ بھی دلچسپ ہے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ جب ہم سانیوں کو پکڑنے کی تدبیر کر رہے تھے تو میں نے مالتی کی جھاڑیوں میں ایک سیاہ سامتحرک سایا دیکھا اور یہ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ ہمارا انجام دیکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی موجود ضرور ہوگا۔ میں تمہیں وہاں چھوڑ کر مالتی کی جھاڑیوں کی طرف رینگ گیا۔ وہاں املیگاس موجود تھا۔ میں نے اس پر جلد ہی قابو پالیا۔ اُسے لے کر میں کار کی طرف آیا تو تم غائب تھے ۔ مجبوراً مجھے دوسرے سانپ کو مارناہی پڑا... املیگاس کو گھر لا کر میں نے اُس کی خاصی مرمت کی تب کہیں اُس نے لوزاٹا کی قیام گاہ کا پتہ بتایا۔ پہلے میں سمجھا تھا کہ شاید تم مجھے تنگ کرنے کے لئے کھسک گئے ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بیلا تمہیں وہاں سے کیو نکر لے گئی !‘‘

’’کلور د فارم!‘‘  حمید بڑ بڑایا۔’’ مگر ہائے ۔ میں اس لڑکی کے لئے رنجیدہ ہوں ۔ اس میں نزاکت بھی ہے

اور درندگی بھی کاش!‘‘

’’او ہو اگر شادی کا ارادہ ہو تو اُسے سرکاری گواہ بنا کر بچا لیا جائے !‘‘

’’ شادی !‘‘ حمید سر کھجاتا ہوا بولا ۔’’ جہاں تک شادی کا سوال ہے مجھے اپنے باپ کی شادی میں بھی شبہ ہے!‘‘

اس پر فریدی نے وہ شاندار جھا پڑ رسید کیا کہ نتیجے کے طور پر اُسے خود اپنے ہی ہاتھ کی مالش کرنی پڑی کیونکہ وہ جھا پڑحمید کے گال کے بجائے دیوار پر پڑا تھا۔

************

 

 

 

Post a Comment

0 Comments