Hadrath Saleem Chusti Ka Urs by Nazeer Akbarabadi|حضرت سلیم چشتی کا عُرس-نظیر اکبرآبادیؔ

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Hadrath Saleem Chusti Ka Urs by Nazeer Akbarabadi|حضرت سلیم چشتی کا عُرس-نظیر اکبرآبادیؔ

 


حضرت سلیم چشتی کا عُرس-نظیر اکبرآبادیؔ
Hadrath Saleem Chusti Ka Urs by Nazeer Akbarabadi
حضرت سلیم چشتی کا عُرس-نظیر اکبرآبادیؔ

 

ہےیہ مجمع نِکو سِرِ شتی کا

ذکر کیا یاں گُنہ کی زِ شتی کا

بحر ہے عارفوں کی کشتی کا

فخر ہے حرفِ سرَ نُوِ شتی کا

 

رشک ہے گلشنِ بہشتی کا

عرس حضرت سلیم چشتی کا

 

باغِ جنّت ہے آج یہ درگاہ

پھول پھولے ہیں فیض کے دل خواہ

دیکھ رِضواں، بہاریا ں کی ، واہ

دل میں کہتا ہے دم بہ دم والّلد

 

رشک ہے گلشنِ بہشتی کا

عرس حضرت سلیم چشتی کا

 

یہ تجلّی نہ سیم وزر سے ہے

ابرِ رحمت کا نور بر سے ہے

حُو روغِلماں کی روح تر سے ہے

اور اشارہ یہی نظر سے ہے

 

رشک ہے گلشنِ بہشتی کا

عرس حضرت سلیم چشتی کا

 

بس کہ خلقت بھری ہے لا لوں لال

گھر مکاں ہےگُلوں سے ما لا مال

حُسن، راگ اور مشائخوں کے حال

بھیٹر، غل، شور،اور یہ ،قال مَقال

 

رشک ہے گلشنِ بہشتی کا

عرس حضرت سلیم چشتی کا

 

کتنے درگہہ میں فیض اُ ٹھا تے ہیں

کتنے جھر نے میں جا نہا تے ہیں

کتنے نذرو نیاز لا تے ہیں

کتنے خو ش ہو یہی سُنا تے ہیں

 

رشک ہے گلشنِ بہشتی کا

عرس حضرت سلیم چشتی کا

 

بھیڑ، انبوہ، خلق کی تکثیر کا

بادشاہ و  گداو میرو وزیر

طفل وسپیرو جواں ،غریب و فقیر

پر،سھبو ں کی زباں پہ یہ تقر یر

 

رشک ہے گلشنِ بہشتی کا

عرس حضرت سلیم چشتی کا

 

کتنے واں سیم تن بھی پھر تے ہیں

غنچہ لب، گلُ بدن بھی پھر تے ہیں

شوخ گُل پیر ہن بھی پھرتے ہیں

دل رُبا، دل شکن بھی پھر تے ہیں

 

رشک ہے گلشنِ بہشتی کا

عرس حضرت سلیم چشتی کا

 

کتنے نظروں سے زخمی ہوتے ہیں

کتنے دل اپنا مفت کھوتے ہیں

کتنے الّفت کے تخم بوتے ہیں

کتنے موتی کھڑے پروتے ہیں

 

رشک ہے گلشن ِ بہشتی کا

عرس حضرت سلیم چشتی کا

 

Post a Comment

0 Comments