بھولا-راجندرسنگھ بیدی
Bhola by Rajinder Singh Bedi
مندرجہ ذیل راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ بھولا مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ کے جماعت دوہم (10th )کے اردو مضمون کے نصاب میں شامل ہے۔
میں نے مایا کو پتھر کے ایک کو زے میں مکھن رکھتے دیکھا۔
چھا چھ کی کھٹاس کو دور کرنے کے لیے مایا نے کو زے میں پڑے ہوئے مکھن کو کنویں کے
صاف پانی سے کئی بار دھو یا ۔ اس طرح مکھن کے جمع کر نے کی کوئی
خاص وجہ تھی۔ ایسی بات عموماً کے کسی عزیز کی آمد کا پتا دیتی تھی ۔ہاں،اب مجھے یا
د آیا ، دودن کے بعد مایا کا بھائی اپنی
بیوہ بہن سے راکھی بند ھوانے کے لیے آنے
والا تھا۔یوں تو اکثر بہنیں بھائیوں کے ہاں جا کر انھیں راکھی باندھتی ہیں مگر
مایا کا بھا ئی اپنی بہن اور بھا نجے سے ملنے کے لیے خود ہی آجایا کرتا تھا اور
راکھی بند ھوالیا کر تا تھا ۔راکھی بند ھوا کر وہ اپنی بیوہ بہن کو یقین دلا تا کہ جب تک اس کا بھائی زندہ ہے اس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے
کندھو ں پر لیتا ہے۔
ننھے بھولے نے میرے اس خیال کی تصدیق
کر دی ۔ گنا چو‘ ستے ہوئے اس نے کہا ‘’’ بابا ! پر سو ں ماموں جی آئیں گے نا …؟‘‘
میں نے اپنے پو تے کو پیار سے گود میں
اُٹھا لیا اور مسکراتے ہو ئے کہا ‘’’ بھو لے ! تیرے ماموں جی ماتا جی کے کیا ہوتے
ہیں ؟‘‘
بھو لے نے کچھ تا مّل کے بعد جواب دیا
‘’’ ماموں جی۔‘‘
مایا
کھلکھلا کر ہنسنے لگی ۔ میں اپنی بہو کے اس طرح کھُل کر ہنسنے پر دل میں
بہت خوش ہوا ۔مایا بیوہ تھی اور سماج اسے
اچھے کپڑے پہننے اور خوش کی بات میں حصہ لینے سے بھی روکتا تھا۔ میں نے بار ہا
مایا کو اچھے کپڑے پہننے ہنسنے کھیلنے کی
تلقین کر تے ہوئے سماج کی پر وانہ کر نے کے لیے کہا تھا مگر مایا نے از خود اپنے
آپ کو
سماج کے روح فر سا احکام کے تا بع کر لیا تھا۔اس نے اپنے تمام اچھے
کپڑے اور زیورات کی پٹاری ایک صندوق میں
مقفل کر کے چابی ایک جو ہڑ میں پھینک دی تھی۔
مایا
نے اپنے لعل کو پیا ر سے پاس بلاتے ہو ئے کہا‘’’ بھولے ! تم ننھی کے کیا ہوتے
ہو؟‘‘
’’بھائی ‘‘ بھولے نے جواب دیا۔
’’اسی طرح تیرے موموں جی میرے بھائی
ہیں ۔‘‘
بھولا یہ بات نہ سمجھ سکا کہ ایک ہی شخص کس طرح ایک ہی وقت میں کسی
کا ماموں ہو سکتا ہے۔ وہ تو اب تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ اس کے ماموں جان اس کے
بابا جی کے بھی ماموں جی ہیں۔
مجھے دوپہر کو اپنےگھر سے چھے میل دور اپنے
کھیتوں میں ہل پہنچا نےتھے ۔بوڑھا
جسم ‘ اس پر مصیبتوں کا مارا ہوا۔بیٹھے کی موت نے اُمید کو یاس میں تبدیل
کر کے کمرتو ڑدی تھی ۔ اب میں بھولے کے سہارے ہی جیتا تھا۔
رات کو میں تکان کی وجہ سے بستر پر لیٹتے ہی اونگھنے
لگا۔ذراتو قّف کے بعد مایا نے مجھے دودھ پینے کے لیے آواز دی ۔ میں نے
اسے سیکڑوں دعائیں دیتے ہوئے کہا ‘’’ مجھ بوڑھے کی اتنی پروانہ کیا کرو ‘ بیٹا۔‘‘
بھولا ابھی تک نہ سایا تھا ۔اس نے ایک
چھلا نگ لگائی اور میرے پیٹ پر چڑھ گیا۔بولا ‘’’ بابا جی ! آپ آج کہانی نہیں
سنائیں گے گیا ؟‘‘ ’’ نہیں بیٹا ۔‘‘ میں نے کہا ‘’’ میں آج بہت تھک گیا ہوں ۔کل دوپہر کو تمھیں سناؤں گا۔‘‘
بھولے نے روٹھتے ہوئے جواب دیا‘ میں
تمھارا بھولا نہیں بابا ۔ میں ماتا جی کا
بھولا ہوں۔‘‘
بھولا بھی جا نتا تھا کہ میں نے اس کی
ایسی بات کبھی بر داشت نہیں کی۔ میں ہمیشہ اس سے یہی سننے کا عادی تھا کہ ’’ بھولا بابا جی کا ہے اور ماتا جی کا
نہیں ۔‘‘ مگر اس دن ہلو ں کو کند ھے پر اُٹھا کر چھے میل تک لے جانے اور پیدل ہی واپس آنے کی وجہ سے میں بہت تھک
گیا تھا۔ اس غیر معمولی تھکن کے باعث میں نے بھو لے
کی وہ بات بھی بر داشت کی اور اونگھتے اونگھتے سو گیا۔
صبح کے وقت اس نے پھر میری گود میں
آنے سے انکار کر دیا اور بولا ‘’’ میں نہیں آؤں گا تمھارے پاس ‘’’ بابا ۔‘‘
’’کیوں بھولے ؟‘‘
’’بھو لا بابا جی کا نہیں …بھو لا ماتا جی کا ہے
۔‘‘
میں نے بھو لے کو مٹھا ئی کے لالچ سے
منا یا اور چند ہی لمحات میں وہ بابا جی کا بھولا بن گیا اور میری گود میں آگیا
اور اپنی ننھی ٹانگوں کے گر د میرے جسم سے لپٹے ہوئے کمبل کو لپٹینے لگا۔ مایا نے
پاؤ بھر مکھن نکالا اور اسے کوزے میں ڈال کر کنویں کے صاف پانی سے اس کی کھٹاس کو دھو
ڈالا۔اب مایا نے اپنے بھائی کے لیے سیر کے قریب مکھن تیار لیا تھا۔ میں بہن بھا ئی کے اس پیار کے جذبے سب سے بہت پیار
کر تی ہے اور اتنا کرنے پر دل میں خوش ہو رہا تھا ۔ میں نے دل میں کہا ‘
عورت کا دل محبت کا ایک سمندر ہو تا ہے۔ ماں باپ ،بھائی بہن ، خاوند
بچے ، سب سے بہت ہی پیار کر تی ہے اپنا کر نے پر بھی اس کا پیار ختم نہیں
ہوتا ۔ایک ہوتے ہوئے بھی وہ سب کو اپنا دل دے دیتی ہے۔ بھولے نے دونوں ہاتھ
میرے گالوں کی جھر یوں پر رکھے اور کہا ،’’ بابا ، تمھیں اپنا وعدہ یاد ہے نا ؟‘‘
’’کس بات کا …بیٹا؟‘‘
’’تمھیں آج دوپہر کو مجھے کہانی
سنانی ہے۔‘‘
’’ہاں بیٹا!‘‘ میں نے اس کا منہ چو‘
متے ہو ئے کہا۔
یہ تو بھولے ہی جانتا ہو گا کہ اس نے
دوپہر کے آنے کا کتنا انتظار کیا۔ بھولے کو اس بات کا علم تھا کہ بابا جی کے
کہانی سنانے کا وقت وہی ہوتا ہے جب وہ کھا نا کھا کر اس پلنگ پر جا لیٹتے ہیں
جس پر وہ بابا جی یا ماتا جی کی مدد کے بغیر نہیں چڑھ سکتا
۔چنانچہ وقت سے آدھا گھنٹا پیشتر ہی اس نے کھانا نکلوانے پر اصرار شروع کر دیا ،
میرے کھانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے کہانی سننے کے چاؤ سے۔
میں نے معمول سے آدھا گھنٹا پہلے
کھانا کھایا ۔ ابھی میں نے آخر ی نوالہ تو ڑا ہی تھا کہ پٹواری نے دروازے پر دستک
دی۔
اس
نے کہا کہ خانقاہ والے کنویں پر آپ کی زمین کو ناپتے کے لیے مجھے آج ہی فرصت مل
سکتی ہے ، پھر نہیں۔
دلان کی طرف نظر دوڑائی تو میں نے
دیکھا ، بھولا چار پائی کے چاروں طرف گھو م کر بستر بچھا رہا تھا۔بستر بچھانے کے
بعد اس نے ایک بڑا تکیہ بھی ایک طرف رکھ دیا اور دخود پا ئینتی میں پاؤں اَڑا کر
چار پائی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔
میں نے پُواری سے کہا کہ تم خا نقاہ
والے کنویں کو چلو اور میں تمھا رے پیچھے
پیچھے آجاؤں گا۔ جب بھولے نے دیکھا کہ میں باہر جانے کے لیے تیار ہوں تو اس کا
چہرہ مدھم پڑگیا ۔ مایا نے کہا ،’’ بابا جی ، اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟ خانقاہ والا
کنواں کہیں بھا گا تو نہیں جاتا ۔آپ کم سے کم
آرام تو کر لیں ۔‘‘
’’اوں ہوں‘‘ میں نے زیر لب کہا ۔’’پٹواری چلا گیا تو پھر یہ کام ایک ماہ سے ادھر نہ
ہوسکے گا۔‘‘
مایا
خاموش ہوگئی ۔بھو لا منہ لگا ۔اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں ۔اس نے کہا ،’’
بابا ! میری کہانی …میری کہانی …‘‘
’’ بھولے …میرے بچے !‘‘ میں نے ٹالتے ہوئے کہا ۔’’ دن کو
کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں
۔‘‘
’’راستہ بھول جاتے ہیں ؟‘‘ بھولے نے
سوچتے ہوئے کہا ،’’ بابا ! تم جھوٹ بولتے ہو …ہمیں بابا جی کا
بھولا نہیں بننا۔‘‘
اب جبکہ میں تھکا ہوا بھی نہیں تھا
اور پندرہ بیس منٹ آرام کے لیے نکال سکتا تھا ، بھولے کی اس
بات کو آسانی سے کس طرح برداشت کر لیتا ۔میں نے اپنے شانے سے چار اُتار پائی کی
پائینتی پر رکھی اور پلنگ پر لیٹتے ہوئے
بھولا سے کہا ،’’ اب کوئی مسافر راستہ کھو بیٹھے تو اس کے ذمے دار ہوگے ۔‘‘ اور
میں نے بھولے کو دوپہر کے وقت سات شہزادیوں کی ایک کہانی سنائی ۔بھولا ہمشہ اس
کہانی کو پسند کرتا تھا جس کے آخر میں شہزادے کی شادی ہو جائے ۔مگر میں نے اس روز
بھولے کے منہ پر خوشی کی کوئی علامت نہ دیکھی
بلکہ وہ افسر دہ منہ بنائے ہلکے ہلکے کا نپتا رہا ۔
اس خیال سے کہ پٹواری خانقاہ والے
کنویں پر انتظار کر تے کر تے تھک کر کہیں
اپنے گاؤں کا رُخ نہ کر لے ، میں جلد ی جلدی اپنے نئے جوتے میں دبتی ہوئی ایڑی کی
وجہ سے لنگڑاتا ہوا بھاگا۔
شام کو جب میں واپس آیا
اور جوں ہی میں نے دہلیز میں قدم رکھا، بھولے نے کہا،’’ بابا…آج ماموں جی آئیں گے نا؟‘‘
’’پھر کیا ہوا بھولے ؟‘‘ میں نے
پوچھا۔
’’ماموں جی اگن بوٹ لائیں گے ۔ماموں
جی کے سر پر مکئی کے بھُٹّو ں کا ڈھیر ہو گا نا ، …ہمارے تو مکئی ہو
تی ہی نہیں بابا ۔اور تو اور وہ ایسی
مٹھائی لائیں گے جو آپ نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی ۔‘‘
میں حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس
خوبی سے ’خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی ‘‘ کے الفاظ سات شہزادوں والی کہانی کے بیان
میں سے اس نے یاد رکھے تھے۔
’’جیتا رہ ‘‘ میں نے دعا دیتے ہوئے
کہا ،‘‘ بہت ذہین لڑکا ہوگا اور ہمارا نام روشن کر ے گا۔‘‘
شام ہوتے ہی بھولا دروازے میں جا
بیٹھا تاکہ ماموں جی کی شکل دیکھتے ہی اندر کی طرف دوڑے اور پہلے اپنی ماتا جی کو
اور پھر مجھے ،اپنے ماموں جی کے آنے کی خبر سنائے۔
دِیو ں کو دِیا سلا ئی دِکھائی گئی۔
جوں جوں رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جاتا دِیوں کی روشنی زیادہ ہوتی جاتی ۔تب متفکر انہ لہجے میں مایا
نے کہا ،’’ باباجی …بھیا ابھی تک نہیں آئے۔‘‘
’’ممکن ہے کوئی ضروری کام آپڑا ہو۔
راکھی کے روپے ڈاک میں بھیج دیں گے ،‘‘
’’مگر راکھی؟‘‘
’’ہاں راکھی کی کہو۔ انھیں اب تک تو آجا نا چاہیے تھا۔‘‘
میں نے بھولے کو زبردستی دروازے کی
دہلیز پر سے اُٹھا یا ۔بھو لے نے اپنی
ماتا سے بھی زیادہ متفکر انہ لہجے میں کہا
،’’ ماتا جی …ماموں جی کیوں نہیں آئے؟‘‘
مایا
کا بھائی ابھی تک نہیں آیا تھا ۔ میں ستاروں کی طرف دیکھتے دیکھتے اونگھنے
لگا۔ یکایک مایا کی آواز سے میری نیند کھلی ۔وہ دودھ کا کٹورا لیے کھڑی تھی۔
’’بیٹی …تمھیں اس سیوا کا پھل
ملے بغیر نہ رہے گا۔‘‘
تبھی میرے پہلو میں بچھی ہوئی چار
پائی پر سے بھولا آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھا ۔اٹھتے ہی اس نے پوچھا ،’’ بابا…ماموں جی ابھی تک کیوں نہیں آئے؟‘‘
’’آجائیں گے بیٹا! سوجاؤ ۔وہ صبح
سویرے آجائیں گے ۔‘‘
اپنے بیٹے کو اپنے ماموں کے لیے اس
قدر بیتاب دیکھ کر مایا بھی کچھ بیتاب سی
ہوگئی ۔عین اسی طرح ایک شمع سے دوسری شمع روشن ہو جا تی ہے ۔کچھ دیر کے بعد وہ
بھولے کو لِٹا کر تھپکنے لگی۔ مایا کی آنکھوں میں بھی نیند آنے لگی ۔دن بھر کے
کام کاج کی تھکن سے مایا گہری نیند سوتی
تھی۔ میں نے مایا کو سوجا نے کے لیے کہا اور بھولے کو اپنے پاس لِٹا لیا۔
’’بتّی جلتی رہنے دو، صرف دھیمی کر
دو۔ میلے کی وجہ سے بہت سے چور چکار ادھر ادھر گھوم رہے ہیں ۔‘‘ میں نے مایا سے کہا
۔
سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس دفعہ میلے
پر جو لوگ آئے تھے، ان میں ایسے آدمی بھی تھے جو کہ بچوں کو اغوار کر کے لے
جاتے تھے۔پڑوس کے ایک گاؤں میں دوایک ایسی
وار دوتیں ہوئی تھیں اسی لیے میں نے بھولے کواپنا پاس لٹا لیا تھا ۔میں نے دیکھا
،بھولا جاگ رہا ہے ۔اس کے بعد میری
آنکھ لگ گئی۔
تھوڑی دیر کے بعد میری آنکھ کھُلی تو
میں نے بتّی کو دیوار پر نہ دیکھا۔گھبرا کر ہاتھ پسارا بھی بستر پر نہ تھا ۔میں نے
اندھوں کی طرح دیوار سے ٹکراتے اور ٹھو کریں کھاتے ہوئے تمام چار پائیو ں پر دیکھ
ڈالا۔مایا کو بھی جگا یا ۔گھر کا کانا کانا چھان مارا،بھولا کہیں نہ تھا۔
’’مایا …ہم لُٹ گئے۔‘‘ میں نے
اپنا سر پیٹنے ہوئے کہا۔
مایا ماں تھی ۔ اس کا کلیجا جس طرح شق ہوا،یہ کوئی اسی سے پوچھے۔ اپنا سہاگ
لٹنے پر اس نے اتنے بال نہ نوچے تھے جتنے کہ اس وقت نوچے۔ وہ یوانوں کی طرح چیخیں
مار رہی تھی ۔ پاس پڑوس کی عورتیں شورسن کر جمع ہوگیئں اور بھو لے کی خبر سن کر
رونے پیٹنے لگیں۔
آج میں نے میلے کے ایک بازی گر کو اپنے گھر کے اندر گھورتے ہوئے دیکھا تھا
مگر میں نے پروانہیں کی تھی ۔ میں نے دعائیں کیں ، منّتیں مانیں کہ بھولا مل جائے۔
وہی ہمارے اندھیرے گھر کا اُجالا تھا ۔اسی کے دم سے میں اور مایا جیتے تھے۔ اسی کی
آس سے ہم اُڑے پھرتے تھے۔ وہی ہماری جسم کی توانائی تھا ۔اس کے بغیر ہم کچھ نہ
تھے۔
میں نے گھوم کر دیکھا ،مایا بے ہوش
ہوگئی تھی۔ اس کے ہاتھ اندر کی طرف مُڑ گئے تھے، آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور
عورتیں اس کی ناک بند کر کے ایک چمچے سے اس کے دانت کھولنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
ایک لمحے کے لیے میں بھولے کوبھی بھو
ل گیا ۔میرے پاؤں تلے کی زمین کھسک گئی۔ ایک ساتھ گھر کے دو لوگ جب دیکھتے دیکھتے
ہاتھ سے چلے جائیں تو اس وقت دل کی کیا کیفیت
ہو تی ہے ۔ میں نے سوچا کہ اِن دُکھوں کے دیکھنے سے پہلے ایشوانے میری ہی
جان کیوں نہ لے لی۔
قریب تھا کہ میں بھی گر پڑوں ، مایا
ہوش میں آگئی۔مجھے پہلے سے کچھ سہارا ملا۔میں نے دل میں کہا ،’’ میں ہی مایا کو
سہا رادے سکتا ہوں ۔اور اگر میں خود اس طرح حوصلے چھوڑدوں تو مایا کسی طرح نہیں بچ
سکتی ۔‘‘ میں نے حواس کر تے ہوئے کہا ،’’مایا بیٹی …دیکھو ! مجھے یوں
خانہ خراب مت کرو۔ حوصلہ کرو۔بچے اغوا ہوتے ہیں مگر مل بھی جاتے ہیں۔بھولا مل جائے
گا۔‘‘
ماں کے لیے یہ الفاظ بے معنی تھے۔ اس
وقت آدھی رات ادھر تھی اور آدھی رات اُدھر جب ہمارا پڑوسی اس حادثے کی خبر گاؤں سے دس دور تھانے میں پہنچانے کے
لیے روانہ ہوا۔
ہم سب ہا تھ ملتے ہوئے صبح کا انتظار
کر نے لگے تا کہ دن نکلنے پر کچھ سمجھائی دے۔دفعتہً دروازہ کھلا اور ہم نے بھو لے
کے ماموں کو اندر آتے دیکھا۔بھولا اس کی گود میں تھا۔ اس کے سر پر مٹھا ئی کی
ٹوکریا ں اور ایک ہاتھ میں بتی تھی ۔ہمیں تو گویا
ساری دنیا کی دولت مل گئی ۔
مایا نے بھائی کو پانی پوچھا نہ خیریت اور
اس کی گود سے بھو لے کو چھین کر اسے چو‘ منے لگی ۔تمام اڑوس پڑوس نے مبارکبا د دی
۔بھولے کے ماموں ن کہا ،’’ مجھے ایک کام کی وجہ سے دیر ہو گئی تھی۔ دیر سے راونہ
ہونے پر رات کے اندھیر ے میں مَیں اپنا راستہ گم کر بیٹھا تھا ۔یکایک مجھے ایک
جانب سے روشنی آتی دِکھائی دی۔ میں اس کی طرف بڑھا ۔ اس خوفناک اندھیرے میں پرس
پورسے آنے والی سڑک پر بھولے کو بتی پکڑے ہوئے اور کانٹوں میں اُلجھے ہوئے دیکھ
کر میں حیران رہ گیا ۔ میں نے اس
سے اس وقت وہاں ہونے کا سبب پو چھا تو اس
نے جواب دیا کہ بابا جی نے آج دوپہر کے
وقت مجھے کہانی سنائی تھی اور کہا تھاکہ دن کے وقت کہانی سنانے سے مسا فر راستہ
بھول جاتے ہیں ۔ تم دیر تک نہ آئے تو میں نے یہی جانا کہ تم راستہ بھول گئے ہوگے
اور بابا نے کہا تھا کہ اگر کوئی مسافر راستہ بھول گیا تو تم ذمے دار ہو گے …!!‘‘
***
0 Comments