شہرآشوب-نظیرؔاکبر
آبادی
Shahr Ashob By Nazeer Akbarabadi
ہے اب تو کچھ سخن کا
مرے کاروبار بند
رہتی ہے طبع سُوچ میں
لیل و نہار بند
دریا سخن کی فکر کا ہے
موج دار ،بند
ہوکس طرح نہ مُنہ میں زباں باربار بند
جب آؔگرے کی خلق
کا ہو روز گار بند
بےروز گاری بے یہ
دکھا ئی ہے مُفلسی
کو ٹھے کی چھت نہیں ہے، یہ چھا ئی مُفلسی
دیوار و در کے
بیچ سمائی ہے مُفلسی
ہر گھر میں اِس
طرح سے بھر آئی ہے مُفلسی
پانی کا ٹو ٹ
جاوے ہے جوں ایک بار بند
اور بے زری میں ،گھر کا ، نہ باہر کا بندو بست
آقا کا انتظام
،نہ نوکر
کا بندو بست
مفلس جو مفلسی میں
کرے گھر میں بندو بست
مکڑی کے تارکا
ہے وہ نا استوا ربند
کپڑا نہ گھڑی بیچ ،نہ تھیلی
میں زرر ہا
خطرہ نہ چور کا، نہ اُچکّے
کا ڈر رہا
رہنے کو بِن کو اڑ کا پھو ٹا کھنڈر رہا
کھنکھار ،جاگنے کا،نہ مطلق اثر رہا
آنے سے بھی جو
ہو گئے چورو چکار بند
اب آؔگر ے میں جتنے
ہیں،سب لوگ ہیں تباہ
آتا نظر کسی کانہیں
کا ایک دم بناہ
ما نگو عزیزو،ایسے
بُرے وقت سے پناہ
وہ لوگ ایک کو
ڑی کے محتاج اب ہیں آہ
کسب وہُنر کے یاد ہیں جن کو ہزار بند
صرّاف ،بنیے ،جو
ہری،اور سیٹھ،ساہوکار
دیتے تھے سب کو نقد
،سو کھا تے ہیں اب اُدھار
بازار میں اُڑےہے پڑی
خاک بے شمار
بیٹھے ہیں یوں
دُکانوں میں اپنی دُکان دار
جیسے کہ چور
بیٹھے ہوں قیدی،قطار بند
سو دا گروں کو سود ،نہ
بیوپار ی کو فلاح
بزّاز کو ہے نفع ،نہ پنساری کو فلاح
دلاّل کو ہے یافت ،نہ بازاری کو فلاح
دُکھیا کو فائدہ ،نہ
پسنہاری کو فلاح
یاں تک ہوا ہے
آن کے لو گوں کا کار بند
مارے ہیں ہاتھ ہاتھ
پہ سب یاں کے دست کار
اور جتنے پیشے دار
ہیں ،روتے ہیں زارزار
کو ٹے ہے تن لُہار ،تو پیٹے ہے سر سُنار
کچھ ایک دوکے کام کا
رونا نہیں ہے یار
چھتّیس پیشے والوں کا ہے کاروبار بند
بیٹھے بساطی راہ میں
تنکے سے چُنتےہیں
جلتے ہیں نان بائی،تو
بھڑ بھو نجے بُھنتے ہیں
دُھنیے بھی ہاتھ ملتے
ہیں اور سر کودُھنتے ہیں
روتے ہیں وہ جو شروع
ودارائی بُنتے ہیں
اور وہ تو مر
گئے جو بُنیں تھے اِزار بند
لُوٹے ہیں گرد وپیش
جو قزّاق ،راہ مار
بیوپاری آتے
جاتے نہیں ڈر سے زنیہار
کُتوال روویں،خاک
اُڑاتے ہیں چوکیدار
ملاّحوں کا بھی
کام نہیں چلتا،میرے یار
ناویں ہیں گھا ٹ
گھا ٹ کی سب وار پار بند
ہر دم کماں گرون کے اُپر پیچ و تاب ہیں
صحّاف اپنے حال میں غم
کی کتاب ہیں
مرتے ہیں مینا ساز
،مصّور کباب ہیں
نقّاش،اِن سبھوں سے
زیادہ خراب ہیں
رنگ و قلم کے ہو گئے نقش و نگار بند
بیچیں تھے وہ جو
گوندھ کے پھولوں کی بدّھی ،ہار
مُرجھارہی ہے دل کی
کلی ،جی ہے داغ دار
جب آدھی رات تک نہ بکی
جنسِ آب دار
لاچار پھر وہ ٹوکری
اپنی زمیں پہ مار
جاتے ہیں ، کر
دُکا ن کو آخر وہ ہار ،بند
ڈمرو بجا کے وہ جو
اُتارےمیں زہرِ مار
آپی وہ کھیلتے ہیں ہلاسر،زمیں پہ مار
منتر توجب چلے کہ
جوہو پیٹ کا اَدھار
جب مُفلسی کا سانپ ہو اُن کے گلے کا ہار
کیا خاک پھر وہ
باندھیں کہیں جاکے ماربند
پھر تے ہیں
نوکری کو جوبن کر رسال دار
گھو ڑے کی ہے لگام
،نہ اونٹوں کی ہے مہار
کپڑا نہ لتّا ،پال نہ
پرتل،نہ بوجھ بھار
یوں ہر مکاں میں آکے
اُترتے ہیں سوگ وار
جنگل میں
جیسے دیتے ہیں لاکر اُتار ،بند
محنت سے ہاتھ پانوکی
،کو ڑی نہ ہاتھ آئے
بے کار کب تلک کوئی
قرض واُدھارکھائے
دیکھو جسے،وہ کرتا ہے
روروکے ہائے ہائے
آتا ہے ایسے حال پہ رونا ہمیں تو ہائے
دشمن کا بھی خدا
نہ کرے کارو باربند
آمد نہ خا دموں کے
تئیں مقبروں کے بیچ
بامھن بھی سر
ٹپکتے ہیں سب مندروں کے بیچ
عاجز ہیں علم والے بھی سب
مدرسوں کے بیچ
حیراں ہیں پیرزادے بھی اپنے گھروں کے بیچ
نذرو نیاز ہوگئی
سب ایک بار بند
اِس شہر کے فقیر
،بھکاری جو ہیں تباہ
جس گھر میں جا
سوال وہ کرتے ہیں خو اہ مخواہ
’’بھو کے ہیں، کچھ
بِھجائیو بابا خدا کی راہ‘‘
واں سے صدایہ آتی
ہے’’ پھر مانگو‘‘جب تو آہ
کرتے ہیں ہو نٹھ
اپنے، وہ ہو شرمسار،بند
کیا چھو ٹے کام
والے،وکیا پیشہ رونجیب
روزی کے آج ہاتھ سے
عاجز ہیں سب غریب
ہو تی ہے بیٹھے بیٹھے
جب آ، شام، عن قریب
اُٹھتے ہیں سب
دُکان سے کہ کر کہ ’’یا نصیب!
قسمت ہماری ہوگئی بے اختیار بند ‘‘
قسمت سے چار پیسے
جنھیں ہاتھ آتے ہیں
البتّہ روکھی سوکھی
وہ روٹی پکاتے ہیں
جو خالی آتے
ہیں، وہ قرض لینے جاتے ہیں
یوں بھی نہ پایا کچھ
،تو فقط غم ہی کھا تے ہیں
سو تے ہیں،کر
کواڑ کو اک آہ مار،بند
کیوں کر بھلا نہ ما
نگیے اِس وقت سے پناہ
محتاج ہوجو پھرنے لگے
دربدرسپاہ
یاں تک امیر زادے ،سپاہی،ہوئے تباہ
جن کےجِلَو میں چلتے
تھے ہاتھی و گھو ڑے آہ
وہ دو ڑتے ہیں،
اور کے پکڑے شکار بند
جو گھو ڑا اپنا بیچ
کے،زیں کو گرور کھیں
یا تیغ اور سپر کو
لیے چوک میں پھریں
پٹکا جو بکتا آوے ،تو
کیا خاک دے کےلیں
جب پیش قبض بک کے،پڑے روٹی پیٹ میں
پھر اُس کا
کون مول لے وہ لچّھے داربند
جتنے سپاہی یاں
تھے،نہ جانے کدھر گئے
دکھّن کے تئیں نکل
گئے،یا پیش ترگئے
ہتھیاربیچ ،ہو کے گدا،گھر بہ گھر گئے
جب گھو ڑے بھا لے
والے بھی یوں ،دربہ در گئے
پھر کون پوچھے
اُ ن کو ،جواب ہیں کٹار بند
ایسا سپاہ مرد کا دشمن زمانا ہے
روٹی سوار کو ہے ،نہ
گھو ڑے کے دانا ہے
تنخواہ ،نہ طلب ہے،
نہ پینا، نہ کھانا ہے
پیادے دُوال بند کا پھر کیا ٹھکانا ہے
دردر خراب پھرنے
لگے جب نقار بند
جتنے ہیں گرج آؔگرے میں کار
خا نہ جات
سب پر پڑی ہے آن کے روزی
کی مشکلات
کس کس کے دکھ کو رو
یئے ،اور کس کی کہیے بات
روزی کے اب درخت کاہلتا
نہیں ہے پات
ایسی ہو
اکچھ آکے ہوئی ایک بار بند
ہے کون سا وہ دل جسے
فرسودگی کی نہیں
وہ گھر نہیں کہ روزی کی نابودگی نہیں
ہر گز کسی کے حال میں
بہود گی نہیں
اب آگرے کے نام کو آسود گی نہیں
کو ڑی کے آکے
ایسے ہو ئے رہ گذار بند
بے وا رثی سے آگؔرہ
ایسا ہو ا تباہ
پھو ٹی حو یلیاں ہیں،تو ٹو ٹی شہر پناہ
ہو تا ہے باغ
باں سے ہر اک باغ کا نباہ
وہ باغ کس طرح نہ
لُٹے ،اور نہ اُجڑے آہ
جس کا نہ باغباں
ہو، نہ مالی، نہ خار بند
کیو ں یارو،اِس مکاں
میں یہ کیسی چلی ہِوا
جو مُفلسی سے
ہوش کسی کا نہیں بجا
جو ہے ،سواسِ ہَوا
میں دوانہ سا ہورہا
سودا ہوا مزاجِ زما
نہ کو یا خدا
تو ہے حکیم
،کھول دے اب اِس کے چار بند
عا شق کہو،اسیر
کہو،آگرے کاہے
مُلاّ کہو،دبیر
کہو،آگرے کا ہے
مفلس کہو ،فقیر کہو،آگرے کا ہے
شاعر کہو،نظیرؔ
کہو،آگرے کا ہے
اِس واسطے یہ اُ
س نے لکھے پانچ چار بند
0 Comments