دردِ عشق-علامہ
اقبال
Dard-e-Ishq by
Allama Iqbal
اے دردِ عشق ! ہےُ
گہرِ آب دار تُو
نا محرموں میں دیکھ
نہ ہو آشکار تُو!
پنہاں تہِ نقاب تری
جلوہ گاہ ہے
ظاہر نئی ہَوا چمنِ
ہست و بود میں
اے دردِ عشق ! اب
نہیں لذّت نمود میں
ہاں خود نمائوں کی
تجھے جستجونہ ہو
منّت پذیر نالہ بُلبل
کا تُو نہ ہو!
خالی شراب عشق سے
لالے کا جام ہو
پانی کی بوند گِریہ
شبنم کا نام ہو
پہناں درُونِ سینہ
کہیں راز ہو ترا
اشکِ جگر گذار نہ
غّمار ہو ترا
گویا زبانِ شاعرِ
رنگیں بیاں نہ ہو
آواز نے میں شکوہ
فُرقت نہاں نہ ہو
یہ دَور نکتہ چیں ہے
کہیں چھُپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تُو مکیں
ہے وہیں چھُپ کے بیٹھ رہ
غافل ہے تجھ سے حیرت
ِعلم آفریدہ دیکھ!
جویا نہیں تری نگہِ
نار سیدہ دیکھ
رہنے دے جستجو میں
خیالِ بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدہ
حکمت پسند کو
جس کی بہار تُو ہو یہ
ایسا چمن نہیں
یہ انجمن ہے کُشتہ
نظارہ مجاز
مقصد تری نگاہ کا
خلوت سرائے راز
ہر دل خیال کی مستی
سے چُور ہے
کچھ اور آجکل کے
کلیموں کا طُور ہے
1 Comments
عشق حقیقی کے سچے موتی جیسے الفاظ۔۔۔۔لفظ لفظ عرفان۔۔۔۔۔مصرعہ مصرعہ اسرار خودی کی پہچان۔۔۔عمدہ تحریر عمدہ انتخاب۔
ReplyDelete