آج عید گاہ میں –نظیرؔ اکبر آبادی
Aaj Eid Gah Mein
By Nazeer Akbarabadi
ہے دھوم آج مدرسہ و
خانقاہ میں
تانتے بندھےہیں مسجدِ
جامع کی راہ میں
گلشن سے کھل رہےہر اک کج کلاہ میں
سوسو چمن چمکتے ہیں
اک اک نگاہ میں
کیا کیا مزے ہیں
عید کے،آج عید گاہ میں
جھمکا ہے ہر طرف کو
جو ہے بادلا زری
پوشاک سے جھلکتے ہیں
سب تن ذری ذری
گلرو چمکتے پھرتےہیں
جوں ماہِ مشتری
ہے سب کی عید،عید کی
دل میں خوشی بھری
کیا کیا مزے ہیں
عید کے،آج عید گاہ میں
آتے ہیں اپنے گھر سے
جو بن بن کے کج کُلاہ
صحنِ چمن ہے،جتنی ہے
سب صحنِ عید گاہ
چھاتی سے لپٹے جا تے
ہیں ہنس ہنس کے خواہ مخواہ
دل باغ سب کے ہوتے
ہیں فرحت سے،واہ واہ
کیا کیا مزے ہیں
عید کے،آج عید گاہ میں
کچھ بھیڑسی ہے بھیڑ
کہ بے حدّ و بے شمار
خلقت کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ
ہیں بندھے ہر طرف ہزار
ہاتھی و کھوڑے،بیل و
رتھ و انٹ کی قطار
غُل سور بالے بھوٗلے،کھلونوں
کی ہے پکار
کیا کیا مزے ہیں
عید کے،آج عید گاہ میں
کرتے ہیں وصل شہر کے
سب خرد اور کبیر
ادنٰی،غریب،امیر سے
لے شاہ تا وزیر
ہر دم گلے لپٹ کے
مرے،یارِدل پذر
ہنس ہنس کے مجھ سے
کیتا ہے یوں، کیوں میان نظیرؔ
کیا کیا مزے ہیں
عید کے،آج عید گاہ میں
0 Comments