بسنت-نظیرؔاکبرآبادی
Basant By Nazeer Akbarabadi
مل کر صنم سے اپنے
ہنگام ِدل کُشائی
ہنس کر کہا یہ ہم نے
،اے جاں،بسنت آئی
سُنتے ہی اُس پری نے
،گُل گُل شگفتہ ہو کر
پو شاک زرفشا نی اپنی
وُوہیں رنگائی
جب رنگ کے آئی اُس کی پُوشاک پُر نزاکت
سر سوں کی شاخ پُر گُل
پھر جلد اک منگائی
اک پنکھڑی اُٹھا کر نا زک سی انگلیوں میں
رنگت پھر اُس کی اپنی پو
شاک سے ملائی
جس دم کیا مقا بل کسوت سے اپنی اس کو
دیکھا تو اُس کی رنگت
اُس پر ہو ئی سوا ئی
پھر تو بہ صد مسرّت
اور سو نزاکتوں سے
نازک بدن پر اپنےپو
شاک وہ کھپا ئی
بن ٹھن کے اِس طرح سے پھرراہ لی چمن کی
دیکھی بہارِ گلشن
بہرِ طرب فزا ئی
جس جس رو شِ کے اوپر جا کر ہوا نمایاں
کس کس رو شِ سے اپنی
آن وادادکھا ئی
کیا کیا بیاں ہو جیسے چمکی چمن چمن میں
وہ زرد پو شی اُ س کی ،وہ طرز ِ دل رُبائی
صد برگ نے صفت کی،نر
گس نے بے تا مّل
لکھنے کو وصف اُس کا
،اپنی قلم اُ ٹھا ئی
پھر صحن میں چمن کے
آیا بہ حسن و خو بی
اور طُرفہ تر
بسنتی ایک انجمن بنائی
اُس انجمن میں بیٹھا
جب نازو تمکنت سے
گُل دستہ اُس کے
آگےہنس ہنس بسنت لا ئی
کی مطر بوں نے
خو ش خوش آغاز نغمہ سازی
سا قی نے جامِ زرّیں
بھر بھر کے مے پلا ئی
دیکھ اُس کو اور
محفل اُس کی ،نظؔیر ،ہر دم
کیا کیا بسنت
آکر اُس وقت جمگمگائی
0 Comments