ہولی-نظیر
اکبر آبادی
Holi
By Nazeer Akbarabadi
پھر آن کے عشرت کا
مچا ڈھنگ زمیں پر
اور عیش نے عرصہ ہے
کیا تنگ زمیں پر
ہر دل کو خوشی کا ہوا
آہنگ زمیں پر
ہوتا ہے کہیں راگ ،
کہیں رنگ زمیں پر
بجتے ہیں کہیں تال،
کہیں زنگ زمیں پر
گھنگرو کی پری آن کے
پھر کان میں جھنکار
سارنگی ہوئی ، بین،
طنبوروں کی مددگار
طبلوں کے ٹُھکے طبل،
یہ سازوں کے بجے تار
راگوں کے کہیں غل،
کہیں ناچوں کے بندھے تار
دھولک،کہیں جھنکارے
ہے مِردنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب
رنگ زمیں پر
مستی میں اُٹھا آنکھ
جدھر دیکھو، اہاہا
ناچے ہے طوائف ، کہیں
مٹکے ہے بھَوَیّا
چلتے ہیں کہیں، جام،
کہیں سوانگ کا چرچا
اور رنگ کو گلیوں میں
جو دیکھو تو ہر اک جا
بہتی ہیں اُمنڈ کر
جمن و گنگ زمی پر
ہولی نے مچایا ہے عجب
رنگ زمیں پر
معمور ہیں خوباں سے
گلی، کوچۂ و بازار
اُڑتا ہے ابَیر، اور
کہیں پچکاری کی ہے مار
چھا یا ہے گلالوں کا ہر
اک جا پہ دُھواں دھار
پڑتی ہے، جدھر دیکھو
اُدھر، رنگ کی بوچھار
ہے رنگ چھڑکنے سے ہر
اک دنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب
رنگ زمیں پر
بھاگے ہے کہیں، رنگ
کسی پر جو کوئی ڈال
وہ پوٹلی مارے ہے
اُسے دوڑ کے فی الحال
یہ ٹانگ گھسیٹے ہے،
تو وہ کھینچے پکڑ بال
وہ ہاتھ مڑوڑے، تو یہ
توڑے ہے گھڑاگال
اِس ڈھب کے ہر اک جا
پہ مچے ڈھنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب
رنگ زمیں پر
بیٹھے ہیں سب آپس
میں نہیں ایک بھی کڑوا
پچکاری اُٹھا کر کوئی
جھمکاوے ہے کھڑوا
بھرتے ہیں کہیں مشک،
کہیں رنگ کا گڑوا
کیا شاد وہ ہوتا ہے،
جسے کہتے ہیں بھڑوا
سُننے میں یہاں تک
نہین اب ننگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب
رنگ زمیں پر
ہولی کی نظیرؔ اب جو
بہاریں ہیں، اہاہا
محبوب رنگیلوں کی
قطاریں ہیں، اہاہا
کپڑوں پہ جمی رنگ کی
دھاریں ہیں، اہاہا
سب ’’ہولی ہے ہولی‘‘ ہی پکارے ہیں اہاہا
کیا عیش ہے، کیا رنگ
ہے، کیا ڈھنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب
رنگ زمیں پر
0 Comments