بالا-نظیرؔاکبرآبادی
Bala By Nazeer Akbarabadi
تم نے جس دن سے صنم ،کان میں بالا ڈالا
ہو گیا چاند سے
مُکھڑے کا اُجالا بالا
کیوں نہ ہوں ہوش
کا میں اُس کے دو لنہ
یارو
جس پری زاد نے ،بالی
سے نکالا بالا
یہ بھی کیا آن غضب ہے
، کہ دکھا تا ہرآن
کان کے پاس سے سرکار
کے دوشالا ،بالا
جیسے مہتاب پہ ہالے
کابندھے ہے کُنڈل
ہے ترے چاند سے رخسار
کاہالا،بالا
کیا غضب تھی واہ
ادا آہ چنچل نے
شتاب
گو نج کُھلتے
ہی جھجک کر جو سنبھا لا بالا
جب ہلاتی ہے صراحی
سی وہ گردن اپنی
نشۂ حُسن کو کرتا ہے دوبالا بالا
0 Comments