بسنت-نظیرؔ اکبر آبادی
Basant By Nazeer
Akbarabadi
جب پھول کا سرسوں کے
ہوا آکے کھِلنتا
اور عیش کی نظر سے
نگا ہوں کا لڑنتا
ہم نے بھی دل
اپنے کے تیئں کر کے نچنتا
اور ہنس کے کہا یار سے ،اے لَکڑ بَھَو نتا
سب کی تو بسنتیں ہیں ،پہ یا روں کا بسنتا
اک پھول کا
گیندوں کے منگار یار سے بجرا
دس من کا لیا ہار
گندھا ،آٹھ کا گجرا
جب آنکھ سے سو رج
کی ڈھلا رات کا کجرا
جا یا ر سے مل کر یہ
کہا ،اے مرے رَجرا
سب کی تو بسنتیں ہیں، یہ یاروں کا بسنتا
تھے اپنے گلے
میں تو کئی من کے پڑے
ہار
اور یار کے گجرے بھی
تھے اک دَھون کی مقدار
آنکھو ں میں نشے مَے
کے اُ بلتے تھے دُھواں دھار
جو سامنے آتا تھا،
یہی کہتے تھے للکا ر
سب کی تو بسنتیں ہیں ،پہ یاروں کا بسنتا
پگڑی میں ہما ری
تھے جو گیندوں کے کئی
پیٹر
ہر جُھو نک میں
لگتی تھی بسنتوں کے تیئیں ایڑ
سا قی نے بھی مٹکے
سے دیا مُنہ کے تئیں بھیڑ
ہر بات میں ہو تی تھی اِس با ت کی آچھیڑ
سب کی تو بسنتیں ہیں ، پہ یاروں کا بسنتا
پھر راگ بسنتی کا
ہو ا آن کے کھٹکا
دَھو نسے کے برابروہ
لگا با جنے مٹکا
دل کھیت میں
سرسوں کے ہر اک پھول سے اٹکا
ہر بات میں ہو تا تھا اِسی بات کا لٹکا
سب کی تو بسنتیں
ہیں ،پہ یاروں کی بسنتا
خوش بیٹھے ہیں سب
شاہ ووزیر آج اہاہا
دل شاد ہیں
ادنا و فقیر آج، ا ہاہا
بُلبُل کی نکلتی
ہے صفیرآج ،ا ہاہا
کہتا یہی پھرتا ہے نظیؔر آج، اہاہا
سب کی تو بسنتیں
ہیں ،پہ یا روں کا بسنتا
0 Comments