آئینہ–نظیرؔاکبرآبادی
Aaina By Nazeer Akbarabadi
لےآئینے کو ہا تھ
میں، اور بار بار دیکھ
صورت میں اپنی ،قدرت
پر وردگاردیکھ
خال ِسیاہ اور خطِ
مشک بار دیکھ
زلفِ دراز وطرّۂ
عنبر نثار دیکھ
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
آئینے کیا ہے؟جان،
تراپاک صاف دل
اور خال کیا ہیں؟ تیرے سو
یدا کے رُخ کےتل
زلفِ ددراز ،فہمِ
رساسے رہی ہے مل
لاکھوں طرح کے پھول
رہے ہیں تجھی میں کھِل
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
مشکِ تتارو مشکِ
ختن بھی تجھی میں ہے
یاقوتِ سرخ ولعلِ یمن
بھی تجھی میں ہے
نسرین و مو تیا و
سمن بھی تجھی میں ہے
القصّہ کیا کہوں
میں، چمن بھی تجھی میں ہے
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
مُشکِ ختن ہے کیا
،تری زلفِ پُرشکن
یا قوت و لعل کیا ہیں ،یہ تیرے لب
و دہن
اور موتیا ہے کیا،ترے دنداں گُہرنمن
باغ و چمن
ہے کیا،یہ سرا پا ترا بدن
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
سورج مکھی کے گُل کی
اگر دل میں تاب ہے
تو اپنے مُنہ کو دیکھ ،کہ خود آفتاب ہے
گُل اور گُلاب کا بھی
تجھی میں حساب ہے
رُخسار تیرا گُل ہے،پسینا گلاب ہے
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
نر گس کے پھول
پر تو نہ اپنا گمان کر
اور سروسے بھی دل نہ لگا اپنا جان کر
اپنے سوا ،کسی
پہ تو ہر گز نہ دھیان کر
یہ سب سمار ہےہیں میں تو آ ن کر
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
نر گس وہ کیا
ہے،جان،تری چشمِ خوش نگاہ
اور سرو کیا
ہے، یہ ترا قدِّ دراز ،آہ
گر سیرِ باغ چاہے ،تو
اپنی ہی
کر تو چاہ
حق نے تجھی
کوباغ بنا یاہے، واہ واہ
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
بیلا،گلاب،سیو تی
،نسرین و نسترن
داؤدی،جو ہی
،لالہ ورا بیل و یا سمن
جتنی جہاں میں
پھولی ہے پھو لوں کی انجمن
یہ سب تجھی میں پھول
رہے ہیں چمن چمن
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
باغ وچمن کے غنچہ و
گل میں نہ ہو اسیر
قمری کی سن
نفیر ،نہ بلبل کی سن صفیر
اپنےتئیں تودیکھ کہ
کیا ہے ارے نظیرؔ
ہیں حرف ِ مَن عَرَف
کے یہی معنی،اے نظیرؔ
ہر لخطہ اپنےجسم
کے نقش ونگار دیکھ
اےگُل ،تو اپنے حسن کی
آپی بہار دیکھ
1 Comments
واہ واہ۔۔۔۔دور قدیم میں بھی یہ نظیر کا ھی حوصلہ ھو سکتا تھا کہ یہ انسان کو اپنے بدن کے . نقش . و . . نگار . أینے میں دیکھنے کی تلقین کر رھے ھیں۔۔یہ وہ دور تھا جب مرد ذیادہ آیینہ دیکھنے کو معیوب سمجھتے تھے اور خواتین گھونگھٹ کاڑھے رہتی تھیں۔
ReplyDelete