Eid Ul Fitr - Ruh ki Bedari ka Jashn|عیدالفطر-روح کی بےداری کا جشن

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Eid Ul Fitr - Ruh ki Bedari ka Jashn|عیدالفطر-روح کی بےداری کا جشن

عیدالفطر-روح کی بےداری کا جشن

Eid Ul Fitr - Ruh ki Bedari ka Jashn

پروفیسر کفیل احمدProf. Kafil Ahmad

عیدالفطر-روح کی بےداری کا جشن

 

دنیا میں آباد مختلف قوموں کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں جن کو وہ اپنے قومی جشن کی یادگار سمجھ کر عزیز رکھتی ہیں۔ ان موقعوں پر حد سے تجاوز کی ہوئی شفتگی وارفتگی ، غیر متوازن اظہار مسرت و شاد مانی اور بے اعتدال جزبہ نمود نمائش کے جو مناظر دیکھنے میں آتے ہیں وہ اس حقیقت کا منھ بولتا ثبوت ہیں کہ اسلام ہی دنیا کا وہ پہلا اور آخری دین ہے جو ہر لحاظ سے مکمل سچا اور شائستہ ہے اور جس کی بنیادیں طہارت نفس اور پاکیزگی عمل پر استوار ہیں۔


مسلمانوں کا جشن اور ماتم ،خوشی و غم سب کچھ خدا کے لئے تھا (ترجمہ)کہہ دو میری نماز میری تمام عبادات ، میرا مرنا، جینا جو کچھ ہے اللّہ کے لئے ہے جو تمام جہاں کا پروردگار ہے اور جس کا کو ئی شریک نہیں مجھ کو ایسا ہی حکم دیا گیا ہے اوروں کا جشن نشاط لذائد دنیوی کے حصول اور انسانی خواہشوں کی کا مجوئیوں میں تھا مگر ان کے ارادے مشیت الٰہی کے ماتحت اور خواہش رضائے الٰہی کی محکوم تھیں۔ ان کے لئے سب سے بڑا ماتم یہ تھا کہ دل اس کی یاد سے غافل اورزبان اسکے ذکر سے محروم ہوجائے اور سب سے بڑا جشن یہ تھا کہ سراس کی تقدیس سے لذت یا ب ہو۔ (ترجمہ) ہماری آیتوں پر وہ  لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کی وہ یاد دلائی جاتی ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور کسی طرح کا تکبر اور بڑائی نہیں کرتے۔ رات کو سوتے ہیں تو ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوتے اور امید و بیم کے عالم میں کروٹیں لے کر اپنے پروردگار سے دعا مانگتے رہتے ہیں۔


            چنانچہ اسلام کے شیدائیوں کو بارگاہ ایزدی سے اطاعت و شکر گزاری کے جشن کے لئے دو دن ملے تھے پہلا دن عیدالفطر کا تھا۔ یہ اس ماہ مقدس کے اختتام کا افضال الٰہی کے دور جدید کے اولین یوم کا جشن تھا جس میں سب سے پہلے اللّہ تبارک و تعالٰی نے اپنے کلام سے ان کو مخاطب فرمایا۔ ’’رمضان شریف کا مہینہ جس میں قرآن کریم اوّل اوّل نازل کیا گیا۔‘‘


            عید کا جشن روح کی بیداری کا جشن ہے،اس جشن روحانی کی ابتداء۲۱؍ہجری سے ہوئی۔ حضوراکرمﷺ کے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لانے کے دوسرے سال رمضان کے روزے فرض ہوئے اور چونکہ عیدالفطر کا جشن روزوں سے متعلق ہے اور لہٰذا خود پہلی عید رسول مقبول اور جمال رسالتﷺ کو دیکھنے والوں اور فیض پانے والوں نے ہجرت کے دوسرے سال ہی سنائی اور ۲ ہجری سے آج ؁۱۴۱۵ھ تک ساری دنیا میں مسلمان تاریخ عالم کے اس عظیم ترین یوم سعید کو خاس جذبہ کے ساتھ مناتے ہیں۔


            عیدالفطر ملّت اسلامیہ کے لئے ضبط نفس استقامت طبع اور تزکیہ باطن کی اعلٰی خصوصیات اور طبعی ضرورتوں اور جسمانی تقاضوں پر کامیابی کے ساتھ قابو پانے کی بے پایاں مسرتوں کے اظہار کا موثرین وسیلہ ہے۔یہ مبارک اور مقدس دن ان کی روحانی خوشی کا مظہر ہے کہ انہوں نے ریاضت نفس، ترک لذت، غیر صحت مند مشاغل سے گریز اور فسق وفجور سے اجتناب کا سلسلہ پورے ماہ تک جاری رکھا وہ انہیں اب کبھی صراط مستقیم سے بھٹکنے نہ دےگا اور نہ انکی تمام ترروحانی اور جسمانی توانائیاں بنی نوع انسانی کی بھلائی اور دین کی سربلندی کے لئے وقف رہیں گی۔


            عید کا جشن روزے، زکٰوۃ سب کچھ ایک خصوصی نظام زندگی پالینے کی شاہراہیں بنائی گئی ہیں۔ ان میں بڑے سبق ہیں، بڑے پیام ہیں عظیم تاریخی واقعات کی یادیں پوشیدہ ہیں۔ عیدالفطر جو ہم مسلمانون کا سب سے بڑا تہوار ہے وہ صرف رمضان المبارک میں روزوں سے فارغ ہونے کی خوشی کا نام نہیں بلکہ حق و باطل کی اولین آویزش غزوہ بدر ۲ ہجری میں اسلام کی پہلی عظیم فتح کی خوشی کی بھی یادگار رہے گا۔ اس مبارک اور مسعود مہینہ میں اللّہ تعالٰی نے ایک فطری قانون عطا فرمایا جس سے انسانیت نے استفادہ کرکے ایک ابدی شمع روشن کی۔


            یہی وہ مہینہ تھا کہ جس میں دنیا کے روحانی نظام پر ایک عظیم الشان انقلاب طاری ہوا اسی مہینہ میں وہ عجیب و غریب رات آئی تھی جس نے اس انقلاب عظیم کا ہمیشہ کے لئے ایک اندازہ تھی، اس کی نسبت فرمایا گیا کہ وہ گزشتہ رسولوں کی ہدایتوں کے ہزار مہینوں سے افضل ہے کیونکہ ان مہینوں کے اندر دنیا کو جو کچھ مع خدا کی نئی نعمتوں اور عطا کردہ فضلوں کے اس رات کے اندر بخش دیا گیا۔


            (ترجمہ) قرآن کریم نازل کیا گیا تھا لیلتہ القدر میں اور تم جانتے ہو کہ لیلتہ القدر کیا ہے۔ وہ ایک ایسی رات ہے جو دنیا کے ہزاروں مہینوں پر افضلیت رکھتی ہے۔


            نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ عید کے دن غریبوں کو خوشحال اور غنی کرو، چنانچہ ضمناً صدقہ فطر کی ادائیگی صاحب استطاعت مسلمانوں پر واجب قرار دی گئی۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے خوشی کی وہ تقریب جس میں غریب، مساکین، مجبور، اور نادار شریک نہ  ہوسکیں خدا کی نظر میں نا پسندیدہ ہے۔ اسلامی مساوات کے نقیب اعظم دانائے ختم الرسلﷺ کا فرمان ہے کہ روزوں کی عبادت اس وقت تک زمین و آسمان میں معلق اور بارگاہ ایزدی میں غیر معقول رہتی ہے جب تک ہر وہ شخص صدقہ فطر ادا نہیں کر لیتا جو صاحب نصاب ہو۔


            عید الفطر کے دن جب مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور اپنے رب کے حضور دعا کرتے ہیں تو اللّہ تعالٰی فرشتوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔


            (ترجمہ) ’’میرے فرشتو ! میرے بندے میرے حضور آموجود ہوئے مجھ سے چیخ چیخ کر دعائیں مانگ رہے ہیں گواہ رہو میری عزت و بزرگی فضل و کرم اور بلند مرتبے کی قسم! میں ان کی دعاؤں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر اللّہ اپنے نیک بندوں کو فرماتے ہیں واپس جاؤکہ میں نے تم کو معاف کردیا۔‘‘


            حضرت شیخ عبد القادر جیلانی تصنیف ’’غنیتہ الطا لبین‘‘ میں فرما تے ہے’’ عید انکی  نہیں جنہوں نےعمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے۔ عید انکی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا عیدتو انکی ہےجنہونے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔ عید انکی نہیں جنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور بہت سے کھانے پکائے، عید تو انکی ہے جنہونے مقدور حد تک نیک بننے کی کوشش کرکے سعادت حاصل کی، عید انکی نہیں ہے جو دنیاوی ذہنیت کے ساتھ نکلے بلکہ عید تو انکی ہے جنہونے تقوٰی اور پرہیزگاری اختیار کی۔ عید انکی نہیں جنہونے عمدہ عمدہ سوایوں پر سواری کی، عید تو انکی ہے جنہونے گناہوں کو ترک کردیا اور انکی نہیں جنہونے اپنے مکانوں کو چراغاں سے آراستہ کیا بلکہ عید تو انکی ہے جو دوزخ کے پل سے گزر گئے۔‘‘


Post a Comment

0 Comments