Chandni Raat By Nazeer Akbarabadi|چا ندنی رات-نظیرؔاکبر آبادی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Chandni Raat By Nazeer Akbarabadi|چا ندنی رات-نظیرؔاکبر آبادی

 

چا ندنی رات-نظیرؔاکبر آبادی
Chandni Raat By Nazeer Akbarabadi
چا ندنی رات-نظیرؔاکبر آبادی

 

صحنِ چمن واہ وا، زور بچھی تھی چاندنی

چاند،ہلو ریں  لیتا تھا اور کِھلی  تھی  چاندنی

آیا  تھا یارِ گل بدن پہن کے بادلہ  زری

چمکے  تھی تار تارمیں  مہ کی جھلک ذری  ذری

بوس  و کنا ر وجام  ومَے ،عیش و طرب ،ہنسی  خو شی

اِس میں  کہیں  سے یک  بہ یک  مرغِ  سحرنے بانگ  دی

 

صبح ہو ئی  ،گجر  بجا ، پھول  کھلے ،ہو اچلی

یار بغل  سے اُٹھ گیا، جی ہی میں  جی کی رہ گئی  

 

کیا ہی مزوں سے عیش  کی رات تھیں  کام یا بیاں

چھو ٹے  تھیں ما ہتاب کی، نہروں میں  ماہتابیاں

آگے چُنی  تھیں صف بہ صف  مَے کی کئی  گُلا بیاں

ہم کو  نشے کی مستیاں ،یار کو نیم  خو ابیاں

سینوں  میں اضطرابیاں ،آنکھوں  میں بے  حجابیاں

اس میں فلک  نے رشک  سے ڈالیں  یہ کچھ  خرا بیاں

 

صبح ہو ئی  ،گجر  بجا ، پھول  کھلے ،ہو اچلی

یار بغل  سے اُٹھ گیا، جی ہی میں  جی کی رہ گئی  

 

شب کو دلوں  میں واہ وا، زور مزوں  کے تار تھے

ہم سے  دو چار یار تھا ،یارسے ہم دو چار  تھے

دونوں دلوں میں  پیار تھا، دونوں  گلوں  میں ہار تھے

وصل کے بے قرار  تھے، عیش  کے کاروبار  تھے

سینے میں آسمان  کے، تیر حسد  کے پار تھے

ایک پلک  میں ناگہاں سب وہ مزے  فرار تھے

 

صبح ہو ئی  ،گجر  بجا ، پھول  کھلے ،ہو اچلی

یار بغل  سے اُٹھ گیا، جی ہی میں  جی کی رہ گئی  

 

چاندنی واہ چاندنی  کرتی تھی کیا جھلک  جھلک

چہک رہی تھیں بلبلیں ،باغ رہا تھا سب  مہک

جام کے لب سے  ہر گھڑی  نکلےتھی مے چھلک چھلک

یار بغل  میں غنچہ لب، بوسوں کی سَو لپک  جھپک

عیش و طرب کی لذّتیں  ہو نے لگیں جو یک بہ یک

ایسے مزے میں ،عیش میں ،آہ  کہیں سے ،ہک نہ دھک

 

صبح ہو ئی  ،گجر  بجا ، پھول  کھلے ،ہو اچلی

یار بغل  سے اُٹھ گیا، جی ہی میں  جی کی رہ گئی  

 

ایک طرف  تو نور  میں ماہ رہا تھا جگ  مگا

ایک طر ف وہ رشکِ مہ میری بغل  میں تھا پڑا

دونوں دلوں  میں لذّتیں ،دونوں جیوں  میں عیش تھا

مے کی گلابی  ہاتھ  میں، آنکھوں   میں چھا رہا نشا

ہو نٹھوں سے ہو نٹھ  لگ رہے  ،سینے  سے سینہ مل رہا

اتنے  میں آہ  یک بہ یک  کیا ہی  غضب یہ ہو گیا

 

صبح ہو ئی  ،گجر  بجا ، پھول  کھلے ،ہو اچلی

یار بغل  سے اُٹھ گیا، جی ہی میں  جی کی رہ گئی  

 

واہ ہو ئیں تھیں را ت کیا چاندنی  کی اُجالیاں

جھوم  رہی تھیں  باغ  میں سُنبل دگُل  کی ڈا لیاں

شو خ بغل  میں ناز  سے کھولے  تھازلفیں  کالیاں

خوش ہو گلے  لپٹ لپٹ ، دیتا تھا  میٹھی گالیاں

ہم بھی  نشے میں مست تھے ساقی  کی پی  کے پیالیاں

جل کے فلک  نےاِس  میں ہائے  آفتیں  لایہ  ڈالیاں

 

صبح ہو ئی  ،گجر  بجا ، پھول  کھلے ،ہو اچلی

یار بغل  سے اُٹھ گیا، جی ہی میں  جی کی رہ گئی  

 

کیا ہی چمن  میں شب کو واہ ،برسے  تھی نور  کی جھڑی

تارنشوں کے تھے بندھے ،لو ٹے  تھی چاندنی  پڑی

غنچہ دہن تھا  بے خبری ،پی  تھی جومے  کڑی کڑی

دیتا تھا  بو سے پیار  کے سینے  سے مل  گھڑی گھڑی

چشم سے چشم ،لب سے لب ،چھاتی  سے چھاتی  جب لڑی

کیا ہی گھڑی  تھی عیش کی ،اس  میں بلا یہ آپڑی

 

صبح ہو ئی  ،گجر  بجا ، پھول  کھلے ،ہو اچلی

یار بغل  سے اُٹھ گیا، جی ہی میں  جی کی رہ گئی  

 

باغ تھا  یاکہ خلد  وہ یا کہ بہشت یا ارم

یار تھا  یاکہ حو  رتھا  یاکہ  پری وہ   یا صنم

چاندنی  تھی  وہ چاندنی  چاندی  کارنگ جس سے کم

پیتے تھے مے  گھڑی گھڑی  ،لیتے  تھے بوسے  دم بہ دم

دونوں  نشے میں مست ہو  ،سو ئے  پلنگ پہ جب  کہ ہم

عین  مزہ تھا وصل  کا اس  میں نظیرؔ ،ہے ستم

 

صبح ہو ئی  ،گجر  بجا ، پھول  کھلے ،ہو اچلی

یار بغل  سے اُٹھ گیا، جی ہی میں  جی کی رہ گئی  

 

 

 

Post a Comment

0 Comments