Boodhi Kaki By Munshi Premchand|بوڑھی کاکی-منشی پریم چند

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Boodhi Kaki By Munshi Premchand|بوڑھی کاکی-منشی پریم چند

 

بوڑھی کاکی-منشی پریم چند
Boodhi Kaki By Munshi Premchand


مندرجہ ذیل منشی پریم چند کا افسانہ  ’’بوڑھی کاکی‘‘ مہاراشٹر اسٹیٹ بورد کے جماعت ہفتم کے اردو زبان اور کے نصاب میں شامل ہے۔

 

بُڑھا پا اکثر بچپن کا دورثانی ہوا کرتاتھا ۔بوڑھی کاکی میں ذایٔقے کے سِوا کویٔ حس باقی نہ تھی۔ آنکھیں ،ہاتھ،پیرسب جواب دے چکے تھے۔زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کویٔ بات ان کی مرضی کے خلاف کرتے ،کھانے کا وقت ٹل جاتا یا مقدار کافی نہ ہوتی یا بازار سے کویٔ چیز آتی اور انھیں نہ ملتی تو رونے لگتی تھیں۔ان کے شوہر کو مرے ہوۓ ایک زمانہ گزر گیا تھا۔ سات بیٹھےجوان ہوہوکر داغ دے گۓ تھے اور اب ایک بھتیجے کے سوا دنیا میں ان کا کویٔ نہ تھا۔اسی بھتیجے کے نام انھوں نے ساری جائداد لکھ دی تھی۔ان حضرات نے لکھاتے وقت تو خوب لمبے چوڑے وعدے کیے تھے لیکن وہ وعدے دلالوں کے سبز باغ تھے۔اگر چا اس جائداد کی سالانہ آمدنی ڈیڑھ دوسوروپے سے کم نہ تھی لیکن بوڑھی کاکی کو پیٹ بھر روکھا دانہ بھی مشکل سے ملتا تھا۔

            بدھ رام کو بھی کبھی کبھی اپنی بے انصافی کا احساس ہوتا۔وہ سوچتے کہ اس جائداد کی بدولت میں اس وقت بھلا ادمی بنا بیٹھا ہوںاور اگر زبانی تشفّی سے ضورتِ حال میں کچھ اصلاح ہو سکتی تو انھیں مطلق دریغ نہ ہوتا لیکن مزید خرچ کا خوف ان کی نیکی کو دباۓ رکھتا تھا۔ اس کے برعکس اگر دروازے پر کویٔ بھلا مانس بیٹھا ہوتا اور بورھی کاکی اپنا نغمۂ بے ہنگام شروع کر دیتیں تو وہ آگ ہو جاتے تھے اور گھر میں آکر انھیں ڈانٹتے تھے۔ لڑکے والد کا یہ رنگ دیکھ کر بوڑھی کاکی کو اور بھی دق کرتے۔

            سارے گھر میں اگر کسی کو کاکی سے محبت تھی وہ بدھ رام کی چھوٹی لڑکی لاڈلی تھی۔لاڈلی اپنے دونوں بھائیوں کے خوف سےاپنے حصّے کی مٹھایٔ یا چبینا بوڑھی کاکی کے پاس بیٹھ کر کھایا کرتی تھی۔

            رات کا وقت تھا۔بدھ رام کے دروازے پر شہنایٔ بج رہی تھی ۔آج بدھ رام بڑےلڑکے سکھ رام کا تلک آیا ہے۔یہ اسی کا جشن ہے۔گھر میں مستورات گا رہی تھیں اور روپا مہمانوں کی دعوت کا سامان کرنے میں مصروف تھی۔بھٹیوں پر کڑھاؤچڑھے ہوۓ تھے۔ ایک میں پوریاں کچوریاں نکل رہی تھیں،دوسرے میں سموسے۔ایک بڑے ہنڈے میں مسالے دار ترکاری پک رہی تھی۔گھی اور مسالے کی اشتہا انگیز خوشبو چاروں طرف پھلی ہی تھی۔

            بوڑھی کاکی اپنی اندھیری کوٹھری میں بیٹھی ہویٔ تھیں۔ یہ لذّت آمیز خوشبو انھیں بے تاب کر رہی تھی۔ان کی چشمِ خیال میں پوریوں کی تصویر ناچنے لگی۔خوب لال لال پھولی پھولی نرم نرم ہوگی۔ایک پوری ملتی تو ذرا ہاتھ میں لے کر دیکھتی۔کیوں نہ چل کر کڑھاؤ کے سامنے ہی بیٹھوں۔

            اس طرح فیصلہ کرکے بوڑھی کاکی اکڑوں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل کھسکتی ہویٔ بمشکل تمام چوکھت سے اتریں اور دھیرے دھیرے رہنگتی ہویٔ کڑھاؤ کے پاس جا بیٹھیں۔روپا اس وقت ایک سراسیمگی کی حالت میں تھی۔کبھی اِس کمرے میں جاتی ،کبھی اس کمرے میں۔کبھی کڑھاؤ کے پاس ،کبھی کوٹھے پر۔بیچاری اکیلی عورت چاروں طرف دوڑتے دوڑتے حیران ہو رہی تھی۔جھنجھلاتی تھی،کڑھتی تھی پر غصّہ باہر نکلنے کا موقع نہ پاتا تھا۔اسی کشمکش کے عالم میں اس نے بوڑھی کاکی کو کڑھاؤ کے پاس بیٹھتے دیکھا تو جل گی۔غصّہ نہ رُک سکا۔جیسے مینڈک کیچوے پر جھپٹتا ہے، اسی طرح وہ بوڑھی کاکی پر جھپٹی اور انھیں دونوں ہاتھوں سے جھنجھوڑ کر بولی،"ایسے پیٹ میں آگ لگے۔ پیٹ ہے کہ آگ کا کُنڈ۔ کوٹھری میں بیٹھتے کیا دَم گھُٹتا تھا۔ابھی مہمانوں نے نہیں کھایا۔ دیوتاؤں کا بھوگ تک نہیں لگا۔ تب تک صبر نہ ہو سکا۔آکر چھاتی پر سوار ہو گیٔں۔ بھلا چاہتی ہو تو جاکر کوٹھری میں بیٹھو ۔ جب گھر کے لوگ لگیں گے تو تمھیں بھی مے گا۔ تم کویٔ دیوی نہیں ہو کہ چاہے کسی کے منہ میں پانی تک نہ جاۓ لیکن پہلے تمھاریپوجا کرے۔"

            بوڑھی کاکی نے سر نہ بولیں؛چپ چاپ رینگتی ہویٔ وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گیٔں۔صدمہ ایسا سخت تھا کہ دِل و دماغ کی ساری قوّتیں اس طرف رجوں ہوگئ تھیں۔

            کھانا تیار ہو گیا۔آنگن میں پتّل پڑگۓ۔مہمان کھانے لگے۔ بوڑھی کاکی اپنی کوٹھری میں جا کر پچھتا رہی تھیں کہ کیاں سے کہاں گیٔ۔انھیں روپا پر غصّہ نہیں تھا۔اپنی عُجلت پر افسوس تھا۔سچ تو ہے،جب تک مہمان کھانہ چکیں گے ،گھر والے کیسے کھائیں گے۔مجھ سے اتنی دیر بھی نہ رہا گیا۔اب جب تک کویٔ بُلانے نہ آۓگا،نہ جاؤں گی۔

            دِل میں یہ فیصلہ کرکے وہ خموشی سے بُلاوے کا انتظار کرنے لگیں۔ انھیں ایک ایک گھنٹا معلوم ہوتا تھا ۔اب پتل بچھ گۓہوں گے۔معلوم ہوتاہے لوگ کھانے پر بیٹھ گۓ۔پھر انھیں لگا کہ بہت دیرہوگیٔ ہے۔کیا اتنی دیر تک لوگ کھا ہی رہے ہوں گے۔کسی کی بول چال سنایٔ نہیں دیتی۔ضرور لوگ کھاپی کے چلے گۓ۔مجھے کویٔ بُلانے نہیں آیا۔روپا چڑ گیٔ ہے،کیا جانے کہ نہ بُلاۓ۔سوچتی ہوکہ آپ ہی آئیں گی۔کویٔ مہمان نہیں کہ بُلا کر لاؤں۔

            بوڑھی کاکی چلنے کے لیے تیار ہوئیں۔انھوں نے دل میں طرح طرح کے منصوبے باندھے،’’پہلے ترکاری سے پوریاں کھاؤں گی،پھر دہی اور شکر سے۔کچوریاں رائتے کے ساتھ مزیدار معلوم ہوں گی۔چاہے کویٔ بُرامانےیا بھلا،میں تو مانگ مانگ کر کھاؤں گی۔‘‘

            بوڑھی کاکی اکڑوں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل کھِسکتی ہویٔ آنگن میں آئیں ۔مہمانوں کی جماعت ابھی بیٹھی ہویٔ تھی۔وہ رینگتی ہویٔ ان کے بیچ میں جا پہنچیں۔کیٔ آدمی چونک کر اُٹھ کھڑے ہوۓ،آوازیں آئیں،’’ارے،یہ کون بڑھیا ہے؟‘‘

            پنڈت بدھ رام کاکی کو دیکھتے ہی غصّے سے تلملاگۓ۔پوریوں کا تھال لیے کھڑے تھے۔تھال کو زمین پر پٹک دیااور جس طرح بے رحم سا ہوکاراپنے کسی مفرور اسامی کو دیکھتے ہی جھپٹ کر اس کا ٹیٹوالیتا ہے،اسی طرح لپک کر انھوں نے بوڑھی کاکی کے دونوں شانے پکڑے اور گھسیٹتے ہوۓ لاکر اندھیری کوٹھری میں دھم سے گرادیا۔

            مہمانوں نے کھانا کھایا۔گھروالوں نے کھایا۔باجے والے،دھوبی چمار بھی کھاچکے لیکن بوڑھی کاکی کو کسی نے نہ پوچھا۔بدھ رام اور روپا دونوں ہی انھیں ان کی بے حیایٔ کی سزادینے کا تصفیہ کر چکے تھے۔ان کے بڑھاپے پر،بے کسی پر،فتورِعقل پر کسی کو ترس نہیں آتا تھا۔اکیلی لاڈلی ان کے لیے کڑھ رہی تھی۔

            دونوں بار جب اس کی ماں اور باپ نے کاکی کو بے رحمی سے گھسیٹا تو لاڈلی کا کلیجا بیٹھ کر رہ گیا۔وہ جھنجھلارہی تھی کہ یہ لوگ کاکی کو کیوں بہت سی پوریاں نہیں دے دیتے۔وہ کاکی کے پاس جاکر انھیں تشفّی دینا چاہتی تھی لیکن ماں کے خوف سے نہ جاتی تھی۔اس نے اپنے حصّے کی پوریاں نہ کھایٔ تھیں۔وہ یہ پوریاں کاکی کے پاس لے جانا چاہتی تھی۔بوڑھی کاکی میری آواز سنتے ہی اُٹھ بیٹھیں گی۔پوریاں دیکھ کر کیسی خوش ہوگی۔مجھے خوب پیار کریں گی۔

            رات کے گیارہ بج چکے تھے۔روپا آنگن میں پڑی سورہی تھی۔لاڈلی کے آنکھوں میں نیند نہ تھی۔کاکی کو پوریاں کھلانے کی خوشی اسے سونے نہ دیتی تھی۔جب اسے یقین ہو گیا کہ اماّں غافل سو رہی ہیں تووہ چپکے سے اُٹھی ،پٹاری اٹھایٔاور بوڑھی کاکی کی کوٹھری کے طرف چلی۔

            بوڑھی کاکی کو محض اتنا یاد تھا کہ کسی نے میرے شانے پکڑے،پھر انھیں ایسا معلوم ہوا جیسے کویٔ پہاڑ پر اُڑاۓ لیے جاتا ہے۔ان کے پیر بار بار پتھروں سے ٹکراۓ۔تب کسی نے انھیں پہاڑپر سے پٹک دیا۔وہ بےہوش ہوگیٔں۔

            یکایک ان کے کان میں آواز آیٔ’’کاکیاُٹھو،میں پوریاں لایٔ ہوں۔‘‘

            کاکی نے لاڈلی کی آواز پہچانی۔چٹ پٹ اٹھ بیٹھیں۔دونوں ہاتھوں سے لاڈلی کو ٹٹولا اور اسے گود میں بٹھالیا۔لاڈلی نے پوریاں نکال کر دیں۔کاکی نے پوچھا،’’کیا تمھاری اماّں نے دی ہیں؟‘‘

            لاڈلی نے فخر سے کہا،’’نہیں،یہ میرے حصّے کی ہیں۔‘‘

کاکی پوریاں پر ٹوٹ پڑیں۔پانچ منٹ میں پٹاری خالی ہو گیٔ۔لاڈلی نے پوچھا،’’کاکی پیٹ بھر گیا؟‘‘

            جیسے تھوڑی سی بارش ٹھنڈک کی جگہ اور بھی جس پیدا کر دیتی ہے،اسی طرح ان چند پورپوں نے کاکی کی اشتہا اور غبت کو اور بھی تیز کر دیاتھا۔بولیں،’’نہیں،بیٹی جا کے اماّں سے اور مانگ لاؤ۔‘‘

            لاڈلی نے کہا،’’اماںسوتی ہیں۔جگاؤں گی تو ماریں گی۔‘‘

            کاکی نے پٹاری کو پھر ٹٹولا۔اس میں چند ریزے گرے تھے۔انھیں نکال کر کھا گیٔں ۔باربارہونٹ چاٹتی تھیں۔چٹخارے بھرتی تھیں۔یکایک لاڈلی سے بولیں،’’میرا ہاتھ پکڑکر وہاں لے چلو جہاں مہمانوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔‘‘

            لاڈلی ان کا منشانہ سمجھ سکی۔اس نے کاکی کا ہاتھ پکڑا اور انھیں لا کر جھوٹے پتّلوں کے پاس بٹھادیا اور غریب بھوک کے ماری بڑھیا پتّلوں سے پوریوں کے ٹکڑے چن چن کر کھانے لگی۔دہی کتنا لذیذ تھا۔سالن کتنا مزیدار،کچوریاں کتنی سلونی،سموسے کتنے خستہ اور نرم!

            عیں اسی وقت روپا کی آنکھ کھُلی۔اسے معلوم ہوا کہ لاڈلی پاس نہیں ہے۔چونکی،چار پایٔ کے اِدھر اُدھر تاکنے لگی کہ کہیں لڑکی نیچے تو نہیں گر پڑی۔اسے وہاں نہ پاکر وہ اُٹھ بیٹھی تو کیا دیکھتی ہے کہ لاڈلی جھوٹے پتّلوں کے پاس چپ چاپ کھڑی ہے اور بوڑھی کاکی پتّلوں پر سے پوریوں کے ٹکڑےاُٹھااُٹھا کر کھا رہی ہیں۔روپا کا کلیجا سَن سے ہوگیا۔یہ وہ نظارا تھاجس سے دیکھنے والوں کے دل کانپ اُٹھتے ہیں۔درد اور خوف سے اس کی آنکھیں بھرآئیں ۔اس کو اپنی خود غرضی اور بے انصافی آج تک کبھی اتنی صفایٔ سے نظر نہ آیٔ تھی۔ہاۓ میں کتنی بے رحم ہوں! جس کی جائداد سے مجھے دو سو روپے سال کی آمدنی ہو رہی ہے ،اس کی یہ درگت اور میرے کارن۔اے ایشور!مجھ سے بڑا بھاری گناہ ہوا ہے۔مجھے معاف کردو۔

            روپا نے چراغ جلایا ۔اپنے بھنڈارے کا دروازہ کھولا اور ایک تھالی میں کھانے کی سب چیزیں لیے ہوۓ بوڑھی کاکی کی طرف چلی۔

            ’’کاکی اُٹھو ،کھانا کھالو۔‘‘روپا نے رِقّت آمیز لہجے میں کہا،’’مجھ سے آج بڑی بھول ہویٔ۔اس کا بُرا نہ ماننا۔پرماتما سے دعا کرو کہ وہ میری خطا معاف کردے۔‘‘

            بھولے بھالے بچّے کی طرح جو مٹھائیاں پا کر مار اور گھُڑکیاں سب بھول جاتا ہے،بوڑھی کاکی بیٹھی ہویٔ کھانا کھارہی تھیں۔ان کے ایک ایک روئیں سے سچی دعائیں نکال رہی تھیں اور روپا بیٹھی یہ روحانی نظارہ دیکھ رہی تھی۔

Post a Comment

0 Comments