عشقِ اللہ -نظیر
اکبر آبادی
Ishque Allah By
Nazeer Akbarabadi
پہلےاُس ختم ِرسا لت
سے کہو عشق اللہ
صا حِبِ خُلق و کرا
مت سے کہو عشق اللہ
گلشن ِ دیں کی طراوت سے کہو عشق اللہ
نو رِ حق ،شا فع اُ
مّت سے کہو عشق اللہ
یعنی اُس ختم ِ رسا لت سے کہو عشق اللہ
ہےجو وہ نور ِ نبی ،شیرِ خدا ،شیرِ الہَٰ
صا حب دُ لدُل و
قنبَر ،شرف ِ بیتُ اللہ
زورِ دیں ،قا تل
کَفّار ،محبّوں کی پناہ
یعنی وہ حیدر ِ کرّار
،علؔی ،اعلاہ جاہ
ہر دم اُس شاہ ِ وِلا یت
سے کہو عشق اللہ
اور وہ ،ہے جس سے
ہرا ،باغِ اما مت کا چمن
سبز پو ش ِ چمِن
ِجنّت فِردوس ،حَسَؔن
زہر نے جس سے زمرّدسا
کیا سبز بدن
یاد کر مو منو، اُس
کا وہ ہرا پیرا ہن
سبزۂ با غِ اما
مت سے کہو عشق اللہ
اور وہ گُل ،جس سے ہے
گُل زار شہا دت کا کھِلا
لے گئے دشت
ِبلا میں جو اُ سے اہلِ جفا
تین دن رات کا پیا
سا وہ بہا در یکتا
لشکرِ شؔام لو للکارکے
،تنہا وہ لڑا
گو ہر دُ رج شجا عت سے کہو عشق اللہ
اوروہ جس مرد کا ہے
نام شہر زینُ ؔالعَبا
کرؔ بلا میں وہ
اگر آہ کا شعلہ کرتا
جل کے لشکر
وہ سبھی خاک سیہ ہو جا تا
پر،سوا حق کی رضا
،اُس نے نہ کچھ دم مارا
اُس جواں مرد
کی ہمت سے کہو عشق اللہ
با قرؔ و جعفرؔ و
کا ظمؔ و رضاؔ شاہِ شہاں
اور تقیؔ نُورِ نبی
اور وہ نقی ؔ قبلۂ جاں
عسکرؔی ،مہؔدیِ ہا دی
،وہ امام ِ دوراں
ہیں زما نے میں یہی
بارہ امام ،اے یاراں
سب ہر اک صا حبِ عزّ ت سے کہو عشق اللہ
ہیں جہاں تک یہ سبھی طالب و مر شد ،فُقَرا
ہر دم اُن سب کے دلوں
میں ہے بھرا عشق اللہ
اور جس مرد نے خوش ہو
کے بہ راہِ مولا
مال و جاں ،دولت و
گھر با ر تلک بخش دیا
اُس سخی دل کی
سخا وت سے کہو عشق اللہ
جتنے اللہ نے بھیجے
ہیں ، ولی ، پیغمبر
عارف و کا مل و درویش و مشا ئخ ،رہ بر
اور جنھوں نے ہو فدا
،حق کے اُ پر کر کے نظر
راہ مولا میں خو
شی ہو کے
دیا اپنا سر
اُن شہیدوں کی
شہا دت سے کہو عشق اللہ
ہیں جو وہ صا بر و شا کر
بہ رضا ےاللہ
راہِ مولا میں چلے لے
کے تو کّل ہم راہ
جا کے جنگل میں ، پہا ڑوں
میں ، لگا حق پہ نگاہ
دل میں خوش ، بیٹھے ہو ئے کر تے ہیں اللہ اللہ
اُ ن جوا نوں کی
قنا عت سے کہو عشق اللہ
وہ جو کہلا تے ہیں
دنیا میں خدا کے بندے
بندگی کر تے ہی کرتے وہ سبھی خا ک ہو ئے
خاک بھی ہو گئے ، پر
کر تے ہیں ہر دم سجدے
کہے ہیں بات نہ ، لُو
ٹے ہیں عبا دت کے مزے
دو ستو ،اُ ن کی عبادت سے کہو عشق اللہ
اور جو وہ عا
بدوز ا ہد ہیں خدا کی رہ کے
یاں کے سب عیش و
مزے چھو ڑ دیے رہ رہ کے
چِلّے کھینچے ہیں
محبّت کی کماں گہہ گہہ کے
سو کھ کا نٹا ہو ئے ہر رنج و ستم سہہ سہہ کے
یا رو' سب اُن
کی ریا ضت سے کہو
عشق اللہ
اور جو وہ عا شق صا دق ہیں جہاں میں یکتا
عشق بازی کا لیا
نام پر اپنے سِکاّ
گر چہ معشوق کی جا نب
سے ہو ئے جو رو جفا
مر گئے تو بھی نہ منہ اپنا وفا سے مو ڑا
اُن کی جاں بازی
و جرأت سے کہو عشق اللہ
اور وہ معشوق جو ہیں
نا زو ادا میں مغرور
حُسن رکھتے بھبھو کا
سا جہاں میں پُر نور
گر چہ ظا ہر میں
وہ آتے نہیں عا شق کے حضور
پر وہ با طن میں نہیں
ا پنے خریدار سے دور
اُن کی اُ س دل کی محبّت سے کہو عشق اللہ
اور وہ ' جن پہ ہیں
احوال دو عالم کے کُھلے
چلتے دریا میں ہیں ، اور
روے ہَوا پر اُ ڑتے
چا ہیں ،پتھّر کے
تئیں لعل کر یں نظروں سے
چا ہیں ،اکسیر کر یں خا ک کو ہر دم لےلے
اُن کے سب کشف و
کر امت سے کہو عشق اللہ
اور وہ جو عشق کا گل
زار کھلا تا ہے نظیؔر
پنج تن پاک کا عالم
میں کہاتا ہے نظؔیر
ر سخیتہ ،فرد ، رباعی
بھی بنا تا ہے نظؔیر
کہ سخن عشق کا ، پھر سب کو
سنا تا ہے نظؔیر
اُس کے سب حرف و
حکا یت سے کہو عشق اللہ
0 Comments