مو سمِ برسات-نظیرؔ ا
کبر آبادی
Mausame Barsaat By Nazeer Akbarabadi
سا قیا ،موسم ِبرسات
ہے کیا رُوح فزا
دیکھ کچھ تا زگی ِ صنعت بے چون و چرا
کُھل رہی ہیں درودیوار پہ اَلو اب ِبہشت
آرہی ہے چمن خلد
کی ہر گھر میں ہوا
برگ اِشجار وہ
سرسبزہیں اور نرم و لطیف
فی المثل حلّئہ جنّت انھیں کہیے ،تو یحا
کوہ و صحرا میں وہ
سبزی ہے ،کہوں کیا گو یا
مخملِ تازہ کسی نے
ابھی یاں د ی ہے بچھا
الغر ض ،دشت تو ہیں
کا ر گہ مخملِ سبز
اور جو ہیں کوہ ،تو
اُن پر بھی زمرّد ہے فدا
ہے زمین میں چمن وباغ
،جو پا نی سے سفید
اُس میں اب عکس ہر اک گُل کا ہے یوں
جلوہ نما
عقل کہتی
ہے ،تامّل سے جسے دیکھ ،کہ یہ
تشت بِلوّرہے اقسام
جو اہر سے بھرا
شاخ پر گُل سے یہ
عالم ہے ،کہ جیسے محبوب
سُرخ دستاربہ سر رکھتا ہے،اور سبز
قبا
ہلتے اِس لُطف سے ہیں
بھیگے ہو ئے تازہ نہال
جیسی ہو ناز نیں دل
بر کے نہانے کی ادا
غُلغُل رعد خوش آتا
ہے ہر اک گوش کو یو ں
جیسے شادی میں پسند
آتی ہے نوبت کی صدا
برق بھی چمکے
ہے اور دمکے ہے ایسی ہر دم
جس سے کیا کیا اُ منڈ اور جھوم کے آئے ہے گھٹا
اِس سیہ ابر میں یوں
اُڑتے ہیں بگلے جیسے
لبِ مالیدہ مِسی
میں دُرِ دنداں کی صفا
بدلیاں بدلے ہیں وہ رنگ نئے ہر ساعت
جن کے ہر رنگ پہ
ہوں مانی
کے ارژنگ فدا
اب میں ساون کی اندھیری کی
کہوں کیا تعریف
جعدِ شیریں کہوں ،یا
زلفِ سیاہِ لیلا
جگنو اس طرح چمکتے
ہیں کہ جوں وقت ِسنگار
ماتھے پر ہاتھی کے شنگرف ہے گو یا چھڑکا
کہیں رقّا ص کا رقص
،اور کہیں مُطرب کا سَرود
کہیں ساقی ،مَے و سا
غر ،طرب و برگ ونوا
زہرہ داں ہو کے خو
شی ،گاتی
ہے وہ میگھ ملھار
جس کو سُن سُن کے ، فلک
ناچے ہے برورے ہوا
مور کا شور،فغاں غوک
کی،جھینگر کی جھِنگار
پی پی ہرآن پپیہے کی
ہے ،کوئل کی صدا
اہلِ ظاہر تو ہیں سب مستِ مےِعیش و سُرور
اہلِ باطن بھی
اُچھلتے ہیں پڑے وجد میں آ
شہر اور دشت میں
یاں چار مہینے تو نظیرؔ
ہر طرف ہو تے
ہیں گُل ،حسن و طرا وت ہر جا
0 Comments