دو سرا پتھر- ابن صفی
Doosra Patthar By Ibne Safi
1
عمرا ن نے سلیما ن کو آواز دی اور وہ با لو ں میں کنگھا کر
تا ہوا کمرے میں دا خل ہوا اور فو ر ا ً ہی بو لا ۔
"اس
طر ح گھو ر کر نہ د یکھئے اپنا اپنا شو ق ہے ۔ وہ دن میں چھ بو تلیں پیا کر تا تھا
اور میں دن بھر کنگھا کیا کر تا ہو ں ۔ اُس پر آپ کے سینکڑ و ں رو پے تھے ۔ یہ صر
ف دوروپے کا کنگھا ہے اور میر ی حق حلا ل کی کما ئی اس شا مل ہے !"
"اَ بے ہا نڈ یو ں میں جو ئیں گر تی ہو ں گی !"
"گر ا کر یں …اُ ن میں و ٹا من ایکس وا ئی زیڈ پا یا جا تا ہے !"
"جو زف ہے کہا ں ؟"
"جوب یا ددلا یا ۔ شا ید آپ اُسے آج سو روپے یو میہ دے
رہے ہیں !"
"ہا ں کیو ں نہیں ، اس نے مجھ سے پو چھا تھا کہ بو
تلیں کتنے کی آتی تھیں ۔ میں نے کہا تین سو رو پے کی ۔
کہنے لگا اب آپ مجھے صرف سو روپے دے دیا کیجئے ا کہ دودھ
کھا پی کر جا ن بنا سکو ں !"
سلیما ن نے زوردار
قہقہہ لگا یا ۔
"اس میں دانت نلا لنے کی کیا با ت ہے ؟"
"ہے جنا ب کیو نکہ آپ
واقعی بہت بھو لے ہیں ۔ وہ چر س پینے لگا ہے ۔ کسی نے پٹّی پڑھا دی ہے مُر
غّن غذا ؤں کے سا تھ چر س کو ئی جسما نی نقصا ن نہیں پہنچا تی !"
عمران سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور سلیما ن جلدی جلدی کنگھا کر
نے لگا ۔
" وہ ہے کہا ں ؟" عمران نے تھو ڑی دیر بعد پو چھا
۔
"ہو تا کہا ں اپنے کمرے میں ہے !"
"تو پھر مر ہی چکا ہو گا کیو نکہ خرّا ٹے کی آواز یں
بھی نہیں آرہی ہیں !"
"اُسے آپ سو روپیہ یو میہ دیتے ہیں ۔ مجھے صر ف پچا س
دے کر دیکھئے پا س پڑوسی کے خرا ٹے بھی رکوا دو ں !"
"اُسےے بلا لا ؤ !'
"سا لا چر س کے نشے میں ہوا تو مجھے جا ن سے ما ر دے
گا !"
"جا تا ہے یا
مَیں ہی مار دوں جا ن سے !"
وہ بدستو ر کنگھا کر تا ہوا چلا گیا ۔ اب عمرا ن نے گُل رخ
کو آواز دی ۔
"جی صا حب جی !" وہ فو ری طو ر پر کمر ے میں دا
خل ہو ئی ۔ شا ید قر یب ہی کہیں مو جو د تھی یا پھر چُپ کر دونو ں کی گفتگو سن رہی
ہو گی ۔
"سلیما ن کو کچن میں نہ گھسنے دیا کر !"
"کیو ں صا حب جی ؟"
"ہا نڈ یو ں میں
جو ئیں گر ا تا ہو گا !"
"جو ئیں نہیں ہیں اس کے سر میں !"
"تو پھر یہ ہمہ وقت کنگھا کیو ں کیا جا تا ہے ؟"
"کسی نے اُسے بتا یا ہے کہ اس طر ح زندگی بھر با ل
سفید نہیں ہو تے !"
"اچھا …اچھا … ایک کنگھا مجھے بھی دلا دے !"
"آپ بھی صا حب جی ؟"
"تجر بہ کرو ں گا !"
"آپ کے سر میں ایک بھی با ل سفید نہیں ہے ۔ اُس کے با
ل کھچڑ ی ہو چکے ہیں !"
"یہ کھچڑی مسو ر کی دا ل بھی نب سکتی ہے ۔ بس مجھے
غصّہ آنے کی دیر ہے !"
"آپ کو غصّہ آنے گا ؟"
"کیو ں نہیں آنے گا !"
"کیسے لگیں گے
غصے میں ؟"
"چل بھا گ
ورنہ آہی جا ئے گا !"
وہ چپ چا پ وا پسی کے لیے مڑگئی ۔ تھو ڑی دیر بعد جو زف کمر
ے میں داخل ہوا لیکن سلیما ن اُس کے سا تھ نہیں تھا ۔ عمران اُسے شلو ا ر سو ٹ میں
نہیں دیکھا تھا ۔
"اس طر ح مت دیکھو با س !"جو زف کے دا ت نکل پڑے
۔
"دیکھنے کی چیز لگ رہا ہے !"
"میں تھو ڑ ا تھو ڑ ا کر کے مسلما ن ہو رہا ہو ں
!"
"یہ بڑی اچھی با ت سنا ئی تو نے … لیکن ا چا نک اس کی کیو ں سو جھی ؟"
"اُدھر شید یو ں کے گو ٹھ میں ایک مو لبی صا حب ہے ۔
وہ مجھ کو چر س پلا کر لکچر دیا کر تا ہے !"
"چر س پلا کر ؟" عمرا ن اُچھل پڑا ۔
"ہا ں با س ، وہ کہتا ہے کہ اللّہ کی صر ف لے جا تی ہے اور کا را ستہ شیطا ن کی طر ف لے جا تا
ہے ۔ اُس نے مجھے قبر و ں پر نیٹھے ہو ئے فقیر و ں کو چر س پیتے دکھا یا
تھا اور کہا تھا کہ یہ لو گ محض چر س کی وجہ
سے خدا ر سیدہ ہو ئے ہیں !"
"اَبے ی چرس آدمی کو اندا سے کھو کھلا کر دیتی ہے
!"
"میں تو کھو کھلا نہیں ہو ا !"
"کب سے پی رہا ہے ؟"
"ایک ہفتے سے !"
"بس ایک ما ہ بعد دیکھو !"
"کچھ بھی نہیں ہو گا با س ۔ میں دن بھر میں پچا س روپیو ں کا مکھن اور دودھ ہضم کر
ڈا لتا ہو ں !"
"لیکن شید یو ں کے گو ٹھ میں تیرا کیا کا م ؟"
"کا لا ، کا لو ں ہی میں کھپ سکتا ہے !"
"اس گھر میں
کتنے آبنو س ہیں ؟"
"گھر کی اور با ت ہے با س !"
"وفع ہو جا ۔ میں تیر ی طر ف سے ما یو س ہو چلا ہو ں
!"
وہ خا مو شی سے وا پسی کے لیے مڑ گیا ۔
تھو ڑی دیر بعد فو ن کی گھنٹی بجی ۔ عمرا ن نے ریسیو ر اُٹھا لیا ۔ دوسر ی طر ف سے صفد کی
کمز ورسی آواز آئی ۔ "میں سو ل اسپتا
ل سے بو ل رہا ہو ں !"
"کیو ں ۔ خیر یت تو ہے نا ؟"
"ز خمی ہو گیا ہو ں ۔ را ن میں میں ھہر ا زخم ہے ۔ خو
ن بہت ضا ئع ہو ا ہے ۔ پر سا ئیو ٹ وا رڈ کمر ہ نمبر تیر ہ میں ہو ں !"
"میں ابھی آیا !" عمرا ن نے کہا اور جلد ی لبا س
تبد یل کر کے سِو ل اسپتا ل کی طر ف رو ا نہ ہو گیا ۔ صفد ر واقعی بہت کمزور نظر
آرہا تھا ۔
"یہ ہوا کیسے ؟"عمران نے مضطر با نہ انداز میں پو
چھا ۔
"میں نے آپ کو بتا یا تھا کہ گا ڑی کے قر یب ہی میں نے
ایک ایسی جگہ دریا فت کر لی ہے جہا ں چھُپ کر میں بہ آسا نی گا ڑی کی نگر ا نی کر
سکو ں گا … لیکن تھو ڑی ہی دیر بعد ایک زیر دست دھما کا
ہوا اور کو ئی جلتی ہو ئی چیز میر ی با ئیں ران میں چبھ گئی ۔ بڑا سا لو ہے کا ٹکڑ
ا تھا ۔ میں نے اُسے کھینچ لیا ۔ بس چھو ٹ پڑا خو ن کا فو را ہ ۔ خد ا کا شکر ہے
کہ ہڈی پر ضر ب نہیں !"
"تو تم مجھے یہ اطلا ع دے رہے ہو کہ گا ڑ ی دھما کے سے
اُڑ گئی ؟" عمرا ن نے کہا ۔
"جی ہا ں ۔ شا ید وہ اس میں ٹا ئم بم چھو ڑگئے تھے
!"
" تمہا ری طر ف سے تشویش ہو گئی ہے !"عمرا ن بو
لا ۔
"فکر نہ کیجئے بہت جلد ٹھیک ہو جا ؤں گا !"
"بہر حال تبا ہ ہو گئی لیکن اس کا نمبر محفو ظ ہے ۔
میں خود دیکھ لو ں گا !"
عمران کچھ دیر بیٹھ کر و ہا ں سے روا نہ ہو گیا اور را ستے
ہی میں ایک پبلک فو ن بو تھ سے بلیک ز یر و کو کال کی ۔
"یس سر !" دوسر ی طرف سے آوازئی ۔
"ایک گا ڑی کے رجسڑ یشن نمبر ، میک اور ما ڈ ل سے پتا
لگا نا ہے کہ وہ کس کے نا م پر رجسڑ ڈ ہے
!"
"بہت بہتر ۔
میں نو ٹ کر رہا ہو ں آپ فر ما ئیں !"
"پی کے تھر ی سکسٹی ایٹ ۔ ٹو یو ٹا کو رولا ۔ ما ڈل
سیو نٹی سیو ن !"
"اُو کے سر !"
"جتنی جلد ممکن
ہو سکے !"
"لل … لیکن ٹھہر ئیے جنا ب ۔ ذ را ایک منٹ ہو لڈ
کیجئے ۔ شا یس آپ نے صبح کا کو ئی اخبا ر نہیں دیکھا !"
"نہیں ، ضر ورتّا د یکھتا ہو ں اخبا ر ۔ آج ضرورت ہی
نہیں پیش آئی !"
"میں ابھی آپ کو بتا
تا ہو ں … ویسے ہو سکتا ہے مجھے غلط یا د ہو !"
"جا ؤ … جلدی کر و !" عمران نے کہا اور ریسو ر
کا ن سے لگا ئے کھڑ ارہا ۔
تھو ڑی دیر بعد بلیک زیر و کی آواز آئی ۔ "یہ کسی شہلا
چو دھر ی گا ڑی ہے جو کل دو بجے چو ری ہو گئی تھی ۔ شہلا نے اُس کی گمشد گی کی رپو
ر ٹ پر نسٹن کے تھا نے میں درج کرا ئی ہے ۔ سا تھ ہی پا نچ ہز ا ر روپے انعا م کا علان بھی کیا ہے !"
"بس کا فی ہے !" عمرا ن نے کہا اور را بطہ منقطع کر
کے گا ڑی میں آبیٹھا ۔ اس گا ڑی میں وا ئر
لیس ٹیلیفو ن نہیں تھا ۔
بہر حال اب وہ پھر ایک فو ن کا ل کر نا چا ہتا تھا لیکن کسی
پبلک فو ن بو تھ سے نہیں لٰہذ ا اُسے اپنے محکمے کے ایک مہما ن ضا نے کا رُ خ کر
نا پڑ ا جس کی کنجی اتفا ق سے اس کے پا س مو جو د تھی ۔ وہا ں پہنچ اُس نے فو ن پر شہلا چو دھر ی کے نمبر ڈا
ئل کیے اور ما ؤ تھ پیس کو رو ما ل سے ڈ
ھا نک کر نسو ا نی آوا ز میں بو لا ۔" شہلا مو جو د ہیں ؟"
"آپ کو ن ہیں ؟" دوسری طر ف سے بھی کسی عورت ہی
نے پو چھا ۔
" میں شا کر ہ
نجمی ہو ں !"
" ایک منٹ ٹھہر یئے میں انہیں اطلا ع دیتی ہو ں
!"
عمران با ئیں آنکھ د با کر مسکرا یا ۔
تھو ڑ ی دیر دوسری طر ف سے آواز آئی ۔ " ہیلو شا کر ہ
۔ خیر یت تو ہے آج میں کیسے یا د آگئی ؟"
"ایک اشد ضرورت کے تحت ۔ تم تو جا نتی ہو کہ میں سد ا
کی خو د غر ض ہو ں !"
"چلو ما ن لیتی ہو ں لیکن یہ تمہا ری آوا ز کو کیا ہو
ا ہے ؟"
"دو ما ہ ہو ئے پہا ڑ پر گئی تھی و ہا ں سے دو کل کا ر
ڈ کا مر ض لے کر پلٹی ہو ں ۔ ڈ ا کٹر آپر یشن کی با ت اپنے انکل کا پتا بتا ؤ
؟"
عمرا ن اسے پتا بتا نے لگا ۔
"میں سمجھ گئی ۔ آدھے گھنٹے کے اندر پہنچ جا ؤں گی
!"
"بہت بہت شکریہ ۔ میں زند گی بھر احسا ن مند رہو ں گی
!"
"بکواس کیے جا ئے گی ۔ میں زند گی آرہی ہو ں !"
عمرا ن نے رسیو ر کر یڈ ل پر ر کھ کر طو یل سا نس لی ۔ کچھ
سو چتا ر ہا پھر جلد ی جلد ی بیک ز یر کے نمبر
ڈا ئل کیے اور دوسر ی طر ف سے جوا ب ملنے پر بو لا ۔ "دیکھو ۔ میں
اس وقت ٹی تھر ٹین میں ہو ں ۔ شہلا چو دھر ی بہا ں مجھ سے
ملنے آر ہی ہے ۔ تم خا ور اور چو ہا ن کو
فو راًٹی تھر ٹین کی طر ف اس ہد ا یت کے سا تھ فو راًبھیج دو کہ ا گر کو ئی شہلا
کا تعا قب کر تا ہو ا نظر آئے تو اسے کسی حال میں بھی نی چھو ڑ یں ۔ سا ئیکو
مینشن اُ ٹھا لے جا ئیں ۔ ا گر وہ اپنے سا
تھ اور کسی کو بھی لینا چا ہیں تو کو ئی مضا ئقہ نہیں !"
"بہت بہتر جنا ب !"
"جلد ا ز جلد !"کہہ کر عمران نے ریسیو ر کر یڈل
پر ر کھ دیا ۔
پتا نہیں کیو ں اس وقت بہت مگن نظر آرہا تھا ۔ نہ آنکھو ں
میں فکر مند ی کےآثا ر تھے اور نہ پیشا نی پر تشو یش کی لکیر یں ۔ بس ایسا لگتا تھا جیسے شکا ر کھیلنے نکلا ہو ۔
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اطلا ع گھنٹی بجی اور عمرا ن صد ر
درواز ے کی طر ف لپکا ۔ دروازہ کھو لتے ہی اُس نے شہلا کی تحیر ز دہ سی آواز سنی … "ارے نہیں
!"
"میں معا فی
چا ہتا ہو ں محتر مہ ۔ آپ سے ملنا بے حد ضروری تھا اور اس کے علا وہ کو ئی دوسرا
راستہ بھی اختیا ر نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ آپ اندر بے خو ف و خطر تشریف لے آئیے
!"
"اوہو … ایسا بھی کیا ۔ مجھے آپ پر اعتما د ہے !"
اُس کے اندر دا خل ہو جا نے پر عمرا ن نے دروازہ بند کیا
اور اُسے سٹنگ روم لے آیا ۔
"کیا آپ شا کر ہ کے انکل ہیں ؟" شہلا نے پو چھا ۔
"نہیں ، میں خو د ہی شا کرہ بھی ہو ں ۔ را ئفل کلب میں
آپ دونو ں زیا دہ تر سا تھ رہتی تھیں اس لیے اس کا نا م یا درہ گیاتھا!"
"تو آپ ہی بو ل رہے تھے ؟" اُس نے حیر ت سے کہا ۔
"وہا ں اور اس مجبو ری کی بنا پر کہ آپ کا فو ن ٹیپ
کیا جا رہا ہے !"
"یقیناً ایسا ہی ہو گا عمران صا حب ۔ ہم بڑی دشوا ری
میں پڑ گئے ہیں !" اُس نے کہا ۔ "شا ید آپ کو علم نہ ہو کہ ڈا کٹر ڈیو ڈ
اصل آدمی نہیں تھا ۔ کسی کا کا ر پر دا ز تھا ۔ اصل بلیک میلر کو ئی غیر ملکی ہے
!"
"مجھے علم
ہے ۔ صرف وہی نہیں ٹیپ کرا رہا آپ کا فو ن
بلکہ ہم بھی کر رہے ہیں ۔ آپ مجھے یہی بتا نا چا ہتی ہیں نا کہ اُس نے مجھ متعلق
آپ لو گو ں کو ہدا یا ت دی ہیں ؟"
"جج…حی … ہا ں !"
"تب پھر جب آپ کا دل چا ہئے مجھے بے ہو ش کر کے اُس کے
حوا لے کر سکتی ہیں !"
"کیسی با تیں کر رہے ہیں آپ … لعنت ہے اُس پر
!"
"میں سنجید ہ ہو ں شہلا صا حبہ ۔ خیر اس معا ملے کو
پھر دیکھیں گے ۔ آپ یہ بتا یئے کہ آپ کی گا ڑی کہا ں سے چو ری ہو ئی تھی ؟"
"دن دہا ڑے جنا ب ۔ پر نس اسٹریٹ میں ۔ میں شا پنگ کر
کے وا پس آئی تو گا ڑی غا ئب تھی !'
"ڈیو ڈ کے قتل کے سلسلے میں اُ سی کا استعما ل ہو ا
تھا !"
"یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟"
"کیا گا ڑی کی ڈکی میں کو ئی فا لتو پہیہ مو جو د تھا
؟"
شہلا اُسے حیر ت سے دیکھتی ہو ئی بو لی ۔ "جی نہیں !'
"بس تو پھر
وہی گا ڑی تھی ۔ قا تل آپ کی ما ڈل ٹا ون
وا لی کو ٹھی کے عقبی پا رک کی دیوا ر پھلا نگ کر اندر داخل ہوا تھا ۔ وا پسی پر
اُس نے دیکھا کہ ایک ٹا ئر فلیٹ ہو چکا ہے ۔ اُس نے اسپیئر دھیل تلا ش کیا ہو گا ،
نہ ملنے پر گا ڑی کو ایک قر یبی خشک نا لے میں دھکیل لے گیا اور پھر اُس میں ایک
ٹا ئم بم بھی چھو ڑگیا !"
"خدا کی پنا ہ … تو وہ دھما کاق جس کا ذکر اخبا ر ات میں آیا ہے … !"
"آپ کی گا ڑی میں ہوا تھا اور اُس کے پر خچے اُڑ گئے
تھے !"
شہلا تھو ڑی دیر تک کچھ سو چتی رہی پھر بو لی ۔ "آپ کے
با رے میں کہا جا تا ہے کہ آپ بھی بلیک میلر ہیں ؟"
"ابھی میرے با رے میں آپ بہت کچھ سنین گی ۔ مشلاً منھ
سے لوہے کے گو لے نکا لتا ہے ۔ ریز ر بلیڈ چبا تا ہے اور زندہ سا نپ کو ککڑی کی طر
ح کررکررک چبا ڈا لتا ہے !"
"سنجیدگی اختیا ر کیجئے عمران سا حب ۔ میں بہت پریشا ن
ہو ں !"
"ارے محتر مہ … میں … لیکن ٹھہر یئے
۔ کیا میں آپ پر اعتاف کر سکتا ہو ں ؟"
"اسی طر ح جیسے میں نے آپ پر اعتما د کر لیا ہے
!"
"اچھا تو سنئے میں محکمہ خا رجہ کے شعبئہ کا رِ خا ص
سے تعلق رکھتا ہو ن !"
"تب تو ٹھیک ہے !"
"کیا ٹھیک ہے
!"
"میں آپ پر عتما د کر لو ں گی !"
"نہ کر یں تب بھی کو ئی فر ق نہیں پرے گا لیکن دوسری
اہم با ت یہ ہے کہ آپ کی گا ڑی چو ری نہیں ہو ئی تھی بلکہ اُسے آپ کے وا لد صا حب
لے گئے تھے ۔ وہ خا صے جا نے پہچا نے آدمی ہیں ۔ جب میرے آدمی اس کے با رے
میں چھا ن بین کر رہے تھے تو ایک فرد ایسا
بھی ملا جس نے آپ کےوالد کو گا ڑی لے جا تے دیکھا تھا !"
"آپ لہنا کیا چا ہتے ہیں ؟" وہ چمک کر بو لی ۔
"یہی کہ وہ بے چا رے اس قا بل کہا کہ عقبی پا رک کی دیوا ر پھلا نگ سکیں لیک گا ڑی انہی کے تو سط سے قا تلو ں تک پہنچی
تھی !"
"اگر یہ با ت ہو تی تو وہ مجھے گمشدگی کی رپورٹ نہ درج
کرا نے دیتے ؟"
"بس سو چتی رہئے لیکن ہوا یہی ہے !"
"اچھا ایک با ت اور … میں جب بھی با
ہر نکلتی ہو ں میرا تعا قب کیا جا تا ہے ۔ ایک یو ریشین لڑکی سکو ٹر پر ہو تی ہے ۔
اس وقت بھی وہ میرے پیچھے پیچھے آئی تھی
!"
"اب تعا قب نہ کر سکے گی !"
"یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟"
"وا پسی پر اندا زہ لگا کیجئے گا !"عمران نے کہا
۔ "کیو نکہ اب وہ میرے آدمیو ں کی تحویل میں ہو گی !"
"خیر اس سے کو ئی فرق نہیں پڑ تا ۔ اگر کسی نے بھٹر
چھا ڑ کی تو ما را جا ئے گا !" شہلا نے کہا اور ینٹی بیگ ست اعشاریہ تین دوکا
ریوا لو ر نکا ل کر عمران کو دکھا یا ۔
"پر مٹ ہے اس کا ؟"
"جی ہا ں ۔ پکّا پر مٹ !"
"ٹھیک ہے ۔ آپ بہت دلیر لڑ کی ہیں ۔ میں جا نتا
ہو ں ۔ اچھا خیر اب آپ جا یئے ۔ میں آپ
سے رابطہ رکھو ں گا … لیکن
ٹھہر یئے … یہ بھی دکھا دوں کہ میرا حلیہ کیا ہو گا !"عمرا ن نے کہا اور اُسے و ہیں
بٹھا کر خو د دوسرے کمر ے میں چلا گیا ۔
شہلا خا صی پر شا ن نظر آنے لگی تھی اور پھر جب پا نچ یا چھ
منٹ بعد عمرا ن ک واپسی ہو ئی تو وہ چو نک
پڑی ۔ اُٹھ ہی رہی تھی کہ عمران نے ہا تھ ہلا کر کہا ۔ "بیٹھی رہئے میں ہو ں
!"
"خدا کی پنا ہ ۔ آپ بہر و پئے بھی ہیں !"
عمران نےا پنا ایک ریڈی میڈمیک اَ پ استعمال کیا تھا ۔
"اچھی طر ح
دیکھ لیجئے ۔ میں اسی روپ میں آپ سے ملا کروں گا !"
"آپ وا قعی با کمال آدمی ہیں !"وہ اُٹھتی ہو ئی ب
و لی اور عمران سے مصا فحہ کر کے رخصت ہو نے لگی تو عمران نے کہا ۔ یا د رکھئے گا
اس میک اَپ میں میرا نام را شد پٹھا ن ہے !"
2
واقعی وہ ایک سفید فا م لڑ کی ہی تھی اور بڑ ی مشکلو ں سے
چو ہا ن اور خا ور کے قا بو میں آئی تھی اور پھر اُسے اسکو ٹر سمیت سا ئیکو میشن
میں پہنچا کر و ہا ں کی حوا لات میں ڈا ل دیا گیا ۔
جو لیا کو ایکس ٹو کی طر ف سے طلا ع ملی عمران کے علاوہ اور
کو ئی بھی اُس لڑ کی سے کسی قسم کی گفتگو
کر نے کی کو شش نہ کر ے ۔
اُدھر عمران ابھی تک اُسی عما رت میں تھا جہا ں اُس نے شہلا
چو دھر ی سے ملا قا ت کی تھی ۔
کچھ دیر بعد چلنے
ہی وا لا تھا کہ بلیک زید و کی کا ل آئی ۔
وہ عمران کو اطلا ع دے رہا تھا ۔ "وہ
ایک سفید فا م لڑکی تھی جنا ب ، خو د میں بھی نکل کھڑ ا ہوا تھا ۔ بہ چشم خو د
اُسے دیکھا ۔ اُس نے ٹھیک ٹی تھر ٹین کے سا منے اپنی گا ڑی روک دی تھی اور بیٹھ کر
اُس کت ا نجن کو دیکھنے لگی تھی گو یا ظا ہر کر نا چا ہتی تھی کہ اسکو ٹر کے انجن نے کا م کر نا چھو ڑ دیا ہے ۔ کچھ دیر بعد خا ور اُس کے قر یب پہنچ کر بڑے ادب سے بو لا ۔"کیا میں کو ئی مدد کر سکتا
ہو ں !"وہ شکر یئے کے سا تھ اُس پر را ضی ہو گئی ۔ خا ور نے جلد ہی معلو م کر
لیا کہ بیٹر ی کے تا ر کا ڑ مِنل ڈھیلا ہے ۔ اُس نے جیب سے ایک چھو ٹا پیسہ
نکا ل کر اُسے کسی قد ر خم کیا اور ٹر مِنل
کے گر د لگا کر اُسے ٹا ئٹ کر دیا ۔ اس با ر گا ڑی اسٹا رٹ ہو گئی اور لڑ کی ایک با ر پھر اس کا شکر یہ
ادا کر کے وہا ں سے روانہ ہو گئی ۔ چو ہا ن اور خا ور نے اپنی گا ڑی گلی میں پا رک
کی تھی اور ادھر اُدھر ٹہل گئے تھے ۔ تھو ڑی دیر بعد لڑکی کااسکو ٹر پھر اُدھر ہی
پلٹ آیا اور اتفا ق سے اس با ر اُس نے بھی اسکو ٹر و ہیں روکا جہا ں صفد ر اور چو ہا ن کی گا ڑی پا رک تھی
جہا ں شہلا وہ دونوں وہا ں سے اُسے مو جو د نہیں تھے ۔ اسکو ٹر وہیں چھو ڑ ک کر وہ
ٹی تھر ٹین کی طر ف بڑ ھ گئی ۔خا ور اور چو ہان جہا ں تھے وہا ں سے اُسے دیکھ رہے تھے ۔
انہو ں نے اُسے ٹی تھر ٹین کے پا ئیں با غ میں دا خل ہو تے دیکھا جہا شہلا چو دھر ی کی اور آپ کی گا
ڑی پا رک تھی ۔ وہ دونو ں الر ٹ ہو گئے ۔ چو ہا ن جو دوسری پو ز یشن پر تھا اس نے اُسے اپنا اسکو ٹر بھی
وہیں روکتے دیکھا تھا جہا ں خو دا ن کی گا ڑی پا ر ک تھی !"
"کہا نی کو مختصر کرو !""پھر یہ ہوا جنا ب
کہ چو ہا ن نے اسکو ٹر کی بیٹر ی کے ٹر مِنل سے پیسہ نکا ل دیا خا ورنے اُسے ٹا ئٹ
کر نے کے لیے لگا یا تھا ۔ اتفا ق سے اس وقت وہا ں با لکل سنا ٹا تھا ۔گا ڑیا ں
بھی نہیں گز ررہی تھیں اس لیے وہ کچھ بہ آسا نی ہو گیا ۔ پھر تھو ڑی دیر بعد انہو
ں نے لڑکی کو پا ئیں با غ سے بر آمد ہو تے دیکھا ۔ وہ گلی میں پہنچی ہی تھی کہ شہلا چو دھر ی کی کا پا
ئیں با غ سے بر آمد ہو ئی ۔ ادھر اس نے اپنا اسکو ٹر اسٹا ر ٹ کر نے کی کو شش کی اور جب اسٹا ر ٹ نہ ہو ا تو پھر
بیٹھ کر ٹر مِنل کو چھیڑ نا شر وع کیا ۔
شہلا کی گا ڑی نکلی چلی گئی تھی ۔ اس کے بعد وہ بھی ٹر مِنل کے سا تھ وہی کر نے جا رہی تھی جو خا ورنے پر آما کیا تھاکہ اُن
دونو ں نے اُسے آلیا ۔ اب شا ید با ت اس کی سمجھ میں آگئی تھی اس لیے مر نے ما رنے پر آما دہ ہو گئی ۔ بہت تیز معلو
م ہو تی تھی ۔ جو ڈو کرا ٹے پر بھی دستر س ر کھتی ہے۔ بڑی مشکلوں سے قا بو میں
آئی ۔ چو ہا ن کو اس پر ڈا رٹ گن چلا نی پڑی تھی ۔ جب بے ہو ش ہو گئی تو
اُٹھا کر گا ڑی میں ڈا ل دیا گیا ۔ میں نے جو لیا کو ہدا یت دی ہے کہ اُسے محکما
تی حوالا ت میں ڈال دیا جا ئے اور آپ کے علا وہ اس سے اور کو ئی گفتگو نہیں کر
سکتا !"
"یہ تم نے
بہت اچھا کیا !" کہہ کر عمران نے ریسیو ر کر یڈل پر رکھ دیا ۔
تھو ڑی دیر بعد اُس کی گا ڑی سا ئیکو مینشن کی طر ف جا رہی تھی اور اب وہ اشد پٹھا ن کے
میک اِ پ کے بجا ئے سا ئیکو میشن کے ایک ما ہر نفسیا ت کے میک اَپ میں تھا ۔
جس وقت وہ سا ئیکو مینشن کی حو الا ت میں دا خل ہو ا ، لڑ کی ہو ش میں تھی
۔ اُسے دیکھتے ہی اُٹھ بیٹھی ۔
"میں کہا ں ہو
ں اور تم کو ن ہو ؟میر ے سا تھ جو غیر قا نو نی حر کت ہو ئی ہے اس کے لیے تمہیں بھگتنا پڑے گا !"
"آرام سے
بیٹھی رہو !" عمران نے سا تھ اُٹھا کر نر می سے کہا ۔ " یہ ذ
ہنعی مر یضو ں کا ہسپتا ل ہے !"
"اچھا تو پھر
یہا ں میرا کیا کا م ۔ بس مجھے اتنا یا د ہے کہ دو بد معا شو ں نے مجھ پر
حملہ کی اتھ ا۔ میں اُ ن کا مقا بلہ کر تی رہی ۔ جب مجھ پر قا بو نہ پا سکے تو کسی
نے ڈا رٹ گن چلا ئی اور میں نے ہو ش ہو گئی !"
"ہا ں ، تم
نے ہو شی کہ حا لت
میں یہا ں لا ئی گئی تھیں ۔ وہ بد معا ش نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق ایک سر کا ری محکمے سے ہے جو ذہنی امرا ض میں مبتلا لو گو ں کے با
رے میں چھا ن بین کر کے انہیں جبر اً یہا
ں لے آتے ہیں اور یہ بھی ایک سر کا ری ادا رہ ہے !"
"تمہا ری با تیں تو میر ی سمجھ میں نہیں آرہی ہیں
؟"
"د یکھو یہ سب معز ز آدمی مسٹر ر ا شد پٹھا ن کی شکا
یت پر ہو ا ہے کیو نکہ تم اُس کی محبو بہ شہلا
چو دھر ی کا تعا قب کر تی ہو !"
دفعتًہ لڑکی نے
زودار قہقہہ لگا کر کہا ۔ "اچھا تو یہ با ت ہے !"
"وہا ں یہی با ت ہے !"
"تب تو پھر را شد پٹھا ن میرا ر قیب ٹھہر ا !" وہ
بڑی ڈھٹا ئی سے بو لی ۔
"اوہ تو تم واقعی اُس لڑکی شہلا چو دھر ی
کا تعا قب کر تی ہو ؟"
"بہت دنو ں سے ، جب سے اُ سے دیکھا ہے ۔ مجھے بہت اچھی لگتی
ہے ۔ دل کے ہا تھو ں مجبو ر ہو ں !"
"تو اس سے تعا رف کیو ں نہ حا صل کر لیا ؟"
"صو ر ت سے مغر ور بھی تو لگتی ہے ۔ اگر گھا س نہ ڈا لی تو میرا دل ٹو ٹ جا ئے گا !"
"اب تم خو د ہی بتا ؤ
کہ تمہا رے لیے ذ ہنی شفا خا نہ ضروری ہے یا نہیں ؟"
وہ کچھ بو لی ۔ سر جھکا ئے بیٹھی رہی ۔
"یہ ایک غیر فطر ی اور غلط رجحا ن ہے ۔ کیا تمہا رے با
پ اور بھا ئی بہت ظا لم ہیں ؟"
"بہت زیا دہ
ڈا کٹر !"
"کس ملک سے تعلق رکھتی ہو ؟"
"سو ئیڈ ن سے
!"
"لیکن وہا ں کے مرد تو بے حد شر یف ہو تے ہیں ؟"
"سب نہیں ڈا کٹر ۔ کچھ تو ا نتہا ئی درجے کے اذیت پسند ہو تے ہیں ۔ اب میر ے با پ ہی کو
لے لو ۔ ذرا ذرا سی با ت پر اب بھی میری
بو ڑھی ما ں کو ما ر تا پیٹتا رہتا ہے !"
"تم نے ابھی
تک اپنا نا م نہیں نتا یا ؟"
" تم نے پو چھا کب
تھا ؟" وہ مسکرا بو لی ۔
"میں کلا ر اڈِ کسن ہو ں !"
"لیکن یہ نا م
سو ئیڈش تو نہیں معلو م ہو تا ؟"
"میری پیدا ئش
انگلینڈ میں ہو ئی تھی ۔ میرا با پ
اُن دنو ں سفا رت خا نے میں ملا زم تھا !"
"اُس وقت بھی
وہ ازیت پسند تھا ؟"
"کیا بتا ؤں ڈا کٹر ۔ میر ی پیدا ئش بھی اس کی ازیت
پسندی کا نتیجہ ہے ۔ میر ی ما ں پو رے دن سے
تھی کہ ایک روز میر ے ظا لم با پ نے اُ س پیٹ پر ٹھو کر رسید کر دی ۔
بس میر ی ما ں مر تے مرتے بچی تھی اور
مجھے شا ید ذبر دستی دنیا میں آنا پڑا تھا ۔ آ پر یشن ہوا تھا !'
"مجھے تم سے ہمدردی ہے لڑکی !"
"لیکن میں سا ری دنیا کے مر دو ں سے شد ید نفر ت کر تی
ہو ں !"
"ضر ور ۔ ضرور !" وہ سر ہلا کر بو لا ۔
"ایسے حا لا ت میں یہ نا گز یر ہے
!"
"تو پھر تم
مجھ سے میرا یہ کو مپلیکس مت چھینو !"
"ہم مجبو ر ہیں لڑکی ۔ ہم جنس پر ستی سو ئیڈ ن کی طر
ح ہما رے یہا ں قا نو نی حیثیت نہیں ر کھتی ۔ قا بِل سز
ا جر م ہے !"
" بس میں اُسے دیکھتی ہی تو ہو ں
۔ کبھی مل بیٹھنے کی کو شش نہیں کی !"
"کیا تم ہر وقت دستا نے پہنے رہتی ہو ؟"
"ہا ں ڈا کٹر ، میرے ہا تھ ہر وقت ٹھنڈ ے رہتے ہیں ۔ اگر دستا نے نہ پہنو ں تو ہا
تھو ں میں درد ہو نے لگتا ہے !"
"اچھی با ت ہے تو بی الحا ل ہم اسی کا علا ج کر
یں گے ۔تم سے تمہا را کو مپلیکس نہیں چھینیں گے !"
" شکر یہ ڈا کٹر … لیکن میں
اُس شخص سے ضر ور ملنا چا ہو ں
گی جس کی شکا یت یر یہا ں پہنچا ئی گئی ہو ں !"
"تمہا ری یہ خو ا ہش فو ر اً پو ری کی جا ئے گی !' ڈا کٹر اُ ٹھتا ہوا
بو لا ۔ "میں اُس ے بھیجتا ہوں
!"
ڈا کٹر چلا گیا اور اُس نے قفل
میں کنجی کھو منے کی آوا ز سنی ۔ دفعتّہ اُس
کے چہر ے کی رنگت بد ل گئی ۔ آنکھیں سر خ ہو گیئں
اور وہ کسی بھو کی شیر نی کی طر ح
غرّ ا نے لگی ۔
تھو ڑی دیر بعد دروا زہ کھلا اور عمران
۔ را شد پٹھا ن کے میک اَپ میں اندر دا خل ہوا ۔
اسے دیکھتے ہی وہ پھر معمول پر آگئی ۔
عجیب سء مسکرا ہٹ اُ س کے ہو نٹو ں پر ر
قص کر نے لگی کیو نکہ پہلی ہی نظر میں وہ
اُسے اول درجے کا نے و قو ف لگا تھا ۔ اُ س کی آنکھو ں کی بنا و ٹ ہی ایسی تھی
جیسے پیدا ئشی احمق ہو ۔
"تم را شد پٹھا ن ہو ؟"اُ س
نے مضحکہ اڑا نے کے سے اندا ز میں پو چھا ۔
"بب … بب… با لکل !"
"میر ے سا تھ یہ بر تا ؤ کیو ں کیا ؟"
"تم لفتگی ہو !"
"کیا مطلب ؟"
" شہلا کا پیچھا کیو ں کر تی ہو ؟"
"مجھے وہ اچھی لگتی ہے !"
"وہ ارے واہ ۔ کیا با ت ہو ئی ۔ یہا ں عو ر تیں عو رتو
ں کا پیچھا نہیں کر تیں ۔ ہم بے حد شر یف لو گ ہیں !"
"ہو ا کر و لیکن
میں سو ئیڈش ہو ں ۔ ہما رے یہا ں ایسی کو ئی پا بند ی نہیں !"
"تو پھر سو ئیڈن ہی چلی جا ؤ !"
"اُ سے بھی سا تھ لے
جا ؤں گی … تم دیکھ لینا
!"
"ارے کا ؤ … لے کا چکیں … وہ … وہ … میر ی ہو نے وا لی منگیتر ہے ۔ بہت جلد ی
ہما ری منگنی کا علا ن ہو جا ئے گا
!"
"اُس کے با و جو
د بھی میں اُ سے یہا ں نہیں رہنے
دوں گی ۔ تمہا را دل چا ہے تو تم بھی چلو ۔ مجھے کو ئی اعتر ا ض نہ ہو گا ۔ ہم دو نو ں مل کر اُ سے چا
ہیں گے !"
"مم… میں اپنے وا لد صا حب سے پو چھ کر بتا ؤں گا
!"عمران بو کھلا کر بو لا ۔
"اتنے بڑے ہو گئے اور اب بھی با پ سے پو چھ کر بتا ؤ گے ؟"
"وہا ں ۔ ہما رے یہا ں یہی ہو تا ہے !"
"تم مسلما ن
لو گ بھی عجیب ہو !"
"تم مسلما نو ں کے با رے میں کیا جا نو ؟"
"میں نے قا
عدہ اسٹڈی کی ہے اور کچھ دنو ں
تک مسلما ں بھی رہ چکی ہو ں !"
"کچھ دنو ں تک کی کیا با ت ہو ئی ؟"
"ایک انڈو نیشی لڑکی سے محبت ہو گئی تھی ، اُسے مزید
متا ثر کر نے کے لیے !"
"اُس کے بعد ؟"
"میں درا صل
کسی بھی مذ ہب سے تعلق بہیں رکھتی !"
"خیر مجھے کیا !" عمرا ن شا نے سکو ڑ کر بو لا ۔
"لیکن تم لو
گ بڑی
عجیب قو م ہو ۔ کہتے ہو نا کہ سا ری دینا کے مسلما ن ایک قو م ہیں !"
"ہا ں ہیں ۔ با لکل ہیں ۔ یہا ں خون یا مٹی سے قو م نہیں
بیتی بلکہ دین بنا تا ہے قو م
!"
"میں یہ کہہ رہی تھی کہ تمہا رے یہا ں اخوت و مسا وا ت
کے بڑے چر چے ہیں لیکن تمہا ری قو م کے پچھتّر فیصد افرا د فا قہ اور صبر وقنا عت
کی زندگی گز ا رتے ہیں اورع پچیس ٖفیصد
کا یہ عا لم ہے کہ دن بھر میں دو ڈ
ھا ئی پو نڈ ر اپنے کپڑوں پر ا اسپر ے کر ڈا لتے ہیں ۔ دو ر کیو
ں جا ؤ حال ہی میں
تمہا رے ملک سے لا کھو ں رو پیو ں کے شکا
ری با ز خر ید ے گئے ہیں !"
"ارے وہ تیل وا لے
عر ب بھا ئی تھے !"
"تمہا ری ہی قو م کے فر د تھے ؟"
"با لکل تھے
!"
"تو پھر یہ کیسی اخو ت ومسا وا ت ہے ۔ کیا وہی ر قم جو
با زو ں پر ضا ئع کی گئی ۔ تمہا ری قا قہ زدہ آبا دیو ں کے کا م نہیں آسکتی تھی ؟"
"یہ معا ملہ بڑا
ٹیڑ ھا ہے !"
"آخر کیو ں ٹیڑھا ہے ؟"
" با ت در اصل یہ ہے
کہ ہما را صحبفئہ آسما نی اُ نہی کی ز با ن میں
اُتر اہے اور تم یہ بھی جا نتی ہو گی کہ عر بی کے ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہیں ۔ ہو سکتا ہے بعض الفا ظ
سے تیل وا لو ں کو اس کی چھو ٹ مل گئی ہو !"
" مجھ سے نہیں
اُ ڑسکتے ، میں نے بہت پڑھا ہے ۔
ما ل کے با رے میں تمہا رے یہا ں بنیا دی اصو ل یہ ہے کہ سا را ما ل خدا کا ہے اور
لو گو ں کے پا س اللّٰہ کی اما نت کے طو
ر پر ہتا ہے اور اُسے صر ف اُ سی کے احکا
ما ت کے تحت صر ف کیا جا سکتا ہے !"
عمرا ن بغلیں جھا
نکنے لگا اور وہ ہنس کر بو لی " سا ری دنیا کے مذ ہب کا لٹر یچر اکٹھا کر دیا
جا ئے تو اسلا می لٹر یچر کا عشر عشیر بھی
نہ ثا بت ہو گا اس کے با ع جو د بھی تم لو
گو ں کا یہ حا ل ہے !"
عمرا ن کا سارا جسم
پیسنے سے بھیگ چکا تھا ۔ با ر با ر
تھو ک نگل رہا تھا ۔ وہ پھر کہنے ہی وا لی تھی کہ درواز ہ پھر کھلا اور جو لیا نا
فٹر وا ٹر نر س کے لبا س میں اند ر د ا
خل ہو ئی ۔
"اوہ … تو سچ مچ
یہ کو ئی ہسپتا ل ہی ہے !"
کلا را چو نک کر بو لی ۔
"ہا ں بھئی اور کیا ۔ ہم جھو ٹے تو نہیں ہیں ۔ یہا
ں ذہنی امرا ض کا علا ج
ہو تا ہے !" عمرا ن نے کہا ۔
جو کیا نے عمرا ن سے کہا ۔"نہیں کلینک میں چلنا ہے !"
کلا را اُٹھتی ہو ئی بو لی ۔ " ضرو ر ، ضرور ۔ میں
دیکھو ں گی کہ تم میرا یہ کو مپلیکیس کیسے دو ر کر تے ہو!"
وہ راہدا ری میں
نکل آئے اور کلا را چا رو ں طر ٖ دیکھتی
ہو ئی بو لی۔
"عما رت شا ندا ر لگتی ہے ۔ کیا میں پو ری عما رت د
یکھ سکو ں گی ؟"
"ضرور …ضرور … ایک ایک کمرہ!" جو لیا نے کہا ۔
"اچھا تو پہلے تمہیں پو ری عما رت ہی
دکھا دی جا ئے !"
"تمہا را بہت بہت شکر یہ !"
کلا را اور جو لیا سا تھ سا تھ چل رہی تھیں اور عمران ان کے پیچھے تھا ۔ وہ دو نو ں
ایک کمرے میں دا خل ہو ئیں اور عمران دروا
زے ہی پر رُک گیا لیکن کو لیا مُڑ کر بو لی ۔"آؤ تم بھی آؤ ۔ تم تو ہما رے
انچا ر ج کے دوست ہو ۔ تم سے کیا پر دہ
!"
عمرا ن ہچکچا ہٹ کے سا تھ کمر ے میں دا خل ہو ا ۔ جو لیا نے
دروازا بند کر دیا اور کلا را سے بو لی ۔
"کلو ز سر کٹ
ٹی وی پر میں تمہیں پو را کلینک
دکھا دو ں گی !"
"تم لو گوں نے بھی خا صی تر قی کر لی ہے !"کلا را
کے لہجے میں حیر ت تھی ۔
چھپس انچ اسکرین وا لے ٹی وی کا سو ئچ آن کر دیا گیا ۔ جو لیا ر یمو ٹ کنڑ و ل استعما ل کر رہی تھی
۔سب سے پہلے تجر نہ گا ہ کا منظر دکھا ئی دیا ۔ پھر وہ کمر ے دکھا ئے جہا ں مر یض
آرام و آسا ئش کیزند گی بسر ک رتے تھے ۔اچا نک کلا را کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوا
ز نکلی اور عمران بھی خو فز دہ لہجے میں "ما ئی فا رد " کہہ کر رہ گیا
کیو نکہ اس کمر ے میں بے شما ر سا نپ فر ش پر رینگ رہے تھے ۔
"اس کا کیا مطلب ہے ؟" کلا را نے پو چھا ۔
"بعض مریضو ں کا طر یقِ علا ج !"
منظر پھر بد لا ۔ اس کمرے میں نہت بڑے بڑے گو شت خو ر چو ہے ایک مُر دہ بکرے پر ٹو ٹے پڑ رہے تھے ۔
"خدا یا … یہ بھی طر یقہ علا ج ہے !" کلا را
آہستہ سے بو لی ۔
"ہا ں ۔ یہ بھی ہے !"جو لیا اور اُس منظر کو فر
یز کر دیا ۔
"کیو ں ۔ کیا میرا طر یقہ علا ج یہی ہو گا ؟"
"نہیں ، یہ با ت نہیں ۔ دراصل ہما رے چیف کی کا ل آنے
والی ہے ۔ وہ تم سے گفتگو کر نا چا ہتا ہے!"دفعتّہ کمرے میں عجیب طر ح کی
آوازیں گو نجنے لگیں پھر ایکس ٹو یعنی
بلیک زیر و کی آواز آئی ۔
"شا م بخیر مس
ڈکس !"
"شا م بخیر مسٹر چیف !" کلا را نے مضحکہ اُڑانے کے سے انداز میں جواب دیا ۔
"تمہیں یہا ں کو ئی تکلیف تو نہیں ہے ؟"
"ابھی تک تو نہیں ہے !"
"او مس ڈ کسن اب سچی با ت !"
"کیا مطلب … مسٹر چیف ؟"
"تمہا رااس بلیک میلر سے کیا تعلق ہے جس نے ڈا کٹر ڈیو
ڈ کو قتل کرادیا ؟"
"میں یہ نام پہلی با رسن رہی ہو ں مسٹر چیف !"
"کیا تمہیں چو ہو ں وا لے کمرے میں بند کر دیا جا ئے
!"
"وہ کس لیے مسٹر چیف ؟"
"سچی با ت اُگلوا نے کے لیے ۔ نرس منظر کو ڈی فر یز کر
دو !"
ٹی وی پھر چلنے لگا ۔ چو ہے بکر ے کی لا ش چٹ کر جا نے کے بعد آپس ہی میں اُلچھ پڑے تھے ۔ایک دوسرے پر
حملا کر رہے تھے ۔
"اچھا تو مسٹر چیف ! تم مجھے مر عو ب کر نے کی کو شش
کر رہے ہو ۔ میں کسی ڈا کٹر ڈ یو ڈ کو نہیں جا نتی ۔میرا فر سٹ کزن سو ئیڈن کے سفا
رت خا نے میں سکنڈ سکر یٹری ہے ۔ پیر ی النگھم نا م ہے ۔ میں تفر یحی سفر پر یہا ں
آئی ہو ں اور اُسی کے سا تھ مقیم ہو ں ۔
تم تصد یق کر سکتے ہو !"
"تو تم ڈا کٹر فو ریل کو بھی نہیں کا نتیں ؟"
"نہیں مسٹر چیف !"
"او ر تمہا را اس گروہ سے کو ئی تعلق نہیں ہے جس نے
ایک پتھر کا آدمی شہر میں چھو ڑ رکھا ہے
؟"
"نہیں … میرا کسی قسم کے کسی گر وہ سے کو
ئی تعلق نہیں ہے !"
"اچھی با ت ہے مس ڈ کسن تم اس کمرے میں ضرور جا ؤ گی
!"
کلارا نے قہقہہ لگا یا اور بو لی ۔ "ضرور مسٹر چیف ،
میں تیا ر ہو ں لیکن وہا ں بھی سچی ہی با ت میری زبا ن سے نکلے گی !"
اس بار ایکس ٹو کی آواز نہیں آئی تھی ۔ جو لیا نے ٹی وی بند کر دیا ۔ دروازہ خو د بخو دکھلا اور دوافراد اسٹین گنیں سنبھا لے ہو ئے کمرے میں دا خل ہو ئے ۔
"ار ے مجھ بے چا ری کے لیے اس کی کیا ضرورت تھی
؟" کلا را نے کہا ۔"میں بخو شی اس امتحا ن میں شر یک ہو نا چا ہتی ہو ں
!"
جو لیا ۔ عمران کی طر ف مُڑ کر بو لی ۔ "اب کیا خیا ل
ہے مسٹر راشد پٹھا ن ؟"
"اس نے میری عقل چکر ادی ہے ۔ اس سے قبل اسلام پر بحث
کر کے مجھے ز چ کیا تھا اور اب یہ دیکو ۔ خیر آن کرق ٹی وی اور ان آلا ت پر بھی
نظر رکھنا جن سے چو ہے کنٹر و ل ہو تے ہیں !"
جو لیا نے ریمو ٹ کنٹر ول کے بٹن دبا ئے ۔ کمرے کا
منظر پھر ٹی وی پر نظر آیا لیکن اب کمرے
میں آدھا فر ش با لکل صا ف ہو گیا تھا اور چو ہے ایک مخصو ص حد کے اندر اُچھل کو
در ہے تھے ۔ درواز ہ کھلا اور کلا را کو اندر دھکیل دیا گیا ۔ دروازہ پھر بند ہو
گیا ۔ کلا را کے ہو نٹو ں پر عجیب سی مسکرا ہٹ تھی ۔ چو
ہے اُسے دیکھ کر مزید پُر جو ش نظر آنے لگے تھے لیکن اپنی اسی حد کے اندر جس میں
کچھ دیر پہلے نظر آنے رہے ۔
دفعتہّ کلا را نے ٹی وہ کیمر ے کی طر ف زُخ کر کے زور سے
ہنسا اور بو لی ۔ "غا لباً تم دونو ں دیکھ رہے ہو گے !"
"ہا ں ، ہم دیکھ رہے ہیں !" جو لیا نے اونچی آواز
میں کہا ۔ "اب تم سچ بو ل سکو گی!"
"محض دھمکی سے ؟"کلارا نے سوال کیا ۔
"کیا مطلب ؟" جو لیا جھنجھلا کر بو لی ۔
"ان چو ہو ں کو مجھ پر حملہ آور ہو نے دو ۔ ان کے لیے
کو ئی حد مت مقرر کرو ۔ ویسے میں اعتراف کروں گی ،تم حقیر لوگ بھی خا صی تر قی کر گئے ہو !"
عمران ۔ کو لیا کی طر ف دیکھ کر رہ گیا کچھ بو لا بہیں ۔
جو لیا بھی جواب
طلب نظر وں سے عمران کی طر ف دیکھتے جا رہی تھی ۔ آخر عمران نے آہستہ سے کہا "صر ف تین چو ہے ریلیز کرو !"
جو لیا نے پھر ریمو ٹ کنٹرول کا ایک بٹن دبا یا ۔تین چو ہے
اُشھل کر کلا را کے سینے پر آئے لیکن وہ جو ں کی تو ں کھڑی رہی اور سا تھ ہی ہنستی
بھی رہی ۔چو ہے اُس کے سینے میں اپنے دانت اُتا رنے کی کو شش کر رہے تھے لیکن شا
ید ا نہیں اس میں نا کامی ہو رہی تھی ۔
عمران بھرائی ہو ئی آواز میں بو لا ۔"خدا کی پناہ … دوسرا پتھر
!"
"کیا مطلب ؟"
"تم دیکھ نہیں رہیں ۔ جلدی سے خطر ے کا الارام بجا ؤ
ورنہ اب یہ تو ڑ پھو ڑکر تی ہو ئی یہا ں سے نکل بھا گے گی ۔ لا ؤ ر یموٹ کنٹر و ل
اِدھر لا ؤ۔ جا کر نجاؤ الا رام اور مسلح آدمیو ں کو ہو شیار کر دو!"
جو لیا نے فو راً تعمیل کی ۔ اُدھر ٹی وی کی اسکرین کا منظر
دہشت نا ک تھا ۔ کلا را نے تینو ں چو ہو ں کی
ٹا نگیں چیر چیر کر انہیں دوسرے چو ہو ں کی طر ف اُچھا ل دیا تھا اور وہ ان
پر ٹو ٹ پڑے تھے ۔
کلا را نے پھر کیمرے کی طر ف دیکھا ۔ عمران کو اس کی آنکھیں
اپنی آنکھو ں میں چبھتی ہو ئی سے محسو س ہو رہی تھیں ۔
"کہو تو اَب ان سبھو ن کو کچل کر رکھ دوں !"کلارا
نے بلند آواز میں کہا ۔
عمران خا مو ش رہا ۔وہ اُسے دیکھ نہ سکتی لیکن آواز بہر حال
سن لیتی اور عمران بحیثیت راسد پٹھا ن یہا ں اپنے اختیا رات کا مظا ہرہ نہیں کر نا
چا ہتا تھا ۔ دفعتّہ خطر ے کا الارام بجنے لگا ۔
اُدھر کلا را کی
ایک ہی ٹکر سے کمرے کا دروازہ پا ش پاش ہو گیا ۔عمران نے ریمورٹ کنٹر ول کے سا رے
سو ئچ آف کردیئے اور ٹی وی کا اسکرین تا ریک ہو گیا ۔ پھر وہ خا صی بو کھلا ہٹ کے
سا تھ اُس کمرے سے نر آمد ہوا تھا۔
اُس نے ٹا می گنو ں کی تڑ تڑاہٹ سنی ۔ سا تھ ہی کلارا کے
قہقہے بھی سن رہا تھا ۔ کئی ایسی چیخیں بھی سنیں
جیسے چیخنے وا لے دم تو ڑرہے ہو ں ۔
وہ دیو انو ں کی طر ح اِدھر اُدھر دوڑتا پھر رہا تھا لیکن
کلارا سے مڈ بھیڑنہ ہو ئی ۔ آخر وہ اپنے مخصو ص کمرے میں جا گھسا اور دروازہ مقفل
کر کے ما ئک پر ایکس ٹو کی آواز میں چیخنے لگا ۔"اِسے نکل جا نے دو ۔روکنے کی
کو شش نہ کر و ۔ یہ بھی سنگ زاد بن گئی ہے
!"
پھر شا ید کی ہدا یت پر فو ری طو ر پر عمل ہو ا تھا اور
کلارا کے راستے کی رُکا و ٹیں خو د یخو د دور ہو تی چلی گئی تھیں ۔ تھو ڑی دیر بعد سا ئیکو مینشن پر قبر ستا ن کا سنا ٹا طا ری ہو گیا تھا ۔
او پھر آخر میں پا
نچ مسلح آدمیو
ں کی موت کی خبر ملی جن کی ٹا نگیں چیر چیر کر دولخت کر دیا گیا
تھا ۔
عمران نے اپنے کمرے سے نکل کر جو لیا کی تلاش شو ع کر دی لیکن
اُس کا کہیں پتا نہ تھا ۔ آخر کسی نے بتا یا کہ وہ اُس لڑکی کلارا کے کا ندھے پر
بے ہو ش پڑی تھی ۔
"خدا کی پناہ !"عمران بڑ بڑا یا ۔"تو وہ اُسے بھی
لے گئی !"
سب سے زیا دہ فکراُسے اس بات کی تھی کہ اب سا ئیکو مینشن کا
راز بھی آشکا ر ہو جا ئے گا ۔
3
آئی ایس آئی کا ڈا کٹر بے چینی سے سر و سز کلب کے لا ن پر ٹہل رہا تھا ۔ شا ہد کسی کا
منظر تھا ۔
تھو ڑی دیر بعدایک گا ڑی
کمپا ؤنڈ میں داخل ہو ئی اور پا ر کنگ لا ٹ پر جا رُکی ۔ اس پر ست ایک خمید ہ کمر والا بو ڑھا اُتر اور چھڑ
ٹیکیا ں ہوا کر نل فیضی کی طر ف بڑ ھنے
لگا ۔
"السلام علیکم کر نل صا حب
!"اس نے قر یب پہنچ کر کہا ۔
"وعلیکم السلام !میں نے آپ کو پہچا نا نہیں ؟"
"حا لا نکہ آپ میرے ہی منتظر تھے
!"
"ارے نہیں … خدا کی پنا ہ … مسٹر عمران … ؟"
"مجبو راً بہر و پیا پن کا مظا ہرہ کر نا ہے ، ورنہ شا ید میں
آپ تک پہنچ ہی نہ سکتا ۔ ایسا لگتا ہے جیسے آدھا شہراُن ہی لوگوں کا ایجنٹ بن گیا ہو !"
"چلئے چلئے … اندر بیٹھ کر
گفتگو ہو گی !"
وہ اُسے اپنے مخصو ص کیبن میں لایا اور عمران اُسے شروع سے اب تک کی کہا نی سنا نے لگا ۔
کرنل فیضی باربار پیشانی سے پسینہ پو چھ رہا تھا ۔ آخر
بھر ائی ہو ئی آواز میں بو لا ۔"کیوں نہ اس عورت فو ریل کو گر فتا ر کر لیا جا ئے ؟"
"وہ بہت با خبر لو گ ہیں کر نل
صا حب ۔ اس سے قبل ہی وہ بھی ماردی جا ئے گی!"
"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں !"
"دیکھئے کر نل صا حب ہم سب
ایک ہی کا ز کے لیے کا م کر تے ہیں ۔ہما
رے درمیان صرف طر یِق کا ر کا اختلا ف ہے !"
"میں سمجھتا ہوں مسٹر عمران …لیکن آخر یہ لوگ
چاہتے کیا ہیں؟"
"یہی کہ جتنی جلد ممکن ہو آپ سنگ زاد کو اپنی تحویل میں
لے لیں ۔ یہ سارا اُدھم اسی سلسلے میں ہوا ہے!" تحویل میں لے لینے کے بعد کیا
کریں گے؟"
"آپ کو صرف
اس پر نظر رکھنی پڑے گی کہ وہ اُسے کیوں آپ کی تحویل میں دینا چاہتے ہیں !"
کرنل
فیضی کسی سوچ میں پڑ گیا اور عمران نے کہا۔ " سائیکو مینشن کی حفاظت بھی اب
آپ کی ذمہ داری ہے۔ ابھی تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کسی سرکاری کا ہر خاص کے
محلے سے تعلق رکھتا ہے۔ عام آدمی ہی سمجھتا چلا آیا ہے کہ وہاں نفسیاتی مریضوں کا
علاج ہوتا ہے !"
"
اچھی بات ہے مسٹر عمران ۔ میں بیسں سپاہیوں کا دستہ وہاں کے لیے مقرر کر دوں گا لیکن
آپ لوگوں کا سر براہ کون ہے؟"
"
اُسے آج تک کسی نے دیکھا نہیں، ایکس ٹو کہلاتا ہے ۔ بذریعہ فون ہمیں ہدایات دیتا
ہے!“
"
تو آپ اس کی ہدایت پر ہم سے اس مد یک گھل گئے ہیں ؟"
"ظاہر ہے۔
سب کچھ اس کے حکم پر ہوتا ہے!"
"
اچھا مسٹر عمران ، اب ہم سنگ زاد یعنی کرنل شہزاد کو اپنی تحویل میں لے لیں گے !"
4
جولیا کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کرسی پر بیٹھا ہوا پایا
لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ اُس پر سے اُٹھ نہ لگی۔ کیونکہ اس کے ہاتھ پیر
بُری طرح جکڑے ہوئے تھے ۔ کرسی کی بناوٹ صاف بتا رہی تھی که دوه کلیشن چیئر ہے۔
جولیا کانپ کر رہ گئی ، ساتھ ہی اُس کے چہرے پر اتنی تیز روشنی پڑی کہ آنکھیں بند
کر لینے کے باوجود بھی روشنی کی شعاعیں اس کی آنکھوں کو چھیدے ڈال رہی ہوں۔
دفعتّہ وہ چیخنے لگی۔
پھر کمرے میں اندھیرا چھا گیا اور آنکھوں کی تکلیف بتدریج معدوم ہوتی چلی گئی۔
ہاتھ پیروں کی جان نکل کر رہ گئی تھی۔ ذہن بالکل آزاد ہو گیا تھا۔
دفعتّہ
اندھیرے ہی میں کسی نے سوال کیا ۔ ” تمہارا نام کیا ہے؟"
"جولیا نا
فٹز واٹر !"
"کس کے لیے
کام کرتی ہو؟"
"محکمہ
خارجہ کی سیکرٹ سروس کے لیے!"
"
سائیکو مینشن کی اصلیت بتاؤ ؟"
"وہ پردہ ہے ہمارے محکمے گا۔ بظاہر ذہنی امراض کا علاج
وہاں ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا
سائیکو مینشن رکھا گیا ہے!"
"علی عمران کا تم لوگوں سے کیا تعلق ہے؟"
" وہ بھی اُسی ادارے کا ایک ممبر ہے! "
"بلیک میلر نہیں ہے ؟"
"ہر گز نہیں لیکن کبھی ضرور تا پوز یہی کرتا ہے !"
" تمہارا چیف کون ہے؟"
"ایکس ٹو !"
"یہ کوڈ نیم ہے۔ اصل نام بتاؤ ؟"
" ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا۔ نہ آج تک کسی نے اُسے دیکھا
ہے۔ فون پر اُس سے ہمیں ہدایات ملتی ہیں !"
"اچھا اب تم سو جاؤ !"
جولیا کی آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں اور وہ ذرا ہی دیر میں
بے خبر ہوگئی ۔ دوسری بار آنکھ کھلی تو خود کو کسی پارک کی نظام پر پڑا پایا۔ صبح
ہونے والی تھی۔ وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی اور پارک سے باہر نکلنے پر اندازہ ہوا کہ
وہ سائیکو مینشن سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ اس نے ایک ٹیکسی رکوائی اور ڈرائیور
کو سائیکو مینشن کے بجائے اپنے بنگلے کا پتا بتایا۔ ذہنی حالت ٹھیک تھی اور اُسے
سب کچھ یاد تھا۔ وہ سائیکو مینشن کا راز افشا کر چکی تھی ۔ عمران کے بارے میں اُس
نا معلوم آدمی کو سب کچھ بتا چکی تھی۔
گھر پہنچ کر پتانہیں
کس طرح اُس نے ڈرائیور کو ادائیگی کی تھی اور صدر دروازے کا قفل کھولا تھا۔ اب اُس
کے ذہن میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ کسی نہ کسی طرح سب سے پہلے عمران سے
رابطہ قائم کرے۔ اُس نے جیسے ہی سیٹنگ روم میں قدم رکھا اُچھل پڑی۔ عمران ایک سونے
پر گٹھری سا بنا پڑا سورہا تھا۔
جولیا نے طویل سانس
لی اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ کر اُسے بغور دیکھنے گی۔ اس وقت وہ میک اَپ میں نہیں
تھا… آخر یہاں اس کی موجودگی کا کیا مطلب ہو سکتا
ہے۔ وہ سوچتی رہی ۔ اس سے تو یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ اُسے اس کی واپسی کا یقین تھا
اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ سیدھی گھر ہی آئے گی۔
اُس نے بڑے پیار سے عمران کو آواز دی اور وہ پہلی ہی آواز
پر ہڑ بڑا کر اٹھتا ہوا بڑ بڑا یا ۔ " ارے باپ رے کس نے پہچان لیا !"
" ہوش میں آؤ!" جولیا نے کہا۔ " میں جو لیا
ہوں؟"
"اندھیرے میں کچھ
بھائی نہیں دیتا ۔ بتی جلاؤ ؟"
جولیا نے اُٹھ کر بلب روشن کر دیئے اور عمران آنکھیں مل مل
کر اسے دیکھتا ہوا بولا۔ "جولیانا… یعنی کہ بالکل فٹز واٹر ہو!"
"ہاں عمران !" اس نے پھر بڑے پیار سے کہا۔
"خدا تمہاری
عمر دراز کرے میں تو مایوس ہو گیا تھا۔ مجھے اطلاع ملی تھی کہ وہ سنگ زادی تمہیں اُٹھالے
گئی تھی! “
"مجھے کچھ بھی یاد نہیں عمران۔ بس میں نے یہ کیا تھا کہ خطرے
کا الارم بجا دیا تھا۔ اُس کے بعد کچھ بھی یاد نہیں اور میں مجبور تھی اس غلطی پر
جو مجھ سے سرزد ہوئی !"
" میں کجھ رہا ہوں۔ شاید کنفیشن چیئر !"
" خدا کی پناہ!"
"کسی بات کی پروا نہ کرو جب تک میں زندہ ہوں ۔ ایکس ٹونے اگر
کوئی تعزیری کاروائی تمہارےخلاف کی تو اُس سے بھی نپٹ لوں گا ! "
"شکریہ۔ عمران مجھے تم سے یہی اُمید تھی !"
" جو کچھ انہوں نے پوچھا تھا تمہیں یاد ہے؟“
" لفظ بہ لفظ! "
" اچھا تو جاؤ۔ پہلے غسل وغیرہ کرو ۔ کافی پیو اور
پلاؤ۔ بقیہ باتیں کچن میں ہوں گی !"
تھوڑی دیر بعد
دونوں کچن میں نظر آئے۔ کافی پاٹ سے بھاپ اُٹھ رہی تھی اور جولیا فرائنگ پین میں
انڈے توڑ رہی تھی اور اس بات پر سخت متحیر تھی کہ آخر عمران اتنا خاموش کیوں ہے ۔
اس سے سوالات کیوں نہیں کر رہا ہے؟ کیوں نہیں پوچھتا کہ اُن لوگوں نے اُس سے کسی
قسم کی معلومات حاصل کی ہیں۔ آخر وہ خود ہی بولی ۔ ” تم خلاف معمول بہت خاموش ہو؟“
"میں اُن پانچوں کے لیے مغموم ہوں جنہیں کلارا نے نہیں مارا
بلکہ وہ ایک طرح سے خود کشی تھی ؟ "
" میں نہیں سمجھی ؟"
"کلارا کے جسم سے ٹکرا کر پٹی ہوئی گولیاں خود اُن کے جسموں میں
پیوست ہوگئی تھیں ؟"
خدا کی پناہ!"
جولیا منھ کھول کر رہ گئی ۔
"کلارا نے کسی پر بھی ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا۔ وہ تو
صرف نکل جانے کے لیے دروازے توڑ رہی تھی !"
"کہیں پھر زیر ولینڈ کا چکر تو نہیں شروع ہو گیا
؟"
"میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس بار دوسرا ہی کھیل ہے۔ ایک
بڑی طاقت ہمیں مرعوب کرنے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ ہم نے جو نیا راستہ اختیار کیا
ہے اُسے ترک کر دیں! "
" یعنی اسلامی مملکت کی تشکیل ؟"
ہاں… یہی بات ہے!"
" لیکن یہ
طریق کار؟"
" آہستہ آہستہ سب سمجھ میں آجائے گا ! "عمران طویل سانس
لے کر بولا ۔ " اب ذرا جلدی کرو۔ میں نے رات سے کچھ نہیں کھایا !“
جولیا سینڈوِچ بنارہی تھی
پھر سینڈوچ کی پلیٹ
اور کافی پاٹ عمران کے سامنے رکھ دیا اور منظر بانہ انداز میں بولی۔ "میں
چاہتی ہوں کہ تم جلد از جلد میری کہانی بھی سن لو! "
" سناؤ!" عمران نے سینڈوچ کے تعاقب میں کافی کا
گھونٹ روانہ کر کے کہا۔
جولیا اُسے بتانے
لگی کہ کس طرح ہوش آنے پر اُس نے خود کو کنفیشن چیئر میں جکڑا ہوا پایا۔
" پہلے وہ کمرہ روشن تھا ! " جو لیا کہتی رہی۔
پھر وہاں اندھیرا کر دیا گیا اور ایک آواز سوالات کرتی رہی۔ میں نے بتایا کہ میں
وزارت خارجہ کے محکمہ کا ر خاص سے متعلق ہوں۔ تمہارے بارے میں بھی یہی بتایا اور
اس کے پوچھنے پر اُسے یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی کہ تم بلیک میلر نہیں ہو لیکن
کبھی کبھی ضرور تا پور ضرور کرتے ہو۔ پھر سائیکو مینشن کے بارے میں پوچھا گیا،
بتانا پڑا۔ پھر بات چیف تک پہنچی اور کہا گیا کہ ایکس ٹو تو کوڈ نیم ہے، اصل نام
بتاؤ۔ جانتی ہوتی تو اُسے بھی اُگلنا پڑتا !"
"بس اتنی ہی باتیں ہوئی تھیں… میرا مطلب ہے سنگ زاد کے بارے میں کوئی گفتگو
نہیں ہوئی ؟“
"قطعی نہیں "
"ہوں !" عمران سر ہلا کر رہ گیا اور جولیا نے کہا۔
" اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے قبل میں نے خود کو عظیم پارک کی ایک بینچ پر
بے دار ہوتے پایا تھا!“
"بڑا مزہ آیا ہو گا!" عمران بائیں آنکھ دبا کر مسکرایا۔
" بس شروع ہو گئی بے ہودگی !" وہ آنکھیں نکال کر
بولی۔
5
ہیلی کا پٹر ملکی فوج کا تربیتی پہیلی کا پٹر معلوم ہوتا
تھا۔ اس پر اسی قسم کے نشانات تھے لیکن حقیقت کیا تھی خداہی جانے کیونکہ اس پہیلی
کا پڑ کو جو شخص اُڑا رہا تھا اس کے پہلو میں کلارا ڈکسن بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ پائلٹ
دیسی ہی تھا لیکن اُس کے جسم پر فوجی وردی نہیں تھی۔ پہیلی کا پر شمال و مغرب میں
پرواز کر رہا تھا۔ جلد ہی پہاڑوں کے سلسلے شروع ہو گئے لیکن پاکٹ اپنی مشاقی کا
مظاہرہ کر رہا تھا۔ کبھی کبھی کلارا اسے ٹوکتی بھی تھی لیکن وہ ہنس کر کہتا۔"
فکر نہ کیجئے مِسں۔ میں پانچ سال تک سرکس میں اپنی فنی مہارت کا مظاہرہ کرتا رہا
ہوں !"
" پھر بھی محتاط رہو!"
" بہت بہتر میں !"
ہیلی کاپٹر پرواز کرتا رہا۔ واقعی وہ بے حد مشاق تھا ورنہ
اس علاقے میں ہیلی کاپٹر اڑانا کارے دارد۔ بالآخر ایک جگہ ہیلی کا پڑ نے لینڈ کیا۔
یہ جگہ خاصی مسلح تھی یعنی غالباً مستقل طور پر ہیلی پیڈ ہی کی حیثیت سے استعمال کی
جاتی تھی۔
دفعتّہ کسی طرف سے چھ آدمی نمودار ہوئے جن کی دھج ہسپتالوں
میں کام کرنے والوں کی سی تھی۔ انہوں نے ایک اسٹریچر بھی اٹھارکھا تھا۔ وہ ہیلی
کاپٹر کے قریب پہنچے اور کلارا ڈکسن کو بڑی احتیاط سے اُتار کر اسٹریچر پر لٹا دیا۔
حالانکہ وہ اتنی ہی صحت مند نظر آ رہی تھی کہ جہاں بھی جانا چاہتی پیدل بھی جا سکتی۔
اسٹریچر اُٹھا کر
وہ ایک طرف چل پڑے اور ہیلی کاپٹر ہیلی پیڈ ہی پر کھڑا رہا۔
ایک درّے سے گزرنے کے بعد وہ ایک غار میں اُترتے چلے گئے
اور یہ غار کیا تھا ایک عجیب ہی دنیا تھی۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہالی
ووڈ کی کسی سائنسی فلم کے سیٹ پر پہنچ گئے ہوں ۔ کلا را کو ایک آرام دہ کمرے میں
پہنچادیا گیا۔ وہ اطمینان سے لیٹی چھت کی طرف تکتی رہی۔
تھوڑی دیر بعد ایک
ڈاکٹر دو نرسوں سمیت وہاں پہنچا اور اس کا معائنہ کرنے کے بعد بولا ۔ ” چھوٹا
کرسٹل کام نہیں کر رہا اور کوئی خاص بات نہیں ہے!“
"جو کچھ بھی ہو، اسے جلد از جلد ٹھیک ہونا چاہئے ! "کلارا
نے کسی قدر تحکمانہ لہجے میں کہا۔
" ایساہی ہوگا مادام ۔ آپ بے فکر ر ہیں۔ صرف تین دن لگیں
گے ۔ در اصل دوسرا کرسٹل لگا نا پڑے گا !"
"چھوٹا کرسٹل ضائع ہو جانے ہی کی بنا پر میں حملہ آوری
کی صلاحیت کھو بیٹھی تھی ۔ دیکھو ڈاکٹر ، اگر دوسری بار ایسا ہوا تو نتیجے کے ذمہ
دار تم خود ہو گے!"
"ناممکن مادام۔ اب ایسا نہیں ہوگا ۔ وہ کرسٹل جن لوگوں کی
نگرانی میں تیار کرائے گئے تھے انہیں سزاضرور ملے گی اور اب سارے کرسٹل تبدیل بھی
کیے جائیں گے۔ پرسوں صبح سے آپ کو صرف آرام کرنا ہوگا
حتی کہ آپریشن تھیٹر ...!"
"زیادہ لمبی تقریر کی ضرورت نہیں !" کلا راڈ کسن ہاتھ
اُٹھا کر بولی۔ " مجھے علم ہے!"
" اور ویسے آج اور کل آپ اپنے سارے مشاغل جاری رکھ سکتی
ہیں ! "
کلارا نے بیزاری سے اس طرح ہا تھ کو جنبش دی جیسے کہ رہی ہو
دفع ہو جاؤ!"
6
شہلا چودھری کا باپ شام کی چائے پی کر اُٹھ ہی رہا تھا کہ
فون کی گھنٹی بجی۔ شہلا بھی میز پر موجود تھی۔ شہباز نے اُسے فون اٹینڈ کرنے کا
اشارہ کیا لیکن وہ سر ہلا کر بولی ۔ ” نہیں آپ ہی دیکھئے ، ورنہ اگر اُس بلیک میلر
کی آواز ہوئی تو مجھ سے گالیاں ہی سنے گا ! "
"اب بار بار بلیک میلر نہ کہا کرو۔ پتانہیں کب کس کے
سامنے زبان سے نکل جائے اور ہم دشواری میں پڑ جائیں۔ اس نے اپنا نام جیگوار بتایا
ہے!“
فون کی گھنٹی
بدستور بج رہی تھی۔
شہباز نے کال ریسیو
کی اور شہلا نے محسوس کیا اُس کے چہرے کی رنگت بدل گئی ہے۔ تو سچ مچ جیگوارہی کی
کال تھی۔
شہباز کہہ رہا تھا۔" یقین کرو، میں نہیں جانتا وہ کون
ہے۔ اُس کے بہتیرے ملنے والوں سے واقف نہیں ہوں۔ تم اُسی سے پوچھ لو۔ ہاں وہ موجود
ہے!"
شہباز نے ماؤتھ میں
کو ہتھیلی سے ڈھانک کر آہستہ سے کہا۔ ” وہی ہے، پوچھ رہا ہے کہ راشد پٹھان کون
ہے؟“
وہ تیزی سے آگے بڑھی
اور ریسیور باپ کے ہاتھ سے لے کر بولی ۔ ” ہاں میں شہلا بول رہی ہوں۔ کیا بات ہے؟“
"راشد پٹھان کون ہے؟“
"میرا دوست ہے؟"
"صرف دوست؟"
"اس سوال کا مطلب؟" شہلا کر طرارہ آ گیا۔
"اس سوال کا مطلب یہ کہ وہ خود کو تمہارا منگیتر کہتا ہے!
"
"ہاں وہ کئی بار مجھ سے شادی کی درخواست کر چکا ہے لیکن
چونکہ ڈیڈی کے ٹسٹ کا نہیں ہے اس لیے میں ابھی سوچ رہی ہوں !"
" تمہارا فرسٹ کزن بھی ہے؟"
" ارے وہ تھوڑا سا مسخرہ بھی ہے لیکن اُس نے کس سے کہا
ہے کہ وہ میرا فرسٹ کزن ہے؟ "
"اُسی لڑکی سے جو تمہارا تعاقب کرتی رہتی تھی ؟ "
" تب تو بالکل ہی مسخرہ پن ہے لیکن آخر تم میرا تعاقب
کیوں کراتے ہو؟“
" ہم تمہارے ہی توسط سے علی عمران نامی آدمی پر ہاتھ
ڈال سکیں گے !"
" نا ممکن .. کیونکہ میری اُس سے ملاقاتیں نہیں ہوتیں
! "
"ناممکن کو تم ہی ممکن بناؤ گی بے بی !"
وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ رابطہ منقطع ہو گیا اور وہ ریسیور
کریڈل پر رکھ کر باپ سے بولی ۔ "اگر ا جیگوار ہے تو میں بھی پینتھر میں ہوں ۔
اگر اس کا نرخرہ نہ چبایا تو کچھ بھی نہ کیا !"
باپ نے کسی قدر
ناگواری سے کہا۔ ” پہلے تم یہ بتاؤ کہ یہ شادی وادی کا کیا چکر ہے؟“
" راشد مسخرہ ہے اور بس .. کوئی چکر وگر نہیں ہے۔ آپ
مطمئن رہیں ۔ حالانکہ آپ نے ضرور مجھے آزاد خیال بنایا ہے لیکن شادی میں اپنی مرضی
سے نہیں کروں گی !"
"لیکن بیٹی آخر ایسی بات ہوئی کیوں؟“
" کافی کا ایک کپ آپ بھی پیجئے اور میں بھی پیتی ہوں ،
سکون سے سب کچھ بتا دوں گی ۔ آپ سے چھپا کر کچھ نہیں کرنا چاہتی۔ بس نتیجہ معلوم
ہونے کا انتظار تھا سو ہو گیا ! اُس نے کہا اور کافی کی پیالی باپ کی طرف بڑھا کر
اپنے لیے انڈیلنے لگی۔ شہباز چودھری کی آنکھوں میں اُلجھن کے آثار تھے ۔ شہلا ایک
گھونٹ لے کر بولی۔ " راشد پٹھان یونیورسٹی میں میرے ساتھ تھا۔ رائفل کلب کا
ممبر بھی تھا۔ بڑا اچھا نشانہ باز بس میرا حریف سمجھ لیجئے۔ وہ اس قصے میں ہرگز
شامل نہ ہوتا اگر مجھے یہ نہ محسوس ہوتا کہ میں جب بھی گھرسے باہر قدم نکالتی ہوں،
میرا تعاقب شروع کر دیا جاتا ہے؟“
"کون تعاقب کرتا ہے؟“
"ایک سفید فام غیر ملکی لڑکی !"
اس کا باپ طویل
سانس لے کر رہ گیا اور شہلا بولی۔ راشد کو بچپن ہی سے سُراغ رسانی کا شوق را ہے۔ میں
نے اس کا ذکر اس سے کیا تو اُس نے کہا فکر نہ کرو میں دیکھ لوں گا اس معاملے کو ۔
اور اُس نے کی دیکھ لیا ورنہ یہ جیگو ار اس کا حوالہ ہرگز نہ دیتا۔ بہر حال راشد
نے لڑکی کو گھیر لیا اور اس سے پوچھ کچھ کی لیکن اس لڑکی نے جس قسم کی بے ہودہ باتیں
کیں اُسے میں لکھ کر تو دے سکتی ہوں آپ کو ، زبان سے نہیں کہہ سکتی۔ اس پر راشد کو
تاؤ آ گیا اور اُس نے کہا کہ وہ اُسے جیل بھجوا دے گا کیونکہ میں اُس کی منگیتر
ہوں!"
اوہ ... میں سمجھ گیا!"
شہباز بھرائی ہوئی آواز میں بولا ۔ " خدایا اب تو مجھے اُٹھا ہی لے۔ یہ ذلتیں
میں کیسے برداشت کروں !"
"اس کی فکر نہ کیجئے ۔ غلطیاں بھی انسان ہی سے ہوتی ہیں
فرشتوں سے نہیں !"
وہ کچھ نہ بولا ۔ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا کر میز پر جھک
گیا۔ شہلا اٹھی اور اُس کے عقب میں کھڑی ہو کر آہستہ آہستہ اُس کے شانے دبانے لگی
اور پھر بے حد نرم لہجے میں بولی۔ " آپ نے ہمیشہ مجھے بیٹا سمجھا ہے اور اب میں
اسے ثابت کر دوں گی کہ میں آپ کا بیٹا ہی ہوں!"
" مجھے تیری
زندگی اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہے!" شہباز بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
" مجھے کچھ بھی
نہیں ہو گا۔ میرے دوست بے حد ذہین اور دلیر ہیں ! "
"لیکن دیکھو... اس شخص .. عمران سے دور ہی دور رہنا !"
"وہی ہو گا جو آپ چاہیں گے ۔ آپ کی مرضی کے خلاف کچھ بھی نہ
کروں گی !"
" اب آخری بات کہوں گا۔ اسے غور سے سنو ۔ اس کے بعد
پھر تم میری زبان سے کچھ بھی نہیں سنو گی ! "
"ضرور ڈیڈی! "
"یہ ڈیوڈ بھی میرا ایسا ہی دوست تھا جس پر مجھے فخر تھا لیکن
اُس نے میری ایک غلطی سے ناجائز فائدہ اُٹھا یا حتی کہ دوسرے بلیک میلر کے ہاتھوں
مجھے فروخت کر دیا !"
" اوہ ڈیڈی میں سمجھ گئی آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن
را شد پٹھان کو میں نے اس معاملے کی ہوا بھی نہیں لگنے دی، ورنہ وہ اُس لڑکی کو
محض پوچھ کچھ کر کے نہ چھوڑ دیتا بلکہ پولیس کے حوالے کر دیتا ! "
"تم ٹھیک کہہ رہی ہو!"
فون کی گھنٹی پھر بھی۔ اس بار ریسیور شہلا ہی نے اُٹھایا
تھا۔ دوسری طرف سے جیگوار کی آواز آئی ۔ " یہ
بہت اچھا ہوا کہ تم مل گئیں۔ مجھے تمہارے اور راشد پٹھان کے
تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے اپنے طور پر تصدیق کرلی ہے کہ وہ اچھا آدمی
ہے۔ میں تمہارے باپ سے شادی کی سفارش بھی کر سکتا ہوں ! "
"جی نہیں شکریہ۔ میں نے اُسے کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا۔
اُس نے وہ ساری باتیں اُس بے ہودہ لڑکی کی باتوں پر کہی تھیں !"
"خیر… خیر… تمہارا اپنا
ذاتی معاملہ ہے! "دوسری طرف سے کہ کر رابطہ منقطع کر دیا گیا۔
شہباز منظر بہانہ
انداز کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ اس بار کی گفتگو بھی اُس نے حرف بہ حرف دہراتے
ہوئے کہا۔" پتہ نہیں یہ مردود چاہتا کیا ہے؟"
" بیٹی میرا مشورہ مانو تو اب صرف گھر ہی تک محدود ہو
جاؤ۔ کسی سے بھی نہ ملو خواہ راشدہ پہچان ہوا اور کوئی "!
"جی ہاں !" وہ پر تشکر لیجے میں بولی۔ " میں بھی اب
یہی سوچ رہی ہوں !"
7
کرنل فیضی نے اس بار عمران کو اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی
تھی۔ کوئی بے حد اہم معاملہ تھا۔ عمران اُسی میک اَپ میں وہاں بھی جا پہنچا جس میں
سروسیز کلب میں اُس سے ملاقات کی تھی۔ فون پراُسے پہلے سے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ
اس میک آپ میں ہوگا اور اپنا نام عمران کے بجائے خلیل جعفر بتا یا تھا۔ بہر حال
انکوائری ونڈو کے قریب ہی کرنل کا ایک آدمی موجود تھا جو اسے سیدھا کرنل کے آفس میں
لیتا چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد دونوں تنہا رہ گئے اور کرنل نے عمران کو غور
سے دیکھتے ہوئے کہا۔ " میں آپ کے تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں مسٹر عمران ! "
" ہم سب ایک ہی مشینری کے پُرزے ہیں اس لیے شکریہ ادا
کرنے کی ضرورت نہیں کرنل۔ آپ فرمائیے .. کوئی خدمت میرے لائق ؟"
" ابھی ہم نے سنگ زاد کو اپنی تحویل میں نہیں لیا لیکن
اب فیصلہ کر لیا ہے کہ اُسے جلد از جلد… !"وہ جملہ پورا نہیں کر پایا تھا کہ سرخ
انسٹرومنٹ کی گھنٹی بجی۔ اُس نے جلدی سے ریسیور اُٹھا کر ماؤتھ ہیں میں کہا۔ ” میں
سرا دوسری طرف کی بات سنتا رہا پھر بہت بہتر جناب !" کہہ کر ریسیور کریڈل پر
رکھ دیا اور سبز رنگ کے انسٹرومنٹ کا ریسیور اُٹھا کر بٹن دبایا اور ماؤتھ ہیں میں
بولا ۔ ڈی جی صاحب تمہارے منتظر ہیں، فوراً پہنچو !"
پھر ریسیور رکھ کر طویل سانس لی اور خالی خالی نظروں سے
عمران کی طرف دیکھنے لگا۔
" ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا مسٹر عمران کہ آپ میک اَپ
کےماہر ہیں۔ میں نے ڈی جی صاحب سے ذکر کیا تھا کہنے لگے کہ کچھ دنوں کے بعد وہ بہ نفس
نفیس آپ سے اس مسئلے پر گفتگو کریں گے !"
" یعنی مجھے میک آپ کا ماہر نہ ہونا چاہئے؟"
"اوہ یہ بات نہیں۔ دراصل سے وقت کے ہو گے تا کہ اپنے
ادہ یہ بات نہیں ۔ در اصل وہ آپ سے تھوڑے وقت کے خواہاں ہوں گے تا کہ اپنے چند آدمیوں
کو آپ کے سپرد کر سکیں! "
"میک آپ کی ٹریننگ کے لیے؟"
"جی ہاں یہی بات ہے !"
" مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر کسی کام آسکوں !"
"آمدم برسِر مطلب مسٹر عمران ... آپ نے مجھے کلا راڈکسن کی
آواز کا ٹیپ کھوایا تھا !"
"جی ہاں !"
"اس وقت اسی لیے آپ کو تکلیف دی گئی ہے۔ اب ہم آپریشن روم میں
چلیں گے لیکن اس سے پہلے
ایک کہانی اور سن لیجئے !"
عمران ہمہ تن گوش ہو بیٹھا۔ کرنل کے چہرے سے صاف ظاہر ہو
رہا تھا کہ جیسے گفتگو کے آغاز کے لیے
الفاظ نہ مل رہے ہوں۔
"ہاں تو مسٹر عمران کل شام ہمارا ایک تربیتی پہیلی کا پر واپس
آیا اور اُسے اُڑانے والا انجینئر جیسے ہی نیچے اترنے لگا، گرا اور مرگیا۔ دراصل
پہیلی کاپٹر میں پہلے کوئی خرابی واقع ہو گئی تھی جسے درست کرنے کے بعد وہ اُسے
آزمائشی پرواز پر لے گیا تھا لیکن واپسی پر بے چارے کا یہ حشر ہوا !"
" کیا وہ ہیلی کاپٹر پر تنہا تھا ؟“
"جی ہاں!“
"اور اس آزمائشی پرواز کی مدت کتنی تھی ؟"
"غیر معمولی یعنی قریباً پانچ گھنے !"
"حیرت انگیز !"
" ہیلی کاپٹر میں نصب شدہ کیمرے نے کچھ تصاویر لی ہیں
اور کچھ آواز میں بھی ریکارڈ کی ہیں۔ اسی لیے آپ کو زحمت دی گئی ہے!“
"اوہ تو پھر چلئے آپریشن روم کی طرف !"
”جی ہاں!“ کرتل ہوا بولا۔
دونوں آپریشن روم میں آئے۔ یہاں شاید پہلے ہی سے ساری تیاریاں
کر لی گئی تھیں ۔
سب سے پہلے عمران کو کلا راڈکسن کی آواز کا وہ ٹیپ اور اس
کا تجربہ سنوایا گیا جو خود اُس نے کرنل کو بھجوایا تھا۔
اس کے بعد جو ٹیپ چلایا گیا اس میں ایک مرد اور ایک عورت کی
آواز تھی۔ عورت کی آواز اُس نے فوراً پہچان لی یہ کلارا ڈکسن کی آواز کے علاوہ کی
نہیں ہو سکتی تھی۔ اُس کے بعد مرد کی آواز بھی بدل گئی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے
کلا راڈکسن اپنا طبی معائنہ کرا رہی ہو۔ پھر کرسٹل کا ذکر نکلا۔ کسی چھوٹے کرسٹل کی
بات تھی اور آپریشن تھیٹر کا حوالہ تھا لیکن کلارا نے ڈاکٹر کو ٹوک دیا تھا یعنی
جملہ پورا نہیں کرنے دیا تھا۔ میں کچھ سن لینے کے بعد عمران نے کرنل سے کہا۔
" آپ نے پہلی کا پھر میں لگے ہوئے کسی کیمرے کا بھی ذکر کیا تھا؟"
"ہاں، اُس کی فلم بھی ڈیولپ کر لی گئی ہے۔ جب تک ایک ایک کپ
کافی ہو جائے !"
"ایز یو پلیز
کر تل! "
وہ آپریشن روم سے نکل کر پھر کرنل کے آفس میں آئے اور عمران
پر تفکر لیجے میں بولا " تو گویا آپ کا وہ انجینئر پائلٹ ایک غیر قانونی حرکت
کا مرتکب ہور ہا تھا !"
" بالکل !"
"لیکن ایسے لوگ احمق نہیں ہوتے ۔ اُسے علم رہا ہوگا کہ کیمرہ
اور ٹیپ ریکارڈر ہیلی کاپٹر میں پوشیدہ ہیں!"
"ظاہر ہے مسٹر عمران !"
" تو پھر کسی ایسی غیر قانونی مہم پر روانہ ہونے سے قبل اُس
نے اُن کے سوئچ آف کیوں نہیں کر دیئے تھے ؟"
"یہی سوال ہماری اُلجھن کا باعث بنا ہوا ہے!“
"پہلے کلارا جس مرد سے گفتگو کرتی رہی تھی وہ آپ کا یہی پائلٹ
تھا؟“
"جی ہاں !"
" پھر دوسرے مرد سے گفتگو کی تھی !"
"ہمارے لیے وہ آوازئی ہے۔ کلارا کی آواز کو بھی شناخت نہ کر
سکتے اگر آپ پہلے ہی اُس کا ٹیپ نہ بھیجوا دیتے ۔ میرا محکمہ آپ کی بڑی قدر کرتا
ہے مسٹر عمران ... وہ پچھلی بار شیمران والی پینٹنگ کے سلسلے میں کچھ غلط نہیں
ہوگئی تھی جس کی بنا پر آپ کو بھی تکلیف پہنچی تھی اور ہمیں بھی خمیازہ بھگتنا پڑا
تھا !"
" ارے وہ کوئی بات نہیں ! "عمران ہنس کر بولا۔"
یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے!"
" لیکن تھریسیا اور سنگ کے بارے میں کچھ نہ معلوم ہو
سکا کہ زندہ بھی ہیں یا مر گئے ؟ "
"اگر میں نے کچی بات بتادی تو ایک بار پھر آپ کا محکمہ
مجھ سے برگشتہ ہو جائے گا۔ لیکن میرے کچھ اصول میں اُن ہی کے تحت کام کرتا ہوں۔ اس
کی بھی کبھی پروا نہیں کی کہ کب سر سلطان اپنے گلے سے بھی چلتا کرتے ہیں۔ پیٹ
پالنے کے بہتیرے گر آتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا سرکس بھی کھول کر بیٹھ گیا تو بقیہ زندگی
آرام ہی سے گزرے گی !"
" آپ واقعی عجیب ہے مسٹر عمران ! "کرنل فیضی نے طویل
سانس لے کر کہا۔
" بات صرف اتنی سی ہے کرنل کہ میں اپنی کوئی اسکیم کسی
بڑے یا چھوٹے سے ڈسکس نہیں کرتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مجھے اپنوں ہی میں کالی بھیڑوں
کی موجودگی کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ آپ کی فوج کا ایک انجینئر… !"
"خدا ہی جانے ابھی اور کتنے اور کہاں کہاں ہوں !"
اس دوران میں وہ کافی بھی پیتے رہے تھے۔ پھر سبز رنگ والے
فون کا بزر بولا ۔ کرنل نے کال ریسیو کی اور ریسیور دوبارہ کریڈل پر رکھ کر عمران
سے بولا ۔" چلئے پروجیکٹر تیار ہے!"
پروجیکشن روم میں یہ
مختصری فلم دیکھی گئی… اور روشنی
ہونے کے بعد عمران نے کہا۔ ” یہ کلا راڈکسن ہی تھی لیکن کیمرہ اسی حد تک چلا ہے کہ
پائلٹ اور اُس کی گفتگو ٹیپ ریکارڈر نے محفوظ کی ہے. لیکن ٹیپ کی یقہ گفتگو کہاں
ہوئی تھی اور اُس منظر کو کیمرے نے کیوں ریکارڈ نہیں کیا ؟“
"یہ سب سے بڑا سوال ہے مسٹر عمران ! "کرنل فیضی اُٹھتا
ہوا بولا ۔" چلئے دفتر ہی کی طرف چلتے ہیں!"
وہ پھر دفتر میں
آئے اور کرنل نے کہا۔ ” پاکٹ اتنا احمق نہیں ہوسکتا کہ اس مہم کو ریکارڈ ہونے دیتا۔
ظاہر ہے کہ اُس کی لاعلمی میں کیمرے اور ٹیپ ریکار ڈ کو چلا یا گیا ہوگا !"
"سامنے کی بات ہے!" عمران سر ہلا کر بولا ۔
" پھر وہ کرسٹل والی گفتگو؟"
" یہ سارا سٹ آپ ہے کرتل ۔ اب میں محسوس کر رہا ہوں کہ
میں بھی اس سلسلے میں بے وقوف بنا ہوں ۔ وہ خود ہی ہمارے ہاتھ لگنا چاہتی تھی تا
کہ یہ مواد آپ تک پہنچ سکے!“
"آخر کیوں؟“
" اس لیے کہ چھوٹے کرسٹلز کی نا کارگی کی بات ہم تک
پہنچے اور ہم یقین کر لیں کہ سنگ زاد جارحیت کا
مرتکب نہیں ہو سکتا البتہ خود اپنی حفاظت کر سکتا ہے۔ یہ
سارا ہنگامہ محض اس لیے ہو رہا ہے کہ آپ سنگ زاد کو جلد از جلد اپنی تحویل میں لے
لیں !"
" ہاں یہ تو کرنا ہی پڑے گا لیکن ایک شرط پر کہ اُسے
سائیکو مینشن میں رکھا جائے !" کر تل فیضی نے کہا۔
"اس کا فیصلہ سر سلطان ہی کر سکیں گے۔ ویسے سائیکو مینشن کو
اب میں غیر محفوظ سمجھتا ہوں !"
" دیکھئے مسٹر عمران۔ اس کی کمیٹی کل حیثیت تو قائم ہی
رہے گی بقیہ معاملات سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ۔ ہم سنگ زاد کا اچار تو ڈالیں گے
نہیں۔ ظاہر ہے کہ اُسے اپنی تحویل میں لے کر سب سے پہلے اُس کا طبی معائنہ ہی تو
کرائیں گے؟“
"واقعی کرنل ، یہ بات تو مجھ میں آنے والی ہے۔ میں سرسلطان سے
ڈسکس کروں گا !"
8
شہلا نے اب تک کی رپورٹ عمران کو دے دی تھی اور عمران کو اس
پر مز ید غو رکرنا پڑا تھا کہ اُسے اب کیا کرنا چا ہئے ۔ راشد پٹھا ن کی حیثیت
مجرموں کی نظر وں میں بہت زیادہ مشکو ک ہو گئی تھی لٰہذا اب یہ منا سب نہیں تھا کہ
وہ راشد پٹھا ن کے میک اَپ میں اُس سے
ملتا ۔ دونوں کے درمیان ہو ٹل والے فو ن
پر گفتگو ہو رہی تھی ۔
"میں سمجھ گیا کہ تم کیا کہنا چا ہتی ہو !"عمران
نے کہا ۔
"کیا سمجھ گئے
؟"
"یہی کہ تم سے راشد پٹھا ن کے میک اَپ میں نہ ملوں
!"
"ہا ں !"میں یہی چا ہتی ہو ں !"
"کو ئی ادھیڑ شکا ری کیسا رہے گا جسے تم نشا نہ با زی
میں اپنا اُستا د کہہ سکو ؟"
"ہا ں ،یہ ممکن ہے ۔ تھے میراے ایک اُستا د پر
فیسر شکو ر ۔ افریقہ چلے گئے تھے ۔بہت دنو
ں سے اُن کا کو ئی پتہ نہیں !"
"اُن کی کو ئی تصور ہو گی ؟"
"دس سا ل پہلے کی ہے !"
"کو ئی مضا ئقہ
نہیں ، اُسے تم میرے پتے پر بذ ر یعہ ڈا ک بھیج سکتی ہو !"
"آج ہی روانہ کر دوگی !"
"اور پھر میں کہیں نہ کہیں مل جا ؤں گا تمہیں !"
"تم مجھے اُن لو گو ں سے عجیب لگ رہے ہو مسٹر … !"
"میرے با پ بھی کبھی کبھی یہی کہتے ہیں لیکن مسٹر نہیں
کہتے اس لیے کہ چنگیز خا ن کا لہو اُن کی رگو ں میں دوڑرہا ہے !"
"اچھا میں تصو یر بھجو انے جا رہی ہو ں !"
عمران ریسیو کر یڈل پر رکھ مُڑا ۔جو زف پیچھے کھڑا جما ہیا
ں لے رہا تھا ۔
"آپ کی کی تعریف ؟" عمران نے نیچے سے اوپر تک گھو
رتا ہوا بولا ۔
"اُلّو کا پٹھا !"جوزف نے اُردو میں کہا ۔
"صر ف چا لیس فیصد ۔ ابی دُ م نہین نکلی… یا نکل آئی ہے
؟"
"تم نے میرے سو روپے یو میہ کیوں بند کر دیئے با س
؟"
"اس عمرمیں زیا دہ گھی دودھ کھا نا منا سب نہیں ہو تا
!"
"میں سمجھو ں گا سلیما ن کے بچّے سے !"
"اس سے کیا سمجھے گا ؟" عمران نے آنکھیں نکا لیں ۔
"اسی نے بہکا یا ہے تمہیں !"
"ہا ں یہ اطلاع ضروری تھی کہ تو چر س پینے لگا ہے
!"
"گھٹیا والی نہیں پیتا ۔ اس کا ایکسٹر یکٹ استعمال کر
تا ہو ں ۔ سگر یٹ پر لکیر کھینچی اور بس
!"
"اور جوانی بر قر ار رکھنے کے لیے گھی دودھ !"
"میں مر جا ؤں گا با س اگر تم چر س چھڑوائی
۔ پو ری اسلا می دنیا میں پی جا تی ہے اور اِس اسلامی ملک میں بنا ئی جا تی
ہے اور پھر تمہا ری آسما نی کتا ب میں چر س کا کو ئی ذکر بھی نہیں ملتا !"
عمران نے خا مو شی سے پر س نکا لا اور ایک لا ل نو ٹ کھینچ
کر اُس کی طر ف بڑھا تا ہوا بو لا ۔ "معا فی
چا ہتا ہو ں مسٹر جوزف ۔ لیکن یہ بہت بُر ا ہے کہ تم بھی مسلما نو ں کی طر
ح بکو ا س زیا دہ کر نے لگے ہوا ور کا م
کا دور دور تک پتا نہیں !"
جوزف کے دانت نکل پڑے اور وہ فر ش پر ایک گھٹنا ٹیک کر اس
طر ح بیٹھ گیا جیسے کسی با دشا ہ سے کو ئی
انعا م لے رہا ہو ۔
"بس اب دفع ہو جا ؤ … لیکن یا د رہے
کہ اگر کبھی زیا دہ نشے میں دکھا ئی دیئے
تو چمڑ ی اُدھیڑ دوں گا !"
"نہیں با س ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔ چر س تو کّتے کو
بھی آدمی بنا دیتی ہے !"
" کیا تیری آسمانی کتاب کی رائے ہے؟“
" نہیں باس ! یہ تو سلیمان کہتا ہے۔ اُس مردود نے مجھے چرس کا
مشورہ دیا تھا؟"
"سلیمان نے ؟“
"ہاں باس!"
"اچھا بس اب تم جاؤ !"
جوزف چلا گیا اور عمران نے گل رخ کو آواز دی۔ ساتھ ہی بغلی
ہولسٹر سے ریو اور بھی نکال لیا تھا۔ گل رخ دوڑی آئی تھی لیکن ہاتھ میں پستول دیکھ
کر ٹھیک گئی۔
"سلیمان کہاں ہے؟"
"میٹنی شود یکھنے گئے ہیں!"
"تو پھر کیا میں تجھے گولی مار دوں؟"
"وہ یہی تو چاہتا ہے کہ کوئی مجھے گولی مار دے !"
" تب تو… تو زندہ
رہے گی لیکن آج شام سے تو بیوہ کہلائے گی !"
"سچ چھوٹے سرکار ؟" وہ بے حد خوش ہو کر بولی۔
" بھاگ جا!" عمران اُسے گھونسہ دکھا کر بولا اور
وہ چپ چاپ کھسک گئی۔
فون کی گھنٹی پھر
بجی۔ عمران نے ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف سے فیاض کے سر خیلی کی آواز آئی۔ آیا
قبلہ فرمائیے ! عمران چیک کر بولا۔
"بے بی نے فیاض کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ تم عربی ڈریس میں
تھے !"
"اوہ چھوڑئیے ۔ یہ بتائیے اب علاج کا کیا ہوگا؟"
"اب تو ناممکن ہے کہ فوریل کی طرف یہ دونوں رُخ بھی کر سکیں ۔
آخر ڈیوڈ کو کس نے مارڈالا ؟ "
"فیاض سے پوچھئے کیونکہ وہ عنقریب سپر نٹنڈنٹ سے اسسٹنٹ
ڈائرکٹر ہونے والے ہیں!"
" کیا واقعی؟"
"ابھی اس سے نہ بتائیے گا ورنہ میرے ڈیڈی کی بدنامی ہوگی
!"
"سوال ہی نہیں پیدا ہو تا مسٹر عمران !“
"میرے لائق کوئی خدمت؟ "عمران نے بڑے ادب سے پوچھا۔
"بس کچھ دیر کے لیے مجھے اپنے پاس بلالو!“
"آ جائیے ۔ میں اپنے فلیٹ ہی میں ہوں !" عمران نے کہا
اور اُسے فلیٹ کا پتا بتانے لگا۔
ریسیور رکھ کر اُس
نے گل رخ کو آواز دی۔ وہ آئی تو لیکن کسی قدر بھی ہوئی تھی۔ عمران نے اُسے دیکھ کرقہقہہ
لگا یا پھر وہ بھی روہانسی سی جنسی ہنسنے لگی تھی۔
"دیکھ میں اپنی خواب گاہ میں جا رہا ہوں۔ ابھی ایک بوڑھا شیلی
نامی آئے گا۔ اس سے کہہ دینا کہ میں غسل کر رہا ہوں، وہ انتظار کرے اور تم اُس کے
لیے کافی بنانا اور ٹھہر .. عمران نے کہا اور الماری کھول کر ایک شیشی سے ایک
کمپسول نکالا اور اُسے دیتا ہوا بولا ۔ جب پانی کھول جائے تو یہ اس میں ڈال دیجیئو
…پھر کافی… لیکن خبر دار اس کافی کا ایک گھونٹ بھی خود
نہ لیجیئو !"
" میں سمجھ گئی بے ہوش کریں گے پڑھے کو! "
"ہاں یہی بات ہے۔ بس جا!"
وہ چلی گئی اور عمران خواب گاہ میں پہنچ کر لباس تبدیل کرنے
لگا۔ ابھی پوری طرح فارم میں بھی نہیں آیا تھا کہ گھنٹی
بھی۔
"خدا کی پناہ اتنی جلدی ! "عمران بڑبڑایا۔ " کیا
ذریعہ تارا یا ہے؟"
دوسرے ہی لمحے میں کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی ۔
"کون
ہے؟"
"گُل رخ سرکار!"
" کیا ہے؟"
"ایک میلا کچیلا سابچہ ہے۔ آپ کا نام لے رہا ہے۔ کوئی خط دینا
چاہتا ہے آپ ہی کے ہاتھ میں !"
" اُسے نہیں لیتی آ!"
گُل رخ چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد ایک میلے کچیلے لڑکے کے
ساتھ واپس آئی جس کی عمر بارہ یا تیرہ سال
رہی ہوگی۔
"آپ ہیں عمران صاحب ؟ "لڑکے نے پوچھا۔ عمران نے گُل رخ
کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور وہ چلی گئی ۔ تب اُس نے لڑکے کے سوال کا جواب دیا۔
"ہاں میں ہی ہوں!"
"بی بی جی نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ اُن کا خط پا کر مجھے دس
روپے انعام دیں گے !
”ہاں ہاں، ممکن ہے ! " عمران جیب میں ہاتھ ڈالتا ہوا
بولا ۔ " لا ؤ خط کہاں ہے؟"
"پہلے انعام صاحب !"
"لے بابا!" عمران نے دس کا نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھتے
ہوئے کہا۔ لڑکے نے لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
لفافہ لے کر عمران اُسے صدر دروازے تک چھوڑنے آیا تھا۔ پھر
خواب گاہ میں واپس جا کر لفافہ کھولا۔ اندازہ غلط نہیں نکلا تھا۔ خط شہلا چودھری
ہی کا تھا۔ اُس نے ایک مختصری تحریر کے ساتھ پروفیسر شکور کی تصویر اور رائفل کلب
کے ویرائٹی پروگرام کا ایک دعوت نامہ بھیجا تھا جو اس شب کو منعقد ہونے والا تھا۔
پروفیسر صرف کلب میں کہلاتا تھا وہ بھی اس لیے کہ کسی قدر شعبدہ کا ر بھی تھا۔
عمران نے تصویر دیکھی جس کی پشت پر تحریر تھا اس سال پہلے
کی تصویر ۔ عمران کے لیے کوئی دشوار مسئلہ نہیں تھا اور پھر ایسی صورت میں جبکہ
چہرہ داڑھی والا بھی ہو۔
تھوڑی دیر بعد پھر
اطلاعی گھنٹی کی آواز سنائی دی اور عمران دم سادھ کر لیٹ گیا۔ شاید پانچ منٹ بعد گُل
رخ دروازہ کھول کر آئی اور آہستہ سے کہا۔ " بٹھا آئی ہوں۔ اب کافی بنانے
جارہی ہوں لیکن صاحب بڈھا حرام زادہ لگتا ہے !"
جادفع ہو جا۔ کہیں یہ کھُسر پھُسر سُن لی تو
کھیل بگڑ جائے گا!"
وہ چلی گئی اور
عمران اُٹھ کر کپڑے بدلنے لگا۔ فلیٹ سے نکل جانا آسان کام نہیں تھا۔ سڑک اور عقبی
گلی میں نگرانی کرنے والے موجود تھے اور وہ میک اَپ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اُس نے
تو اب پروفیسر شکور کی حیثیت اختیار کرلی تھی لیکن یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ
نگرانی کرنے والوں کی رسائی رانا پیلیس تک بھی ہو جاتی۔ اس نے محدود دائرہ کار
والے ٹرانس میٹر پر چوہان سے رابطہ قائم کیا جو اپنی ٹیم سمیت عمران کی نگرانی
کرنے والوں کی نگرانی کر رہا تھا اور یہ ٹیم خاور اور نعمانی پر مشتمل تھی ۔ بہر
حال اُس نے آگاہ کیا کہ دورا؟ پیلیس جانا چاہتا ہے، تعاقب کرنے والوں کو وہاں تک
پہنچنے سے باز رکھنا اس کی ذمہ داری ہوگی ۔ چوہان نے اطمینان دلایا کہ یہ کوئی
ایسا مشکل کام نہیں ہے ۔ اس نے کہا ہمارے پاس تیز رفتار جیپ ہے۔ ہم اُن کی گاڑی کو
نا کا رو بنا دینے کی کوشش کریں گے۔
"جس طرح بھی چاہو کرو! عمران نے کہا۔ ” بس وہ رانا پیلیس نہ
دیکھنے پائیں ؟ "
"بے فکر رہو یار ۔ کیوں خواہ مخواہ کان کھا رہے
ہو!" چوہان نے کہا۔
" گر غلطی ہوئی تو ناک بھی کاٹ لوں گا ۔ اور اینڈ آل
!" کہہ کر عمران نے سوئچ آف کر دیا۔
اِدھر گُل رخ پھر کمرے میں آئی اور کھی کھی کھی کرتی ہوئی
بولی۔ " ڈھیر ہو گئے صاحب۔ اگر آپ مجھے بھی کچھ تھوڑے سے کیپسول دے دیں تو
سلیمان کی متیا ہی ماردوں ! "
" کیوں بکواس کرتی ہے۔ اس کی میتا نے تیرا کیا بگاڑا
ہے؟“
”اے لو صاحب۔ ارے
اُسے جنا نہیں تھا میرے لیے!"
"چل بھاگ نہیں تو دوں گا ایک ہاتھ !“
" تو آپ کہاں جارہے ہیں؟“
"باہر… اسی لیے تو
بڑے میاں کو کپسول دلوایا تھا ؟“
"دیکھیں صاحب یہ مجھے اچھا آدمی
نہیں معلوم ہوتا۔ جاگنے کے بعد پتہ نہیں ...!"
" بس ایک اچھا آدمی جوزف اُس پر مسلط کر جاؤں گا !"
" تب ٹھیک ہے؟"
"جانتی ہے کون ہیں یہ صاحب؟“
" میں کیا جانوں؟“
"کیپٹن فیاض کے سٹر !"
"ارے غضب !"
"میں کہیں سے اُسے فون کروں گا
کہ اُسے اُٹھوالے ! "
"نہیں صاحب وہ آئے تو اُدھم مچ جائے گی۔ بس یہ جائیں
گے اور خود ہی چلتے پھرتے نظر آئیں ، یہی بہتر ہو گا !"
"اچھا چل یونہی سہی۔ اس وقت پانچ بجے ہیں۔ یہ سات بجے جاگے گا
!"
"جاگ کر آپ
کو پوچھا تو کیا کہوں گی ؟“
" کہہ دینا
نہا کر آئے تو آپ سورہے تھے ۔ جگایا نہیں باہر چلے گئے۔ دس گیارہ بجے رات تک واپسی
ہوگی !"
" بہت اچھا مگر جوزف سے بھی کہہ جائیے!"
عمران، جوزف کو خصوصی ہدایات دے کر فلیٹ سے نکلا چلا آیا۔
ٹوسیٹر باہر موجود تھی۔ اطمینان سے اُسے ڈرائیو کرتا رہا۔ سرخ رنگ کی کو رولا، ٹوسیٹر
کا تعاقب کر رہی تھی ۔ پھر ایک موڑ پر اچانک تعاقب کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پھر
عمران دور تک دیکھتا چلا گیا تھا لیکن سرخ کو رولا نظر نہیں آئی تھی ۔ بالآخر وہ
رانا پیلیس تک جا پہنچا۔
بلیک زیر و یا عرف عام میں طاہر نے اس کی پذیرائی کی۔ ایکس
ٹو کے دوسرے ماتحت اُسے صرف رانا پیلیس کے منتظم کی حیثیت سے جانتے تھے۔ اُس نے بلیک
زیرو سے کہا۔ ” جب میں فلیٹ سے چلا تھا تو سرخ رنگ کی ایک کو رولا تعاقب کر رہی تھی
لیکن پرنسٹن کے موڑ پر اچانک وہ غائب ہو گئی۔ اُس کے پیچھے جیپ پر نعمان ، خاور
اور چوہان تھے۔ معلوم کرو کہ آخر انہوں نے طرح اس تعاقب کا سلسلہ توڑا تھا ؟“
"بہت بہتر میں ابھی دیکھتا ہوں!" کہتا ہوا وہ
دوسرے کمرے میں چلا گیا اور عمران ، پروفیسر شکور کے میک آپ کا انتظام کرنے لگا۔
تھوڑی دیر میں بلیک زیرو نے اطلاع دی۔
" پرنسٹن کے چوراہے پر جیپ نے کو رولا کو ٹکر ماردی۔
نعمانی ڈرائیو کر رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس نے گاڑی کو اس قابل نہ چھوڑا ہوگا کہ وہ
تعاقب جاری رکھ سکے۔ لہٰذا نعمانی، پرنسٹن کے تھانے میں بند ہے۔ خاور اور چوہان اس
کی ضمانت کے لیے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ۔ کور ولا میں دو افراد تھے جن میں سے ایک
معمولی سا زخمی بھی ہوا ہے !"
" کیا یہ نعمانی، تنویر کی جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہے؟ عمران
نے پر تفکر لہجے میں کہا۔ بلیک زیرو کچھ نہ بولا۔ تھوڑی دیر بعد عمران اپنا میک آپ
مکمل کر رہا تھا۔ پھر پروفیسر شکور کی تصویر اور اُس میں سِر مُو فرق نہ رہ گیا۔
"میں پروفیسر شکور ہوں !" عمران نے بلیک زیرو سے
اپنا تعارف کرایا۔ "ایک شکاری اور بلا زمیندار ... دس سال قبل میں اپنی یہاں
کی ساری جائکہ اوفروخت کر کے افریقہ چلا گیا تھا ۔ سیلانی اور جہاں گرد آدمی ہوں ۔
اب نیروبی میں میرا بزنس ہے اور میں ایک سیاح کی حیثیت سے ملک میں داخل ہوا ہوں دو
لیکن جناب کبھی کبھی رانا صاحب کی شکل میں یہاں تشریف لایا اور اب رانا تہور علی
کا مہمان ہوں!“
" بہت بہتر جناب !" بلیک زیرو نے کہا۔
"اس وقت را ئقل کلب کے ایک ویرائٹی پروگرام میں حصہ لینے
جارہا ہوں ۔ دو ایک شعبدے بھی کاروں کو اور ای ان پر پروفیسر کر کہنے لگا تھا اور
اس کے رشتوں نے بھی بھی کی تعلیمی ادراری کی شکل نہ دیکھی ہوگی !"
"میں بجھ گیا جناب اگر کبھی کوئی آپ کے بارے میں پوچھ کچھ کرے
تو اس سے اٹھی حقائق کی روشنی میں گفتگو کی جائے !"
" ہاں میں یہی کہنا چاہتا تھا !“
"لیکن جنا ب کبھی کبھی
رانا صا حب کی شکل میں یہا ں تشریف
لا یا کیجئے ۔ ورنہ خوا ہ مخو اہ پڑوسی ہما ری طرف سے شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جا
ئیں گے!“
"تم ٹھیک کہتے ہو۔ اب میں خیال رکھوں گا۔ ہاں تو کلب
جانے کے لیے شکاری گاڑی نمبر چار نکلوادو!“
"بہت بہتر جناب !"بلیک زیرو نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
شکاری گاڑی نمبر چار میں چار خصوص اور غیر معمولی خوبیاں تھیں۔ پہلی خوبی تو یہ تھی
کہ ایک بٹن دباتے ہی گاڑی کی دونوں سائڈ میں اس طرح اوپر اٹھ جاتی تھیں جیسے وہ
کوئی گاڑی نہیں بلکہ سائبان ہو۔ دوسرا بٹن دبانے سے دونوں اطراف سے سب مشیر گنوں کی
چھوٹی چھوٹی تالیس برآمد ہوتی تھیں اور فائرنگ شروع ہو جاتی تھی۔ تیسرا بٹن دبانے
سے تعاقب کرنے والی گاڑی کے اگلے حصے کا کوئی ٹائر فلیٹ ہو سکتا تھا۔ چوتھا بٹن
دبانے سے ڈرائیونگ سیٹ کسی ہوا جہاز کے پائلٹ کی سیٹ کی طرح باہر جاپڑتی تھی۔ بہر
حال وہ کچھ شعبدے بھی ساتھ لے کر اُسی گاڑی ہو کلب کی طرف روانہ ہو گیا۔
9
رائفل کلب کا بڑا ساریکرئیشن ہال تماشائیوں سے بھرا ہوا
تھا۔ کچھ تو کلب کے ممبر تھے اور کچھ شہر کے معززین ، جنہیں اعزازی طور پر شرکت کی
دعوت دی گئی تھی۔ بعض حضرات ہال بچّوں سمیت تشریف لے آئے تھے اس لیے کانوں پڑی
آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ اناؤنسر کے فرائض خود شہلا چودھری کو سونپے گئےتھے وہ اسٹیچ پر آئی اور سناٹا چھا گیا۔ صرف ایک آدھ
بچے کی آواز ہال میں گونجتی رہی۔
"خواتین و حضرات اشہلا چودھری آپ کی خدمت میں حاضر ہے
۔ مجھے یہاں کی ممبر شپ کے سلسلے ہیں جو اعزاز نصیب ہوا تھا وہ آج تک کسی کے حصے میں
نہیں آیا۔ میں پہلی خاتون مہر تھی جسے صرف چودہ سال کی عمر میں مہر شپ مل گئی او
اور سولہ سال میں نشانے بازی کے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اور اس کا
سہرا میرے استاد پروفیسر شکور کے سر تھا۔ وہ ایک ماہر نشانہ باز ہیں۔ اندھیرے میں
محض آواز پر تانہ لگا سکتے تھے ۔ ہماری بدیہی تھی کہ دس سال پہلے انہوں نے اپنی
ساری جائکہ او فروحت کی اور دنیا کی سیاحت پر نکل کھڑے ہوئے لیکن دس سال بعد وہ
پھر واپس آئے ہیں !"
ہال تالیوں سے گونج
اُٹھا۔ خصوصیت سے پرانے مہر بہت زیادہ پر جوش نظر آنے لگے تھے ۔ شہلا پھر بولی ۔"خواتین
و حضرات کسی دن پروفیسر صاحب یہاں اپنی نشانہ بازی کے کمالات کا مظاہرہ کریں گے۔
آج تو آپ صرف چند شعبدے ملاحظہ فرمائیے جن کی بنا پر پروفیسر یہاں بہت مقبول تھے۔
پروگرام کی ابتدا پر فیسر کے کمالات سے ہوگی ... پروفیسر شکور! "
وہ سامنے سے ہٹ گئی
اور اسٹیج پر بائیں جانب اسپاٹ لائٹ کے ساتھ حرکت کرتا ہوا عمران اسٹیج کے اس میں
آکھڑا ہوا۔ سیاہ داڑھی جس کے دونوں اطراف میں جڑوں پر سفید بالوں کی دھاریاں خود
اسے کسی قسم کا خوفناک جانور ہی بنا کر پیش کر رہی تھیں ۔ گھنی مونچھوں کے دہانے
کا بہت مختصر سا حصہ نمایاں تھا۔ دا خالص پیشہ ورانہ انداز میں جھکا اور دو دو
لوہے کے گولے نکال کر اسٹیج پر ڈال دیئے۔ پھر بولا ۔ " خواتین ر حضرات !میں
اسے موت کی دوڑ کہتا ہوں۔ اگر میرے بعد کوئی اور صاحب اس کھیل کو پیش کرنا چاہیں
تو مجھے اُن سے مل کر خوشی ہوگی کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کھیل کے لیے میں ایشیا
میں واحد آدمی ہوں۔ میں ان گولوں پر کھڑا ہو کر دوڑ لگاؤں گا۔ نہ میرے پنجے فرش سے
لگیں گے اور نہ ایڑیاں ۔ آپ خصوصیت سے اس پر نظر رکھئے گا کیونکہ یہی اس کھیل کا کمال
ہے!"
وہ ان گولوں پر کھڑا ہو کر پورے اسٹیج پر چکرانے لگا۔ بالکل
ایسا لگتا تھا جیسے اسکیٹس پہن کر اسکیٹنگ کر رہا ہو ۔ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا
اور وہ گولوں پر سے اتر آیا لیکن بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ آخر ہانپتا ہی ہوابولا ۔ "خواتین
و حضرات ! اَپ مجھ میں اتنی سکت نہیں رہی کہ دیر تک کسی قسم کا مظاہرہ کر سکوں اور
پھر میں پرسوں ہی تو آیا ہوں۔ ابھی تک سفر ہی کی ممکن نہیں اُتری۔ اب میں آخری
شعبدہ دکھا کر آپ سے اجازت چاہوں گا ، اس نے اپنی ٹاپ ہیٹ اُتار کر ناظرین کو
دکھائی اور بولا۔ دیکھئے... یہ بالکل خالی ہے۔ اب آپ میں سے کوئی صاحب اسٹیج پر
آجا ئیں! "ایک تیز طرارڑ کی چھلانگ مار کر اسٹیج پر جا چڑھی اور پروفیسر نے جیب
سے ایک تصویر نکالی اور لڑکی کی طرف دیکھ کر بولا۔ یہ کس کی تصویر ہے؟"
" کبوتر کی!"
لڑکی نے کہا۔
" مجھے نہیں، ناظرین کو بتائیے!“
لڑکی نے ہال کی طرف
منہ کر کے کہا۔ " خواتین و حضرات !یہ ایک کبوتر کی تصویر ہے!"
پر وفیسر یعنی
عمران نے پھر ٹاپ ہیٹ سر سے اُتاری اور لڑکی سے پوچھا۔ " اس میں کیا ہے؟
"
"کچھ بھی نہیں۔ خالی ہے!"
"اچھا اب اس کبوتر کی تصویر ہیٹ میں رکھ کر خود ہی یہ ہیٹ میرے
سر پر رکھ دیجئے !"
لڑکی نے ایسا ہی کیا او پروفیسر زور سے بولا ۔ " خواتین
و حضرات !یہ شعبدہ نہیں ہے۔ افریقہ کار خشک سرکنڈوں کا جادو ہے جہاں سیاہ فاموں کے
اجداد کی روھیں بسیرا کرتی ہیں۔ اِسے سیکھنے کے لیے ہیں بہت بڑے بڑے خطرات سے گزرا
ہوں لیکن خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے !"
اس نے اس بار ٹاپ ہیٹ اُتاری ۔ اُس کے سر پر ایک کبوتر بیٹا
ہوا نظر آیا۔ پھر اس نے اڑ کر ہاں کا ایک چکر لگایا اور ایک کھڑکی سے باہر نکل گیا۔
اس بار اتنے زور سے تالیاں بجائی گئی تھیں کہ چھپ اُڑ جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا
تھا۔
" ایک اور ... ایک اور ... پروفیسر پلیز… !" مجمع
شور مچارہا تھا۔
لیکن وہ پھر اسٹیج
پر نہیں رُکا تھا۔ اسٹیج کے عقب میں کئی عورتیں جو شاید پروفیسر کی پرانی شناسا تھیں،اُس
کا انتظار کر رہی تھیں۔
"تم ہمیشہ سے متحیر کر دینے کے عادی ہو پروفیسر ! "ایک
نے آگے بڑھ کر قریب قریب اُس سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا اور عمران بوکھلا گیا۔ اُس
نے اس موضوع پر تو سوچا ہی نہیں تھا کہ پروفیسر کے بہتیرے ملنے والے ہوں گے۔ آخر
وہ ان کے سلسلے میں کیا کرے گا ؟
10
کلارا ڈکسن غاروں والی تجربہ گاہ میں ٹہل رہی تھی۔ اس کے
ساتھ ایک قوی الجثہ اور قد آور مردبھی تھا جس کی عمرتیس اور چالیس کے درمیان رہی
ہوگی۔ دفعتّہ کلا را چلتے چلتے رُک کر بولی ۔" رابرٹو… تم نے پروفیسر
شکور کے بارے میں کیا معلومات حاصل کیں ؟"
" ایک آوارہ گرد لیکن خطر ناک آدمی ہے!" را بر ٹو
نے یونہی رواروی میں کہا۔ " بے شک چندماہ قبل وہ نیروبی ہی میں تھا لیکن وہاں
سے اُسے فرار ہونا پڑا کیونکہ وہاں کی حکومت سے متعلق ایک سازش ترتیب دے رہا تھا
؟"
"سیاسی آدمی ہے؟"
"کسی حد تک کہہ سکتے ہیں!" را برٹو نے فرش پر نظر جمائے
ہوئے کہا۔ " افریقہ کے کئی ملکوں میں انقلاب لانے کی کوشش کر چکا ہے لیکن
قسمت کا سکندر ہے کہ ہر بار خود بچ نکلا اور اس کے ساتھی مارے گئے! "
"کیا واقعی وہ نیروبی کا کوئی بڑا بزنس مین ہے؟“
"اسمگلر کہا جا سکتا ہے اسے۔ بہر حال اُس کا ریکارڈ اچھا نہیں
ہے!"
" مخالف کیمپ کا جاسوس بھی ہو سکتا ہے !" کلارا بولی۔
"اس کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا ! "
"بڑی عجیب بات ہے!"
"میں نہیں سمجھا ؟"
"شہلا چودھری کے سارے ملنے والے خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ راشد
پٹھان کے بارے میں کیا اطلاع ہے؟"
"اُس کا کہیں سراغ نہیں مل رہا...!"
"یہ اُس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے ! "کلارا نے کہا اور
کسی سوچ میں ڈوب کر پھر شہلانا شروع دیا۔ رابرٹو اس کا ساتھ طوعاً و کرہا دے رہا
تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس پر مجبور ہو۔ اندازِ گفتگو سے اس کا کوئی ما تحت
معلوم ہوتا تھا۔
وہ پھررُ کی اور اس کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔ " سنگ
زاد سے متعلق رپورٹ؟"
"اُسے سائیکو مینشن میں رکھا گیا ہے اور وہاں کے ڈاکٹروں کے زیر
معائنہ ہے!“
"ہوں ... یہ بھی مناسب نہیں ہوا!“
"پھر کیا ہونا چاہئے تھا ؟"
"اُس کی یادداشت بحال کرنے کے لیے اُسے اُس کے پرانے آفس میں
بٹھایا جاتا !"
" ضروری تو نہیں کہ ہم اپنا سمح نظر ان پر مسلط سکیں ؟"
را بر تو بولا ۔" اگر یہ بات تھی تو ہمیں کوئی اور طریق کار اختیار کرنا
چاہئے تھا۔ ایسا کہ وہ اسے اس کے دفتر میں بٹھانے پر مجبور ہو جاتے ! "
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ دراصل سارا کھیل ڈیوڈ کی حماقتوں
کی بنا پر بگڑا ہے۔ اُس نے مقامی بد معاشوں سے کام لینا شروع کر دیا تھا!“
"اُس پر خاک ڈالو ۔ اب تو اس معاملے کو کسی اور طرح نپٹانے کی
سوچنا چاہئے !“
"یہی تو بڑی مصیبت ہے کہ یہاں ہم میں کوئی سوچنے والا
نہیں ہے! کلارا بولی۔!"
" ہماری تنظیم کا سمندر پار والا شعبہ قریب قریب نا
کارہ ہو چکا ہے۔ اُس کی ساری تدبیریں لو گو ں پر اظہر من الشمّس ہو جا تی ہیں !"
"اس میں شعبے کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا ہمارے پریس کا ہے جس
کی کوئی ٹھوس پالیسی ہی نہیں ہے۔ صحافیوں کی تحریر میں دیکھئے تو ایسا لگتا
ہے جیسے اُن سے بڑا ملک وقوم کا دشمن اور کوئی نہ ہم سے متعلق ساری دنیا کو کس نے آگاہ کیا ، ہمارے پریس نے ؟"
"اور یہ حکومت کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔ پریس کو کبھی اتنی
آزادی نہ دینی چاہئے ۔ ساری دینا میں صر ف دوبے و قو ف قو میں پا ئی جا تی ہیں
۔ایک انگر یز اور دوسرے ہم !"
"یہ کس بنا پر کہ رہے ہو؟ "
"دونوں ممالک کے پریس شتر بے مہار ہیں !"
" یہ تم بالکل
ٹھیک کہہ رہے ہو!"
"ہم پر کتنی کتا میں لکھی گئی ہیں اور یہ سب کتا بیں ہماری
قوم ہی کے افراد نے اپنے ہی ملک میں بیٹھ کر لکھی ہیں۔ اگر کسی ملک میں ہم کوئی کارنامہ
انجام دیتے ہیں تو ہمارے ادارے پر کتنی لعن طعن ہوتی ہے۔ اور بالکل ایسا لگتا ہے جیسے
یہ سب ہماری اپنی قوم کے افراد نہ ہوں بلکہ مخالف کیمپ سے تعلق رکھتے ہوں۔ کسی گلی
میں کوئی کھا بھونکا اور کسی کو کاٹنے روڑا اور دوسرے دن کے اخبارات میں اس قسم کی
سرخیاں نظر آئیں کہ یہ سی آئی اے کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ تھا؟“
کلارا ہنس پڑی اور رابرٹو کا شانہ تھپک کر بولی ۔ ” بہت تیز
ہو رہے ہو!"
وہ صرف مسکرا کر رہ
گیا۔ لیکن آنکھوں سے ظاہر ہوتا تھا جیسے اُسے کسی دربار سے خلعت معد خطاب عطا کر دیا
گیا ہو۔
کلارا کچھ دیر بعد
بولی۔ " میں تم سے پوری طرح متفق ہوں کہ ہماری قوم لا قانیت کا شکار ہوگئی
ہے۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہاں جو چیز کسی بڑے آدمی کو گراں گزر جائے اُس کے
لیے پولیس حرکت میں آجاتی ہے ورنہ سب چلتا ہے!"
" او ہو .. کیا یہ حقیقت ہے کہ چھوٹے کرسٹل ناکارہ ہیں
؟ " را برٹو نے سوال کیا۔
" ہر گز نہیں۔ لیکن میں معاملے کو ہی رنگ دینا چاہتی
تھی کہ ہم پھر کے ضرور ہو گئے ہیں لیکن جارحیت کی صلاحیت ہم میں نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ
ہے کہ بالآ خر آئی ایس آئی والوں نے اُسے اپنی تحویل میں لے لیا !"
" لیکن کیا سنگ زادا اپنے طور پر جارحیت کا مرتکب ہو
سکے گا؟"
"ہر گز نہیں
، چھو ٹا کر سٹل یہا ں سے فعا ل بنا یا جا
ئے گا ۔ ہم جب چا ہیں گے اُسے جا ر جیب پر بھی آما دہ کر سکیں گے !"
"ہما رے اداے کے سا ئنس داں بھی کمال ہی کر رہے ہیں !" را بر ٹو بو لا ۔
"احمقو ں کو سید ھی راہ پر لا نے کے لیے سا ئنس سے بھی
مدد لینی پڑتی ہے !"
"اور یہ علی عمران … یہ کیا چیز ہے
؟"
"نے حد خطر ناک آدمی ہے !"
"کیا واقعی بلیک میلر ہے ؟"
"کیا ہم وا قعی بلیک میلر ہیں ۔ کچھ لو گو ں کو قا بو
میں رکھنے کے لیے انہیں بلیک میل بھی کر نا پڑتا ہے ۔عمران بھی اسی قسم کا بلیک
میلر ہو سکتا ہے ۔ کیا تم نے پہلے کبھی اس کا نا م نہیں سنا ؟"
"سنا ہوا سا تو لگتا ہے !"
"ورلڈ فیم کا آدمی ہے ۔خصو صیت سے زیر و لینڈ کا
اسپیشلسٹ ہے ۔ سنا جا تا ہے کہ تھر یسیا اُسے
چا ہتی ہے !"
"بڑی عجیب
عجیب با تیں سننے میں آرہی ہیں ۔ کیا تم نے اُسے دیکھا ہے ؟"
"کئی با ر !"کلا را طو یل سا نس لے کر بو لی ۔
"صو رت سے با لکل احمق گؤلگتا ہے ۔ ہم تو یہ پو زکر رہے ہیں کہ سچ مچ ہم اُسے
بلیک میلر تصو ر کر تے ہیں ۔ دراصل اگر ہم
اُس کے سلسلے میں زیا دہ عقلمند بننے کی کو شش کر یں گے تو خو دہما را راز افشا ہو
جا ئے گا کہ ہم کو ن ہیں !"
"اگر کسی طرح
عمران ہا تھ آجا ئے تو بس یہ سمجھو کہ ہماری فتح ہے !" کلا را ڈاکسن نے پُر
تشویش لہجے میں کیا اور پھر ٹہلنے لگی ۔
انداز سے مضطر ب نہیں معلو م ہو تی تھی لیکن کبھی کبھی آنکھو ں سے اندر کی بے چینی متر شح ہو نے لگتی تھی۔
11
سنگ زاد سا ئیکو مینشن میں ڈاکٹر وں کے زیر معا ئنہ تھا اور سا ئیکو مینشن اس طر
ح فو ج کے گھیر ے میں تھی کہ وہا ں پر ند ہ پر نہیں مارسکتا تھا ۔ ڈاکٹر وں کی اس ٹو لی میں عمران بھی مو جو د تھا ۔ اس
کے جسم پر بھی ڈا کٹر و ں ہی سا سفید لبا
س تھا ۔
عمران کے علا وہ سا رے فیلڈ ور کر ز اپنی اپنی اقا مت گا ہو
ں میں منتقل ہو گئے تھے ۔ کلا را کے ہا تھو ں اس عمارت کا جو حشر ہوا تھا وہی اس سے پہلے
والے ہیڈ
کو ارٹر دانش منزل کا تھر بسیا کے ہا تھو ں
ہو چکا تھا ۔ بہر بو ع فی الحا ل یہ مسئلہ زیر غو رنہیں تھا کہ آئند ہ اس سلسلے میں کیا
ہو گا ۔
اب سب اہم مسئلہ خود سنگ
زاد تھا ۔اس وقت وہ بستر پر خا موش پڑا تھا ۔ آنکھیں چھت سے لگی ہو ئی تھیں اور عمران اُس کے قر یب ہی کر سی ڈا
لے بیٹھا اُسے پرُ تشو یش نظروں سے دیکھے جا رہا تھا ۔
دفعتّہ سنگ زاد کا رُخ عمران کی طر ف ہو گیا اور اُس نے کہا ۔ "ڈا
کٹر اس پو ری بھیٹری میں صر ف تم ہی مجھے ایک معقو ل آدمی نظر آئے ہو !"
"شکریہ کر نل !"
"اوہ کر نل !"وہ ہنس پڑا پھر بو لا ۔ "ہا ں
مجھے یہی با ور کرانے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ
میں کو ئی کر نل شہزا د ہو ں اور کبھی آئی
کا ایک ڈیٹی ڈا ئر کٹر تھا !"
"یہ حقیقت ہے کر نل !"
" لیکن
مجھے کیو ں یا دنہیں آتا ؟"
"حا فظہ کھو بیٹھنا کو ئی معمو لی مر ض ہے !لیکن لا
علاج بھی نہیں ہے اگر مر ض کی وجہ معلوم ہو جا ئے ۔"
"وہ تو مجھے
بھی نہیں معلوم !"
"ظا ہر ہے ورنہ آپ کبھی کے صحت مند ہو چکے ہو تے !"
"اگر میں کر نل شہز اد ہو ں تو مجھے
میرا د فتر ہو چکے ہو تے !"
"میں آپ کی یہ تحو یز یو رڈ کے سا منے پیش کروں گا !"
"ہا ں ، ضرور ضرور !" کہہ کر سنگ زاد نے اُٹھنے
کی کو شش کی لیکن عمران نے ہا تھ اُٹھا کر
کہا ۔"کر نل … پلیز… لیٹے رہئے ۔ آپ
کو آ رام کی سخت ضرورت ہے !"
"لیکن میں تو ذدا سی بھی کسل مند ی نہیں محسو س کر رہا
؟"
"آپ تو پتھر کے ہیں ۔ جب بچّے پتھر ما رتے ہیں تو لسی
قسم کا احسا س نہیں ہو تا !"
"بس صر ف اسی قد ر کہ کو ئی چیز جسم سے ٹکر ا ئی
ہے لیکن اسے چو ٹ لگتا تو نہیں کہہ سکتے
؟"
"قطعی نہیں !" عمران سر ہلا کر بو لا ۔"اس
معا ملے میں یہ لو گ خوا ہ مخو ا ہ آپ کے سر ہو رہے ہیں ۔تنہا میں کچھ کر ہی نہیں سکتا کیو نکہ یہ بو ر ڈ کا
معا ملہ ہے !"
"اچھا ڈا کٹر فر ض کر و ، میں سب کچھ تسلیم کر لو ں تو
پھر کیا ہو گا ؟"
"یہ بھی متعلقہ افراد ہی نتا سکیں گے کر نل ۔ ہم ڈا
کٹر و ں کو اس سے کیا سر و کا رہم تو صر ف آپ کی بحا لی اتنے میں دوسرا ڈا کٹر کمرے میں دا خل ہوا ۔
عمران نے گھڑی دیکھی اور طو یل سا نس لے کر
سنگ زاد سے بو لا ۔"اچھا کر نل شب بخیر ۔میری ڈا یو ٹی ختم ہو گئی !"
سنگ زاد نے بُرا سا منھ بنا یا لیکن کچھ بو لا نہیں ۔
ایک گھنٹے بعد عمران پھر را نا پیلیس میں تھا پر و
فیسر شکو ر کا میک اَپ کر رہا تھا ۔ اُس
نے گھڑی دیکھی ۔ آٹھ بجے تھے ، سا ڑھے آٹھ بجے اُسے ٹپ ٹا پ کلب پہنچنا تھا جہا ں
شہلا شو دھر ی نے را ت کے کھا نے کی دعو ت دی تھی عمران شا ہتا تھا بھی یہی تھا کہ زیا دہ سے زیا
دہ اُس کے سا تھ دیکھا جا ئے ۔میک اَپ کی تکمیل کے بعد اُس نے بلیک زیر و کو طلب
کیا ۔
"تم نے پر وفیسر شکو رکے با رے میں کیا معلو ما ت فرا
ہم کیں ؟" عمران نے اُس سے پو چھا ۔
"وہ تو نے حد خطر نا ک آدمی پا بت ہوا ہے جنا ب ۔
افریقہ کے کئی مما لک کی پو لیس اس کی تلا ش میں ہے یہیں کا نا شندہ تھا ۔ دس سا ل
پہلے اپنی یہا ں کی جا ئداد فرو خت کر کے دنیا کی سیا حت کے لیے نکلا تھا۔ افریقہ پہنچ کع سا زشو ں میں ملو ث ہو گیا ۔ کئی حکو
متو ں کے تختے اُلٹنے کی کو شش کر ڈا لی !"
"تم نے اچھی ضبر سنا ئی ہے !"عمران سر ہلا کر بو
لا ۔ "اب جلدی سے پرو فیسر شکو ر کے جعلی کا غذا ت بھی تیا ر کر ڈا لو یعنی پا سپورٹ وغیرہ ۔ کیا سمجھے !"
"بہت بہتر جنا ب !"
پھر عمران نے وہی مخصو ص گا ڑی نکلوائی تھی جس پر را ئفل
کلب گیا تھا ۔
ٹپ ٹا پ میں شہلا اُسے منتظر ملی ۔
"تم نے تو مجھے بڑی اُلجھن میں ڈال دیا ہے شو دھر انی
!" عمران نے سا منے وا لی کر سی پر بیٹھتے ہو ئے کہا ۔
"کیو ں ، کیا ہوا ؟"
"یہ تمہا رے پرو فیسر
شکو را صا حب ۔ تم ان کے با رے میں
اور کیا جا نتی ہو ؟"
"بس اپنا ہی جتنا آپ کو بتا چکی ہو ں !"
"تمہا ری معلو ما ت با سی ہیں ۔ تا زہ ترین معلو ما ت
نے میرے تو شھکّے چھڑا دیئے ہیں ۔کسی وقت بھی ہتھکڑیا ں پڑسکتی ہیں !"
"میں نہیں سمجھی ؟"وہ پر شا ن ہو کر بو لی ۔
"پرو فیسر ایک خطر نا ک آدمی بن چکا ہے ۔ افر یقہ کے
کئی ملکو ں کی پو لیس کو اُس کی تلا ز ہے !"
شہلا کی آنکھو ں میں نے یقینی اور سر ا سیمگی کے ملے جلے
آثا ر پا ئے جا تے تھے ۔
"اور اب !" عمران سر ہلا کر بو لا ۔ "میں اُس
دوست کے گھر وا پس نہیں جا ؤں گا جہا ں
میں بحثیت پرو فیسر مقیم ہو ں !"
"پھر کہا ں جا ئیں گے ؟"
"اب تم ہی میرے قیا م کا انتظام کر و گی !"
"بڑی خو سی سے
جہا ں آپ کہیں !"
"دینا ر ہو ٹل
بھی تو تمہارا ہی ہے ؟"
"جی ہا ں !"
"میں وہیں قیام کر نا چا ہتا ہو ں !"
"میں ابھی فو ن کر تی ہو ں منیجر کو !"
"ضرور کرو اور اُسے ہدا یت کر دو کہ جو بھی کنجی طلب
کر ے اُسے بغیر حیل و حجت دے دی جا ئے !"
"بہت بہتر ۔ میں ابھی آئی !"شہلا اُٹھتی ہو ئی بو
لی۔
پھر وہ منیجر کے کمرے کی طر ف چلی گئی تھی ۔
12
کلا
ر ا ڈ کسن اس بھیڑ میں امتیا زی حیثیت
رکھتی تھی ۔ سب اُس کا اسی طر ح احترا م کر تے تھے جیسے وہ ان کی سر بر ا ہ ہو ۔
یہی رو یہ را بر ٹو کے سا تھ بھی تھا ۔ خو دا ن دو نو ں کے در میا ں جس کے در میا ن جس قسم کی گفتگو ہو تی تھی اُس سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا جیسے بر ا بر کا در جہ
رکھتے ہو ں ۔ اس وقت بھی را بر ٹو اپنی تنظیم پر کڑی تنقید کر رہا تھا اور وہ خا مو ش بیٹھی سن رہی تھی ۔ آخر کچھ دیر
بعد بو لی ۔"آخر ان سب با تو ں سے
فا ئدہ ؟"
"تنقید ا صلا ح کا ایک صحت مند ذر یعہ ہے !" را
بر ٹو نے کہا ۔
کلا
را ہنس پڑی اور را بر ٹو اُسے کھو ر تا ہو ا بو لا ۔ "اس میں اس طر ح ہنسنے
کی کیا با ت ہے ؟"
"تم
مجبو ر کر تے ہو اس طر ح ہنسنے پر ، صر ف دوسرے پر تنقید نہیں بلکہ خو د تنقید ی
بھی اصلا ح کا بہتر ین ذریعہ ہے !"
"میں
نہیں سمجھا ؟"
"ڈ
یو ڈ جیسے احمق آدمی کا انتخا ب تم نے کیا تھا !"
را
بر ٹو نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھو لا پھر سختی سے ہو نٹ بھینچ لیے ۔ یہ تنقید
گھو نسے کی طر ح اس کی
کھو پڑی پر پڑی تھی۔
" کیوں خا مو ش کیوں
ہو گئے ؟"
"کچھ نہیں وہ مخص اندار ے جی غلطی تھی
!"
"اسی طرح کبھی کبھی تنظیم سے بھی اندازے کی غلطی ہو جاتی ہے
اور اس کی سب سے بڑی وجہ مخالف کمیپ کی سرگرمیوں سے کما حقہ ناو اقفیت ہوتی ہے!
"
" میں تم سے بھی کہلوانا چاہتا تھا!"رابرٹو مسکرا
کر بولا ۔ "یہ بھی ہمارے پر یس اور صحافیوں کی عنایت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے
مخالف کیمپ کی خفیہ تنظیموں پر بھی کتابیں لکھی اور چھاپی ہیں۔ لہٰذا وہ بھی اب اتنےمحتاط ہوگئے ہیں کہ ہمیں ان کی مصروفیات
کا علم نہیں ہو پاتا !"
" ہو سکتا ہے کہ تمہار اخیال درست ہو لیکن فی الحال پیش
نظر مسئلے پر ہی توجہ دو توبہتر ہوگا؟ "
" میر اخیال ہے کہ ڈاکٹر فوریل کو فیلڈ سے ہٹا دیا
جائے !" را بر ٹو نے کہا۔
" میں تم سے متفق نہیں ہوں ۔ اگر اُسے فیلڈ سے ہٹا لیا
گیا تو ڈیوڈ کے قتل کا الزام اس پر آ جائے گا اورکسی طرح بھی مناسب نہ ہوگا !"
" جیسی تمہاری مرضی!" وہ بے دلی سے بولا۔
"خیر ختم کرو اس قضیے کو ۔ پروفیسر شکور کے بارے میں کیا
ر پورٹ ہے؟"
"وہ دینار ہوٹل کے سوٹ نمبر ایک سوتیس میں مقیم ہے۔
پچھلی رات دونوں نےٹپ ٹاپ کلب میں کھانا کھایا تھا۔ یہلڑ کی میری سمجھ سے باہر ہے۔
باپ اس قدر بزدل ہے اور بیٹی اتنی دلیر!"
"دونوں پر کڑی نظر رکھو!"
" مجھے حیرت ہے کہ ابھی تک یہاں کی پولیس پروفیسر کی طرف
متوجہ نہیں ہوئی ؟" رابرٹو نے کہا۔
" نہ جانے کیوں مجھے پروفیسر کے معاملے میں کوئی بات غیر
فطری سی لگ رہی ہے!"
" کیا بات؟"
"یہی تو ابھی تک سمجھ میں نہیں آسکا۔ خیر سنگ زاد سے متعلق کیا
ر پورٹ ہے؟"
" اسے سائیکو مینشن سے چھاؤنی کے ایک بنگلے میں منتقل
کر دیا گیا ہے اور آج اُسے اُس کے آفس میں بھی لے جایا گیا تھا ؟"
"گڈ!" وہ چٹکی بجا کر بولی۔ " اب بات بنی ہے۔ کبھی
کی بن جاتی اگر تم نے یہ معاملہ ڈیوڈ کے سپردنہ کیا ہوتا !"
"خدا کے لیے اب اس کا نام لینا بند کر دو۔ میں خود کو بالکل
گھا مڑ محسوس کرنے لگتا ہوں !"
"چلو ختم کرو۔ کوئی اور بات کرو!" وہ مسکرا کربولی۔
" پروفیسر کی بات ہونی چاہئے ۔ آخر یہ لڑکی ...!"
"ایک منٹ !" کلارا ہاتھ اُٹھا کر بولی ۔ "
راشد پٹھان کیا کر رہا ہے؟"
"بھاگ گیا۔ علاقہ غیر سے اس کا تعلق تھا وہ یہاں نہیں
ہے۔ آخر یہ لڑکی اپنی ان حرکتوں سے کیاباور کرانا چاہتی ہے؟"
یہی کہ وہ ہم سے خائف نہیں ہے!"
"اس سے فائدہ ؟"
"فائدہ ہو یا نہ ہو، اُس کا باپ تو بے چوں و چر اوہی کر رہا
ہے جو ہم چاہتے ہیں!"
کچھ دیر خاموشی رہی پھر را برٹو بولا ۔ " کیوں نہ سنگ
زاد کا کھیل شروع کر دیا جائے ؟"
" ابھی نہیں۔ پہلے آہستہ آہستہ اُس کی یاد داشت واپس
لائی جائے گی۔ اس کا انحصار چھوٹے کرسٹل ہےکی کارکردگی پر ہے!"
"کیا واقعی چھوٹے کرسٹلز میں کوئی نقص رہ گیا تھا ؟"
" ایک آدھ میں لیکن میں نے تو پوز کیا تھا کہ میری
جارحانہ صلاحیت کمزور پڑ گئی ہے۔ میراچھوٹا ہے کرسٹل صحیح طور پر کام کر رہا
ہے!"
" مجھے بھی کر سٹائر ڈ کرادو!"
"صرف انہیں کیا جاسکتا ہے جن کے خون کی قسم کرسٹلز سے مطابقت
رکھتی ہو۔ ہر ایک پر یہ وبال نہیں آسکتا ہے!"
"و بال کیوں کہہ رہی ہو؟“
"اس طرح یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی تا وقتیکہ اپنی
آنکھوں سے نہ دیکھ لو کہ کر سٹلائزیشن کیسے ہوتا ہے۔ خیر ختم کر ۔ سب سے خطر ناک
آدمی عمران کے بارے میں تم نے ابھی تک کوئی رپورٹ نہیں دی ؟"
" اُس کا سراغ ہی نہیں مل رہا...!"
"اور یہی سب سے زیادہ مخدوش پہلو ہے!"
"اُسے شاید علم تھا کہ میرے آدمی اس کا تعاقب کرتے ہیں لٰہذا
اس کے آدمیوں نے گاڑی کا حاس ثہ کر کے انہیں
تعاقب سے باز رکھا۔ بس اُسی وقت سے عمران کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم ہو سگا !"
" میں اُس کے
سلسلے میں اب انتہائی قدم اُٹھانا چاہتی ہوں !"
" میں نہیں سمجھا ؟"
"اپنے آدمیوں سے کہہ دو کہ جب بھی نظر آئے اُسے گولی مار دیں!
"
"پتا نہیں کہاں نظر آئے ؟"
" سائیلنسر لگے ہوئے پستول سے ہر جگہ ممکن ہے؟"
را برٹو خاموش ہو
کر کچھ سوچنے لگا۔
13
عمران نے اس کا انتظام کر لیا تھا کہ پولیس پروفیسر شکور کے
بارے میں اِدھر اُدھر پوچھ گچھ کرتی پھرے۔ اِدھر اُدھر سے مراد صرف کلب کے مختلف
ممبروں سے تھی۔ سرسلطان نے اس کا انتظام بطریق احسن کرا دیا تھا۔ اس سلسلے میں
شہباز چودھری سے بھی پولیس نے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ شہلا کی باری آئی
تو اُس نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ سرراہ پروفیسر سے ملاقات ہوئی تھی اور اُس
نے رائفل کلب کا دعوت نامہ اس کے حوالے کر دیا تھا لیکن پروفیسر نے یہ نہیں بتایا
تھا کہ وہ کہاں مقیم ہے۔
بہر حال عمران اب بھی دینار ہوٹل کے سوٹ نمبر ایک سوتیں ہی
میں مقیم تھا اور اب اُس نے شہلا سے بھی ملنا جلنا ترک کر دیا تھا۔
عمران جتنا زیادہ ان حالات سے متعلق سوچتا اس نتیجے پر
پہنچتا کہ شاید قسمت نے خود بخود اس کا رُخ کامرانیوں کی طرف موڑ دیا تھا ورنہ کیا
ضروری تھا کہ شہلا کو پروفیسر شکوری کی سوجھتی۔
وہ ابھی ابھی ناشتے
سے فارغ ہوا تھا۔ زیادہ تر روم سروس ہی سے کام چلا رہا تھا۔ ڈائننگ روم میں بیٹھنے
سے احتراز کرتا تھا۔ داڑھی کا اسٹائل کسی قدر تبدیل کر دیا تھا۔ اس سے زیادہ اور
کر بھی کیا سکتا تھا۔ داڑھی مونچھیں بالکل صاف کر دیتا تو چہرے پر عمران کی جھلکیاں
بھی نظر آتیں۔ حالات کے تحت اتنی تبدیلی ناگزیر تھی۔ دراصل اب وہ پروفیسر کے پرانے
شناساؤں سے بچنا چاہتا تھا اس کے لیے داڑھی کا اسٹائل بدل دینا کافی تھا۔
وہ پھر روم سروس کے ویٹر کو طلب کرنے کے لیے فون کی طرف
بڑھا ہی تھا کہ گھنٹی بجی۔
عمران نے جلدی سے ریسیور
اُٹھالیا اور دوسری طرف سے کسی غیر ملکی اجنبی کی آواز سنائی دی۔"پروفیسر
شکور! "
"ہاں… کون ہے؟ "عمران نے پُر وقار لہجے میں
پوچھا۔
" تم مجھے نہیں جانتے لیکن میں تمہیں جانتا ہوں۔ تمہاری
پوری ہسٹری سے واقف ہوں !"
" میرا خیال ہے کہ یہاں کا بچہ بچہ میری پوری ہسٹری سے
واقف ہے۔ تم اپنا مدعا بیان کرو؟“
"ہوٹل کے فون پر نہیں۔ باہرنکل سامنے ہی باقی میڈیکل اسٹور ہے
وہاں سے تم مجھے کال کرسکتےہو۔ نمبر تین دو چھ سات آٹھ ہے!"
" ٹھہرو!" عمران نے کہا۔ " میں نمبر نوٹ
کروں گا۔ تین دو… !"
" چھ سات آٹھ !" دوسری طرف سے آواز آئی اور رابطہ
منقطع ہو گیا۔ عمران ماؤتھ پیس کو آنکھ مار کر مسکرایا تھا۔
تویہ خواہ مخو واہ کا تیر
ٹھیک نشانے پر بیٹھا ۔کبھی کبھی محض اتفاقات بھی کامیابیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
اس نے تیزی سے لباس تبدیل کیا اور باقی میڈیکل اسٹور جا
پہنچا۔ وہاں پر اجنبی کے تبائے ہوئے۔نمبر ڈائل کیے۔ دوسری طرف سے فوراً جواب ملا۔
آواز اُسی اجنبی کی تھی۔ اُس نے کہا۔ تم سجھ د ارآدمی معلوم ہوتے ہو پروفیسر !"
"سمجھ دار نہ ہوتا تو تم اس طرح چھیڑتے کیوں ؟ "عمران نے
تلخ لہجے میں کہا اور دوسری طرف سے ہلکا سا قہقہ سنائی دیا۔
"میں سمجھتا ہوں تمہارا موڈ خراب ہو گیا ہے۔ خصوصاً ایسے
حالات میں جب کہ مقامی پولیس تمہارا تلاش میں ہو، کوئی اجنبی تمہارے پتے سے واقف
ہو!"
"بہت خوب !" عمران ہنس کر بولا ۔ " میرا خیال ہے کہ
کسی بلیک میلر سے میرا سابقہ پڑ گیا !"
"قطعی نہیں ۔ اپنے الفاظ واپس لو پروفیسر !"
"جب تک تمہاری اصلیت مجھ پر نہ کھل جائے الفاظ واپس نہیں لیے
جاسکتے !"
"اچھا تو سنو ۔ ہمارا پیشہ تمہارے پیشے سے مختلف نہیں
ہے۔ کیا یہ غلط ہے کہ افریقی ملکوں کے بائیں بازو کے لیڈر تمہیں استعمال کرتے رہے
ہیں ؟"
" لفظ استعمال پر مجھے اعتراض ہے!"
" کیوں پرو فیسر؟"
" لفظ استعمال ایسے حالات سے تعلق رکھتا ہے جن سے اپنا
مفاد بھی وابستہ نہ ہو!"
"الفاظ کے بھی کھلاڑی ہو پروفیسر !"
میں زندگی ہی کو کھیل سمجھتا ہوں۔ تم اپنا مدعا بیان کرو!"
"اگرتم ہماری مدد کرنا پسند کرو تو ہم تمہیں پولیس سے بھی
تحفظ دے سکیں گے!"
"مدد سے تمہاری کیا مراد ہے ؟"
"تم یہیں کے باشندہ ہو۔ یہاں کے حالات سے پوری طرح باخبر رہتے
ہو گے؟"
"د یکھو دوست۔ اگر تم یہاں کوئی ایسی حرکت کر رہے ہو جو اس
ملک کے مفاد میں نہیں ہے تو مجھے اپنا دشمن نمبر ایک سمجھو!"
"ہم اس ملک کی بھلائی چاہتے ہیں لیکن بے وقوفوں کی سمجھ
میں نہیں آرہی ہے یہ بات۔ اس لیے ہم کسی بہت ذہین اور ڈھنگ کے مقامی آدمی کو اپنا
ساتھی بنانا چاہتے ہیں !"
" اور نظر انتخاب مجھ پر پڑی ہے؟" عمران نےچبھتے
ہوئے لہجے میں کہا۔
"طنز یہ انداز ترک کر کے سنجیدگی اختیار کرو پروفیسر ۔
ابھی تمہاری حکومت اپنے طور پر نہیں تلاش کرا رہی ہے۔ کسی غیر ملکی سفارت کار نے
اس کے لیے درخواست نہیں کی !"
"اچھا تو پھر… ؟"
"اگر میں کینیا کے سفیر کو تمہاری یہاں موجودگی سے مطلع کر
دوں تو کیسی رہے گی ؟"
عمران ہنس پڑا پھر
بولا ۔ "یہ بلیک میلنگ نہیں تو اور کیا ہے؟“
" تم غلط لفظ استعمال کر رہے ہو پر وفیسر ۔ اسے سودا
کاری کہتے ہیں، کیا سمجھے؟"
" بالکل سمجھ گیا۔ مجھے تمہارے ساتھ ملنا ہی پڑے گا !"
" یہ ہوئی نا بات !"
"لیکن معاملات کو پوری طرح سمجھے بغیر یہ ناممکن ہے!"
" معاملات بھی سمجھا دیے جائیں گے؟"
"اسی وقت میں کوئی فیصلہ بھی کروں گا ۔ اچھا ... بائی بائی ،
میں بہت مصروف آدمی ہوں!“ کہہ کر عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا لیکن کچھ غیر
مطمئن سا نظر آرہا تھا۔ اس نے سوچا کہ یہیں سے بلیک زیرو کو فون کر کے نا معلوم غیر
ملکی کا فون نمبر ٹریس کرنے کی کوشش کرے لیکن پھر ارادہ ملتوی کر کے ڈرگ اسٹور سے
نزلے کی دوا خریدی اور کال کے پیسے ادا کر کے فٹ پاتھ پر اُتر آیا۔ دو چار ہی قدم
چلا ہو گا کہ اپنے پیچھے ایک پر چھائیں نظر آئی جس کا ہاتھ اس طرح اُٹھا ہوا تھا جیسے
اس کی گردن پر کرائے کا دار کرنے جارہا ہو۔ عمران ایک دم پلٹا اور اُس سے ٹکرا گیا۔
بیٹے پر پڑنے والی کھر ایسی ہی تھی کہ مقابل اچھیل کر دور جا پڑا لیکن شاید وہ
تنہا نہیں تھا ورنہ دو آدمی اور کیوں ٹوٹ پڑتے عمران پر۔ عمران ان کی گرفت سے چکنی
مچھلی کی طرح پھسل گیا۔ یہ کوئی ویران علاقہ نہیں تھا کہ حملہ آور بات بڑھانے کی
کوشش کرتے ۔ عمران کی داڑھی کے احترام میں لوگ چاروں طرف سے دوڑ پڑے اور عمران نے
حملہ آوروں کو ایک پرانے ماڈل کی شہورٹ میں بیٹھ کر فرار ہوتے دیکھا۔ یہ تینوں دیسی
ہی تھے۔
" کیا ہوا جناب۔کیا بات تھی؟ "کسی نے عمران سے
پوچھا۔
"جیب کا ٹنے کی کوشش کی تھی بد بخت نے !"عمر ان
خواہ مخواہ ہانپتا ہوابولا۔ حالانکہ اُس کا دَم ایسے فیصد بھی نہیں اُکھڑا تھا۔
" ارے وہ گاڑی میں تھے!" کسی نے کہا۔
" میں نے نہیں دیکھا !" عمران نے بدستور ہانپتے
ہوئے کہا۔ " پردیسی ہوں ۔ مجھے نہیں معلوم تھا اس شہر میں دن دہاڑے رہزنی ہوتی
ہے!"
کوئی کچھ نہ بولا
اور عمران لنگڑاتا ہوا ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ وہ آخر کون تھے اور کیا چاہے تھے۔ کیا
اس کا اغوا... اس کے علاوہ اور کچھ سو چا ہی نہیں جاسکتا۔ وہ جوکوئی بھی ہو، اس کے
لیے کام کرنے والے سارے مقامی آدمی اناڑی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ عمران سوچتا ہوا ہوٹل
میں داخل ہوا۔ کا ڈنٹر پر آیاتو کلرک نے
کنجی دی۔
"ہوں… اچھا …شکر یہ !"عمران
نے کہا اور کنجی لیے ہوئے وہ اپنے سوٹ کے دروازے پر پہنچا لیکن قفل کھولتے ہی ایک
قدم پیچھے ہٹ گیا۔ نشست کے کمرے میں ایسی ہی ابتری نظر آئی تھی۔ پھر خواب گاہ میں
پہنچا وہاں کی بھی ایسی ہی حالت تھی۔ سوٹ کیس کھلا پڑا تھا اور اُس کی ساری اشیا
بستر پر بکھری ہوئی تھیں۔ ان میں وہ جعلی کاغذات بھی تھے جو بلیک زیرو نے اُس کے لیے
فراہم کیے تھے۔
عمران کے ہونٹوں پر
عجیب سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ تو یہ بات تھی ۔ اس نے سوچا۔ اُسے محض اسی لیے کمرے سے
بنایا گیا تھا کہ تلاشی لی جاسکے اور وہ حملہ اغوا کے لیے نہیں بلکہ اُسے مزید کچھ
دیر باہر روکے رکھنے کے لیے تھا۔
اُس نے جیب سے چیونگم کا پیکٹ نکالا اور ایک پیس منھ میں
ڈال کر آہستہ آہستہ کچلنے لگا۔ اس کے بعد وہ اُس انتشار کو دوبارہ مرتب کرنے میں
لگ گیا تھا۔
کچھ دیر بعد فون کی
گھنٹی بجی …وہی ہوگا۔ اس نے سوچا اور اس کی مٹھیاں سختی سے بھینچ گئیں۔
ریسیور اٹھا کر کال
ریسیو کی ۔
"ہیلو پروفیسر !" دوسری طرف سے آواز آئی۔
"شٹ اَپ کی
باسٹرڈ !" کہہ کر عمران نے ریسیور کریڈل پر شیخ دیا۔ اس بار چھت کو آنکھ مار
کر مسکرایا تھا۔
"نہیں دوست ! "دفعہ مینٹل پیس کی طرف سے آواز آئی
۔" ہماری دوستی اتنی ہی سی دیر میں خاصی پختہ ہو چکی ہے۔ یہ ٹرانس میٹر تحفتا
قبول کرو۔ خود کار ہے اور وسیع دائرہ عمل رکھتا ہے !"
عمران اپنی کھوپڑی
سہلا کر رہ گیا۔ آواز پھر آئی ۔ " اس ٹرانس میٹر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے
کہ اس کے پیغامات صرف اسی ساخت کے دوسرے ٹرانس میٹر پر سنے جاسکتے ہیں !"
"لیکن یہ سب کیوں ؟ "عمران نے اونچی آواز میں کہا۔
" سمجھ میں نہیں آیا۔ مینٹل ہیں کے قریب آجاؤ ! دوسری
طرف سے آواز آئی ۔ فرانس میٹر، ٹائم ہیں کے عقب میں رکھا ہوا ہے۔ بہت مختصر اور بے
حد طاقت ور ہے، جو ہری بیٹری سے چلتا ہے۔ اس میں فی الحال جو سیل رکھا ہے کم از کم
ایک سال کے لیے کافی ہوگا! "
عمران مینٹل ہیں کے قریب
پہنچ گیا لیکن ٹائم ہیں کو اس جگہ سے نہیں ہٹایا۔
" ہاں، میں مینٹل میں کے قریب ہوں !"
" میری دوستی کا ہا تھ قبول کیا یا نہیں؟“
"لیکن کیوں تم خواہ مخواہ میرے معاملات میں مداخلت کر بیٹھے۔
آخر مجھ سے کیا چاہتے ہو؟“
"آہستہ آہستہ میرے دوست۔ ہو سکتا ہے کہ میں تم سے جنگری
یا میک آپ کا فن سیکھنا چاہتا ہوں ۔ تم اب تک محض اس لیے بچے ہوئے ہو کہ میک آپ کے
ماہر بھی ہو ورنہ افریقہ سے نہ نکل سکتے !"
" اچھا بس !" عمران تھکی تھکی سی آواز میں بولا۔
" میں اب آرام کرنا چاہتا ہوں ۔ تمہاری وجہ سےبہت تھک گیا ہوں ! "
" تم نے جس انداز میں بد معاشوں کو شکست دی تھی اُس سے بھی میں
متاثر ہوا ہوں۔ اچھا تم آرام کرد... اوور اینڈ آل !"
عمران نے طویل سانس لی اور آرام کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔ ٹائم
میں کے پیچھے سے خود کار ٹرانس میٹر بھی اُٹھا لیا تھا جو جسامت کے اعتبار سے ماچس
کی ڈبیہ سے زیادہ بڑا نہیں تھا۔ وہ اُسے اُلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ ہر وقت آن رہنے
والا یہ ٹرانس میٹر اُس کے لیے خطر ناک بھی ثابت ہو سکتا تھا یعنی بحیثیت عمران کسی
سے گفتگو نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے سر کو خفیف سی جنبش دی اور او لکھنے لگا۔ دفعتہ
ٹرانس میٹر سے آواز آئی ۔ " کہو یہ کھلونا پسند آیا ؟"
" یا رمت بے وقوف بناؤ! "عمران نے کسی قدر
جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا۔ "اگر میں اس نا معقول چیز کو اپنے پاس ہر وقت رکھوں
تو دوسروں سے ہونے والی گفتگو بھی تم تک پہنچ جائے گی… اوور !"
دوسری طرف سے بلکا
سا قہقہہ سنائی دیا اور پھر کہا گیا۔ یہ بات تو ہے لیکن تم اسے ہر وقت اپنے پاس
رکھو ہی کیوں ... اوور !"
"نہیں ، میں اسے ہر وقت اپنے پاس رکھوں گا۔ شاید تمہیں نہ
معلوم ہو کہ الیکٹرک انجینئر نگ میں بھی دخل رکھتا ہوں۔ ایک چھوٹا سا آئی سی ڈسٹر ینگ
سرکٹ بناؤں گا اور اس سے انچ کر دوں گا ۔ قصہ ختم۔ جب تم سے گفتگو کرنی ہوئی ڈسٹر
بنگ سرکٹ ہٹا دیا !"
"پروفیسر واقعی بہت گہرے ہو لیکن ابھی تک غلط ہاتھوں میں پا
کر رسوا ہوتے رہے ہو۔ اب دیکھا کر ہمارے ساتھ تمہاری زندگی کتنی شاندار گزرتی ہے۔ یہی
نہیں بلکہ ہم تمہیں ساری دنیا میں تحفظ بھی دے سکےہیں۔ اوور! "
"افریقہ میں بھی ؟" عمران نے چیک کر پوچھا۔
”ہاں، نہ صرف افریقہ میں عام طور پر بلکہ کینیا میں بھی
خصوصیت سے، جہاں سے ابھی حال ہی میں قرار ہوئے ہو۔ پروفیسر ہمارے ہاتھ بہت لمبے ہیں؟"
" تب تو بصد خلوص میں اپنا چھوٹا سا ہاتھ دوستی کے لیے بڑھاتا
ہوں۔ کینیا میں میری کروڑوں کی پوشیدہ دولت موجود ہے !"
"جب بھی کہو گے اُسے اسمگل آؤٹ کرادیں گے!"
"تب پھر تم مجھے آج سے بالکل اپنا آدمی سمجھو!"
"شکریہ... پروفیسر !"
"اوور اینڈ آل !" کجھ کر عمران ٹرانس میٹر سے بہت
دور چلا گیا۔ یعنی خواب گاہ میں جہاں کچھ دیرآرام کرنا چاہتا تھا۔
14
دفتر پہنچتے ہی سنگ زاد میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں ہونے لگی
تھیں اور یہ تبدیلیاں اُس کی گم گشتہ یادداشت سے متعلق تھیں۔ لیکن عمران کے مشورے
کے مطابق اُس کے دفتر کے مختلف حصوں میں کلوزڈ سرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے چھپا دیئے گئے
تھے اور آپریشن روم میں اس کی نقل و حرکت ٹی وی سیٹ پر دیکھی جاسکتی تھی ۔ لیکن
ابھی تک اُس سے کوئی ایسی حرکت نہیں ہوئی تھی جو قابل گرفت ہوتی۔ یادداشت آہستہ
آہستہ واپس آرہی تھی۔ پھر اسے اپنے بیوی بچے بھی یاد آگئے جو اُس کی گمشدگی کے بعد
سے کسی دوسرے شہر میں مقیم تھے۔
کرنل فیضی اُس سے متعلق عمران سے مشورہ کرتا رہتا تھا۔ اس
نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کرنل شہزاد یا سنگ زاد سے اُس کے افریقہ سے اچانک
غائب ہو جانے کے بارے میں پوچھ کچھ کرے یا نہ کرے؟ عمران نے فی الحال اس سے باز
رہنے کا مشورہ دیا تھا۔
عمران کا یہ عمل
دخل ڈائرکٹر جنرل صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا لیکن انہوں نے مداخلت نہیں کی۔
البتہ اُن کی خواہش تھی کہ سنگ زاد کے مسئلے کو جلد از جلد حل کیا جائے ۔ آخر مجرم
اُسے اُس کے آفس میں بھجوانے پر کیوں مصر تھے ؟
" رات کی ڈیوٹی جناب ! "کرم فیضی نے کہا۔ "
حسب معمول رات کی راہوئی میں کرنل شہزاد کی جگہ کام کرنے والا یہاں تنہا ہوتا تھا
!“
"یہ ضروری تو نہیں ہے کہ ہم کرتل شہزاد کو رات کی ڈیوٹی بھی
کرنے دیں؟“
"بہر حال میرا یہی خیال ہے کہ وہ اس ڈائریکٹوریٹ کی کسی
اہم دستاویز پر ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں!"
یہ اُن کا احمقانہ
خیال ہے!" ڈائرکٹر جنرل نے کہا۔
" لیکن اگر کر تل شہزاد کو رات میں یہاں رکنے کا موقع
مل جائے تو وہ خود ہی سیکوریٹی انچارج بھی ہوگا ... جو اس کا دل چاہے گا کرے گا
اور سیکوریٹی فورس کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوگی ! "
"تم غًالبا یہ کہنا چاہتے ہو کہ اُس کے لیے کوئی ایسا
موقع فراہم کیا جائے ؟“
"جی ہاں، میں یہی
عرض کرنا چاہا تھا۔ ریکارڈ روم سے اصل کا غذات ہٹا دیئے جائیں ، ان کی جگہ غیر اہم
فائلیں رکھ دی جائیں !"
اور ہم اُسے رنگے
ہاتھوں پکڑلیں ؟“
"جی ہاں اور کیا !"
دفعتہ ڈائرکٹر جنرل نے غصیلے لہجے میں کہا۔ " لیکن
اُسے پکڑے گا کون؟"
"جی یعنی کہ… !" کرنل فیضی
تھوک نگل کر رہ گیا۔
"جو بھی ہاتھ لگائے گا اُسے کاغذ کی طرح چیر کر پھینک
دے گا۔ عمران ہی کے بیان کے مطابق ان لوگوں پر گولیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔ دروازے
توڑتا اور دیوار میں گراتا چلا جائے گا۔ پھر یہ ڈائرکٹوریٹ نی کا گول کتنا بن جائے
گی۔ میں اس کے حق میں نہیں تھا کہ اُسے آفس میں بیٹھنے دیا جائے لیکن تم اس دیوانے
کی باتوں میں آگئے ۔ وہ شخص مجھے قطعا پسند نہیں ہے!"
کرنل فیضی کے چہرے پر سراسیمگی کے آثار تھے اور وہ بار بار
پیشانی سے پسینہ کو چھورہا تھا۔
" کیا خود
کرتل شہزاد نے رات کی ڈیوٹی کے بارے میں پوچھا تھا؟“ ڈی جی نے کچھ دیر بعد پوچھا۔
"جی ہاں!"
"اور تم نے کہہ دیا ہوگا کہ جب ضرورت ہوگی اُسے رات کی ڈیوٹی
بھی کرنی ہوگی... اور وہ خاصا ہشاش بشاش نظر آنے لگا تھا!"
"جی ہاں، اب آپ کے استفسار پر یاد آیا کہ وہ کسی جذباتی تغییر
سے ضرور گزرا تھا !"
" میں کہتا ہوں کہ اُسے پھر سا ئیکو مینشن بھجوادو!“
دفعہ ایک زور دار آواز آئی اور ڈی جی کے آفس کا دروازہ
چوکھٹ سمیت اکثر کر کرنے کے کیا میں آپڑا۔ وہ پہلے اُچھل کر دور ہٹ گئے تھے۔ کرنل
فیضی تو شاید کام ہی آجاتا۔
سنگ زاد کمرے میں
داخل ہو کر دہاڑا ۔ " میرے خلاف سازش ہورہی ہے!“
"تم ہوش میں ہو یا نہیں ؟“ کرنل فیضی بولا ۔ یہ ڈی جی
صاحب کا کمرہ ہے!"
"میں دیکھ رہا ہوں اور تم دونوں کی گفتگو اپنے کمرے میں
بیٹھ کرسن رہاتھا۔ میں شہر میں ہوں ۔ سمجھے ۔ مجھے گرین
قائل تھر مین چاہئے ۔ سنا تم نے ! "
"ایک منٹ کرنل شہزاد!" ڈی جی نے ہاتھ اٹھا کر نہایت
نرم لہجے میں کہا۔ " آخر یہاں ہونے وا پشت گفتگو تم تک کیسے پہنچی ؟"
"میں سُپر مین ہوں جنرل ۔ جب چاہوں اپنے خمسہ کو اتنی قوت دے
سکتا ہوں کہ وہ ...وہ… !"
اچانک ڈی جی نے
پستول نکال کر سنگ زاد کی آنکھ پر فائر کر دیا۔ بڑی خوفناک دہاڑ اس کے معنی سے نکلی
تھی ۔ دونوں ہاتھوں سے ضائع ہو جانے والی آنکھ دبائے فرش کی جانب جھکتا چلا گیا۔
پھر جنرل بڑی پھرتی سے اس کے عقب میں پہنچا اور پے در پے کئی گولیاں اس کے بیرز میں
اُتار دیں۔ اب تو ابیا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی ارنا بھینسا مرتے وقت ڈکرا رہا
ہو۔ پوری عمارت میں کھل ہی پڑگئی ۔ دروازہ تو نکل ہی چکا تھا ، دفتر کے سامنے بھیڑ
اکٹھا ہونے لگی۔
دفعتہّ جنرل دروازے
کی طرف مڑ کر دہاڑا ۔" اپنی جگہوں پر واپس جاؤ !" اور راہداری میں پھر
سناٹا چھا گیا۔ ادھر سنگ زاد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
"حج ... جناب !" کرنل فیضی ہکلا یا۔ "مم ... میں
سوچ بھی نہیں سکتا تھا ! "
" کیا نہیں سوچ سکتے تھے ؟ "جنرل مسکرا کر بولا ۔
" میں اس محکمے کا سربراہ ہوں اور یہ سر براہی مجھے تحفتًا نہیں ملی تھی !"
15
عمران کو سنگ زاد کی موت کی اطلاع ملی تو چکرا کر رہ گیا۔
واقعی ڈی جی نے بڑی عجلت میں اپنی ذہانت کا مظاہرہ کیا تھا۔ یقیناً اونچا آدمی
لگتا ہے۔ عمران سوچتا اور خواہ مخواہ خوش ہوتا رہا۔
وہ اب بھی دینار
ہوٹل کے اُسی کمرے میں بحیثیت پروفیسر شکر مقیم تھا اور آئی ایس آئی والے اُسے
سارے شہر میں تلاش کرتے پھر رہے تھے۔
عمران نے پروفیسر کا میک آپ اُتار کر دوسرامیک آپ کیا اور
ہوٹل سے نکل آیا۔ سب سے پہلے اُس
نے ڈرگ اسٹور سے سر سلطان کو فون کیا تھا۔ وہ آفس میں تھے
اور بہت جھلائے ہوئے لگتے تھے۔
" دفتر سے فورا گھر پہنچے میں وہیں آرہا ہوں!"
عمران نے ماؤتھ میں میں کہا اور انہیں مزید کچھ کہنے کا موقع دیئے بغیر رابطہ
منقطع کر دیا۔ پھر نصف گھنٹے کے اندر ہی اندر وہ سر سلطان کے بنگلے میں پہنچ گیا۔
بہر حال دوا سے اُس وقت تک نہیں پہچان سکے تھے جب تک کہ اُس کی اصل آواز نہیں سن لی
تھی۔
"تم کیا کرتے پھر رہے ہو؟" انہوں نے آنکھیں نکالیں۔
میں وہی کر رہا ہوں جو کرنا چاہئے ۔ بالآخر سنگ زادا ایکسپوز
ہو گیا۔ ساتھ ہی وہ لوگ بھی جو اس کی پشت پر تھے۔ وہ کچھ کاغذات ڈائرکٹوریٹ سے
اُڑا لے جانا چاہتے ہیں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ لوگ مسٹری میں بھی کسی طرح
مجھے ملے ہوئے ہیں۔ کلا راؤ کسن کو کہیں لے جانے کے لیے آرمی کا ہیلی کا پر استعال
کیا گیا تھا، واپسی پر انجینئر پائلٹ کسی زہر کے تحت مر گیا تھا !"
" تو پھر یہ لوگ تم پر کیوں اُدھار کھا رہے ہیں ؟“
" اُن کی مرضی !"
"ایک بار پھر تمہارا فلیٹ ملٹری والوں کے گھیرے میں آگیا
ہے؟"
"ان لوگوں کا بہت بہت شکریہ ۔ میرے ملازمین سکھر کی نیند
سوئیں گے !"
سوال یہ ہے کہ تم اب اُن سے ملنے سے کیوں کترارہے ہو جبکہ
تمہارے ہی مشورے پر انہوں نے سنگ زاد کا کھل کر نوٹس لیا تھا ؟"
" میں نے بر اتو نہیں کیا تھا۔ کیا انہیں حتمی طور پر
معلوم نہیں ہوگیا کہ مجرموں کے کیا ارادے ہیں۔ وہ ڈائرکٹوریٹ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
وہ بعض اہم دستاویزات حاصل کرنا چاہتے ہیں! "
"لیکن وہ اتنے احمق تو نہیں ہیں کہ سنگ زاد کو کچھ کر
گزرنے کا موقع دیتے!" ہیں!"
"لیکن جنرل نے اُسے جس تدبیر سے مارا ہے اس کا جواب نہیں ۔
آخر کو ایک بڑے ادارے کا سر براہ ٹھہرا۔ اس کے علاوہ ان پتھروں کو مارنے کی اور
کوئی تدبیر نہیں ہوسکتی !" عمران نے کہا اور تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر
بولا۔ ” پتہ نہیں وہ لوگ پریس کو کس قسم کی رپورٹ دیں گے سنگ زاد سے متعلق!"
" تم اپنے کام سے کام رکھو ۔ وہ کیا کر رہے ہیں، تمہیں
اس سے کوئی سرو کار نہ ہونا چاہئے!"
" بہت مناسب مشورہ ہے !" عمران سر ہلا کر بولا ۔
" لیکن آپ انہیں مشورہ دیجئے کہ سنگ زاد کی لاش کی حفاظت کریں کیونکہ لاش کے
پوسٹ مارٹم ہی سے اُس کے غیر معمولی ہونے کا راز افشا ہو سکے گا اور مجرم یہی کبھی
نہ چاہیں گے!"
" تو تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ وہ لاش اُن کی تحویل میں
نہ رہنے دیں گے ؟"
"جی ہاں، میں یہی کہنا چاہتا ہوں کیونکہ خود ہمارے درمیان کالی
بھیٹر میں موجود ہیں جنہیں ہم پہچان نہیں سکتے !"
"تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں انہیں مشورہ دوں گا لیکن یہ
پروفیسر شکور کا کیا قصہ ہے؟“
مختصراً اُس نے پروفیسر شکر والی کہانی دہرائی تھی۔ سرسلطان
تھوڑی دیر تک کچھ سوچتے رہنے کے بعد بولے ۔ " آخر شہباز چودھری کو تم نے کیوں
چھوٹ دے رکھی ہے؟"
"مصلحتًا.. اگر چھوٹ نہ دیتا تو پروفیسر شکور جیسا
کردار کیسے ہاتھ لگتا۔ حالانکہ یہ بھی محض اتفاق ہے…اور پھر شہباز چودھری
کو چھیڑ کر ہم کریں گے بھی کیا۔ وہ اُن لوگوں کی نشاندہی تو نہیں کر سکتا البتہ اس
سے جہاں ضرور ہوگا کہ مجرم مزید ہوشیار ہو جائیں گے اور یہی میں نہیں چاہتا !"
" لیکن آئی ایس آئی ...!"
" پلیز سر!" عمران ہاتھ اُٹھا کر بولا ۔ "
آپ بھی اپنے شعبہ کے سربراہ ہیں اور آپ کا عہدہ ڈائرکٹر جنرل سے بڑا ہے۔ آپ نہایت
اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے مجھے کسی اشد ضرورت کے تحت ٹمبکٹوبھیج دیا ہے!"
" جھوٹ بلواؤ گے؟"
"میں آپ کو ٹمبکٹو جا کر دکھا دوں گا !"
"بکواس مت کرو۔ ویسے میں تمہیں بتا دوں کہ مجھے اب اس کیس سے
کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ آئی ایس
آئی والے جانیں !"
" لیکن مجھے تو ہے دلچپسی کیونکہ میں انہی کاموں کے لیے
قوم کا نمک خوار ہوں۔ میں کہیں بھی کوئی گڑ بڑ دیکھتا ہوں تو اس کا منتظر نہیں
رہتا کہ محکمے کی طرف سے اجازت ملے تو کچھ کروں !"
" اور تمہاری اس عادت سے مجھے وحشت ہوتی ہے!“
"جو کچھ بھی کرتا ہوں اپنی ذمہ داری پر اور بتادیجئے کہ کبھی
ایسا بھی ہوا ہو کہ آپ کے محکمے کی آخر آخر سرخروئی نہ ہوئی ہو؟“
" اچھا اب جاؤ!" سر سلطان ہاتھ ہلا کر بولے ۔
" میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ اب آفس واپس نہ دور جاؤں گا !"
"اب یہاں بھی دیکھ لیجئے کہ میں ہی آڑے آیا ہوں ورنہ آپ مزید
کھلتے رہے اور وقت پورا کیے بغیر اپنی کرسی سے ملتے بھی نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ آپ
کرسی کے پتے ہیں !"
" پھر بکو اس کیے جارہے ہو۔ میں کہتا ہوں جاؤ !"
"بس آخری بات یہ کہ پروفیسر شکور کا اسی طرح خیال رکھئے گا۔ یہ
کیس بھی آپ ہی کے محلے سےمتعلق ہے !" عمران نے کہا اور واپسی کے لیے اُٹھ گیا۔
سر سلطان کی آنکھوں
سے ظاہر ہونے والی بے چینی یکلخت معدوم ہوگئی ۔
وہ یہاں تک ٹیکسی سےآیا تھا اور اب واپسی پیدل ہو رہی تھی ۔
ایک آدھ جیسی دکھائی بھی دی لیکن اس نے اُسے رکوا یا نہیں ۔
دراصل وہ فون پر بلیک
زیرو سے رابطہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ اُسے علم تھا کہ قریب ہی ایک ایسا کیفے ہےجہاں
پبلک ٹیلیفون بوتھ بھی ہے۔
کیفے میں داخل ہو کر سیدھا بوتھ کی طرف چلا گیا۔ اس وقت کا
میک آپ غیر معمولی نہیں تھا اس لیے کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔
بلیک زیرو سے رابطہ قائم ہونے پر بولا ۔ " ہیلی کا پڑ
والے معاملے کی رپورٹ ؟"
"مجھے تو جناب صرف فلائٹ انجینئر ملوث معلوم ہوتے ہیں۔ ہر تربیتی
پرواز پر ایک انجینئر ضرور موجود ہوتا ہے۔ آزمائشی پروازوں میں صرف انجینئر ہوتا
ہے لہذا جو کچھ بھی ہوتا ہے آزمائشی پروازوں کے دوران میں ہوتا ہے؟"
"میرا بھی یہی خیال ہے۔ کیا تمہیں کسی پر شبہ بھی ہوا
ہے؟"
" جی ہاں تین ہیں۔ یہ تینوں زیادہ تر ساتھ رہتے ہیں۔
بے حد خوش اور تمن نظر آتے ہیں۔ میری دانست میں آپ اُن تینوں کے نام ضرور نوٹ کر لیجئے
!"
"ہاں، اچھا بولو! عمران نے دائیں ہاتھ سے نوٹ بک نکالتے ہوئے
کہا۔
" لکھتے !"
دوسری طرف سے آواز آئی ۔ " رشید امجد، عادل پرویز ، عاشق علی ... یہ تین ہیں
!"
"کوئی اور وجہ صرف انہی پر شبہ کرنے کی ؟“
" کبھی کبھی یہ مینوں کسی آزمائشی پرواز پر جانے والے ہیلی
کاپٹر میں بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں حالانکہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ۔ ایک پہیلی
کاپٹر پر دو انجینئر بھی نہیں دیکھے جاتے !"
"خیر، انہیں چیک کر لیا جائے گا !“
کیفے سے نکل کر عمران نے ٹیکسی لی اور اپنے محکمے کے ایک
اور مہمان خانے کی طرف روانہ ہو گیا۔
یہاں پہنچ کر اس نے
فون پر جولیا نا فٹر واٹر کے نمبر ڈائل کیے اور ایکس ٹو کی آواز میں بولا۔ "
صفدرکا کیا حال ہے؟“
زخم مندمل ہورہا ہے جناب۔ خون دیا گیا ہے۔ حالت پہلے سے بہت
بہتر ہے!"
"جب بھی اُسے ہسپتال سے چھٹی ملے اُسے اُس کے بنگلے پر لے
جانے کے بجائے ہوسٹیج ایٹ میں پہنچا دیا جائے !"
"بہت بہتر جناب !"
عمران نے رابطہ منقطع کر دیا۔
اس کے بعد اُس نے جیگوار کا عطا کردہ ٹرانس میٹر نکالا اور
اس سے وہ ڈیوائس الگ کردی ہے ابر میٹر کو نا کارہ کر دینے کے لیے استعمال کرتا
تھا۔
اس نے جنگو ار کو کال کرنا شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد دوسری
طرف سے جیگو ار کی آواز آئی ہے"ہلیو پروفیسر !"
" کیا خبر میں ہیں؟“
" تم نے آج کے اخبار میں سنگ زاد کی موت کے بارے میں پڑھا
ہوگا، اوور !“
"پڑھا تھا!"
"وہ خود بخود نہیں مرا بلکہ اُسے مارا گیا ہے!"
"لیکن اخبارات میں طبعی موت کی بات کی گئی ہے؟"
" قطعی غلط کیونکہ اس کا کنٹرول تو ہمارے ہاتھ میں تھا۔ اگر
طبعی موت مرتا تو ہمیں اطلاع ہو جاتی!"
" تو پھر… تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“
" ہمیں اُس کی لاش چاہئے !"
"اُس کا تو شاید پوسٹ مارٹم بھی ہو چکا ہو!"
"سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ وہ پھر کو کیسے چیر میں پھاڑیں گے۔
بہر حال اگر تم کسی طرح اُس کی لائی حاصل کر کے ہم تک پہنچا سکو تو اس کی قیمت ہم
تمہیں مبلغ ہیں ہزار ڈالر ادا کریں گے یعنی تمہاری کرنسی میں دولاکھ روپے!"
"مگر کس طرح ؟ تم جانتے ہو کہ حکومت میرے سلسلے میں چوکنی
ہوگئی ہے!“
" ہو گئی ہوگی۔ تم اس قسم کے کارنامے انجام دیتے رہے
ہو۔ فرعون کی بیٹی کا تابوت یاد ہے جو تم نے سر رابرٹ کلابان کے لیے اُڑایا
تھا؟"
" اُف فوہ ... اتنی معلومات رکھتے ہو مجھ سے متعلق؟"
" تمہارے بارے میں ہم کیا نہیں جانتے ۔ کاش تم شروع ہی سے
ہمارے ساتھ ہوتے !"
" دیکھنا ہے کہ اب اس ساتھ سے ہمیں کیا فائدہ پہنچتا
ہے!“
"بیس ہزار ڈالر!"
" اگر لاش تمہیں نہ ملی تو… ؟"
"وہ چیز خواه خواہ ضائع ہو جائے گی جس نے اسے پتھر کا
بنایا تھا!"
"کیا وہ اُس کے مرنے سے ضائع نہیں ہوئی ؟"
"نہیں لیکن اگر انہوں نے اُسے نکالنے کی کوشش کی تو
ضرور ضائع ہو جائے گی ؟"
"اچھی بات ہے۔ میں تین گھنٹے بعد تمہیں جواب دوں گا !"
"اور وہ ہمارے ہی حق میں ہو گا ؟"
" حالات پر منحصر ہے... اور اینڈ آل !" کہہ کر عمران نے
ڈسٹر ینگ سرکٹ اُس سے امیچ کردیا۔ مسئلہ ٹیڑھا ھا کیونکہ لاش آئی ایس آئی والوں کے
قبضے میں تھی۔ ویسے عمران اُن کے اس رویے سے مطمئن تھا کہ انہوں نے اُس کی موت طبعی
ظاہر کی تھی۔ اگر پریس کو صحیح بیان دینا مقصود ہوتا تو ایسا بھی نہ کرتے۔ عمران یہی
چاہتا تھا لیکن لاش کا مسئلہ۔ شاید اسی طرح وہ مجرموں کے ٹھکانے تک پہنچ جائے ۔
اُس نے فون پر سرسلطان کے نمبر ڈائل کیے۔ معلوم ہوا کہ سورہے ہیں۔ عمران نے چھیڑ
نا مناسب نہ سمجھ کر رابطہ منقطع کیا اور پھر بلیک زیرو کے نمبر ڈائل کیے اور دوسری
طرف سے جواب ملنے پر بولا ۔ " سنگ زاد کے متعلق تم نے طلاع ہو جاتی "
ابھی تک رپورٹ نہیں دی ؟“
"صرف ایک بات کا انتظار تھا۔ کیپٹن خاور نے ابھی تک اپنی
رپورٹ نہیں دی ۔ اُسے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کا مضمون معلوم کرنے پر لگایا گیا تھا!“
" کیا پوسٹ مارٹم ہوا ہے ؟“
" خاور کی پورٹ ہی سے معلوم ہوگا ؟“
"لاش کہا ہے؟"
"تا بو ت
ڈائر کٹو ریٹ کے تہہ خا نہ نمبر چھ میں رکھا ہوا ہے !"
"پریس کو کوئی بیان مزید دیا گیا ؟“
"اچھی بات ہے۔ خاور کی رپورٹ ملنے پر مجھے مطلع کرنا !"
عمران نے کہا اور محلے کے اس مہمان خانے کا پتا بتانے لگا جس سے فون کیا تھا۔
ریسیور رکھ کر ایک آرام کرسی پر نیم دراز ہوگیا۔ میز
پرٹرانسمیٹ رکھ دیا اور سٹرنگ سرکٹ اس سے الگ کر کے اونگھنے لگا۔
"دفعتہ
آواز آئی ۔ " ہیلو پروفیسر، جیگوار کالنگ… ہیلو پروفیسر!"
"ہیلو...
است از شکور !"
" تم نے ڈسٹر بنگ ڈیوائس کیوں الگ کر دی۔ کیا
کہنا چاہتے ہو؟“
"
لاش کے متعلق ابتدائی رپورٹ۔ وہ ڈائرکٹوریٹ کے تہ خانے میں رکھی ہوئی ہے !"
اتنا تو ہم بھی جاتنے ہیں اور یہ خبر سکنڈ ہینڈ
ہو چکی ہے۔ وہ اسے وہاں سےمنتقل کرنا چاہتے
ہیں!"
"
لیکن تم اُسے وہاں سے نکلوا نہیں سکتے !"
"یہ ہمارے
لیے مشکل ہے!"
" تب پھر
بتاؤ کہ مجھ جیسا تنہا اور بے بس آدمی کیا کر سکے گا ؟ "
تم
نہ اب تنہا ہو اور نہ بے بس۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر تم تھوڑی سی تکلیف کر تو ہم
زوار بتائیں گے کہ تم کس طرح کامیاب ہو سکتے ہو؟“
"تھوڑی کیا
بہتیری تکلیف برداشت کر سکتا ہوں، تم تدبیر بتاؤ!"
" تم شاید
ہوٹل میں نہیں ہو اس وقت ؟"
"ہاں ، میں
دوسری جگہ ہوں !"
" تد ہی
تمہارے ہوٹل والے کمرے میں موجود ہے۔ اور اینڈ آل !“
عمران اُسے آوازمیں ہی دیتا
رہ گیا تھا لیکن سنوائی نہیں ہوئی تھی۔ آخر اس نے بھی ٹرانس میٹر کرا کر کے جیب میں
ڈال لیا۔ روانگی سے پہلے اُس نے بلیک زیرو کو اطلاع دی تھی کہ اب وہ ہوٹل دینارکر
تمہیں گاہ میں ملے گا۔
ہوٹل پہنچ کر جیسے
ہی کمرے میں داخل ہوا، وسطی میز پر ایک لفافہ پڑا ملا جس پر برائے پروفیسرشکورتحریر
تھا۔
لفافہ کھولا ۔ اس میں
سے ایک تصویر اور ایک خط برآمد ہوا۔ تصویر کسی کرنل کی تھی جو پوری وردی میں تھا اور چہرہ بھی داڑھی دار ہی تھا۔
خط میں جیگوار کی
طرف سے تحریر کیا گیا تھا کہ اسے اسی کرنل کے میک آپ میں ایر وکلب پہنچتا ہے۔ خواب
گاہ میں پائے جانے والے کسی سوٹ کیس میں کرنل کی وردی مع نشانات موجود تھی۔ عمران
نے بید تحریر جہاں تہاں چھوڑی اور سیدھا خواب گاہ میں آیا۔ بستر پر ایک بریف کیس
دکھائی دیا جو اس کا نہیں تھا۔ بریف کیس میں بلاشبہ کرنل کی وردی موجود تھی۔ اُس
نے اُسے وہیں چھوڑا اور پھر سٹنگ روم میں واہگہ آگیا ۔ محط اُٹھایا۔ آگے کی تحریر
تھی۔" وہ سنگ زاد کی لاش کو شمالی پہاڑوں کی تجربہ گاہ میں منتقل کر رہ ہیں۔ یہی
موقع ہے کہ تم مداخلت کرو۔ یہ کرنل جس کی تصویر تم دیکھ رہے ہو، لاش کو وہاں لے
جائے گا۔ تم ایر کلب پہنچو گے تو نہیں وہاں ایک پہیلی کا پڑا پہنے لیے تیار ملے
گا۔ وہ تمہیں آرمی کے ہیلی پیڈ پر ہمارے تم مطمئن ہو کرش مذکور اس وقت میری قید میں
ہے۔ اس لیے بھانڈہ پھوٹنے کا خدشہ نہیں ہے۔ آرمی کے ہیلی پیڈ میں لاش رکھی ہوئی
ملے گی۔ شمالی تجربہ گاہ کی جانب اڑان کے دوران میں صرف ایک پائلٹ ہوگا اور تم ہو
گے۔ اب اس خط سے منسلکہ نقشے کو دیکھو ۔ تمہیں ریڈ ہو اسکٹ پرپہنچتے ہی نقشہ پائلٹ کو دینا ہوگا اور اسے ریوالور کی زد
پر رکھ کر مجبور کرنا پڑے گا کہ اب پرواز اس نقشے کے مطابق ہوگی اور بالآخرتم لاش سمیت مجھ تک پہنچ جاؤ گے ۔ تمہارے اور کرنل
مذکور کے چہرے کی بناوٹ میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے بس تھوڑی سی تبدیلی کرنی پڑے گی
۔ امید کہ بات پوری طرح تمہاری سمجھ میں آگئی ہوگی !"
عمران نے طویل سانس
لی اور اُس نقشے کو بغور دیکھنے لگا جو خط سے منسلک تھا۔ اب یہ خطرہ تو مول لینا ہی
تھا لیکن آئی ایس آئی والوں نے اس حال میں دھر لیا تو کیا ہوگا۔ وہ کس طرح جواب دہی
کرے گا کہ اصل کرنل کہاں ہے۔ پھر اُسے پوری طرح کھل جانا پڑے گا اور یہ اس سے بھی
زیادہ خطر ناک ہوگا ۔
تن بہ تقدیر ہو کر دوسرامیک آپ کر ہی رہا تھا کہ فون کی
گھنٹی بھی ۔ دوسری طرف سے بلیک زیر تھا اور خاور کی رپورٹ کا بقیہ حصہ اُسے سنا
رہا تھا۔ خاور کے بیان کے مطابق سنگ زاد کی لاش کو یہاں سے کسی تجربہ گاہ میں
منتقل کیا جا رہا ہے جو شمالی پہاڑوں کے درمیان کہیں واقع ہے۔
" ٹھیک ہے۔ اب تم مجھ سے خود رابطہ قائم کرنے کی کوشش
مت کرنا۔ میں خودی ضرورت پڑنے پر تمہیں کال کرلوں گا !"
"بہت بہتر
جناب !"
عمران نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور پھر روانگی
کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔
آدھے
گھنٹے کے بعد آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ واقعی ایک پر وقار کرتل لگ رہا تھا لیکن
اس خیال سے سٹی گم تھی کہ کہیں اپنوں ہی کے ہاتھوں بے عزتی نہ ہو جائے۔ بہر حال ایر
وکلا تک پہنچے میں زیادہ د ی نہیں گی گی۔ ہیلی پیڈ پر شہری ہوا بازی کا ایک بیلی
کا پڑر موجود تھا۔ پائلٹ نے آگے بڑھ کر کہا۔ کربل کرم پلیز!"
"یس ات از
کرنل مکرم !"
" دِس ے سر!"
پائلٹ ہیلی کاپٹر کی طرف مڑتا ہوا بولا۔
پھر پانچ منٹ کے اندر ہی اندر بیلی کا پٹر پرواز
کر گیا تھا۔
آرمی کے پہیلی پیڈ پر متعدد ہیلی کا پڑ نظر آئے
۔ وہ شہری ہوا بازی کے ہیلی کاپٹر سے اُتر گیا۔
پھر وہاں آرمی کے ایک
پائلٹ نے آگے بڑھ کر اسے سلیوٹ کیا اور پوچھا۔ " کرنل مکرم سر۔ دس وے سر!"
اُس نے ایک بڑے ہیلی کاپٹر کی طرف اس کی رہنمائی کی اور بولا ۔ " میرا نام رشید
امجد ہے جناب !"
عمران نے سر کو خفیف
سی جنبش دی اور اُس کے ساتھ چلتا رہا۔ رشید امجد، کہاں سا تھا یہ نام شانلرو تھا۔
پھر اسے یاد آ گیا۔ بلیک زیرو نے تین مشتبہ پائنٹ انجینئروں کے نام بتائے تھے، انہی
میں سے ایک بھی تھا۔ تو کیا اس کے لیے بھی ریوالور نکالنا پڑے گا ؟ "
ہیلی کا پڑا و پر اُٹھ رہا تھا۔ لاش پچھلے حصے میں تھی اور یہ
دونوں کاک پٹ میں تھے۔ عمران سوچتے کہ آخر وہ ریڈ پوائنٹ کہاں آئے گا۔ اُس کے تو
فرشتوں کوبھی علم نہیں تھا اور نہ وہ نقش ہی پلے پڑا تھا۔
پندرہ میں میل کی
پرواز کے بعد عجیب سی آواز کاک پٹ میں گونجی اور سرخ رنگ کا ایک بلب جو جلدی جلنے
بجھنے لگا. وہ تو یہ ہے ریڈ پوائنٹ ۔ اُس نے ہولسٹر سے ریوالور نکال لیا اور اس کا
رخ پاکمن طرف کرتے ہوئے کہا۔ ” اب تم اس نقشے کے مطابق چلو گے ! نقشہ اُس نے اس کی
طرف بڑھایا تھا۔
" رکھئے. …بعد میں دیکھ لوں گا !" پائلٹ مسکرا کر بولا۔
" تم ہوش میں
ہو یا نہیں۔ میں کہہ رہا ہوں ..!" عمران نے ریوالور کو جنبش دی۔
" جیگوار کا بہت بہت شکریہ!" پائلٹ نے اظہار مسرت
کرتے ہوئے کہا۔
" کیا
مطلب؟"
"ہم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں کرتل !"
"اوہ !" عمران ہونٹ سکوڑ کر رہ گیا۔
"جیگوار نے میرے
اطمینان کے لیے آپ کو یہ ہدایات دی ہوں گی ۔ اُس نے کہا تھا کہ کریل مکرم بھی اپنے
ہی آدمی ہیں لیکن مجھے یقین نہیں آیا تھا ! "
" تب تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں!" کہتے
ہوئے عمران نے ریوالور ہولسٹر میں رکھ لیا اور پائلٹ نے کہا۔ " ہم دنیا کو تیسری
جنگ سے بچانا چاہتے ہیں کرتل اس لیے میرے ضمیر پر ذرہ برابر بھی بوجھ نہیں
ہے!"
"بالکل بالکل !" عمران سر ہلا کر بولا ۔ "
مجھے ہر حال میں اپنا ہم خیال پاؤ گے!"
" بہر حال ہم اصلی منزل کی طرف جارہے ہیں !“
" ذرا دیکھ لو کہیں ٹیپ ریکارڈر اور کیمرہ تو نہیں
کھلے ہوئے ہیں ؟“
"نہیں کرتل ، ایسا کیونکر ممکن ہے!“
" پھر بھی دیکھ ہی لو!"
اُس نے دیکھا اور چیخ پڑا۔ بائی گاڈ دونوں چل رہے ہیں۔ مگر یہ
ہوا کیسے۔ میں نے تو خصوصیت سے
دھیان
دیا تھا اس پر ؟"
"
ہو سکتا ہے .. آٹو میٹک ہوں؟"
"میں
ہی نہ جانوں گا ؟ "
"یہ
بھی ٹھیک ہے!"
اس
نے فوری طور پر کیمرہ اور ٹیپ ریکارڈر کے سوئچ آف کر دیئے۔
"سوال یہ
ہے کہ سونچ آن کس نے کیا ؟" وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
" کیا تم
نے اپنے پہیلی پیڈ ہی پر اسے بند کر دیا تھا؟“
"ہاں کرنل
مجھے اچھی طرح یاد ہے!“
" تب پھر
تم لوگ ایک دوسرے کو اس حیثیت سے نہیں جانتے !"
"نن نہیں !"
"کیا تم تینوں
دوست اُن سے ملے ہوئے ہو؟“
"جی نہیں
صرف ... میں ... وہ دونوں نہیں جانتے !"
"
اچھا تو ایسا کرو... ہیلی کاپٹر کو کسی مناسب جگہ اُتار دو۔ چند ضروری باتیں کر کے
آگے بڑھیں گے !"
"
جیسا حکم کرنل ۔ وہ دیکھئے وہ چٹان جس کا بائیں حصہ مسلح اور کشادہ ہے!"
"یہ تم
جانو !" عمران نے لا پروائی سے کہا۔
اُس
نے بڑی احتیاط سے ہیلی کاپٹر کو اُسی جگہ اُتار دیا اور عمران نے اُس سے کہا۔ ”
کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ، ایک انجینئر پائلٹ آزمائشی پرواز سے واپسی پر مر گیا
تھا !"
"جی ہاں ۔
وہ تھا بے چارہ !"
"اُس
کا کیمرہ اور ٹیپ ریکارڈر آئی ایس آئی والوں نے نکلوالیا تھا!"
"اس کا علم
تو مجھے نہیں ہے!"
"میں جانتا ہوں۔ بہر حال ریکارڈر اور کیمرے نے ثابت کردیا تھا
کہ وہ آزمائشی پرواز پر تنہا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ کوئی غیر ملکی عورت بھی تھی۔
دونوں کی گفتگو کے ریکارڈ سے یہ بھی ثابت ہو گیا تھا کہ وہ عورت انہی لوگوں کے
گروہ سے تعلق رکھتی تھی جن کے لیے آج ہم سنگ زاد کی لاش لے جا رہے ہیں !"
"نہیں
؟“ پائلٹ بوکھلا گیا۔
"میں غلط نہیں کہہ رہا۔ مقصد یہ ہے کہ تم وہاں اُن لوگوں کی
فراہم کردہ کوئی چیز کھاؤ پیو گے نہیں۔ اب اس ٹیپ ریکارڈر کی وہ گفتگو ار ہیز کر
کے دوسری گفتگو ریکارڈ کر دتا کہ واپسی پر یہ ثابت ہو سکے کہ کرنل مکرم نے ایک جگہ
تم پر ریوالور تان کرہیلی کاپٹر لینڈ کرنے کو کہا تھا اور تم نے بے بسی سے اُس کا
حکم مانا تھا اور پھر اُس نے ایک ویرانے میں سنگ زاد کا تابوت اُتروا لیا تھا۔ یہ
اس لیے کہ یہ واقعہ چھپا نہیں رہ سکے گا۔ تمہیں جواب دہی کرنی پڑے گی لہذا وا پسی
ہی پرواد یا کر دیا۔ اس طرح تمہاری گردن بچ گی!"
" لیکن آپ
کا کیا ہوگا ؟“
"
ظاہر ہے کہ اب میری واپسی نہیں ہوگی !"
"کک… کرنل صاحب اگر یہی
بات ہے تو یہ لوگ کم از کم مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے ۔ میں آخر کس مصیبت میں پھنس
گیا ؟"
"پھنسے کس
طرح تھے ؟"
"بس تیسری
جنگ سے بچاؤ کی تحریک ہم لوگوں میں شروع ہوئی تھی جو غالباً انہی لوگوں کی چلائی
ہوئی تھی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ تمہارے ملک کو ہمارے ہی ساتھ رہنا چاہئے ، اس طرح تیسری
جنگ سے بچاؤہو سکے گا؟"
"بہر حال
ہم دونوں بُرے پھنسے ہیں !" عمران نے کہا۔
"
تو پھر کوئی ایسی صورت نکالئے کہ ہم دونوں یہیں رہ جائیں ۔ واپس ہی نہ جائیں یا کسی
دوسرے ملک میں نکل چلیں !"
"میں کوشش
کروں گا کہ یہی ہو جائے لیکن دوسری صورت میں بھی تم نقصان میں نہیں رہو گے یعنی
گفتگود دوباره ریکارڈ کرو اور واپس چلے جاؤ۔ چھان بین ہو تو اسی چٹان کی نشاندہی
کر دینا اور کہنا کہ تابوت اتر وا لینے کے بعد پھر میں نے تمہیں وہاں نہیں رکنے دیا
تھا!"
"اچھی بات
ہے تو یہی کر لیجئے لیکن آخر یہ ہمیں مارکیوں ڈالتے ہیں !“
"
صرف انہیں مارتے ہیں جو ان کا وہ ٹھکانا دیکھ لیتے ہیں !"
"بات سمجھ
میں آنے والی ہے۔ بہر حال وہ یہاں جو کچھ بھی کر رہے ہیں غیر قانونی ہے۔ آخر میری
عقل کو کیا ہوا تھا !"
"ہو جا تی
ہیں اسی غلطیاں اور پھر یہ گیر ملکی
ایجنٹ تو سو چنے سمجھنے کا موقع نہیں دیتے ۔اس طرح اپنا پن ظاہر کرتے ہیں
کہ شدت جذبات سے مخاطب کی زبان گنگ ہو جائے ! "
تھوڑی
دیر بعد دونوں ٹیپ کیے جانے والی گفتگو کا ریہرسل کر رہے تھے ۔ پھر وہ گفتگو ٹیپ
بھی کر لی گئی اور ہیلی کاپٹر دوبارہ پرواز کرنے لگا۔
"لیکن تم
لوگوں کو اس راستے کا علم کیوں کر ہوتا ہے؟“
"انہی
لوگوں کی طرف سے نقشہ ہمیں بھجوایا جاتا ہے؟"
"کتنے
چالاک لوگ ہیں۔ ہمارے ملک کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور ہماری فوج کے ہیلی کا پڑ استعمال
کرتے ہیں ۔ ابھی کتنی اور پرواز باقی ہے؟“
"
ایک گھنٹے کی !"
"بس میری یہ
ہدایت یا درکھنا کہ جیسے ہی تابوت اتر چکے، فورا ہیلی کا پر ڈالے جانا… سمجھے!"
یہ
زیادہ مناسب ہو گا کرنل صاحب ۔ میں کس زبان سے آپ کا شکر یہ ادا کروں ! "
"پروانہ
کرو۔ یہ سار از ہر میں خود پینا چاہتا ہوں بقیہ لوگ بچے رہیں تو بہتر ہے!"
" آپ مجھے ہمیشہ یادر ہیں گے کرنل !"
عمران
کچھ نہ بولا پرواز جاری رہی۔ ایک جگہ پہیلی پیڈ کے آثار نظر آئے اور نیچے سے کچھ
اشارےبھی موصول ہوئے ۔
"یہیں لینڈ
کرتا ہے !" عمران نے کہا۔ " بس جیسے ہی تابوت اتر جائے تم پرواز کر جانا!"
"
لیکن میں جاؤں گا کہاں ؟“
"
پھر وہی بے وقوفی کی باتیں۔ اپنی کور میں واپس جانا اور کیمرہ اور ٹیپ ریکارڈر اُن
کے حوالےکر دینا۔ پر کوئی آنچ نہیں آئے گی !"
"
جیسا آپ فرما ئیں کر تل لیکن مجھے آپ کے بارے میں تشویش رہے گی !"
"
میری فکر نہ کرو۔ میں ہزار سال پرانا گدھ ہوں !“
ہیلی
کاپٹر کے لینڈ کرتے ہی دس بارہ آدمیوں نے ہیلی کاپٹر کوگھیر لیا۔ عمران نیچے اتر گیا۔
ان افراد میں سے ایک اُس کی جانب بڑھ کر بولا ۔ " خوش آمدید کرتل۔ میں جیگوار
کا نمائندہ ہوں!"
دونوں نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ سنگ زاد کا
تابوت اُتارا جار ہا تھا۔ وفظ عمران کی نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر وارنگ تحریر تھی۔"
پائلٹس کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ پرواز کی اجازت کے بغیر پرواز نہ کریں ور نہ ہیلی
کا پڑ کو فضا ہی میں تباہ کر دیا جائے گا !"
اُس
کی پیشانی پر پسینہ کی بوند میں پھوٹ آئیں اور اُس نے بوکھلا کر پائلٹ کی طرف دیکھا
جسے وہ خود پرواز کر جانے کی ہدایت دے چکا تھا لیکن اس نے دیکھا کہ پائلٹ کی نظر
بھی اس وارنگ پر ھی ہوئی ہے اور و بھی اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہا ہے۔ پھر
دونوں کی نظریں بے بسی کے سے انداز میں ہیں اور جھک گئیں۔
وہ تابوت اُتار کر ایک جانب چلے گئے۔ جیگوار کا
نمائندہ عمران کے قریب اب بھی موجود تھا۔
جب
تابوت چٹانوں کے درمیان نظروں سے اوجھل ہو گیا تو اس نے عمران سے کہا۔" چلئے
جناب"!عمران اس کے پیچھے چلنے لگا۔ پائلٹ نے بے بسی سے اُس کی طرف
دیکھا تھ میں دو کر ہی کیا سکتا تھا۔ چٹانوں سے گزرتے ہوئے وہ ایک درے میں داخل
ہوئے ۔ پھر ایک غار میں اُترے تھے۔ اندر کی تعمیرات عمران کے لیے نئی نہیں تھیں ۔
بارہا ایسی زمیں دوز تعمیرات سے سابقہ پڑ چکا تھا۔
عمران کی نظر سب سے پہلے کلارا ڈکسن پر پڑی۔
سامنے ہی کھڑی مسکرا رہی تھی۔
"خوش
آمدید پروفیسر! اس نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ میں جیگوار کی پہلی اسٹنٹ
ہوں !"
"
مل کر خوشی ہوئی !" پروفیسر نے خشک لہجے میں کہا۔ ” جیگوار کہاں ہے؟"
" خدا جانے!"
" کیا مطلب! میں تو سمجھا تھا کہ یہاں ملاقات ہو گی ؟“
" ملاقات !" وہ ہنس پڑی پھر بولی ۔" میری تو
آج تک ملاقات ہوئی نہیں تم ملاقات کرنے آئے ہو!“
"بات اب بھی میری سمجھ میں نہیں آئی محترمہ ؟"
" ہمیں یا تو اُس کے تحریری پیغامات ملتے ہیں یا ہم ٹرانس میٹر
پر اُس کی آواز سنتے ہیں! "
"اوہ .. میں سمجھا!" عمران سر ہلا کر بولا ۔ تو یہ
جیگوار بہت محتاط آدمی معلوم ہوتا ہے!“
" بہت زیادہ پروفیسر، اور یہی وجہ ہے کہ اُس کا کوئی
ساتھی کبھی اُس سے غداری کا مرتکب نہیں ہوسکتا !" "یہ بات تو ہے !"
عمران نے توصیفی لہجے میں کہا۔
" تم آرام کرو پروفیسر، باتیں پھر ہوں گی ۔ تھوڑی دیر بعد
چائے یا کافی جو بھی پسند کرو اور رات کا کھانا آٹھ بجے !"
"لیکن میں سب سے پہلے کسی ذمہ دار فرد سے ضروری با تیں کرنا
چاہتا ہوں !“
" جیگوار کے بعد میں ہوں!" کلارا بولی۔
" یعنی تم اپنا اختیار بھی استعمال کر سکتی ہو؟“
"یقینا پروفیسر ...!"
"اچھا تو پھر… !" عمران چاروں طرف دیکھ کر رہ گیا۔
انداز ایسا ہی تھا جیسے گفتگو کے دوران میں کسی تیسرے آدمی کی موجودگی پسند نہ
کرتا ہو۔
"اوه ...!" وہ ہنس کر بولی ۔ " آؤ میرے ساتھ !"
وہ اُسے ایک کشادہ کمرے میں لے آئی جہاں صرف چند کرسیاں پڑی
ہوئی تھیں اور کسی قسم کی سجاوٹ عمران بیٹھتے ہی مطلب کی بات پر آ گیا۔ " میں
ہ کہنا چاہتا تھا کہ جیگوار کا ساتھ ہونے کے بعد سے میں نے تم لوگوں کے بارے میں
خاصی چھان بین کی ہے!"
" قدرتی بات ہے !" وہ سر ہلا کر بولی ۔ "یہ تو ہونا
ہی چاہئے تھا، ورنہ پروفیسر شکور اور ایک عام آدمی میں کیا فرق رہے گا !"
" ہیلی کا پڑس کے پائلٹ کے ساتھ تمہارا رویہ مناسب نہیں
ہے۔ چند ہی دن ہوئے ایک آزمائشی پرواز والے ہیلی کاپڑ کا پائلٹ حیرت انگیز طور پر
مر گیا تھا۔ پھر تم نے اس کی ضرورت بھی نہیں بھی تھی کہ کیپ ریکارڈر اور کیمرے ہی
کو چیک کر لیتے ۔ اس طرح یہ بات ملٹری انٹیلی جنس تک پہنچ گئی اور وہ سنگ زاد کے
معاملے میں اور زیادہ محتاط ہو گئے !"
"ہاں ... یہ غلطی ضرور ہوئی تھی !" کلارا نے پر تشویش
لہجے میں کہا۔
" تم اسے غلطی
سمجھتی ہو ۔ حالانکہ دیدہ و دانستہ ایسا کیا گیا تھا تا کہ آئی ایس آئی والے فوری
طور پر سنگ زاد کو اپنی تحویل میں لے لیں !"
"میں جیگوار کے ہر معاملے سے آگاہ نہیں ہوں پروفیسر !"
” تمہارا کوئی آدمی
وہیں پائلٹ کی نادانستگی میں کیمرے اور ٹیپ ریکارڈر کا سونچ آن کر دیتا ہے!"
" مجھے اُلجھن
میں نہ ڈالو ۔ ان سب معاملات کو وہی جانے ۔ ہو سکتا ہے اس میں یہ مصلحت پوشیدہ ہوکہ
کبھی کوئی پائلٹ ہماری نشاندہی نہ کر سکے ! "
" سمجھ میں آنے والی بات ہے!" عمران نے پر تنظر
لہجے میں کہا۔ " لیکن تم لوگوں میں مجھے صرف یہ خامی نظر آئی ہے کہ تمہیں صرف
کام نکالنے سے غرض ہوتی ہے۔ دوسروں پر اعتماد نہیں کر سکتے !"
" یہ ہماری تنظیم کی بنیادی پالیسی ہے!"
"لیکن میں نے اس پائلٹ کے لیے وہ تدبیر کر دی ہے کہ اُسے زندہ
ہی واپس بھیجا جا سکتا ہے!“
پھر وہ اسے بتانے
لگا کہ کس طرح اُس نے راستے میں ریہرسل کی تھی اور ٹیپ ریکارڈ رو نیز کیمرے کو
استعمال کیا تھا۔
" تم نے تو کمال کر دیا پروفیسر !"
"وہ انہیں شمال کی طرف لے جائے گا جہاں اُسے جانا تھا۔ شمال
مشرق کی طرف نہیں لائے گا !"
" اچھی بات ہے۔ محض تمہارے کہنے سے ہم اسے بخش دیں گے۔
اب اٹھو میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھادوں!“
عمران اُٹھ گیا۔ جس کمرے میں وہ اُسے لائی تھی خاصا کشادہ
تھا اور اس کی سجاوٹ میں بڑے سلیقہ سے کام لیا گیا تھا۔
"تھوڑی بعد .. ہاں تم کافی پسند کرو گے یا چائے ؟" کلارا
نے پو چھا۔
" کافی بہتر رہے گی !"
"سگار یا سگریٹ؟"
"میں دخانی جانور نہیں ہوں !"
"وہ ہنستی ہوئی چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک بے حد حسین اور کم
سے کم ایس والی لڑکی کافی با نیر بس اب تم جاؤ! عمران نے خشک لہجے میں کہا۔ ” میں
خود بناؤں گا اور پی لوں گا!"
وہ حقارت سے سر جھٹک کر چلی گئی ۔
کافی بہت ہی عمدہ قسم کی معلوم ہوتی تھی۔ پہلے ہی گھونٹ پر
ایسا لگا جیسے ساری تھکن کا فورہ گار آنکھیں کھلتی چلی جاری تھیں ۔ ذہن کی حالت ایسی
ہو رہی تھی جیسے عالم شیر خوار تک کی باتیں یا انار جارہی ہوں۔ پھر اچانک اُسی
روشن ذہنی پر غبار سا چھانے لگا جو آہستہ آہستہ گہری کبر میں تبدیل ہوتاجارہا تھا۔
"خدا وندا تو کیا "وہ بوکھلا کر اُٹھ گیا۔ کافی میں
کوئی نشہ آور چیز دی گئی تھی ۔ پس دو قدم بہارلڑکھڑا کر ڈھیر ہو گیا۔
پھر آنکھ کھلی تو
وہ کرہ نہیں تھا۔ یہاں کی چاروں دیواریں شیشے کی تھیں ۔ اُن میں اپنا عکس دیکھ کر
طرح سمٹ گیا۔ بالکل برہنہ عمران تھا۔ پروفیسر شکور نہیں …لیکن… لیکن اُس کے
جسم پر تو لباس موجود تھااورچہرے پر داڑھی بھی تھی یعنی اب بھی کرنل مکرم کے میک
آپ میں تھا۔
دفعتہ کمرے کی محدود فضا میں جیگوار کا قہقہ گونجا اور پھر
استہزائیہ انداز میں کہا گیا ۔ " ہمیں دھوکادینا آسان نہیں ہے مسٹر علی عمران
!"
"چلو تسلیم کر لیا کہ تم مجھ سے زیادہ قلمند ہولیکن خدارا اب
مجھے یہاں سے اور کہیں منتقل کرد گردو، ورنہ
کتوں کی طرح بھونکنے لگوں گا !"
" تمہاری یہ خواہش ضرور پوری کی جائے گی کیونکہ تم بہر حال
ہمارے کام آئے ہو!"
دفعتہ شیشے کی ایک دیوار تھوڑی سی سرک گئی اور عمران بستر
سے اُٹھ کر دوڑتا ہوا دوسرے کمرےمیں داخل ہو گیا۔
اس کمرے میں صرف ایک بستر تھا اور دو کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔
ایک قد آدم آئینہ
بھی تھا عمران نے بوکھلا بوکھلا کر اس میں پنا جائزہ لینا شروع کیا۔ کرنل مکرم کا
میک اَپ بدستور قائم تھا۔
اب اسے بدقسمت پائلٹ یاد آیا۔ اُس کے سلسلے میں بھی ضرور
وعدہ خلافی کی گئی ہوگی یا پھر...خیالات کی رو پھر اپنی جانب پلٹ آئی۔ شاید وہ
اُسے بہت پہلے پہچان چکے تھے۔
دفعتہ اس کمرے میں بھی جیگوار کی آواز سنائی دی ۔ " کیوں
مسٹر عمران کیا خیال ہے؟"
" اب میرا کوئی خیال نہیں ہے۔ ایک بے بس پیر کی طرح
جال میں آپھنسا ہوں !"
" اور تمہیں اس سے خاصی پریشانی ہو گئی ہے!"
"پریشانی جیسا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں پایا جا تا!"
"ہم دیکھیں گے کہ تم کتنے دلیر ہو!"
"یہ دلیری نہیں بلکہ عادت ہیں۔ دلیری کا مظاہرہ مجبورا کرنا
پڑتا ہے، ورنہ آج کی دنیا میں رکھا ہی کیا ہے جس کے سلسلے میں دلیری دکھائی جائے !"
"تمہارے اس خیال سے میں متفق نہیں ہوں ۔ دراصل پروفیسر شکور
سے متعلق ہماری معلومات نا قص تھیں ۔ ہیڈ کوارٹر سے رابطہ قائم کرنے پر معلوم ہوا
کہ وہ زنجبار میں ہمارا قیدی ہے!“
"ارے مروا دیا !" عمران کراہ کر رہ گیا۔
"اور سنو ... راشد پٹھان بھی تم ہی تھے!“
"دراصل مجھے اس مظلوم لڑکی سے وہ ہوگئی ہے!“
"یہاں بھی تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تمہیں آج تک کسی سے وہ نہیں
ہوئی !"
"اب ہو گئی ہے اس لیے کہ وہ آدھی مرد ہے اور میں آدھا عورت
ہوں !“
"خیر ہمیں اس سے کیا سروکار !"
"ہاں ، تو میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ کس قسم کا
برتاؤ ہوگا؟“
"اوہ، یہی سوال پورو نے سکندر سے کیا تھا لہذا میرا جواب
سکندر کے جواب سے مختلف ہے۔ اس نے پوروکو یونانی نام پورس سے نوازا تھا... میں بھی
...!"
" بے وقوف بنانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے کیا میری ذات سے تم
لوگوں کو کوئی نقصان پہنچا ہے۔ وہ میں ہی تھا جس کے اصرار پر سنگ زادا اپنے آفس تک
پہنچا تھا !"
"ڈیوڈ کی موت کا باعث تم ہی بنے تھے !"
"کیا وہ احمق اس قابل تھا کہ زندہ رکھا جاتا ؟“
"آہا تو تم یہاں بھی ہمارے کام آئے ہو!“
"بالکل بالکل !"
"چلو یہ بھی تسلیم ۔ لیکن کیا تم اپنی صلاحیتوں کو ضائع نہیں
کر رہے ہو؟ کیا ہاتھ لگا ہے تمہارے۔ ہمارے ساتھ ہوتے تو اس وقت سوئٹزر لینڈ کے کسی
بینک میں تمہارے لاکھوں ڈالر جمع ہوتے ۔ ہم نے اس وقت بھی تمہارا تعاون حاصل کرنے
کی کوشش کی تھی جب زیر ودلینڈ والوں نے مریخ کا اسکینڈل چلا یا تھا!"
" ہاں، مجھے یاد ہے اور میں نے تنہا اُس مریخ کو تباہ
کیا تھا!"
"تنہا کام
کرنا تمہارا ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔ ہماری تنظیم کے ماہرین نے جب پورے عملےکا
تجزیہ کیا تو ان کی بھی یہی رائے تھی۔ بھیڑ بھاڑ سے کھیل بگڑ جاتا۔ زیر ولینڈ والے
پورے پورے بریگیڈ تباہ کر دیتے۔ لیکن پھر پوچھوں گا تمہیں اس سے کیا حاصل ہوا؟“
" آج تک کوئی
تمنہ بھی نہیں ملا لیکن بہر حال میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں اپنی قوم کے کام
آیا۔ اپنے ملک کے لیے قربانی دی ! "
"ہمارے ساتھ مل کر بھی تم اپنے ملک ہی کی خدمت کرو گے۔
موجودہ قیادت ہم سے فرنٹ ہوگئی ہے حالانکہ یہ اُس کی غلطی ہے اور ایک دن اعتراف
کرنا پڑے گا کہ اُس سے غلطی ہوئی تھی ! "
"سنو مسٹر جیگوار، مجھے نہ سیاست سے دلچسپی ہے اور نہ
قیادتوں سے ۔ میں تو صرف زمین کے اُس ٹکڑے کے تحفظ کو اپنا ایمان سمجھتا ہوں جو میرا
ملک کہلاتا ہے!"
"آخر ہماری ذات سے زمین کے اُس ٹکڑے کو کیا نقصان
پہنچا۔ کیا ہماری ہی امداد سے تم اپنے پیروں پر نہیں کھڑے ہوئے تھے ؟“
"ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم آزاد رہنا چاہتے
ہیں ۔ انگریزوں کی سیاسی غلامی سے آزادہونے کے بعد کسی کی اقتصادی غلامی قبول کرنے
پر تیار نہیں !"
" در اصل تم لوگ غلامی کو سیکس کا شکار ہو گئے ہو۔ پوری
قوم کا نفسیاتی تجزیہ ہونا چاہئے!" عمران کچھ نہ بولا۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر
جیگوار بولا ۔ "اچھا، اب تم آرام کرو ۔ پھر بائیں ہوں گی !"
پھر سناٹا چھا گیا۔ عمران تیزی سے اپنی کھو پڑی سہلا رہا
تھا۔
16
رات کے کھانے کی میز پر عمران تنہا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ
کلارا ڈکسن بھی تھی اور اُس کا ساتھی را برٹو بھی۔
"سنا ہے کہ تم
بہتیرے ایسے فنون سے واقف ہو جو اب مفقود ہیں ؟" کلارا نے عمران سے کہا۔
" کسی نے ہوائی چھوڑی ہوگی ۔ میں تو سیدھا سادا عمران ہوں ! "
"اگر تم پر پے در پے فائر کیے جائیں تو تم خود کو
بچالو گے؟"
"بشرطیکہ صرف ایک ہی آدمی فائر کر رہا ہو!"
"یہ بھی بڑی بات ہے۔ اگر تمہیں کسی پھر کے آدمی سے کرانا پڑے
توتم کیا کرو گے ؟"
" نہایت اطمینان سے مارا جاؤں گا !"
"نہیں، مجھے یقین ہے کہ تم کسی نہ کسی طرح خود کو بچالے جاؤ
گے!"
" کہیں امتحان نہ لے بیٹھنا !"
"یہاں اس ویرانے میں ہم تفریح کو ترس گئے ہیں لہذا میں نے یونٹ
میں اعلان کر دیا ہے کہ دس بجےشب ایک تفریحی پروگرام ہوگا !"
"مارا گیا!" عمران کراہ کر رہ گیا ۔ ” جان لینا چاہتی ہیں
تو اب کے کافی میں زہر دے دیتا۔ خواہ مخواہ تھکا کر مارنے سے کیا فائدہ؟"
"ہم تمہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں مسٹر عمران ۔ جیگوار نے تمہاری
طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے!“
"جیگوار میری سمجھ میں نہیں آیا ؟“
"اپنا ایکس ٹو سمجھ میں آگیا ہے؟“
" خدا کی پناہ ۔ تم یہ بھی جانتی ہو؟“
"جولیا نا فٹز واٹر نے بتایا تھا!"
"کنفیشن چیئر بُری بلا ہے !‘ عمران نے کہا اور اور اس ہو گیا۔
" مجھے یقین نہیں ہے مسٹر عمران کہ تم اپنے چیف کی شخصیت
واقف نہ ہو گے؟"
"بٹھا دو مجھے بھی کنفیشن چیئر پر ۔ میں تمہارا کیا بگاڑ لوں
گا !"
" مجھے یقین آگیا کہ تم بھی نہیں جانتے ! "وہ جلدی
سے بولی۔
"یہ معلوم کر کے کروگی کیا ۔ ہم لوگ تمہاری طرح اپنی حکومت کی
پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتے !“ " "کیا تم پیٹ بھر کر کھانا کھا
لینے کے بعد اپنے کرتب دکھا سکو گے؟“
"ہر گز نہیں ۔ کیونکہ اُس صورت میں مجھے نیند آنے لگے گی !"
" لہذا اب بس کرو ! "
"بس کیا!" عمران نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا۔
اور کلارا نے
رابرٹو سے کہا۔ " تم جا کر انتظام کرو۔ ایک گھنٹے بعد ہم ہال میں پہنچ جائیں
گے!"
را برٹو نے بھی ہاتھ روک لیے اور فوری طور پر اُٹھ گیا۔ اُس
کے چلے جانے کے بعد کلارا نے عمران سے کہا۔ " اب ہم کچھ دیر کھلی ہوا میں بیٹھیں
گے ۔ تمہارا کیا خیال ہے؟"
"میں بھی یہی چاہتا تھا لیکن چونکہ اب میں تمہارا قیدی
ہوں لہذا اپنی کسی خواہش کا اظہار نہیں کر سکتا!"
کلارا کچھ نہ بولی
۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے عمران کو اُٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
غار سے نکل کر وہ کھلے آسان کے نیچے آگئے اور کلار طویل سانس لے کر بولی۔ کبھی میں بھی آدمی تھی۔
"اوہو ۔تواب کیا ہو؟“
" اب میں صرف ایک روبوٹ ہوں۔ کبھی میرے بھی جذبات و احساسات
تھے لیکن اب سب کچھ ایک مرکزی مشین کے قبضے میں ہے۔ ہم اب پتھر کے آدمی ہیں۔ اس بھیڑ
میں تمہیں سب ہی سنگ زاروملیں گے !
" میرے لیے بڑی عجیب اطلاع ہے!"
”ہاں، ہم سب پتھر ہو گئے ہیں۔ اس وقت میں انسانیت کے جامے میں ہوں لیکن اگر مر کز ی کنی مشین کو حرکت دے
دے تو میں تمہارے لیے درندہ بن جاؤں گی!“
"تو تم مجھے گوشت پوست کے انسان کو پتھروں سے لڑانا چاہتی
ہو؟“
" میں یہ ثابت کرنا چاہتی ہوں کہ آدمی اب بھی مشین سے
برتر ہے۔ جیگوار سے میری بحث ہوگئی ہے۔ وہ
مشین کی برتری کا قائل ہے!“
"یہ چھوٹا کرسٹل اور بڑا کرسٹل کیا بلا ہے؟“
"ہمارے مغز کا آپریشن کر کے اس میں رکھے گئے ہیں یہ
دونوں کرنل اور یہی ہمیں آدگی ہے روبوٹ بنا دیتے ہیں۔ یعنی ہمارا ذہن مشین کے تابع
ہو جاتا ہے۔ وہ کرسٹلر کو کنٹرول کرتی ہے اور کرشن نہیں ۔ ہمیں ذہنی اور جسمانی
طور پر درندہ بنا دیتے ہیں۔ لیکن میں تمہیں ایک گر کی بات بتاؤں۔ چکن کے معامے میں
ہم آدمی ہی ہیں، روبوٹ نہیں بن سکے۔ تمہارے سائیکو مینشن میں ہنگامہ برپا کرنے کے
بعد مجھے تیرے دن تک آرام کرنا پڑا تھا۔ کیا سمجھے !"
"اچھی طرح سمجھ گیا !“
"اب پھر واپس چلو ۔ خاصی تازہ ہوا حاصل کر لی ؟"
وہ کچھ دیر بعد پھر اُسی کمرے میں تھے جہاں عمران کا قیام
تھا۔ عمران نے نہ صرف خاموشی اختیار کرنا تھی بلکہ آنکھوں میں تشویش کے آثار بھی پیدا
کر لیے تھے۔
"اوہ ، کیا تم خائف ہو عمران ؟" کلارا ڈکسن نے پوچھا۔
" نہیں مجھے وہ منظر یاد آرہا ہے جب تم نے خونخوار
چوہوں کو دیکھ کر قہقہ لگایا تھا۔ کبھی کوئی عورت اتنی اچھی نہیں لگی جتنی اچھی تم
اس وقت مجھے لگی تھیں کیونکہ دیر سے دلیر عورت بھی کم از کم تمہارے ملک میں چوہا دیکھ
کر ضرور شیخ اُٹھتی ہے!“
"اور تمہارے ملک کی عورت ؟"
"وہ تو صدا کی چوہے مار ہے!"
" میں نہیں سمجھی ؟"
"گھر کے چوہے مارنا اُس کے فرائض میں شامل ہے!"
" تم لوگ واقعی عجیب ہو!" کلارا نے اُٹھتے ہوئے
کہا۔ اچھا تو چلو، اَب ہال میں چلیں ! "
" کیا یہ تفریح جیگوار کے علم میں ہوگی ؟ "
" اُس کے حکم کے بغیر تو یہاں کچھ بھی نہیں ہوسکتا !
"
"کیا وہ ہم میں موجود ہو گا ؟"
خدا ہی جانے ...
کچھ کہا نہیں جا سکتا !"
وہ اسے اُس بڑے ہال میں لے آئی جو کسی اسٹیڈیم کا منظر پیش
کر رہا تھا۔ تماشائیوں کے لیے اسٹال بنے ہوئے تھے اور ہال کے وسط میں ایرینا تھا۔
عمران کو دوسروں پر چھوڑ کر وہ آگے بڑھتی چلی گئی ۔ تماشائی اُسے دیکھ کر اپنی
جگہوں سے اُٹھ گئے تھے ۔ پھر اس کے صدرنشین ہو جانے کے بعد وہ بھی بیٹھ گئے۔
رابرٹو اُس کی کرسی کے قریب مؤدب کھڑا رہا۔ پھر وہ کلارا کے اشارے پر آگے بڑھا اور
مجمعے کو مخاطب کر کے بولا ۔ ” پتھر کے آدمیو! اس وقت تمہارے درمیان ایک حیرت انگیز
آدمی موجود ہے لیکن وہ تمہاری طرح پتھر کا نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی ہمارے بہترین
لڑا کے اور نشانہ باز اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ سب سے پہلے وہ گولیوں
سے بچنے کا مظاہرہ کرے گا۔ ہمارا سب سے آئم نشانہ باز ایڈ گر اُس پر ریوالورسے چھ
فائر کرے گا !"
کلارا نے وہیں کھڑے
کھڑے عمران کو ایرینا میں آنے کا اشارہ کیا۔ عمران کے ہونٹوں پر عجیب کی مسکراہٹ
تھی ۔ اُس نے رابرٹو سے کہا۔ سی نیور را برٹو اپنے نشانہ بازکو یہ ضرور سکھا دیا
کہ مجھے ایرینا کے ایسے ہی رُخ پر رکھے گا کہ اُس کی خطا کی ہوئی گولی کسی تماشائی
کے نہ لگ جائے ! "
"اس کا خیال رکھا جائے گا مسٹر عمران را برٹو نے
شاہانہ انداز میں کہا اور پھر اُن کا نشانہ باز بھی بڑے شاہانہ انداز میں ایرینا میں
داخل ہوا تھا۔ اُس نے پہلا فائر کیا لیکن بے اثر ۔ عمران نے محض پینترہ بدل کر وار
خالی دیا تھا۔ غالبا نشانہ باز بھی اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ مقابل کس قسم کا
شعبدہ کار ہے۔ پھر اس نے پے در پے دو فائر کیے۔ عمران گو یا ہوا میں اڑ رہا تھا۔ تین
فائر بے اثر ہو چکے تھے۔ جمع پر سناٹا چھایا ہوتھا۔ نشانہ باز کے چہرے پر بھی ہوائیاں
اُڑنے گئی تھیں ۔ ادھر عمران نے قہقہہ لگا کر اسے جھنجلا ہٹ میں جوال کردیا اور
اُس نے بقیہ تین فائر بھی جھونک مارے لیکن بینگ آرٹ تو شاید لازوال تھا۔ عمران ایک
جانب کھڑا مسکرا رہا تھا۔
پھر فضا تالیوں کے
شور سے گونج اٹھی اور نشانہ باز سر جھکائے ہوئے ایر نیا سے نکل گیا۔
مسٹر عمران ! تمہارا مقابل قد میں تم سے کم از کم ایک فٹ
اور ایک اچھی اونچا ہوگا۔ تمہیں اس پر اعتراض تو نہیں؟" را برٹو نے پو چھا۔
“ہر گز نہیں۔ دوفیٹ
دو انچ بھی اونچا ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا!" عمران نے جواب دیا۔
پھر تالیوں سے ہال
گونجنے لگا اور کلارا نے عجیب نظروں سے رابرٹو کی طرف دیکھا لیکن کچھ ہولی نہیں ۔
تماشائی بہت محظوظ ہور ہے تھے ۔
دس منٹ بعد عمران نے اونچی آواز میں کہا۔ " میں تیار
ہوں !"
پھر تالیاں بجھیں،
ساتھ ہی ایک دیو زاد ایرینا میں داخل ہوا جس کا قدمات فیدہ سے کسی طرح کم نہ رہا
ہوگا اور یہ ایک سیاہ فام آدمی تھا۔ عمران کو دیکھ کر اُس نے ایک بریانی سا قہقہ
لگا یا اور پھر اس طرح ہوا جیسے عمران کو اٹھا کر اپنے کاندھے پر بٹھا لے گا ۔
عمران نے بڑی پھرتی سے اُس کی کھوپڑی پر دونوں ہاتھ لگائے اور اُس کے اوپر سے
گزرتا ہوا دوسری طرف نکل گیا اور وہ سیدھا کھڑا ہو گر ہونقوں کی طرح است گھورنے
لگا۔ ہال تالیوں کے شور سے گونج رہا تھا۔ سچ مچ تفریح کو ترسے ہوئے لوگ معلوم ہوتے
تھے۔ اس بار د یو زاد نے اُس پر چھلانگ لگائی۔ یہ انداز عمران کے لیے متوقع تھا
لہذا غافل نہیں تھا۔ اس بارہ اُس کی ٹانگوں کے درمیان سے نکل گیا۔ نہ صرف نکل گیا
بلکہ گردن پر ایک لات بھی رسید کردی۔ وہ کسی سے اکھڑے ہوئے درخت کی طرح فرش پر ڈھیر
ہو گیا۔ پھر تالیاں بہیں ۔ اس بار وہ اُٹھا تو بے حد خوتور ہو گیا تھا کسی بپھرے
ہوئے ریچھ کی طرح جھپٹ جھپٹ کر حملے کر رہا تھا اور عمران اُسے پورے ایر پانی
دوڑائے پھرتا رہا۔ تالیاں بجتی رہیں شور ہوتا رہا۔ بالآخر وہ دیوز او تھک کر گر
پڑا۔
پھر تو ایسا معلوم ہونے لگا جیسے ہال کی چھت ہی اُڑ جائے گی۔
کچھ لوگ ایک اسٹریچر اُٹھائے ہوئے امیرنیا میں داخل ہوئے
اور ویوز اد کو اٹھالے گئے۔
" کچھ اور… کچھ اور… ! " مجمع
چلایا۔
"خواتین و حضرات !" عمران ہاتھ اٹھا کر بولا۔ " آج
بس اتنا ہی، بقیہ کل ۔کل اس سے بھی بہتر کرتب
دیکھئے گا!"
"نہیں… نہیں… ہم تمہیں بھی
تھکا کر مار ڈالیں گے !" کئی آواز میں آئیں ۔ دفعتہ کلارا ڈکسن اُٹھ گئی اور
ہاتھ ہلا کر چینی ۔ " بکواس بند کرو اور خاموشی سے بال خالی کردو!"
مجمع پر سناٹا چھا
گیا اور لوگ خوفزدہ انداز میں اُٹھنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہال خالی ہو گیا اور
وہاں ان تینوں کے علاوہ اور کوئی نہ رہ گیا۔
را برٹو اور کلارا
بھی ایرینا میں عمران کے قریب ہی آکھڑے ہوئے تھے۔
" واقعی اپنے فنون کے ماہر ہو!" کلارا نے عمران
سے کہا۔
" شکریہ… اگر میں پہلے ہی سے تھکا ہوا نہ ہوتا تو انہیں
ہرگز مایوس نہ کرتا ! "
"کوئی بات نہیں.. . پھر سہی
!" را بر ٹو بولا۔
وہاں سے سیدھے وہ کمرے میں آئے تھے جہاں عمران مقیم تھا۔
" اپنی تھکن اُتارنے کے لیے تم کیا کرو گے؟ "رابرٹو
نے پوچھا۔
" تھکن کی قاتل صرف میٹھی نیند ہی ہو سکتی ہے !"
عمران نے جواب دیا۔
"تم جاسکتے ہو !" دفعتہ کلارا نے رابرٹو سے کہا
اور وہ اُٹھ کر چلا گیا۔ وہ تھوڑی دیر تک عمران کو بغور دیکھتی رہی پھر بولی ۔ "سونے سے پہلے کچھ دیر
کے لیے پھر کھلی ہوا میں چلو!“
"جیسی تمہاری
مرضی ! "عمران اُٹھتا ہوا بولا ۔ " کچھ ایسا زیادہ تھکا ہوا بھی نہیں
ہوں !"
وہ پھر غار سے نکل کر ہیلی پیڈ کی طرف آئے اور دفعتہ عمران
نے سوال کیا۔
"جیگوار کے مطابق دونوں کو تباہ کر دیا گیا۔ وہ تمہارے
نکتہ نظر سے متفق نہیں تھا !“
" تو پھر اب اگر اپنی خیریت چاہتی ہو تو یہاں سے ہیلی
پیڈ کی علامات ہٹا دو۔ میں نے انہیں ایک خاص راستے پر ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔ اب
وہ پورے کو ہستان میں چکراتے پھریں گے!“
"تمہارا خیال درست ہے۔ صبح تک یہاں سے یہ علامات ہٹا دی
جائیں گی۔ جیگوار بھی اسے سمجھتا ہے۔ تم سے پہلے ہی اس نے یہ مشورہ دیا تھا!"
یہ جیگوار میری عقل
سے چمٹ کر رہ گیا ہے!" عمران بڑبڑایا۔
"اور تمہارا نشانہ کیا ہے؟“
"لوگوں کا خیال ہے کہ چھ گولیوں میں سے ایک بھی ٹارگٹ
سے باہر نہیں جائے گی !"
"میں دیکھنا چاہتی ہوں !“
"اگر ربع اور ہو تمہارے پاس تو واپسی پر تہ خانے والی سیڑھیوں
پر اس کا بھی مظاہرہ کر سکوں گا۔ زینے جہاں سے شروع ہوں وہاں ایک ٹارگٹ بنا دیتا۔
ایک ایک زینہ اتروں گا اور مرد کر فائر کروں گا۔ اگر ایک گولی بھی ٹارگٹ کو مس کرے
تو و ہیں مجھے گولی مار دینا!"
" میں یہ مظاہرہ بھی دیکھوں گی ۔ ریوالور ہے میرے پاس۔
چلو واپس چلیں !"
" کھلی ہوا میں کس لیے آئی تھیں ؟"
"در اصل میری سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ تم سے ملاقات
ہونے کے بعد سے مجھے کیا ہو گیا ہے!"
" کھلی ہوا میں غالبا اس لیے آتی ہو کہ ہماری گفتگو جیگوار
تک نہ پہنچ سکے؟“
"تمہارا خیال بالکل درست ہے لیکن تم نے کیا کہنا چاہتی
ہوں یہ ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا ؟ "
"واقعی تم اپنے کرسٹل نکلوادو!"
" میں نے جیگوار
سے درخواست کی ہے، شاید منظور ہو جائے لیکن مجھے اس کو راز ہی رکھنا پڑے گا کہ اب
میں روبوٹ نہیں رہی !"
" وہ کس لیے ؟"
"کمتر کبھی جاؤں گی اور پھر وہ لوگ میرے احکامات نہیں مانیں
گے۔ جیگوار نے مجھے یونٹ کا انچارج بنا یا
ہے !"
" کہیں وہ تم سے محبت تو نہیں کرتا ؟"
" میں نہیں جانتی !"
" کیا تمہیں اُس سے محبت نہیں ہے ؟“
" میں اُس سے خائف رہتی ہوں اس لیے محبت کرنے کا سوال
ہی نہیں پیدا ہوتا۔ خیر ختم کرواس قصے کو ، یہ اور یو الور !"
وہ زینوں کے قریب پہنچ گئے تھے۔ داخلے کے دروازے پر کلارا
نے کو ملے سے ایک دائرہ بنا کر ٹارگٹ مقرر کیا اور خود جلدی جلدی نیچے اتر گئی ۔
عمران ایک زینہ اُتر کر مڑا اور فائر کر دیا۔
پے در پے اسی طرح زینے
اتر کر چھ فائر کیے اور نیچے پہنچا تو وہ نتیجہ دیکھنے کے لیے او پر دوڑی گئی۔واپس
آئی تو اُس کے چہرے پر حیرت کے آثار صاف پڑھے جاسکتے تھے۔
" واقعی تم حیرت انگیز ہو۔ ایک گولی بھی ٹارگٹ کے باہر
نہیں گئی !"
"شکر یہ !"امیرے اپنے لوگوں کی نظروں میں ان چیزوں کی
کوئی وقعت نہیں۔ وہ صرف کام چاہتے ہیں !"
وہ کچھ نہ بولی۔
عمران کے کمرے کے قریب پہنچ کر اُس نے کہا ۔" اب شاید تم کافی پینا پسند
کروگے !"
"واقعی بڑی شدت سے طلب محسوس ہوری ہے عمران نے کہا۔ وہ اب بھی
کرنل مکرم ہی کے میک اَپ میں تھا یعنی چہرہ بدستور داڑھی دار تھا۔ نہ کسی نے میک
آپ اُتارنے کو کہا اور نہ اُس نے اُتارا۔
"اچھا توتم چلو اپنے کمرے میں، میں کافی بھجواتی ہوں !"
"کسی مرد سے بھجوانا، مجھے وہ لڑکی اچھی نہیں لگتی !"
"او ہو ... وہ اس زیر ز میں بستی کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی
ہے !"
"قطعی نہیں ۔ یہاں تم سب سے زیادہ خوبصورت ہو!"
" شکریہ... میں اس تعریف کو کیا سمجھوں؟"
"خالص تعریف، اس میں کسی قسم کی بھی ملاوٹ نہیں ہے !"
وہ اُسے کمرے کے سامنے چھوڑ کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک
مردہی کافی لا یا تھا۔
عمران نے پیالی اُٹھا کر منھ سے لگالی اور کافی سپ کرنے
لگا۔ واقعی بہت اعلی درجہ کی کافی تھی لیکن یہ کیا ہوا۔ پھر وہی چکر ۔ پھر مردودوں
نے بے ہوشی آور کافی پلوادی ۔ کافی کی ٹرالی لانے والا جا چکا تھا۔
اب کیا ہوگا۔ آخر
اب کیا چاہتے ہیں۔ تو گویا ابھی تک کلارا اس سے کھیلتی رہی تھی ؟
ا ونہہ ہو گا۔ جہنم
میں جائے ۔ نیند تو شاندار آئے گی ۔ وہ پیالی ختم کر کے بستر پر لیٹا ہی تھا کہ
سناٹے میں جیگوار کی آواز گونجی ۔
" کیا بے ہوش ہو گئے مسٹر عمران ؟"
"نہیں، بس ہونے ہی والا ہوں۔ آخر یہ کیا چکر ہے؟"
"اب تھوڑی سی تفریح میں بھی لوں گا !" جیگوار کی
آواز آئی۔
" میں نہیں سمجھا ؟ "عمران کو اپنی آواز ایسی لگی
جیسے کسی کنوئیں کے اندر سے بول رہا ہو۔
" تم نے کلارا
کو متاثر کیا ہے لیکن میں اسے پسند نہیں کرتا! "
"وہ خودہی متاثر ہوئی ہوگی۔ میں نے تو اس کے لیے کوشش
نہیں کی تھی!"
"یہ اور بُرا ہے!"
"جہنم میں جاؤ! "کہہ کر وہ کروٹ لینے ہی والا تھا کہ جیگوار
کی آواز پھر آئی۔
"تم من رہے ہو مسٹر عمران ؟"
"ہاں، ابھی تو سن رہا ہوں !“
"توسنو ۔ میری تفریح یہ ہوگی کہ میں تمہیں کرنل مکرم کی حیثیت
سے تمہارے آئی ایس آئی والوں توالے کردوں !"
"نہیں !" عمران زور سے چینی اور اُٹھ بیٹھنے کی کوشش کی
لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
" تم پہلے بھی کوشش کر چکے ہو کہ سنگ زاد کی لاش تمہیں
مل جائے لہذا وہ تمہارے ساتھ کیسا برتاؤ کریں گے؟"
"میں نہیں جانتا !"
"میں جانتا ہوں مسٹر عمران ۔ ان ہی لوگوں کے ہاتھوں تم اپنے
انجام کو پہنچو گے!"
عمران کی زبان سے
آخری جملہ اگلا " پہنچ گیا !"
اور پھر وہ بیچ بیچ خراٹے لینے لگا تھا۔ جیگوار کا قبہ کمرے
میں گونجا لیکن اب وہاں سننے والا کون تھا۔
0 Comments