Maut ki Chattan By Ibn-e-Safi|موت کی چٹان-ابنِ صفی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Maut ki Chattan By Ibn-e-Safi|موت کی چٹان-ابنِ صفی

 

موت کی چٹان-ابنِ صفی
Maut ki Chattan By Ibn-e-Safi

موت کی چٹان-ابنِ صفی


1

ہائی سر کل نا ئٹ کلب میں حسب معمول  کا فی رو نق تھی۔یہ شہر کے اونچے طبقے کے لو گوں کا نا ئٹ کلب تھا لیکن کرا ئم ر پورٹر  انور جیسے لو گوں پر بھی   کو ئی پا بندی نہیں تھی۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ شہر کے سارے اخباروں کے رپو رٹرو ں کی وہاں تک ر سا ئی تھی ۔انور کا معا لہ دو سرا تھا۔نا ئٹ کلب کا منیجر  اُس سے اس درجہ خا ئف رہتا تھا کہ اُس نے آج تک اس کی ممبر شپ کی بھی پروانہیں کی تھی اور خوف کی وجہ یہ تھی کہ انور کے ہا تھ میں اُس کی بعض دُکھتی رگیں تھیں  جنہیں وہ اکثر چھیڑتا رہتا تھا۔مگر اس حد تک بھی نہیں کہ معا ملہ  پو لیس کے ہاتھوں تک جا پہنچتا ۔

انور...روز مرہ کے آنے وا لوں میں سے نہیں تھا لیکن جب بھی کلب میں دکھا ئی دیتا تھا لیکن  ،منیجر کے او سا ن خطا ہو جا تے تھے۔وہ بھی کم از کم انور کی عا دت و اطوار سے تو وا قف ہی تھا۔اچھی طرح جا نتا تھا کہ انور کو نا ئٹ کلب کی تفر یحات سے کو ئی  دلچسپی نہیں ہو سکتی ۔لہٰذا آج جب اُس نے انور  اور رشیدہ کو ہال میں دا  خل ہو تے دیکھا تو  اُس کے ہا تھ  پیر پھول گئے اور وہ چپکے سے اُس کمرے میں گھس گیا جہاں نا جا ئز طور پر نہا یت اعلیٰ  پیما نے پر جوا ہو تا تھا۔اُس نے و ہا ں کے منتظم کو کچھ ضروری ہدایات دیں اور پھر ہال میں آگیا ۔انور اور رشید ہ ایک خالی میز پر بیٹھ  چکے تھے ۔وہ ان کی طرف بڑھا ۔

’’جا ؤ...جاؤ!‘‘  انور ہا تھ ہلا کر بو لا ۔’’ ہم تھک  کر یہاں  آبیٹھے  ہیں...تم کا فی مشغول ہو گئے! ‘‘

’’پھر بھی میرے لا ئق کو ئی خدمت ...بقول شا عر...!‘‘

لیکن انور نے اُسے شعر  نہیں  پڑھنے  دیا ۔

’’آج کل شعر سنتے ہی مجھے غصہ آجا تا ہے!‘‘وہ ہا تھ اٹھا کر بو لا ۔

’’آپ کی مر ضی  !‘‘ منیجر کا  مسکرا کر کنکھیوں سے رشیدہ کی طرف دیکھتا ہوابو لا ۔پھر  جھینپی ہو ئی  ہنسی کے ساتھ کاؤنٹر کی طرف وا پس چلا گیا۔

’’تم کیو ں آئے ہو یہاں ؟‘‘  رشیدہ نے انور سے پو چھا ۔

’’بز نس !‘‘ انور مسکراکر بو لا ۔’’مجھے نا ئٹ کلبو ں سے کو ئی  دلچسپی نہیں!‘‘

’’کس قسم کی بزنس؟‘‘

’’کان نہ کھاؤ !‘‘ انور جھنجلا کر بو لا۔’’ آج کا میں مفلس ہو رہا ہو ں!‘‘

’’لیکن میں تمہیں کو ئی ایسی حرکت   نہ کر نے  دوں گی!‘‘

’’کیسی حرکت ؟‘‘ انور اس کی بات کا ٹ کر تیزی  سے بو لا۔

’’دیکھو!مجھے اس طرح آنکھیں نکال کر  نہ دیکھا کرو  سمجھے!‘‘رشیدہ بھی گرم ہو گئی۔

خلاف تو قع انور نے بات نہیں بڑھائی  ۔وہ چند لمحے خا موش بیٹھا  رہا پھر مسکرا کر  بو لا۔’’میں نے  تہیہ  کر لیا ہے کہ اب اپنے  پیروں پر کھڑے ہو نے کی کو شش کروں گا!‘‘

’’بہت خوب...لیکن کیوں؟‘‘

’’اس لئے کہ میں تم سے قرض  لے کر وا پس  نہیں کرتا ...اور یہ بہت  بُری  بات ہے !‘‘ انور نے سنجید گی  سے کہا  اور رشیدہ  ہنسنے  لگی۔

’’لیکن  یہاں تم کیا کرو گے؟‘‘ اُس نے پو چھا ۔

’’اُس آدمی  کو پہچا نتی ہو ؟‘‘  انور  نے ایک بو ڑھے  اور  نحیف الحبثہ  آدمی کی طرف اشارہ کیا جو اپنی میز پر تنہا بیٹھا شیمپئن کی  چسکیاں  لے ر ہا تھا ۔

’’شا ید !‘‘ رشیدہ سر ہلا کر  بو لی۔’’ یہ  مشہور  کرو ڑ پتی  صمدا نی  ہے!‘‘

’’ٹھیک ہے !‘‘ انور نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔ " پچھلے سال میں نے اس کے لئے ایک کام کیا تھا اور اس سے مجھے ایک بھاری رقم معاوضے میں ملی تھی !‘‘

 وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہو گیا پھر مسکرا کر بولا ۔ " آخر اب مجھ سے کوئی کام کیوں نہیں لیتا ؟“

’’ انتہائی احمقانہ سوال ہے ! ‘‘رشیدہ نے منہ بنا کر کہا۔ ” کیا یہ ضروری ہے کہ اُسے ہمیشہ  اس قسم کی ضرورتیں پیش آتی رہیں !‘‘

’’آنی پڑیں گی!‘‘ انور میز پر گھونسہ مار کر بولا ۔’’ اُسے مجھ سے کام لینا ہی پڑے گا۔ اگر نہیں لے گا تو کیا پھر میں فاقے کروں گا !‘‘

" تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے!"

’’ نہیں ، وہ آج کل ایورسٹ کی بلندیوں کو چھورہا ہے۔ تم بکو اس بند کرو ۔ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اُسے سنو۔ پچھلے سال مجھے اس سے اتنی رقم ملی تھی کہ میں نے چھ ماہ تک عیش کئے تھے !"

’’مجھے یاد ہے!‘‘ رشیدہ نے کہا۔’’ لیکن تم کرو گے کیا ؟"

’’در میان میں مت بولو۔ سنتی جاؤ۔ صمدا نی  بڑا ڈرپوک آدمی ہے۔ اگر ہم تھوڑی سی محنت کریں تو بہت کچھ  پیدا کر سکتے ہیں !"

’’بلیک میلنگ!‘‘ رشیدہ نے بُرا سامنہ بنا کر کہا۔

’’ہرگز نہیں !میں شریف آدمی ہوں۔ بس اُسے تھوڑا سا خا ئف کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سید ھا میرے پاس دوڑا آئے گا!‘‘

’’آخر کس طرح ؟"

’’بہت آسانی سے !‘‘انور ختم ہوتے ہوئے سگریٹ سے دوسرا سلگاتے ہوئے بو لا ۔’’اُسے کوئی خوفنا ک چہرہ  دکھایا جائے !"

’’شاید تم نشے  میں ہو!‘‘ رشید ہ ہنسنے لگی۔

’’تم نہیں باز آؤ گی ! ‘‘انور جھلا کر بولا ۔" میں کہتا ہوں چپ چاپ سنو!‘‘

’’سناؤ!" رشیدہ نے شانوں کو جھٹکا دے کر کہا۔

’’کوئی آدمی مستقل طور سے اُس کا تعاقب شروع کر دے۔ بس وہ بوکھلا کر مجھے مطلع کرے گا !"

 " تم نے کوئی بہت ہی گھٹیا قسم کا نشہ پیا ہے ! ‘‘رشیدہ پھر ہنسنے  لگی ۔" بھنگ یا چرس تو نہیں پی گئے !"

’’تمہارا خون پیوں گا !" انور دانت پیسں کر بولا ۔

’’ ایک اُلّو اور تم میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے !‘‘ رشیدہ نے سنجیدگی سے کہا ۔ ’’ایسی صورت میں وہ پولیس کی مدد حاصل کرے گا یا تمہارے پاس دوڑا آئے گا !‘‘

’’تم اسے نہیں سمجھ سکتیں ۔ وہ پولیس سے دور ہی رہے گا!‘‘

" آخر کیوں ؟ کوئی وجہ؟"

’’پچھلے سال والا معاملہ سو فیصدی پولیس کیس تھا لیکن اُس نے پولیس کو اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی ۔ اس کے بجائے میری خدمات حاصل کی تھیں !"

’’میں وجہ پوچھو رہی ہوں اور تم واقعہ دہرا رہے ہو!"

’’اس کے آدمی سونے کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ اس لئے وہ پولیس سے دور ہی رہتا ہے۔ اسی اسمگلنگ کے سلسلے میں اُس کے کئی حریف ہیں جو اُسے زک دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔ اگر کسی پُر اسرار آدمی نے اس کا تعاقب کیا تو وہ اُسے اپنے کسی حریف ہی کی حرکت سمجھے گا ۔ ظاہر ہے کہ وہ پولیس کو اس کی اطلاع نہیں دے سکتا! "

’’ لیکن یہ تو سراسر اُسے دھوکا دے کر لوٹنا ہوگا!‘‘ رشیدہ نے کہا۔

’’پھر تمہیں اخلاقیات کا ہیضہ ہوا!‘‘ انور چڑھ کر بولا ۔ ’’یہ بتاؤ کہ اب تک اُس نے کتنوں کو لوٹا ہوگا ۔ یہی نہیں اسمگلنگ کا مطلب تو حکومت کو دھوکا دینا ہے!‘‘

’’تو پھر  تم میں اتنی اخلا قی جرأت ہو نی چا ہئے کہ تم  حکو مت کی تو جہ اس طرف مبذول کراؤ!‘‘

’’یعنی میں خود اپنے ہتھکڑیاں  لگواؤں!‘‘  انور پر ا سا منہ بنا کر بولا ۔ " کیا تمہیں اُس ایما ندار رنگروٹ سب انسپکٹر کا وا قعہ یاد نہیں  جس نے سیٹھ ر نگومل کو دواؤں کی بلیک مار کیٹنگ کر تے پکڑا تھا ...کیا  نتیجہ ہوا۔اُس بے چارے  پر  رشوت  ستانی کا مقدمہ چل گیا ۔حا لا نکہ وہ  بڑا ایماندار  آدمی تھا۔ویسے اُس نے ایک بہت بڑ ا جرم کیا تھا  کہ یہاں کے  ایک حاکم کے منظور نظر سیٹھ  رنگومل کو بلیک  مار کیٹنگ کرتے پکڑلیا!‘‘

’’ کچھ بھی ہوا!میں تمہیں اس کی رائے نہیں دوں گی !"

’’ تم میں رائے دینے کی صلاحیت ہی نہیں۔ میں تو تم سے صرف ایک کام لینا چاہتا ہوں !‘‘

’’مجھ سے ؟ " رشیدہ نے حیرت سے کہا۔

’’ میں تمہیں اس کا تعاقب کرنے کو نہیں کہوں گا!‘‘

’’پھر...؟‘‘

" قاسم کو پھانسو!"

" تعاقب کے لئے ؟ کہیں سچ مچ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو ۔ میرا خیال ہے کہ صمدانی اُسے پہچانتا ہوگا۔ وہ بھی شہر کے ایک بڑے سرمایہ دار کا لڑکا ہے !‘‘

’’میں جانتا ہوں لیکن صمدانی اُسے پہچان نہیں سکے گا !‘‘

" کیسے؟"

’’میک اَپ ! اگر وہ اُسے پہچان جائے تو میں اڑھی رکھ لوں گا !"

’’ قاسم اس کے لئے ہرگز تیار نہ ہو گا !‘‘

’’ہو جا ئے گا !‘‘ انور خود  اعتماد انہ انداز میں سر ہلا کر  بو لا ۔’’ تم اُس سے کہہ کر بھی  تو دیکھو۔بس تمہیں ذرا سا  اس کے سر پر ہا تھ پھیرنا پڑے گا !‘‘

" نہیں، میں یہ نہیں کر سکتی !"

’’تم کرو گی!‘‘ انور کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ ’’ساڑھے سات بجے ہیں ۔ صمدانی یہاں عموماً گیارہ بجے تک بیٹھتا ہے۔ قاسم تمہیں آر لکچنو  میں مل جائے گا۔ اگر وہ تیار ہو جائے تو مجھے فون کر دینا اور پھر اُسے ساتھ لے کر گھر چلی جانا۔ میں وہیں پہنچ جاؤں گا لیکن ہاں، اس کا خیال رکھنا کہ اس کی بھنک حمید کے  کان میں نہ پڑنے پائے ۔ مطلب یہ کہ اگر اُس کے ساتھ حمید بھی ہو تو تم چپ چاپ واپس چلی آنا  !"

’’ دیکھو مجھے پریشان مت !‘‘رشیدہ نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ۔’’ میں اس چکر میں پڑنا پسند نہ کروں گی۔ لیکن تم نے اس کام کے لئے قاسم ہی کو کیوں منتخب کیا ہے!"

’’قاسم کے علاوہ اور کون تیار ہو گا ؟“

’’تمہیں یقین ہے کہ وہ تیار ہو جائے گا!"

’’ ضرور!‘‘ انور نے مسکرا کر  اپنی ایک آنکھ دبالی۔’’محض اس لئے تیا ر ہو جا ئے گا کہ تم اُس سے کہو گی!‘‘

’’میں سمجھی ... تمہیں شرم نہیں آتی!‘‘

’’نہ  تم میری بیوی  ہواور نہ محبوبہ !ہم صرف دو ست ہیں۔پھر شرم کس بات کی۔ میں تمہیں مردسمجھتا ہوں…سمجھیں!‘‘

’’ہزار بارد ہر اچکے ہو!‘‘ رشیدہ بے زاری سے بولی ۔" میں یہ  نہیں کر سکتی!‘‘

 انور اور رشیدہ میں بحث چھڑ گئی۔ دونوں ساتھ رہے تھے اور انور اس کی پوری طرح حاو ی تھا لیکن  دونوں کے تعلقات ایسے نہیں تھے جن پر جنسی تعلقات کا اطلاق ہو سکتا۔ رشیدہ جاتی تھی کہ انور جس بات پر اَڑ جا تا ہے اُسے کر  کے چھوڑتا ہے۔ وہ ایک الگ فلسفہ زندگی رکھتا تھا جس میں اخلاقیات کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ اپنے کسی فعل کو توڑ  مروڑ کر اخلاقیات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا۔

 دس پندرہ منٹ تک دونوں ایک دوسرے سے اُلجھے رہے پھر رشیدہ کچھ  نر م پڑگی ۔ شکست بہر حال اسی کی ہونی تھی۔

’’ لیکن قاسم، حمید سے اس کا تذکر ہ ضرور کرے گا۔ دونوں گہرے دوست ہیں !‘‘ رشیدہ نے کہا۔

’’ ہر گز نہیں ! اگر تم اُسے منع کر دو گی تو ملک الموت بھی اُسے اس کے تذکرے پر آمادہ نہ کر سکے گا۔ میں اس کے ٹائپ سے بخوبی واقف ہوں!"

تھوڑی دیر بعد رشید ہ باہر نکلی ۔ اُس نے ایک ٹیکسی رکوائی اور آر لکچنو  کی طرف روانہ ہوگئی۔

 اس دوران میں قاسم نے بڑی شدت سے ہو ٹل بازی شروع کر رکھی تھی اور خاص طور سے آرلکچنو  میں بیٹھا کرتا تھا۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ ایک دن آرلکچنو کی کا ؤنٹر  کلرک اس کی کسی بات پر بے ساختہ ہنس پڑی تھی ۔ وہ ایک صحتمند  اور قبول صورت اینگلو انڈین لڑکی تھی۔ چونکہ اس کا تعلق ایک ہوٹل سے تھا اس لئے اس کا انداز ہر ایک سے فلرٹ سا رہتا تھا۔ بہر حال قاسم کو غلط فہی ہوگئی تھی اور وہ آر لکچنو  میں بلا  نا غہ  آنے لگا تھا ۔ روز بھی اُس لڑکی  سے دو چار باتیں ہو جاتی تھیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قاسم میں اظہارِ عشق کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ وہ تو بس اسی توقع پر زندہ تھا کہ کسی دن کوئی لڑکی اس کا ہاتھ پکڑ کر کہے گی ۔ " پیارے، مجھے تم سے پریم ہو گیا ہے!"

لیکن آج وہ بہت اداس تھا کیونکہ کا ؤنٹر کلرک غیر حاضرتھی ۔ وہ ایک میز پر تنہا  بیٹھا غم ہجراں میں ایک مرغ مسلّم کی مرمت کر رہا تھا ۔ وہ اُس کی مخصوص میز تھی۔ ہوٹل کے سارے ویٹر اُسے اچھی طرح پہچان گئے تھے کیو نکہ وہ بے تحاشا کھاتا تھا اور رخصت ہوتے وقت سَرو کرنے والے ویٹر کو بھاری ٹپ دیتا تھا۔

قاسم نے رشیدہ کو ہال میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا لیکن اسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ وہ اس کی طرف آئے گی کیونکہ ان دونوں میں محض رسمی سا تعارف تھا لہٰذا جب اُس نے اسے اپنی میز کی طرف بڑھتے دیکھاتو  اس کا دل ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار رسے دھڑکنے لگا۔ ہونٹ خشک ہو گئے اور حلق میں پھند اسا پڑ گیا۔

 رشید ہ اُس کی میز کے قریب پہنچ کر مسکرائی۔ قاسم بھی جو اباً مسکرایا لیکن ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے اُس کےدہا نے کے گوشوں میں انگلیاں ڈال کر اُسے کھینچ دیا ہو۔

’’تررر... ترشیف ...تشریف رکھئے !‘ ‘ قاسم نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’ بیٹھئے... بیٹھئے !" رشیدہ نے بیٹھتے ہوئے کہا اور قاسم بے چینی سے پہلو بدلنے لگا۔ اُس نے مرغ مسلّم کو اَب بھی دونوں ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا اور اس کے ہونٹوں اور ٹھوڑی میں مسالہ لگا ہوا تھا ۔ ہاتھ بھی ملوت تھے ۔ اسے اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر رشیدہ نے بدقّت اپنی ہنسی ضبط کی۔

"اے !‘‘قاسم نے بوکھلا کر ویٹر سے کہا۔ ” ایک مرغ مسلّم اور لاؤ!"

’’کیا میرے لئے ؟‘‘ رشیدہ جلدی سے بولی۔

’’جی ہاں ... جی ہاں ..!‘‘

’’ میرے فرشتے بھی پورا مرغ ہضم نہ کر سکیں گے! ‘‘

" کرلیں گے ۔سب چلتا ہے!" قاسم نے لا پروائی سے کہا۔ اس کی دانست میں رشیدہ تکلف کر رہی تھی ۔

’’ارے... نہیں نہیں ! " رشیدہ و یٹر کو روکتی ہوئی بولی۔ " میرے لئے صرف کافی لاؤ!"

’’ پھر کیا کھائیے گا ؟‘‘ قاسم نے پوچھا۔

" کچھ بھی نہیں !"

’’ارے واہ، یہ کیسے ہو سکتا ہے!" قاسم نے ویٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "گرلڈ چکن لے آؤ... چار!"

’’ قاسم صاحب ! مجھے مرنا نہیں ہے ! " رشیدہ نے کہا اور پھر ویٹر  سے بولی۔ " صرف کافی ... جاؤ!"

 " آپ کی مرضی !" قاسم مضمحل ہو گیا۔

’’میں کئی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ آپ سے ملوں !‘ ‘رشیدہ نے کہا۔

’’اوه... ہی ہی ہی!"

’’آپ کی شخصیت بڑی پُرکشش ہے !‘‘ رشیدہ اس کی حماقت انگیز ہنسی کو نظر انداز کر کے بولی اور قاسم کا منہ حیرت سے کھل گیا ۔ سانس تیز ہو گئی۔ اُسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

’’میں اکثر آپ کے متعلق سوچتی ہوں !"

قاسم کے حلق میں کوئی چیز اٹک گئی ۔ اس نے کوشش کی کہ وہ بھی کچھ کہے لیکن ہونٹ تک نہ ہل سکے۔

’’ آج جب کہ میں اور انور ایک دلچسپ کھیل کا پروگرام بنا رہے تھے تو معا ًمیرا ذہن آپ کی طرف گیا۔ قدرتی  بات تھی !" رشیدہ پھر خاموش ہو کر قاسم کی طرف دیکھنے لگی۔ قاسم بوکھلا کر پلکیں جھپکانے لگا بہت تیزی  سے۔

 ’’بڑا دلچسپ کھیل ہے!‘‘ رشیدہ پھر بولی۔ " صرف تین آدمی اس میں حصہ لیں گے ۔ میں... انور... اور آپ !"

’’خیا...خیل ہے؟" قاسم اپنا حلق صاف کرتا ہوا بدقت بولا۔

’’بہت دلچسپ !‘‘رشیدہ مسکرا کر بولی ۔’’ ایک آدمی کو ڈرانا ہے!"

قاسم ہنسنے  لگا۔ دل کھول کر ہنسا۔ اس طرح اس کے حلق میں پڑا ہوا پھندہ کھل گیا ۔

’’کون ڈرائے گا ؟‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’آپ!‘‘

قاسم نے پھر قہقہ لگایا اور بولا ۔"ڈرا ڈرا  کر مار ڈالوں گا سالے کو... کون ہے؟“

’’سیٹھ  صمدانی !" رشید ہ آہستہ سے بولی۔

’’ارے باپ رے !‘‘قاسم نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔

" کیوں ! کیا بات ہے؟"

’’ارے وہ تو والد صاحب کا دوست ہے!" قاسم آگے کی طرف جھک کر راز دارانہ لہجے میں بولا ۔ " میری شامت آجائے گی !‘‘

’’ وہ آپ کو پہچان نہیں سکے گا !"                                                  

’’نہیں ، وہ مجھے اچھی طرح پہچانتا ہے!"

" کہتی تو ہوں کہ نہیں پہچان سکے گا !‘‘

’’آخر کیسے؟"

" آپ کا بھیس بدلوا دیا جائے گا !"

’’میک اَپ ! " قاسم خوش ہو کر بولا ۔’’ الا قسم میں تیار ہوں۔ حمید کو اپنے میک اَپ کرنے پر بڑا ناز ہے!"

’’مگر ٹھہر یئے  ۔ آپ کبھی کسی سے اس کا تذکرہ نہیں کریں گے ۔ حمید سے بھی نہیں !‘‘

" کیوں؟"

’’بس یونہی! وعدہ کیجئے کہ آپ تذکرہ نہیں کریں گے !‘‘

" نہیں کروں گا... بالکل نہیں !‘‘

پھر قاسم نے اس سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اس کھیل کا مقصد کیا تھا۔

 رشیدہ اُسے چند منٹ کے لئے تنہا چھوڑ کر انور کو فون کرنے چلی گئی اور قاسم بیٹھا احمقوں کی طرح خود بخود ہنستا اور مسکراتا رہا۔ اُس کے ذہن میں رہ رہ کر رشیدہ کے وہ جملے گونج رہے تھے جو اُس نے اس کی تعریف میں کہے تھے۔

 رشیدہ کی واپسی پر وہ حد درجہ سنجیدہ اور سلیم الطبع نظر آنے کی کوشش کرنے لگا۔

’’آئیے ، اب چلیں ! ‘‘رشیدہ نے اُس سے کہا۔

قاسم نے بِل کے دام ادا کئے اور وہ باہر آگئے ۔ قاسم نے ایک گزرتی ہوئی ٹیکسی رکوائی اور وہ انور کے فلیٹ  کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ پچھلی سیٹ پر برابر برابر بیٹھے ہوئے تھے اور قاسم کی سانس پھول رہی تھی ۔ یہ پہلا اتفاق تھا کہ کو ئی غیر عورت اُس سے اتنے قریب تھی۔

رشیدہ اُ سے آہستہ آہستہ بتا تی  جاری تھی کہ اُْسے کیا کرنا ہے لیکن شاید ہی قاسم پوری بات سمجھا ہو۔ وہ کبھی تو دل ہی دل میں اپنی دُبلی پتلی  اور کمسن بیوی کو گالیاں دینے لگتا تھا اور کبھی اس بات پر خوش ہونے لگتا تھا کہ رشیدہ نے اُس کے لئے چند تعریفی جملے کہے تھے اور اس پر اتنا اعتماد کیا تھا کہ اُسے اپنے ایک کھیل میں شریک کرنے جارہی تھی۔

 " آپ کیا سوچ رہے ہیں ؟‘‘ رشیدہ نے کچھ دیر بعد پوچھا۔

’’جج...جی !‘‘ قاسم چونک پڑا۔ ’’کچھ تو نہیں ... ہی ہی ہی ... ارے میں سوچ رہا تھا کہ کسی کو کچھ نہ بتاؤں گا !‘‘

’’ آپ بہت اچھے ہیں !"

قاسم پھر بوکھلا گیا۔ اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی رشیدہ کے بازو آہستہ آہستہ اس کی گردن کی طرف آئیں گے اور... اور وہ ہکلا ہکلا کروم توڑ دے گا۔ اُسے اپنی اس کمزوری پر غصہ آنے لگا۔ شدید غصہ۔ اس کا دل چاہ رہا تا کہ اپنے جبڑوں پر خودہی مکّوں کی بارش کر دے۔ زبان کھینچ لے جو ایسے موقعوں پر بری طرح لڑ کھڑانے لگتی ہے۔

وہ ہانپتا  رہا اور ٹیکسی فراٹے بھرتی رہی۔

 

2

 

ساڑھے نو بج چکے تھے۔ انور ایک ٹیلیفون بوتھ میں داخل ہوا جو ہائی سرکل نائٹ کلب سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ اُس نے کلب کے نمبر ڈائل کئے اور ماؤتھ پیسں میں بولا۔

’’ہیلو منیجر ... کیا صمدانی صاحب موجود ہیں؟"

’’جی ہاں !‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

 

’’ذرا انہیں فون پر بلا دیجئے !‘‘ انور نے کہا۔

’’ٹھہریے!' دوسری طرف سے آواز آئی ۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر آواز آئی ۔ "ہیلو ...صمدانی اسپیکنگ !"

 جواب میں انور نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور فون کا سلسلہ منقطع کر کے بوتھ  سے باہر نکل آیا۔

 دوسری طرف صمدانی نے اس قہقہے کو حیرت سے سنا اور پھر وہ شاید تیسں سکنڈ تک’’ ہیلو ہیلو ‘‘کرتا رہا لیکن جواب ندارد۔

’’پتہ نہیں کون گدھا تھا ہنس  کر  کنکٹ کر دیا !‘‘ صمدانی نے منیجر کی طرف دیکھ کر کہا اور ریسیور اسٹینڈ پر رکھ  کر سو چنے لگا ۔

وہ کمزور اعصاب کا ایک دُبلا پتلا بوڑھا تھا۔ اکثر معمولی معمولی باتیں بھی اُسے اختلاج میں مبتلا کردیتی تھیں۔

لہٰذا اس وقت بھی یہی ہوا۔ میز کی طرف واپس آتے وقت اُس کے پیر کانپ رہے تھے ۔ اُس نے گلاس میں شراب  انڈیلی اور پیشانی سے پسینہ پوچھنے لگا۔

اچانک اُس کی نظریں ایک انتہائی گرانڈیل آدمی کی طرف اُٹھ گئیں جو قریب ہی کی ایک میز پر بیٹھا اُسے گھور رہا تھا۔ وہ انتہائی طویل القامت اور اُسی حد تک موٹا آدمی تھا۔ چہرے پر گھنی داڑھی اور مونچھیں اتنی گنجان تھیں کہ ہونٹ بھی چھپ کر رہ گئے تھے ۔ جسم پر انگریزی وضع کا بیش قیمت لباس تھا ۔ اس کا چہرہ یوں بھی خوفناک تھا اور پھر غصہ سے گھورتی ہوئی آنکھیں ۔

 صمدانی کے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ وہ ہاتھ کا نپنے لگا جس میں اُس نے شراب کا گلا س سنبھال رکھا تھا۔ اس نے گلاس میز پر رکھ دیا اور اُس خوفناک آدمی کے چہرے پر سے اپنی نظریں ہٹا لیں لیکن وہ زیادہ دیر تک اُسے دیکھے بغیر بھی نہ رہ سکا۔ اس نے کنکھیوں سے اُسے دیکھا۔

خوفناک آدمی اب بھی اُسے گھور رہا تھا۔

  صمدانی کی بدحواسی بڑھ گئی ۔ شہر میں اُس کے کئی حریف اور دشمن تھے یوں بھی جب کبھی اس پر اختلاج کا دورہ پڑتا تھا تو اسے ایسا محسوس ہونے لگتا تھا جیسے یک بیک اُس پر مکان کی چمت آگرے گی یا کوئی دوسرا اچانک حادثہ اُسے موت کے گھاٹ اتار دے گا۔ بہر حال اس کی بدحواسی اتنی بڑھ گئی کہ وہ گلاس کی بقیہ شراب ختم کئے بغیر ہی اُٹھ گیا۔

قاسم اپنی گھنی داڑھی پر ہولے ہولے اُنگلی پھیرتا رہا۔ جب صمدانی باہر نکل گیا تو وہ بھی اٹھا۔ صمدانی کی کار کمپاؤنڈ سے نکل رہی تھی۔ قاسم نے انور کی موٹر سائیکل سنبھالی جو پروگرام کے مطابق نائٹ کلب کی کمپاؤنڈ ہی میں موجود تھی۔

اب قاسم با قاعدہ طور پر صمدانی کا تعاقب کر رہا تھا اور دل ہی دل میں پھولا نہیں سما رہا تھا کہ اب وہ بھی کم از کم سرجنٹ حمید سے تو ٹکر لے ہی سکتا ہے۔ ایک ایک کر کے اُسے وہ سارے جاسوسی ناول یاد آنے لگے جنہیں وہ اب تک پڑھ چکا تھا اور وہ خود کو انہی میں کا ایک پُر اسرار جاسوس سمجھ رہا تھا۔

 صمدانی کی کار مختلف سڑکوں پر دوڑتی رہی اور قاسم اس کا تعاقب کرتا رہا۔ انور نے اُسے سمجھا دیا تھا اور جو کچھ اُس نے کہا تھا اُسی کے مطابق اسے عمل کرنا تھا۔ انور نے کہا تھا کہ جب تک وہ کہیں رُک کر اُتر نہ پڑے اس کا تعاقب جاری رہنا چاہئے۔ غالباً اس کا مطلب یہ تھا کہ صمدانی بھی اس تعاقب سے آگاہ ہو جائے ۔

تھوڑی دیر بعد کار اس سڑک پر مُڑ گئی جو پولو گراؤنڈ کی طرف جاتی تھی ۔ سڑک سنسان تھی اور قاسم کی موٹر سائیکل کا شور سناٹے  میں انتشار بر پا کئے ہوئے تھا۔ کار کی رفتار خاصی تیز تھی اور قاسم نے رفتار کا تناسب اتنار کھا تھا کہ موٹر سائیکل اس سے کافی فاصلے پر ہے۔

اچانک کار کی پچھلی سرخ روشنی اس کی نظروں سے غائب ہو گئی ۔ اس نے اس خیال سے موٹر سائیکل کی رفتار تیز   کردی کہ کہیں اگلی کار کی طرف گھوم نہ گئی ہو۔

 اس کا خیال غلط نکلا۔ دوسرے ہی لمحے میں موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ کی روشنی ایک کھڑی ہوئی کار کے پچھلے حصے پر پڑی۔

 کار کے قریب پہنچ کر قاسم نے موٹر سائیکل روک دی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب اُسے کیا کرنا  چاہئے۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ صمدانی کو ایک بار پھر ڈرایا جائے ، اُسے یقین تھا کہ صمدانی کار کے اندر ہی ہوگا کیونکہ قرب و جوار میں کوئی عمارت بھی نہ تھی ۔

 ابھی تک وہ خود کو ایک فلمی ہیرو تصور کر کے صمدانی کا تعاقب کر رہا تھا اور اُس نے اُسے ڈرا بھی دیا تھا۔ اس لئے اُس کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے ۔ وہ موٹر سائیکل کا انجن بند کر کے کار کی طرف یہ سوچتا ہوا بڑھا کہ صمدانی ایک خو فز دہ چوہے کی طرح کار میں دبکا ہوا ہوگا۔ کار میں اندھیرا تھا۔ قاسم نے جیب سے ٹارچ نکالی۔

 روشنی کا دائرہ صمدانی پر پڑا جو پچھلی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا لیکن چہرے پر روشنی پڑنے کے باوجود بھی اس نے اپنا چہرہ قاسم کی طرف نہیں گھمایا۔

’’ اتنا خوفزدہ ہے !‘‘ قاسم نے آہستہ سے بڑ بڑا کر کھڑکی کے اندر سر ڈال دیا۔

 اور پھر جب اُس نے قریب سے دیکھا تو اُسے صمدانی کی بائیں آنکھ کی جگہ ایک بہت بڑا سا سوراخ نظر آیا جس سے وافر مقدار میں خون نکل کر اُس کے بائیں گال پر پھیل گیا تھا۔

’’ارے باپ رے !‘‘قاسم لڑ کھڑا کر پیچھے ہٹا۔

 وہ چند لمحے چپ چاپ کھڑا رہا پھر دوبارہ " ارے باپ رے“ کا نعرہ مار کر اُس نے اپنی پوری قوت سے شہر کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔ بدحواسی میں وہ یہ بھی بھول گیا کہ یہاں تک وہ ایک موٹر سائیکل پر آیا تھا اور اسی پر واپس بھی جا سکتا تھا۔ دیو جیسے ڈیل ڈول کے باوجود بھی وہ کافی تیز دوڑ رہا تھا۔

لیکن پولو گراؤنڈ کے قریب پہنچتے پہنچتے اس کی طاقت جواب دے گئی اور وہ بجلی کے ایک کھمبے سے لپٹ کر ہا نپنے  لگا۔ اس کے ذہن میں صرف صمدانی کا خوفناک چہرہ تھا اور اب اُسے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ وہ یہاں کس لئے آیا تھا۔

کچھ ذرا سانس ٹھہری تو اُس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا لیکن اب اس میں دوڑنے کی سکت نہیں رہ گئی تھی۔ شاید آدھے ہی منٹ بعد وہ لڑھکنے والی چال سے چلنے لگا اور پھر اُس کے منہ سے منمناتی ہوئی سی آواز نکلنے لگی۔ وہ در اصل انور اور رشیدہ کو گالیاں دے رہا تھا۔ پھر اُسے یک بیک اپنی داڑھی کا خیال آگیا اور وہ اُسے بوکھلاہٹ میں نوچنے لگا ... ایک ایک بال چُن لیا۔

 پھر یہ اُس کی خوش قسمتی ہی تھی کہ پاور ہاؤز کے قریب اُسے ایک خالی ٹیکسی مل گئی۔ اب وہ انور کے فلیٹ کی طرف جارہا تھا۔ اُسے کچھ پتہ ہی نہ چلا کہ اُس نے بقیہ راستہ کس طرح طے کیا۔ وہ ایک بھرے ہوئے بورے کی طرح ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر پڑا ہوا تھا۔

 اور ٹیکسی ڈرائیور ہی نے جھنجوڑ کر اُسے بتایا کہ وہ اپنی منزلِ مقصود پہنچ چکا ہے۔  پتہ نہیں اُس نے ٹیکسی ڈرائیور کو کتنے کا نوٹ دیا اور عمارت کی طرف بڑھنے لگا۔ بہر حال ٹیکسی ڈرائیور کے تحیر آمیر انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اس نے کرائے سے بہت زیادہ دے دیا ہو۔ وہ چند لمحے کھڑا قاسم کو جاتے دیکھتا رہا پھر بڑ بڑاتا ہوا ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔’’ ایسے ہی روز پھنسا کریں...!‘‘

 قاسم نے انور کے فلیٹ کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا اور وہ دھم   سے منہ کے بَل اندرفر ش  پر جاگرا۔

’’کیا ہوا ؟‘‘ انور کرسی سے اُٹھ کر اس کی طرف جھپٹا ۔ رشیدہ بھی بڑھی۔ دروازہ اُسی نے کھولا تھا۔قاسم  کسی  تھکے ہوئے بھینسے  کی طرح فرش پر پڑا ہانپ رہا تھا ۔ وہ اب چت ہوگیا تھا اور اس کی آنکھیں بد ستور چھت پر جمی  ہوئی تھیں

’’کیا ہوا؟" انور اُسے جھنجوڑنے لگا لیکن قاسم کی آنکھیں بدستورچھت پر جمی رہیں اور وہ کچھ بولنے کے بجائے صرف ہانپتا رہا۔ انور نے رشیدہ کی طرف دیکھ کر بُر اسا منہ بنایا۔

یک بیک قاسم اچھل کر بیٹھ گیا۔

" تم نے میرا بیڑہ غرق کر دیا ! ‘‘وہ دہاڑ کر بولا۔

”ہوا کیا ؟“

’’اب مجھے پھانسی... ارے باپ رے!" قاسم خوفزدہ آواز میں بولا اور اس طرح اپنی گردن ٹٹولنے لگا جیسے سچ مچ پھانسی کا پھندہ پڑ گیا ہو۔

’’کیا ؟“ انور حیرت سے بولا ۔’’ کیا تم نے اُسے مارڈالا ؟‘‘

” میں نے !‘‘ قاسم حلق پھاڑ کر چیخا۔

’’ ذرا آہستہ پیارے، شور نہ مچاؤ! ‘‘انور نے اس کا شانہ سہلا کر کہا۔ قاسم نے کسی کنواری لڑکی کے سے انداز  میں اس کا ہاتھ جھٹ دیا اور بولا ۔

" تم نے مجھے پھانس کر اُسے ختم کر دیا!‘‘

’’ کیا کہہ رہے ہو؟ ‘‘انور بوکھلا گیا۔

’’ہاں ، اب اسی طرح بنو گے ۔ میں جارہا ہوں پولیس کو اطلاع دینے ۔نہیں تو کیا میں پھانسی پر چڑھوں گا!"

’’قاسم نہ جانے اور کیا اول فول بکتا رہا۔ بدقت تمام انور نے اس سے پوری بات معلوم کی ۔

’’میری موٹر سائیکل کہاں ہے؟‘‘ انور نے پوچھا۔

’’ہوگی سالی کہیں... میں کیا جانوں !"

’’کیوں ؟ کیا تم موٹر سائیکل پر نہیں گئے تھے؟‘‘

’’گیا تھا  !‘‘ قا سم  جھلا کر بولا۔’’  شاید وہ وہیں  رہ گئی!‘‘

’’کہاں ؟"

’’کار کے پاس !‘‘

انور بو کھلا   کر اپنا سر سہلانے لگا اور رشیدہ کے چہرے پر بھی ہوائیاں اُڑنے لگیں۔

 انور چند لمحے خاموش رہا پھر ہنس کر بولا ۔’’ اچھا اُلّو بنایا تمہیں صمدانی نے ! "

’’کیوں ؟" قاسم چونک پڑا۔

’’ تم اُسے ڈرانے چلے تھے، اُلٹا اس نے تمہیں ڈرا دیا۔ وہ بھی اپنا چہرہ بنا نے  اور بگاڑنے پر قادر ہے !"

" تو کیا وہ سب بناوٹی تھا؟" قاسم نے حیرت سے پوچھا

’’یقینا ً...ورنہ اس طرح اچانک مرجانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے... خوب اُ لّو  بنایا... بھئی واہ!"

’’تب تو میں اُس  سالے کو مار ہی ڈالوں گا۔ یہی میں بھی سوچ رہا تھا کہ آخر اتنی جلدی وہ کیسے مرگیا !"

" تم بہت تھک گئے ہو۔ خیر ہم اُسے پھر دیکھیں گے !‘‘  انور نے کہا اور رشیدہ سے بولا ۔’’ذراتم ان کے لئے طاقت کی دوا بنا لاؤ۔ وہ نیلی شیشی والی ، ورنہ ہفتوں ان کے جسم میں درد ہو گا !‘‘

’’ضرور ضرور! " قاسم سر ہلا کر بولا ۔ ’’اللہ قسم میں تھک کر چور ہو گیا ہوں !"

رشیدہ، انور کو گھورتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ اس دوران میں انور پھر ایسی باتیں کرنے لگا جس سے قاسم کو یقین آجائے کہ صمدانی نے اُسےسچ مچ بے وقوف بنایا ہے۔

رشیدہ گلاس میں دودھیا رنگ کا کوئی سیّال لے  کر واپس آئی۔

’’اِسے پی لو !‘‘ انور نے قاسم سے کہا ۔ ’’پانچ منٹ میں جوڑ جوڑ کا دردنکل جائے گا ! ‘‘

قاسم نے ایک ہی سانس میں گلاس خالی کر دیا۔ وہ پھر باتیں کرنے لگے ۔ قاسم کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتی جاری تھیں ۔ آخر اس نے مسکرا کر کہا۔ " میں تو... بلّی کا بچہ ہوں ننھا منا سا.. انور بھائی !‘‘

اور پھر کرسی پر بیٹھے ہی بیٹھے وہ گہری نیند سو گیا۔

’’یہ کیا... یہ سب کیا ہورہا ہے؟‘‘ رشیدہ خوفزدہ آواز میں بولی ۔

’’ اگر میں اسے بے ہوش  نہ کرتا تو اسی وقت یہ کسی مصیبت میں پھنس جاتا !‘‘ انور نے کہا۔

" مجھے سچ سچ بتاؤ... تم کیا کر رہے ہو؟ "

’’ وہی جو پہلے بتا چکا ہوں ۔ صمدانی کے قتل سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ شاید کوئی پہلے ہی سے اس کی گھات میں تھا !‘‘

’’لیکن اب تمہارا کیا بنے گا ۔ موٹر سائیکل بھی وہیں رہ گئی !‘‘

’’دیکھا جائے گا۔ میں تو جواری ہوں ۔ ہاں موٹر سائیکل کا معاملہ ضرور تشویشناک ہے لیکن میں اس کا بھی انتظام کئے لیتا ہوں!"

" کیا انتظام کرو گے؟"

’’موٹر سائیکل کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے جارہا ہوں۔ میں موٹر سائیکل سڑک کے کنارے چھوڑ کر ایک دُکان میں چلا گیا تھا۔ واپسی پر موٹر سائیکل غائب تھی ۔ نائٹ کلب کے قریب ہی کوئی دُکان لکھوا دوں گا!‘‘

 

3

 

دوسری صبح... پولوگراؤنڈ والی سڑک پر ایک راہگیر نے ایک کارکھڑی دیکھی جس کے اندر نظر پڑتے ہی وہ اپنی ہنسی کسی طرح نہ روک سکا۔ پھر اُس نے اچھی طرح کار کے اندر کا جائزہ لیا۔ اس دوران میں وہ برابر ہنستا رہا۔ کار کے پیچھے ایک مو ٹر سا ئیکل  بھی کھڑ ی تھی ۔

را ہگیر نے اپنی راہ لی۔ شاید اسے جلدی تھی ورنہ وہ وہاں رُک کر دوسرے راہگیروں کا بھی ردّ عمل دیکھتا۔

تھوڑی دیر بعد وہاں خاصی بھیٹر ہوگئی۔ لوگ بے تحاشہ قہقہے لگارہے تھے اور انہیں فکر تھی کہ آخر کار کا مالک کہاں گیا۔

پھر ایک پولیس مین بھی اُدھر آ نکلا۔قہقہہ  اُس نے بھی لگایا لیکن پھر لوگوں سے پوچھ گچھ کرنے لگا۔ کار کا مالک اب بھی غائب تھا۔

آخر پولیس مین نے پاور ہاؤز سے کو توالی کے لئے فون کیا۔ تشویش کی بات ہی تھی ۔ ایک کار اور ایک موٹر سائیکل ... جن کا کوئی مالک نہ تھا۔

اُسی دن شام کے اخبارات میں ایک دلچسپ خبر دکھائی دی جس پر سب نے ایک ہی سرخی جمائی تھی اور وہ سرخی تھی " کار میں گدھا"۔

خبر یہ تھی:

’’آج صبح پولو گراؤنڈ کے قریب ایک کار پائی گئی جس پر ایک گدھا سوار تھا۔ کار کی کھڑکیاں بند تھیں اور گدھا باہر نکلنے کی جدو جہد کر رہا تھا۔ جنہوں نے یہ منظر دیکھا ہے اُن کا خیال ہے کہ آئندہ شاید کبھی انہیں اتنا دلچسپ منظر نہ دکھائی دے۔ کار کے ساتھ ایک موٹر سائیکل بھی تھی۔ بعد کی اطلاعات اور زیادہ دلچسپ ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ کار شہر کے مشہور کروڑ پتی مسٹر صمدانی کی تھی اور موٹر سائیکل روز نامہ اسٹار کے کرائم رپورٹرمسٹرانور کی... مسٹر انور نے پچھلی رات کو توالی میں اپنی موٹر سائیکل کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی ۔ رپورٹ کے مطابق مسٹر انور اپنی موٹر سائیکل سڑک کے کنارے کھڑی کر کے ایک دُکان میں گئے اور واپسی پر انہیں معلوم ہوا کہ اُسے کوئی چرالے گیا۔ پولیس ابھی تک مسٹر صمدانی سے ملاقات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ورنہ کار کے متعلق بھی یقینا ًکوئی سنسنی خیز انکشاف ہوتا۔ مسٹرصمدانی کے موٹر ڈرائیور نے آج صبح ایک حیرت انگیز رپورٹ درج کرائی ہے۔ اس کا بیان ہے کہ وہ پچھلی رات مسٹر صمدانی کو لے کر ہا ئی  سرکل نائٹ کلب گیا تھا۔ اس کا بیان ہے کہ   ایک آدمی اُسے باتوں میں لگا کر کمپاؤنڈ کے ایک حصے میں لے گیا  جہاں  کسی نے پیچھے سے ا س  کے سر پر کو ئی وزنی چیز دے ماری اور و ہ چکرا کر گر پڑا ۔پھر اُس نے  آج صبح خود کو کلب کے گیراج میں پایا۔ اُس کے سر میں گہرا زخم آیا ہے۔ مسٹر صمدانی کے متعلق نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ  کہا ں ہے؟‘‘

انور خود بھی دن بھر خبروں کی فراہمی کے سلسلے میں دوڑ دھوپ کرتا رہا تھا۔ اُس نے صمدانی کی کوٹھی کے بھی کئی چکر لگائے  لیکن کوئی ہم بات نہ معلوم ہوسکی۔ جب شام کا اخبار نکل چکا تو اُس نے قاسم کے گھر کی راہ لی  ۔

جس وقت قاسم کے پاس انور کا ملا قاتی کارڈ پہنچا، وہ اپنی بیوی پر تاؤ کھار ہا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ قاسم کے منہ میں پان تھا اور وہ صوفے پر چت پڑا ہوا اپنے منہ میں پیک اکٹھا کر رہا تھا ۔ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا تھا بلکہ بڑی دیر سے سوچ رہا تھا کہ اب اُسے اُٹھ کر اگالدان میں تھوکنا چاہئے۔ وہ اٹھنے کا ارادہ کرتا رہا اور پیک کی زیادتی کی وجہ سے اس کے گال پھولتے رہے۔ اتنے میں اس کی بیوی نے آکر کوئی ایسی بات کہی جس پر قاسم کو غصہ آ گیا اور بر جستہ جواب دینے کے سلسلے میں اُسے خیال نہ رہا کہ اس کا منہ پیک سے بھرا ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری پیک اُچھل کر اُس کے سینے پر پڑی۔

’’خدا تمہیں غارت کرے !‘‘ قاسم اُسے مُکّا دکھا کر بولا ۔

 " میں نے کیا کیا ہے؟‘‘ اس کی بیوی ہنس پڑی۔

" تم نے کیوں مخاطب کیا مجھے ۔ جب جانتی تھیں کہ میرے منہ میں پیک ہے!"

’’تم تھوک کر بولے ہوتے !“

’’کیوں تھوک  کر بولا ہو تا  ۔تم  مجھ سے بولی ہی کیوں؟“

’’واہ یہ اچھی رہی ۔ گندے کہیں کے !“

’’ کیا کہا۔ میں گندہ ہوں؟'' قاسم حلق پھاڑ کر چیخا۔

’’نہیں بڑے صفائی پسند ہیں ۔ قمیص برباد کر لی !‘‘

’’ تم سے مطلب ؟میری قمیص ہے یا تم اپنے باوا کے گھر سے لائی تھیں ؟"

’’دیکھئے باپ دادا نہ چڑھئے گا ورنہ اچھا نہ ہوگا !‘‘وہ بھی تیز ہوگئی۔

’’کیا نہ اچھا ہوگا...چڑھوں گا باپ دادا ...تمہارے باپ تمہارے دادا۔ سو دفعہ تمہارے باپ دادا بلکہ ان کے بھی دادا کے دادا!"

’’دیکھتی ہوں اب کیسے گھر میں پان آتا ہے!"

’’ دیکھتا ہوں کون روکے گا۔ پان ہی نہیں ... اب تو برانڈی کی بوتلیں بھی آئیں گی !‘‘

’’چچا جان کا ہنٹر شاید بھول گئے !"

’’نکل جاؤ! " قاسم حلق پھاڑ کر چیخا ۔ اتنے میں نوکر انور کا کارڈ لے آیا۔

’’تم بھی دفان ہو جاؤ!" قاسم نے کارڈ دیکھے بغیر نوکر سے کہا۔ " میں کسی سے نہیں ملوں گا !‘‘

’’ مگر سر کار میں تو کہہ چکا ہوں کہ آپ گھر پر موجود ہیں!"

’’جاؤ کہہ دو... صاحب مر گئے... جاؤ!"

’’نہیں کہہ دو۔ صاحب اپنی قمیص پر تھوک کر بیٹھے ہیں! " قاسم کی بیوی نے کہا۔

نو کر جانے لگا۔

’’رک جابے  !" قاسم نے اُس کی گردن پکڑ لی ۔ " کیا کہے گا ؟"

"صاحب ...قمیص !"

’’گلا گھونٹ دوں گا !‘‘ قاسم دانت پیس  کر بولا ۔ ’’اس گھر پر میر احکم چلتا ہے سمجھے! "

’’جی  صاحب !"

’’جا کر کہہ دے کہ صاحب مر گئے !"

’’نو کر چلا گیا... قاسم قیص بدلنے کی فکر کرنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد نوکر پھر واپس آ گیا۔

’’صاحب وہ انور صاحب ہیں ۔ ضروری کام ہے!‘‘ اُُس نے کہا۔

قاسم سوچ میں پڑ گیا۔ وہ تھوڑی دیر قبل شام کا اخبار دیکھ کر کافی قہقہے لگا چکا تھا لیکن معاملہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔

ڈرائنگ روم میں انور اس کا منتظر تھا۔

" تم نے اخبار دیکھا؟“

’’ہاں دیکھا۔ واقعی سالا بڑا مسخرہ معلوم ہوتا ہے!“

’’ہو سکتا ہے ؟'' انور نے کہا۔ ” لیکن میں تمہیں ایک خاص بات بتانے آیا ہوں !‘‘

" کیا؟"

’’صمدانی نے مذاق ضرور کیا ہے لیکن خطر ناک قسم کا... اگر اپنی گردن سلامت رکھنا چاہتے ہوتو پچھلی رات کے سارے واقعات کے متعلق کسی سے ایک لفظ بھی نہ کہنا !‘‘

’’کیوں کیا بات ہے! صاف صاف بتاؤ ؟‘‘

’’تمہیں کئی آدمیوں نے نائٹ کلب میں دیکھا تھا۔ انہوں نے پولیس کو بتایا ہے کہ تم صمدانی کو گھور رہے تھے اور شاید وہ تم سے ڈر کر وہاں سے چلا گیا تھا۔ اُس کے پیچھے ہی پیچھے تم بھی نائٹ کلب سے نکلے تھے !"

’’تو ا سے کیا ہوا۔ وہ تو مذاق تھا اور اُس نے مذاق کیا تھا۔ کارمیں گدھا !" قاسم منہ دبا کر ہنسنے  لگا۔

’’کیا تم نے اس کے ڈرائیور کا بیان نہیں پڑھا؟ ‘‘انور نے اُسے گھور کر کہا۔

’’ وہ تمہاری حرکت تھی !" قاسم سنجیدگی سے بولا ۔ " خواہ مخواہ بے چارے کا سر پھاڑ دیا !"

’’ چلو میری ہی حرکت سہی لیکن تم بھی اس میں شریک تھے ۔ اگر کسی سے تذکرہ کیا تو بری طرح پھنس جاؤ گے !‘‘

’’ میں کیوں کرنے لگا تذکرہ ۔ ہر گز نہیں کروں گا لیکن سالے صمدانی کی تاک میں ضرور رہوں گا !"

’’ نہیں ، اب تم اس واقعے کو بھول ہی جاؤ!"

’’ بھول گیا !" قاسم نے سر ہلا کر کہا۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا۔’’ کیا واقعی رشیدہ تمہاری بیوی نہیں ہے؟"

’’کیوں ؟‘‘ انور مسکرا کر بولا ۔ " یار اُس کے چکر میں نہ پڑنا ۔ بڑی خطرناک عورت ہے!"

’’ اوہ... اس لئے تو میں اُن سے... اُن کو ...بہت اچھا سمجھتا ہوں !"

’’ خیرا چھا تو میں اب چلوں گا... خیال رہے کہ ...! ‘‘

’’میں سب سمجھتا ہوں ۔ فکر نہ کرو ۔ کل شام کو میں تمہارے گھر آؤں گا !‘ ‘قاسم نے کہا ۔

’’شاید ہم لوگ نہ ملیں ! ‘‘انور نے کہا اور وہاں سے چل پڑا۔ اس کا ذہن اب تک اُسی واقعے میں الجھا ہوا تھا۔ اس کے خیال کے مطابق قاسم نے سچ مچ  صمدانی کی لاش ہی دیکھی تھی ورنہ اتنی بدحواسی میں کبھی نہ بھاگتا۔ اس نے یہاں تک تو بتایا تھا کہ اس کی بائیں آنکھ کی جگہ ایک بڑا سا سوراخ تھا جس سے خون بہہ رہا تھا۔ پھر آخر لاش کے بجائے ایک زندہ گدھا کیوں؟ قاتل ظریف ہی نہیں بلکہ ستم ظریف تھے اور انہوں نے اس کی موٹر سائیکل بھی وہیں جوں کی توں رہنے دی تھی۔

 نوعیت کے اعتبار سے واقعات عجیب تھے۔ انور سوچ رہا تھا کہ کہیں آگے چل کر معاملات اور زیادہ پیچیدہ نہ ہو جائیں۔ پولیس والے موٹر سائیکل کی چوری کے متعلق اُسے شہبے کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔

 یہ حقیقت ہے کہ انور کو اپنی موٹر سائیکل کی وجہ سے بڑی پریشانی تھی اور وہ ابھی تک پولیس ہی کے قبضے میں تھی۔ انور نے سوچا کہ اُسے ایسے موقع پر انسپکٹر فریدی سے ضرور ملنا چاہئے ۔ دوسروں کی بات تو الگ رہی ، خود رشیدہ بھی اس کی طرف سے مشکوک تھی۔ رشیدہ کا خیال تھا کہ گدھے والی حرکت انور ہی کی تھی ۔ اُس نے لاش غائب کر کے کار میں ایک عدد گدھا ٹھونس دیا تھا۔

لیکن انور کے فرشتوں کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ قاسم کو بے ہوش کرنے کے بعد وہ سیدھا کوتوالی گیا تھا اور موٹر سائیکل کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرا کے پھر گھر واپس آ گیا تھا۔

سورج غروب ہوتے ہوتے ، فریدی کی کوٹھی میں پہنچ گیا ۔ فریدی ابھی ابھی کہیں سے واپس آیا تھا اورکیڈی کو گیرج میں ڈال کر باہر نکلا ہی تھا کہ انور سے سامنا ہوگیا۔ فریدی اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر رک گیا۔

’’خوب ! ‘‘اس نے کہا۔ " تو تم آگئے !"

انور نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بغور فریدی کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا جس پر تھوڑی بہت تھکاوٹ کے آثار نظر آرہے تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی لمبی مسافت طے کر کے آیا ہو۔

’’آؤ...اندر چلو!‘‘ فریدی نے کہا ۔" کار والے گدھے نے میرے گدھے حمید کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے اور وہ اس وقت عالبًا مسٹر صمدانی کی سکریٹری مس لو رین سے غپ لڑا رہا ہو گا !‘‘

 دونوں اندر آئے اور فریدی ایک صوفے میں گرتا ہوا بولا۔’’ شاید تم صحیح واقعہ بتانے آئے ہو!"

 " کیسا صحیح واقعہ ؟‘‘ انور گڑ بڑا کر بولا ۔ " میں نہیں سمجھا ؟"

’’فرزند!... میں آصف نہیں ہوں!" فریدی مسکرایا ۔ " موٹر سائیکل کی سچی کہانی مجھے درکار ہے کیونکہ اب معاملہ بہت زیادہ الجھ گیا ہے!"

’’موٹر سائیکل... وہ تو چوری...!‘‘

’’نہیں ! ‘‘فریدی ہاتھ اُٹھا کر بولا ۔ " وقت نہ برباد کرو ۔ موٹر سائیکل نائٹ کلب سے کافی فاصلے پر تھی ۔ تم نے جس دُکان کا حوالہ رپورٹ میں دیا ہے وہ اول تو کلب سے ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ آٹھ ہی بجے بند ہو چکی تھی اور تم نے رپورٹ میں ساڑھے نو کا وقت لکھوایا ہے۔ قبل اس کے کہ پولیس دُکاندار سے پوچھ گچھ کرتی میں وہاں پہنچ گیا لہٰذا اب وہ کسی دوسرے کو دُکان بند ہونے کا وقت آٹھ کے بجائے گیارہ بتائے گا !"

 انور کا چہرہ پھیکا پڑ گیا ۔ فریدی مسکرا رہا تھا۔

’’اگر معاملہ تمہاری موٹر سائیکل کا نہ ہوتا تو میں اتنی زحمت مول نہ لیتا !‘‘ اُس نے کہا۔

’’پھر میں کسی دوسری دُکان میں گیا ہوں گا !‘‘ انور ڈھٹائی سے بولا ۔

’’انور بکواس بند کرو! میں ابھی ابھی صمدانی کی لاش دیکھ کر آرہا ہوں ! "

’’کیا؟“ انور اُچھل پڑا۔

’’لاش آج صبح اس کے سمر ہاؤز میں پائی گئی ہے جو جھریالی کے مضافات میں ہے۔ کسی نے اس کی بائیں آنکھ میں گولی ماری ہے۔ ڈاکٹر کی رپورٹ ہے کہ یہ قتل پچھلی رات کو دس بجے کے بعد کسی وقت ہوا تھا!"

انور سناٹے میں آگیا۔

 فریدی چند لمحے انور کے چہرے کا جائزہ لیتا رہا پھر بولا ۔ " لیکن قتل سمر ہاؤز میں نہیں ہوا ۔ صمدانی کے جسم پر پورا لباس تھا اور اُس نے جوتے بھی نہیں اُتارے تھے پھر بھی اس کی لاش بستر پر پائی گئی لیکن بستر پر خون کا ایک دھبہ بھی نہیں ملا۔ ریوالور کی نال آنکھ پر رکھ کر گولی چلائی گئی تھی کیونکہ حلقے کے گرد بارود کی کھر نڈ پائی گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنی کا رہی میں قتل کیا گیا تھا اور اُسی جگہ جہاں کا ر ملی ہے!"

وہ پھر خاموش ہوکر انور کو گھورنے لگا۔ انورکی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اُ سے کیا کہنا چا ہئے۔

’’لیکن تمہاری ہی موٹر سائیکل کیوں ؟‘‘ فریدی پھر بولا۔ ’’ظاہر ہے کہ صمدانی کے ڈرائیور کو بے ہوش کر کے وہاں اسی لئے ڈال دیا گیا تھا کہ اس کی جگہ کوئی اور سنبھالے۔ خیر تو ایک پُر اسرار آدمی نے اُس کے ڈرائیور کی جگہ لی اور صمدانی اُسے نہیں پہچان سکا۔ راستے میں اس نے کار روک دی۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے صمدانی نے کار روکنے کی و جہ  پوچھی اور وہ  پُر اسرار آدمی نہایت اطمینان سے مُڑا اور اس کی بائیں آنکھ پر ریوالور رکھ کر ٹر یگر دبا دیا۔ یہ سب  تو ہوا لیکن تمہاری موٹر سائیکل کا وہاں کیا کام؟ ایسی حالت میں جب کہ وہ چرائی بھی نہیں گئی تھی !‘‘

’’ آپ کہہ رہے ہیں کہ قتل کار میں ہوا... تو پھر لاش کو وہاں اتنی دور سمر ہا ؤز  میں لے جانے کی کیا ضرورت تھی ؟“ انور نے کہا۔

’’ہُم! اور تم نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کار میں گدھا ٹھونسنے کی کیا ضرورت تھی ؟ سنوفر ز ند !اُس موٹر سائیکل پر کوئی آدمی تھا جو قاتلوں میں سے نہیں تھا اور وہ صمدانی کی کار کا تعاقب کر رہا تھا۔ محض اُس کی وجہ سے قاتلوں کو یہ دونوں حرکتیں کرنی پڑیں۔ غالبا ًوہ کسی بنا پر کچھ دیر کے لئے یہ نہیں ظاہر ہونے دینا چاہتے تھے کہ صمدانی قتل کر دیا گیا۔ کیا اُس گدھے نے پولیس کو آج دن بھر پریشان نہیں رکھا لیکن میرا خیال ہے کہ قاتلوں کا مقصد رات ہی کو حل ہو گیا ہوگی۔ شاید وہ رات ہی بھر کے لئے اس قتل کو چھپانا چاہتے تھے ورنہ وہ اُس لاش کو سمر ہاؤز لے جانے کے بجائے کہیں اور لے جاتے !"

" کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موٹر سائیکل پر میں تھا ؟‘‘ انور نے کہا۔

’’ نہیں ! مجھے تم سے اس کی توقع نہیں کہ تم کسی ایسی جگہ اپنی موٹر سائیکل چھوڑ جاؤ گے !لیکن اس پر جو کوئی تھا تم اُس سے واقف ہو اور تم قتل کی واردات سے بھی واقف ہو گئے تھے اسی لئے تم نے چوری والی کہانی گڑھی ! ‘‘

’’آپ سے کوئی کچھ چھپا نہیں سکتا!‘‘ انور مری ہوئی آواز میں بولا اور پھر اُسے پوری روداد دہرانی پڑی۔ فریدی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ  ضبط کرنے کی انتہائی کوشش کر رہا ہے۔ انور خاموش ہو کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ اس وقت فریدی سے نظر ملانے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔

’’یہ ایک قطعی غیر قانونی حرکت تھی !‘‘ اُسے فریدی کی سپاٹ اور سرد آواز سنائی دی ۔’’ اب میں اُس دوکاندار کو مجبور کروں گا کہ وہ صحیح بیان دے !‘‘

’’میں پھنس جاؤں گا !‘‘ انور بوکھلا گیا۔

’’ جہنم میں جاؤ۔ میں بے ایمانی کسی کی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ میں نے تمہیں سینکڑوں بار سمجھایا ہے کہ قانون سے کھیلنے کی کوشش نہ کیا کرو... نہیں نہیں ...میں مجبور ہوں۔ تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا اور پھر تم نے اُس گدھے قاسم کو اس میں شریک کیا تھا ... تم احمق بھی ہو!"

انور خاموش بیٹھا رہا۔ فریدی بھی خاموش ہوگیا تھا اور اب اس کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے ۔ اس نے سگارسلگا یا اور کمرے میں ٹہلنے  لگا۔ انور نے ایک غیر قانونی حرکت ضرور کی تھی لیکن قتل میں اس کا ہاتھ نہیں تھا۔ اگر وہ  یہ حرکت نہ کرتا تب بھی صمدانی قتل کر دیا جاتا کیونکہ واقعات کے اعتبار سے وہ ایک سو چی سمجھی اسکیم معلوم ہوتی تھی۔

’’ تو کیا پھر واقعی میرا غرور ٹوٹ جائے گا !‘‘انور بڑبڑایا اور فریدی رُک کر اُسے گھورنے لگا۔

 انور کہتا رہا۔ ’’دیکھئے یہ تو قریب قریب ناممکن ہے کہ میں حوالات کی شکل دیکھوں لیکن میرے راستے میں جو بھی آیا اُس کی خیر نہیں !"

" کیا یہ تم مجھ سے کہہ رہے ہو ؟"

’’نہیں، مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ آپ کو چیلنج کر سکوں لیکن پولیس والوں کی دشواریاں ضرور بڑھ جائیں گی۔ آسانی سے کوئی مجھ پر ہاتھ نہ ڈال سکے گا!"

’’ لونڈے ہو!‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ " تم اگر اتنے ہی ذہین ہوتے تو قاسم جیسے احمق کو اس کام میں نہ شریک کرتے !"

’’ جو دل چاہے کہئے ۔ اب تو جو ہونا تھا ہو ہی گیا۔ اگر صمدانی قتل نہ کر دیا گیا ہوتا تو اس وقت ایک سونے کی چڑیا میری مٹھی میں ہوتی !‘‘

 

’’تمہیں اب بھی اپنے فعل پر ندامت نہیں ہے !‘‘فریدی نے کہا ۔

’’قطعی نہیں . ..آپ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ میری پوری زندگی سے واقف ہیں۔ کیا لوگوں نے قانون ہی کی مدد سے مجھے نہیں کچلا ہے۔ کیا اخلاقیات کے مقدس ہاتھ میری گردن تک نہیں پہنچے ۔ میری نظروں میں ان دونوں کے لئے کوئی احترام نہیں ۔ میں خود اپنی جگہ پر ایک اٹل قانون ہوں !"

’’تمہیں فی الحال ایک گلاس ٹھنڈے پانی کی ضرورت ہے!‘‘اچانک برآمدے سے آواز آئی۔

یہ سر جنٹ حمید تھا اور اس کے ساتھ کا بکرا بھی تھا جس کے سر پر ایک پرانی فلیٹ ہیٹ تھی اور گلے میں ٹائی لٹک  رہی تھی۔

’’تم اس وقت بالکل سہراب مودی کی طرح ڈائیلاگ بول رہے تھے ! ‘‘حمید نے سنجیدگی سے کہا پھر بکرے کی طرف دیکھ کر بولا ۔ " بر خوردار بغرا خاں پہلے بھی تمہاری تعریف سن چکا ہے!“

’’کوئی خبر ؟‘‘ فریدی اس کی بکواس کو نظر انداز کر کے بولا ۔

’’لورین بڑی پیاری لڑکی ہے!"

’’کیوں؟‘‘ فریدی ،  انور کی طرف دیکھ کر بولا ۔’’ میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ حمید کوئی بہت ہی اہم خبر لے کر آئے گا!‘‘

’’لیکن یہ کیا فر ماتے ہیں در با ب اپنی مو ٹر سا ئیکل کے !‘‘ حمید نے چہک کر کہا ۔’’ڈی  ا یس پی  صا حب  کچھ اور سوچ ر ہے  ہیں!‘‘

’’کیا  سوچ رہے ہیں ؟"

’’لاش ملنے کے بعد سے نئی دوڑ دھوپ شروع ہو گئی ہے اور اب انہیں اُس دیو ہیکل آدمی کی تلاش ہے جو کلب میں صمدانی کو گھور رہا تھا۔ منیجر سے ایک نئی بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ ساڑھے نو بجے صمدانی کے لئے کسی کی فون کال آئی  تھی اور صمدانی نے کال ریسیو کرنے کے بعد منیجر سے کہا تھا کہ ایک قہقہ لگاکر کسی نے دوسری طرف سے سلسلہ منطقع کر دیا!‘‘

فریدی نے سوالیہ انداز میں انور کی طرف دیکھا اور انور اثبات میں سر ہلا کر اپنے جیب میں سگریٹ کا پیکٹ ٹٹو لنے لگا ۔

" کیا مطلب؟ حمید باری باری سے دونوں کو گھورتا ہوا بولا۔

’’میں اب چلوں گا ! ‘‘انور اُٹھتے ہوئے بولا۔ فریدی نے اُسے روکا نہیں ۔ حمید بھی چپ چاپ اُسے جاتے دیکھتا رہا۔

’’یہ کس لئے آیا تھا ؟‘‘حمید نے پو چھا ۔

’’بیٹھ جاؤ ...اس گدھے نے ایک حماقت کی ہے!‘‘ فریدی نے کہا اور پھر اُس نے وہ واقعات دہرا دیئے جو انور سے سنے تھے۔

" قاسم !" حمید سر ہلا کر بولا ۔ " مجھے حیرت ہے ...مگر نہیں چونکہ انور نے یہ جال رشیدہ کے ذریعے بچھوایا تھا اس لئے اس کا پھنس جانا نا ممکنات میں سے بھی نہیں !‘‘

’’ اب سوال یہ ہے کہ قاسم اپنی زبان بند بھی رکھے گا یا نہیں ! ‘‘

’’اگر رکھتا بھی ہے تو اس سے کیا فرق پڑے گا ! " حمید نے کہا۔ ” وہ دُکاندار...!"

’’ اُس کا انتظام میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ وہ ہر گز یہ نہ کہے گا کہ اُس کی دکان آٹھ ہی بجے بند ہو گئی تھی۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ انور کا ہاتھ اس قتل میں بھی ہے تو میں اس کی ضرورت نہ سمجھتا !“

’’بہر حال وہ صمدانی کو دھوکا دینے جارہا تھا !"

’’ لیکن اس کی اتنی زیادہ سزا بھی نہ ہونی چاہئے کہ اس پر قتل کا الزام عائد کر دیا جائے ۔ اصل مجرم تو پولیس کے ہاتھ لگنے سے رہے۔ وہ مجرم جن میں مزاح کی حس بھی ہو ، انتہائی ذہین اور خطرناک ہوتے ہیں ۔ مقتول کی کار میں گدھا ٹھونسنا  ان کے اطمینان اور دیدہ دلیری کی دلیل ہے !‘‘

’’پھر آپ کیا کریں گے؟"

’’قاسم کے سلسلے میں کچھ کرنا چاہئے ورنہ ظاہر ہے کہ وہ احمق بھی مفت ہی میں مارا جائے گا!‘‘

’’اِسے میں ٹھیک کرلوں گا!" حمید نے کہا ۔’’ لیکن  انور کوبھی کچھ نہ کچھ سزاملنی ہی چاہئے !"

’’اس پر  پھر غور کریں گے!‘‘

’’اچھا تو میں چلا قاسم کو سیدھا کرنے! " حمید اُٹھتا ہوا بولا۔

’’کیا کرو گے؟"

’’کچھ نہ کچھ کر ہی لوں گا... ہاں وہ لڑکی لو ر ین صمدانی کی پرائیویٹ سکریٹری ، مجھے اس پر شبہ ہے!"

’’کس بات کا ؟"

’’قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے یا پھر وہ اس کے متعلق کچھ جانتی ہے!"

’’وہ کس طرح ؟...بیٹھ  جاؤ!"

’’گفتگو کے دوران میں اُس نے کئی غلط بیانیاں کیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ صمدانی کی پرائیویٹ سکریٹری تھی لہٰذااُسے جتنا دخل صمدانی کے مزاج میں رہا ہوگا کسی اور کو نہیں ہو سکتا۔ میں نے اُس سے پوچھا تھا کہ کیا اس دوران میں صمدانی کچھ پریشان نظر آتا تھا ؟ اس نے اس کا جواب نفی میں دیا حالانکہ کئی نوکروں کی زبانی میں یہ سن چکا تھا کہ صمدانی دو تین دن سے بہت زیادہ پریشان تھا۔ اکثر راتوں کو اُٹھ کر ٹہلتا تھا۔ کچھ خوفزہ بھی تھا۔ سوتے وقت اپنے کمرے کی کھڑکیاں خود ہی بند کرتا تھا ۔ اگر وہ بند ہوتی تھیں تو سونے سے قبل ایک بار اُن کے بولٹ ضرور ٹٹول لیتا تھا ؟"

’’تو تم اس لڑکی کے پیچھے پڑنے کے لئے زبردستی کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔

’’ہاں ،وہ انڈے   دیتی ہے نا !‘‘ حمید جھنجلا گیا۔

’’ اس کے ورثا کے متعلق کیا معلومات حاصل کیں ؟‘‘

’’لاوارث ...یعنی  کوئی اولاد نہیں ... پتہ نہیں یہ سالے زیادہ تر لاولد کیوں ہوتے ہیں ۔ بیوی عرصہ ہوا مر چکی، ایک بھتیجا ہے۔ وہ خود بھی بڑا سرمایہ دار ہے! "

’’کون ؟"

’’سجاد صمدانی... اور وہ تین سال سے یوروپ میں ہے ۔ یہاں اس کی کافی بڑی تجارت ہے جسے اُس کے منیجر کنٹرول کرتے ہیں!"

’’تو بس وہی ایک بھتیجا ہے؟"

’’جی ہاں ...لیکن میرا خیال ہے کہ وہ قاتل نہ ہو گا !"

’’میں فی الحال تمہارا خیال نہیں دریافت کر رہا ہوں ... اور کوئی خبر ؟‘‘

’’بر خور دار بغر ا خاں آج چھ سست ہے !‘‘حمید نے بکرے کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’اسے یہاں سے لے جاؤ ورنہ میں تمہیں پیٹوں گا!‘‘

’’چلا جا ئے گا جناب ! کیا آپ نے اُسے یتیم سمجھ لیاہے!‘‘ حمید اُٹھتا ہوا بولا۔وہ جلد سے جلدقا سم کے پاس پہنچ کر  اس کی مرمت کرنا چا ہتا تھا۔

لیکن اس کی یہ خوا  ہش پوری نہ ہو سکی  کیو نکہ  اُسی  وقت نوکر  بے ڈی ایس پی  سٹی کی اطلاع دی اور اس کی آمد  دلچسپی سے خا لی  نہیں ہو سکتی تھی اس لئے حمید نے فی الحال با ہر  جا نے کا ارادہ ترک کر دیا ۔اُسے یہ بھی  نہیں معلوم تھا کہ  آج کل  اُس سے  فریدی  کے کیسے  تعلقات  ہیں۔کبھی اُن دونوں  میں کھٹک  بھی جا تی  تھی اور وہ  ایک دوسرے کی راہ  میں روڑے اٹکانے لگتے تھے  اور کبھی ایسا بھی ہو تا تھا کہ  دونوں  شا نہ  بشا نہ  کام کر تے نظر آتے تھے۔

فریدی نے ڈرا ئنگ روم  میں ڈی ایس پی  کا استقبال  کیا۔

ڈی ایس پی کے چہرے  سے تھکن  کے آثار  ظا ہر ہو رہے تھے  اور وہ تنہا ہی تھا۔

’’اس کیس  نے تو چکر  اکر  رکھ دیا  ہے!‘‘ وہ بیٹھتا  ہو ا بولا۔

’’بات کچھ ایسی ہی ہے!‘‘ فریدی  نے سنجیدگی  سے کہا۔

’’اور آپ خلاف  معمول  بہت زیادہ خا مو ش نظر آرہے ہیں ۔میں نے آپ  کو اس  مو ڈ میں کبھی  نہیں دیکھا!‘‘

’’کبھی کبھی  ایسا بھی ہو تا ہے۔ بعض سیدھے سادے  معاملات کی تہہ تک پہنچنا بھی  دشوار  معلوم ہو نے لگتا ہے!‘‘

’’گھما  پھرا کر  سو چنے  کی عا دت  ہی بُری  ہو تی ہے!‘‘ ڈی ایس پی نے کہا۔

حمید  مسکرانے  لگا ۔وہ اس گفتگو  کا مقصد  اچھی  طرح سمجھتا  تھا۔ اس طرح  ڈی ایس  پی  فریدی  سے معلومات حا صل کر نا چا ہتا تھا لیکن  فریدی نے اس جملے  کا کو ئی جواب نہ دیا۔

’’سگار !‘‘ وہ  ڈیس  ایس پی کی طرف  سگار  کیس بڑھا تا ہو ا بو لا ۔

ڈی ایس  پی نے سگار  لے کر  سلگایا۔کچھ دیر خا مو شی  رہی پھر  اُس نے  کہا۔

’’لیکن  اُ س کرا ئم  رپو رٹر   کی مو ٹر سائیکل  مجھے  اُلجھن میں ڈا لے ہوئے  ہے۔وہ کوئی نیک  نام آدمی  نہیں!‘‘

’’الجھن  میں ڈالنے  کے لئے  صرف  مو ٹر سا ئیکل ہی نہیں ہے!‘‘ فریدی  نے مسکرا کر کہا۔’’ اس گدھے کے متعلق آپ کیا  کہیں  گے اور وہ لاش  جو سمر ہاؤز میں پا ئی  گئی ۔میں یہ  پہلے  ہی ثا بت کر چکا ہو ں  کہ قتل  سمر ہاؤز میں نہیں ہو اتھا!‘‘

’’ٹھیک ہے، پورا کیس ہی الجھا ہوا ہے ۔ صمدا نی کی کار میں بھی  دو ایک  جگہ خون کے  دھبے  ملے ہیں جن پر  شا ید مجرموں کی نظر  نہیں پڑی تھی  حا لانکہ  انہوں نے  حتی  الا مکان  صفائی   کر نے  کی کو شش کی ہو گی  لیکن مو ٹر سائیکل  کا معا ملہ ...بھئی  وہ دُکان  جہاں اُس  نے مو ٹر سا ئیکل کھڑ ی کی تھی نہ  صرف کلب  سے   دور  ہے بلکہ  ایک دو سری  سڑک کے مو ڑ پر وا قع ہے!‘‘

’’میں آپ کا مطلب  سمجھتا ہوں!‘‘ فریدی نے سنجیدگی سے کہا ۔’’ لیکن آپ کو یہ  تسلیم  ہے کہ  مجرموں نے کیس کو  پیچیدہ بنا نے  کی کوشش کی ہے!"

’’ قطعی! "

’’تو پھر وہ موٹر سائیکل بھی اُسی  سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ انور کوئی گمنام آدمی نہیں اور بہتیرے آدمیوں کو یہ بات بھی معلوم ہوگی کہ وہ اکثر پولیس سے اُلجھتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مجرموں نے اسی سے فائدہ اُٹھا کر اُسے پھنسانے کی کوشش کی ہو، ورنہ موٹر سائیکل لے بھاگنے کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا جبکہ مجرموں کے پاس ایک کار اور بھی تھی ۔ کار نہیں بلکہ ٹرک کہئے !"

" کیوں ۔ ٹرک کیوں؟"

’’اوہو۔ تو کیا آپ نے سر ہاؤز کے سامنے دوہرے پہیوں کے نشانات نہیں دیکھے۔ دوہرے پہئے صرف ٹرک یا بس میں لگائے جاتے ہیں ، کار میں نہیں۔ وہ غالباً اُسی ٹرک پر لاش وہاں تک لے گئے تھے۔ ہاں تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجرم گاڑیوں کی چوری اُسی وقت کرتے ہیں جب اُن کے پاس کوئی گاڑی نہ ہو۔ ورنہ وہ اس قسم کا خطرہ نہیں مول لیتے خصوصاً جب معاملہ قتل کا ہو۔ میرا خیال ہے کہ یہ حرکت انور کو پھنسانے ہی کے لئے کی گئی تھی ! ‘‘

’’اچھا، اگر میں صاف صاف یہ کہوں کہ انور بھی اس جرم میں شریک ہے تو !‘‘ ڈی ایس پی بولا۔

’’میں اسے ہرگز نہ تسلیم کردوں گا !‘‘

’’انور آپ کا دوست ہے نا... اور شاید وہ خود کو آپ کا شاگر د بھی کہتا ہے ! ‘‘

’’دلیل ڈی ایس پی صاحب !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ " میں کوئی بات بغیر دلیل نہیں کہتا۔ کیا آپ انور کو احمق سمجھتے ہیں ؟‘‘

’’ہر گز نہیں ، وہ شیطان کا بھی چچا ہے!"

’’یعنی کافی ذہین ہے!‘‘ فریدی سر ہلا کر بولا ۔ ’’کیا کوئی ذہین آدمی ... آدمی نہیں بلکہ صاف صاف مجرم کہئے، کیا کوئی ذہین مجرم کسی ایسی جگہ کوئی اس قسم کا سراغ چھوڑ سکتا ہے جس سے اُس کی گردن پھنس جائے !‘‘

’’ جلد بازی اور گھبراہٹ میں ایسا ممکن ہے! ‘‘ڈی ایس پی نے کہا۔

فریدی نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور پھر بولا ۔” کیا اسے آپ جلد بازی کہیں گے ۔ صمدانی کو کار میں قتل کیا گیا ۔ پھر سیٹ پر سے خون کے دھبے مٹائے گئے ۔ لاش ایک ٹرک میں لا دی گئی پھر کار میں گدھا ٹھونسا گیا۔ کون اسے جلدی یا گھبراہٹ کا کام کہے گا۔ پھر پولیس کو اطلاع ہوتی ہے دوسرے دن صبح ۔ کیا رات بھر میں موٹر سائیکل وہاں سے ہٹائی نہیں جا سکتی تھی ؟‘‘

ڈی ایس پی ایک گہری سانس لے کر صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔ اس کے چہرے پر تھکن کے آثار اور زیادہ گہرے ہو گئے تھے۔

حمید ،فریدی کی ذہانت پر عش عش کر رہا تھا کہ اُس نے کتنی صفائی سے انور کو اس معاملے سے الگ کر دیا۔

’’میں تو محض !‘‘ڈی ایس پی تھو ڑی  دیر بعد  پھیکی مسکرا ہٹ کے سا تھ  بو لا۔’’ اس معا ملے  میں آپ کی رائے  معلوم کر نا  چا ہتا  تھا ورنہ  یہ تو  میں سمجھتا ہوں کہ  انور   اتنا  احمق  نہیں ہو سکتا!‘‘

فر یدی  کچھ نہ بو لا  ۔وہ فرش  پر نظریں  جمائے  سگار  کے ہلکے ہلکے کش  لے رہا تھا۔

’’میں صمدانی  کے ورثا کے متعلق  چھان  بین  کر رہا ہو ں!‘‘ ڈی ایس پی  نے کچھ  دیر بعد کہا۔

’’شاید  اُس کے ایک بھتیجا ہے!‘‘ فریدی بو لا۔

’’ہاں ،سجاد  صمدانی  ۔اس کا بھی  کا فی  بڑا  کا رو بار  ہے لیکن  وہ تین سال  سے یہاں نہیں آیا  اور نہ اس کے کسی  آدمی سے اس ملا قات  ہو ئی!‘‘

’’ملا قات  سے کیا مراد  ہے ؟‘‘ فریدی نے فرش سے نظریں  ہٹا ئے   بغیر  پو چھا۔

’’پچھلے  سا ل اس  کا جنرل  منیجر  انگلینڈ گیا تھا ۔اُسے  ایک ضروری  مشورہ  لینا تھا۔ جب  وہ  انگلینڈ  پہنچا تو اُسے   سجاد صمدانی  کا ایک  تار ملا جو فرانس  سے آیا تھا ۔اُس نے لکھا  تھا کہ  وہ بعض  مشغو لیت  کی بنا پر  انگلینڈ  نہیں پہنچ سکتا۔ جنرل  منیجر  پیرس  پہنچا  لیکن  وہاں  بھی  اُسے  ایک تا ر ملا  جو جر منی  سے بھیجا  گیا تھا اور اس تحریر  تھا کہ  سجاد  ایک ضروری  کا م کے سلسلے  میں جر منی  چلا گیا ہے۔ اس طرح اُن دو نوں  کی ملا قات  نہ ہو سکی  او ر وہ  معا ملہ  خط  و کتا بت  ہی کے  ذریعے  طے ہو گیا  ۔اُس نے جنرل  منیجر  کو مختار  کل  بنا رکھا  ہے  اور وہی  اُس کی طرف  سے سارے  کام انجام  دیتا ہے!‘‘

’’یہ اطلاع دلچسپ  ہے!‘‘ فریدی  ڈی  ایس پی  کی طرف دیکھتا ہو ابولا۔

’’کیوں؟‘‘

’’کیا آپ  کو یہ بات دلچسپ  نہیں معلوم                 ہو تی  کہ اُس کے کسی آدمی نے اُسے  تین سال سے نہیں دیکھا!‘‘

’’ہے تو ...لیکن اس کیس  سے اس کا کیا تعلق  ہو سکتا ہے !‘‘

’’ابھی اتنی جلدی  تعلق کے بارے  میں تو کچھ  نہیں کہا جا سکتا !‘‘فریدی نے کچھ  سو چتے ہو ئے کہا۔ پھر  کچھ  دیر خا موش رہ کر بو لا ۔’’ صمدانی  کی مالی  پو زیشن  کیا تھی !‘‘

’’کرو ڑوں کا  بینک  بیلنس ۔کرو ڑ وں  تجا رت  میں لگے  ہو ئے  ہیں  اور وہ جنو بی  حصے  کی ایک  سو نے  کی کان  کا  ما لک تھا!‘‘

’’خوب ...تو اب یہ سب  سجاد  صمدانی  کا ہے!‘‘ فریدی  سر ہلا کر  بولا۔’’لیکن  دیکھنا  یہ ہے  کہ یہ سب  معا ملات بھی جنرل  منیجر  ہی کے ذریعہ طے  ہو تے ہیں  یا وہ خود آتا ہے!‘‘

’’لیکن  اس سے ہماری  تفتیش پر کیا  اثر پڑے گا ؟‘‘

’’یہ بھی  بعد کی  چیز ہے  !‘‘ فریدی نے کہا ۔’’ ویسے  اس قتل  کا مقصد  کچھ نہ کچھ  ضرور ہو گا!‘‘

’’کیا آپ سجاد  پر شبہ کر رہے  ہیں؟‘‘

’’نہ کر نے  کی بھی کو ئی وجہ  نظر نہیں آتی!‘‘

’’لیکن وہ تو تین سال سے انگلینڈ میں ہے!‘‘ ڈی ایس پی نے کہا۔

’’ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتالیکن آپ کو یہ ماننا پڑے گا۔ قتل کی ایک  وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے !"

’’مگر یہ تو سیدھی سی بات ہے !‘‘ڈی ایس پی نے کہا۔ " اور میں آپ سے گھماؤ پھراؤ کی توقع رکھتا ہوں !‘‘

’’کون جانتا ہے کہ اس میں بھی گھماؤ پھر اؤ نہ ہو!‘‘ فریدی آہستہ سے بولا۔

 

4

 

دوسرے دن سہ پہر ... صمدانی کی پرائیویٹ سکریٹری لورین آفس سے باہر نکلی۔ چند لمحے کھڑی اِدھراُدھر  دیکھتی رہی۔ پھر اُس نے دروازہ بند کر کے اُسے باہر سے مقفل کیا۔ ایک بار پھر اُس نے چاروں طرف نظر یں  دوڑائیں اور جب یہ اطمینان ہو گیا کہ آس پاس کوئی موجود نہیں ہے تو اُس نے دوسرے دروازے کو دھکا دیا اور آفس کے اندر داخل ہوئی اور دروازے کو مقفل کر کے چند لمحے  کھڑی رہی۔

آفس میں اس کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔ یہ ایک کافی کشادہ کمرہ تھا اور یہاں کئی بڑی بڑی میزیں تھیں جن پر فائلوں کے ڈھیر تھے ۔ عمارت میں یہی ایک ایسا کمرہ تھا جسے پولیس نے مقفل نہیں کیا تھا۔ اسے اس لئے مقفل نہیں کیا گیا تھا کہ پولیس صمدانی کے کاغذات کی چھان بین کر رہی تھی اور کچھ ہی دیر قبل کچھ آفیسر یہاں سے رخصت ہوئے تھے ۔ ابھی کاغذات کی بہتیری الماریاں ایسی باقی تھیں جنہیں کھولا بھی نہیں گیا تھا۔ یہ صمدانی کا نجی آفس تھا اور یہاں پُرانے ریکارڈ بھی رکھے جاتے تھے۔

لورین نے دروازے پر سیاہ پردے کھینچ دیئے۔ پھر وہ ایک گوشے کی طرف بڑھی جہاں ایک چھوٹی سی گول میز رکھی تھی۔ شاید ہی آج تک کسی کو اس گول میز کی اصل حقیقت معلوم کرنے کا خیال آیا ہو اور آتا بھی کیسے کیونکہ وہ بظاہر اخروٹ کی لکڑی کی ایک معمولی سی گول میز تھی۔ کسی کو کیا معلوم کہ اُس کا اوپری تختہ اتنا موٹا کیوں ہے اور وہ اپنی جگہ سے جنبش نہیں کر سکتی ۔

لورین نے زمین پر بیٹھ کر اوپری تختے کے نیچے ٹٹولا ۔ ایک ہلکی سی آواز آئی اور ساتھ ہی ایک پتلی سی تختی باہر نکل پڑی۔ پھر لورین نے تختی کی چھوڑی ہوئی خالی جگہ میں ہاتھ ڈال کر بجلی کا ایک پلگ نکالا جس کے سرے سےتار  منسلک تھا۔ دوسرے لمحے میں وہ اُس پلگ کو دیوار سے لگے ہوئے سوئچ بورڈ میں لگا رہی تھی۔ پلگ لگتے ہی کھٹا کے کے ساتھ قریب ہی کی بڑی میز کے نیچے کا فرش ایک طرف کھسک گیا۔

 لورین نے اپنے بیگ سے ٹارچ نکالی اور تہہ خانے میں اُتر گئی۔ نیچے تک پہنچنے کے لئے اُسے دس سیڑھیاں طے کرنی پڑیں۔

یہ جگہ بھی اوپری کمرے ہی کی طرح کشادہ تھی اور یہاں صرف ایک بہت بڑی آہنی الماری رکھی تھی ۔ لورین بے  تا بی  سے آگے بڑھی۔ الماری میں کوئی قفل نہیں نظر آ رہاتھا۔ پربھی وہ بند تھی۔ لورین نے ہینڈل پر اپنی قوت صرف  کر دی لیکن اس کا دروازہ ہلا تک نہیں۔ پر وہ تقریباً آدھے گھنے تک چاروں طرف سے الماری کا جائزہ لیتی رہی لیکن اُسے کہیں کوئی چیز نہ دکھائی دی جسے وہ الماری کھولنے اور بند کرنے کا ذریعہ سمجھ سکتی ۔ آخر وہ تھک ہار کر او پر واپس آئی۔

سوئچ  بورڈ سے پلگ  ہٹا تے ہی میز کا فرش پھر اپنی اصلی حالت پر آ گیا۔

چھ سات منٹ بعد وہ آفس سے نکلی ۔ باہر اب بھی سناٹا تھا۔ قریب و دور ایک متنفس بھی نہیں دکھائی دیا۔

پھر اس نے گیراج سے ایک چھوٹی سی کار نکالی۔

تار گھر کے قریب اس نے کار روک دی۔

 کاؤنٹر پر پہنچ کر اس نے ایک فارم طلب کیا اور پھر اُس پر جلدی جلدی کچھ لکھنے لگی ۔ بیگ سے ٹکٹ نکال کر فارم پر چسپاں کئے اور اسے کلرک کے حوالے کر کے رسید کا انتظار کرتی رہی ۔

پھر جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکلی ، دوسرے دروازے سے فریدی اندر داخل ہوا۔ اُس نے رُک کر اس کھڑ کی کی طرف دیکھا جس پر لورین نے تار دیا تھا۔ پھر وہ پوسٹ ماسٹر کے کمرے کی طرف چلا گیا۔

 اس نے اپنا کارڈ پوسٹ ماسٹر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ " تھوڑی سی تکلیف دوں گا !"

’’فرمایئے!‘‘ پوسٹ ماسٹر ہاتھ ملتا ہوا بولا۔

" کھڑکی نمبر تین پر ابھی ایک لڑکی نے تار دیا ہے۔ میں ذرادہ فارم دیکھنا چاہتا ہوں !“

 پوسٹ ماسٹر نے معنی خیز انداز میں سر ہلا کر چپر اسی کے لئے گھنٹی بجائی۔

 تھوڑی دیر بعد لورین کا لکھا ہوا فارم فریدی کے سامنے تھا۔

تار کا مضمون تھا:

’’میزوہاں تک پہنچ گئی ...لیکن کچھ نہیں سمجھ سکی ...کسی ایکسپرٹ میکنک کو بھیجو۔

 کر سچیا  نا‘‘

تار بھیجنے  والے کا پتہ بھی خلاف توقع ہی نکلا۔ لورین، صمدانی کی کوٹھی کے ایک حصے میں رہتی تھی لیکن فارم پر تار بھیجنے والے کا پتہ وہاں کا نہیں تھا۔

 فریدی نے اپنی نوٹ بک نکال کر دونوں پتے  تحریر کئے ۔

تار رام گڑھ میں کسی مسٹر براؤن کو بھیجا گیا تھا جو شیزاں ہوٹل کے کمرہ نمبر اٹھائیس میں مقیم تھا۔

’’ اس تار کو کم از کم چھ گھنٹے کے لئے روک لیا جائے !‘‘ فریدی نے پوسٹ ماسٹر سے کہا۔

’’مجھے افسوس ہے مسٹر فریدی، یہ صرف پوسٹ ماسٹر جنرل ہی کے حکم سے ہو سکتا ہے!"

’’تو پھر مجھے فون کرنے کی اجازت دیجئے !"

   ’’شوق سے! "

فریدی نے ریسیور اُٹھا کر اپنے آئی جی کے نمبر ڈائل کئے اور ا ُس سے تار کو رکوانے سے متعلق گفتگو کرتا رہا۔ پھر اس نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

’’میں پوسٹ ماسٹر جنرل کو اَپر وچ کر رہا ہوں !‘‘ فریدی نے پوسٹ ماسٹر سے کہا۔

’’ بہتر ہے!‘‘ پوسٹ ماسٹر نے کہا اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔

 شاید دس منٹ بعد فون کی گھنٹی بجی ۔ پوسٹ ماسٹر ریسیور اُٹھا کر سنتا رہا۔ پھر اس نے ریسیور رکھ کر ایک طویل سانس لی اور فریدی سے بولا ۔" بہت اچھا جناب! لیکن آپ مجھے اس قسم کی ایک تحریر دے دیجئے کہ آپ اسے چھ گھنٹے کے لئے رکوا ر ہے ہیں !"

 فریدی تحریر دے کر باہر آ گیا۔ برآمدے میں اس نے پبلک فون کا ریسیور اٹھایا۔

’’ ہیلو... آپریٹر... لانگ ڈسٹنس پلیز... رام گڑھ ! ‘‘

وہ کچھ دیر انتظار کرتا رہا پھر بولا۔’’ رام گڑھ ...انٹلیجنس بیوریو پلیز... اوہ پلیز کنکٹ میجر نصرت .. ہیلو میجر نصرت ... میں احمد کمال فریدی بول رہا ہوں... تھوڑی سی تکلیف دوں گا... ایک آدمی کے متعلق معلومات درکار ہیں ... مسٹر براؤن ... سکونت کمرہ نمبر اٹھائیں شیزاں ہوٹل... میں اس کی نگرانی بھی چاہتا ہوں ... مجھے گھر ہی پر فون کیجئے گا... مگر نہیں ، آفس کے نمبر پر! " فریدی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔’’ تا کہ آپ کال کے پیسے محکمے سے وصول کر سکیں ... اچھا بہت بہت شکریہ!"

اُس نے ریسیور رکھ کر کال کی قیمت ادا کی۔

سر جنٹ حمید تار گھر کے باہر کھڑا تھا۔ جیسے ہی اس نے لورین کو باہر آتے دیکھا، اُس کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو گیا ۔ لورین نے کار اسٹارٹ کرنی چاہی لیکن انجن بھر بھرا کر رہ گیا ۔ حمید وہاں اس کی پریشانی دیکھنے کے لئے ٹھہر نہ سکا۔ یہ حرکت اس کی تھی ۔ فریدی نے اس سے کہا تھا کہ وہ اس کا انتظار کرے ۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ لورین سے بھی انتظار کر ایا جائے۔ جب تک وہ کا ر سنبھالے گی فریدی خود بھی باہر آجائے گا۔ وہ اُسے کار کے انجن میں اُلجھی ہوئی چھوڑ کر تا رگھر میں چلا گیا۔

 حمید پچھلی رات سے شرارتیں کرتا رہا تھا۔ اُس نے قاسم کی تو وہ گت بنائی تھی کہ خدا کی پناہ۔ اُس نے اُسے دھمکی دی کہ وہ اُسے قتل کی سازش میں پھنسوا دے گا۔ قاسم کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ حمید نے اُسے مرغا بنا دیا اور جب وہ مرغا بنا ہو ا مرغے کی بولی بول رہا تھا تو حمید نے چپکے سے اُس کی بیوی کو بلا لیا ۔ پھر جو اُس کی بیوی پر ہنسی کا دورہ پڑا ہے تو قاسم اُسی وقت پھانسی پا جانے پر آمادہ نظر آنے لگا اور بدقّت تمام حمید اُسے اس حرکت سے باز رکھ سکا۔

فریدی باہر جانے کے لئے مُڑا ہی تھا کہ اس کی نظر حمید پر پڑی جو برآمدے میں ایک جگہ سر جھکائے کھڑا تھا۔

’’ تم یہاں کیوں آگئے ؟‘‘ فریدی اُسے گھور کر بولا۔

’’ میں اتنا بے درد نہیں ہوں کہ کسی عورت کو پریشان دیکھ سکوں !"

’’ کیا فضول بکواس ہے!"

’’آپ خود چل کر دیکھ لیجئے ۔ اس کی کار میں کچھ گھٹالا ہو گیا ہے!"

’’ خیر... میں دیکھ لوں گا! " فریدی نے خشک لہجے  میں کہا۔ " تم آفس کے آپریشن روم میں جا کر میری کال کا انتظار کرو!"

’’ دیکھئے مجھ سے اس قسم کا مکھی مار کام نہ لیا کیجئے !‘‘

" جاؤ! بکو اس نہیں!"

حمید چند لمحے خاموش رہا پھر بُراسا منہ بنائے ہوئے چلا گیا۔

 فریدی باہر آیا۔ لورین ابھی تک انجن پر جھکی ہوئی تھی ۔ کبھی کبھی وہ سر اٹھا کر بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگتی تھی۔ فریدی چپ چاپ جا کر اپنی کیڈ یلا ک میں بیٹھ گیا۔ اُسے شاید لورین کی روانگی کا انتظار تھا۔

 آخر کچھ دیر بعد ایک ٹیکسی ڈرائیور نے لورین کی مدد کی ۔ انجمن اسٹارٹ ہو گیا۔

 لورین کی کار تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ فریدی نے اس کا تعاقب شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد فریدی نے محسوس کیا کہ لورین یونہی اِدھر اُدھر بے مقصد چکر لگا رہی ہے۔ آخر اس نے کچھ دیر بعد اپنی کار ہوٹل ڈی فرانس کے سامنے روک دی۔

جب وہ اندر چلی گئی تو فریدنی بھی کیڈ یلاک سے اترا۔

لورین ایک کیبن میں بیٹھ چکی تھی ۔ فریدی اُس سے تھوڑے ہی فاصلے پر کھلے ہال میں بیٹھ گیا۔

لورین نے کھانا منگوایا اور فریدی کافی کی چسکیاں لیتا رہا۔

لورین ابھی کھانے سے فارغ نہیں ہوئی تھی کہ ایک ویٹر نے اُسے ایک لفافہ لا کر دیا۔ اُس نے جلدی سے لفافہ چاک کیا اور خط نکال کر پڑھنے لگی ۔ فریدی نے محسوس کیا جیسے اب وہ کھانے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔ اُس نے نیپکن سے ہاتھ صاف کئے اور لفافے کو اپنے بیگ میں ٹھونستے ہوئے ویٹر سے بل کا تقاضہ کیا پھر شاید پانچ منٹ کے اندر ہی اندر وہ وہاں سے روانہ ہو گئی۔

 فریدی پھر اُس کا تعاقب کر رہا تھا۔

تھوڑی دیر بعد لورین کی کار ایک اونچی سی بلڈنگ کے سامنے رک گئی ۔ فریدی کو فوراًیاد آگیا کہ اُس نے تار کے فارم پر اپنے پستہ میں اسی بلڈنگ کا نام لکھا تھا۔

لورین کا ر سے اُتر کر اوپر جانے کے لئے زینے طے کرنے لگی۔ فریدی اطمینان سے کیڈی میں بیٹھا رہا۔ تار والے پتے کے فلیٹ کا نمبر اس کی نوٹ بُک میں موجود تھا اور پھر اُسے اطمینان تھا کہ لورین ابھی پھر واپس آئے گی کیونکہ جہاں اُس نے اپنی کار چھوڑی تھی وہ در حقیقت کار پارک کرنے کی جگہ نہیں تھی اور کسی وقت بھی ٹریفک پولیس کا آدمی کار کے مالک سے باز پرس کر سکتا تھا۔

فریدی انتظار کرتارہا۔ پندرہ منٹ گزر گئے اور اس دوران میں ایک کا نسٹیبل نے لور ین کی کار کا ہارن بجا یا  پھر وہ فریدی کی طرف پلٹ آیا۔

’’آپ جانتے ہیں کہ یہاں پارک کرنا منع ہے ! ‘‘اُس نے فریدی سے کہا جو تاریکی میں تھا۔

 ’’جانتا ہوں دوست !‘‘فریدی باہر نکلتا ہوا بولا۔ کا نسٹیبل چونک کر پیچھے ہٹ گیا اور اس نے گڑ بڑا کر فریدی کو سیلیوٹ کیا۔ شاید وہ اُسے پہچانتا تھا۔

’’میں اوپر جا رہا ہوں !‘‘ فریدی نے عمارت کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ " اگر مجھے پانچ منٹ سے زیادہ لگیں تو تم فلیٹ نمبر چھیالیس میں آسکتے ہو۔ دونوں گاڑیوں کو یہیں رہنے دینا، سمجھے! "

پھر وہ اُسے متحیر چھوڑ کر زینوں کی طرف بڑھا۔

 تیسری منزل کی راہداری تاریک تھی ۔ حالانکہ ابھی صرف نو ہی بجے تھے لیکن کسی فلیٹ کے دروازے یا کھڑکیوں میں روشنی نظر نہیں آرہی تھی۔ فریدی نے ٹارچ روشن کی۔ پھر وہ چھیالیسویں فلیٹ کے دروازے پررُک گیا۔ دروازے کے شیشوں میں روشنی نہیں نظر آرہی تھی۔

فریدی نے آہستہ سے دستک دی۔ جواب ندارد۔ تین بار دستک دینے کے بعد اُس نے آخر کار ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا۔ اُس نے فوراًً ہی ٹارچ نہیں روشن کی۔ کمرے میں اندھیرے اور سناٹے کا راج تھا۔

 اس نے ٹارچ روشن کی اور جہاں تھا وہیں جم گیا۔ روشنی کا دائرہ فرش پر پڑی ہوئی لورین پر تھم گیا تھا۔ فرش پر تازہ خون پھیلا ہوا تھا اور لڑکی کی آنتیں پیٹ کے باہر نکل آئی تھیں ۔

 فریدی نے سوئچ بورڈ تلاش کر کے روشنی کی۔

فلیٹ میں تین کمرے تھے لیکن کہیں بھی اسے اس قسم کے کوئی نشانات نہ ملے جن سے وہاں کسی دوسرے آدمی کی موجودگی ثابت ہوتی۔

 اتنے میں پولیس مین بھی فریدی کی ہدایت کے مطابق وہاں پہنچ گیا۔ اگر فریدی اسے سہارا نہ دیتا تو وہ چکرا کرگر ہی پڑا ہوتا۔

"جاؤ ...جلدی ! ‘‘فریدی اس کا شانہ تھپکتا ہوا بولا ۔ " کو توالی فون کر دو۔ کہہ دینا میں یہاں موجود ہوں !"

 کا نسٹیبل لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے واپس گیا۔

اب پھر فریدی لاش کی طرف متوجہ ہوا ۔ قریب ہی لورین کا ہینڈ بیگ کھلا ہوا پڑا تھا اور ایک رومال جس پر خون کا دھبہ تھا۔ فریدی نے اُسے اُٹھا کر دیکھا۔ رومال لورین ہی کا تھا کیونکہ فریدی نے ہوٹل میں اُسے اس سے پسینہ خشک کرتے دیکھا تھا اور شاید قاتل نے اس سے چھر ا صاف کیا تھا۔

فریدی نے قاتل کے لئے بھاگ دوڑ بے کار سمجھی کیونکہ یہاں آتے وقت ہی اُس نے محسوس کیا تھا کہ دوسری طرف  بھی زینے موجود ہیں جو عمارت کی پشت کی طرف جاتے تھے۔ فرار کے لئے قاتل کو کافی وقت ملا ہوگا اور اُس نے پچھلے ہی زینے استعمال کئے ہوں گے۔

فریدی نے اس کا ہینڈ بیگ فرش پر اُلٹ گیا۔ اس میں صرف آرائشی مصنوعات تھیں اور ایک لفافہ !غا لباً یہ و ہی لفافہ تھا جو ہو ٹل ڈی فرانس  کے ایک ویٹر نے لو رین کو دیا تھا۔

 فریدی نے مضطر باند انداز میں اُس کے اندر رکھا ہوا یا کھینچ لیا جس پر تحریر تھا:

’’ایک جاسوس تمہارا پیچھا کر رہا ہے !تم فور اًتھارن ہل بلڈنگ  پہنچو!"

ساری حقیقت فریدی پر روشن ہوگئی۔ مجرم انتہائی ہوشیار ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کا کوئی مشتبہ آدمی زندہ رہے۔ انہوں نے اس بہانے سے لڑکی کو یہاں بلا کر ختم کر دیا۔

تھوڑی دیر بعد پولیس آگئی اور پوری عمارت کا محاصرہ کر لیا گیا۔ حالانکہ یہ فضول سی کارروائی تھی لیکن روز نامچے کی خانہ پری کے لئے نہایت ہی اہم ۔

واپسی میں فریدی نے پچھلے زینے استعمال کئے۔ اس کی ٹارچ  روشن تھی اور وہ خیالات میں ڈوبا ہوا آہستہ آہستہ زینے طے کر رہا تھا۔ اچانک وہ رُک گیا۔ ٹارچ  کی روشنی ایک مڑے تڑے کاغذ پر پڑ رہی تھی جس پر خون کے دھبے تھے ۔ فریدی نے جھک کر اُسے اُٹھا لیا۔ خون کے دھبوں کے علاوہ اس پر کچھ نشانات تھے جو پنسل سے بنائے گئے تھے ۔ ایک گول نشان پر لکھا ہوا تھا ۔ " گول میز‘‘ اور اس پر تھوڑے فاصلے پر ’’سوئچ بورڈ ‘‘تحریر تھا۔ پھر ایک چوکور نشان پر " چوتھی میز" لکھا ہوا تھا۔ فریدی نے کاغذ کا ٹکڑا جیب میں ڈال لیا۔ اس پر خون میں ڈوبی ہوئی انگلیوں کے نشانات بالکل صاف تھے۔

تھوڑی دیر بعد وہ ہوٹل ڈی فرانس پہنچ گیا۔ اُس ویٹر کو تلاش کرنے میں دشواری نہیں ہوئی جس نے لورین کو خط دیا تھا لیکن فریدی کو اُس سے جو معلومات حاصل ہوئیں وہ زیادہ کارآمد نہیں تھیں ۔ اُس نے بتایا کہ وہ خطہ اُسے ایک انگریز نے دیا تھا اور اتنے سے کام کی اُجرت میں اُس نے پانچ روپے وصول کئے تھے ۔ ویٹر انگریز کا حلیہ نہیں بتا سکا اور اُس نے یہ بھی بتایا کہ وہ انگریز کم از کم روزانہ کے گا ہوں میں سے تو نہیں ہوسکتا تھا۔

آج شاید ناکامیوں کا دن تھا۔ گھر پہنچ کر فریدی نے حمید کو اپنا منتظر پایا اور اس نے جو اطلاع دی وہ حیرت انگیز بھی تھی اور مایوس کن بھی۔

’’میجر نصرت کا پیغام ہے!" حمید نے کہا۔ " شیزاں ہوٹل کا کمرہ نمبر اٹھا ئیسں پچھلے ہفتے سے خالی ہے اور مسٹر براؤن نام کا کوئی آدمی وہاں کبھی تھا ہی نہیں !‘‘

 

5

دوسرے  دن  فریدی  اور حمید دوسرے آفیسروں کے ساتھ  صمدانی کے نجی دفتر میں کا غذات کا جائزہ  لے رہے تھے اور پچھلی  رات والا  قتل  مو ضو ع  گفتگو بنا ہو اتھا۔

’’کل اُس بے  چاری  نے ہماری بڑی  مدد کی تھی !‘‘ ایک آفیسر نے کہا  اور پھر  وہ اُس بے چاری   سے اس کے حسن  پر اُتر آئے۔

’’اس قتل  کا تصور  ہی بڑا بھیانک  ہے  !‘‘ دوسرے  نے فریدی  کی طرف دیکھ کر کہا ۔’’آنتیں باہر نکل  پڑی تھیں ۔ آپ کے رو نگٹے تو کھڑے  ہو گئے  ہوں گے فریدی  صاحب!‘‘

’’اگر میرے  جسم پر کھڑے  ہو  جا نے والے  رونگٹے ہو تے تو میں  کسی  یو نیو رسٹی  میں لٹر یچر کا پرو فیسر ہو تا !‘‘ فریدی مسکراکر بولا ۔’’میؔر و غا لؔب  یا کیٹؔس اور وؔرڈ   سورتھ میں سر ما رتا!‘‘

پھر  فریدی کے کار ناموں کے متعلق  باتیں چھڑ گئیں۔

’’بھئی وہ  جیر الڈ شا ستری واے بن مانس آج تک میری سمجھ میں نہ آسکے !‘‘ایک آفیسر دوران گفتگو میں بولا ۔

’’وہ کسی کی بھی  سمجھ میں نہیں آئے !‘‘ فریدی نے کہا ۔’’بہتیرے تو ان   کی  پیدائش کے طریقے   ہی کو  غپ سمجھتے  ہیں ۔کئی اخبارات نے تو یہاں تک لکھ دیا تھا کہ یہ  فریدی   کا نیا شگو فہ  ہے جس کے ذریعے  وہ سائنس  دانوں  میں سنسنی پھیلا نا  چا ہتا ہے  حا لا نکہ یہ ایک  بہت ہی معمو لی  سی بات  تھی!‘‘

’’میں ما نتا ہوں کہ  مشینوں کے ذریعے معجزے عمل  میں آتے ہیں !‘‘ آفیسر بولا۔’’ لیکن ایک  چھو ٹے  سے بندر کا منٹوں  میں ایک  گرا نڈیل  بن مانس  کی شکل  میں تبدیل ہو جانا  سمجھ  میں آنے والی بات نہیں !‘‘

’’معجزے سمجھ میں آجا ئیں تو  انہیں  معجزے  کون کہے گا !‘‘ فریدی  نےمسکراکر  کہا۔

’’میں تو غپ ہی  سمجھو ں گا ۔آدمی  کے ننھے سے بچے  کو بڑھنے کے لئے  بیس  سال کا  درکار ہو تے ہیں!‘‘

’’ٹھیک  ہے !‘‘ فریدی سر ہلا  کر بولا  ۔’’پا نی کو جمنے کے لئے سطح سمندر سے ایک  مخصوص بلندی  درکار ہو تی  ہے ۔خط استوا سے  ایک  مخصوص فا صلہ  درکار ہو تا ہے  لیکن  آپ یہاں مئی  ،جون  کی سڑ ی  گرمی  میں برف استعمال کر تے   ہیں ۔کیا وہ برف ہما لیہ  کی چو ٹیوں سے  حا صل   کی جاتی ہے یا ٹنڈرا کے میدانوں  سے ؟ کیا  برف  جمانے وا لی  مشین  منٹوں میں پانی  کو نقطئہ انجماد  تک  نہیں  پہنچا د یتی !‘‘

’’لیکن  کوئی  مشین پانی  کے بغیر برف نہیں مہیا کر سکتی  !‘‘ آفیسر بولا۔

’’ٹھیک  ہے لیکن  شاید  آپ  یہ بھول  گئے   کہ  جیرا لڈ کی  مشینوں  کے   ذریعے دو آدمیوں کے جسم  اُس بندر کے جزوِ بدن  ہو تے  تھے تب وہ ایک  بن ما نس  کی شکل اختیار کر تا تھا!‘‘

’’تب تو اس طرح آدمی کا بچہ بھی منٹوں میں جوان ہو سکتا ہے !"

’’ قطعی ہو سکتا ہے لیکن ذہنی حالت بچوں ہی کی سی ہوگی کیونکہ ذہنی نشوونما  کا تعلق تجر با  ت سے ہے۔ اس کے لئے کم از کم بیسں ہی سال در کار ہوں گے۔ خیر اسے چھوڑئیے، یہ ایک الگ بحث ہے۔ آپ کو بندروں کے بڑھنے پر اعتراض ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ آدمی کا بچہ بیسں سال میں کیسے بڑھتا ہے؟"

’’اللہ کی مرضی ۔ ہم کون ہوتے ہیں دخل دینے والے !‘‘حمید آہستہ سے بڑ  بڑایا۔ اس پرایک زوردار قہقہہ پڑا لیکن جلدہی ماحول نے پھر سنجیدگی اختیار کر لی۔

’’ اُس میں قوت ِ نمو ہو تی ہے !‘‘ اُس آفیسر نے کہا جس نے بحث چھیڑی تھی۔

’’ قوت نمو کیا چیز ہوتی ہے ؟ " فریدی نے پوچھا۔

’’ بھئی میں نے زیادہ سائنس نہیں پڑھی !" آفیسر بولا۔

’’قوتِ نمو در اصل حیاتیاتی ریشوں کے بڑھنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں اور یہ صلاحیت انہیں غذا اور بعض دوسرے خارجی اسباب سے حاصل ہوتی ہے لیکن غذا کو بھی اُن پر اثر انداز ہونے کے لئے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس میں عرصہ لگ جاتا ہے۔ بہر حال وہ ریشے بیسں سال تک بڑھتے رہتے ہیں اور اپنی حد کو پہنچ کر بڑھنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ بیسں سال میں آدمی کا قد قریب قریب پورا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر بڑھنے کے امکانات نہیں رہتے۔ بہر حال کہنے کا مطلب یہ کہ حیاتیاتی ریشوں کے بڑھنے کا دارو مدار غذا پر ہے۔ اب آئینے بندر کی طرف۔ اس کے حیاتیاتی ریشوں کو آدمیوں کے جسم سے مشین کے ذریعہ تیار شدہ غذاملتی ہے اور وہ سالہا سال کی نشو و نما کے عمل کو ایک ہی جست میں طے کر لیتا ہے!"

’’دیکھئے آپ نے بھی یہاں سے جست لگائی ہے!'' آفیسرہنس کر بولا ۔ " بندر اور آدمی کی نوعیت میں فرق ہے ۔ بھلا بندر کا جسمانی نظام آدمی کے جسم سے حاصل کی ہوئی غذا کیسے قبول کر لے گا ؟"

’’بالکل اُسی طرح جناب جیسے آپ کا جسمانی نظام بندر کے غدود کا آپریشن قبول کر لیتا ہے!"

’’ ہیئر ہیئر !" ایک دوسرے آفیسر نے تالی بجا کر قہقہہ لگایا۔ ’’ختم کرویا ر، تم فریدی سے باتوں میں نہیں جیت سکتے ۔ ہم جیسے مشغول آدمیوں کو اتنی فرصت کہاں کہ دنیا بھر کے مضامین چاٹتے پھریں!‘‘

’’ فرصت پیدا کی جاتی ہے!" فریدی نے ہنس کر کہا۔ " آپ لوگوں کے تو صرف چند عدد بیوی بچے ہوں گے۔ میرے پاس ساٹھ کتّے  ہیں۔ ساڑھے تین سو کے قریب سانپ ہیں۔ درجنوں پرندے ہیں ! ‘‘

لیکن افسوس کہ ایک بیوی نہیں پالی جاتی !‘‘ حمید آہستہ سے بولا اور پھر سب ہنسنے  لگے۔ فریدی کا قہقہہ سب پر حاوی تھا۔

’’بھئی  جن کے پاس بیویاں ہیں ان کے پاس نہ کتّے ہیں اور نہ سانپ !‘‘ فریدی نے کہا۔ " حالانکہ سب میری ہی طرح آدمی ہیں ، پس ثابت ہوا کہ ایک بیوی اتنے کتّوں اور سانپوں پر بھی بھاری ہوتی ہے!"

’’اچھا بس بس!‘‘ ایک بوڑھا آفیسر ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ " یہاں کئی کنوارے بھی موجود ہیں ، انہیں  بد ظن نہ  کرو!‘‘

’’میں توبر باد  ہو ہی چکا! " حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔

 پھر سب ہنسنے  لگے۔

’’یار کام نپٹا ؤ!" بوڑھے نے کہا۔ " میں تو اس مکھی مار کام سے عاجز آچکا ہوں !"

 فریدی ایک دوسری الماری کھولنے کے لئے اُٹھا اور جلدی میں اس کا پیر اُس گول میز سے ٹکرا گیا جو ایک گو شے  میں رکھی ہوئی تھی۔ فریدی نے الماری میں کنجی لگائی اور اُسے گھماتے گھماتے چونک کر رہ گیا... وہ حیرت سے اس گول میز کو دیکھ رہا تھا جو ٹھو کر لگنے کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹی تھی ۔ اس نے اسے پھر ٹھو کر ماری لیکن اُس میں جنبش بھی نہ ہوئی اور جب اُس نے اُسے اٹھانا چاہا تو اُسے محسوس ہوا کہ اس کے پائے فرش میں دفن ہیں۔

 اب اس نے غور سے میز کو دیکھا۔ اس کا اوپری تختہ تنا سب  سے کہیں زیادہ موٹا تھا۔ اُس نے تختے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور اس کا ہاتھ کی ابھری ہوئی چیز سے ٹکرایا ہی تھا کہ ایک ہلکی سی آواز آئی اور ساتھ ہی ایک تار لگا ہوا پلگ فرش پر گر پڑا۔

’’گول میز!‘‘ فریدی آہستہ سے بڑبڑایا۔ اُسے وہ کاغذ کا کڑا یاد آ گیا جو اُسے تھارن ہل بلڈ نگ کے زینے پر ملا تھا۔ وہ تیزی سے اپنے ہینڈ بیگ کی طرف جھپٹا ۔ دوسرے لمحے میں وہ کاغذ اس کے ہاتھ میں تھا۔ دوسرے لوگ اپنے کاموں میں مشغول تھے ۔ انہوں نے دھیان نہ دیا۔

فریدی کی نظریں کاغذ پر لکھے ہوئے الفاظ اور نشانات پر جم گئی تھیں ۔ " گول میز ‘‘...’’سوئچ بورڈ‘‘...’’چوتھی میز‘‘ ... اس نے چاروں طرف ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور پھر یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی کہ وہ اس آفس ہی کا نقش تھا۔ اس نے سوئچ بورڈ پر نظریں جما دیں جو گول میز کے اوپر ہی دیوار سے لگا ہوا تھا۔

 وہ آہستہ سے آگے بڑھا اور میز کے نیچے سے پلگ اٹھا کر سوئچ بورڈ میں لگا دیا۔ فورا ًہی ہلکی سی گھر گھراہٹ سنائی دی اور ایک قریبی میز پر بیٹھا ہوا آفیسر اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔ اُس میز کے نیچے ایک تاریک خلا تھی۔

’’ یہ کیا ہوا؟‘‘ سب لوگ بیک وقت چیخے اور اُن کی نظریں فریدی کی طرف اُٹھ گئیں جو سوئچ بورڈ پر ہاتھ رکھے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

’’میں نے آپ سے کہا تھا!‘‘ اس نےہنس کر کہا۔ " مجھے ساتھ نہ لیجئے ورنہ کام بڑھ جائے گا!"

’’ آخر یہ ہے کیا ؟" بوڑھے آفیسر نے پوچھا۔

 فریدی نے جواب دینے کے بجائے سوئچ بورڈ سے پلگ نکال لیا اور میز کے نیچے کا فرش پھر برابر ہو گیا۔

’’یہ غالباً کوئی میکانکی تہہ خانہ ہے! " فریدی نے کہا اور پھر پلک لگا دیا۔ تہہ خانے کا راستہ دوبارہ ظاہر ہو گیا۔

پھر جس بے تابی سے وہ سب اُس تہہ خانے میں اترے، اس کا بیان محال ہے ۔ انہیں وہاں صرف ایک آہنی   الما ری نظر آئی جس کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کچھ نہ کچھ  کہہ ر ہاتھا لیکن فریدی کی پیشانی  گہرے تفکرکی لکیریں تھیں۔

’’ ارے یہ کیا؟‘‘ اُن میں سے ایک آفیسر الماری کی طرف جھپٹا اور پھر انہوں نے اُسے الماری اور دیوار کے درمیا نی رخنے  سے کوئی چیز اٹھاتے دیکھا۔

’’ میرے خدا؟‘‘ اٹھانے والے کے منہ سے ایک تحیر آمیز چیخ نکلی ۔ اس کے ہاتھ میں سونے کی ایک اینٹ  تھی جس کا وزن ایک پو نڈ سے کسی طرح کم نہ رہا ہوگا۔

فریدی نے ایک گہری سانس لی ۔ دوسرے لوگ اینٹ پانے والے آفیسر کے گرد اکٹھا ہو گئے لیکن فریادی خالی الماری کا جائزہ لے رہا تھا۔

 تھوڑی دیر بعد جب وہ  طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرتے ہوئے اوپر واپس آئے تو فریدی، جمیدہ کولے کر باہر نکل گیا ۔

’’چوٹ ہو گئی بیٹے حمید!‘‘ وہ مضطر ہانہ انداز میں بولا۔

" کیوں ؟"

’’ وہ یہاں سے کافی دولت نکال لے گئے ۔ اس الماری میں نہ جانے کتنی اینٹیں رہی ہوں گی !"

’’یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟"

’’مجھے یقین ہے !لورین کے تار کا مضمون یاد کرو۔ یہی تو تھا۔ میں وہاں پہنچ گئی ہوں لیکن کچھ سمجھ نہیں سکتی۔ کیسی ایکسپرٹ میکنک کو بھیجو!‘‘

" تو اس سے کیا!"

’’الماری کا میکنزم بڑا پیچیدہ ہے۔ وہ اُسے کھول نہ سکی ہوگی لیکن بے چاری کو اس کا علم نہ رہا ہوگا کہ خود اس کی حیسثیت کیا ہے!"

’’لیکن آپ نے یک بیک تہہ خانہ کیسے دریافت کر لیا ؟‘‘

فریدی نے گول میز ٹھوکر لگنے کا واقعہ دہراتے ہوئے کہا۔ ” وہ خون آلود کاغذ کا ٹکڑا جو مجھے تھارن ہل بلڈنگ میں ملا تھا اس پر دراصل اس تہہ خانے کا نقشہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نقشہ خود لورین ہی نے تیار کیا ہو۔ ہو سکتا ہےکہ لورین ہی نے قاتل کو اُس کے متعلق سمجھایا بھی ہو لیکن وہ اس معاملے میں صرف مسٹر براؤن ہی کو جواب دہ تھی جسے اُس نے تار دیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ قاتل براؤن ہی رہا ہو۔ ورنہ وہ آسانی سے اُسے نقشہ نہ دیتی !‘‘

’’نہ دیتی  !کمال کر تے ہے آپ بھی ۔ارے  اُس نے  اُسے قتل کرنے  کے بعد  نقشہ  حا صل کیا ہوگا !‘‘

’’نا ممکن!‘‘فریدی سر ہلا کر بولا۔’’ نقشہ پہلے ہی سے اُس کے ہاتھ میں تھا۔ قتل کرنے سے قبل اور وہ اُسے ہاتھ میں دبائے ہوئے زینے تک آیا اور پھر اُسے نقشہ یاد آ گیا۔ اُس نے اُسے جیب میں رکھنا چاہا لیکن وہ بے خیالی میں گر گیا۔ وہ جلدی میں یہ سمجھا کہ نقشہ جیب ہی میں گیا ہے ...اگرقتل کرنے کے بعد نقشہ اس کے ہاتھ  لگتا تو وہ اُسے ہاتھ میں لئے  ہو ئے زینے  تک نہ آتا۔ شاید  نقشہ اس کے کوٹ کی اندرونی جیب  میں ہوتا ۔ وہ نقشے کو پہلے ہی سمجھ چکا  تھا اس لئے اُس نے اُسے اتنی لاپروائی سے جیب میں ڈالا کہ اس کے گر جانے کی خبر نہ ہوئی ...نہیں فرزند...وہ یقیناً  براؤن ہی تھا اور چالاک آدمی معلوم ہوتا ہے۔ وہ جس سے کام لیتا ہے اُس کے پیچھے دو ایک آدمی اس طرح  لگا ئے رکھتا ہے کہ اُسے ان کی خبر نہیں ہوتی! ‘‘

" تو کیا صمدانی کا قتل  محض اسی سونے کی وجہ سے ہوا؟ " حمید نے کہا۔

’’یہ بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سوتا تو اُس کی زندگی ہی میں اڑایا  جاسکتا تھا۔ لورین بہر حال اس کی معتمد نامی تھی۔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ لورین صمدانی کے پاس کب اور کن حالات میں آئی تھی !"

 حمید چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔ ’’مگر وہ براؤن... شیزاں ہوٹل میں تو اس نام کا کوئی آدمی کبھی تھاہی نہیں! "

’’اور اسی بنا پر میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ شیزاں ہوٹل اس کا مستقل اڈّا ہے!"

’’چلئے کچھ تو سراغ ملا !‘‘حمید طویل سانس لے کر بولا۔

’’ہم ان واقعات کا فی الحال کسی سے تذکرہ نہیں کریں گے !"

’’ لیکن تہہ خانہ... وہ اینٹ... اُسے تو سب نے دیکھا ہے!"

’’ فکر نہ کرو ... انہیں ان کے متعلق خیال آرائیاں کرنے دو ۔ اخبارات میں دلچسپ کہانیاں نظر آئیں گی !"

فریدی کا خیال درست نکلا۔ اُسی شام کے خبارات میں صمدانی کے پرائیویٹ آفس کے خفیہ تہہ خانے کے متعلق نت نئی کہانیاں نظر آئیں لیکن خالی الماری اور سونے کی ایک اینٹ کے بارے میں قریب قریب سب نے ایک ہی خیال ظاہر کیا تھا اور یہ کوئی ایسی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں تھی ۔ ایک معمولی ذہانت کا آدمی بھی اُس کے متعلق یہی کہہ سکتا تھا کہ وہ الماری خالی نہ رہی ہوگی اور اُسے صمدانی کے بجائے کسی دوسرے ہی آدمی نے خالی کیا ہوگا ور نہ ایک اینٹ اس طرح سے رہ نہ جاتی۔

 اُسی دن پولیس آفیسروں پر ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا لیکن اُسے حالات کے اعتبار سے غیر متوقع بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لورین کے اچانک قتل سے یہ بات سامنے آگئی ۔ ایک مجسٹریٹ نے پولیس کو اطلاع دی کہ اُس نے دوماہ قبل لورین اور صمدانی کی سول میرج کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کئے تھے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ صمدانی اس شادی کو منظر عام پر نہیں لانا چاہتا تھا۔ اس نئی دریافت پر کیس اور بھی اُلجھ گیا۔

فریدی اس نئی سچویشن پر بڑی دیر سے غور کر رہا تھا اور سر جنٹ حمید نے اپنے ذہن کو بالکل ہی چھٹی دے رکھی تھی ۔ وہ شاید آدھے گھنٹے سے کوشش کر رہا تھا کہ اس کا بکرا منہ میں تمباکو نوشی کا پائپ دبا نا سیکھ جائے لیکن ابھی تکہ کا میابی نہیں ہوئی تھی۔ دوبار اُس نے جھلا کر بکرے کے منہ پر تھپڑ بھی مارے اور جب بالکل ہی تنگ آگیا تو اسے ایک لات رسید کر کے بولا ۔ " سا لے تم بکرے ہو اور ہمیشہ بکرے ہی رہو گے۔ میں تمہیں کسی طرح بھی ریاضی کا پرو فیسر ہیں بنا سکوں گا !‘‘

فریدی کو بے ساختہ ہنسی آگئی اور اُس نے دونوں کو دھکے دے کر کمرے سے باہر نکال دیا۔

لیکن مصیبت تو یہ تھی کہ وہ اس کیس کے بعض پہلوؤں پر بحث کرنا چاہتا تھا۔ حمید لا کھ غیر سنجیدہ سہی لیکن بارہا کے تجربات شاہد تھے کہ اس کی بے تکی باتوں ہی میں فریدی کو اکثر گھتیوں کا حل مل گیا تھا۔

 تھوڑی دیر بعد وہ بھی کمرے سے باہر نکلا۔ حمید بیرونی برآمدے میں تھا اور شاید اب پہلے کی طرح غیر سنجیدہ بھی نہیں نظر آرہا تھا۔ اُس نے خود ہی لورین کا تذکرہ چھیڑ دیا۔

’’ اس نئی دریافت کی بنا پر کیس اور زیادہ الجھ گیا ہے !‘‘ فریدی بولا ۔ " ظاہر ہے کہ لورین مجرموں کا آلہ کار تھی لیکن اس صورت میں اس کا قتل، صمدانی کے قتل کے مقصد کو اور زیادہ تاریکی میں پھینک دیتا ہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ان دونوں کی شادی کا مقصد لورین کے لئے حصول دولت تھا تو پھر انہوں نے اُسے بھی کیوں قتل کر دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ مجرم اُس کے ذریعہ صرف اس الماری تک پہنچنا چاہتے تھے تو پھر آخر صمدانی کوقتل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام اس کے بغیر بھی ہوسکتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ وہ اس کی بیوی ہی تھی، کبھی نہ کبھی تہہ خانے کے راز سے واقف ہی ہو جاتی !"

’’واقعی ، صمدانی کے قتل کا مقصد اس انکشاف سے بالکل ہی تاریکی میں جا پڑتا ہے!‘‘ حمید نے کہا ۔ " اور لورین کو زندہ رکھ کر نہ صرف وہ الماری کی دولت ہی سمیٹ سکتے تھے بلکہ صمدانی کے پورے کاروبار پر بھی قابض ہوسکتے تھے !"

’’اسی بنا پر میں فی الحال سجاد صمدانی کا خیال ذہن سے نکال دینے پر مجبور ہو گیا ہوں ! ‘‘

’’اس کی رائے میں نہیں دوں گا !‘‘ حمید بولا۔

" میں نے لفظ فی الحال استعمال کیا ہے۔ ویسے وہ میری لسٹ پر موجود ہے !"

فریدی شاید کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا لیکن اس دوران میں شام کی ڈاک آگئی ۔ فریدی یکے بعد دیگرے لفافہ کھولتارہا اور پھر اُس نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ایک لفافہ حمید کی طرف بڑھا دیا۔

 سفید کاغذ پر ایک مختصرسی تحریر ٹائپ کی ہوئی تھی :

’’اگر موت ہی کی خواہش ہے تو میرے معاملات میں ضرور ٹانگ اڑاؤ ۔ میں

 کسی وقت بھی تم سے بہت زیادہ دور نہیں ہوں گا۔          براؤن‘‘

حمید، فریدی کی طرف دیکھنے لگا جس کا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری نظر آ رہا تھا۔

 

6

 

کرائم رپو رٹر انور نے نگڑائی لی اور چادر کو پیروں سے اُچھال کر اُٹھ بیٹھا۔آٹھ بج چکے تھے لیکن ابھی تک اس کی سرخ سرخ آنکھیں نیند کے بوجھ سے دبی جارہی تھیں ۔ اُس نے سرہانے والی ٹی پائی سے سگریٹ کا ڈ بہ اٹھایا    اور سیگریٹ کو ہو نٹوں میں دبا کر جلانے  ہی جا رہا تھا کہ رشیدہ آندھی کی طرح کمرے میں داخل ہوئی۔

’’ تم نے بری طرح اپنی گردن پھنسالی ہے ، سمجھے!‘‘ اُس نے دھیمی آواز میں غصہ سے کہا۔

’’ کوئی نئی بات کرو ۔ یہ اطلاع بہت پرانی ہے!‘‘انور نے سگریٹ سلگا کر دیا سلائی میز پر اچھال دی ۔

" آصف انتظار کر رہا ہے !"

’’جھک مارنے دواُ سے! "

’’اس کی جیب میں ہتھکڑیاں ہیں !‘‘

’’اوہ !‘‘ انور مسکرا کر چڑھانے والے انداز میں بولا ۔ " تو مجھے پھانسی ہو جائے گی !"

’’دیکھو! بکو اس مت کرو ۔ ایسے موقع پر اُس سے جھگڑا نہ مول لینا!‘‘

’’فکر نہ کرو!‘‘ انور نے پلنگ چھوڑ دیا۔ اُس نے میز سے ٹوتھ پیسٹ اور برش اُٹھاتے ہوئے کہا۔ " میری جیب بالکل خالی ہے اور اس وقت آصف ہی ہمارے ناشتے کا انتظام کرے گا۔ سمجھیں !‘‘

 دوسرے کمرے میں انسپکٹر آصف، انور کا منتظر تھا۔ غسل خانے تک پہنچنے کے لئے اس کمرے سے گزرنا ضروری تھا۔ انور نے بڑے دوستانہ انداز میں آصف سے مصافحہ کیا لیکن آصف نے اپنے چہرے پر سختی کے آثار پیدا کر رکھے تھے۔ وہ کلف دیئے ہوئے کالر کی طرح اکڑا رہا۔

’’میں ایک منٹ میں آیا!‘‘ انور نے کہا اور غسل خانے کی راہ لی۔ رشیدہ، آصف کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔ اُسے توقع تھی کہ آصف، انور کی غیر حاضری کے دوران میں کچھ نہ کچھ بولے گا لیکن وہ بدستور خاموش بیٹھا رہا۔ رشیدہ نے بھی اُسے چھیڑا نہیں۔

انور غسل خانے سے آنے کے بعد آئینے کے سامنے بال درست کرنے لگا۔ چند لمحے بعد اُس نے آصف کی طرف مڑ کر کہا۔ " آج کل میں کچھ حسین ہوتا جا رہا ہوں .. کیوں؟‘‘

’’جیل میں حجام سے کبھی ملاقات نہیں ہوتی!‘‘ آصف اُسے گھور کر بولا ۔

’’ یہ بہت بُری بات ہے۔ میں عنقریب جیل سدھارنے کے متعلق ایک مضمون لکھنے والا ہوں ! ‘‘

’’شاید وہ جیل ہی میں مکمل ہو!"

’’کیوں؟ کیا مجھے جیلوں کا دورہ کرنے کا موقع دیا جائے گا؟‘‘

’’ہمیں فضول باتوں میں نہ پڑنا چاہئے !‘‘ آصف بولا ۔ " اس بار تمہیں کسی طرح نہیں چھوڑ سکتا ! "

’’تم ہی مجھے چھوڑ دو گے تو پھر پوچھے گا کون !" انور نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ "ہم نے ابھی تک نا شتہ نہیں کیا!‘‘

" میرے پاس ہتھکڑیاں  ہیں... سمجھے !‘‘

’’ تمہارے پاس  ہتھکڑیاں ہیں... سمجھا! "

’’مجھے موٹر سائیکل کی چوری والی داستان پر یقین نہیں ہے !‘‘آصف غرایا۔

’’ اچھے آدمی بُری باتوں پر کبھی یقین نہیں کرتے۔ شیخ سعدی نے فرمایا ہے...! "

’’میں یہاں وقت برباد کرنے نہیں آیا ہوں ! ‘‘آصف نے جھلا کر بات کاٹ دی۔

’’میں جانتا ہوں کہ تم ،میں چائے پلواؤ گے!"

 " تم نے صمدانی کا تعاقب کیوں کیا تھا ؟"

’’ا ہو!‘‘ انور سنجیدگی سے بولا ۔ " تو تم اس لئے آئے ہو!"

 آصف جواب دینے کے بجائے انور کو گھورتا رہا۔

’’ میں خود تمہاری تلاش میں تھا!‘‘انور پھر بولا ۔ " میرے پاس چند قیمتی معلومات ہیں !"

’’کیا؟ ‘‘آصف کے چہرے کی سختی یک بیک دور ہو گئی لیکن یہ قطعی غیر ارادی طور پر ہوا تھا کیونکہ آصف نے  اس کا احساس ہو تے ہی پھر سے خو د کو سنبھا لنے کی کو شش شروع کر دی تھی ۔

’’نیچے چلتے ہیں۔ وہیں باتیں ہوں گی ! ‘‘انور نے کہا اور رشیدہ کو آنکھ مار کر دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔

رشیدہ کھڑی ہو گئی۔ اسی کے ساتھ آصف بھی اٹھا لیکن یہ بھی غیر ارادی ہی طور پر ہوا تھا۔ انور نے آصف کےچہرے پر ہچکچاہٹ کے آثار صاف پڑھ لئے تھے ۔ اس لئے اس کی رفتار میں تیزی آگئی تھی۔

باہر نکل کر رشیدہ نے دروازہ مقفل کیا اور وہ نیچے آئے۔ انور قریب ہی کے ایک ریستوران میں گھس گیا۔ اب آصف کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ ان کا ساتھ دے۔

انور نے ایک لمبے ناشتے کا آرڈر دیا۔ اس کا رویہ آصف کے ساتھ بڑا دوستانہ تھا۔

’’ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا چچا آصف !‘ انور نے کہا۔ ” کہ اس کیس میں تمہارے لئے ترقی کے بڑے امکانات ہیں !‘‘

’’بڑی مہربانی !‘‘آصف طنزیہ لہجے میں بولا۔ ” لیکن تمہیں اس کے لئے پریشان نہ ہونا چاہئے !“

’’تمہیں میرے خلوص پر کبھی یقین نہ آئے گا ؟“

’’کام کی باتیں کرو !" آصف اپنی پیالی میں شکر گھولتا ہوا بولا ۔

’’ پہلے تو میں یہ جتادوں کہ موٹر سائیکل والے معاملے میں مجھے ذرہ برابر بھی پریشانی نہیں ۔ اگر یہاں کسی پو لیس والے نے مجھے پھانسنے کی کوشش کی تو اس کی زندگی تلخ ہو جائے گی! "

’’چلو یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ تم ہمیشہ یہی بکتے رہتے ہو!"

’’اور مجھے یقین ہے کہ میں نے صرف زبان ہی سے نہیں کہا ! ‘‘

’’خیر... خیر... وہ اطلاعات کیا تھیں ؟"

’’پہلی تو یہ کہ آج کل میں مفلس ہو رہا ہوں ! ‘‘

’’اُڑنے لگے! '' آصف بھنّا کر رشیدہ کی طرف دیکھنے لگا۔

’’دوسری اطلاع یہ ہے کہ فریدی صاحب سجاد صمدانی کی تلاش میں یوروپ کا دورہ کرنے والے ہیں ! ‘‘

’’اُسے تو بس بہا  نہ چاہئے !‘‘ آصف بر اسامہ بنا کر بولا ۔ ’’اس بہانے مفت کی تفریح ہاتھ آئے گی ! ‘‘

’’تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اخراجات تمہارا محکمہ برداشت کرے گا؟ ‘‘انور نے کہا۔

’’جہنم میں ڈالو۔ تم مجھے کیا بتانے والے تھے؟"

’’ یہی کہ اس کا تعلق سجاد صمدانی سے ہو سکتا ہے!"

’’اور... لورین کے قتل کے متعلق کیا خیال ہے ؟'' آصف نے کہا۔

’’ وہ سجادہی نے کرایا ہو گا۔ اب تو یہ بات اچھی طرح مشہور ہو چکی ہے کہ وہ صمدانی کی بیوی تھی !‘‘

’’لیکن تھا رن ہل بلڈنگ سے اس کا کیا تعلق ؟‘‘

’’ارے تعلق تم معلوم کرو۔ یہ پولیس کا کام ہے!"

’’ لیکن تمہارا اس معاملے سے کیا تعلق؟‘ ‘آصف نے کہا۔

’’تھا رن ہل بلڈنگ کا کرایہ میں ہی وصول کرتا ہوں ! ‘‘انور نے کہا اور سگریٹ سلگانے لگا۔ وہ ناشتہ ختم کر چکے تھے۔

’’تو تم سیدھی طرح نہیں بتاؤ گے ؟“

’’اور کیا بتاؤں؟“

’’دیکھو، میں سچ مچ تمہیں بند کرادوں گا ! "

’’ابھی تک تو ایسا کوئی نہیں پیدا ہوا!"

’’میں نے ایسے گواہ مہیا کر لئے ہیں جنہوں نے تمہیں صمدانی کی کار کا تعاقب کرتے دیکھا تھا !‘‘

’’ میری طرف سے مبارکباد قبول کرو! ‘‘انور مسکرا کر بولا ۔ " غالباً اس خبر سے لیڈی فرامرز جی کو بھی خوشی ہو گی !‘‘

رشیدہ کو اس نئے  نام کے حوالے پر حیرت ہوئی اور وہ آصف کی طرف دیکھنے لگی جس کا چہرہ  دفعتًہ پھیکا پڑ گیا  تھا۔سگریٹ کا ڈبہ کھولتے وقت اس کا ہا تھ کا نپنے  لگا۔

پھر آصف نے ایک اعصاب زدہ قہقہہ لگا کر کہا۔ " تم دھمکیوں میں نہیں آؤ گے !"

’’ظاہر ہے کہ میری معلومات بہت وسیع ہیں !‘‘

’’ اچھا یہ بتاؤ! کیا فریدی سچ مچ  یوروپ جائے گا ؟ " آصف نے پوچھا ۔

’’کیا تم نے آج کا اخبار نہیں دیکھا۔ یہ خبر کل شام ہی کو پریس میں پہنچ گئی تھی !"

’’ مجھے یقین نہیں ہے !'' آصف کچھ سوچتا ہوا بولا۔

’’اگر تم فریدی کے متعلق معلومات حاصل کرنے آئے ہو تو میں بالکل مجبور ہوں !" انور خشک لہجے میں بولا ۔

’’ مجھے اُس سے کیا سروکار ۔ میں دراصل یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم اپنی ٹانگ کیوں اَڑاتے پھر رہے ہو؟"

’’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ موٹر سائیکل کے چور کو پکڑ سکوں !‘‘

’’مجھے قیامت تک یقین نہ آئے گا کہ وہ چرائی گئی تھی !‘‘

’’ اچھی بات ہے تو پھر قیامت ہی کے دن اس کے متعلق مزید گفتگو کروں گا۔ ہوسکتا ہے کہ تم اس وقت تک ا پنی را ئے بدل دو !‘‘

تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر آصف ہنس کر بولا ۔ " تم یہ نہ سمجھنا کہ تم نے مجھے پھانس کر چا ئے پی ہے۔ میں پہلےہی  ارادہ کر چکا تھا۔ تمہیں دھمکانے میں مجھے لطف آتا ہے !‘‘

’’ روز صبح آکر دھمکا جایا کرو پیارے!‘‘ انور نے بڑی لجاجت سے کہا اور رشید ہ ہنس پڑی ۔ آصف بھی کھسیانی ہنسی ہنس  رہا تھا ۔

اس کے بعد اس نے اِدھر اُدھر کی باتیں چھیڑ دیں۔ رشیدہ کو سخت حیرت تھی کہ آخر یک بیک وہ سیدھا کیوں  ہو گیا ۔ کیا  یہ سب کچھ لیڈی فرامرز جی کے نام کی وجہ سے ہوا تھا۔

آصف نے بل کے دام چکائے اور عدیم الفرصتی کا رونا روتا ہوا اُٹھ گیا۔ انور اور رشیدہ اُس کے جانے کے بعد  بھی بیٹھے رہے۔

’’میں تو کچھ سمجھ ہی نہ سکی !‘‘ رشیدہ نے کہا۔

’’ کیا تم نہیں سمجھیں کہ لیڈی فرامرز جی کے حوالے پر اُس کی روح فنا ہو گئی تھی !‘‘

’’لیکن کیوں ؟‘‘

’’لیڈی فرامرز جی کو جانتی ہو؟"

"نہیں"

’’ایک مالدار بیو ہ ہے۔ آصف نے پچھلے ماہ اپنی نگرانی میں اُس کا حمل ساقط کرایا تھا !"

’’ارے... یہ آصف !"

’’تم غلط سمجھیں ۔ حمل آصف کا نہیں تھا ۔ وہ تو صرف لیڈی فرامرز جی کا دوست ہے!"

’’خدا غارت کرے!"

’’اور اسی لئے وہ سیدھا ہوگیا!‘‘ انور نے کہا۔ "اگر ضرورت پڑے تو میں اُس ڈاکٹر کو بھی  عدالت میں  کھینچ سکتا ہوں!‘‘

کچھ دیر تک خاموشی رہی پھر انور بولا ۔” میں ایک ماہ کی چھٹی لے رہا ہوں !‘‘

" کیوں ؟"

’’مجھے کام مل گیا ہے اور اُجرت تو قعات سے زیادہ ملنے کی اُمید ہے!‘‘

"کیسا کام ؟"

"سجاد صمدانی کا جنرل منیجر چاہتا ہے کہ میں اُس کے لئے اس کیس کی تفتیش کروں!"

" آخر وہ کیوں چاہتا ہے؟"

" کیوں؟ کیا سجاد کی حیثیت مشتبہ نہیں ہے اور پھر صمدانی کا سارا کاروبار اُس کی طرف منتقل ہونے والا ہے  اس لئے جنرل منیجر کی تشویش بالکل قدرتی ہے!‘‘

’’لیکن میں تمہیں اس کی رائے نہ دوں گی۔ اس طرح تمہیں فریدی صاحب سے ٹکرانا پڑے گا ! ‘‘

’’اس کا سوال ہی نہ پیدا ہونے پائے گا۔ اگر میں نے یہ دیکھا کہ اس معاملے میں سجا دیا اُس کے آدمیوں کا ہاتھ ہے تو میں الگ ہو جاؤں گا !‘‘

’’تو کیا فریدی صاحب سچ مچ  یوروپ کے لئے روانہ ہورہے ہیں؟‘‘

’’پتہ نہیں !"

" تم نے فریدی صاحب کو اس سے مطلع کیا یا نہیں ؟‘‘

’’ضروری نہیں سمجھتا !"

’’ارے یہ کمبخت کہاں سے آمرا!‘‘ رشیدہ نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

قاسم سڑک پار کر کے ریستوران کی طرف آرہا تھا۔ اس نے انور اور رشیدہ کو یہاں بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ وہ  شا ید انور کے فلیٹ میں گیا تھا اور اُسے مقفل دیکھ کر واپس جارہا تھا کہ اُس کی نظر اُن دونوں پر پڑ گئی۔

’’یہ کیا مصیبت آگئی !‘‘انور بڑبڑایا۔

’’اخاہ! آپ لوگ یہاں ہیں!" قاسم نے دروازہ ہی سے ہانک لگائی اور دوسرے لوگ چونک کراُ سے  گھورنے لگے۔

جب وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ چکا تو انور نے آہستہ سے کہا۔ " یار تم کچھ دنوں کے لئے ہم سے علیحدہ ہی رہو!"

 " کیوں؟"

’’ابھی تک پولیس کو اُس گرانڈیل آدمی کی تلاش ہے !‘‘

’’تو میرے چہرے پر داڑھی کہاں ہے؟"

’’داڑھی صاف بھی تو کی جاسکتی ہے !‘‘

’’میں کچھ نہیں جانتا۔ تم بھی نے مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے!"

’’ ذرا آہستہ  !‘‘ انور اُس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

’’قاسم صاحب اچھے آدمی ہیں !‘‘ رشیدہ جلدی سے بولی۔ "اگر تم کہو تو وہ گھر سے نکلنا بھی چھوڑ دیں گے !"

’’ا بھی ابھی ایک سی آئی ڈی انسپکٹر یہاں سے اُٹھ کر گیا ہے!‘‘ انور بولا۔

 ’’ تو کیا پھر میں چلا جاؤں؟" قاسم نے بڑی مغموم آواز میں پوچھا اور رشیدہ کی طرف دیکھ کر ٹھنڈی سائنس لی ۔

’’عقل مندی کا تقاضہ یہی ہے!"

’’حمید کو معلوم ہو گیا ہے!" قاسم آگے جھک کر آہستہ سے بولا ۔

’’فکر نہ کر و!وہ خاموش ہی رہے گا ۔ اب تم جاؤ !‘‘

قاسم بادل نا خواستہ اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا ریستوران سے نکل گیا۔

انور اُسے جاتے دیکھتا رہا پھر رشیدہ کی طرف مڑ کر بولا ۔ ’’واقعی میں بہت بڑا احمق ہوں ۔ مفت کی بلا گلے لگا لی لیکن وہ محض تمہاری وجہ سے آتا ہے !‘‘

’’تم گدھے ہو!‘‘رشیدہ جھینپ کر بولی۔

 کچھ دیر خاموشی رہی پھر انور نے کہا ۔ " میں آج شام کو رام گڑھ کے لئے روانہ ہو جاؤں گا !‘‘

" کیوں ... رام گڑھ کیوں ؟"

’’ میرا خیال ہے کہ وہیں بدمعاشوں کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ لورین نے قتل ہونے سے چند گھنٹے پیشتر رام گڑھ میں شیزاں ہوٹل کے پتہ پر ایک تار روانہ کیا تھا !“

’’تمہیں کیسے معلوم ہوا؟“

’’بس معلوم ہو گیا۔ تار گھر میں میرے کئی دوست ہیں۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ فریدی صاحب نے کوئی تار چھ گھنٹوں کے لئے رکوایا ہے۔ اُس تار کے فارم کو میں نے بھی جا کر دیکھا۔ کسی کر شچیانا نے تھا رن ہل بلڈ نگ سے روانہ کیا تھا اور جب تھارن ہل بلڈنگ کے اُسی فلیٹ میں لورین کی لاش ملی جو تار کے پتے میں موجود تھا تو میں اس نتیجے پر پہنچا  کہ کر شچیا نا لور ین ہی ہو سکتی تھی... تار کسی مسٹر براؤن کے نام بھیجا گیا تھا۔ مضمون یہ تھا : ’میں وہاں پہنچ گئی ہوں لیکن ایکسپرٹ میکنگ کو بھیجو۔‘

پھر تم نے اخبارات میں صمدانی کے پوشیدہ تہہ خانے اور الماری کے متعلق بھی پڑھا ہوگا اور وہ سونے کی  اینٹ ...خبر میں یہ بھی تھا کہ الماری کا میکنزم بڑا پیچیدہ خیال کیا جارہا ہے۔ لہٰذا اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ ہو سکتا ہے لور ین نے اسی الماری کو کھولنے کے لئے کسی ایکسپرٹ میکنک کو طلب کیا ہو!“

 " کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی براؤن اُسی ہو ٹل میں  مقیم ہو گا ؟‘‘رشیدہ نے کہا ۔

’’  یہ مسئلہ غور طلب ہے !"

’’ خیر... میں بھی چلوں گی۔ اس طرح میں اُس حیرت انگیز عجو بے کو بھی دیکھ سکوں گی !‘‘

’’کس حیرت انگیز عجو بے کو؟"

’’ا و ہو! یہ خبر تو ریڈیو پر بھی آئی تھی!"

’’کون سی خبر ؟"

’’رام گڑھی کے متعلق تھی ۔ وہاں ایک حیرت انگیز آدمی دیکھا گیا ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی پر کمرسے گردن تک گھوڑے کی اَیال کے سے بال ہیں اور وہ گھوڑوں ہی کی طرح گھاس چرتا ہے اور خود کو سلیمان پیغمبر کا گھو ڑا  کہتا ہے۔ اتنا تیز دوڑتا ہے کہ ابھی تک اُسے کوئی پکڑ نہیں سکا ! "

’’بنڈل! " انو رمنہ بنا کر بولا ۔ " سرے سے بکو اس ۔ ایک اخبار سے منسلک ہونے کے باوجود بھی تم ان  لغویات پر یقین رکھتی ہو ۔ کیا ہم خالی جگہوں کو ایسی ہی حیرت انگیز خبروں سے نہیں بھرتے ... چار پیروں والا چوزہ... ہاتھی نے انڈے دیئے .. .لاطینی بولنے والا گدھا... وغیرہ وغیرہ!"

 

7

 

حمید بالکنی میں کھڑا دور کی پہاڑیوں میں غروب ہوتے ہوئے سورج کا منظر دیکھ رہا تھا۔

آج صبح وہ رام گڑھ پہنچا تھا اور شیزاں ہوٹل ہی میں مقیم تھا۔ اُسے خوشی تھی کہ فریدی سے دور رہ کر تفریح کا  ایک موقع ہاتھ آیا۔ فریدی نے اُسے تنہا اس مہم پر روانہ کیا تھا۔ حالانکہ حمید اسے تضیع اوقات ہی سمجھتا تھا لیکن اُس  نے  فریدی کی مخالفت نہیں کی ورنہ وہ اس بات پر بھی اَڑ سکتا تھا کہ وہ بھی اس کے ساتھ یوروپ ہی جانا پسند کرے گا۔

یوروپ والی بات اب تک اُس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ سجاد کی تلاش اور وہ بھی کسی شہر یا ملک میں نہیں بلکہ ایک بر اعظم میں بڑا احمقانہ خیال تھا ... اور پھر آخر سجاد کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ اُسے تو صرف اُس پُر اسرار انگر یز براؤن کی تلاش ہونی چاہئے تھی جو سازش کا سر غنہ تھا۔ اگر بفرض محال فریدی، سجاد تک پہنچ بھی جاتا ہے تو وہ اُسے   مجرم کس طرح ثابت کرے گا جب تک کہ براؤن نہ ہاتھ آئے اور پھر یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ براؤن سجاد ہی کا آدمی ر ہا ہو ۔ بہر حال بات حمید کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔

حمید یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے فریدی کم سے کم وقت میں اس کیس کو نپٹانا چاہتا ہو ۔ اس لئے خود سجاد کی تلاش میں جارہا ہو اور اسے براؤن کے لئے رام گڑھ بھیج دیا ہو مگر سوال تو یہ تھا کہ کیا سجاد ہی قتل کی سازش کا محرک  ہو سکتا ہے؟ ...امکانات موجود تھے مگر پیش آئے ہوئے واقعات کی بنا پر ایک بہت ہی اہم نکتہ اس کی تردید کر دیتا تھا ۔  اگر  ان حادثات میں سجاد ہی کا ہاتھ تھا ، لورین کا وجود اس سارے سٹ اَپ میں بھرتی کی چیز سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا تھا۔ فضول اور بے مصرف ۔ ظاہر ہے کہ سجاد، صمدانی کے تر کے پر قا بض ہونے کے بعد تہہ خانے والی الماری کا بھی مالک ہو جاتا ۔ آخر اس کے لئے لورین کیوں آلہ کار بنائی گئی اور پھر چوری کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ قاتلوں صرف اس الماری کی ضرورت تھی۔ اس لئے انہوں نے لو رین  کو بھی ختم کر دیا۔ لور ین، صمد انی  کی بیو ی تھی اور قا نو ناً صمدانی کے ترکے کے کچھ حصے کی مالک بھی ہو سکتی تھی۔ بہر حال ان حالات کی  بنا پر سجاد کو مشتبہ سمجھنا صحیح الد ما غی کی دلیل نہیں تھی۔حمید کی دا نست  میں صمدا نی کا قتل صرف سو نے کی اینٹوں کے لئے ہوا تھا ۔

سورج پہاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا اور رافق میں شوخ رنگوں کے لہر یئے نظر آنے لگے ۔ حمید بار جے  ہی کہنیاں ٹیکے  خیالات میں غرق رہا۔ صبح سے اب تک اُسے ہوٹل میں کوئی ایسی بات نہیں نظر آئی تھی جو اُس کی توجہ اپنی طرف مبذول کر الیتی ۔ البتہ وہ دن بھر اُس عجیب الخلقت آدمی کے تذکرے سنتار ہا تھا جو ارجن گھاٹی میں آکثر دکھائی دیتا  ہے، جس کی پشت پر گھوڑے کی اَیال کے سےبال ہیں اور جو خود کو حضرت سلیمان کا گھوڑا  کہتا  ہے اور زیادہ تر بگڑی ہوئی فرانسیسی بولتا ہے۔

حمید نے کچھ دن پہلے بھی اخبارات میں اُس کے متعلق پڑھا تھا لیکن اُسےغپ سے زیادہ وقعت نہ دی تھی اور اب بھی اُسے غپ بھی سمجھ رہا تھا۔ حالانکہ اُس نے کئی آدمیوں کو " چشم دید‘‘ واقعات دہراتے سنا تھا لیکن وہ ایسے آدمیوں کی نفسیات سے بخوبی واقف تھا۔ ایسے لوگ جب اپنی داستان گوئی سے فن میں ناکامی کی صورت دیکھ لیتے ہیں تو انہیں اس پر " چشم دید‘‘ کا لیبل چپکاتے دیر نہیں لگتی۔

بہر حال حمید سوچ رہا تھا کہ یہاں وقت اچھا گزرے گا۔ شیزاں ہوٹل اعلیٰ قسم کے ہوٹلوں میں سے تھا اور اونچے ہی طبقے کے لوگ یہاں قیام کرتے تھے ۔ اس نے کئی خوبصورت لڑکیاں آتے ہی دیکھ لی تھیں ۔ اس نے ایک طویل انگڑائی لی اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔ افق میں رنگوں کے لہریئے گہرے ہوتے جارہے تھے اور ڈھلوانوں میں رنگینے لگے  تھے۔

دفعتہً حمید چونک پڑا۔ ہوٹل کی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے والی کار سے انور اور رشیدہ اُتر رہے تھے۔

 ان دونوں کی آمد نہ صرف غیر متوقع بلکہ حیرت انگیز بھی تھی ۔ حمید تیزی سے نیچے آیا۔ ہال میں اس نے ایک پورٹر کو اُن کا سامان اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔ اس کے پیچھے وہ دونوں تھے ۔ وہ دونوں حمید کے قریب ہی سے گزر کر کا ؤنٹر کلرک  کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے اسے نہیں پہچانا کیونکہ وہ اپنی اصلی شکل میں تھا ہی نہیں ۔ فرید ی ہی نے اُس کا میک آپ کیا تھا اور اس نے ہوٹل کے رجسٹر میں اپنا نام کیپٹن پر کاش لکھا تھا۔

 حمید اُلجھن میں پڑ گیا تھا...آخر یہ دونوں یہاں کیسے پہنچے۔ انہیں شیزاں ہوٹل کے متعلق کیسے معلوم ہوا۔ کیافر یدی نے انور کو براؤن کے متعلق بتا دیا تھا ؟ اگر یہ بات تھی تو اُس نے اس سے تذکرہ کیوں نہیں کیا۔

 انور نے ہوٹل کے رجسٹر میں دستخط کئے اور پورٹر انہیں ان کا کمرہ دکھانے کے لئے ساتھ لے گیا۔

 اتنے میں دولڑ کیاں ہال میں داخل ہوئیں۔ انہوں نے اپنے کاندھوں سے ناشتے کے تھیلے اور تھرماس لٹکا رکھے تھے۔ ان کے چہروں پر تھکن کے آثار تھے۔ حمید نےا نہیں صبح بھی دیکھا تھا۔ وہ شیزا ں ہی میں مقیم تھیں۔ انہیں دیکھ کر ایک بوڑھی عورت ان کی طرف بڑھی۔

’’اوہ ممی!‘‘ اُن میں سے ایک بولی۔’’ بالکل سچ ہے۔ ہم نے اُسے دیکھا... گھاس چرتے دیکھا۔ وہ بے تکان  چھلا نگیں  مارتا ہوا اونچی نیچی چٹانوں پر چڑھتا چلا جاتا ہے!"

وہ قریب ہی کی ایک میز پر بیٹھ گئیں۔

’’کیا وہ کپڑے نہیں پہنتا ؟‘‘ بوڑھی نے پو چھا۔

’’صرف ایک پتلون !‘‘ لڑکی کا ندھے سے تھیلا اور تھرماس اُتارتی ہوئی بولی ۔ ’’کتھئی  رنگ کی پتلون ۔ پیٹھ ننگی جس پر بڑے بڑے بالوں کی لکیر کمر سے گردن تک پھیلی ہوئی ہے۔ اوہ ممی... دیو ہے دیو... ایسے ابھرے ہوئے مَسلُو میں نے آج تک نہیں دیکھے !"

’’گھاس چرتا ہے؟ ‘بوڑھی نے پوچھا۔

’’ہا ں ممی ۔ بہت تیزی ہے۔ آدمی تو معلوم ہی نہیں ہوتا۔ کتنا تیز دوڑتا ہے۔ اُف فوہ !کئی آدمی اُس کے پیچھے دوڑے تھے مگر اُسے نہ پاسکے۔ وہ پہاڑیوں پر اس طرح دوڑتا ہے جیسے سپاٹ میدان میں دوڑ رہا ہو!"

" کیا وہ پائپ بھی پیتا ہے؟‘‘ حمید نے پوچھا۔

لڑکیاں ہنس پڑیں لیکن بوڑھی، حمید کو گھورنے لگی ۔ حمید گڑ بڑا گیا۔

’’ دخل دہی کی معافی چاہتا ہوں ! ‘‘حمید نے مؤدبانہ کہا ۔’’ بات یہ ہے کہ میں نے ابھی اسے نہیں دیکھا !"

’’ضرور دیکھئے !‘‘ وہی لڑکی بولی جو بہت زیادہ بول رہی تھی اور بولتے وقت اس کی آنکھیں جوش سے چمکنے لگتی تھیں لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنے پورے وجود سے بے پروا ہو، علاوہ ہلتے  ہوئے ہونٹوں کے۔

’’میں ضرور دیکھوں گا !‘‘ حمید نے کہا اور وہاں سے ہٹ ہی جانے میں عافیت سمجھی کیونکہ بوڑھی عورت اُسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھ رہی تھی ۔

حمید کو بے ساختہ اپنا بکرا یاد آ گیا۔ اگر برخوردار بغرا خاں ہوتا تو یہ بوڑھیا بھی اس میں دلچسپی لینے پر مجبورہوجاتی۔

رات کو رقص گاہ میں حمید، رشیدہ سے ٹکرا گیا لیکن اُسے اپنی آواز پر قابونہیں تھا اس لئے وہ منمناتی ہوئی آواز شروع سے آخر تک انگریزی میں گفتگو کرتا رہا۔

اُس نے اس سے رقص کے لئے درخواست کی تھی جو بلا حیل و حجت منظور کر لی گئی تھی ۔ حمید نے رقص گاہ پرہلکورے لیتے ہوئے رشیدہ سے پوچھا۔

" کیا آپ وہ گھوڑا د یکھنے آئی ہیں ؟“

’’کیا آپ نے دیکھا؟‘‘ رشیدہ نے سوال کیا۔

’’جی ہاں، مجھے بہت ہی قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے!"

’’کیا وہ باتیں بھی کرتا ہے ؟"

’’ جی ہاں !بالکل اخبار کے رپورٹروں کی طرح بٹرنگ کرتا ہے! "

اس بات پر رشید و بُری طرح چونکی اور کچھ مضطرب سی نظر آنے لگی ۔ پھر اس نے کوئی سوال نہیں کیا ۔ حمید کی بکو اس پر صرف’’ ہاں ہوں" کرتی رہی اور پھر راؤنڈ ختم ہوتے ہی وہ تیٖر کی طرح اُس میز کی طرف گئی جہاں انور بیٹھا ہوا تھا۔

پھر حمید نے کنکھیوں سے دیکھا کہ انوراُ سے بری طرح گھور رہا ہے ۔ وہ شراب کے کا ؤنٹر کی طرف گھوم گیا۔  یہاں اُسے وہی دونوں لڑکیاں نظر آئیں جو شام کو حضرت سلیمان کے گھوڑے کی’’ زیارت‘‘ کر کے آئی تھیں۔

ان میں سے ایک دوسری سے کہہ رہی تھی۔’’ اگر آنٹی  آگئی تو!‘‘

’’نہیں  وہ نہیں آئیں گی  !" دو سر ی نے کہا ۔ "  میں انہیں دوا دے کر آئی ہوں۔ دوا پی  کر وہ سو جاتی  ہیں ۔بس ڈارلنگ تھوڑی سی، ا تنی  کہ سرور آجائے!‘‘

’’نہیں...نہیں...!‘‘

’’بڑی ڈرپوک ہو تم !“ دوسری بولی ۔’’ شیری میں تو بالکل نشہ نہیں ہوتا ۔ بس ہلکا سا سرور !"

’’شیری بڑی عمدہ چیز ہے !‘‘ حمید نے آہستہ سے کہا۔

 دونوں چونک کر مُڑیں   اور پھر جھینپتی ہوئی  ہنسنے لگیں۔

’’میں تو طالب علمی کے زمانے میں اپنے باپ کے سامنے پیتا تھا اور انہیں آج تک نہ معلوم ہو سکا !“

’’ کیسے ؟‘‘ اس نے پوچھا جس نے شراب پینے کی تجویز پیش کی تھی ۔

 " کہیں اطمینان سے بیٹھیں تو بتاؤں ! ‘‘حمید چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا ۔

وہ ایک خالی میز پر چلے گئے۔

’’بڑی عمدہ ترکیب تھی !" حمید نے کہا۔ ” میں ڈرائی جن کی آدھی بوتل میں اتنا ہی عرق منڈی ملا کر بوتل پر عرق مصفی کا لیبل چپکا دیا کرتا تھا اور وہ بوتل علانیہ میرے کمرے میں رکھی رہتی تھی اور والد صاحب خوش ہوتے تھے کہ مجھے اپنی صحت کا اتنا خیال ہے !‘‘

لڑکیاں ہنسنے لگیں ... اور حمید نے قریب کھڑے ہوئے ویٹر سے کہا۔

’’ ایک بوتل شیری... اور ایک لارج وہسکی ... اسکاچ لا نا ! ‘‘

’’نہیں ۔ نہیں ! ‘‘ایک لڑکی نے پھر مخالفت کی۔

’’آپ بڑی دقیانوسی معلوم ہوتی ہیں ! " حمید نے کہا اور وہ لڑ کی کچھ نہ بولی۔

تھوڑی دیر بعد تینوں شغل کر رہے تھے۔

حمید کوتو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ساری دنیا کی حسین لڑکیوں کا ٹھیکیدار ہو۔

بہت زیادہ بولنے والی لڑکی کی زبان اب قینچی کی طرح چلنے لگی تھی۔ اس کے بر خلاف دوسری لڑکی جس نے شراب پینے کی مخالفت کی تھی بالکل خاموش تھی اور وہ حلق سے گھونٹ اُتارتے وقت ایسا برا منہ بناتی تھی جیسے کوئیما ر مار کر اُسے پلا رہا ہو۔

’’کیا آپ پہلی بار پی رہی ہیں ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’ نہیں... دوسری بار... مجھے بڑا خوف معلوم ہوتا ہے!"

’’واہ ڈیر سٹ !‘‘دوسری نے کہا۔ ’’اس میں خوف کی کیا بات؟"

’’ قطعی نہیں !‘‘ حمید سر ہلا کر بولا ۔ " آپ الیکشن تو لڑا نہیں رہی ہیں کہ کسی سے ڈریں !‘‘

 حمید کبھی کبھی انور کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا جو بظاہر تو رشیدہ سے گفتگو میں مشغول تھا لیکن حقیقت میں اس کی نظریں بھی حمیدہی  پر تھیں۔

 حمید نے سوچا کہ شاید انور کو اس پر شبہ ہو گیا ہے اور وہ اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہے۔ اگر یہ بات ہے تو اُسے کم از کم فریدی نے یہاں نہ بھیجا ہوگا۔ پھر آخر اس کی موجودگی کا مطلب؟...  کیا حقیقتا اس نے موٹر سائیکل کی چوری کی داستان گڑھی تھی؟ لیکن پھر دوسری طرف اُسے قاسم کا خیال آیا۔ قاسم میں سازش کی صلاحیت نہیں اور وہ اتنے  فنکارانہ انداز میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ پھر آخر یہ سب کیا تھا۔ اس نئی الجھن نے تفریح کا سارا مزہ کرکرا کر دیا اور یہ حقیقت اس کے ذہن میں کچو کے لگانے لگی کہ وہ یہاں محض تفریح کے لئے نہیں آیا ہے۔

 دوسرے راؤنڈ کے لئے موسیقی شروع ہوگئی تھی اور لوگ آہستہ آہستہ اٹھ کر فرش کی طرف جارہے تھے۔ حمید نے سب سے زیادہ بولنے والی لڑکی سے رقص کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی۔ دوسرے لمحے میں حمید نے انور کو اُٹھ کر اپنے ساتھ کی دوسری لڑکی کی طرف آتے دیکھا۔ حمید کی ہم رقص نے اُس کے کان کھانے شروع کر دئیے۔وہ  بڑی رومان انگیز گفتگو کر رہی تھی ۔ شیری کے ایک گلاس نے اُسے بہت زیادہ باتونی بنا دیا تھا۔

" تمہارا نام کیا ہے؟'' حمید نے پوچھا۔

’’ کورنیلیا ...!"

’’میں تمہیں نیلی کہوں ، بُرا تو نہ مانو گی ؟"

’’ ہائے ...نیلی...!‘‘ لڑکی نے سکی سی لی ۔ " نہیں کبھی نہیں ! ‘‘

’’اور ان کا کیا نام ہے؟‘‘ حمید نے دوسری لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو انور کے ساتھ ناچ رہی تھی۔

’’ سونیا ... وہ میری کزن ہے!"

" تم بہت اچھی ہو ! ستمبر کی راتوں کی طرح خوشگوار !"

’’ تم دسمبر کی دو پہر کی طرح...!‘‘ پھر وہ ہنس پڑی۔

حمید کو شرارت سوجھی ، انور کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے اس کی ہم رقص کو مخاطب کیا ۔ " سونیا ! ذرا ...ہو شیا ری سے...تم زیادہ باتیں نہیں کرو گی !"

سو نیا نے  نشیلی  آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور مسکرادی۔ شاید شیری کے ایک بھی گلاس نے اس پر چودہ  طبق روشن کر دیئے تھے ۔

حمید ،انور ک چہرے پر بو کھلا ہٹ کے آثار دیکھتا ہو ا آگے بڑھ گیا ۔وہ دل ہی  دل میں ہنس رہا تھا۔

 اس راؤنڈ کے اختتام پر اس نے انور اور رشیدہ کو رقص گاہ سے جاتے دیکھا۔

بہر حال  اس سے  حمید نے اندازہ لگا یا کہ وہ ضرور کسی  چکر میں ہیں ۔کیا یہاں ان کی مو جو دگی کا بھی وہی  سبب  ہے جو اس  کی مو جود گی  کا تھا ...لیکن آخر کس طرح ...انور اتنا ما لدار نہیں تھا کہ محض سرا غر سانی  کے شوق  میں شیزاں  جیسی  او نچی جگہ قیام کر تا۔ اگر وہ فر یدی  کی ایما پر  یہاں آیا ہو تا تو کم از کم  اس کے حا ل  سے ضرور  وا قف  ہو تا اور اس طر ح بھا گنے  کے بجا ئے  ا س سے الجھ   پڑتا  ۔ تو کیا  وہ مجرموں کے لئے  کام کر رہاتھا... ؟ اس سوال کا جواب  اس کاذہن  ا ثبات  میں نہ دے سکا۔  وہ جا نتا تھا کہ انور کم از کم  فر یدی  کا را ستہ  کا ٹنے کی جرأت  نہیں کرسکتا۔

سچ مچ اس کی ساری تفریح غارت ہو چکی تھی اور وہ اس مسئلے پر غور کرنے کے لئے اُن دونوں لڑکیوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا لیکن شیری کے دوسرے گلاسوں نے انہیں آسان پر پہنچا دیا تھا اور اب تو خاموش طبع سونیا بھی چہکنے  کے موڈ میں آگئی تھی ۔

’’ڈیرسٹ ...ہی !‘‘ہو حمید کی گردن میں ہاتھ ڈالے کہہ رہی تھی ۔ " میں چاندنی ہوں... اور تم سائبان !"

’’ نہیں میں چہار دیواری ہوں !‘‘ حمید نے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا اور وہ آنکھیں بند کر کےہنسنے  لگی۔

حمید کو الجھن ہونے لگی ۔ نشے میں بہکی ہوئی عور تیں اُسے بڑی بور لگتی تھیں ۔

" اب تم اسے قتل بھی کر دو تو اُسے کوئی اعتراض نہ ہوگا !‘‘ کو رنیلیا اپنا منہ دبا کر ہنسی ۔

 حمید اُن سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑا کر اپنے کمرے میں واپس آگیا۔ اُس نے اس سے قبل انور اور رشیدہ کو تلاش کرنے کی کوشش بھی تھی لیکن وہ نہیں ملے تھے۔

حمید نے لباس تبدیل کیا اور پلنگ میں گر گیا۔ اس نے دو بڑے پیگ وہسکی کے پئے تھے ۔ اس لئے اس کا ذہن نیند سے بوجھل ہوا جارہا تھا۔ حالانکہ وہ ابھی سونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ سوچنا چاہتا تھا ۔ انور کے متعلق ...لیکن اسےپلنگ سے اٹھ کر روشنی بجھانے کی بھی مہلت نہ ملی اور وہ گہری نیند سو گیا۔

 اور پھر رات گئے شاید وہ کسی قسم کی آواز ہی تھی جس نے اُسے جگا دیا۔ بستر پر لیٹے ہی لیٹے اُس نے چاروں طرف نظریں دوڑا ئیں اور پھر بڑھتی ہوئی خنکی نے اُسے  کمبل   تان لینے پر مجبور کر دیا۔ آواز پھر آئی اور اُس نے منہ کھول دیا۔ ’’کھٹ ...کھٹ ...کھٹ ...چرڑ!‘‘ کوئی دوسری طرف شاید کھٹر کی پر زور لگا رہا تھا۔ مگر کھٹر کی؟... حمید ایک جھٹکے کے ساتھ اُٹھ بیٹھا۔ وہ کھڑکی تو ہوٹل کی عمارت کی پشت پر کھلتی تھی اور یہ کمرہ تیسری منزل پر تھا۔ نیچے تک بالکل         سپاٹ دیوار چلی گئی تھی ۔ حمید پلنگ سے اُتر ہی رہا تھا کہ دونوں پٹ زور دار کھٹا کے کے ساتھ کھل گئے  مل کئے اور حمید کو کھڑکی  میں ایک بڑا خوفناک چہرہ دکھائی دیا۔ اس کا دہانہ نصف رخساروں تک پھٹا ہوا تھا۔ ناک لمبی لیکن پھولی ہوئی تھی ۔آنکھیں کافی بڑی اور وحشت ناک تھیں۔

" ژے سوئی ہارس دے سالو من !‘‘ پھٹے ہوئے ہونٹوں سے غرا تی  ہوئی سی آواز نکلی۔

 حمید کا ہاتھ بے اختیار تکئے  کے نیچے گیا جہاں ریوالور رکھا ہوا تھا لیکن دوسرے ہی لمحے میں وہ چہرہ غا ئب ہو چکا تھا۔ حمید تیزی سے کھڑکی کی طرف جھپٹا  لیکن یا ہراند ھیر ا تھا۔ اس نے پلٹ کر ٹارچ  اٹھا ئی۔ پھر اُس نے دیکھا، پائپ کے سہارے ایک طویل القامت آدمی بڑی تیزی سے نیچے کی طرف پھسل رہا تھا۔ پھر اس نے شاید دس گیا رہ  فٹ کی بلندی ہی سے زمین پر چھلانگ لگا دی اور تیزی سے بھاگتا ہوا اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ اس کی ننگی پیٹھ پر    گھوڑے کی اَیال کے سے بال تھے۔

و ہ  حمید کی ٹا رچ کی روشنی کی پہنچ سے دور ہو چکا تھا ۔ حمید کے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ بات یہ تھی کہ ابھی تک اس کا ذہن نیند کے اثر سے پیچھا نہیں چھڑا سکا تھا اور اس کی کیفیت کچھ اس قسم کی تھی جیسے کان کے قریب اچانک کسی دھماکے سے آنکھ کھل جائے ۔

’’شائیں !‘‘ کوئی جلتی ہوئی چیز اُس کے اُلجھے ہوئے بالوں سے گزرتی ہوئی پچھلی دیوار سے ٹکرائی۔ حمید نے پلاسٹر ادھڑنے کی آواز صاف سنی اور پھر اُسے اچھی طرح ہوش آگیا۔ وہ کھڑے ہی کھڑے دھڑام سے پیچھے کی طرف گرا۔ اس کا دل بڑی شدت سے دھڑک رہا تھا۔ اگر گولی ایک انچ اور نیچے کی طرف جھکی ہوئی ہوتی تو اُس کی کھوپڑی کے پر خچے اُڑ گئے تھے۔

اُس کے جسم کے مسامات نے بیک وقت بہت سا ٹھنڈا پسینہ اُگل دیا اور شاید ایک منٹ تک اس کا ذہن بالکل ہی مفلوج رہا۔

پھر حمید نے کھڑکی کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کی۔ وہ رینگتا ہوا اس میز کے قریب پہنچا جس پر فون رکھا ہوا تھا۔ اُس نے اس کا ریسیور اٹھا کر بزر پر انگلی رکھ دی اور اُسے متواتر دباتا ہی چلا گیا۔ شاید دو منٹ تک یہی کرتا رہا پھر اُسے راہداری میں قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ حمید نے اُٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ یہ ڈیوٹی کلرک تھا اور حمید کی حرکت پر جھلایا ہوا خود ہی دوڑا آیا تھا۔ اس کے چہرے پر حیرت اور غصہ کے ملے جُلے   آثار تھے۔

قبل اس کے کہ وہ کچھ کہتا، حمید نے جلدی جلدی پورا واقعہ وہراتے ہوئے اپنے جھلسے ہوئے بال اور دیوار کا ادھڑا ہوا پلا سٹر  دکھائے۔

’’حیرت ، سخت حیرت! " کلرک پاگلوں کی طرح بڑ بڑایا پھر سنبھل کر کہنے لگا ۔ " دیکھئے کپتان صاحب، میرا خیال ہے کہ ہم خاموشی سے اس کی چھان بین کریں ورنہ دوسرے مسافروں پر بُرا اثر پڑے گا۔ میں ابھی خانگی سرا غرسان کو لاتا ہوں !"

" کچھ بھی کرو! " حمید غصیلی آواز میں بولا۔ ’’لیکن مجھے اس وقت ایک ایسا کمرہ  چاہئے  جس کی کھڑکیاں باہر کی طرف نہ کھلتی ہوں !‘‘

’’ٹھہر یئے ، مجھے سوچنے دیجئے !ہاں بے شک میں آپ کو ایسا کمرہ اسی وقت دے سکوں گا !"

 پھر تھوڑی دیر بعد خانگی سراغرساں کی نگرانی میں اس کا سامان دوسرے کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ حمید نے بقیہ رات جاگ کر گزاری اور ہوٹل کے ذمہ دار لوگ تفتیش میں مشغول رہے۔ انہوں نے حمید سے استدعا کی تھی کہ وہ اس   کا تذکرہ مسافروں میں نہ کرے۔ ویسے وہ پولیس کو اطلاع دے سکتا ہے۔

دوسری صبح حمید نے فیصلہ کیا کہ وہ فریدی کی ہدایات کے سلسلے میں لکیر کا فقیر نہ بنار ہے گا۔ ورنہ ممکن ہے کہ اسے اپنی زندگی ہی سے ہاتھ دھونے پڑیں۔ اُس نے سوچا کہ کیوں نہ میجر نصرت سے مل کر اُس سے اس مسئلے پر گفتگو کی جائے۔ میجر نصرت محکمہ سراغرسانی کا سپر نٹنڈنٹ تھا اور حال ہی میں ٹیکم گڑھ سے تبدیل ہوکر یہاں آیا تھا۔ فریدی کے گہرے دوستوں میں سے تھا اور حمید کا بڑا خیال کرتا تھا۔

میجر نصرت ، حمید کو کیپٹن پرکاش کے بھیس میں پہچان نہیں سکا اور پھر جب حمید نے بتایا تو اُسے حیرت بھی نہیں ہوئی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ فریدی میک اَپ کا ماہر ہے اور سراغرسانی کے اس پرانے طریقے پر صرف وہی اب تک کاربند ہے لیکن اس میں بھی اُس نے کچھ جدتیں کی ہیں۔

اور پھر جب حمید نے سارے واقعات دہراتے ہوئے اپنی ملاقات کا مقصد بیان کیا تو میجر نصرت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔

’’وہ آدمی !‘‘ اُس نے کہا۔ ”ہاں میں نے بھی اُسے ارجن  گھا ٹی   میں دیکھا ہے لیکن یہ خبر بڑی حیرت انگیز ہے کہ وہ اب آبادی میں بھی داخل ہونے لگا ہے لیکن تمہارے ہی کمرے میں کیوں ؟“

’’آپ کو مسٹر براؤن والی بات تو یاد ہی ہوگی !‘‘

’’ہاں ...اور میں نے اس کے متعلق اطلاع بھی دی تھی۔ بعد کو فریدی نے تار کے بارے میں پو چھا تھا لیکن وہ بھی ہوٹل سے واپس کر دیا گیا تھا !‘‘

’’سیٹھ صمدانی ...اور اس کی سکریٹری کے قتل میں اسی مسٹر براؤن کا ہاتھ ہے!‘‘ حمید نے کہا اور اُس کے واقعات بھی فریدی کے دلائل سمیت دہرائے ۔

’’ مائی گڈنس!'' میجر نصرت انگلی سے اپنا داہنا گال کھجاتا ہوا بولا۔ " تب تو اُن افواہوں کو اہمیت دینی ہی  پڑے گی !‘‘

’’کن افواہوں کو ؟"

’’بھئی بات یہ ہے وہ آدمی عجیب الخلقت ہے اس لئے لوگ اس کے پیچھے دوڑتے ہیں لہٰذا سننے  میں آیا ہے اس کے پیچھے جانے والوں میں سے اکثر واپس نہیں آتے... اور ابھی تک تقریبا تیں یا چالیس آدمیوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج ہو چکی ہے!"

’’ آپ نے اُسے پکڑنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟‘‘

’’ارے یار... وہ تو چھلا وہ ہے چھلا وہ ۔ جس حیرت انگیز تیزی سے وہ چٹانوں پر چڑھتا ہے، کسی آدمی کے بس  کا روگ نہیں لیکن اب ہم اُس پر فائر کریں گے! "

" کیوں نہ آج ہی ہم اُس کی تلاش میں چلیں !‘‘ حمید نے تجویز پیش کی۔

’’قطعی۔ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اب تم اُس ہوٹل کی سکونت ترک کرد و !‘‘

’’ میں اسے مناسب نہیں سمجھتا !" حمید نے کہا۔ " میرا خیال ہے کہ براؤن کا کچھ نہ کچھ تعلق اُس ہوٹل سے ضرور ہے!"

’’اور وہ تمہیں اس بھیس میں بھی پہچا نتا ہے !"

’’حملے کا تو سہی مطلب ہو سکتا ہے!" حمید بولا ۔

’’اور پھر ایسی صورت میں بھی تم وہاں قیام کرو گے؟"

حمید نے کوئی جواب نہ دیا۔

دو گھنٹے کے اندر اندر روانگی کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ پولیس کی ایک لاری میں دس مسلح کا نسٹیبلوں سمیت وہ ارجن گھاٹی  کی طرف روانہ ہو گئے ۔ جب گھاٹی  کا فاصلہ دو میل رہ گیا تو انہیں لاری چھوڑ دینی پڑی کیونکہ آگے چل کر ۔ دشوار گزار راستہ شروع ہو گیا تھا۔ یہاں کوئی سڑک نہیں تھی ۔ چاروں طرف بے ترتیب چٹانیں بکھری ہوئی تھیں۔

 راہ میں انہیں اور لوگ بھی ملے جو اُس حیرت انگیز آدمی کی تلاش میں نکلے تھے ۔ میجر نصرت نے حمید کو بتایا کہ وہاں کافی بھیٹر ہو جاتی ہے لیکن بہت کم آدمی گھاٹی میں اترنے کی ہمت کرتے ہیں ۔ ایک تو وہ ہے بھی کافی نشیب میں اور پھر  راستہ بھی دشوار گزار ہے۔ دراصل کبھی وہ ایک بہت بڑی جھیل رہی ہوگی لیکن کسی وجہ سے اس کا پانی خشک ہو جانے کی بنا پر اب وہاں سبزہ زار نظر آتا تھا اور ارجن گھاٹی  کو بس کسی پچکے پچکے پیالے ہی سے تشبیہ دی جاسکتی تھی ۔

 تھوڑی دیر بعد وہ لوگ وہاں پہنچ گئے جہاں وہ کھڑے تھے۔ وہاں سے گھاٹی کی گہرائی تیسں فیٹ سے کسی طرح کم نہ رہی ہوگی۔ نیچے کی زمین قریب قریب مسطح تھی اور اس پر سبزہ لہلہاتا نظر آرہا تھا۔ چاروں طرف اونچی نیچی  چٹا نیں تھیں اور چٹانوں کے درمیان میں وہ وادی شاید ایک میل کے رقبے میں پھیلی ہوئی تھی۔

’’دیکھو! ‘‘میجر نصرت نے اپنے آدمیوں کو مخاطب کیا۔ " تم سب چٹانوں کی اوٹ لے کر نیچے اُترنے کی کو شش کرو۔ خیال رہے کہ اس کی نظر تم پر نہ پڑنے پائے ۔ پہلے اُسے گھیر کر زندہ پکڑنے کی کوشش کرنا  ، جب ہاتھ سے نکلنے لگے تو پھر فا ئر کرنا!‘‘

مسلح سپاہی ایک ایک کر  کے دور تک پھیل گئے اور انہوں نے نیچے اُترنا شروع  کر دیا۔ پھر میجر نصرت نے تماشا ئیوں  سے کہا۔’’ آپ لوگ براہ کرم پیچھے ہٹ جائیے اور کوئی صاحب نیچے جانے کی کوشش نہ کریں، ور نہ اگر کسی جان گئی تو پو لیس ذمہ دار نہ ہو گی !‘‘

لو گوں نے نصرت سے اس کی بات سنی ۔ کچھ لوگ وجہ بھی پوچھنے لگے لیکن میجر نصرت نے کوئی جواب نہ دیا۔ اب  اُس نے حمید سے کہا۔

’’ آؤ... اب ہم نیچے چلیں ۔ تمہارے پاس ریوالور تو ہوگا ہی ۔ ہمیں در اصل یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ رہتا  کہاں ہے! ’’

دونوں ایک دراڑ میں اُتر گئے لیکن تیسں یا چالیس فیٹ سے زیادہ نیچے  نہیں جاسکے کیونکہ آگے چل کر راستہ خط مستقیم کی طرح نیچے  کی طرف سیدھا ہو گیا تھا۔ وہ پھر اوپر آگئے اور اب انہیں دوسرے راستے کی تلاش ہوئی ۔

’’بس  راستوں ہی کا معاملہ تو ٹیڑھا ہے !'' میجر نصرت نے کہا۔ ’’ورنہ یہ گھاٹی اب تک ویران نہ رہتی !"

 انہیں جلدہی دوسرا راستہ مل گیا لیکن یہ بھی اتنا دشوار گزار تھا کہ وہ آدھی مسافت ایک گھنٹے میں طے  کر پائے۔

’’ وہ دیکھو... وہ رہا !‘‘دفعتہً میجر نصرت نے کہا۔ حمید کی نظر سامنے اُٹھ گئی ۔ فاصلہ ایک میل سے کم نہ رہا ہوگا لیکن پھر بھی اُسے سامنے کی چٹانوں میں ایک آدمی نظر آیا جو اُچھلتا،   کودتا ہو نیچے کی طرف آرہا تھا۔

’’یعنی یہ اس کا معمول ہے !‘‘ حمید بڑبڑایا۔

’’ قطعی... و ہ روزانہ اس وقت گھاس چرنے آتا ہے! ‘‘ میجر نصرت نے ہنس کر کہا پھر سنجید گی سے بولا’’ اگر اس جسم پر پتلون نہ ہوتی تو میں یہ سجھتا کہ شاید وہ کسی قدیم ترین نسل کا آدمی ہے جو کسی غار میں پڑا رہتا ہوگا لیکن اب حالا ت کی بنا پر  میں یہ بھی باور کر لینے پر تیار ہوں کہ وہ کسی شاطر ترین آدمی کا آلۂ  کار ہے ... آخران آدمیوں کےغائب ہو جانے سے کیا مطلب لیا جائے ! ‘‘

حمید کچھ نہ بولا۔ وہ بڑی توجہ اور دلچسپی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ وہ بڑی بڑی چٹانیں پھلانگتا تیزی سے دوڑتا ہوا نیچے کی طرف آرہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ وادی میں اُتر آیا۔ حمید نے ہنہناہٹ کی آواز سنی جو ہو بہو کسی گھوڑے کی آواز تھی ۔ پھر وہ عجیب الخلقت آدمی گھٹنوں کے بل دونوں ہاتھوں پر رینگ رینگ کر گھاس چرنے لگا۔

 کبھی کبھی وہ رُک کر گھوڑوں کی طرح منہ اٹھاتے ہوئے ہنہنا تے لگتا تھا۔

 ’’یہ بھی عجیب بات ہے !‘‘ میجر نصرت نے کہا ۔ ’’آدھی انگریزی اور آدمی فرانسیسی بولتا ہے !‘‘

’’حالانکہ اسے دونوں زبانوں کا عالم ہونا چاہئے ! ‘‘حمید نے سنجیدگی سے کہا۔ میجر نصرت نے اسے حیرت دیکھا اور پھر ہنسنے  لگا۔

’’یہ تو میں بھول ہی گیا تھا کہ تم سارجنٹ حمید ہو ...مسخرے!‘‘ اس نے کہا۔ " میرا خیال ہے کہ فریدی کاتو نا طقہ  بندرہتا ہو گا لیکن  مجھے اُمید ہے کہ تم  میری سفید مو نچھوں کا خیال رکھو گے!‘‘

حمید نے ایک سعادت مندا نہ بر خو رردار  کی طرح مسکراکر سر جھکا یا۔

’’پتہ نہیں  ...ہمارے آدمی  نیچے  پہنچے بھی...یا...!‘‘میجر نصرت او  ر  کچھ  کہتے کہتے رُگیا۔حمید کی  نظر بھی اُٹھ گئی۔نیچے وادی میں کھڑا وہ  ہا تھ  ہلا کر  چیخ رہا تھا۔غالباًً  وہ  اوپر کھڑے ہو ئے  آدمیوں  کو اپنی طرف متو جہ کر نا چاہتا تھااور پھر شا ید ان دونوں کو نیچے آتے دیکھ کراُس نےحلق سےایک عجیب سی آواز نکا لی اور دوبارہ گھاس پر منہ  ما رنے لگا۔

انہوں  نے اپنی  رفتار تیز کر دی ۔ابھی تک سپاہی  بھی  شاید نیچے نہیں پہنچ سکے تھے۔

حمید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر سپاہی اُسے گھیرے میں کیسے لیں گے۔ چاروں طرف سے گھیر نا  تو  با لکل ہی  نا ممکن تھا کیونکہ راستے دشوار گزار تھے ۔ اگر سپاہی کسی نہ کسی طرح نیچے پہنچ   بھی گئے تو ان میں اتنا دم نہیں ہو گا کہ وہ دوڑ کروادی کا پورا چکر لگا سکیں ۔ حمید صرف سوچتا رہا۔ اس نے یہ بات میجر نصرت سے نہیں کہی۔ فی الحال تو اس کا  مقصد صرف اس انسان نما حیوان کو قریب سے دیکھنا تھا۔

ان کے ساتھ ہی سپاہی بھی ایک ایک کر کے نیچے پہنچ گئے اور وہ سب ایک ہی جگہ اکٹھا ہو گئے تھے۔ اب شا ید میجر  نصرت کو بھی اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ دوسری طرف وہ حیوان نما انسان جو اُن سے ڈیڑھ فرلانگ سے زیا دہ  فاصلے پر نہیں تھا، چوکنا نظر آنے لگا۔ اُس نے گھاس چرتے چر تے  منہ اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور ہونٹوں سے   فر فراہٹ کی آوازیں نکالتا ہوا دولتیاں جھاڑنے لگا۔

’’فائر کر و!‘‘میجر نصرت نے جلدی سے کہا ۔

دس را ئفلیں اٹھیں لیکن باڑھ مارنے سے پہلے ہی وہ اُچھل کر بھاگا ۔ باڑھ ماری گئی۔ وہ لڑ کھڑا کر گرا لیکن اُٹھ کر بھاگنے لگا۔ اس بار اس کی رفتار پہلے سے بھی زیادہ تیز تھی۔

 دیکھتے ہی دیکھتے وہ چٹانوں تک پہنچ گیا۔ حمید اور اس کے ساتھیوں نے بھی اب دوڑنا شروع کر دیا لیکن   ابھی انہوں نے آدھا راستہ بھی نہیں طے کیا تھا کہ وہ سامنے والی چٹانوں میں اُچھلتا کودتا نظروں سے غائب ہو گیا ۔

’’یہ تو  نا ممکن ہے!‘‘ میجر نصرت ہانپتا ہوا بولا ۔ " کہ اُسے ایک بھی گولی نہ لگی ہو!"

پھر اُس نے سپاہیوں سے کہا۔ " بھاگتے چلو ۔ آج ہم اُسے تلاش ہی کر کے دم لیں گے ! ‘‘

چٹانوں کے سلسلے تک  پہنچتے پہنچتے وہ گد ھوں کی طرح ہا نپنے  لگے۔

 اور حمید نے جب اُن چٹانوں کو قریب سے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے ۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا وہ انہی  چٹانوں پر بندر کی طرح اُچھل کود کر رہا تھا۔ یہ چٹانیں تو ایسی تھیں کہ ان پر چلنا بھی دشوار تھا ۔

 وہ نیچے ہی ٹھہر کر دم لینے لگے۔

’’وہ دیکھئے، وہ رہا!‘‘اچانک سپاہی چلایا اور سب کی نظریں اوپر اٹھ گئیں ۔ وہ اپنے بڑے بڑےدا نت نکالے کافی بلندی پر چٹانوں سے جھانک رہا تھا۔

’’آؤ...شیطان کے گدھے کے بچو !‘‘اس نے انگریزی اور فرا نسیسی ملی جلی زبانوں میں چیخ کر کہا اور پھر جلدی سے اپنا سر پیچھے کھینچ لیا کیو نکہ اُدھر را ئفلیں سیدھی ہو گئی تھیں۔

’’کیا اُسے گولیاں نہیں لگیں ؟'' میجر نصرت نے حیرت سے کہا۔

 حمید کچھ نہ بولا۔ وہ تماشائیوں کو بھی وادی میں اُتر تے دیکھ رہا تھا۔

’’میں آج اُس کے ٹھکانے کا پتہ لگا کر ہی دم لوں گا!‘‘ میجر نصرت نے پھر کہا۔

 سپاہیوں نے چٹانوں پر چڑھنا شروع کر دیا۔ حمید اور میجر نصرت بھی آگے بڑھے۔

’’میرے خیال سے آپ یہیں نیچے انتظار کیجئے!‘‘ حمید نے میجر نصرت سے کہا۔

’’ او ہو، برخوردار!اب میں اتنا بوڑھا بھی نہیں !‘‘ میجر نصرت ہنس کر بولا ۔

ایک چٹان سے دوسری پر پہنچنا بڑا دشوار تھا۔ سپاہیوں نے اپنی رائفلیں کاندھے سے لٹکا لی تھیں اور بڑی عرق ریزیوں کے ساتھ اوپر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ حمید سب سے آگے تھا اور اس کے ساتھ دو پُھر تیلے سپاہی تھے جو بلیوں کی طرح چستی دکھا رہے تھے۔ ان میں سے ایک تو بہت ہی پُر جوش معلوم ہوتا تھا اور وہ حمید پر بھی سبقت لےجا نے کی کوشش کر رہا تھا۔ اوپر پہنچنے کے لئے آخری چٹان بڑی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوئی ۔ وہ کافی طویل وعریض تھی ۔ دس فٹ کی بلندی پر ایک بڑے سائبان کی طرح چھائی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا کیونکہ اس سلسلے کی دوسری چٹانیں دیوار کی طرح سیدھی کھڑی ہوئی تھیں اور کہیں سے بھی ان کی اونچائی پچاس فیٹ سے کسی طرح کم نہیں تھی ۔ حمید کے ساتھ والے پُر جوش سپاہی نے نیچے کی ایک چھوٹی چٹان پر کھڑے ہو کر چھلانگ لگائی اور اوپر نکلی ہوئی سائبان نما چٹان کا کنارہ پکڑ کر جھول گیا۔ پھر اس نے بندروں کی طرح اپنی ٹانگیں اوپر اُٹھا ئیں اور دوسرے لمحے میں چٹان پر تھا...لیکن وہ چیخ... شاید حمید اُسے کبھی نہ بھلا سکے۔ چیخ ہی کے ساتھ حمید نے اس سپاہی کو ہوا میں اُڑتے  دیکھا اور اب وہ بلندی سے پھینکی ہوئی ایک کنکری کی طرح نیچے وادی میں جار ہا تھا۔ ایک چیخ اور سنائی دی اور پھر سناٹا چھا گیا۔

وادی شور سے گونج رہی تھی اور وہ سب بے تحاشہ نیچے  کی طرف بھاگ رہے تھے گرتے پڑتے ۔ حمید بھی وہاں نہ ٹھہر سکا حالانکہ او پر بالکل سناٹا تھا۔

 نیچے پہنچ کر انہیں ہڈیوں اور گوشت کے لوتھڑوں کا ایک ڈھیر نظر آیا جس سے قرب و جوار کی زمین سرخ ہو رہی تھی ۔تما شا ئی چیخ رہے تھے۔ میجر نصرت پر بدحواسی طاری تھی اور سپاہی تو اس طرح کانپ رہے تھے جیسے کچھ دیر بعد اُن کا بھی حشر ہو گا ۔

’’یہ ہوا کیسے؟ ‘‘میجر نصرت نے حمید سے پوچھا۔

’’مجھے کچھ نہیں معلوم! ‘‘حمید نے چٹان کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ ” وہ او پر چلا گیا تھا۔ پھر میں نے اُسےاُچھل کر نیچے  جاتے دیکھا! "

" کیا اُس نے پھینک دیا!‘‘میجر نصرت بولا۔

’’نہیں!‘‘ تماشائیوں کے مجمع سے ایک بوڑھے مگر قوی الجثہ انگریز نے آگے بڑھ کر کہا۔ " چٹان پر اس کے  علاوہ اور کوئی نہیں تھا !"

حمید چونک کر اُسے گھورنے لگا۔

’’ہم نیچے سے صاف دیکھ رہے تھے !‘‘انگریز پھر بولا۔’’ وہ چٹان پر تنہا تھا اور اُس نے خود ہی چھلا نگ لگائی تھی !‘‘

دوسرے تماشائیوں نے بھی اس کی تائید کی۔ ان سب نے بھی وہی دیکھا تھا۔ چٹان پر سپاہی کے علاوہ  انہیں اور کوئی نہیں دکھائی دیا تھا ۔

’’ عجیب بات ہے !'' میجر نصرت مضطر با نہ انداز میں اپنی پیشانی رگڑتا ہوا بولا۔

 حمید کی نظریں اب بھی انگریز پر جمی ہوئی تھیں اور اس کا ذہن نہ جانے کیوں " براؤن، براؤن‘‘ کی گردان  کر رہا تھا۔

اس نے تماشائیوں کی بھیڑ میں انور اور رشیدہ کو بھی دیکھا جو اُسے مشتبہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

’’آخر وہ خود ہی چھلانگ کیوں لگانے لگا !" حمید نے میجر نصرت کی آواز سنی جو منہ اوپر کئے اُس خطرناک چٹان کو گھور رہا تھا۔

’’اُسے یقینا ًڈھکیلا گیا ہے!" حمید نے کہا ۔

’’ہر گز نہیں !‘‘ انگریز بولا ۔ " اس کے قریب کوئی بھی نہیں تھا ! "

" آخر آپ لوگ نیچے کیوں آئے جب منع کر دیا گیا تھا!‘‘حمید اُلٹ پڑا۔

کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔

’’چھوڑو... بھئی... بحث رہنے دو! ‘‘میجر نصرت نے مضطر بانہ لہجے میں کہا۔ " اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟"

 پھر وہ تقریبا ًآدھے گھنٹے تک سپاہی کی مڑی تڑی  لاش اُٹھانے کے مسئلے پر گفتگو کرتے رہے لیکن کوئی اُسے ہاتھ لگانے پر بھی رضا مند نظر نہیں آتا تھا۔

کافی دیر بعد فیصلہ ہوا کہ لاری کی ایک سیٹ نکالی جائے اور لاش کو اُسی پر ڈال کر اوپر لے جایا جائے۔

ان کی واپسی بڑی اندوہناک تھی۔ راستے بھر کوئی کچھ نہ بولا ۔ اُن کے ذہن بو جھل سے بوجھل ہورہے تھے اور دل کی دھڑکنیں سروں میں دھمک پیدا کر رہی تھیں ۔

شہر پہنچ کرحمید نے اس واقعے کے بارے میں میجر نصرت سے گفتگو کر نی چا ہی  لیکن وہ بہت زیادہ حواس با ختہ ہو رہا تھا اس لئے پھر حمید ٹا ل ہی گیا۔

 ہوٹل آیا تو یہاں اور ہی شگوفہ کھلا ہوا دیکھا۔ ہال میں انور اور رشیدہ کے ساتھ قاسم بھی موجود تھا۔ حمید کی جھلاہٹ بڑھ گئی۔ انور نے مسکرا کر اُسے اشارہ کیا اور اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی۔ حمید بے چوں وچرا بیٹھ گیا۔

’’آپ بھی تو تھے شاید ار جن گھاٹی میں ! ‘‘انور نے کہا۔

حمید نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

" کیا آپ کا تعلق پولیس سے ہے؟“

’’میراتعلق تمہارے باپ کے جنازے سے ہے!‘‘ حمید ناک کے بل بولا ۔

" کیا مطلب؟‘ انور کی بھنوئیں تن گئیں۔

 " کیا تم کرائم رپو رٹر انور نہیں ہو!"

’’ہوں تو پھر ؟‘‘

’’کیا صمدانی والے معاملے میں تمہارا نام نہیں لیا جاتا! " حمید نے کہا لیکن اس بار بے خیالی میں اپنی آواز پر قابو نہ رکھ سکا۔ انور اُسے گھورنے لگا اور پھر منہ بنا کر بولا ۔ ’’تو یہ تم ہو!‘‘

’’ہاں میں ہوں اور وہ شخص یہاں موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے تم اب تک بچے رہے ہو۔ میں اب دیکھوں گا  تمہیں !

’’کیا کرو گے؟"

’’بند کر دوں گا تم دونوں کو ! " حمید نے قاسم کی طرف دیکھ کر کہا۔ قاسم ابھی تک کچھ نہیں سمجھا تھا ۔ وہ بوکھلا گیا۔

’’جھک مارتے ہو!“ انور بولا۔

" کیوں بے ! تم کیوں دکھائی دیئے یہاں؟" حمید نے قاسم سے پو چھا۔

 ’’بے ...کیا مطلب؟" قاسم بگڑ کر بولا ۔ " میں آپ سے واقف نہیں اور آپ مجھ کو اس طرح مخاطب کرتے ہیں !‘‘

’’صمدانی کا تعاقب کیا تھا تم نے !"

’’ارے ...ار...نن نہیں تو... آپ کو حساب فہمی ہوئی !" قاسم بوکھلا کر اپنی کھوپڑی سے نکل گیا۔

’’ حساب فہمی نہیں غلط فہمی !‘‘ حمید دانت پیس کر بولا اور رشیدہ ہنسنے  لگی۔

قاسم بری طرح گڑ گڑانے لگا تھا۔

حمید نے انور سے پوچھا۔ " تم یہاں کیوں آئے ہو؟"

’’تم سے مطلب؟"

" تم براؤن کے آلہ کار ہو!میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں اور ابھی ہیڈ کوار ٹرکو فون کرتا ہوں !‘‘ حمید اُٹھتا ہوا بو لا ۔

 "حمید بھائی... خدا کے لئے...!‘‘ رشید ہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’حمید بھائی !" قاسم اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔

’’تم دخل نہ دو!‘‘ حمید نے رشیدہ سے کہا۔ " مجھے تم سے بہت محبت ہے !"

" کیا ...؟ " قاسم کی آنکھیں نکل پڑیں۔

’’ بیٹھ !نہیں تو ابھی چھرا مار کر تیری توند برابر کردوں گا ...لمڈھگ ! ‘‘حمید نے قاسم سے کہا۔

’’تم محبت کرتے ہو اِن سے ! " قاسم تھوک نگل کر بولا ۔

’’چلواٹھو یہاں سے!‘‘ انور نے رشیدہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔

’’جاؤ ...لیکن رات حوالات ہی میں گزرے گی !‘‘ حمید نے آنکھیں نکال کر کہا۔

انور اور رشید ہ اُٹھ کر چلے گئے ۔ قاسم نے بھی جانا چاہا لیکن حمید نے اُسے روک لیا۔

’’ اب بتاؤ بیٹا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو؟"

’’میں غارت ہو گیا حمید بھائی!‘‘ قاسم روہانسی آواز میں بولا ۔

’’عشق کا چکر ہے!"

’’یہ سالا انور نہیں چاہتا کہ میں اُس سے ملوں۔ چپ چاپ اُسے لے کر یہاں چلا آیا۔ میں نے بڑی مشکل سے پتہ لگایا۔ وہ مجھے بے حد پسند کرتی ہے!"

" کون رشیده؟"

قاسم نے جواب میں سر ہلا دیا۔

’’ ابے کیوں شامت آئی ہے!"

" نہیں حمید بھائی ... الاقسم وہ بھی مجھ سے موحّبت کرتی ہے !مگر یہ سالا انور ! ‘‘

’’تو تم اُسے اپنا سالا بناؤ گے۔ ابے وہ تیرے پر خچے  اڑا دے گا۔ رشیدہ نے تمہیں اُلّو بنایا ہے!‘‘

’’نہیں ، وہ بڑی اچھی لڑکی ہے !" قاسم نے کہا۔

’’خیریت اسی میں ہے کہ تم واپس جاؤ!“

’’نہیں جاؤں گا... چاہے جان چلی جائے ۔ میں سب سمجھتا ہوں!“

" کیا سمجھتے ہو؟“

" تم نے ابھی کہا تھا کہ تمہیں اس سے موحّبت ہے!"

’’اچھا ،ہے تو پھر ؟"

’’تو پھر...!‘‘ قاسم آنکھیں نکال کر بولا۔’’ دیکھ لینا !‘‘

حمید نے رشیدہ کو دیکھا جو تنہا اس کی طرف آرہی تھی ۔

 ’’ذرا...اِدھر آؤ !‘‘اس نے حمید کو الگ بلایا اور قاسم اندر ہی اندر کھولنے لگا۔

حمید اٹھ کر رشیدہ کے قریب چلا گیا ۔

’’ میں نے انور کو منع کیا تھا مگر وہ نہیں مانا !" رشیدہ نے کہا۔ " وہ در اصل سجاد کے جنرل منیجر کے لئے کام کر رہا ہے!"

’’گو یا فر یدی صاحب سے ٹکرا نے کی کو شش کر رہا ہے!‘‘ حمید  غصیلی آواز میں بو لا ۔’’کیا اُسے نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ سجا د کی تلا ش میں ہیں لیکن یہ بتاؤ کہ تم لوگ  اسی ہو ٹل میں کیوں ٹھہرے؟‘‘

اس  پر رشیدہ  نے تار والا وا قعہ بتا تے ہو ئے کہا ۔’’اسی  سے انور نے انداز ہ لگا یا کہ قا تلوں کا کچھ نہ کچھ تعلق شیزا ں ہو ٹل سے ضرور ہو سکتا ہے!‘‘

’’لیکن انور کی یہ حرکت  اُسے بڑی مہنگی پڑے گی ۔فریدی صا حب اسے ہر گز نہ پسند  کریں گے!‘‘

’’میں نے بھی یہی کہا تھا...لیکن اُس نے کہا  کہ اگر کو ئی ایسا مو قع  آیا تو  وہ الگ ہو جا ئے گا!‘‘

’’لیکن انور نے مجرموں کو ہو شیار  کر دیاہے۔تمہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ پچھلی رات کو مجھ پر حملہ ہو چکا ہے!‘‘حمید نے رات  کے وا قعات دہرا ئے ۔

’’یہ تو خطرناک بات ہے! ‘‘رشیدہ نے کہا۔

’’ اسی لئے اب میں میک اَپ کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرتا۔ ویسے میں اسے برقرار رکھوں گا اس لئے کہ ہز ہارڈنس کا یہی حکم تھا !"

وہ بھی اسی میز پر آگئے جہاں قاسم بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔

" لیکن ... وہ چٹان والا حادثہ... میری سمجھ میں نہ آسکا !‘‘ رشیدہ بولی۔

’’اُس پر گولیاں بھی چلائی گئی تھیں !‘‘ حمید نے کہا۔

’’ہم اُس وقت وہیں تھے۔ آخر یہ آدمی ہے کیا بلا ؟‘‘

" قاسم کاچچا !" حمید نے کہا۔

’’میں بھی اُس سالے کو دیکھنا چاہتا ہوں !" قاسم بولا ۔

’’اب آہی گئے ہو تو میں تمہاری اور اس کی کشتی کراؤں گا !‘‘

’’مروڑ کر رکھ دوں گا سالے کو !‘ ‘قاسم نے سینہ تان کر کہا۔

 اچانک حمید کی نظریں دروازے کی طرف  اُٹھ گئیں اور اس نے اُسی انگریز کو ہال میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا  جس نے ارجن گھاٹی میں سپاہی کے گرنے کے متعلق ایک حیرت انگیز بات بتائی تھی . ..وہ سیدھا کاؤنٹر کی طرف چلا گیا ۔

حمید کی نظریں اس کا تعاقب کرتی رہیں۔ انگریز نے کاؤنٹر پر رُک کر اِدھر اُدھر دیکھے بغیر کا ؤنٹر کلرک سے کچھ کہا  جس کے جواب میں کلرک نے ایک طویل سانس لی اور رجسٹروں کے ڈھیر سے ایک رجسٹر نکال کر اس کی ورق گردا نی کرنے لگا۔ اس دوران میں انگریز نے جیب سے تمبا کو کی پاؤچ نکالی اور سگریٹ رول کرتا رہا۔

اس کی عمر پچاس، ساٹھ سے کسی طرح کم نہ  رہی ہوگی۔ چہرہ بھاری اور کھوپڑی  انڈے کی چھلکے کی  طرح شفاف تھی۔جبڑوں کی مخصوص  بنا وٹ اس کی سخت گیری کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔قویٰ مضبوط تھے اور  حرکات و سکنات سے پھر تیلا  پن ظاہر ہو تا تھا۔اُس نے حمید  و غیرہ پرایک اچٹتی سی نظر ڈا لی اور  رول  کئے ہو ئے سگریٹ  کے سرے کو ہو نٹوں میں گھما کر نم کر نے لگا۔ اس کی  انگلیاں کثرت تمبا کو نوشی  سے بھوری نظر آرہی تھیں۔

کلرک نے رجسٹر بند کر کے آہستہ سے کچھ کہا  اور انگریز  اُسے گھورنے لگا۔ وہ چند لمحے وہیں کھڑا کچھ سو چتارہا پھر ہال سے نکل گیا۔

حمید اُٹھ  کر کا ؤنٹر کلرک کے پاس آیا۔

’’ کیپٹن پر کاش کی کوئی فون کال تو نہیں تھی ؟‘‘ اس نے کا ؤنٹر کلرک سے پوچھا ۔

’’ جی  نہیں... لیکن ٹھہر یئے ۔ کیا نام بتایا آپ نے ...کیپٹن پر کاش... آپ کا ایک ایئر گرام ہے !‘‘

’’او ہو! ٹھیک  میں اس کا منتظر ہی  تھا !"

 کاؤ نٹر کلرک نے دراز سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ یہ فریدی کا ایئر گرام تھا جو میڈ  رڈسے  روانہ کیا گیا تھا کہ حمید وہیں مقیم رہے۔ فریدی بہت جلد واپس آئے گا۔ حمید نے لفافے کو توڑ مروڑ کر جیب میں  ٹھو نس  لیا۔ پھر وہ کا ؤنٹر کلرک سے بولا۔

’’یہ  صاحب جو ابھی یہاں تھے ، میرا خیال ہے کہ میں انہیں جانتا ہوں ۔ یہ مسٹر پار کر ہی تو تھے !‘

’’جی نہیں مسٹر مورگن!‘‘ کلرک نے جواب دیا۔

’’ٹھیک ہے، پار کر ان کا پہلا نام ہے۔ میں انہیں بچپن میں انکل پار کر کہا کرتا تھا۔ میرے والد کے بڑے دوستوں میں سے تھے اور اُس وقت ان کے سر پر بڑے خوبصورت قسم کے گھونگھریالے بال ہوا کرتے تھے۔ مجھے  صدمہ ہے کہ انہوں نے مجھے پہچانا نہیں ۔ کسی نمبر میں ٹھہرے ہوئے ہیں ؟"

’’ اڑ تالیس میں!‘‘ کلرک نے جان چھڑانے کے سے انداز میں کہا اور اپنے رجسٹروں کی طرف متوجہ ہو گیا۔

’’کب سے ٹھہرے ہوئے ہیں ؟"

’’ یہ بتانا مشکل ہے!‘‘ کلرک نے رجسٹر پر سے نظریں ہٹائے بغیر کہا ۔’’ آپ انہی سے دریافت کرلیں تو  بہتر ہے!"

پھر اچانک اُسے یاد آ گیا کہ قیام کرنے والوں کی بٹرنگ بھی اُس کے فرائض میں شامل ہے۔ اُس نے خوش اخلاقی کے مظاہرے کے طور پر دانت نکالتے ہوئے کہا ۔’’ کپتان صاحب ! بات یہ ہے کہ یہ بات وہی کلرک بتا سکے  گا جس  نے اندراج کیا ہو۔قدرتی بات ہے کہ آپ مسٹر مورگن سے ضرور ملاقات   کریں گے۔ وہ آپ کے پرانے شنا سا ہیں!‘‘

’’ضرور ضرور... میں ان میں ضرور ملوں گا !" حمید نے ہنس کر کہا  اور وہاں سے ہٹ آیا۔

یہاں قاسم ، رشیدہ سے کہہ رہا تھا۔’’ اُجاڑ راتوں میں میرا دم نکل جاتا ہے۔ ہائے یہاں کی سر بز  پہاڑیاں ...آسمان  میں چاند ستارے... ہوا ئیں سسکیاں بھرتی ہیں!"

حمید کو دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا ۔

’’ہوائیں سسکیاں بھرتی ہیں ! ‘‘حمید اُسے گھور کر بولا ۔ " بیمار ہیں ہوا ئیں ۔ ہواؤں کا معدہ خراب ہو گیا  ہے ۔کہیں تیرا  دما غ نہ خراب ہو جائے !"

رشیدہ ہنس  پڑی اور قاسم تاؤ کھاؤ کر رہ گیا ۔ رشیدہ کچھ دیر اور بیٹھی ، پھر اُٹھ کر چلی گئی۔

’’تم بہت واہیا ت آدمی ہو !" قاسم نے حمید سے کہا۔

’’سچ مچ  تمہاری بربادی کے دن قریب آگئے ہیں!"

’’تم کیوں میرے معاملات میں ٹانگ اَڑاتے ہو!"

’’میں تمہیں آدمی بنانا چاہتا ہوں ۔ تم نے آج تک رشیدہ کوکوئی تحفہ دیا ؟"

’’ نہیں، کوئی نہیں !"

’’بس خالی خولی... زبانی جمع خرچ۔ محبوباؤں کی خدمت میں کم از کم پھول ہی پیش کر دیتے ہیں!‘‘

" پھول... صرف پھول .... یہ تو ...!"

’’ہاں پھول .. رشیدہ گو بھی کے پھولوں پر جان دیتی ہے!"

’’گوبھی کے پھول ؟‘‘ قاسم نے حیرت سے کہا۔

’’ہاں... پسند ہے اپنی اپنی !"

’’نہیں ، تم مذاق کر رہے ہو!"

’’اچھا جی ... میں آپ سے مذاق کروں گا! ‘‘حمید غصیلی آواز میں بولا ۔ "مذاق سمجھنے  کا سلیقہ بھی ہے تم میں !"

’’ نہیں حمید بھائی۔ ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔ الاقسم میں بہت مغموم ہوں! "

’’فریدی صاحب کو جانتے ہو ، آخر انہیں سانپوں سے کیوں عشق ہے۔ کوئی بھی اچھا بھلا آدمی مداری بننا پسندکر  ے گا مگر شوق سے مجہوری ہے۔ اسی طرح رشیدہ بھی... گوبھی کے پھول پسند کرتی ہے۔ جتنا بڑا پھول ہوگا... اتناہی وہ  خوش ہوگی !‘‘

’’ایک پھول کافی ہوگا ؟ " قاسم نے پوچھا۔

’’ایک میں کیا ہوگا۔ کم از کم پانچ عدد کافی وزنی پھول ... ایک کشتی میں ریٹی رومال سے ڈھانک کر پیش   کر دینا!‘‘

’’مجھے افسوس ہے !‘‘ قاسم غم زدہ آواز میں بولا۔ " میں تو اس کی خدمت میں ایک جڑاؤ ہار پیش کرنا  چاہتا تھا !‘‘

’’وہ تم مجھے پیش کر دو۔ مجھے زیورات کا شوق ہے۔ میں اکثر تنہائی میں ا نہیں پہن کرگھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑا رہتا ہوں !"

قاسم منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے  لگا...اس دوران میں حمید نے مورگن کو دوبارہ حال میں داخل ہوتے اور او پر ی منزل کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ اس لئے اب وہ قاسم سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا اور وہ اس میں جلد ہی کا میاب بھی ہو گیا۔

اڑتالیس نمبر کا کمرہ دوسری منزل پر راہداری کے سرے پر واقع تھا ۔ راہداری سنسان پڑی تھی اور سارا کمرے بند تھے ۔ حالانکہ یہ ایک بہت بڑی حماقت تھی لیکن پھر بھی حمید مورگن کے کمرے میں جھانکنے کی خواہش کو کسی طرح نہ دبا سکا۔ اس نے گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ کر کنجی کے سوراخ سے آنکھ لگا دی۔

 مورگن کمرے کے فرش پر بیٹھا ایک چھوٹی سی سیمی مشین گن میں میگزین چڑھا رہا تھا۔ پھر اس سے فارغ ہونے کے بعد اُس نے اُسے ایک چڑے کے سوٹ کیس میں رکھ دیا۔

اور پھر حمید نے اُسے لباس تبدیل کرتے دیکھا۔ شاید وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ حمید اُٹھ گیا۔

شاید پندرہ منٹ کے بعد وہ پھر ہال میں دکھائی دیا اور اس کے ہاتھوں میں وہی سوٹ کیس تھا جس میں اُس نے مشین گن رکھی تھی ۔

 

8

 

دوسری صبح سرجنٹ حمید، میجر نصرت اور تین دوسرے مقامی آفیسروں کے ساتھ ایک ہیلی کوپٹر میں ارجن گھاٹی پر پرواز کر رہا تھا۔ حمید نے اپنی پچھلی رات بڑی بے چینی میں گزاری تھی ۔ بات دراصل یہ تھی کہ اُس  نے مورگن کا تعاقب کیا تھا لیکن وہ اُسے دھوکا دے کر صاف غائب ہو گیا۔ ایسے موقع پر حمید بڑی شدت سے فریدی کی  ضرورت محسوس کر رہا تھا۔

 اُس نے مورگن کے متعلق میجر نصرت کو کچھ نہیں بتایا۔ اُس نے سوچا ممکن ہے اسے فریدی پسند نہ کرے۔

 ہیلی کو پٹر وادی سے گزر کر انہی چٹانوں کی طرف جارہا تھا جہاں وہ عجیب الخلقت آدمی غائب ہو گیا تھا۔وہ  اُس چٹان سے بھی گزر گئے جو ایک سپاہی کی ہلاکت کا باعث بنی تھی۔

 دوسری طرف میلوں تک خشک اور بھورے رنگ کی چٹانوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا اور کہیں بھی کسی ذی روح  کا کوئی  نشان نہیں نظر آرہا تھا۔ آفیسروں نے دو تین چھوٹے چھوٹے دستی بم چٹانوں میں پھینکے اور ہیلی کو پٹرنے آدھے میل کے  ر قبے میں ایک چکر لگا یا لیکن اُس حیوان نما انسان کا کو ئی نشان نہ ملا ۔دو چار  بم ااِدھر اُدھر پھینکے گئے لیکن نتیجہ وہی صفر رہا ۔ آخر ایک آفیسر نے میجر نصرت سے کہا ۔

’’کیا ہیلی کو پٹر کو اُتارا جائے؟‘‘

’’میں ہر گز اس کی رائے نہ دوں گا !‘‘ حمید بولا ۔

’’کیوں ؟‘‘

’’مجھے وہ آدمی  تنہا نہیں معلوم ہو تا ۔پھر اس کی  پشت  پر کوئی نہ کو ئی  ضرور ہے!‘‘

’’یہ آپ کیسے  کہہ سکتے ہیں ؟‘‘

’’ارے جناب ! اگر کو ئی ذرا  کچھ اور نیچے آتی تو میرے سر کے ٹکڑے اُڑگئے ہو تے!‘‘

’’ہو سکتا ہے کہ آپ پر گو لی  بھی اُسی نے چلائی ہو!‘‘ آفیسر نے کہا ۔

’’ہر گز نہیں ،وہ خا لی  ہاتھ  تھا اور میں اُسے بھا گتے  ہو ئے دیکھ رہا تھا !‘‘

’’تب تو پھر اس طرح اُس کا ملنا  محال ہے !‘‘

’’نہیں !آپ کے سا تھ  زیادہ تعدداد   میں مسلح  آدمی ہوں  تو آپ نیچے  بھی اُتر سکتے ہیں !‘‘ حمید بو لا ۔

’’زیادہ آدمی ۔یہ بھی محال ہی ہے۔  ہیلی کو پٹر صرف ایک ہے   ۔ویسے اس کے  علاوہ  اان چٹا نوں کو پار  کرنے کا کو ئی  اور دوسرا طریقہ بھی نہیں  ہے  ۔اگر  تھو ڑے  تھو ڑے  آدمی پہنچا ئے  جا ئیں تب  بھی  آپ کا بیان کر دہ  خطر ہ تو  باقی ہی  رہتا ہے   ۔جب تک آدمیوں کی   دو سری کھیپ آئے گی وہ  پہلی   کھیپ کا صفایا  کر چکے   ہو ں گے !‘‘

’’بھئی میں کہتا ہوں جلدی کی ضرورت  ہی نہیں !‘‘میجر نصرت نے کہا ۔’’ ہا ں لیکن ہم اُس چٹان کوضرور دیکھیں گے!‘‘

ہیلی  کو پٹر پھر گھا ٹی  کی  طرف موڑ دیا گیا ۔

’’فر  یدی  کے  متعلق کچھ معلوم ہوا ؟‘‘میجر نصرت نے حمید سے پو چھا ۔

’’ہاں ،کل میڈ رڈ سے اُن کا ایک ایئر گرام آیاہے ۔وہ جلدی  ہی وا پس آئیں  گے !‘‘

’’میں تو  کہتا ہوں کہ سجاد  کی تلا ش  فضول ہے ۔ قا تل  یہاں  موجود  ہیں۔ان میں سے اگر کو ئی  ہا تھ    آجا تا تو  سجاد پر بھی گرفت ممکن  ہو جا تی  لیکن فریدی کے طریقےحیرت انگیز ہیں ۔ہاں،اچھا اس مخصوص اجازت نامے کے متعلق کیا ہواجو ایک ز مانے میں منسوخ ہو گیا تھا!‘‘

’’وہ تو کبھی کابحال  کر دیا گیا تھا۔ جیر الڈ  کےخلاف جرم  ثا بت  ہو تے ہی ،ور نہ فریدی صا حب اب تک مستعفی ہوچکے ہو تے !‘‘

ہیلی کو پٹر اُس چٹان کے اوپر پہنچ کر فضا میں معلّق ہو گیا اور انہوں نے کھڑ کیوں سے  سر نکال کر نیچے جھا نکا ۔چٹان اوپر سے بالکل سپاٹ تھی اور اتنی بڑی تھی کہ اُس پر بیک وقت  کئی ہیلی کو پٹر اُتر سکتے تھے۔پا ئلٹ نے رسیو ں کی سیڑھی کی طرف اشارہ کیا ۔

’’کیا ارادہ ہے ؟‘‘ حمید چو نک کربو لا ۔’’کیا کو ئی صاحب اس پر اُتر یں گے ؟‘‘

ایک آفیسر نے کو ئی جواب دیئے بغیر سیڑھی  نیچے لٹکا دی۔

’’دیکھئے میں ہر گز مشورہ نہ دوں گا !‘‘ حمید نے کہا ۔

’’آپ تو کسی بات کا مشورہ نہیں دیتے !‘‘ آفیسر ہنس کر بو لا ۔

’’یہ چٹان خطر ناک ہے !‘‘

’’اب اتنی بھی نہ  ہو گی کہ مجھے ڈھکیل دے۔ میں یہی ثابت کر نا چا ہتا ہوں کہ وہ سپاہی توازن بر قرا رنہ رکھ سکنے  کی بنا پر گر ا ہو گا !‘‘

’’نہیں ،وہ اچھی طرح سنبھل کر کھڑا ہو گیا تھا  !‘‘ حمید  نے کہا ۔

’’تب وہ ایکر و فو بیاکا  شکار رہا ہوگا  !‘‘ آفیسر مسکرا کر بو لا۔

’’یہ کیا بلاہو تی ہے ؟‘‘ میجر نصرت نے کہا ۔

’’بلندی سے خوف کا مر ض ۔بعض لو گ بہت زیادہ بلندی سے نیچے  کی طرف  نہیں دیکھ سکتے  اور اگر دیکھنا ہی پڑا تو وہ  محسوس کر تے ہیں جیسےنیچےگرے جا رہے  ہوں اور بعض او قات ایک قسم  کی اضطراری کیفیت  کے تحت چھلا  نگ بھی لگا دیتے  ہیں!‘‘

’’اتنی نفسیات میں نے بھی  پڑھی ہیں !‘‘حمید بولا ۔’’ لیکن کبھی  کبھی بہت  ہی ٹھو س قسم کے  سا  ئنسی حقا ئق  سےبھی دو چار ہوا ہوں !‘‘

پھر حمید نےاپنی ایک حیرت انگیز اُچھل کود  کا سا  بقہ تجربہ  بیان کیا ۔

’’اجی چھو ڑیئے کیا رکھا  ہے ان باتوں میں!‘‘آفیسر  نے کہا اور لٹکتی ہو ئی سیڑھی سے نیچے  اُترنے لگا جس کا نچلا سرا چٹان سے ایک فٹ اوپر جھول رہا تھا ۔

’’خدا مغفرت کرے !‘‘حمید بڑبڑا یا ۔

وہ سب بڑی توجہ اور دلچسپی سے آفیسر کو نیچے اُترتے  دیکھ رہے تھے ۔اس کا ایک پیر سیڑھی پر تھا اور دوسرا اس نے چٹان پر رکھا  ہی تھا کہ ہیلی کو پٹر کوایک زور دارجھٹکا لگا ۔پا ئلٹ اگر اُسے  فوراً ہی حرکت میں نہ لے آتا تو وہ بھی تباہ ہو گیا تھا ۔پھر انہوں نے آفیسر کی چیخیں سنیں اور چٹان خا لی  پڑی تھی۔

بقیہ لوگ بد حوا س ہو کر چیخنے لگے ۔اینگلو انڈین پا ئلٹ گا لیاں بک رہا تھا۔

ہیلی کو پٹر چٹانوں سے ہٹ کر گھا ٹی پر آگیاتھا۔

’’اُتا رو ...اُتارو...جلد ی  کرو!‘‘میجر نصرت چیخا ۔

ہیلی کو پٹر آہستہ آہستہ نیچے اُتر نے لگا اورپھر زمین پر ٹک گیا۔

وہ سب نیچے کود کر آفیسر کی لا ش کی طرف دو ڑے لیکن وہاں اب تھا ہی  کیا۔پچکا ہوا سر جس سے خون آلو د مغز بہہ رہا تھا ۔گو شت  کے لو تھڑے اور شکستہ ہڈیاں۔

حمید کو چکر آگیا ۔ پتہ نہیں اُس کے دوسرے سا تھیوں  پر کیا گزری  ۔

پھر سہ پہر تک اس کے حواس   درست نہیں ہو ئے  ۔ وہ اپنے  پیشے  سے بُری طرح بیزار ہو رہا تھا ۔گھا ٹی  سے لوٹنے کے بعد وہ شام تک شیزا ں  ہو ٹل کے  کمرے  میں پڑا رہا۔

چار بجے  وہ کمرے  سے باہر  نکلا  اور اُسے  اپنے  اعصا ب  کو آرڈر میں لا نے  کے لئے ایک  پگ وہسکی پینی  پڑی  ۔وہ اُس کچلی  ہو ئی  کھو پڑی  ،گو شت  کے  لو  تھڑوں اور ٹو ٹی  ہو ئی  ہڈیوں  کو بھی  بھول جا نا  چا ہتا تھا ۔دل بہلا نے کے لئے اُس نے  قاسم  کی تلا ش شروع کی لیکن وہ غا ئب  تھا ۔انور اور رشیدہ  کے کمرے  بھی  مقفل تھے۔ شاید وہ دونوں بھی با ہر  گئے  ہو ئے تھے۔

حمید ہو ٹل سے باہر آگیا  ۔اُس نے   ایک  ٹیکسی  کرا ئے  پر لی اور شہر کے  چکر  لگا نے  لگا۔ اُسے  دو ایک  با ر اُس  پراسرا ر انگریز مو رگن کا بھی خیال آیا لیکن اُس نے اُسے اس طرح اپنے ذہن  سے جھا ڑ دیا جیسے  جسم  پر رینگتی  ہو ئی  چیو نٹی بے خیا لی  میں جھا ڑ دی جا تی ہے ۔ اس وقت وہ صرف یہ چا ہتا تھا کہ اس کے  دو ایک احباب  ہوں اور وہ  ان میں بیٹھ کر خوب قہقہے لگائے۔

را ستے  میں اُسے  ایک کا فی ہا ؤز نظر آیا  اور وہ ٹیکسی سے اُتر کر اُس کی طرف بڑھا ۔صدر  دروازے  پر ایک  مجہول سا آدمی ایک کنا رے  اسٹول ڈالے  بیٹھا او نگھ رہا تھا ۔حمید کی آہٹ پر چو نک کر   وہ خلا میں گھو رتا  ہو ابو لا ۔’’نمو نہ کا  پر چہ  مفت نہیں  بھیجا جاتا ...سمجھے!‘‘

پھر اُس نے ہوا میں  مُکّا  لہرا کر  کسی  خیا لی آدمی  کو دھمکی دی۔ حمید رُک  کر اُسے  گھو رنے  لگا ۔وہ حمید کی طرف  متو جہ  تک  نہ ہوا ۔وہ پھر بڑبڑا یا  ۔’’ مضا مین  خو شخط  اور صاف لکھئے۔جواب طلب امور  کے لئے  جو ابی  لفافہ  یا پو سٹ کا رڈ آنا ضروری ہے ...سمجھے !‘‘

پھر حمید  نے اپنے پیچھے قہقہے کی آواز سنی ۔وہ چو نک کر مڑا ۔ ایک دُبلا  پتلا نو جوان  کھڑا ہنس رہا تھا ۔

’’یہ  بے  چا را  !‘‘ اس نے کہا ۔’’ ایک رسا لےکا  ایڈیٹر تھا  اور د ن رات کا فی  ہا ؤز  میں بیٹھا  مضا مین  لکھا کرتا تھا ۔آخر کار  یہ اپنے  سارے  سر مائے  کی کا فی   پی  کر قلاش ہو گیا لیکن  کا فی ہاؤزاس سے پھر  بھی نہ  چھو ٹا ۔اس نے  یہاں  کی  در با نی  کر لی  ۔دیکھئے  کس پیا رسے  اندرونی  میزوں  کا جا ئزہ  لے رہا ہے !‘‘

حمید  ہنستا ہو اآگے  بڑھا اور جب وہ  دربان  کے  قر یب  سے  گز ر رہا تھا  اُس نے اُسے  کہتے  سنا ۔’’سا لے  یہ  کتا بت  ہے  یا  چینو ٹیاں  سیا ہی  میں ڈوب کر چلی ہیں !‘‘

کا فی ہاؤز کا فی  آباد نظر آرہا تھا ۔حمید  ایک خا لی  میز پر بیٹھ  کر ویٹر  کا انتظا ر کر نے لگا۔یہا ں کی  فضا کھنکتے  ہو ئے  سر یلے  قہقہوں اور سینٹ کی خو شبو  کی لپٹوں میں  ڈو بی ہو ئی تھی۔گداز شا نوں سے ریشمی  سا ڑیوں کے آنچل سرک رہے تھے۔

حمید نے ویٹر کو کا فی کا آرڈر دے کر  کہا۔’’ایک کا فی  ان کے لئے بھی ...وہ ایڈیٹر  صا حب  جو وہاں اسٹول پر  بیٹھے ہو ئے ہیں !‘‘

ویٹر ہنستا ہوا چلا گیا ۔

تھوڑی دیر بعد اس نے حمید کی میز پر کافی کی ٹرے رکھ دی۔ حمید نے ایک پیالی اُس ایڈیٹر کے لئے بنائی  اور  ویٹراُ سے لے کر دروازے کی طرف چلا گیا۔ اس نے حمید کو بتایا کہ اکثر گا ہک ایڈیٹر کوکافی پلاتے رہتے ہیں۔

 ویٹر نے ایڈیٹر کو کافی دیتے وقت حمید کی طرف اشارہ کیا۔ حمید اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایڈیٹر نے مسکر ا کر  اُسے بڑے ’’انٹلیکچو یل  انداز ‘‘میں سلام کیا اور کان پر رکھی ہوئی پنسل اُتار کر کافی کے کپ پر کچھ لکھنے لگا۔

حمید پائپ سلگا کر کافی کی چسکیاں لینے لگا تھا اور اس کی نظریں مختلف میزوں پر گردش کر رہی تھیں۔

 ایک اینگلو انڈین جوڑا اُس کے قریب کی ایک میز پر آکر’’آباد ‘‘ہو گیا۔ لڑ کی بڑی خوش شکل اور شوخ تھی ۔حمید نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور اپنے مخصوص انداز میں گردن ٹیڑھی کر کے پائپ پینے لگا۔ پھر وہ دوسری  طرف متوجہ ہو گیا لیکن جلد ہی اُسے پھر اُس جوڑے میں دلچسپی لینی پڑی۔ لڑکی نے جیسے ہی اپنا بیگ کھولا، اُس میں سے ایک چھوٹی سی سفید چو ہیا پھُدک کر میز پر آگئی۔ اس کی پچھلی ٹانگوں میں ننھے ننھے  گھونگھر و پڑے ہوئے تھے۔ حمید  بری طرح چونکا۔ اُسے اپنی پالتو چو ہیا یاد آگئی۔ گھونگھروؤں کی طرف غور کیا تو اس کے سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔ مخصوص وضع کے گھونگھرو تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس نے اپنی چو ہیا کے لئے خاص طور پر چاندی کے بنوائے تھے۔

 کیا یہ وہی چوہیا تھی۔ حمید کی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی  بوندیں پھوٹ آ ئیں لیکن وہ چو ہیا... و چو ہیا تو جیر لڈ شاستری کی زمین دوز دنیا میں رہ گئی تھی اور وہ زمین دوز دنیا...وہ تو ایک زبردست دھماکے کے ساتھ تباہ ہوگئی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ جیرالڈ اور اس کے ساتھی بھی اسی کے ساتھ فنا ہو گئے ہوں گے۔

حمید نے اینگلو انڈین جوڑے کو گھور کر دیکھا... کیا جیرالڈ اور اُس کے ساتھی زندہ ہیں۔ اگر یہ چو ہیا زندہ ہو سکتی ہے تو پھر اُن کے مرنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ حمید غیر ارادی طور پر سیٹی میں وہی دھن بجانے لگا جس اُس کی چو ہیا  نا چا کرتی تھی اور پھر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے چو ہیا کو سیٹی پر  دھن پر تھرکتے دیکھا۔

 اینگوانڈین جوڑ ا ہنسنے  لگا لیکن ان میں سے کسی نے بھی حمید کی طرف دیکھ تک نہیں ۔ حمید سیٹی روک کر کافی کی طرف متوجہ ہو گیا جو اَب ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔ پھر اُسے یاد نہیں کہ اس نے کسی طرح کپ خالی کیا ۔ اس کا سر چکرار ہاتھا  اور دل کی دھڑ کن ... خدا کی پناہ ...ایسا معلم ہوتا تھا جسے زندگی کی بقیہ دھڑکنیں اسی وقت پوری ہو جا ئیں گی۔

کیا جیرالڈ اور اُس کے ساتھی زندہ ہیں ... وہ خوفناک چٹان ۔ وہ عجیب الخلقت آدمی ۔ اُسے وہ خوفناک بن   مانس یاد آ گئے جن کا تجربہ اُسے چھ ماہ پیشتر ہو چکا تھا۔ وہ سوچنے لگا جو لوگ ایک معمولی سے بندر کو بن مانس کی شکل میں تبدیل کر سکتے ہوں ،اُن کے لئے ایک حیوان نما انسان کی تخلیق کیا مشکل  ہو سکتی ہے اور پھر چٹان ...ہوسکتا  ہے کہ اس پر بجلی   کے باریک باریک تاروں کا جال بچھا دیا گیا ہو اور اُن میں کرنٹ رہتا ہو۔ تو کیا وہ پر اسرار انگریزبراؤن دراصل  جیرالڈ ہی ہے ۔یقیناً وہ جیرالڈ ہی ہو گا ۔ایسا سوچنا قدرتی امر تھا۔ اگر اُس انسان نما حیوان کے سلسلے کی حمید  پر فائر نہ کیا گیا ہوتا تو شاید وہ ان دونوں معاملات کو الگ ہی تصور کرتا مگر اب صورت دوسری تھی۔ اُسے یقین آگیا  کہ میز پر تھرکتی ہوئی چو ہیا اُسی کی ہوسکتی ہے۔

لیکن اب وہ کیا کرے؟ سوال بڑا ٹیڑھا تھا اور وہ دل ہی دل میں فریدی کو بُرا بھلا کہنے لگا۔

حمید نے دوسری کافی  کا آرڈر دیا۔ وہ اس اینگلو انڈین جوڑے کے اٹھنے سے پہلے کس طرح اُٹھ سکتا تھا۔

اند ھیرا پھیل گیا۔ پھر تقریباً سات بجے وہ دونوں اُٹھے ۔ حمید بھی اُن کے پیچھے ہی پیچھے باہر نکلا۔ وہ اپنی کارمیں  بیٹھ کر ایک طرف روانہ ہو گئے۔

حمید ایک ٹیکسی میں اُن کا تعاقب کر رہا تھا۔ شاید آدھے گھنٹے تک تعاقب جاری رہا پھر اگلی کار ایک عمارت کے سامنے رُک گئی جو ایک چھوٹی سی شاداب پہاڑی کے دامن میں واقع تھی ۔ یہاں اور بھی عمارتیں تھیں مگر دور دور پر۔

 حمید نے ٹیکسی رکوائی اور کرایہ ادا کر کے نیچے اُتر گیا اور اس وقت تک کھڑا رہا جب تک ٹیکسی واپس نہیں چلی  گئی ۔ اس نے سوچا کہ وہ عمارت کا چکر کاٹ کر اُس کے پیچھے پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ اس طرح وہ عمارت کی پشت پرہو گا  اور پھر ہوسکتا ہے کہ وہاں سے عمارت کے مکینوں کا جائزہ لینے کی کوئی صورت نکل آئے ۔

 وہ آہستہ آہستہ پہاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ چاروں طرف اندھیرے کی حکمرانی تھی اور پہاڑی جھینگروں کی  جھا ئیں جھا ئیں سے فضا مکدر ہو رہی تھی ۔ درختوں اور پودوں کی شاخوں میں بے شمار جگنو جھلملا رہے تھے ۔ اگر حمید کو یہ مہم   در پیش نہ ہوتی تو وہ بچوں کی طرح دو چار جگنو پکڑنے کی کوشش ضرور کرتا۔ اندھیرے کی وجہ سے اس کی رفتار بہت سست تھی لیکن وہ ٹارچ روشن کرنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔

 ایک جگہ ٹھوکر کھا کر وہ سنبھل ہی رہا تھا کہ اچانک اس پر کئی آدمی ٹوٹ پڑے۔ حمید نے جدو جہد کرنی چاہی مگر فضول، وہ بری طرح جکڑا جا چکا تھا اور کسی کا ہاتھ اس کے منہ پر بھی تھا اور اُس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ سانس لینے میں بھی دشواری محسوس کر رہا تھا۔

پھر اُسے اچھی طرح یاد نہیں کہ وہ کب، کس طرح اور کہاں لے جایا گیا۔

پھر تیز قسم کی روشنی کے احساس نے اُسے آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔ اُسے فرش پر کھڑا کر دیا گیا... اس کےگرد تین قوی الجثہ آدمی کھڑے تھے اور سامنے وہی اینگلو انڈین جوڑا تھا۔

’’خوش آمدید!‘‘ مرد مسکرا کر بولا ۔ " تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ؟"

’’ قطعی نہیں !‘‘ حمید لا پروائی سے شانے جھٹک کر بولا۔ اس نے دلیر بنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔

’’ ایک خاص تقریب کے سلسلے میں تمہیں تکلیف دی گئی ہے !‘‘لڑکی نے کہا۔’’ بات یہ ہے کہ آج ہمارے شہنشا ہ کی سا لگرہ کا دن ہے ۔اس تقریب کے سلسلے میں کئی طرح  کے تما شے ہوں گے۔ ہمارے شہنشا ہ کو وہ  چو ہیا  بہت پسند ہے  جسے تم  نے کا فی  ہاؤز میں اپنی سیٹی پر نچا یا تھا ۔وہ اُسے  نا چتے  دیکھ کر بہت خوش ہوں گے !‘‘

’’میری خو ش قسمتی  ہے کہ  میں اس مبارک  مو قع پر یا د کیا گیا ۔ میں تم سب  کا دل اچھی طرح خو  ش کردوں گا !‘‘حمید نے اُسے آنکھ ماردی۔

’’جہاں پناہ کیا کر رہے ہیں ؟ ‘‘مرد نے ایک آدمی سے پوچھا۔

 ’’اپنے جو تے گا نٹھ  رہے ہیں !‘‘ اُس  نے بڑی سنجیدگی سے کہا اور کسی  کے ہو نٹوں  پر خفیف سی مسکرا ہٹ بھی نہ دکھا ئی دی۔

’’میں اس مداری کو اسی وقت اُن کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں !‘‘ اُس نے کہا۔

 پیچھے کھڑے ہوئے ایک آدمی نے حمید کو دھکا دیا اور وہ ان کے ساتھ چلنے لگا ۔ حمید کو یقین تھا کہ اب اس کی ملاقات  جیر الڈ سے ہوگی۔

وہ ایک کمرے میں آئے ۔ یہاں ایک آدمی سچ مچ کی ایک صوفے پر بیٹھا  جوتا گا نٹھ  رہا تھالیکن یہ جیرالڈ تو کسی  طرح بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے چہرے پر بھورے رنگ  گھنی داڑھی تھی اور حمید نے پہلی ہی نظر میں بھانپ لیا تھا  کہ و ہ نقلی  نہیں تھی۔ اس کے سر پر بال نہیں تھے۔ آنکھیں بھوری تھیں اور اس طرح چندھیائی سی لگ رہی تھیں جیسے وہ  زیادہ تر تاریکی ہی کی عادی ہوں ۔

’’تم آگئے گدھو!‘‘اس نے جوتا ایک طرف رکھ کر کہا۔

’’جہاں پنا ہ ! " سب نے سینے پر ہاتھ رکھ کر بیک وقت جھکتے ہوئے کہا۔

حمید بڑی حیرت زدہ نظروں سے اُس’’ جہاں پناہ‘‘ کو دیکھ رہا تھا جوصورت ہی سے خاصا خبطی معلوم ہورہا  تھا۔ اس کے جسم پر لباس تو بڑا ٹھاٹھ دار تھا لیکن جوتے گانٹھنا... کیا وہ صحیح الدماغ تھا۔

’’ یہ کون ہے ؟ ‘‘اُس نے حمید کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ گفتگو انگریزی میں ہو رہی تھی ۔

’’مداری ہے یور مجسٹی!‘‘ لڑکی کے ساتھی نے کہا۔

’’اس نے ہمیں سلام نہیں کیا !‘‘

حمید سینے  پر ہاتھ رکھ کر جھکا، پھرسیدھا کھڑا ہو کر بولا ۔ " خدا حضور کی داڑھی دراز کرے!“

’’ ہاہا!‘‘ وہ ران پر ہاتھ ماکر چیخا۔ " ہم خوش ہوئے۔ تمہارا نام کیا ہے؟"

’’خادم کوڈ مباسٹر کہتے ہیں !"

’’بکواس !‘‘ اس نے پھر ان پر ہاتھ مار کر کہا ۔ " تمہارا نام نل نل فِلوس ہے!"

’’ہاں ہاں ...نل نل فلوس ہے!‘‘ اس کے درباریوں نے بیک وقت ہا تک گائی۔

’’ تم سب گدھے ہو !‘‘ اس نے چیخ کر کہا۔

’’ہاں ہم سب گدھے ہیں !‘‘انہوں نے یک زبان ہو کر دہرایا۔

’’ تو پھر آدمیوں کی طرح کیوں بول رہے ہو!‘‘ وہ ران پر ہاتھ مار کر بولا۔

اس کے جواب میں وہ سب گدھوں کی طرح رینکنے لگے۔

حمید بے اختیار ہنس پڑا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہ سب پاگل ہیں ؟ اصل بات اس کے ذہن سے نکل گئی تھی۔ اب نہ اُسے جیر الڈ یاد تھا اور نہ براؤن۔

’’خاموش !‘‘خبطی نے ہاتھ اٹھا کر کہا اور وہ سب خاموش ہو گئے۔

’’نل نل فلوس ، اپنے کرتب دکھاؤ!‘‘ اُس نے حمید سے کہا۔

لڑکی نے بیگ سے چو ہیا نکالی اور اُسے میز پر چھوڑ دیا۔

’’او ہو! یہ تو ریٹا ہیورتھ ہے!‘‘ حمید بولا ۔ پھر اُس نے میز کے قریب آکر سیٹی بجانی شروع کر دی۔ چو ہیا تھر کنے لگی۔

’’ہا ہا !‘‘ خبطی  بچوں کی طرح تالی بجا کر ہنسا۔’’ واقعی تم سچے مداری  ہو!"

جب تک حمید نے سیٹی بند نہیں کی چو ہیا تھرکتی رہی۔

’’ آؤ، ادھر آؤ نل نل فلوس ۔ میرے پاس بیٹھو !‘‘ خبطی اپنی رانیں پیٹتا ہوا بولا ۔ " میں آج سے تمہیں اپنا ولی عہد بناتا ہوں !"

حمید اس کے برابر بیٹھ گیا۔ وہ اُس کی پیٹھ ٹھونکتا ہوا بولا۔

’’بول کیا مانگتا ہے! "

’’مجھے وہ لڑکی پسند ہے!‘‘ حمید نے اینگلو ا ندین لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا اور اس نے پہلی بار اُس کے ساتھی کے چہرے پر جھلا ہٹ کے آثار دیکھے۔ وہ اسے قہر آلود نظروں سے گھورنے لگا تھا۔

’’ہم نے تمہیں یہ لڑکی بخش دی۔ جولی اِدھر آؤ!"

’’مگر... یور مجسٹی !‘‘ لڑکی کے ساتھی نے احتجاج کیا۔

’’بکواس بند کرو ۔ یہ ہمارا حکم ہے ۔ جولی ادھر آؤ!"

لڑکی بھی شاید الجھن میں پڑ گئی تھی۔

’’نہیں سنا تم نے ! ‘‘خبطی ران پر ہاتھ مار کر چیخا۔

جولی بادلِ نا خواستہ صوفے کی طرف بڑھی لیکن دوسرے ہی لمحے میں کمرے کی روشنی گل ہو گئی ۔ خبطی حلق پھاڑ کر چیخ  رہا تھا ۔کسی نے حمید کی گردن پکڑ لی اور اُسے ڈھکیلتا  ہوا دروازے تک لایا۔ پھر حمید نے دروازہ بند ہونے اور کنجی گھومنے کی آواز سنی۔

و ہ سب اس کمرے کے باہر تھے۔ اندر خبطی چیخ رہا تھا میں اب وہ اُس کی طرف سے قطعی بے پروا نظر آرہے تھے۔

" تم آرام کرو!‘‘ لڑکی کے ساتھی نے لڑکی سے کہا۔ لڑکی چلی گئی اور وہ حمید سے مخاطب ہوا۔

’’تفریح تو بہت ہوئی میرے دوست ! اب تم میرے ساتھ آؤ لیکن اس بات کی وضاحت کر دوں کہ اگر تم نے کوئی حرکت کی تو دوسرے لمحے میں زندہ نہیں رہو گے!"

" کیا واقعی تم سب پاگل ہو؟ ‘‘حمید نے اُس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔

" یہی سمجھ لو!"

وہ ایک دوسرے کمرے میں آئے ۔

’’بیٹھ جاؤ!‘‘ لڑکی کے ساتھی نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ حمید بے چوں و چرا بیٹھ گیا۔ ڈرامے کے اس بد لتے ہوئے سین نے اس کی آنکھیں کھول دی تھیں۔

’’ تم یہ نہ سمجھو  کہ ہم تمہیں پہچانتے نہیں ! '' لڑکی کے ساتھی نے کہا۔ " اور شاید اب تم ہمیں بھی پہچان گئے ہو گئے "

’’میں کچھ نہیں سمجھا ؟" حمید نے حیرت کا اظہار کیا۔

’’وقت نہ برباد کرو۔ میں صرف فریدی کی تلاش ہے۔ اگر تم اس کا پتہ بتا دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے!"

حمید نے اب جھوٹ بولنا فضول سمجھا اور یہ بات بھی اس کی سمجھ میں آگئی کہ یہ لوگ اُسی چوہیا کے ذریعہ اس کو پھانس کر یہاں لائے تھے ۔ اس نے انہیں دھو کا نہیں دیا تھا بلکہ خود ہی دھوکا کھا گیا تھا۔

’’فریدی یوروپ کے دورے پر ہیں ! " حمید نے کہا۔

" بکواس ہے ہمیں اس پر یقین نہیں !‘‘

’’کل ہی میڈرڈ سے اُن کا ایک ایئر  گرام موصول ہوا تھا !‘‘

’’ہمیں معلوم ہے ! ‘‘لڑکی کے ساتھی نے سر ہلا کر کہا۔ " لیکن یہ چیز فریدی جیسے آدمی کے لئے مشکل نہیں۔ وہ یہیں بیٹھے بیٹھے یوروپ کے کسی مقام سے بھی تمہارے نام ایئر گرام منگوا سکتا ہے!"

’’لیکن آخر تم فریدی کا کرو گے کیا؟" حمید نے پوچھا۔

’’یہ بھی کچھ پوچھنے کی بات ہے ! ہم اس کا قیمہ بنائیں گے !"

’’تو تم اتنے دنوں تک کیا کرتے رہے۔ پہلے ہی کیوں نہیں ٹھکانے لگا دیا !‘‘ حمید نے کہا ۔

’’اُس پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہے۔ ہم کئی بار کوشش کر چکے ہیں لیکن وہ کسی لومڑی کی اولاد معلوم ہوتا ہے!"

’’جیرالڈ کہاں ہے؟"

’’فضول بکو اس مت کرو۔ میرے سوال کا جواب دو!‘‘

’’ ہو سکتا ہے کہ فریدی صاحب کے متعلق تمہارا خیال صحیح ہو لیکن اگر وہ یہیں موجود ہیں تو میں اُن کا پتہ نہیں جانتا!‘‘

’’تم جھوٹے ہو!‘‘

’’بے اعتباری کا تو علاج ہی نہیں۔ اگر مجھے پتہ معلوم ہوتا تو اپنی گردن نہ پھنسو اتا!‘‘

’’تم مکّار ہو!"

’’اگر یہ جملہ کسی لڑکی نے کہا ہوتا تو میں اس کا منہ چوم لیتا " حمید نے غضبناک ہو کر کہا۔

" تم نہیں باز آؤ گے؟"

’’شیزاں میں مجھ پرگولی کیوں چلائی گئی تھی؟‘‘ حمید نے پوچھا۔

 ’’ تم تو اس طرح پوچھ رہے ہو جیسے ہمیں تمہاری پوجا کرنی چاہئے تھی !‘‘

’’اچھا یہ مسخرہ کون تھا ؟"

’’ہمارا بادشاہ !‘‘ لڑکی کے ساتھی نے کہا۔ " تم اس کی حالت دیکھ ہی چکے ہو۔ اگر اُس نے تمہاری موت کا حکم د ے دیا تو ہم مجبور ہوں گے ۔ بہتر یہی ہے کہ جو کچھ ہم پوچھتے ہیں بتا کر جلد سے جلد جان چھڑاؤ! ‘‘

’’سنو دوست !‘‘ حمید سنجیدگی سے بولا ۔ " میں خود اپنی زندگی سے تنگ آگیا ہوں ۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم لو گ مجھے ٹھکا نے لگا دو۔ رہا فریدی کا معاملہ تو جو کچھ میں نے ابھی بتایا ہے اس کے علاوہ اور مجھے کسی بات کا علم نہیں ۔ تمہارا یہ خیال بھی ٹھیک ہو سکتا ہے کہ وہ سرے سے یوروپ گئے ہی نہیں ! ‘‘

’’ہاں ہم یہی سمجھتے ہیں !"

’’لیکن میں یہاں تنہا آیا تھا !‘‘ حمید بولا۔

 کچھ دیر خاموشی رہی پھر لڑکی کے ساتھی نے کہا۔ " خیر تمہیں اُس وقت تک یہاں رہنا  ہے جب تک کہ فریدی ہمارے  ہاتھ نہ آجائے اور یہ اس کی خام خیالی ہے کہ اب وہ شاستری تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گا!‘‘

’’ آہ... شاستری ! ‘‘حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔’’ بڑی پیاری شخصیت ہے!"

’’تمہاری پھلی مکاریاں ہمیں یاد ہیں مگر ہم عموماً معاف کر دیتے ہیں ۔ ہمارے لئے دنیا کی کوئی بات ناممکن  نہیں ۔ خیر اب تم نے شور وغل بھی مچایا تو قرب و جوار کے لوگ کان نہ دیں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس عمارت میں ایک پاگل آدمی رہتا ہے !‘‘

پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف مڑکر بولا ۔ " اسے لے جاؤ!"

’’ٹھہرو! کیا مجھے تنہا رہنا پڑے گا ؟‘‘ حمید نے کہا۔

’’نہیں دو چار خادم بھی ملیں گے !‘‘ وہ طنزیہ   لہجے  میں بولا ۔

’’کیا مجھے میری چو ہیا واپس مل سکتی  ہے، صرف اس  وقت تک کے لئے جب  تک کہ میں قید میں ر ہوں؟‘‘

’’ ہوسکتا ہے !‘‘اُس نے مسکرا کر کہا۔ پھر ایک آدمی کی طرف مڑ کر بولا ۔  " جولی سے چو ہیا   لے آؤ!‘‘

’’کچھ  دیر خاموشی رہی  پھر جولی کا ساتھی ہنس کر بولا ۔’’تم نے ہماری قوت دیکھ لی۔ ہم نے  اس چو ہیا کو بھی نہیں مر نےدیا۔ وہ جولی کو پسند تھی !"

’’ مجھے حیرت کہ تم  لوگ کس طرح؟ ‘‘حمید نے  کہا۔ ’’اُس دھماکے نے  تین چار میل کا رقبہ تباہ کرد یا  تھا!‘‘

’’اپنی  جدید ترین سائنسی ایجادات   کی بنا پر، ہمارے پاس ایسے راکٹ موجود ہیں جو آواز کی رفتار بھی زیادہ  تیز رفتاری سے اوپر جاتے ہیں۔ جس وقت دھما  کہ  ہوا تھا ہم تین میل  کی بلندی پر تھے!‘‘

’’اوراب تم ارجن گھا ٹی  کو اپنا اڈہ بنارہے ہو!"

’’تم  بہت کچھ جانتے ہو!‘‘ وہ حمید کوگھور بولا ۔ ’’یہ بہت برا ہے... بہت برا ...صرف تمہارے حق میں۔ ویسے  ہمیں یقین ہے کہ وہاں پرندہ  بھی پر نہیں مارسکتا۔ ایک چٹان  کا کرشمہ تو  تم دیکھ ہی چکے ہو۔ ہم  چاہیں تو ساری چٹانوں کو  وہی خصوصیت بخش سکتے ہیں.. کیا سمجھے!"

’’اور وہ گھوڑا!"

’’فریدی کی ٹا نگیں وہی چیرے  گا !‘‘

’’تم نے صمدانی اور  اس کے پرائیویٹ سکریٹری کو  کیوں قتل کیا ؟"

’’تم تو اس طرح سوالات کر رہے ہو جیسے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال چکے ہو!‘‘ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

’’اچھا  یہی بتادو کہ اس بادشاہ  کا کیا مطلب ہے؟"

’’بادشاہ ساری دنیا پر حکومت کرے گا اور اگر  یہ اس وقت زندہ نہ رہا تو پھر ہم کسی پاگل کّتے کو ساری دنیا  کا بادشاہ بنا دیں گے !‘‘جولی کے ساتھی نے ہنس کر کہا۔’’ کیا تمہیں قدیم یونانی تاریخ میں ایک ایسے گھوڑے کا   تذکرہ نہیں ملتا  جو ایک صو بے  کا گورنر تھا  !‘‘

تھوڑی دیربعد حمید  کو اس کی چو ہیا واپس مل گئی ...اور وہ ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ کمرہ کیا اُسے کوٹھری ہی کہنا مناسب ہوگا۔ صرف ایک دروازہ تھا۔ فرش کی حالت بتاتی تھی کہ اُسے کبھی گودام کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ر ہا ہو گا ۔

ایک بستر، ایک چھوٹی سی میز  اور کرسی! یہی کُل یہاں کا سامان تھا۔ چھت سے ایک بلب لٹک رہا تھا جس کا سو ئچ  بھی  شاید با ہرہی تھا۔

حمیدنے کو ٹ اتار کر میز پر ڈال دیا اور چو ہیا کو ہتھیلی پر رکھ کر اُس کی پیٹھ سہلانے لگا۔

’’مری جان !آخر تم مل ہی گئیں۔میں تو تمہا ری یاد میں با لکل دیو داس ہو رہا تھا مگر شا ید یہ ہمارا آخری سفر ہو !‘‘

حمید نے اُسے بھی میز پر ڈال دیا۔ وہ چوہے کی موت تو نہیں مر سکتا تھا۔ اُسے بہر حال رہائی کے لئے کچھ نہ  کچھ تو کر نا تھا لیکن ایک گھنٹے کی جا نفشانیوں کے  باو جود بھی وہ یہاں  سے نکل جا نے کی کوئی صورت نہ پیدا کر سکا۔

سرد ی کافی تھی اور بستربھی ایسا نہیں تھا جسے نا کا فی کہا جا سکتا   لیکن پھر بھی  حمید کو نیند نہ  آئی ۔تلوار اس کے سر پر لٹک رہی تھی ۔ اس آدمی نے کہا تھا کہ فریدی کے ہاتھ لگتے ہی وہ چھوڑ دیا جائے گا لیکن اس میں حقیقت کتنی تھی۔ کیا وہ سچ مچ اُسے چھوڑ دیں گے۔ نا ممکن کیونکہ جیرالڈ کو سب سے زیادہ نقصان اسی کی ذات سے پہنچا تھا۔ محض اُسی کی مکّا ری کی بنا پر اُس کی وہ زمین دوز دنیا تباہ ہوئی تھی ۔

 حمید نے گھڑی دیکھی ۔ دو بج چکے تھے ۔ دیا سلائی جلا کر وہ اندھیرے میں آنکھ پھاڑنے لگا۔ کسی نے گیارہ ہی بجے  کمرے کی روشنی بجھادی تھی۔

 اچا نک اُس نے با ہر دروازے پر ایک  ہلکی سی  آواز سنی ۔دروازہ کھلا اور  کسی نے اندر داخل ہو  کر دو بارہ  پٹ  بھیڑ دیئے ۔ حمید نے جلدی سے دیا سلائی جلائی۔ آنے والے نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اُسے خاموش رہنے کا اچانک  اشارہ  کیا ۔

حمید نے دوسری دیا سلائی روشن کی۔ اس کے سامنے ایک سیاہ فام ننگ دھڑنگ آدمی کھڑا تھا۔ اُس کے جسم پر صرف ایک پتلی سی لنگوٹی تھی جس میں ایک تھیلا اُڑ سا ہوا اُس کی ٹانگوں کے درمیان جھول رہا تھا۔

’’ آپ سارجنٹ حمید ہیں؟'' اُس نے آہستہ سے پوچھا۔

’’ہاں ...لیکن  تم...!‘‘

’’کچھ نہیں ، خاموش رہئے !‘‘ اُس نے کہا اور کمر سے لٹکے ہوئے تھیلے سے ٹارچ نکال کر روشندان والی دیوار کا جا ئزہ لینے لگا۔ حمید کو حیرت ہو رہی تھی کہ وہ اتنی سردی میں لباس کے بغیر کیسے زندہ ہے؟ اور وہ ہے کون؟

پھر اُس نے کمرسے تھیلا کھینچ کر اُسے فرش پر رکھ دیا۔ تھیلے سے ایک بوتل نکالی جس میں کوئی سیال چیز تھی ۔ پھر وہ اُس سیال کے چھینٹے دیوار پر مارنے لگا اور فرش کے قریب دیوار کا تھوڑا سا حصہ اس سے اچھی طرح بھگو دیا ۔ چند  لمحے کے انتظار کرتا رہا پھر تھیلے سے ایک اوزار نکالا جو بیک وقت ہتھوڑی اور کلہاڑی کا کام دے سکتا تھا۔ اُس نے وہ او زار دیوار کے بھیگے ہوئے حصے پر رکھا اور وہ اس میں رھنستا ہوا چلا گیا۔ دیوار کا پلاسٹر گیلی مٹّی کی طرح بے حقیقت ہو گیا تھا۔

وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ پھر شاید بیسں منٹ کے بعد حمید نے دیوار میں ایک اتنا بڑا سوراخ دیکھا جس ایک آدمی لیٹ کر بہ  آسانی نکل سکتا تھا۔

  اس نے حمید کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ حمید کوٹ پہنے لگا اور اُس عجیب و غریب آدمی نے تھیلے سے شراب کی  بوتل نکالی اور غٹ غٹ کئی گھونٹ چڑھا گیا۔

 حمید سوچ رہا تھا کہ کہیں یہ جیرالڈ کی کوئی دوسری چال تو نہیں ہے۔

 وہ  دونوں باہر نکل کر ایک طرف چلنے لگے۔ اند ھیرا کافی تھا اور اب  جھینگر  بھی نہیں چیخ  رہے تھے اور درختوں میں جگنوؤں کی جھلملاہٹ ایسی لگ رہی تھی جیسے وہی سناٹے  کی آواز ہو۔ سردی بہت بڑھ گئی تھی لیکن حمید کاننگ دھڑنگ ساتھی بے تکان راستہ طے کر رہا تھا۔

د فعتہً وہ ایک جگہ رُک گیا۔ اُس نے اپنے حلق سے ایک عجیب سی آواز نکالی اور قریب ہی سے کسی نے اُس کا جواب دیا۔ دوسرے لمحے میں ایک دوسرا آدمی حمید کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے حمید کا ہاتھ پکڑا اور حمید کا ساتھی نقب زن ہنستا ہوا چٹانوں میں غائب ہو گیا ... اب حمید اُس دوسرے آدمی کے ساتھ چل رہا تھا۔

وہ اُس تبدیلی پر کچھ بولا نہیں۔ بس چپ چاپ چلتا رہا۔ اُس کا ساتھی اُس کا ہاتھ پکڑے اونچی نیچی چڑا نہیں پھلا نگتا تیزی سے چل رہا تھا حالانکہ حمید کی سانس پھولنے لگی تھی لیکن وہ پھر بھی کچھ نہیں بولا۔ فی الحال اُس نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اب جیرالڈ کون سی چال چلنے والا ہے۔ شاید اب وہ اُسے اپنے اعتماد میں لے کر فریدی کا پتہ معلوم کرنا چاہتا تھا۔

 حمید کے ساتھی نے اُس کی حالت کا اندازہ لگا لیا تھا اس لئے اُس نے اپنی رفتار کم کر دی لیکن وہ اُسے ایک اُجاڑ حصے کی طرف لے جارہا تھا۔ تاروں کی چھاؤں میں حمید کو دور تک بکھری ہوئی چٹانیں صاف نظر آرہی تھیں ۔

’’بھئی  میں تھک کر چور ہو گیا ہوں ! ‘‘حمید بالآخر بولا ۔ ’’اگر ہم تھوڑی دیر ستالیں تو کیا حرج ہے!"

 اس کا ساتھی جہاں تھاوہیں بیٹھ گیا۔ حمید نے اُس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑے سے پتھر سے ٹیک لگائی۔ اُسےیقین ہو گیا تھا یہ بھی جیرالڈی کا کوئی آدمی ہے۔ اُس نے سوچا کہ کیوں نہ اُس سے نپٹ  لے۔

اُس نے دوسرہی لمحے میں اُس پر چھلانگ لگا دی۔

’’ اَبے پاگل ہوا ہے کیا ؟‘‘ اس کے ساتھی نے اُسے دبوچتے ہوئے کہا۔

 اور حمید کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑگئے۔

آواز فریدی کی تھی ...!

 

9

حمید نے تحیر آمیز نظروں سے اُس چھوٹے سے غار کا جائزہ لیا۔ یہاں وہ ساری چیزیں موجود تھیں جو ایک آدمی کی معمولی ضروریات کے لئے کافی ہوتی ہیں ۔ مٹی کے تیل کا ایک صاف روشنی دینے والا لیمپ روشن تھا اور اسٹوؤکی مسلسل سنناہٹ غار میں گونج رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی کافی کے برتن  سے اٹھنے والی خوشبودار بھاپ ! حمید کی بھوک چمک اُٹھی اور اس نے فریدی کی طرف دیکھا جو ہونٹوں میں سگار دبائے کھڑا کافی کے برتن  گھو رہا تھا ۔

’’کیا آپ میڈر ڈہی سے واپس آگئے ؟ " حمید نے پوچھا۔

’’میں گیا ہی نہیں۔ جیرالڈ کے ساتھی نے تم سے ٹھیک کہا تھا ۔ میں تمہارے ساتھ ہی یہاں کے لئے روانہ ہوا تھا !‘‘

’’ آپ ہمیشہ مجھے موت کے منہ میں جھونک دیتے ہیں !"

’’او راتنی ہی آسانی سے پھر نکال بھی لیتا ہوں !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔

’’وہ  آدمی کون تھا ؟"

’’یہاں کا ایک ماہر نقب زن !‘‘ فریدی نے کہا۔ " میں نے جب یہ دیکھا کہ وہ لوگ تمہیں اس بھیس میں بھی  پہچان گئے ہیں تو میں نے اپنی جد و جہد اور تیز کر دی ۔ میں جانتا تھا کہ وہ تمہیں میرے لئے پکڑیں گے ضرور... مگر ا فسوس ، میں اُن پر ہاتھ نہ ڈال سکا !‘‘

’’کیوں؟... اس پرتو مجھے بھی حیرت ہے ۔ آپ انہیں اُسی وقت پکڑ سکتے تھے! "

’’بے کار... جیر الڈ اُن میں نہیں تھا اور وہی میر اشکار ہے!"

’’ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے بھیس میں رہا ہو!"

’’ نہیں، میں اُسے ہر بھیس میں پہچان سکتا ہوں ۔ وہ اپنی آنکھیں نہیں بدل سکتا اور اس کی آنکھیں لاکھوں میں پہچانی جاسکتی ہیں !‘‘

’’مگروہ پاگل آدمی... آخر وہ کون ہے اور اس کا کیا مقصد ہے؟"

’’فی الحال میں اُسے نہیں بتا سکتا۔ میں سمجھ ہی نہیں سکا لیکن اتنی بات جانتا ہوں کہ وہ کوئی خاص اہمیت رکھتا ورنہ یہ لوگ ایسے نہیں کہ اس قسم کی تفریحات میں وقت ضائع کریں ! ‘‘

کچھ دیر خاموشی رہی پھر حمید نے کہا۔

’’تو پھر  اب تو یہ بات صاف ہوگئی کہ صمدانی اور اس کی سکریٹری کا قتل اُسی الماری کی وجہ سے ہوا۔ ظاہر ہے کہ اُس میں کروڑوں کا مال رہا ہوگا! "

’’مگر صمدانی کا قتل کیوں؟‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ان کا یہ مقصد اُس کے قتل کے بغیر بھی حل ہو سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ صمدانی اُس دفتر میں سوتا نہیں تھا... اور اُس کی سکریٹری کسی وقت بھی دفتر میں داخل ہو سکتی تھی ۔ اُس کی عدم مو جو دگی میں اپنے ساتھ آدمی بھی لے جاسکتی ،  کسی کو ذرہ برابر بھی شبہ نہ ہوتا !"

’’ہو سکتا ہے کہ صمدانی کچھ بھانپ گیا ہو! ‘‘حمید نے کہا۔

’’ہاں یہ ممکن ہے!‘‘فریدی نے کہا اور اسٹوؤ پر سے کافی کا برتن اتارنے لگا۔

 پھر وہ خاموشی سے کافی پیتے رہے۔ اچانک حمید کو انور یاد آ گیا۔

’’انور،سجاد  کے جنرل منیجر کے لئے کام کر رہا ہے !"

’’ مجھے معلوم ہے... اور وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے اُسے کرنے دو!"

 " قاسم بھی یہیں آگیا ہے اور اُسے رشیدہ سے عشق ہو گیا ہے!"

فریدی کچھ نہ بولا ۔

’’  میجر نصرت وغیرہ بے کا ر وقت اور جانیں ضائع کر رہے ہیں ۔ وہ اُس نیم وحشی آدمی کا ٹھکانا نہیں معلوم کرسکیں گے!"

’’اوہ ...اُ سے تو میں بھول ہی گیا تھا !‘‘ حمید نے کہا۔’’ آخر یہ حیرت انگیز آدمی ... اس کا مقصد بھی میں نہیں سمجھ سکتا۔ آخر اس کی پیٹھ پر لمبے لمبے بال کیسے اُگ آئے !"

’’کیا تم اُن بن مانسوں کو بھول گئے ؟"

’’لیکن اس گھوڑے کا کیا مقصد ہے؟"

" مجھے حیرت ہے کہ اتنی معمولی سی بات تمہاری سمجھ میں نہ آسکی!‘‘ فریدی سگار سلگا کر بولا۔ ” وہ محض لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے ہے۔ ایک عجوبہ! لوگ اُس کا تعاقب کرتے ہیں اور تعاقب کرنے والے لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جیرالڈ کی وہ  زمین دوز دنیا چند آدمیوں کی محنت کا نتیجہ تھی۔ میرا خیال ہے کہ جیرالڈار جن گھاٹی  میں دوسری زمین دوز رہائش گا ہیں تعمیر کرا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے بہت سے کام کرنے والوں کی ضرورت پیش آئے گی اور اس کے لئے روپیہ حاصل کرنے کا طریقہ تو تم دیکھ ہی چکے ہو۔ صمدانی کی الماری !‘‘

’’ٹھیک !‘‘  حمید سر ہلا کر بولا ۔

’’مگر سوال تو یہ ہے کہ وہ نیم وحشی تعاقب کرنے والوں کو کس راستے سے چٹانوں کی طرف لے جاتا ہے!" فریدی نے تھوڑی دیر بعد کہا۔’’ ظاہر ہے کہ وہ کوئی آسان ہی راستہ ہوگا ورنہ لوگ کیوں اس کے پیچھے سر مارتے پھریں !"

’’یہ بھی ٹھیک ہے !"

’’اور میں اسی راستے کی تلاش میں ہوں !‘‘

’’میرا خیال ہے کہ وہ راستہ بھی انتہائی خطرناک ہوگا!" حمید نے کہا۔ " اُس خونی چٹان کی طرح... اور وہ کہہ بھی رہا تھا کہ ضرورت پڑنے پر وہ وہاں کی ساری چٹانوں کو اتنا ہی مہلک بنا سکتے ہیں !"

 فریدی کچھ نہ بولا۔ انہوں نے کافی ختم کی اور حمید پائپ میں تمبا کو بھرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔’’ میرا خیال ہے کہ اب اُن چٹانوں پر بمباری کی جائے گی !"

’’ ان کے لئے ایٹم بم چاہئے !‘‘ فریدی نے کہا ۔’’ مگر خیر... یہ فضول کا رروائی بھی میرے لئے مفید ثا بت ہو گی !‘‘

’’کس طرح ؟‘‘

’’بہتیری  با تیں ہیں ...مگر میرا خیال ہے کہ اب تم تھوڑا سا سولو! ‘‘

’’نا  ممکن ہے۔ شاید ہی نیند آئے... جولی بڑی حسین لڑکی تھی۔ وہ ان کم بختوں نے گڑبڑکردی ورنہ میں اُسی وقت اُس سے شا دی کر لیتا !‘‘

’’اونہہ!‘‘ فریدی بُر ا سا منہ بنا کر بولا ۔ " کام کی باتیں کرو ...اب تمہارے لئے یہ پروگرام ہے کہ تم دوون تک شیزاں  میں نہیں جاؤ گے  اور اب یہ کیپٹن پرکاش والی حیثیت ختم ۔ تم دوسرے میک اَپ میں شہر جاؤ ۔ اپنے لئے دوسرا سامان خریدو ۔ دو دن تک کسی دوسرے ہوٹل میں قیام کرو پھر وہاں سے شیزاں میں منتقل ہو جاؤ ۔ انور، رشید ہ یا  قا سم سے ملنے کی ضرورت نہیں ۔ اُن سے الگ ہی رہو!"

’’اور مجھے کرنا کیا ہوگا؟"

’’مکھی مارنا ... جب ضرورت ہو گی طلب کرلوں گا!‘‘

اچانک حمید کو وہ پُر اسرار انگریز مورگن یاد آگیا جو سوٹ کیس میں ایک سیمی مشین گن لئے پھرتا تھا۔ اس نے فریدی سے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا۔ "مگر ہے چالاک ۔میں ایک بار بھی اس کا تعاقب کرنے میں کامیاب نہیں ہو ا!‘‘

فریدی کچھ سوچنے لگا پھر اُس نے کہا۔ " کام بڑھتا ہی جارہا ہے۔ مورگن کے متعلق تم میجر نصرت کو مطلع کردو۔ اُس سے کہہ دو کہ وہ اس کی نگرانی کرائے لیکن فی الحال پکڑنے کی ضرورت نہیں !‘‘

" کیا میں یہ کام نہیں کر سکتا ؟‘‘ حمید بولا۔

’’نہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ اب کی وہ لوگ تمہیں ختم ہی کر دیں!‘‘

’’پھر میں کیا کروں گا ؟"

’’تفریح۔ ویسے تم مورگن پر نظر رکھ سکتے ہو لیکن کسی کے تعاقب کے چکر میں نہ پڑنا ،سمجھے! "

’’کیا آپ مستقل طور پر اسی غار میں رہیں گے ؟‘‘

’’ہاں ...یہ ارجن گھاٹی سے نزدیک ہے۔ لیکن تم کبھی خود سے یہاں آنے کی حماقت نہ کرنا ۔ مجھے جب ضرورت ہو گی کسی نہ کسی ذریعے سے بلوالوں گا یا خود ہی تم تک پہنچ جاؤں گا !‘‘

’’اچھا یہ بتائے کہ آپ کو اس معاملے میں جیرالڈ کا خیال کب اور کیسے ہوا؟“

’’محض طریقہ کار کی بنا پر ۔ اُس نیم وحشی آدمی کی شخصیت اور تعاقب کرنے والوں کی گمشدگی۔ تم پر اُس وحشی کا حملہ ۔وہ عجیب و غریب چٹان ۔ اس صدی میں جیرالڈ کے علاوہ اور کون ایسا پیدا ہوا ہے جو اتنے سائنسی طریقے اختیار کر سکے !‘‘

حمید او نگھنے لگا تھا۔ تھو ڑی دیر بعد فریدی نے اُسے جھنجھو ڑ کر کہا ۔’’اچھا ...اب میں تمہیں کسی ایسی جگہ چھو ڑ آ ؤں گا جہاں سے تم بہ آسانی  شہر تک  پہنچ سکو ۔لیکن اس سے پہلے میک اَپ ...دیکھو بڑی احتیاط کی ضرورت  ہے اور میں ایسے موقع پر تمہیں رومان لڑانے کی اجازت ہر گز نہ دوں گا !‘‘

میک اَپ میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ شاید فریدی نے سامان پہلے ہی سے تیار کر رکھا تھا۔

 چلتے وقت اُس نے حمید سے کہا۔

’’اور ہاں ! جناب اپنی اس چہیتی چو ہیا کو چھو ڑ جا ئیں تو بہتر ہے ور نہ  سا ری محنت بر باد ہو جا ئے گی ۔یہ کمبخت بھی بڑی سخت جان نکلی !‘‘

حمید بدقت تمام اس پر راضی ہوا۔’’ لیکن دیکھئے !‘‘ اُس نے کہا۔ " اسے کوئی نقصان نہ پہنچے ۔ میں اس کی زندگی کا بیمہ کرانے والا ہوں اور پھر بر خوردار بغراخاں کے ساتھ اس کی شادی کروں گا !‘‘

’’ بعض اوقات تمہاری بکو اس بڑی غیر دلچسپ ہوتی ہے۔ ہنسانے کے چکر میں تم احمق ہوئے جارہے ہو! ‘‘

اس ریمارک پر حمید کچھ جھینپ سا گیا اس لئے اُس نے یک بیک سنجیدہ بنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ " کیا میں میجر نصرت کو یہاں آپ کی موجودگی سے مطلع کر سکتا ہوں؟"

’’نہیں... اس کی ضرورت نہیں !"

’’ پھر میں مورگن کی نگرانی کے لئے کسی حوالے سے کہوں گا ! ‘‘

’’مارو گولی۔ میں یہ چاہتاہی نہیں کہ اب تم میجر نصرت سے ملو۔ مورگن کو بھی جہنم میں ڈالو۔ مجھے تو یہ جیر الڈکی تلاش ہے!"

’’ہو سکتا ہے کہ مورگن ہی جیرالڈ ہو!"

’’ کیا وہ تاریک چشمہ لگاتا ہے؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔

’’نہیں ...!‘‘

’’تب تو وہ جیرالڈ نہیں ہوسکتا ! ‘‘فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا۔

’’لیکن کیپٹن پر کاش کے سامان کا کیا ہوگا۔ یہ  بھی اچھاہی ہوا کہ میں نے نقدی اپنے پاس ہی رکھی تھی !"

’’اب تم کھسکو!‘‘ فرید ی دانت میں کر اُسے گھونسہ دکھاتا ہوا بولا۔

 حمید کو شہر پہنچے پہنچتے صبح ہوگئی۔ اس نے سب سے پہلے احتیاطا ًًایک تاریک شیشوں والی عینک خریدی۔ پھر روزانہ کی ضروریات سے متعلق سامان خرید کر ایک متوسط درجہ کے ہوٹل میں مقیم ہو گیا۔

 اُسی دن سہ پہر کو اُس نے خبر سنی کہ ارجن گھاٹی میں ایک سرکاری طیّارے سے بمباری کی گئی تھی لیکن کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ پھر شام ہوتے ہوتے اُس عجیب و غریب چٹان کے متعلق طرح طرح کی خبریں گشت کرنے لگیں۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ خبر تھی کہ جیسے ہی طیارہ اُس چٹان پر سے گزرنے لگا، اس میں خود بخود آگ لگ گئی   اور وہ گر کر تباہ ہو گیا۔

لیکن دوسرے دن  کے اخبارات نے اس کی تردید کر دی۔ وہ سوفیصدی افواہ تھی لیکن اس سلسلے میں صحیح خبر بھی کم حیرت انگیز نہ تھی ۔اُس چٹان پر دس پونڈ  وزنی  کئی  بم گرا ئے  گئے لیکن اُس سے ایک معمولی سا ٹکڑا بھی الگ  نہیں  ہوا ۔وہ جو ں  کی توں  قا ئم رہی  اس کے بر عکس ،دوسر ی بہتیری چٹا نوں  کے کا فی  حصے  تباہ ہو گئے ۔آگے  چل کر  لکھا تھا  کہ  اس بمبا ری  کے نتیجے  میں ٹو ٹ  پھوٹ  کے با وجود  بھی چٹا نوں  کو پار کر نے کے لئے کو ئی را ستہ نہیں بن سکا اس کے سا تھ ہی  یہ خبر  بھی تھی کہ  پچھلے دود نوں   سے وہ نیم  و حشی  آدمی  نظر نہیں آ یا ۔

اُسی  دن  کے اخبار میں حمید کو ایک دوسری حیرت انگیز چیز نظر آئی۔ یہ کسی مسٹر فلیڈ  کے  بنگلے  میں نقب زنی سے متعلق تھی۔ خبر  کے مطابق مسٹر  اور مسز فیلڈ جو اپنے ایک نیم دیوانے چچا کے علاج کے سلسلے میں رام گڑھ میں مقیم ہیں اپنا بہت سا سر ما یہ کھو بیٹھے ۔چو ری نقب  کے   ذریعہ  ہوئی۔ مسروقہ  چیزوں میں مسز فلیڈ  کی پا لتو  ولا دیتی    چو ہیا  بھی تھی  جسے  موصو فہ نے بڑی  محنت سے ٹرین   کیا تھا اور وہ کئی  طرح  کے   کر تب  دکھاتی   تھی۔ زیورات پا نچ  ہزار کی ما لیت  کےتھے ۔پو لیس  میں رپو رٹ درج  کرا دی  گئی  ہے ۔

حمید کو ان لوگوں کی دیدہ دلیری پر حیرت ہونے لگی اور اس خبر کے ذریعہ اُسے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسٹر فیلڈ ہوائی کے ایک آفیسر ہیں۔

حمید اور فریدی کے لئے یہ ایک کھلا ہوا چیلنج  تھا یعنی وہ اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ رہ گئی چو ہیا توحمید اُسے کسی عدا لت میں بھی اپنے دعوے کے ثبوت میں نہیں پیش کر سکتا تھا۔ بہر حال ان لوگوں کی جرأت تو اس بات پر دال تھی کہ فریدی یا حمید اُن کے خلاف کوئی ثبوت مہیا نہ کر سکیں گے۔

حمید ابھی تک یہی سمجھ رہا تھا کہ اُس کے فرار ہو جانے کے بعد وہ لوگ اُس عمارت میں نہ ٹک سکیں گے لیکن معا ملہ اس کے برعکس نکلا۔

 دودن گزارنے کے بعد حمید نے پھر شیزاں ہوٹل کی راہ لی اور اُسے ایک خالی کمر ہ مل ہی گیا۔ سب سے پہلے اُس  نے مورگن کی خبر لی ۔ وہ بدستور وہاں مقیم تھا ۔ انور، رشیدہ اور قاسم بھی تھے لیکن حمید کو انور کی مصروفیات کے متعلق کچھ نہ معلوم ہو سکا ۔

البتہ اُسی شام کو وہ قاسم کی ایک حماقت سے کافی محظوظ ہوا۔

 ہوا یہ کہ رشید ہ ایک خالی کمپین میں بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ حمید کھلے ہال میں کیبن کے سامنے والی میز پر بیٹھا شام کا اخبار  دیکھ رہا تھا کہ قاسم اپنے ہاتھ میں ایک گٹھری سی لٹکائے ہوئے اُس کے قریب سے گزرا اور رشیدہ  کیبن والے میں چلا گیا۔ اس نے وہ گٹھری میز پر رکھ دی۔

’’یہ کیا ہے؟ رشیدہ نے پوچھا۔

’’ گوبھی کے تازہ ترین پھول !" قاسم نے سعادت مندی سے کہا۔

’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے!‘‘ رشیدہ جھنجھلا گئی ۔’’کل بھی تم نے یہی حرکت کی تھی مگر  میں ہنس کر ٹال گئی تھی!‘‘

’’تو کیا وہ پھول با سی تھے ؟ " قاسم نے پوچھا۔

’’آخر یہ ہے کیا بد تمیزی اور آج تم انہیں یہاں سب کے سامنے اُٹھالائے !‘‘

’’ کمرے میں پہنچا دوں ؟ ‘‘قاسم نے بڑی لجاجت سے کہا۔

’’ میں کہیں تمہاری سر پر چائے دانی  نہ تو ڑ دوں ! ‘‘رشیدہ آپے سے باہر ہوگئی۔

’’ مجھے معلوم ہوا تھا کہ تہمیں گوبھی کے پھول پسند ہیں! " قاسم رونی شکل بنا کر بولا۔

’’کس گدھے نے کہا تھا ؟"

’’حمید بھائی نے!  ‘‘

’’اوہ!‘‘رشید ہ خاموش ہوگئی پھر ہنسنے لگی  اور اس نے کہا ۔ " تم آخر اتنے بے وقوف کیوں ہو؟"

’’اس میں بے و قو فی  کی کیا بات !‘‘قا سم برا مان  گیا۔’’تم کبھی  کچھ  کہتی ہو ،کبھی کچھ ۔ایک بارتم نے کہا  تھا کہ  میں بالکل بے وقوف نہیں ہوں اور اب بے وقوف ہوں !‘‘

رشیدہ کی ہنسی تیز ہوگئی۔ آخر بدقت تمام وہ سنجیدگی اختیار کرنے میں کامیاب ہوئی اور اُس نے پوچھا۔

’’ دو دن سے حمید صاحب نہیں دکھائی دیئے ! ‘‘

’’دکھائی تو دے سالا!" قاسم دانت پیسں کر بولا ۔ " میں اُسے کچا چبا  جاؤں گا ! ‘‘

حمید کو ہنسی ضبط کرنا دشوار معلوم ہورہا تھا۔ اس لئے وہ وہاں سے اُٹھ گیا۔

 قاسم بھی طرح طرح کے منہ بناتا ہوا کیبن سے نکل آیا۔ اگر اُسے واقعی حمید مل جاتا تو وہ اسے مار بیٹھنے سے بھی نہ چوکتا۔ وہ حمید کو دل ہی دل میں گالیاں دیتا ہوا ایک خالی میز پر جا بیٹھا۔

 شام کافی خوشگوار تھی اور ہال میں لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی ۔ لڑکیوں کی بہتات تھی ۔ قاسم اپنے ہونٹ چاٹتا ہوا ایک ایک کوگھورنے لگا۔ پھراس کی نظریں ایک اینگلو ا نڈین  عورت پر جم گئیں جو کا فی لحیم شحیم تھی اور عمر ا ٹھا ئیس سے زیا دہ نہ ر ہی  ہو گی ۔  اس نے بھی قاسم کی طرف دیکھا اور پھر بڑی ادا سے مسکرا کر منہ پھیر لیا۔

قاسم کا دل دھڑ کنے لگا۔ وہ اُس عورت کو گھورے جارہا تھا۔ اب کی بار اُس نے قاسم کو آنکھ ماردی۔ بس  پھر کیا تھا، قاسم کی روح اُس کے جسم کے اندر سر کے بل کھڑی ہوگئی ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی اُسے آنکھ مار دے لیکن مصیبت تو یہ تھی کہ اُسے آنکھ مارنا آتاہی نہ تھا۔ وہ اکثر آئینہ سامنے رکھ کر آنکھ مارنے کی مشق کیا کرتا تھا مگر اُس کی دونوں آنکھیں بند ہو جاتی تھیں اور اوپری ہونٹ سکڑ کر ناک سے جاملتا تھا۔

 عورت بار بار اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگتی ۔ قاسم نے سوچا کہ اُسے بھی کم از کم جواب میں مسکرانا تو ضرورہی چاہئے ورنہ وہ نہ جانے کیا خیال کرے۔ قاسم کو اپنی مسکراہٹ پر بھی قابو نہیں تھا۔ اُس کے بتیسوں دانت نکل آئے۔ پھر اُس نے عورت کو اُٹھ کر باہر جاتے دیکھا اور تعاقب کا بھوت اُس کے سر پر سوار ہو گیا ۔

باہرنکل کر وہ عورت ایک کار  میں بیٹھی او ر ایک طرف روا نہ  ہو گئی ۔وہ خو د ہی  کا رڈ  را ئیو  کر رہی تھی۔

قاسم نے بھی ایک ٹیکسی  لی اور اس کے پیچھے چل پڑا۔ اگلی  کا ر شہر سے نکل کر ایک ویران سڑک پر ہولی ۔ قاسم نے ذ رہ برابر  پرو انہ کی  ۔تعا قب  برابر  جا ری رہا۔

سو رج ابھی  غروب نہیں ہوا تھا اور چٹانوں پر  نا رنجی رنگ  کی دھوپ بکھری ہوئی تھی ۔ اچانک ایک جگہ اگلی کار رُک گئی ۔قا سم کی ٹیکسی  کافی فاصلے پر تھی ۔ عورت کار سے نکل کر سڑک کے کنارے کھڑی ہوگئی اور اس طرح ہاتھ ہلا نے لگی جیسے ٹیکسی کورکوانا چا ہتی ہو ۔ ڈرائیور نے پلٹ کر قاسم کی طرف دیکھا۔

’’ روک دو پیارے! " قاسم ہانپتا ہوا بولا۔ اُسے اس کی توقع نہیں تھی۔

 ٹیکسی رُک گئی اور عورت اس کی طرف بڑھی۔ قاسم کے سارے جسم سے پسینہ چھوٹ پڑا۔ معلوم نہیں وہ اس  سے کس طرح پیش آئے ۔

’’ا وہ ! تم آہی گئے ڈارلنگ!‘‘ عورت نے سریلی آواز میں کہا اور قاسم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔

’’ جاؤ تم جاؤ!" قاسم ڈرائیور کے ہاتھ میں دس دس کے دو نوٹ ٹھونستا ہوا بولا اور اناج سے بھرے ہوئےبور ے کی طرح ٹیکسی سے نیچے لڑھک آیا۔

 ٹیکسی واپس چلی گئی اور قاسم وہیں کھڑا ہانپتا رہا۔ عورت اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھی۔

’’ تم بڑے پیارے ہو ڈارلنگ ! ‘‘اُس نے مسکرا کر کہا۔

’’مم...میں ! ہاں میں بڑا پیارا ہوں !" قاسم نے جلدی سے کہا اور پھر غلطی کا احساس ہونے پر اپنے ہونٹ مسلنے لگا ۔

’’میں تم سے محبت کرتی ہوں ! ‘‘عورت نے کہا۔

اور نہ جانے کیوں قاسم نے جھینپ کر اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبالیا۔ اس کی آنکھیں بھی  جھک  گئی تھیں اور اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرے۔

’’بڑی خوشگوار شام ہے!‘‘عورت بولی ۔ " آؤ ہم تھوڑی دیر کسی چٹان پر بیٹھ کر دنیا کے غم بھول جائیں !"

’’بھول ... جائیں گے !" قاسم ہکلا یا ۔

’’آؤ تو میری مدد کرو!‘‘ عورت نے کہا اور اپنی کار سے ایک ٹوکری نکالی جس میں کھانے پینے کی چیزیں  تھیں ۔تھرماس اٹھایا۔ قاسم نے ٹوکری اور تھرماس کے لئے ۔ پھر وہ دونوں ایک طرف چلنے لگے۔

وہ دو چٹانوں کی ایک درمیانی دراڑ میں آبیٹھے۔

’’ میں تمہیں خواب میں دیکھا کرتی تھی ! ‘‘عورت بولی۔

’’میں بھی ...دیکھا تھا !" قاسم نے کہا۔ اب اس کی بدحواس کچھ دور ہوگئی تھی۔

’’ تم بڑے اچھے ہو! " عورت اٹھلائی اور اس نے ناشتے کی ٹوکری سے دو گلاس نکا لے ۔

’’ہم ایک دوسرے کے جام صحت پئیں گے !‘‘ اُس نے کہا۔

’’ضرور پئیں گے !‘‘قا سم بو لا اور وہ ناشتے  کی ٹو کری خا لی  کر نے میں اُس  کا ہا تھ  بھی بٹا نے  لگا۔پا ئیاں ،چاپس اور تلے ہوئے چوزے دستر خوان پر رکھ دیئے گئے ۔ قاسم کو اور چاہئے بھی کیا تھا... عورت...اور کھانے  پینے کا سامان ۔تلے ہوئے چوزے دیکھ کر پہلے ہی اس کی رال ٹپکنے  لگی تھی۔

تھرماس سے گلاسوں میں شراب انڈیلی گئی۔ دونوں نے گلاس ٹکر ائے اور قاسم ایک ہی سانس میں اپنا گلاس خالی کر گیا۔ اُس نے آج زندگی میں دوسری بار شراب پی تھی اور اُسے اپنا پچھلا تجربہ یاد آنے لگا تھا۔ اچانک اُسے   اپنے باپ کا ہنٹر بھی یاد آ گیا لیکن اُس کے کان پر جوں تک نہ رینگی کیونکہ آج پہلی بار اس کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی تھی یعنی ایک " تگڑی ‘‘ سی عورت کا قرب نصیب ہوا تھا۔

حالانکہ اُس نے صرف ایک ہی گلاس پیاتھا اور ظاہر ہے کہ کمزور اعصاب کا آدمی بھی نہیں تھا مگر پھربھی اس کا  دماغ اُلٹ گیا۔

’’ جان من !‘‘ وہ عورت کی گردن دبوچ کر بولا ۔ " میں دنیا کا سب سے زیادہ طاقتور آدمی ہوں... میں لوہے کی سڑی سڑی بلا خیں ...بلا خیں... نہیں سلاخیں موڑ سکتا ہوں... منہ سے گو ہے کے لولے نکال سکتا ہوں !"

’’ گو ہے کے لولے کیا چیز ؟‘‘ عورت نے ہنس کر گردن سے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے پوچھا۔

’’گو ہے کے لولے نہیں ، لوہے کے گولے!" قاسم نے کہا۔

’’تم واقعی ایسے ہی معلوم ہوتے ہو۔ لو اور پیو!‘‘ اس نے تھر ماس سے اُس کے گلاس میں اور انڈیل دی۔

 قاسم دوسرا گلاس خالی  کر کے اُٹھا اور ایک بڑا سا پتھر اُٹھانے لگا۔ اتنا بڑا کہ تین آدمی بھی اُسے اُٹھانے کی ہمت نہ کر سکتے ۔ اس نے اُسے اُٹھا کر چار پانچ گز کے فاصلے پر اُچھال دیا۔ عورت حیرت سے منہ پھاڑے اُسے گھورتی رہی لیکن اب شراب اپنا کام کر چکی تھی۔ قاسم کو کھڑے ہی کھڑے بڑے زور کا چکر آیا اور وہ دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔

عورت کے چہرے پر اطمینان نظر آنے لگا تھا۔ اُس نے اپنا گلاس جس سے ابھی تک ایک گھونٹ نہیں پیا گیا تھا، اٹھایا اور زمین پر اُلٹ دیا۔

 قاسم کئی گھنٹے تک بے ہوش رہا اور جب اُسے ہوش آیا تو وہ یہی سمجھا کہ شاید وہ اپنے کمرے میں سورہا ہے۔ اُس نے کروٹ بدلی اور اس کے نیچے خشک گھاس کر کرا کر رہ گئی ۔ وہ اونگھ رہا تھا اور اُسی او نگھنے کے دوران میں اُسے وہ تگڑی سی عورت یاد آئی اور اس کی آنکھیں کھل گئیں اور پھر وہ اُچھل کر اُٹھ بیٹھا۔ اُس کے نیچے سوکھی ہوئی گھاس کا ڈھیر تھا اور وہ جہاں بھی تھا وہاں سے اُسے آسمان نہیں دکھائی دے رہا تھا۔

اُس نے آنکھیں مَلیں اور چند  ھیا یا   ہوا چااروں طرف دیکھنے لگا ۔وہ کسی غا ر میں تھا  اور وہ  اتنا بے وقوف  بھی  نہیں تھا کہ  اُس غار   میں  بجلی  کا بلب  رو شن دیکھ کر  بو کھلا   نہ  جا تا۔

آہستہ آہستہ  اُس کے حواس خمسہ  بیدار  ہو تے  جا رہے تھے    اور اب  اُسے اُس   شور کا احساس ہو  اجو  اُ سے پہلے  بھی مسلسل سنا ئی   دیتا  رہا تھا  مگر اُس  نے اس  کی طرف   دھیان نہیں  دیا تھا ۔ایسا معلوم  ہو رہا تھا جیسے پتھر  تو ڑے جار ہے ہوں۔

وہ گھبرا کر غا ر  کے دہا نے  سے نکل  آیا ۔ پہلے تو اُسے ایسا معلوم ہوا جیسے  وہ اندھیرے  سے دھوپ  میں آگیا ہو  لیکن پھر  اس کی سمجھ  میں آیا  کہ وہ بجلی  کی  بہت ہی تیز قسم کی رو شنی  تھی اور اس کے سا منے  بے شمار  آدمی  چھینیوں اور ہتھوڑیوں  سے پتھر  کی دیوار تراش رہے تھے ۔

ایک پستہ قد  اور مو ٹا سا انگریز اس کی طرف  جھپٹا۔

’’تم جاگ پڑے ...بدمعاش ...سور ...کمینے!‘‘  وہ قاسم  کو گھو نسا  دکھا کر بولا ۔

’’زبان  سنبھال کر  ذرا !‘‘ قا سم کو غصہ آگیا۔

’’تم میری عورت کو خراب  کر نا چا ہتے تھے!‘‘انگریز  نے چیخ کر کہا اور قا  سم اُردو  میں ہکلا نے لگا۔

’’ارے...تو  بہ ...ارے پیا رے ...نہیں  تو الا  قسم!‘‘

’’میں  تمہیں پو لیس کےحو   ا لے کر دوں گا!‘‘

قاسم   کا نپنے لگا۔ اب اُس   کے منہ  سے آواز نہیں  نکل رہی تھی۔آخر اُس نے بہت سوچ کر کہا ۔’’ نہیں ،میں  تو تمہاری  بیوی کو اپنی طا قت کا نمو نہ  دکھا رہاتھا!‘‘

’’بکتے ہو!‘‘ انگریز چیخا۔

’’اُس سے پوچھو! کیا میں نے اُسے ایک بڑ اورزنی پتھر اُٹھا کر نہیں دکھایا تھا۔ کوئی دس بارہ من کا رہا ہو گا!‘‘

’’دس بارہ من !‘‘ انگریز بگڑ کر بولا ۔’’ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوگا!“

’’نہیں الاقسم یعنی کہ بائی گاڈ میں بالکل سچ  کہہ رہا ہوں !‘‘

’’ابھی امتحان ہوا جاتا ہے ! ‘‘انگریز نے کہا۔’’ میرے ساتھ آؤ!"

 وہ اُسے ایک ایسی جگہ لایا جہاں پتھر کی بہت بڑی بڑی سلیں رکھی ہوئی تھیں۔

’’ان میں سے کوئی اُٹھا سکتے ہو؟‘‘ انگریز نے پو چھا۔

" ہاں، کیوں نہیں !"

’’اچھا تو جہاں میں کہوں ، ایک اٹھا کر لے چلو!“

قاسم نے جھک کر ایک سِل اٹھائی اور انگریز کے ساتھ چلنے لگا۔ اُسے زیادہ دور نہیں جانا پڑا۔

’’یہیں ساری سلیں اُٹھا لا و !‘‘ انگریز نے کہا۔

" کیوں اُٹھا لاؤں۔ تمہارے باپ کا نوکر ہوں !"

’’گردن توڑ دی جائے گی !‘‘ انگریز اُسے گھونسا دکھا کر بولا ۔ " یہی کیا کم ہے کہ میں نے تمہیں زندہ ر ہنے  دیا۔ تم میری بیوی کو پھانس رہے تھے !"

’’وہ خود مجھے پھانس کر لائی تھی ! "

’’ بکو اس ہے !جو کام کہا  جائے چپ چاپ کرو، ورنہ مار ڈالے جاؤ گے!"

’’ واہ.. اچھی زبردستی ہے!"

’’چلو، ورنہ تمہارا قیمہ کر دیا جائے گا !"

 قاسم نے سوچا بُرے پھنسے ۔ نہ جانے یہ لوگ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ اُس نے چاروں طرف نظریں دوڑا ئیں ۔ لوگ بڑے انہماک سے اپنا کام کر رہے تھے لیکن یہ سب انگریز نہیں تھے۔ ان کی حالت تبا ہ تھی اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اُن سے بھی زبردستی ہی کام لیا جا رہا ہو۔

 قاسم چپ چاپ سلیں ڈھونے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں سچ مچ  اُسے پولیس کے حوالے نہ کر دیا جائےاور اگر اُس عورت نے بھی اُسی کے خلاف شہادت دی تو پھر مصیبت ہی آجائے گی۔ سلیں ڈھو چکنے کے بعد وہ چپ چا پ کھڑا ہو گیا۔ یہاں اُس پستہ قد کے علاوہ دو چار انگریز اور بھی تھے مگر وہ کام نہیں کر رہے تھے۔

’’اے ٹم ایڈ ھر سنو! ‘‘انگریز نے ایک مزدور کو مخاطب کر کے کہا۔ ” اُس موٹے آدمی کو کام بٹا ؤ !"

مزدور نے قاسم کو اشارے سے اپنے پاس بلایا۔

’’ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘ قاسم نے پوچھا۔

’’پتہ نہیں ! " مزدور نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ” آپ آج ہی پھنسے ہیں کیا ؟“

’’پھنسا ہوں، کیا مطلب؟"

’’کیا آپ اس حرامزادے کا پیچھا کرتے نہیں آئے تھے؟“

’’کس حرامزادے کا ؟"

’’وہی... حضرت سلیمان کا گھوڑا!‘‘

’’ارے!‘‘ قاسم حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولا ۔ " کیا وہی تمہیں یہاں لایا تھا۔ تو کیا تم لوگ وہی ہو جو اُس کے پیچھے دوڑے تھے اور غائب ہو گئے تھے !‘‘

’’جی ہاں ... اور اب ہم قیدی ہیں ۔ ہم سے زبر دستی کام لیا جارہا ہے۔ اگر ہم میں سے کوئی انکار کرتا ہے  تو وہ ظالم اُسے مارتے مارتے ادھ مرا کر دیتا ہے!"

’’کون مارتا ہے؟“

’’وہی جانور... گھوڑا ...!‘‘

ابھی  یہ گفتگو ہو رہی  تھی کہ قا سم نے گھوڑے کی ہنہنا ہٹ کی آواز سنی اور پھر اسے وہ حیوان   نما انسان دکھا ئی  دیا جس کی  پیٹ پر گھو ڑے کے ایال کے سے بال تھے۔ وہ اس وقت بھی گھٹنوں کے بل چل رہا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی کام کرنے والوں کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے ۔ وہ گھٹنوں کے بل چلتا ہوا گو یا کام کی نگرانی کر رہا تھا۔ اس کے آتے ہی و ہاں سے سارے انگریز چلے گئے ۔ کام بڑی تیزی سے ہو رہا تھا ۔ وفعتہ ًاس انسان نما حیوان نے گھٹنوں کے بل چلتے چلتے ایک مزدور کے دولتی جھاڑ دی۔ وہ بے چارا سامنے والی دیوار سے جا ٹکر ایا اور چیخ مار کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اُس کا سر پھٹ گیا تھا لیکن کام بدستور جاری رہا کسی نے مڑ کر اُس کی طرف دیکھا تک نہیں ۔ کام کرنے والوں کی نظریں  سامنے تھیں اور اُن کے ہاتھ مشینوں کی طرح چل رہے تھے لیکن چہرے تو مشین تھے نہیں کہ اُن پر خوف کے آثار نظر نہ آتے۔

قاسم گرے ہوئے مزدور کو اُٹھانے دوڑا ۔

’’ ٹم کام نہیں کرتا سالا !‘‘ وحشی نے دہاڑ کر کہا۔

قسم اُس کی پروا کئے بغیر اُسے اٹھانے کے لئے جھکا۔ دوسرے ہی لمحے میں اُس کے اوپر بھی دولتی پڑی۔ اگراس  نے اپنے ہاتھ زمین پر ٹیک نہ دیئے ہوتے تو اُس کے چہرے کا بُھر تا بن گیا ہوتا۔

 قاسم اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔ غصے کی آگ اس کے سارے جسم میں بھڑک اٹھی۔

’’ہم سالومن کا گھوڑا... مالم !" وحشی نے ہنہنا کر کہا۔

’’تری دُم میں غدا باندھوں سالے !میں ہاتھی ہوں !" قاسم اس پر ٹوٹ پڑا۔

 وحشی  بڑی پھرتی سے اس کی گرفت سے نکل گیا۔ اب وہ بھی سیدھا کھڑا ہو گیا تھا اور اس کا چہرہ بہت زیادہ خو فناک نظر آ نے لگا تھا۔ہو نٹ کا نوں کی لَو ؤں تک  پھٹے  معلوم ہو رہے تھے ۔

قا سم تو غصے سے دیو انہ  ہو رہا تھا  اور یہ کہنا  بے  جا نہ  ہو گا کہ اُ سے اُس کی شکل ہی نہیں نظر آرہی تھی۔وہ پھر اُس  سے لپٹ پڑا لیکن قاسم نے دوسرے ہی لمحے میں محسوس کیا کہ اس کا جسم لوہے کی طرح سخت ہے ۔ دونوں زور کرنے لگے۔

اچانک کام رُک گیا اور کام کرنے والے چیخ چیخ  کر قاسم کا دل بڑھانے لگے اور پھر تین چار انگریز بھی گئے۔ انہوں نے تیر آمیز نظروں سے اُن دونوں کو دیکھا اور کشتی کو ختم کرانے کے لئے چیخنے لگے۔

لیکن وہ کسی طرح بھی الگ نہ ہوئے ۔ ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ وہ دوسرے کو زمین پر گرا دے لیکن ابھی تک کوئی کامیاب نہیں ہوا تھا۔

اچانک کسی نے چیخ کر کہا۔ ” سانوٹے ہٹ جا.. ورنہ بہت مار کھائے گا ! ‘‘

اس آواز میں نہ جانے کیا تھا کہ وحشی کے ہاتھ پر کا نپنے  لگے اور وہ یکلخت اُچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ قاسم اس کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اُسی آواز نے کہا۔ ” ٹھہرو!“

قاسم نے رُک کر آواز کی طرف دیکھا۔

ایک دراز قد انگریز سا منے کھڑا  تھا جس کے چہرے کے دوسرے خدوخال اور آنکھوں میں ہم آہنگی نہیں تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ آنکھیں اس کے چہرے سے بالکل ہی الگ ہوں۔

 قاسم اُسے پہلی ہی نظر میں پہچان گیا۔ یہ جیرالڈ شاستری تھا۔

’’ارے آپ ، شاستری صاحب! " قاسم چیخ کر اُس کی طرف بڑھا۔

’’ ہاں میں ہوں جیر الڈ نے نرم لہجے میں کہا۔ " تم تو پہلے بھی ہمارے دوست تھے !"

’’ اب بھی دوست ہی ہوں ! ‘‘قاسم بولا۔

کام پھر شروع ہو گیا۔ جیر الڈوحشی کی طرف مڑ کر بولا ۔ سانو ٹے  اپنے غار میں جاؤ!"

وہ  چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔

"میرے ساتھ آؤ!‘‘ جیر الڈ نے قاسم سے کہا۔

وہ اُسے ایک دوسرے کمرے میں لایا جو مکمل ہو چکا تھا۔ یہ کمرہ قاسم کو ویسا ہی معلوم ہورہا تھا جیسے اُس نے جیر الڈ کی پچھلی زمین دوز دنیا میں دیکھے تھے۔

جیر الڈ اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا اور اس سے اس نے یہ بھی وعدہ کیا کہ وہ اس کی شادی کسی تگڑی عورت سے کر دے گا ۔ پھر اُس نے پوچھا۔

" فریدی اور حمید کہاں ہیں ؟ "

’’فریدی کا  پتہ نہیں ! ‘‘قاسم نے کہا۔’’ لیکن حمید شیزاں ہوٹل میں ہے۔ اُس نے میک اَپ کر رکھا ہے اور خود کو کیپٹن پر کاش کہتا ہے لیکن دو دن سے دکھائی نہیں دیا۔ اُسے ضرور پکڑوایئے  میں اُس کی مرمت کرنا چاہتا ہوں...لا حول ولا قوة .. گوبھی کے پھول ...چھی چھی!‘‘

 

10

 

شیزاںکے منیجر کے کمرے میں ایک پولیس انسپکٹر منیجر کا بیان درج کر رہا تھا۔ انور اور رشیدہ بھی موجود تھے ۔ بیان ختم ہو جانے کے بعد پولیس انسپکٹر  کا غذ پرنظرثانی کرتا ہوا فاؤنٹین پین کو جیب میں رکھنے لگا۔

’’شیزاں میں ایسے واقعات پہلی بار ہوئے ہیں ! ‘‘منیجر بولا۔

’’پہلے کیپٹن پر کاش غائب ہوا پھر یہ قاسم صاحب !“

’’اس دوسرے آدمی کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ پیسے ختم ہو جانے کی وجہ سے سامان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس کے سوٹ کیس میں تیسں ہزار کے نوٹ موجود ہیں ! ‘‘پولیس انسپکٹر نے کہا۔

’’وہ کوئی مفلس آدمی تو نہیں تھا!‘‘ رشیدہ نے کہا۔ ” ایک بہت بڑے سرمایہ دار کا لڑکا ہے!“

’’اوہ ،ٹھیک ہے !‘‘ پولیس انسپکٹر جیب سے دوبارہ فاؤنٹین پین نکا لتا  ہوا بولا  ۔’’آپ نے اس کا پتہ تو لکھوایاہی نہیں !‘‘

رشیدہ نے قا سم کا پتہ لکھوادیا ۔ کچھ  دیر بعد اانور  اور رشیدہ  منیجر  کے آفس سے نکل آئے۔ وہ دو نوں  کا فی دیر تک خا مو ش رہا  پھر  ر شیدہ  بو لی ۔

’’انور ...اب ہمیں  یہاں  سے چل دینا چا ہئے !‘‘

’’کیوں... ؟‘‘

’’بس یو نہی ۔ اب میں یہاں نہیں ٹھہر نا چاہتی !"

" تم شوق سے جا سکتی ہو!"

’’ہم آج ہی شا م  کی گاڑی سے  واپس جا ئیں گے !‘‘  رشیدہ نے کہا۔

’’تم جا ؤ !‘‘

’’مجھے مجبورنہ  کرو... کہ ...خواہ مخواہ بات نہ بڑھاؤ ۔ تم اب تک یہاں جھک ہی  تو مارتے رہے ہو۔ تم نے اب  کیا معلوم کیا ؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں لیکن کیا ارجن گھاٹی  والا واقعہ مجھے روکے رکھنے کے لئے کافی نہیں! "

’’ میں تمہیں اس معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانے دوں گی، سمجھے! " رشیدہ بولی۔

’’تب تمہیں آج ہی یہاں سے سفر کرنا ہوگا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قاسم کے بغیر دل نہیں لگ رہا ہے! "

’’میں تمہارا منہ نوچ لوں گی ... سور !"

’’ارر...تو اس میں بگڑنے کی کیا بات ہے ۔ وہ ایک بہت بڑے سرمایہ دار کا لڑکا ہے !‘‘

’’تم کتّے ہو!‘‘ رشیدہ بپھر گئی ۔ " کیا اس کی دولت اُس حکومت کا عشر عشیر بھی ہے جو میرے ہاتھ آرہی تھی ! ‘‘

انور نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اس کی نظریں مورگن کا تعاقب کر رہی تھیں جو اوپری منزل سے نیچے  آکر صدر دروازے کی طرف جارہا تھا۔

’’اس آدمی کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘ اس نے رشیدہ سے پوچھا۔

رشید ہ بدستور جھلائی بیٹھی رہی۔ انور نے کہا۔ " میرا خیال ہے کہ حمید بھی اس کے چکر میں تھا۔ نہ جانے کیوں پچھلے تین دنوں سے تاریک شیشوں کی عینک لگانے لگا ہے۔ پہلے نہیں لگا تا تھا !‘‘

’’تو میں کیا کروں ! ‘‘رشیدہ جھنجھلا کر بولی

’’اُس کے حرکات و سکنات مشتبہ ہیں !‘‘ انور نے اس کی جھلاہٹ پر دھیان نہ دے کر کہا۔ ” یہ روز شام کو ایک سوٹ کیس لے کر باہر جاتا ہے اور شاید رات بھر واپس نہیں آتا !‘‘

’’تو کیا یہی ...وہ مسٹر براؤن ہے؟ ‘‘رشیدہ نے پوچھا۔

’’ پتہ نہیں !‘‘

پُراسرار خبطی  آدمی جسے اُس کے سا تھی  با دشاہ کہتے تھے ،فر انسیسی  در یچے کےقر یب  کھڑاخوا بگوں آنکھوں  سے اُ فق  میں گھو ر رہاتھا ۔اُس کے جسم  پر بڑے پھو لوں والا ر یشمی  لبادہ  تھا اور   پیروں میں مخمل  کے کا مدار  جو تے   تھے۔

دفعتہً وہ کسی کی آہٹ پر در  وا زے   کی طرف مڑا۔۔

دروازے میں فلیڈ کھڑا تھا۔ وہ نہا یت  ادب سے سینے پر ہا تھ   رکھ کر  جھکا  اور  پھر سیدھا کھڑا ہو گیا۔

’’کیا ہے ؟‘‘ دیو انے  تحکما نہ  لہجے میں پوچھا ۔

’’یور مجسٹی !اس حکم نا مے  پر دستخط کر یں گے !‘‘

’’نہیں بھاگ جا ؤ ! نکلو یہاں سے  ہم  بہت مشغول ہیں!‘‘

’’عالم  پناہ ! یہ بہت ضروری ہے !‘‘

’’اچھا  تو جولی کو یہاں بھیج دو !‘‘

فلیڈ کا چہرہ غصے سے سر خ ہو گیا  لیکن  وہ دو بارہ جھک  کر بولا ۔’’اچھا ...جیسی  جہاں  پناہ  کی  مر ضی !‘‘اور پھر  کمرے سے  باہر نکل گیا ۔

دیو انہ بدستور وہیں کھڑا رہاا اور تار یکی پھیل گئی ۔ایک  آدمی نے کمرے میں آکر  رو شنی  کی اور   دیو انہ چو نک کر مڑا ۔آدمی  باہر جا نے  لگا۔

’’ٹھہرو  !‘‘ دیو انہ  ہا تھ اُٹھا کر  بو لا ۔وہ ایک آدمی  رک گیا ۔

’’کیا تم بتا سکتے ہو  کہ میرا  نام کیا ہے ؟‘‘ دیوا نے  نے پو چھا۔

’’شہنشاہ عالم !‘‘وہ آدمی  تعظیما ًجھک کر بولا ۔’’ آپ ساری دنیا  کے با دشاہ ہیں ۔مختلف  ملکوں  میں آپ کے  مختلف نام  ہیں ۔ہم آپ کو عا لم پناہ  کہتے ہیں !‘‘

’’لیکن میرا  نام کیا ہے ؟‘‘ دیو انہ  جھنجھلا  کر بو لا ۔

’’جس کا دل جو  چا ہتا  ہے کہتا ہے !‘‘

’’تم گد ھے ہو !‘‘ دیو انے  نے چیخ  کر کہا ۔’’ نکل جا ؤ یہاں سے  !‘‘

وہ آدمی  ایک بار پھر تعظیما ً جھکا  اور کمرے سے  نکل  گیا ۔

دیو انہ  بڑی  بے  چینی  سے  کمرے  میں ٹہل رہا تھا  ۔کبھی کبھی  وہ رُک کر ہا تھ  سے اپنی پیشانی  رگڑنے لگتا...اور پھر اچا نک  وہ چیخ  مار کر  ایک صو فے  میں گر گیا  ۔اُس کی خو فزدہ  آنکھیں  اُس وحشی  پر جمی ہو ئی تھیں جو  گھٹنو ں کے بل  چلتا ہوا  کمرے میں دا خل ہو رہا تھا ۔ صو فے  کے قر یب  پہنچ کر  وہ رُک گیا ۔اُس نے بڑی  بڑی اور خو فناک آنکھیں  دیو انے  کو گھو ر رہی تھی ۔اچا نک  وہ تیزی سے   پلٹا اور اتنی  ہی پھر تی  سے صو فے  پر دو لتی   جھا ڑ دی ،صو فہ  اُ لٹ گیا ۔دیو انہ  دو سر ی طرف  گرا لیکن  اس کے منہ سے آواز تک  نہ نکلی ۔و حشی نے اُچھل کر  اُسے دبوچ لیا ۔دوسرے  لمحے  میں وہ اپنے  خو نخوار  دا نتو ں  سے دیو انے  کا لبا دہ  پھا ڑ رہا تھا اور دیو انہ اس طرح  سہا ہوا ہا نپ رہا تھا  جیسے   وہ کو ئی   ننھی  منی   سی  چڑیا  ہو  اور ایک  بڑا سا  شکرہ  اُسے  نوچ رہا ہو ۔وحشی  نے اس کے با زو  جھنجھو ڑ ڈالے   تب بھی  دیو انے  کے منہ سے  آوا ز  نہ نکلی  ۔ اُ س نے اس  کے با زو  اس طرح  چبائے  کہ خون   بہنے لگا  ۔لبا دہ  پہلے ہی تا ر تار  ہو رہا تھا   ۔و حشی   ایک ہلکی سی ہنہنا ہٹ  کےسا تھ  پیچھے ہٹا اور اپنی براؤن  رنگ کی  میلی  پتلون  کے جیب  سے کا غذا ت   کا ایک   پلندہ  اور فاؤنٹین  پین نکا لے ۔ پھر اُس نے زخمی دیو انے  کو گود  میں اُٹھا  کر لکھنے  کی میز  پر بٹھا دیا ۔

کا غذات کا پلند  ہ کھول کر  اُس  نے دیو انے  کے سا منے  رکھتے ہو ئے فاؤنٹین  پین اُس کے  ہا تھ میں تھما دیا ۔دیو  انہ  ابھی  کچھ نہ بولا ۔اُس کی خو فزدہ  آنکھیں وحشی   کے چہرے  پر جمی ہو ئی تھیں۔

وحشی   نے ہلکی سے  ہنہنا ہٹ کے ساتھ  کا غذا ت   کی طرف  اشا رہ کیا ۔

اور پھر  دیو انے کے ہا تھ میں  دبا ہوا فا ؤنٹین  پین تیزی سے کا غذا ت   پر  چلنے لگا۔

وحشی  ایک ایک  کا غذ الگ کر تا  جا رہا  تھا۔

تھو ڑی  دیر بعد  اُس نے سارے  کا غذا ت  سمیٹ کر اپنی  جیب  میں ٹھو نسے  اور فرا نسیسی  در یچے  سے با ہر  چھلا نگ  لگا کر  اند ھیرے میں غا ئب  ہو گیا۔

دیو انہ  کر سی  پر بیٹھا  جھو متا  رہا  پھر  دھڑام  سے نیچے   چلا آیا۔

وہ بے ہو ش  ہو چکا تھا ۔

اُس  کے گرتے  ہی  کمرے   کا دروازہ کھلا  اور فلیڈ اندر دا خل  ہوا۔ اس کے پیچھے  ایک آدمی اور تھا ۔

’’ڈا کٹر ... اسٹڈی  میں بیٹھا  ہے !‘‘ فلیڈ   نے مڑ کر  دو سرے آدمی  سے کہا  ۔’’ اُسے  بلا لاؤ!‘‘

دوسرا  آدمی   چلا گیا ۔فلیڈ نے  دیوا نے کو فرش  سے اُٹھا  کر صو فے  پر ڈال  دیا ۔

تھو ڑی   دیر بعد  ڈاکٹر  ہا تھ  میں بیگ  لٹکا ئے  ہو ئے کمرے میں دا خل ہوا۔

’’اوہ ڈا کٹر ...دیکھئے ...دیکھئے !‘‘فلیڈ غمناک  لہجے میں بو لا ۔’’چچا آرتھر  کو آج پھر  مو قع  مل گیا  اور انہو ں نے اپنی گت بنا ڈالی !‘‘

ڈا کٹر نے بیگ  کو میز پر رکھتے  ہو ئے ایک طو یل سانس لی  اور  بولا ۔’’ دیکھئے  !میں عر صے  سے کہہ رہا ہو  ں کہ یا  تو انہیں پا گل  خا نے   میں دا خل  کرا د یجئے یا پھر  انہیں کسی  وقت تنہا نہ  چھو ڑا جا ئے!‘‘

’’بس کیا بتاؤں !‘‘ فلیڈ ہا تھ  ملتا ہو ا بولا ۔’’ کبھی کبھی  غفلت  ہو ہی  جا تی  ہے !‘‘

’’د یکھئے !‘‘ ڈا کٹر  نے کہا جو دیو انے  کے زخمی  بازوؤں پر سے  لبا دے  کی دھجیا  ں ہٹا  چکا تھا ۔’’ یہ زخم کبھی کبھی  زہر باد میں  بھی  تبدیل  ہو سکتے ہیں۔یا تو انہیں  آپ ہر وقت  نگرانی میں رکھئے یا پھر کو ئی   اور معا لج  دھو نڈھ لیجئے ۔مجھےان پر ترس  آتا ہے !‘‘

" اب کیا بتاؤں .. سب کچھ کمبخت نوکروں کی غفلت سے ہوتا ہے !‘‘

’’تو پھر انہیں پاگل خانے ہی میں داخل کرادیجئے !‘‘

’’نہیں یہ مجھ سے نہ ہوگا۔ پاگل خانہ... میرے خدا !‘‘فیلڈ نے کسی خوفزدہ بچے کی طرح کہا۔

’’تو پھر ان کی حفاظت کیجئے !‘‘ ڈاکٹر نے بیگ سے سیر ینج نکال کر اُس میں سوئی فٹ کرتے ہوئے کہا  ۔

 اتنے میں جولی کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس نے دیوانے کی طرف دیکھا اور اُس کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی ۔

’’چچا آرتھر!"

 اور پھر وہ دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر سسکیاں لینے لگی ۔ فیلڈ جلدی سے اُس کی طرف بڑھا اور اُس کی  پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

 ڈاکٹر انجکشن دے چکنے  کے بعد بولا ۔’’ مسٹر فیلڈ ! ایسے دیوانے جو دوسروں کے لئے ہے ضرر  اور اپنی ہی بوٹیاں نوچنے والے ہوں، کسی وقت بھی مر سکتے ہیں!"

جولی نے با قاعدہ رونا شروع کر دیا۔

ارجن گھاٹی پر گہری تاریکی مسلط تھی ۔ آسمان میں سیاہ بادل رینگ رہے تھے۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہو جائے گی۔

گھاٹی سنسان نہیں تھی ۔ وہاں کئی دن سے ملٹری کا ایک دستہ متعین تھا اور اس وقت فوجیوں کے خیموں میں کہیں کہیں روشنی دکھائی دے رہی تھی ۔

 لیکن یہ سب کچھ نیچے گھاٹی ہی میں تھا اور اوپری چٹانیں بدستور ویران پڑی تھیں ۔ اچانک ایک تاریک سائے نے نیچے گھاٹی میں جھانکا اور آہستہ سے دوسری طرف رینگ گیا۔

یہ فریدی تھا اور اُسے اس راستے کی تلاش تھی جس کے ذریعے وہ وحشی آدمی تعاقب کرنے والوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا۔

کئی راتوں سے وہ اُن چٹانوں میں بھٹک رہا تھا لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی تھی ۔ ایک بار اُس نے کچھ مبہم سے نشانات کے ذریعے بھی آگے بڑھنا چاہا تھا لیکن جہاں چٹانوں پر گرد کی تمہیں تھیں، وہاں سے پھر راستہ مسدود ہو گیا تھا۔

اس دوران میں اُس نے میجر نصرت سے بھی رابطہ قائم کر لیا تھا لیکن اس بات کی سختی سے تاکید کر دی تھی کہیں اُس کا نام نہ آنے پائے۔

اگر معا ملہ   جیر الڈ  شا ستری کا نہ ہو تا تو  وہ شا ید  میجر  نصرت  سے را بطہ  قائم کرنے کی ضرورت   ہی نہ محسوس  کرتا۔

حمید وا لے واقعے کے بعد سے اُسے  یقین  ہو گیا تھا  کہ اس ہنگا مے  کے پس   منظر  میں جیر الڈ  ہی کی شخصیت  ہے  اور یہ حقیقت  ہے کہ   جیر الڈ  کے انجام  کے متعلق  اُس کی رائے  شروع  ہی سے   دوسروں  سے مختلف  تھی۔ وہ اس بات  پر   کسی طرح یقین ہی نہیں کر سکتا تھا کہ جیرالڈ جیسی شخصیت خود کشی کی مرتکب ہوگی۔

اس کی دانست میں صمدانی کاقتل تو محض ایک ضمنی قسم کا جرم تھا جو حصول دولت کے لئے کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جیر الڈ  کے پاس اُس کی ذاتی دولت تو تھی نہیں جس کے بل بوتے پر وہ  ساری دنیا پر حکومت کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اُس کے آدمیوں کو معمولی چوروں اور ڈاکوؤں کی سی حرکتیں کرنی پڑتی ہوں گی۔ فریدی کے ذہن میں کئی بڑی بڑی ڈکیتیوں کے کیس بھی تھے جن کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔ یہ ساری ڈکیتیاں بڑے بڑے بینکوں میں ہوئی تھیں اور اتنے پُر اسرار طریقے پر ملک کے مختلف حصوں میں عمل میں لائی گئی تھیں کہ ابھی تک سراغرساں واردات کرنے والوں کی گرد کوبھی نہیں پہنچ سکے تھے لیکن طریقہ کاری یکسانیت کی بناپر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ کسی ایک ہی گروہ کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں ۔

جیرالڈ شاستری کی پہلی زمیں دوزد نیا کی تباہی کے بعد سے اب تک کئی بار فریدی پر حملے بھی ہو چکے تھے اور وہ ہر بار صاف بچ گیا تھا لیکن موجودہ واقعات کے رونما ہونے سے قبل اُس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ جیر الڈہی  کی طرف سے ہوئے ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنے پیشہ کی بنا پر شہر کے سارے ہی جرائم پیشہ آدمیوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ... اس لئے اس کا دھیان کسی ایک طرف نہیں جاسکا تھا۔

اور اب جیرالڈ ہی اس کا شکار تھا۔ اس نے اپنے شب و روز اُس کے لئے وقف کر دئیے تھے لیکن ابھی تک اس سے سامنا نہیں ہوا تھا۔ وہ کئی بار اُس مکان کی بھی نگرانی کر چکا تھا جس میں حمید نے اپنے چند گھنٹے ایک قیدی کی حیثیت سے گزارے تھے اور وہ کئی بار اُس دیوانے آدمی کو بھی دیکھ چکا تھا جس کا تذکرہ حمید نے کیا تھا لیکن وہ ابھی تک اس کا معمہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس کی غرض و غایت کیا تھی، یہ اب تک اس کی سمجھ میں نہیں آسکا تھا۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے بھی جیرالڈ شاستری کو سنسکرت کے ایک بہت بڑے عالم کی شکل میں دیکھ چکا تھا مگر یہ حیثیت ! وہ اس دیوانے کو جیرالڈ سمجھ لینے پر قطعی تیار نہیں تھا اور اگر وہ جیرالڈہی تھا تو اس بھیس کا مقصد  سچ مچ کی دیوانگی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا لیکن اُسے جیرالڈ جیسے آدمی سے اس کی توقع نہیں تھی.. اور پھر اُس کی آنکھیں اُس دیوانے کی آنکھوں سے بالکل مختلف تھیں ۔

فریدی چٹانوں میں رینگتا رہا۔ اُس کی نظریں بار بار آسمان کی طرف بھی اُٹھ جاتی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کہ شاید بارش کی وجہ سے اُسے یہ رات بے کاری ہی میں گزارنی پڑے گی۔

 وہ واپسی کا ارادہ کر کے پلٹا ہی تھا کہ اُس کا ہاتھ کسی چھوٹی سی گول چیز پر پڑا اور وہ پھسلتی ہوئی سی معلوم ہوئی۔

اُس نے اُسے گرفت میں لے لیا۔ جیب سے ننھی ٹارچ  نکالی جس کی لمبائی  بیچ  کی انگلی سے زیادہ نہیں تھی۔ دوسرے لمحے میں روشنی کی بار یک سی لکیر اُس گول شئے پر پڑی۔ یہ ایک خوبصورت سی  کلائی کی گھڑی تھی جس کی ٹوٹی ہوئی چین اس کے دونوں گوشے سے جھول رہی تھی ۔ فریدی اُسے اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگا اور پھر وہ بے اختیار چونک پڑا۔ گھڑی کی پشت پر قاسم کا پورا نام کندہ تھا۔ فریدی نے اُسے پہچان لیا۔ وہ حقیقتاً قاسم ہی کی گھڑی تھی۔ اُس کے ڈائل پر   ہندسوں کی جگہ ہیرے، یا قوت اور نیلم کے نگینے فٹ تھے۔ پھر اُسے قریب ہی ریشمی کپڑے کی ایک بڑی سی دھجی بھی ملی  جس پر پھول بنے ہوئے تھے ۔ وہ تھوڑی دیر تک قرب و جوار کی چٹانوں کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر اس نے اُس جگہ جہاں گھڑی ملی تھی ایک نشان بنایا اور واپسی کے لئے رینگنے لگا۔

 

11

 

قاسم کسی تھکے  ہوئے بھنیسے  کی طرح ہانپ رہا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اُس کے کام کی رفتار سے سستی نہیں ظاہر ہوتی تھی ۔ صبح سے اب تک اُس نے بہت بڑے بڑے پتھر ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ پہنچائے تھے ۔ حالات کچھ ایسے ہی تھے ... اسے یہ مفت کی محنت گراں بھی نہیں گزر رہی تھی۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ پاس ہی چند  خو بصورت لڑکیاں کھڑی اس کا دل بڑھا رہی تھیں۔ شاید جیرالڈ اُس کی اس کمزوری سے واقف ہو گیا تھا کہ اسے بے وقوف ہی بنا کر کام نکالا جا سکتا ہے۔

 دوسرے لوگ بھی کام میں مصروف تھے اور وہ انسان نما گھوڑا اُن کی نگرانی کر رہا تھا۔ آج بھی اُس نے دو تین آدمیوں کی لاتوں سے مرمت کی تھی مگر قاسم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ وہ تگڑی تگڑی لڑکیوں کے خیال میں مگن تھا اور جیرالڈ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اچانک اس نے گھوڑے کو مخاطب کر کے کہا۔ ”ابے اُو... وہ میری گھڑی کہاں ہے؟“

 " کیسا گھری؟"

" کیا !" قاسم جھلا کر بولا ۔ " تو نے کل شام کو مجھ سے لی نہیں تھی !"

’’ ہم نہیں جانتا گھر وری .. .سالاٹم اپنا کام کرو!“

 ’’ابے تم خود سالا !" قاسم غصیلی آواز میں بولا۔ ” میرے سالے کا سالا ۔ تمیز سے بات کیا کر!‘‘

اس کے جواب میں وہ قاسم کو چونچ دکھا کر ہنسنے  لگا۔

قاسم کا پارہ چڑھ گیا اور وہ ایک لڑکی سے بولا ۔

’’ دیکھا! اسے شرم نہیں آتی ۔ گھوڑا ہو کر چونچ دکھاتا ہے!‘‘ لڑکیاں ہنسنے  لگیں ۔

’’تمہیں میری گھڑی واپس کرنی ہوگی !‘‘ وہ اُسے گھونسہ دکھا کر بولا ۔

’’ ارے تم اپنا کام کرو! ‘‘ایک لڑکی نے کہا۔ ” اس جنگلی سے مت الجھو!“

’’ تو گھڑی اُسے ہضم کر جانے دوں !" قاسم نے جھلا کر کہا۔ " جانتی ہو کتنی قیمتی گھڑی تھی ۔ آل پلا ٹینم اور ڈائل پر ہندسوں کی جگہ جوا ہرات تھے!‘‘

’’اوہ...مگر تم نے اُسے دی ہی کیوں تھی ؟ ‘‘لڑکی بولی ۔

’’ اس نے کہا میں ابھی واپس کردوں گا !‘‘

’’تب تو مل چکی!‘‘ لڑکی ہنس پڑی۔ ’’وہ کہیں پھینک آیا ہو گا !‘‘

’’میں اس کے باپ سے وصول کرلوں گا!" قاسم گردن جھٹک کر بولا ۔ پھر وحشی سے کہا۔ " لا بے دیتا ہے یا میں شاستری صاحب سے کہوں ! ‘‘

وحشی  گھٹنوں کے بل دوڑتا ہوا اُس کے پاس آیا اور خوشامدانہ انداز میں اس کے پیر دبانے لگا۔

’’نائیں! سا  لاٹم اس سے نائیں بولے گا ! ‘‘اُس نے کہا ۔

’’ ہائیں پھر وہی سالا ! بے شامت آئی ہے کیا ؟‘‘

’’ سانوٹے! بھا گو یہاں سے !‘ ‘ایک لڑکی نے اُسے للکارا۔

 اور وہ چپ چاپ واپس چلا گیا۔

گھڑی بہت قیمتی تھی ۔ قاسم سوچ رہا تھا کہ وہ آج رات کو وحشی کے غار کی تلاشی ضرور لے گا۔

 وہ  شاستری سے بھی شکایت کر سکتا تھا مگر سوال تھا ملاقات کا ۔ وہ اس سے صرف ایک ہی بار ملا تھا اور یہاں کوئی اس کے متعلق کچھ نہیں بتاتا تھا۔ وہ لوگ شاستری سے متعلق کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیتے تھے۔

حمید کو قاسم کی گمشدگی پر بڑی حیرت تھی۔ اُس نے اسے اینگلو انڈین لڑکی کا تعاقب کرتے نہیں دیکھا تھا۔ اُسے حیرت تھی کہ آخر قاسم سامان چھوڑ کر کیوں غائب ہو گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں انور نے اسے ٹھکانے تو نہیں    لگا دیا مگر یہ خیال بھی احمقانہ تھا۔ انور اس کی جرأت کر ہی نہیں سکتا تھا اور پھر وہ رشیدہ کے معاملے میں کبھی اتنا زیادہ سنجیدہ نہیں رہا تھا کہ اُس کے کسی عاشق کو اپنا رقیب سمجھ بیٹھتا۔

 فریدی نے اب تک اُس سے رابطہ نہیں قائم کیا تھا۔ اُس نے اُسے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہنے کا مشورہ ے کر اُس کے حق میں اچھا نہیں کیا تھا۔ کئی بار اس کا دل چاہا کہ مورگن کا تعاقب کرے جو اَب بھی شیزاں ہی میں مقیم تھا۔ مورگن عمو ما ًرات کو باہر ہی رہتا تھا اور اب وہ تاریک شیشوں کی عینک بھی استعمال کرنے لگا تھا۔ اس نئے اضافے کی بنا پر حمید، فریدی سے رابطہ قائم کرنے کے لئے بے چین تھا۔

اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر فریدی کی اسکیم کیا ہے۔ وہ کیا کرنا چاہتا ہے؟ طریقہ کار کیا ہے؟

حمید کی دانست میں تو یہی مناسب تھا کہ وہ فیلڈ کو پکڑ کر اُس سے جیر الڈکا پتہ پوچھتا۔ فیلڈ کو اپنا قیدی بنا تا۔

پولیس کو ہوا ہی نہ لگنے دیتا۔ اس سے پہلے بھی تو وہ کئی بار یہ طریقہ اختیار کر چکا تھا۔

 ادھر اس دوران میں ایک دوسری بات کا انکشاف ہوا تھا جو شیزاں ہوٹل میں مسٹر براؤن کے نام آنے والے تاروں کے متعلق تھی۔ میجر نصرت نے اپنی تحقیقات برابر جاری رکھی تھی اور اس کی ایک رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ شیزاں ہوٹل  کے منیجر کے بیان کے مطابق مسٹر براؤن کے نام کے تار برابر آتے رہے تھے لیکن وہ انہیں واپس کر دیتا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب وہاں کوئی مسٹر براؤن تھاہی نہیں تو انہیں وصول کون کرتا ۔ میجر نصرت نے تارگھر سے رجوع کیا اور واپس کئے ہوئے تاروں کے فارم نکلوانے چاہے لیکن وہاں سے جو جواب ملا وہ حیرت انگیز تھا۔ پوسٹ ماسٹر نے بتایا کہ مسٹر براؤن کا کوئی تارکبھی واپس ہی نہیں آیا ۔ سب وصول کئے گئے ہیں ۔ اس بار تار بانٹنے والوں کی پیئون بکیں نکلوائی گئیں۔ ان پر براؤن کے دستخط موجود تھے لیکن ایک کا بھی طرز تحریر دوسرے سے نہیں ملتا  تھا۔ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ مختلف آدمیوں نے مختلف اوقات میں براؤن کے دستخط کئے ہیں اور دو ایک دستخط تو ایسے تھے جیسے کسی ایسے آدمی نے انگریزی کے حروف کی نقل کر دی ہو جو انگریزی سے قطعی نابلد ہو. ..یہ چیز حیرت انگیز تھی اس کے لئے تار بانٹنے والوں سے باز پُرس کی گئی اور اُن سب نے یہی بتایا کہ وہ تارشیزاں ہوٹل ہی میں وصول کئے گئے تھے۔ میجر نصرت کی الجھن کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ ہوٹل کا منیجر کا یہ بیان کہ تار واپس کئے گئے اور محکمہ تار اس بات پر مُصر کہ تار واپس ہی نہیں آئے اور انہیں شیزاں ہی میں وصول کیا گیا لیکن اس کا کسی کے پاس بھی جواب نہیں تھا کہ دستخطوں میں اختلاف کیوں ہے۔

 بہر حال اخبار میں یہ سب کچھ دیکھ کرحمید بھی الجھن میں پڑ گیا تھا اور اس بات سے بھی وہ واقف تھا کہ شیزاں کے منیجر نے اپنی گردن بچائی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے تو سارے تار واپس کرا دیئے  تھے۔ اب اگر اس کے با وجود بھی تا ر بانٹنے والے کسی غلط آدمی کو تار دے ہی جائیں تو اس میں اس کا کیا قصور؟ بات تھی بھی قاعدے کی خواہ سچ رہی ہو خواہ جھوٹ ۔

 حمید بڑی دیر سے ڈائٹنگ بال میں بیٹھا انور اور رشیدہ کوکسی بحث میں مشغول دیکھ رہا تھا اور اُسے اس بات پر صحیح معنوں میں خوشی تھی کہ جتنا وہ جانتا ہے اس کا عشر عشیر بھی انور کو نہیں معلوم ۔

 رات کے آٹھ بج چکے تھے اور حمید کھانے سے فارغ ہو کر اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک ویٹر نے اُسے فون کال کی اطلاع دی۔ حمید کی موجودہ حیثیت میں یہ پہلی فون کال تھی اور اُس کی اس حیثیت کا علم فریدی کے علاوہ اور کسی کو نہیں تھا اس لئے یہی نتیجہ نکالا جاسکتا تھا کہ وہ کال فریدی ہی کی تھی۔

وہ حقیقتا ًفریدی ہی کی فون کال تھی اور فریدی نے اُسے دس بجے رات کو رانی باغ کی اُترائی کے قریب بلا یا تھا ۔

حمید کو یاد آیا کہ فریدی کا اقامتی غاررانی باغ کی اترائی سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ حمید نو بجے روانہ ہو کر ٹھیک دس بجے رانی باغ کی اترائی کے قریب پہنچ گیا۔

آج بھی مطلع ابر آلود ہو نے کی وجہ سے گہری تاریکی تھی۔ حمید کو انتظا ر  نہیں کر نا پڑا۔فریدی اُسے اپنے ا قا متی غا رمیں  لے گیا ۔حمید کو اس بات پر  حیرت تھی کہ فریدی اس بے سرو سا مانی کے عالم  میں بھی  کسی دن   شیو  کر نا بھول  بھو لتا  اور اُس کے کپڑے گندے نہیں تھے۔

فر یدی نے حمید کو وہ گھڑی دکھائی جو اُسے پچھلی رات  ارجن گھا ٹی کی ایک چٹان پر پڑی ملی تھی۔

’’اوہ...یہ تو سو فیصدی قا سم ہی کی ہے !‘‘ حمید بولا ۔’’ تو اس کا یہ مطلب  کہ قا سم  جیر الڈ کے پھندے پھنس گیا ہے!"

 فریدی کچھ نہ بولا۔ حمید نے پھر کہا۔ " سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر جیرالڈ کو قاسم سے اتنی دلچسپی کیوں ؟ پھلی بار بھی اُس نے اُسے اغوا کیا تھا !‘‘

’’قاسم کام کا آدمی ہے۔ خصوصاً ایسے موقع پر!‘‘ فریدی چند لمحے رُک کر بولا ۔ جیرالڈ اپنے لئے نئی زمیں دوز دنیا تعمیر کر رہا ہے۔ کیا قاسم ایک اچھا مزدور نہ ثابت ہوگا۔ وہ غیر معمولی طور پر طاقتور ہے! "

’’ تو اب قاسم کے غائب ہونے کا بھی مسئلہ صاف ہو گیا ! ‘‘حمید نے کا ہ۔

’’ قطعی... لیکن یہ!‘‘ فریدی رنگین کپڑے کی دھجی حمید کے سامنے رکھتا ہوا بولا ۔ " یہ بھی اس گھڑی کے قریب ہی ملی تھی !‘‘

’’اس کا کیا مطلب؟" حمید چونک پڑا۔ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔ ’’ظاہر ہے کہ اس کپڑے کا لباس کسی عورت ہی کا ہو سکتا ہے !‘‘

’’نہیں، اس کپڑے کے پردے بھی بنائے جاسکتے ہیں !‘‘ فریدی نے کہا۔

" تو پھر اب کیا پروگرام ہے؟"

’’ میں کل رات اُس چٹان پر نشان بنا آیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ راستہ و ہیں کہیں قریب ہی ہو ۔ کل رات بارش کی وجہ سے مجھے وہاں سے چلا آنا پڑا تھا۔ آج ہم اُسے دیکھیں گے!“

’’آپ کے لئے ایک دوسری اطلاع بھی ہے !‘‘ حمید نے کہا اور براؤن کے تار کا واقعہ دہرادیا۔

’’ میرے لئے یہ اطلاع بہت پرانی ہو چکی ہے ! ‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔ " فرزند! یہ بات اسی وقت کی ہے جب میں یہاں آیا تھا۔ میں نے اُس تار کے متعلق چھان بین کی تھی اور مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ شیزاں میں براؤن کے نام پہلا تار نہیں تھا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اُن تاروں کا کیا حشر ہوا تھا۔ غا لباً یہ بات اخبار میں نہیں آئی ... کیوں؟"

’’تار بانٹنے والوں کا بیان ہے کہ وہ وصول کئے گئے حالانکہ وصول کرنے والے کے دستخط مختلف کا پیوں پر  مختلف ہیں لیکن انہیں وصول ضرور کیا گیا ہے۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ سارے ہی تار بانٹنے والے براؤن کے آدمی ہو سکتے ہیں !‘‘

’’ان میں سے ایک بھی براؤن کا آدمی نہیں !‘ فریدی نے کہا۔

’’پھر آخر تاروں کا کیا حشر ہوا ؟‘‘ حمید جھنجھلا کر بولا۔

’’ بتا  تا ہوں ! ‘‘فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ " فرض کرو کہ تم ایک تار بانٹنے والے ہو۔ تمہارے پاس کئی تار ہیں ۔ ان میں سے ایک ایسا بھی ہے جسے کسی نے لیا نہیں ۔ بہر حال تم اُسے واپس لے جارہے ہو۔ تمہیں اُس تار کو دفتر میں واپس کرنا ہے۔ جب تم دفتر پہنچے اور تم نے اپنے کاغذات جمع کرنے کے لئے نکالے تو وہ تار غائب تھا جسے تمہیں واپس کرنا تھا۔ اب بتاؤ تم ایسی صورت میں کیا کرو گے۔ اپنی جان بچانے کے لئے یہی کرو گے تا کہ وصولیابی کے خانے میں اُس آدمی کے دستخط کر دو جسے وہ تار پہنچنا چاہئے تھا۔ اب اگر پو  چھ گچھ ہوتو تم یہ کہہ کر کسی حد تک پیچھا چھڑا سکتے ہو کہ وصول کنندہ کی پیشانی پر اس کا نام تو تحریر تھا نہیں۔ اُس نے کہا وہ برائن ہے اور تم نے اُسے تار دے دیا!‘‘

’’ تو کیا وہ سارے دستخط تا ر بانٹنے والوں کے ہیں؟ ‘‘حمید نے حیرت سے کہا۔

’’سو فیصدی یہی بات ہے۔ میں نے اُن سب سے اقبال کرالیا تھا لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ اُن غریبوں کی مٹّی پلید ہو ۔ آخر اُن کا کیا قصور۔ لیکن تاروں کو ان کی جیبوں سے غائب کرنے والا کوئی ایسا ہی آدمی ہوسکتا ہے جو شیزاں میں ہر وقت موجو د رہتا ہو!"

’’کمال ہے!‘‘ حمید بڑ بڑایا۔’’ لیکن تار بانٹنے والوں نے یہ بات میجر نصرت کو نہیں بتائی !"

’’میں نے انہیں منع کر دیا تھا۔ سمجھا دیا تھا کہ وہ اپنے اسی بیان پر اڑے رہیں کہ انہوں نے تارتقسیم کئے تھے !"

’’آخر اس میں کیا مصلحت تھی ؟“

’’محض ان غریبوں کی ملازمت بچانے کے لئے ۔ وہ یہ بات مجھے بھی نہ بتاتے لیکن طریقہ کار نے اگلواہی لیا !‘‘

’’آخر وہ کون آدمی ہو سکتا ہے جس نے تار اُڑائے!‘‘ حمید خود سے بولا ۔ ’’کیا مورگن ؟‘ پھر اُس نے چونک کر کہا۔ ” خوب یاد آیا ۔ مورگن اب تاریک شیشوں کی عینک بھی لگانے لگا ہے ! ‘‘

’’خوب! " فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ’’اچھا اب ہمیں دیر نہ کرنی چاہئے ۔ ہمیں بالکل سیاہ لباس میں چلنا ہوگا ...تمہارے کپڑے، وہ اُدھر رکھے ہوئے ہیں!"

وہ جلد ہی تیار ہو گئے ۔

’’بادل تو آج بھی ہیں !‘‘ فریدی بولا ۔’’ لیکن بارش کے امکانات نہیں !‘‘

’’ اگر ہوں بھی تو آپ کا کیا بگڑتا ہے! ‘‘حمید بڑبڑایا۔

’’نہیں !بارش کی صورت میں وہ جگہ مخدوش ہو جاتی ہوگی!‘

پھر وہ دونوں خا مو شی سے را ستہ طے  کر نے لگے۔ حمید قدم قد م پر لڑ کھڑا رہا تھا ۔اونچے اونچے  پتھر ...گڑھے ...دراڑیں اور کانٹے دار جھاڑیاں۔

’’ اُس پاگل شہنشاہ کے متعلق بھی کچھ معلوم کیا آپ نے ؟'' حمید نے پوچھا۔

’’ کل رات کی اطلاع ہے کہ اُس نے خود کو لہو لہان کر لیا تھا۔ اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے تھے !"

’’سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ  آخر ہے کیا بلا !‘‘

’’اتنا میں جانتا ہوں کہ وہ محض مذاق نہیں ہے ۔ اس کے پس منظر میں کوئی اہم بات ہے!"

’’اگر آپ چاہتے تو فیلڈ کو پکڑ کر اپنے طور پر بہت کچھ اُگلواسکتے تھے!‘‘ حمید نے کہا۔

’’ناممکن ! ...کیا تمہیں عرفانی صاحب والی ڈائری کی تحریر یاد نہیں ۔ جیرالڈ کے گروہ والے اپنا راز بتانے پر مر جانے کو ترجیح دیتے ہیں !‘‘

کچھ دیر خاموش رہی پھر حمید نے پوچھا۔

’’کیا آپ انور کو شریک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ؟‘‘

’’نہیں ! میں اُسے ایک ہلکا سا سبق دینا چاہتا ہوں ۔ وہ اپنی کارگزاریوں پر مغرور ہو گیا ہے؟"

’’مغرور تو آپ بھی ہیں !‘ ‘حمید نے کہا۔

’’ لیکن مجھے اپنے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں ۔ جہاں میں بے بس ہوتا ہوں وہاں بے بسی کا اعتراف بھی کر لیتا ہوں ! "

وہ ارجن گھا ٹی   کے قریب پہنچ گئے۔ اب فریدی، حمید کو جس راستے پر لے جارہا تھا وہ حد درجہ دشوار گزار تھا اور ذرا ہی دیر میں حمید کی سانس پھولنے لگی تھی۔ یہاں وہ کھڑے ہو کر چلنے کے بجائے سینے کے بل رینگ رہے تھے۔

’’ غا لبا ً یہی وہ جگہ تھی !‘‘ فریدی نے چھوٹی سی ٹارچ نکال کر اُسے روشن کرتے ہوئے کہا۔’’ یہ رہا... دیکھو یہ نشان !‘‘ اس نے پھر ٹارچ بجھا دی۔ وہ ٹھہر گیا تھا۔ حمید نے سوچا چلو غنیمت ہے۔ اس طرح سانس بھی اعتدال پر آجائے گی لیکن اس کا خیال غلط نکلا ۔ فریدی پھر رینگنے لگا تھا۔ طوعاً و کرہا ًوہ بھی بڑھا۔ فریدی نے اُس اُبھری ہوئی چٹان کے گرد ایک چکر لگایا۔ باریک سی شعاع والی ٹارچ روشن تھی اور وہ اُس کی روشنی چٹان کی جڑ میں ڈال رہا تھا۔ دفعتہً حمید  کو ایک جگہ دراڑسی نظر آئی۔ اتنی لمبی اور چوڑی کہ ایک آدمی لیٹ کر بہ آسانی اُس میں سما سکتا تھا۔ فریدی نے دراڑ میں ٹا رچ  ڈال کر دیکھا اور پھر دوسرے ہی لمحے میں اپنا سر پیچھے کھینچ لیا۔

’’اندر سے کافی کشادہ غار ہے ! ‘‘اس نے سرگوشی کی۔

 وہ گھاٹی کی سطح سے صرف دس یا بارہ فیٹ کی اونچائی پر تھے اور اُن سے فوج کا پڑاؤ بھی کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔

 

12

 

قاسم دن بھر کی محنت کے بعد کافی دل برداشتہ ہو رہا تھا اور یہ بات کچھ کچھ اس کی سمجھ میں بھی آنے لگی تھی کہ اُسے بے وقوف بنایا جارہا ہے اور آج تو اُس سے بالکل ہی معمولی قیدیوں کا سا برتاؤ کیا گیا تھا۔ گھڑی کے معالےمیں وہ سانوٹے سے اُلجھ پڑا تھا اور نوبت پھر کُشتی ہی کی آگئی تھی کہ تین چار انگریز اس پر ٹوٹ پڑے۔ کسی طرح وہ  ایک پتھر سے اٹک کر گر گیا اور انہوں نے اس کی خاصی مرمت کر دی۔ اس کے بعد اُن میں سے ایک نے ریوالو نکال لیا اور قاسم کو انتہائی غصے کے باوجود بھی کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

رہ گیا جیرالڈ کا معلمہ تو پہلی ملاقات کے بعد سے پھر اک بار بھی نظرنہیں آیا تھا۔اگر کبھی قاسم سہواً بھی اُس کا نام لے لیتا تھا تو چاروں طرف سے اس پر یورش ہو جاتی تھی ۔ ساتھ والی لڑکیاں تک اسے ڈانٹنے لگتی تھیں ۔

قاسم پیال کے بستر پر پڑا غصے میں بَل کھا تا رہا۔ اسے پھر اپنی گھڑی کی یا دستانے لگی ۔ اس نے سوچا کہ اس وقت سانوٹے اپنے غار میں تنہا ہی ہوگا۔ تین چار گھنٹوں کے لئے کام رُک گیا تھا اور اُس زمیں دوز دنیا کی فضا پر خاموشی مسلط تھی۔ بجلی پیدا کرنے والے جرنیٹر کو وہاں کے لوگوں نے ایک ایسے غار میں فٹ کیا تھا جہاں سے اس کو شور پھیلنے نہیں پاتا تھا۔ یا پھر وہ جرنیٹر ہی کسی خاص قسم کا رہا ہو ... بے آواز ...!

قاسم اُٹھ بیٹھا۔ غصے سے اس کی حالت ابتر ہورہی تھی۔ وہ اپنے غار سے نکل کر اُس زیر تعمیر غار میں آیا جہاں دن بھر کام کرتا رہا تھا۔ یہاں ایک بھی متنفس نظر نہیں آرہا تھا اور صرف ایک بلب روشن تھا وہ بھی زیادہ سے زیادہ ساٹھ پاور کا رہا ہو گا ۔ اتنے بڑے غار کے لئے اس کی روشنی نا کافی تھی۔

قاسم کو سانوٹے کا ٹھکانا معلوم تھا۔

وہ سانوٹے کے غار میں داخل ہوا لیکن سانوٹے موجود نہیں تھا۔ کچھ دیر قبل شاید وہ یہیں رہا ہوگا کیونکہ کھانے کے برتن جھوٹے پڑے ہوئے تھے ۔ قاسم نے سوچا موقع اچھا ہے۔ کیو نہ اس کے سامان کی تلاشی لی جائے ۔ شاید اس نے گھڑی یہیں کہیں چھپا رکھی ہو۔

قاسم کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سانو ٹے تھا تو وحشی لیکن اس کے استعمال کی ساری چیزیں اعلیٰ قسم کی اور پر تکلف تھیں ۔ وہ نہایت نفیس قسم کا تمبا کو پیتا تھا۔ اس کا بستر بھی پُر تکلف تھا۔ سامان میں قاسم کو سینٹ کی شیشیاں بھی ملیں ۔ ایک البم دکھائی دیا جس میں زیادہ ترننگی تصویر یں تھیں ۔ کچھ خطوط بھی ملے جو لڑکیوں کی طرف سے لکھے گئے تھے اور یوروپ کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔

 اُسے سب کچھ ملا لیکن وہ گھڑی نہ ملی جس کی اُسے تلاش تھی۔ وہ ساری چیزیں جوں کی توں رکھ کر مڑا ہی تھا کہ اُسے غار میں ایک دوسرے غار کا دہانہ نظر آیا۔ قاسم نے وہاں جھانک کر دیکھا لیکن تاریکی کی وجہ سے کچھ سجھائی نہیں د  یا۔ اُس نے پلٹ کر سا نوٹے کی ٹارچوں میں سے ایک اُٹھائی اور غار میں اُتر گیا۔ سب سے پہلے اس کی نظر مشین گن پرپڑی  جس میں میگزین  چڑھا ہو ا تھا  اور ایسا معلو م ہو رہا تھا جیسے  اُسے  کسی کے لئے پہلے ہی   سے  تیار  کیا گیا ہو ۔

  قاسم  اُسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہ بات اُس کی سمجھ میں آگئی کہ وہ غار نہیں بلکہ کی ایک سرنگ ہے اور اس کی دیواروں کو با قاعدگی کے ساتھ تراشا گیا ہے۔ سرنگ کافی کشادہ اور اونچی تھی۔ آتنی اونچی کے قا سم انتہائی طویل قامت ہونے کے باوجود بھی اپنا ہاتھ اٹھا کر اُس کے اوپری حصے کو نہیں چھوسکتا تھا۔

وہ  سوچنے لگا کہ کہیں یہ باہر نکلنے کا راستہ تو نہیں ہے۔ وہ چلتے چلتے رُک گیا اور پھر آگے بڑھنے کا ارادہ کر ہی  رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اس پر حملہ کر دیا ۔ قاسم پلٹ کر اُس سے لپٹ پڑا۔ تاریخ اُس کے ہاتھ سے گر کر بجھ چکی تھی تین دوسرے ہی لمحے میں اس نے محسوس کر لیا کہ حملہ آور کون ہے۔ اس کا ہاتھ حملہ آور کی پیٹھ پر پڑ گیا جس پر لمبے لمبےبا لو ں کی ایک پتلی سی لکیر  تھی اور اس کا جسم لوہے کی طرح سخت تھا۔

فریدی نے پھر دراڑ میں ہاتھ ڈال کر ٹارچ روشن کی۔ حمید بھی رینگتا ہوا اُس کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اس نے کی دراڑ میں جھا نکا ۔ وہ واقعی ایک بڑا سا غار تھا۔

’’کیا خیال ہے ؟ حمید نے سرگوشی کی۔

’’ ہو تو سکتا ہے!" فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ " بڑی مناسب جگہ ہے۔ سامنے والی بڑی چٹان اس در اڑ اور گھا ٹی کے درمیان دیوار کی طرح حائل ہے۔ اگر ہم یہاں کھڑے بھی ہو جا ئیں تو اس طرف کے فوجی ہمیں نہیں دیکھ سکتے ...اور پھر یہ دیکھو!‘‘

 فریدی ایک قریبی گڑھے میں رینگ گیا، جس میں کانٹے دار جھاڑیوں کی بہت سی کٹی ہوئی شاخیں پڑی تھیں۔

’’آخر یہاں اِن کٹی ہوئی جھاڑیوں کا کیا کام؟ انہیں یہاں کس نے اور کس مصلحت سے کاٹ کر ڈالا مائی ڈیئر ... سو چو!‘‘

فریدی کی آواز جوش میں کپکپانے لگی ۔

’’کیوں !ان جھاڑیوں میں کون سی خاص بات ہے!‘‘ حمید نے کہا۔

’’اوہ... اگر انہیں اس دراڑ کے دہانے میں پھنسادیا جائے تو کوئی اس در اڑ کی طرف دھیان ہی نہیں دے گا بلکہ  شاید کوئی یہ بھی نہ سکے کہ ان جھاڑیوں کے پیچھے کوئی دراڑ بھی ہوسکتی ہے۔ اب ان جھاڑیوں کی نوعیت پر غور کرو۔ خشک ہو جانے کے بعد بھی ان کی رنگت جوں کی توں برقرار رہتی ہے لہٰذا یہ کاٹی ہوئی بھی نہ معلوم ہوں گی پھر اس کے علاوہ ان کا دوسرا مقصد ہوہی کیا سکتا ہے۔ آخر یہ یہاں کیوں ڈالی گئی ہیں !"

’’ آپ تو ذراذراسی باتوں پر ...!‘‘

’’اس کے بغیر کام نہیں چلتا !‘‘ فریدی بولا۔

اور دوسرے لمحے وہ لیٹ کر اُس غار میں اُتر رہا تھا۔ پھر وہ حمید کی نظروں سے غائب ہو گیا۔ حمید دل ہی دل  میں تاؤ کھا رہا تھا۔ وہ سوچ رہاتھا کہ اگر وہ سچ مچ  جیرالڈ کی پناہ گاہ ہے جب بھی فریدی کو اُس میں تنہا داخل  ہونے کی حماقت نہ کرنی چاہئے تھی۔ وہ اپنی جیب میں ریوالور ٹٹولنے لگا۔ وہ اب بھی غار کے اندھیرے میں آنکھ پھاڑ رہا تھا ۔

پھر اُسے اندر مدھم سی روشنی دکھائی دی جو غا لباً فریدی کی ٹارچ کی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ٹارچ  کا رُخ در اڑ کی  طرف ہو گیا۔ فریدی اُسے ہلا رہا تھا۔ یہ حمید کے لئے اترنے کا اشارہ تھا۔

حمید کو نیچے پہنچنے  میں کوئی دشواری نہیں پیش آئی۔ غار کافی بڑا اور غیر مسلح تھا۔ اس غار میں کچھ چھوٹے چھوٹے غار اور بھی نظر آ رہے تھے اور فریدی اُن کا جائزہ لیتا پھر رہا تھا۔ حمید نے بھی اُسے اچھی طرح دیکھا بھالا ۔ ایک  جگہ انہیں ایک جوتا پڑا ملا جو پرانا نہیں تھا۔ کئی جگہ سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑے اور شراب کی بوتلوں کے کاگ بھی دکھائی دیئے۔

’’دیکھو! یہاں بھی ویسی ہی جھاڑیاں پڑی ہوئی ہیں!" فریدی نے ایک طرف اشارہ کر کے کہا۔’’ اور یہ سکریٹ کے ٹکڑے اور بوتلوں کے کاگ ! ‘‘

’’یہ غار جیرالڈ کی پناہ گاہ نہیں ہوسکتا !"حمید نے کہا۔ " کیا یہ ممکن نہیں کہ یہاں رام گڑھ کے لوگ عیاشیوں کے لئے آتے ہوں!"

’’ وہ عیاشی کس قسم کی ہوسکتی ہے فرزند! ‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ ایک تنہا آدمی کی عیاشی سمجھ میں نہیں آتی !"

’’ تو کیا وہ سب ایک ایک جوتا چھوڑ جانے کی اسکیم بنا کر آئے ہوں گے ! " حمید ہنس پڑا۔

’’تو اس کا مطلب یہ کہ وہ لوگ صرف ایک کے علاوہ پہلے ہی سے بھاگنے کے لئے تیار تھے اور پھر یہاں سے تو بھاگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔ اگر تم با ہر دراڑ کے سامنے جم جاؤ!‘‘

’’اُو بابا! تو پھر کیا ہے! ‘‘حمید اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر بولا۔ " اپنے مقدر میں تو بس ہمیشہ جوتے ہی آتے ہیں !‘‘

" میرا خیال ہے کہ یہ انہی آدمیوں میں سے کسی ایک کا ہو سکتا ہے جو اُس وحشی کے پیچھے بھاگتے رہے ہیں۔ظا  ہر ہے کہ انہیں بڑی بے دردی سے پکڑکر اوپر والی دراڑ میں ٹھونس کر یہاں گرایا جا تا رہا ہوگا۔ او پر پہلے ہی سے کچھ آدمی اُن کے منتظر رہتے ہوں گے ۔ دراڑ کے سامنے کی چٹان ...دراڑ کی چٹان پر اس طرح جھکی ہوئی ہے کہ وادی اوپر کھڑے ہوئے لوگ بھی دونوں کے درمیان فاصلہ کونہیں دیکھ سکتے ۔ اس لئے وہاں پندرہ بیسں آدمی بہ  آسانی چھپ سکتے ہیں!"

 " اب میں اپنا سر کسی پتھر سے ٹکرا کر پاش پاش کر دوں گا ! ‘‘حمید اُکتا کر بولا ۔

" کیوں؟"

’’آخر وہ سب سالے ہیں کہاں ! " حمید نے پیشانی پر ہاتھ مار کر کہا۔ " مجھے تو آگے جانے کا بھی کوئی راستہ نظر نہیں آتا !‘‘

’’معاملہ جیر الڈ سے اُلجھا ہے بیٹے خاں ...کسی نتھو ، بدھو، خیراتی سے نہیں !"

فریدی پھر ٹارچ کی مدھم سی روشنی میں غار کا جائزہ لینے گا۔

’’ارے !‘‘ وہ چونک کر بولا پھر کچھ سوچنے لگا۔

" کیا مصیبت ہے! ‘‘اس نے کہا ۔ " پھر بارش شروع ہوگئی ۔ چلونکو جلدی!‘‘

 وہ غار کے باہر آگئے ۔ بادل جم گئے تھے اور ہلکا ساترشح شروع ہو گیا تھا۔ وہ وادی سے نکل جانے کی جدو جہد کرنے لگے۔

وحشی  نے قا سم کے با زو  پر منہ مارا اور قا سم کی چیخ نکل گئی ۔دوسرےلمحے میں اُس کا گھو نسہ وحشی کے چہرے  پر پڑا اور وہ اندھیرے میں نہ جا نے  کد ھر لڑھک  گیا۔

’’سالے !‘‘ قاسم نے ہا نپتے  ہو ئے ایک  گندی سی  گالی  دی۔

اچانک اندھیرا دور ہو گیا۔ پوری سرنگ میں کئی بلب روشن ہو گئے تھے اور سانو ٹے ہاتھ میں ریوالور لئے کھڑا تھا ۔ قاسم نے بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا دئیے۔

’’ٹم سالا بھاگنا ما نگٹا !‘‘ اُس نے ریوالور کی نال سے قاسم کو واپس چلنے کا اشارہ کیا۔

’’ اچھا چلو ! ‘‘قاسم گردن جھٹک کر بولا ۔’’ مگر اتنا یاد رکھو کہ تمہاری جان میرے ہی ہاتھ سے جائے گی ؟ ‘‘

’’چالو!‘‘ سانو ٹے چنگھاڑ کر بولا ۔ اس وقت وہ سیدھا کھڑا ہوکر چل رہا تھا۔

چلتے چلتے قاسم کے ذہن کی رو بہک گئی۔ اُسے وہ البم یاد آیا جو اُس نے سانو ٹے کے سامان میں دیکھا تھا۔

’’سالے تم آوارہ ہو! " قاسم رُکا اور پلٹ کر بولا ۔ " گندی گندی تصویر میں رکھتے ہو ۔ شرم نہیں آتی !"

’’میں نے تمہارا البم دیکھا ہے!"

’’ٹم سالا چور!"

’’نہیں پیارے !‘‘قاسم مسکرا کر بولا ۔’’ وہ تو بڑی اچھی ہیں!"

 ‘‘ٹم دیکھا کیوں؟" سانٹو نے نے گرج کر کہا۔

’’ میں اپنی گھڑی تلاش کر رہا تھا! "

’’ گھری سالا جہنم میں گیا !"

’’تم اگر وہ البم مجھے دے دو تو میں گھڑی نہیں مانگوں گا! " قاسم نے کہا ۔

 " نہیں ڈے گا۔...تم چالو ...نہیں گولی مارٹا... !‘‘

قاسم پھر چلنے لگا ...اور سانوٹے کے غار میں پہنچ کر اُس نے کہا ۔ " اچھا ایک بار دکھا ہی دو!‘‘

سانو ٹے ہنسنے  لگا۔

’’الا قسم میں بھاگ تھوڑی ہی رہا تھا !" قاسم نے کہا۔ " یہاں آیا اور اس راستے سے اُدھر چلا گیا۔

’’بیٹھ جاؤ! " سانوٹے نے ریوالور پتلون کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔

 اس نے البم نکالا اور وہ دونوں اس طرح تصویریں دیکھنے لگے جیسے کچھ دیر قبل کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔ شا ید سانوٹے بھی قاسم ہی کی طرح خبطی تھا۔ پھر اُن دونوں میں راز و نیاز شروع ہو گئے۔

’’اس کا آنکھ دیکھو!‘‘ سانوٹے نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

" قاتل ہے !" قاسم ہونٹ چاٹ کر بولا۔

" کاٹل کیا ہوتا ؟“

’’مرڈر...!" قاسم نے قاتل کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔

’’ٹم الّو ہے۔ یہ کاٹل کیسے ہوٹا۔ اٹنا اچھا ہے۔ نہیں کاٹل نہیں ہوتا !“

پھر وہ دونوں اپنی محبوباؤں کی باتیں کرنے لگے۔

’’ہمارا چار بی لَوڈ ہے ! " سانوٹے بولا ۔ " ٹم بی لوڈ کو کیا بولٹا !‘‘

" معشوق !" قاسم نے کہا۔

’’ماشوک ! " سانوٹے ہنہنانے لگا۔

’’ابے سالے تو اچھا خاصا آدمی ہے پھر کیوں گھوڑا بنتا ہے ؟ " قاسم نے کہا۔

’’ہمارا ماشوک نے ہم کو گھوڑا بنا ڈیا !‘‘ وہ پھر ہنہنایا۔

’’اگر تو گھوڑا ہے تو میں تجھ پر سواری کروں گا! " قاسم نے کہا۔

’’آؤ...!‘‘ وہ گھوڑا بن گیا اور قاسم اُس پر سورا ہو گیا۔ اس نے غار کے دو تین چکر لگائے اور پھر یک بیک ہنہنا کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔ قاسم ہنسی میں مگن تھا۔ اس کا سر پچھلی دیوار سے جا ٹکر ایا اور وہ ایسا گرا کہ پھر نہ اُٹھ سکا۔سر تو   نہیں پھٹا تھا لیکن اچانک چوٹ لگنے کی وجہ سے بے ہوش ضرور ہو گیا تھا۔ سا نوٹے اُسے اس حال میں دیکھ کر  ہنسنے لگا۔

وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا پھر اُس نے قاسم کے کپڑے اُتارنے شروع کئے ۔ جسم پر ایک دھجی بھی نہیں چھوڑی۔ اس نے اُس کے سارے کپڑے اپنے صندوق میں رکھ دیئے پھر دوات اُٹھائی اور اس میں اُنگلی ڈبو ڈبو کر قا سم کے داڑھی اور مونچھیں بنانے لگا۔

پھر اچا نک جیسے  اُسے کچھ یاد آ گیا۔ اس نے دوات میز پر رکھ دی اور سرنگ میں دوبارہ داخل ہو گیا۔ یہاں کے بلب  اب بھی روشن تھے۔وہ چلتا رہا۔ پھر اُس جگہ پر پہنچا جہاں سرنگ ختم ہو گئی تھی۔ یہاں ایک طرف لوہے کا ایک بے ڈھنگا  سا ڈھانچہ رکھا ہوا تھا جس میں کچھ کل پرزے بھی نظر آرہے تھے ۔ اس نے اس میں لگے ہوئے ایک   چھو ٹے سے  پہئے کو حرکت  دی ۔ دوسرے لمحے ہی  میں سر نگ  کے سرے   پر ایک  چھو ٹا  سا دروازہ  نمو دار ہو گیا ۔

اور اب  سا نو ٹے   اسی  غا ر میں  تھا  جس  میں تھو ڑی   دیر قبل  فر یدی  اور حمید  سر ما رتے  پھر رہے  تھے۔ سا نو ٹے   جھا ڑیوں  کی شا خیں  اُ ٹھا اُ ٹھا کر  غا ر  کے دہا نے  میں پھسا نی  شروع کر دیں۔

 

13

 

فریدی اور حمید ابھی چڑھائی ہی پر تھے کہ بوند یں رُک گئیں ۔ فریدی پھر پلٹ پڑا اور حمید کی جھلا ہٹ  بڑھ گئی۔

’’اس غار کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا ہے انہیں میں دلائل نہیں بلکہ مفروضات سمجھتا ہوں ! ‘‘

’’اور میں تمہارے اس خیال کی قدر کرتا ہوں ! ‘‘فریدی نے پُرسکون لہجے میں کہا ۔ " جب تک زندہ حقائق سامنے نہ آجا ئیں کسی بات پر یقین نہ کرنا چاہئے !"

’’تو پھر اس دردسری سے کیا فائدہ؟"

’’کسی چیز کا خیال اُس کی پیدائش کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ میں ایک بار پھر اُس غار کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے یا محسوس ہو رہا ہے کہ میں نے وہاں کوئی غیر فطری چیز دیکھی تھی ۔ اس کا کچا سا شعور اب بھی میرے ذہن میں چبھ رہا ہے!"

’’ چلئے جناب اب پکائیے اس شعور کو اور مجھے بھی کھلائیے !‘‘ حمید عاجز آکر بولا ۔

غار اور ان میں پائی جانے والی اشیا کے متعلق اُس نے جو خیال قائم کیا تھا اس پر اب بھی جما ہوا تھا اور اب وہ دوبارہ وہاں جانے کو تضیع اوقات ہی سمجھتا تھا۔

 تھوڑی دیر بعد وہ پھر اُسی جگہ پہنچ گئے ۔ فریدی نے تاریخ روشن کی اور پھر وہ حمید کی طرف مڑا جس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں ۔

’’کیا ہم یہ جھاڑیاں دراڑ میں پھنسا کر گئے تھے ! ‘‘فریدی نے آہستہ سے پوچھا اور حمید نے اندھیرے میں بھی اُس کی آنکھوں کی وحشیانہ چمک محسوس کر لی تھی جو کشت و خون کے موقعوں پرضرور نظر آتی تھی۔

 فریدی چند لمحے خاموش رہا پھر اُس نے جھاڑیوں کی شاخیں دراڑ سے ہٹانی شروع کر دیں۔ راستہ صاف ہو جانے کے بعد اُس نے دراڑ میں ٹارچ ڈال کر اندر کا جائزہ لیا۔ غار پہلے ہی کی طرح ویران نظر آرہا تھا۔

 وہ دونوں نیچے اُتر گئے ۔ انہیں غار میں کوئی تبدیلی نہیں نظر آئی۔

فریدی کی ٹارچ کی روشنی کی ننھی سی لکیر تیزی سے اِدھر اُدھر گردش کر رہی تھی۔ آخر وہ ایک اُبھرے ہوئے پتھر کے سامنے رُک گیا۔

’’ ذرا اِسے دیکھو! ‘‘فریدی نے حمید سے کہا۔ " کیا یہ پھر تمہیں غیر قدرتی نہیں معلوم ہوتا !‘‘

’’ قطعی نہیں !‘‘ حمید بولا ۔ " مجھے تو ایسی کوئی خاص بات نظر نہیں آتی !"

’’اوہ ! اس کی جڑ میں دیکھو۔ یہ چاروں طرف لکیر کیسی ہے۔ شاید یہی چیز میرے ذہن میں چبھ رہی تھی ۔ میں نے اُسے پہلے بھی دیکھا لیکن اس پر غور نہیں کیا تھا!"

حمید نے جھک کر بڑے غور سے دیکھا۔ واقعی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اُسے وہاں خاص طور سے فٹ کیا گیا ہو ۔ اُس جگہ کئی دوسرے پتھر بھی تھے مگر ان میں یہ بات نہیں تھی اور بادی النظر میں وہ پتھر بھی دوسروں ہی کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ اسے فریدی کی باریک بین نظروں کا قائل ہو جانا پڑا۔

 دوسرے لمحے میں فریدی اُس پتھر پر زور آزمائی کر رہا تھا لیکن اُس نے اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کی ۔ آخر وہ تھک کر پیچھے ہٹ آیا اور خود ہی بڑبڑانے لگا۔ " کیا حماقت تھی بھلا یہ زور آزمائی کے لئے لگایا گیا ہوگا !‘‘

 وہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ یہاں غار میں بھی دو تین چھوٹے چھوٹے گڑھے تھے۔ دوسرے لمحے میں روشنی کی پتلی سی لکیر ان گڑھوں میں رینگنے لگی۔

حمید کو بھی اچانک یاد آ گیا کہ جیرالڈ کی پچھلی زمیں دوز دنیا کا نظام بھی مشینوں ہی پر قائم تھا۔ اُس کے ذہن میں طوفان سے اُٹھ رہے تھے ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی وہ کامیابی سے اتنے قریب ہیں۔ دفعتہ اُس نے فریدی کی آواز سنی جو ایک گڑھے پر جھکا ہوا اُس میں کچھ ٹٹول رہا تھا۔ حمید اس کی طرف لپکا پھر اس نے فریدی کو اُس گڑھے میں سے پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکالتے دیکھا۔

’’چلو... جلدی کرو ۔ میرا ہاتھ بٹاؤ! ‘‘فریدی کی آواز کانپ رہی تھی ۔ حمید نے جھک کر دیکھا اور دوسرے ہی لمحے  میں اس کے جسم میں سنسناہٹ دوڑنے لگی۔

پتھروں کے ڈھیر سے لوہے کی ایک موٹی سی سلاخ جھانک رہی تھی اور پتھروں کو ہٹانے پر وہ ایک بڑے سے پہئے کے کنارے پر لگا ہوا ہینڈل ثابت ہوئی۔

فریدی نے ہینڈل پکڑ کر پہئے کو گردش دی اور ساتھ ہی ٹارچ کا رُخ اس پتھر کی طرف ہو گیا جو ایک طرف سے اس  طرح اُٹھ رہا تھا جیسے کسی صندوق کا ڈھکن کھل رہا ہو ۔ فریدی نے ہاتھ روک کر آسودگی کی ایک گہری سانس لی اور حمید سے بولا۔

’’اب تمہارا کام شروع ہوتا ہے۔ تمہاری جیب میں ٹارچ ہے نا ...!‘‘

" ہے...! " حمید اپنی جیب میں پڑی ہوئی ٹارچ  کو ٹٹو لتا ہوا بولا۔

’’ اچھا تو تم گھاٹی میں جاؤ۔ فوجی دستے کے انچارج کیپٹن شہاب سے کہنا کہ تم میرے آدمی ہو اور میں کا میا ب ہو گیا ۔ انہیں ساتھ لاؤ لیکن کھاٹی  میں اُترتے ہی تاریخ کا رُخ خیموں کی طرف کر کے اُسے تین بار جلانا نہ بو لنا ورنہ  پہرے والوں کی گولیاں تمہارے جسم کو چھلنی کردیں گی سمجھے! اور ہاں دوسری بات بھی... کیپٹن شہاب سے کہنا کہ فو راً ہی میجر نصرت کو اس کی اطلاع بھجوا دے کہ فریدی پہنچ گیا اور پھر وہ اپنا کام کر لے گا !"

"کیسا کام؟"

’’ فیلڈ اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری ۔ خاص طور سے وہ پاگل ... وہ بہت اہم ہے۔ اب میں کچھ کچھ اس کی اصلیت کو پہنچ  رہا ہوں ! ‘‘

’’کیا بات ہے؟‘‘

’’پھر...ا بھی نہیں! " فریدی اُسے ڈھکیلتا ہوا بولا ۔ ’’جاؤ .. جلدی کرو!"

سانو ٹے اپنے غار میں واپس پہنچا تو قاسم کو ہوش آچکا تھا اور وہ اُس کے بستر کی چادر لپیٹے بیٹھابُرے بُر ے منہ بنا رہا تھا ۔

 ’’ارے ستیا ناس !‘‘ قاسم نے اُسے دیکھ کر للکارا۔" یہ کیا کیا تو نے سور کے بچے !"

’’ بھاگ جاؤ سالا، ہمارا چادر چھوڑو!‘‘ وہ چادر کھینچنے لگا۔

’’ ا بے...ا بے... دھت تیری ... سس... سالے ...ہماری ...حرامی!‘‘

دونوں میں چادر کے لئے جدو جہد ہونے لگی۔ سانوٹے بھی قہقہہ لگاتا اور کبھی ہنہنانے لگتا۔ آخر اس نے چادر چھین ہی لی اور قاسم بد حواسی میں اُس کے غار سے نکل کر بھاگا۔ قریب ہی ایک دوسرا دروازہ نظر آیا اور وہ اُس میں  گھس گیا۔

دونسوانی چیخیں بلند ہوئیں ۔ اندر سے دولڑ کیاں چیختی ہوئی باہر نکلیں اور بدحواسی میں بھاگتی چلی گئیں ۔

 سانوٹے نے یہ سب کچھ سنا لیکن باہر نکل کر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ سب حرکت کسی مشین سے سرزد ہوئی ہوں۔ اس نے بستر کے نیچے سے شراب کی بوتل نکالی اور اُسے ہونٹوں سے لگا کر ایک ہی سانس میں خالی کر گیا۔ پھر اُس نے اُسے ایک طرف اُچھالتے ہوئے چادر تان لی۔ بوتل زمین پر گر کر چور ہوگئی۔

اچانک اس کے سرہانے لگی ہوئی گھنٹی زور سے بجی اور وہ اُچھل کر کھڑا ہوگیا۔ پھر اس نے دوسرے لمحے میں  سرنگ کے دہانے میں چھلانگ لگادی۔ یہاں اندھیرا تھا۔ اس نے دیوار سے لگے ہوئے سوئچ کو دبا کر سرنگ کےبلب روشن کر دیئے اور تیزی سے دوڑتا ہوا آخری سرے تک آیا۔

اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں اور وہ سامنے والی دیوار کو گھور رہا تھا جس کی سطح ایک طرف تھوڑی  نا ہموار ہو گئی تھی۔

پھر اُس نے  بڑی  پھر تی  سے جھک کر  مشین  کا پہیہ  گھمایا  ۔

فریدی بے اختیار چونک پڑا کیونکہ اچانک غار روشن ہوگیا تھا اور وہ پتھر اپنی جگہ سے ہٹ کر بالکل ایک صندوق کے ڈھکن کی طرح ایک طرف ہو گیا تھا۔

دوسرے لمحے میں کوئی جھپٹ کر اُس راستے سے باہر آیا۔

" خبر دار!‘‘ فریدی نے ریوالور نکال لیا۔

 لیکن سانوٹے ریوالور کی پروا کئے بغیر اُس پر ٹوٹ پڑا۔ فریدی نے پے در پے تین فائر کئے لیکن سانوٹے  پر  شائد ان کا اثر ہی نہیں ہوا۔ اس کا لو ہے جیسا جسم فریدی کو دبا رہا تھا۔ فریدی ریوالور پھینک کر اُس سے لپٹ پڑا۔ اُس نے اُسے اچھی طرح دیکھ لیا تھا۔ وہ اُس روایتی گھوڑے سے الجھا ہوا تھا جس کا شہرہ رام گڑھ میں عام تھا۔

 فریدی لپٹ تو پڑا تھا لیکن اب اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اُسے کبھی زیر نہ کر سکے گا۔ اس میں بلا  کی طاقت تھی اور فریدی کو یہی معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ سچ مچ کسی گھوڑے ہی سے کشتی لڑ رہا ہو۔

فریدی کو افسوس تھا کہ اُس نے ریوالور کیوں پھینک دیا۔ وہ اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ چکا تھا اور یہ جانتا تھا کہ گولی کہاں کا رآمد ہو سکتی ہے۔

 وہ دونوں ایک دوسرے کو ریل رہے تھے۔ ایک بار فریدی کا پیر ریوالور پر پڑ کر پھسل گیا۔ وہ توازن نہ برقرار رکھ سکا اور گھٹنوں کے بل زمین پر چلا آیا لیکن ریوالور اب اس کے ہاتھ میں تھا۔

 دفعتہً فریدی نے سرنگ میں کئی آدمیوں کے قدموں کی آواز میں سنیں اور سانوٹے چیخنے لگا۔ بڑا خوفناک لمحہ تھا۔ فریدی اپنا وہ ہاتھ آزاد کرانے کی کوشش کرنے لگا جس میں ریوالور تھا۔ مقدر یا ور تھا کہ وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔ دوسرے لمحے میں ریوالور کی نال سانوٹے کے چہرے سے جالگی اور فریدی نے یہ سوچے بغیر پے در پے کئی فائر کر دیئے کہ اگر اُس کا ہاتھ ذرا سا بھی ہل گیا تو خود اُسی کی کھوپڑی کے پر خچے اُڑ جائیں گے۔

 ہر فائر کے ساتھ اس نے سانوٹے کی بھیانک چیخیں سنیں اور پھر اُس کا جسم اس کے اوپر سے پھسل کر ایک طرف لڑھک گیا۔

پانچ چھ انگر یز سُرنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔

’’خبردار! ‘‘فریدی ریوالور کا رُخ ان کی طرف کر کے سیدھا کھڑا ہو گیا۔

لیکن اس کا سر چکرا رہا تھا۔ ابھی تک وہ سچ مچ ایک پہاڑ سے لڑتا رہا تھا۔ اس نے انتہائی کوشش کی کہ اپنے ذہن پر قابو پا سکے لیکن ناکام رہا۔

دو سرے لمحے میں ریو الور سمیت زمین پر ڈھیر  ہوگیا۔

ا نگریز اُس پر ٹوٹ پڑے۔

حمید ،فریدی سے رخصت ہو کر گھا ٹی میں اتر ااور اُ س نے ٹا رچ کا رُخ  کیمپ کی طرف  کر کے  اُسے تین بار  رو شن کیا اور  پھر خیموں کی جا نب چل پڑا ۔ ابھی وہ آدھے ہی راستے میں تھا کہ اُس نے بھاری قدموں کی آواز سنی ۔  پھر جلدی  ہی اس کا  سا بقہ  پانچ عدد اُٹھی  ہو ئی را ئفلوں سے پڑا۔

’’تم کون ہو؟‘‘ ایک فوجی نے پو چھا۔

دوست...! مجھے کیپٹن شہاب کے پاس لے چلو!‘‘

’’تم نے کتنی بار ٹارچ  جلا ئی تھی؟‘‘

’’ تین بار!‘‘ حمید نے ایک گہری سانس لی۔ وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد شہاب کے پاس پہنچ جائے کیونکہ وہ فریدی کو غار میں تنہا چھوڑ آیا تھا اور وہ فریدی کی اس عادت سے بخوبی واقف تھا کہ شکار کے قریب پہنچ  جانے پر پھر  اُس سے صبر  نہیں ہو سکتا ۔

فوجی اُسے کیپٹن شہاب کے خیمے میں لے گئے۔

حمید نے فریدی کا پیغام دہرایا۔

’’آپ کون ہیں؟‘‘ کیپٹن شہاب نے پوچھا۔

’’ سارجنٹ حمید۔ میرے خیال سے جلدی کیجئے !‘‘

’’لیکن مسٹر فریدی ہیں کہاں؟"

حمید نے واقعات بتاتے ہوئے کہا۔ ’’اب وہ اُس غار میں ہمارے منتظر ہوں گے !‘‘

’’ انہی کا کام تھا۔ اچھا ٹھہر یئے! " کیپٹن شہاب نے کہا اور خیمے سے باہر نکل گیا۔

حمید بُری طرح بیتاب تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں فریدی تنہا ہی غار میں نہ داخل ہوگیا ہو۔ ہر لحظہ  اس کی پر یشانی بڑھتی جارہی تھی۔

 تیاری میں  پندرہ بیس  منٹ لگ گئے اور حمید خون کے گھونٹ پیتا ر ہا۔

پھر تیسں آدمیوں کا دستہ شہاب کی قیادت میں چٹانوں کی طرف بڑھنے لگا۔

’’ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی ! ‘‘شہاب نے کہا۔ " میں مسٹر فریدی کا پیغام میجر نصرت کے پاس ٹرانسمیٹر کے ذریعہ  بھی  پہنچا   سکتا تھالیکن مسٹر فریدی نے مجھے پہلے ہی ہدایت کردی تھی کہ میں میجر نصرت کے پاس کوئی خاص آدمی بھیجوں  ۔آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

’’پتہ نہیں! ‘‘حمید تیزی سے قدم بڑھا تا ہوا بولا ۔ ’’وہ ہمیشہ ہر بات کی وجہ بعد ہی میں بتاتے ہیں !‘‘

وہ تھوڑی ہی دیر بعد اُس چٹان کے قریب پہنچ گئے۔

سب سے پہلے حمید غار میں اترا۔ پھر دوسرے ہی لمحے میں وہ چیخ  رہا تھا۔

’’کیپٹن جلدی آؤ۔ یہاں اُس گھوڑے کی لاش ہے ! ‘‘

کیپٹن غار میں اُتر گیا اور اس کے بعد بقیہ فوجی بھی ایک ایک کر کے اُترے۔

سانوٹے کی لاش بڑی خوفناک لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے کے چیتھڑے اڑ گئے تھے۔

 " لیکن !‘‘حمید تقریبا ًچیخ  پڑا۔ " فریدی صاحب کہاں ہیں ؟"

 غار میں کئی ٹا ر چیں روشن تھیں ۔ حمید اُس پتھر کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ بدستور اپنی جگہ پر تھا۔

’’ غضب ہو گیا ! " حمید بوکھلا کر بولا ۔ " شاید فریدی صاحب پکڑ لئے گئے! "

" کیوں... یہ کیسے ؟ " شہاب اُسے گھور کر بولا۔

 " اگر وہ خود سے گئے ہوتے تو... راستہ کھلا ہوتا !"

’’ہو سکتا ہے خود انہوں نے اندر سے بند کر لیا ہو۔ آخر اُدھر بھی تو کچھ ہوگا!‘‘

حمید اُس گڑھے کی طرف جھپٹا جس میں پہیہ تھا لیکن دوسرے ہی لمحے میں اُس کے منہ سے چیخ نکلی ۔ اگر ایک فوجی اُسے سہارا نہ دیتا تو وہ چکرا کر گر ہی پڑا تھا۔

" کیا ہوا؟ ‘‘کیپٹن شہاب اُس کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔

’’پہیہ بھی غائب ہے!‘‘ حمید نے آہستہ سے کہا۔

پہیہ غائب تھا۔ جس جگہ وہ نصب تھا وہاں صرف ایک سوراخ نظر آرہا تھا۔

’’وہ انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے ! ‘‘حمید ہذیانی انداز میں چیخا ۔" کچھ کیجئے ...کچھ کیجئے !‘‘

’’میں کیا کروں ۔ کیا کر سکتا ہوں!"

’’او ہ .. میں کیا بتاؤں !‘‘ حمید سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بچوں کی طرح چیخ چیخ کر روئے۔ کیپٹن شہاب پہئے کی جگہ والے سوراخ کا جائزہ لے رہا تھا۔

’’اس کے اندر کچھ ہے تو!‘‘ اس نے سر اُٹھا کر کہا۔ " لیکن کیا کیا جا سکتا ہے۔ اوہ اچھا ہم اس پتھر کو توڑنے کی کوشش کریں۔ مگر یہ بھی محال ہے ... مگر ٹھہرئیے میں کیمپ سے کدالیں منگواتا ہوں !"

 

14

 

فریدی کو جلد ہی ہوش آگیا۔ ہوش میں آتے ہی اُسے اپنی کمزوری پر غصہ آنے لگا۔

 شاید زندگی میں پہلا موقعہ تھا کہ اسے اس قسم کی زک اُٹھانی پڑی تھی۔ اگر وہ لڑ بھڑ کر ان کے قابو میں آیا ہوتا تو  اسے اتنا افسوس نہ ہو تا ۔ریوا لور  اس کے ہاتھ میں تھا اور ووہ سب غیر متو قع  طو رپر  خو فزدہ ہو چکے تھے کہ اس کا سر  چکرا  گیا اور انہوں نے اُسے ایک بے بس چوہے کی طرح دبوچ لیا۔

اُن انگریزوں کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی کہ بیرونی غار میں کیا ہورہا ہے مگر قاسم والے ہنگا مے نے انہیں ہوشیار کر دیا تھا۔ خوفزدہ لڑکیوں نے انہیں قاسم کے متعلق بتایا اور پھر وہ سب قاسم کو گھیر کر ڈنڈوں سے پیٹنے لگے۔ بہر حال اُس نے کسی نہ کسی طرح  چیخ چیخ  کر انہیں سانوٹے کی حرکت کے متعلق بتایا اور وہ قاسم کو چھوڑ کر سانوٹے کے غار کی طرف جھپٹے ۔ یہاں انہوں نے سانوٹے کے بستر کے سرہانے لگے ہوئے الارم پر خطرے کا سرخ  بلب جلتا ہوا دیکھا اور سرنگ بھی روشن نظر آئی۔ اس طرح ان کی رسائی بیرونی غار تک ہوئی تھی۔ فریدی پر قابو پانے کے بعد انہوں نے بیرونی غار والا پہیہ   نکال لیا تھا اور مطمئن ہو گئے تھے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت سرنگ کے راستے والے پتھر کو اُس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتی۔ وہ کچھ دیر بیرونی غار میں ٹھہرے بھی رہے تھے لیکن انہیں کسی طرف سے کوئی آہٹ نہ ملی اور وہ مطمئن ہو گئے کہ ان کا شکار تنہا ہی تھا۔

وہ تعداد میں کل سات تھے اور فریدی کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ فریدی نہتا ہو چکا تھا لیکن اس غیر متوقع شکست پر اس طرح بپھرا ہوا تھا کہ موقع کی نزاکت کا احساس بھی جاتا رہا تھا۔

’’ارے!‘‘ دفعتہً ایک انگریز چیخا جو اُ سے بڑی دیر سے گھور رہا تھا۔’’ یہ تو فریدی معلوم ہوتا ہے!"

’’فریدی؟" وہ سب بیک وقت بولے۔

’’ہاں... ٹھہرو۔ میں اسے پہلے بھی دیکھ چکا ہوں!"

’’وہ عورت کہاں ہے؟‘‘ دفعتہً فریدی چیخا۔

’’کون عورت؟" پستہ قد انگریز نے حیرت سے پوچھا۔

’’وہ جسے میں غار میں تھوڑی دیر قبل چھوڑ گیا تھا ! "

’’کیا بکتے ہو!‘‘پستہ قد انگریز غرایا۔ "اگر تم فریدی ہو تو اب ہم دھو کہ نہیں کھا سکتے !"

’’ کیسا فریدی؟ ‘‘فریدی نے حیرت سے کہا۔ ” تم لوگ کون ہو اور یہ سب کیا ہے۔ پہلے تو یہ سب نہیں تھا۔ میں ہمیشہ اُس غار کو استعمال کرتا رہا ہوں !‘‘

 فریدی نے کسی عیاش آدمی کی طرح مسکر اکر اپنی بائیں آنکھ دبائی۔ پھر دفعتًہ غصیلی آواز میں بولا۔" وہ عورت کہاں ہے ... اُسے واپس کر دو ورنہ میں بہت بُرا آدمی ہوں !‘‘

’’یہ تو ہم جانتے ہیں کہ تم بہت بُرے آدمی ہو۔ ورنہ لوگ عیاشی کے لئے عورت کے ساتھ ریوالور نہیں لاتے !‘‘ایک انگریز نے کہا پھر وہ پستہ قد انگریز سے بولا ۔’’ اگر یہ فریدی ہی ہے تو باس کے لئے ایک بہترین تحفہ ثابت ہوگا ... کیوں !"

’’ یہ فریدی ہی ہے !‘‘پستہ قد انگریز نے کہا۔ " اس کی تصویر یں باس کے کمرے میں بند ہیں ورنہ میں تمہیں یقین دلا دیتا !‘‘

 ان کی گفتگو سے فریدی نے اندازہ لگا لیا کہ وہ ”باس“ جیرالڈہی ہو سکتا ہے اور وہ اس وقت یہاں موجود نہیں ہے۔ اس بے بسی کے عالم میں بھی اُسے افسوس ہو رہا تھا۔ افسوس کی بات ہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا اس بار ...پھرجیرالڈ بچ نکلے گا۔

’’ارے وہ موٹا تو ہے ! ‘‘دفعتہً ایک انگریز بولا ۔’’ وہ تو اسے پہچا نتا ہی ہوگا ؟"

’’ ٹھیک ہے !‘‘ پستہ قد انگریز نے کہا۔ " میں اُسے لاتا ہوں!"

 وہ چلا گیا۔ بقیہ چھ انگریز فریدی کے سر پر مسلط رہے۔

فریدی سوچ رہا تھا کہ شاید اس وقت یہاں جیرالڈ کے آدمیوں میں سے صرف اتنے ہی ہیں ۔ اگر ان کے علاوہ بھی کچھ اور ہوتے تو وہ بھی اب تک یہاں پہنچ چکے ہوتے ، قدرتی بات تھی ۔ وہ اُس دشمن کوضرور دیکھنا چاہتے جو ان کے گوشہ عافیت میں بھی در آیا تھا۔

قاسم جیسے ہی کمرے کے سامنے پہنچا، باہر کھڑی ہوئی لڑ کیاں ہنسنے  لگیں ۔ اس کا حلیہ ہی اس قسم کا تھا کہ دیکھ کر بے اختیار ہنسی  آجاتی ۔ روشنائی سے بنائی ہوئی داڑھی اور مونچھیں ابھی تک برقرار تھیں ۔ شاید قاسم کوان کا علم ہی نہیں تھا۔ اس نے کسی لڑکی کا پھولدار پیٹی کوٹ اپنی کمر کے گرد منڈھ رکھا تھا اور جسم کا اوپری حصہ بالکل ننگا تھا۔

 فریدی نے اُسے اس حال میں دیکھا تو اُسے بھی ہنسی آگئی لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں قاسم اُسے شناخت ہی نہ کرلے۔

قاسم دروازے کے سامنے رُک گیا تھا۔ ایک بار اُس کے ہونٹ کچھ کہنے کے لئے کھلے لیکن پھر بند ہو گئے ۔ وہ بالکل ساکت و صامت فریدی کو گھور رہا تھا اور وہ اتنا بے وقوف بھی نہیں تھا کہ سچویشن کو نہ سمجھتا اور پھر ایسی صورت میں جب کہ تھوڑی دیر قبل اس پر ڈنڈوں کی بارش ہو چکی تھی۔ وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔

’’اسے پہچانتے ہو؟" پستہ قد انگریز نے فریدی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

’’میں نہیں جانتا !‘ ‘قاسم غرا کر بولا ۔ " تم لوگ مجھے سونے کیوں نہیں دیتے!"

’’تم جھوٹے ہو! ‘‘پستہ قد انگریز نے کہا۔

’’ تم جھوٹے ! تمہارا باپ جھوٹا۔ سالو کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہو۔ میں شاستری صاحب کی وجہ سے کچھ نہیں بولتا ور نہ اب تک تم میں سے ایک آدھ کو مروڑ کر رکھ دیتا ! ‘‘قاسم جھلا کر واپس جانے کے لئے مڑا۔

’’ سنوتو !‘‘ پستہ قد انگریز نے اُسے روکنے کی کوشش کی۔

’’نہیں سنتا !" قاسم مڑے بغیر دہاڑا اور اپنے غار کی طرف چل پڑا لیکن اس کی برف زدہ کھوپڑی حرکت میں آگئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ فریدی کو ضرور مار ڈالیں گے کیونکہ وہ کئی بار اس کے متعلق ان کی گفتگو سن چکا تھا اور اگر فریدی مرگیا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اُسے اس قید سے رہائی نہیں دلا سکتی۔

تھو ڑی  برف  اور پگھلی  ۔دفتعہً اُسے اُن سا ٹھ  ستر قیدیوں  کا خیال آیا جو سا نو ٹے    کے ڈر سے دن رات  گد ھو ں  کی  طر   ح   محنت  کیا کر تے   تھے۔ اُس نے سو چا  کہ کیو ں  نہ انہیں   اُ کسا یا جائے۔ اگر وہ  سب   ایک  سا تھ  پل   پڑیں تو  آٹھ   دس  انگریز وں کی  چٹنی   بہ آسانی  بن جا ئے   گی لیکن  وہ لڑکیا ں  ...وہ انہیں   بھی نہ چھو ڑیں گا  ۔اس کا دل  لڑکیو ں  کے  لئے بری  طرح  کڑ ھنے  لگا۔

جیسے  ہی وہ اُس بڑے  کمرے  میں دا خل   ہو ا جہاں  سا ٹھ   ستّر  مزدور   جا نو روں  کی  طرح رہتے   تھے، ہر طرف  سے  قہقہے  بلند ہو نے  لگے۔ وہ  سب  جا گ رہے تھے  اور جو سو ئے بھی تھے  وہ قا سم  اور سا نو ٹے   کے  ہنگا مے  کی  وجہ سے  جا گ پڑے تھے  لیکن اُن میں  سے  کسی میں بھی اتنی ہمت  نہیں تھی کہ    کمرے سے  باہر  قدم نکلتا ۔

’’ابے سنو ...ہنسو  نہیں  !‘‘ قا سم  دو نو ں  ہا تھ ہلا تا ہو ا بولا ۔

پھر بھی کچھ لوگ ہنستے   رہے۔

’’اچھا تو میں بلاتا ہوں سانو ٹے کو!‘‘ قاسم نے دھمکی دی اور یک بیک اس طرح خاموشی چھاگئی جیسے قہقہو ں میں  بر یکیں  لگ گئی ہوں ۔

’’دیکھو! " قاسم نے انہیں مخاطب کیا ۔’’ آج ان حرام زادوں نے ایک ایسے آدمی کو پکڑ لیا ہے کہ کیا بتا ؤں۔ اگر انہوں نے  اُسے  ما  ڈالا تو کیا بتا ؤں  ۔ہم  زندگی بھر یہاں سے نہ نکل  سکیں گے۔ وہ ہما ری  رہا ئی  ہی کے لیے  یہاں آیا تھا لیکن پکڑ لیا گیا۔ وہ اُسے مارڈالیں گے!"

’’تو پھر ہم کیا کریں؟ ‘‘ایک آدمی نے کہا۔

’’ارے تم سب کچھ کر سکتے ہو مرے پیارے!‘‘ قاسم نے کہا اور اُسے یک بیک قومی لیڈروں کی تقریریں یاد آنے لگیں۔ اس نے مٹھی باندھ کر کہا۔ " تم سپوت کے وطن ہو! ہم لڑائی کے لئے آزادی کریں گے... اَرلڑیں گے آزادی کے لئے ۔ وہ صرف سات ہیں۔ اگر تم لپٹ پڑو تو سب کی چٹنی بن جائے گی اور تم جس سے ڈرتے ہو وہ سا لا گھوڑا بھی اس وقت موجود نہیں ہے!"

’’مگر ہم ...باہر تو نہ نکل سکیں گے !‘‘ایک نے کہا ۔ " ہم راستہ نہیں جانتے۔ دوسرے آکر ہماری چٹنی نہ بنا دیں گے !‘‘

’’ارے میرے پیارے بھائیو! " قاسم بولا ۔’’ وہ آدمی جسے پکڑا گیا ہے ایک بڑا آفیسر ہے اور وہ راستہ جانتا ہے۔ ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے! "

’’نہیں وہ گھو ڑا !‘‘

’’ ابے چلو! اُس سے میں نپٹ لوں گا وہ مجھے نہیں پچھاڑ سکتا!‘‘

’’ کیوں غول چاٹا ! ‘‘دفعتہً ایک انگریز دروازے کے قریب آکر چیخاا ور وہ سب سہم گئے ۔

 قاسم آہستہ سے انگریز کی  طرف بڑھا... اس نے اس کی گردن پکڑ لی اور اُسے اتنی مہلت بھی نہ ملی کہ وہ منہ سے  آواز بھی نکال سکتا۔

پھر اس نے اسے سرسے اونچا اُٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ اس کے منہ سے صرف ایک ہی چیخ نکل سکی۔

’’ آؤ... بڑھو!" قاسم نے پھر انہیں للکارا لیکن انہوں نے اپنی جگہوں سے حرکت بھی نہ کی۔

’’ اچھا !‘‘قاسم بپھر کر انہیں گھونسہ دکھاتا ہوا بولا۔’’ میں جاتا ہوں اور ان سے کہہ دوں گا کہ تم نے اس انگریز کو مار ڈالا ۔ تم جانتے ہو کہ وہ میرا کچھ خیال بھی کرتے ہیں ! ‘‘

’’نہیں نہیں ! " بہت سی آواز میں آئیں اور پھر اُن میں کھسر پُھسر ہونے لگی۔

" ہم تیار ہیں !‘‘ آخر دو تین آدمیوں نے کہا۔

"تو آؤ... اور کچھ دیکھے سنے بغیر اُن پر ٹوٹ پڑو!‘‘

اِدھر دو تین انگریز ، فریدی کو اُس کمرے سے اُٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ اُسے کسی محفوظ جگہ میں بند کر دیں۔ وہ اپنی انتہائی قوت صرف کر رہے تھے لیکن فریدی اپنی جگہ سے ہلنے کا نام بھی نہیں لیتا تھا۔ اچانک اس کا ہاتھ ایک انگریز کی جیب سے ٹکر ایا جس میں اُسے ریوالور کی موجودگی کا شبہ ہوا۔

’’ دیکھو اٹھو ورنہ گولی ماردوں گا! ‘‘دروازے کے قریب کھڑے ہوئے انگریز نے کہا جس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔

اچانک فریدی نے اُن انگریزوں میں سے ایک کو دھکا دیا جو اُسے اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ وہی انگریز تھا جس کے جیب میں فریدی کو ریوالور محسوس ہوا تھا۔ دوسرے ہی لمحے میں اس کا ہاتھ اس کی جیب میں گیا اور باہر نکلتے ہوئے ریوالور کی نال سے ایک شعلہ نکا... دروازے کے قریب کھڑا ہوا انگریز چیخ مار کر ڈھیر ہو گیا۔ بقیہ دو اُچھل کر پیچھے ہٹ گئے ۔

’’خبردار!‘‘ فریدی انہیں ریوالور کی زد میں لیتا ہوا بولا۔

 پانچ مرد اور پانچ عور تیں بے بس کھڑی تھیں ۔

پھر باہر شور سنائی دیا۔ قاسم درانہ اندر گھستا چلا آیا۔ اس کے پیچھے دوسرے آدمی بھی تھے لیکن یہاں کی سچویشن دیکھ کر وہ سب سناٹے میں آگئے ۔

لڑکیوں کے منہ سے خوفزدہ ی چیخیں نکلیں ۔

’’قاسم ! تم واقعی عقلمند ہوا!‘‘فریدی نے کہا۔ ” بس اب انہیں باندھ لو۔ کوئی مرنے نہ پائے !‘‘

’’ واہ! ان سالوں کی تو چٹنی بنے گی !‘ ‘قاسم ہاتھ نچا کر بولا۔

’’نہیں جو میں کہتا ہوں وہ کرو۔ کل اخبارات میں تمہارا نام بڑی شان سے شائع ہو گا !‘‘

’’ اچھی بات ہے!" قاسم لڑکیوں کو گھورتا ہوا بولا۔ ' آپ کہتے ہیں تو میں مانے لیتا ہوں !‘‘

 پھر وہ سب اس طرح پکڑ لئے گئے جیسے مرغیاں پکڑی جاتی ہیں۔

’’لیکن... وہ سالا گھوڑا نہیں ہے! " قاسم نے فریدی سے کہا۔

’’اُسے میں نے پہلے ہی مارڈالا !‘‘ فریدی بولا۔

’’ سنا تم نے !" قاسم مزدوروں کو مخاطب کر کے چیخا ۔’’ فریدی صاحب نے سانوٹے کے بچے کو پہلے ہی ما ر ڈ الا !‘‘

مزدور خوش ہو کر چیخنے  لگے۔

’’ فریدی صاحب !‘‘ قاسم بڑے زور سے چیخا۔ پھر دانت نکال کر مزدوروں سے کہنے لگا۔’’ ابے زندہ باد کہو!‘‘

مزدوروں نے " زندہ باد‘‘ کی ہانک لگائی۔

" کیا بے ہودگی ہے ! ‘‘فریدی کو ہنسی آگئی ۔

قا سم  نے فریدی کو سرنگ کے متعلق بتایا۔ فریدی، قاسم کو وہیں چھوڑ کر سرنگ میں داخل ہوا۔ سرنگ کے بلب اب بھی روشن تھے ۔ فریدی کو یقین تھا کہ ان لوگوں نے بیرونی غاروالے میکنزم کوضرور تباہ کردیا ہوگا ورنہ اب تک حمید وغیرہ ضرور داخل ہو جاتے ۔ وہ سوچ رہا تھا ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ بیرونی غار میں سرمار ہے ہوں ۔

وہ سُرنگ کے آخری سرے پر آکر رُک گیا اور یہاں وہ مشین کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی جس سے سرنگ کا د ہانہ کھولا جاتا۔ فریدی سرنگ کے دہانے پر پے در پے دھمک سی محسوس کر رہا تھا۔ کہیں وہ لوگ اُس پتھر کو توڑنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں ۔ فریدی نے سوچا۔

 اُس نے مشین کے پہئے  کو تھوڑا سا گھما یا۔ ایک پتلی سی دراڑ دیوار میں پیدا ہوگئی۔ دوسری طرف کا شور صاف سنائی دینے لگا اور کئی کدالوں کے پھل دراڑ میں داخل ہو گئے ۔ فریدی نے تھوڑا درّہ اور کیا اور پھر چیخ کر بولا۔’’کیپٹن کہیں گولی نہ مار دینا ۔ میں ہوں فریدی!‘‘

’’فریدی صاحب !‘‘ اُسے حمید کی چیخ سنائی دی۔

’’ ہاں میں ہوں!‘‘ فریدی نے کہا اور پورا دہانہ کھول دیا۔ سب سے پہلے حمید گرتا پڑتا اُس تک پہنچا، پھرکیپٹن ۔

’’افسوس !‘‘ فریدی بولا ۔ ” جیرالڈ یہاں موجود نہیں تھا !"

’’جہنم میں گیا جیرالڈ! "حمید جھلا کر بولا ۔ " آپ اکیلے ہی کیوں گھس پڑے تھے !"

 فریدی نے مختصراً پوری روداد و ہرادی پھر بولا ۔ " میں ذرا اُس گھوڑے کی لاش دیکھوں گا۔ میرا خیال ہے کہ وہ کوئی سائنسی کارنامہ نہیں تھا!"

’’ٹھیک خیال ہے آپ کا !‘‘کیپٹن نے کہا ۔ " اس میں تو بھُس بھرا ہوا تھا۔ اس کے جسم کی کھال پلاسٹک کی ہے اور اس میں بال لگے ہوئے ہیں اور اس کھال کے نیچے  اُس نے بلٹ پروف پہن  رکھے تھے لیکن کمال کی کھال بنائی تھی ، بالکل اصلی معلوم ہوتی ہے!"

’’میں نے بلٹ پروف محسوس کر لئے تھے !‘ ‘فریدی بولا ۔ " اسی لئے میں نے اُس کے چہرے پر فائر کئے تھے ۔ مگر تھا کسی گھوڑے ہی کی طرح طاقتور ۔ خدا کی پناہ!"

 پھر وہ سب اندر آئے ۔ قاسم کی حالت دیکھ کر حمیدہنسی کے مارے گر گر پڑا ۔ قاسم سارے میں اُسے دوڑاتا پھر رہا تھا۔ ایک ایک کر کے قیدی باہر نکالے جانے لگے پھر حمید، فریدی، قاسم اور کیپٹن ان غاروں میں تنہا رہ گئے ۔

فریدی وہاں پہنچا جہاں بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر چل رہا تھا۔ اس نے اُسے بند کر دیا۔ وہ سب باہر آئے۔ دہانے پر تیس مسلح فوجیوں کو تعینات کر دینے کے بعد وہ گھاٹی میں اتر کر اُس خوفناک چٹان کی طرف بڑھنے لگے جواب تک دو آدمیوں کی جانیں لے چکی تھی۔

’’چٹان کے نیچے پہنچ کر فریدی، حمید اور شہاب کے احتجاج کے باوجود او پر چڑھنے کی تیاری کرنے لگا۔

’’فکر نہ کرو!‘‘ اس نے کہا ۔’’ اب یہ بالکل بے ضرر ہے۔ میں اسی لئے جنریٹر بند کر آیا تھا!"

 وہ بندروں کی طرح جھولتا ہوا چٹان کے اوپر پہنچ گیا۔ حمید کا دل دھڑک رہا تھا لیکن اس نے کوئی خوفناک چیخ نہیں سنی ۔ فریدی تھوڑی دیر بعد پھر نیچے آ گیا۔ اس نے کہا۔ ” وہی بات ! جو میں نے پہلے کہی تھی ۔ چٹان پر باریک با ر یک تاروں کا جال سا بچھا ہوا ہے جن میں ہر وقت کرنٹ رہتا تھا اور یہ جگہ انہوں نے ایسے موقعوں کے لئے بنائی تھی جب پولیس اُس گھوڑے کا تعاقب کرے!‘‘

 

15

 

دوسرے دن کے اخبارات کے ضمیمے بہت جلد بازار میں آگئے ۔ پھر اُسی جیرالڈ کی داستان تھی جس کے ذکر سے چھ ماہ پیشتر دنیا کا گوشہ گوشہ گونج اُٹھا تھا۔ غاروں کی داستان تھی جن سے بے اندازہ دولت برآمد ہوئی تھی ۔تین عجوبٔہ روزگار راکٹ دستیاب ہوئے تھے جن کے متعلق خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ آواز سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اوپر جاتے ہیں ۔ فریدی اور حمید کے نام جلی حرفوں سے شائع کئے گئے تھے ۔ قاسم کا بھی تذکرہ تھا جس نے اپنی حکمت عملی سے فریدی کی جان بچانی چاہی تھی ...لیکن خود جیرالڈ ... وہ اس بار بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور دنیا کے لئے ایک خطرہ بدستور باقی تھا۔ اس پاگل آدمی کا بھی تذکرہ تھا جسے جیرالڈ کے گروہ والے اپنا بادشاہ کہتے تھے لیکن اس کی اصلیت کیا تھی یہ کسی کوبھی نہیں معلوم ۔ فیلڈ اور اس کے ساتھی بھی اُس بادشاہ سمیت گرفتار کر لئے گئے تھے مگر سب بے کار۔ اُن کا دماغ تو فرار ہی ہو چکا تھا۔ وہ خطرناک انسان جو تیسری بار بھی اپنے خوفناک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی نئی حرکت کر سکتا تھا۔

اخبارات نے اُس خوفناک چٹان کو’’ موت کی چٹان‘‘ کا نام دیا تھا۔ حضرت سلیمان کے گھوڑے کا راز بھی تھا اور اس کے مقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی۔ آخیر میں وہ بات تھی جس سے فریدی کی جیرالڈ تک رسائی ہوئی تھی ۔ یعنی صمدانی کا قتل ۔ صمدانی کاقتل  جیر الڈ کے آدمیوں نے اُس کی پوشیدہ دولت کے لئے کیا تھا جو کئی سوسونے کی اینٹوں پر مشتمل  تھی۔

انور اور رشیدہ کے منہ حیرت سے کھلے ہوئے تھے۔ انہیں کچھ  پتہ ہی نہ چل سکا کہ کب کیا ہو گیا۔ قاسم نے پھرشیزاں میں ڈیر اجمایا تھا اور وہ  بات با ت پر  انور کو  چھیڑ  رہا تھا۔ رشیدہ  کو اپنی  دلیری  کی جھو ٹی سچی  دا ستانیں  سنا کر کہتا۔ ’’وہ تو فریدی صاحب نے روک دیا تھا اور نہ میں ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑتا !‘‘

 حمید،میجر نصرت کے ساتھ لیکن فریدی... اس کا کہیں پتہ نہ تھا ۔ حمید اُس کے اقامتی غار میں بھی گیا لیکن وہ خا لی پرا  تھا۔  فریدی کا سامان بھی موجود نہیں تھا۔

’’ تواب یہ حضرت جیرالڈ کے چکر میں ہیں !‘‘ حمید نے میجر نصرت سے کہا۔ ’’مگر... فضول اب کوئی اس کی گرد کو بھی نہ پاسکے گا!‘‘

’’مجھے بھی کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے !'' میجر نصرت نے کہا۔’’ مگر یہ فیلڈ وغیرہ کا معاملہ سمجھ میں نہیں آتا۔  دو سر ے لوگوں کو تو ہم محض اس وجہ سے روک سکتے ہیں کہ وہ اُن غاروں میں پکڑے گئے تھے مگر فیلڈ قانونی  کا ررو ائیوں کی دھمکی دیتا ہے اور یہ ہے بھی سچی بات۔ اس کے خلاف ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔ وہ اپنے پاگل  چچا کے علاج کے لئے یہاں آیا تھا۔ ایئر فورس کا ایک آفیسر بھی ہے !‘‘

’’لیکن میں ان لوگوں کی قید میں رہ چکا ہوں !‘‘ حمید نے کہا۔

’’کیا اسے عدالت میں ثابت کر سکو گے؟ ‘‘میجر نصرت بولا ۔

’’نہیں فی الحال تو نہیں لیکن فریدی صاحب ضرور ثبوت پیش کریں گے !"

’’ میرا خیال ہے کہ انہیں فی الحال چھوڑ کر نگرانی میں رکھا جائے!‘‘آپریشن روم کے بوڑھے انچارج نے کہا۔

’’ میں اس کی رائے ہر گز نہ دوں گا" حمید نے آپریشن روم کے انچارج کو گھورتے ہوئے کہا ۔ یہ ایک بوڑھا  اینگلو ا نڈین  تھا اور اپنے کام کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔

’’ کسی شریف آدمی کو محض شبہے  میں رو کے رکھنا اچھی بات نہیں !‘‘ انچارج نے جھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’جی ہاں ۔ وہ لوگ شریف اس لئے ہیں کہ آپ کے ہم قوم ہیں!‘‘ حمید طنزیہ  لہجے میں بولا ۔

’’براہ کرم ذاتیات پر حملہ نہ کیجئے ! ‘‘آپریشن روم کا انچارج بگڑ گیا۔

بات بڑھ جاتی لیکن میجر نصرت نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔

 پھر تھوڑی دیر کے لئے آپریشن روم میں خاموشی چھا گئی۔ انچارج ٹرانسمیٹر وں کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ میجر  نصرت  اور حمید نے پائپ سلگا لئے تھے۔ کمرے کا گہرا سناٹا  عجیب لگ رہا تھا۔ دفعتًہ حمید چونک کرسیدھا ہو گیا اور میجر نصر ت اس اچا نک تبدیلی پر اُسے گھورنے لگا۔

" میں کہتا ہوں... فریدی صاحب غلطی کر رہے ہیں !‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’میں جا نتا ہو ں کہ  جیر الڈ  کہا  ں ہے اور کون ہے  !‘‘

’’تو آپ  اب تک  کیا کر تے  رہے ؟‘‘ میجر نصرت  کے لہجے  میں طنزیہ  تھا۔ حمید اس کی پروا کئے  بغیر  ٹیلیفون  کی طرف جھپٹا  ۔دوسرے لمحے میں وہ شیزاں  ہو ٹل نمبر   ڈائل   کر رہا تھا ۔ ا س نے  انور  سے  را بطہ قا ئم کیا۔

’’ہیلو انور ! میں حمید بول رہا ہو ں۔ کیا مور گن   ہو ٹل  میں مو جو د ہے  ...؟ خوب ... اچھا  تو اسے نگرا نی  میں  رکھو ۔ہم ابھی  پہنچ رہے ہیں !‘‘

وہ ریسیور  رکھ کر  میجر نصرت  کی طرف مڑا اور  اُس نے مو رگن  کے متعلق  سب کچھ بتا دیا ۔ میجر  نصرت  تھو ڑی  دیر  کے لئے   کسی  سوچ  میں پڑگیا تھا  ۔پھر بولا۔

’’بھئی  میں کس طرح  یقین  کرلوں  کہ وہ جیرالڈ  ہی ہے۔ ابھی  فلیڈ ہی   وغیرہ  کا معا ملہ نہیں صا ف ہو ا !‘‘

’’آپ فکر نہ کیجئے !‘‘ حمید نے لا پر وائی سے کہا ۔’’اگر وہ جیر الڈ نہ ہو ا تب  بھی ہما رے  پاس اس کی گر فتار ی کے  معقول  وجوہ مو جود ہو ں گے ۔ وہ  نا جا ئز  اسلحہ اپنے  پاس  رکھتا ہے۔ ایک سب مشین گن رکھنا  معمولی  جرم  نہیں ہے!‘‘

’’یہ تو   ٹھیک ہے !‘‘آپر یشن روم کا انچا رج بولا ۔’’گر فتار ی کے لئے معقول وجہ ہے  ۔ممکن  ہے کہ  جیر الڈ ہی ہو !‘‘

تھوڑی دیر کی بحث و تکرار کے بعد میجر نصرت تیار ہو گیا ۔

’’کیا ریڈیو کا رسا تھ ہو گی؟‘‘ آپریشن روم کے انچا رج نے پوچھا۔

’’کیاضرورت   ہے !‘‘ میجر نصرت لا پر وا ئی سے بولا۔

’’ضرورت ہے !‘‘حمید نے کہا۔’’یہ سوچ کر چلئے کہ آپ جیر الڈ ہی  کے لئے نکلے ہیں۔ اگر وہ نکل گیا تو پھر  ہم ریڈیو کا ر کے بغیر  ہیڈکوارٹر سے  فو راً ہی را بطہ قائم نہ کر سکیں گے!‘‘

آخر آپریشن روم کے انچارج نے ریڈیو کار سنبھالی اور وہ شیزاں ہو ٹل کی طرف چل پڑے ۔اُ ن کےسا تھ  مسلح سپاہیوں کی کثیر تعداد تھی۔

شیزاں ہو ٹل کا محا صرہ کر لیا گیا ۔میجر نصرت اور حمید چند دوسرے آفیسروں کے سا تھ اندار داخل   ہو ئے ۔حمید اوپری منزل  پر جا نے کے لئے ان کی رہنما ئی کر رہا تھا۔ ہو ٹل کا منیجر  تیزقدموں کے چلتا ہوا ان کے  پا س  آیا۔

’’ہمیں ایک مجرم  کی تلا ش ہے!‘‘میجر  نصرت نے کہا اور آ گے بڑھ گیا۔

پھر وہ سب مو رگن کے کمرے کے سا  منے  پہنچ کر رُکے۔کمرہ اندر سے بند تھا۔حمید نے دستک دی۔

دروازہ کھلا۔مورگن سا منے کھڑا  پلکیں جھپکا رہا تھا۔

’’کیا با ت ہے ؟‘‘ اُس نے آہستہ سے پو چھا ۔

’’ اپنے ہا تھ  اوپر  اٹھا ؤ !‘‘ حمید گرج کر بولا۔

’’کیا یہ ضروری ہے ؟‘‘ مو رگن  کے ہو نٹوں پرایک تلخ سی مسکراہٹ تھی۔

’’تمہا رے پاس  نا جا ئز   اسلحہ ہے !‘‘ حمید بولا۔

’’اچھا تو پھر  ؟‘‘ مورگن  کی  مسکر اہٹ بد ستور  قا ئم  رہی ۔ایسا معلوم ہو رہا تھا  جیسے وہ کسی  دلچسپ  مذاق  سے لطف اندوز ہو  رہا  ہو  لیکن  اب اُس نے ہا تھ   اوپر اٹھا لئے  تھے۔حمید  اُسے دھکا  دیتا ہوا  کمرے میں گھسا  اور اُس  نے وہی سو ٹ کیس کھو ل ڈالا  جس  میں اس سے قبل  اس نے  مشین گن  دیکھی تھی  ۔مشین گن مو جود تھی  ۔اُس نے فا تحانہ   قہقہہ لگایا۔

’’یہ کیا  ہے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا۔

’’ایک سب مشین گن  کی نقل  !‘‘مورگن لا  پروا  ئی سے بولا۔’’میں مداری ہوں او ر یہ ایک  کھلو نا ہے جسے  میرا  پا لتو  طو طا  تماشا ئیوں کے مجمعے  میں چلا تا  ہے اور یہ ساری  کی ساری لکڑی کی بنی ہو ئی ہے ۔کیا تمہیں ہلکی نہیں معلوم ہو تی!‘‘

وہ وا قعی بہت ہلکی  تھی۔ حمید کے پیروں  تلے زمین نکل گئی۔

’’طوطے  کا پنجرہ  اُدھر  میزکی  اوٹ  میں رکھا ہو اہے ۔میرے پاس  باز  یگری  کا او ر بہت  سا مان  بھی موجود ہے  جو تلا شی لینے پر بہ آسانی دستیاب ہو سکتا  ہے!‘‘مورگن  کے لہجے میں تمسخر تھا۔ اس نے کہا   ۔’’میں  ایک پیشہ  ور مداری  ہو ں اور  آپ کے شہر  کی اونچی  سو سا ئٹیوں میں بہت عرصے سے  اپنے کر تب دکھا  رہا ہوں۔میں آپ کو دو چار  پتے  دے سکتا  ہوں آپ  اُن سے دریا فت کر لیجیئے!‘‘

جلد ی جلدی کمرےکی تلا شی  لی گئی  اور جیسا کہ مو رگن  نے کہا تھا  ،شعبد ہ بازی کے سامان  کے علاوہ  اور کچھ بھی نہ نکلا ۔اس دوران میں ایک  آفیسر  اُس مشین  گن کو  چا قو  سے چھیلنے لگا تھا۔وہ سچ مچ لکڑی  ہی کی ثا بت  ہو ئی  ۔آفیسروں نے اپنے  ریوالور  جیب میں ڈا ل لئے ۔میجر نصرت  ،حمید  کو برا بھلا کہہ رہا تھا ۔

آپریشن روم کے ا نچارج  کا قہقہہ سب سے  زیادہ  تیز اور بلند تھا۔

’’آپ کو بہت ہنسی آرہی  ہے!‘‘مورگن  نے اُس سے کہا۔’’یقینا ًآپ میرے دوسرے  کر تب  دیکھ کر  بہت زیادہ  محفوظ ہو ں گے!‘‘

اچانک  مورگن نے اپنی پتلون  کی جیبوں  سے دو ریوالور  نکال لئے۔ایک  کا رُخ پو لیس آفیسروں کی طرف  تھا اور دوسرے کا آپریشن  رو م کے انچارج  کی طرف۔

’’آپ سب براہِ کرم  اپنے ہا تھ اوپر اُٹھا لیجئے ۔یہ ریوالور نقلی نہیں ہیں !‘‘ مورگن نے کہا۔

’’اب جھک ما ر یئے آپ لوگ!‘‘حمید بے سا ختہ ہنس پڑا ۔’’میں تو اُلّو تھا !‘‘

’’تم  اب بھی اُ لّو ہو !‘‘پھر اُس نے آپریشن روم کے انچارج سے کہا ۔’’کیا تم اپنا سیا ہ چشمہ نہیں اتارو گے!‘‘

آپریشن روم کا  انچو ارج بو کھلا گیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے وہ بھاگنا چاہتا ہو ۔

دفعتہً مو رگن کے ریو ا لور  سے ایک شعلہ نکلا۔گولی آپریشن روم کے انچارج کی ران میں لگی اور وہ لڑ کھڑا کر گر پڑا۔قبل اس کے کہ آفیسر ہوش میں آتے  ،انہیں فریدی کی آواز سنا ئی دی۔

’’کوئی حما قت نہ ہو...جیر الڈ ہے!‘‘

آپریشن روم کے انچارج نے پھر اُٹھ کر بھا گنے کی کو شش کی لیکن  اس بار حمید اس پر ٹو ٹ پڑا۔

لوگ حیرت زدہ کھڑے مورگن  کو گھو ر رہےتھے ۔اُس نے اپنے چہرے سے پلا سٹک  کا ایک  خول سا اُتار دیا۔اب اُن کے سامنے فریدی  کھڑا تھا۔

اُس نے حمید کو  الگ کر کےجیر الڈ کو گریبان  سے پکڑ کر اٹھایا اوربولا۔ " تم طاقت کے پجاری  ضرور ہو لیکن  حقیقتاً تم میں  اتنی طاقت  نہیں ہے کہ تم فریدی  کے جسم  و دما غ  سے ٹکرا سکو۔ جب تمہارا  ذہن جواب دے جائے تو یہی سمجھو کہ تم ایک کیچوئے  سے بھی  زیادہ حقیر ہو۔ پچھلی بارتم مجھے ایک چوہے کی طرح بند کیا تھا اور آج  میں تمہیں ایک چیو نٹی کی طرح مسل رہا  ہوں۔میں نے پچھلی  ہی رات  کو تمہیں پہچان لیا  تھا جب  تم آپریشن  روم سے میری کا میابی کے  متعلق خبریں نشر کر  رہے تھے۔ تم نے  ایک بار بے خیالی میں  عینک اتار کر اپنی آنکھیں صاف تھیں او ر میرے  لئے  اتناہی کافی تھا۔ جیرالڈ میں تمہیں کھلا کھلا کر مارنا چاہتا تھا تا کہ مرنے سے پہلے کم از کم ایک ہی بارتم خود کو حقیر محسوس کر سکو !مگر میرے گد ھے حمید نے  باری سے کام لیا!‘‘

’’لیکن یہ تو سا لہا سال سے!‘‘ میجر  نصرت  ہکلا یا۔

’’میں جانتا ہوں ! ‘‘فریدی سر  ہلا کر بولا ۔’’سا لہا  سال والا انچارج  دوسری  دنیا میں پہنچ چکا ہے ۔غا لبا ً اس کی آنکھیں ایسی  تھیں کہ وہ روشنی میں تاریک چشمہ لگائے بغیر  کام نہیں کر  سکتا تھا!“

’’ٹھیک ہے!" ایک آ فیسر  بولا۔

’’جیرالڈ نے اس اس  کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ یہ بے  چارا  بھیس تو بدل سکتا ہے لیکن  اپنی مخصو ص قسم کی  آنکھوں  کو کسی طرح  نہیں  چھپا سکتا۔کیوں جیر الڈ!‘‘

 

جیرالڈ کچھ نہیں بولا۔ اس  کی ران  کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی  لیکن وہ ایک ہی تنا کھڑا تھا۔ اچانک وہ اپنا  سینہ کھجا نے لگا اور پھر  ایک زوردار دھماکہ ہوا ۔کئی چیخ بلند ہو ئیں پھر جنھیں ہوش رہ گیا  تھا انہوں نے جیرالڈ کے سینے کی جگہ ایک  بہت بڑا غار دیکھا۔ فریدی دوسری  طرف فرش پر پڑا  ہا تھ  پیر مار ہا تھا اوراس کا  سارا جسم خون سے تر ہوتا جار ہا تھا۔ کئی آفیسروں کے جسموں اور چہروں پر بھی خون نظر  آرہا تھا... حمید کا داہنا ہاتھ جھلس گیا تھا۔

 

16

 

دوسرےدن ہسپتال  میں ملک  کی معزز ہستیاں  فریدی  کے بستر کے گرد ا کٹھا تھیں...فریدی کا پورا جسم  پیٹوں سے ڈھکا ہو ا تھا  لیکن  اس کے با و جود  بھی اس کے چہرے  پر نقا ہت  کے آثا ر نہیں تھے۔

وہ کہہ رہا تھا ۔’’انتہائی چالا کیوں کے باوجود بھی میں دھو  کہ کھا گیا۔ مجھے نہیں  معلوم تھا کہ وہ  اپنے سینے میں ایک  چھو ٹا سا بم  چھپا ئے  ہو ئے ہے۔کھجا نے  کے بہا نے  اُس نے اس کا  سیفٹی  کیچ  ہٹا دیا تھا !‘‘

’’لیکن تم  نے خطرہ ناحق مول لیا تھا!‘‘ اس کے ڈی آئی جی نے کہا جو آج ہی  بذریعہ ہوائی جہاز رام پہنچا  تھا ۔

’’آپ میری افتاد طبع سے بخوبی وا قف  ہیں۔ میں ڈرامائی انداز   میں کا م  کر نے کا  عادی ہوں... لیکن اس پر جب بھی اور  جہاں بھی  ہاتھ ڈالا جاتا  وہ یہی کرتا۔ بم ساتھ لئے  پھرنے کا  یہی مطلب تھا کہ وہ خود مایوس چکا  تھا  ور  اسے یقین  تھا کہ اب  خطرے ہے۔ اگر آپریشن روم میں بھی  گرفتار کرتا  تو نتیجہ یہی ہو تا ۔ ظاہر  ہے کہ آپ کسی  قیدی  کو اس کا جسم  کھجا نے  سے تو باز نہیں رکھ سکتے !‘‘

’’لیکن تمہاری مو جو دہ حالت کتنی  تشویش نا ک ہے !‘‘ ڈی آئی  جی  نے بزرگانہ انداز  میں کہا ۔

’’اوہ ...آپ  اس کی فکر نہ کیجئے ۔جب تک میری  قوتِ ارادی بر قرار ہے میں مَر نہیں سکتا !‘‘

"اچھا اب تم آرام کرو!‘‘ ڈی آئی جی نے کہا۔

’’ٹھہریئے !‘‘ فریدی اپنا پیٹوں سے ڈھکا ہو ا ہا تھ اُٹھا کر بو لا ۔’’ اس سلسلے کی سب سے زیادہ اہم  اور دلچسپ کڑی تو رہ ہی گئی!‘‘

وہ سب تو جہ  اور دلچسپی  سے  فریدی کی طرف دیکھنے لگے۔

فریدی  نے میجر  نصرت کو مخا طب  کر کے کہا ۔’’کیا آپ  نے اس  دیو ا نے  کی دا ڑھی  اور مو نچھیں صاف  کرا دیں ؟‘‘

’’ہاں ...وہ تو  کل ہی ...لیکن !‘‘

’’ٹھہریئے !‘‘ فریدی  تکئے کے نیچے  ہا تھ ڈا ل کچھ  ٹٹو لتا  ہوا بو لا ... پھر اُس   نے ایک  تصویر  نکال کر اُن کے  سا منے ڈا ل دی۔

’’یہ تو اُسی  کی تصویر  ہے !‘‘ میجر نصرت بے سا ختہ  بولا۔

’’اور آپ جا نتے  ہیں یہ کون ہے ؟‘‘

’’نہیں !‘‘

’’یہ سجاد صمدانی  ہے !‘‘

’’کیا ...؟ ‘‘ سب بیک وقت بو لے۔

’’جی ہاں ...وہ سا لہا سال سے ان لوگوں کے قبضے میں تھا ۔انہوں نے  کسی طرح  سے اس کا دما غ  ماؤف کر دیا  تھا وہ اپنی پچھلی شخصیت بھول گیا تھا لیکن دستخط سجاد صمدانی ہی کے  کرتا تھا۔  کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ۔ وہ اپنے وہی پرانے دستخط کرتا تھا لیکن اس غریب کو اپنا نام تک یاد نہیں رہ  گیا تھا۔ اس طرح جیر الڈ  اُس کے کاروبار پر  قابض تھا ۔سجاد کے  ملازمین اسے سجاد کی جھک سمجھتے تھے کہ وہ تین  سال سے ان  کے سامنے نہیں آیا۔ بہر حال اس کے  دستخط  اصلی  تھے اور انہی دستخطوں کی بنا پر سجاد صمدانی  کی دولت جیرالڈ  کے ہاتھ لگتی  رہتی تھی اور صمدا نی کے قتل سے اُس نے بہت  بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ اب صمدا نی کا کا روبار سجادہی کی طرف منتقل ہو جائے گا ۔میں نے اس کیس کے دوران میں کئی بار یہ دوسروں سامنے بھی رکھی تھی کہ اگر مجرم صرف سونے کی ا ینٹیں  ہی حاصل  کر نا  چاہتے تھے صمدانی کو اتنے پراسرار  طریقے پر قتل  کرنے کیا ضرورت تھی... میرے خدا اب میں سو چتا  ہوں تو حیرت  ہو تی ہے۔ اگر صمدانی کی  سکریٹری  سے مسٹر براؤن کےنام  تار روانہ کرنے کی حماقت سرزد نہ ہوئی تو ہم اب تک تاریکی ہی میں  سرمارتے نظر آتے ۔ پھر میں نے میجر نصرت  اس تار کے متعلق فون کیا۔ ظاہر ہے کہ جیر الڈ آپریشن روم کا انچارج تھا ۔ اسے  میری اس  کال کی اطلا ع  ملی... اور اُس نے اپنی  پہلی ہی فرصت میں صمدانی  کی سکر یٹری  کو قتل کر دیا  جو اسی کے گروہ تعلق رکھتی تھی  لیکن اب  پولیس کی نظروں پر چڑھ گئی تھی ۔‘‘

میجر نصرت نے مورگن  کی مصروفیات کے متعلق پوچھا۔

’’وہ شروع ہی سے فریدی تھا !‘‘فریدی مسکرا  کر بولا۔ ’’میں اس کیس کے سلسلے میں بہت  پا پڑ  بیلے ہیں ۔یہ حقیقت  ہے کہ میں انگریز شعبدہ باز کے بھیس میں یہاں کی اونچی سوسائٹیوں میں بھی اٹھتا بیٹھتا رہا ہوں ۔مقصد  کس نہ کس طرح جیرالڈ پہنچنا تھا۔ بہر حال ایک دن حمید کو مجھ پر  شبہ ہو  گیا  اور وہ گدھا میری ہی نگرانی کرنے لگا۔ میں نے سوچا  چلو تفریح ہی رہے گی۔ میں اس کی  نظروں میں روز بروز پُر اسرار بنتا گیا اور آخر اس سے یہ  حماقت  ہو گئی!‘‘

 فریدی ہنسنے  لگا۔ دوسرے بستر پر حمید ا کڑوں بیٹھا اسے کھا جانے والی نظروں گھور رہا  تھا لیکن وہ کچھ بولا نہیں ۔؎

  جیرالڈ کے انجام کی خبر ساری دنیا میں پھیل چکی تھی اور ہر طرف سے حکومت کے نام مبارکبادی کے تار موصول ہورہے  تھے۔

بہر حال  ایک ایسے  دیو انے  کتّے کے مر جا نے  سے کسے خو شی  نہیں جو ساری  دنیا  پر سا ئنسی  تبا ہی  لا نے  کے  منصو بے ب ندھ رہا تھا۔

اس بار فریدی حمید کو  کرنل اور کیپٹن کے فو جی  اعزاز قبول کر نے ہی پڑے جو ایک سرکاری تقریب میں انہیں تفویض کئے گئے تھے ۔ اس تقریب  میں ملک کی چو ٹی کی ذ مہ دار ہستیاں شریک ہو ئی تھیں ۔قاسم کو ایک  تمغہ ملا...یہ بھی  فو جی ہی  نو عیت کا تھا ۔

لیکن وہ اب بھی  اس تگڑی سی  عورت  کو یاد کر کے اکثر آبدید ہ  ہو جا تا  ہے جو اسے جیرالڈ کی زمیں  دوز دنیا  تک  لے گئی تھی...انور  کو شا ید  زندگی بھر  اس کا افسوس رہے  کہ فریدی  نے اس سے اس کیس  میں کوئی کا م نہ لیا ... سجاد صمدانی  بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج  تھا لیکن کسی  کو بھی  تو قع  نہیں کہ وہ  کبھی اچھا ہو سکے گا ۔

 

Post a Comment

0 Comments