Darindon Ki Maut Novel By Ibn-e-Safi|درندوں کی موت-ابن صفی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Darindon Ki Maut Novel By Ibn-e-Safi|درندوں کی موت-ابن صفی

 

درندوں کی موت-ابن صفی

Darindon Ki Maut Novel By Ibn-e-Safi
درندوں کی موت-ابن صفی


احمقوں کاچکّر

1

 صبح کی نَم اور خشک چادر فضا پر محیط تھی۔ سورج بھی نہیں نکالا تھا۔ سرسبز پتیوں پر اُوس کی جھلملاتی ہوئی بوند یں لرزرہی تھی آسمان صاف تھا۔ نیلا نیلا بیکھرا آسمان اور اُفق میں گہرے رنگوں کی چمک دار دھاریاں تھیں.....فریدی کے پا ئیں باغ میں سارجنٹ حمید ایک کتاب کی مدد سے قدیم ہند وزمانے کی مختلف ورزشوں کی مشق کر ر ہا تھا کبھی ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر گہرے گہرے سانس لیتا اور کبھی پالتی مار کر بیٹھ جاتا، پھر کتاب میں ترکیبیں دیکھ کر طرح طرح کے منہ بناتا اور پیٹ چپکا کی مشق کرتا۔ فریدی برآمدے میں بیٹھا شیو کر رہاتھا ۔ کبھی کبھی وہ اس کی حماقتوں کو دیکھ کر مسکرا دیتا۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے حمید سر کے بل کھڑا ہو گیا لیکن تو ازن قائم نہ رکھ سکنے کی بنا پر پھر گر پڑا ۔ وہ اپنی گردن سہلانے لگا۔ شاید کوئی رگ چپک گئی تھی پھر اس نے دوبارہ سر کے بل کھڑے ہونے کی کوشش کرنے کے بجائے کتاب کے ورق الٹنے شروع کر دیے۔ اب وہ پھر پالتی مار کر بیٹھ گیا اور اپنی ٹانگیں اٹھا کر گردن پر رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک ٹانگ تو اس نے کسی نہ کسی طرح رکھ لی لیکن دوسری ٹانگ رکھتے ہی بُری طرح چیخ کر لڑھک گیا۔ دونوں ٹانگیں گردن میں پھنسی ہوئی تھیں اور وہ خود چت پڑا بری طرح چیخ رہا تھا ۔ فریدی شیو کر کے اٹھا۔ حمید کو اس حال میں دیکھ کر چند لمحے کھڑا مسکراتا رہا پھر اندر چلا گیا۔ حمید در اصل  چیخ چیخ کر اسے مدد کے لئے بلا ر ہا تھا لیکن اس کی بے رخی دیکھ کر اسے تاؤ آ گیا اور دو تین جھلائے ہوئے جھٹکوں نے اسے اس سے نجات دلادی۔ وہ سیدھا اندر چلا گیا۔ واپسی پر اس کے ہاتھ میں بندوق تھی ۔ اس نے ورزش کی کتاب ایک طرف رکھی۔ بندوق میں کارتوس چھڑ ھایا اور نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ کتاب کے پر  خہے اڑ گئے۔

’’کیا اودھم مچارکھی ہے‘‘ ۔ فریدی نے برآمدے میں آکر کہا۔

’’آپ سے مطلب! ‘‘حمید نے کہا اور منہ بنائے ہوئے اندر چلاگیا۔

’’آخر تمہارا بچپنا کب رخصت ہوگا ‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’جب جوانی آئے گی۔‘‘

’’اچھا.... اچھا ....جلدی کیجئے ....وہ لوگ آرہے ہوں گے ۔‘‘

’’میں کہیں نہ جاؤں گا ۔‘‘

’’کیا کہا۔‘‘ فریدی اسے گھور کر بولا ’’ پھر تم نے شہناز وغیرہ سے وعدہ کیوں کر لیاتھا۔‘‘

’’ خیر میں تو بہر حال جاؤں گا ۔ پکنک ہو کر رہے گی ۔ اچھا ہے تم نہ جا کہ تمہاری وجہ سے بڑی بے لطفی ہو جائے گی ۔‘‘

’’جی ہاں بہتر ہے شہناز بھی نہ جائے گی ۔ ‘‘حمید نے کہا۔                                                 

’’ یہ تم سے کس احمق نے کہہ دیا۔ میں اسے کھینچ کر لے جاؤں گا ۔‘‘ فریدی نے کہا ۔ ’’ آج ہی دیکھنا ہے کہ وہ تمہاراکہتا مانتی ہے یا میرا ۔‘‘

’’خیر دیکھا جائے گا!‘‘ حمید نے کہا اور غُسل خانے میں گھس گیا۔

فریدی لباس تبدیل کر کے باورچی کو کچھ ہدایات دینے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد کمپاؤنڈ میں ایک کارآکر رکی ۔ شہباز اور اس کی دو سہیلیاں شیلا ثریا اور اشرف ( ثریا کا بھائی ) کا ر سے اُتر کر کوٹھی میں داخل ہوئے ۔

’’آئیے آئیے میں انتظار ہی کر رہا تھا ‘‘فریدی نے ان کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

’’ہمیں دیر تو نہیں ہوئی ‘‘شہناز بولی۔

 ’’آپ تو ٹھیک وقت پر پہنچیں لیکن شاید ہمیں دیر ہو جائے ۔‘‘

’’کیوں‘‘ شہناز نے پوچھا۔

’’حمید کا اسکر یو پھر کچھ ڈھیلا ہو گیا ہے۔ ‘‘فریدی نے اپنی کنپٹی پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔

’’ ارے یہ کوئی نئی بات نہیں ۔‘‘شہناز ہنس کر بولی اور اس کی دونوں سہیلیاں اسے شرارت آمیز نظروں سے گھورنےلگیں۔

فریدی انہیں لے کر کھانے کے کمرے میں آیا جہاں بڑی میز پر ناشتہ چنا ہوا تھا۔

’’ارے اس کی کیوں تکلیف کی اشرف نے کہا۔                                                     

’’تکلیف ۔ ابھی تک تو کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی ۔‘‘ فریدی نے ہنس کر کہا۔

’’اور حمید صاحب ۔‘‘ثریا بولی۔

’’ابھی وہ غُسل خانے ہی میں تشریف فرما ہیں ۔‘‘ شہناز بولی۔

’’تو آپ کیجئے انتظار ہم لوگ تو شروع کر رہے ہیں ۔‘‘ فریدی نے کہا سب لوگ بننے لگے اور شہناز نے شرما کرسر جھکا لیا۔

میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ وہ ایسی ہی حالت میں سیدھا رہتا ہے جب اس کے ساتھ بے پروائی برتی جائے ۔‘‘

فریدی نے کہا۔‘‘ ورنہ دوسری صورت میں تو مزاج ہی نہیں ملتے۔‘‘

’’بہر حال بہن شہناز آپ کے مشورہ پرعمل نہ کرسکیں گی ۔‘‘ ثریا بولی۔

خیر تو آپ زچ ہوں گی مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘فریدی نے کہا اور ناشتہ شروع کردیا۔وہ لوگ ناشتہ کررہی رہے تھے کہ کمپاؤ نڈ میں کا ر ا سٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی۔

لیجیے نکل گیا ہاتھ سے ‘‘فریدی نے چونک کر کہا۔‘‘ عجیب خطبی آدمی ہے۔ بعض اوقات مجھے سچ مچ اس پر غصہ آنے لگتا ہے۔‘‘

شہناز کُرسی سے اُٹھ کر کھڑکی کے قریب آئی۔ حمید فریدی کی کار پھاٹک کے باہر لے جا چکا تھا۔ وہ کچھ مضمحل  ہی ہو کر

واپس آگئی۔

’’دیکھا آپ نے ‘‘فریدی نے اس کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ کر کہا۔

’’ تو میں کیا کروں ۔‘‘ شہناز تیوری چڑھا کر بولی۔

’’اسے آدمی بنانے میں تو تھک کر ہار چکا ہوں۔‘‘ اس پر ایک قہقہہ پڑا اور شہناز جھینپ گئی۔

’’تو اس کا مطلب یہ کہ پکنک ہو سکے گی ۔ ‘‘ شیلا نے ما ہو سانہ لہجے میں کہا۔

’’ نہیں صاحب یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘ فریدی نے بولا ۔

 ’’ شاید شہناز نہ جائیں۔‘‘ ثریا نے کہا۔

’’کیوں شہناز ،ثریا کو گھور کر تیز لہجے میں بولی۔ ’’ میں کیوں نہ جاؤں گی۔‘‘

’’ارے بھئی اس میں بگڑنے کی کیا بات ہے۔ شیلا ہنس کر بولی۔ ناشتہ کر چکنے کے بعد فریدی نے اپنی رائفل اٹھائی اور ان لوگوں کے ہمراہ بر آمدے میں آیا۔ ’’ کیا کریں کارلے کر چلا گیا۔ فریدی بولا ۔ ‘‘

’’کرنا کیا ہے؟ ‘‘ اشرف نے کہا۔ ’’ کا ر ہے تو سب اشرف کی کار میں بیٹھ کر روانہ ہوئے۔

’’میں شاید دو سال بعد جھریالی کی طرف جارہا ہوں ۔’’ فریدی نے کہا۔

’’ اب تو وہاں دو ایک عمارتیں بھی بن گئی ہیں۔ اشرف بولا ۔

’’عمارتیں ‘‘فریدی چونک کر بولا۔’’ وہ تو ایک بالکل ہی ویران مقام ہے۔

’’ ٹھیک جھیل کے سامنے دو ڈاکٹروں نے اپنی تجربہ گاہ بنا رکھی ہے بہت بڑی اور شاندار عمارت ہے اس سے تقریباً ایک میل کی دوری پر ایک کارخانہ ہے۔ جہاں خیموں اور چھولداریوں کے لئے بانس کے ستون بنائے جاتے ہیں۔‘‘

’’تجربہ گاہ کس قسم کی ہے۔ ’’فریدی نے پوچھا۔

’’بہت ہی دلچسپ اور عجیب !‘‘اشرف بولا۔’’ انہوں نے بے شمار وحشی درندے پال رکھے ہیں۔‘‘

’’ وحشی درندے فریدی نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا " آپ نے تو ابھی کہا تھا کہ وہ ڈاکٹر میں بھلا ڈا کٹروں کو

’’وحشی درندوں سے کیا کام۔

’’وہ ڈاکٹر بھی عجیب ہیں ‘‘اشرف نے کہا ’’ میں نے سنا ہے کہ وہ کوئی بالکل نئے قسم کے تجربات کر رہے ہیں۔‘‘

 سلسلے میں ؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔

’’ وضاحت کے ساتھ تو مجھے معلوم نہیں لیکن اتنا سنا ہے کہ وہ آدمی کی کا یا پلٹ دیتے ہیں۔‘‘

’’ چیز بڑی دلچسپ ہے فریدی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

’’اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ ان کے سائن بورڈ ہیں‘‘ اشرف ہسنتا ہوا بولا۔ ایک سائن بورڈ پر لکھا ہے۔ یہ دلوں کو شیر بنانے کا کارخانہ خیر یہ تو کوئی ایسی بات نہیں لیکن دوسرا سائن بورڈ تو بالکل ہی احمقا نہ ہے۔ اس پر لکھا ہے۔ ’’یہاں تو ٹوٹے پھوٹے آدمیوں کی مرمت کی جاتی ہے۔‘‘ سب لوگ بے ساختہ ہنس پڑے لیکن فریدی ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہو گیا ۔ ’’کیاآپ سچ کہہ رہے ہیں ۔ فریدی تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولا۔ خود چل کر دیکھ لیجیے گا ‘‘اشرف نے کہا۔

’’ایسے موقع پر حمید صاحب کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوگی ۔’’ ثریابولی۔

 ’’ مجھے امید ہے کہ اس سے جھریالی پر ضر ور ملاقات ہوگی ۔ ’’فریدی نے کہا۔’’کیا کہہ کر گئے ہیں ‘‘شہناز نے پوچھا۔

’’میں انہیں اس لئے سنارہا ہوں کہ اب بھی اپنا فیصلہ بدل دیں ۔‘‘ فریدی بولا اور شہناز جھینپ گئی۔

’’ اب زیادہ نہ چھیٹر ہیے ورنہ یہ اس کی کسر حمید صاحب سے نکال لیں گی ۔ ‘‘شیلا نے کہا۔

تقریبا دو گھنٹے بعد وہ لوگ جھریالی پہنچ گئے۔ یہ ایک پُر فضا مقام ہے بلکہ اگر اسے شکار گاہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا تقریبًا دومیل کے رقبے میں ایک خوبصورت جھیل پھیلی ہوئی ہے جس کے چاروں طرف سر سبز جنگل ہے جو زیادہ گھنے نہیں۔

در اصل اس جھیل ہی کا نام جھریالی ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے قرب وجوار کا علاقہ بھی اسی نام سے پکارا جانے لگا ہے۔ یہاں ہرن اور بارہ سنگھوں کا بہت اچھا شکار ہوتا ہے۔ کبھی کبھار وحشی درندے بھی مل جاتے ہیں جن میں تیندوا تو بہت ہی عام ہے۔ جھیل میں مچھلیوں کا اچھا خاصا شکار ہوتا ہے۔

تھوڑی دور ہی فریدی کو اپنی کارکھڑی دکھائی دی ۔ ’’لیکن حمید کہاں گیا ۔ فریدی نے کہا۔

’’کہیں ہوں گے شہناز لا پرواہی سے بولی۔

دفعتًا قریب کی جھاڑیوں میں جنبش ہوئی ۔ حمید نے سرنکال کر باہر دیکھا اور پھر اس طرح پیچھے ہٹ گیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

سب لوگ جھاڑیوں میں گھس گئے۔ حمید نے چھلی پھنسانے کی زور یں جگہ جگہ رکھی تھیں اور ایک پتھر سےٹیک لگائےبیٹا پائپ پی رہا تھا۔ ان لوگوں کے وہاں پہنچ جانے پر بھی اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ ہوئی ۔

’’منانے والوں کو دیکھ کر لوگ رونمای کرتے ہیں۔‘‘ ثریا ہنس کر بولی۔

’’کیا مطلب شیلا بولی۔

’’فریدی صاحب اور شہناز جیسے قدر دانوں کی موجودگی بھلا کسے نصیب ہوگی ۔ ‘‘حمید کے رویّے سے ایسا معلوم ہا تھا جسے دو بہرا ہوگیا ہو، ددفعتًااس نے ایک ڈور کی چرخی چلانی شروع کی اور ایک بڑی سی چھلی کو پانی سے کھینچ کر باہر نکال لیا۔

’’بہت اچھے بہت اچھے ثریا اور شیلا تالیاں بجاتی ہوئی چینخیں’’ اور وہ تجربہ گاہ ۔ فریدی اشرف کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔

’’ان درختوں کے پیچھے ہے !‘‘اشرف نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا تو آپ لوگوں کا کیا پروگرام ہے ۔ فریدی نے بلند آواز میں پوچھا۔ ’’ہم سب پہلے اس عجیب و غریب تجربہ گاہ کو دیکھیں گے۔‘‘ عورتوں نے ایک زبان ہو کر کیا۔

’’ضرور دیکھئے ۔ حمید اچانک ہوا ۔ ’’ قریب قریب آپ بھی کافی ٹوٹے پھوٹے ہیں۔‘‘

’’.....کیا تم اسے دیکھ آئے ہو۔ ‘‘فریدی نے پوچھا۔

’’دیکھنا کیسا میں نے تو اپنا نام بھی رجسٹر میں درج کر دیا ہے۔ ایک ما و بعد میر انمبر آئے گا۔‘‘

’’کیا مطلب۔‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’شیر بنے کا ارادہ ہے‘‘حمید نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ یعنی!‘‘

’’دلچسپی کا مشغلہ ہاتھ آ گیا ہے۔ دونوں پر لے سرے کے احمق ہیں ۔‘‘

’’انہیں ڈاکٹروں کا تذکرہ کر رہے ہو۔‘‘

’’جی ہاں ایک انگلینڈر ٹیرن ہے اور دوسرا جرمنی سے ڈگری لے کر آیا ہے۔‘‘

’’خیر وہ تو سب ہے لیکن آپ وہاں سے اس طرح بھاگے کیوں؟ ‘‘شہناز نے تیوری چڑھا کر کہا۔

’’ تا کہ آپ لوگوں کے کھانے پینے کا معقول انتظام کر سکوں میرے خیال سے اب آپ اس چھلی کاو د ھیڑنا شروع

کر دیجئے‘‘حمید نے کہا۔

’’مچھلی تو بعد میں ا دھیڑی جائے گی۔ ‘‘ثریا بولی ۔’’ شہناز کا خیال پہلے آپ ہی کو ادھڑنے کا ہے۔‘‘

’’حمید نے شہنازکی طرف ایسی بے بسی اور مسکنیت سے دیکھا کہ اسے بےساختہ ہنسی  آگئی۔

’’ آپ کا خیال غلط ہے۔ ‘‘حمید نےثریا سے کہا۔

’’اچھا تو کون کون چل رہا ہے۔‘‘فریدی نے کہا،سب تیارہوگئے۔

’’کہاں بیکار وقت برباد کرنے جاؤ گی۔‘‘ حمید نے آہستہ سے شہناز سے کہا۔

’’ آپ سے مطلب شہناز نے کہا اور فریدی کے ساتھ ہولی حمید بدستور  بیٹھا چرخیاں گھماتا رہا۔

’’ اشرف فریدی وغیرہ کی رہنمائی کر رہا تھا۔ درختوں کے جھنڈ سے گزرتے ہوئے وہ لوگ ایک عمارت کی چار دیواری کے قریب پہنچے پھاٹک پر ایک نیپالی پہرے دار بیڑی پی رہا تھا۔ ان لوگوں کو پھاٹک کی طرف آتا دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔

کدھر جانا مانگتا۔‘‘ وہ بولا۔

’’اندر.... ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے۔ فریدی نے کہا۔

اچھا ٹھرو، ہم جا کر بولتا۔ ‘‘پہرے دار نے کہا اور اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد لوٹا۔

’’فرمائیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں ۔ ڈاکٹر نے کہا۔

’’ہمیں آپ کا سائن بورڈ یہاں تک کھینچ لایا ہے۔‘‘

’’اوہ ڈاکٹر ہنستا ہوا بولا۔ یہ ہندوستان ہے۔ اگر ہم اس طرح کی حرکت نہ کریں تو کوئی ہماری طرف دھیان ہی نہ دے۔‘‘

’’مگر یہاں اس ویرانے میں تو بہت کم لوگ آتے ہوں گے ۔ فریدی نے کہا۔ ‘‘

’’آپ کا خیال درست ہے ۔ ڈاکٹر بولا ۔ ’’ لیکن ابھی ہم زیادہ بھیڑ چاہتے بھی نہیں ہیں ۔‘‘

’’ ایسی صورت میں یہاں اس قسم کے سائن بورڈ لگانے کی کیا ضرورت تھی ۔ ‘‘ فریدی ہنس کر بولا۔’’ ظاہر ہے کہ آپ نے یہ محض لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے لگائے ہیں۔‘‘

’’ان بورڈوں کا صرف یہی مقصد نہیں ہے ۔‘‘ڈ اکٹر مسکرا کر بولا ’’ یہ بھی طبی دنیا میں ایک نئے قسم کا تجربہ ہے۔‘‘

’’تجر بہ فریدی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’ جی ہاں‘‘۔ ڈاکٹر پُر سکون لہجے میں بولا۔’’ اگر آپ کو جلدی نہ ہو تو میں وضاحت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کروں گا۔‘‘

’’ مجھے خوشی ہوگی ۔ فریدی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھی سبھی کُرسیوں پر بیٹھ گئے۔

’’یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ امراض کی صحیح تتشخیص کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔‘‘

’’جی ہاں ۔ فریدی نے جواب دیا۔

’’ہماری تھیوری یہ ہے کہ اگر جسم کے سارے اعضاتھوڑی دیر کے لئے ڈھیلے ہو جا ئیں یعنی ان کسی قسم کا زور نہ پڑے تو ایسی حالت میں مرض کی تشخیص میں کوئی خاص وقت نہیں ہوتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی حالت پیدا کس طرح کی جائے ہم لوگ انسانی فطرت اور اس کی جذباتی زندگی کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صرف خوشی ہی کا جذ بہ ایساہے جو انسان کے جسم اور ذہن کو ایسی حالت میں لے آتا ہے جسے ہم سکون تو نہیں کہ سکتے ہیں البتہ اس سے ایک ملتی جُلتی حالت ہے جسم میں اعضاء ایک قسم  کا ڈھیلا پن محسوس کرتے ہیں یعنی ان پرکسی قسم کا دباؤ نہیں پڑتا لہذا ہم مریضوں کا طبی معائنہ کرنے سے قبل انہیں خیالات کے تحت ہنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر انار اسائن بورڈ دیکھتے ہی آپ کوہنسی آئی ہوگی ۔ لوگوں کو ہنسانے کے اور بھی بہتر طریقے ہم لوگ استعمال کرتے ہیں۔ مثلا کارٹون دکھا نا مزاحیہ ریکارڈ سنانا۔ مسخروں کی نقلیں دکھانا وغیرہ وغیرہ ۔ ہم ان سے اس طرح کے بے ڈھنگے سوالات کرتے ہیں کہ انہیں بے ساختہ ہنسی آئے مثلاً میں آپ سے یہ پوچھوں کہ جب آپ بکری کے پیٹ سے پیدا ہوئے اس وقت آپ کی عمر کیا تھی تو آپ کو بےساختہ ہی آجائے گی ۔

’’لیکن مجھے افسوس ہے کہ مجھے قطعی ہنسی نہیں آئی ۔‘‘ فریدی نے سنجیدگی سے کہا اور سب لوگ ہنسنےلگے۔

’’محض اس لئے کہ میں نے آپ کو سب کچھ بتا دیا ہے لیکن اگر میں تنہا سنجیدگی کے عالم میں طبی معائنہ کرتے وقت آپ سے یہی سوال کرتا تو آپ اپنی ہنسی کسی صورت سے نہ روک سکتے ۔‘‘

’’ہاں یہ ممکن ہے۔ ‘‘فریدی نے کیا۔

’’ آپ لوگ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔ ‘‘ڈاکٹر نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔

’’ہم لوگ شہر سے شکار کھیلنے کی غرض سے آئے ہیں لیکن آپ کا سائن بورڈ دیکھ کر سب کچھ بھول گئے۔ ‘‘فریدی نے ہنس کر کہا پھر سنجیدگی سے بولا ۔‘‘ آپ لوگوں کا کارنامہ واقعی قابل ستائش ہے طیسی دنیا میں آپ کی یہ تھیوری یقینا ایک بہت بڑا انقلاب پیدا کر دے گی۔‘‘

’’شکریہ ڈاکٹر نے کہا ’’لیکن ابھی آپ ہمارے طریقہ علاج سے واقف نہیں ۔‘‘

’’اگر اس سے بھی مستفید ہو سکوں تو اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا ۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ضرور ...ضرور!‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ’’ آئیے میرے ساتھ ۔

 ڈاکٹر اُٹھا، اس کے ساتھ فریدی کے ساتھی سبھی اٹھ گئے وہ انہیں متعدد کمروں اور برآمدوں سے گھماتا ہوا ایک دوسری عمارت میں لایا فریدی محسوس کر رہا تھا کہ اس عمارت کو بنوانے میں ہزاروں روپے صرف ہوئے ہوں گے۔ جب وہ اس ڈاکٹر کی حماقت آمیز اور بے سروپا گفتگوں پر غور کرتا تو اسے حیرت ہونے لگتی۔ آخر یہ کیا تماشہ ہے۔ یہ لوگ یونہی بے مصرف تو اتنا چیر صرف نہیں کر رہے ہیں۔ ان حماقتوں کے پردے میں کوئی بہت ہی خطرناک قسم کی سنجیدگی کام کر رہی ہے۔ وہ لوگ ایک بہت بڑے کمرے میں آئے یہاں سائنسی تجربات کرنے کے بہت سے آلات رکھے ہوئے تھے۔ ایک طرف ایک زندہ چیتا پڑا ہوا تھا۔ جس کے چاروں پیر رسیوں سے جکڑے ہوئے تھے۔ اس کے جبڑوں کے گرد ایک تار لپیٹ دیا گیا تھا تا کہ وہ اپنا منہ نہ کھول سکے۔ دوسرا ڈ اکٹر ایک آلے کی مدد سے اس کے جسم سے خون نکال کر شیشے کے ایک برتن میں اکٹھا کر رہا تھا۔ اس سے کچھ اور ہٹ کر چند لوگ کھڑے تجربے کو حیرت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ چیتے کے حلق سے درد و کرب کی وجہ سے عجیب قسم کی گھٹی گھٹی سی آواز میں نکل رہی تھیں۔ وہ آزاد ہونے کے لئے زور مار رہا تھا لیکن بندش اتنی سخت تھی کہ جنبش کرنابھی دشوار معلوم ہوتا تھا فریدی اپنے ہمراہی ڈاکٹر سے اس کے متعلق کچھ پوچھنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ دفتًاچیتے کے منہ پر چڑھا ہوا تار کھسک کر زمین پر آرہا اور چیتے نے ایک چیخ ماری۔ مگر چیتے کی چیخ تھی یا بکرے کی آواز۔ وہاں پر کھڑے ہوئے سارے لوگ بوکھلا گئے۔ چیتا بدستور بکرے کی آواز میں چیخےجارہا تھا دوسرے ڈاکٹر کے چہرے پر ہوائیاں اڑ نے لگیں۔ اس نے فریدی کے ساتھی ڈاکٹر کی طرف گھبرا کر دیکھا۔ فریدی کو  بیساختہ ہنسی آگئی۔ اس کے ساتھ والے ڈاکٹر نے بھی قہقہ لگایا۔

’’دیکھا آپ نے۔‘‘ اُس نے فریدی کی طرف مخاطب ہو کر کہا۔ ‘‘ہم لوگ اپنے مریضوں کو ہسانے کے لئے ایسےطریقے اختیار کرتے ہیں ۔‘‘

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ۔ ‘‘فریدی نے کہا۔

یہ سچ مچ بکرا ہے۔‘‘

’’فریدی نے متحر ہو کر دُہرایا۔

’’جی ہاں ہم نے اس پر چیتے کی کھال چڑھادی تھی ۔‘‘

’’ بہت خوب ۔ فریدی اسے تعریفی نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔ ’’واقعی آپ لوگوں نے بہت ہی نفیساتی قسم کےطریقے ایجاد کر رکھے ہیں۔‘‘

’’اور آپ نے ابھی ہمارا طریقہ علاج تو دیکھا ہی نہیں ۔‘‘ ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا۔

’’اگر آپ اس پر بھی کچھ روشنی ڈال سکیں تو ممنون ہوں گا ۔‘‘ فریدی بولا ۔

’’ضرور ضرور اس طرف تشریف لائیے۔ ڈاکٹر نے ایک دروازے میں داخل ہو کر کہا۔

اس کمرے میں چاروں طرف چھوٹے بڑے کٹہرے بنے ہوئے تھے جن میں انواع و اقسام کے جنگلی جانور بند تھے۔ ان لوگوں کے داخل ہوتے ہی ایک چھوٹا سا سرخ رنگ کا بندر تیز اورپتلی آواز میں چیخا بالکل ایسا معلوم ہوا جیسے کسی ریلوے انجن نے سیٹی دی ہو ۔ شہناز و غیر ہ سہم گئیں۔

’’ ڈریے نہیں ۔‘‘ ڈاکٹر عورتوں کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’ اول تو ان میں کوئی درندہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان سب کےکٹہرے مقفل ہیں۔‘ُ‘

’’ہاں تو آپ اس کٹہرے میں ایک کتا بھی دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘ڈاکٹر نے کہا۔

’’وہ آئیر ڈیل ٹیریئر ۔نا‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’غالبًا آپ کو کتوں سے خاصی دلچسپی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا۔

’’کچھ یونہی  سی۔‘‘ہی فریدی بولا۔

’’خیر تو اگر میں اس آئیر ڈیل ٹریئرکو اس لومڑی کے کٹہرے کے قریب چھوڑ دوں تو کیا ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔

’’لو مڑی سہم جائے گی۔‘‘  اشرف بولا۔

’’ ٹھیک ۔‘‘ ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا۔ ’’لیکن ٹھہر ئیےمیں آپ کو ایک دلچسپ تماشاد کھا تا ہوں ۔‘‘ وہ کمرے سے چلا گیا۔

فریدی وغیرہ کٹہروں کے جانور د یکھنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر واپس آگیا اس کے ہاتھ میں انجکشن لگانے والی سرینج تھی پہلے اس نے کتے کو کٹہرے سے نکال کر لومڑی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ کٹہرے پر جھپٹ پڑا۔ لومڑی خوفز دو آوازیں نکالتی ہوئی ایک طرف سمٹ گئی ۔ ڈاکٹر نے کتے کو پکڑ کر دوبارہ کٹہرے میں بند کر دی اور پھر لومڑی کی ایک ٹانگ پکڑ کر سلاخوں کے باہر کھنچتے ہوئے اس میں انجکشن دے دیا۔ لومڑی نے چیخ مار کر ٹانگ اندر کھینچ لی۔ لومڑی تھوڑی دیر تک بیٹھی کانپتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے سردی لگ رہی ہو پھر اچانک اس نے آہستہ آہستہ غرانا شروع کر دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی کتا اپنے کسی حریف کو دیکھ کر غز آتا ہے۔ ڈاکٹر نے کتے کو دوبارہ کٹہرے سے نکالا ۔ لومڑی کی غراہٹ اور تیز ہوگئی کتا اس بار اس کے کٹہرے پر جھپٹنے کے بجائے دور کھٹرا لومڑی کی طرف گھور رہا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ کسی شبےمیں پڑ گیا ہو۔ وقتًا ڈاکٹر نے لومڑی کا کٹہرہ کھول دیا اور وہ کتے پر جھپٹ پڑی کتا شاید اس غیر متوقع حملے کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ اچھل کر ایک طرف ہو گیا۔ لومڑی نے اس پر پھر حملہ کیا اس ہنگامے میں ثریاوغیرہ کے منہ سے چیخیں نکل گئیں۔ ڈاکٹر نے ہنستےہوئے لومڑی کو پکڑا اور اسے پھر کٹہرے میں دھکیل کر کھڑکی بند کردی۔ لومڑی بدستور غر ائے جارہی تھی۔ کتا چپ چاپ کٹہرے میں چلا گیا۔

’’دیکھا آپ نے!‘‘ ڈاکٹر فریدی کی طرف دیکھ کر بولا ۔

فریدی نے سر ہلا دیا۔ وہ بالکل خاموش تھا اور ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ، اس کے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے ۔ آنکھوں کے حلقے اس طرح تنگ ہو گئے تھے جیسے وہ حال کی چکا چوند سے نظریں بچا کر مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہو۔

’’لومڑی پر اس انجیکشن کا اثر عارضی ہے۔ ڈاکٹر بولا ’’تھوڑی دیر بعد وہ ہوش میں آجائے گی۔ یہ وہ نسخہ ہے جو نازی ڈاکٹر نے ایجاد کیا تھا۔ مچھلی جنگ عظیم میں اسے بڑی شدت سے استعمال کیا گیا۔ قریب قریب ہرلڑنے والے تازی کو اس قسم کے انجکشن دیئے جاتے تھے۔‘‘

’’اوہ!‘‘ فریدی کے منہ سے حیرت زدہ آواز نکلی۔

’’لیکن ہم نے اس میں بہت سی تبدیلیاں کر دی ہیں۔ ہم اس انجکشن کے ذریعہ بزدلوں کو ہمت والا بنا سکتے ہیں ۔ اس سلسے میں ہم کئی ایک تجربے اور کر رہے ہیں۔ اس انکشن کو ذرا کچھ اور تیز کردیا جائے تو تپ دق کے مریض اس سے اچھے ہوسکتے ہیں۔‘‘

’’آپ لوگوں کے کارنامے قابل قدر ہیں۔‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’میں کبھی آپ لوگوں سے تفصیلی ملاقات کروں گا۔‘‘ ’’یہ میر ا کارڈ اور یہ میرے ساتھی کا ۔‘‘ ڈاکٹر نے دو ملاقاتی کارڈ فریدی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ غالباً اب آپ لوگ  شکارکھیلیں گےلیکن کوئی درندہ شایدی آپ کومل سکے۔

’’کیوں ؟ ‘‘فریدی نے حیرت سے کہا۔ تیندوے تو یہاں بکثرت ملتے ہیں۔‘‘

’’کبھی تھے لیکن اب نہیں ڈاکٹر بولا ۔’’ ان سب کو ہم نے اپنی تجرباتی مہم میں کھپادیا ۔ ‘‘

’’تجرباتی مہم‘‘ فریدی نے کہانہ انداز میں دُہرایا۔

’’جی ہاں ۔ بعض اوقات ہم وحشی درندوں کا خون انسان کے جسم میں ڈال کر اس کی بعض خامیاں دور کرتے ہیں ۔ ‘‘

’’اوہ فریدی نے کیا۔ ’’اچھا  ڈاکٹراس تکلیف کا بہت بہت شکریہ۔ آپ لوگوں سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ میں کوئی فرصت کا موقع نکال کر آپ سے ضرور ملوں گا۔ ‘‘

فریدی وغیرہ ڈاکٹر سے مصافہ کر کے کمپاؤنڈ سے باہر چلے آئے۔  پھاٹک سے گزرتے وقت فریدی نے نیپالی چوکیدار کے ہاتھ پر ایک پانچ روپے کا نوٹ رکھ دیا۔

’’میرے خیال سے تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ ‘‘شہنازنے راستے میں فریدی سے کہا۔

’’ اس قسم کی ضرور تیں صرف میں ہی سمجھتا ہوں۔‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔

یہ لوگ وہاں پہنچے جہاں سارجنٹ محمد مچھلیوں کا شکار کھیل رہا تھا اس نے دو تین کافی وزنی قسم کی مچھلیاں شکار کر لی تھیں اور اب گھنی جھاڑیوں کی چھاؤں میں اوند ھالیٹاپائپ پی رہا تھا۔ فریدی کو دیکھتے ہی اچھیل کر کھڑا ہو گیا۔

’’ فرمائیے !کوئی نئی شرارت فریدی نے مسکرا کر کہا۔

’’ جی نہیں ! ‘‘آپ کے لئے دلچپسی کا مشغلہ اور اپنے لئے ایک مستقل آفت‘‘حمید نے کہا۔

’’ کیا مطلب؟‘‘ فریدی نے کہا ۔

’’ابھی بتاتا ہوں حمید نے آہستہ سے کہا اور پھر عورتوں سے مخاطب ہو کر ہوا ۔’’ آپ لوگوں کے لئے یہ جگہ سب سے بہتر رہے گی ۔ یہاں کافی سایہ ہے اور صاف و شفاف زمین بھی مچھلیاں بھی کافی ہیں۔ آپ لوگ اسٹود و وغیرہ تو ساتھ لائی ہی ہوں گی اور اس کے بعد سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

ثریا اپنی کار سے ضروری سامان نکال لائی۔ شیلا مچھلیاں ادھیڑ نے لگی اشرف گھاس پر لیٹ کر ایک کتاب دیکھنے لگا۔

ثریا اور شہنازاسٹو ٹھیک کرنے میں مشغول ہو گئیں۔

اگر دو چارسیخ پر بھی مل جائیں تو کیا کہنا۔‘‘ فریدی نے بندوق اٹھاتے ہوئے کہا ’’خیر گھوم پھر کر دیکھتا ہوں۔‘‘

 حمید بھی اس کے ساتھ ہولیا۔

’’کہو ....!کیا کہ رہے تھے ۔‘‘ فریدی نے تھوڑی دور چلنے کے بعد پو چھا۔ حمیدے پتلون کی جیب سے ایک ہار نکال کر فریدی کی طرف بڑھا دیا۔

’’یہ کیا ‘‘فریدی ہار کو ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے بولا’’ ارے یہ تو ہیروں کا ہے۔ نہایت عمدہ قسم کے ہیرے تمہیں کہاں سے مالا‘‘

’’یہ بعد کو بتاؤں گا ‘‘حمید نے کہا آپ یہ بتائے کہ آپ اس ہار کے بارے میں کیا جانتے ہیں ۔ ‘‘

’’عجیب احمق آدمی ہو!‘‘ فریدی نے کہا۔ ہار تمہارے پاس ہے اور اس کے متعلق میں بتاؤں۔‘‘

’’خیر تو پھر میں ہی بتاؤں ‘‘حمید بولا۔’’ آپ نے پرسوں کے اخبار میں ترقی سعید کی آٹھ سالہ بچی کی گمشدگی کا حال پڑھا تھا۔‘‘

’’نہیں !‘‘فریدی نے جواب دیا۔

’’خیر میں نے پڑھا تھا میں ان لوگوں میں سے ہوں جو خبریں  پڑھ چکنے کے بعد اشتہار تک چاٹ ڈالتے ہیں‘‘

’’آگے کہو۔ ‘‘فریدی بولا۔

’’یہ ہار وہ لڑکی پہنے ہوئے تھی ۔‘‘

’’تمہیں کیسے معلوم ہوا۔‘‘

’’اخبار میں یہ بھی تھا۔‘‘

’’لیکن اس کا کیا ثبوت کہ یہ وہی ہار ہے۔‘‘

’’ثبوت ابھی پیش کرتا ہوں۔ ‘‘حمید نے کہا ارے ہار کے سب سے بڑے پھول کی پشت پر لگے ہوئے سونے کے ڈھکن کو اٹھا کر فریدی کے سامنے پیش کر دیا ڈھکن میں اندر کی جانب ایک چھوٹی ہی تصویرفٹ تھی ۔ کسی خوبصورت اور نوجوان عورت کی تصویر۔

’’کیا تم اس عورت کو پہچانتے ہو۔‘‘ فریدی نے پو چھا۔

’’نہیں حمید نے جواب دیا۔

’’پھر یہ ثبوت کیا۔‘‘

’’اخبار میں اس تصویر کا تذکر و تھا۔‘‘

’’تمہیں یہ ہار ملا کہاں ہے۔‘‘ فریدی نے پو چھا۔

’’ایک مچھلی کے جبڑوں میں اٹکا ہوا تھا۔‘‘

’’کیا فریدی نے حیرت سے کہا۔

’’جی ہاں‘‘

’’اچھا تمہیں پھر اس لڑکی کے بارے میں کچھ معلوم ہوا یا نہیں ۔‘‘

’’ہوں‘‘ فریدی نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔ ان دونوں ڈاکٹروں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔‘‘ اور تھوڑی دیر بعد بولا۔

’’کام تو قائدے کا کر رہے ہیں مگر طریقہ کار بالکل احمقانہ ہے۔‘‘

’’کیا تم نے بھی کوئی احمقانہ حرکت دیکھی ۔‘‘

’’جی ہاں ایک زندہ چیتے کے ہاتھ پیر باندھ کر اس کے جسم سے خون نکال رہے تھے ۔ ‘‘

’’لیکن وہ چیتا نہیں بکرا تھا۔‘‘

’’بکرا۔‘‘حمید قہقہ لگاتا ہوا بولا۔’’چلئے آپ نے اور بھی بتا دیا۔‘‘

’’درحقیقتوہ بکرا ہی تھا۔‘‘فریدی نے کہا اور منختصر الفاظ میں سارے واقعات حمید کو بتاتا ہوا بولا۔‘‘صرف ایک چیز  مجھے ان کے خلاف شبے میں مبتلا کررہی ہے۔‘‘

’’وہ کیا‘‘۔

’’بکرے کے بولنے پر ڈاکڑ آصف کا بوکھلا جانا اور دفتًا میرے ساتھ والے ڈاکڑ وحید کا قہقہ لگا کراس کا جواب پیش کرنا۔اگر اور حقیقت اس حرکت سے ان کی وہی مراد تھی جو انہوں نے مجھے بتائی تو ڈاکڑ آصف کے گھبراجانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔بہر حال یہا ں حماقت کے پردےمیں کوئی بہت بھیانک ڈراما کھیلا جا رہا ہے۔‘‘۔

’’مجھے بھی کچھ ایساہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘حمید نے کہا’’ورنہ اس ویران مقام پر تجربہ گاہ قائم کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔‘‘

’’خیر اس کے لئے تو نہایت عمدہ بہانہ تراش کر سکتے ہیں۔‘‘فریدی بولا۔’’چونکہ ان کے تجربات وحشی درندوں سے متعلق ہیں۔اس لئے انہوں نے اس کےلئےایک ویران جگہ منتخب کی۔‘‘

’’حمید خاموش ہو گیا۔‘‘

’’اس ہار کو احتیاط سے جیب میں رکھ لو۔‘‘فریدی نے کہا۔’’ان لوگوں کے سامنے اس کا تذکرہ نہ کرکے تم نے عقل مندی سے کام لیا۔‘‘

’’تواس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے‘‘حمید نے کہا۔

’’کرنل سعید سے ملے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘فریدی نے کہا۔’’ممکن ہے بچی مل گئی ہو۔‘‘

’’لیکن یہ ہار یہاں جھیل میں کیسے پہنچا۔‘‘

’’بھئی تم بھی کمال کرتے ہو۔ ابھی یہی نہیں کہا جا سکتا کےیہ وہی ہار ہیں۔میں محض تصویر کی بنا پر اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرلینا درست نہیں سمجھتا۔‘‘

حمید پھر خاموش ہوگیا۔ فریدی کچھ سوچنے لگاتھا۔سیخ پروں کا جھنڈ شور مچاتا ہواان کے اوپر  سے گزر گیا۔دونوں رک گئے۔انہیں توقع تھی کی یہ جھنڈ دو تین  چکر لگانے کے بعد یہیں جھیل میں گرے گا۔ وہ تھوڑی دیر  تک انتظار کرتے رہے لیکن ان کا خیال  غلط تھا۔سیخ پروں نے دو چکر لگائے اور پھر مشرق کی طرف اڑتے چلے گئے۔

’’غلبًا یہ اگلے تلاب میں گریں گے۔‘‘فریدی نے کہا۔

’’کون سا تا لاب۔‘‘حمید نے پوچھا۔

’’یہاں ست تھوڑی دور پر ہے آؤ چلیں۔

دونوں اسی طرف روانہ ہوگئے جدھر سیخ پروں کا جھنڈ گیا تھا کھیتوں اور جھاڑیوں  سے نکل کر وہ ایک کچی اور کشادہ سڑک پر آگئے۔ مطلع ابر آلود تھا کبھی بھی سورج بادلوں سے نکل کر اپنی تیز کر نیں پھیلانے لگتا۔ جہاں یہ لوگ چل رہے تھے۔ سڑک کے دونوں طرف کھائیاں تھیں ۔جن پر سرکنڈے کی گھنی جھاڑیاں تھیں۔

’’ شاید کوئی  موٹرآرہی ہے‘‘فریدی نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا۔

’’موٹر کہاں ‘‘حمید بولا۔ مجھے تو دکھائی نہیں دیتی ۔‘‘

’’آواز تو سنائی دے رہی ہے لیکن شاید ابھی دور ہے۔ آؤ کھا ئیوں کے ادھر نکل چلیں ورنہ گرد کے ایک طوفان سے مقابلہ  کرنا پڑےگا۔

 دونوں داہنی طرف کی کھائیوں پر چڑھ کر دوسری طرف اتر گئے۔

تھوڑی دیر کے بعد سڑک پر موٹرکی آواز آئی اور پر دفتًامشین بند کردی گئی حالانکہ یہ کوئی ایسی خاص بات نہ تھی پھر بھی فریدی کی کھوجی طبیعت بے چین ہوگئی۔ وہ رگیا ۔ کھائی کے قریب آکر اس نے سرکنڈے کی جھاڑیوں سے سڑک کی طرف جھا نکاایک ٹرک سڑک پر کھڑا ہوا تھا۔ اور ڈرایئور نے نیچےاتر کر ادھر اُدھر دیکھا اور پھر اتنے میں حمید بھی فریدی کے قریب آگیا۔ ٹرک ڈرائیورموٹرکے نمبروں کی تختی تبدیل کر رہا تھا۔ اس نے پہلی تختی  نکال لی اور اس کی جگہ دوسرے نمبروں کی تختی لگادی تھوڑی دیر تک کھڑ ا اِدھر اُدھر دیکھتا رہا پھرٹرک پر بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کردیا اور ٹرک چل دیا۔

حمید نے سوالیہ نظروں سے فریدی کی طرف دیکھا جس کے ماتھے پر بے شمار سلوٹیں اُبھر آئی تھیں۔

2

’’یہ معالمہ کیا ہے۔‘‘ حمید نے کہا۔ ’’آج سارے واقعات انتہائی پر اسرار نظر آرہے ہیں ۔‘‘

’’اور اس کی شروعات تم ہی سے ہوئی۔‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔

’’کیا مطلب‘‘ ۔

’’یہ آج صبح ہی تمہارا دماغ کیوں خراب ہو گیا تھا‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ہٹا ئیے ان باتوں کو ۔‘‘ حمید بولا ۔ ’’ آخر اس نے ٹرک کے  نمبرکیوں بدلے ؟‘‘

’’بدلے ہوں گے بھئی ‘‘۔ فریدی اکتا کر بولا۔ وہ سنو!سیخ پروں کا شور سنائی دے رہا ہے۔ شاید ہم تالاب کے قریب پہنچ گئے ہیں ‘‘۔

وہ دونوں پھر چل پڑے۔ فریدی بدستور خیالات میں ڈوبا ہوا تھا۔ تالاب نزدیک ہی تھا۔ سڑک سے تقریبًا ایک فرلانگ کے فاصلے پر اونچے نیچے ٹیلوں کے درمیان تالاب کا پرسکون پانی سورج کی کرنوں سے کھیل رہا تھا۔ مشرق کی سمت سے کچھ سیخ پھر اور آئے چند لمحے پانی پر منڈلانے کے بعد نیچےگر گئے حمید اور فریدی آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے ٹیلوں کے پاس آئے فریدی نے اپنی دو نالی بندوق اٹھائی فائر ہوا۔ پرندے شور مچاتے ہوئے اڑے۔ دوسرا فائر ہوا اور دو تین اڑنے والوں میں سے بھی پانی میں گرے۔

’’بہت خوب‘‘ حمید چیخا دو نالی بندوق کا  صیح استعمال صرف آپ جانتے ہیں۔‘‘

  حمید تلاب میں اتر گیا۔ اس نے بدقت تمام چار پرندے نکالےدوسیخ پر جن کے بازو زخمی ہو گئے تھے کسی طرح ہاتھ نہ

آئے۔

’’میرے خیال سے تو اتنے ہی کافی ہوں گے۔‘‘حمید بولا  ۔

’’ اگر تمہاری نیت بخیررہی تو یقینًا ایساہی ہوگا ۔‘‘ فریدی نے کہا۔ دونوں واپس ہونے کے ارادے سے کھا ئیوں کی طرف روانہ ہو گئے ۔ آسمان پر پھیلے ہوئے بادل پھٹ کر ادھر ادھرٹکر وں کی شکل میں بکھر گئے اور دھوپ تیزی سے چمکنے لگی تھی۔ کھا ئیوں کے قریب پہنچتے پہنچتے انہیں شدت سے پیاس لگ گئی جیسے ہی وہ سرکنڈے کی جھاڑیاں ہٹاتے ہوئے اوپر چڑھے انہیں سامنے سڑک کے اس پار ایک عمارت دکھائی دی۔

’’ غالبًا یہ وہی عمارت ہے جس کا تذ کرہ اشرف نے کیا تھا۔‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’ آؤ  چلئے شاید وہاں پانی مل سکے۔‘‘

دونوں عمارت کی طرف بڑھے۔ قریب پہنچ کر انہیں مشینوں کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ فریدی عمارت کے پھاٹک پر لگا ہوا بورڈپڑھنے لگا ۔‘‘یہاں خیموں کے ستون تیار کئے جاتے ہیں۔ پھاٹک کے اندر قدم رکھتے ہی سب سے پہلے ان کی نظر ایک ٹرک پر پڑی فریدی چونک پڑایہ ہی ٹرک تھا جس کے نمبر سڑک پر بدلے گئے تھے حمید کچھ بولنے ہی والا تھا کہ فریدی نے اسے گھور کر دیکھا۔

کمپاؤن میں کئی چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے تھے۔ تین چار بڑے بڑے شیڈ تھے ۔ یہاں بانس اور لکڑی کے ڈھیر لگےتھے۔ ایک آدھ جگہ لکڑی کے برادے کے بڑے بڑے انبار بھی نظر آ رہے تھے ایک چھوٹے سے کمرے میں دروازے پر ایک تختی لگی ہوئی تھی۔ جس پر لکھا تھا۔ ’’مینجر‘‘۔

فریدی چق اٹھ کر اندر داخل ہو گیا سامنے کُرسی پر ایک دبلا  پتلاعمر آدمی بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ فریدی اور حمید کو اس نےسوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

’’مجھے افسوس ہے کہ میں کسی تجارتی مقصد کے تحت نہیں آیا۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’تشریف رکھئے مینجر مسکرا کر بولا ۔ وہ ابھی تک انہیں استعجاب آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

’’بات دراصل یہ ہے کہ ہم لوگ پیاسے ہیں ۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’اوہ ‘‘مینجرمسکرا کر بولا۔ ’’تشریف رکھئے۔‘‘ پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے گھنٹی بجائی اور ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ ان لوگوں کو پانی پلاؤ۔ اس نے کہا۔نو کر چلے جانے کے بعد وہ پھر فریدی کی طرف مخاطب ہوا۔ شاید آپ لوگ ادھر شکار کھیلنے کی غرض سے آئے تھے ۔ ‘‘

’’جی ہاں ۔‘‘

’’ اس سے پہلے بھی کبھی آئے ہیں ۔ ‘‘

’’اب سے تقر یبًاد و سال قبل ‘‘۔ فریدی نے کہا۔’’ اس وقت آپ کا کارخانہ یہاں نہیں تھا ۔ ‘‘

’’جی ہاں ابھی حال میں یہاں کا روبار شروع کیا ہے۔ اس علاقے میں بانس بکثرت پیدا ہوتا ہے اس لئے یہاں شہر سے اتنی دور آنا پڑا۔‘‘

’’ بہر حال یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہمارے یہاں بھی مغربی ممالک کے تاجروں کی طرح لوگ ترقی کی دُھن میں لگے ہوئے ہیں۔ ‘‘فریدی نے کہا۔

 پانی پینے کے بعد دونوں اٹھ گئے اور مینجر پھر کام میں مشغول ہو گیا۔

سڑک کے قریب سے گزرتے وقت فریدی نے اس نمبروں کو غور سے دیکھنا شروع کیا جیسے انہیں وہ  زبانی یاد کر لینا

چاہتا ہو۔

’’کیوں بھئی کیا خیال ہے۔‘‘ فریدی نے کہا۔ دونوں اب سڑک پر پہنچ چکے تھے۔

’’ کوئی سازش کوئی جُرم حمید کچھ سوچتا ہوا بولا

’’یہ تو ظاہری ہے، تم نے کوئی بھی بات نہیں کہی۔ فریدی نے کہا۔’’ بہر حال میں ایک نئی دردسری کے لئے تیار  ہو جانا چاہئے۔‘‘

’’وہ تو ظا ہری ہے۔ حمید نے کہا۔ ’’ بعض اوقات مجھے ہنسی آنے لگتی ہے کیا اس قسم کے سارے واقعات اور حادثات ہماراہی انتظار کیا کرتے ہیں اس ہار کو شاید میر ہی انتظار تھا۔ اس ٹرک ڈرائیور کوسڑک ہی پر نمبر تبدیل کرتا تھا ارے یہی تھا تو اس عمارت کے اندر پہنچ جانے پر یہ حرکت کی ہوتی کیا یہ ضروری تھا کہ فریدی صاحب اسے دیکھ ہی لیں۔‘‘

فریدی ہنسنے  لگا۔

’’ اسی قسم کے اتفاقات مجرموں کی گرفت کا باعث ہوتے ہیں ور نہ سُر اغر ساں کوئی ولی اللہ یا دھرما تھا تو ہوتا نہیں کہ پاتال کی خبریں لے آئے مجرموں کی ذراسی لغزش سُرا غرساں کی کا میابی بن جاتی ہے۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ خیر ذراجلدی قدم بڑھائیے بھوک کے مارے برا حال ہو رہا ہے۔ ‘‘حمید بولا۔

شہناز اسٹو و پر مچھلی کےقتلے تل رہی تھی۔ اشرف نے دوبارہ مچھلیاں پکڑنے کے لئے کالے کانٹے تالاب میں پھینک دیئے تھے اور ایک ڈور ہاتھ میں لئے بیٹھااونگھ رہاتھا۔ شیلا اور ثریا گھاس پر کہینوں کے بل لیٹی ہوئی انگریزی کے ایک رسالے میں تصویریں دیکھ رہی تھیں۔

’’اس وقت شہناز کتنی اچھی لگ رہی ہے۔‘‘ حمید نے کہا۔

’’ مچھلیاں مل رہی ہے نا‘‘ ۔ فریدی ہنس کر بولا ۔’’ پیٹو قسم کے عاشق اپنی محبوباؤں کو کھانا پکاتے دیکھ کر کافی محفوظ ہوتے ہیں۔‘‘

’’بہر حال  خُدانے آپ کو اس نعمت سے محروم رکھا ہے۔ ‘‘حمید جھینپی ہوئی ہنسی کے ساتھ بولا۔

’’خدا ہر شریف آدمی کو اس نعمت سے محروم رکھے۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’انگور کھٹےہیں۔‘‘

’’اچھا  ٹھہروں ابھی بتاتا ہوں کہ انگور کھٹےہیں یا میٹھےہیں۔‘‘ فریدی نے کہا اور شہناز کے قریب پہنچ کر بلند آواز میں بولا۔‘‘ میاں اگر عورت کھانا نہ پکائے تو مرد بھوکوں مرے اور سارا رومان رکھا رہ جائے ۔

’’ کیا بات ہے ؟‘‘شہناز نےفریدی سے پوچھا۔

 حمید صاحب فرما تے ہیں  کہ انہیں کھانا پکاتی ہوئی عورت انتہائی لچر معلوم ہوتی ہے۔‘‘ فریدی سنجیدگی سے بولا ۔

قبل اس کے کہ حمید کچھ کہتا شہنازنے اسٹور پر رکھا ہوا فرائی پان زمین پر الٹ دیا اور مچھلی کے قتلے ادھر ادھر گھاس  پر بکھر گئے اور منہ پھُلا کر  جابیٹھی۔

’’ارے ارے میں نے کب کہا تھا۔‘‘حمید بوکھلا کر بولا۔ فریدی نے قہقہہ لگایا۔ ثریا شیلا اور اشرف بھی ان کے قریب آگئے۔

’’ارے یہ کیا ہوا۔‘‘ ثریا حیرت سے شہنازکی طرفدیکھتی ہوئی بولی۔

 ’’کچھ نہیں فریدی  ہنس کر بولا۔میاں حمید اب میٹھے انگور کھا کر پیٹ بھریں گے ....کیوں حمید ۔‘‘

حمیدکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دے جھنجلا ہٹ اور ندامت نے اسے کچھ بولنے ہی نہ دیا۔

’’ تو کیا پھر یہ دونو لڑگئے ۔ شیلا نے کہا۔ ’’عجیب معصیبت ہے ارے بھئی ہم لوگوں نے کیا قصور کیا تھا۔ بھوک کے مارےبرُ احال ہور ہا ہے ۔

شہناز نے کوئی جواب نہ دیا۔ بدستور منہ پھلائے بیٹھی رہی ثریائے پھر سے فرائی پان اسٹور پر رکھا اور بچے ہوئے  قتلےتلنے لگی ۔ شیلا اور اشرف سیخ پروں کے پرنوچنے لگے۔

’’ آپ  خواہ مخواہ حمید فریدی کی طرف دیکھ کر بولا۔

’’اچھا جی مجھ سے کیا مطلب ۔‘‘

’’آپ نے خواہ مخواہ جھوٹ ‘‘

’’انگور کھٹے ہیں نا۔‘‘

’’بہر حال آپ کا مذاق بھی خطر ناک ہوتا ہے۔‘‘ حمید منہ لٹکا کر بولا۔

’’میں یہ ثابت کرنا چاہتا تھا ک انگور کھٹےنہیں ہیں۔ بلکہ اس قسم کے فضول نخرے برداشت کرنے کے لئے میرے پاس وقت نہیں ۔ فریدی سنجیدگی سے بولا ۔ عورت بات بات پر روٹھتی ہے اور متوقع رہتی ہے کہ اسے کوئی منائے گا اور اگر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو اسے اپنی زندگی ویران نظر آنے لگتی ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگتی ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی ہمد ردنہیں ۔ اس کا وہ وقتی طور پر روٹھ جانا ایسی صورت میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب کہ کوئی اسے منائے لیکن اگر اس کی یہ توقع پوری نہ ہوئی تو یہی حالت ایک مستقل مظلومیت بن جاتی ہے اور یہ بھی سمجھ لوکہ اگر کسی عورت کو مظلومیت کیا خبط ہو گیا تو مرد کے لئے ایک مستقل عذاب بن جاتی ہے کیا سمجھے‘‘

’’جی ہاں بہت کچھ کجھ گیا ۔‘‘ حمید نے کہا۔ ’’در اصل آپ کا علم آپ کے لئے عذاب بن گیا ہے آپ کبھی با قاعدہ قسم کی زندگی نہیں بسر کر سکتے ایک سیدھا سادا سا مسئلہ عورت مرد میاں اور بیوی آخر اسے اسقدر الجھانے کی کیا ضرورت ہے۔ ذہن انسان کی ایک ایک رگ کریدنے سے فائدہ؟ آپ انڈا کھانے کے بجائے اس کی ماہیت پر غور کرنے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کے ہاتھ ماہیت ہی ماہیت رہ جاتی ہے اور انڈا دوسرے چٹ کر جاتے ہیں اور پھر آپ کیا جانیں کہ اس رو ٹھنے  اور منانے میں کتنا لطف ہے۔‘‘

’’تشریف لے جایئے نا ۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔ ’’ میں نے آپ کے لئے وہ پر لطف موقع مہیا کردیالیکن ذرا خیال رہے ابھی راستے میں جو واقعہ پیش آیا ہے، اسے اپنے ہی تک محدو در کیے گا اور وہ ہاروالا معاملہ بھی ۔‘‘

’’حمید شہناز کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ ثریا اور شیلا ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں  اشرف نے فریدی کو آنکھ ماری اور فریدی جھیل میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں پھینک کر چھوٹے چھوٹے دائروں کا بننا بگڑ نا دیکھتارہا۔ چند لمحوں کے بعد وہ و خیالات میں ڈوب گیا۔ اس سے چند گز کے فاصلے پر اشرف بیٹھااونگھ رہا تھا۔ فریدی کی جنسی کی آواز سن کر چونک پڑا۔ فریدی خود  بخودہنس کر اس طرح سنجیدہ ہوگیا۔ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو، اشرف اسے حیرت سے دیکھنے لگا ۔ فریدی کی اور اس کی نظریں ملیں اور فریدی کو پھر ہنسی آگئی۔

’’کیا بات ہے۔ اشرف نے متعجبنا لہجے میں پوچھا۔

’’ کوئی خاص بات نہیں ۔ ایک احمق کا ایک مضحکہ خیز قول یاد آ گیا ۔‘‘

’’مضحکہ خیز قول ۔‘‘

’’ہاں وہ کہتا تھا کہ تم بڑے بد قسمت ہو اگر یہ نہیں جانتے کہ تمہارے شہر میں کتنے کرنل رہتے ہیں ۔ ‘‘

’’واقعی مضحکہ خیز ہے۔ بھلا شہر بھر کے کرنلوں کو کون گنتا پھرے گا۔‘‘

’’میرے خیال میں تو ہمارے شہر میں ایک بھی نہ ہوگا۔ فریدی نے کہا۔

’’ نہیں ایسا تو نہیں میرے ہی پڑوس میں ایک کرنل صاحب رہتے ہیں ۔ کرنل سعید۔

’’ غلبًا ریٹائر ہوگئے ہوگے۔ فریدی نے پوچھا۔

’’ہاں‘‘

’’بھئی یہ فوجی بھی عجیب وغریب ہوتے ہیں۔ انتہائی  شائستہ قسم کا فوجی بھی تھوڑا بہت ضر ور معلوم ہوتا ہے۔

’’اس میں تو کوئی شک نہیں ۔ ‘‘اشرف بولا۔ اب کرنل سعید ہی کو لے لیجئے وہ چوبیس گھنٹے فوجی بنتارہتا ہے۔ حد ہوگئی کہ تین چاردن ہوئے کہ اس کی اکلوتی خورد سال لڑکی غائب ہوگئی اور اس کے سکون واطمینان میں کسی قسم کا فرق نہیں آیا ۔

’’ اکلوتی خورد سالہ بچی ۔‘‘ فریدی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’ ابھی تو آپ نے کہا کہ وہ ریٹائر ہو چکا ہے اس کا مطلب یہ کہ کافی معمر ہو گا اور صرف ایک چھوٹی سی بچی ۔

’’اس نے بہت دیر میں شادی کی تھی۔ بچی کی پیدائش کے سلسلے میں بیوی کا انتقال ہوگیا، تھا پھر اس نے پانچ چھ سال  تک شادی نہیں کی ۔ تقریبًا دو سال کا عرصہ ہوا اس نے ایک کنواری لڑکی سے دوسری شادی کر لی اور اب بیچارہ دن رات، دواؤں کے اشتہارات پڑھا کرتا ہے اور ایک دلچسپ بات، وہ بھی ان احمق ڈاکٹروں کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ میں نے کئی بارڈاکٹر وحید کو اس کے یہاں جاتے دیکھا ہے آج سے پہلے مجھے یہ بات نہیں معلوم تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ ڈاکٹر وحید جس کا پہلےمیں نام بھی نہیں جانتا تھا اس کا کوئی ملنے والا ہے۔‘‘

’’تو یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ کرنل سعید ان سے اپنا علاج کرا رہا ہے۔ ‘‘فریدی نے پوچھا۔

’’محض قیاس کی بنا پر یہ لوگ بوڑھوں کو جوان اور بزدلوں کو شیر بناتے ہیں نا کرتل سعید کو اپنی جوان بیوی کی موجودگی میں جو ان بنے کی سخت آرزو ہے۔“

’’اوہ فریدی نے کہا اور پھر تھوڑی دیر بعد بولا ۔ اور اس غریب بچی کا کیا ہوا۔‘‘

’’کچھ پتہ نہیں چل سکا۔‘‘

’’غائب کس طرح ہوئی تھی ۔‘‘

’گھر سے غائب ہو گئی ۔‘‘

’’کیا گھر میں تنہا تھی ۔‘‘

’’اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ البتہ اتنا جانتا ہوں کہ اس دوران میں کرنل شہر میں موجود نہیں تھا۔“

 ’’کہیں باہر گیا تھا۔‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

’’بیوی گھر ہی میں رہی ہوگی ۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’ وہ کیا کہتی ہے۔“

’’اس کے متعلق مجھے علم نہیں ۔ اس نے پولیس کو اپنا بیان ضرور دیا ہوگا۔

’’کرنل اس پر بگڑا تو بہت ہوگا۔“

’’ ہو سکتا ہے، وہ اپنی بیٹی کو چاہتا بہت تھا ۔‘‘

’’میرا خیال ہے کہ کسی نے اسے زیور وغیرہ کی لالچ میں قتل کر دیا ۔ فریدی نے کہا۔ ’’کیا وہ زیورات پہنتی تھی۔“

’’آپ ہی کا نہیں بہتوں کا یہی خیال ہے۔ وہ ہیروں کا ایک ہار پہنے ہوئے تھی۔“

’’ہیروں کا ہار اور آٹھ سال کی بچی ۔ فریدی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’میں نے عرض کیا تا کہ کرنل اسے بہت عزیز رکھتا تھا۔‘‘

’’تو اس کا مطلب یہ کہ کرنل کافی مالدار آدمی ہے۔“

’’خاندانی رئیس ہے۔‘‘

’’پھر بھی کمسن بچیوں کو اتنے قیمتی زیورات پہنا کو آزاد چھوڑ دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ فریدی نے کہا۔

’’ہے تو حماقت ہی۔‘‘

’’سوتیلی ماں کا برتاؤ اس کے ساتھ کیسا تھا۔‘‘

’’میرے خیال سے نہ انہیں تھا۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وہ بھی اسے بے حد چاہتی تھی۔ ثریا کا بیان ہے کہ وہ اکثر اسے اپنے پلنگ پرہی سلایا کرتی تھی۔‘‘

’’ ہوں۔‘‘

اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ فریدی سگار سلگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگا اور اشرف پھر مچھلی پکڑنے کی ڈور کی طرف متواجہ ہوگیا۔

ثر یا اور شیلا مچھلیاں تل چکنے  کے بعد مسلم  سیخ پر  بھوننے ک ےلئے لکڑیاں اکٹھا کردی تھیں۔ حمید شہناز کومنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’ارے بھئی میں قسم کھانے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ حمید بولا۔

’’ لیکن میں آپ کی قسم کی ضرورت نہیں محسوس کرتی ۔‘‘

’’بھئی میں کس طرح سمجھا وی۔‘‘

’’میں کب کہتی ہوں کہ آپ مجھے سمجھائے ۔‘‘

’’ عجیب آدمی ہو۔‘‘

’’دیکھئے میں خواہ مخواہ کی بات نہیں بڑھانا چاہتی ۔ ‘‘شہنا زتنگ آکر بولی۔

’’تو میں کب چاہتا ہوں۔‘‘

شہناز نے کوئی جواب نہ دیا۔

’’بعض اوقات فریدی صاحب کا مذاق حد سے بڑھ جاتا ہے۔ حمید نے کہا۔

شہناز پھر کچھ نہ بولی۔

خواہ مخواہ ایک بے تکی بات بول کر خود الگ ہو گئے ۔‘‘

’’تو آپ پر کون سی مصیبت ٹوٹ پڑی۔ شہناز بولی۔

 کیا یہ کم مصیبت ہے کہ تم خواہ مخواہ بدگمان ہو گئیں۔‘‘

ہاں صاحب میں تو مصیبت ہی ہوں۔‘‘

’’ارے لاحول ولا قوۃ میں نے یہ کب کہا ‘‘ حمید بولا۔’’ میں نے تمہاری بدگمانی کو مصیبت کہا تھا ۔‘‘

’’تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘ شہناز منہ پھلا کر بولی۔

’’فرق۔ ارے بھائی بہت بڑا فرق پڑتا جاتا ہے۔‘‘

’’تو آپ جائیے نا یہاں سے ‘‘

’’نہیں جاؤں گا۔‘‘

’’میں خود اُٹھ جاتی ہوں۔‘‘

’’نہیں اٹھنے دوں گا۔‘‘

’’واہ چھی زبردستی ہے۔‘‘

’’اب زبردستی ہی کرنی پڑے گی ۔‘‘

’’بھئی آپ خواہ مخواہ بات بڑھارہے ہیں ۔

’’بھئی میں دفعان ہو ا جا رہا ہوں ۔‘‘حمید نے اٹھتے ہوئے کہا۔

شہناز کچھ نہ بولی۔

حمید پیر پٹختا ہوا فریدی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

’’فرمائے ۔ ‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔

’’واقعی آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘ حمید بولا ۔ ’’میں آج سے کان پکڑتا ہوں۔‘‘

’’اپنے یا شہناز کے ۔ فریدی ہنس کر بولا ۔

’’خدارا اس کا نام ذرا آہستہ سے لیجے ۔ اگر سن لیا تو قیامت آجائے گی۔‘‘

’’لا حول ولا قوة تم نے پھر شوہروں جیسی باتیں شروع کر دیں ۔ ارے میاں وہ تمہاری ہے کون ۔ ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ڈر کے مارے جان نکلی جارہی ہے، احمق کہیں کے ۔ ‘‘

حمید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سنجیدگی سے کسی مسئلے پرغور کر رہا تھا۔

’’حمید‘‘ فریدی تھوڑی دیر چپ رہ کر بولا ۔

’’جی !‘‘فرمائیے۔‘‘

’’کیا واقعی تم اسے بہت چاہتے ہو ۔‘‘

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔‘‘

’’تو میں تمہیں ایک نیک مشورہ دیتا ہوں ۔‘‘

’’فرمائے۔‘‘

’’کسی دوسرے کے حق میں دست بردار ہو کر تم فقیری لے لو اور بقیہ عمر خدا کی یاد میں گزار دوں۔‘‘

’’پیرو مرشد‘‘ حمید نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’ آپ نے وہ مشورہ دیا ہے کہ میری پشت ہاپشت آپ کی احسان مند رہیں گی۔ لیکن اے طبیب روحانی والے رحمت یزدانی یہ دنیا سرائے فانی ہے۔ آج مرے کل دوسرا دن ، پرسوں تیسرا دن، نرسوں چوتھا دن، غرضیکہ اسی طرح دن گزرتے جائیں گے وغیرہ وغیرہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس منصب عاشقی کے لائق مجھے اپنے علاوہ اور دوسر انظر نہیں آتا ۔‘‘

’’مذاق چھوڑ دو ‘‘۔فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’میں تمہیں ایک کامیاب جاسوں دیکھنا چاہتا ہوں ۔‘‘

’’ ضرور دیکھئے حمید نے کہا۔ ’’ میں آپ کو کب منع کرتا ہوں لیکن میں اس کی اتنی  بھاری قیمت ادا نہیں کرسکتا۔‘‘

’’لیکن تم تو ابھی کان پکڑ رہے تھے ۔‘‘

’’تو آپ اس سے کیا سمجھے۔‘‘

’’یہی کہ اب عشق سے باز آجاؤ گے۔‘‘

آپ غلط  سمجھے ۔ حمید نے کہا۔’’میر امطلب یہ ہے کہ اب میں آپ کو موقع بے موقع تا ؤنہ دلایاکروں گا۔

’’لا حول ولا قوتہ ہیں تو میں کہتا ہوں ۔ فریدی نے کہا۔

’’آپ نے آج کا سارارو مائنس کرِ کرِ اکر دیا ۔‘‘

’’مجھے افسوس ہے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ لیکن رومانی اعتبار سے میرا دن بڑا حسین رہا۔‘‘

’’رومانی اعتبار ؟‘‘ حمید نے  متعجبانہ انداز سے دہرایا۔

’’ہاں  یہی میرا رومان ہے جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے جب کوئی پرُ اسرار چیز میرے سامنے آتی ہے تو مجھے کم و بیش وہی لذت محسوس ہوتی ہے۔ وہی بے چینی مجھ میں پیدا ہوتی ہے جیسے کسی شخص میں کسی حسین عورت سے پہلی بار لفٹ ملنے پر پیدا ہوسکتی ہے پھر جیسے جیسے میرے قدم کا میابی کی طرف اٹھتے ہیں۔ میرا جنون تیز سے تیز تر ہوتا جاتا ہے کیا  سمجھے ....؟‘‘

’’خدا کرے میں کبھی کچھ نہ سمجھوں۔حمید نے کہا۔

’’خیر چھوڑ وتم کرنل سعید کے بارے میں کیا جانتے ہو۔ فریدی نے دفعتاً بات کا رخ موڑتے ہوئے  پوچھا۔

’’مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ۔ ‘‘

’’کیا یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ تمہارے دوست اشرف کے بنگلے کے قریب ہی رہتا ہے۔‘‘

’’نہیں مجھے اس کا بھی علم نہیں ۔ ‘‘

’’خیر مجھے اس کے متعلق بہت سی باتیں معلوم ہوگئی ہیں۔ یہ معاملہ مجھے دلچسپی لینے پرمجبور کر رہا ہے۔ ہاں دیکھو اس بار کا تذکرہ اس وقت تک کسی سے نہ کرنا جب تک میں اجازت نہ دوں۔‘‘

’’تو پھر اس ہار کا کیا کیا جاے حمید نے پو چھا۔

’’یہ دوران تفتیش میری تجوری میں رہے گا ۔ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔

’’آخر یہ اس کی پشت پر تصویر کس کی ہے‘‘

’’غلبًالڑکی کی ماں کی تصویر ہے ۔‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’ کیا اخبار میں اس تصویر کے متعلق کچھ نہیں تھا ۔ ‘‘

’’نہیں حمید نے کہا ۔’’ اس سلسلے میں اشرف سے معلومات بہم پہنچائی جاسکتی ہیں۔‘‘

’’لیکن براہ کرم آپ اس سے  بازر ہے گا ۔ مجھے جو کچھ معلوم کرنا تھا معلوم کر چکا۔ اب ذرا ثر یا سے گفتگو کرنی ہے۔‘‘

’’کیا اے یہاں بلا لوں۔‘‘حمید نے پوچھا۔

’’جی نہیں۔‘‘فریدی  نے کہا۔’’ہمیں یہ کام نہایت خاموشی سے کرنا ہیں۔‘‘

’’حمید کچھ سوچنے لگا فریدی بھی خاموش ہو گیا۔

’’بھئ  اب تو بری طرح بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

’’اب ایسی باتیں نہ کیجئے کہ میں اپنا انگوٹھا چوسنے لگوں ۔‘‘حمید ہنس کر بولا۔

’’کاش تم یہی کر سکتے‘‘

’’کیوں کیا اس طرح بھی ایک کامیاب جاسوس بننے کے امکانات ہیں۔‘‘

’’کیوں نہیں ! ‘‘کیا تم غزالہ کے چچاپر ویز کو بھول گئے ۔ وہ کتنی صفائی سے انگوٹھا چوستا تھا۔‘‘

’’لیکن وہ جاسوس کب تھا۔‘‘

’’اگر مجرم نہ ہوتا تو یقیناً ایک کامیاب جاسوس ثابت ہوتا ۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ثریا وغیرہ نے دستر خوان لگا دیا۔

’’لیکن اس دسترخوان پر صرف چار آدمی بیٹھ سکیں گے۔ میں ثریا۔ اشرف بھائی اور فریدی صاحب۔ بقیہ لوگوں کے لئے الگ کوئی انتظام کرنا پڑے گا ۔

’’بقیہ لوگوں میں مجھے قطعی بھوک نہیں ہے۔ شہناز چڑ کر بولی۔

’’ اور بقیہ لوگوں میں میں بھو کا قطعی بھوکا نہیں ہوں۔ ‘‘حمید اس طرح رک رک کر گھبرائی ہوئی آواز میں بولا کہ شہناز کے علاوہ سب لوگ ہنس پڑے۔

’’تو بہتر ہے آپ لوگ کہیں دور جا کر ہوا کھائیے ۔ ثریا چہک کر بولی۔

’’ ذرا کچھ خالی پلیٹیں عنایت فرمائیے حمید نے کہا۔

’’کیوں ؟ ‘‘شیلا نے پوچھا۔

’’ہوا کھانے کے لئے ‘‘

’’بات کچھ بھی نہیں ۔ ‘‘فریدی نے پر اسامنہ بنا کر کہا۔ ’’میں تو یہ  سمجھاتھا کہ تم کوئی ایسی بات کہو گے کہ سب بے ساختہ ہنس پڑیں گے۔‘‘

            ’’اب اگر آپ اس جملے کی گہرائی تک نہ پہنچ سکیں تو میں کیا کروں ‘‘۔ حمید جھینپ کر بولا۔

 

3

پکنک سے واپس آنے کے بعد فریدی نے لباس تبدیل کیا اور سید ھاچلا گیا۔ حمید شہناز کو منا تا ہوا اس کےگھر تک چلا گیا تھا۔

فریدی شاذونادر کوتوالی کی طرف جاتاتھا۔ اس نے یا اس کی موجودگی دوسروں کی نظر میں خاصی اہمیت رکھتی تھی۔

 آج بھی اسے وہاں دیکھ کر لوگ یہ معلوم کرنے کے لئے ۔ بے چین ہو گئے کہ وہ کس لئے آیا ہے لیکن کسی کی تشفی نہ ہوئی۔

جگد یش آج کل کو تو الی انچارج تھا۔ فریدی کی امداد نے اسے اتنی جلدی ترقی کے ان مدارج تک پہنچارہاتھا۔ پرنے اور تجربہ کار سب انسپکٹر منہ ہی دیکھتے رہ گئے اور جگدیش کو تو الی انچارج ہو گیا اس وقت وہ آفس میں بیٹھاپرانے فایل دیکھ رہاتھا۔ فریدی کو دیکھ کر بے ساختہ کھڑا ہو گیا۔’’ آئیے آئے انسپکٹر صاحب میں کئی دن سے ارادہ کر رہا تھا کہ آپ سے ملوں۔

جگدیش بولا۔

تم دو   ہی تو آئے ہو میرے حصے میں۔ ایک حمید دوسرے تم بہانے بازی کے ماہر ۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔

نہیں آپ سے سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘

’’خیر خیر ‘‘فریدی بیٹھتے ہوئے بولا ۔ کیا کوئی ضروری کام کر رہے ہو ۔‘‘

’’چلئے‘‘ جگدیش نے کہا۔

’’ ٹیکسی کر کے دونوں وکٹوریہ پارک پہنچے ۔  آج کل بیکاری کی وجہ سے طبیعت اکتا یا کرتی ہے۔‘‘

 ’’یہاں تو دم مارنے کی بھی فرصت نہیں رہتی۔‘‘ جگدیش نے کہا۔

’’ میر اخیال ہے کہ اس دوران میں کوئی خاص قسم کا حادثہ نہیں ہوا۔‘‘ فریدی سگار سلگا تا ہوا بولا۔

’’بعض اوقات بہت ہی عام قسم کے حادثے خاص سے بھی زیادہ بن جاتے ہیں۔‘‘

’’آؤ کہیں ٹہلیں گے ۔

چلے۔ جگدیش نے کہا۔

’’کیا آج کل کام زیادہ ہے۔‘‘

’’ آج کل کیا ہمیشہ کام زیادہ رہتا ہے۔‘‘

’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔‘‘

’’ارے ابھی پرسوں ہی کی بات ہے کہ کرنل سعید کی آٹھ سالہ بچی کھو گئی جس کے گلے میں ایک بیش قیمت ہیروں  کا ہار تھا۔‘‘

’’تو کیا ہوامل ہی گئی ہوگی ۔‘‘

’’یہی تو مصیبت ہے کہ آج تک اس کا پتہ نہیں لگ سکا ۔‘‘

’’اتنا بیش قیمت ہار پہنا کر اسے اکیلے گھر سے نکالا ہی کیوں گیا۔‘‘

’’اکیلے کہاں وہ معاملہ ہی عجیب ہے۔‘‘

’’یعنی‘‘

’’لڑکی اپنے سونے کے کمرے سے غائب ہوگئی۔‘‘

’’سونے کے کمرے سے تو کیا رات میں کسی وقت‘‘

’’جی ہاں !‘‘ اس کی اطلاح گھر والوں کو دوسرے دن صبح ہوئی ۔‘‘

’’بہت خوب معاملہ دلچسپ ہے ۔ فریدی کچھ سوچتا ہوابولا ۔ ’’اور ہار کے متعلق کیسے معلوم ہوا۔ کیا لڑکی بار پہن کرسوئی تھی ؟‘‘

’’کرنل کی بیوی تو یہی کہتی ہے۔ وہ در اصل اس کی سوتیلی ماں ہے۔‘‘

’’عجیب وغریب لوگ ہیں۔ میں نے انتہائی دولت مند گھرانوں میں بھی یہیں دیکھا کہ اتنے قیمتی زیورات کی طرف سے اتنی بے پروائی برتی جائے ۔‘‘

’’ کرنل کافی دولت مند آدمی ہے۔‘‘

’’میرا خیال ہے کہ اس کی سوتیلی ماں کی حرکت ہے فریدی بولا ۔

’’خیال تو میرا بھی یہی تھا لیکن کرنل اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں پڑوس کے لوگوں سے بھی یہی معلوم ہوا ہے کہ و ہ  اسے بیحد چاہتی تھی۔‘‘

فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’کیا وہ پردے میں رہتی ہے۔‘‘

’’نہیں صاحب ترقی یافتہ لوگ ہیں میرا خیال ہے کہ اس وقت دونوں میاں بیوی کسی ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہےہوں گے۔‘‘

’’تو یہ سارے حالات تمہیں اسی کی زبانی معلوم ہوئے ہوں گے ۔‘‘

جی ہاں کرنل سعید تو یہاں تھا ہی نہیں ، وہ کل کہیں باہر سے آیا ہے۔‘‘

میرا خیال ہے کہ کسی نے کرنل سے معقول رقم وصول کرنے کے لئے ایسا کیا ہے ‘‘۔ فریدی بولا۔

’’ ہو سکتا ہے‘‘۔ جگدیش نے کہا اور سگریٹ سلگانے لگا۔

’’خیر ہوگا۔ ‘‘فریدی نے کہا۔’’ہاں بھئی تم سے ایک ضروری بات پوچھنی تھی۔

’’کبھی جھریالی کی طرف گئے ہو۔‘‘

’’اکثر شکار کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔‘‘

’’اس درمیان کب گئے تھے ۔ ‘‘

’’تقریباً دو تین ماہ کا عرصہ ہوا‘‘۔ جگدیش نے کہا۔

’’وہاں دو ڈاکٹروں کی تجربہ گاہ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا تھا یا نہیں‘‘۔ جگدیش کو بے ساختہ ہنسی  آگئی۔

’’ ہاں ہاں بظاہر ان کی حرکتیں احمقانہ ہیں۔‘‘ جگدیش بولا ۔’’ لیکن کارنامے قابل تعریف ۔‘‘

’’ کیا کوئی خاص کارنامہ تمہاری نظروں سے بھی گزرا ہے۔‘‘

’’ان کے کارناموں کا اعتراف خود حکومت کو ہے جنگ کے نہ جانے کتنے زخمیوں کو انہوں نے بالکل نئی زندگی بخش دی۔ ان کے نئے تجربات کے سلسلے میں خود حکومت ان کی مدد کررہی ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے کچھ نئے آلات اور حکومت کت توسط سے منگائے ہیں۔‘‘

’’ اورمیں اتنا غافل ہوں کہ مجھے ان کے بارے میں آج تک کچھ نہیں معلوم ہوسکا۔‘‘ فریدی نے تشویشناک لہجے میں کہا۔

’’نہیں کوئی خاص بات نہیں مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ اتنے دلچسپ اور قابل آدمیوں سے اتنے دنوں کے بعد ملاقات کر سکا۔ فریدیے سنجیدگی سے کہا۔

’’نہیں کوئی بات ضرور ہے۔‘‘

’’کچھ نہیں بھئی کیا یہ ضروری ہے کہ میں جو کچھ پوچھوں اس کے پیچھے کوئی خاص بات ہی ہو۔‘‘

جگدیش خاموش ہو گیا لیکن اس کے چہرے سے معلوم ہور ہا تھا کہ وہ فریدی کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوا۔

’’بھائی حمید کے کیا حال ہیں۔‘‘ جگدیش تھوڑی دیر بعد بولا۔

’’وہی پرانا مرض۔‘‘

’’یعنی‘‘

’’عشق بازی‘‘

’’جگدیش  ہنسنے لگا۔

’’آخر آپ کو اس سے اتنی نفرت کیوں ہے۔‘‘ جگدیش نے مسکرا کر پوچھا۔

’’ نفرت نہیں بھئی۔ فریدی نے کہا۔ ‘‘ میں عشق کا قائل ضرور ہوں مگراسی صورت میں جبکہ ہاتھ بلکل بیکاری ہو۔ بیکاری سے یہ مطلب نہیں کہ کوئی کام نہ ہو بلکہ بے کاری سے مراد بڑھاپاہے یعنی جب بالکل ہاتھ پیر تھک جائیں اس وقت عشق کرنا چاہئے۔‘‘

’’آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ بھلا اس وقت عشق کہاں ہوتا ہے۔‘‘

’’اگر نہیں ہوتا تو عشق سے زیادہ لغوچیز دنیا میں ہے ہی نہیں۔‘‘

جگدیش مسکرا کر خاموش ہو گیا۔

فریدی سوچ میں ڈوبا ہوا سگار کے ہلکے ہلکے کش لے رہا تھا۔ دفعتاً جگدیش کی طرف مڑ کر بولا۔

’’اس ہار کے متعلق بھی کچھ معلوم ہے کس قسم کا تھا۔‘‘

’’سونے کی ہشت پہل ٹیکوں پر ہیرے جڑے ہوئے تھے ۔ درمیانی ٹکیہ کی پشت پرلڑکی کی ماں کی تصویر تھی۔‘‘

’’ہوں !‘‘ فریدی نے آہستہ سے سر ہلایا پھر آہستہ سے پوچھا۔ ’’ کرنل کے یہاں کون کون رہتا ہے؟‘‘

’’وہ اور اس کی بیوی تین نوکر ، ایک خادمہ پائیں باغ میں ایک مالی ہے اور ایک چوکیدار جو پھاٹک کے قریب بنی ہوئی ایک کوٹھری میں رہتا ہے۔‘‘

’’ان لوگوں کے بیانات لئے ۔‘‘

’’ہاں لیکن فضول کوئی ایسی بات نہیں معلوم ہوسکی جس سے اصل معاملے پر کچھ روشنی پڑتی ۔‘‘

’’ان میں سے کسی کو مشتبہ بھی قرار د یا یا نہیں ۔‘‘

’’یوں تو سبھی پر شبہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

’’لیکن تمہیں کسی پر شبہ نہیں ۔‘‘

’’شبے کی کوئی وجہ بھی ہوتی ہے۔‘‘

’’تمہیں کوئی وجہ ہی نہیں مل سکی ۔‘‘ فریدی  طنز یہ انداز میں بولا’’آخر تمہیں کب سلیقہ آئے گا۔ تم کہتے ہو کہ وہاں ایک چوکیدار بھی ہے ظاہر ہے کہ دو رات بھر جاگتا ہوگا۔ دوسری طرف تم یہ بھی کہتے ہو کہ لڑکی رات کوکسی وقت غائب ہوئی ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ساری ذمے داری چوکیدار پر آپڑتی ہے۔‘‘

’’ اوہ ہی تو مصیبت ہے۔‘‘ جگدیش نے کہا۔ وہ غریب تو تقریبًا ایک ہفتے سے بیمار پڑا ہے۔‘‘

’’سنی سنائی کہہ رہے ہو یا تم نے خود دیکھا ہے۔‘‘

’’جس وقت میں نے اسے دیکھا وہ اس وقت بھی غشی کی حالت میں تھا۔‘‘

’’مالی رات کو بھی وہیں رہتا ہے۔‘‘

’’ جی ہاں‘‘

’’بقیہ نوکر۔‘‘

’’سب وہیں رہتے ہیں ۔‘‘

’’ تم نے لڑکی کے سونے کا کمرہ بھی دیکھایا کوئی خاص بات۔‘‘

’’ کچھ نہیں ۔‘‘

’’ کاش میں اس وقت وہاں موجود ہوتا ۔‘‘

’’ا وہ جگدیش چونک کر بولا ۔ تو کیا آپ اس کیس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔‘‘

’’ نہیں لیکن کیس دلچسپ ضرور ہے۔ فریدی کچھ سوچتا ہوا بولا ’’کیا تم مجھے کرنل کے گھر کسی طرح لے جاسکتے ہو ۔‘‘

’’ کسی طرح کیا! ‘‘ابھی چلئے ۔‘‘

’’نہیں میں وہاں انسپکٹر فریدی کی حیثیت سے نہیں جاؤں گا ۔‘‘

جگدیش اس کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

’’ اس وقت چھ بجے ہیں۔ فریدی اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’ تم ابھی کرنل کے یہاں اسی کیس کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے سلسلے میں چلے جاؤ تقریبًا ایک گھنٹے کے بعد ایک باوردی سب انسپکٹر پولیس تمہیں تلاش کرتا ہوا و ہاں  پہنچ جائے گا۔‘‘

’’میں کچھ نہیں سمجھا ۔‘‘ جگدیش بے بسی سے بولا۔

’’عجیب احمق آدمی ہو، کیا اتنے دنوں سے بھاڑ ہی جھونک رہے ہو۔ ارے بھئی وہ سب انسپکٹر میں ہی ہوں گا ۔ ‘‘

’’ اوہ جگدیش چہک کر بولا ۔ ’’ تو گویا آپ کی سچ  مچ  کیس میں دلچسپی لے رہے ہیں ؟‘‘

’’یوں ہی سمجھ  لو۔‘‘

’’تب تو یہ کوئی معمولی کیس نہیں معلوم ہوتا ۔‘‘

’’بہت ممکن ہے ایساہی ہو۔‘‘ فریدی نے کہا نہیں کوئی ضروری کام تو نہیں کرتا ہے۔‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تب تم فورا ًکرنل کے یہاں چلے جاؤ۔‘‘ فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا۔

جگدیش ایک ٹیکسی  پر کو توالی کی طرف روانہ ہو گیا اور فریدی سڑک پار کرتا ہوا گھر جانے کے بجائے ایک پتلی سی گلی میں میں مڑ گیا۔

 اس نے شہر کے متعدد چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں کمرے کرائے پر لے رکھے تھے جنہیں وہ اکثر کسی نہ کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کرتا رہتا تھا دو تین جنگ  گلیاں طے کرنے کے بعد وہ ایک پوسیده ی قدیم طرز کی عمارت کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ یہ ایک گندہ سا ہوٹل تھا۔ جہاں کم حیثیت کے لوگ آکر قیام کیا کرتے تھے۔ ان میں زیادہ تر د میں علاقوں کے مقدمہ باز زمیندار ہوا کرتے تھے۔ اس کا مالک شہر کے مشہور بدمعاشوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ فریدی کو دیکھتے ہیں وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ ڈرو نہیں چل کر میرا کمرہ کھول دو۔‘‘

’’اس نے میز کی کنجیوں کا گچّھا نکالا اور ایک طرف چلنے لگا۔

’’تمہارے اس نئےدھندے سے میں خوش نہیں ہوں۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’جی کون سانیا دهنده !‘‘

’’ دیکھو مجھ سے اڑنے کی کوشش نہ کرو۔‘‘

’’سچ مچ میں نہیں سمجھا۔‘‘

’’کمرہ نمبر دس میں کون ہے؟‘‘

’’دیکھو پو لیس کو اطلاع مل چکی ہے کہ تمہارے آدمی دیباتوں سے بھولی بھالی لڑکیوں کو بھگا لاتے ہیں اور تم ان سے پیشہ کراتے ہو۔ میں نے کئی بار تمہیں  سمجھایاکہ ایسی حرکتوں سے باز آجاؤ کیا یہ ہوٹل تمہارے اخراجات کے لئے کافی نہیں۔ ’’میں میں ۔مگر‘‘

’’فضول باتیں چھوڑ و میرے آگےتمہارا کوئی جھوٹ نہیں چل سکتا۔‘‘

’’جی بات یہ ہے کہ‘‘

’’کوئی بات نہیں ہے۔ فریدی کڑے لہجے میں بولا۔‘‘ ان لڑکیوں کو آج ہی یہاں سے بٹاکر ان کے گھروں کو بھجوا دو اور نہ کل تمہارے ہاتھوں میں ہھکڑیاں ہوں گی۔ پولیس کسی مناسب موقع کی منتظر ہے۔‘‘

’’جی بہت اچھا۔‘‘

’’ کمرہ کھول کر ہوٹل والا واپس چلا گیا۔ یہ تنگ و تاریک کمرہ تھا جس میں سلین کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ فریدی نے جیب سے ایک دیا سلائی نکالی اور طاق پر رکھی ہوئی موم بتی روشن کر دی۔

 تھوڑی دیر کے بعد فریدی ایک ادھیڑ عمر کے سب انسپکٹر کے بھیس میں کمرے سے بر آمد ہوا۔ اس نے ایک ٹیکسی رکوائی اور کرنل سعید کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گیا۔۔ آہستہ آہستہ تاریکی پھیلتی جارہی تھی۔ سڑک کے کنارے لگے ہوئے بجلی کے کھمبوں کے بلب روشن ہو گئے تھے شہر کی چہل پہل بڑھ گئی تھی۔ ہوٹل کے سامنے کاروں تانگوں کے جمگھٹے تھے۔ فریدی سوچ میں ڈوبا ہوا کرنل سعید کے بنگلے کی طرف جارہا تھا۔ تقریبًا پندرہ منٹ کے بعد اس نے ٹیکسی ایک جگہ رکوائی اور کرایہ ادا کر کے پیدل چل پڑا۔ چند لمحوں کے بعد وہ کرنل سعید کے بنگلے کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہا تھا نوکر سے اطلاع کرانے پر وہ ڈرائنگ روم میں بلوالیا گیا جگدیش ایک نوجوان اور خوبصورت عورت سے باتیں کر رہا تھا۔۔

’’واہ انسپکٹر صاحب !میں آپ کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔‘‘ فریدی نے جگدیش سے کہا’۔

’’ آئیے آئیے ! ‘‘جگدیش ایک کُرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔ ’’ ایک ضروری کام سے مجھے یہاں چلا آنا پڑا۔ بہر حال میں آپ کے لئے کوئی توالی میں کہہ آیا تھا۔ کہئے آپ کے علاقے میں سب خیریت ہے نا ؟‘‘

’’جی ہاں کوئی خاص بات نہیں۔‘‘

 فریدی کی نظریں دیوار پر لگی ہوئی ایک تصویر پر جم گئیں یہ تصویر اسی عورت کی تھی جسے اس نے ہیروں والے ہار میں دیکھا تھا۔ فریدی نے اطمینان کا سانس لیا جگدیش اسے کرنل صاحب کی لڑکی کی گمشدگی کا حال بتانے لگا۔ فریدی دلچسپی اور تو جہ سے سنتا رہا۔ درمیان میں و ہ بول بھی پڑتا تھا۔ عورت خاموش تھی کبھی بھی ایک آدھ ٹھنڈی سانس لے کر وہ بے چینی سے صوفے میں کسمسانے لگتی ۔ ’’اور ابھی بیگم صاحبہ کی زبانی معلوم ہوا کہ جگہ پیش عورت کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔ ’’ اس صدمے کی وجہ سے کرنل صاحب کے دماغ پر نے  برُااثر پڑا ہے۔

’’یعنی ‘‘۔ فریدی نے پوچھا۔

’’دماغی حالت درست نہیں۔ اکثر وہ اپنے کتے کو دیکھ کر بھونکنے لگتے ہیں۔ جگدیش نے یہ جملہ کچھ ایسے احمقانہ انداز میں کہا کہ فریدی کو ایک بے ساختہ قسم کاقہقہ ضبط کرنا پڑا۔ اچھا ۔

 فریدی عورت کی طرف دیکھ کر بولا۔

جی ہاں بہت ہی تشویشناک حالت ہے۔ ‘‘عورت نے کہا۔

فریدی نے اس کی آواز میں ایک عجیب طرح کی کشش محسوس کی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے دور کہیں ویرانے میں دفعتاً گھنٹیاں سی بج اُٹھی ہوں۔

’’واقعی یہ حادثہ بہت ہی افسوس ناک ہے۔ فریدی بولا ۔ ’’ کیا رات کو یہاں کوئی باہر کا آدمی آیا تھا۔ ‘‘

عورت دفعتًا چونک پڑی۔

’’جی نہیں نہیں تو‘‘ ۔ وہ جلدی سے بولی۔

’’اکثر مہمان تو آتے ہوں گے۔‘‘

’’ اس وقت کرنل صاحب کہاں ہیں۔‘‘

’’میں نے بتایا نا کہ ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔ انہیں نوکروں کی نگرانی میں ایک الگ کمرے میں رکھا گیا ہے۔‘‘

’’ اوہ فریدی بولا ۔ اتنی خراب حالت ہے۔‘‘

تھوڑی دیر اور رسمی گفتگو کرتے رہنے کے بعد جگدیش اور فریدی اٹھ گئے فریدی کا ایک مقصد تو حل ہو ہی گیا تھا۔ کرنل سعید کے ڈرائنگ روم میں لگی ہوئی تصویر نے اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ جھریالی سے نکلنے والا ہار وہی تھا جو کرنل کی لڑکی پہنے ہوئے تھی ۔ جگدیش اور فریدی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے چورا ہے تک آئے جگدیش نے ایک ٹیکسی رکوائی لیکن فریدی نے اپنا ارادہ بدل دیا وہ گھر واپس جانے کے بجائے حمید کے الفاظ میں مٹر گشتی کرنا چاہتا تھا۔ اس کی یہ مٹر گشتی خاص ہی موقعوں پر ظاہر ہوتی تھی جب کوئی خطر ناک کام انجام دینا ہوتا یا جب کوئی الُجھا ہوا معاملہ در پیش ہوتا تو فریدی عموماً شہر کی سڑکوں کے چکر لگا یا کرتا تھا۔

4

دوسرے دن صبح حمید اور فریدی، کرنل سعید کے متعلق ناشتہ کرتے وقت گفتگو کر رہے تھے۔

’’آخر آپ اسے یہاں کیوں اٹھا لائے ہیں۔ ‘‘حمید بولا

’’اس کے علاوہ اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔‘‘

’’ کیسا چارہ۔ آخر معاملہ کیا ہے۔ میں تو ابھی تک نہیں سمجھ سکا۔ ’’حمید اکتا کر بولا ۔

’’ میں خود ابھی تک کچھ نہیں سمجھ سکا۔ ‘‘فریدی نے کہا۔

’’ تو پھر اسے یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘حمید بولا ۔’’ خواہ مخواہ ہلڑ  مچےگا۔‘‘

’’اس کی زندگی خطرے میں تھی ۔‘‘

’’یوں ؟‘‘

’’چند مشاہدات کی بنِا پر میں ایسا کہہ رہا ہوں۔‘‘

’’جلدی کہہ بھی ڈالیے۔ ‘‘حمید منظر بانہ انداز میں بولا۔

’’ذرا سوچو تو۔ جب اس کی دماغی حالت اتنی خراب تھی تو اسے اس طرح کیوں رکھا گیا تھا کہ وہ آزادانہ باہر نکل آیا۔ دوسرے یہ کہ اس کے کتے کسی کو ٹھری وغیرہ میں بند کرنے کے بجائے باغ میں کیوں باندھے گئے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ وہ کتوں سے لڑنے پر آمادہ رہتا تھا۔ کتوں کو گھر سے ہٹا دینا چاہئے تھا۔

فریدی خاموش ہو گیا ۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔

غلبًاآپ کا مطلب یہ ہے کہ کرنل کی بیوی اس بچی کو اپنی راہ سے  ہٹانےکے بعد اب خود کرنل کا خاتمہ کر دینا چاہتی ہے۔ ’’حمید نے کہا۔

’’میں اتنی جلدی نتائج نکال لینے کا قائل نہیں ۔ ’’فریدی نے کہا۔

’’پھر آپ کا کیا خیال ہے۔‘‘

’’ابھی تک کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔‘‘

’’کرنل سعید کی بیوی کو تو آپ نے دیکھا ہوگا۔ حمید نے کہا۔‘‘

’’ہاں‘‘

’’اشرف کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ کافی حسین ہے۔‘‘

’’ہاں ہے تو حسین‘‘

’’ اگر میں اس سے عشق شروع کر دوں تو کیسی رہے۔‘‘

’’ہر جگہ یہ تدبیر کام نہیں آسکتی ۔ فریدی نے کہا ۔ ایسی حماقت نہ کر نا ہماری ان حرکتوں سے یہاں کے سارے جرائم پیشہ واقف ہو چکے ہیں ۔ اب کوئی عورت دھو کا نہیں کھا سکتی“۔

’’یہی تو سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔ ‘‘حمید اپنے چہرے پر اُداسی طاری کرتا ہوا بولا۔ بہر حال آپ نے اس کی بیوی کے متعلق کیا انداز ہ لگایا ہے۔‘‘

’’صورت سے تو وہ کسی طرح بھی مجرم نہیں معلوم ہوتی ۔ فریدی نے کہا۔

’’یہی اس کے مجرم ہونے کی سب بڑی دلیل ہے۔‘‘

’’یہ نظریہ بھی ہر جگہ کارآمد نہیں ہوتا ۔‘‘

’’پھر آخر کار آمد ہوتا کیا ہے۔‘‘

’’ٹھنڈے دل سے ہر معاملے پر غور کرنا ہوگا۔‘‘ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔

’’اونہہ ہوگا ۔‘‘ حمید بیزاری سے بولا۔

5

تہ خانے سے واپس آنے کے بعد فریدی گہری سوچ میں ڈوب گیا اور حمید کچھ  اکتایاہوا اِدھر اُدھر ٹھلنےلگا۔

’’تم نے کیا اندازہ لگایا۔ فریدی بولا۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ ‘‘

’’ آدمی سخت قسم کا ہے ذرا مشکل ہی سے کچھ اُگلے گا۔ فریدی  بولا۔

’’لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ حمیدنے کہا۔ اگر وہ  بناہوا پاگل تھا تو اسے اپنے پاگل پن کا اظہار صرف اس وقت کرنا چاہئے تھا جب اسے دیکھنے والے موجود ہوتے ۔ رات کے سناٹے میں جب کہ گھر کے سارے افرادسور ہے تھے۔ اس نے یہ حرکت کیوں کی بالکل کتوں جیسی حرکتیں تھیں رات کو اس نے ایک ٹانگ اٹھا کر کتوں کی طرح پیشاب بھی  کیا تھااس نے یہ ساری حرکتوں میں اتنی بے ساختگی تھی ۔

’’میں تمہیں انہیں اُلجھاوؤں کی طرف لا نا چاہتا تھا۔ فریدی بولا۔

’’ لیکن اس وقت وہ بالکل ہوش میں ہے ۔ حمید بولا۔

اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ خاص خاص اوقات میں اس پر یہ حالت طاری ہوتی ہے۔ فریدی نے کہا۔

 اور وہ اپنی اس کیفیت سے واقف بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے نجی معاملات میں دخل اندازی  پر نا پسند یدگی کا اظہار کیا تھا۔‘‘

’’اور زیادہ حیرت انگیز بات ہے۔ حمید بولا۔

اتنی حیرت انگیز یعنی اس پوری اور خوفناک کتے کی لڑائی تھی ۔ فریدی نے کہا ۔ ڈاکٹر وحید نے یہ بھی کہا تھا کہ اس انجکشن کا اثر وققتی ہے‘‘

’’ بہر حال اس وقت ہم لوگ تین احمقوں کے چکر میں پھنس گئے ہیں۔ ‘‘حمید ہنس کر بولا۔ابھی دیکھئے اور کتنوں کا دیدار نصیب ہوتا ہے اگر کہیں کرنل کی بیوی بھی ایسی نکلی تو مز ہی آجائے گا۔

’’ اب دیکھو پولیس پر اس کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔ فریدی مسکر اکر بولا۔

’’میرا خیال ہے کہ اب تک پولیس کو اس کی گمشدگی کی اطلاع ہو چکی ہوگی ۔‘‘ حمید نے کہا۔ لیکن اسے بندر کھنے سےکیا فائدہ۔‘‘

’’ان لوگوں کو حیرت زدہ کرنا جنہوں نے اس کی لڑکی کو غائب کیا ہے۔ فریدی بولا ۔

’’مگر آپ تو اس سے ایسی باتیں کر رہے تھے جیسے اس نے یہ حرکت کی ہو۔ حمید نے کہا۔

’’بھئی بات دراصل یہ ہے کہ ابھی خود میں بھی کسی خاص نتیجے پر نہیں  پہچ سکا۔

’’ابھی آپ نے لومڑی اور اس عارضی اثر رکھنے والے انجکشن کے بارے میں کہا تھا۔ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ کل رات کو ان ڈاکٹروں میں کوئی کرنل سعید کے یہاں آیا تھا ۔‘‘

’’بہت ممکن ہے۔‘‘فریدی بولا ۔’’ یہ ساری کڑیاں ایک ہی سلسلے کی معلوم ہوتی ہیں بس انہیں  ملانا ہے۔‘‘

’’بس ملائے جائے کڑیاں ‘‘ حمید ہنس کر بولا ۔ اللہ نے آپ کی قسمت میں ہیں لکھ دیا ہے۔‘‘

’’ا بھی یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ کو توالی انچارج انسپیکٹر جگدیش کی آمد کی اطلاع ملی۔

’’لیجیے ۔‘‘ حمید بولا’’ آگئے بر خوردار بلند اقبال کرنل سعید کی گمشدگی کی اطلاح لے کر ۔‘‘

’’آؤ بھئی آؤ ‘‘فریدی جگدیش کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر بوالا ۔

جگدیش دانوں سے مصافحہ کر کے بیٹھ گیا۔

’’میں نے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا ۔ جلد میں ہوا۔

تو اب کر لو ۔ فریدی ہوا اور نوکر کو آواز دے کرنا شتہ لانے کو کہا ‘‘ایک نئی مصیبت ؟‘‘جگد پیش بولا۔

کیا کرنل سعید نے اپنے کتے کو کاٹ کھایا۔ ‘‘حمید نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جگدیش بے ساختہ ہنس پڑا۔

’’اماں کیا حمید بھائی تم بعض اوقات بے موقع ہنسادیتے ہو۔‘‘ جگدیش نے کہا۔

’’کیا بات ہے؟ ‘‘فریدی نے پو چھا۔

’’گرنل سعید غائب ہو گیا ۔‘‘

’’غائب ہو گیا۔‘‘ فریدی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کیا۔

’’جی ہاں۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن وہ گھر موجود نہیں ۔ ‘‘

’’عجیب احمق آدمی ہو۔ فریدی نے کہا۔ ’’ ارے بھئی کہیں چلا گیا ہوگا۔ کوئی دودھ پیتا بچہ ہے کہ غائب ہو گیا۔

’’ارے نہیں صاحب اس کی بیوی نے رپورٹ کی ہے۔ وہ رات اپنے کمرے میں  سویا ہوا تھا۔‘‘

’’اوه ۔‘‘فریدی نے  دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’اس کا ایک جوتا باغ میں ملا اور دوسرا غائب ہے۔‘‘ جگد یش نے کہا۔

’’ لا حول ولاقوة‘‘ حمید ہنس کر بولا ۔’’ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اس کا ایک جو تا غا ئب ہے خواہ مخواہ کرنل سعید کو غائب کر دیا۔‘‘

 ’’نہیں بھائی میرا مطلب یہ ہے کہ اس کی کسی سے باغ میں جدو جہد ہوئی جس کے نتیجے میں اس کا ایک جو تا باغ میں رہ گیا۔‘‘

’’تو کون سی مصیبت آگئی۔ وہ جو تا باغ سے اٹھا کر پھر بنگلے کے اندر لے جایا جا سکتا ہے۔‘‘

’’ارے یارمذاق چھوڑدو‘‘جگدیش بولا پھر فریدی کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا ’’میرا خیال ہے کہ اس کوئی زبردستی اٹھا کر لے گیا۔

’چپ رہوجی ۔ فریدی نے اسےگھورتے ہوئے کہا۔ پھر جگدیش سے بولا۔’’ وہ باغ میں کس طرح پہنچا۔ اس کی بیوی کے بیان سے تو یہ معلوم ہوا تھا کہ وکڑی نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔‘‘

’لیکن اس کی بیوی نے آج یہ بھی بتایا کہ اس پروہ  مجنونہ کیفیت ہر وقت طاری نہیں رہتی تھی ۔ خصوصاً رات کے وقت اس پر اس قسم کا دورہ پڑتا تھالیکن نہیں کہا جا سکتا کہ رات کے کس حصے میں اس کی یہ حالت ہوگی ۔

’بہر حال اس کے گھر والوں کو چاہئے تھا کہ کم از کم رات ہی کو اس کی نگرانی کرتے۔ فریدی بولا۔

’’وہ تو ایک الگ سی بات ہے کہ کیا ہوا اور کیا کیس ہوا اب یہ نئی مصیبت کون سنبھالے ۔ ‘‘جگدیش نے کہا۔

’’جس کے سر پڑے۔‘‘

’’بھائی حمید میں بھلا ان کی زبان کون روک سکتا ہے۔‘‘ جگدیش نے ہنس کر کہا۔

تو پھر تمہارا کیا ارادہ ہے۔ فریدی نے جگدیش سے پو چھا۔

’’یہی پوچھنے کے لئے تو حاضر ہوا ہوں کہ کیا ارادہ کروں۔‘‘

’’فی الحال یہ ارادہ کرلو کہ تم کچھ نہ پوچھو گے۔‘‘ حمید بولا۔

’’خیر چلوفریدی بولا۔ اس نے کپڑے پہنے اور جگدیش کے ساتھ باہر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ ابھی وہ دونوں برآمدے ہی میں تھے کہ حمید بھی تیار ہو کر آ گیا۔

’’ تم کہاں چلے۔ فریدی نے پوچھا۔

’’جہاں آپ ‘‘

’’ہم تو کرنل سعید کے یہاں جارہے ہیں۔‘‘جگدیش نے کہا۔

فریدی کی کار کرنل سعید کے بنگلے کی طرف روانہ ہو گئی۔ کرنل سعید کے پائیں باغ میں وہ سب انسپکٹر اور تین چار کانسٹبل بیٹھے نوکروں کے بیانات لے رہے تھے۔ انہیں دیکھ کروہ کھڑے ہو گئے۔

’’ کوئی خاص بات جگدیش نے ایک سب انسپکڑنےا سے پوچھا ’’ابھی تک تو کوئی کام کی بات نہیں معلوم ہوسکی‘‘۔

’’ سب ا نسپکڑنے کہا یہ تینوں انہیں وہیں چھوڑ کر یہ برآمدے میں آئے جہاں کرنل سعید کی بیوی بیٹی کرنل سعید کے چند دوستوں کواس کی گمشدگی کے متعلق بتارہی تھی۔

’’معاف کیجیےگا‘‘جگدیش نے کہا۔ ’’ ہم ایک بار اور آپ کو تکلیف دیں گے۔‘‘

’’فرمائیے۔‘‘ کرنل کی بیوی اُٹھتی ہوئی بولی۔

’’ ہم کرنل صاحب کے سونے کا کمرہ د یکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ضرور کرنل کی بیوی نے کہا پھر اپنے مہمانوں سے معذرت کرنے کے بعد فریدی وغیرہ کے ساتھ ہولی۔ یہ لوگ کرنل کے سونے کے کمرے میں آئے جو بہت بھی فراخدلی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔ دیواروں پر زیادہ ترنیم عریاں تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ ایک آدھ جگہ جنسی معلومات سے متعلق چارٹ بھی لٹکے ہوئے تھے ۔ فریدی  متجس نگاہوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا پھر وہ مسہری کے قریب آیا۔ اور اس کے منہ سے بے اختیار  نکلااور اس نے سرہانے رکھی ہوئی ایک سرینج اٹھالی پھر کرنل کی بیوی کی طرف اس طرح دیکھنے لگا جیسے کچھ کہنے کے لئے سوچ رہا ہو۔

 کیا اس سرینج کے متعلق میں کچھ پوچھ سکتا ہوں۔‘‘

’’ہاں وہ اکثر اپنے ہاتھ سے خود ہی انجکشن  لیا کرتے تھے۔ کرنل کی بیوی نے کہا۔ ‘‘

’’کس قسم کے انجکشن ‘‘

’’درد گردہ کے ۔‘‘

اس دوران میں فریدی سرہانے رکھا ہوا تکلیہ  ہٹاچکا تھا دوسرے لمحے میں اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی شیشی تھی جس میں کوئی سفیدسی سیال شےمحسوس ہوئی تھی۔’’ یہ کیا ہے؟ ‘‘فریدی نے اس سے پو چھا۔

’’مجھے علم نہیں‘‘

فریدی کچھ سوچنے لگا۔ ’’کیا وہ کسی کے زیر علاج تھے ۔ فریدی نے پوچھا۔

’’نہیں۔‘‘

’’ان کا کوئی ڈاکٹر دوست تھا۔‘‘

’’کوئی نہیں ۔‘‘

’’کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا کوئی ایسا دوست ان سے ملنے کے لئے آتا تھا جوڈاکٹر ہو۔‘‘

’’ کرنل سعید کی بیوی چونک پڑی لیکن اس نے فورا ًہی اپنی بدلتی ہوئی حالت پر قابو پالیا ’’میرے خیال سے تو کوئی ایسا آدمی نہیں ۔ “ وہ بولی۔

’’تو کیا کرنل صاحب کسی ڈاکٹر سے مشور ہ لئے بغیر ہی انجکشن لے لیا کرتے تھے۔‘‘

’’نہیں آج سے دو سال قبل کسی ڈاکٹر نے انہیں مشورہ دیا تھا ۔ ‘‘

’’ کل رات یہاں کون کون آیا تھا۔‘‘

’’ایک تو انسپکٹرصاحب اور جگدیش کی طرف اشارہ کر کے بولی۔ ’’ اور ایک صاحب انہیں ڈھونہ ھتے ہوئے یہاں پہنچ گئے تھے۔‘‘

’’ان کے علاوہ ۔‘‘

’’ان کے علاوہ کوئی باہر کا آدمی یہاں آیاہی نہیں ۔‘‘

’’ ان کا دماغ کب سے خراب تھا ۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے کہ بچی کے غائب ہونے کے بعدہی سے ان کی یہ حالت ہو گئی تھی۔‘‘

’’ آدمیوں کو بھی تنگ کرتے رہے ہوں گے ۔ ‘‘

’’ہر گز نہیں۔ کرنل کی  بیوی بولی۔ ’’میں نے اکثر رات میں انہیں صرف کتوں پر  جھپٹتے دیکھا ہے۔‘‘

’’ رات کے کس حصے میں ۔ ‘‘

            ’’ایک رات تقریبًا تین بجے میری آنکھ کھل گئی پائیں باغ میں شور سن کر میں نے کھڑکی سے جھانکا با ہر اندھیرا تھا لیکن پھر بھی مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے دو کتے لڑ رہے ہوں ۔ ہمارے کتے آپس میں بھی نہیں لڑتے میں سمجھی شاید کوئی باہر کا کتا آگیا ہے میں نے ٹارچ اٹھا کر باہر روشنی ڈالی لیکن میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ ایک تو ہمارا کتا تھا اور دوسرے خود کرنل صاحب دو گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل اچھل اچھل کر کتے پر حملہ کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ بالکل کتے جیسی آواز میں بھونکتے جارہے تھے۔ میں نے نوکروں کو جگایا۔ وہ کسی نہ کسی طرح انہیں اندر اٹھا لائے ۔ وہ اس وقت ہوش میں نہ تھے۔ بہر حال میں نے اس دن سے ان کی کافی نگرانی شروع کر دی تھی لیکن وہ رات کو کسی نہ کسی طرح کمرے سے باہر نکل ہی جاتے تھے کل رات بھی شاید وہ باہر نکل گئے پھر معلوم نہیں کیا حادثہ پیش آیا ۔ ‘‘

’’آپ کی دانست میں ان کا کوئی دشمن تھا۔‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’اس کے متعلق میں کچھ نہیں کر سکتی۔ فوجیوں کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ کرنل صاحب بہت اکھٹر آدمی ہیں۔ اس لئے اگر انہوں نے کچھ دشمن پیدا کرلئے ہوں تو کوئی یہ تعجب کی بات نہیں لیکن میں یہ نہ بتا سکوں گی کہ ان کا دشمن کون ہے ویسے تو جتنے بھی ان سے ملنے کے لئے آتے ہیں سبھی ان کے جگری دوست معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘

  فریدی کے استفسار پر کرنل کی بیوی نے کئی ایسے لوگوں کے نام اور پتے لکھوائے جو اس کے گھر آیا کرتے تھے لیکن ان میں ڈاکٹر وحید کا نام نہیں تھا۔ فریدی کچھ سوچنے لگا۔ حمید غور سے کرنل کی بیوی کو دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ اس کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہو۔

 فریدی اس سے چند اور سوالات کرنے کے بعد واپس جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ سرینج اور شیشی کرل کی بیوی کی اجازت سے اس نے اپنی جیب میں ڈال لی تھیں۔

جگدیش وہیں رہ گیا حمید اور فریدی کار میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔

’’مجھے تو اس عورت پرشُبہ ہے ۔ حمید بولا۔

فریدی نے کوئی جواب نہ زیادہ کچھ سوچ رہا تھا۔

’’ آوارہ معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘حمید پھر بولا۔

’’کیوں ؟‘‘ آوارہ کیوں معلوم ہوتی ہے۔‘‘

’’ اس لئے کہ اس کے بائیں پیر کی چھوٹی انگلی کے پاس والی انگلی تناسب کے اعتبار سے چھوٹی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے و ہ بقیہ انگلیوں کی سطح سے کچھ اونچی ہو۔‘‘

’’کی فضول بکواس ہے۔ فریدی کچھا اکتا کر بولا۔

’’صدیوں کے تجربات کا نچو ڑ پیش کر رہا ہوں ۔ ‘‘حمیدبولا ۔

’’بکومت ۔‘‘

’’اور جب وہ خاموش ہوتی ہے تو اس کے ہونٹ کھل جاتے ہیں اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں۔‘‘

’’تو پھر اس سے کیا ۔‘‘

         ’’اور مسکراتے وقت اس کے گالوں میں گڑھے پڑ جاتے ہیں ۔ ‘‘حمید بولا ....آسکر وائلڈ نے لکھا ہے کہ یہ نطفئہ ناتحقیق ہونے کی علامت ہے۔‘‘

فریدی بے اختیار ہنس پڑا۔

’’ابھی تک تو وہ خود آوارہ تھی اور اب تم اس کی ماں کی آوارگی ثابت کرنے بیٹھ گئے۔ فضول بکواس کر کے میرا دماغ مت خراب کرو۔

’’ایسی باتوں سے دماغ روشن ہوتا ہے۔‘‘

’’پھر وہی۔‘‘

’’تندرستی اچھی رہتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے نیلی پیلی چنگاریاں نہیں اڑ تیں، سر نہیں چکر آتا، آنکھوں کی کھوئی ہوئی روشنی واپس آجاتی ہے۔ دانت مضبوط اور چمکدار ہو جاتے ہیں، خواب صاف دکھائی دیتے ہیں۔ آدمی بھوت پریت کےسائے سے محروم رہتا ہے .....اور.....‘‘

’’  اور بابا بند کرو یہ بکواس ۔ ‘‘فریدی اکتا کر بولا۔

6

حمید خاموش ہو گیا۔ کار تیزی سے چلی جارہی تھی۔ سڑک کے پر رونق بازار چھوڑتی ہوئی وہ ایک سنسان سڑک پرمڑگئی۔

’’ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ‘‘حمید چونک کر بولا۔

’’ جھریالی ۔‘‘

’’کیوں‘‘

’ڈاکٹروں سے ملنے‘‘۔

’’لاحول ولاقوۃ خواہ مخواہ وقت بر باد کریں گے آپ ۔‘‘

’’فضول بکواس مت کرو۔‘‘ فریدی بولا ۔

’’تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کرنل سعید کو پاگل بنانے میں انہیں کا ہاتھ ہے۔‘‘

’’یہ میں اس وقت سمجھ سکتا تھا جب سعید قطعی پاگل ہوتا۔ ‘‘

’’تو کیا آپ کو اس کے قطعی پاگل ہونے میں شُبہ ہے ۔ ‘‘

’’قطعی پاگل ہونے سے میری مراد ہر وقت کی بے ہوشی ہے۔ فریدی بولا۔ ’’صرف رات ہی کو وہ کیوں پاگل ہو جاتا ہے۔‘‘

’’بہت ممکن ہے کہ خود انہوں نے اسے کوئی ایسی دوا دی ہو جس کا وقتی اثر ہوتا ہو ۔ ‘‘حمید بولا۔

’’ یہی سب دیکھنے کے لئے تو چل رہا ہوں ۔ فریدی نے کہا ’’ آخر وقتی طور پر اسے پاگل بنا دینے کا کیا مطلب ہے۔‘‘

’’ کچھ عجیب اتفاق ہے کہ معاملہ لڑکی کی تلاش سے شروع ہو کر باپ کے پاگل پن پر ختم ہو گیا۔ ‘‘حمید نے کہا۔

’’نہیں معاملہ ختم کہاں ہوا۔ وہ تو اب شروع ہوا ہے۔‘‘

’’ وہ انشاء اللہ زندگی بھر اسی طرح شروع ہوتا رہے گا ۔‘‘

’’تم احمق ہو جہاں ذراسی محنت پڑی جان نکلنے لگتی ہے۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’اسے آپ ذراسی محنت کہتے ہیں‘‘۔

’’دیکھو خواہ مخواہ بک بک کرتے رہنے کی عادت اچھی نہیں ۔‘‘

’’معاف کیجئے گا۔ میری  یہی بک بک آپ کی کامیابیوں کی ذمہ دار ہے۔‘‘ حمید بولا۔

’’ بہت اچھے بڑی شاندار بکو اس ہوتی ہے آپ کی کاہل اور کام چور عورتوں کی سی باتیں کرتے ہو۔‘‘

’’عورتوں .......ہائے عورتوں ......ذرا ایک بار پھر  کہیے۔‘‘حمید سینے پر ہاتھ مارتا ہوا بولا ۔’’ اگر اسی طرح عورت افزائی

کرتے رہے تو کیوں مجھے اکتا نا پڑے۔

’’ پھر وہی عورت ۔‘‘فریدی جل کر بولا ۔ ’’اگر یہی عالم رہا تو ایک دن تم خود عورت ہو جاؤ گے۔“

’’اور آپ اس وقت کہاں ہوں گے ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’جہنم میں ۔‘‘

’’تو گویا نعوذ بالله!‘‘

’’خاموش رہو ۔ ور نہ میں تمہارا سر سٹیرنگ سے ٹکر ا دوں گا ۔ ‘‘فریدی جھنجھلا کر بولا ۔

’’اچھا پھر اس کے بعد آپ کہاں ہوں گے ۔ ‘‘فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس وقت اسے سچ مچ حمید کی بے تکی بکو اس بہت کھل رہی تھی۔ حمید بھی شاید سمجھ گیا تھا۔ اس لئے اس نے بالکل خاموشی اختیار کر لی فریدی کار کی رفتار لمحہ بہ لمحہ تیز کرتا جارہاتھا جھر یالی پہنچ کر فریدی نے کارکچے راستے پر اتار دی۔ تجربہ گاہ کے سامنے پہنچ کر کا رک گئی کل ہی والا پہرے دار آج بھی پھاٹک پر بیٹھا ہوا تھا۔ فریدی کو کار سے اترتے دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔

’’ سلام صاحب !‘‘

’’سلام !ذرا یہ کارڈ اندر پہنچوا دو ‘‘۔ فریدی نے اپنا ملاقاتی کارڈ جیب سے نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔

پہرے دار نے کسی کو آواز دی۔ ایک آدمی اندر سے آیا اور اس نے کارڈ اسے دے دیا۔

 دونوں ڈاکٹر لیبارٹری میں کوئی تجربہ کر رہے تھے انہوں نے فریدی کو  و ہیں بلا لیا۔

جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچے اندر  سے کسی شیر خوار بچے کے رونے کی آواز آئی اور اندر پہنچ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب انہوں نے یہ دیکھا کہ آواز ایک خرگوش کے منہ سے نکل رہی تھی جسے ڈاکٹروں نے ایک مشین میں لگےہوئے پنجرے میں بند کر رکھا تھا۔ حمید کو بے اختیار ہنسی آگئی۔

’’ اوہ آپ !‘‘ وحید نے چونک کر کہا۔’’ شاید کل بھی تو آپ آئے تھے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ آپ کون ہیں ۔‘‘

’’اس قسم کا کوئی موقع ہی نہیں آیا تھا۔ ‘‘فریدی نے مسکرا کر کہا۔

’’ فرمائیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘

’’میں ایک تکلیف دینے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘

’’فرمائے۔‘‘

فریدی نے وہی شیشی جیب سے نکالی جو اس نے کرنل سعید کے بستر پر پائی تھی۔ ’’میں اس سیال کا تجزیہ چاہتا ہوں۔‘‘

’’ بس اتنی معمولی سی بات میں تو سمجھا تھا کہ شاید آپ کوئی بڑی خدمت مجھ سے لینے والے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر وحید نے مسکرا کر کہا۔ فریدی نے شیشی اسے دے دی اور اس کی حرکات و سکنات کا بغور جائزہ لینے لگا۔

 ڈاکٹر وحید کے چہرے پر کسی قسم کی گھبراہٹ یا پریشانی کے آثار نہ تھے۔ اس نے نہایت اطمینان سے شیشی کا عرق ایک ٹسٹ ٹیوب میں انڈیلا اور اس میں کچھ دوسری چیزیں ملا کر اسپرٹ لیمپ پر گرم کرنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد اس کے منہ سے عجیب قسم کی آواز نکلی اور وہ گھوم کر تحیر آمیز انداز سے فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔

’’ یہ چیز آپ کو کہاں سے ملی ۔ اس نے فریدی سے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ فریدی نے سوال کیا۔

’’میر ا دعواتھا کہ اس کا راز صرف میں ہی جانتا ہوں مگر۔ وہ پریشانی کے لہجے میں بولا۔

’’یعنی۔‘‘

’’ آپ کو یہ کہاں سے ملا؟‘‘

’’ کرنل سعید کے یہاں !‘‘

’’کرنل سعید کے یہاں؟‘‘ ڈاکٹر وحید نے اچھل کر کہا۔

’’جی ہاں۔‘‘

’’تو وہ حضرت اسے یہیں سے چرا کر لے گئے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر وحید بے ساختہ بولا۔

’’آپ اسے جانتے ہیں۔‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’ اچھی طرح وہ میرے زیر علاج ہے۔‘‘

’’ کس چیز کا علاج کر رہے ہیں آپ ۔‘‘

’’جنسی کمزوری کا ۔‘‘

’’اوہ لیکن اس شیشی میں کیا چیز تھی ۔‘‘

            ’’ہمارا ایک نا مکمل تجربہ ڈاکٹر وحید نے کہا۔ ’’یہ بھی جنسی کمزوری کی ایک دوا ہے لیکن ابھی اس قابل نہیں کہ اسے کسی آدمی پر استعمال کیا جا سکے۔ ‘‘

’’شاید آپ کو یہ سن کر تعجب ہو کہ اسے ایک آدمی استعمال کرتارہا ہے۔‘‘

’’کون؟‘‘

’’کرنل سعيد !‘‘

’’ارے .....مجھے اس کا علم ہی نہیں تو پھر اس کا نتیجہ کیا ہوا؟‘‘

’’نتیجےہی کے سلسلے میں مجھے یہاں آنا پڑا ہے۔ فریدی نے کیا اور کرنل سعید کے پاگل پن کی داستان د ہرادی۔

 اوہ تب تو میرا تجربہ سوفیصد کامیاب رہا۔ ڈاکٹر وحید مسرت آمیز لہجے میں بولا۔

’’ مگر یہ ہے کیا بلا ۔ فریدی نے پوچھا۔

’’ آپ کتوں کی صنعت کے بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے۔ ڈاکٹر وحیدبولا ۔ اسی نظریے کو سامنے رکھ کر ہم کتے کے غدود کے انجکشن کے سلسلے میں تجربہ کر رہے تھے۔ ہم نے دو تو تیار کرلی تھی لیکن ابھی تک اطمینان نہیں ہوا تھا ۔ کرنل سعید نے ہماری یہ مشکل بھی دور کردی اگر وہ  پندرہ دن تک متواتر اسے استعمال کرتار ہا تو آپ جانتے ہیں کیا ہوگا ؟‘‘..... وہ پھرسے جو ان ہی نہیں بلکہ نو جوان ہو جائے گا

’’بشر طیکہ اس دوران میں اس کی ملک الموت سے ملاقات نہ ہوگئی ہو۔‘‘حمید بے ساختہ بولا ۔

’’ کیا مطلب‘‘

و ہ اسی پاگل پن کے عالم میں کل رات کہیں غائب ہو گیا۔ فریدی نے کہا۔

غائب ہو گیا۔ وحید کچھ سوچتا ہوا بولا’’خیر فکر کی بات نہیں۔ یہ پاگل پن عارضی ہوتا ہے اسے جب بھی ہوش آئےگاوہ اپس آجائے گا۔

’’صاحب واقعی ہمارے ملک میں آپ لوگوں کا دم غنیمت ہے یقیناً آپ سائنس کی دنیا میں ہمارا سر اونچا کریں گئے ۔ فریدی بولا ۔ ’’ آیئے میں آپ کو بقیہ شبے دکھاؤں۔ ڈاکٹر وحید نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔

 

’’یہ دیکھئے یہ ہمارا ننا منا سا بجلی گھر ہے جس سے ہم اپنی ضرورت کے مطابق بجلی  پیدا کر سکتے ہیں۔ یہاں اس کمرے میں ادویات رکھی جاتی ہیں اور ادھر تشریف لایئے جی ہاں یہ نباتات کا کمرہ ہے یہاں دنیا کے سارے ممالک کی کارآمد نباتات کے نمونے ہیں ۔

’’کیا آپ نے شیر بھی پال رکھے ہیں ۔ حمید نے چونک کر پو چھا اسے ابھی ابھی ایک خوفناک گرج سنائی دی جی ہاں اس سامنے والی عمارت میں درندے ہیں ۔

’’تو کیوں نہ لگے ہاتھ ان کو بھی دیکھ لیں ۔ فریدی نے کہا۔

’’لیکن مجھے افسوس ہے کہ آپ انہیں قریب سے نہ دیکھ سکیں گے کیونکہ ابھی تک وہاں کٹہروں کا انتظام نہیں ہو سکا۔ درندے کمروں میں بند ہیں۔ خود ہم لوگ بھی ادھر بہت کم جاتے ہیں۔

’’یہ چیز تو خطرناک ہے۔‘‘

’’کیا کیا جائے حکومت نے کٹہروں کا وعدہ تو کیا ہے دیکھئے کب تک ملتے ہیں ۔ ‘‘ڈاکٹر وحید بولا۔

’’گھبرایئے نہیں آپ کو بہت جلدکٹہر ے بھی مل جائیں گئے ۔ فریدی نے کہا۔

’’وہ کیسے ‘‘!

’’میں ایک رپورٹ پیش کر دوں گا کہ موجودہ حالت میں درندوں کا رکھنا خطر ناک ہے۔ فریدی بولا۔

’’ہم آپ کے انتہائی ممنون ہوں گے‘‘۔

’’لیکن یہ تو بتا  ئیےکہ آپ شیر رکھتے ہی کیوں ہیں ۔ حمید نے پو چھا۔ ان سے ہم بزدلوں کو شیر بنانے میں مدد لیتے ہیں ۔ ڈاکٹر وحید نے کہا۔

’’یعنی‘‘

’’شیر کے غدود کے انجکشن۔‘‘

’’ہاں صاحب اگر آپ کسی کو گدھے کے غدود کے انجکشن دیں تو کیا ہو‘‘۔ حمید نے مسکرا کر پوچھا۔

’’تو وہ آپ کی طرح فضول بکواس کرے گئے ۔ فریدی نے جھنجھلا کر کہا ڈاکٹر وحید ہنسنےلگا۔

’’ اچھاڈ اکٹر اس تکلیف دہی کی معافی چاہتا ہوں ۔ فریدی نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ارے اس میں تکلیف کی کیا بات ہے‘‘۔ وحید نے کہا۔’’مجھے خوشی ہے کہ آپ نے ہمیں اس قابل سمجھا۔ فریدی اور حمید کار میں بیٹھ کر شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔

’’کیوں حمید کیا خیال ہے ۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ ان لوگوں پر تو کسی قسم کا شبہ کرنے کو دل نہیں چاہتا ‘‘۔ حمید بولا۔

’’کیوں‘‘۔

’’بے چارے نے سب کچھ صحیح صحیح تو بتادیا ‘‘۔

’’ خیر اس کا علم تو مجھے کرنل سعید سے گفتگو کرنے کے بعد ی ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ان حرکتوں کا ذمہ دار خود ہے‘‘۔

’’تو پھر یہاں تک دوڑے آنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔

’’محض اپنے اطمینان کے لئے ۔ فریدی نے کہاکہ کوئی اور خاص بات تم نے مارک کی۔

’’کوئی نہیں مجھے تو کوئی خاص بات نہیں دکھائی دی‘‘۔

’’اس لئے کہتا ہوں کہ تم کبھی ایک کامیاب جاسوس نہیں ہو سکتے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ کیا تم نے یہ چیز نہیں نوٹ کی کہ ڈکٹر وحید کو تو کرنل سعید کے گھر جانے کا اقرار ہے لیکن کرنل کی بیوی اس سے انکار کرتی ہے ۔

’’اوہ تو پھر آپ اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔‘‘

’’ یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا نتیجہ اخذ کروں‘‘۔

’’ بہر حال یہ چیز تو ظاہر ہوگئی کہ کرنل کے پاگل پن اور اس کی بیٹی کی گمشدگی میں کوئی تعلق نہیں۔ اب یہ بتا ئےکہ کرنل

کا کیا ہوگا۔

’’جب تک کہ اس کی لڑکی کے متعلق نہ معلوم ہو جائے اسے تہ خانے ہی میں رکھوں گا۔‘‘

’’  مگر یہ چیز ہے خطرناک حمید نے کہا۔‘‘  فرض کیجئے اگر اس کے متعلق آپ کو کچھ نہ معلوم ہو سکا تو کیا ہو گا۔

’’وہ تو اب معلوم ہی ہو کر رہے گا ۔ فریدی نے پر اطمینان نیجے میں کہا۔

حمید کچھ سوچنے لگا۔  اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ شاید اس کے ذہن میں کوئی نیا خیال پیدا ہوا تھا جسے وہ ایک نا تجربہ کار بچے کی طرح فورا ًہی اگل دینے کے لئے بے تاب ہو گیا تھا۔

’’کرنل سعید کی بیوی کی غلط بیانی کی ایک وجہ اور بھی ہو سکتی ہے‘‘حمید بولا۔

’’ نسوانی شرم !کرنل سعید اپنی جنسی کمزوری کا علاج کر رہا ہے ظاہر ہے کہ ڈکڑ  وحید سے پو چھ کچھ کی جاتی۔ اس لئے

اس نے اس کا نام لینا مناسب نہ سمجھا ہو گا‘‘۔

’’کوڑی تو تم بہت دور کی لے آئے ہو ۔ فریدی نے کہا ۔ لیکن اس چیز کو بھی پیش نظر رکھو کہ کرنل کے پاگل پن کی اطلاع خود اسی نے پولیس کو دی تھی۔ اگر وہ چاہتی تو اسے بھی چھپالیتی کیونکہ کرنل اس دوا کو اسی وقت استعمال کرتا تھا جب اسے یقین ہو جاتا تھا کہ گھر کے سب لوگ سورہے ہیں ۔

’’ آپ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ کرنل نے دو اچرائی تھی ممکن ہے اس کی بیوی کو بھی اس کا علم نہ رہا ہو۔ اس لئے اس نے کرنل کی حرکتوں کو پاگل پن ہی سمجھا ہو‘‘۔ حمید نے کہا۔

’’بھئی تم آج بہت عقل مندی کی باتیں کر رہے ہو‘‘ ۔ فریدی مسکرا کر بولا۔

’’ پیٹھ ٹھونکئے اس بات پر فریدی نے ایک گھونسہ حمید کی پیٹھ پر جڑ دیا ’’کار سنبھالئے کار حمید چیخا۔

کار سچ مچ اس وقفہ میں ایک تناور درخت کی طرف گھوم گئی تھی لیکن فریدی بڑی پھرتی کے ساتھ اسٹیر نگ  گما کر کار کو سڑک پر لے آیا۔

ایک ٹرک کار کے پیچھے سے آگے کی طرف بڑھ گیا ٹرک کافی تیز رفتاری کے ساتھ جارہا تھا۔

’’حمید فریدی چونک کر بولا ۔ ’’یہ تو وہی ٹرک ہے۔

’’ جو کل دیکھا تھا جس کے ڈرائیور نے نمبروں کی تختی بدلی تھی ۔ فریدی نے کہا اور کار کی رفتار کچھ تیز کردی۔

ٹرک پر بانس کے گٹھے لدے ہوئے تھے فریدی کی کار اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ ’’ نکال لے چلئے ‘‘ حمید بولا۔

’’عجیب احمق ہو۔ اتنا اچھا موقع ہاتھ سے نکل جانے دوں‘‘ ۔

’’ ا بھی ایک مسئلہ حل نہیں ہوا اور دوسرے میں ٹانگ اڑادی گئی‘‘۔

’’جتنے زیادہ معاملات ہوں اتنا ہی اچھا ہوتا ہے‘‘۔

’’ آپ کی مرضی‘‘۔

’’دیکھنا یہ ہے کہ ٹرک جاتا کہاں ہے ۔ فریدی نے کہا۔

’’اور اس کے بعد ٹھنڈے ٹھنڈے لوٹ آئیں گئے ۔ حمید بولا۔

فریدی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ ٹرک اور کار کا فاصلہ برابر رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ ٹرک کا ڈرائیور آہستہ آہستہ اس کی رفتار تیز کرتا جارہا ہے۔ سڑک بالکل سنسان تھی اس لئے اسے کوئی خاص وقت بھی پیش نہیں آرہی تھی۔

7

ٹرک کے پچھلے حصے میں جہاں خیموں کے ستون رکھے ہوئے تھے دو قومی ہیکل گور کھے بیٹھے ہوئے تھے۔ و ہ  ٹر ک کے  جھٹکوں سے اِدھر اُدھر ہل جانے والے ستون کو سنبھالتے جارہے تھے ۔ فریدی غور سے ان کی یہ حرکت دیکھتا رہا پھر دفتًاوہ حمید سے بولا۔

’’کچھ دیکھ رہے ہو‘‘۔

’’ان ستونوں کے سلسلے میں اتنی احتیاط کی ضرورت ہے ‘‘۔ فریدی بولا۔ ’’ٹرک کی دیواریں کافی اونچی ہیں اور ستون ان  کی سطح سے نیچے ہیں فریدی نے کہا۔

’’ کیا خیال ہے ۔ فریدی نے کہا ۔ اس انبار کے نیچے کچھ معلوم ہوتا ہے۔‘‘

’’ بہت ممکن ہے !‘‘حمید کچھ سوچتا ہوا بولا ۔  کیوں نہ انہیں روک کر تلاشی لی جائے‘‘۔

’’ احمق ہویے ہو!‘‘ ہمیں اس کا حق کب پہنچتا ہے اس قسم کی دھاندلی میں اسی صورت میں کرتا ہوں جب سارے جائز ذرائع ختم ہو جاتے ہیں دیکھو شروع سے میرا خیال ہے کہ ڈاکٹروں کی تجربہ گاہ اور ستونوں کے کارخانے میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔

’’اس کی وجہ‘‘۔

’’ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ان دونوں عمارتوں میں بظاہر کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا۔‘‘

’’یعنی‘‘۔

’’آٹھ دس میل کے رقبے میں ان دونوں عمارتوں کے علاوہ اور آبادی نہیں ہے ‘‘۔ فریدی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ایسی صورت میں دونوں عمارتوں کے مکینوں کے ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ تعلقات تو ہونے ہی چائیں۔

’’ضروری نہیں ‘‘۔حمید نے کہا۔

’’انسانی فطرت کے لئے قطعی ضروری ہے۔‘‘

’’تو آپ مفروضات پر اپنی منطق کی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔

’’ہرقسم کی تحقیق مفروضات اور تکشیک ہی سے شروع ہوا کرتی ہے ۔ فریدی نے کہا۔  میں نے اپنے ایک خیال اظہار کیا ہے اور یہ دیکھنا تو بعد کی بات ہے کہ اس میں سچائی کہاں تک ہے‘‘۔

’’خیر صاحب معلوم ہو گیا کہ مہینوں سر مارنا پڑے گا۔ ‘‘حمید بے دلی سے بولا۔

’’ہو سکتا ہے کہ ایک ہی گھنٹے میں ساری گتھیاں سُلجھ جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سال میں بھی کچھ نہ ہو سکے سراغرسانی کا انحصار تو محض اتفاقات پر ہے‘‘۔

’’اچھا اچھا ذرا کارکی رفتار کم کیجئے ۔ ‘‘حمید بولاٹرک شاید اگلے موڑ پرگھومے گا۔ اس کی رفتار کم ہوگئی ہے ۔ فریدی نے کار کی رفتار کم کردی۔ حمید کا کہنا سچ نکلا  ٹرک اسی طرف مُڑ گیا لیکن اس کی رفتار پہلے کی نسبت کم ہی رہی اور اب وہ سڑک کے کنارے جارہا تھا۔ کار کو راستہ دینے کے لئے۔

’’دیکھا شاید انہیں شُبہ ہو گیا ہے۔ بہر حال ہمیں اب اپنی گاڑی آگے نکال لے جانی چاہئے ۔ فریدی نے کہا۔ ‘‘ تم پچھلی سیٹ پر چلے جانا ابھی نہیں۔ مجھے گاڑی آگے نکال لے جانے دو۔ٹرک پر نگا ر کھنا ‘‘۔

فریدی اپنی کا رٹرک کے قریب سے نکال لے گیا۔ حمید پچھلی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا پُشت پر لگے ہوئے شیشے سے و ہ ٹرک کو دیکھ رہا تھا۔ ٹرک رُک گیا ۔

وہ تو میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ انہیں ہم پر شبہ ہو گیا ہے۔ فریدی نے کہا۔ خیر چھوڑ دو میں اب انہیں اور زیادہ شبہ میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا ۔ فریدی نے کہا اور کار کی رفتار تیز کر دی چند لمحوں کے بعد ٹرک حمید کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

’’یہ ٹرک کہاں جا سکتا ہے ۔ فریدی نے کیا۔

’’میں کیا جانوں‘‘۔

’’میرا خیال ہے کہ یہ شہر میں کسی بیوپاری کے یہاں جائے گا۔

’’ممکن ہے ۔ حمید بولا۔‘‘

’’کیفے ڈی فرانس کے سامنے ایک فرم ہے بہت ممکن ہے کہ یہ ستون و ہیں جارہے ہوں۔ بہر حال اگر ہم  کیفے ڈی فرانس میں لنچ کھا ئیں تو کیا حرج ہے‘‘۔

’’بھلا کھانے پینے میں کہاں حرج ہو سکتا ہے ‘‘۔ حمید جلدی سے بولا۔ مجھے کوئی امید نہیں لیکن خیرممکن ہے میرا قیاس صحیح نکلے ۔ فریدی نے کہا۔

تھوڑی دیر بعد وہ کیفے ڈی فرانس کے سامنے پہنچ گئے ۔ فریدی نے اپنی کا ایک فرلانگ پیچھے ہی فٹ پاتھ سے لگا دی۔

 

کیفے میں وہ ایک کھڑکی کے پاس والی میز پر بیٹھے یہاں سے وہ باہر کی طرف یہ آسانی دیکھ سکتے تھے۔ سامنے ہی میسرز جی۔ ایم استھا نا خیموں کے تاجر کا گودام تھا۔ گودام کے احاطے میں جابجا بانسوں اور بلیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔

فریدی نے لنچ کا آرڈر دیا۔ تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد حمید کے چہرے پر اُکتاہٹ کے آثار پائے جانے لگے۔

’’شہر میں اور بھی بیو پاری ہوں گے ۔‘‘ حمید نے کہا ’’ کیا ضروری ہے کہ وہ یہیں آئے۔ قطعی ضروری نہیں۔ میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کے متعلق مجھے یقین نہیں ہے ہم تو دراصل یہاں محض لنچ کھانے آئے ۔ اگر اس سلسلے میں کوئی کام کی بات معلوم ہو جائے تو کیا کہنا“۔

’’ ارے !‘‘ حمید جو سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا چونک کر بولا سچ مچ وہ رہا  ٹرک احاطے کے اندر داخل ہو رہا تھا۔

’’اب فرمائیے ۔ فریدی مسکرا کر بولا۔

 ٹرک جیسے ہی احاطے میں داخل ہوا دو تین مردور ادھر اُدھر سے دوڑ پڑے۔ فریدی اور حمید لنچ ختم کر چکے تھے۔ فریدی نے بل ادا کیا اور دونوں کیفے سے نکل آئے گودام کے احاطے کے قریب ایک پان والے کی دُکان تھی۔ حمید وہاں سے سگریٹ خرید نے لگا۔

مزدوروں میں اچھی خاصی تکرار شروع ہوگئی تھی۔ وہ مزدورجوٹرک کا مال اتارنے کے لئے دوڑے تھے اس بات پر مصر تھے کہ وہی ان ستونوں کو ٹرک پر سے اتاریں گے لیکن ڈرائیور انہیں اس سے روک رہا تھا ان کے بجائے ٹرک پر بیٹھے گورکھوں نے ستون اٹھا اٹھا کر گودام کے اندر لے جانے شروع کر دیے تھے۔

’’واہ بھیا !یہ بھی کوئی بات ہے سارا دن تو مال ہم نے ڈھویا ۔‘‘ ایک مزدور ڈرائیور سے کہہ رہا تھا۔ اور اب اس وقت تم اپنے مزدور لائے ہو۔‘‘

’’مالک کا یہی حکم ہے۔ میں کیا کروں‘‘۔

 بالآ خر  بات اتنی بڑھی کہ خود میجر کو افس سے نکل کر آنا پڑا۔ اس نے ڈانٹ ڈپٹ کر مزدوروں کو الگ کر دیا تھوڑی دیر بعد ٹرک خالی ہو گیا۔

’’اس میں کچھ بھی نہ نکلا ۔ حمید نے آہستہ سے کہا۔

’’آؤ اب یہاں سے ہٹ چلیں ۔ فریدی نے کہا۔ دونوں اپنی کار میں آکر بیٹھ گئے۔ فریدی نے کار اسٹارٹ کر دی۔

  خوا مخوابھاگ دوڑ کرتے رہے ۔ حمید نے کہا۔

’’خوا مخواکیوں ؟‘‘

’’ کیا نکلا ٹرک میں‘‘۔

’’یہ تو اور زیادہ دلچسپ بات ہے‘‘۔

’’اپنی دلچسپیاں بس آپ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ‘‘حمید نے کہا۔ ’’ خاکسار کے تو خاک بھی سمجھ میں نہیں آتا ۔‘‘

’’  مزدوروں کی تکرار سے تم نے کیا ا ندازا لگائی۔

’’بس تکرار تھی۔‘‘

’’لیکن لایعنی نہیں ۔ ‘‘فریدی نے کہا۔ وہ اس سے پہلے بھی اس ٹرک کا مال اتار چکے تھے آخر اس بار انہیں اس سےکیوں محروم رکھا گیا ۔

’’اچھا اب گھر چلیے ۔ ‘‘

’’حمید نے اکتا کر کہا۔‘‘

’’گھر پہنچ کر فریدی کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا اور کبھی کبھی وہ بے چینی سے ادھر اُدھر ٹہلنے لگتا۔ اسی دن دس بجے رات کو وہ کہیں جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ اس نے کار نکالی اور ایک طرف چل پڑا۔ وہ یوں ہی بلا مقصد شہر کی سڑکوں کے چکر کاٹتاپھر رہا تھا تقریباً بارہ بجے وہ کرنل سعید کے بنگلے کے پاس سے گزرا۔ آگے لے جا کر کار کھڑی کر دی پھر تین بار انجن کھولا اور بند کیا ۔ غالبًا یہ کسی قسم کا اشارہ تھا۔ جس پر ایک آدمی تاریکی سے نکل کر آہستہ آہستہ چلتا ہوا کار کے پاس آیا۔

’’ انسپکٹر صاحب ! ‘‘آنے والے نے آہستہ سے کہا۔

’’آؤ بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

’’وہ فریدی کے برابر بیٹھ گیا اور کار چل پڑی۔

’’کوئی خبر ‘‘

’’ گیارہ بجے رات کو وہ کہیں گئی ہے‘‘

’’ا کیلئے‘‘۔

’’نہیں‘‘

’’کون تھا اس کے ساتھ ۔‘‘

’’ایک آدمی ‘‘۔ اس نے کہا ۔’’ لیکن میں اسے پہنچانتا نہیں‘‘۔

’’ فریدی نے اپنی جیب سے دو تین تصویریں نکال کر اسے دیں۔ ان میں سے کوئی تھا ۔ فریدی نے کہا۔ وہ آدمی ٹارچ کی روشنی میں تصویریں دیکھنے لگا۔

’’ یہ تھا سو فیصد یہی تھا ۔ اس نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

’’ ہوں ‘‘۔ فریدی نے کہا اور تصویر میں لے کر جیب میں رکھ لیں۔

’’کوئی اور بات ؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔ اور کچھ نہیں۔‘‘

’’کرنل کی بیوی پر کسی خاص پریشانی کے اثرات‘‘۔

’’ میں اسے زیادہ قریب سے نہیں دیکھ سکا ‘‘۔

’’اچھا فریدی نے کار کو پھر کرنل سعید کے بنگلے کی طرف موڑتے ہوئے کہا ۔ ابھی تمہارا کام ختم نہیں ہوا۔ تمہیں یہ بھی دیکھناہے کہ وہ کب اور کس حالت میں گھر واپس آتی ہے۔‘‘

’’ بہت اچھا‘‘۔

’’یہ فریدی نے اس کے ہاتھ پر دس روپے کا نوٹ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’رات کا خرچ ‘‘۔

8

حمید بے خبر سور ہا تھا ۔ فریدی نے اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا دیا۔

’’ خیریت ،خیریت حمید نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا پھر اس کی نظر گھڑی کی طرف گئی ۔’’ اف فوہ۔ ابھی تو تین ہی بجے ہیں ‘‘ ۔ حمید نے فریدی کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا ۔ کون سی آفت آگئی‘‘۔

’’ کچھ نہیں۔ چوہے کے بِل سے جو ہاتھی نکلا ہے تمہیں دکھانا چاہتا ہوں اور اسی وقت تمہیں اس کا مہاوت بھی بتاؤں گا ‘‘۔ فریدی ہنس کر بولا۔

’’یعنی‘‘

’’آؤ میرے ساتھ ‘‘۔ فریدی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔

وہ دونوں دوسرے کمرے میں گئے۔ انہیں ستونوں میں کا ایک جو انہوں نے ٹرک پر دیکھے تھے فرش پر پڑا ہوا تھا۔ کیا خیال ہے ۔ فریدی حمید کی طرف دیکھ کر بولا ۔

’’خوا مخواہ میری نیند خراب کی ‘‘۔ حمید بڑبڑایا۔

’’کیا تم مجھے اتنا احمق سمجھتے ہو کہ میں خواہ مخواہ اسے لاد کر یہاں لاؤں گا ‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’تو کچھ بولیے بھی نا ‘‘حمید نے اکتا کر کہا۔

’’تم سنتے کب ہو‘‘۔

’’اچھا سن رہا ہوں‘‘۔

’’ کیا تم اسے بانس کا بنا ہوا سمجھتے ہو‘‘۔ فریدی نے ستون کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

’’جی نہیں میرا خیال ہے کہ یہ خالص سونے کا بنا ہوا ہے ‘‘۔ حمید طنزیہ لہجے میں بولا ۔

’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔ ذرا اسے قریب سے دیکھو اس کی مصنوعی گانٹوں پر نہ جاؤ ۔ حمید جھک کر اسے دیکھنے لگا۔ واقعی کمال کردیا۔ حمید اٹھ کر بولا۔ لیکن آخر اس میں اتنی پریشانی کی کیا بات ہے۔ بھلا اس مصیبت گری کو جرم کیسے قرارد یا جاسکتا ہے۔ اگر شیشم کی لکڑی کا ستون یہ بنایا گیا جو بانس کا معلوم ہو تو کون سی مصیبت آگئی واقعی کاری گرنے کمال کر دیا ہے‘‘۔

’’لیکن یہ کمال دکھانے کی ضرورت ظاہر ہے کہ انہیں نمائش میں تو جانا نہیں ہے‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔

’’ہوگا  صاحب کچھ ‘‘۔حمید نے اکتا کر کہا۔’’آپ تو خواہ مخواہ ہر چیز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔‘‘

’’اچھا اب اگر واقعی تم اس کا کمال دیکھنا چاہتے ہو تو  وہ گلاس  اٹھاؤ۔‘‘فریدی نے کہا اور ستون کو اُٹھا کر زمین  پر بٹھتے  ہوئے  اسے اپنے زانوں پر رکھ لیا سرےسرے پر لوہے کے رنگ چڑھے ہوئے تھے فریدی نے انہیں گھمانا شروع کرد یادوسر ہی لمحے میں رنگ ایک ڈھکن سمیت ستون سے الگ ہو گئے اور کوئی سیال شےستون سے  ٹپکنے لگی۔

’’ ارے !‘‘حمید اچھل کر بولا ۔

’’گلاس لگاؤ۔‘‘ فریدی نے کہا اور ستون کو جھکا دیا۔ گلاس بھر گیا حمید حیرت سے اس کا منہ دیکھ رہا تھا۔

’’کیوں قبلہ حمید صاحب کتنی نفیس شراب ہے‘‘۔ فریدی ہنس کربولا ۔ اگر کوئی حرج نہ ہو تو تھوڑی ہی چکھ کردیکھئے ۔ ‘‘

حمید نے گلاس منہ میں لگا کر ہلکی ہی چسکی لی۔ فریدی نے  ڈھکن بند کر کے ستون کو ایک کونے میں کھڑا کر دیا۔

’’ واقعی بہت عمدہ ہے ‘‘۔ حمیدبولا ۔’’ مگر یہدیسی تو نہیں معلوم ہوتی‘‘۔

’’سو فیصد دیسی ہے‘‘ ۔ فریدی نے کہا ۔’’ کیسے چُوہے کے بِل سے ہاتھی نکلایا نہیں۔ ‘‘

’’ مانتا ہوں استاد حمید نے کہا۔ ’’ اب مجھے اس کیس میں کچھ کچھ دل چسپی پیدا ہوئی ہے۔ مگر یہ آپ کومل کیسے گیا ‘‘۔

’’کافی پاپڑ بیلنے پڑے ہیں ‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔ ’’یہ مجھے سو روپے میں ملا ہے اور جو خطرات مول لینے پڑے ہیں۔ وہ الگ ہیں۔‘‘

’’ یعنی۔‘‘ حمید نے کہا۔

’’چوکیدار کو سو روپے رشوت دینی پڑی۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے ایک ستون کی سخت ضرورت ہے اس نے کہا کہ صبح کو وہاں سے خریدا جا سکتا ہے۔ میں نے سوروپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اسے حیرت ہورہی تھی میری حماقت پر کہ میں ایک ستون کے لئے اسے سوروپے دے رہا ہوں ۔ غالباً اسے کچھ شُبہ ہو گیا تھا۔ ابھی ہم لوگ اس گفتگو میں مشغول ہی تھے کہ وہاں ایک ٹرک آکر رُکا میں جلدی سے چھپ گیا۔ اس پر سے دو آدمی اترے چوکیدار نے انہیں سلام کیا اور وہ اندر چلے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد، میں نے دیکھا کہ دو ستون ڈھورہے ہیں۔ انہوں نے چوکیدار کو بھی مدد کے لئے بلایا۔ چوکیدار کو میں نوٹ دے ہی چکا تھا۔ میں نے واقعی یہ ایک زبر دست حماقت کی تھی لیکن یہ دیکھ کر اطمینان ہو گیا کہ نہ تو اس نے میرے غائب ہو جانے پر کسی قسم کی حیرت کا اظہار کیا اور نہ ان لوگوں سے میرے متعلق کچھ کہا۔ وہ لوگ بدستور اپنے کام میں مشغول رہے۔ چوکیدار نے مجھے چھپتے دیکھ لیا تھا تھوڑی دیر بعد وہ میرے پاس آکر آہستہ سے بولا کہ میں ان لوگوں کو باتوں میں لگاتا ہوں تم شرک میں سے ایک ستون اٹھا لے جاؤ۔ اس طرح میں اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ‘‘ ۔

’’اب کیا ارادہ ہے ‘‘۔ حمید بولا۔

’’گھسیارہ بننے کا۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔

’’حمید ہنسنے لگا۔

’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ فریدی نے کہا۔ ’’ ہم لوگ گھسیاروں کے بھیس میں جھریالی چلیں گئے‘‘۔

’’آخر اس کی ضرورت ہمیں معلوم ہی ہو چکا ہے کہ ستون بنانے والے کارخانے میں در اصل شراب بنتی ہے۔ اگر ہم نے انہیں دھوکے میں ڈال کر چھاپہ مارا تو وہاں سے کوئی چیز ہٹابھی نہ سکیں گے۔ لہذا خواہ  مخواہ تو گھاس پھیلنے سے کیا فائدہ‘‘۔

’’میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مجھے دونوں عمارتوں کا تعلق دریافت کرناہے اگر ہم نے اس سے قبل چھاپہ مارا تو ہمارایہ حملہ ادھورا ہوگا اور شاید نا کام بھی۔

دوسرے دن صبح جھریالی میں ستونوں کی فیکٹری اور ڈاکٹروں کی تجربہ گاہ کے درمیان میں دو گھسیارے گھاس چھیل رہے تھے۔ قریب ہی ایک ٹوٹی پھوٹی سی گھوڑا گاڑی کھڑی تھی جسے تانبا وہ گھاس لادنے کے لئے لائے تھے۔ یہ دونوں حمید اور فریدی تھے۔

’’ٹھیک ہی کہا تھا اس نجومی نے ۔‘‘حمید نے گھاس چھیلتے چھیلتے سر اٹھا کر کہا۔

’’کیا کہا تھا فریدی نے پوچھا۔

’’یہیں کہ تم بی۔ اے پاس کر کے گھاس چھیلو گے ۔‘‘ حمید نے کہا۔ ’’آج میں اس کا معتقد ہو گیا‘‘۔

اور میں شروع سے معتقد تھا ۔ فریدی مسکرا کر ہوا۔

’’تم نے اس حملے میں گھاس چھیلنے کے علاوہ آج تک اور کیا ہی کیا ہے ‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’کیا یہ میرا عظیم ترین کارنامہ نہیں ہے کہ میری وجہ سے آپ اتنے مشہور ہو گئے ۔ دُنیا سمجھتی ہے کہ یہ سارے کا رنام آپ کے ہیں لیکن اب سے سو سال کے بعد کوئی نہ کوئی نیک نفس اس حقیقت پر سے پردہ ضرور اٹھا دے گا جس طرح شیکسپیر کے ڈراموں کی حقیقت واضح ہو گئی ہے۔ ڈرامے لکھے بے چارے فرانسنس بیکن نے اور نام شیکسپئر کا ہوا۔ اب ایک امریکن صاحبزادے نے نیا انکشاف کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دبیکن نے نہیں بلکہ مار لونے لکھے ہیں۔ اسی طرح سو سال کے بعد میرا نام ہوگا اس کے بعد کوئی اللہ کا بندہ یہ ثابت کر دے گا کہ فریدی کے کا رنامےحمید کے نہیں بلکہ انسپکٹر جگدیش کے رہین منت ہیں ‘‘۔

’’ گھاس چھیلو میاں گھاس۔‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’اوقات پر رہو۔شیکسپئر بیکن اور مارلو کا تذکرہ کرنے سے کیا  فائدہ۔ میں جانتا ہوں تم ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ واقفیت رکھتے ہو یا پھر شاید تم اس گھوڑے پر رعب ڈالنے کی کوشش کر رہے ہو کہ تم در اصل گھسیارے نہیں بلکہ گریجویٹ ہو ‘‘۔

’’عزت افزائی کا شکریہ۔‘‘ حمید نے کہا۔

’’ خیر.... خیر چھوڑو ان باتوں کو اب کیا دن بھر گھاس ہی چھیلتے رہیں گے‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ تم فیکٹری کی طرف بڑھو اور میں تجربہ گاہ کی سمت چلتا ہوں‘‘۔

دونوں نے اپنے اپنے منہ پھیر لیے حمید کورہ رہ کر جھلاہٹ سوار ہورہی تھی۔ آخر اس حماقت کی کیا ضرورت تھی ۔ مگر وہ بول ہی کیا سکتا تھا کیونکہ بعد میں اس کو احمق بننا پڑتا تھا ۔ جیسے کے ستون ہی کے معاملے میں اسے کافی خفت اٹھانی پڑی تھی اس لئے فریدی کی اس اسکیم میں زیادہ دخل در معقولات کرنے کی ہمت نہ پڑی آہستہ آہستہ دھوپ تیز ہوتی جارہی تھی۔ یہ لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کا کافی سامان لائے تھے ۔ فریدی نے طے کیا تھا کس گردن میں کوئی خاص بات نہ معلوم ہوسکی تو سید حمید کو گھوڑے گاڑی پر گھاس کے گھروں کے ساتھ شہر روانہ کر دے گا اور خود رات کود ہیں رہ کر کھوج لگانے کی کوشش کرے گا۔

دن آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا۔ حمید بری طرح تھک گیا تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی سیاسی دوڑ گئی تھی آنکھوں کے گرد مٹیائلےرنگ کے حلقے نظر آنے لگے تھے۔ اس کے بر خلاف فریدی کے چہرے کی تازگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ دفعتاً اس  نے حمید کو آواز دی۔ حمید بے دلی سے تقریباً گھسٹتا ہوا اس تک پہنچا۔

’’ گھبراؤ نہیں شاید اللہ تم پر بہت زیادہ مہربان ہے‘‘ ۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔

’’ہو گا صاحب یہ بتائیے کہ آپ نے مجھے بلایا کیوں ہے‘‘۔

’’ادھر دیکھو ۔ فریدی نے ایک گڑھے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ یہ گڑھا شاید بر ساتی پانی کے ریلے کا نتیجہ تھا۔

’’دیکھ لیا ‘‘۔ حمید نے جواب دیا۔

’’کیا دیکھا؟‘‘

’’اللہ کی رحمت !فرشتے نظر آ رہے ہیں۔ اس چھوٹے سے گڑھے میں دنیا آباد ہے خلقت کا اثر دھام ہے کہیں مٹھائی والوں کی دُکا  نیں ہیں کہیں کٹورے خنک رہے ہیں۔ لکھنو کے بانکے ہتھیار لگائے آئینہ بند ادھر اُدھر خرمستیاں کرتے پھر رہے ہیں۔

مدک چرس اور گانجے کی دُکانوں پر کافی بھیڑ ہے۔ ذرا بڑھ کر دیکھئے تو کہیں یہ کم بخت بغیر لائسنس کی چرس تو نہیں فروخت کر رہا ہے‘‘۔

فریدی خاموشی سے سنتار ہا حمید کے چپ ہوتے ہی اس نے پوچھا۔

’’بک چکے‘‘۔

’’ابھی کہاں ‘‘۔حمید نے کہا۔ ابھی تو تمہید تھی۔ اب شروع کرتا ہوں ۔ جانا صاحب قرآن زمان کا طرف شہر بیسراں کے اور مارنا عنقویل دیو پرور کا اور زخمی ہونا لند ھوربن سعد ان کا ہاتھ سے پیر زادہ عبد الاوج بن عتق سلمہ کے اور عشق فرمانا...‘‘

فریدی نے اٹھ کر حمید کی گردن پکڑ لی۔

’’اب ایک لفظ بھی تمہاری زبان سے نکلا اور میں نے تمہارا سرزمین پر مارا۔ ‘‘فریدی نے کہا اور اس کا منہ دبا دیا۔

’’اچھا چپ ہو گیا ‘‘ ۔ حمید نے فریدی کی گرفت سے نکل کر کہا۔’’ بتائے کیا بات ہے‘‘

’’اس گڑھے میں سے ایک موٹا پائپ گزرا ہے‘‘۔

’’پائپ۔‘‘ حمید نے گڑھے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’ ہاں... ہاں ...ہے تو ۔‘‘

’’ اس کا مطلب ؟‘‘ فریدی نے استفہامیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’بھلا پائپ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ حمید ہنس کر بولالیکن  سنجیدہ ہوکر کہنے  لگا۔’’واقعی یہاں اس ویرانے میں پائپ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔‘‘

’’میونسپلٹی کی پائپ لائنوں کا نقشہ میرے ذہن میں ہے ‘‘۔ فریدی نے کہا۔ ’’اور پھر جھریالی شہر سے بارہ میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں ان دونوں عمارتوں کے لئے تو میو نسپلٹی پائپ دینے سے رہی‘‘۔

’’پھر؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ ان دونوں عمارتوں کا تعلق ظاہر ہوگیا ‘‘۔

’’یعنی‘‘
’’ڈاکٹروں کی تجربہ گاہ میں شراب تیار ہوتی ہے اور پھر اسے اسی پائپ لائن کے ذریعہ فیکٹری میں پہنچایا جاتا ہے ‘‘۔

’’ارے !‘‘حمید چونک کر بولا ۔  مگر اس کا ثبوت کیسے بہم پہنچا ئیں گئے‘‘۔

’’اسی کے لئے میں آج رات کو یہیں ت ٹہرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘ فریدی نے کہا۔

9

دوسرے دن صبح فریدی گھر پہنچا اس کے بازوؤں اور ہاتھوں پر گہری گہری خراشوں کے نشان تھے۔ کپڑے پھٹ گئے تھے۔ سر کے بال گرد میں آٹے ہوئے تھے۔ حمید اسے اس حال میں دیکھ کر گھبرا گیا۔

’’یہ کیا ہوا ‘‘۔ وہ بے ساختہ بولا۔

’’کچھ نہ پوچھو دو خطرناک کتوں سے بڑی سخت جنگ کرنی پڑی۔ ‘‘فریدی نے جواب دیا۔

’’تو کیا آپ تجربہ گاہ میں گھس گئے تھے‘‘۔

’’اس کا موقع ہی کہاں ملا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ لوگ اپنے کچھ کتے باہر بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔ جو رات بھر جھریالی کے سنسان علاقے میں گھومتے پھرتے ہیں۔ رات ہوتے ہی میں ٹیلوں کے درمیان چھپ گیا تھا۔ خیال تھا کہ بارہ بجے عمارت میں گھنے کی کوشش کروں گا۔ مگر ان کم بختوں نے وہیں آلیا۔ انہیں مار بھی نہیں سکتا ورنہ پستول تو تھا میرے پاس گولی چلنے کی آواز یقیناً انہیں ہوشیار کردیتی‘‘۔

’’ خیر اب آپ آدمی بنے اس کے بعد اس کے متعلق کچھ سوچا جائے گا‘‘۔ حمید نے کہا۔

’’فریدی نےغسل کر کے لباس تبدیل کر لیا۔ حمید نے زخموں کی مرہم پٹی کی۔ ناشتہ کرنے کے بعد دونوں لائبریری میں بیٹھے۔

’’اب کیا ارادہ ہے ‘‘۔ حمید نے پوچھا۔

’’اب چھاپہ مارنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا۔ رات کو چھپ چھپ کر وہاں جانا انتہائی ناممکن ہے کیوکہ ان کے کتے بہت خطرناک ہیں۔ چھا پہ مارنے کی صورت میں بھی ہمیں کافی احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔ اگر انہوں نے وحشی در ندوں کو کھول دیا تویہی مشکل کا سامنا ہو جائے گا۔ کم از کم ایک س مسلح سپائیوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ میں جانتا ہوں کہ فیکٹری اور تجربہ گاہ دنوں پر بیک وقت چھاپہ مارا جائے ‘‘۔

’’واقعی وحشی درندوں کا مقابلہ بڑاخطر ناک ہے‘‘۔ حمید نے کہا۔ ’’ اگر وہ آزاد ہو گئے تو قیامت بھی آجائے گی۔ وہاں شیر بھی ہیں۔ میں نے اس دن بھی شیروں کے دھاڑنے کی آواز سنی تھی۔

’’ لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے ہمیں اس عمارت کی طرف جانے سے روک کیوں دیا تھا؟ ‘‘وہاں سے شیروں کے دھاڑنے کی آواز ضرور آئی تھی لیکن یہ تو سوچو کہ انہیں ان کمروں میں کھانا وغیرہ کس طرح دیا جاتا ہوگا۔

درواز ےیقیناً کھولنے پڑتے ہوں گے اور یہ چیز کھانا دینے والوں کے لئے انتہائی خطر ناک ہے۔ میری سمجھ میں تو یہ چیز قطعی نہیں آئی‘‘۔

’’واقعی یہ بات قابل غور ہے ۔‘‘ حمید نے کہا۔ ’’ بند کمروں میں شیروں کو رکھنا ناممکن ہے پھر کیا بات ہے‘‘۔

’’جو بات بھی ہے عنقریب ظا ہر ہو جائے گی۔ فریدی نے کہا۔ بہر حال ہمیں اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ اندر پہنچتے ہی کسی طرح شیروں والی عمارت پر قبضہ کر لیں ‘‘۔

’’ جگدیش سے گفتگو کی جائے ‘‘۔ حمید بولا۔’’ پہلےیہ تو معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ اتنا انتظام کر سکے گا یا نہیں ‘‘۔

 فریدی اور حمید کو تو الی جانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ خود جگدیش وہاں آ گیا۔ ’’کہیے  جناب کیا کوئی نئی مصیبت ۔‘‘

’’کیوں ؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔

’’ ارے صاحب نہ جانے کیوں آج کل یہاں وارداتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے‘‘۔

’’ کوئی نئی واردات ہوئی کیا ۔ فریدی نے پوچھا۔

’’جی ہاں... کل رات کو کلائیو روڈ پر ایک ٹرک الٹ گیا‘‘۔

’’تو اس میں ایس پی صاحب کے بگڑنے کی کیا بات ہے ۔ حمید نے کہا۔

’’ ٹرک الٹنے کی ذمہ دار پولیس تو ہو نہیں سکتی‘‘۔

’’یہ نہیں صاحب اس کی تو کوئی بات ہی نہیں‘‘۔ جگدیش نے کہا۔ اس پر لکڑی کے گٹھے لدے ہوئے تھے جن میں شراب بھری تھی۔ ٹرک الٹنے سے کئی گٹھے ٹوٹ گئے اور شراب بہہ نکلی...‘‘

’’ٹرک پر کتنے آدمی تھے ۔ فریدی نے پوچھا۔

’’صرف ڈرائیور تھا۔ وہ اسی وقت مر گیا۔

’’ٹرک کس کا تھا ...‘‘

’’یہ ابھی تک نہیں معلوم ہو سکا‘‘۔

’’اس نمبر کا کوئی ٹرک اس شہر میں آج تک رجسٹرہی نہیں ہوا۔

’’ڈرائیور کے متعلق معلوم ہو سکا کہ وہ کون ہے‘‘۔

’’نہیں یہ بھی نہیں معلوم ہو گا‘‘۔

’’اس کا حلیہ یاد ہے‘‘۔

’’جی ہاں‘‘۔

’’پھولی ہوئی ناک تھی ‘‘؟ فریدی نے پوچھا۔

’’جی ہاں ...لیکن ...کیا آپ نے دیکھا ہے‘‘۔

’’گھنی اور چڑھی ہوئی مونچھیں ۔ ایک کا اوپری حصہ تھوڑ اسا کٹا ہوا۔ بائیں گال پر ایک بڑا سا اُبھرا ہواتِل‘‘۔

’’بالکل یہی ...سو فیصد یہی ‘‘۔ جگدیش بے صبری سے بولا۔

’’ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں ۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔ ’’ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ شراب کہاں بنتی ہے اور کہاں سے تقسیم ہوتی ہے‘‘۔

’’تو کیا تم انہیں پکڑنا چاہتے ہو ۔ فریدی نے کہا۔

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔ جگدیش چہک کر بولا۔

’’بھلا بھائی جگد یش صاحب ڈی۔ ایس پی بننے کی فکر نہ کریں گئے ‘‘۔ حمید نے ہنس کر کہا۔

’’نہیں بھائی ابھی اس کی اہمیت مجھ میں نہیں پیدا ہوئی ۔‘‘ جگدیش نے کہا۔

فریدی نے سارا ماجرا جگدیش سے بیان کر دیا اور اسے اپنی اسکیم بھی بتائی ۔ جگدیش نے اس کے خیال کے مطابق انتظامات کرنے کا وعدہ کیا۔

جگدیش کو رخصت کرنے کے بعد فریدی تہ خانے میں آیا۔ کرنل سعید بہت زیادہ  نڈھال  نظر آرہا تھا۔ فریدی کو دیکھ کر اس نے بر ا سا منہ بنایا۔

’’کیا مجھے عمر قید کی سزادی گئی ہے ۔ وہ غرا کر بولا۔

’’گھبرائے نہیں کرنل صاحب آپ بہت جلد چھوڑ دیئے جائیں گئے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ اس وقت میں آپ سےایک بات دریافت کرنے آیا ہوں‘‘۔

کرنل سعید کچھ بولنے کے بجائے فریدی کو گھورتا رہا۔ ’’ میں ڈاکٹر وحید کی تجربہ گاہ کے بارے میں کچھ پوچھناچاہتا ہوں ۔ فریدی نے کہا۔

’’ میں کچھ نہیں جانتا ۔ ‘‘

’’دیکھئے کرنل صاحب ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر کہیے تو میں آپ کو وہ انجکشن والی دوالا دوں ۔ مگر یہاں آپ کے لئے کوئی کتا نہ مہیا کرسکوں گا‘‘۔

کرنل سعید چونک پڑا۔ وہ گھبرائی ہوئی نظروں سے فریدی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’’ڈ اکٹر وحید کا وہ تجربہ کامیاب رہا۔ اب آپ پھر سے جوان ہوسکیں گےلیکن دیکھئے اب کوئی دواچر ائیےگا نہیں‘‘۔

 ’’تم آخر چاہتے کیا ہو‘‘۔کرنل عاجز آ کر بولا۔

’’ڈاکٹر وحید کی تجربہ گاہ کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔

’’کیا۔‘‘

’’وہاں کتنے وحشی درندے ہیں۔‘‘

’’یکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ البتہ شیروں کی گرج ضرورسنی ہے۔‘‘ کرنل سعید نے کہا ۔

’’کیا ڈ اکٹر وحید آپ کے گھر بھی آتا تھا‘‘۔

’’ہاں آتا تھا۔‘‘

’’ کیا اسے اس بات کی اطلاع تھی کہ آپ کہیں باہر جانے والے ہیں ‘‘۔

’’کب کی بات پوچھ رہے ہو‘‘۔ کرنل سعید نے کہا۔

’’ آپ کی لڑکی کی گمشد کی کے زمانے کے قریب کی‘‘۔

’’ہاں اس دن وہ آیا تھا۔ شاید میں نے اس سے تذکرہ بھی کیا تھا کہ میں ہر جارہاہوں لیکن تم یہ سب کیوں پو چھ ر ہو‘‘۔

’’بہت جلد معلوم ہو جائے گا ۔ فریدی نے کہا۔’’آپ کب سے اس کے زیر علاج تھے۔

’’ تقریباً چھ ماہ قبل سے۔

’’ اچھا شکر یہ !‘‘فریدی نے کہا۔ ’’ معاف کیجئے گا میں نے آپ کو یہاں لا کر تکلیف دی۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو آپ اپنے ہی کسی کتے کا شکار ہو جاتے اور اپنی ہوس کا شکار تو آپ ہو ہی گئے ، کیوں جناب جب آپ اس قابل ہی نہیں تھے تو کسی جوان عورت سے شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔

’’میں بیہودگی پسند نہیں کرتا ‘‘۔ کرنل سعید گرج کر بولا ۔

’’لیکن شاید آپ یہ نہیں جانتے کہ ابھی آپ کو ایک ایسی بیہودگی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ آپ زندگی پر موت کی ترجیح دینے لگیں گے ۔ فریدی نے کہا اور تہ خانے سے چلا آیا۔

 اسی دن شام کو جگدیش نے چھاپہ مارنے کے سارے انتظامات مکمل کرلئے احتیاطًا مشین گن بھی لے لی گئی تاکہ ضرورت پڑنے پر وحشی درندوں کا حملہ روکنے کے کام آئے۔ اندھیرا ہوتے ہی پولیس کی لاریاں جھریالی کی طرف روانہ ہو گئیں۔ تجربہ گاہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر لاریاں روک دی گئیں پولیس کے جوان تاریکی میں آہستہ آہستہ دونوں عمارتوں کی طرف بڑھنے لگے پولیس والے دو ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ ایک ٹولی کا رُخ فیکٹری کی طرف تھا اور دوسری کا تجربہ گاہ کی طرف ۔ تجربہ گاہ کی طرف جانے والی ٹولی کی قیادت فریدی کر رہا تھا اور دوسری عمارت کی طرف بڑھنے والےحمید کی رہنمائی میں آگے بڑھ ر ہے تھے۔

 تجربہ گاہ کی دیواروں کےنیچے پہنچتے ہی کچھ سپاہیوں نے عمارت کا محاصرہ کر لیا اور کچھ فریدی اور کچھ جگدیش کےساتھ صدر دروازے کی طرف پڑھتے گئے۔  صدر دروازہابھی کھلا ہوا تھا۔ چوکیدار بیٹھااونگھ رہاتھا۔ فریدی پیچھے سے اس پرٹوٹ پڑا۔ اس کے منہ سے آواز تک ہی نکل گئی۔ اس سے فرصت پانے کے بعد فریدکی دوڑتا ہوا اندر گھس گیا۔ اس کے ساتھ پولیس والے بھی تھے، اندر پہنچتے ہی انہوں نے بے تحاشہ فائر کرنے شروع کردیے۔ فریدی نے جلد سے جلد اس عمارت کی طرف پہنچ جانا مناسب سمجھا جہاں وحشی درندے تھے ۔ وہ جلد ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ عمارت کے مکین اس غیرمتوقع محلے کے لئے تیار نہ تھے۔ پہلے تو وہ یقیناً گھبرا گئے لیکن پھر انہوں نے بھی جوابی فائر کرنے شروع کر دیئے دو ایک سے دیواروں پر چڑھ کر نیچے کود کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن باہر کھڑے ہوئے جوانوں نے انہیں باندھ لیا۔ ڈاکٹروں کے آدمیوں نے باقاعدہ مور چےبنائے تھے۔ وہ کمروں سے فائر کر رہے تھے۔ ساری عمارت کی روشنیاں گل ہو گئیں ۔ فریدی کو پہلے ہی سے اس کی توقع تھی ۔ اس لئے اس نے صدر دروازے پر کچھ آدمی چھوڑ دیے تھے روشنی گل ہوتے ہی و ہوشیار ہو گئے۔ فریدی آہستہ آہستہ رینگتا ہوا اس کمرے کی طرف جا رہا تھا۔ جہاں بجلی پیدا کرنے کی مشینیں لگی ہوئی تھیں اندھیرےمیں دو آدمی گھبرائی ہوئی سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔

’’لیکن اب ہوہی کیا سکتا ہے اس میں شک نہیں کہ اس سے ہمارے آدمیوں کو بھی نقصان پہنچے گا لیکن خود کو بھی بچانا ضروری ہے ۔ ایک بولا   مگر وہاں تک پہنچنا دشوار ہے کہ دوسرے نے کہا۔‘‘

’’ادھر سے جاؤ۔ بغل والے کمرے کی کھڑکی سے دوسری طرف کود جاؤ۔ اس کھڑکی کی دوسلاخیں نکلی ہوئی ہیں ۔ تم بآسانی گزر رجاؤ کے ادھری وہ گیس رکھی ہوئی ہے۔ بس ڈھکن کھول کر چھوڑ دیناتم نے یہ بڑی عقلمند ی کہ دوگیس ماسک لیتے آئے ....اچھا گیس ماسک لگا لو میں بھی لگائے لیتا ہوں جلدی کرو جلدی جاؤ‘‘۔

 فریدی کے لئے یہ بہت ہی خطر ناک لمحہ تھا۔ اسے فوراًہی کچھ کرنا تھا اگر وہ گیسں جسے دو منتشر کرنے جار ہاتھا کوئی بہاو کن گیس ہوئی تو کیا ہوگا ۔ جیسے ہی دوسرا آدمی الگ ہٹا۔ فریدی کے پستول سے شعلہ نکلا اور وہ ہ ہیں ڈھیر ہو گیا۔ دوسرے ہی لمحےمیں فریدی دوسرے آدمی پر تھا جو اپنے ساتھی کو گرتے دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کی جدوجہد کے بعد فریدی نے اسے قابو میں کر لیا ۔ فریدی نے اس کی کنپٹیوں پر اتنے گھونسے مارے کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اسے وہیں چھوڑ کر وہ مشینوں والے کمرے میں آیا جیب سے  ٹارچ نکال کر روشنی کی۔ مشین بدستور چل رہی تھی کسی نے مین سوئچ آف کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے پوری عمارت کی روشنی گل ہوگئی تھی ۔ فریدی نے سوئچ آن کر دیا۔ عمارت پھر جگمگانے لگی۔ عمارت کے مخلف حصوں سے گولی چلنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ فریدی نے برآمدے میں آکر بیہوش آدمی کو دیکھا یہ ڈاکٹر وحیدتھا اور و ہ شخص جو اس کے ریوالور سے زخمی ہو کر گرا تھا اس کا ساتھی ڈاکٹر آصف تھا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹروں کے آدمیوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ ادھر حمید والی پارٹی نے فیکٹری پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہاں بھی کچھ آدمی تھے جنہیں گرفتار کر لیا گیا۔

10

دوسرے دن شام کا انسپکٹر فریدی سارجنٹ حمید اور کوتوالی انچارج آرلکنچو میں بیٹھےپانی پی رہے تھے۔

’’ ہاں یہ تو بتا یئے‘‘۔ جگدیش نے فریدی سے کہا۔ ’’کرنل سعید کی بیوی کا کیا قصہ ہے ۔

’’بہت معمولی سا کوئی حیرت انگیز واقع نہیں۔ ایسی حالت میں عموماً جو ان عورتیں جو کچھ کرتی ہیں وہی اس نے بھی کیا۔ کرنل سعید ڈاکٹر وحید کے زیر علاج تھا۔ اس دوران میں ان دونوں میں کافی بے تکلفی بڑھ گئی ۔ ڈاکٹر وحید کرنل سعید کے یہاں آنے جانے لگا۔ ڈاکٹر وحید جوان اور خوب صورت تھا ۔ کرنل سعید بوڑھا گھوسٹ اس کی بیوی اور ڈاکٹر وحید میں نا جائز تعلق ہو گیا ۔ کرنل سعید اس سے ناواقف تھا۔ ڈاکٹر نے اسے احمق بنار کھا تھا۔ وہ روز بروز اسے ایسی دوا دیتارہا جس سے اس کی جنسیت قریب قریب بلکل مردہ ہوگئی۔ اب اسے دوبارہ جو ان بنے کا خبط ہو گیا۔ کرنل سعید کا دوا چرانے والا واقعہ تو بتا چکا ہوں۔ اس کے بعد کرنل کو باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس کا علم ڈاکٹر وحید کودبھی ہو گیا۔ وہ اسی رات کو جھریالی سے کرنل سعید کے یہاں آیا شامت اعمال کہ کرنل کی لڑکی نے انہیں داد عیش دیتے دیکھ لیا۔ یہ چیز ان دونوں کے لئے بڑی خطر ناک تھی ۔ ڈاکٹر وحید نے لڑکی کو پکڑ اور پھر اس نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے مارڈالا  ۔ کرنل سعید کی بیوی اس پر گھبراگئی بڑی دیر تک دونوں سوچتے رہے کہ کیا کیا جائے کرنل کی بیوی کو ایک تدبیر سو جی۔ اس نے مردہ لڑکی کو ہیروں والا ہار پہنا کر ایک بورے میں بند کر دیا۔ ڈاکٹر وحید واپسی میں اس بورے کو کار میں رکھ کر اپنے ساتھ جھریالی لے گیا اور اس بورے کو جھیل میں پھینک کر مطمئن ہو گیا۔ دوسرے دن کرنل کی بیوی نے مشہور کردیا کہ لڑکی ہیروں کے ہار سمیت غائب ہو گئی تا کہ لوگ یہ سمجھیں کسی نے ہار کے لالچ میں اسے کہیں مار کر ڈال دیا ہو گا‘‘۔

’’تو اس نے ان سب باتوں کا اقرار کیا ہے ۔ جگدیش نے پو چھا۔

’’ہاں جیسے ہی میں نے جیب سے و ہ ہار نکال کر اسے دکھایا وہ غش کھا کر گِر پڑی اور پھر ہوش میں آنے کے بعد اس نے اقبال جرم کر لیا۔

’’سمجھ میں نہیں آتا کہ کرنل سعید کو کیا ہو گیا ۔‘‘

’’ جگدیش نے کہا۔

’’ یہ معمہ تو میری سمجھ سے باہر ہے۔ ‘‘فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ شیروں والا معمہ بھی ابھی تک حل نہیں ہوا۔ وہ عمارت تو بالکل خالی تھی جس کے متعلق آپ لوگوں نے کہا تھا کہ وہاں وحشی درندے ہیں۔

’’بہر حال یہ تو تم نے دیکھ ہی لیا کہ شراب کشید کرنے کا کارخانہ اس عمارت میں نکلا۔ تم لوگوں کے پہلے آنے کے بعد میں نے شیروں کی گرج کا راز دریافت کر لیا تھا۔ ان لوگوں کے پاس کوئی وحشی در ندہ نہیں تھا۔ اس کا انداز ہ میں نے اس وقت لگا لیا تھا۔ جب میں نے ان کے یہاں ایک بکرے کو چیتے کے بھیس میں دیکھا تھا اور اس کا راز ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر آصف بوکھلا گیا تھا اور وحید جو اس سے زیادہ چالاک ہے، اس کی بھونڈی سی وجہ بتا کر صاف ٹال گیا تھا وہ دراصل اس قسم کی حرکتوں سے پبلک پر رعب ڈالا کرتے تھے چونکہ اس عمارت میں انہوں نے شراب کا کارخانہ بنارکھا تھا، اس لئے انہوں نے ضروری سمجھا  اس عمارت کی طرف کسی کو نہ جانے دیں۔ لہذا انہوںنے وہاں سےلوگوں کو شیروں کی گونج سنانی شروع کیا اور کہنے لگے کہ ابھی ادھر جانا خطر ناک ہے کیونکہ وہاں’’ کٹہیروں کا انتظام نہیں ہے‘‘۔

’’ لیکن وہ گرج تو سچ مچ شیروں کی گرج معلوم ہوتی تھی ۔ ‘‘حمید بولا۔

’’ٹھیک ہے لیکن و ہ شیر اس وقت کہاں مرگئے تھے۔ جب گولیاں چل رہی تھیں اس ہنگامےمیں تو انہیں ضرور دھاڑنا چاہئے تھا لیکن اگر ڈاکٹروں کو ذرا سا بھی موقع مل جاتا تو یقین کرو کہ شیر ضرور گرجتے ‘‘۔ فریدی نے ہنس کر کہا۔

’’ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘ ۔ جگدیش نے کہا۔

’’ ارے بھئی۔ وہ شیروں کی گرج کا ریکارڈ تھا جو مائیکرو فون کے ذریعہ اتنا ہولناک ہو جا تا تھا۔ انہوں نے دوسری عمارت میں کئی بارن فٹ، کر رکھے تھے۔

’’ ہاں ...وہاں دیواروں کے اندر لاؤڈ اسپیکر کے ہارن لگے ہوئے تھے اور جنگلی جانوروں کی آوازوں کا ریکارڈ ایک تہ خانے سے بجا یاجاتا تھا۔ بالکل ایساہی معلوم ہوتا تھا ۔ جیسے آوازیں دیوار سے نکل رہی ہوں‘‘۔

’’کمال ہے بھئی ‘‘۔ جگدیش نے کہا۔

’’لیکن آپ کو کرنل کی بیوی پر شبہ کیسے ہوا‘‘۔ حمید نے پوچھا۔

’’پہلے تو ڈاکٹر وحید کے متعلق اس کی غلط بیانی پر میرے ایک مخبر نے مجھے اس کی اطلاع دی کہ کرنل سعید کے غائب ہو جانے کے بعد وحید اسے ایک رات جھر یالی لے گیا تھا۔

تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی با تیں ہوتی رہیں پھر جگدیش اٹھ کر چلا گیا ۔

’’اب کرنل سعید کا کیا ہوگا ۔ حمید نے پو چھا۔

’’میں نے اسے سب کچھ بتا دیا ہے‘‘۔ فریدی نے ۔کہا’’وہ اپنی لڑکی کی موت سے بہت دل شکستہ ہو گیا ہے اور آتنی بڑی بدنامی کے بعد وہ نہیں چاہتا کہ اب اس شہر میں کسی کو اپنا منہ دکھائے ۔ اس نے مجھ سے استدعا کی ہے کہ میں کسی کو کچھ نہ بتاؤں ۔ وہ یہاں سے کہیں اور جانا چاہتا ہے جہاں اس کا کوئی شناسا نہ ہو۔ میں آج ہی رات کو اسے شہر سے نکال دوں گا۔ مجھے اُمید ہے کہ تم بھی میرے وعدے کا احترام کرو گئے ‘‘۔ فریدی نے کہا اور بیرے کو بل کے پیسے دے کر کھڑا ہو گیا۔

ختم شد

Post a Comment

2 Comments

  1. ابن صفی نہ صرف ایک نام ھے بلکہ ایک عہد کا نام ھے۔ایک انقلابی تحریک کا نام ھے۔سری ادب کے شہنشاہ اعظم کا نام ھے۔۔۔۔ان کی تحریریں لا زوال ھیں۔جنھیں زمانوں کی گرد کبھی نہیں دھندلا سکتی۔۔۔عمدہ انتخاب۔

    ReplyDelete
  2. جاسوسی ادب میں ابن صفی کا ثانی نہیں ہے

    ReplyDelete