بد
گمانی اور اس کا علاج
Badgumani
aur iss ka Ilaj
قا رئین کرام ! نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر مومن کے ساتھ نیک گمان رکھو اور بد گمان سے بچو اس لئے کہ بد گمان بہت
بڑا جھوٹ ہے ، علما ئے ربا نین نے اس حدیث کی تشریح کر تے ہوئے لکھا ہے کہ اگر آپ کو کسی سے بد
گمانی کرنے کے لئے ننانوے دلائل مل جائیں لیکن اس کے ساتھ ایک دلیل حسن ظن کی بھی
مل جائے تو عافیت اسی میں ہے کہ اس دلیل کو سامنے رکھ کر اسی پر عمل کرو اور بد
گمانی کے جو ننانوے دلائل ہیں ان کو چھوڑ دو اور کسی سے بدگمان نہ ہو ، کیونکہ کسی
کی طرف سے بھی بد گمان رہنا نہایت گری ہوئی بات ہے، مزید یہ کہ بد گمان رہنے والے
شخص سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہایت غصہ میں کہیں گے کہ اے شخص بتا تو دوسروں کی
طرف سے بلا وجہ بد گمان رہتا تھا بتا تیرے پاس کیا دلائل تھے وہ شخص خاموش ہوگا
کیو نکہ وہ تو بلا وجہ ہر ایک سے بدگمان
ہو جاتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر مقدمہ دائر کریں گے اور
اس کے بر خلاف اگر کسی شخص نے بد گمانی کے دلائل ہونے کے با وجود کسی شخص سے اچھا گمان
کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو بے پناہ انعامات سے نوازیں گے ۔
تو ذرا دیکھیں کہ آج کے ماحو ل میں
آج کے وقت میں بد گمانی کا مرض اتنا بڑھ چکا ہے ؟لوگ کسی دشمن سے نہیں بلکہ آج
کے وقت میں تو والدین بچوں سے بد گمان تو بچے بھی والدین سے پر یشان ، شوہر اپنی
بیوی سے بد گمان تو بیوی بھی لگائے شوہر پر ہزاروں بہتان۔اساتذہ سے اچھا گمان
رکھیں یہی وجہ ہے کہ آج معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے ،میاں بیوی کے بد
گمان ہونے کی وجہ سے سچا سچایا چہکتا مہکتا خوشیوں سے بھرا گھر آنگن دو منٹوں مین
تباہ وبر باد ہو جاتا ہے ، کچھ گھروں میں تو مرد عورت کا کردار واقعی مشکوک ہے مگر
اکثر گھر ایسے ہیں کہ جہاں صرف عورت اپنے شوہر کو کسی اچھے طریقے سے ہنستے بولتے
دیکھ لے یا زیادہ کام ہونے کے باعث دیر سے گھر آئے یا اپنی کسی ذاتی پریشانی کی
وجہ سے اپنی بیوی سے کچھ کم گفتگو کرے بس محبت کی دعویدار بیوی ہو گئی بد گمان
،ہزاروں ایسے برے خیال اپنے دل میں لے آئی کہ بس توبہ، جب کہ ایسی بیوی کے لئے یہ
بات ضروری ہے کہ جب تک اسے اپنے شوہر کی طرف سے کسی غلط بات کا یقین دلائل وثبوت
کے ذریعہ نہ ہو جائے وہ اپنے شوہر کے بارے میں بد گمان ہونا تو دور کی بات غلط تصور
بھی نہ کرے ، اور اگر وہ بنا تحقیق اپنے شوہر پر الزام لگاتی ہے تو سخت گنا ہگار
ہے، بالکل یہی معاملہ مرد کے لئے ہے کہ جب تک اسے اپنی بیوی کے غلط ہونے کا یقین
ثبوت سے نہ ہو جائے تو وہ اپنی زبان نہ کھولے ورنہ وہ بھی سخت گنا ہ گار ہو گے ،
محض غلط گمان کی وجہ سے بڑے بڑے فیصلے نہ کرے بیوی یہ سوچے کہ اگر میرا شوہر کسی
عورت سے ہم کلام ہوا ہے وہ کسی سے مل کر ہنستا ہے تو اس کے پیچھے کوئی مصلحت تو
نہیں ہے اور اگر اتنا بھی برداشت نہ ہو تو بد گمان ہونے سے پہلے اپنے شوہر سے
نہایت محبت بھرے انداز میں معلوم کر لے کہ یہ کیا مصلحت ہے، ایسے ہی اگر آپ کے شوہر دیر سے آتے ہیں پریشان نظر
آتے ہیں تو بدگمان ہونے کے بجائے ان کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کریں بلکہ ہر
غلط بات جس سے بدگمانی پیدا ہو اس کے ذہن میں آتے ہی اس کو نکال دیں اور پہلے
آپس میں معلومات کرلیں اس سے آپ کو دو فائدے ہوں گے، ایک تو بدگمان ہونے سے بچ
جائیں گی دوسرے آپ کے شوہر کے دل میں آپ کی محبت بڑھ جائے گی۔اور آپ گناہ سے بچ
کر مزید ثواب حاصل کریں گی، بالکل ایسا ہی معاملہ ہمیں ہر اس شخص کے ساتھ رکھنا
چاہیے جس کے بارے میں ہمارے دل میں غلط خیال آجاتا ہے یا جس کو دیکھ کر ہم بد
گمان ہو جاتے ہیں ہمیں کسی کو بھی کوئی ناز یبا لفظ یا کوئی دل دکھانے والی بات نہیں کہنی چاہیے ،ورنہ ہم گناگار
ہوں گے ،حالانکہ آج مسلم معاشرے کا یہ حال ہے
کہ دوسروں کی باتوں پر بنا کسی تحقیق اور معتبر ذرائع سے گناہ کا شکار ہو
جاتے ہیں ایک تو بدگمانی کا دوسرے کسی کے دل دکھانے کا۔
اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے بد گمانی سے
بچنے کی سخت تاکید فرمائی ہے اور اس سے پر ہیز کرنے کی تاکید میں آپ کے اقوال ہی
نہیں افعال بھی موجود ہیں۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ نبی کریم ﷺاعتکاف
فر مارہے تھے آپ کی زوجہ محتر مہ حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے پاس مسجد میں ملاقات کرنے
کے لئے نبی علیہ السلام ان کو چھوڑ نے کے لئے ان کے ساتھ جانے لگے راستے میں آپ
کو دو شخص دکھائی دیئے آپ نے ان کو دیکھ
کر کہا کہ یہ میری بیوی صفیہ ہیں جب ان لوگوں نے آپ کی زبان مبارک سے یہ کلمات
سنے تو بہت متعجب ہوئے اور سوچنے لگے کہ آپ نے یہ بات کیوں کہی تو نبی علیہ
السلام نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ ہو سکتا ہے رات کے وقت میں میرے ساتھ ان کو
دیکھ تم لوگ یہ سوچنے کہ پتہ نہیں ان کے ساتھ کون ہیں اور ممکن ہے کہ تمہا رے دل
میں کوئی برائی کی بات آجاتی جس کی وجہ
سے تم گنا ہگار ہو جا تے کیونکہ کسی کی جانب سے بھی بد گمان ہونا بہت بڑا جھوٹ ہے
اور جھوٹے شخص کے بارے میں خود حدیث وارد ہوئی ہے۔
عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا کذب
العید تبا عد عنہ الملک من فتن ما جاء بہ۔
ترجمہ: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فر
شتے اس کے پاس سے ایک میل دور ہو جا تے ہیں، اس بد بوکی وجہ سے جو اس کے اندر
آرہی ہوتی ہے۔ جھوٹے آدمی کے اندر سے اتنی بد بو آتی ہے کہ رحمت کے فرشتے اس کے
پاس سے ہٹ کر ایک میل دور ہو جاتے ہیں۔
تو ذرا سو چئے کہ بد گمانی کرنا بھی
ایک طریقے کا جھوٹ ہے اور جب ہم کسی سے زبردستی بدگمان ہوتے ہیں تو رحمت کے فرشتے
ہمارے پاس سے بھی ہٹ جاتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں
کہ ہم انہیں کرتے ہیں لیکن ان کے اندر کوئی خیر نہیں ہوتی اس کی وجہ یقیناً یہی
ہوگی کہ رحمت کے فرشتے ہمارے پاس نہیں ہوتے۔
عزیز خواتین اور قارئین کرام! نبی
علیہ السلام کے اقوال وافعال دیکھتے ہوئے ہم سب یہ عہد کریں کہ انشاءاللہ ہم بنا کسی تحقیق کے کسی کی طرف سے اپنے دل میں
خیال نہیں لائیں گے اور اگر ہمارا کوئی فعل یا کوئی قول ایسا ہے جس کے بارے میں سن
کر دیکھ کر لوگ بد گمان ہو سکتے ہیں یا ہماری ظاہری حالت کچھ اس طرح کی ہے جو
دوسروں کو بدگمانی کا شکار بنا سکتی ہے تو اس وقت ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم
دوسروں کو اپنی حالت سے خود آگاہ کر دیں تاکہ لوگ بدگمانی سے بچ سکیں ،اللہ
تعالیٰ ہم سبھی کو بدگمانی سے بچنے والا بنائے ۔آمین ثم آمین
***
0 Comments